تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 6%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 205898 / ڈاؤنلوڈ: 4272
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۸

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

آیت ۲۹

( وَيَا قَوْمِ لا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مَالاً إِنْ أَجْرِيَ إِلاَّ عَلَى اللّهِ وَمَا أَنَاْ بِطَارِدِ الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّهُم مُّلاَقُو رَبِّهِمْ وَلَـكِنِّيَ أَرَاكُمْ قَوْماً تَجْهَلُونَ )

اے قوم ميں تم سے كوئي مال تو نہيں چاہتا ہوں _ ميرا اجر تو اللہ كے ذمہ ہے اور ميں صاحبان ايمان كو نكال بھى نہيں سكتا ہوں كہ وہ لوگ اپنے پروردگار سے ملاقات كرنے والے ہيں البتہ ميں تم كو ايك جاہل قوم تصور كررہا ہوں (۲۹)

۱_حضرت نوحعليه‌السلام نے لوگوں كو بتايا كہ ميں تبليغ رسالت كے بدلے ميں تم سے تھوڑے سے مال كا بھى مطالبہ نہيں كروں گا_يا قوم لا اسئلكم عليه مال

(عليہ) كى ضمير سے مراد پيغمبرى اور تبليغ رسالت ہے _ اور (مالاً) كا لفظ نكرہ ہے جو دلالت كرتاہے كہ اجر رسالت ميں ذرہ برابر مال بھى نہيں لوں گا_ كيونكہ نكرہ نفى (لاا سئلكم) كے بعد ذكر ہوا ہو_

۲_ انبياء كرام، لوگوں كو تبليغ رسالت اور معارف دين كى تبليغ كے بدلے ميں كم ترين مال كى درخواست كرنے سے منزہ ہيں _و يا قوم لا اسئلكم عليه مال

۳_ قوم نوحعليه‌السلام كے رؤسا اور سردار بے جا خيال كرتے تھے كہ حضرت نوحعليه‌السلام كا نبوت و رسالت كا دعوى اس وجہ سے ہے كہ وہ ہمارے مال و متاع كے حصول كا بہانہ بنائيں _و يا قوم لا اسئلكم عليه مال

حضرت نوحعليه‌السلام كا اپنى قوم كے جواب ميں اس بات كو بيان كرنا كہ ميں تم سے كم ترين مال كا بھى مطالبہ نہيں كرتاہوں _ يہ بتاتاہے كہ كافر لوگ ايسى تہمت حضرت نوحعليه‌السلام پر لگاتے تھے_

۴ _ حضرت نوحعليه‌السلام نے اپنى قوم ميں اعلان كيا كہ اجر رسالت فقط خداوند متعال كے ذمہ ہے_

ان اجرى الا على الله

۵_ انبياءعليه‌السلام دنيا كے مال و متاع اور مادى چيزوں پر فريفتہ ہونے سے منزہ ہيں _لا اسئلكم عليه مالاً أن اجرى الا على الله

(مال) كے مقابلے ميں ( ا جر) كا لفظ استعمال كرنا، يہ بتاتاہے كہ خداوند عالم سے حضرت نوح(ع) كا اجر رسالت كى درخواست دنياوى مال و متاع كے ليے نہيں تھى اور نہ ہى وہ اس پر فريفتہ تھے_

۸۱

۶_ لوگوں كے مال و متاع اور اموال پر نظر نہ ركھنا ، معاشرہ كو نجات دينے والوں اور دين حق كے مبلغين كى صداقت كى نشانى ہے_و يا قوم لا ا سئلكم عليه مالاً ان اجرى الا على الله

۷_ معارف دين كى تبليغ كرنے والے اجر كے مستحق ہيں اور ان كو يہ پاداش فقط ذات خدا دے سكتى ہے_

ان اجرى الا على الله

۸_قوم نوح كے سرداروں اور رؤسا كے ايمان لانے كى شرائط ميں ايك يہ تھا كہ حضرت نوح فقراء مؤمنين كو چھوڑ ديں _

و ما ا نا بطارد الذين آمنو

۹_ حضرت نوحعليه‌السلام نے سرداروں اور رؤسا كى اس شرط (كہ فقراء مؤمنين كو چھوڑ دے) كى شديد مخالفت كى _

و ما أنا بطارد: الذين آمنو

جملہ اسميہ كو (با) زائدہ سے ذكر كرنا ، بہت زيادہ تاكيد پر دلالت كرتاہے_

۱۰_رؤسا كو توحيد اور معارف الہى كى طرف ترغيب دلانے كا ہرگز يہ مطلب نہيں كہ فقير و غريب مؤمنين كو چھوڑ ديا جائے _و ما أنا بطارد: الذين آمنو

۱۱ _ قوم نوحعليه‌السلام كے مؤمنين ،خداوند متعال كى بارگاہ ميں مقرب اور مقام لقاء پروردگار كے حامل ہيں _انهم ملاقوا ربهم

ممكن ہے جملہ(انہم ملاقوا ربہم) حضرت نوح(ع) كے پيروكاروں كى موجودہ حالت كو بيان كررہا ہو يعنى وہ (اسى دنيا) ميں لقاء الله كى منزل پر فائز ہوچكے ہيں اور يہ بھى ممكن ہے كہ ان كى اخروى عاقبت كے بارے ميں خبر دى جارہى ہو مذكورہ مطلب پہلے احتمال كى بناء پر ہے_

۱۲ _ا نبياء اور ان كے پيروكاروں كے باہمى ارتباط كا سبب ،خدا پر ايمان اور تقرب الہى ہے_

و ما أنا بطارد الذين امنوأنهم ملاقوا ربهم

۱۳ _ دنيا ميں لقاء الله كى منزل پر فائز ہونا ممكن ہے_انهم ملاقوا ربهم

۱۴_ لوگوں كے صحيح اور سچے ايمان كى تشخيص اور ايمان كے دعوى داروں كو پركھنا خدا كى شان ہے_

بل نظنكم كاذبين _ ما ا نا بطارد الذين ء امنوأنهم ملاقوا ربهم

۸۲

كفار حضرت نوحعليه‌السلام كے پيروكاروں كے ايمان كو نہ صرف معمولى بلكہ ان كے دعوى ايمان كو جھوٹا قرار ديتے تھے ( بل نظنكنم كازبين) حضرت نوح(ع) ن كے جواب ميں يہ جملہ فرماتے ہيں (انہم ملاقوا ربہم) يعنى انسانوں كے ليے آخرت كا دن ہے _ اس دن خداوند سچے اور جھوٹے ايمان كو مشخص كرے گا_

۱۵_ قيامت كا دن، انسانوں كى خداوند عزوجل سے ملاقات كا دن ہے_انهم ملاقوا ربهم

۱۶_ قيامت، جھوٹے دعوى داروں اور سچے مؤمنين كے درميان تفريق كا دن ہے_بل نظنكم كاذبين _ انّهم ملاقوا ربهم

۱۷_انبياء كرام كا وظيفہ ہے كہ وہ اظہار ايمان كرنے والوں كو قبول كريں ليكن سچے اور جھوٹے مومنين كے در ميان تفريق ان كى ذمہ دارى نہيں ہے_ما انا بطارد الذين ا منوأنهم ملاقوا ربهم

۱۸_ قوم نوحعليه‌السلام كے سردار اوررؤسا، مومنين اور حضرت نوحعليه‌السلام كے پيروكاروں كے بلند درجات سے بے خبر تھے_

و لكن ارى كم قوماً تجهلون

جملہ''انّهم ملاقوا ربّهم '' كے قرينہ كى بناء پر يہ كہا جا سكتا ہے كہ'' تجہلون'' كا مفعول حضرت نوح(ع) كے مومنين كا بلند و با عظمت مقام ہے اس پر(ا راكم ...) يعنى ميں جانتا ہوں كہ تم مومنين كے بلند درجات ( جو خداوند متعال كى لقاء ہے ) سے آگاہ نہيں ہو_

۱۹_قوم نوحعليه‌السلام كے رؤسا كى بلند مرتبہ (جو لقاء الله ہے ) اور تقرب الہيسے نا واقفيت_

انهم ملاقوا ربهم و لكنى ارى كم قوماً تجهلون

۲۰_ وحدہ لا شريك كى عبادت اورانبياء پر ايمان، قدر و قيمت كا معيار اور علم و آگاہى كى نشانى ہے_

و ما أنا بطارد الذين آمنوا و لكنّى ارى كم قوماً تجهلون

مذكورہ بالا تفسير اس احتمال كى بناء پر ہے جب (تجھلون) كو فعل لازم مانيں اور اس كے ليے مفعول كسى كو نہ بنايا جائے_ تو اس صورت ميں (ا راكم ...) كا معنى يہ ہوگا كہ تم كافر نادان اور ناواقف لوگ ہو_

۲۱_ شرك و كفر، نادانى اور بے عقلى كى نشانى ہے_و لكنّى ارى كم قوماً تجهلون

۲۲_طبقہ رؤسا سے ہونا، دانائي اور بااہميت ہونے كا معيار نہيں ہے اور نہ ہى محتاج و فقير ہونا، جہالت اور بے اہميت ہونے كى نشانى ہے_و ما انا بطارد الذين امنوا و لكن ارى كم قوماً تجهلون

۸۳

اقدار:اقداركا معيار ۲۰ ،۲۲

انبياءعليه‌السلام :انبياء اوراجر تبليغ ۲ ; انبياء اواجر رسالت ۲ ; انبياءعليه‌السلام اور دنيا كى طلب ۵ ; انبياء اور ماديات ۵ ;انبياء اور مؤمنين ۱۷ ;انبياء سے دوستى كے اسباب ۱۲ ; انبياء كامنزہ ہونا ۲ ، ۵ ; انبياء كى مسؤليت كا دائرہ كار ۱۷

ايمان:انبياء اور ايمان ۲۰ ;ايمان كے آثار ۱۲ ، ۲۰ ;ايمان ميں صداقت كى تعيين كا سبب۱۴ ; خدا پر ايمان ۱۲ ; قبول ايمان كے شرائط ۱۷ ;

تبليغ:بغير اجرت كے تبليغ ۱

تقرب:تقرب كے آثار ۱۲

توحيد:توحيد كى دعوت ۱۰;توحيد عبادى كے آثار ۲۰

جزاء:جزاء كے مستحقين۷ ; جزاكا سرچشمہ۷

جہالت:جہالت كا معيار ۲۲ ; جہالت كى نشانياں ۲۱

جھوٹ بولنے والے:قيامت كے دن جھوٹ بولنے ۱۶

خدا:خداوند عالم كا اجر ۷ ; خداوند متعال كاحساب و كتاب۱۴ ; خداوند متعال كى خصوصيات۱۴

دين:دين كى دعوت ۱۰

رؤسا:رؤسا كو دعوت دين

شرك :شرك كے آثار ۲۱

عقل:بے عقلى كى نشانياں ۲۱

علم :علم كا معيار۲۲ ; علم كى نشانياں ۲۰

قوم نوح :رؤسا قوم نوح(ع) اور لقا الله ۱۹ ;رؤسا قوم نوح(ع) اور مؤمنين ۸ ; رؤسا قوم نوح(ع) كى تہمتيں ۳ ; رؤسا قوم نوح(ع) كى جہالت ۱۸ ،۱۹ ; رؤسا قوم نوحعليه‌السلام كے ايمان لانے كے شرائط ۸ ; قوم نوح(ع) كے رؤسا اور تقرب ۱۹ ; قوم نوح(ع) كے ر ؤسا اور حضرت نوحعليه‌السلام كے پيروكار ۱۸ ; قوم نوح(ع) كے رؤسا اور فقراء ۹ ; قوم نوح(ع) كے رؤسا كى سوچ ۳ ; قوم نوح(ع) كے رؤسا كے

۸۴

مطالبات ۸ ; قوم نوح(ع) كے معاشرہ كا طبقاتى نظام۸; قوم نوح(ع) كے مؤمنين كا تقرب ۱۱ ; كفار قوم نوح(ع) ۱۸

مؤمنين قوم نوح(ع) كے درجات ۱۱ ، ۱۸

قيامت :قيامت كى خصوصيات ۱۵ ، ۱۶;قيامت ميں حقائق كا ظاہر ہونا ۱۶

كفر:كفر كے آثار ۲۱

لقاء الله :دنيا ميں لقاء الله ۱۳ ; قيامت ميں لقاء الله ۱۵ ; لقاء الله كا مقام ۱ ۱، ۱۹ ;لقاء الله كا وقت ۱۵

مؤمنين :قيامت ميں مؤمنين ۱۶; مؤمن فقير كو چھوڑنا ۸،۹ ; مؤمن فقير كوچھوڑنے كى مذمت ۱۶ ;مؤمنين كي شخصيت كى اہميت ۱۰

مبلغين:مبلغين كا اجر ۷ ; مبلغين كا زہد۶ ; مبلغين كى صداقت كى علامتيں ۶

مصلحين :نجات دينے والوں كا زہد ۶ ; نجات دينے والوں كى صداقت كى نشانياں ۶

مقربين :۱۱

نوح : (ع)اجر رسالت۱ ، ۴ ; حضرت نوح(ع) اور اشراف قوم كے مطالبات ۹ ; حضرت نوحعليه‌السلام اور فقير مؤمنين ۹; حضرت نوح(ع) پر دنياطلبى كى تہمت ۳ ; حضرت نوح(ع) كا عقيدہ ۴ ; حضرت نوحعليه‌السلام كا قصہ ۹ ; حضرت نوح(ع) كى تبليغ ۱ ، ۴ نوحعليه‌السلام اور قوم نوح(ع) ۴

آیت ۳۰

( وَيَا قَوْمِ مَن يَنصُرُنِي مِنَ اللّهِ إِن طَرَدتُّهُمْ أَفَلاَ تَذَكَّرُونَ )

اے قوم ميں ان لوگوں كو نكال باہر كردوں تو اللہ كى طرف سے ميرا مددگار كون ہوگا كيا تمھيں ہوش نہيں آتا ہے (۳۰)

۱_ خداوند متعال موحدين اور پيغمبروں كى رسالت پر ايمان لانے والوں كا حامى و مددگار ہے _

