تفسیر نمونہ جلد ۱۰

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 30382
ڈاؤنلوڈ: 2949


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 93 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30382 / ڈاؤنلوڈ: 2949
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 10

مؤلف:
اردو

آیات ۶۷،۶۸

۶۷ ۔( وَقَالَ یَابَنِیَّ لاَتَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ اٴَبْوَابٍ مُتَفَرِّقَةٍ وَمَا اٴُغْنِی عَنکُمْ مِنْ اللهِ مِنْ شَیْءٍ إِنْ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلَّهِ عَلَیْهِ تَوَکَّلْتُ وَعَلَیْهِ فَلْیَتَوَکَّلْ الْمُتَوَکِّلُونَ ) ۔

۶۸ ۔( وَلَمَّا دَخَلُوا مِنْ حَیْثُ اٴَمَرهُمْ اٴَبُوهُمْ مَا کَانَ یُغْنِی عَنْهُمْ مِنْ اللهِ مِنْ شَیْءٍ إِلاَّ حَاجَةً فِی نَفْسِ یَعْقُوبَ قَضَاهَا وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُونَ )

ترجمہ

۶۷ ۔ ( جب وہ جانے لگے تو یعقوبعليه‌السلام نے ) کہا : میرے بیٹو! ایک دروازے سے داخل نہ ہونا ، بلکہ مختلف دروازوں سے داخل ہونا اور ( میں یہ حکم دے کر ) خدا کی طرف سے حتمی حادثے کو نہیں ٹال سکتا۔ حکم اور فرمان صرف خدا کی طرف سے جاری ہوتا ہے ۔ اس پر میں نے توکل کیا ہے اور تمام توکل کرنے والوں کو اسی پر توکل کرنا چاہئیے ۔

۶۸ ۔ اور جب اسی طریقے سے جیسا کہ انہیں باپ نے حکم دیا تھا وہ داخل ہوئے تو یہ کام ان سے کسی حتی خدائی حادثے کو دور نہیں کرسکتا تھا سوائے اس حاجت کے جو یعقوبعليه‌السلام کے دل میں تھی ، ( جو اس طرح سے ) انجام پائی ( اور اس کے دل کو تسکین ہو ئی ) اور وہ اس تعلیم کی بر کت سے جو ہم نے اسے دی بہت سا علم رکھتا تھا جب کہ اکثر لوگ نہیں جانتے ۔

تفسیر

آخر کار حضرت یوسفعليه‌السلام کے بھائی باپ کی رضا مندی کے بعد اپنے چھوٹے بھائی کو ہمراہ لے کر دوسری مرتبہ مصر جانے کو تیار ہوئے تو اس موقع پر باپ نے انہیں نصیحت کی ۔ ” اس نے کہا :میرے بیٹو !تم ایک در وازے سے داخل نہ ہونا بلکہ مختلف در وازوں سے داخل ہونا “

( وَقَالَ یَابَنِیَّ لاَتَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ اٴَبْوَابٍ مُتَفَرِّقَةٍ ) ۔

اور مزید کہا : ” یہ حکم دے کر میں خدا کی طرف سے کسی حتمی حادثے کو تم سے بر طرف نہیں کرسکتا “( وَمَا اٴُغْنِی عَنکُمْ مِنْ اللهِ مِنْ شَیْءٍ ) ۔لیکن ناگوار حوادث کا ایک سلسلہ ایسا ہے جس سے بچا جا سکتا ہے اور ان کے متعلق خدا کا حتمی حکم صادر نہیں ہوا ۔

میرا مقصد یہ ہے کہ ایسے حوادث تم سے دور ہیں اور ایسا ہونا ممکن ہے ۔

آخر میں کہا : ” حکم اور فرمان خدا کے ساتھ مخصوص ہے “( إِنْ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلَّهِ ) ۔” میں نے خدا پر توکل کیا ہے “( عَلَیْهِ تَوَکَّلْت ) ۔” اور تمام توکل کرنے والوں کو اسی پر توکل کرنا چاہئیے اور اسی سے مدد طلب کرو اور اپنا معاملہ اسی کے سپرد کرو“( وَعَلَیْهِ فَلْیَتَوَکَّلْ الْمُتَوَکِّلُونَ ) ۔

اس میں شک نہیں کہ اس زمانے میں دوسرے شہروں کی طر ح مصر کے پایہ تخت کے ا گرد گر بھی فصیل تھی ۔ اس کے بھی برج و بار تھے اور اس کے متعدد دروازے تھے ۔

رہا یہ سوال کہ حضرت یعقوبعليه‌السلام نے کیوں نصیحت کی کہ ان کے بیٹے ایک در وازے سے داخل نہ ہوں بلکہ مختلف حصوں میں تقسیم ہو کر مختلف دروازوں سے شہر میں داخل ہو ، ا س کی وجہ مندرجہ بالاآیت میں مذکورنہیں ہے ۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ حضرت یوسفعليه‌السلام کے بھائی ایک تو بہت حسین و جمیل تھء ( اگر چہ وہ یوسف نہ تھے مگر یوسف کے بھائی تو تھے ) ۔ ان کا قد کاٹھ بہت اچھا تھا ۔ لہٰذا ان کے باپ پر یشان تھے کہ گیارہ افراد اکھٹے جن کے چہرے مہرے معلوم ہو کہ وہ مصر کے علاوہ کسی اور ملک سے آئے ہیں ، لوگ ان کی طرف متوجہ نہ ہوں وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس طرح انہیں نظر بد لگ جائے ۔

