تفسیر نمونہ جلد ۱۰

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 30351
ڈاؤنلوڈ: 2949


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 93 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30351 / ڈاؤنلوڈ: 2949
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 10

مؤلف:
اردو

آیات ۱۰۲،۱۰۳،۱۰۴،۱۰۵،۱۰۶،۱۰۷

۱۰۲ ۔( ذَلِکَ مِنْ اٴَنْبَاءِ الْغَیْبِ نُوحِیهِ إِلَیْکَ وَمَا کُنتَ لَدَیْهِمْ إِذْ اٴَجْمَعُوا اٴَمْرَهُمْ وَهمْ یَمْکُرُونَ ) ۔

۱۰۳ ۔( وَمَا اٴَکْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِینَ ) ۔

۱۰۴ ۔( وَمَا تَسْاٴَلُهُمْ عَلَیْهِ مِنْ اٴَجْرٍ إِنْ هُوَ إِلاَّ ذِکْرٌ لِلْعَالَمِینَ ) ۔

۱۰۵ ۔( وَکَاٴَیِّنْ مِنْ آیَةٍ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ یَمُرُّونَ عَلَیْهَا وَهُمْ عَنهَا مُعْرِضُونَ ) ۔

۱۰۶ ۔( وَمَا یُؤْمِنُ اٴَکْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلاَّ وَهُمْ مُشْرِکُونَ ) ۔

۱۰۷ ۔( اٴَفَاٴَمِنُوا اٴَنْ تَأتیَهمْ غَاشِیَةٌ مِنْ عَذَابِ اللهِ اٴَوْ تَأتیَهُمْ السَّاعَةُ بَغْتَةً وَهُمْ لاَیَشْعُرُونَ ) ۔

ترجمہ

۱۰۲ ۔ یہ غیب کی خبروں میں سے ہے کہ جس کی ہم تجھے وحی کرتے ہیں تو ( ہر گز) ان کے پاس نہیں تھا جب انہوں نے مصمم ارادہ کیا اور جب منصوبہ بنارہے تھے ۔

۱۰۳ ۔ اور اگر چہ تو اصرار کرے تو زیادہ تر لوگ ایمان نہیں لائیں گے ۔

۱۰۴ ۔اورتو اس پر( ہر گز ) ان سے اجرت کامطالبہ نہیں کرتا، یہ نہیں ہے مگر یہ کہ عالمین کے لئے یادھانی۔

۱۰۵ ۔ اور ( خدا کی )بہت سے نشانیاں آسمانوں اور زمین میں موجود ہیں کہ وہ جن کے پاس سے گزرتے ہیں اور ان سے منہ پھیر لیتے ہیں ۔

۱۰۶ ۔ اور ان میں کہ جو خدا پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں اکثر مشرک ہیں ۔

۱۰۷ ۔ کیا وہ اس سے مامون ہیں کہ خدا کی طرف سے گھیر نے والا عذاب ان پر آجائے یا قیامت کی گھڑی اچانک ان پر آجائے جب کہ وہ متوجہ نہ ہوں ۔

یہ دعویدار عام طور پر مشرک ہیں

حضرت یوسف (علیه السلام) کا واقعہ تمام ہوا ۔ اس میں عبرت اور اصلاح کے بہت سے درس موجود ہیں ۔ا س میں گرانبہا قیمتی اور ثمر بخش نکات موجود ہیں اور یہ تاریخی واقعہ ہر قسم کی فضولیات اور خرافات سے پاک کرکے بیان کردیا گیا ہے ۔ اب قرآن روئے سخن پیغمبر کی طرف کرتے ہوئے کہتا ہے : یہ غیب کی خبریں ہیں جنہیں ہم تیری طرف وحی کررہے ہیں( ذَلِکَ مِنْ اٴَنْبَاءِ الْغَیْبِ نُوحِیهِ إِلَیْکَ ) ۔

تو ہرگز ان کے پاس نہیں تھا جبکہ وہ مصمم ارادہ کررہے تھے اورمنصوبہ بنا رہے تھے( وَمَا کُنتَ لَدَیْهِمْ إِذْ اٴَجْمَعُوا اٴَمْرَهُمْ وَهمْ یَمْکُرُونَ ) ۔ان باریکیوں اور تفصیلات کو صرف خدا جانتا ہے یاوہ شخص جو اس موقع پر موجود تھا اور چونکہ تو وہاں موجود نہیں تھا لہٰذا صرف وحی الہٰی ہے جو ایسی خبریں تجھ تک پہنچ جاتی ہیں ۔

یہاں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت یوسف (علیه السلام) کا واقعہ اگر چہ تورات میں آیاہے اور قاعدتاً حجاز والے اس کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات رکھتے تھے پھر بھی پوری تفصیلات کے ساتھ تمام واقعہ حتی کہ جو کچھ خصوصی مجالس میں ہواتھا لوگوں کو معلوم نہیں تھا کہ جس میں کوئی اضافہ نہ کیا گیا ہو اور خرافات شامل نہ کی گئی ہو ں ۔

ان حالات میں لوگوں کو چاہیئے کہ ان سب نشانیوں کو دیکنے کے بعد اور ان خدا ئی نصیحتوں کو سننے کے بعد ایمان لے آئیں اور غلط راستے سے پلٹ جائیں مگر اے پیغمبر ! اگر چہ تو اس پر اصرار کرے کہ یہ ایمان لے آئیں ان میں سے اکثر ایمان نہیں لائیں گے( وَمَا اٴَکْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِینَ ) ۔