من ينصر نى من الله ان طردتهم

۲_ مومنين كو چھوڑ دينا ( اہل ايمان كے مجمع سے نكال دينا) گناہ اور عذاب الہى كا موجب ہے_

من ينصر نى من الله ان طردتهم

يہاں (من الله ) كا معنى ( من عذاب الله ) ہے_

۸۵

۳_ تمام لوگ حتى انبياء بھى اگر مؤمنين كو چھوڑ ديں اور گناہ كا ارتكاب كريں تو الہى سزا و مجازات كے مستحق ٹھريں گئے_من ينصر فى من الله ان طردهم

۴_ خداوند متعال كے عذاب كو ٹالنا اور عذاب الہى ميں گرفتارافراد كى مدد كسى كے بس كى بات نہيں ہے_

من ينصر نى من الله

جملہ ( من ينصرني ...) ميں استفہام ، استفہام انكارى ہے _ (نصر) كا معنى مدد كرنا ہے _ كيونكہ آيت ميں يہ (من) سے متعدى ہوا ہے لہذا نجات اورچھٹكارا كا معنى اس ميں متضمن ہے اس بنا ء پر ( من ينصرني ...) كا معنى كچھ يوں ہوگا_ كوئي بھى مجھے عذاب الہى سے نجات نہيں دلواسكتا اگر ميں انہيں باہر نكال دوں _

۵_حضرت نوحعليه‌السلام نے مؤمنين كو ترك كرنے كے نتائج و مشكلات كى طرف توجہ نہ كرنے پر اپنى قوم كے رؤسا و اشراف كى سرزنش كي_أفلا تذكرون

(أفلا تذكرون) ميں استفہام توبيخى ہے_

۶_ مومنين كو چھوڑنے كى خاطر عذاب الہى كا استحقاق، ايك ايسى حقيقت ہے جو سب كے ليے قابل در ك و فہم ہے_

من ينصرنى من الله ان طردتهم أفلا تذكرون

۷_ تمام موجودات كا عذاب الہى كو ٹالنے سے عاجز ہونا، ايك ايسى حقيقت ہے جو سب كے ليے قابل درك و فہم ہے_

من ينصرنى من الله أفلا تذكرون

انبياعليه‌السلام :انبيا(ع) ء اور سزا ۳ ; انبياصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ء كے پيروكاروں كے حامى ۱

انسان:انسانوں كا عجز ۴

خدا:خداوند عزّوجل متعال كى حمايتيں ۱;خداوند عزوجل كى سزائيں ۴; خداوند عزوجل كے عذاب ۷

سزا:سزا كے اسباب ۳

عذاب:اہل عذاب كى مدد۴ ; دفع عذاب سے عاجز ہونا ۴،

۸۶

۷ ;عذاب كے اسباب ۲;عذاب كے اسباب كو درك كرنا ۶

قوم نوحعليه‌السلام :قوم نوحعليه‌السلام كے اشراف كى سرزنش ۵

گناہ:گناہ كى سزا ۳ ; گناہ كے موارد ۲

مؤمنين:مؤمنين كو چھوڑنے كا گناہ ۲;مؤمنين كو چھوڑ نے كے آثار ۲ ،۵; مؤمنين كو نكالنے كى سزا ۳ ، ۶ ; مؤمنين كى شخصيت كى اہميت ۲ ، ۳

موجودات:تمام موجودات كا عاجز ہونا ۷

موحدين:موحدين كا حامى ۱

نوحعليه‌السلام :حضرت نوحعليه‌السلام كا ڈانٹنا۵

آیت ۳۱

( وَلاَ أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَآئِنُ اللّهِ وَلاَ أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلاَ أَقُولُ إِنِّي مَلَكٌ وَلاَ أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ لَن يُؤْتِيَهُمُ اللّهُ خَيْراً اللّهُ أَعْلَمُ بِمَا فِي أَنفُسِهِمْ إِنِّي إِذاً لَّمِنَ الظَّالِمِينَ )

اور ميں تم سے يہ بھى نہيں كہتا ہوں كہ ميرے پاس تمام خدائي خزانے موجود ہيں اور نہ ہر غيب كے جاننے كا دعوى كرتا ہوں اور نہ يہ كہتا ہوں كہ ميں فرشتہ ہوں اور نہ جو لوگ تمھارى نگاہوں ميں ذليل ہيں ان كے بارے ميں يہ كہتا ہوں كہ خدا انھيں خير نہ دے گا _ اللہ ان كے دلوں سے خوب باخبر ہے _ ميں ايسا كہہ دوں گا تو ظالموں ميں شمار ہوجائوں گا (۳۱)

۱_ حضرت نوحعليه‌السلام نہ توكائنات كے خزانوں كے مالك اور نہہى غيب علم جانتے تھے اور نہ وہ فرشتوں ميں سے

۸۷

تھے_لا أقول لكم عندى خزائن الله و لا أقول انى ملك

۲_ قوم نوح كے رؤسااور سردار حضرت نوحعليه‌السلام كو فرشتہ ،كائنات كے خزانوں پر اختيار اورعلم غيب نہ جاننے كى وجہ سے مقام پيغمبرى كے لائق نہيں سمجھتے تھے_ولا أقول لكم عندى خزائن الله و لا أقول انّى ملك

(لا أقول لكم .) كا جملہ ممكن ہے _'' ما نرى لكم علينا من فضل :'' پر ناظر ہو_ لہذا يہ اسكى طرف اشارہ ہے جو قوم نوحعليه‌السلام مدعيان نبوت سے بے جا خواہشات ركھتى تھي_

۳_ تمام نعمات الہى اور كائنات كے خزانوں پر تسلط اور علم غيب كا جاننا پيغمبرى كے شرائط اور خصائص ميں سے نہيں ہے_و لا أقول لكم عندى خزائن الله و لا ا علم الغيب

۴_ فرشتہ ہونا ، مقام نبوت اورپيغمبرى كو ثابت كرنے كے شرائط ميں سے نہيں ہے_لا أقول انى ملك

۵_ بشر، مقام رسالت اور پيغمبرى كى صلاحيت ركھتاہے_و لا أقول انّى ملك

۶_ كائنات ہستى ميں خداوند متعال كى ہر نعمت اور عطا اپنے ليے ايك مخصوص خزانہ و مخزن ركھتى ہے _

(خزائن الله )

مذكورہ بالا تفسير كلمہ ( خزائن) كے جمع لانے كى بناء پرہے _

۷_كائنات كى تمام نعمتيں اور اس كےخزانے، خدا كى طرف سے اور اس كے اختيار ميں ہيں _خزائن الله

۸_ كائنات ہستى ميں خدا كى نعمتيں قيمتى اورقابل قدرہيں _خزائن الله

( خزائن ) جمع خزانہ اور مخازن كے معنى ميں ہے كائنات كى نعمتوں اورعطا كى جگہ كے ليے خزانہ كا لفظ استعمال كرنا، اس مطلب كو سمجھا رہا ہے كہ كائنات كى نعمتيں اور عطيّات قابل قدر اور قيمتى ہيں كيونكہ عموماً قيمتى اشياء كى حفاظت كسى خزانے ميں كى جاتى ہے_

۹_قوم نوح(ع) كے رؤساء كى نظر ميں معاشرہ كے مستضعف اور غريب لوگوں كى ظاہرى پستى اور حقارت_

ولا أقول للذين تزدرى أعينكم يؤتيهم الله خير

از دراء ( تزدرى كا مصدر ہے ) جو حقير ، ناقص اور معيوب سمجھنے كے معنى ميں ہے ( لسان العرب)

(تزدري) كامفعول ضميرمحذوف ہے جو الذين كى طرف لوٹتى ہے اور اس سے مراد حضرت نوحعليه‌السلام كے

۸۸

پيروكار ہيں _ يعنى (الذين تزدريهم أعينكم ) يعنى وہ لوگ جنہيں تمھار ى آنكھيں حقير ، ناقص اور معيوب ديكھ رہى ہيں ( تزدري) كا (أعينكم) كى طرف اسناد، رؤساء اور سردار وں كى ظاہرى نگاہ كى طرف اشارہ ہے_

۱۰_ قوم نوحعليه‌السلام كے سردار اوررؤسائ، غريبوں اور محتاجوں كو خير و نيكى تك پہنچنے سے قاصر سمجھتے تھے_

لا أقول للذين تزدرى أعينكم لن يؤتيهم الله خير

جملہ (لن يؤتيهم الله خيراً ) قوم نوحعليه‌السلام كے سرداروں اوررؤساء كى معاشرہ كے غريبوں اور فقراء كے بارے ميں سوچ كو بيان كر رہا ہے_اور كلمہ ''لن'' كو مد نظر ركھے ہوئے يہ جملہ اس بات كى حكايت كررہا ہے كہ رؤسائ، محروم و غريب افراد كے خير و نيكى تك پہنچے كو ناقابل تحمل خيال كرتے تھے_

۱۱_انسان كا دنيا كے مال و متاع سے محروم ہونا اسكى علامت ہے كہ وہ معنوى و الہى خيرات كو حاصل كرنے كے لائق نہيں ہے _لا أقول للذين تزدرى أعينكم لن يؤتيهم الله خير

۱۲_مكتب انبياء ميں انسانوں كى كسوٹى كامحور، اسكا باطنى اور نفسانى پہلوہے _ نہ كہ ظاہرى و مادى خصوصيات

و لا أقول للذين تزدرى أعينكم ...الله ا علم بما فى أنفسهم

حضرت نوحعليه‌السلام نے كفاركى انسانوں كے بارے ميں فكر كو ( أعينكم) كے لفظ سے تعبير كيا ہے _ ليكن اپنى فكر كے ليے لفظ ( أنفسہم ) كو محور قرار دينا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ جو انسان خدا كو مدنظر نہيں ركھتااس كے نزديك قدر و قيمت كا معيارانسان كے ظاہرى و مادى حالات ہوتے ہيں جبكہ پيغمبر وں كا مطمع نظران كى روح و نفسيات ہے_

۱۳_خداوند متعال، انسانوں كو خير و نيكى عطا كرنے اور ان كو روحانى و معنوى مقامات تك پہنچانے والا ہے_

لا أقول ...لن يؤتيهم الله خير

۱۴_ خداوندمتعال، انسان كے روحانى اور نفسانى امور سے آگاہ ہے _الله ا علم بما فى ا نفسم

۱۵_ قوم نوح كے رؤساء اور سرداروں كا غريب اور محتاج لوگوں پر ظلم كرنا_

لا أقول للذين تزدرى أعينكم انّى إذاً لمن الظالمين

جملہ (انّى اذاً لمن الظالمين ...) تعريضى جملہ ہے _ يعنى رؤساء قوم اور سرداروں كى سرزنش كى جارہى ہے كہ تم اپنى اس خام خيالى ميں كہ غريب اور نادار لوگ خير ونيكى كے مستحق نہيں ہيں ان كے حق ميں ظلم كرتے ہو_

۸۹

۱۶_ غريب و نادار لوگوں كو خير اور مقام معنوى سے دور خيال كرنا، گناہ اور ايسا تصو ّر ہے جس كا حقيقت سے كوتى تعلق نہيں ہے _لا أقول للذين تزدرى أعينكم إنى اذاً لمن الظالمين

۱۷_ كسى دليل و برہان كے بغير لوگوں كے بارے ميں حق بات كہنا اور ان كونا اہل سمجھنا، ان پر ظلم ہے_

لا أقول الله ا علم بما فى أنفسهم إنى إذاً لمن الظالمين

اقدار:اقدار كا ملاك ۱۱،۱۲

افتراء:بہتان باندھنأظلم ہے۱۷

امكانات مادى :مادى و سائلكا كردار ۱۱،۱۲

انبياء:انبياء كا بشرہونا۴

انسان :انسان كى استعداد ۵

برہان:برہان كى اہميت۱۷

تحقيق :اديان ميں تحقيق ۱۲،تحقيق كا ملاك ۱۱،۱۲

خدا :خدا كا علم غيب ۱۴ ; خداوند متعال كى نعمتوں كى اہميت ۸;خداوند متعال كى نعمتيں ۶،۷;خداوند متعال كے اختيارات ۷;خداوند متعال كے مختصات ۷; عطاياى خداوندى ۱۳

خير :خير كاسرچشمہ۱۳

ظالمين :۱۵

ظلم :ظلم كے موارد ۱۷

فقراء:فقراء اور خير۱۰،۱۱،۱۶; فقراء اور معنوى درجات ۱۶

فكر :غلط فكر ۹،۱۶

قوم نوح(ع) :اشراف قوم نوح(ع) اور حضرت نوحعليه‌السلام ۲;اشراف قوم نوح(ع) كأظلم ۱۵; اشراف قوم نوح(ع) كى فكر ۲،۹،۱۰;قوم نوح(ع) كے اشراف اور فقراء ۹،۱۰;قوم نوح(ع) كى تاريخ ۱۵; قوم نوحعليه‌السلام كے فقراء پر ظلم۱۵; قوم نوح(ع) كے معاشرتى طبقات ۹،۱۰،۱۵

۹۰

گناہ :گناہ كے موارد ۱۶

معنويات:معنويات پائي جانے كى علامات۱۱

معنوى درجات :معنوى درجات كا سرچشمہ ۱۱

ملائكہ :ملائكہ اور نبوت ۴/نبوت :بشر اور مادى امكانات ۳;شرائط نبوت ۳،۴; مقام نبوت ۵;نبوت اور علم غيب ۳

نعمت :نعمت كا سبب ۶،۷;نعمت كے خزائن كا مالك ۷;نعمت كے ذخيرے۶

نوحعليه‌السلام :حضرت نوح(ع) اور عقائد كے اختيارات كا دائرہ كار ۱; حضرت نوح(ع) كا بشر ہونا۱; حضرت نوح(ع) كے علم كا دائرہ ۱

آیت ۳۲

( قَالُواْ يَا نُوحُ قَدْ جَادَلْتَنَا فَأَكْثَرْتَ جِدَالَنَا فَأْتَنِا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ )

