تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 4%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 213724 / ڈاؤنلوڈ: 4489
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۸

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

آیت ۷۵

( إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُّنِيبٌ )

بيشك ابراہيم بہت ہى دردمند اور خدا كى طرف رجوع كرنے والے تھے (۷۵)

۱_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام بردبار پيغمبر تھے جو ہرگز گناہگاروں كے عذاب ميں جلدى كرنے والے نہيں تھے_

ان ابراهيم لحليم

۲_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام لوگوں كو مشكلات ميں ديكھ كر متأثر ہونے والے اور ان كى دلسوزى كرنے والے تھے_

ان ابراهيم اوّاة

(أوّاہ )اس شخص كوكہتے ہيں جو زيادہ (آہ) كرنے والا اور افسوس كرنے والا ہو جملہ (يجادلنا) كے بعد جملہ (اوّاہ) كا آنا يہ بتاتا ہے كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام لوگوں كى مشكلات و پريشانى كى وجہ سے بہت متأثر اور اظہار افسوس كرتے تھے_

۳_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، ہميشہ خدا سے لگاؤ ركھتے اور اپنى حاجات كو اس سے طلب كرتے تھے_ان ابراهيم منيب

خداوند عالم كى بارگاہ ميں انا بہ سے مراد ، اس كي طرف رجوع كرنا ہے_

۴_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا قوم لوط كے بارے ميں طلب شفاعت كرنے كا سبب، ان كى بردبارى اور لوگوں كى مشكلات ميں اظہار افسوس كرنا اور خداوند متعال كے بارے ميں اعتقاد راسخ ركھنا ہے_يجادلنا فى قوم لوط، ان ابراهيم لحليم اوّاه منيب

(ان ابراہيم ) كا جملہ ابراہيمعليه‌السلام كا قوم لوط كے بارے ميں مجادلہ و بحث كرنے كا سبب اور ان كے دفاع كى وجہ كو بتاتا ہے_

۵_ بردبارى ، لوگوں كى مشكلات سے متأثر اور اظہار افسوس كرنا اور خدا كى طرف لگاؤ ركھنا اور اسى سے اپنى حاجات كو طلب كرنا يہ اچھى صفات اور پسنديدہ عادات ہيں _ان ابراهيم لحليم اوّاه منيب

۲۲۱

۶_عن جعفر بن محمد عليه‌السلام ... (الاوّاه ) الدّعاء (۱)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ (اوّاہ) جو آيت شريفہ ميں ہے اسكا معني، زيادہ دعا كرنے والا ہے_

ابراہيمعليه‌السلام :ابراہيمعليه‌السلام اور خطا كرنے والے ۱; ابراہيمعليه‌السلام اور ذكر الہى ۳; ابراہيم اورقوم لوط ۴; ابراہيمعليه‌السلام كا حلم ۱;ابراہيمعليه‌السلام كا غم ۲،۴;ابراہيمعليه‌السلام كى دعا ۳; ابراہيمعليه‌السلام كى سيرت ۳; ابراہيمعليه‌السلام كى شفاعت كے اسباب ۴; ابراہيمعليه‌السلام كى مہربانى ۲;ابراہيمعليه‌السلام كے حليم ہونے كے آثار ۴; ابراہيمعليه‌السلام كے فضائل ۱

انگيزہ :انگيزہ كے اسباب ۴

اوّاہ :اوّاہ سے مراد ۶

حلم :حلم كى اہميت ۵

دعا :دعا كى اہميت ۵

ذكر:ذكر خدا كى اہميت ۵

روايت :۶

صفات :پسنديدہ صفات ۵

قوم لوط :قوم لوط كى شفاعت ۴

لوگ :لوگوں كى مشكلات پر تأسف كا اظہار كرنا ۲،۴،۵

____________________

۱) دعائم الاسلام ، ج۱، ص ۱۶۶; بحار الانوار ج۸۲،ص۳۲۵،ح۲۰_

۲۲۲

آیت ۷۶

( يَا إِبْرَاهِيمُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَا إِنَّهُ قَدْ جَاء أَمْرُ رَبِّكَ وَإِنَّهُمْ آتِيهِمْ عَذَابٌ غَيْرُ مَرْدُودٍ )