لفظ ” حرص “ لوگوں کے ایمان لانے کے لئے پیغمبر کے شدید لگاؤ اور شقو کی دلیل ہے لیکن صرف آپ (علیه السلام) کا شوق اور حرص کا فی نہ تھا ۔ زمینوں اور طرفوں کی قابلیت بھی شرط نہ تھی ۔

یعقوب (علیه السلام) کے بیٹے کہ جو وحی و نبوت کے ماحول میں پلے بڑھے تھے جب وہ ہوا وہوس میں گرفتار ہو سکتے ہیں یہاں تک کہ اپنے بھائی کو نابود کرنے پر تل سکتے ہیں تو پھر دوسروں سے کیا توقع کیا جاسکتی ہے کہ وہ ہواو ہوس کے دیواور شہوت بھوٹ پر غالب آجائیں اور سب کے سب ایک ہی دفعہ پوری طرح خدا کی طرف رخ کریں ۔

یہ جملہ ضمنی طور پر پیغمبر کی ایک طرح سے تسلی اور دلجوئی کے لئے ہے کہ وہ لوگوں کے کفر و گناہ پر اصرار سے ہ رگز مایوس نہ ہو جائیں اور اس راہ میں ہم سفروں کی کمی سے ملول ِ خاطر نہ ہوں ، جیسا کہ قرآن کی دیگر آیات میں بھی ہے مثلاً :

( فلعلک باخع نفسک علیٰ اٰثارهم ان لم یومنوا بهذا الحدیث اسفاً )

اے پیغمبر ! گویا تو چاہتا ہے کہ قرآن ان کے ایمان نہ لانے پر شدت تاسف سے اپنی جان گنوابیٹھے(کہف۔ ۶)

قرآن مزید کہتا ہے کہ در اصل تریری دعوت کو قبول نہ کرنے کے لئے ان کے پاس کوئی عذر و بہانہ نہیں ہے کیونکہ علاوہ اس کے کہ اس میں حق کی نشانیاں واضح ہیں ”تو نے ا س کے بدلے ان سے ہر گز کوئی اجر مزدوری نہیں چاہی “ کہ جسے وہ مخالفت کا بہانہ بنا سکیں( وَمَا تَسْاٴَلُهُمْ عَلَیْهِ مِنْ اٴَجْرٍ ) ۔

”یہ ایک عمومی دعوت ہے اور سب جہانوں کے لئے اورعالمین کے لئے ایک دھانی ہے “ اور یہ عام و خاص تمام انسانوں کے لئے بچھا یا گیا ایک دسترخوان ہے( إِنْ هُوَ إِلاَّ ذِکْرٌ لِلْعَالَمِینَ ) ۔

وہ در اصل اس لئے گمراہ ہوئے کہ ان کے پاس کھلی اور بینا آنکھ اور سننے والے کان نہیں ہیں ”’ آسمان و زمین میں بہت سے خدائی آیات ہیں کہ وہ جن کے قریب سے گزرجاتے ہیں اور ان سے منہ پھیر لیتے ہیں “( وَکَاٴَیِّنْ مِنْ آیَةٍ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ یَمُرُّونَ عَلَیْهَا وَهُمْ عَنهَا مُعْرِضُونَ ) ۔

یہی حوادث کہ جنہیں ہر روز وہ اپنی آنکھ سے دیکھتے ہیں ۔ صبح کے وقت آفتاب افق ِ مشرق سے سر نکالتا ہے ۔ اس کی سنہری کرنیں پہاڑوں درّو ں ، صحراؤں اور دریاؤں پر پڑتی ہیں اور شام کے وقت افق مغرب میں ڈوب جاتا ہے اور رات کی گہری سیاہ چادر ہر جگہ کو ڈھانپ دیتی ہے ۔

عجیب و غریب نظام کے یہ اسرار ، یہ طلوع و غروب، سبزوں ، پرندوں ، حشرات اور انسانوں میں زندگی کا یہ شور و غوغا ، یہ ندیوں زمزمہ ، نسیم سحری کا یہ ہمہمہ اور یہ سب عجیب و دلنشین نقش کہ وجود کے درو دیوار پر ہیں ۔ اس قدر آشکار ہیں کہ جو کوئی ان میں اور ان کے خالق میں غو ر و فکر نہ کرے وہ ایسے ہی ہے جیسے دیوار پر کوئی نشان تھا ۔

بہت چھوٹے چھوٹے امر ہیں جو ظاہرا ً کوئی اہمیت نہیں رکھتے ، جن کے قریب سے ہم بے اعتنائی سے گزر جاتے ہیں لیکن اچانک گہرائی تک پہنچنے والا ماہر پیدا ہوتا ہے جو کئی ماہ اور سالوں کے مطالعہ کے بعد عجیب و غریب اسرا ر معلوم کرتا ہے کہ جن سے دنیا کے منہ مارے تعجب کے کھلے کے کھلے رہ جاتے ہیں ۔

اصولی طور پر اہم بات یہ ہے کہ ہم جانیں کہ اس عالم ک وئی چیز معمولی اور بے اہمیت نہیں ہے کیونکہ ہر چیز خد اکی مصنوع و مخلوق ہے ۔ وہ خد اکہ جس کا علم لامتناہی او رجس کی حکمت بے پایاں ہے ۔ بے وقعت وہ لوگ ہیں جو اس عالم کو بے اہمیت اور سر سری سی چیز سمجھتے ہیں ۔ لہٰذا اگر وہ ان آیات ِ قرآنی پر کہ جو تجھ پر نازل ہو ئی ہیں ایمان نہیں لاتے تو اس پر تعجب نہ کر کیونکہ وہ آیات ِ خلقت پر بھی ایمان نہیں لائے کہ جو ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں ۔