ان لوگوں نے كہا كہ نوح آپ نے ہم سے جھگڑا كيا اور بہت جھگڑا كيا تو اب جس چيز كا وعدہ كررہے تھے اسے لے آئو اگر تم اپنے دعوا ميں سچے ہو(۳۲)

۱_حضرت نوح(ع) ، اپنى قوم كى ہدايت كے سلسلہ ميں ہميشہ كوشاں رہے_قالوا يا نوح قد جادلنا فا كثرت جدالن

إكثار (أكثرت ) كا مصدر ہے_ اسكا معنى كام كو كثرت سے انجام دينا ہے_ پس( ا كثرت جدالنا ) كا معنى يہ ہوا كہ تونے بہت مناظرہ اور كثرت سے ادّلة كو ذكر كيا ہے _ يہ اس معنى كو بتاتا ہے كہ حضرت نوحعليه‌السلام نے تبليغ رسالت كے سلسلہ ميں انتھك كوشش كى ہے _

۲_لوگوں كو شرك سے روكنے اور توحيد كى طرف ترغيب دلانے كے ليے حضرت نوح(ع) نے گفتگو و بحث اور دليل و برہان پيش كرنے كى روش اختيار كي_قالوا يا نوح قد جادلنا فا كثرت جدالن

(جدال ) كا معنى مناظرہ كرنا اور مدّ مقابل كے دعوى فكر اور عقائد كے خلاف دليل و برہان كو لانا ہے_

۳_حضرت نوحعليه‌السلام ، ہميشہ كافروں كو عذاب الہى كے نزول سے ڈراتے تھے_فأتنا بما تعدن

فعل مضارع( تعد) كو فعل ماضى (وعدت) كى جگہ پرلانا، عذاب سے ڈرانے اور حضرت نوح(ع) كى توبيخ كے تكرار كى طرف اشارہ ہے

۹۱

۴_كفارنے حضرت نوحعليه‌السلام سے يہ خواہش كى كہ وہ ان كے ساتھ اپنے مناظرے اور گفتگو كو ختم كركے وعدہ عذاب كو عملى شكل دے_قالوا يا نوح قد جادلنا فا كثرت جادلنا فأتنا بما تعدن

جملہ (فا كثرت جدالنا)(كہ تم نے ہمارے ساتھ بہت زيادہ مناظرہ كيا ) پر جملہ ''فائتنابما تعدنا''كا متفرع ہونا اس بات سے كنايہ ہے كہ دليل و برہان لانا كا فى ہے لہذا اس بات كو ختم كيا جائے_

۵_ قوم نوح كے كفار، حضرت نوحعليه‌السلام كے عذاب كو غير يقينى اور ان كے وعدہ عذاب اورخوف دلانے كو قابل عمل نہيں سمجھتے تھے_فأتنا بما تعدنا ان كنت من الصادقين

۶_حضرت نوح(ع) كى كوشش اور براہين و دلائل، رؤسا كفار پر بے اثر ثابت ہوئے_قد جادلنا فا كثرت جادلنا فأتنا بما تعدن

۷_قوم نوح(ع) كے رؤساء اور سرداروں كى ہميشہ يہ كوشش رہى كہ وہ حضرت نوح(ع) كو توحيدى دعوت قبول كرنے كے سلسلہ ميں مايوس كريں _قد جادلتنا فا كثرت جادلنا فأتنا بما تعدن

۸_ كا فر قوم كے خام خيال ميں حضرت نوح(ع) ايك جھوٹے اور ناروا مطالب پيش كرنے والے شخص تھے_

ان كنت من الصادقين

عذاب:عذاب كى درخواست كرنا۴;نزول عذاب سے ڈرانا ۳

فكر :غلط فكر ۸

قوم نوحعليه‌السلام :اشراف قوم اور نوحعليه‌السلام ۷;اشراف قوم نوح(ع) كا ہدايت كو قبول نہ كرنا ۶; اشراف قوم نوح(ع) كى سازش ۷; قوم نوح(ع) اور حضرت نوحعليه‌السلام ۴; قوم نوح(ع) اور حضرت نوحعليه‌السلام كے عذاب كے وعدے ۵; قوم نوح(ع) كا كفر ۵;قوم نوح(ع) كو ڈرانا ۳; قوم نوح(ع) كى فكر ۸; قوم نوح(ع) كى ہدايت ۱; قوم نوح(ع) كے تقاضے ۴

نوحعليه‌السلام :

حضرت نوحعليه‌السلام پر جھوٹ بولنے كى تہمت ۸; حضرت نوحعليه‌السلام كا شرك كے خلاف جہاد ۲; حضرت نوح(ع) كا قصہ ۱،۲،۳،۴،۷; حضرت نوحعليه‌السلام كا ہدايت كرنا۱ ; نوحعليه‌السلام كا احتجاج۲،۶; حضرت نوحعليه‌السلام كا ڈرانا ۳; حضرت نوحعليه‌السلام كى تبليغ كا طريقہ ۲،۳; حضرت نوحعليه‌السلام كى نااميدى كا سبب ۷

۹۲

آیت ۳۳

( قَالَ إِنَّمَا يَأْتِيكُم بِهِ اللّهُ إِن شَاء وَمَا أَنتُم بِمُعْجِزِينَ )

نوح نے كہا كہ وہ تو خدا لے آئے گا اگر چاہے گا اور تم اسے عاجز بھى نہيں كرسكتے ہو(۳۳)

۱_اہل كفر پر عذاب كا نزول خدا كے اختيار اور اسكى مشيت سے ہے_انما ياتيكم به الله

۲_ كافروں پر عذاب نازل كرنا، پيغمبروں كے اختيار ميں نہيں ہے_فأتنا بما تعدنا ...قال انما ياتيكم به الله ان شائ

كافروں نے حضرت نوحعليه‌السلام كو مخاطب كركے كہا كہ جس عذاب كے بارے ميں ڈراتے ہووہ لے آؤ پھر حضرت نوحعليه‌السلام كا اپنى كلام ميں ( انما ) كا لفظ لے آناجو كے حصر كے ليے ہے اس بات كى دليل ہے كہ عذاب نازل كرنا، خداوند متعال كا كام ہے اور يہ انسان كے اختيار كى بات نہيں ہے_

۳_ حضرت نوح كفار كے عذاب طلب كرنے كے جواب ميں فرماتے ہيں كہ عذاب كا نازل كرنا، خدا كى مشيت كے ساتھ ہے اور اس عذاب سے بچنا ممكن نہيں ہے_قال انما ياتيكم به الله ان شاء و ما انتم بمعجزين

۴_ خداوند متعال كى مشيت ناقابل تخلّف ہے_قال انما ياتيكم به الله ان شائ

۵_ مشيت الہى كے مقابلے ميں استقامت كسى كے بس كاروگ نہيں ہے_انما ياتيكم به الله ان شاء وما انتم بمعجزين

۶_ كوئي شخص اور كوئي شے خداوند متعال پر حاكميت نہيں ركھتى ہے_فأتنا بما تعدنا قال انما ياتيكم به الله ان شاء

۷_ خداوند عالم كا وعدہ عذاب اور اس سے خوف دلانا اگر چہ لوگوں پر اس كا ابلاغ ہى كيوں نہ كرديا گيا ہو خدا كو مجبورنہيں كرسكتاكہ وہ اس كو عملى جامہ پہنائے_

۹۳

فأتنا بما تعدنا قال انما ياتيكم به الله ان شاء

حضرت نوحعليه‌السلام ( انشا الله ) كے جملے سے يہ بتانا چاہتے ہيں كہ عذاب الہي، مشيت خداوندى كے ساتھ مختص ہے_ يہ عذاب كاوعدہ اور خوف دلوانا بھى اگر چہ خدا كى طرف سے ہے ليكن اسكو عملى جامہ پہننانے پراسے مجبور نہيں كيا جاسكتا، خداوند عالم مختار ہے اگر وہ چاہے گا تو ان عذاب كے وعدوں كو پورا اور اگر نہيں چاہے گا تو پورا نہيں كرے گا_

۸_كفار، عذاب الہى كے نزول كو نہيں روك سكتے اورنہ ہى خود كو اس ميں گرفتار ہونے سے بچاسكتے ہيں _

انماياتيكم به الله و ما انتم بمعجزين

اعجاز (معجزين) كا مصدر جو فرار كرنے اور دسترس سے خارج ہونے كے معنى ميں ہے اس بناء پر ''وما انتم بمعجزين''كا معنى ہوں ہوگا (عذاب كے نازل ہونے كے بعد) تم عذاب سے فرار اور اس سے چھٹكارا نہيں پا سكتے ہو_

۹_ كفار كے عذاب طلب كرنے كے سلسلہ ميں حضرت نوحعليه‌السلام كا جو جواب تھا وہ درس توحيد اور شناخت خدا پر مبنى تھا_فأتنا بما تعدنا قال انما ياتيكم به الله ان شاء و ما انتم بمعجزين

انبياء:انبياء كے دائرہ اختيارات ۲

انسان :انسانوں كا عجز ۵

خدا :اختيار خداوندى ۷; خدا پر حاكميت ۶; خداوند متعال كى خصوصيات ۶;خداوند متعال كے عذاب كے وعدوں كا پورا ہونا۷;خدا كى حاكميت ۶; خدا كى مشيت كا حتمى ہونا ۴،۵;خدا كے عذاب سے نجات ۸;مشيت الہى ۱،۳

عذاب:عذاب كا سبب۱،۲،۳; عذاب كى درخواست ۳،۹

قوم نوح:قوم نوح پر عذاب كا حتمى ہونا ۳; قوم نوح كى خواہشات ۳،۹

كائنات كى شناخت :كائنات كى توحيدى شناخت ۶

كفار :كفار كا عجز ۸; كفار كا عذاب ۱،۲;كفار كے عذاب حتمى ہونا ۳

موجودات :موجودات كا عاجز ہونا ۶

حضرت نوحعليه‌السلام :حضرت نوحعليه‌السلام اور قوم نوح كى خواہشات ۹; حضرت نوحعليه‌السلام كا قصہ ۹;حضرت نوحعليه‌السلام كا خدا كى معرفت ركھنا ۹; حضرت نوح(ع) كى تعليمات ۹; حضرت نوحعليه‌السلام كى توحيد ۹

۹۴

آیت ۳۴

( وَلاَ يَنفَعُكُمْ نُصْحِي إِنْ أَرَدتُّ أَنْ أَنصَحَ لَكُمْ إِن كَانَ اللّهُ يُرِيدُ أَن يُغْوِيَكُمْ هُوَ رَبُّكُمْ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ )

اور ميں تمھيں نصيحت بھى كرنا چاہوں تو ميرى نصيحت تمھارے كام نہيں آئے گى اگر خدا ہى تم كو گمراہى ميں چھوڑ دينا چاہے _ وہى تمھارا پروردگار ہے اور اسى كى طرف تم پلٹ كرجانے والے ہو(۳۴)

۱_ حضرت نوحعليه‌السلام اپنى قوم كے ايمان لانے ميں متردد ہوگئے جب انہوں نے عذاب موعود كے متحقق ہونے كے بارے ميں درخواست كى _فأتنا بما تعدنا قال لا ينفعكم نصحى ان ادرت ان انصح لكم

۲_حضرت نوح(ع) كى كوششيں جب ثمر آورنہ ہوئيں تو انہوں نے يہ احتمال ديا كہ خدا كى مشيت يہ ہے كہ ان كے قوم كے رؤساء و سردار ورطہ گمراہى و ضلالت ميں پڑے رہيں _ولاينفعكم نصحي ...ان كان الله يريد ان يغويكم

(ان )ان كان الله ميں شرطيہ ہے اور جملہ (لا ينفعكم ...) اس شرط كے جواب كے قائم مقام ہے_ يہ احتمال بھى بعيد نہيں ہے كہ يہ (ان) مثقلہ سے مخففہ ہو گيا ہو_اس بناء پر جملہ ''و ان كان الله '' يہ بتاتاہے كہ حضرت نوحعليه‌السلام نے اپنى قوم پر يقين كرليا تھا كہ وہ ايمان نہيں لائيں گے_ اور يہ بات بھى قابل ذكر ہے كہ يہ (ان) كى خبر ميں لام كو نہ لانا اس وجہ سے ہے كہ يہ(ان نافيہ ) كے ساتھ مشتبہ نہ ہوجائے_

۳_ خدا كى طرف سے اہل كفر كى ضلالت و گمراہى ان كى ہٹ دھرمى اور حق قبول نہ كرنے كى سزا ہے_

يا نوح قد جادلتنا فأتنا بما تعدنا ان كان الله يريد ان يغويكم

اہل كفر كى ہٹ دھرمى اور حق قبول نہ كرنے (قد جادلتنا)كے بيان كے بعد جملہ ''ان كان الله '' كا واقع ہونا اس بات كى حكايت كررہا ہے كہ اہل كفار كو گمراہ كرنے كا خدائي ارادہ خود ان كى ہٹ دھرمى اور عناد كا نتيجہ ہے_

۴_جن كى گمراہى اور ضلالت كا خدا وند عالم نے ارادہ كر ليا ہے تو انہيں انبياء كى تعليمات اور نصيحتيں كچھ فائدہ نہيں ديتى ہيں _و لا ينفعكم نصحى ان كان الله يريد ان يغويكم

''ان كان اللّه ...'' جملہ'' لا ينفعكم نصحي'' كےليے بہ منزلہ علت ہے _يعنى خداوند متعال نے تمہارى گمراہى كا ارادہ كيا ہے تو ميرى نصيحت تم پر كچھ اثر انداز نہيں ہو گئي_

۵_انبياء اور مبلغين دين كے ليئے ضرورى نہيں ہے كہ جو لوگ ہدايت كو قبول نہيں كرتے وہ انہيں معارف الہى كى تبليغ كريں _ان اردت ان انصح لكم

۹۵

حضرت نوح(ع) پرجب يہ حقيقت ظاہر ہوگى كہ خداوند متعال قوم نوح كى لجاجت كى وجہ سے ان كو گمراہ ديكھنا چاہتا ہے تو نصيحت اور دين كى تبليغ كرنے كو جملہ شرطيہ ''ان اردت ...''كے ذريعہ بيان كيا تا كہ اس مطلب كى طرف اشارہ كيا جائے كہ دين كى تبليغ اس مرحلہ كے بعد مجھ پر لازم و ضرورى نہيں ہے_