ابراہيم اس بات سے اعراض كرو _ اب حكم خدا آچكا ہے اوران لوگوں تك وہ عذاب آنے والا ہے جو پلٹايا انہيں جا سكتا (۷۶)

۱_ حضرت ابر اہيم(ع) كى قوم لوط كے بارے ميں شفاعت (كہ ان سے عذاب ٹل جائے) خداوند متعال كے ہاں مورد قبول واقع نہ ہوئي _يجادلنا فى قوم لوط يا ابراهيم اعرض عن هذ

۲_ فرشتوں نے جناب ابراہيمعليه‌السلام سے خواہش كى كہ قوم لوط كے بارے ميں شفاعت سے صرف نظر كريں اور اس پر اصرار نہ كريں _يا ابراهيم اعرض عن هذ

(ہذا ) كا اشارہ (جدال ) كى طرف ہے جو ماقبل آيت ميں موجود(يجادلنا ) سے استفادہ ہوا ہے_

۳_قوم لوط كا مقدر شدہ عذاب حتمى تھا اور اس ميں كسى تغيّر و تبديلى كى گنجائش نہ تھي_

انه قد جاء امرربك و انهم ء اتيهم عذاب غير مردود

(اتى )اتيان سے اسم فاعل ہے يعنى (آنا)اور (ردّ) پلٹانے كے معنى ميں ہے _لہذا ( انہم ء اتيہم ) يعنى وہى عذاب ان پر آئے گا جو ٹلنے والا نہيں ہے_

۴_ كائنات ميں خداوند متعال كا حكم حتمى ہے _ اس ميں كوئي تخلف يا كمى واقعى نہيں ہوتى _انه قد جاء امر ربك

ظاہر يہ تھا كہ فرشتے، عذاب كے آنے كى خبر كو فعل مضارع سے بيان كرتے _ كيونكہ ابراہيمعليه‌السلام كى گفتگو كے دوران ابھى قوم لوط پر عذاب نازل نہيں ہوا تھا_ اسى وجہ سے فعل مضارع (يجي) كى جگہ فعل ماضى (جائ) كألانا اور حرف (قد ) كے ذريعے تاكيد كرنا اس حكم الہى كے حتمى طور پرواقع ہونے كو بتاتا ہے_

۲۲۳

۵_ پيغمبروں كى شفاعت ودر خواست كاخدا كى بارگاہ ميں قبول نہ ہونا بھى ممكن ہے_يا ابراهيم اعرض عن هذا

۶_ قوم لوط پر عذاب كا قطعى ہونا اور قابل تغيير نہ ہونا حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى ان كے بارے ميں شفاعت كے قبول نہ ہونے كى دليل ہے_يا ابراهيم اعرض عن هذا انه قد جاء امر ربك

(انّہ قد جاء ...) كا جملہ (اعرض عن ہذا) كے جملے كے ليے علت ہے_

۷_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا قوم لوط كے عذاب كے بارے ميں فرشتوں سے جر و بحث كرنا اس عذاب كے قطعى ہونے كى اطلاع سے پہلے تھا_يجادلنافى قوم لوط يا ابراهيم اعرض عن هذا انه قد جاء امر ربك

۸_ مفسد اقوام پر عذاب الہى كا نازل ہونا، خداوند متعال كى ربوبيتكا تقاضا ہے_انه قد جاء امر ربك

۹_ پيغمبروں كى شفاعت كا مورد قبول ہونا اس شرط پر ہے كہ جس امر كى شفاعت كررہے ہيں وہ خدا كے ہاں حتمى نہ ہو چكا ہو_يجادلنا فى قوم لوط يا ابراهيم اعرض عن هذا انه قد جاء امر ربك

۱۰_ قوم لوط پر عذاب كے نزول كے وقت،حضرت ابراہيمعليه‌السلام بوڑھے اور سن رسيدہ تھے_

و هذا بعلى شيخاً ىا ابراهيم اعرض عن هذا انه قد جاء امر ربك

۱۱_عن ابى عبداللّه عليه‌السلام : فقال اللّه تعالى : يا ابراهيم ا عرض عن هذا انه قد جاء امر ربك و انهم آتاهم عذابى بعد طلوع الشمس من يومك محتوماً غير مردود ;(۱)

امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ خداوند متعال نے فرمايا: اے ابراہيمعليه‌السلام اس بات كو چھوڑ دو (اے ابراہيم ) فرمان الہى آپہنچا ہے آج طلوع آفتاب كے بعد ان كے ليے ميرا عذاب آجائے گا اور يہ حتمى ٹلنے والا نہيں ہے_

ابراہيمعليه‌السلام :ابراہيمعليه‌السلام اور قوم لوط ۲;ابراہيمعليه‌السلام اور قوم لوط كا عذاب ۷;ابراہيمعليه‌السلام قوم لوط كے عذاب پر آنے كے وقت ۱۰;ابراہيمعليه‌السلام كى شفاعت۷; ابراہيمعليه‌السلام كى شفاعت ۰۱، ۱۱;ابراہيمعليه‌السلام كى شفاعت كے قبول نہ ہونے كے دلائل ۶; ابرہيم(ع) كى جرو بحث۷ ; قصہ ابراہيم(ع) ۷

انبياءعليه‌السلام :ابنياءعليه‌السلام كى شفاعت كے رد ہونے كا امكان ۵; انبياءعليه‌السلام كى شفاعت قبول ہونے كے شرائط ۹

____________________

۱) تفسير عياشى ، ج ۲ ، ص ۱۵۲، ح ۴۵ ، تفسير برہان ج ۲ ، ص ۲۲۹، ح ۱۱_

۲۲۴

خدا:اوامر الہى كا حتمى ہونا ۴; خداوند متعال كى ربوبيت كى نشانياں ۸

روايت :۱۱

شفاعت :حتمى چيزوں ميں شفاعت ۹

قوم لوط :قوم لوط سے شفاعت كا رد ہونا ۱،۲; قوم لوط كي

تاريخ ۳;قوم لوط كى شفاعت ۷;قوم لوط كے بارے ميں شفاعت كے رد ہونے كے دلائل ۶; قوم لوط كے عذاب كا حتمى ہونا ۳،۶،۷،۱۱;قوم لوط كے عذاب كا وقت ۱۰

مفسدين :مفسدين كے عذاب كا سبب ۸

ملائكہ :ملائكہ اور ابراہيمعليه‌السلام ۲;ملائكہ كى تمنائيں ۲

آیت ۷۷

( وَلَمَّا جَاءتْ رُسُلُنَا لُوطاً سِيءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعاً وَقَالَ هَـذَا يَوْمٌ عَصِيبٌ )

اور جب ہمارے فرستادے لوط كے پاس پہنچنے تو وہ ان كے خيال سے رنجيدہ ہوئے اور تنگ دل ہوگئے اور كہا كہ يہ بڑا سخت دن ہے (۷۷)

۱_ فرشتے، حضرت ابراہيمعليه‌السلام سے گفتگو كرنے كے بعد قوم لوط كے ديار ميں پہنچ گئے اور حضرت لوط(ع) كے پاس تشريف لائے_و لما جاء ت رسلنا لوط

۲_ فرشتے، انسانوں كى شكل و صورت ميں حضرت لوطعليه‌السلام كے ہاں حاضر ہوئے_و لما جاء ت رسلنا لوطاً سيء بهم

۳_ حضرت لوط(ع) ، اپنے مہمانوں كيحقيقت( انكے فرشتے ہونے )سے بے خبر اور ان كى ذمہ دارى سے ناآگاہ تھے_

و لمَّا جاء ت رسلنا لوطاً سيء بهم و قال هذا يوم عصيب

۲۲۵

۴_ حضرت لوطعليه‌السلام ، نے فرشتوں كے آنے سے حالات كو اپنے ليے پريشان كن ديكھااور غم و پريشانى نے انہيں گھير ليا _

و لما جاء ت رسلنا لوطاً سيء بهم و ضاق بهم ذرعا

(ذرعاً) ہاتھ كى كہنيوں كے كھينچنےكے معنى ميں آتا ہے يہ تميز واقع ہوا ہے جو فاعل سے مبدل ہے لہذا (ضاق بہم ذرعاً) كا معنى يوں ہوگا ( ضاق ذرعہ) اس كے ہاتھ كى كہنياں ان پر تنگ ہوگئيں _كسى كى طرف كہينوں كا تنگ ہونا يہ ضرب المثل ہے اس كے ليے كہ جو كام كو انجام دينے پر قدرت نہ ركھتااور اس تك كى دسترسى نہ ہو (سيئ) ساء سے كافعل مجہول ہے (اسكو ناراحت كيا) كے معنى ميں ہے _اور ''بہم'' ميں ''باء'' سببيت كيلئے ہے لہذا''سي بہم '' كا معنى يہ ہو گا ان كا آنا حضرت لوطعليه‌السلام كے ليے ناراحتى كا سبب بنا_