بعد والی آیت میں مزید کہتا ہے : وہ جو ایمان لے آتے ہیں ان میں سے بھی اکثر کا ایمان خالص نہیں ہے بلکہ اس میں شرک کی آمیزش ہے( وَمَا یُؤْمِنُ اٴَکْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلاَّ وَهُمْ مُشْرِکُونَ ) ۔ہو سکتا ہے وہ خود سمجھتے ہوں کہ وہ خالص مومن ہیں لیکن شر ک کی رگیں عموماً ان کےافکار ، گفتار اور کردار میں موجود ہوتی ہیں ۔

ایمان صرف یہ نہیں کہ انسان صرف وجود خدا کا اعتقاد رکھتا ہوبلکہ ایک خالص موحدوہ ہے جس کے قلب و جان میں خدا کے علاوہ کسی شکل میں کوئی معبود نہ ہو۔ اس کی گفتار خد اکے لئے ، اس کے اعمال خدا کے لئے اور اس کا ہر کام اسی کے لئے انجام پائے ۔

خدا کے قانون کے علاوہ کسی قانون کو قبول نہ کرے اور ا سکے غیر کی بندگی کا طوق اپنی گردن میں نہ ڈالے اور خدا یہ فرامین ک ودل و جان سے قبول کرے چاہے وہ اس کے میلان کے مطابق ہوں یا نہ ہوں ۔ خدا او رہوائے نفس کے انتخاب کے دوراہے پر ہمیشہ خدا کو مقدم شماار کرے ۔ یہ ہے ہر قسم کے شرک سے پاک ایمان ۔ عقیدے کا شرک ، گفتاگر اور عمل کا شرک ، اگر ہم واقعاً ہر پہلو کے بارے میں باریک بینی سے کام لیں تو دیکھیں گے کہ سچے ، خالص اور حقیقی موحد بہت کم ہیں ۔

اسی بناء پر اسلامی روایات میں ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

الشرک اخفی من دبیب النمل

انسانی اعمال میں شرک چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ مخفی ہے ۔ ( سفینة البحار جلد ۱ ص ۱۶۹۷)

یہ بھی روایت ہے :

( ان اخوف ما اخاف علیکم الشرک الاصغر قالوا وما الشرک الاصغر یا رسول الله ؟ قال الریا، یقول الله تعالیٰ یوم القیامة اذا جاء الناس باعمالهم اذهبوا الیٰ الذین کنتم تراء ون فی الدنیا ، فانظروا هل تجدون عندهم من جزاء ؟ ) !

رسول اللہ نے فرمایا:

خطر ناک ترین چیز کہ جس کا مجھے تم سے خوف ہے شرکِ اصغر ہے ۔

اصحاب نے پوچھا :

یا رسول اللہ : شرک ِ اصغر کیا ہے :

فرمایا:

ریا کاری ، قیامت کے دن جب لوگ اپنے اعمال کے ساتھ بار گاہ خد امیں حاضر ہوں گے تو پر وردگار انہیں کہ جو ددنیا میں ریا کرتے تھے ، فرمائے گا : ان کے پاس جاؤ کہ جن کے لئے تم ریا کرتے تھے اور دیکھو کہ ان کے ہاں سے تمہیں کوئی اجر ملتا ہے ؟(۱)

امام محمد باقر علیہ السلام سے مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں منقول ہے کہ آپ (علیه السلام) نے فرمایا :

شرک طاعة ولیس شرک عبادة المعاصی التی ترتکبون وهی شرک طاعة اطاعوا فیها الشیطان فاشرکوا بالله فی الطاعة لغیره

اس آیت سے مراد اطاعت میں شرک کرنا ہے نہ کہ عبادت میں شرک کرنا اور جن گناہوں کے لوگ مرتکب ہوتے ہیں وہ شرک اطاعت ہے کیونکہ اس میں وہ شیطان کی اطاعت کرتے ہیں اور اس عمل کی بناء پر خدا کے لئے اطاعت میں شریک کے قائل ہوتے ہیں ۔(۲)

بعض دوسری روایات میں ہے کہ مراد ” شرک ِ نعمت “ ہے اس معنی میں کہ کوئی نعمت خدا کی طرف سے انسان کو پہنچے او روہ کہے کہ یہ نعمت فلاشخص کی طرف سے مجھے پہنچی ہے ، اگر وہ نہ ہوتا تو میں مرجاتا یا میری زندگی تباہ ہوجاتی اور میں بے چارہ رہ جاتا ۔( نور الثقلین جلد ۲ ص ۴۷۶) ۔

یہاں غیر خد اکو روزی اور نعمات بخشنے میں خدا کا شریک شمارکیا گیا ہے ۔

خلاصہ یہ کہ مندرجہ بالاآیت میں شرک سے مراد کفر، انکار خدا اور ظاہری طور پر بت پرستی کرنا نہیں ہے ۔ جیسا کہ امام علی بن موسیٰ رضا (علیه السلام) سے نقل ہوا ہے کہ آپ (علیه السلام) نے فرمایا :

