تفسیر نمونہ جلد ۱۰

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 30348
ڈاؤنلوڈ: 2949


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 93 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30348 / ڈاؤنلوڈ: 2949
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 10

مؤلف:
اردو

سورہ رعد

آسمان و زمین اورسبزہ زار خدا کی نشانیاں ہیں

اس سورہ کے آغاز میں ہم پھر قرآ ن کے حروف مقطعات کا سامنا کررہے ہیں ۔ ایسے الفاظ قرآن کی ۲۹ سورتوں کی ابتداے میں آئے ہیں ۔ یہاں آنے والے حروف در اصل ” الم“ اور ” الر“ کا مرکب ہیں جو چند دیگر سورتوں کی ابتداء میں الگ الگ آئے ہیں ۔ درحقیقت یہ وہ واحد سورة ہے جس کی ابتداء میں ”المر“ نظر آتا ہے اور چونکہ ہر سورہ کی ابتداء میں جو حروف مقطعات آتے ہیں وہ اس سورہ کے مضامین کے ساتھ براہ راست تعلق رکھتے ہیں لہٰذا احتمال ہے کہ یہ ترکیب جو سورہ رعد کی ابتداء میں آئی ہے اس طرف اشارہ ہے کہ سورہ رعد کے مضامین ان دونوں قسم سورتوں کے مضامین کے جامع ہیں جن کی ابتداء میں ” الم“ اور الر“ آیا ہے اور اتفاق کی بات ہے کہ ان سورتوں کے مضامین میں غور و خو کرنے سے اس امر کی تائید ہو تی ہے ۔

قرآن کے حروف مقطعات کی تفسیر کے بارے میں اب تک ہم نے سورہ بقرہ ، سورہ آل عمران ، اور سورہ اعراف کے آغاز میں تفصلی بحث کی ہے کہ جس کی تکرار کی ہم ضرورت محسوس نہیں کرتے۔

بہر حال اس سورہ کی سب سے پہلی آیت عظمت قرآن کے بارے میں گفتگو کرتی ہے۔

” یہ عظیم آسمانی کتاب کی آیات ہیں ”( تِلْکَ آیَاتُ الْکِتَابِ ) “۔(۱)

اور جو کچھ تیرے پر وردگار کی طرف سے تجھ پر نازل ہوا ہے وہ حق ہے “( وَالَّذِی اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ الْحَقُّ ) )۔اور اس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ حقائق عینی بیان کرنے والا جہاں آفرینش اور اس کے انسان سے روابط عینی کا شاہد ہے ۔

یہ ایسا حق ہے جو باطل میں ملا ہو انہیں ہے ۔ اسی لئے اس کی حقانیت کی نشانیاں اس کے چہرے سے ہویدار ہیں اور یہ مزید استدلال کی ضرورت نہیں رکھتا ۔

لیکن اس کے باوجود بوالہوس اور نادان لوگ ، کہ جن کی اکثریت ہے، ان آیات پر ایمان نہیں لاتے( وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَ النَّاسِ لاَیُؤْمِنُونَ ) ۔

کیونکہ اگر انسان کو اس کی اپنی حالت پر چھوڑ دیا جائے اور وہ پاک دل معلم کی پیروی نہ کرے کہ جو راہِ حیات میں اس کی ہدایت اور تربیت کرے اور اس طرح ہوا و ہوس کی پیروی کرنے میں بھی آزاد ہو تو اکثر وہ اپنے آپ کو ان کے اختیار میں دے دیں تو پھر اکثریت راہِ حق پر چلے گی۔

اس کے بعد تو حید اور عالم آفرینش میں خدا کی نشانیوں کے اہم دلائل کی تشریح کی گئی ہے اور خاکی انسان کو آسمانوں کی وسعت میں گردش کرنے پر ابھارا گیا ہے اور ا س کے لئے ان عظیم کروں ، ان کے نظام ِ حرکت اور ان کے اسرار کی نشاندہی کی گئی ہے تاکہ وہ اس کی لامتناہی اور بے پایاں قدرت و حکمت کو جان سکے، کس قدر خوبصورتی سے فرمایا گیا ہے : خدا وہی ہے جو آسمانوں کو جیسا تم دیکھتے ہو بغیر ستون کے قائم کئے ہوئے ہے یا وہ انہیں غیر مرئی ستونوں کے ساتھ بلند کئے ہوئے ہے( اللهُ الَّذِی رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا )(۲)

” بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَھَا “کے بارے میں دو تفسریں بیان کی ہیں :

پہلی یہ کہ ” جس طرح تم دیکھتے ہو آسمان بغیر ستون کے ہے ( گویا اصل میں ایسے تھا :( ترونها بغیر عمد ) ۔

دوسری یہ کہ ” ترونھا“ صفت ہے ”عمد “ کے لئے کہ جس کا معنی یہ ہے کہ آسمانون کو بغیر کسی مرئی ستون کے بلند کیا گیا ، جس کا لازمہ ہے کہ آسمان کے لئے ستون جو غیر مرئی ہے ۔

پہلی بات امام علی بن موسیٰ رضاعليه‌السلام سے حسین بن خالد کی حدیث میں آئی ہے ، وہ کہتا ہے :

میں نے امام ابو الحسنعليه‌السلام رضاعليه‌السلام سے پوچھا : یہ خدا کہتا ہے ”( والسماء ذات الحیک ) “ ( اس آسمان کی قسم جو راستوں کا حامل ہے ) اس سے کیا مراد ہے ؟

امامعليه‌السلام نے فرمایا :

