تفسیر نمونہ جلد ۱۰

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 30360
ڈاؤنلوڈ: 2949


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 93 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30360 / ڈاؤنلوڈ: 2949
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 10

مؤلف:
اردو

آیات ۹۴،۹۵،۹۶،۹۷،۹۸

۹۴ ۔( وَلَمَّا فَصَلَتْ الْعِیرُ قَالَ اٴَبُوهُمْ إِنِّی لَاٴَجِدُ رِیحَ یُوسُفَ لَوْلاَاٴَنْ تُفَنِّدُونِی ) ۔

۹۵ ۔( قَالُوا تَاللهِ إِنَّکَ لَفِی ضَلَالِکَ الْقَدِیمِ ) ۔

۹۶ ۔( فَلَمَّا اٴَنْ جَاءَ الْبَشِیرُ اٴَلْقَاهُ عَلَیوَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِیرًا قَالَ اٴَلَمْ اٴَقُلْ لَکُمْ إِنِّی اٴَعْلَمُ مِنْ اللهِ مَا لاَتَعْلَمُونَ ) ۔

۹۷ ۔( قَالُوا یَااٴَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا کُنَّا خَاطِئِینَ ) ۔

۹۸ ۔( قَالَ سَوْفَ اٴَسْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّی إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ ) ۔

ترجمہ

۹۴ ۔جس وقت قافلہ ( س رزمین مصر سے) جد اہوا تو ان کے باپ ( یعقوب )نے کہا : اگر مجھے نادانی اور کم عقل کی نسبت نہ دو تو مجھےیوسف کی خوشبو آرہی ہے ۔

۹۵ ۔ انہوں نے کہا: بخدا تو اسی گزشتہ گمراہی میں ہے ۔

۹۶ ۔ لیکن جب بشارت دینے والاآگیا ( اور اس نے ) وہ کرتہ ) اس کے چہرے پر ڈالا تو اچانک وہ بینا ہو گیا ۔ تو اس نے کہا : کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں خدا کی طرف ایسی چیزیں جانتا ہوں جنہیں تم نہیں جانتے ۔

۹۷ ۔ انہوں نے کہا ابا ( جان ) ! خد اسے ہمارے گناہوں کی بخشش کو خواہش کریں ، بےشک ہم خطا کار تھے ۔

۹۸ ۔ اس نے کہا عنقریب میں اپنے پر ور دگار سے تمہارے لئے طلب بخشش کرو ں گا ۔ بے شک و ہ غفور و رحیم ہے ۔

آخرکار لطف الہٰی اپنا کام کرے گا

فرزندان یعقوب (علیه السلام) خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے ۔ وہ خوشی خوشی یوسف (علیه السلام) کا پیراہن اپنے ساتھ لے کر قافلے کے ساتھ مصر سے چل پڑے ۔ ادھر بھائیوں کے لئے زندگی کے شیرین لمحات تھے ادھر شام کے علاقے کنعان میں بورھے کا گھر غم و اندوہ میں ڈوبا ہوا تھا ۔ سارا گھر نہ افسردہ اور غم زدہ تھا ۔

لیکن ۔ ادھر یہ قافلہ مصر سے چلا اور ادھر اچانک یعقوب (علیه السلام) کے گھر میں ایک واقعی رونما ہوا جس سے سب کو تعجب میں ڈال دیا ۔ یعقوب (علیه السلام) کا جسم کانپ رہاتھا ۔ انہوں نے بڑے اطمینان اور اعتماد سے پکارکر کہا : اگر تم بد گوئی نہ کرو اور میری طرف نادانی اور جھوٹ کی نسبت نہ دو تو میں تم سے کہتا ہوں کہ مجھے اپنے پیارے یوسف (علیه السلام) کی خوشبو آرہی ہے ، میں محسوس کررہا ہوں کہ رنج و غم اور زحمت و مشکل کی گھڑ یاں ختم ہونے کو ہیں اور وصال و کامیابی کا زمانہ آنے کو ہے ، خاندانِ یعقوب (علیه السلام) اب لباس ماتم اتار دے گا اور لباس ِ مسرت زیب ترن کرے گا لیکن میر اخیا ل نہیں کہ تم ان باتوں پر یقین کروگے( وَلَمَّا فَصَلَتْ الْعِیرُ قَالَ اٴَبُوهُمْ إِنِّی لَاٴَجِدُ رِیحَ یُوسُفَ لَوْلاَاٴَنْ تُفَنِّدُونِ ) ۔(۱)