شرک لایبلغ به الکفر

ایسا شرک جو کفر کے درجے تک نہ پہنچے ۔

البتہ وسیع مفہوم کے لحاظ سے شرک میں یہ تمام امر شامل ہیں ۔

زیر بحث آخری آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو ایمان نہیں لائے ، جو خدا کی واضح آیات کے قریب سے بے خبر گز رجاتے ہیں او رجو اپنے اعمال میں مشرک ہیں خدا تعالیٰ انہیں خبر دار کرتے ہوئے کہتا ہے : کیا یہ لوگ اپنے آپ کو اس امر سے مامون سمجھتے ہیں کہ اچانک اور بغیر کسی تمہید کے انہیں عذاب الہٰی آگھیرے ، احاطہ کرنے والا ایسا عذاب کہ جو ان کے سب کو آگھیرے( اٴَفَاٴَمِنُوا اٴَنْ تَأتیَهمْ غَاشِیَةٌ مِنْ عَذَابِ اللهِ ) ۔اور یا یہ کہ ناگہاں قیامت آپہنچے اور عظیم خد ائی عدالت لگ جائے اور ان کا حساب کتاب شروع ہو جائے کہ جب وہ بے خبر اور غافل ہوں( اٴَوْ تَأتیَهُمْ السَّاعَةُ بَغْتَةً وَهُمْ لاَیَشْعُرُونَ ) ۔

” غاشیہ” ڈھانپنے والی چیز اور ڈھکنے کے معنی میں ہے ۔ دیگر چیزوں کے علاوہ ھگوڑے کی زین پر ڈالنے جانے والے بڑے کپڑے کو بھی غاشیہ کہتے ہیں جو اسے ڈھانپ دیتا ہے ۔ یہاں پر اس سے مراد وہ سزا ہے جو تمام بد کاروں کا گھیر لے گی ۔(۳)

”ساعة “ سے مراد قیامت ہے جیسا کہ بہت سی دوسری قرآنی آیات میں یہ لفظ اسی معنی میں آیا ہے ۔ البتہ یہ احتمال بھی ہے کہ ” ساعة“ ہولناک حوادث کے لئے کنایہ ہوکیونکہ قرآنی آیات بار بار کہتی ہیں کہ قیامت کے دن کا آغاز بہت ہی زیادہ ہولناک حوادث کے ایک سلسلے سے ہوگا ۔ مثلاً زلزلے ، طوفان اور بجلیاں یاموت کی گھڑی کی طرف اشارہ ہے ۔ پہلو تفسیر زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے ۔

____________________

۱۔ تفسیر فی ظلال جلد ۵ ص ۵۳۔

۲۔ نور الثقلین جلد ۲ ص ۴۷۵ و اصول ِ کافی جلد ۲ ص ۲۹۲۔

۳۔ ”غاشیہ“ یہاں اس لئے مونث ہے کہ یہ لفظ” عقوبہ“ کی صفت ہے کہ جو مقدر ہے ۔

آیات ۱۰۸،۱۰۹،۱۱۰،۱۱۱

۱۰۸ ۔( قُلْ هَذِهِ سَبِیلِی اٴَدْعُو إِلَی اللهِ عَلَی بَصِیرَةٍ اٴَنَا وَمَنْ اتَّبَعَنِی وَسُبْحَانَ اللهِ وَمَا اٴَنَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ ) ۔

۱۰۹ ۔( وَمَا اٴَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ إِلاَّ رِجَالًا نُوحِی إِلَیْهِمْ مِنْ اٴَهْلِ الْقُرَی اٴَفَلَمْ یَسِیرُوا فِی الْاٴَرْضِ فَیَنْظُرُوا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الَّذِینَ مِنْ قَبْلهِمْ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَیْرٌ لِلَّذِینَ اتَّقَوْا اٴَفَلاَتَعْقِلُونَ ) ۔

۱۱۰ ۔( حَتَّی إِذَا اسْتَیْئَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا اٴَنّهُمْ قَدْ کُذِبُوا جَائَهُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّیَ مَنْ نَشَاءُ وَلاَیُرَدُّ بَاٴْسُنَا عَنْ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِینَ ) ۔

۱۱۱ ۔( لَقَدْ کَانَ فِی قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِاٴُوْلِی الْاٴَلْبَابِ مَا کَانَ حَدِیثًا یُفْتَرَی وَلَکِنْ تَصْدِیقَ الَّذِی بَیْنَ یَدَیْهِ وَتَفْصِیلَ کُلِّ شَیْءٍ وَهُدًی وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ ) ۔

ترجمہ

۱۰۸ ۔ کہہ دو : یہ میرا راستہ ہے کہ میں اور میرے پروکار پوری بصیرت سے لوگوں کو خد اکی طرف دعوت دیتے ہیں ۔ خدا منزہ ہے او رمیں مشرکین میں سے نہیں ہوں ۔

۱۰۹ ۔ اور ہم نے تجھ سے پہلے نہیں بھیجا مگر شہر والوں میں سے ان مردوں کو کہ جن کی طرف ہم نے وحی کی ہے ۔ کیا ( تیری دعوت کے مخالفین نے ) زمین میں سیر نہیں کی کہ وہ دیکھیں کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا کیا انجام ہوا اور آخرت کا گھر پر ہیز گاروں کے لئے بہتر ہے کیا تم عقل و فکر سے کام نہیں لیتے ۔

۱۱۰ ۔ ( انبیاء نے اپنی دعوت اور دشمنوں نے اپنی مخالفت اسی طرح جاری رکھی) یہاں تک کہ پیغمبر مایوس ہو گئے اور انہوں نے گمان کیا کہ (حتی مومنین کے چھوٹے سے گروہ نے بھی ) ان سے جھوٹ بولا تو اس موقع پر جاری مدد ان کے پاس آئی۔ ہم جس شخص کو چاہتے ہیں نجات دیتے ہیں اور زیاں کار قوم کے لئے ہماری سزا اور عذاب کو پلٹا یانہیں جاسکتا ۔