اس آسمان کے زمین کی طرف راستے ہیں ۔

حسین بن خالد کہتے ہیں : میں نے عرض کیا:

یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آسمان زمین کے ساتھ ارتباطی راستہ رکھتا ہو حالانکہ خدا فرماتا ہے : آسمان ستون کے بغیر ہیں

اس پر امام نے فرمایا:

سبحان الله ! لیس الله یقوم : بغیر عمد ترونها

سبحان اللہ ! کیا خدا نے نہیں فرمایا : بغیر ایسے ستون کے جو قابل مشاہدہ ہو؟

فقلت بلیٰ

راوی کہتا ہے : میں نے کہا جی ہاں

فقال ثم عمد ولٰکن لاترونها

فرمایا : پس ستون تو ہیں لیکن تم انہیں نہیں دیکھ پاتے ۔ ۳

اس حدیث کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ جو زیر بحث آیت کی تفسیر میں آئی ہے ، اس آیت نے ایک سائنسی حقیقت کے چہرے سے پردہ اٹھا یا ہے کہ جو نزول آیات کے وقت کسی پر آشکار نہیں تھی کیونکہ اس نے زمانے میں بطلیموس کی ہیئت اپنی پوری طاقت کے ساتھ دنیا کے سائنسی مسائل اور لوگوں کے افکار و نظر یات پر حکمران تھی اور اس کے مطابق آسمان ایک دوسرے پر پیاز کے چھلکے کی طر ح کرات کی شکل میں تھے ۔ ظاہر ہے اس طرح تو ان میں کوئی بھی معلق اور ستون کے بغیر نہ تھا بلکہ ہر ایک دوسرے کا سہارا لیئے ہو ئے تھا لیکن ان آیات کے نزول کے تقریبا ً ایک ہزار سال بعد انسانی علم ا س مقام پر پہنچا ہے کہ پیاز کے چھلکوں والے افلاک کی بات موہومی ہے ۔

واقعیت یہ ہے کہ آسمانی کرات میں سے ہر ایک اپنے مدار اور جگہ سے بغیر کسی سہارے کے ثابت اور معلق ہے اور وہ واحد چیز جو انہیں اپنی جگہ پر قائم رکھے ہوئے ہے وہ قوت جاذبہ اور دافعہ کا اعتدا ل ہے کہ جن میں سے ایک ان کے کرات کے جرم سے تعلق رکھتی ہے اور دوسری ان کی حر کت کے ساتھ مربوط ہے ۔

جاذبہ و دافعہ کا یہ اعتدال غیر مرئی ستون کی شکل میں آسمانی کرات کو اپنی جگہ پر قائم رکھے ہوئے ہے ۔

اس سلسلے میں ایک حدیث جو امیر المومنین علیعليه‌السلام سے نقل ہوئی ہے بہت ہی جاذب نظر ہے ۔ اس حدیث کے مطابق امام علیہ السلام نے فرمایا :

هٰذه النجوم التی فی السماء مدائن مثل مدائن فی الارض مربوطة کل مدینة الیٰ عمود من نور .(۴)

یہ ستارے جو آسمان میں ہیں یہ زمین کے شہروں کی طرح شہر ہیں کہ جن میں سے ہر شہر دوسرے شہر کے ساتھ ( ہر ستارہ دوسرے ستارے کے ساتھ ) نور کے ایک ستون کے ذریعے مربوط ہے ۔

کیا اس زمانے کے افق ادبیات میں قوت جاذبہ کی امواج اور ان کے قوتِ دافعہ میں اعتدال کے لئے ” غیر مرئی ستون “ اور ” نورانی ستو ن“ سے بڑھ کر روشن اور رسا تعبیر ہو سکتی تھی ؟(۵)

اس کے بعدفرمایا گیا ہے : خد انے بغیر ستون کے ان آسمانوں کو پیدا کرنے کے بعد کہ جو اس کی لامتناہی عظمت و قدرت کی واضح نشانی ہیں عرش کا کنٹرول سنبھالا، یعنی عالم ہستی کی حکومت اپنے قبضے میں لی( ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْشِ ) ۔

”عرش“ کے معنی اور اس پر خدا کے تسلط کے مفہوم کے سلسلے میں سورہ اعراف کی آیہ ۵۴ کے ذیل میں کافی بحث ہو چکی ہے ۔(۶)

آسمانوں کی خلقت اور ان پر پروردگار کی حکومت کا ذکرکرنے کے بعد سورج اور چاند کی تسخیر کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : وہ وہی ہے جس نے سورج اور چاند کا مسخر کیااور ا نہیں فرمابر دار اور خدمت گزار قرار دیا( وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ) ۔

اس سے بڑھ کر اور کیا تسخیر ہو گی کہ یہ سب اس کے فرمان کے سامنے سر نگوں ہیں نیز انسانوں اور تمام زندہ موجودات کے خدمت گزار ہیں ، نور چھڑکتے ہیں ۔ ایک عالم کو روشن کرتے ہیں ، موجودات کا بستر گرم کرتے ہیں ،موجودات زندہ کی پرورش کرتے ہیں اور دریاؤں میں مد جزرپیدا کرتے ہیں ۔ خلاصہ یہ کہ تمام حرکتوں اور بر کتوں کا سر چشمہ ہیں ۔

لیکن جہان مادہ کا یہ نظام جاودانی اور ابدی نہیں ہے اور شمس و قمر میں سے ہر ایک ، ایک مدت ِ معین تک اپنے راستے پر حرکت جاری رکھے ہوئے ہے( کُلٌّ یَجْرِی لِاٴَجَلٍ مُسَمًّی ) ۔