” فصلت“ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب (علیه السلام) میں یہ احساس اسی وقت پیدا ہوا جب قافلہ مصر سے چلنے لگا ۔ قاعدتا حضرت یعقوب (علیه السلام) سے کہا :آپ اسی پرانی گمراہی میں ہیں (قَالُوا تَاللهِ إِنَّکَ لَفِی ضَلَالِکَ الْقَدِیمِ ) ۔یعنی اس سے بڑھ کر گمراہی کیا ہوگی کہ یوسف (علیه السلام) کی خوشبو آرہی ہے ، مصر کہا اور شام کو کنعان کہاں ، کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ آپ ہمیشہ خوا و خیال کی دنیا میں رہتے ہیں اور اپنے خیالات و تصورات کو حقیقت سمجھتے ہیں ، آپ یہ کیسی عجیب بات کہہ رہے ہیں ، بہر حال آپ تو پہلے بھی اپنے بیٹوں سے کہہ چکے ہیں کہ مصر کی طرف جاؤ او رمیر ے یوسف (علیه السلام) کی تلاش کرو ۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں ضلالت و گمراہی سے مراد عقیدے اور نظر یے کی گمراہی نہیں ہے بلکہ یوسف (علیه السلام) سے متعلق مسائل کے سمجھنے میں گمراہی مراد ہے ۔

بہر کیف ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ اس عظیم کہنہ سال اور روشن ضمیر پیغمبر سے کیساشدید اور جسارت آمیز سلوک کرتے تھے ۔

ایک جگہ انہوں نے کہا: ہمارا باپ ”ضلا ل مبین “( کھلی گمراہی “ میں ہے اور یہاں انہوں نے کہا : تم اپنی اسی دیرینہ گمراہی میں ہو۔

وہ پیر کنعان کے دل کی پاکیز گی اور روشنی سے بے خبر تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ اس کا دل بھی انہی کے دل کی طرح تاریک ہے ۔ انہیں یہ خیال نہ تھا کہ آئندہ کے واقعات اور دور و نزدیک کے مقامات اس کے آئینہ دل میں منعکس ہوتے ہیں ۔

کئی رات دن بیت گئے ۔ یعقوب اسی طرح انتظارکہ جس کی گہرائی میں مسر و شادمانی اور سکون و اطمینان موجزن تھا حالانکہ ان کے پا س رہنے والوں کو ان مسائل سے کوئی دلچسپی نہ تھی اور وہ سمجھتے تھے کہ یو سف (علیه السلام) کا معاملہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو چکا ہے ۔

معلوم نہیں یعقوب (علیه السلام) پر یہ چند دن اور راتیں کس طر ح گزریں ۔ آخر کار ایک دن آیا جب آواز آئی وہ دیکھو مصر سے کنعان کا قافلہ آیا ہے ۔

گزشتہ سفروں کے بر خلا ففرزندان یعقوب (علیه السلام) شاداں و فرخاں شہر میں داخل ہو ئے اور بڑی تیزی سے باپ کے گھر پہنچ گئے ۔ سب سے پہلے ” بشیر“ بوڑھے یعقوب (علیه السلام) کے پاس آیا (وہی ”بشیر “ جو وصال کی بشات لایا تھا او رجس کے پاس یوسف (علیه السلام) کا پیراہن تھا ) اس نے آتے ہیں پیراہن یعقوب (علیه السلام) کے چہرے پر ڈال دیا ۔ یعقوب (علیه السلام) کی آنکھیں تو بے نور تھیں ۔ وہ پیراہن کو دیکھ نہ سکتے تھے ۔ انہوں نے محسوس کیا کہ ایک آشنا خوشبوان کے مشام ِ جان میں تر گئی ہے ۔ یہ ایک پر کیف زریں لمحہ تھا ۔ گویا ان کے وجود کا ہر ذرہ روشن ہو گیا ہو آسمان و زمین مسکرا اٹھے ہوں ۔ ہر طرف قہقہے بکھر گئے ہوں ، نسیم رحمت چل اٹھی ہو اور غم و اندوہ کا گرد و غبارلپیٹ کر لے جارہی ہو درو دیوار سے خوشی کے نعرے سنائی دے رہے تھے اور یعقوب (علیه السلام) اسی ساری فضا کے ساتھ تبسم کناں تھے ۔ ایک عجیب پیجانی کیفیت تھی جو اس بوڑھے انسان پر طاری تھی ۔ اچانک انہوں نے محسوس کیا کہ ان کی آنکھیں روشن ہو گئیں ہیں اور وہ ہر جگہ دیکھ رہے ہیں ۔ دنیا اپنی تمام زیبائیوں کے ساتھ ایک مرتبہ پھر ان کی آنکھوں کے سامنے تھی ۔ جیسا کہ قرآن کہتا ہے : جب بشارت دینے والاآیا تو اس نے و ہ ( پیراہن ) ان کے چہرے پر ڈال دیا تو اچانک وہ بینا ہو گئے( فَلَمَّا اٴَنْ جَاءَ الْبَشِیرُ اٴَلْقَاهُ عَلَی وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِیرًا ) ۔