۵_ حضرت لوطعليه‌السلام ، اپنے آپكو مہمانوں كى حفاظت كا ذمہ دار سمجھتے تھے_و لما جاء ت رسلنا قال هذا يوم عصيب

۶_ حضرت لوطعليه‌السلام نے فرشتوں كے آنے والے دن كو سخت اور مشكل و دشوار حالات والا دن قرار ديا _

و قال هذا يوم عصيب

''عصيب'' دشوارى اور سختى كے معنى ميں ہے اور اسكى اصل (عَصب) ہے جو باندھنے كے معنى ميں آتا ہے ''اسى وجہ سے اس سخت دن كو گويا (يوم عصيب)'' كہتے ہيں كہ اس دن ايك دوسرے كا شرّ اور دشوارى ايك دوسرے سے لپٹى ہوئي ہے_(مجمع البيان سے يہ مطلب اخذ كيا گيا ہے)_

۷_عن ابى جعف(ع) ر : و كان لوط ابن خالة ابراهيم و كانت امراة ابراهيم ساره اخت لوط و كان لوط و ابراهيم نبيين مرسلين منذرين و كان لوط رجلاً سخياً كريماً يقرى الضيف إذا نزل به و يخّذّرهم قومه (۱)

امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ حضرت لوط(ع) حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى خالہ كے بيٹے تھے اور سارہ جو حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى بيوى تھى وہ لوط(ع) كى بہن تھيں حضرت لوط(ع) اور ابراہيمعليه‌السلام دونوں نبى مرسل اور ڈرانے والے تھے_ حضرت لوطعليه‌السلام سخى و كريم انسان تھے جو مہمان ان كے پاس آتے تھے وہ ان كى خدمتگزارى كرتے تھے اور اپنى قوم كے شر سے انہيں محفوظ ركھتے تھے_

۸_عن ا بى جعفر عليه‌السلام عن رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قال جبرئيل :ان قوم لوط كانوا اهل قرية لا يتنظفون من الغائط و لا يتطهرون من الجنابة بخلاء اشحّاء على الطعام و ان لوطاً لبث فيهم ثلاثين سنة و انّما كان

____________________

۱) علل الشرائع ص ۵۴۹ ; ح ۴ ، ب ۳۴۰_ نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۳۸۲، ح ۶۵_

۲۲۶

نازلاً عليهم و لم يكن منهم (۱) امام باقرعليه‌السلام ، رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روايت نقل كرتے ہوئے فرماتے ہيں كہ قوم لوط ديہاتيعلاقے كے رہنے والے تھے جو خود كوپا خانہ سے پاك نہيں ركھتے تھے اور جنابت كے ليے غسل بھى نہيں كرتے تھے_ بخيل اور پر خور اشخاص تھے _حضرت لوطعليه‌السلام نے تيس ۳۰ سال ان كے ساتھ زندگى بسر كى اور وہ باہر سے ان كے پاس آئے تھے ان كى قوم ميں سے نہيں تھے

۹_عن ابى عبداللّه عليه‌السلام قال : ان اللّه تعالى بعث اربعة ا ملاك فى اهلاك قوم لوط فأتوا لوطاً و هو فى زراعة له قرب المدينه ...(۲)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ خداوند متعال نے قوم لوط كو ہلاك كرنے كے ليے چار فرشتوں كو بھيجا پس وہ حضرت لوطعليه‌السلام كے پاس گئے جبكہ وہ اس وقت اپنے كھيت ميں تھے جو شہر كے قريب تھا

ابراہيمعليه‌السلام :حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا قصہ ۱

روايت :۷،۸،۹

قوم لوط :قوم لوط پر عذاب ۹; قوم لوط كابخل ۸: قوم لوط كى پستى ۸; قوم لوط كے رذائل ۸