۶_ جب يہ احتمال ہوكہ امر بالمعروف اور نہى عن المنكر مؤثر نہيں تو تبليغ كرنا واجب نہيں ہے_

و لا ينفعكم نصحى ان اردت ان انصح لكم ان كان الله يريد ان يغويكم

۷_ انسانوں كى ہدايت اور گمراہي، ارادہ خداوند اور اسكى مرضى سے خارج نہيں ہے_

و لا ينفعكم نصحي ان كان الله يريد ان يغويكم

۸_ حضرت نوحعليه‌السلام لوگوں كے ہمدرد اور دلسوز پيغمبر تھے_لا ينفعكم نصحى ان اردت ان انصح لكم

۹_ كفارقوم نوح حضرت نوحعليه‌السلام كواپنا خير خواہ اور ان كى تعليمات كو اپنے ليے فائدہ مند نہيں سمجھتے تھے_

يا نوح قد جادلتنا ان اردت ان انصح لكم

قوم نوح(ع) كے رؤساء حضرت نوحعليه‌السلام كى مسلسل جدوجہد كو مناظرہ كا نام ديتے تھے ليكن حضرت نوح(ع) ان كى فكرى خطا كو خطا قرار دينے كے ليے ان كے مقابلہ ميں لفظ نصيحت سے تعبير كرتے تھے_

۱۰_ انسان پر نصيحت كا مؤثر ہونا، خداوند متعال كى توفيق اور اسكى مشيّتكا مرہون منت ہے_

و لا ينفعكم نصحى ان كان الله يريد ان يغويكم

۱۱_خداوند متعال، انسانوں كا پروردگار اور انكے امور كا مدبّر ہے_هو ربكم

۱۲_اتمام حجت اور ان كى كينہ توزى كے بعد اہل كفار كو گمراہ كرنا، خداوند عالم كى ربوبيت كا ايك جلوہ ہے_

ان كان الله يريد ان يغويكم هو ربكم

۱۳_ انسانوں كى بازگشت ،خداوند متعال كى طرف ہے_و اليه ترجعون

۱۴_ انسانوں كى خدا كى طرف بازگشت، اسكى ربوبيت كى ايك جھلك ہے_هو ربكم و اليه ترجعون

۱۵_انسانوں كا خداوند متعال كى طرف لوٹنا حتمى اور اس سے راہ فرار ممكن نہيں ہے_و اليه ترجعون

مذكورہ بالا تفسير كا سبب فعل '' ترجعون'' كا مجہول ہونا ہے_

۹۶

۱۶_پيغمبروں كى نصيحتوں كو قبول نہ كرنا، آخرت كے عذاب ميں گرفتار ہونے كا سبب ہے_

و لا ينفعكم نصحى ان اردت ان انصح لكم هو ربكم و اليه ترجعون

نصيحت كو قبول نہ كرنے والوں كى خدا كى طرف بازگشت كى حقيقت كو بيان كرنے كا مقصد انہيں اخروى عذاب سے خبردار كرنا ہے_

۱۷_عن ابى الحسن الرضا عليه‌السلام قال: قال الله فى قوم نوح ''ولا ينفعكم نصحى ان اردت ان انصح لكم ان كان الله يريد ان يغويكم ، قال : الامر الى الله يهدى و يضل (۱) امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے كہ خداوند عالم نے حضرت نوح(ع) كا ان كى قوم كے بارے ميں قول نقل كرتے ہوئے فرمايا كہ اگر خداوند عالم تمھيں گمراہ كرنا چاہے اور ميں تمھيں نصيحت كرنا چاہوں تو ميرى نصيحت تمھارے ليے سودمند ثابت نہيں ہو سكتى _ امام(ع) نے فرمايا كہ ہدايت و گمراہى كا اختيار خدا كے ہاتھ ميں ہے_

انسان :انسانوں كى تدبير كرنے والا :۱۱;انسانوں كى تربيت كرنے والا ۱۱; انسانوں كى عاقبت ۱۳،۱۵

احكام :۶//امر بالمعروف:امر بالمعروف كے احكام ۶; امر بالمعروف كے شرائط۶

انبياء:انبياء كى ذمہ دارى كا دائرہ ۵; انبياء كے موعظہ كے شرائط كى تاثير ۴; موعظہ انبياء كے رد كرنے كے آثار ۱۶

حق :حق قبول نہ كرنے كا انجام ۳

خدا :توفيقات خدا كا اثر ۱۰; ربوبيت خدا ۱۱; خدا كا اتمام حجت كرنا ۱۲; خدا كا ارادہ۲،۴،۷; خدا كى ربوبيت كى نشانياں ۱۲،۱۴; خدا كى گمراہى ۲،۳، ۴، ۱۲ ، ۱۷; خدا كى مشيت كا اثر ۷; خداوند متعال كى ہدايتيں ۱۷; خدا كے ارادہ كا اثر۱۰; خدا كے افعال ۱۱; مشيت خدا ۷

خدا كى طرف لوٹنا:۱۳،۱۴خدا كى طرف حتماً لوٹنا ۱۵

روايت :۱۷سزا:آخرت كى سزا كا سبب۱۶

عذاب :عذاب كى درخواست ۱

قوم نوح:اشراف قوم نوح كى گمراہى ۲; قوم نوح اور حضرت نوحعليه‌السلام ۹;قوم نوح كى خواہشات ۱; قوم نوح كى فكر ۹;قوم نوح كے ايمان كى نااميدى ۱

____________________

۱)تفسير عياشى ج۲،ص۱۴۳،ح۱۶; نور الثقلين ج۲ص۳۴۹،ح۶۲_

۹۷

گمراہ لوگ:گمراہوں كا حق قبول نہ كرنا۳; گمراہوں كا ہدايت قبول نہ كرنا۴;گمراہوں كى دشمنى ۱۲; گمراہوں كى لجاجت ۳;گمراہوں كے ليے اتمام حجت ۱۲

گمراہى :گمراہى كا سبب۳; گمراہى كى ابتداء ۷

لجاجت :لجاجت كى جزاء ۳

مبلغين :مبلغين كى ذمہ دارى كا دائرہ ۵

موعظہ :موعظہ كى شرائط كا اثر ۱۰

نوحعليه‌السلام :حضرت نوحعليه‌السلام كا عقيدہ ۲; حضرت نوحعليه‌السلام كا قصہ ۱; حضرت نوحعليه‌السلام كى خيرخواہى ۸; حضرت نوحعليه‌السلام كى مہربانى ۸;حضرت نوحعليه‌السلام كى نااميدى كا سبب۱ ; حضرت نوحعليه‌السلام كے فضائل ۸

نہى عن المنكر :نہى عن المنكر كے احكام ۶; نہى عن المنكر كے شرائط۶

ہدايت :ہدايت كا سبب ۷

ہدايت قبول نہ كرنے والے:معارف الہى كا ہدايت قبول نہ كرنے والوں كو ابلاغ ۵

آیت ۳۵

( أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ فَعَلَيَّ إِجْرَامِي وَأَنَاْ بَرِيءٌ مِّمَّا تُجْرَمُونَ )

كيا يہ لوگ يہ كہتے ہيں كہ انھوں نے اپنے پاس سے گڑھ ليا ہے تو آپ كہہ ديجئے كہ اگر ميں نے گڑھاہے تو اس كا جرم ميرے ذمہ ہے اور ميں تمھارے جرائم سے برى اور بيزار ہوں (۳۵)

۱_ عصر بعثت كے مشركين، قرآن كو پيغمبر اسلام كا منگھڑت كلام سمجھتے تھے_ام يقولون افتراه

'' يقولون'' كى ضمير سے كون افراد مراد ہيں ؟ اس بارے ميں دو نظريے ہيں بعض نے عصر پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مشركين مراد ليے ہيں اور بعض مفسرين نے قوم نوح(ع) كے كفار قرار ديے ہيں مذكورہ بالا تفسير پہلے نظر يے كى بناء پر ہے_ قابل ذكر ہے كہ اس بناء پر كلمة ''قل '' كا مخاطب پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ''اقترئہ'' ميں ضمير مفعول قرآن كى طرف يا حضرت نوح(ع) كے مخصوص واقعہ كى طرف لوٹ رہى ہے_

۹۸

۲_ مكہ كے مشركين ،حضرت نوحعليه‌السلام اور انكى قوم كے واقعہ كو خودپيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام كى طرف سے بنايا ہوا قصہ خيال كرتے تھے_و لقد ارسلنا نوحاً ام يقولون افترىه

مذكورہ بالا تفسير اس صورت ميں ہے كہ جب ''افتراہْ'' كے مفعول كى ضمير،ما قبل آيات ميں ذكر حضرت نوح(ع) اور ان كى قوم كے واقعہ كى طرف لوٹے_

۳_خود ساختہ مطالب كو خداوند متعال كى طرف نسبت دينا جرم اور گناہ ہے_قل ان افتريته فعلّى اجرامي

'' افتراء'' كا معنى جھوٹ باندھنا ہے_ اگر چہ اسكى كسى دوسرے كى طرف نسبت دينا اسميں ذكر نہيں ہوا ہے_ ليكن آيت كريمہ ميں جو قرائن و اشارات ملتے ہيں _ مثلاً '' افتراہ '' اور ''افتريتہ'' يہ بتاتے ہيں كہ معنى يوں ہے اگر اسكو ميں نے بنايا ہوا اور اسكى نسبت خدا كى طرف دى ہوتي

۴_ خداوند متعال نے پيغمبر اسلام كو مشركين كا جواب دينے، اور ان سے پيش آنے كا طريقہ تعليم ديا ہے_

ام يقولون افترىه قل ان افتريته فعلى اجرامى و انا بريّ مما تجرمون

مذكورہ بالا تفسير كا (قل) كے لفظ سے استفادہ كيا گيا ہے_

۵_ ہركوئي اپنے اعمال كا ذمہ دارہے اور اپنے گناہوں كى سزا بھى خود ہى بھگتے گا_ان افتريته فعلى اجرامي

''اجرام'' كا معنى ارتكاب اور گناہ كرنا ہے'' فعليّ'' كے لفظ كا '' اجرامي'' پر مقدم ہونا حصر پر دليل ہے يعنى افتراء كا گناہ (اگر افتراء ہو) مجھ پرہے نہ كہ كسى اور پر_

۶_ شرك اور غير خدا كى عبادت جرم اور گناہ ہے_و انا بريئٌ مما تجرمون

كيونكہ ''تجرمون'' كے مخاطب مشركين اور غير خدا كى عبادت كرنے والے ہيں _ لہذاجملہ ''تجرمون'' ميں گناہ سے مرادممكن ہے شرك كرنا اور غير خدا كى عبادت كرنا ہو ،يہ بات قابل ذكر ہے كہ (لفظ مما ) ميں ''ما'' مصدريہ ہے يعنى معنى يہ ہوگا'' انا بريئٌ من اجرامكم'' _

۷_ پيغمبر اسلام كا مشركين مكہ كى شرك پرستى اور ان كے

۹۹

گناہوں سے بيزارى كا اعلان _و انا بريئٌ مما تجرمون

۸_ اپنے نظريے كى حفاظت اور عقائد كى پابندى كو ملحوظ خاطر ركھتے ہوئے مخالفين دين سے نبردآزما ہونا چاہيے_

ان افتريته فعلى اجرامى و انا بريئٌ مما تجرمون

افتراء:خدا پرافتراء كا گناہ ۳;قرآن مجيد پر افتراء۱; محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر افتراء ۱

انسان :انسانوں كى ذمہ دارياں ۵

تبري:شرك سے تبرى كرنا ۷; گناہ سے تبرى كرنا ۷

جرم :جرم كے موارد۶

خدا :تعليمات خداوندى ۴

دين :دشمنان دين سے برتاؤ كا طريقہ ۸

ديندارى :ديندارى كى اہميت ۸; دين دارى ميں استقامت ۸

شرك :شرك عبادى گناہ ہے۶

عقيدہ :عقيدہ ميں استقامت ۸

عمل :عمل كے آثار ۵

گناہ :گناہ كيسزا۵; گناہ كے موارد ۳،۶

مجازات:سزاؤں كا شخصى ہونا۵; سزاؤں كى خصوصيات ۵

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مشركين ۴;رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جھوٹ كى تہمت۲; رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا اعلان تبرى كرنا ۷;معلم حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۴

مشركين :صدراسلام كے مشركين اور قرآن مجيد ۱; صدر اسلام كے مشركين كى فكر ۱; مشركين سے برتاؤ كرنے كى روش۴

مشركين مكہ :مشركين مكہ اورحضرت نوحعليه‌السلام كا قصہ ۲; مشركين مكہ كى تہمتيں ۲;مشركين مكہ كى فكر ۲

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

آیت ۷۵

( إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُّنِيبٌ )

بيشك ابراہيم بہت ہى دردمند اور خدا كى طرف رجوع كرنے والے تھے (۷۵)

۱_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام بردبار پيغمبر تھے جو ہرگز گناہگاروں كے عذاب ميں جلدى كرنے والے نہيں تھے_

ان ابراهيم لحليم

۲_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام لوگوں كو مشكلات ميں ديكھ كر متأثر ہونے والے اور ان كى دلسوزى كرنے والے تھے_

ان ابراهيم اوّاة

(أوّاہ )اس شخص كوكہتے ہيں جو زيادہ (آہ) كرنے والا اور افسوس كرنے والا ہو جملہ (يجادلنا) كے بعد جملہ (اوّاہ) كا آنا يہ بتاتا ہے كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام لوگوں كى مشكلات و پريشانى كى وجہ سے بہت متأثر اور اظہار افسوس كرتے تھے_

۳_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، ہميشہ خدا سے لگاؤ ركھتے اور اپنى حاجات كو اس سے طلب كرتے تھے_ان ابراهيم منيب