بھائیوں اور گر دوں پیش والوں کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو امنڈ آئے اور یعقوب (علیه السلام) نے پورے اعتماد سے کہا : میں نہ کہتا تھا کہ میں خدا کی طرف سے ایسی چیزیں جانتا ہون جنہیں تم نہیں جانتے( قَالَ اٴَلَمْ اٴَقُلْ لَکُمْ إِنِّی اٴَعْلَمُ مِنْ اللهِ مَا لاَتَعْلَمُونَ ) ۔

اس حیران کن معجزہ پر گہری فکر میں ڈوب گئے ۔ ایک لمحہ کے لئے اپنا تاریک ماضی ان کی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا، خطا، اشتباہ اور تنگ نظری سے پر ماضی ۔

لیکن کتنی اچھی بات ہے کہ جب انسان اپنی غلطی کو سمجھ لے تو فوراًاس کی اصطلاح کی فکر کرے فرزندنِ یعقوب (علیه السلام) بھی اسی فکر میں گم ہوگئے ۔ انہوں نے باپ کا دامن پکڑ لیا اور ” کہ ا: باباجان ! خدا سے درکواست کیجئے کہ وہ ہمارے گناہوں اور خطاؤں کو بخش دے “( قَالُوا یَااٴَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا ) ۔

” کیونکہ ہم گناہگار اور خطا کار تھے “۔( إِنَّا کُنَّا خَاطِئِینَ ) ۔

بزرگوار اور باعظمت بوڑھا جس کا ظرف سمندر کی طرح وسیع تھا ، اس نے کوئی ملامت و سر زنش کئے بغیر ان سے وعدہ کیا کہ میں بہت جلدتمہارے لئے اپنے پر وردگار سے مغفرت طلب کروں گا( قَالَ سَوْفَ اٴَسْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّی ) ۔اور مجھے امید ہے کہ وہ تمہاری توبہ قبول کرلے گا اور تمہارے گناہوں سے صرفِ نظر کرلے گا کیونکہ ” وہ غفور و رحیم ہے “( إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ ) ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ یعقوب (علیه السلام) نے پیراہن یوسف (علیه السلام) کی خوشبو کیسے محسوس کی ؟

یہ سوال بہت سے مفسرین نے اٹھا یا ہے اور اس پر بحث کی ہے عام طور پر مفسرین نے اسے یعقوب (علیه السلام) یا یوسف (علیه السلام) کا معجزہ قرار دیا ہے لیکن چونکہ قرآن نے اسے اعجاز یا غیر اعجاز ہونے کے لحاظ سے پیش نہیں کیا اور اس سلسلے میں خاموشی اختیار کی ہے ، اس کی سائنسی توجیہ معلوم کی جاسکتی ہے ۔

موجودہ زمانے میں ” ٹیلی پیتھی “ ایک مسئلہ علمی ہے ( اس میں یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ ایک دوسرے سے دور رہنے والے افراد کے درمیان فکری ارتباط اور روحانی رابطہ ہو سکتا ہے ۔ اسے ” انتقال فکر “ کہتے ہیں ) ایسے افراد جو ایک دوسرے سے نزدیکی تعلق رکھتے ہیں یا جو بہت زیادہ روحانی طاقت رکھتے ہیں یہ تعلق ان کے درمیان پید اہو تا ہے ۔ شاید ہم میں سے بہت سے افراد نے اپنی روز مرہ کی زندگی میں اس کا سامنا کیا ہو کہ بعض اوقات کسی کی والدہ یا بھائی اپنے اندر بلا سبب بہت زیادہ اضطراب اور پریشانی محسوس کرتے ہیں اور زیادہ دیر نہیں گزرتی کہ خبر پہنچتی ہے کہ اس کے بیٹے یا بھائی کو فلاں دور دراز علاقے میں ایک ناگوار حادثہ پیش آیا ہے ۔