۱۱۱ ۔ ان کی سر گزشتوں میں صاحبان ِ فکر کے لئے درس عبرت ہے ۔ یہ واقعات جھوٹی بات نہیں تھے بلکہ ( آسمانی وحی ہے اور ) گزشتہ آسمانی کتب ) سے ہم آہنگ ہیں جو اس کے سامنے ہیں اور ہر چیز ( کہ جو سعادت انسانی کی بنیاد ہے ) کی تشریح اور ہدایت و رحمت ہے ایسے گروہ کے لئے کہ جو ایمان لایا ہے ۔

عبرت کے زندہ درس

زیرنظر پہلی آیت میں پیغمبر اسلام سے اپنے آئین ، دین ، روش اور خط کو مشخص کرنے کے لئے کہا گیا ہے ۔ فرمایا گیا ہے : کہہ دو : میری راہ اور طریقہ یہ ہے کہ سب کو اللہ کی طرف ( کہ جو ایک اکیلا خدا ہے ) دعوت دوں( قُلْ هَذِهِ سَبِیلِی اٴَدْعُو إِلَی اللهِ ) ۔

اس کے بعدمزید فرمایا گیاہے : یہ سفر میں نے بے خبری یا تقلیداً اختیار نہیں کیا بلکہ میں خود او رمیرے پروکا ردنیا کے سب لوگوں کو اس راستے کی طرف آگاہی اور بصیرت سے بلاتے ہیں( عَلَی بَصِیرَةٍ اٴَنَا وَمَنْ اتَّبَعَنِی ) ۔

یہ جملہ نشاندہی کرتا ہے کہ پیغمبر اکرم کا پیر وکار ہر مسلمان اپنے مقام پر حق کی طرف بلانے والاہے اسے چاہیئے کہ اپنی گفتار اور کردار سے دوسروں کو راہ ِ خدا کی طرف دعوت دے ۔ نیز یہ جملہ نشاندہی کرتا ہے کہ ” رہبر کو کافی بصیرت ، بینائی اور آگاہی کا حامل ہونا چاہئیے ورنہ اس کی دعوت حق کی طرف نہیں ہوگی ۔

اس کے بعد بطور تاکید کہا گیاہے : خد یعنی وہ ذات جس کی طرف میں دعوت دیتا ہوں ہر قسم کے عیب ، نقص ، شبیہ اور شریک سےپاک او رمنزہ ہے( و سبحان الله ) ۔

مزید تاکید کے لئے ارشاد ہوتا ہے :” میں مشرکین میں سے نہیں ہوں “ اور میں اس کے لئے کسی قسم کے شبیہ و شریک کا قائل نہیں ہوں( وَمَا اٴَنَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ ) ۔

واقعاًایک سچے رہبر کی ذمہ داریوں میں سے ہے کہ صراحت سے اپنے پروگراموں اور اہداف کا اعلان کرے او روہ خود اور اس کے پیرو کار بھی ایک مشخص پروگرام کی پیروی کریں ۔ نہ یہ کہ اس کا ہدف ، روش اور طریقہ ابہام میں ہو یایہ کہ ہر ایک الگ الگ راہ پر چل رہاہو۔ اصولی طور پر سچے رہبروں کو جھوٹے رہبروں سے جد اپہچاننے کا یہی ایک راستہ ہے کہ یہ صراحت سے گفتگو کرتے ہیں اور ان کا راستہ واضح ہوتا ہے جب کہ جھوٹے کاموں کا چھپائے رکھتے ہیں اور ہمیشہ مبہم پہلو دار باتیں کرتے ہیں ۔

حضرت یوسف (علیه السلام) سے متعلق آیات کے بعد اس آیت کا آنا اس طرف اشارہ ہے کہ میری راہ و رسم خد اکے عظیم پیغمبر حضرت یوسف (علیه السلام) کی راہ و رسم سے جدا نہیں ہے ۔ وہ بھی ہمیشہ یہاں تک کہ گوشہ زندان میں بیٹھ کر بھی خدائے واحدو قہار کی طرف دعوت دیتے تھے اور اس کے اغیار کو اسماء بے مسمیٰ شمار کرتے تھے کہ جو تقلیداً جاہلوں کے ایک گروہ سے دوسرے تک پہنچے تھے ۔ جی ہاں ! میری روش او رتمام انبیاء کی روش یہی ہے ۔

گمراہ اور نادان قوموں کی طرف سے انبیاء پرہمیشہ یہ اعتراض ہوتا تھا کہ وہ انسان کیوں ہیں ، یہ ذمہ داری فرشتے کے کندھے پر کیوں نہیں رکھی گئی ؟ طبعاً زمانہ جاہلیت کے لوگ بھی پیغمبر اسلام پر ان کی عظیم دعوت کے جواب میں یہی اعتراض کرتے تھے لہٰذا قرآن مجید ایک مرتبہ پھر اعتراض کا جواب دیتا ہے : ہم نے تجھ سے پہلے کوئی پیغمبر نہیں بھیجے مگر یہ کہ وہ مرد تھے کہ جن کی طرف وحی نازل ہوتی تھی ، ایسے مرد کہ جو آباد شہروں اور عوامی مراکز سے اٹھتے تھے( وَمَا اٴَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ إِلاَّ رِجَالًا نُوحِی إِلَیْهِمْ مِنْ اٴَهْلِ الْقُرَی ) ۔