خداوند عالم كى بارگاہ ميں انا بہ سے مراد ، اس كي طرف رجوع كرنا ہے_

۴_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا قوم لوط كے بارے ميں طلب شفاعت كرنے كا سبب، ان كى بردبارى اور لوگوں كى مشكلات ميں اظہار افسوس كرنا اور خداوند متعال كے بارے ميں اعتقاد راسخ ركھنا ہے_يجادلنا فى قوم لوط، ان ابراهيم لحليم اوّاه منيب

(ان ابراہيم ) كا جملہ ابراہيمعليه‌السلام كا قوم لوط كے بارے ميں مجادلہ و بحث كرنے كا سبب اور ان كے دفاع كى وجہ كو بتاتا ہے_

۵_ بردبارى ، لوگوں كى مشكلات سے متأثر اور اظہار افسوس كرنا اور خدا كى طرف لگاؤ ركھنا اور اسى سے اپنى حاجات كو طلب كرنا يہ اچھى صفات اور پسنديدہ عادات ہيں _ان ابراهيم لحليم اوّاه منيب

۲۲۱

۶_عن جعفر بن محمد عليه‌السلام ... (الاوّاه ) الدّعاء (۱)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ (اوّاہ) جو آيت شريفہ ميں ہے اسكا معني، زيادہ دعا كرنے والا ہے_

ابراہيمعليه‌السلام :ابراہيمعليه‌السلام اور خطا كرنے والے ۱; ابراہيمعليه‌السلام اور ذكر الہى ۳; ابراہيم اورقوم لوط ۴; ابراہيمعليه‌السلام كا حلم ۱;ابراہيمعليه‌السلام كا غم ۲،۴;ابراہيمعليه‌السلام كى دعا ۳; ابراہيمعليه‌السلام كى سيرت ۳; ابراہيمعليه‌السلام كى شفاعت كے اسباب ۴; ابراہيمعليه‌السلام كى مہربانى ۲;ابراہيمعليه‌السلام كے حليم ہونے كے آثار ۴; ابراہيمعليه‌السلام كے فضائل ۱

انگيزہ :انگيزہ كے اسباب ۴

اوّاہ :اوّاہ سے مراد ۶

حلم :حلم كى اہميت ۵

دعا :دعا كى اہميت ۵

ذكر:ذكر خدا كى اہميت ۵

روايت :۶

صفات :پسنديدہ صفات ۵

قوم لوط :قوم لوط كى شفاعت ۴

لوگ :لوگوں كى مشكلات پر تأسف كا اظہار كرنا ۲،۴،۵

____________________

۱) دعائم الاسلام ، ج۱، ص ۱۶۶; بحار الانوار ج۸۲،ص۳۲۵،ح۲۰_

۲۲۲

آیت ۷۶

( يَا إِبْرَاهِيمُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَا إِنَّهُ قَدْ جَاء أَمْرُ رَبِّكَ وَإِنَّهُمْ آتِيهِمْ عَذَابٌ غَيْرُ مَرْدُودٍ )

ابراہيم اس بات سے اعراض كرو _ اب حكم خدا آچكا ہے اوران لوگوں تك وہ عذاب آنے والا ہے جو پلٹايا انہيں جا سكتا (۷۶)

۱_ حضرت ابر اہيم(ع) كى قوم لوط كے بارے ميں شفاعت (كہ ان سے عذاب ٹل جائے) خداوند متعال كے ہاں مورد قبول واقع نہ ہوئي _يجادلنا فى قوم لوط يا ابراهيم اعرض عن هذ

۲_ فرشتوں نے جناب ابراہيمعليه‌السلام سے خواہش كى كہ قوم لوط كے بارے ميں شفاعت سے صرف نظر كريں اور اس پر اصرار نہ كريں _يا ابراهيم اعرض عن هذ

(ہذا ) كا اشارہ (جدال ) كى طرف ہے جو ماقبل آيت ميں موجود(يجادلنا ) سے استفادہ ہوا ہے_

۳_قوم لوط كا مقدر شدہ عذاب حتمى تھا اور اس ميں كسى تغيّر و تبديلى كى گنجائش نہ تھي_

انه قد جاء امرربك و انهم ء اتيهم عذاب غير مردود

(اتى )اتيان سے اسم فاعل ہے يعنى (آنا)اور (ردّ) پلٹانے كے معنى ميں ہے _لہذا ( انہم ء اتيہم ) يعنى وہى عذاب ان پر آئے گا جو ٹلنے والا نہيں ہے_

۴_ كائنات ميں خداوند متعال كا حكم حتمى ہے _ اس ميں كوئي تخلف يا كمى واقعى نہيں ہوتى _انه قد جاء امر ربك

ظاہر يہ تھا كہ فرشتے، عذاب كے آنے كى خبر كو فعل مضارع سے بيان كرتے _ كيونكہ ابراہيمعليه‌السلام كى گفتگو كے دوران ابھى قوم لوط پر عذاب نازل نہيں ہوا تھا_ اسى وجہ سے فعل مضارع (يجي) كى جگہ فعل ماضى (جائ) كألانا اور حرف (قد ) كے ذريعے تاكيد كرنا اس حكم الہى كے حتمى طور پرواقع ہونے كو بتاتا ہے_

۲۲۳

۵_ پيغمبروں كى شفاعت ودر خواست كاخدا كى بارگاہ ميں قبول نہ ہونا بھى ممكن ہے_يا ابراهيم اعرض عن هذا

۶_ قوم لوط پر عذاب كا قطعى ہونا اور قابل تغيير نہ ہونا حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى ان كے بارے ميں شفاعت كے قبول نہ ہونے كى دليل ہے_يا ابراهيم اعرض عن هذا انه قد جاء امر ربك

(انّہ قد جاء ...) كا جملہ (اعرض عن ہذا) كے جملے كے ليے علت ہے_

۷_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا قوم لوط كے عذاب كے بارے ميں فرشتوں سے جر و بحث كرنا اس عذاب كے قطعى ہونے كى اطلاع سے پہلے تھا_يجادلنافى قوم لوط يا ابراهيم اعرض عن هذا انه قد جاء امر ربك

۸_ مفسد اقوام پر عذاب الہى كا نازل ہونا، خداوند متعال كى ربوبيتكا تقاضا ہے_انه قد جاء امر ربك

۹_ پيغمبروں كى شفاعت كا مورد قبول ہونا اس شرط پر ہے كہ جس امر كى شفاعت كررہے ہيں وہ خدا كے ہاں حتمى نہ ہو چكا ہو_يجادلنا فى قوم لوط يا ابراهيم اعرض عن هذا انه قد جاء امر ربك

۱۰_ قوم لوط پر عذاب كے نزول كے وقت،حضرت ابراہيمعليه‌السلام بوڑھے اور سن رسيدہ تھے_

و هذا بعلى شيخاً ىا ابراهيم اعرض عن هذا انه قد جاء امر ربك

۱۱_عن ابى عبداللّه عليه‌السلام : فقال اللّه تعالى : يا ابراهيم ا عرض عن هذا انه قد جاء امر ربك و انهم آتاهم عذابى بعد طلوع الشمس من يومك محتوماً غير مردود ;(۱)

امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ خداوند متعال نے فرمايا: اے ابراہيمعليه‌السلام اس بات كو چھوڑ دو (اے ابراہيم ) فرمان الہى آپہنچا ہے آج طلوع آفتاب كے بعد ان كے ليے ميرا عذاب آجائے گا اور يہ حتمى ٹلنے والا نہيں ہے_

ابراہيمعليه‌السلام :ابراہيمعليه‌السلام اور قوم لوط ۲;ابراہيمعليه‌السلام اور قوم لوط كا عذاب ۷;ابراہيمعليه‌السلام قوم لوط كے عذاب پر آنے كے وقت ۱۰;ابراہيمعليه‌السلام كى شفاعت۷; ابراہيمعليه‌السلام كى شفاعت ۰۱، ۱۱;ابراہيمعليه‌السلام كى شفاعت كے قبول نہ ہونے كے دلائل ۶; ابرہيم(ع) كى جرو بحث۷ ; قصہ ابراہيم(ع) ۷

انبياءعليه‌السلام :ابنياءعليه‌السلام كى شفاعت كے رد ہونے كا امكان ۵; انبياءعليه‌السلام كى شفاعت قبول ہونے كے شرائط ۹

____________________

۱) تفسير عياشى ، ج ۲ ، ص ۱۵۲، ح ۴۵ ، تفسير برہان ج ۲ ، ص ۲۲۹، ح ۱۱_

۲۲۴

خدا:اوامر الہى كا حتمى ہونا ۴; خداوند متعال كى ربوبيت كى نشانياں ۸

روايت :۱۱

شفاعت :حتمى چيزوں ميں شفاعت ۹

قوم لوط :قوم لوط سے شفاعت كا رد ہونا ۱،۲; قوم لوط كي

تاريخ ۳;قوم لوط كى شفاعت ۷;قوم لوط كے بارے ميں شفاعت كے رد ہونے كے دلائل ۶; قوم لوط كے عذاب كا حتمى ہونا ۳،۶،۷،۱۱;قوم لوط كے عذاب كا وقت ۱۰

مفسدين :مفسدين كے عذاب كا سبب ۸

ملائكہ :ملائكہ اور ابراہيمعليه‌السلام ۲;ملائكہ كى تمنائيں ۲

آیت ۷۷

( وَلَمَّا جَاءتْ رُسُلُنَا لُوطاً سِيءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعاً وَقَالَ هَـذَا يَوْمٌ عَصِيبٌ )

اور جب ہمارے فرستادے لوط كے پاس پہنچنے تو وہ ان كے خيال سے رنجيدہ ہوئے اور تنگ دل ہوگئے اور كہا كہ يہ بڑا سخت دن ہے (۷۷)

۱_ فرشتے، حضرت ابراہيمعليه‌السلام سے گفتگو كرنے كے بعد قوم لوط كے ديار ميں پہنچ گئے اور حضرت لوط(ع) كے پاس تشريف لائے_و لما جاء ت رسلنا لوط

۲_ فرشتے، انسانوں كى شكل و صورت ميں حضرت لوطعليه‌السلام كے ہاں حاضر ہوئے_و لما جاء ت رسلنا لوطاً سيء بهم

۳_ حضرت لوط(ع) ، اپنے مہمانوں كيحقيقت( انكے فرشتے ہونے )سے بے خبر اور ان كى ذمہ دارى سے ناآگاہ تھے_

و لمَّا جاء ت رسلنا لوطاً سيء بهم و قال هذا يوم عصيب

۲۲۵

۴_ حضرت لوطعليه‌السلام ، نے فرشتوں كے آنے سے حالات كو اپنے ليے پريشان كن ديكھااور غم و پريشانى نے انہيں گھير ليا _

و لما جاء ت رسلنا لوطاً سيء بهم و ضاق بهم ذرعا

(ذرعاً) ہاتھ كى كہنيوں كے كھينچنےكے معنى ميں آتا ہے يہ تميز واقع ہوا ہے جو فاعل سے مبدل ہے لہذا (ضاق بہم ذرعاً) كا معنى يوں ہوگا ( ضاق ذرعہ) اس كے ہاتھ كى كہنياں ان پر تنگ ہوگئيں _كسى كى طرف كہينوں كا تنگ ہونا يہ ضرب المثل ہے اس كے ليے كہ جو كام كو انجام دينے پر قدرت نہ ركھتااور اس تك كى دسترسى نہ ہو (سيئ) ساء سے كافعل مجہول ہے (اسكو ناراحت كيا) كے معنى ميں ہے _اور ''بہم'' ميں ''باء'' سببيت كيلئے ہے لہذا''سي بہم '' كا معنى يہ ہو گا ان كا آنا حضرت لوطعليه‌السلام كے ليے ناراحتى كا سبب بنا_

۵_ حضرت لوطعليه‌السلام ، اپنے آپكو مہمانوں كى حفاظت كا ذمہ دار سمجھتے تھے_و لما جاء ت رسلنا قال هذا يوم عصيب

۶_ حضرت لوطعليه‌السلام نے فرشتوں كے آنے والے دن كو سخت اور مشكل و دشوار حالات والا دن قرار ديا _

و قال هذا يوم عصيب

''عصيب'' دشوارى اور سختى كے معنى ميں ہے اور اسكى اصل (عَصب) ہے جو باندھنے كے معنى ميں آتا ہے ''اسى وجہ سے اس سخت دن كو گويا (يوم عصيب)'' كہتے ہيں كہ اس دن ايك دوسرے كا شرّ اور دشوارى ايك دوسرے سے لپٹى ہوئي ہے_(مجمع البيان سے يہ مطلب اخذ كيا گيا ہے)_

۷_عن ابى جعف(ع) ر : و كان لوط ابن خالة ابراهيم و كانت امراة ابراهيم ساره اخت لوط و كان لوط و ابراهيم نبيين مرسلين منذرين و كان لوط رجلاً سخياً كريماً يقرى الضيف إذا نزل به و يخّذّرهم قومه (۱)

امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ حضرت لوط(ع) حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى خالہ كے بيٹے تھے اور سارہ جو حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى بيوى تھى وہ لوط(ع) كى بہن تھيں حضرت لوط(ع) اور ابراہيمعليه‌السلام دونوں نبى مرسل اور ڈرانے والے تھے_ حضرت لوطعليه‌السلام سخى و كريم انسان تھے جو مہمان ان كے پاس آتے تھے وہ ان كى خدمتگزارى كرتے تھے اور اپنى قوم كے شر سے انہيں محفوظ ركھتے تھے_

۸_عن ا بى جعفر عليه‌السلام عن رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قال جبرئيل :ان قوم لوط كانوا اهل قرية لا يتنظفون من الغائط و لا يتطهرون من الجنابة بخلاء اشحّاء على الطعام و ان لوطاً لبث فيهم ثلاثين سنة و انّما كان

____________________

۱) علل الشرائع ص ۵۴۹ ; ح ۴ ، ب ۳۴۰_ نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۳۸۲، ح ۶۵_