اس کے بعد قرآن مزیدکہتا ہے کہ یہ حرکات ، گر دشیں ، آمد و شد اور تبدیلیاں بغیر کسی حساب و کتاب کے اور بے نتیجہ و بے فائدہ نہیں ہیں بلکہ ” وہی ہے جو تمام کاموں کا تدبیر کرتا ہے “ اور ہر حرکت کے لئے حساب اور ہر حساب کے لئے ہدف اور مقصد نظر میں رکھتا ہے( یُدَبِّرُ الْاٴَمْر ) ۔

” وہ اپنی آیات تمہارے لئے شمار کرتا ہے اور ان کی باریکیاں تفصیل سے بیان کرتا ہے تاکہ تمہیں لقائے پر وردگار اور دوسرے جہان کا یقین پیدا ہو “( یُفَصِّلُ الآیَاتِ لَعَلَّکُمْ بِلِقَاءِ رَبِّکُمْ تُوقِنُونَ ) ۔

گزشتہ آیت انسان کو آسمانوں پر لے جاتی ہے اور عالم بالا میں اسے آیات الہٰی کی طر ف متوجہ کرتی ہے دوسری آیت انسان کو تو حیدی آیات کے مطالعے کی دعوت دیتی ہے ، انسان کو زمین ، پہاڑوں ، نہروں ، انواع و اقسام کے پھلوں اور سورج کے طلو ع و غروب پر غور کرنے کی طرف متوجہ کرتی ہے تاکہ وہ سوچ بچار کرے کہ اس مقام ِ آسایش و آرام پہلے کیا تھا اور وہ اس شکل میں کیسے آیا۔

قرآن کہتا ہے : وہ وہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا( وَهُوَ الَّذِی مَدَّ الْاٴَرْضَ ) ۔اس نے اسے یوں پھیلایا کہ وہ انسانی زندگی اور نبا تات و حیوانات کی پرورش کے قابل ہو ۔ تند اور خطر ناک گڑھوں اور ڈھلوانوں میں پہاڑ داخل کردیئے اور انہیں پتھروں کو مٹی میں تبدیل کرکے پر کیا اور ان کی سطح کو قابل حیات بنایا حالانکہ ابتداء میں ان کے پیچ و خم ایسے تھے جن میں انسان کے لئے زندگی بسر کرنے کی گنجائش نہیں تھی ۔

اس جملے میں ” مد الارض“ سے یہ احتمال بھی ہے کہ جیسا کہ ماہرین ارض بھی کہتے ہیں ابتداء میں ساری زمین پانی کے نیچے ڈھکی ہو ئی تھی ۔ پھر پانی گڑھوں میں چلا گیا اور خشکیاں تدریجاً پانی سے نما یاں ہو نے لگیں اور دن بدن ان میں وسعت ِ پیدا ئش ہو تی گئی یہاں تک کہ انہوں نے موجوداہ صورت حال اختیار کرلی۔

اس کے بعد پہاڑوں کی پیدائش کے مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے : خدا نے زمین میں پہاڑ بنائے( وَجَعَلَ فِیهَا رَوَاسِیَ ) ۔

وہی پہاڑ....کہ جن کا قرآن کی دوسری آیات میں ” اوتاد“ ( یعنی ” اونچی میخیں “ ) کے طور پر تعارف کروایا گیا ہے ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ نیچے سے پہاڑوں نے ایک دوسرے میں پنجے ڈالے ہوئے ہیں اور زرہ کی طرح ساری سطح زمین کوڈھانپا ہوا ہے تاکہ اندرونی دباؤ بھی ختم کر سکیں اور باہر سے چاند کی بہت زیادہ قوت جاذبہ اور مد جزر کو بھی روکے رکھیں ، اس طرح سے تزلزل اور دائمی زلزلون کو ختم کر سکیں اور کرہ زمین کو انسانی زندگی کے آرام و سکون کے لئے بر قرار رکھیں ۔

زمین کے پھیلانے اور بچھانے کے بعد پہاڑوں کا ذکر گویا اس طرف اشارہ ہے کہ زمین نہ اس طرح سے پھیلائی گئی ہے کہ اس میں کوئی پستی و بلندی نہ ہو کیونکہ اس صورت میں بارشیں اور پانی اس پر نہ ہوتے اور یا ہر جگہ ایک جوہڑ کی صورت میں تبدیل ہو جاتی اور اس کی سطح پر دائمی طوفان جاری رہتے لیکن پہاڑوں کی پیدا ئش سے ان دونوں صورتوں میں امان مل گئی ہے او رنہ ساری زمین پہاڑوں اور در وں پر مشتمل ہے کہ زندگی کے قابل ہی نہ ہو یہ زمین مجموعی طور پر ہموار بھی ہے اور اس میں پہاڑ اور درے بھی ہیں جو نوع بشر اور دیگر زندہ موجودات کی زندگی کے لئے بہترین ترکیب ہے ۔

اس کے بعد ان پانیوں اور دریاؤں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جو روئے زمین پر چلتے ہیں ۔ فرمایا گیا یت : اور اس میں دریا جاری ہیں( وَاٴَنْهَارًا )