ماہرین اس قسم کے احساس کو ٹیلی پیتھی اور دور دراز کے علاقوں سے انتقال فکر کا عمل قرار دیتے ہیں ۔

حضرت یعقوب (علیه السلام) کے واقعہ میں بھی ممکن ہے یو سف (علیه السلام) سے شدیدمحبت اور آپ روحانی عظمت کے سبب آپ میں وہی احساس پیدا ہو گیا ہو جو یوسف (علیه السلام) کا کرتہ اٹھاتے وقت بھائیوں میں پیدا ہوا تھا ۔

البتہ یہ بات بھی ہر ح ممکن ہے کہ اس واقعے کا تعلق انبیاء کے دائرہ علم کی وسعت سے ہو ۔

بعض روایات میں بھی انتقال فکر کے مسئلے کی طرف جاذبِ نظر اور عمدہ اشارہ کیا گیا ہے مثلاً :

کسی نے امام باقر (علیه السلام) سے عرض کیا : کبھی ایسا ہوتا ہے کہ میں بغیر کسی مصیبت یا ناگوار حادثے کے غمگین ہو جاتا ہوں یہاں تک کہ میرے گھر والے اور میرے دوست بھی اس کے اثرات میرے چہرے پر دیکھ لیتے ہیں ۔

امام (علیه السلام) نے فرمایا : ہاں ، خدا نے مومنین کو ایک ہی بہشتی طینت سے پیدا کیا ہے اور ا سکی روح ان میں پھونکی ہے لہٰذا مومنین ایک دوسرے کے بھائی ہیں جس وقت کسی ایک شہر میں ان میں سے کسی ایک خاص بھائی کو کوئی مصیبت پیش آتی ہے تو باقیوں پر ا س کا اثر ہوتا ہے ۔(۲)

بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کرتہ نہ تھا بلکہ ایک جنتی پیراہن تھا جو حضرت ابراہیم (علیه السلام) خلیل اللہ کی طرف سے خاندان ِ یعقوب (علیه السلام) میں یاد گار کے طور پر چلا آرہا تھا او رجو شخص حضرت یعقوب (علیه السلام) کی طرح بہشتی قوت شامہ رکھتا تھا وہ اس کی خوشبو دور سے محسوس کرلیتا تھا ۔(۳)

۲ ۔ انبیاء کے حالات میں فرق:

یہاں پر ایک اور مشہور اعتراض سامنے آتا ہے ۔ فارسی زبان کے اشعار میں بھی اعتراض بیان کیا گیا ہے

۔ کسی نے یعقوب (علیه السلام) سے کہا :

زمصر ش بوی پیراہن شنیدی چرا درچاہ کنعانش نہ دیدی

یعنی ..آپ نے مصر سے پیراہن کی خوشبو سونگھ لی لیکن آپ کو کنعان کے کنویں میں یوسف (علیه السلام) کیوں دکھائی نہ دیا؟

کیسے ہوسکتا کہ اس عظیم پیغمبر نے اتنے دور دراز کے علاقے سے یوسف (علیه السلام) کی قمیص کی خوشبو سونگ لی جب کہ بعض نے یہ فاصلہ اسّی فرسخ لکھا ہے اور بعض نے دس دن کی مسافت بیان کی ہے لیکن اپنے ہی علاقے کنعان کے اندر جب کہ یوسف (علیه السلام) کو اس کے بھائی نے کنویں میں پھینک رہے تھے اور ان پر وہ واقعات گزررہے تھے اس سے یعقوب (علیه السلام) آگاہ نہ ہوئے ؟