۲۲۶

نازلاً عليهم و لم يكن منهم (۱) امام باقرعليه‌السلام ، رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روايت نقل كرتے ہوئے فرماتے ہيں كہ قوم لوط ديہاتيعلاقے كے رہنے والے تھے جو خود كوپا خانہ سے پاك نہيں ركھتے تھے اور جنابت كے ليے غسل بھى نہيں كرتے تھے_ بخيل اور پر خور اشخاص تھے _حضرت لوطعليه‌السلام نے تيس ۳۰ سال ان كے ساتھ زندگى بسر كى اور وہ باہر سے ان كے پاس آئے تھے ان كى قوم ميں سے نہيں تھے

۹_عن ابى عبداللّه عليه‌السلام قال : ان اللّه تعالى بعث اربعة ا ملاك فى اهلاك قوم لوط فأتوا لوطاً و هو فى زراعة له قرب المدينه ...(۲)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ خداوند متعال نے قوم لوط كو ہلاك كرنے كے ليے چار فرشتوں كو بھيجا پس وہ حضرت لوطعليه‌السلام كے پاس گئے جبكہ وہ اس وقت اپنے كھيت ميں تھے جو شہر كے قريب تھا

ابراہيمعليه‌السلام :حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا قصہ ۱

روايت :۷،۸،۹

قوم لوط :قوم لوط پر عذاب ۹; قوم لوط كابخل ۸: قوم لوط كى پستى ۸; قوم لوط كے رذائل ۸

لوطعليه‌السلام :حضرت لوطعليه‌السلام اور ملائكہ ۳،۴; حضرت لوط(ع) كا سمجھنا ۶; حضر ت لوط(ع) كا غم و غصہ ۴; حضرت لوطعليه‌السلام كا قصہ ۱،۲، ۳،۴،۶،۹;حضرت لوطعليه‌السلام كى پريشانى ۴;حضرت لوطعليه‌السلام كى ذمہ دارى ۵;حضرت لوطعليه‌السلام كى سخاوت ۷; حضرت لوطعليه‌السلام كى مہمان نوازى ۵،۷; حضرت لوطعليه‌السلام كے سخت دن ۶; حضرت لوطعليه‌السلام كے علم كا محدود ہونا ۳; حضرت لوطعليه‌السلام كے فضائل ۷;حضرت لوطعليه‌السلام كے ليے مہمانوں كى ذمہ دارى ۳

ملائكہ :ملائكہ اور حضرت ابراہيمعليه‌السلام ۱; ملائكہ اور حضرت لوط(ع) ۱،۲;ملائكہ كا جسم ركھنا ۲; ملائكہ ، قوم لوط(ع) كى سرزمين پر ۱; ملائكہ عذاب ۹

مہمان :مہمانوں كا دفاع كرنے كى اہميت ۵

____________________

۱)علل الشرايع،ص۰۵۵ ح۵، ب ۳۴۰;نورالثقلين ج۲،ص ۳۸۴ح ۱۶۶_

۲) كافى ، ج ۸، ص ۳۲۸، ح ۵۰۵_ نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۳۷۸ ، ح ۱۵۶_

۲۲۷

آیت ۷۸

( وَجَاءهُ قَوْمُهُ يُهْرَعُونَ إِلَيْهِ وَمِن قَبْلُ كَانُواْ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ قَالَ يَا قَوْمِ هَـؤُلاء بَنَاتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ فَاتَّقُواْ اللّهَ وَلاَ تُخْزُونِ فِي ضَيْفِي أَلَيْسَ مِنكُمْ رَجُلٌ رَّشِيدٌ )

اور ان كى قوم دوڑتى ہوئي آگئي اور اس كے پہلے بھى يہ لوگ ايسے برے كام كررہے تھے _ لوط نے كہا كہ ا ے قوم يہ ہمارى لڑكياں تمھارے لئے زيادہ پاكيزہ ہيں خدا سے ڈرد اور مہمانوں كے بارے ميں مجھے شرمندہ نہ كرو كيا تم ميں كوئي سمجھدار آدمى نہيں ہے (۷۸)

۱_ قوم لوط كے ايك گروہ نے حضرت لوطعليه‌السلام كے مہمانوں (فرشتوں ) پر تجاوز كرنے كے ليے جلدى سے ان كے گھر كو گھير ليا_و جائه قومه يهرعون اليه

اگر چہ حضرت لوطعليه‌السلام پردھا و ابولنے والوں كى نسبت پورى قوم كى طر ف دى گئي ہے ( وجاء قومہ) ليكن چند قرائن كى بناء پر قوم كے بعض لوگ مراد ہيں _ جملہ (هولاء بناتى ...) ان قرائن ميں سے ايك ہے _ كيونكہ حقيقت اور شريعت ميں يہ ممكن نہيں تھا كہ حضرت لوطعليه‌السلام كى لڑكياں تمام قوم يا اكثر افراد قوم كى بيوياں بن سكيں _قابل ذكر بات يہ ہے كہ بعض افراد كو قوم كى طرف نسبت دينے ك

مطلب يہ تھا كہ اگر تمام قوم لوط ا س بات پر مطلع ہوگئي ہوتيكہ مہمان حضرت لوط(ع) كے ہاں آئے ہيں اورانكے ليئے ممكن بھى ہوتا تو وہ بھى ہجوم كرنے والوں كى طرح عمل كرتے_

۲_ قوم لوط ،فسادى لوگ اور لواط جيسے برے عمل ( ہم جنس بازى )ميں مبتلائتھے_و من قبل كانوا يعملون السيئات

مقام كى مناسبت سے( السيئات ) كے لفظ كا بارذ مصداق لواط اور ہم جنس بازى ہے_

۳_ قو م لوط(ع) ، لواط كے علاوہ دوسرے بہت سے گناہوں سے آلودہ تھے_

۲۲۸

و من قبل كانوا يعملون السيئات

مذكورہ بالا معنى اس صورت ميں ہے كہ جب (السيئات )پر الف لام جنس كا ہو جمع كے صيغہ پر الف ولام جنس كا داخل ہوتو وہ عموم كا معنى ديتا ہے اور بعض اوقات كثرت پر دلالت كرتا ہے_

۴_ لواط اور ہم جنس بازي، گناہ كبيرہ اور بہت سے گناہوں كے قائم مقام ہے_و قبل كانوا يعملون السيئات

مذكورہ بالا تفسير اس صورت ميں ہے جب ہم (السيئات ) كے الف لام كو عہد ذكرى فرض كريں اس صورت ميں (السيئات) سے مراد لواط كاعمل اور (سيئات) كا ايك گناہ پر جمع كى صورت ميں اطلاق، مذكورہ مطلب كى طرف اشارہ ہے_

۵_ قوم لوط كا فساد ميں سابقہ اور لواط كے برے عمل كى عادت نے انہيں حضرت لوط(ع) كے گھر كى جانب ان كے مہانوں پر تجاوز كى خاطر دھكيل ديا _و جاء ه قومه يهرعون اليه و من قبل كانوا يعملون السيئات

(و من قبل كانوا ...) كا جملہ جو كہ قوم لوط(ع) كے درميان بدكارى كے رواج اور فساد ميں سابقہ ركھنے كو بتاتا ہے (يہرعون) كے فاعل كے محذوف ہونے كو بتاتا ہے _ يعنى قوم لوط كا لوط(ع) كے گھر پر ہجوم كرنےكا سبب اسكا برائي ميں سابقہ اور بد كارى كى عادت تھا_

۶_ حضرت لوط،عليه‌السلام متعدد لڑكياں ركھتے تھے جو سن ازدواج پر پہنچى ہوئي تھيں _هولا بناتى هنّ اطهرلكم

۷_ حضرت لوطعليه‌السلام كا حملہ كرنے والوں كو اپنى لڑكيوں سے شادى كى دعوت دينے كا مقصد يہ تھا كہ وہ اس لواط كے برے عمل اور ان كے مہمانوں سے جھگڑنے سے رك جائيں _يا قوم هولاء بناتى هن اطهر لكم

۸_ شہوت جنسى كو مٹانے كے ليے پليدگى سے پاك اور تنہاصحيح طريقہ، جنس مخالف سے ازدواج كرنا ہے_

هولاء بناتى هنّ اطهر لكم

(اطہر ) كا لفظ افعل تفضيل ہے اور اسميں برترى كا معنى نہيں پايا جاتا بلكہ طاہر و پاك كے معنى ميں آيا ہے اس طرح كا استعمال كہ اسم فاعل كى جگہ پر افعل تفضيل كا استعمال كرنا يہ تاكيد اور مبالغہ كے ليے ہوتا ہے_

۹_ لواط اور ہم جنسى بازى كا عمل،جنسى شہوت كو مٹانے كے ليے ناپاك اور بيہودہ طريقہ ہے _

هوء لاء بناتى هن اطهرلكم

۱۰_شادى كرنا اور زوجہ اپنا نا، جنسى فسادات سے روكنے كا طريقہ ہے_هوء لاء بناتى هنّ اطهر لكم

۱۱_ حضرت لوطعليه‌السلام كى شريعت ميں كافر لوگوں كا مؤمن عورتوں سے ازدواج كا جائز ہونا _

۲۲۹

هولاء بناتى هن اطهر لكم

جملہ ( فأسر با ہلك الا امرا تك ) اس بات كى حكايت كرتا ہے كہ حضرت لوطعليه‌السلام كى لڑكياں ان پر ايمان ركھتى تھيں _

۱۲_ حضرت لوط(ع) نے حملہ آوروں كے عواطف جنسى كو متحرّك كرنے اور ان پر شفقت كے اظہاركے ذريعہ انہيں اپنے مہمانوں سے متعرّض ہونے سے روكا_قال يا قوم فاتقوا اللّه و لا تخزون فى ضيفى ا ليس منكم رجل رشيد

۱۳_ حضرت لوطعليه‌السلام كا اپنى قوم سے مہربانيسے پيش آنا حتى اس وقت جب ان كى طرف سے وہ بہت سختى اور اذيت ميں تھے_قال هذا يوم عصيب قال يا قوم هولاء بناتي

حضرت لوطعليه‌السلام كا يہ كہنا (يا قوم) اے ميرى قوم اور انہيں اپنى لڑكيوں سے شادى كى دعوت دينا، قوم پر ان كے لطف اور مہربانى كو ظاہر كرتا ہے _ يہ اس وقت ہوا جس وقت كو حضرت لوطعليه‌السلام نے بہت دشوار اور سخت وقت سے ياد كيا ہے_

۱۴_ حضرت لوطعليه‌السلام نے حملہ آوروں سے يہ تقاضا كيا كہ وہ خدا سے خوف كريں اور ان كے مہمانوں پر حملہ نہ كريں _

فاتقوا اللّه

۱۵_ ازدواج اور زوجہ كے انتخاب كے علاوہ دوسرے راستے سے جنسى شہوت كو پورا كرنا، تقوى اور خوف خدا كے خلاف ہے_فاتقوا الله

۱۶_ جنسى فساد، خدا كے عذاب كا موجب بنتا ہے _هؤلاء بناتى هن اطهرلكم فاتقوا اللّه

۱۷_ حضرت لوط(ع) نے فسادى حملہ آوروں سے كہاكہ ميرے مہمانوں سے متعرض نہ ہوں اور ان كے سامنے انہيں رسوااور خوار نہ كريں _و لا تخزون فى ضيفي/ اخزاء (لا تخزون) كا مصدر ہے جو خوار اور رسوا كرنے كے معنى ميں آتا ہے

۱۸_ لوگوں كے درميان كسى كو رسوا كرنا، تقوا اور خوف خدا كے خلاف ہے_فاتقوا اللّه و لا تخزون فى ضيفي

۱۹_ كسى كى عزت و آبرو كو گرانے سے پرہيز كرنا، لازمى ہے_و لا تخزون فى ضيفي

۲۰ _ قوم لوط(ع) ميں ايك شخص بھى سمجھدار اور خوف خدا ركھنے والا اور غيرت مندنہيں تھا_

فاتقوا اللّه و لا تخزون فى ضيفى اليس منكم رجل رشيد

(رشيد) كا معنى راستہ پانے والا ہے جملہ

۲۳۰

(اتقوا الله ) اور(لا تخزون فى ضيفي ) راستہ پانے والا خوف خدا، غيرت اور معيشت كا مصداق ہے_

۲۱_ ہم جنس بازى ، تقوى ، خدا ترسي، رشيداور سمجھدار ى كے مخالف ہے_فاتقوا اللّه ا ليس منكم رجل رشيد

۲۲_ مہمانوں كى محافظت كرنا اور حملہ آوروں سے ان كو بچانا ضرورى ہے_

يا قوم هؤلاء بناتى ا ليس منكم رجل رشيد

۲۳_عن ا بى عبداللّه عليه‌السلام قال : ان اللّه تعالى بعث اربعة ا ملاك فى اهلاك قوم لوط فأتوا لوطاً فسلّموا عليه فقال لهم : المنزل ؟ فقالوا: نعم ثم مشى فلما بلغ باب المدينه دخل و دخلوا معه حتى دخل منزله فلما را تهم امراته صعدت فوق السطح و صفقت فلم يسمعوا فدخنت فلما را وا الدخان ا قبلوا الى الباب يهرعون (۱)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ خداوند متعال نے قوم لوط كو ہلاك كرنے كے ليے چار فرشتوں كو بھيجا ...وہ حضرت لوطعليه‌السلام كے پاس آئے اور انہيں اس پر سلام كيا ..._ حضرت لوطعليه‌السلام نے ان كو گھر ميں آنے كى دعوت دى وہ راضى ہوگئے ، اور وہ چلے يہاں تك كہ شہر كے دورازے تك پہنچ گئے ..._ وہ فرشتوں كے ساتھ شہر ميں داخل ہوئے يہاں تك كہ وہ گھر پہنچ گئے _ جب لوطعليه‌السلام كى بيوى نے ان كو ديكھا ...تو چھت پر چڑھ گئي اور تالى بجائي ، ليكن قوم لوط متوجہ نہ ہوئي ، پھر اس نے دھواں اڑايا جب قوم نے دھويں كو ديكھا تو جلدى سے حضرت لوطعليه‌السلام كے گھر كى طرف دوڑے ..._