زمین کی آبیاری کا نظام پہاڑوں سے ارتباط کا دریا ؤں سے تعلق بہت جاذب نظر ہے کیونکہ زمین کے بہت سے پہاڑوں کی چوٹیوں اور درّوں کے شگافوں میں برف کی صورت میں یہ دریا سٹور ہوتے ہیں جو تدریجا ً پانی کی شکل اختیار کرتے ہیں اور قانون جاذبہ کے مطابق بلند ترین مقامات سے زیر یں اور کشادہ علاقوں کی طرف سفر کرتے ہیں او ربغیر کسی قوت کی احتیاج کے سال بھر طبیعی طور پر بہت وسیع زمینوں کی آبیاری کرتے ہیں اور انہیں سیراب کرتے ہیں اگر زمینون میں مناسب ڈھلوان نہ ہوتی اور پانی اس شکل میں پہاڑوں پر ذخیرہ نہ ہوتا تو زیادہ تر خشک علاقوں کی آبیاری کا امکان نہ ہوتا اور اگر آبیاری ممکن بھی ہوتی تو بہت زیادہ مخارج کی ضرورت پڑتی۔

اس کے بعد غذائی مواد اور ان پھلوں کا ذکر ہے کہ جو زمین ، پانی اور سورج کی روشنی سے وجود میں آتے ہیں اور انسانی غذا کا بہترین وسیلہ ہیں ۔ ارشاد ہوتا ہے : اور تمام پھلوں میں سے جوڑا جوڑا زمین پر قرار دئیے گئے ہیں( وَمِنْ کُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِیهَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ ) ۔

یہ اس طرف اشارہ ہے کہ پھل بھی زندہ موجودات ہیں اور ان میں بھی نر اور مادہ نطفے موجود ہوتے ہیں کہ جو تلقیح سے بار آور وہتے ہیں ۔ دانش مند ”لینہ “ اور مشہور ماہر نباتات ”سوئنڈی “ اٹھارھویں صدی عیسوی کے اواسط میں یہ بات معلوم کرنے میں کامیاب ہوئے کہ عالم نباتات میں زوجیت اور جفت کا معاملہ تقریباً عمومی اور کلی قانون ہے اور نباتات بھی حیوانات کی طرح نر اور مادہ کے نطفہ کی آمیزش سے بار آور ہوتے ہیں اور پھل دیتے ہیں جب کہ قرآن مجید نے اس سے گیارہ سو سال پہلے اس حقیقت کو فاش کردیا تھا ۔ یہ خود قرآن مجید کا ایک علمی معجزہ ہے کہ جس سے اس عظیم آسمانی کتاب کی عظمت ظاہر ہوتی ہے ۔

اس میں شک نہیں کہ لینہ سے پہلے بہت سے ماہرین اجمالی طور پر بعض نباتات میں نر اور مادہ کا وجود معلوم کرچکے تھے یہاں تک کہ عام لوگ بھی جانتے تھے کہ اگر کھجور کے درخت بور نہ دیں یعنی نر کا نطفہ مادہ حصوں ہر نہ چھڑ کا جائے تو وہ پھل نہیں دے گا لیکن کوئی شخص ٹھیک طرح سے یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ قانون تقریباً سب کے لئے ہے یہاں تک کہ لینہ اسے معلوم کرنے میں کامیاب ہوا مگر جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ قرآن صدیوں پہلے اس حقیقت کے چہرے سے پر دہ ہٹا چکا تھا ۔

انسان اور دیگر تمام زندہ موجودات کی زندگی ، بالخصوص نباتات ، گیاہ پھلوں کی زندگی رات و دن کے دقیق نظام کے بغیر ممکن نہیں لہٰذا آیت کے دوسرے حصے میں اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : خدا را ت کے ذریعے دن کو ڈھانپ دیتا ہے اور اس پر پردہ ڈال دیتا ہے( یُغْشِی اللَّیْلَ النَهَارَ )

کیونکہ اگر رات کا سکون بخش پر دہ نہ ہوتو سورج کا دائمی نور تمام سبزوں اور نبا تات کو جلا دے اور صفحہ زمین پر پھلوں کا بلکہ تمام زندہ موجودات کا کوئی نام و نشان باقی نہ رہے ۔

کرہ مہتاب میں اگر چہ دن ہمیشہ نہیں رہتا لیکن وہاں دنون کی لمبائی کرہ زمین کے پندرہ رات دن کے برا بر اور دن کے وسط میں کرہ ماہتاب کا درجہ حرارت اتنا زیادہ ہوجاتا ہے کہ اگر پانی یا کوئی دوسری بہنے والی چیز ہو تو ابلنے لگے بلکہ اس کا درجہ حرارت اس سے بھی بڑھ جائے ۔ کوئی زندہ موجود کہ جسے ہم زمین پر پہچانتے ہیں عام حالات میں یہ گرمی بر داشت نہیں کرسکتا ۔

آیت کے آخر میں فرمایا گیا : جو امور بیان کئے گئے ہیں ان میں آیات اور نشانیاں ہیں ، ان کے لئے جو غور و فکر کر تے ہیں( إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ )

وہ لوگ جو اس بدیع اور تعجب خیز نظام میں سوچ بچار کرتے ہیں نور و ظلمت کے نظام میں ، آسمانی کرات اور ان کی گردش کے نظام میں ، آفتاب و مہتاب کی نورافشانی اور ان کی انسانو ں کے لئے خد مت گزاری کے نظام میں ، زمین بچھانے کے نظام میں ، پہاڑوں اور دریاؤں کی پیدائش کے اسرار میں اور نباتات اور پھلوں کے نظام میں جی ہاں ! جو لوگ اس نظام میں غور و فکر کرتے ہیں وہ ان میں قدر تِ لایزال کی آیات اور پر وردگار کی حکمت ِ بے پایاں واضح اور روشن طور پر دیکھتے ہیں ۔