اس تفسیر کے بعد مفسرین کے درمیان نظر بد کی تا ثیر کے بارے میں ایک طویل بحث چھڑ گئی ہے ۔ انہوں نے اس کے لئے روایات و تاریخ میں سے کئی ایک شواہد پیش کئے ہیں جنہیں ہم انشاء الہ اس آیت کی تفسیر میں ذکر کریں گے :

( و ان یکاد الذین کفروا لیزلقونک بابصار هم ) ( ن و القلم ۔ ۵۱)

اس آیت کے ذیل میں ہم ثابت کریں گے کہ اس سلسلے کی کچھ بحث بجا بھی ہے اور سائنسی لحاظ سے بھی ایک مخصوص سیالہ مقنا طیسی کہ جو آنکھ سے باہر اڑتا ہے اس کی توجیہ پیش کی جا سکتی ہے اگر چہ عامة الناس نے اس معاملے میں بہت سی خرافات شامل کردی ہیں ۔

حضرت یعقوبعليه‌السلام کے اس حکم کے بارے میں جو دوسری علت بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ہو سکتا ہے جب اونچے لمبے چوڑے چکلے مضبوط جسموں والے اکھٹے چلیں تو حاسدوں کو انہیں دیکھ کر حسد پیدا ہو اور وہ ان کے بارے میں حکومت سے کوئی شکایت کرنے لگیں اور ان کے متعلق یہ بد ظنی کریں کہ وہ کسی خرابی اور فتنہ و فساد کا ارادہ رکھتے ہیں اس لئے باپ نے انہیں حکم دیا کہ مختلف در وازوں سے داخل ہوں تاکہ لوگ ان کی طرف متوجہ نہ ہوں ۔

بعض مفسرین( عظیم و خطیب مرحوم اشراقی ( قدس سرہ)نے اس کی ایک عرفانی تفسیر بھی ہے ۔ وہ یہ کہ یعقوبعليه‌السلام راہنما راہ کے حوالے سے اپنے بیٹوں کو ایک اہم معاشرتی مسئلہ سمجھانا چاہتے تھے اور وہ یہ کہ کھوئی ہوئی چیز کو صرف ایک ہی راستے سے تلاش نہ کریں بلکہ ہر دروازے سے داخل ہو کر اسے ڈھونڈیں ۔

کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان ایک مقصد تک پہنچنے کے لئے صرف ایک ہی راہ کا انتخاب کرتا ہے اور جب آگے راستہ بن پاتا ہے تو مایوس ہو کر بیٹھ جاتا ہے لیکن اگر وہ اس حقیقت کی طرف متوجہ ہو کہ متوجہ ہو کہ گمشدہ افراد اور چیزیں عموماً ایک ہی راستے پر جانے سے نہیں ملتیں بلکہ مختلف راستوں سے ان کی جستجو کرنا چاہتے تو عام طور پر کامیاب ہو جاتا ہے ۔

برادران یوسفعليه‌السلام روانہ ہوئے اور کنعان و مصر کے درمیان طویل مسافت طے کرنے کے بعد سر زمین مصر میں داخل ہوئے اور جب باپ کے دئے ہو ئے حکم کے مطابق مختلف راستوں سے مصر میں داخل ہوئے تو یہ کام انہیں کسی خدا ئی حادثے سے دور نہیں کرسکتا تھا( وَلَمَّا دَخَلُوا مِنْ حَیْثُ اٴَمَرهُمْ اٴَبُوهُمْ مَا کَانَ یُغْنِی عَنْهُمْ مِنْ اللهِ مِنْ شَیْءٍ ) ۔بلکہ اس کا فائدہ صرف یہ تھا کہ ” یعقوب کے دل میں ایک حاجت تھی جو اس طرح پوری ہوتی تھی “ (إِلاَّ حَاجَةً فِی نَفْسِ یَعْقُوبَ قَضَاهَا ) ۔

یہ اس طرف اشارہ ہے کہ اس کا اثر صرف باپ کے دل کی تسکین اور آرام تھا کیونکہ وہ اپنے سارے بیٹوں سے دور تھا اور رات دن ان کی اور یوسف کی فکر میں رہتا تھا اور ان کے بارے میں حوادث کے گزند اور حاسدوں اور بد خواہوں کے بغض و حسد سے ڈرتا تھا اور اسے صرف اس بات سے اطمینان تھا کہ وہ اس کے احکام کے کاربند رہیں گے ۔ اس پر اس کا دل خوش تھا ۔

اس کے بعد قرآں یعقوبعليه‌السلام کی یوں مدح و ثنا اور تعریف و توصیف کرتا ہے : وہ ہماری ہوئی تعلیم کے سبب علم آگہی رکھتا تھا جب کہ اکثر لوگ نہیں جانتے( وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُونَ ) ۔