۲۴_عن ا بى جعفر عليه‌السلام ان قرية قوم لوط كانت على طريق السيّارة الى الشام و مصر فكانت السيّارة تنزل بهم فيضيّفونهم فدعا هم البخل الى ان كانوا اذا نزل بهم الضيف فضحوه ...وانّما كانوا يفعلون ذلك بالضيف حتى ينكل النازل عنهم فأورثم البخل بلاء لا يستطيعون دفعه عن ا نفسهم حتى صاروا يطلبونه من الرجال فى البلاد و يعطونهم عليه الجعل (۲)

امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ قوم لوط كى آبادى ان مسافروں كے راستے ميں تھى جہاں سے مسافر شام و مصر جاتے تھے _ كارواں اس قوم كے پاس آتے اور ان كے مہمان بنتے تھے _ ان كا بخل اس حد تك پہنچ گيا تھا كہ جب كوئي مہمان ان كے پاس آتا ( تو اپنے اس برے كام كى وجہ سے) اسے رسوا كركے چھوڑتے تھے اس كام كو اس وجہ سے

انجام ديتے تھے تا كہ مہمان ان كے پاس نہ آئيں

____________________

۱) كافى ، ج ۵، ص ۵۴۷، ح ۶ _ نورالثقلين ، ج ۲ ، ص ۳۷۹، ح ۱۵۶ _

۲)علل الشرائع ، ص ۵۴۸، ح ۴ ، ب ۳۴۰_ نور الثقلين ، ج ۲ص ۳۸۲ ، ح ۱۶۵_

۲۳۱

اور واپس لوٹ جائيں پس ان كا بخل سبب بنا كہ وہ جس بلاء و مصيبت ميں گرفتار ہوگے(مرض ابنہ ) اس بيمارى كو اپنے سے دور كرنے كى قدرت نہيں ركھتے تھے يہاں تك كہ دوسرے شہروں كے لوگوں سے اگريہ چاہتے كہ ہمارے ساتھ يہ برا فعل انجام دو تو ان كو اجرت دينا پڑتى تھى _

۲۵_عن ابى عبداللّه(ع) فى قول لوط'' هؤلاء بناتى هن اطهرلكم'' قال عرض عليهم التزويج (۱)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے حضرت لوط(ع) كے اس قول (كہ ميرى بيٹياں تمہارے ليے پاكيزہ تر ہيں ) كے بارے ميں روايت ہے كہ آپ نے فرمايا: حضرت لوط(ع) نے انہيں ازدواج كرنے كى پيشكش كى تھي_

آبرو :حفظ آبرو كى اہميت ۱۹; ہتك آبرو سے اجتناب ۱۹

ازدواج :ازدواج كى اہميت ۱۵;ازدواج كے آثار ۸،۱۰; كافر سے ازدواج ۱۱

انحراف جنسى :انحراف جنسى كو روكنے كا طريقہ ۱۰; انحراف جنسى كى سزا ۱۶;انحراف جنسى كے آثار ۱۵

تقوا :تقوى اختيار كرنے كى دعوت ۱۴; تقوى نہ ہونے كى نشانياں ۲۱;تقوى نہ ہونے كے موارد ۱۵، ۱۸

خدا :خدا كى سزائيں ۱۶

رشد :رشد كرنے كے موانع ۲۱

روايت :۲۳، ۲۴، ۲۵

عذاب :عذاب كے اسباب ۱۶

غريزہ جنسى :غريزہ جنسيكى تسكين كا طريقہ ۸،۱۵

قوم لوطعليه‌السلام :قوم لوط(ع) اور حضرت لوطعليه‌السلام كے مہمان ۱،۵; قوم لوط(ع) اور مہمان ۲۴;قوم لوط(ع) كا بخل ۲۴;قوم لوط(ع) كا حملہ ۱;قوم لوط(ع) كى اذتيں ۱۳; قوم لوط(ع) كى برائي كرنا ۲;قوم لوط(ع) كى بے عقلى ۲۰ ; قوم لوط(ع) كى بے غيرتى ۲۰ ; قوم لوط(ع) كى تاريخ ۱،۲،۳،۵،۲۴; قوم لوط(ع) كى خصوصيات ۲۰ ; قوم لوط(ع) كى ہم جنس بازى ۲;قوم لوط(ع) كے رذائل ۲۴;قوم لوط(ع) كے فاسد ہونے كے آثار ۵; قوم لوط(ع) كے گناہ ۳; قوم لوط(ع) ميں تقوى كا نہ ہونا ۲۰ ; قوم لوط(ع) ميں لواط(ع) ۲،۳، ۲۴;قوم لوط(ع) ميں لواط(ع) كے آثار ۵

____________________

۱) كافى ، ج ۵ ص ۵۴۸، ح ۷ _ نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۳۷۹ ، ح ۱۵۷_

۲۳۲

گناہ كبيرہ :۴لواط :لواط كا گناہ ۴; لواط كى پليدى ۹

لوطعليه‌السلام :لوطعليه‌السلام اور خوارى ۱۷; لوطعليه‌السلام اور قوم لوط ۱۲، ۱۴، ۱۷، ۲۵ ; لوطعليه‌السلام اور مہمان نوازى ۱۴۷، ۱۷; لوطعليه‌السلام كا قصہ ۷، ۱۲، ۱۳، ۱۴، ۲۳، ۲۵;لوطعليه‌السلام كا منع كرنا ۷; لوط(ع) كو اذيت۱۳; لوطعليه‌السلام كى بيٹيوں سے شادى ۷ ، ۲۵; لوطعليه‌السلام كى پيشكش ۲۵;۱۳; لوطعليه‌السلام كى خواہشات ۷، ۱۷; لوطعليه‌السلام كى دعوتيں ۱۴; لوطعليه‌السلام كى لڑكيوں كا بالغ ہونا ۶; لوطعليه‌السلام كى متعدد بيٹياں ۶;لوطعليه‌السلام كى مہربانى ۱۲، ۱۳ ; لوطعليه‌السلام كى ہمسر كى جاسوسى ۲۳;لوطعليه‌السلام كے دين ميں ازدواج ۱۱;لوط(ع) كے ملنے كا طريقہ ۱۲،۱۳; لوط(ع) كے مہمان ۲

لوگ:لوگوں كى آبروريزى ۱۸

ملائكہ :ملائكہ عذاب اور لوطعليه‌السلام ۲۳

مہمان :مہمان سے دفاع ۷، ۱۲، ۱۴;مہمان سے دفاع كى اہميت ۲۲

ہم جنس بازى :ہم جنس بازى كا گناہ ۴; ہم جنس بازى كى پليدى ۹;ہم جنس بازى كے آثار ۲۱

آیت ۷۹

( قَالُواْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا لَنَا فِي بَنَاتِكَ مِنْ حَقٍّ وَإِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نُرِيدُ )

ان لوگوں نے كہا كہ آپ جانتے ہيں كہ ہميں آپ كى لڑكيوں ميں كوئي دلچسپى نہيں ہے اور آپ كو معلوم ہے كہ ہم كيا چاہتے ہيں (۷۹)

۱_ قوم لوط كے مفسدين نے ان كى پيشكش ( كہ ميرى لڑكيوں سے شادى كرلو اور مہمانوں سے تجاوز نہ كرو) كو قبول نہيں كيا _هؤلاء بناتى هنّ ا طهر لكم قالوا لقد علمت ما لنا فى بناتك من حق

۲_ ازدواج ترك كرنا ، غريزہ جنسى كو لواط كے طريقے سے پورا كرنا ، قوم لوط كے درميان ايك سنت اور معاشرتى اخلاق كے طور پر رائج ہوگيا تھا_قالوا لقد علمت ما لنا فى بناتك من حق و ء انك لتعلم ما نريد

۲۳۳

جب قوم لوط نے حضرت لوط(ع) كى لڑكيوں سے شادى كرنے كو اپنے خيال ميں بے جا سمجھا تو اس سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ عورتوں سے شادى كرنے كو ممنوع خيال كرتے تھے يا يہ كہ ان كا جنسى اخلاق اس حد تك ، طبيعى راستہ سے خارج ہو چكا تھا كہ جنس مخالف كى طرف ان كا ميلان ختم ہوچكا تھا_

۳_ قوم لوط كا لواط اور ہم جنس بازى كى طرف ميلان اورعورتوں كى طرف شوق نہ ركھناسبب بناكہ انہوں نے حضرت لوطعليه‌السلام كى پيشكش ( ان كى لڑكيوں سے شادى كرلو اور ان كے مہمانوں كے ساتھ تجاوز نہ كرو) كو ٹھكرا ديا _

قالوا لقد علمت ما لنا فى بناتك من حق و انك لتعلم ما نريد

۴_ حضرت لوطعليه‌السلام متعدد بيٹياں ركھتے تھے _ما لنا فى بناتك من حق

۵_ حضرت لوطعليه‌السلام اپنى قوم ميں اس بداخلاق اور برى عادت ہم جنس بازى كے راسخ ہونے سے آگاہ تھے_

و انك لتعلم ما نريد

قوم لوط(ع) :قوم لوط(ع) اور مہمان لوطعليه‌السلام ۱،۳;قوم لوط(ع) كا جھكاؤ ۳; قوم لوط(ع) كى رسومات ۲،۵;قوم لوط(ع) كى ہم جنس بازى ۲، ۳، ۵; قوم لوط(ع) ميں ازدواج ۲; قوم لوط(ع) ميں لواط(ع) ۲،۳

لوطعليه‌السلام :لوطعليه‌السلام كا قصہ ۱، ۳;لوطعليه‌السلام كى آگاہى ۵; لوطعليه‌السلام كى بيٹيوں سے ازدواج كو ردّ كرنا ۳; لوطعليه‌السلام كى پيشكش كو ردّ كرنا ۱، ۳; لوطعليه‌السلام كى متعدد بيٹياں ۴

آیت ۸۰

( قَالَ لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ )

لوط نے كہا كاش ميرے پاس قوت ہوتى يا ميں كسى مضبوط قلعہ ميں پناہ لے سكتا (۸۰)

۱_حضرت لوطعليه‌السلام نے اپنے آپ كو فسادى حملہ آوروں كے درميان ناتوان اور بے يار مدد گار خيال كيا _

قال لو ا ن لى بكم قوّة ا و ء اوى الى ركن شديد

۲_ حضرت لوطعليه‌السلام كى يہ آرزو تھى كہ ان ظالموں كے مقابلے ميں وہ قدرت ركھتے اور اپنے مہمانوں كو بچا سكتے _

۲۳۴

قال لو اُن لى بكم قوة

''لو'' كا لفظ آيت ميں حرف تمنا اور ليت كے معنى ميں ہے يعنى ( اے كاش)

۳_ حضرت لوطعليه‌السلام كى يہ آرزو كہ ايك مطمئنپناہ گاہ ہوتيجسميں اپنے مہمانوں كو پناہ ديتے اور ان ظالموں كے تجاوز سے انہيں بچاتے_قال لو أو ء اوى الى ركن شديد

۴_ مہمانوں كو ظالموں كے تجاوز سے بچانے كى ضرورت _لو ان لى بكم قوة

۵_ مفسدين اور ظالموں كے ساتھ مقابلہ كى ضرورت _لوان لى بكم قوة

۶_ ظلم اور ظالموں كے خلاف مقابلہ كرنے كى قدرت ركھنے كى آرزو كرنا، ايك مناسب اور پسنديدہ عمل ہے_

لو ان لى بكم قوة او ء اوى الى ركن شديد

آرزو :پسنديدہ آرزويں ۶; قدرت كى آرزو ۲، ۶; مقابلہ كرنے كے امكانات كى آرزو ۶

فساد :فساد سے مقابلہ ۶

قوم لوط :قوم لوط سے مقابلہ ۲

لوطعليه‌السلام :لوطعليه‌السلام كابے يار و مدد گار ہونا ۱; لوطعليه‌السلام كا قصہ ۱، ۲، ۳;لوطعليه‌السلام كى آرزو ۲،۳; لوطعليه‌السلام كى مہمان نوازى ۲، ۳ ; لوطعليه‌السلام كى پناہگاہ كى تلاش ۳

مفسدين :مفسدين سے مقابلہ ۲، ۶;مفسدين سے مقابلہ كى اہميت ۵

مہمان :مہمان كے دفاع كى اہميت ۴

۲۳۵

آیت ۸۱

( قَالُواْ يَا لُوطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَن يَصِلُواْ إِلَيْكَ فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّيْلِ وَلاَ يَلْتَفِتْ مِنكُمْ أَحَدٌ إِلاَّ امْرَأَتَكَ إِنَّهُ مُصِيبُهَا مَا أَصَابَهُمْ إِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ )

تو فرشتوں نے كہا كہ ہم آپ كے پروردگار كے نمائندے ہيں يہ ظالم آپ تك ہر گز نہيں پہنچ سكتے ہيں _ آپ اپنے گھر والوں كو لے رات كے كسى حصے ميں چلے جايئےور كوئي شخص كسى كى طرف مڑكربھى نہ ديكھے سوائے آپ كى زوجہ كے كہ اس تك وہى عذاب آنے والا ہے جو قوم تك آنے والا ہے ان كا وقت مقرر ہنگام صبح ہے اور كيا صبح قريب نہيں ہے (۸۱)

۱_ حضرت لوطعليه‌السلام كے مہمانوں نے حملہ آوروں كے مقابلے ميں ان كى بے كسى ديكھ كر اپنى حقيقت (فرشتہ ہونا) كو حضرت لوطعليه‌السلام كے ليے ظاہر كرديا _قال لو ان لى بكم قوّة قالوا یا لوط انا رسل ربك

۲_ حضرت لوط(ع) كے پاس جو فرشتے مہمان بن كر آئے تھے وہ ان كے ليے خداوند متعال سے پيغام لائے تھے_

قالو يا لوط انا رسل ربك

مذكورہ بالا معنى اس سے حاصل ہوتا ہے كہ فرشتوں نے اپنے آپ كو خدا كى طرف سے پيغام لانے والا (رسل ربك ) بتايا _