لوطعليه‌السلام :حضرت لوطعليه‌السلام اور ملائكہ ۳،۴; حضرت لوط(ع) كا سمجھنا ۶; حضر ت لوط(ع) كا غم و غصہ ۴; حضرت لوطعليه‌السلام كا قصہ ۱،۲، ۳،۴،۶،۹;حضرت لوطعليه‌السلام كى پريشانى ۴;حضرت لوطعليه‌السلام كى ذمہ دارى ۵;حضرت لوطعليه‌السلام كى سخاوت ۷; حضرت لوطعليه‌السلام كى مہمان نوازى ۵،۷; حضرت لوطعليه‌السلام كے سخت دن ۶; حضرت لوطعليه‌السلام كے علم كا محدود ہونا ۳; حضرت لوطعليه‌السلام كے فضائل ۷;حضرت لوطعليه‌السلام كے ليے مہمانوں كى ذمہ دارى ۳

ملائكہ :ملائكہ اور حضرت ابراہيمعليه‌السلام ۱; ملائكہ اور حضرت لوط(ع) ۱،۲;ملائكہ كا جسم ركھنا ۲; ملائكہ ، قوم لوط(ع) كى سرزمين پر ۱; ملائكہ عذاب ۹

مہمان :مہمانوں كا دفاع كرنے كى اہميت ۵

____________________

۱)علل الشرايع،ص۰۵۵ ح۵، ب ۳۴۰;نورالثقلين ج۲،ص ۳۸۴ح ۱۶۶_

۲) كافى ، ج ۸، ص ۳۲۸، ح ۵۰۵_ نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۳۷۸ ، ح ۱۵۶_

۲۲۷

آیت ۷۸

( وَجَاءهُ قَوْمُهُ يُهْرَعُونَ إِلَيْهِ وَمِن قَبْلُ كَانُواْ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ قَالَ يَا قَوْمِ هَـؤُلاء بَنَاتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ فَاتَّقُواْ اللّهَ وَلاَ تُخْزُونِ فِي ضَيْفِي أَلَيْسَ مِنكُمْ رَجُلٌ رَّشِيدٌ )

اور ان كى قوم دوڑتى ہوئي آگئي اور اس كے پہلے بھى يہ لوگ ايسے برے كام كررہے تھے _ لوط نے كہا كہ ا ے قوم يہ ہمارى لڑكياں تمھارے لئے زيادہ پاكيزہ ہيں خدا سے ڈرد اور مہمانوں كے بارے ميں مجھے شرمندہ نہ كرو كيا تم ميں كوئي سمجھدار آدمى نہيں ہے (۷۸)

۱_ قوم لوط كے ايك گروہ نے حضرت لوطعليه‌السلام كے مہمانوں (فرشتوں ) پر تجاوز كرنے كے ليے جلدى سے ان كے گھر كو گھير ليا_و جائه قومه يهرعون اليه

اگر چہ حضرت لوطعليه‌السلام پردھا و ابولنے والوں كى نسبت پورى قوم كى طر ف دى گئي ہے ( وجاء قومہ) ليكن چند قرائن كى بناء پر قوم كے بعض لوگ مراد ہيں _ جملہ (هولاء بناتى ...) ان قرائن ميں سے ايك ہے _ كيونكہ حقيقت اور شريعت ميں يہ ممكن نہيں تھا كہ حضرت لوطعليه‌السلام كى لڑكياں تمام قوم يا اكثر افراد قوم كى بيوياں بن سكيں _قابل ذكر بات يہ ہے كہ بعض افراد كو قوم كى طرف نسبت دينے ك

مطلب يہ تھا كہ اگر تمام قوم لوط ا س بات پر مطلع ہوگئي ہوتيكہ مہمان حضرت لوط(ع) كے ہاں آئے ہيں اورانكے ليئے ممكن بھى ہوتا تو وہ بھى ہجوم كرنے والوں كى طرح عمل كرتے_

۲_ قوم لوط ،فسادى لوگ اور لواط جيسے برے عمل ( ہم جنس بازى )ميں مبتلائتھے_و من قبل كانوا يعملون السيئات

مقام كى مناسبت سے( السيئات ) كے لفظ كا بارذ مصداق لواط اور ہم جنس بازى ہے_

۳_ قو م لوط(ع) ، لواط كے علاوہ دوسرے بہت سے گناہوں سے آلودہ تھے_

۲۲۸

و من قبل كانوا يعملون السيئات

مذكورہ بالا معنى اس صورت ميں ہے كہ جب (السيئات )پر الف لام جنس كا ہو جمع كے صيغہ پر الف ولام جنس كا داخل ہوتو وہ عموم كا معنى ديتا ہے اور بعض اوقات كثرت پر دلالت كرتا ہے_