قبل ازیں انبیاء اور آئمہ کے علم غیب کی حدود کے بارے میں جو کچھ کہا جا چکا ہے اس کی طرف توجہ کرتے ہوئے اس سوال کا جواب ہر گز مشکل نہیں رہتا ۔ امور غیب کے متعلق ان کا علم پر ور دگار کے ارادے اور عطا کئے ہوئے علم پر منحصر ہے ۔ جہاں خدا چاہتا ہے وہ جانتے ہیں چاہے واقعے کا تعلق کسی دور دراز علاقے سے ہو اور جہاں وہ نہ چاہے نہیں جانتے چاہے معاملہ کسی نزدیک ترین علاقے سے مربوط ہو ۔ جیسے کسی تاریک رات میں ایک قافلہ کسی بیا بان سے گزررہا ہو اور ۔ آسمان کو بادلوں نے ڈھانپ رکھا ہو ۔ ایک لمحے کے لئے بجلی خاموش ہو جائے اور پھر تاریکی ہر طرف چھا جائے اس طرح سے کہ کوئی چیز نظر نہ آئے ۔

شاید امام جعفر صادق علیہ السلام علم امام کے بارے میں مروی یہ حدیث اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتی ہے ، آ پ فرماتے ہیں :

جعل الله بینه و بین الامام عموداً من نور ینظر الله به الیٰ الامام و ینظر الامام به الیه فاذا اراد علم شیء نظر فی ذٰلک النور فعرفه

خدا نے اپنے اور امام و پیشوائے خلق کے درمیان نور کا ایک ستون بنایا ہے ۔ اسی سے خدا امام کی طرف دیکھتا ہے اور امام بھی اسی طریق سے اپنے پر وردگار کی طرف دیکھتا ہے اور جب امام کوئی چیز جاننا چاہتا ہے تو نور کے اس ستون میں دیکھتا ہے اور اس سے آگاہ ہوجاتا ہے ۔(۴)

ایک شعر جو پہلے ذکر کیا گیا ہے اس کے بعد سعدی کے مشہور اشعار میں ایسی ہی روایات کے پیش نظر کہا گیا ہے :

بگفت احوال مابرق جہان است گہی پیدا و دیگر دم نہان است

گہی برکام اعلا نشینیم گہی تا پشت پای خود نبینیم

یعنی .اس نے کہا ہمارے حالات چمکنے والی بجلی کی طرح ہیں جو کبھی دکھائی دیتی ہے اور کبھی چھپ جاتی ہے ۔

کبھی ہم آسمان کی بلندیوں پر بیٹھتے ہیں اور کبھی اپنے پاؤں کے پیچھے بھی دکھائی نہیں دیتا ۔

” جہان“ یہاں ” جہندہ“ یعنی چمکنے والی “ کے معنی میں ہے اور ” برق جہان “ کا معنی ہے چمکنے والی آسمانی بجلی ۔

اس حقیقت کی طرف توجہ کرتے ہوئے تعجب کا مقام نہیں کہ ایک دن مشیت ِ الٰہی کی بناء پر یعقوب (علیه السلام) کی آزمائش کے لئے وہ اپنے قریب رونما ہونے والے واقعات سے آگاہ نہ ہوں اور کسی دوسرے دن جب کہ دورِ آزمائش ختم ہو چکا تھا اور مشکلات کے دن بیت چکے تھے انہوں نے مصر سے قمیص یوسف (علیه السلام) کی مہک سونگھ لی ہو۔

۳ ۔ بینائی کیسے لوٹ آئی ؟

بعض مفسرین نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ حضرت یعقوب (علیه السلام) کی آنکھوں کا نور بالکل ضائع ہو نہیں ہوگیا تھا بلکہ ان کی آنکھیں کمزور ہوگئیں تھی اور بیٹے کی ملاقات کے امکانات پیدا ہوئے تو ان میں ایک ایسا ہیجان پیدا ہوا کہ وہ پہلی حالت پر واپس آگئیں لیکن آیات کا ظہور نشاندہی کرتا ہے کہ وہ بالکل نابینا ہو گئے تھے یہاں تک کہ ان کی آنکھیں سفید ہوچکی تھیں لہٰذا ان کی بینائی معجزانہ طور پر واپس آئی ۔ قرآن کہتا ہے :( فارتد بصیراً ) بینائی کی طرف لوٹ آیا ۔

۴ ۔ استغفار کا وعدہ :

مندرجہ بالا آیات میں ہے کہ بھائیوں کے اظہار ِ ندامت پر حضرت یوسف (علیه السلام)نے کہا :

( یغفر الله لکم ) خدا تمہیں بخش دے گا ۔

لیکن انہوں نے حضرت یعقوب (علیه السلام) کے سامنے اعتراف گناہ اور اظہار ندامت کیا اور استغفار کا تضایا کیا تو انہوں نے کہا: میں بعد میں تمہارے لئے استغفار کروں گا ۔