۳_ فرشتوں نے عذاب آنے كے وقت اور قوم لوط(ع) كى سزاسے حضرت لوط كو آگاہ كيا_

انا رسل ربك لن يصلوا اليك فأسر اليس الصبح بقريب

۴_ خداوند متعال، كفر اختيار كرنے والى اقوام كے عذاب كى اطلاع اس قوم كے پيغمبر كو ديتا ہے_

انا ارسلنا الى قوم لوط و لما جاء ت رسلنا لوطاً قالوا يا لوط انا رسل ربك

۵_ پيغمبروں كے علم و آگاہى كا محدود ہونا _قالوا يا لوط انا رسل ربك

۶_ حضرت لوط(ع) ، خداوند متعال كے تحت تربيت اور ان كى حمايت كے حامل تھے _انا رسل ربلك

مذكورہ معنى لفظ ( ربّك ) (تيرا مربّى و مدّبر) سےحاصل ہوتا ہے_

۷_ لوط(ع) اپنے مہمانوں (جو گھر ميں فرشتے تھے) كا دفاع كرنے اور ان حملہ آور ظالموں سے لڑنے كے ليے تيار تھے_

لن يصلوا اليك

۲۳۶

مذكورہ آيات سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ حملہ آور ، فرشتوں پر تجاوز كرنے كا ارادہ ركھتے تھے _ اسى وجہ سے ظاہراً فرشتے كہہ رہے تھے ( لن يصلوا الينا) وہ ہم تك نہيں پہنچ پائيں گے _ يہ بات دو مطلب كى طرف اشارہ كرتى ہے _ مہمان پر تجاوز، ميزبان پر تجاوز كے برابر ہے_۲ حضرت لوطعليه‌السلام جتنى قدرت ركھتے تھے حملہ آوروں كامقابلہ كرنے كيلئے تيار تھے_

۸_ عذاب پر مامورفرشتوں نے حضرت لوطعليه‌السلام كو اطمينان دلوايا كہ حملہ آور، ان كا كچھ نہيں بگاڑ سكتے اور انہيں كوئي نقصان نہيں پہنچ سكتا_قالوا يا لوط انا رسل ربك لن يصلو ا اليك

۹ _ انسان، فرشتوں كو كوئي نقصان نہيں پہچا سكتے اگر چہ وہ انسانوں كى شكل ميں كيوں نہ ہوں _

يا لوط انا رسل ربك لن يصلوا اليك

۱۰_ فرشتوں نے ظالموں كى حضرت لوطعليه‌السلام كے گھر تك رسائي كو روك ديا _انا رسل ربك لن يصلوا اليك فأسر بأهلك

۱۱_ فرشتوں نے حضرت لوطعليه‌السلام سے چاہا كہ اپنے گھر والوں كو رات كے وقت اپنى قوم كے علاقے سے لے جائيں _

فأسر بأهلك بقطع من الليل

''اسراء'' ''ا سر'' كا مصدر ہے جسكا معنى رات كو كوچ كرناہے _ (بأہلك) ميں ''باء متعدى '' كے ليے ہے اور (الليل ) ميں ''الف لام '' حضورى ہے پس (فأسر ) كے جملے كا معنى يوں ہوگا:(اے لوطعليه‌السلام ) اپنے گھر والوں كو اس رات كے كسى حصے ميں كوچ كراديں _

۱۲_ قوم لوط ميں صرف ان كے اہل خانہ ايمان لائے تھے اوروہ ان كى قوم كے ظلم و گناہوں سے پاك تھے _

كانوا يعملون السيئات فأسر بأهلك بقطع من الليل الاّ امرا تك

۱۳_ حضرت لوط(ع) اور ان كے گھر والوں كى نجات اسميں تھى كہ وہ ديار قوم لوط سے نكل جائيں _

فأسر بأهلك بقطع من الليل

۱۴_ حضرت لوطعليه‌السلام كو اس بات كا پابند كيا گيا تھا كہ عذاب كے نازل ہونے سے پہلے مخفى طوراپنى قوم كو بتلائے

بغير ان كى سرزمين سے نكل جائيں _فأسر بأهلك بقطع من الليل

فرشتوں كا يہ اصرار كہ حضرت لوطعليه‌السلام رات كو يہاں سے كوچ كريں مذكورہ بالا تفسير كى تائيد كرتا ہے او ر قابل ذكر ہے كہ يہ احتمال اس وقت ديا جاسكتا ہے جب فرشتوں كا حضرت لوطعليه‌السلام كو يہ كہنا ( فأسر ) عذاب نازل ہونے والى رات كونہ ہوبلكہ ايك دن پہلے ان كو بتايا گيا ہو_

۲۳۷

۱۵_ فرشتوں نے حضرت لوطعليه‌السلام اور ان كے اہل خانہ سے يہ چاہا كہ اپنے ديار سے نكلتے وقت نہ ركيں اور پھر اپنے گھر واپس بھى نہ لوٹيں _و لايلتفت منكم احد

۱۶_ فرشتوں نے حضرت لوطعليه‌السلام كو تاكيد كى كہ اپنى زوجہ كو عذاب سے بچانے كے ليے ساتھ نہ لے جائيں _

فأسر بأهلك بقطع من الليل الاّ امرا تك

مذكورہ معنى اسوقت ليا جاسكتا ہے كہ جب (امرا تك) ( اہلك ) سے استثناء ہو_

۱۷_ حضرت لوطعليه‌السلام كے گھر والوں ميں سے صرف انكى اہليہ نے رات كے وقت گھر سے كوچ نہيں كيااور ديار قوم لوط ميں واپس لوٹ آئي_و لا يلتفت منكم احد الاّ أمراتك

مذكورہ بالا معنياس احتمال كى بناء پر ہے جب( الا امراتك ) كا جملہ ( لا يلتفت ...) سے استثناء كيا گيا ہے_ پس جملہ ( لا يلتفت انہ مصيبہا ما اصابہم ) كا يہ معنى ہوگا كہ كوئي بھى تم ميں سے جانے سے نہيں ركنا چاہيے اورگھر واپس نہ لوٹے ليكن تمہارى اہليہ اسكى نافرمانى كرے گى اور واپس لوٹے گى كيونكہ اسے عذاب الہى ميں گرفتار ہونا ہے_

۱۸_ حضرت لوطعليه‌السلام كى زوجہ، كو ضرور قوم لوط(ع) كے مقدر شدہ عذاب ميں گرفتار ہونا تھا_

انه مصيبها ما اصابهم

(انہ) ميں ضمير ، ضمير شان ہے جو تاكيدسے حكايت ہے_

۱۹_ حضرت لوطعليه‌السلام كى زوجہ ان پر ايمان نہيں لائي اور قوم لوط كے گناہ ميں برابر كى شريك تھى _

فأسر فأهلك الّا أمراتك انه مصيبها ما اصابهم

(انه مصيبها ما اصابهم ) كا جملہ يہ بتاتا ہے كہ حضرت لوطعليه‌السلام كى بيوي، قوم لوط كى سزا ميں برابر كيشريك تھى يہ اس بات كو بتاتا ہے كہ اس كا گناہ بھى قوم لوط كے گناہ كى طرح تھا_گويا كہ وہ اس كے كاموں پر راضى تھى ياجيسا كہ بعض روايات ميں يہ بھى ذكر ہوا ہے كہ گناہ كرنے ميں وہ ان كى مدد كرتى تھي_

۲۰_انبياء كرام سے رشتہ داري، عذاب الہى سے نجات دينے ميں مؤثر نہيں ہے_الّا امراتك انه مصيبها ما ا صابهم

۲۱_ گنہگاروں كيلئے مقدر شدہ سزاؤں كو جارى كرنے ميں ان كے حسب و نسب كا لحاظ نہيں كرنا چاہيے_الاّ أمراتك انه مصيبها ما أصابهم

۲۲_ اديان الہى كى نگاہ ميں عورت ايك مستقل فكر و عقيدہ كى مالك اور اپنے اعمال كى خود ہى جوا ب وہ ہے_

فأسر فأهلك بقطع من الليل الّا امرا تك انه مصيبها ما أصابهم

۲۳۸

۲۳_ فرشتوں كا ديار قوم لوط ميں اول صبح كو آنا اس قوم پر نزول عذاب كا مقرر وقت تھا_ان موعدهم الصبح

''الصبح''ميں ''الف ولام'' مضاف اليہ كى جگہ پر ہے پس ( ان موعد ہم الصبح) كا معنى يوں ہوگا كہ آج رات كى سحر كو قوم لوط پر عذاب موعود كا وقت ہے_

۲۴_ فرشتوں نے حضرت لوطعليه‌السلام سے چاہا كہ اپنے جانے ميں دير نہ كريں كيونكہ عذاب الہى كا وقت قريب ہے_

فأسر بأهلك ان موعدهم الصبح اليس الصبح بقريب

جملہ ''ان موعد ہم الصبح ...'' جملہ''فاسر فاهلك '' كى علّت كے قائم مقام ہے_

۲۵ _ حضرت لوطعليه‌السلام نے فرشتوں سے چاہا كہ اسكى قوم كو عذاب دينے ميں جلدى كريں _

ان موعدهم الصبح ا ليس الصبح بقريب

( اليس ) ميں استفہام تقريرى ہے اور اس كا مقصد يہہے كہ مخاطب، مضمون جملہ كا اعتراف و اقرار كر رہا ہے كہ اس كے بعد وہ واقع ہو_ اور حضرت لوطعليه‌السلام سے يہ اقرار و اعتراف لينا كہ انكى قوم كا عذاب نزديك ہےيہ اس بات كى طرف اشارہ كرتاہے كہ وہ اپنى قوم پر عذاب ميں تعجيل كے خواہاں تھے_

۲۶_عن ا بى جعفر عليه‌السلام ... ''فلّما جاء آل لوط المرسلون قالوا: (فأسر بأهلك ) يا لوط اذا مضى لك من يومك هذا سبعة ايام و ليا ليها '' بقطع من الليل'' اذا مضى نصف الليل (۱)

امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے جب الله تعالى كے فرشتے خاندان لوطعليه‌السلام كے پاس آئے تو انہوں نے كہا اے لوط(ع) اس تاريخ سے سات رات و دن گذرنے كے بعد آدھى رات كو اپنے اہل خانہ كو اس سرزمين سے باہر لے جائيں ۲۷_عن ا بى جعفر عليه‌السلام ... ان اللّه تعالى لما ا راد عذابهم ( قوم لوط ) بعث اليهم ملائكة و قالوا للوط : ا سر بأهلك من هذا القرية الليلة فلَمّاانتصف الليل سار لوط ببناته (۲)

____________________

۱)علل اشرائع ، ص ۵۴۹، ح ۴ ، ب ۳۴۰ _ نور الثقلين ج ۲ ص ۳۸۳ ، ح ۱۶۵_

۲) علل اشرائع ، ص ۵۵۰، ح ۵ ، ب ۳۴۰_ نور الثقلين ، ج ۲ ص ۳۸۴ ، ح ۱۶۶_

۲۳۹

امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ الله تعالى نے جب قوم لوط پر عذاب نازل كرنے كا ارادہ فرماياتو فرشتوں كو ان كى طرف بھيجا انہوں نے حضرت لوطعليه‌السلام سے كہا كہ آج رات اس آبادى سے اپنے گھر والوں كو دور لے جا ئے جب آدھى رات ہوئي تو حضرت لوطعليه‌السلام اپنى بيٹيوں كو آبادى سے دور لے گئے

۲۸_عن ا بى بصير و غيره عن احدهما عليها السّلام لما قال جبرئيل : '' انا رسل ربك '' قال له لوط(ع) : نعم قال: يا جبرئيل عجّل ، قال : يا جبرئيل عجّل ، قال : ( ان موعدهم الصبح ا ليس الصبح بقريب'' فأدخل جناحه تحتها حتّى اذا استعلت قلّبها عليهم و رمى جدران المدينه بحجار من سجّيل و سمعت امرا ة لوط الهَدّة فهلكت منها (۱)

ابو بصير اور ان كے علاوہ دوسرے افراد امام باقرعليه‌السلام يا امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت كرتے ہيں كہ جب حضرت جبرئيل نے حضرت لوطعليه‌السلام سے كہا كہ ہم الله تعالى كے بھيجے ہوئے فرشتے ہيں _ توحضرت لوطعليه‌السلام نے كہا جلدى كرو جناب جبرئيل نے كہا ٹھيك ہے پھر حضرت لوطعليه‌السلام نے كہا جلدى كرو حضرت جبرئيل نے كہا ان كے عذاب كا وقت صبح ہے كيا صبح نزديك نہيں ہے؟ پھر اس ( جبرئيل ) نے اپنے پروں كو اس علاقہ كى زمين كے اندر داخل كيا پھر جب آبادى اوپر كى طرف گئي تو اس نے اوپر سے ان كو نيچے گراديا اور اس شہر كى ديواروں كو سجيل ( مٹى كے پتھروں ) سے سنگ بارى كى ، لوطعليه‌السلام كى زوجہ نے ديواروں كے گرنے كى سخت آواز كو سنا اور اسى آواز كے سبب ہلاك ہوگئي_

انبياء :انبياء اور كافروں كا عذاب ۴; انبياء كے ساتھ رشتہ دارى ۲۰; انبياءعليه‌السلام كے علم كا احاطہ ۵

انسان :انسان اور ملائكہ ۹; انسانوں كا عاجز ہونا ۹

الله تعالى :الله تعالى كى امداد ۶; الله تعالى كى ربوبيت ۶

پيغمبر الہى : ۲روايت : ۲۶، ۲۷، ۲۸سزا :سزا دينے ميں عدالت كرنا ۲۱

سزا كا قانون : ۲۱

عذاب :اہل عذاب ۱۸; سجيل كے ساتھ عذاب ۲۸; صبح كو عذاب ۲۳، ۲۸; عذاب سے نجات ۲۰;عذاب كا اظہار ۲۸

____________________

۱) علل اشرائع ، ص ۵۵۲، ح ۶، ب ۳۴۰; تفسير عياشى ج ۲ ص ۱۵۶، ح ۵۴_

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945

946

947

948

949

950

951

952

953

954

955

956

957

958

959

960

961

962

963

964

965

966

967

968

969

970

971