وہ بھی انہی شہروں اور آباد یوں میں دوسرے انسانوں کی طرح زندگی بسر کرتے تھے او رلوگوں سے میل جول رکھتے تھے ۔ ان کی مصیبتوں ، تکلیفوں ، ضروتوں اور مشکلوں سے اچھی طرح آگاہ تھے ۔

آیت میں لفظ ” من اھل قریٰ“ آیا ہے ، یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ عربی زبان میں لفط ”قریة “ ہر قسم کے شہر آباد ی کو کہا جاتا ہے او ریہ لفظ ”بدو“ کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے جس کا معنی ہے بیان ۔ ہوسکتا ہے یہ ضمنی طور پر ا س طر اشارہ ہو کہ انبیاء الہٰی ہر گز بیابانوں نشینوں میں سے نہیں ہوتے تھے ( جیسا کہ بعض مفسرین نے تصریح بھی کی ہے ) کیونکہ بیابانوں میں گردش کرنے والے عام طور پر جہالت ، نادانی اور قساوت قلبی میں گرفتار ہوتے ہیں اور مسائل زندگی اور روحانی و مادی ضروریات سے بہت کم آگاہی رکھتے ہیں ۔

یہ ٹھیک ہے کہ سر زمین حجاز میں صحرا نورد اعراب او ربدو بہت زیادہ تھے لیکن پیغمبر اسلام مکہ میں مبعوث ہوئے کہ جو اس وقت نسبتاً بڑا شہر تھا اور یہ ٹھیک ہے کہ کنعان کا علاقہ سر زمین مصر کہ جس میں یوسف (علیه السلام) حکومت کرتے تھے کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا اسی بناء پر حضرت یوسف (علیه السلام) نے اس کے بارے میں لفظ ” بدو“ استعمال کیا لیکن ہم جانتے ہیں پیغمبر خد احضرت یعقوب (علیه السلام) اور ان کے بیٹے کبھی بھی صحرانورد اور بیاباں نشین نہیں تھے بلکہ ایک چھوٹے سے قصبے کنعان میں زندگی بسر کرتے تھے ۔

پھر مزید فرمایا گیا ہے : یہ جو تیری دعوت کے خلاف ہیں ، جب کہ تیری دعوت توحید کی طرف ہے ان کے لئے بہتر ہے کہ جائیں اور گزشتہ لوگوں کے آثار اور نشانات دیکھیں تاکہ یہ سمجھ سکیں کہ ان کی مخالفتوں کا انجام کیا ہو گا ۔ کیا انہوں نے زمین میں چل پھر کر نہیں دیکھا کہ وہ دیکھ سکتے کہ گذشتہ قوموں کا انجام کیا ہوا( اٴَفَلَمْ یَسِیرُوا فِی الْاٴَرْضِ فَیَنْظُرُوا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الَّذِینَ مِنْ قَبْلهِمْ ) ۔

کیونکہ یہ” زمین میں سیر “ روئے زمین پر گردش ۔ گزشتہ لوگوں کے آثار کا مشاہدہ اور عذاب الہٰی کی تباہ کن ضربوں کے نتیجے میں ان کے محلوں اور آبادیوں کی ویرانی بہترین درس ہے ۔ یہ زندہ اور محسوس درس ہے اور ایسا درس ہے جوسب کے لئے قابل لمس ہے ۔

آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے : اور آخرت کا گھر پر ہیز گاروں کے لئے مسلماً بہتر ہے( وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَیْرٌ لِلَّذِینَ اتَّقَوْا ) ۔

کیا تمام عقل سے کام نہیں لیتے اور اپنی فکر و نظر کو کام میں نہیں لاتے( اٴَفَلاَتَعْقِلُونَ ) ۔کیونکہ یہاں کا گھر تو ناپائیدار ہے ۔ یہاں تو طرح طرح کے مصائب و آلام و تکلیفیں ہیں لیکن وہاں کا گھر جاودانی ہے اور ہر قسم کے نج و تکلیف اور پریشانی سے خالی ہے ۔

بعد والی آیت میں انبیاء کی زندگی کے حساس ترین اور زیادہ بحرانی لمحات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے : خدائی پیغمبر حق کی طرف دعوت دینے کی راہ میں استقامت دکھاتے تھے اور ڈٹے رہتے تھے اور دوسری طرف گمراہ اور سر کش قومیں اپنی مخالفت کو اس طرح جاری رکھتی تھیں کہ آخر کار انبیاء مایوس ہو جاتے اور گمان کرنے لگتے کہ شاید مومنین کے چھوتے سے گروہ نے بھی ان سے جھوٹ بولا ہے اور اپنی دعوت کے راستے میں وہ تن نہا ہیں ۔ اس وقت کے جب ہر طرف سے ان کی امید ختم ہو گئی تو ہماری طرف سے نصرت و کامیابی آپہنچی جسے ہم چاہتے ہیں اور اہل پاتے ہیں ، نجات دیتے ہیں

( حَتَّی إِذَا اسْتَیْئَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا اٴَنّهُمْ قَدْ کُذِبُوا جَائَهُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّیَ مَنْ نَشَاءُ ) ۔(۱)

آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے : ہمارا عذا ب و عقاب گنہگار اور مجرم قوم سے پلٹا ی انہیں جائے گا( وَلاَیُرَدُّ بَاٴْسُنَا عَنْ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِینَ ) ۔

یہ ایک سنت الٰہی ہے کہ جب مجرمین اپنے کام پر اصرار کرتے ہیں اور اپنے اوپر ہدایت کے دروازے بند کرلیتے ہیں اور ان پر اتمام حجت ہو جاتی ہے تو پھر خدا ئی عذا ب اور سزائیں ان کا تعاقب کرتی ہیں اور پھر کسی کی قدرت میں نہیں کہ انہیں پلٹا سکے ۔