۴_ لواط اور ہم جنس بازي، گناہ كبيرہ اور بہت سے گناہوں كے قائم مقام ہے_و قبل كانوا يعملون السيئات

مذكورہ بالا تفسير اس صورت ميں ہے جب ہم (السيئات ) كے الف لام كو عہد ذكرى فرض كريں اس صورت ميں (السيئات) سے مراد لواط كاعمل اور (سيئات) كا ايك گناہ پر جمع كى صورت ميں اطلاق، مذكورہ مطلب كى طرف اشارہ ہے_

۵_ قوم لوط كا فساد ميں سابقہ اور لواط كے برے عمل كى عادت نے انہيں حضرت لوط(ع) كے گھر كى جانب ان كے مہانوں پر تجاوز كى خاطر دھكيل ديا _و جاء ه قومه يهرعون اليه و من قبل كانوا يعملون السيئات

(و من قبل كانوا ...) كا جملہ جو كہ قوم لوط(ع) كے درميان بدكارى كے رواج اور فساد ميں سابقہ ركھنے كو بتاتا ہے (يہرعون) كے فاعل كے محذوف ہونے كو بتاتا ہے _ يعنى قوم لوط كا لوط(ع) كے گھر پر ہجوم كرنےكا سبب اسكا برائي ميں سابقہ اور بد كارى كى عادت تھا_

۶_ حضرت لوط،عليه‌السلام متعدد لڑكياں ركھتے تھے جو سن ازدواج پر پہنچى ہوئي تھيں _هولا بناتى هنّ اطهرلكم

۷_ حضرت لوطعليه‌السلام كا حملہ كرنے والوں كو اپنى لڑكيوں سے شادى كى دعوت دينے كا مقصد يہ تھا كہ وہ اس لواط كے برے عمل اور ان كے مہمانوں سے جھگڑنے سے رك جائيں _يا قوم هولاء بناتى هن اطهر لكم

۸_ شہوت جنسى كو مٹانے كے ليے پليدگى سے پاك اور تنہاصحيح طريقہ، جنس مخالف سے ازدواج كرنا ہے_

هولاء بناتى هنّ اطهر لكم

(اطہر ) كا لفظ افعل تفضيل ہے اور اسميں برترى كا معنى نہيں پايا جاتا بلكہ طاہر و پاك كے معنى ميں آيا ہے اس طرح كا استعمال كہ اسم فاعل كى جگہ پر افعل تفضيل كا استعمال كرنا يہ تاكيد اور مبالغہ كے ليے ہوتا ہے_

۹_ لواط اور ہم جنسى بازى كا عمل،جنسى شہوت كو مٹانے كے ليے ناپاك اور بيہودہ طريقہ ہے _

هوء لاء بناتى هن اطهرلكم

۱۰_شادى كرنا اور زوجہ اپنا نا، جنسى فسادات سے روكنے كا طريقہ ہے_هوء لاء بناتى هنّ اطهر لكم

۱۱_ حضرت لوطعليه‌السلام كى شريعت ميں كافر لوگوں كا مؤمن عورتوں سے ازدواج كا جائز ہونا _

۲۲۹

هولاء بناتى هن اطهر لكم

جملہ ( فأسر با ہلك الا امرا تك ) اس بات كى حكايت كرتا ہے كہ حضرت لوطعليه‌السلام كى لڑكياں ان پر ايمان ركھتى تھيں _

۱۲_ حضرت لوط(ع) نے حملہ آوروں كے عواطف جنسى كو متحرّك كرنے اور ان پر شفقت كے اظہاركے ذريعہ انہيں اپنے مہمانوں سے متعرّض ہونے سے روكا_قال يا قوم فاتقوا اللّه و لا تخزون فى ضيفى ا ليس منكم رجل رشيد

۱۳_ حضرت لوطعليه‌السلام كا اپنى قوم سے مہربانيسے پيش آنا حتى اس وقت جب ان كى طرف سے وہ بہت سختى اور اذيت ميں تھے_قال هذا يوم عصيب قال يا قوم هولاء بناتي