زیر بحث آخری آیت میں زمین شناسی اور نباتات شناسی کے جاذب ِ نظر نکات کے ایک سلسلے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ ان میں سے ہر ایک ، ایک حساب شدہ نظامِ خلقت کی نشانی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے ۔ زمین میں مختلف قطعات اور ٹکڑے موجود ہیں کہ ایک دوسرے کے پاس ہمسائیگی میں ہیں( وَفِی الْاٴَرْضِ قِطَعٌ مُتَجَاوِرَاتٌ ) ۔

باوجودیکہ یہ سب قطعات ایک دوسرے سے متصل او رمر بوط ہیں ، ہر ایک کی ساخت اور استعداد خود اسی کے ساتھ مخصوص ہے ۔ بعض محکم ہیں اور بعض نرم ، بعض نمکین ہیں اور بعض شرین اور ان میں سے ہر ایک خاص نبا تات ، درختوں ، پھلوں اور زراعتوں کی پرورش کی استعداد رکھتا ہے ۔

انسان او رزمین میں رہنے والے جانداروں کی ضروریات چونکہ بہت زیادہ اور مختلف ہیں لہٰذا زمین کا ہر قطعہ گویا ان میں سے ایک ضرورت کو پورا کرنے کی مامور یت رکھتا ہے اور اگر سب قطعات ایک ہی طرح کے ہوتے یا یہ استعدادیں ان میں صحیح طور پر تقسیم نہ ہوتیں تو انسان غذائی مواد ، دواؤں اور دیگر ضروریات کے لحاظ سے کیسی کیسی کمیابیوں میں گرفتار ہوتا لیکن ماموریت کی اس حساب شدہ تقسیم کی وجہ سے مختلف قطعات زمین کو پر ورش کی مختلف استعدادیں دئے جانے کے باعث یہ ضروریات مکمل طور پر پوری ہو جاتی ہیں ۔

نیز یہ کہ ” اسی زمین میں انواع و قسام کے انگوروں ، اور زروعتوں او رکھجوروں کے باغات اور پودے موجود ہیں “( وَجَنَّاتٌ مِنْ اٴَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِیلٌ ) (۷)

تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ درخت اور ان کی مختلف انواع و اقسام کبھی تو ایک ہی پایہ و بنیاد پر اگتی ہیں او رکبھی مختلف پایوں اور بنیادوں پر( صِنْوَانٌ وَغَیْرُ صِنْوَانٍ ) ۔(۸)

” صنوان “ جمع ہے ”صنو“ کی کہ جو در اصل شاخ کے معنی میں ہے کہ جو درخت کے اصلی تنے سے نکلتی ہے اس بنا ء پر ” صنوان “ کا معنی ہے ” ایک تنے سے پھوٹنے والی مختلف شاخیں ۔

یہ جاذب نظر ہے کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ان شاخوں میں سے ہر ایک پھل کی ایک خاص قسم دیتی ہے ۔ یہ جملہ درختوں کی پیوند کی استعداد کے مسئلے کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے ۔ کبھی ایک ہی پایہ اور شاخ پر چند مختلف پیوند لگائے جاتے ہیں اور ان پیوندوں میں سے ایک نشو و نما حاصل کرتا ہے اور اس سے پھل کی ایک خاص قسم حاصل ہو تی ہے مٹی ایک ، جڑ ایک اور شاخ ایک لیکن اس کا پھل اور محصول مختلف ہوتا ہے ۔

زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ ” وہ سب ایک ہی پانی سے سیراب ہوتے ہیں( یُسْقَی بِمَاءٍ وَاحِدٍ )

ان تمام چیزوں کے باوجود ” ہم ان میں سے بعض درختوں کو بعض دوسرے درختوں پر پھل کے لحاظ سے بر تری اور فضیلت دیتے ہیں “( وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلَی بَعْضٍ فِی الْاٴُکُلِ ) ۔

یہاں تک کہ ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ ایک ہی درخت میں ای ایک ہی شاخ میں ایک ہی جنس کے پھل لگتے ہیں مگر ان کا ذائقہ اور رنگ مختلف ہوتا ہے ۔ اسی طرح پھلوں میں دنیامیں ہم نے بہت دیکھا کہ ایک ہی پودے میں بلکہ ایک ہی شاخ پر بالکل مختلف رنگوں والے پھل اگے ہوتے ہیں ۔

یہ کیسی تجربہ گاہ ہے او رکیسی اسرار آمیزلیبارٹری درختوں کی شاخوں میں لگائی جاتی ہے کہ جو بالکل ایک ہی مواد سے بالکل مختلف ترکیبات کو جنم دیتی ہے کہ جن میں سے ہر ایک انسانی ضروریات کے ایک حصے کو پورا کرتی ہے ۔

کیا ان اسرار میں سے ہر ایک کسی ایک حکیم و عالم مبداء کے وجود کی دلیل نہیں کہ جو اس نظام کی رہبری کرتا ہے ۔

یہ وہ مقام ہے کہ جہاں آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے : ان امور میں عظمت ِ خدا کی نشانیاں ہیں ، ان کے لئے جو تعقل اور سوچ بچار رکھتے ہیں( إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَعْقِلُونَ )

____________________

۱۔جیسا کہ ہم نے پہلے بھی ذکر کیا کہ ”تلک“ اسم اشارہ بعید ہے ، ا س کا انتخاب قریب کے اشارہ ” ھٰذہ“ کی بجائے قرآنی آیات کی عظمت و رفعت کے لئے کنایہ ہے ۔