اس طرف اشارہ ہے کہ اسی طرح بہت سے لوگ عالم اسباب میں گم ہو جاتے ہیں ، خدا کو بھول جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ بعض لوگوں کو نظر بد سے نہیں بچا یا جاسکتا۔ اسی بنا ء پر ایسے لوگ خدا اور اس پر توکل کو بھول کر ہر کہ کہ ومہ کے دامن سے جاچمٹتے ہیں لیکن حضرت یعقوبعليه‌السلام اس طرح کے نہ تھے ۔ وہ جانتے تھے کہ جب تک خدا کسی چیز کو نہ چاہے وہ انجام نہیں پاسکتی لہٰذا پہلے درجے میں ان کا بھروسہ اور اعتماد خدا پر تھا ۔ اس کے بعد وہ عالم ِ اسباب کی طرف جاتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ جانتے تھے کہ ان اسباب کے پیچھے ایک مسبب الاسباب ذات پاک ہے ، جیسا کہ قرآن بقرہ ۱۰۲ میں شہر بابل کے جادو گروں کے بارے میں کہتا ہے :

( وما هم بضارین به من احد الا باذن الله )

وہ جادو سے کسی کو نقصان نہیں پہنچاسکتے تے مگر یہ کہ خدا چاہے ۔

یہ اس طرف اشارہ ہے کہ ان سب چیزوں سے مافوق خدا کاارادہ ہے دل اس سے باندھنا چاہئیے اور اسی سے مدد لینا چاہئیے ۔

آیات ۶۹،۷۰،۷۱،۷۲،۷۳،۷۴،۷۵،۷۶

۶۹ ۔( وَلَمَّا دَخَلُوا عَلَی یُوسُفَ آوَی إِلَیْهِ اٴَخَاهُ قَالَ إِنِّی اٴَنَا اٴَخُوکَ فَلاَتَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ) ۔

۷۰ ۔( فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَایَةَ فِی رَحْلِ اٴَخِیهِ ثُمَّ اٴَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اٴَیَّتهَا الْعِیرُ إِنَّکُمْ لَسَارِقُونَ ) ۔

۷۱ ۔( قَالُوا وَاٴَقْبَلُوا عَلَیْهِمْ مَاذَا تَفْقِدُونَ ) ۔

۷۲ ۔( قَالُوا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِکِ وَلِمَنْ جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِیرٍ وَاٴَنَا بِهِ زَعِیمٌ ) ۔

۷۳ ۔( قَالُوا تَاللهِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِی الْاٴَرْضِ وَمَا کُنَّا سَارِقِینَ ) ۔

۷۴ ۔( قَالُوا فَمَا جَزَاؤُهُ إِنْ کُنتُمْ کَاذِبِینَ ) ۔

۷۵ ۔( قَالُوا جَزَاؤُهُ مَنْ وُجِدَ فِی رَحْلِهِ فَهُو جَزَاؤُهُ کَذَلِکَ نَجْزِی الظَّالِمِینَ ) ۔

۷۶ ۔( فَبَدَاٴَ بِاٴَوْعِیَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاءِ اٴَخِیهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِنْ وِعَاءِ اٴَخِیهِ کَذَلِکَ کِدْنَا لِیُوسُفَ مَا کَانَ لِیأخُذَ اٴَخَاهُ فِی دِینِ الْمَلِکِ إِلاَّ اٴَنْ یَشَاءَ اللهُ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَنْ نَشَاءُ وَفَوْقَ کُلِّ ذِی عِلْمٍ عَلِیمٌ ) ۔

ترجمہ

۶۹ ۔جب یوسف کے پا س پہنچے تو انہوں نے اپنے بھائی کو اپنے پا س جگہ دی اور کہا کہ میں تمہارا بھائی ہو ں جو کچھ یہ کرتے ہیں اس سے غمگین اور پریشان نہ ہو۔

۷۰ ۔ اور جس وقت ان کا سامان باندھا گیا تو ان کے باد شاہ نے پانی پینے کا برتن اپنے بھائی کے سامان میں رکھ دیا۔ اس کے بعد کسی نے آواز بلند کی کہ اےس قافلے والو! تم چور ہو۔

۷۱ ۔ انہوں نے اس کی طرف رخ کرکے کہا تمہاری کیا چیز گم ہو گئی ہے ۔

۷۲ ۔ انہوں نے کہا: باد شاہ کا پیمانہ ، اور جو شخص اسے لے آئے ( غلے کا ) اونٹ کا ایک بار اسے دیا جائے گا اور میں ( اس انعام کا ) ضامن ہوں ۔

۷۳ ۔ انہوں نے کہا : قسم بخدا تم جانتے ہو کہ ہم اس علاقے میں فساد کرنے نہیں آئے اور ہم ( کبھی بھی ) چور نہیں تھے ۔

۷۴ ۔انہوں نے کہا : اگر تم جھوٹے ہوئے تو تمہاری سزا کیا ہے ۔

۷۵ ۔ انہوں نے کہا :جس کے سامان میں ( وہ پیمانہ ) مل گیا تو وہ خود اس کی سزا ہو گا ( اور اس کام کی بنا ء پر وہ غلام ہو جائے گا ) ہم ظالموں کو اس طرح سے سزا دیتے ہیں ۔

