تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 6%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 205851 / ڈاؤنلوڈ: 4271
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۸

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

٦۔ محبت و امید کے ساتھ خوف:

خدا کے دوست اس کے جمال کے شیفتہ ہونے کے باوجود اس کی عظمت کے ادراک کے نتیجہ میں خوفزدہ اور ہراساں رہتے ہیں کیونکہ جس طرح اللہ کے جمال کا ادراک محبت کا پیش خیمہ ہے اسی طرح اس کی عظمت کا ادراک بھی ہیبت اور ہراس کا سبب ہوتا ہے، یہ خوف و رجاء پروردگار کی بندگی میں مکمل تکمیل کا کردار ادا کرتے ہیں راہ الہی کے بعض راہرئووں نے کہا ہے: ''خدا کی بندگی صرف محبت کے ساتھ اور بغیر خوف کے، امید کی زیادتی اور حد درجہ انبساط و سرور کی وجہ سے آدمی کی ہلاکت کا باعث ہوجاتی ہے۔ نیز عبودیت صرف خوف وہراس کے ساتھ بغیر امید کے وحشت کی وجہ سے پروردگار سے دوری اور ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے، خدا وند ذوالجلال کی بندگی خوف ومحبت دونوں کے ساتھ اس کی محبت اور تقرب کا سبب ہوتی ہے ''۔(١)

٧۔اللہ کی محبت کا کتمان اور اس کا دعویٰ نہ کرنا:

محبت محبوب کے اسرار میںسے ایک سر ہے اور بسا اوقات اس کے اظہار میں کوئی ایسی چیز کہی جاتی ہے جو واقع کے برخلاف اور محبوب پرافترا پردازی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ انسان کی محبت پروردگار کے خاص دوستوں یعنی عظیم ملائکہ اور ان انبیاء و اولیاء کی محبت واشتیاق کے مراتب کی نسبت قابل ذکر تحفہ نہیں ہے جو خود کو خدا کے شائستہ عشق ومحبت میں ناکام تصور کرتے تھے، بلکہ حقیقی محبت کی علامت یہ ہے کہ اپنی محبت کے درجات کو ہیچ خیال کرے اور اسے قابل ذکر نہ سمجھے اور خود کو ہمیشہ اس سلسلہ میں قاصر اور عاجز خیال کرے۔

ج۔ خداوند عالم کی محبت کے علائم:

خداوند عالم کی محبت کے علائم کثرت اور فراوانی کے ساتھ انسان کے مختلف وجودی پہلوئوں میںپائے جاتے ہیں۔ یہاں پر ان علائم کی طرف جو کہ نفسانی صفت کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں، اشارہ کیا جاتا ہے:

١۔ پروردگار سے انس:

جب انسان کادل اللہ کے قرب اور محبوب کے جمال مکشوف کے مشاہدہ سے شاد ومسرور ہوتا ہے تو انسان کے قلب میں ایک بشارت داخل ہوتی ہے کہ جسے'' انس'' کہا جاتا ہے۔ خداوندعالم سے انس کی علامت یہ ہے کہ گوشہ نشینی، خلوت اور اس کے ذکر میںمشغول ہونا خلائق سے انس اور ہم نشینی کرنے سے کہیں زیادہ بہتر اور خوشگوار ہے ایسا شخص لوگوں کے درمیان ہونے کے باوجو د بھی در حقیقت تنہا ہے۔ اور جس وقت وہ خلوت میں ہوتا ہے ، حقیقت میں وہ اپنے محبوب کے ساتھ ہمنشین ہوتا ہے۔ اس کا جسم تو لوگوں کے درمیان ہوتا ہے لیکن اس کادل ان سے الگ اور جدا ہوتا ہے۔(٢)

____________________

١۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٨، ص ٧٦ ، ٧٧۔ ٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص١٢٤، ١٨٩، ١٩٠۔

۸۱

حضرت امیر المومنین علی ـ نے ایسے صفات کے حامل افراد کے متعلق فرمایا ہے: '' انھیں علم نے بصیرت کی حقیقت تک پہنچا دیا ہے اور یہ یقین کی روح کے ساتھ گھل مل گئے ہیں، انھوں نے ان چیزوں کو آسان بنالیا ہے جنھیں راحت پسندوں نے مشکل بنا رکھا تھا اور ان چیزوں سے انھیں حاصل کیا ہے جن سے جاہل وحشت زدہ تھے اور اس دنیا میں ان اجسام کے ساتھ رہے ہیں جن کی روحیں ملأ اعلیٰ سے وابستہ ہیں، یہی روئے زمین پر اﷲ کے خلیفہ اور اس کے دین کے داعی ہیں''۔(۱)

٢۔ خداوند عالم کی جانب اشتیاق:

جمال الہی کا مشاہدہ کرنے کے خواہاں افراد جب وہ غیب کے پردوں کے پیچھے محبوب کے رخسار کا نظارہ کرنے بیٹھے ہوں اور اس حقیقت تک پہونچ چکے ہیں کہ اس کے جلال و عظمت کی حقیقی رویت سے قاصر و عاجز ہیںتو جو کچھ انہوں نے نہیں دیکھا ہے اس کے مشاہدہ کے لئے ان کی تشنگی اور شوق بڑھتا جاتا ہے، اس حالت کو '' مقام شوق '' کہا جاتا ہے بر خلاف مقام انس، جو محبوب کے کھلے چہرے کے مشاہدے سے پیدا ہوتا ہے، مقام اشتیاق، محبوب کے محجوب (درپردہ) جمال و جلال کے ادراک کے شوق کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔(۴)

٣۔ قضائے الہی سے راضی ہونا:

'' رضا '' '' سخط'' یعنی ناراضگی کے مقابلہ میں ہے اور' 'رضا'' سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ خدا نے مقدر فرمایا ہے اس پر ظاہر و باطن، رفتار وگفتار میں اعتراض نہ کرنا۔ رضااللہ کی محبت کے علائم و لوازم میںشمار ہوتی۔ کیونکہ محب جو کچھ محبوب سے صادر ہوتا ہے اسے خوبصورت اور بہتر سمجھتا ہے جو انسان مقام رضا کا مالک ہوجاتا ہے اس کے نزدیک فقر و غنا، آرام وتکلیف، تندرستی اور بیماری، موت اور زندگی وغیرہ وغیرہ یکساںہوتی ہے اوران میں سے کسی ایک کا تحمل بھی دشوار نہیں ہوتا ہے، کیونکہ سب ہی کو محبوب کی طرف سے خیا ل کر تا ہے وہ ہمیشہ خود کو فرحت و سرور، آرام وآسائش میں محسوس کرتے ہوئے زندگی گذارتا ہے کیونکہ تمام چیزوںکو نگاہ رضایت سے دیکھتا ہے اور در حقیقت تمام امور اس کی مراد کے مطابق واقع ہوتے ہیں، نتیجہ کے طور پر ہر قسم کے غم و اندوہ سے دور ہوگا، قرآن کریم میں کئی جگہ اس مرتبہ کی طرف اشارہ ہوا ہے، منجملہ ان کے ''حزب اﷲ'' کی شناخت کراتے ہوئے فرماتا ہے: ''خدا وند رحمان ان سے راضی و خوشنود اور وہ اس سے راضی و خوشنود ہیں، یہ لوگ خدا کے گروہ ہیں، حزب خدا ہی کامیاب ہے''۔(۳)

____________________

١۔ نہج البلاغہ: حکمت ١٤٧۔ ٢۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٨، ص ٥٥۔

٣۔ مجادلہ ٢٢ ؛ بینہ ٨، ملاحظہ ہو۔

۸۲

حضرت امام زین العابدین ـ مقام رضا کی عظیم شان ومنزلت کے بیان میں فرماتے ہیں: ''زہد کا سب سے بلند درجہ ورع کا پست ترین درجہ ہے اور فدع کا بلندترین درجہ یقین کا پست ترین درجہ ہے اوریقین کا بلند ترین درجہ رضاکا سب سے پست مقام و درجہ ہے''۔(١) اس وجہ سے خداکے دوست جو کچھ وہ مقدّر فرماتا ہے اس پر رضامندی کے ساتھ ہرقسم کے غم و اندوہ سے دور ہوتے ہیںاور نہایت سرور شادمانی کے ساتھ خوشگوارزندگی گذارتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم میںمذکور ہے: ''آگاہ ہوکہ خداکے دوستوںکو نہ کوئی غم و اندوہ ہے اور نہ ہی کوئی خوف و ہراس انہوںنے اپنے تمام امور خدا کے حوالے کردئیے ہیںاور اس کے ارادہ کے سامنے سراپا تسلیم ہیں''۔(٢)

د۔محبت پروردگارکاانجام:

محبت الہی کاخاتمہ دیگرساری محبتوں کی طرح محبوب کے وصال پر منحصر نہیں ہے۔ اس رویت کا تحقق خداو ندعالم کی معرفت پر موقوف ہے، جو خود ہی تطہیر باطن اور دنیوی لگاؤسے دل کو پاک وصاف رکھنے کامحتاج ہے، محبت الہی کی راہ میں سیر وسلوک کرنے والوں کے لئے دنیا میں اس کا حصول ہوتا ہے۔

اس ملاقات کی حقیقت کا سمجھنا ہمیشہ انسانی اذہان کے لئے دشوار رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے راہ انکار اختیار کرلی ہے۔

حضرت علی ـ سے خوارج میں سے ایک شخص نے سوال کیا: '' کیا آپ نے اپنے رب کو اس کی عبادت کرتے وقت دیکھا ہے؟'' آپ نے صراحت کے ساتھ فرمایا: '' تم پر وائے ہو ! میں ان لوگوں میںسے نہیں ہوں جنھوں نے پروردگار کو نہ دیکھا ہو اور اس کی عبادت وپرستش کرتے ہوں '' اس وقت سوال کرنے والے نے اس ملاقات کی حقیقت اور ماہیت کے بارے میں سوال کیا: کس طرح آپ نے اسے دیکھا ہے ؟ آپ نے جواب دیا! ''تم پر وائے ہو ! نگاہیںدیکھنے کے وقت اس کا ادراک نہ کرسکیں لیکن قلوب حقایق ایمان کے ساتھ اسے دیکھتے ہیں''۔(٣)

____________________

١۔ اصول کافی، کلینی، ج٢، ص١٢٨، ح٤۔

٢۔یونس ٦٢۔

٣۔ اصول کافی، کلینی، باب ابطال الروےة، ح ٦، اسی طرح ملاحظہ ہو امام حسین ـ کی دعا ئے عرفہ۔

۸۳

دوسری نظر: خدا وندسبحان کی بندوں سے محبت

قرآن و روایات ا ہل بیت (ع) ان آیات وروایات کے حامل ہیں جو پروردگار کی اپنے بعض بندوں سے خاص محبت ودوستی کی عکاسی کرتی ہیں، اس محبت کے خاص علائم ہیں جوصرف اور صرف خاص بندوں کو شامل ہوتے ہیں۔

البتہ خداوند سبحان کی عام رحمت و محبت، دنیوی مواہب و احکام شرعی کے قالب میں سب کو شامل ہے جیسا کہ پہلے بھی اشارہ ہوچکا ہے کہ خدا وندعالم قرآن میںاپنی دوستی کو مجاہدین، نیکو کار افراد، زیادہ توبہ کرنے والوں، پرہیزگاروں، عدالت پیشہ افراد، صابروں، پاک وپاکیزہ افراد اور پروردگار پر اعتماد و بھروسہ کرنے والوں کی نسبت اعلان کرتا ہے۔(١)

جمال الہی کا دیداراور اس کا مشاہدہ اتنا لذت بخش اور سرور آور ہے جو ناقابل توصیف وتشریح ہے۔ جن لوگوں نے اس کے ادنیٰ مراتب کو بھی چکھا ہے وہ کبھی دیگر خیالی لذتوں سے اس کا سودا نہیں کرتے اسی وجہ سے انبیاء اور

اولیائے الہی نے اپنے محبوب سے اپنی مناجات میں مسلسل اپنے اشتیاق کااس کی بہ نسبت آشکار طور پر اظہار کیا ہے اورعرفاء اور سالکین نے اپنے اشعار اور قصائد میں جو انہوں نے بطور یادگار چھوڑے ہیں اپنے آتش عشق کے دلکش اور جاذب نظر مناظرکی، جمال محبوب کی مراد و ملاقات و شہود سے متعلق اظہار خیال کیا ہے نیز دوست کے فراق و جدائی کے غم انگیز اور حزن آور حالات کی منظر کشی کی ہے۔ ان کے نزدیک خدا کی ملاقات عرفان کی بلند ترین چوٹی اور سالکین کی سیرکا منتہیٰ ہے انھوں نے ایسی بہت سی کتابیں بھی تحریر فرمائی ہیں جن میں اس مقصد تک رسائی کے اسباب و ذرائع اور ان منازل ومراحل کو بیان کیا ہے جو اس راہ کے سالکوں کے لئے سرراہ پائے جاتے ہیں اور جو خطرات اس راہ میں ہیں ان سے بھی آگاہ کیا ہے نیز اس راہ میںجو زاد و توشہ کام آسکتا ہے اس کا بھی ذکر کیا ہے۔

خدا وند عالم کی داؤد پیغمبر سے گفتگو کے درمیان مذکور ہے: ''اے داؤد! ہمارے زمین میں رہنے والے بندوں سے کہو ! میں اس کا دوست ہوں جو مجھے دوست رکھتا ہے اور اس کا ہمنشین ہوں جو مجھ سے ہمنشینی کرتا ہے اور اس کا ہمدم ہوں جو میری یاد اور نام سے انسیت حاصل کرتا ہے اور اس کے ہمراہ ہوں جو میرے ہمراہ ہے، میں اس کا انتخاب کرتا ہوں جو میرا انتخاب کرتا ہے اور اس کا فرمانبردار ہوں جو میرا فرمانبردار ہے، جو انسان مجھے قلبی اعتبار سے دوست رکھتا ہے اور میں اس پریقین کرلوں تو اسے اپنے ساتھ قبول کرلوں گا ( اور اسے ایسا دوست رکھوںگا ) کہ میرے بندوں میں سے کوئی بندہ اس پر سبقت نہ کر پائے، جو انسان واقعی مجھے تلاش کرے تو پالے گا

____________________

١۔ ترتیب وار رجوع کیجئے: سورئہ صف، ٤ ؛ بقرہ ١٩٥ ، ٢٢٢ ۔ آل عمران ٧٦، ١٤٦، ١٥٩ ؛ مائدہ ٤٢، اور توبہ ١٠٨۔ منجملہ ان کے میرزاجواد ملکی تبریزی کارسالہ، ' ' لقاء اللہ''ملاحظہ ہو ۔

۸۴

اور جو کوئی میرے علاوہ کسی دوسرے کو تلاش کرے تو مجھے نہیں پائے گا، لہٰذا اے اہل زمین! دنیا کے فریبوں اور اس کی باطل چیزوںکو چھوڑ دو، اور میری کرامت، مصاحبت، ہمنشینی کے لئے جلدی کرو اور مجھ سے انس اختیار کرو تاکہ میں بھی تم سے انس اختیارکروں اور تم سے دوستی کے لئے جلدی کروں''۔(١)

٢۔توکل

اخلاق اسلامی میںایک دوسرا عام مفہوم جو نفسانی صفت پر ناظر اور انسان و خدا کے درمیان رابطہ کا بیان کرنے والا ہے''توکل''کامفہوم ہے۔ اس مختصر کتاب میںاس کے مقام و منزلت، ماہیت و درجات اورسعی و کوشش کے ساتھ اس کی نسبت کے بارے میں مطالعہ کریں گے۔

ایک۔ توکل کی حقیقت و ماہیت:

توکل کی حقیقت و ماہیت کس طر ح بیان کی جائے ؟ علماء اخلاق نے اس کی تعریف کے باب میں یہ ذکر کیا ہے: توکل یعنی اپنے تمام امور میں انسان کا خدا پر قلبی اطمینان اور اعتماد کرنا نیز تمام قدرتوں سے بیزاری اختیار کرنا ہے، البتہ انسان کے اندر اس حالت کا تحقق اس بات پر موقوف ہے کہ اس کا ایمان و یقین اور قوت قلب اس بات کو قبول کرے کہ عالم وبنی آدم کے کسی کام میں خدا کے علاوہ کوئی قوت اورطاقت موثر و کار ساز نہیں ہے اور تمام اسباب و علل قدرت الہی کے مقہور اور زیر اثرہیں اوراسی کے ارادہ کے تحت عمل کرتے ہیں کہ یہ خود توحید کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے۔ اس وجہ سے ''توکل'' کی اصل واساس توحید ہے اورحصول توحید کے بقیہ وہ وجود میں نہیں آسکتا۔(٢) یہ اس اعتبار سے ہے کہ خداوند عالم نے امور کو ان کے اسباب و علل کی طرف اور کاموںکو ان کے فاعل کی طرف منسوب کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ ایک طرح سے ہے اور علل اور فاعلوں کو حوادث اور افعال پر مسلّط کیا ہے؛ اگر چہ یہ تسلط اور غلبہ اصلی اور ذاتی نہیں ہے اور طبیعی علل اور انسانی فاعل تاثیر گذاری میں استقلال نہیں رکھتے، صرف خدا وند عالم ہے جو مستقل سبب اور تمام اسباب سے بالا تر ہے۔ اس بنا ء پر جب ایک عاقل اور رشید انسان نے کسی کام کا ارادہ کیا اور اس کے عادی و معمول کے مطابق اسباب و وسائل کو فراہم کیا تو وہ جانتا ہے کہ تدبیر امور میں مستقل سبب تنہا خدا ہے اورکسی قسم کی اصالت اور استقلال کا اپنے لئے نیز ان اسباب و علل کے لئے جن کا وہ استعمال کرتا ہے قائل نہیں ہے، لہٰذا وہ خداوند سبحان پر توکل کرتا ہے، اس بنا ء پر توکل کے معنی انسان یا طبیعی اسباب و علل کی جانب امور کے انتساب کی نفی کرنا اوراصالت و استقلال کو خدا سے مخصوص سمجھنا ہے(٣)

____________________

١۔ سید بن طاؤوس، مسکن الفواد، ص ٢٧۔٢۔ اسی لئے بعض علماء اخلاق نے توکل اور توحید کو ایک ردیف میںذکرکیا ہے، رجوع کیجئے: فیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص ٣٧٧۔٣۔ علامہ طباطبائی کی المیزان، ج ١١، ص ٢١٦ ، ٢١٧ ملاحظہ ہو۔

۸۵

دو۔ توکل کے درجات:

اخلاق اسلامی بعض علماء خداوند عالم پر توکل کے لئے تین درجات کے قائل ہیں کہ ان کا مختصر بیان درج ذیل ہے:

خداوندذ والجلال پرتوکل کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان اس پر اعتماد و اطمینان رکھے۔ بعینہ اس اعتما د کی طرح جو کسی وکیل پراپنے امور کی انجام دہی میں انتخاب کرکے رکھتا ہے۔ درحقیقت یہ توکل کا سب سے ادنی درجہ ہے اور آسانی کے ساتھ دسترسی کے قابل ہے اور زیادہ دن تک باقی رہتا ہے نیز انسان کے اختیار اور تد بیر سے بھی منافات نہیں رکھتا۔

توکل کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ انسان اصل توکل سے غافل اور اپنے وکیل یعنی خداوند سبحان کے بارے میں فانی ہے، بر خلاف پہلی قسم کے کہ انسان کی توجہ زیادہ تر وکالت کے قرار دادی رابطہ کی طرف ہوتی ہے۔ توکل کا یہ درجہ کم محقّق ہوتا ہے اور جلد ختم ہوجاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک دو دن سے زیادہ باقی نہیں رہتا ہے اور صرف خاص افراد کو حاصل ہوتا ہے انسان اس حالت میں اپنی بہتر سے بہتر کوشش گریہ اور خدا وند عالم سے دعا ودرخواست میں صرف کرتا ہے۔

توکل کا بلند ترین درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی تمام حرکات و سکنات کو خداوند عالم کے اختیار میں سمجھتا ہے۔ اس قسم اور قسم دوم میں فرق یہ ہے کہ اس میں انسان حتیٰ التماس، درخواست، تضرع و زاری اور دعا کو بھی نظر انداز کردیتا ہے اور اس بات کا اعتقاد رکھتا ہے کہ خداوند عالم اپنی حکمت سے امور کی تدبیر کرتا ہے اگر چہ وہ درخواست والتماس نہ کرے۔ اس توکل کا واقعی نمونہ حضرت ابراہیم ـ کا (خداپر) توکل کرنا ہے۔ کیونکہ جب نمرودیوں نے انھیںمنجنیق میں رکھ کر آگ میں ڈالا تو الہی فرشتہ انھیںیاد آوری کرتا ہے کہ وہ خدا سے امداد کی درخواست کریں، لیکن وہ جواب میں کہتے ہیں: ''خدا وندعالم کا میرے حال سے آگاہ ہونا، مجھے اس سے نجات کی درخواست کرنے سے بے نیاز کرتا ہے ''۔(١)

البتہ ایسی قسم ندرت سے دیکھنے میں آتی ہے اور نہایت کمیاب ہے۔ یہ صد یقین کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہوتی ہے اور اگر واقع ہو بھی گئی تو جلد ہی زائل ہوجاتی ہے اور چند لحظہ سے زیادہ اس کو دوام نہیں رہتا ۔(٢)

____________________

١۔ تفسیر قمی، ج٢، ص ٧٣ ملاحظہ ہو۔

٢۔ فیض کاشانی المحجة البیضائ، ج٧، ص ٤٠٨، ٤٠٩ ؛نراقی، ج٣، ص ٢٢٣تا ٢٢٥۔

۸۶

دوسرے رخ سے، لوگ خداوند عالم پر توکل و اعتماد کرنے میںیکساں مراتب و درجات نہیں رکھتے۔ ہر ایک کو چاہئے کہ اپنے توکل کے بقدر اپنے مقاصد تک پہنچنے میں اسباب و علل سے چارہ جوئی کرے۔ خداوند عالم ان لوگوں کے ساتھ جنہوں نے بالکل اسباب و علل طبیعی سے اپنا قطع تعلق کرلیا ہے اسی اعتماد کے تناسب سے برتائو کرے گا۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا ہے: ''خدا نہیں چاہتا ہے کہ مومنین کی روزی اس جگہ سے فراہم کرے جہاں سے وہ گمان نہیں رکھتے''(١) خداوند عالم کا یہ برتائو ان مومنین سے مخصوص ہے جو توکل کے اعلیٰ درجہ پرفائز ہیں ؛ لیکن جو لوگ اس درجہ پرفائز نہیں ہوئے ہیں اور ان کا خدا وند عالم پر اعتماد کے ساتھ ساتھ طبیعی اسباب و علل پر بھی اعتماد باقی ہے، خداوند عالم بھی اسباب و علل کے ذریعہ ان کی ضرورتوں کو پورا کرے گا۔(٢)

تین۔ توکل کی اہمیت:

قرآن کریم نے دسیوں بار صراحت اورکنایہ کے ساتھ انسان بالخصوص مومنین کو خداوند عالم پر توکل کی دعوت دی ہے اور بندوں کے اس اعتماد و اطمینان کے مقابل ان کے امور کی کفالت سے متعلق خداوند عالم کے وعدہ کا اعلان کیا ہے۔ منجملہ ان کے قرآن میں ذکر ہے: '' مومنین کو چاہئے کہ صرف اور صرف خدا پر توکل کریں''۔(٣) ''خداوند عالم توکل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے''۔(٤) اسی طرح خدا پر اعتماد اور توکل کے انجام کی نسبت اطمینان حاصل ہونے کے بارے میں قرآن فرماتا ہے: '' جو خدا پر اعتماد کرتا ہے اس کے لئے وہی کافی ہے ''(٥) احادیث نبوی اور اہل بیت (ع) کے ارشادات ان عبارتوں سے بھرے پڑے ہیں جن میں توکل کی اہمیت اور فضیلت بیان ہوئی ہے، مثال کے طور پر حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''بے شک بے نیازی اور عزت گردش کی حالت میں ہیں وہ جیسے ہی توکل کی منزل سے گذرتی ہیں اس جگہ کو اپنا ٹھکانہ اور وطن بنالیتی ہیں''۔(٦)

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج٥، ص٨٣، ح١۔ ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ص٦٠۔شیخ طوسی، امالی، ص٣٠٠، ح٥٩٣۔

٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص٢٢٩، ٢٣٠۔

٣۔ سورئہ آل عمران، آیت ١٢٢، ١٦٠۔ مائدہ ، آیت ١٢، ٢٦۔ توبہ آیت ٥٢۔ ابراہیم، آیت ١١۔ مجادلہ، آیت ١٠۔ تغابن، ١٣۔

٤ ۔سورئہ آل عمران، آیت ١٥٩۔

٥۔ سورئہ طلاق، آیت ٣۔

٦۔ کلینی، کافی ج٢، ص ٦٥، ح٣۔

۸۷

چار۔ سعی وکوشش اور توکل:

اگر چہ توکل کی حقیقت کے بارے میں غور و فکرکرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ توکل سعی وتلاش اور اسباب ووسائل سے استفادہ کرنے سے منافات نہیں رکھتا لیکن کبھی ایسا شبہہ پیش آتا ہے کہ اس کی جانب اشارہ کرنا مفید ہے۔ انسان ان امور کی نسبت جن کے اسباب و علل اس کے ارادہ سے خارج ہیں وہ توکل کے سوا کوئی چا رہ کا ر نہیں رکھتا لیکن ان حوادث کی نسبت جن کے اسباب و علل کی ایجاد اس کے ہاتھ میں ہے باوجودیکہ توکل کے سبب اسباب ووسائل کے لئے مستقل تاثیر کا قائل نہیں ہے، لیکن اس کا فریضہ ہے کہ ان کی فراہمی کے لئے کوشش کرے اور جس چیز کی سببیت کے لئے یقین یا گمان رکھتا ہے اس کا استعمال کرے اور اس حیثیت میں اپنی عقل و ہوش سے استفادہ کرے۔ کیونکہ خدا کی سنت اس بات پر قائم ہے کہ امور عالم اپنے خاص اسباب و علل کے ساتھ آگے بڑھیں، اسی بنیاد پر اس نے فرمایا ہے: '' جنگ کے موقع پر خاص طریقہ اور اسلحہ کے ساتھ نماز پڑھو''(١) '' اور اپنے لئے دفاعی قوت پیدا کرو''۔(٢) موسیٰ ـ کو حکم دیا کہ ''ہمارے بندوں کو شب (کے سناٹے) میں فرعونیوں کی نگاہوں سے بچا کر شہر سے نکال لو''۔(٣) پیغمبر اکرم نے جب ایک اعرابی کو دیکھا کہ اس نے خداوند عالم پر توکل کے بہانہ اپنے اونٹوں کو جنگل میں چھوڑدیا تو فرمایا: ''اعقلھا و توکّل''(٤) ''اونٹ کو باندھ دو اور خدا پر توکل کرو''۔

٣۔شکر

یہ مفہوم بھی چند لحاظ سے تحقیق کے قابل ہے :

ایک۔ شکر کی ماہیت اور درجات:

شکر کی ماہیت کے سلسلہ میں متعدد عبارتیں استعمال کی گئی ہیں'' نعمت کا تصوراور اس کااظہار ''(٥) ''منعم کی نعمت کی شناخت اور اس کی بہ نسبت سرور و شادمانی، اس سرورکے مقتضیٰ کے مطابق عمل کرنا امور خیر پر عزم کے ساتھ، منعم کی شکرگذاری اور خداوند عالم کی راہ بندگی میں نعمت کا استعمال''(٦) اور ''اظہار نعمت''(٧) یہ ساری تعریفیں شکر کے لئے بیان کی گئی ہیں ان تمام تعریفوںکو یکجا کرکے کہا جاسکتا ہے کہ درحقیقت شکروہی ''نعمت کا اظہار'' ہے ۔

____________________

١۔ سورئہ نساء ١٠١۔ ٢۔ سورئہ انفال ٦١۔ ٣۔سورئہ دخان ٢٣۔ ٤۔ طوسی، امالی، ص ١٩٣، ح ٣٢٩۔٥۔ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ قرآن، ص ٢٧٢۔

٦۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص ٢٣٣۔ اسی طرح ملا حظہ ہو فیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج٧، ص٤٤تا ١٤٦۔

٧۔ علا مہ طباطبائی، المیزان، ج٤، ص ٣٨، اور ج٦، ص ٢١٥۔

۸۸

نعمت کا اظہار ایک طرف اس کے تصورو ادراک کا مستلزم ہے اور دوسری طرف یہ اظہار مختلف مراتب اور پہلوؤں کا حامل ہے کیونکہ نعمت کے اظہار سے مراد اس کا ایسی راہ میںاستعمال کرنا ہے جس میں منعم نے ارادہ کیا ہو، اسی طرح اس کی کا ذکر اور اس کی نعمت کے لئے اس کی مدح و ثنا کرنا ہے۔ اس وجہ سے شکر سہ گانہ مراتب کا حامل ہے قلبی: (یاد کرنا ) ، زبانی (مدح و ثنا ) اورعملی۔ شکر خدا وندی سے مرادیہ ہے کہ انسان پہلے دل میں ہمیشہ اس کی نعمتوں کی طرف متوجہ ہواور اس کی نعمتوں کو یادرکھتا ہو۔ دوسرے یہ کہ اللہ کی بیکراں نعمتوں سے استفادہ کرنے کے وقت اللہ کی حمد و ستائش کے لئے زبان کھولے۔ تیسرے خدا کی نعمتوں اور اس کی برکتوں کواس راہ میںاستعمال کرے جس میں اس کی مرضی اور خواہش ہو ۔(١) شکر کے مقابل کفر ہے جو کہ اللہ کی نعمتوں کو پوشیدہ و مخفی کرنے کے معنی میں ہے۔ البتہ واضح ہے کہ اللہ کی بے شمار نعمتوں کی بہ نسبت اللہ کے شاکر بندے بھی شکر گزاری سے عہدہ بر نہیں ہو سکتے ، اس کے باوجود ادب بندگی اقتضاء کرتا ہے کہ اس راہ میں اپنی انتھک کوشش کرے۔ قرآن اللہ کی نعمتوں کی وسعت اور نوع بشر کے میزان شکر کے بارے میں فرماتا ہے: ''اور تم نے جو کچھ مانگا اس نے عطا کیا، اور اگر خدا کی نعمتوں کو شمار کرو تو ان کا شمار نہیں کرسکتے یقینا انسان بڑا ظالم اور ناشکرا ہے''۔(٢)

دو۔ شکر کی اہمیت:

آیات و روایات میں شکر کی شرح میںذکر ہوا ہے: شکر گزاری خدا کے صفات میں سے ہے '' اور خدا شکر گزار اور برد بار ہے''۔(٣) شکر گزاری جنت میں رہنے والوں کے کلام کی ابتدا وانتہا ہے: ''شکر اس خدا کا جس نے ہم سے کئے گئے اپنے وعدہ کو ہم پر سچ کردکھا یا ''(٤) اور ان کی مناجات کا آخری کلام یہ ہے: ''الحمد لله رب العالمین ''۔(٥) خدا وند عالم نے شکر گزاری کو ایمان کے ساتھ ساتھ عذاب سے روکنے کا باعث قرار دیا ہے: '' اگر شکر گذار بنو اور ایمان لے آؤ تو خدا تم پر عذاب کر کے کیا کرے گا ؟ ''(٦)