۲۔ ”عمدہ “ ( بر وزن ” صمد “ )اور ”عمد “ ( بروزن ”دھل “) دونوں عمود بمعنی ”ستون “ کی جمع ہیں اگر چہ ادبی لحاظ سے پہلے جمع اور دوسرے کو اسم جمع سمجھا جا تا ہے ( مجمع البیان ۔ زیر بحث آیت کے ذیل میں )۔

۳۔ یہ حدیث تفسیر بر ہان میں تفسیر علی بن ابراہیم اور تفسیر عیاشی کے حوالے سے نقل کی گئی ہے ۔ ( برہان جلد ۲ص۲۷۸)

۴۔سفینة البحار جلد ۲ ص ۵۷۴ منقول از تفسیر علی بن ابراہیم قمی۔

۵-مزید وضاحت کے لئے کتاب ” قرآن و آخرین پیامبر “ ص ۱۶۶ کے بعد کی طرف رجوع فرمائیں ۔

۶۔ تفسیر نمونہ جلد۶ ص۱۸۰کی طرف رجوع فرمائیں ۔

۷۔” اعناب“ ”عنب “ کی جمع ہے اور ” نخٰل “ ” نخل “ کی جمع ہے اور شاید جمع کا صیغہ یہاں انگور او رکھجور کی مختلف انواع کی طرف اشارہ ہو کیونکہ ان دو قسمو ں کے پھلوں میں سے ہر ایک کی شاہد مثال ہیں ذائقے اور رنگ کے اعتبار سے کئی سو اقسام ہیں ۔

۸۔”صنو“ کے لئے ایک او رمعنی بھی ذکر ہوا ہے او روہ ہے ” شبیہ“ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ معنی بھی مذکورہ بالا معنی سے لیا گیا ہے ۔

آیات ۱،۲،۳،۴،

( بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ )

۱ ۔( المر تِلْکَ آیَاتُ الْکِتَابِ وَالَّذِی اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ الْحَقُّ وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَ النَّاسِ لاَیُؤْمِنُونَ ) ۔

۲ ۔( اللهُ الَّذِی رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْشِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ یَجْرِی لِاٴَجَلٍ مُسَمًّی یُدَبِّرُ الْاٴَمْرَ یُفَصِّلُ الآیَاتِ لَعَلَّکُمْ بِلِقَاءِ رَبِّکُمْ تُوقِنُونَ ) ۔

۳ ۔( وَهُوَ الَّذِی مَدَّ الْاٴَرْضَ وَجَعَلَ فِیهَا رَوَاسِیَ وَاٴَنْهَارًا وَمِنْ کُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِیهَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ یُغْشِی اللَّیْلَ النَهَارَ إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ ) ۔

۴ ۔( وَفِی الْاٴَرْضِ قِطَعٌ مُتَجَاوِرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِنْ اٴَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِیلٌ صِنْوَانٌ وَغَیْرُ صِنْوَانٍ یُسْقَی بِمَاءٍ وَاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلَی بَعْضٍ فِی الْاٴُکُلِ إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَعْقِلُونَ ) ۔

ترجمہ

۱ ۔ الٓمٓر یہ ( آسمانی ) کتاب کی آیات ہیں اور جو کچھ تیرے پر وردگار کی طرف سے تجھ پر نازل ہوا ہے حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے ۔

۲ ۔خدا وہی ہے جس نے آسمان کو قابل مشاہدہ ستون کے بغیر پیدا کیا پھر عرش کا کنٹرول سنبھالا ( اور تدبیر عالم کی مہار اپنے ہاتھ میں لی) اور آفتا ب و مہتاب کو مسخر کیا کہ ان میں سے ہر ایک معین زمانے تک حرکت رکھتے ہیں ، وہی کاموں کی تدبیر کرتا ہے ، ( تمہارے لئے ) آیات کی تشریح کرتا ہے تاکہ تم اپنے پروردگار کی ملاقات کا یقین حاصل کرلو۔

۳ ۔ وہ وہی ہے جس نے زمین کو بچھایا اور اس میں پہاڑ اور نہریں بنائیں اور اس میں تمام پھولوں کے دو جفت پیدا کئے۔ وہی دن کو رات ( کا سیاہ پردہ ) اوڑھا تا ہے ۔ ان میں ان کے لئے آیات ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں ۔

۴ ۔اور روئے زمین میں ایسے قطعات ہیں جو ایک دوسرے سے ملے ہونے کے باجود ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ نیز انگور کے باگات ، کھیتیاں اور نخلستان ہیں کہ جو کبھی ایک ہی پائے پر اگتے ہیں اور کبھی دوپایوں پر ۔ وہ سب ایک ہی پانی سے سیراب ہوتے ہیں ۔ اس کے باوجود ان میں سے بعض کو پھل لحاظ سے ایک دوسرے پر بر تری دیتے ہیں ۔ ان میں ان کے لئے نشانیاں ہیں جو اپنی عقل استعمال کرتے ہیں ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ توحید اور قیامت میں تعلق:

زیر بحث پہلی آیت کے آغاز میں اسرار خلقت اور توحید کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن آیت کے آخر میں ہے :

( یفصل الآیات لعلکم بلقاء ربکم توقنون )