۷۶ ۔ تو اس وقت ( یوسف نے ) اپنے بھائی کے سامان سے پہلے ان کے سامان کی تلاشی لی اور پھر اپنے بھائی کے سامان سے اسے برآمد کرلیا۔ اس طرح ہم نے یوسف کو چارہ کار یاد دلایا ۔ وہ مصر ( کے بادشاہ ) کے آئین کے مطابق اپنے بھائی کو ہر گز نہیں لے سکتا تھا مگر یہ کہ خدا چاہے ۔ ہم جس شخص کے چاہیں درجات بلند کرتے ہیں اور ہر صاحب ِ علم کے اوپر ایک عالم ہے ۔

بھائی کو روکنے کی کوشش

آخر کار بھائی یوسفعليه‌السلام کے پا س پہنچے اور انہیں بتا یا کہ ہم نے آپ کے حکم کی تعمیل کی ہے اور باوجود اس کے کہ ہمارے والدپہلے چھوٹے بھائی کو ہمارے ساتھ بھیجنے پر راضی نہ تھے لیکن ہم نے اصرار کرکے اسے راضی کی ہے تاکہ آپ جالیں کہ ہم نے قول و قرار پورا کیا ہے ۔

حضرت یوسفعليه‌السلام نے بڑی عزت و احترام سے ان کی پذیرائی کی ، انہیں مہمان بلا یا اور حکم دیا کہ دسترخوان یاطبق کے پاس دو دو افراد آئیں ۔ انہوں نے ایسا ہیں کیا ، اس وقت بنیامین جو تنہا رہ گیا تھا رونے لگا اور کہنے لگا کہ اگر میرا یوسفعليه‌السلام زندہ ہوتا تو مجھے اپنے ساتھ ایک دسترخوان پر بٹھا تاکیونکہ ہم پدری مادری بھائی تھے ۔

پھر حکم دیا کہ دو دو افراد کے لئے ایک ایک کمرہ سونے کے لئے تیار کیا جائے ۔بنیامین پھر اکیلا رہ گیا تو حضرت یوسفعليه‌السلام نے فرمایا : اسے میرے پاس بھیج دو ۔ ا س طرح حضرت یوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائی کو اپنے ہاں جگہ دی لیکن دیکھا کہ وہ بہت دکھی اور پریشان ہے اور ہمیشہ اپنے کھوئے ہوئے بھائی یوسفعليه‌السلام کی یاد میں رہتا ہے ۔ ایسے میں یو سفعليه‌السلام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور آپعليه‌السلام نے حقیقت کے چہرے سے پر دہ ہٹا دیا ، جیسا کہ قرآن کہتا ہے : جب یوسفعليه‌السلام کے پاس پہنچے تو اس نے اپنے بھائی کو اپنے ہاں جگہ دی اور کہاکہ میں وہی تمہارا بھائی یوسف ہوں ، غمگین نہ ہو اور اپنے دل کو دکھی نہ کر اور ان کے کسی کام سے پریشان نہ ہو( وَلَمَّا دَخَلُوا عَلَی یُوسُفَ آوَی إِلَیْهِ اٴَخَاهُ قَالَ إِنِّی اٴَنَا اٴَخُوکَ فَلاَتَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ) ۔

” لا بتئس “ اصل میں ” بؤس “ کے مادہ سے ضررر اور شدت کے معنی میں ہے اور اس مقام پر اس کا معنی ہے ” غمگین نہ ہو“۔

بھائیوں کے کام کہ جو بنیامین کو دکھی اور پریشان کرتے تھے ان سے مراد ان کی وہ نامہربانیاں اور بے التفاتیاں تھیں جو وہ اس کے اور یوسفعليه‌السلام کے لئے روارکھتے تھے اور وہ سازشیں کہ جو اسے گھر والوں سے دور کرنے کے لئے انجام دیتے تھے ۔ حضرت یوسفعليه‌السلام کی مراد یہ تھی کہ تم دیکھ رہے ہو کہ ان کی کارستانیوں سے مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا بلکہ وہ میری ترقی اور بلندی کا ذریعہ بن گئیں لہٰذا اب تم بھی اس بارے میں اپنے دل کو دکھی نہ کرو۔

بعض روایات کے مطابق اس موقع پر حضرت یوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائی بنیامین سے کہا : کیا تم پسند کرتے ہو کہ میرے پاس رہ جاؤ اس نے کہا: ہاں میں تو راضی ہوں لیکن بھائی ہر گز نہیں راضی ہوں گے کیونکہ انہوں نے باپ سے قول و قرار کیا ہے اور قسم کھائی ہے کہ مجھے ہرقیمت پر اپنے ساتھ واپس لے جائیں گے ۔

حضرت یوسفعليه‌السلام نے کہا : تم فکر نہ کرو میں ایک منصوبہ بناتا ہوں جس وہ مجبور ہو جائیں گے کہ تمہیں میرے پاس چھوڑ جائیں ۔ غلات کے بار تیار ہو گئے تم حکم دیا کہ مخصوص قیمتی پیمانہ بھائی کے بارمیں رکھ دیں ( کیونکہ ہر شخص کے لئے غلے کا ایک باردیا جاتا تھا )( فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَایَةَ فِی رَحْلِ اٴَخِیه ) ۔

البتہ یہ کام مخفی طور پر انجام پا یا اور شاید اس کا علم مامورین میں سے فقط ایک شخص کو تھا ۔