____________________

١۔ شکر کے مراتب کو معتبر و مستند احادیث کے مضامین سے استنباط کیا جا سکتا ہے ؛ جیسے کافی، ج٢، ص ٩٦، ح ١٥، اور ص ٩٥، ح٩، ١١۔

٢۔ سورئہ ابراہیم، آیت ٣٤، اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ اعراف، آیت ١٠ اور ١٧، سورئہ یونس، آیت ٦٠ اور سورئہ غافر، آیت ٦١۔

٣۔ سورئہ تغابن، آیت١٧ اسی طرح ملاحظہ ہوسورئہ نساء آیت ١٤٧۔

٤۔ سورئہ زمر ٧٤۔ ٥۔ یونس ١٠۔ ٦۔ نساء ١٤٧۔

۸۹

شکر گزاری کی فضیلت میںاتنا ہی کافی ہے کہ خداوندعالم صریحی طور پر بندوںکو اس کا حکم دیتا ہے: '' اور میرا شکر بجا لاؤ اور میرے ساتھ ناشکری نہ کرو ''(١) حضرت امام زین العابدین ـ کے بقول خداوند عالم کا شکر ادا کرنا انسان کو اللہ کی خاص محبت کے دائرہ میں قرار دیتا ہے: '' حقیقت میںخداوندعالم ہر محزون وغمزدہ دل اور ہر شکر گذار و قدرداں بندہ کودوست رکھتا ہے '' ۔(٢) اس وجہ سے حق شناسی اور شکر گزاری خداوند عالم اور انسان کے درمیان رابطہ بر قرارکرنے و الے اساسی وبنیادی عناصر میں سے ہے یہ انسان کا خدا کے ساتھ رابطہ ہے جس کی اصل الہٰی نعمتوں اور برکتوں کے ادراک اور ان کی نسبت قلبی اعتراف میں پوشیدہ ہے۔قابل ذکر بات ہے کہ ''شکر ''اپنے مجموعی مفہوم کے اعتبار سے لوگوں کی شکر گزاری بھی لوگوں کی خدمتوں کے سلسلہ میں شامل ہے اس طرح کے شکر کے سلسلہ میں اخلاق معاشرت کی بحث میںگفتگو کی جاتی ہے۔

تین۔ شکر خداوندی کا دنیوی نتیجہ:

سب سے اہم دنیوی اثر جو دینی کتابوں میں شکر گزاری کے لئے بیان کیا گیا ہے، پروردگار کی نعمتوں کا زیادہ ہونا ہے۔ قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے: ''جب کہ تمہارے رب نے اعلان کیا کہ اگر شکر کروگے تو(نعمت) کو تم پر زیادہ کردوں گا اور اگرناشکری کروگے تو یقینا میرا عذاب سخت ہے''۔(٣) یہ حقیقت بہت سی روایات میں بیان ہوئی ہے ؛ منجملہ ان کے حضرت علی ـ نے فرمایا: ''خداوند عالم کسی بندہ پر شکر گذاری کا دروازہ نہیں کھولتا، اس حال میں کہ نعمت کا دروازہ اس پر بندکردے '' ۔(٤)

یہ سوال ہمیشہ ہوتا رہتا ہے کہ آیا خداوند سبحان کی شکر گزاری بندوں کے لئے مقدور ہے؟کیونکہ سپاس گذار ی کی توفیق اور اس کی قوت خود خدا کی ایک نعمت ہے اور دوسرے شکر کامستلزم ہے۔ اگراس فریضہ کاانجام دینا انسان کے امکان سے خارج ہے، توپھر کس طرح ا نسان کو اس کے کرنے کاحکم دیتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: ''وہ باتیں جن کی خداوندعالم نے موسٰی ـ کووحی کی تھی ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ موسیٰ میراشکر ایسا اداکرو، جو میرے شایان شان ہو '' موسٰی ـ نے جواب میں پوچھا: خدایا! کس طرح تیری شکرگذاری کا حق ادا کروں جب کہ ہرطرح میری شکرگذاری خود ہی ایک دوسری نعمت ہے ؟ خدا نے جواب میں فرمایا: اب (جب کہ تم نے جان لیا کہ تمہارا شکر کرنا خود ہی ایک دوسری نعمت ہے) تم نے میرے شکرکا حق ادا کردیا '' ۔(١) یعنی شکر الہی کا حق یہ ہے کہ انسان اپنی آخری کوشش کو اس راہ میں صرف کرے، اسی کے ساتھ یہ یقین رکھتاہو کہ اللہ کے شایان شان شکر ادا نہیں ہوسکتا۔

____________________

١۔ بقرہ ١٥٢ اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ اعراف ١٤٤ اور سورئہ زمر ٦٦۔٢۔ کافی، کلینی، ج٢، ص٩٩ح٣٠۔ ٣۔ ابراہیم ٧۔ ٤۔ نہج البلاغہ، حکمت ٤٣٥؛ کافی، ج ٢، ص ٩٤، ح٢اورص ٩٥، ح ٩ ؛ امالی، ص ٥٩۔

۹۰

ب۔ نفس کا اپنی عاقبت کی طرف رجحان

بعض عام اخلاقی مفاہیم انسان کے نفسانی حالات کے نظام کو اپنی عاقبت اور انجام کار کے لئے وجود میں لاتے ہیں وہ اہم ترین مفاہیم جو اس باب میں ذکر ہوئے ہیں یہ ہیں: خوف، رجائ، مایوسی، نا امیدی اور تدبیر خداوندی سے حفاظت۔ چونکہ یاس و ناامیدی ''خوف وخشیت '' کے لئے نقصاندہ اور تدبیر خداوندی سے حفاظت، امید و رجاء کے لئے بلا شمار ہوتی ہے، نتیجہ کے طور پر بحث و گفتگوکا موضوع اس حصہ میں'' خوف و امید '' ہے اور دیگرمفاہیم انھیںدو عنوانوں کے تحت زیر بحث قرار پائیں گے۔

١۔خوف

الف۔ خوف کا مفہو م:

خوف یعنی مستقبل میں یقینی یاظنّی علامتوں کی بنیاد پر انسان کے لئے کسی ایسے ناگوار واقعہ کے پیش آنے کا احتمال(٢) جو فطری طور پر درد مندی اور پریشانی کا باعث ہے۔(٣) اس بناپر ''خوف'' ''بزدلی'' سے اساسی فرق رکھتا ہے کیونکہ'' جبن (بزدلی ) '' سے مراد ہے خود کو دفاع اور انتقام وغیرہ سے ایسی جگہوں پر روکنا جہاں شرعی اور عقلی دونوں لحاظ سے اس کا اقدام کرنا جائز اور بہتر ہے۔(٤)

____________________

١۔ کافی، کلینی، ج٢، ص٩٨، ص٩٨، ح٢٧ملاحظہ ہو۔

٢۔ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ قرآن، ص ١٦١۔

(٣۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص ٢٤٩؛ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص٢٠٩۔

٤۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٢٠٩۔

۹۱

علماء اخلاق نے پہلی تقسیم میں خوف کو دو پسندیدہ اور ناپسندیدہ قسم میں تقسیم کیاہے۔ ناپسند خوف وہی خدا کے علاوہ کسی دوسری چیز سے خوف کھانا ہے اور خوف پسندیدہ عذاب خداوندی اور برے انجام سے خوف کھاناہے اور حقیقت میں اپنی بری رفتار اور اعمال کے ناگوار عواقب سے خوف کھانا ہے۔ یہاں پر ہماری بحث کا موضوع پسندیدہ خوف ہے۔

ب۔ خوف کے درجات:

اخلاق اسلامی کی مشہور کتابوں میں ''ورع'' ''تقویٰ'' اور ''صدق'' کو ''خوف '' کے درجات میں شمار کیا گیا ہے اس طرح سے خوف کا سب سے معمولی درجہ یہ ہے کہ وہ اس بات کا باعث ہو کہ انسان اخلاقی ممنوعات ومنہیات کے ارتکاب سے پرہیز کرے۔ ''خوف ''کے اس درجہ کو ''ورع ''کہتے ہیں۔ اور جب خوف کی قوت اورطاقت میںاضافہ ہوجائے اور وہ اس بات کا باعث ہوکہ انسان محرمات کے ارتکاب کے علاوہ مشکوک و مشتبہ چیزوں سے بھی پرہیز کرے تو اسے تقویٰ'' کہتے ہیں۔ تقویٰ میں صداقت یہ ہے کہ حتی بعض جائز و مباح امور کے ارتکاب سے بھی پرہیز کرے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ حرام کے ارتکاب کی راہ ہموار کردے اور آخر کار جب انسان خدا سے شدت خوف کی وجہ سے سراپا آمادئہ خدمت ہوتا ہے اور ضرورت سے زیادہ کوئی گھر نہیں بناتا اور نہ کوئی مال ذخیرہ کرتا ہے اور اس مال کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا جس کے بارے میں اسے معلوم ہے کہ اسے ایک دن چھوڑ جائے گا اور کوئی سانس بھی غیر خدا کی راہ میں نہیں لیتا تو درحقیقت اس نے ''صدق ''کی وادی میںقدم رکھ دیا ہے اور ایسے مرتبہ کے مالک کو صدّیق کہتے ہیں اس بنا پر مقام ''صدق'' اپنے اندر تقویٰ و ورع بھی رکھتا ہے اور تقویٰ و ورع کا حامل بھی ہے البتہ ''ورع'' عفّت کے ساتھ بھی ہے کیونکہ عفّت نفسانی شہوات وخواہشات سے پرہیز کرنے کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں ہے لیکن اس کے بر عکس صادق نہیں ہے۔(١)

ج۔ خوف کی اہمیت:

اولاً

خدا کا خوف انسان کے لئے سعادت حاصل کرنے میں بڑا بنیادی کردار اداکرتا ہے، کیونکہ پہلے بیان کئے گئے مباحث کی روشنی میں انسان کی سعادت پروردگارسے ملاقات اور اس کے جوار میں سکونت اختیارکرنے کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ بات انس ومحبت الہی کے سایہ ہی میں ممکن و میسر ہے اور وہ خود معرفت الہی پر منحصر ہے اور معرفت خود فکر کی مرہون منت ہے اور انس محبت وذکرپر منحصر ہے۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٢١٩، ٢٢٠۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص ٢٧٠ ، ١ ٢٧۔

۹۲

فکر وذکر الہی اس وقت ہوتا ہے جب انسان اپنے دل کو دنیاوی محبت سے الگ کر لے اور دنیا سے قلبی لگاؤ کو قطع کرنے کے لئے شہوتوں اور لذتوں سے کنارہ کشی کرنے کے سواکوئی اور راستہ نہیں ہے۔ اور خوف خدا وندی کی آگ لذتوں اور شہوتوںکی راہ میں ایک کار آمد اسلحہ ہے۔(١) نتیجةً خوف الہی انسان کا مقصد کی طرف حرکت کرنے کا پہلا سنگ بنیاد ہے۔

ثانیاً،

بہت سی آیات وروایات مختلف انداز سے خدا کے خوف کی اہمیت و منزلت پر تاکید کرتی ہیں۔ منجملہ ان کے قرآن نے خدا سے خوف کرنے والوں کورحمت و رضوان و ہدایت کا وعدہ دیا ہے: ''ان لوگوں کے لئے جو اپنے رب کاخوف رکھتے تھے ہدایت و رحمت تھی''۔(٢) ''خدا ان لوگوں سے راضی و خوشنود ہے اور وہ لوگ بھی اس سے راضی و خوشنود ہیں یہ جزا اس کی ہے جو اپنے رب سے ڈرتا ہے''۔(٣) اسی طرح قرآن خوف کا دعوی صرف حقیقی عالموں سے قبول کرتا ہے: ''خدا کے بندوں میں صرف علماء ہیں جواس سے ڈرتے ہیں''۔(٤) دوسری جگہ خوف کو ایمان کے لوازم میں شمار کیا ہے: ''مومنین وہی لوگ ہیںکہ جب خدا کاذکر ہو تو ان کے دل خوفزدہ ہوں''(٥) سر انجام قرآن نے خدا ترس لوگوں سے بہشت کا وعدہ کیا ہے: '' اور رہے وہ جو خدا کے سامنے کھڑے ہونے سے ہراساں ہیں اور اپنے نفس کو ہواو ہوس سے روک رکھا ہے، اس کا ٹھکانہ بہشت ہے ''۔(٦) خداوندعالم کی حضرت عیسیٰ ـسے گفتگو میں مذکور ہے: ''اے عیسیٰ ! مجھ سے ڈرواور میرے بندوں کو میری نسبت خوف دلاؤ، شاید گناہگار لوگ جو وہ گناہ کرتے ہیں اس سے باز آجائیں اور نتیجہ کے طور پر ہلاک نہ ہوں سوائے ان کے جو جانتے ہیں''۔(٧)

____________________

١۔ ایضاً۔

٢۔ اعراف ١٥٤۔

٣۔ بینہ ٨۔

٤۔ فاطر ٢٨۔

٥۔انفال ٢ ۔ آل عمران ١٧٥۔

٦۔ نازعات ٤٠، ٤١۔

٧۔) کافی، ج ٨، ص ١٣٨، ح ١٠٣۔

۹۳

د۔ خوف کے بارے میں ہوشیاری:

خداوند ذو الجلال سے خوف کھانا وادی قرب الہی میں بندوں کے سلوک کے لئے ایک تازیانہ ہے۔ جیسا کہ اس تازیانہ کا کمزور ہونا یا فقدان، الہی راہ کے سالکوں کے لئے بے زادو راحلہ بنادیتا ہے، حد سے زیادہ اس کی زیادتی بھی امید کی کرن کو اس کے دل میں منزل مقصود تک پہونچنے کے امکان میں خاموش کردے گی اور حرکت کرنے کی طاقت بھی اس سے سلب کرلے گی۔ لہٰذا خدا وند عالم سے خوف میں افراط کرنا رحمت الہی سے قنوط ومایوسی ہے جو خوف خدا کی عظیم آفت ہے۔ اور اخلاقی برائی شمار ہوتی ہے ]بعض ارباب لغت نے قنوط کو مایوسی کا شدید درجہ سمجھتے ہیں ۔(١) اسی بنیاد پر قرآن کریم رحمت خداوندی سے مایوسی کو محض گمراہی تصور کرتا ہے: '' کون ہے جز گمراہوں کے جو رحمت خداوندی سے مایوس ہوتا ہے ؟ ''(٢) اور دوسری جگہ رحمت خداوندی سے مایوسی کو کا فروںکا شیوہ تصور کرتا ہے: '' یقینا ً کافروں کے سوا کوئی رحمت الہی سے مایوس نہیں ہوتا ''۔(٣) بہت سے موارد میںانسان کاخوف زندگی کے برے انجام اور شوم عاقبت سے ہوتا ہے ؛ خوف اس بات کا کہ کہیں انسان کفر کی حالت یا خدا کے انکار یا شک وتردید کی حالت میں دنیا سے چلا جائے یا ایسے حال میں دنیا چھوڑے کہ اس کا دل خدا کی محبت اور اس کے انس سے خالی ہو، نتیجہ کے طور پر اپنے اعمال سے شرمندہ اور عذاب الہی میںگرفتار ہو۔ واضح ہے کہ جو بھی ایسا خوف و ہراس دل میں رکھے گا اسی وقت سے اپنی را ہ وروش اور گفتار کو بدلنا چاہے گا اور یہ وہی خدا سے خوف رکھنے کی فضیلت کا رمز ہے۔