اس آیہ کی تفسیر کے متعلق اور یہ کہ ” ظنوا انھم قد کذبوا “کس گروہ کے بارے میں ہے ، مفسرین کی مختلف آراء ہیں ۔

جو کچھ ہم نے سطور بالا میں کہا ہے یہی تفسیر بہت سے علماء نے انتخاب کی ہے ۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انبیاء کا معاملہ اس حد تک پہنچ جاتا تھا کہ وہ گمان کرنے لگتے کہ بغیر کسی استثناء کے تما م لوگ ان کی تکذیب کریں گے یہاں تک کہ اظہار ایمان کرنے والے مومنین بھی اپنے عقیدے میں ثابت قدم نہیں ہیں ۔

اس کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ ” ظنوا“ کا فاعل مومنین ہیں ۔ یعنی مشکلات اور بحران کا عالم یہ ہوتا کہ ایمان لانے والے یہ خیال کرتے کہ کہیں انبیاء کی طرف سے دیا جانے وال نصرت و کامیابی کا وعدہ غلط نہ ہو او ریہ سوئے ظن اور تزلزل نئے ایمان لانے والوں میں پیدا ہو نا کوئی بعید نہیں ہے ۔

بعض نے آیت کی ایک اور تفسیر بھی کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ” انبیاء بلا کش و سبہ بشر تھے ۔ جب انہیں زیادہ طولانی حالات کا سامنا ہو تا تو حالا ت کی اس سنگینی کا اثر ان پر بھی ہو تا ۔ وہ دیکھتے کہ تمام دروازے بند ہو گئے ہیں او رکشائش کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا ، طولانی حوادث کے تھپیڑمسلسل انہیں پڑتے اور جن مومنین کے صبر کا یمانہ لبریز ہو جاتا ان کی فریاد متواتر ان کے کانوں سے تکراتی رہتی ۔

جی ہاں ! اس حالت میں ایک ناپائیدار لمحے میں طبیعت بشری کی بناء پر بے اختیار یہ فکر ان کے دماغ سے ٹکراتی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کامیابی کا وعدہ ہی غلط ثابت ہو جائے یا ممکن ہے کامیابی کا وعدہ ایسے شرائط سے مشروط ہو کہ جو حاصل نہ ہوئی ہوں لیکن بہت جلد وہ اس فکر پر غالب آجاتے اور اسے صفحہ دل سے محوکردیتے او رامید کی بجلی ان کے دلوں میں کوندنے لگتی اور ا س کے ساتھ ہی کامیابی کے آثار اور ہرا ول دستے ظاہر ہو تے “ ۔

اس تفسیر کے لئے انہوں نے سورہ بقرہ کی آیہ ۲۱۴ سے شاہد پیش کیا ہے :

( حتی یقول الرسول و الذین اٰمنوا معه نصر الله )

یعنی ۔ گزشتہ قومیں شدائد ومصائب کے بھنور میں اس طر پھنس گئیں اور وہ خود سے لرزنے لگیں یہاں تک کہ ان کے پیغمبر اور ان پر ایمان لانے والے پکارکے کہتے تھے : کہاں ہے خدا کی نصرت .لیکن انہیں جواب دیا جاتا تھا :

( الا ان نصر الله قریب )

مفسرین کی ایک جماعت مثلاً طبرسی نے مجمع البیان میں اور فخر رازی نے تفسیر کبیر میں یہ احتمال ذکر کرنے کے بعد اسے بعید قرار دیا ہے کیونکہ مقامِ انبیاء سے اس قدر بھی بعید ہے ۔

بہر حال پہلی تفسیر زیادہ صحیح ہے ۔

اس سورہ کی آخری آیت ایک جامع مضمون کی حامل ہے ۔ ا س میں وہ تمام مباحث مختصر سے الفاظ میں جمع کردیئے گئے ہیں جو اس سورہ میں گزرے ہیں اور وہ یہ کہ حضرت یوسف (علیه السلام) ، ان کے بھائیوں ، گزشتہ انبیاء و مرسلین اور مومن و غیرہ قوموں کی سر گزشتاور حالات ِ زندگی میں غور وفکر کرنے والے تمام صاحبانِ عقل کے لئے عبرت کے عظیم درس موجود ہیں( لَقَدْ کَانَ فِی قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِاٴُوْلِی الْاٴَلْبَابِ ) ۔

گزرے ہوؤں کی سر گزشت ایک آئینہ جس میں فتح و شکست ، کامیابی و ناکامی ، خو بختی و بد بختی اور سر بلندی و ذلت سب کچھ بھی دیکھا جاسکتا ہے ، خلاصہ یہ کہ انسان اس آئینے میں وہ کچھ دیکھ سکتا ہے جو اس کی زندگی میں اہمیت اور منزلت رکھتا ہے اور وہ کچھ بھی دیکھ سکتا ہے جو ا س کی زندگی میں اہمیت و منزلت نہیں رکھتا ۔ یہ وہ آئینہ ہے جس میں گزشتہ قوموں اور عظیم رہبروں کے تمام تجر بات کا ماحصل نظر آتا ہے ۔ یہ ایک ایسا آئینہ ہے کہ جس کا مشاہدہ کم عمر والے انسان کو تمام عالم بشریت کی عمر کے برابر طولانی زندگی والا کر دیتا ہے ۔

لیکن صرف اولو االباب اور صاحبان فکر ہی ہیں جو اس عجیب و غریب آئینہ سے ان نقوش عبرت کو دیکھ سکتے ہیں ۔