جب اناج کو پیمانے سے دینے والوں نے دیکھا کہ مخصوص قیمتی پیمانے کا کہیں نام ونشان نہیں ہے حالانکہ پہلے وہ ان کے پاس موجود تھا۔ لہٰذا جب وہ قافلہ چلنے لگا تو کسی نے پکارکر کہا : اے قافلے والو! تم چور ہو( ثُمَّ اٴَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اٴَیَّتهَا الْعِیرُ إِنَّکُمْ لَسَارِقُونَ ) ۔

یوسف (ع)کے بھائیوں نے جب یہ جملہ سنا تو سخت پریشان ہوئے اور وحشت زدہ ہو گئے کیونکہ ان کے ذہن میں تو اس کا خیال بھی نہ آسکتا تھا کہ اس احترام و اکرام کے بعد ان پر چوری کا الزام لگا یا جائے گا ۔لہٰذا انہوں ا س کی طرف رخ کرکے کہا: تمہاری کونسی چیز چوری ہوگئی ہے( قَالُوا وَاٴَقْبَلُوا عَلَیْهِمْ مَاذَا تَفْقِدُونَ ) ۔

انہوں نے کہا ہم سے بادشاہ کا پیمانہ گم ہوگیا ہے اور ہمیں تمہارے بارے میں بد گمانی ہے( قَالُوا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِکِ ) ۔

پیمانہ چونکہ گراں قیمت ہے اور باد شاہ کو پسند ہے لہٰذا ” وہ جس شخص کو ملے اور وہ اسے لے آئے تو اسے ایک اونٹ کا بار بطور انعام دیا جائے گا “( وَلِمَنْ جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِیرٍ ) ۔

پھر یہ بات کہنے والے نے مزید تاکید سے کہا : اورمیں ذاتی طو ر پر اس انعام کا ضامن ہوں( وَاٴَنَا بِهِ زَعِیمٌ ) ۔

بھائی یہ بات سن کر سخت پریشان ہوئے اور حواس باختہ ہو گئے اور وہ نہیں سمجھتے تھے کہ معاملہ کیا ہوا ، ان کی طرف رخ کرکے ” انہوں نے کہا: خدا کی قسم تم جانتے کہ ہم یہاں اس لئے نہیں آئے کہ فتنہ و فساد کرین اور ہم کبھی بھی چور نہیں تھے “( قَالُوا تَاللهِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِی الْاٴَرْضِ وَمَا کُنَّا سَارِقِینَ ) ۔

یہ جو انہوں نے کہاکہ تم خود جانتے ہو کہ ہم فسادی اور چور نہیں ہیں ، شاید اس طرف اشارہ ہو کہ تم ہمارا سابقہ کردار اچھی طرح جانتے ہ وکہ گزشتہ موقع پر ہماری پیش کرد ہ قیمت جو تم نے ہمارے غلات میں رکھ دی تھی وہ ہم دوبارہ تمہارے پاس لے آئے ہیں اور تمہیں بتا یا کہ وہ ساری کی ساری ہم تمہیں واپس کرنے کو تیار ہیں لہٰذا وہ افراد جو دور دراز کے ملک سے اپنا قرض ادا کرنے واپس آجاتے ہیں ان سے کیونکر ممکن ہے کہ چوری کے لئے ہاتھ بڑھائیں ۔

اس کے علاوہ کہا جاتا ہے کہ جب وہ مصر میں داخل ہو ئے تو انہون نے اپنے اونٹوں کے منہ دہان بدنوں سے باندھ دیئے تھے تاکہ وہ کسی کی زراعت اور مال کا نقصان نہ کریں ۔ لہٰذا ان کی مراد یہ تھی کہ ہم جو اس حد تک احتیاط کرتے ہیں حتی کہ ہمارے جانور بھی کسی کو ضرر یا نقصان نہ پہنچائیں تو کس طرح ممکن ہے کہ ہم ایسے کام کے مرتکب ہو ں ۔

یہ سن کر مامورین ان کی طرف متوجہ ہوئے اور ” کہا : لیکن اگر تم جھوٹے ہوئے تو اس کی سزا کیا ہے ؟ “( قَالُوا فَمَا جَزَاؤُهُ إِنْ کُنتُمْ کَاذِبِینَ ) ۔

” انہوں نے جواب میں کہا : اس کی سزا یہ ہے کہ جو شخص کے بارے میں بادشاہ ک اپیمانہ مل جائے اسے روک لو اور اسے اس کے بدلے میں لے لو“( قَالُوا جَزَاؤُهُ مَنْ وُجِدَ فِی رَحْلِهِ فَهُو جَزَاؤُهُ ) ۔” جی ہاں ! ہم اسی طرح ظالموں کو سزا دیتے ہیں( کَذَلِکَ نَجْزِی الظَّالِمِینَ ) ۔

اس موقع پر حضرت یوسفعليه‌السلام نے حکم دیا کہ ان کے غلات کے بارے کھولے جائیں اور ایک ایک جانچ پڑتال کی جائے البتہ اس بناء پر ان کے اصلی منصوبے کا کسی کو پتہ نہ چلے ، اپنے بھائی بنیامین کے بار سے پہلے دوسروں کے سامان کی پڑتال کی اور پھر وہ مخصوص پیمانہ اپنے بھائی کے مال سے بر آمد کرلیا( فَبَدَاٴَ بِاٴَوْعِیَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاءِ اٴَخِیهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِنْ وِعَاءِ اٴَخِیهِ ) ۔