٢۔ امید

الف۔ امید کا مفہوم: '' رجائ'' (''امید '' ) سے مراد قلبی سکون کا احساس ہے اور وہ کسی ایسے امرکے تحقق کے انتظار کے نتیجہ میں ہے جو محبوب اور خوش آیند ہے، البتہ ایسی صورت میں جبکہ اس محبوب امر کے اکثر اسباب اور موجبات محقق وثابت ہوں۔ لیکن جب اسباب کاوجود یا عدم معلوم نہ ہو تو ایسے انتظار کو '' تمنا'' اور '' آرزو'' کہا جاتا ہے۔ اگر امر محبوب کے وجود کے اسباب و علل فراہم نہ ہوں اور اس کے باوجود انسان اس کے تحقق کا انتظار رکھتا ہو توایسے انتظار کو '' فریب '' اور ''حماقت '' کہتے ہیں اور کبھی اس پر رجاء و امید کامفہوم صادق نہیں آتا ہے۔ ''امید ''بھی '' خوف وہراس '' کے مانند ایسی جگہ ذکر کی جاتی ہے جہاں واقعہ کا ظاہر ہونا عام طور سے محتمل ہو نہ کہ قطعی۔ اس وجہ سے امید سورج کے طلوع یا غروب کے متعلق جس کا تحقق قطعی ہے ، صحیح نہیں ہے۔(٤)

____________________

١۔ ملاحظہ ہو ابو ہلال عسکری اور نور الدین جزائری کی کتاب معجم الفروق اللغوےة، ص ٤٣٥، ٤٣٦۔ ٢۔ سورئہ حجر، آیت ٥٦۔ ٣۔ سورئہ یوسف، آیت ٨٧۔ ٤۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص٢٤٩۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٢٤٤۔

۹۴

ب۔ امید کی اہمیت:

قرآن وروایات میں رحمت خداوندی ا ور نیک انجام سے امید مختلف جہات اور اسالیب میںمورد تاکید وترغیب واقع ہوا ہے کہ ذیل میں ان کے صرف اصلی محور کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔

١۔ وہ آیات وروایات جو رحمت خداوندی سے اس مایوسی اور نا امیدی کی مذمت میںہے جو '' امید '' کے مقابل ہے، وارد ہوئی ہیں، ان میں سے بعض بیان ہوچکی ہیں۔

٢۔ وہ آیات وروایات جو بندوں کو واضح طور پر فضل خداوندی کا امید وار بناتی ہیں اور اس کی تشویق وترغیب کرتی ہیں؛ منجملہ ان کے یہ ہے کہ خداوند ذوالجلال رسول اکرم سے فرماتا ہے: ''عمل کرنے والے (مومنین ) ان اعمال پر اعتماد نہ کریں جو میرے ثواب کے حصول کے لئے انجام دیتے ہیں، کیونکہ اگر اپنی تمام عمر میری عبادت کے لئے کوشاں ہوںاور زحمت کریں اس کے بعد بھی کوتاہی کی ہو اور میری عبادت کی کنہ و حقیقت کو کہ جس کے سبب سے وہ کرامت جو میرے نزدیک ہے اور میری بہشت کی نعمتوںکو تلاش کرتے ہیں، نہیں پہونچ سکتے، بلکہ انھیںچاہئے کہ میری رحمت پر اعتماد کریں اور میری بخشش کے امید وار رہیں''۔(١)

٣۔ قرآن وروایات میں مذکور ہے کہ فرشتے اور اللہ کے انبیاء ہمیشہ مومنین کے لئے خداوند عالم سے عفو و بخشش طلب کرتے رہتے ہیں اور یہ خود رحمت خداوندی سے امید رکھنے کا باعث ہے۔

قرآن میں مذکور ہے: ''فرشتے اپنے پروردگار کی حمد میں تسبیح پڑھتے ہیں اوران لوگوںکے لئے جو زمین میں ہیں عفو وبخشش طلب کرتے ہیں''۔(٢)

٤۔ وہ آیات وروایات جو اللہ کے بے کراں عفو ومغفرت پر دلالت کرتی ہیں: ''یقیناً تمہارا رب لوگوں کی نسبت ان کے ستم کے باوجود بخشنے والاہے''۔(٣)

اسی طرح جو کچھ پیغمبر اکرم کی شفاعت کے بارے میں ان کی امت کی نسبت وارد ہوا ہے،(٤) یا وہ آیات وروایات جو اس بات کو بیان کرنے والی ہیں کہ جہنم صرف اور صرف کافروں کے لئے فراہم کی گئی ہے،(٥) یا مومنین کے آتش (جہنم ) میں ہمیشہ رہنے کی نفی کرتی ہیں، اسی طرح گناہگاروں کو عفو و گذشت کی درخواست میں جلدی کرنے کی دعوت دیتی ہیں یہ تمام آیات وروایات درحقیقت خداوندعالم سے امید رکھنے اور حسن عاقبت کی تشویق کرتی ہیں۔(٦)

____________________

١۔ کافی، ج٢، ص٧١، ح ١۔ ٢۔سورئہ شوری، آیت٥۔ ٣۔سورئہ رعد، آیت ٦۔ ٤۔ سورئہ ضحی کی پانچویںآیت کی تفسیر ملاحظہ ہو۔

٥۔ سورئہ آل عمران، آیت ١٣١۔ ٦۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٢٤٧ تا ٢٥٤۔

۹۵

ج۔ امیدکے نقصانات:

خداوندعالم کی رحمت سے امید اور نیک انجام کی توقع رکھنے سے دو لحاظ سے شدت کے ساتھ خطرہ محسوس ہوتاہے کہ ذیل میںا ن کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔

١۔ بغیر عمل کے امید وارہونا:

'' امید '' کی تعریف میں کہا گیا ہے کہ کسی خوش آیند امر کے تحقق کے انتظار کے نتیجہ میں قلبی کو اس صورت میں امید واری کا نام دیا جاتا ہے کہ جب اس کے اکثر وبیشتر اسباب وعلل فراہم ہوں ورنہ خوش آیند سر انجام کا انتظار بغیر اس کے اسباب کے تحقق کے '' حماقت ''اور ''غرور'' کے سوا کوئی چیز نہیں ہوگی۔

امیدواری کی ایک اہم ترین مشکل درواقع جھوٹی اور بے بنیاد امیدیں ہیں، اسلام کے اخلاقی نظام میں سعادتمندی اور نیک بختی صرف عمل صالح کی راہ سے گذرتی ہے لیکن بہت سے ایسے افراد ہیں جو بغیر کوشش اور نیک عمل کے، نیک اور اچھے انجام کی امیدکے داعویدار ہیں۔ حضرت علی ـ اس گرو ہ کو ہوشیار کرتے ہوئے فرماتے ہیں''کیا تم امید رکھتے ہو کہ تمہیںخدا متواضع افراد جیسا اجر دے دیگا جب کہ تم اس کے نزدیک سرکشوں میں شمار سے ہو اور صدقہ دینے والوں کے ثواب کی آرزو رکھتے ہو جب کہ تم نعمت سے مالامال ہو اوراسے بے چاروں اور بیوہ عورتوں پر خرچ کرنے سے دریغ کرتے ہو !آدمی نے جو کچھ کیا ہے وہ اسی کی جزا پاتا ہے اور جو اس نے پہلے روانہ کیا ہے اسی پر وارد ہوتا ہے''۔(١)

٢۔ تدبیر خداوندی سے اپنے کو محفوظ سمجھنا:

خداوند رحمان کی بخشش کا حد درجہ امیدوار ہونا تدبیر خداوندی (سزائے الہی) سے بے خوفی کا احساس دلاتا ہے جو کہ اخلاقی رزائل میںسے ایک ہے۔ خود کو اللہ کے عذاب سے محفوظ سمجھنا خوف الہی سے منافات رکھتا ہے، نیز تدبیر الہی سے امان کا احساس انسان کو گناہ و عصیان میںغوطہ لگانے کا آغاز ہے۔ اسی بنیاد پر انبیاء واولیاء خود کو امن وامان میں نہیں سمجھتے تھے اور ہمیشہ عذاب خداوندی سے خوفزدہ رہتے تھے۔ قرآن کریم تدبیر خداوندی سے امان کے احساس کی مذمت میں فرماتا ہے: ''آیا انہوں نے خود کو تدبیر خداوندی سے امان میں خیال کیا ہے ؟ (باوجودیکہ) خسارہ اٹھانے والے لوگوں کے علاوہ کوئی بھی خود کو تدبیر الہی سے محفوظ نہیں سمجھتا''۔(٢)

____________________

١۔ نہج البلاغہ، مکتوب ٢١، اور ملاحظہ ہو خطبہ ١٦٠، حکمت١٥٠ حرانی، تحف العقول، ص ٢ ۔ کافی، کلینی، ج٢، ص ٦٨، ح٥۔

٢۔ اعراف ٩٩۔

۹۶

۳۔ خوف ورجاء کے درمیان مناسبتیں:

اس سلسلہ میں دورخ سے توجہ کی جاسکتی ہے: ایک قلب انسان پر ان میں سے ہر ایک کی کیفیت اور اثر کے اعتبار سے، دوسرے یہ کہ دونوں ایک دوسرے کے مقابل کیا مقام ومنزلت اور کیا اہمیت رکھتے ہیں ،یعنی یہ کہ آیا امید، خوف سے زیادہ اہم چیز ہے یا اس کے عکس (خوف امید سے زیادہ اہم ہے؟)

پہلی بات تویہ ہے کہ خوف ورجاء گذشتہ مفہوم کے اعتبار سے اصل وجود میں ایک دوسرے کی نسبت لازم وملزوم ہیں ؛ کیونکہ ''خوف '' کسی ناگوار امر کے وقوع اور آئندہ ممکن الحصول چیز کے انتظار کے نتیجہ میں قلبی گھبراہٹ اور پریشانی ہے ، اس وجہ سے جس طرح اس کا واقع ہونا احتمال رکھتا ہے اسی طرح اس کاواقع نہ ہونا بھی احتمال رکھتا ہے نیز جس طرح اس کا واقع ہوناناگوار اور نا خوش آیند ہے اسی طرح اس کا واقع نہ ہونا بھی خوش آیند اور اس کے عدم کا انتظار خودہی مایۂ امید ہوگا۔اس وجہ سے ہرامید اپنے دامن میں خوف و ہراس رکھتی ہے اور اس کے برعکس ہر خوف و ہراس بھی اپنے دامن میں امید رکھتا ہے۔ رہا اس سوال کا جواب کہ ان دونوں کا اثر انسان پر کس درجہ ہے؟ کہا جا سکتا ہے: یہ نسبت اسی اندازہ اور میزان کے ساتھ ہونی چاہیے کہ ان دونوںمیں سے کوئی بھی دوسرے کے اثر حرکت اور کارآمد ہونے کو کم نہ کرے، کیونکہ خوف و رجاء عمل صالح اور خداوند عالم سے تقرب کا ذریعہ ہیں، اور یہ اس وقت ثابت ہوگا جب دونوں ہی تعادل وتوازن کے ساتھ( میانہ حالت پر) ہوں۔

دوسری بات یہ ہے کہ اہمیت کے اعتبار سے جب دونوں کا ایک دوسرے سے مقایسہ کیا جائے تو یہی ذہن میں آتا ہے کہ اس قیاس کو دوسطح میں انجام دیا جا سکتا ہے: ١ فرداًفرداًافراد اور مصادیق کے اعتبار سے، ٢ مصادیق سے صرف نظر کرکے تنہاخوف ورجاء کی حقیقت پر غور کرتے ہوئے افراد کی نسبت ان دونوںمیں سے ہر ایک کا مقدم ہونا فردکی حالت سے وابستہ ہے۔ بعض کو ''امید '' متحرک کردیتی ہے تو بعض کو ''خوف '' متحرک بنادیتا ہے۔ واضح ہے کہ مناسب دوا ہرایک کے لئے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن معین افراد واشخاص سے قطع نظر اور خوف و رجاء کی حقیقت کے پیش نظر بعض آیات(١) و روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ اگر عمل خداوندرحمان پر امید کے ذریعہ انجام پائے تو اس عمل پر جو خوف کی بنا پر وجود میں آتا ہے۔ برتری رکھتا ہے۔ منجملہ ان کے حضرت علی ـسے نقل ہوا ہے: ''رحمت الہی کی امید خوف الٰہی سے زیادہ قوی ہے۔کیونکہ خداوندعالم سے تمہارا خوف کھانا تمہارے گناہوں سے پیدا ہوتا ہے لیکن خدا سے تمہاری امید اس کی بخشش سے پیدا ہوتی ہے، لہٰذا خوف تمہاری طرف سے ہے اور امید اس کی طرف سے''۔(٢) دعائے جوشن کبیر میں وارد ہوا ہے:''یا من سبقت رحمته غضبه'' اے وہ ذات جس کی رحمت اس کے غضب پر سبقت رکھتی ہے۔

____________________

١۔ فصلت ٢٣ اور فتح ١٢۔ ٢۔ شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدیدمعتزلی، ج٢٠، ص ٣١٩ ،ح ٦٦٦۔

۹۷

ج۔ نفس کا خود اپنی طرف رجحان

نفس انسانی کے اپنی نسبت رجحان کا تعادل وتوازن بعبارت دیگر اپنے کام سے متعلق صحیح جانچ پڑتال رکھنا اخلاق اسلامی میں عام مفاہیم کے دوسرے گروہ کا ہدف ومقصد ہے۔ سب سے اہم وہ مفہوم جو انسانی کے اپنی نسبت مثبت رجحان اور صحیح جانچ پڑتال کا ذریعہ بیان کرتا ہے وہ '' انکساری '' یا '' خود شکنی '' اور '' تواضع '' ہے۔

١۔ انکسار نفس

نفس کی انکساری اور خود شکنی سے مراد یہ ہے کہ انسان بغیر اس کے کہ اپنا کسی غیر سے مقایسہ کرے خود کو سب سے حقیر چھوٹا سمجھے نیز خود پسند اور اپنے آپ سے راضی نہ ہو، خود شکنی تواضع کا سرچشمہ ہے اور بغیر اس کے تواضع محقق نہیں ہوتی۔ اس بنا پر جو کچھ تواضع کی اہمیت اور فضیلت کے بارے میں بیان کیا جائے گاوہ سب فروتنی اور خود شکنی کی فضیلت پر بھی دلالت کرے گا، اور شاید اسی وجہ سے آیات و روایات میں زیادہ تر ''تواضع '' کے سلسلہ میں تاکید کی گئی ہے اور انکساری نفس اور خود کو حقیر شمار کرنے کے بارے میں کم ذکر آیا ہے۔ انکساری نفس کی فضیلت کے مختلف پہلوئوں کو جب اس کے موانع سے مقایسہ کریں اور ان کے متضاد مفاہیم پر غور کریں تو بخوبی دریافت کرسکتے ہیں، یہ موانع درج ذیل ہیں:(١)

پہلی نظر عُجب(خود پسندی)

عُجب خود ستائی اور غرور فروتنی اور خودکو حقیر شمار کرنے کے اصلی و بنیادی موانع میں سے ایک ہے، چونکہ خودستائی حقیقت میں خود پسندی کی علامت اور اس کے ملحقات میں سے ہے لہذا ہم موانع کی بحث کو خود پسندی اور غرور کے محور پر بیان کریں گے۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٣٤٣ملاحظہ ہو۔

۹۸

الف۔ عُجب کا مفہوم:

عُجب یعنی خود کو اس کمال کی وجہ سے عظیم اور بلند سمجھنا ا جو وہ اپنے اندر سمجھتا ہے خواہ وہ کمال واقعاً اس میں پایا جاتا ہو یا نہ پایا جاتا ہو، نیز جس چیز کو وہ کمال تصور کررہا ہے واقعاً بھی کمال ہو یا نہ ہو اس وجہ سے خود پسندی میں بھی انکسار نفس اور فروتنی کے مانند دوسرے سے مقایسہ نہیں پایا جاتا ہے اور بغیر اس کے کہ انسان اپنا دوسروں سے مقایسہ کرے اپنے اندرپائے جانے والے واقعی یاخیالی کمال کے تصوّر کی وجہ سے نیز اس بات سے غفلت کے سبب کہ ہر کمال خدا کی جانب سے ہے، اپنے آپ پر مغرور اور راضی و خوشنود ہے اور اپنی حالت کوپسند کرتا ہے۔ بر خلاف ''کبر '' کے کہ متکبر انسان اپنے آپ سے راضی و خوشنود ہونے کے علاوہ خود کو دوسروں سے مقایسہ کرکے اور اپنے آپ کو غیروں سے بہتر سمجھتا ہے نیز اپنے لئے دوسروں کے مقابل حق اور اہمیت و امتیاز کا قائل ہے(١)