جیساکہ روایات میں آیا ہے ان کا مقصد یہ تھا کہ اس تقاضا پر شبِ جمعہ وقت سحر عمل کریں جو کہ اجابتِ دعا اور توبہ کی قبولیت کے لئے مناسب وقت ہے(۵)

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یو سف (علیه السلام) نے انہیں کس طرح قطعی جواب دیا جب کہ ان کے باپ نے آئندہ پر چھوڑ دیا ؟۔

ہو سکتا ہے یہ فرق اس بناء پر ہو کہ حضرت یوسف (علیه السلام) بخشش کے امکان کے بارے میں با ت کررہے ہوں یعنی یہ گناہ قابل بخشش ہے لیکن حضرت یعقوب (علیه السلام) اس کی فعلیت کے بارے میں گفتگو کررہے ہوں یعنی کیا کیا جائے کہ جس سے بخشش ہو جائے ( غو کیجئے گا ) ۔

۵ ۔ توسل جائز ہے :

مندرجہ بالا آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی سے استغفار کا تقاضا کرنا نہ صرف یہ کہ عقیدہ توحید کے منافی نہیں ہے بلکہ لطف الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے ورنہ کیسے ممکن تھا کہ یعقوب (علیه السلام) کہ جو نبی تھے بیٹوں کا یہ تقاضا قبول کرتے کہ ان کے لئے استغفار کی جائے اور کیسے ممکن تھا کہ ان کے توسل کا مثبت جواب دیتے ۔

یہ امر نشاندہی کرتا ہے کہ اولیاء اللہ سے توسل اجمالاً ایک جائز امر ہے اور جو اسے ممنوع اور اور اصل ِ توحید کے خلاف سمجھتے ہیں وہ متون قرآن سے آگاہی نہیں رکھتے یا پھر غلط تعصبات نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال رکھا ہے ۔

۶ ۔ سیاہ رات چھٹ گئی:

مندربالا آیات ہمیں یہ عظیم درس دیتی ہیں کہ مشکلات و حوادث جتنے بھی سخت اور دردناک ہوں اور ظاہری اسباب و علل جتنے بھی محدود اور نارسا ہوں اور کامیابی و کشائش میں کتنی ہی تاخیر ہو جائے ان میں سے کوئی چیز بی لطفِ پر وردگار پر امید رکھنے سے مانع نہیں ہوسکتی۔ ہاں یہ وہی خدا ہے جو نابینا آنکھ کو پیراہن کے ذریعے روشن کردیتا ہے اور پیراہن کو خوشبودور کے فاصلے سے دیگر علاقوں کی طرف منتقل کردیتا ہے اور گمشد ہ عزیز اور محبوب کو سالہا سال بعد لوٹا دیتا ہے اور جدائی سے مجروح ولوں پر مرہم رکھتا ہے اور جانکاہ تکالیف کو شفا بخشتا ہے ۔

جی ہاں اس سر گزشت میں توحید اور خدا شناسی کا یہ عظیم درس ہے کہ کوئی چیز بھی خدا کے ارادے کے سامنے پیچیدہ نہیں ہے ۔

____________________

۱۔ ”تفندون“ ” فند“ (بروزن ”نمد“) کے مادہ سے ، فکر کی کمزوری اور حماقت کے معنی میں ہے ۔ اسے” جھوٹ“کے معنی میں سمجھتے ہیں ۔ در اصل یہ فساد اورخرابی کے معنی میں ہے ۔ ۔لہٰذا ” لولاان تفندو “ کا معنی ہے : اگر تم مجھے بے وقوف اور فاسد العقل نہ کہو۔

۲۔اصول کافی جلد ۲ ص ۱۳۳۔

۳۔ ان روایات کے بارے میں مزید آگاہی کے لئے نو ر الثقلین کی دوسری جلد ص ۴۶۴ کی طرف رجوع کریں ۔

۴۔ شرح نہج البلاغہ از خوئی جلد ۵ ص ۲۰۰۔

۵۔تفسیر قرطبی میں ہے کہ ان کا مقصد یہ تھا کہ شب ِ جمعہ کہ جو روز عاشورکے برابر تھی ، ان کے لئے اسغفار کریں ( تفسیر قرطبی ۔ جلد ۶ س ۳۴۹۱)