خدا تمہارے لئے اپنی آیات کی تشریح کرتا ہے تاکہ تم قیامت او رمعاد پر ایمان لے آؤ۔

یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ مسئلہ توحید اور مسئلہ معاد کے درمیان کونسا تعلق ہے کہ جس کی بناء پر ان کا ذکر ایک دوسرے کے نتیجے کے حوالے سے کیا گیا ہے ۔

اس نکتہ کی طرف توجہ کرنے سے اس سوال کا جواب واضح ہو جاتا ہے کہ وہ اس کے اعادہ کی بھی قدرت رکھتا ہے جیسا کہ سورہ اعراف کی آیت ۲۹ میں ہے :( کما بداٴکم تعودون )

جیسے اس نے تمہیں ابتداء میں پیدا کیا ہے ویسے ہیں پلٹا ئے گا ۔

اور سورہ یٰس کے اواخر میں ہے :

کیا وہ خدا کہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے ، ان کی مثل ایجاد کرنے کی قدرت نہیں رکھتا ۔

ثانیا ً جیسا کہ ہم معاد و قیامت می بحث میں کہا ہے کہ اگر عالم آخرت نہ ہوتو اس جہان کی خلقت فضول اور بیہودہ ہوگی کیونکہ یہ زندگی اس وسیع جہان کی خلقت کا مقصد نہیں ہوسکتی ۔ قرآن مجید معاد سے مربوط آیات ( مثلا ً سورہ واقعہ آیہ ۶۲) میں کہتا ہے :( ولقد علمتم النشاٴ ة الاولیٰ فلولا تذکرون )

تم نے جو اس جہان کو دیکھا تو پھر دھیان کیوں نہیں دیتے کہ یقینا اس کے بعد ایک اور جہان ہو گا ۔ ۱

۲ ۔قرآن کی سائنسی معجزات :

قرآن مجید میں بہت سے آیات ایسی ہیں جو ایسے سائنسی اسرار کے ایک پہلو سے پر دہ اٹھاتی ہیں کہ جو اس زمانے کے ماہرین کی نظروں سے پو شیدہ تھے اور یہ امر خود قرآنی اعجاز اور عظمت کی نشانی ہے ۔ وہ محققین کہ جنہوں نے اعجاز قرآن کے سلسلے میں بحث کی ہے اکثر و بیشتر ان آیات کے ایک حصے کی طرف اشارہ کیا ہے ۔

ان میں سے ایک آیت سطور با لا میں ذکر ہو ئی ہے کہ جو عالم نباتات میں زوجیت اور جفت ہونے کے بارے میں گفتگو کرتی ہے ۔ جیسا کہ ہم نےے کہا ہے کہ عالم نباتات میں زوجیت کا مسئلہ جزوی طور پر عرصہ قدیم سے جانا پہچاناتھا لیکن ایک کلی اور عمومی قانون کے طور پر پہلی مرتبہ یورپ میں اٹھارھویں صدی کے وسط میں ایک اٹلی سائنسداں ” لینہ “ نے اس کا انکشاف کیا لیکن قرآن مسلمانوں کو ایک ہزار سال بلکہ اس سے بھی قبل اس کی خبر دے چکا تھا ۔

یہ مسئلہ سورہ لقمان کی آیہ ۱۰ میں بھی بیان ہوا ہے ، ارشاد ہوتا ہے :

( و انزلنا من السماء ماءً فانبتنا فیها من کل زوج کریم )

ہم نے آسمان سے پانی نا زل کیا اور اس کے ذریعے ہم نے زمین پر زوج اور جفت سے مفید گیا ہ اُگا یا ۔

بعض دوسری آیات میں بھی اس مسئلے کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔

۳ ۔ سورج اور چاند کی تسخیر :

ہم نے مندرجہ بالا آیات میں پڑحا کہ خد انے سورج اور چاند کو مسخر کیا ہے ۔ قرآن مجید میں بہت سے ایسی آیات ہیں کہ جو کہتی ہیں کہ آسمانی کرات ، زمینی موجودات اور رات دن وغیرہ سب انسان کے لئے مسخر ہیں ، ایک موقع پر ہے :

( و سخر لکم الانهار ) خدا نے تمہارے لئے دریاؤ ں کو مسخر کیا ہے ۔ ( براہیم ۔ ۳۲)

ایک اور موقع پر ہے :( و سخر لکم الفلک ) تمہارے لئے کشتی کو مسخر کیا ہے ۔( ابراہیم ۔ ۳۲)

ایک اور جگہ ہے :( وسخر لکم اللیل و النهار ) رات اور دن کو تمہارے لئے مسخر کیا ہے ۔ ( نحل ۔ ۱۲)

اور مقام پر ہے :( سخر لکم الشمس و القمر )

سورج اور چاند تمہارے لئے مسخرکئے ہیں ۔( ابراہیم ۔ ۳۲)

ایک اور جگہ پرہے :( وهو الذی سخر لبحر لتاٴکلو ا منه لحماً طریاً )

تمہارے لئے دریا مسخر کیا تاکہ اس سے تازہ گوشت کھا ؤ( نحل ۔ ۱۴)

ایک او رمقام پر ہے :( الم تر ان الله سخر لکم ما فی الارض )

کیا دیکھتے نہیں ہو کہ خدا نے ان تمام چیزوں کو تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے جو روئے زمین پر ہیں (حج۔ ۶۵)

ایک اور موقع پر ہے :( وسخر لکم ما فی السمٰوٰت وما فی الارض جمیعاً منه )

جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب کو خد انے تمہارے لئے مسخر کیا ہے ( جا ثیہ ۔ ۱۳)