اس بنا پر، ''کبر'' کا محقق ہونا اس بات کا مستلزم ہے کہ'' عُجب '' بھی پایا جائے، لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہے کہ جہاں عُجب و خود پسندی ہووہاں کبر بھی ضروری ہو۔کبھی انسان کی خود پسندی اس درجہ بڑھ جاتی ہے کہ جو اس کے اندر کمال پایا جاتا ہے اس کی وجہ سے اپنے لئے خدا وند عالم سے حقوق اور مطالبات کا انتظار کرتا ہے اور اپنے لئے خدا کے نزدیک حیثیت و مرتبہ کا قائل ہو جاتا ہے، اس طرح سے کہ ناگوار حوادث کا وقوع اپنے لئے بعید سمجھتا ہے ایسی حالت کو ''ادلال'' کہا جاتا ہے ،درحقیقت یہ حالت خود پسندی کا سب سے بڑا اور بدترین درجہ ہے۔(٢)

ب۔ خود پسندی کی مذمت :

قرآن کریم میں بارہاخود پسندی کی مذمت کی گئی ہے، منجملہ ان کے جنگ حنین میں مسلمانوں کی شکست کی علّت بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے: ''یقیناً خداوندرحمان نے تمہاری بہت سے مواقع پر مدد کی ہے اورحنین کے روز بھی جب کہ تمہاری کثرت تعداد نے تمہیں فخر وناز میں مبتلا کر دیا تھا لیکن اس نے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور زمین اپنی تمام تر وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی، پھر تم دشمن کی طرف پیٹھ کر کے فرار کر گئے''۔(٣)

اس آیت میں خود پسندی کا ذکر اخلاقی برائی کے عنوان سے ہوا ہے جو کہ لشکر اسلام کی شکست کا باعث بن گئی ۔ پیغمبر اکرم سے منقو ل ہے کہ خدا وند عالم نے حضرت داؤد ـ سے فرمایا: ''اے داؤد! گناہگاروں کو بشارت دے دو اور صدیقین (سچے اور پاک باز لوگوں کو ) ڈراؤ۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٣٢١، ٣٢٢ملاحظہ ہو۔ ٢۔ ایضاً، ص٣٢٢۔٣۔ سورئہ توبہ، آیت٢٥۔ اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ حشر، آیت ٢۔ سورئہ کہف، آیت ٤٠۔ اور سورئہ فاطر، آیت ٨۔

۹۹

داؤد ـ نے عرض کی: گناہگاروں کو کس طرح مژدہ سنائوں اورصدیقین کوکیسے ڈراؤں ؟ خدا نے فرمایا: اے داؤد! گنہگاروں کو اس بات کی خوش خبری دو کہ میں توبہ قبول کروں گا اوران کے گناہوں کو معاف کر دوں گا اور صدیقین کو ڈراؤ کہ اپنے اعمال پر اترائیں نہیں ، کیونکہ کوئی ایسا بندہ نہیں ہے جس کا محاسبہ کروں مگر یہ کہ وہ ہلاک ہو۔(١)

بے شک خود پسندی اور خود بینی اخلاق اسلامی کی رو سے نہ صرف ایک غیر اخلاقی عمل ہے بلکہ اخلاقی رذائل کی ایک شاہراہ ہے اورجو تعبیریں دینی کتابوںمیں اس کی مذمت میں وارد ہوئی ہیں وہ اس مختصر کتاب کی گنجائش سے باہر ہیں۔(٢)

ج۔خود پسندی کے اسباب:

اسلامی اخلاق کے عالموںنیخود پسندی کے بہت سے اسباب و عوامل ذکر کئے ہیں کہ ان میں سے اہم ترین درج ذیل ہیں:

١۔ جسمانی بنیاد پر خود پسندی، جیسے خوبصورتی، جسم کا تناسب، اس کی صحت اور اس کا قوی ہونا، خوش آواز ہونا ِ اور اس کے مانند۔

٢۔ اقتداراور قدرت کے احساس کی بنا پر خود پسندی، جیسا کہ خدا وندعالم قوم عاد کے بارے میں فرماتا ہے کہ وہ لوگ اسی طرح کے توہم کا شکار ہوکر بولے: '' ہم سے زیادہ قوی کون ہے(٣) ؟'' اس طرح کی خود پسندی عام طور پر جنگ اور ظلم وستم ایجاد کرتی ہے۔

٣۔ عقل ودانش، ذہانت وآگاہی اور دینی اور دنیوی امور کے بارے میں دقیق اور وسیع علم رکھنے کی بنیاد پر خود پسندی۔ اس طرح کی خود پسندی کا نتیجہ خود رائی، ہٹ دھرمی، مشورہ سے بے نیازی کا احساس، دوسروں کو جاہل خیال کرنا اور عالموں اور دانشوروں کی باتوں کو سننے سے پرہیز کرنا ہے۔

٤۔ انتساب کی وجہ سے خود پسندی یعنی باشرف نسب اور با عظمت بزرگوں کی طرف منسوب ہونے کی بنا پر جیسے بنی ہاشم کی طرف منسوب ہونااور سید ہونا یا بزرگ خاندان سے تعلق یاشاہان وسلاطین کی طرف انتساب۔ انسان کاایسا خیال اپنے لئے لوگوں کی خدمت گذاری کی چاہت پیدا کرتا ہے۔

____________________

١۔ اصول کافی، کلینی، ج٢، ص ٣١٤، ح٨۔

٢۔ علامہ مجلسی ،بحار الانوار، ج ٧١، ص ٢٢٨تا ص ٢٣٥۔ کافی، ج ٢، ص ٣١٣، ٣١٤۔

٣۔ سورئہ فصلت، آیت ١٥۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

آیت ۷۵

( إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُّنِيبٌ )

بيشك ابراہيم بہت ہى دردمند اور خدا كى طرف رجوع كرنے والے تھے (۷۵)

۱_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام بردبار پيغمبر تھے جو ہرگز گناہگاروں كے عذاب ميں جلدى كرنے والے نہيں تھے_

ان ابراهيم لحليم

۲_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام لوگوں كو مشكلات ميں ديكھ كر متأثر ہونے والے اور ان كى دلسوزى كرنے والے تھے_

ان ابراهيم اوّاة

(أوّاہ )اس شخص كوكہتے ہيں جو زيادہ (آہ) كرنے والا اور افسوس كرنے والا ہو جملہ (يجادلنا) كے بعد جملہ (اوّاہ) كا آنا يہ بتاتا ہے كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام لوگوں كى مشكلات و پريشانى كى وجہ سے بہت متأثر اور اظہار افسوس كرتے تھے_

۳_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، ہميشہ خدا سے لگاؤ ركھتے اور اپنى حاجات كو اس سے طلب كرتے تھے_ان ابراهيم منيب

خداوند عالم كى بارگاہ ميں انا بہ سے مراد ، اس كي طرف رجوع كرنا ہے_

۴_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا قوم لوط كے بارے ميں طلب شفاعت كرنے كا سبب، ان كى بردبارى اور لوگوں كى مشكلات ميں اظہار افسوس كرنا اور خداوند متعال كے بارے ميں اعتقاد راسخ ركھنا ہے_يجادلنا فى قوم لوط، ان ابراهيم لحليم اوّاه منيب

(ان ابراہيم ) كا جملہ ابراہيمعليه‌السلام كا قوم لوط كے بارے ميں مجادلہ و بحث كرنے كا سبب اور ان كے دفاع كى وجہ كو بتاتا ہے_

۵_ بردبارى ، لوگوں كى مشكلات سے متأثر اور اظہار افسوس كرنا اور خدا كى طرف لگاؤ ركھنا اور اسى سے اپنى حاجات كو طلب كرنا يہ اچھى صفات اور پسنديدہ عادات ہيں _ان ابراهيم لحليم اوّاه منيب

۲۲۱

۶_عن جعفر بن محمد عليه‌السلام ... (الاوّاه ) الدّعاء (۱)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ (اوّاہ) جو آيت شريفہ ميں ہے اسكا معني، زيادہ دعا كرنے والا ہے_

ابراہيمعليه‌السلام :ابراہيمعليه‌السلام اور خطا كرنے والے ۱; ابراہيمعليه‌السلام اور ذكر الہى ۳; ابراہيم اورقوم لوط ۴; ابراہيمعليه‌السلام كا حلم ۱;ابراہيمعليه‌السلام كا غم ۲،۴;ابراہيمعليه‌السلام كى دعا ۳; ابراہيمعليه‌السلام كى سيرت ۳; ابراہيمعليه‌السلام كى شفاعت كے اسباب ۴; ابراہيمعليه‌السلام كى مہربانى ۲;ابراہيمعليه‌السلام كے حليم ہونے كے آثار ۴; ابراہيمعليه‌السلام كے فضائل ۱

انگيزہ :انگيزہ كے اسباب ۴

اوّاہ :اوّاہ سے مراد ۶

حلم :حلم كى اہميت ۵

دعا :دعا كى اہميت ۵

ذكر:ذكر خدا كى اہميت ۵

روايت :۶

صفات :پسنديدہ صفات ۵

قوم لوط :قوم لوط كى شفاعت ۴

لوگ :لوگوں كى مشكلات پر تأسف كا اظہار كرنا ۲،۴،۵

____________________

۱) دعائم الاسلام ، ج۱، ص ۱۶۶; بحار الانوار ج۸۲،ص۳۲۵،ح۲۰_

۲۲۲

آیت ۷۶

( يَا إِبْرَاهِيمُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَا إِنَّهُ قَدْ جَاء أَمْرُ رَبِّكَ وَإِنَّهُمْ آتِيهِمْ عَذَابٌ غَيْرُ مَرْدُودٍ )

ابراہيم اس بات سے اعراض كرو _ اب حكم خدا آچكا ہے اوران لوگوں تك وہ عذاب آنے والا ہے جو پلٹايا انہيں جا سكتا (۷۶)

۱_ حضرت ابر اہيم(ع) كى قوم لوط كے بارے ميں شفاعت (كہ ان سے عذاب ٹل جائے) خداوند متعال كے ہاں مورد قبول واقع نہ ہوئي _يجادلنا فى قوم لوط يا ابراهيم اعرض عن هذ

۲_ فرشتوں نے جناب ابراہيمعليه‌السلام سے خواہش كى كہ قوم لوط كے بارے ميں شفاعت سے صرف نظر كريں اور اس پر اصرار نہ كريں _يا ابراهيم اعرض عن هذ

(ہذا ) كا اشارہ (جدال ) كى طرف ہے جو ماقبل آيت ميں موجود(يجادلنا ) سے استفادہ ہوا ہے_

۳_قوم لوط كا مقدر شدہ عذاب حتمى تھا اور اس ميں كسى تغيّر و تبديلى كى گنجائش نہ تھي_

انه قد جاء امرربك و انهم ء اتيهم عذاب غير مردود

(اتى )اتيان سے اسم فاعل ہے يعنى (آنا)اور (ردّ) پلٹانے كے معنى ميں ہے _لہذا ( انہم ء اتيہم ) يعنى وہى عذاب ان پر آئے گا جو ٹلنے والا نہيں ہے_

۴_ كائنات ميں خداوند متعال كا حكم حتمى ہے _ اس ميں كوئي تخلف يا كمى واقعى نہيں ہوتى _انه قد جاء امر ربك

ظاہر يہ تھا كہ فرشتے، عذاب كے آنے كى خبر كو فعل مضارع سے بيان كرتے _ كيونكہ ابراہيمعليه‌السلام كى گفتگو كے دوران ابھى قوم لوط پر عذاب نازل نہيں ہوا تھا_ اسى وجہ سے فعل مضارع (يجي) كى جگہ فعل ماضى (جائ) كألانا اور حرف (قد ) كے ذريعے تاكيد كرنا اس حكم الہى كے حتمى طور پرواقع ہونے كو بتاتا ہے_

۲۲۳

۵_ پيغمبروں كى شفاعت ودر خواست كاخدا كى بارگاہ ميں قبول نہ ہونا بھى ممكن ہے_يا ابراهيم اعرض عن هذا

۶_ قوم لوط پر عذاب كا قطعى ہونا اور قابل تغيير نہ ہونا حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى ان كے بارے ميں شفاعت كے قبول نہ ہونے كى دليل ہے_يا ابراهيم اعرض عن هذا انه قد جاء امر ربك

(انّہ قد جاء ...) كا جملہ (اعرض عن ہذا) كے جملے كے ليے علت ہے_

۷_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا قوم لوط كے عذاب كے بارے ميں فرشتوں سے جر و بحث كرنا اس عذاب كے قطعى ہونے كى اطلاع سے پہلے تھا_يجادلنافى قوم لوط يا ابراهيم اعرض عن هذا انه قد جاء امر ربك

۸_ مفسد اقوام پر عذاب الہى كا نازل ہونا، خداوند متعال كى ربوبيتكا تقاضا ہے_انه قد جاء امر ربك

۹_ پيغمبروں كى شفاعت كا مورد قبول ہونا اس شرط پر ہے كہ جس امر كى شفاعت كررہے ہيں وہ خدا كے ہاں حتمى نہ ہو چكا ہو_يجادلنا فى قوم لوط يا ابراهيم اعرض عن هذا انه قد جاء امر ربك

۱۰_ قوم لوط پر عذاب كے نزول كے وقت،حضرت ابراہيمعليه‌السلام بوڑھے اور سن رسيدہ تھے_

و هذا بعلى شيخاً ىا ابراهيم اعرض عن هذا انه قد جاء امر ربك

۱۱_عن ابى عبداللّه عليه‌السلام : فقال اللّه تعالى : يا ابراهيم ا عرض عن هذا انه قد جاء امر ربك و انهم آتاهم عذابى بعد طلوع الشمس من يومك محتوماً غير مردود ;(۱)

امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ خداوند متعال نے فرمايا: اے ابراہيمعليه‌السلام اس بات كو چھوڑ دو (اے ابراہيم ) فرمان الہى آپہنچا ہے آج طلوع آفتاب كے بعد ان كے ليے ميرا عذاب آجائے گا اور يہ حتمى ٹلنے والا نہيں ہے_

ابراہيمعليه‌السلام :ابراہيمعليه‌السلام اور قوم لوط ۲;ابراہيمعليه‌السلام اور قوم لوط كا عذاب ۷;ابراہيمعليه‌السلام قوم لوط كے عذاب پر آنے كے وقت ۱۰;ابراہيمعليه‌السلام كى شفاعت۷; ابراہيمعليه‌السلام كى شفاعت ۰۱، ۱۱;ابراہيمعليه‌السلام كى شفاعت كے قبول نہ ہونے كے دلائل ۶; ابرہيم(ع) كى جرو بحث۷ ; قصہ ابراہيم(ع) ۷

انبياءعليه‌السلام :ابنياءعليه‌السلام كى شفاعت كے رد ہونے كا امكان ۵; انبياءعليه‌السلام كى شفاعت قبول ہونے كے شرائط ۹

____________________

۱) تفسير عياشى ، ج ۲ ، ص ۱۵۲، ح ۴۵ ، تفسير برہان ج ۲ ، ص ۲۲۹، ح ۱۱_

۲۲۴

خدا:اوامر الہى كا حتمى ہونا ۴; خداوند متعال كى ربوبيت كى نشانياں ۸

روايت :۱۱

شفاعت :حتمى چيزوں ميں شفاعت ۹

قوم لوط :قوم لوط سے شفاعت كا رد ہونا ۱،۲; قوم لوط كي

تاريخ ۳;قوم لوط كى شفاعت ۷;قوم لوط كے بارے ميں شفاعت كے رد ہونے كے دلائل ۶; قوم لوط كے عذاب كا حتمى ہونا ۳،۶،۷،۱۱;قوم لوط كے عذاب كا وقت ۱۰