بنیامین کے بارے سے پیمانہ بر آمد ہوا تو تعجب سے بھائیوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے گویا غم و اندوہ کے پہاڑ ان کے سروں پر آگرا اور انہیں یو ں لگا جیسے وہ ایک عجیب مقام پر پھنس گئے ہیں کہ جس کے چاروں طرف راستے بند ہو گئے ہیں ۔ ایک طرف ان کا بھائی ظاہرا ایسی چوری کا مر تکب ہوا جس سے ان کے سر ندامت سے جھک گئے اور دوسری طرف ظاہراً عزیز مصر کی نظروں میں ان کی عزت و حیثیت خطرے میں جا پڑ ی کہ اب آئندہ کے لئے اس کی حمایت حاصل کرنا ان کے لئے ممکن نہ رہا اور ان تمام باتوں سے قطع نظر انہوں نے سوچا کہ با پ کو کیا جواب دیں گے اور وہ کیسے یقین کرے گا کہ اس میں ان کوئی قصور نہیں ہے ۔

بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ موقع پر بھائیوں نے بنیامین کی طرف رخ کرکے کہا: اے بے خبر ! تونے ہمیں رسوا کردیا ہے اور ہمارا منہ کالا کردیا ہے ۔ تونے یہ کیسا غلط کام انجام دیا ہے ( نہ تونے اپنے باپ پر رحم کیا ، نہ ہم پر اور نہ خاندان یعقوبعليه‌السلام پر کہ جو خاندان ِ نبوت ہے )آخر ہمیں بتا تو سہی کہ تونے کس وقت پیمانہ اٹھا یا اور اپنے بار میں رکھ لیا ۔

بنیامین نے جو معالے کی اصل اور قضیے کے باطن کو جانتا تھا ٹھنڈے دل سے جواب دیا کہ یہ کام اسی شخص نے کیا ہے جس نے تمہاری دی ہوئی قیمت تمہارے بار میں رکھ دی تھی لیکن بھائیوں کو اس حادثے نے اس قدر پریشان کررکھا تھا کہ وہ سمجھ نہ سکے کہ وہ کیا کہہ رہاہے ۔(۱)

پھر قرآن مزید کہتا ہے : ہم نے اس طرح یوسفعليه‌السلام کے لئے ایک تدبیر کی (تاکہ وہ اپنے بھائی کو دوسرے بھائیوں کی مخالفت کے بغیر روک سکیں )( کَذَلِکَ کِدْنَا لِیُوسُفَ ) ۔

اہم مسئلہ یہ ہے کہ اگر یوسفعليه‌السلام قوانین مصر کے مطابق سلوک کرتے تو انہیں چاہئیے تھا کہ اسے زود و کوب کرتے اور قید خانے میں ڈال دیتے لیکن اس طرح نہ صرف بھائی کو آزار و تکلیف پہنچتی بلکہ خود ان کا مقصد کہ بھائی کو اپنے پاس رکھیں ، پورانہ ہوتا ۔ اسی لئے انہوں نے پہلے بھائیوں سے اعتراف لیا کہ اگر تم سے چوری کی ہو تو تمہارے نزدیک اس کی کیا سزا ہے تو انہوں نے اپنے ہاں رائج طریقے کے مطابق جواب دیا کہ ہمارے ہاں یہ طریقہ ہے کہ طور کو اس کی چوری کے بدلے اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں اور اس سے کام لیتے ہیں اور حضرت یوسفعليه‌السلام نے بھی اسی طریقے کے مطابق ان سے سلوک کیا کیونکہ مجرم کو سزا دینے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اسے ا س کے اپنے قانون کے مطابق سزا دی جائے ۔

اسی بناء پرقرآن کہتا ہے : یوسفعليه‌السلام ملکِ مصر کے قانون کے مطابق اپنے بھائی کو نہیں لے سکتے تھے اور اپنے پاس نہیں رکھ سکتے تھے( مَا کَانَ لِیأخُذَ اٴَخَاهُ فِی دِینِ الْمَلِکِ ) ۔

اس کے بعد استثناء کے طور پر فرماتاہے : مگر یہ کہ خدا چاہے( إِلاَّ اٴَنْ یَشَاءَ اللهُ ) ۔

یہ اس طرف اشارہ ہے کہ یہ کام جو یوسفعليه‌السلام نے انجام دیا اور بھائیوں کے ساتھ ان کے طریقے کے مطابق سلوک کیا فرمان الہٰی کے مطابق تھا اور یہ بھائی کی حفاظت اور ان کے با پ کی اور دوسرے بھائیوں کی آز مائش کی تکمیل کے لئے ایک منصوبہ تھا ۔

آخر میں قرآن مزید کہتا ہے : ہم جس کو چاہتے ہیں درجات بلند کرتے ہیں( نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَنْ نَشَاء ) ۔

ان افراد کے درجات۔ جو اہل ہوں اور یوسف کی طرح امتحانات کی کٹھالی سے صحیح و سالم نکل آئیں ۔