ان تمام آیات سے مجموعی طور پر اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ :

اولاً:انسان اس جہان کا اکمل اور ترقی یافتہ موجود ہے اور اسلام کی جہان بینی کی نظر سے اسے اس قدر مقام دیا گیا ہے کہ دوسرے تمام موجودات کو اس انسان کے لئے مسخر کر دیا گیا ہے کہ جو ” خلیفة اللہ “ ہے اور اس کا دل مقام ِ نور خد اہے ۔

ثانیاً:ان آیا ت میں تسخیر ان معنی میں نہیں کہ یہ تمام چیزیں انسان کے تحت فرمان ہیں بلکہ اس قدر ہے کہ یہ اس کے فائدے اور منافع کے لئے اور اس کی خدمت کے لئے حرکت کررہے ہیں ۔

مثلاًآسمانی کرات اس کے لئے نور افشانی کرتے ہیں یا ان سے دیگر فوائد حاصل ہوتے ہیں ، وہ اس کی تسخیر میں ہیں ۔ کو ئی مکتب و مذہب اس قدر بلند انسانی مقام کا قائل نہیں اور کسی فلسفہ میں انسان یہ حیثیت اور مقام نہیں رکھتا اور یہ دین اسلام کی خصوصیت ہے کہ اس نے انسانی وجود کی اہمیت اس حد تک بلند کر دی ہے کہ جس سے آگاہی انسانی تربیت اور ارتقاء کے لئے گہرے اثرات مرتب کرتی ہے کیونکہ جب انسان یہ سوچے کہ خدا نے یہ تمام عظمتیں اسے بخشی ہیں اور۔

ابر و باد ماہ خورشید در کار ند

یعنی بادل، ہوا ، چاند ، سورج سب محو کار ہیں اور سب اس کے فرمابر دار اور خدمت گزار ہیں ۔

ایسا انسان غفلت اور پستی کے لئے تیار نہیں ہوتا ، اپنے آپ کو خواہشات و شہوات کا اسیر نہیں کرتا اور ثروت و مقام اور زرو زور کا غلام، نہیں بنات.... وہ غلامی کی زنجیریں توڑ کر آسمانوں کی اوج پر پر واز کرتا ہے ۔

کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ سورج اور چاند انسان کے مسخر نہیں ہیں حالانکہ وہ اپنی نورافشانی سے حیاتِ انسانی کو روشن اور گرم کئے ہوئے ہیں ۔ اگر سورج کی روشنی نہ ہوتو کرہ ارض پر کوئی جنبش و حرکت نہ ہو۔

دوسری طرف سورج کی قوت جاذبہ زمین کی حرکت کو اس کے مدار میں منظم کرتی ہے ۔

دریاؤں اور سمندروں کا مدو جزر چاند کی مدد سے پیدا ہوتا ہے کہ جو خود بہت سی برکات اور منافع کا سر چشمہ ہے ۔

کشتیاں ، دریا،نہریں اور دن رات ہر ایک کسی نہ کسی طرح انسان کی خدمت کرتے ہیں اور اس کے فائدے کے لئے رواں دواں ہیں ۔

ان تسخیرات اور ان کے حساب شدہ نظام میں غور و فکر کیا جائے تو یہ خالق کی عظمت ، قدرت اور حکمت کی واضح دلیل ہیں ۔

آیات ۵،۶

۵ ۔( وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ اٴَئِذَا کُنَّا تُرَابًا اٴَئِنَّا لَفِی خَلْقٍ جَدِیدٍ اٴُوْلَئِکَ الَّذِینَ کَفَرُوا بِرَبِّهِمْ وَاٴُوْلَئِکَ الْاٴَغْلَالُ فِی اٴَعْنَاقِهمْ وَاٴُوْلَئِکَ اٴَصْحَابُ النَّارِهُمْ فِیهَا خَالِدُونَ ) ۔

۶ ۔( وَیَسْتَعْجِلُونَکَ بِالسَّیِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ وَقَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهمْ الْمَثُلَاتُ وَإِنَّ رَبَّکَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِلنَّاسِ عَلَی ظُلْمِهمْ وَإِنَّ رَبَّکَ لَشَدِیدُ الْعِقَابِ ) ۔

ترجمہ

۵ ۔اور اگر تو( کسی چیز پر) تعجب کرنا چاہتا ہے تو ان کی گفتگو عجیب ہے کہ جو کہتے ہیں کہ کیا جس وقت ہم مٹی لوگئے تو ہم دوبارہ زندہ ہو ں گے اور کیا )ہم نئی خلقت کے ساتھ پلٹ آئیں گے۔ وہ ایسے لوگ ہیں کہ جو اپنے پر وردگار سے کافر ہو گئے ہیں اور یہ وہ ہیں جن کی گردن میں زنجیریں اور یہ اہل نار ہیں اور ہمیشہ اس میں رہیں گے۔

۶ ۔ وہ تجھ سے حسنہ ( اور رحمت ) سے پہلے جلدی سے سیئہ (اور عذاب) کا تقاضا کرتے ہیں حالانکہ ان سے پہلے عبرت انگیز بلائیں اور مصیبتیں نازل ہوئی ہیں اور اگر چہ لوگ ظلم کرتے ہیں تیرا پروردگار ان کے لئے صاحب ِ مغفرت ہے اور تیرا پر وردگار عذابِ شدید بھی رکھتا ہے ۔

____________________

۱ -مزید وضاحت کے لئے کتاب ” معاد و جہان پس از مرگ “ کی طرف رجوع کریں ۔