مفسدين :مفسدين كے عذاب كا سبب ۸

ملائكہ :ملائكہ اور ابراہيمعليه‌السلام ۲;ملائكہ كى تمنائيں ۲

آیت ۷۷

( وَلَمَّا جَاءتْ رُسُلُنَا لُوطاً سِيءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعاً وَقَالَ هَـذَا يَوْمٌ عَصِيبٌ )

اور جب ہمارے فرستادے لوط كے پاس پہنچنے تو وہ ان كے خيال سے رنجيدہ ہوئے اور تنگ دل ہوگئے اور كہا كہ يہ بڑا سخت دن ہے (۷۷)

۱_ فرشتے، حضرت ابراہيمعليه‌السلام سے گفتگو كرنے كے بعد قوم لوط كے ديار ميں پہنچ گئے اور حضرت لوط(ع) كے پاس تشريف لائے_و لما جاء ت رسلنا لوط

۲_ فرشتے، انسانوں كى شكل و صورت ميں حضرت لوطعليه‌السلام كے ہاں حاضر ہوئے_و لما جاء ت رسلنا لوطاً سيء بهم

۳_ حضرت لوط(ع) ، اپنے مہمانوں كيحقيقت( انكے فرشتے ہونے )سے بے خبر اور ان كى ذمہ دارى سے ناآگاہ تھے_

و لمَّا جاء ت رسلنا لوطاً سيء بهم و قال هذا يوم عصيب

۲۲۵

۴_ حضرت لوطعليه‌السلام ، نے فرشتوں كے آنے سے حالات كو اپنے ليے پريشان كن ديكھااور غم و پريشانى نے انہيں گھير ليا _

و لما جاء ت رسلنا لوطاً سيء بهم و ضاق بهم ذرعا

(ذرعاً) ہاتھ كى كہنيوں كے كھينچنےكے معنى ميں آتا ہے يہ تميز واقع ہوا ہے جو فاعل سے مبدل ہے لہذا (ضاق بہم ذرعاً) كا معنى يوں ہوگا ( ضاق ذرعہ) اس كے ہاتھ كى كہنياں ان پر تنگ ہوگئيں _كسى كى طرف كہينوں كا تنگ ہونا يہ ضرب المثل ہے اس كے ليے كہ جو كام كو انجام دينے پر قدرت نہ ركھتااور اس تك كى دسترسى نہ ہو (سيئ) ساء سے كافعل مجہول ہے (اسكو ناراحت كيا) كے معنى ميں ہے _اور ''بہم'' ميں ''باء'' سببيت كيلئے ہے لہذا''سي بہم '' كا معنى يہ ہو گا ان كا آنا حضرت لوطعليه‌السلام كے ليے ناراحتى كا سبب بنا_

۵_ حضرت لوطعليه‌السلام ، اپنے آپكو مہمانوں كى حفاظت كا ذمہ دار سمجھتے تھے_و لما جاء ت رسلنا قال هذا يوم عصيب

۶_ حضرت لوطعليه‌السلام نے فرشتوں كے آنے والے دن كو سخت اور مشكل و دشوار حالات والا دن قرار ديا _

و قال هذا يوم عصيب

''عصيب'' دشوارى اور سختى كے معنى ميں ہے اور اسكى اصل (عَصب) ہے جو باندھنے كے معنى ميں آتا ہے ''اسى وجہ سے اس سخت دن كو گويا (يوم عصيب)'' كہتے ہيں كہ اس دن ايك دوسرے كا شرّ اور دشوارى ايك دوسرے سے لپٹى ہوئي ہے_(مجمع البيان سے يہ مطلب اخذ كيا گيا ہے)_

۷_عن ابى جعف(ع) ر : و كان لوط ابن خالة ابراهيم و كانت امراة ابراهيم ساره اخت لوط و كان لوط و ابراهيم نبيين مرسلين منذرين و كان لوط رجلاً سخياً كريماً يقرى الضيف إذا نزل به و يخّذّرهم قومه (۱)

امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ حضرت لوط(ع) حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى خالہ كے بيٹے تھے اور سارہ جو حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى بيوى تھى وہ لوط(ع) كى بہن تھيں حضرت لوط(ع) اور ابراہيمعليه‌السلام دونوں نبى مرسل اور ڈرانے والے تھے_ حضرت لوطعليه‌السلام سخى و كريم انسان تھے جو مہمان ان كے پاس آتے تھے وہ ان كى خدمتگزارى كرتے تھے اور اپنى قوم كے شر سے انہيں محفوظ ركھتے تھے_

۸_عن ا بى جعفر عليه‌السلام عن رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قال جبرئيل :ان قوم لوط كانوا اهل قرية لا يتنظفون من الغائط و لا يتطهرون من الجنابة بخلاء اشحّاء على الطعام و ان لوطاً لبث فيهم ثلاثين سنة و انّما كان

____________________

۱) علل الشرائع ص ۵۴۹ ; ح ۴ ، ب ۳۴۰_ نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۳۸۲، ح ۶۵_

۲۲۶

نازلاً عليهم و لم يكن منهم (۱) امام باقرعليه‌السلام ، رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روايت نقل كرتے ہوئے فرماتے ہيں كہ قوم لوط ديہاتيعلاقے كے رہنے والے تھے جو خود كوپا خانہ سے پاك نہيں ركھتے تھے اور جنابت كے ليے غسل بھى نہيں كرتے تھے_ بخيل اور پر خور اشخاص تھے _حضرت لوطعليه‌السلام نے تيس ۳۰ سال ان كے ساتھ زندگى بسر كى اور وہ باہر سے ان كے پاس آئے تھے ان كى قوم ميں سے نہيں تھے

۹_عن ابى عبداللّه عليه‌السلام قال : ان اللّه تعالى بعث اربعة ا ملاك فى اهلاك قوم لوط فأتوا لوطاً و هو فى زراعة له قرب المدينه ...(۲)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ خداوند متعال نے قوم لوط كو ہلاك كرنے كے ليے چار فرشتوں كو بھيجا پس وہ حضرت لوطعليه‌السلام كے پاس گئے جبكہ وہ اس وقت اپنے كھيت ميں تھے جو شہر كے قريب تھا

ابراہيمعليه‌السلام :حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا قصہ ۱

روايت :۷،۸،۹

قوم لوط :قوم لوط پر عذاب ۹; قوم لوط كابخل ۸: قوم لوط كى پستى ۸; قوم لوط كے رذائل ۸

لوطعليه‌السلام :حضرت لوطعليه‌السلام اور ملائكہ ۳،۴; حضرت لوط(ع) كا سمجھنا ۶; حضر ت لوط(ع) كا غم و غصہ ۴; حضرت لوطعليه‌السلام كا قصہ ۱،۲، ۳،۴،۶،۹;حضرت لوطعليه‌السلام كى پريشانى ۴;حضرت لوطعليه‌السلام كى ذمہ دارى ۵;حضرت لوطعليه‌السلام كى سخاوت ۷; حضرت لوطعليه‌السلام كى مہمان نوازى ۵،۷; حضرت لوطعليه‌السلام كے سخت دن ۶; حضرت لوطعليه‌السلام كے علم كا محدود ہونا ۳; حضرت لوطعليه‌السلام كے فضائل ۷;حضرت لوطعليه‌السلام كے ليے مہمانوں كى ذمہ دارى ۳

ملائكہ :ملائكہ اور حضرت ابراہيمعليه‌السلام ۱; ملائكہ اور حضرت لوط(ع) ۱،۲;ملائكہ كا جسم ركھنا ۲; ملائكہ ، قوم لوط(ع) كى سرزمين پر ۱; ملائكہ عذاب ۹

مہمان :مہمانوں كا دفاع كرنے كى اہميت ۵

____________________

۱)علل الشرايع،ص۰۵۵ ح۵، ب ۳۴۰;نورالثقلين ج۲،ص ۳۸۴ح ۱۶۶_

۲) كافى ، ج ۸، ص ۳۲۸، ح ۵۰۵_ نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۳۷۸ ، ح ۱۵۶_

۲۲۷

آیت ۷۸

( وَجَاءهُ قَوْمُهُ يُهْرَعُونَ إِلَيْهِ وَمِن قَبْلُ كَانُواْ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ قَالَ يَا قَوْمِ هَـؤُلاء بَنَاتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ فَاتَّقُواْ اللّهَ وَلاَ تُخْزُونِ فِي ضَيْفِي أَلَيْسَ مِنكُمْ رَجُلٌ رَّشِيدٌ )

اور ان كى قوم دوڑتى ہوئي آگئي اور اس كے پہلے بھى يہ لوگ ايسے برے كام كررہے تھے _ لوط نے كہا كہ ا ے قوم يہ ہمارى لڑكياں تمھارے لئے زيادہ پاكيزہ ہيں خدا سے ڈرد اور مہمانوں كے بارے ميں مجھے شرمندہ نہ كرو كيا تم ميں كوئي سمجھدار آدمى نہيں ہے (۷۸)

۱_ قوم لوط كے ايك گروہ نے حضرت لوطعليه‌السلام كے مہمانوں (فرشتوں ) پر تجاوز كرنے كے ليے جلدى سے ان كے گھر كو گھير ليا_و جائه قومه يهرعون اليه

اگر چہ حضرت لوطعليه‌السلام پردھا و ابولنے والوں كى نسبت پورى قوم كى طر ف دى گئي ہے ( وجاء قومہ) ليكن چند قرائن كى بناء پر قوم كے بعض لوگ مراد ہيں _ جملہ (هولاء بناتى ...) ان قرائن ميں سے ايك ہے _ كيونكہ حقيقت اور شريعت ميں يہ ممكن نہيں تھا كہ حضرت لوطعليه‌السلام كى لڑكياں تمام قوم يا اكثر افراد قوم كى بيوياں بن سكيں _قابل ذكر بات يہ ہے كہ بعض افراد كو قوم كى طرف نسبت دينے ك

مطلب يہ تھا كہ اگر تمام قوم لوط ا س بات پر مطلع ہوگئي ہوتيكہ مہمان حضرت لوط(ع) كے ہاں آئے ہيں اورانكے ليئے ممكن بھى ہوتا تو وہ بھى ہجوم كرنے والوں كى طرح عمل كرتے_

۲_ قوم لوط ،فسادى لوگ اور لواط جيسے برے عمل ( ہم جنس بازى )ميں مبتلائتھے_و من قبل كانوا يعملون السيئات

مقام كى مناسبت سے( السيئات ) كے لفظ كا بارذ مصداق لواط اور ہم جنس بازى ہے_

۳_ قو م لوط(ع) ، لواط كے علاوہ دوسرے بہت سے گناہوں سے آلودہ تھے_

۲۲۸

و من قبل كانوا يعملون السيئات

مذكورہ بالا معنى اس صورت ميں ہے كہ جب (السيئات )پر الف لام جنس كا ہو جمع كے صيغہ پر الف ولام جنس كا داخل ہوتو وہ عموم كا معنى ديتا ہے اور بعض اوقات كثرت پر دلالت كرتا ہے_

۴_ لواط اور ہم جنس بازي، گناہ كبيرہ اور بہت سے گناہوں كے قائم مقام ہے_و قبل كانوا يعملون السيئات

مذكورہ بالا تفسير اس صورت ميں ہے جب ہم (السيئات ) كے الف لام كو عہد ذكرى فرض كريں اس صورت ميں (السيئات) سے مراد لواط كاعمل اور (سيئات) كا ايك گناہ پر جمع كى صورت ميں اطلاق، مذكورہ مطلب كى طرف اشارہ ہے_

۵_ قوم لوط كا فساد ميں سابقہ اور لواط كے برے عمل كى عادت نے انہيں حضرت لوط(ع) كے گھر كى جانب ان كے مہانوں پر تجاوز كى خاطر دھكيل ديا _و جاء ه قومه يهرعون اليه و من قبل كانوا يعملون السيئات

(و من قبل كانوا ...) كا جملہ جو كہ قوم لوط(ع) كے درميان بدكارى كے رواج اور فساد ميں سابقہ ركھنے كو بتاتا ہے (يہرعون) كے فاعل كے محذوف ہونے كو بتاتا ہے _ يعنى قوم لوط كا لوط(ع) كے گھر پر ہجوم كرنےكا سبب اسكا برائي ميں سابقہ اور بد كارى كى عادت تھا_

۶_ حضرت لوط،عليه‌السلام متعدد لڑكياں ركھتے تھے جو سن ازدواج پر پہنچى ہوئي تھيں _هولا بناتى هنّ اطهرلكم

۷_ حضرت لوطعليه‌السلام كا حملہ كرنے والوں كو اپنى لڑكيوں سے شادى كى دعوت دينے كا مقصد يہ تھا كہ وہ اس لواط كے برے عمل اور ان كے مہمانوں سے جھگڑنے سے رك جائيں _يا قوم هولاء بناتى هن اطهر لكم

۸_ شہوت جنسى كو مٹانے كے ليے پليدگى سے پاك اور تنہاصحيح طريقہ، جنس مخالف سے ازدواج كرنا ہے_

هولاء بناتى هنّ اطهر لكم

(اطہر ) كا لفظ افعل تفضيل ہے اور اسميں برترى كا معنى نہيں پايا جاتا بلكہ طاہر و پاك كے معنى ميں آيا ہے اس طرح كا استعمال كہ اسم فاعل كى جگہ پر افعل تفضيل كا استعمال كرنا يہ تاكيد اور مبالغہ كے ليے ہوتا ہے_

۹_ لواط اور ہم جنسى بازى كا عمل،جنسى شہوت كو مٹانے كے ليے ناپاك اور بيہودہ طريقہ ہے _

هوء لاء بناتى هن اطهرلكم

۱۰_شادى كرنا اور زوجہ اپنا نا، جنسى فسادات سے روكنے كا طريقہ ہے_هوء لاء بناتى هنّ اطهر لكم

۱۱_ حضرت لوطعليه‌السلام كى شريعت ميں كافر لوگوں كا مؤمن عورتوں سے ازدواج كا جائز ہونا _

۲۲۹

هولاء بناتى هن اطهر لكم

جملہ ( فأسر با ہلك الا امرا تك ) اس بات كى حكايت كرتا ہے كہ حضرت لوطعليه‌السلام كى لڑكياں ان پر ايمان ركھتى تھيں _

۱۲_ حضرت لوط(ع) نے حملہ آوروں كے عواطف جنسى كو متحرّك كرنے اور ان پر شفقت كے اظہاركے ذريعہ انہيں اپنے مہمانوں سے متعرّض ہونے سے روكا_قال يا قوم فاتقوا اللّه و لا تخزون فى ضيفى ا ليس منكم رجل رشيد

۱۳_ حضرت لوطعليه‌السلام كا اپنى قوم سے مہربانيسے پيش آنا حتى اس وقت جب ان كى طرف سے وہ بہت سختى اور اذيت ميں تھے_قال هذا يوم عصيب قال يا قوم هولاء بناتي

حضرت لوطعليه‌السلام كا يہ كہنا (يا قوم) اے ميرى قوم اور انہيں اپنى لڑكيوں سے شادى كى دعوت دينا، قوم پر ان كے لطف اور مہربانى كو ظاہر كرتا ہے _ يہ اس وقت ہوا جس وقت كو حضرت لوطعليه‌السلام نے بہت دشوار اور سخت وقت سے ياد كيا ہے_

۱۴_ حضرت لوطعليه‌السلام نے حملہ آوروں سے يہ تقاضا كيا كہ وہ خدا سے خوف كريں اور ان كے مہمانوں پر حملہ نہ كريں _