مزید فرمایا گیا ہے : جو کچھ کہا گیاہے کوئی گھڑا ہوا افسانہ اور خیالی داستان نہیں ہے( مَا کَانَ حَدِیثًا یُفْتَرَی ) ۔

یہ آیات جو تجھ پر نازل ہوئی ہیں اور گزشتہ لوگوں کو صحیح تاریخ کے چہرے سے پردہ ہٹاتی ہیں تیرے دماغ اور فکر کی پیدا وار نہیں ہیں ” بلکہ یہ ایک عظیم آسمانی وحی ہے ، گزشتہ انبیاء کی بنیادی کتب کی تصدیق کرتی ہے اور ان کی شہادت دیتی ہے “( وَلَکِنْ تَصْدِیقَ الَّذِی بَیْنَ یَدَیْهِ ) ۔

علاوہ ازیں جس چیز کی انسان کو ضرورت ہے اور جو کچھ اس کی سعادت اور تکامل کے لئے درکار ہے وہ ان آیات میں آیا ہے( وَتَفْصِیلَ کُلِّ شَیْءٍ ) ۔

اسی بناء پر یہ جستجو کرنے والوں کے لئے سرمایہ ہدایت ہے اور تمام ایمان لانے والوں کے باعثِ رحمت ہے( وَهُدًی وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ ) ۔

گویا مندرجہ بالا آیت میں اس نکتے کی طرف اشارہ کرنا چاہتی ہے کہ کوبصورت اور دل انگیز داستانیں و بہت ہیں اور تمام قوموں میں ہمیشہ خیالی اور دلکش افسانے بہت رہے ہیں کہیں کوئی یہ تصور نہ کرے کہ یوسف (علیه السلام) کی سر گزشت یا قرآن میں آنے والے دیگر انبیاء کے واقعات بھی اسی قبیل سے ہیں ۔

یہ امر بہت اہم ہے کہ یہ عبرت انگیز اور جھنجھوڑ نے والے واقعات عین حقیقت ہیں اور ان میں ذرہ بھر انحراف نہیں اور نہ کوئی خارجی چیز ان میں شامل کی گئی ہے ۔ اسی بنا ء پر ان کی تاثیر بہت زیادہ ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ خیالی افسانہ کتنا ہی جاذب نظر ، ہلادینے والا اور مرتب و منظم ہو اس کی تاثیر ایک حقیقی واقعے کی نسبت کچھ بھی نہیں ہے ..کیونکہ :

اولاً:۔ جس وقت سننے والا پڑھنے والا داستان کے زیادہ ہیجان انگیز لمحات تک پہنچتا ہے اور اس سے لرز نے لگتا ہے تو اچانک یہ خیال بجلی کی کرنٹ کی طرح اس کے دماغ میں پیدا ہوتا ہے کہ یہ ایک خیالی تصوراتی چیز سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔

ثانیاً:۔یہ واقعات اور داستانیں در اصل انہیں پیش کرنے والے کی فکر کو بیان کرتی ہیں ۔ وہ اپنے افکار اور خواہشات کا نچور داستان کے ہیرو کے کردار میں مجسم کرتا ہے ۔

لہٰذا ایک خیالی داستا ن ایک انسان کی فکر سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور یہ چیز ایک عینی حقیقت سے بہت مختلف ہے ۔خیالی بات کہنے والے کی نصیحت اور وعظ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی لیکن انسانوں کی حقیقی تاریخ کی یہ صورت نہیں ہے وہ تو نتیجہ خیز ، پر بر کت اور ہر لحاظ سے راہ کشا ہوتی ہے ۔

سورہ یوسف (علیه السلام)کا اختتام

پروردگارا !

ہمیں چشم بینا ، گوش سنوا اور قلب دانا مرحمت فرما ۔

تاکہ ہم گزشتہ لوگوں کی سر گزشتوں سے اپنی نجات کے راستے تلاش کرسکیں اور ان مشکلات سے نکل جائیں کہ جن میں اس وقت ہم غوطہ زن ہیں ۔

خدا وندا !

ہمیں تیز نگاہ عطا فرما ۔

تاکہ ہم اقوم ِ عالم کے انجام سے سبق حاصل کریں اور کایابی کے بعد اختلاف و انتشار کی بناء پر دردناک ترین شکستوں سے دوچار ہونے والی اقوام کو ہم دیکھیں اور اس طرح ہم اس راستے پر نہ چلیں جس پر وہ قومیں چلی ہیں ۔

بارالٰہا !

ہمیں ایسی خالص نیت عطا فرما کہ ہم نفس کے دیو کے سر پر پاؤں رکھ دیں اور ایسی معرفت عطا فرما .کہ

ہم کامیابی پر مغرور نہ ہوں اور ایسی گزشت و بخشش عطا فرم کہ

اگر دوسرا ہم سے بہتر اکام انجام دے تو وہ کام ہم اس کے سپرد کردیں ۔

اگر یہ چیزیں تو ہمیں مر حمت فرمادے تو ہم تمام مشکلات پر کامیابی حاصل کرسکتے ہیں اور ہم اسلام و قرآن کا چراغ ساری دنیا میں روشن رکھ سکتے ہیں ۔

____________________

۱۔’ ’ حتیٰ“ محذوف جملے کے لئے غایت و انتہا کی شکل میں ذکر ہوا ہے اور اس کی تقدیر اس طرح ہے :ان الرسل اقاموا علی دوتهم و الکافرین بهم علی مخالفتهم حتیٰ ازا تیئس الرسل