بہر حال ہر عالم سے بڑھ کر ایک عالم و دانا ہے ( یعنی خدا)( وَفَوْقَ کُلِّ ذِی عِلْمٍ عَلِیمٌ ) ۔اور وہی ہے جس نے اس منصوبے کا یوسفعليه‌السلام کو الہام کیا تھا ۔

چند اہم نکات

مندرجہ بالا آیات سے سوالات پید ا ہوتے ہیں جن کا ایک ایک کر کے جواب دیاجائے گا :

۱ ۔ یوسفعليه‌السلام نے بھائیوں سے اپنا تعارف کیوں نہ کروایا؟

یوسفعليه‌السلام نے بھائیون نے اپنا تعارف کیوں نہیں کروایا، تاکہ ان کے باپ کو جانکاہ غم ِ فراق سے جلدی نجات ملتی ؟۔

اس سوال کا جواب جیسا کہ پہلے بھی اشارہ ہوا ہے یہ ہے کہ باپ اور بھائیوں کے امتحان کے پروگرام کی تکمیل کے لئے تھا ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کام خود غرضی کی بناء پر نہ تھا بلکہ ایک فرمان الہٰی کے ماتحت تھا۔ خدا چاہتا تھا کہ دوسرے بیٹھے کو کھونے پر بھی یعقوبعليه‌السلام کے عزم اور حوصلے کا امتحان لے اور یوں ان کے تکامل اور ترقی کا آخری زینہ بھی طے ہو جائے اور بھائی بھی آزمائے جائیں کہ ایسے موقع پر جب ان کا بھائی اس طرح کے معالے میں گرفتار ہوا ہے تو وہ باپ سے باندھے پیمان کی کس طرح سے حفاطت کرتے ہیں ۔

۲ ۔ بے گناہ پر چوری کا الزام ؟ :

کیا جائز تھا کہ ایک بے گناہ پر چوری کا اتہام لگا یا جاتا، ایسااتہام کہ جس کے برے آثار نے باقی بھائیوں کو بھی کسی حد تک اپنی لپیٹ میں لے لیا ؟

اس سوال کاجواب بھی خود واقعہ میں موجود ہے اور وہ یہ کہ یہ معاملہ خود بنیامین کی رضا مندی سے انجام پا یا تھا ۔ کیونکہ حضرت یوسفعليه‌السلام نے پہلے اپنے آپ کو اس سے متعارف کروایا تھا اور وہ جانتا تھا کہ یہ منصوبہ خود اس کی حفاظت کے لئے بنایا گیا تھا ۔ نیز اس سے بھائیوں پر بھی کوئی تہمت نہیں لگی البتہ انہیں اضطراب اور پریشانی ضرور ہوئی جس میں کہ ایک اہم امتحان کی وجہ سے کوئی ہرج نہ تھا ۔

۳ ۔ چوری کی طرف سب کی نسبت کیوں دی گئی ؟ :

کیا ” انکم لسارقون “ یعنی “ تم چورہو کہکر سب کی طرف چوری کی نسبت دینا جھوٹ نہ تھا اور اس جھوٹ اور تہمت کا کیا جواز تھا ؟

ذیل کے تجربہ سے اس سوال کا جواب واضح ہو جائے گا:

اولاً: یہ معلوم نہیں کہ یہ بات کہنے والے کون تھے ۔ قرآن میں صرف اس قدر :” قالوا “ یعنی انہوں نے کہا۔“ ہوسکتا ہے یہ با ت کہنے والے حضرت یوسفعليه‌السلام کے کچھ کارندے ہوں کہ جب انہوں نے دیکھا کہ مخصوص پیمانہ نہیں ہے تو یقین کرلیا کہ کنعان کے قافلے میں سے کسی شخص نے اسے چرا لیا ہے او ریہ معمول ہے کہ اگر کوئی چیز ایسے افراد میں چوری ہو جائے کہ جو ایک ہی گروہ کی صورت میں متشکل ہو او راصل چور پہچانا نہ جائے تو سب کو مخاطب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم نے یہ کام کیا ہے یعنی تم میں سے ایک نے یا میں سے بعض نے ایسا کیا ہے ۔

ثانیاً: اس بات کا اصلی نشانہ بنیامین تھا جو کہ اس نسبت پر راضی تھا کیونکہ اس منصوبے میں ظاہراً تو اس پر چوری کی تہمت لگی تھی لیکن در حقیقت وہ اس کے اپنے بھائی یوسفعليه‌السلام کے پاس رہنے کے لئے مقدمہ تھی اور یہ جو سب پر الزام آیا یہ ایک بالکل عارضی سی بات تھی جو صرف برادران یوسفعليه‌السلام کے سامان کی تلاشی پر ختم ہوگیا اور جو در حقیقت مراد تھا یعنی ” بنیامین “ وہ پہچان لیا گیا ۔