فاتقوا اللّه

۱۵_ ازدواج اور زوجہ كے انتخاب كے علاوہ دوسرے راستے سے جنسى شہوت كو پورا كرنا، تقوى اور خوف خدا كے خلاف ہے_فاتقوا الله

۱۶_ جنسى فساد، خدا كے عذاب كا موجب بنتا ہے _هؤلاء بناتى هن اطهرلكم فاتقوا اللّه

۱۷_ حضرت لوط(ع) نے فسادى حملہ آوروں سے كہاكہ ميرے مہمانوں سے متعرض نہ ہوں اور ان كے سامنے انہيں رسوااور خوار نہ كريں _و لا تخزون فى ضيفي/ اخزاء (لا تخزون) كا مصدر ہے جو خوار اور رسوا كرنے كے معنى ميں آتا ہے

۱۸_ لوگوں كے درميان كسى كو رسوا كرنا، تقوا اور خوف خدا كے خلاف ہے_فاتقوا اللّه و لا تخزون فى ضيفي

۱۹_ كسى كى عزت و آبرو كو گرانے سے پرہيز كرنا، لازمى ہے_و لا تخزون فى ضيفي

۲۰ _ قوم لوط(ع) ميں ايك شخص بھى سمجھدار اور خوف خدا ركھنے والا اور غيرت مندنہيں تھا_

فاتقوا اللّه و لا تخزون فى ضيفى اليس منكم رجل رشيد

(رشيد) كا معنى راستہ پانے والا ہے جملہ

۲۳۰

(اتقوا الله ) اور(لا تخزون فى ضيفي ) راستہ پانے والا خوف خدا، غيرت اور معيشت كا مصداق ہے_

۲۱_ ہم جنس بازى ، تقوى ، خدا ترسي، رشيداور سمجھدار ى كے مخالف ہے_فاتقوا اللّه ا ليس منكم رجل رشيد

۲۲_ مہمانوں كى محافظت كرنا اور حملہ آوروں سے ان كو بچانا ضرورى ہے_

يا قوم هؤلاء بناتى ا ليس منكم رجل رشيد

۲۳_عن ا بى عبداللّه عليه‌السلام قال : ان اللّه تعالى بعث اربعة ا ملاك فى اهلاك قوم لوط فأتوا لوطاً فسلّموا عليه فقال لهم : المنزل ؟ فقالوا: نعم ثم مشى فلما بلغ باب المدينه دخل و دخلوا معه حتى دخل منزله فلما را تهم امراته صعدت فوق السطح و صفقت فلم يسمعوا فدخنت فلما را وا الدخان ا قبلوا الى الباب يهرعون (۱)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ خداوند متعال نے قوم لوط كو ہلاك كرنے كے ليے چار فرشتوں كو بھيجا ...وہ حضرت لوطعليه‌السلام كے پاس آئے اور انہيں اس پر سلام كيا ..._ حضرت لوطعليه‌السلام نے ان كو گھر ميں آنے كى دعوت دى وہ راضى ہوگئے ، اور وہ چلے يہاں تك كہ شہر كے دورازے تك پہنچ گئے ..._ وہ فرشتوں كے ساتھ شہر ميں داخل ہوئے يہاں تك كہ وہ گھر پہنچ گئے _ جب لوطعليه‌السلام كى بيوى نے ان كو ديكھا ...تو چھت پر چڑھ گئي اور تالى بجائي ، ليكن قوم لوط متوجہ نہ ہوئي ، پھر اس نے دھواں اڑايا جب قوم نے دھويں كو ديكھا تو جلدى سے حضرت لوطعليه‌السلام كے گھر كى طرف دوڑے ..._

۲۴_عن ا بى جعفر عليه‌السلام ان قرية قوم لوط كانت على طريق السيّارة الى الشام و مصر فكانت السيّارة تنزل بهم فيضيّفونهم فدعا هم البخل الى ان كانوا اذا نزل بهم الضيف فضحوه ...وانّما كانوا يفعلون ذلك بالضيف حتى ينكل النازل عنهم فأورثم البخل بلاء لا يستطيعون دفعه عن ا نفسهم حتى صاروا يطلبونه من الرجال فى البلاد و يعطونهم عليه الجعل (۲)

امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ قوم لوط كى آبادى ان مسافروں كے راستے ميں تھى جہاں سے مسافر شام و مصر جاتے تھے _ كارواں اس قوم كے پاس آتے اور ان كے مہمان بنتے تھے _ ان كا بخل اس حد تك پہنچ گيا تھا كہ جب كوئي مہمان ان كے پاس آتا ( تو اپنے اس برے كام كى وجہ سے) اسے رسوا كركے چھوڑتے تھے اس كام كو اس وجہ سے

انجام ديتے تھے تا كہ مہمان ان كے پاس نہ آئيں

____________________

۱) كافى ، ج ۵، ص ۵۴۷، ح ۶ _ نورالثقلين ، ج ۲ ، ص ۳۷۹، ح ۱۵۶ _

۲)علل الشرائع ، ص ۵۴۸، ح ۴ ، ب ۳۴۰_ نور الثقلين ، ج ۲ص ۳۸۲ ، ح ۱۶۵_

۲۳۱

اور واپس لوٹ جائيں پس ان كا بخل سبب بنا كہ وہ جس بلاء و مصيبت ميں گرفتار ہوگے(مرض ابنہ ) اس بيمارى كو اپنے سے دور كرنے كى قدرت نہيں ركھتے تھے يہاں تك كہ دوسرے شہروں كے لوگوں سے اگريہ چاہتے كہ ہمارے ساتھ يہ برا فعل انجام دو تو ان كو اجرت دينا پڑتى تھى _

۲۵_عن ابى عبداللّه(ع) فى قول لوط'' هؤلاء بناتى هن اطهرلكم'' قال عرض عليهم التزويج (۱)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے حضرت لوط(ع) كے اس قول (كہ ميرى بيٹياں تمہارے ليے پاكيزہ تر ہيں ) كے بارے ميں روايت ہے كہ آپ نے فرمايا: حضرت لوط(ع) نے انہيں ازدواج كرنے كى پيشكش كى تھي_

آبرو :حفظ آبرو كى اہميت ۱۹; ہتك آبرو سے اجتناب ۱۹

ازدواج :ازدواج كى اہميت ۱۵;ازدواج كے آثار ۸،۱۰; كافر سے ازدواج ۱۱

انحراف جنسى :انحراف جنسى كو روكنے كا طريقہ ۱۰; انحراف جنسى كى سزا ۱۶;انحراف جنسى كے آثار ۱۵

تقوا :تقوى اختيار كرنے كى دعوت ۱۴; تقوى نہ ہونے كى نشانياں ۲۱;تقوى نہ ہونے كے موارد ۱۵، ۱۸

خدا :خدا كى سزائيں ۱۶

رشد :رشد كرنے كے موانع ۲۱

روايت :۲۳، ۲۴، ۲۵

عذاب :عذاب كے اسباب ۱۶

غريزہ جنسى :غريزہ جنسيكى تسكين كا طريقہ ۸،۱۵

قوم لوطعليه‌السلام :قوم لوط(ع) اور حضرت لوطعليه‌السلام كے مہمان ۱،۵; قوم لوط(ع) اور مہمان ۲۴;قوم لوط(ع) كا بخل ۲۴;قوم لوط(ع) كا حملہ ۱;قوم لوط(ع) كى اذتيں ۱۳; قوم لوط(ع) كى برائي كرنا ۲;قوم لوط(ع) كى بے عقلى ۲۰ ; قوم لوط(ع) كى بے غيرتى ۲۰ ; قوم لوط(ع) كى تاريخ ۱،۲،۳،۵،۲۴; قوم لوط(ع) كى خصوصيات ۲۰ ; قوم لوط(ع) كى ہم جنس بازى ۲;قوم لوط(ع) كے رذائل ۲۴;قوم لوط(ع) كے فاسد ہونے كے آثار ۵; قوم لوط(ع) كے گناہ ۳; قوم لوط(ع) ميں تقوى كا نہ ہونا ۲۰ ; قوم لوط(ع) ميں لواط(ع) ۲،۳، ۲۴;قوم لوط(ع) ميں لواط(ع) كے آثار ۵

____________________

۱) كافى ، ج ۵ ص ۵۴۸، ح ۷ _ نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۳۷۹ ، ح ۱۵۷_

۲۳۲

گناہ كبيرہ :۴لواط :لواط كا گناہ ۴; لواط كى پليدى ۹

لوطعليه‌السلام :لوطعليه‌السلام اور خوارى ۱۷; لوطعليه‌السلام اور قوم لوط ۱۲، ۱۴، ۱۷، ۲۵ ; لوطعليه‌السلام اور مہمان نوازى ۱۴۷، ۱۷; لوطعليه‌السلام كا قصہ ۷، ۱۲، ۱۳، ۱۴، ۲۳، ۲۵;لوطعليه‌السلام كا منع كرنا ۷; لوط(ع) كو اذيت۱۳; لوطعليه‌السلام كى بيٹيوں سے شادى ۷ ، ۲۵; لوطعليه‌السلام كى پيشكش ۲۵;۱۳; لوطعليه‌السلام كى خواہشات ۷، ۱۷; لوطعليه‌السلام كى دعوتيں ۱۴; لوطعليه‌السلام كى لڑكيوں كا بالغ ہونا ۶; لوطعليه‌السلام كى متعدد بيٹياں ۶;لوطعليه‌السلام كى مہربانى ۱۲، ۱۳ ; لوطعليه‌السلام كى ہمسر كى جاسوسى ۲۳;لوطعليه‌السلام كے دين ميں ازدواج ۱۱;لوط(ع) كے ملنے كا طريقہ ۱۲،۱۳; لوط(ع) كے مہمان ۲

لوگ:لوگوں كى آبروريزى ۱۸

ملائكہ :ملائكہ عذاب اور لوطعليه‌السلام ۲۳

مہمان :مہمان سے دفاع ۷، ۱۲، ۱۴;مہمان سے دفاع كى اہميت ۲۲

ہم جنس بازى :ہم جنس بازى كا گناہ ۴; ہم جنس بازى كى پليدى ۹;ہم جنس بازى كے آثار ۲۱

آیت ۷۹

( قَالُواْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا لَنَا فِي بَنَاتِكَ مِنْ حَقٍّ وَإِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نُرِيدُ )

ان لوگوں نے كہا كہ آپ جانتے ہيں كہ ہميں آپ كى لڑكيوں ميں كوئي دلچسپى نہيں ہے اور آپ كو معلوم ہے كہ ہم كيا چاہتے ہيں (۷۹)

۱_ قوم لوط كے مفسدين نے ان كى پيشكش ( كہ ميرى لڑكيوں سے شادى كرلو اور مہمانوں سے تجاوز نہ كرو) كو قبول نہيں كيا _هؤلاء بناتى هنّ ا طهر لكم قالوا لقد علمت ما لنا فى بناتك من حق

۲_ ازدواج ترك كرنا ، غريزہ جنسى كو لواط كے طريقے سے پورا كرنا ، قوم لوط كے درميان ايك سنت اور معاشرتى اخلاق كے طور پر رائج ہوگيا تھا_قالوا لقد علمت ما لنا فى بناتك من حق و ء انك لتعلم ما نريد

۲۳۳

جب قوم لوط نے حضرت لوط(ع) كى لڑكيوں سے شادى كرنے كو اپنے خيال ميں بے جا سمجھا تو اس سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ عورتوں سے شادى كرنے كو ممنوع خيال كرتے تھے يا يہ كہ ان كا جنسى اخلاق اس حد تك ، طبيعى راستہ سے خارج ہو چكا تھا كہ جنس مخالف كى طرف ان كا ميلان ختم ہوچكا تھا_

۳_ قوم لوط كا لواط اور ہم جنس بازى كى طرف ميلان اورعورتوں كى طرف شوق نہ ركھناسبب بناكہ انہوں نے حضرت لوطعليه‌السلام كى پيشكش ( ان كى لڑكيوں سے شادى كرلو اور ان كے مہمانوں كے ساتھ تجاوز نہ كرو) كو ٹھكرا ديا _

قالوا لقد علمت ما لنا فى بناتك من حق و انك لتعلم ما نريد

۴_ حضرت لوطعليه‌السلام متعدد بيٹياں ركھتے تھے _ما لنا فى بناتك من حق

۵_ حضرت لوطعليه‌السلام اپنى قوم ميں اس بداخلاق اور برى عادت ہم جنس بازى كے راسخ ہونے سے آگاہ تھے_

و انك لتعلم ما نريد

قوم لوط(ع) :قوم لوط(ع) اور مہمان لوطعليه‌السلام ۱،۳;قوم لوط(ع) كا جھكاؤ ۳; قوم لوط(ع) كى رسومات ۲،۵;قوم لوط(ع) كى ہم جنس بازى ۲، ۳، ۵; قوم لوط(ع) ميں ازدواج ۲; قوم لوط(ع) ميں لواط(ع) ۲،۳

لوطعليه‌السلام :لوطعليه‌السلام كا قصہ ۱، ۳;لوطعليه‌السلام كى آگاہى ۵; لوطعليه‌السلام كى بيٹيوں سے ازدواج كو ردّ كرنا ۳; لوطعليه‌السلام كى پيشكش كو ردّ كرنا ۱، ۳; لوطعليه‌السلام كى متعدد بيٹياں ۴

آیت ۸۰

( قَالَ لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ )

لوط نے كہا كاش ميرے پاس قوت ہوتى يا ميں كسى مضبوط قلعہ ميں پناہ لے سكتا (۸۰)

۱_حضرت لوطعليه‌السلام نے اپنے آپ كو فسادى حملہ آوروں كے درميان ناتوان اور بے يار مدد گار خيال كيا _

قال لو ا ن لى بكم قوّة ا و ء اوى الى ركن شديد

۲_ حضرت لوطعليه‌السلام كى يہ آرزو تھى كہ ان ظالموں كے مقابلے ميں وہ قدرت ركھتے اور اپنے مہمانوں كو بچا سكتے _

۲۳۴

قال لو اُن لى بكم قوة

''لو'' كا لفظ آيت ميں حرف تمنا اور ليت كے معنى ميں ہے يعنى ( اے كاش)

۳_ حضرت لوطعليه‌السلام كى يہ آرزو كہ ايك مطمئنپناہ گاہ ہوتيجسميں اپنے مہمانوں كو پناہ ديتے اور ان ظالموں كے تجاوز سے انہيں بچاتے_قال لو أو ء اوى الى ركن شديد

۴_ مہمانوں كو ظالموں كے تجاوز سے بچانے كى ضرورت _لو ان لى بكم قوة

۵_ مفسدين اور ظالموں كے ساتھ مقابلہ كى ضرورت _لوان لى بكم قوة

۶_ ظلم اور ظالموں كے خلاف مقابلہ كرنے كى قدرت ركھنے كى آرزو كرنا، ايك مناسب اور پسنديدہ عمل ہے_

لو ان لى بكم قوة او ء اوى الى ركن شديد

آرزو :پسنديدہ آرزويں ۶; قدرت كى آرزو ۲، ۶; مقابلہ كرنے كے امكانات كى آرزو ۶

فساد :فساد سے مقابلہ ۶

قوم لوط :قوم لوط سے مقابلہ ۲

لوطعليه‌السلام :لوطعليه‌السلام كابے يار و مدد گار ہونا ۱; لوطعليه‌السلام كا قصہ ۱، ۲، ۳;لوطعليه‌السلام كى آرزو ۲،۳; لوطعليه‌السلام كى مہمان نوازى ۲، ۳ ; لوطعليه‌السلام كى پناہگاہ كى تلاش ۳

مفسدين :مفسدين سے مقابلہ ۲، ۶;مفسدين سے مقابلہ كى اہميت ۵

مہمان :مہمان كے دفاع كى اہميت ۴

۲۳۵

آیت ۸۱

( قَالُواْ يَا لُوطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَن يَصِلُواْ إِلَيْكَ فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّيْلِ وَلاَ يَلْتَفِتْ مِنكُمْ أَحَدٌ إِلاَّ امْرَأَتَكَ إِنَّهُ مُصِيبُهَا مَا أَصَابَهُمْ إِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ )

تو فرشتوں نے كہا كہ ہم آپ كے پروردگار كے نمائندے ہيں يہ ظالم آپ تك ہر گز نہيں پہنچ سكتے ہيں _ آپ اپنے گھر والوں كو لے رات كے كسى حصے ميں چلے جايئےور كوئي شخص كسى كى طرف مڑكربھى نہ ديكھے سوائے آپ كى زوجہ كے كہ اس تك وہى عذاب آنے والا ہے جو قوم تك آنے والا ہے ان كا وقت مقرر ہنگام صبح ہے اور كيا صبح قريب نہيں ہے (۸۱)

۱_ حضرت لوطعليه‌السلام كے مہمانوں نے حملہ آوروں كے مقابلے ميں ان كى بے كسى ديكھ كر اپنى حقيقت (فرشتہ ہونا) كو حضرت لوطعليه‌السلام كے ليے ظاہر كرديا _قال لو ان لى بكم قوّة قالوا یا لوط انا رسل ربك

۲_ حضرت لوط(ع) كے پاس جو فرشتے مہمان بن كر آئے تھے وہ ان كے ليے خداوند متعال سے پيغام لائے تھے_

قالو يا لوط انا رسل ربك

مذكورہ بالا معنى اس سے حاصل ہوتا ہے كہ فرشتوں نے اپنے آپ كو خدا كى طرف سے پيغام لانے والا (رسل ربك ) بتايا _

۳_ فرشتوں نے عذاب آنے كے وقت اور قوم لوط(ع) كى سزاسے حضرت لوط كو آگاہ كيا_

انا رسل ربك لن يصلوا اليك فأسر اليس الصبح بقريب

۴_ خداوند متعال، كفر اختيار كرنے والى اقوام كے عذاب كى اطلاع اس قوم كے پيغمبر كو ديتا ہے_

انا ارسلنا الى قوم لوط و لما جاء ت رسلنا لوطاً قالوا يا لوط انا رسل ربك

۵_ پيغمبروں كے علم و آگاہى كا محدود ہونا _قالوا يا لوط انا رسل ربك

۶_ حضرت لوط(ع) ، خداوند متعال كے تحت تربيت اور ان كى حمايت كے حامل تھے _انا رسل ربلك

مذكورہ معنى لفظ ( ربّك ) (تيرا مربّى و مدّبر) سےحاصل ہوتا ہے_

۷_ لوط(ع) اپنے مہمانوں (جو گھر ميں فرشتے تھے) كا دفاع كرنے اور ان حملہ آور ظالموں سے لڑنے كے ليے تيار تھے_

لن يصلوا اليك

۲۳۶

مذكورہ آيات سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ حملہ آور ، فرشتوں پر تجاوز كرنے كا ارادہ ركھتے تھے _ اسى وجہ سے ظاہراً فرشتے كہہ رہے تھے ( لن يصلوا الينا) وہ ہم تك نہيں پہنچ پائيں گے _ يہ بات دو مطلب كى طرف اشارہ كرتى ہے _ مہمان پر تجاوز، ميزبان پر تجاوز كے برابر ہے_۲ حضرت لوطعليه‌السلام جتنى قدرت ركھتے تھے حملہ آوروں كامقابلہ كرنے كيلئے تيار تھے_

۸_ عذاب پر مامورفرشتوں نے حضرت لوطعليه‌السلام كو اطمينان دلوايا كہ حملہ آور، ان كا كچھ نہيں بگاڑ سكتے اور انہيں كوئي نقصان نہيں پہنچ سكتا_قالوا يا لوط انا رسل ربك لن يصلو ا اليك

۹ _ انسان، فرشتوں كو كوئي نقصان نہيں پہچا سكتے اگر چہ وہ انسانوں كى شكل ميں كيوں نہ ہوں _

يا لوط انا رسل ربك لن يصلوا اليك

۱۰_ فرشتوں نے ظالموں كى حضرت لوطعليه‌السلام كے گھر تك رسائي كو روك ديا _انا رسل ربك لن يصلوا اليك فأسر بأهلك

۱۱_ فرشتوں نے حضرت لوطعليه‌السلام سے چاہا كہ اپنے گھر والوں كو رات كے وقت اپنى قوم كے علاقے سے لے جائيں _

فأسر بأهلك بقطع من الليل

''اسراء'' ''ا سر'' كا مصدر ہے جسكا معنى رات كو كوچ كرناہے _ (بأہلك) ميں ''باء متعدى '' كے ليے ہے اور (الليل ) ميں ''الف لام '' حضورى ہے پس (فأسر ) كے جملے كا معنى يوں ہوگا:(اے لوطعليه‌السلام ) اپنے گھر والوں كو اس رات كے كسى حصے ميں كوچ كراديں _

۱۲_ قوم لوط ميں صرف ان كے اہل خانہ ايمان لائے تھے اوروہ ان كى قوم كے ظلم و گناہوں سے پاك تھے _

كانوا يعملون السيئات فأسر بأهلك بقطع من الليل الاّ امرا تك

۱۳_ حضرت لوط(ع) اور ان كے گھر والوں كى نجات اسميں تھى كہ وہ ديار قوم لوط سے نكل جائيں _

فأسر بأهلك بقطع من الليل

۱۴_ حضرت لوطعليه‌السلام كو اس بات كا پابند كيا گيا تھا كہ عذاب كے نازل ہونے سے پہلے مخفى طوراپنى قوم كو بتلائے

بغير ان كى سرزمين سے نكل جائيں _فأسر بأهلك بقطع من الليل

فرشتوں كا يہ اصرار كہ حضرت لوطعليه‌السلام رات كو يہاں سے كوچ كريں مذكورہ بالا تفسير كى تائيد كرتا ہے او ر قابل ذكر ہے كہ يہ احتمال اس وقت ديا جاسكتا ہے جب فرشتوں كا حضرت لوطعليه‌السلام كو يہ كہنا ( فأسر ) عذاب نازل ہونے والى رات كونہ ہوبلكہ ايك دن پہلے ان كو بتايا گيا ہو_

۲۳۷

۱۵_ فرشتوں نے حضرت لوطعليه‌السلام اور ان كے اہل خانہ سے يہ چاہا كہ اپنے ديار سے نكلتے وقت نہ ركيں اور پھر اپنے گھر واپس بھى نہ لوٹيں _و لايلتفت منكم احد

۱۶_ فرشتوں نے حضرت لوطعليه‌السلام كو تاكيد كى كہ اپنى زوجہ كو عذاب سے بچانے كے ليے ساتھ نہ لے جائيں _

فأسر بأهلك بقطع من الليل الاّ امرا تك

مذكورہ معنى اسوقت ليا جاسكتا ہے كہ جب (امرا تك) ( اہلك ) سے استثناء ہو_

۱۷_ حضرت لوطعليه‌السلام كے گھر والوں ميں سے صرف انكى اہليہ نے رات كے وقت گھر سے كوچ نہيں كيااور ديار قوم لوط ميں واپس لوٹ آئي_و لا يلتفت منكم احد الاّ أمراتك

مذكورہ بالا معنياس احتمال كى بناء پر ہے جب( الا امراتك ) كا جملہ ( لا يلتفت ...) سے استثناء كيا گيا ہے_ پس جملہ ( لا يلتفت انہ مصيبہا ما اصابہم ) كا يہ معنى ہوگا كہ كوئي بھى تم ميں سے جانے سے نہيں ركنا چاہيے اورگھر واپس نہ لوٹے ليكن تمہارى اہليہ اسكى نافرمانى كرے گى اور واپس لوٹے گى كيونكہ اسے عذاب الہى ميں گرفتار ہونا ہے_

۱۸_ حضرت لوطعليه‌السلام كى زوجہ، كو ضرور قوم لوط(ع) كے مقدر شدہ عذاب ميں گرفتار ہونا تھا_

انه مصيبها ما اصابهم

(انہ) ميں ضمير ، ضمير شان ہے جو تاكيدسے حكايت ہے_

۱۹_ حضرت لوطعليه‌السلام كى زوجہ ان پر ايمان نہيں لائي اور قوم لوط كے گناہ ميں برابر كى شريك تھى _

فأسر فأهلك الّا أمراتك انه مصيبها ما اصابهم

(انه مصيبها ما اصابهم ) كا جملہ يہ بتاتا ہے كہ حضرت لوطعليه‌السلام كى بيوي، قوم لوط كى سزا ميں برابر كيشريك تھى يہ اس بات كو بتاتا ہے كہ اس كا گناہ بھى قوم لوط كے گناہ كى طرح تھا_گويا كہ وہ اس كے كاموں پر راضى تھى ياجيسا كہ بعض روايات ميں يہ بھى ذكر ہوا ہے كہ گناہ كرنے ميں وہ ان كى مدد كرتى تھي_

۲۰_انبياء كرام سے رشتہ داري، عذاب الہى سے نجات دينے ميں مؤثر نہيں ہے_الّا امراتك انه مصيبها ما ا صابهم

۲۱_ گنہگاروں كيلئے مقدر شدہ سزاؤں كو جارى كرنے ميں ان كے حسب و نسب كا لحاظ نہيں كرنا چاہيے_الاّ أمراتك انه مصيبها ما أصابهم

۲۲_ اديان الہى كى نگاہ ميں عورت ايك مستقل فكر و عقيدہ كى مالك اور اپنے اعمال كى خود ہى جوا ب وہ ہے_

فأسر فأهلك بقطع من الليل الّا امرا تك انه مصيبها ما أصابهم

۲۳۸

۲۳_ فرشتوں كا ديار قوم لوط ميں اول صبح كو آنا اس قوم پر نزول عذاب كا مقرر وقت تھا_ان موعدهم الصبح

''الصبح''ميں ''الف ولام'' مضاف اليہ كى جگہ پر ہے پس ( ان موعد ہم الصبح) كا معنى يوں ہوگا كہ آج رات كى سحر كو قوم لوط پر عذاب موعود كا وقت ہے_

۲۴_ فرشتوں نے حضرت لوطعليه‌السلام سے چاہا كہ اپنے جانے ميں دير نہ كريں كيونكہ عذاب الہى كا وقت قريب ہے_

فأسر بأهلك ان موعدهم الصبح اليس الصبح بقريب

جملہ ''ان موعد ہم الصبح ...'' جملہ''فاسر فاهلك '' كى علّت كے قائم مقام ہے_

۲۵ _ حضرت لوطعليه‌السلام نے فرشتوں سے چاہا كہ اسكى قوم كو عذاب دينے ميں جلدى كريں _

ان موعدهم الصبح ا ليس الصبح بقريب

( اليس ) ميں استفہام تقريرى ہے اور اس كا مقصد يہہے كہ مخاطب، مضمون جملہ كا اعتراف و اقرار كر رہا ہے كہ اس كے بعد وہ واقع ہو_ اور حضرت لوطعليه‌السلام سے يہ اقرار و اعتراف لينا كہ انكى قوم كا عذاب نزديك ہےيہ اس بات كى طرف اشارہ كرتاہے كہ وہ اپنى قوم پر عذاب ميں تعجيل كے خواہاں تھے_

۲۶_عن ا بى جعفر عليه‌السلام ... ''فلّما جاء آل لوط المرسلون قالوا: (فأسر بأهلك ) يا لوط اذا مضى لك من يومك هذا سبعة ايام و ليا ليها '' بقطع من الليل'' اذا مضى نصف الليل (۱)

امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے جب الله تعالى كے فرشتے خاندان لوطعليه‌السلام كے پاس آئے تو انہوں نے كہا اے لوط(ع) اس تاريخ سے سات رات و دن گذرنے كے بعد آدھى رات كو اپنے اہل خانہ كو اس سرزمين سے باہر لے جائيں ۲۷_عن ا بى جعفر عليه‌السلام ... ان اللّه تعالى لما ا راد عذابهم ( قوم لوط ) بعث اليهم ملائكة و قالوا للوط : ا سر بأهلك من هذا القرية الليلة فلَمّاانتصف الليل سار لوط ببناته (۲)

____________________

۱)علل اشرائع ، ص ۵۴۹، ح ۴ ، ب ۳۴۰ _ نور الثقلين ج ۲ ص ۳۸۳ ، ح ۱۶۵_

۲) علل اشرائع ، ص ۵۵۰، ح ۵ ، ب ۳۴۰_ نور الثقلين ، ج ۲ ص ۳۸۴ ، ح ۱۶۶_

۲۳۹

امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ الله تعالى نے جب قوم لوط پر عذاب نازل كرنے كا ارادہ فرماياتو فرشتوں كو ان كى طرف بھيجا انہوں نے حضرت لوطعليه‌السلام سے كہا كہ آج رات اس آبادى سے اپنے گھر والوں كو دور لے جا ئے جب آدھى رات ہوئي تو حضرت لوطعليه‌السلام اپنى بيٹيوں كو آبادى سے دور لے گئے

۲۸_عن ا بى بصير و غيره عن احدهما عليها السّلام لما قال جبرئيل : '' انا رسل ربك '' قال له لوط(ع) : نعم قال: يا جبرئيل عجّل ، قال : يا جبرئيل عجّل ، قال : ( ان موعدهم الصبح ا ليس الصبح بقريب'' فأدخل جناحه تحتها حتّى اذا استعلت قلّبها عليهم و رمى جدران المدينه بحجار من سجّيل و سمعت امرا ة لوط الهَدّة فهلكت منها (۱)

ابو بصير اور ان كے علاوہ دوسرے افراد امام باقرعليه‌السلام يا امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت كرتے ہيں كہ جب حضرت جبرئيل نے حضرت لوطعليه‌السلام سے كہا كہ ہم الله تعالى كے بھيجے ہوئے فرشتے ہيں _ توحضرت لوطعليه‌السلام نے كہا جلدى كرو جناب جبرئيل نے كہا ٹھيك ہے پھر حضرت لوطعليه‌السلام نے كہا جلدى كرو حضرت جبرئيل نے كہا ان كے عذاب كا وقت صبح ہے كيا صبح نزديك نہيں ہے؟ پھر اس ( جبرئيل ) نے اپنے پروں كو اس علاقہ كى زمين كے اندر داخل كيا پھر جب آبادى اوپر كى طرف گئي تو اس نے اوپر سے ان كو نيچے گراديا اور اس شہر كى ديواروں كو سجيل ( مٹى كے پتھروں ) سے سنگ بارى كى ، لوطعليه‌السلام كى زوجہ نے ديواروں كے گرنے كى سخت آواز كو سنا اور اسى آواز كے سبب ہلاك ہوگئي_

انبياء :انبياء اور كافروں كا عذاب ۴; انبياء كے ساتھ رشتہ دارى ۲۰; انبياءعليه‌السلام كے علم كا احاطہ ۵

انسان :انسان اور ملائكہ ۹; انسانوں كا عاجز ہونا ۹

الله تعالى :الله تعالى كى امداد ۶; الله تعالى كى ربوبيت ۶

پيغمبر الہى : ۲روايت : ۲۶، ۲۷، ۲۸سزا :سزا دينے ميں عدالت كرنا ۲۱

سزا كا قانون : ۲۱

عذاب :اہل عذاب ۱۸; سجيل كے ساتھ عذاب ۲۸; صبح كو عذاب ۲۳، ۲۸; عذاب سے نجات ۲۰;عذاب كا اظہار ۲۸

____________________

۱) علل اشرائع ، ص ۵۵۲، ح ۶، ب ۳۴۰; تفسير عياشى ج ۲ ص ۱۵۶، ح ۵۴_

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945

946

947

948

949

950

951

952

953

954

955

956

957

958

959

960

961

962

963

964

965

966

967

968

969

970

971