بعض نے کہا کہ یہاں جس چوری کی ان کی طرف نسبت دی گئی ہے وہ گزشتہ زمانے سے مربوط تھی اوروہ تھی بھائیوں کا یوسفعليه‌السلام کے باپ یعقوبعليه‌السلام سے یوسفعليه‌السلام کو چرا نا لیکن یہ خیال اس صورت میں درست ہو سکتا ہے جب یہ نسبت حضرت یوسفعليه‌السلام عليه‌السلام کی طرف اشارہ سے انہیں دی جاتی کیونکہ وہی گز شتہ معا ملے سے آگاہ تھے اور شاید بعد والے جملے میں اسی کی طرف اشارہ ہو کیو نکہ حضرت یو سفعليه‌السلام کے مامور ین نے یہ نہیں چاہا کہ تم نے باد شاہ کا پیمانہ چوری کیا ہے بلکہ کہا: ”( نفقد صوامع الملک ) “ یعنی ہم باد شاہ کا پیمانہ مفقود پاتے ہیں “۔ ( لیکن پہلا جواب زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ) ۔

۴ ۔اس زمانے میں چوری کی سزا ؟

اس زمانے میں چوری کی سزا کیا تھی اس سلسلے میں زیر بحث آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ مصریوں اور کنعان کے باشندوں میں چوری کی سزا مختلف تھی ۔ حضرت یوسفعليه‌السلام کے بھائیوں اور احتمالاً اہل کنعان میں اس عمل کی سزا یہ تھی کہ چور کو اس چوری کے بدلے میں ( ہمیشہ کے لئے یا وقتی طور پر ) غلام بنالیا جاتا ۔(۲)

لیکن مصریوں میں یہ سزا رائج نہ تھی بلکہ چوروں کو دوسرے ذرائع سے مثلاًمار پیٹ سے اور قید و بند وغیرہ سے سزا دیتے تھے ۔

بہر حال یہ جملہ اس امر کی دلیل نہیں بنتا کہ آسمانی ادیان میں سے کسی میں غلام بنالینا چور کی سزا تھی کیونکہ بسا اوقات کسی گروہ میں رائج کوئی طریقہ اس زمانے کے لوگوں کی طرف سے شمار ہوتا ہے ۔ غلامی کی تاریخ میں بھی ہم پڑھتے ہیں کہ بے ہودہ اقوام میں یہ طریقہ رہا ہے کہ اگر مقروض اپنا قرض اداکرنے سے عاجز ہو جاتا تو اسے غلام بنا لیا جاتا ۔

۵ ۔” سقایا“یا ” صوامع “ :

زیر نظر آیات میں کبھی لفظ ”صوامع “( پیمانہ ) استعمال ہوا اور کبھی ” سقایة “ ( پانی پینے کا برتن ) ۔ ان دونوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ یہ پیمانہ ابتداء میں باد شاہ کے پینے کا برتن تھا لیکن جس وقت اناج سر زمین مصر میں گراں او رکم یاب ہو گیا اور اس کی راشن بند ہوگئی تو اس امر کی اہمیت ظاہر کرنے کے لئے کہ لو گ نہایت احتیاط سے اور کم خرچ کریں بادشاہ کے پانی پینے کے لئے استعمال ہونے والا مخصوص برتن اس کے پیمانے کے طور پر استعمال کیا گیا ۔

اس برتن کی خصوصیت کے ضمن میں مفسرین نے بہت سی باتیں لکھی ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ وہ چاندی کا تھا اور بعض کے بقول وہ سونے کا تھا بعض نے اضافہ کیا ہے کہ اس میں جواہرات بھی جڑے ہوئے تھے ۔ کچھ غیر معتبر روایات میں بھی ایسے مطالب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن اس سلسلے میں کوئی واضح دلیل موجود نہیں ہے ۔

جو کچھ مسلم ہے وہ یہ کہ ایک ایسا پیمانہ تھا جس سے کسی زمانے میں بادشاہ ِ مصر پانی پیتا تھا بعد میں وہ پیمانے میں تبدیل ہو گیا ۔

یہ بھی واضح ہے کہ ایک ملک کی تمام تر ضروریات کو اس قسم کے پیمانے سے ناپ کرپورا نہیں کیا جا سکتا۔ شاید ایسا رمزاًکیا گیا ہو او ران سالوں میں غلے کی کم یابی اور اہمیت ظاہر کرنے کے لئے خاص طور پر اسے استعمال کیا گیا ہوتا لو گ اسے صرف کرنے میں بہت احتیاط سے کام لیں ۔

ضمناً اس بناء پر کہ وہ پیمانہ اس وقت حضرت یوسفعليه‌السلام کے قبضے میں تھا لہٰذا وہ اس بات کا سبب بنتا اگر چور غلام بنایاجاتاتو وہ صاحب ِ احتیاط پیمانہ یعنی خود حضرت یوسفعليه‌السلام کا غلام بنتا اور انہی کے پاس رہتا اور بالکل اسی مقصد کے لئے حضرت یوسفعليه‌السلام نے یہ منصوبہ بنایا تھا ۔

____________________

۱۔مجمع البیان جلد ۵ ص ۲۵۳۔ مذکورہ آیت کے ذیل میں ۔

۲۔ طبرسی نے مجمع البیان میں نقل کیا ہے کہ اس زمانے میں ایک گروہ میں یہ طریقہ رائج تھا کہ وہ چور کو ایک سال کے لئے غلام بنالیتے تھے ۔ نیز یہ بھی نقل کیا ہے کہ خاندان ِ یعقوبعليه‌السلام میں چوری کی مقدار کے برابر غلامی کی مدت معین کی جاتی تھی ( تاکہ وہ اسی کے مطابق کام کرے ) ۔