حضرت لوطعليه‌السلام كا يہ كہنا (يا قوم) اے ميرى قوم اور انہيں اپنى لڑكيوں سے شادى كى دعوت دينا، قوم پر ان كے لطف اور مہربانى كو ظاہر كرتا ہے _ يہ اس وقت ہوا جس وقت كو حضرت لوطعليه‌السلام نے بہت دشوار اور سخت وقت سے ياد كيا ہے_

۱۴_ حضرت لوطعليه‌السلام نے حملہ آوروں سے يہ تقاضا كيا كہ وہ خدا سے خوف كريں اور ان كے مہمانوں پر حملہ نہ كريں _

فاتقوا اللّه

۱۵_ ازدواج اور زوجہ كے انتخاب كے علاوہ دوسرے راستے سے جنسى شہوت كو پورا كرنا، تقوى اور خوف خدا كے خلاف ہے_فاتقوا الله

۱۶_ جنسى فساد، خدا كے عذاب كا موجب بنتا ہے _هؤلاء بناتى هن اطهرلكم فاتقوا اللّه

۱۷_ حضرت لوط(ع) نے فسادى حملہ آوروں سے كہاكہ ميرے مہمانوں سے متعرض نہ ہوں اور ان كے سامنے انہيں رسوااور خوار نہ كريں _و لا تخزون فى ضيفي/ اخزاء (لا تخزون) كا مصدر ہے جو خوار اور رسوا كرنے كے معنى ميں آتا ہے

۱۸_ لوگوں كے درميان كسى كو رسوا كرنا، تقوا اور خوف خدا كے خلاف ہے_فاتقوا اللّه و لا تخزون فى ضيفي

۱۹_ كسى كى عزت و آبرو كو گرانے سے پرہيز كرنا، لازمى ہے_و لا تخزون فى ضيفي

۲۰ _ قوم لوط(ع) ميں ايك شخص بھى سمجھدار اور خوف خدا ركھنے والا اور غيرت مندنہيں تھا_

فاتقوا اللّه و لا تخزون فى ضيفى اليس منكم رجل رشيد

(رشيد) كا معنى راستہ پانے والا ہے جملہ

۲۳۰

(اتقوا الله ) اور(لا تخزون فى ضيفي ) راستہ پانے والا خوف خدا، غيرت اور معيشت كا مصداق ہے_

۲۱_ ہم جنس بازى ، تقوى ، خدا ترسي، رشيداور سمجھدار ى كے مخالف ہے_فاتقوا اللّه ا ليس منكم رجل رشيد

۲۲_ مہمانوں كى محافظت كرنا اور حملہ آوروں سے ان كو بچانا ضرورى ہے_

يا قوم هؤلاء بناتى ا ليس منكم رجل رشيد

۲۳_عن ا بى عبداللّه عليه‌السلام قال : ان اللّه تعالى بعث اربعة ا ملاك فى اهلاك قوم لوط فأتوا لوطاً فسلّموا عليه فقال لهم : المنزل ؟ فقالوا: نعم ثم مشى فلما بلغ باب المدينه دخل و دخلوا معه حتى دخل منزله فلما را تهم امراته صعدت فوق السطح و صفقت فلم يسمعوا فدخنت فلما را وا الدخان ا قبلوا الى الباب يهرعون (۱)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ خداوند متعال نے قوم لوط كو ہلاك كرنے كے ليے چار فرشتوں كو بھيجا ...وہ حضرت لوطعليه‌السلام كے پاس آئے اور انہيں اس پر سلام كيا ..._ حضرت لوطعليه‌السلام نے ان كو گھر ميں آنے كى دعوت دى وہ راضى ہوگئے ، اور وہ چلے يہاں تك كہ شہر كے دورازے تك پہنچ گئے ..._ وہ فرشتوں كے ساتھ شہر ميں داخل ہوئے يہاں تك كہ وہ گھر پہنچ گئے _ جب لوطعليه‌السلام كى بيوى نے ان كو ديكھا ...تو چھت پر چڑھ گئي اور تالى بجائي ، ليكن قوم لوط متوجہ نہ ہوئي ، پھر اس نے دھواں اڑايا جب قوم نے دھويں كو ديكھا تو جلدى سے حضرت لوطعليه‌السلام كے گھر كى طرف دوڑے ..._

۲۴_عن ا بى جعفر عليه‌السلام ان قرية قوم لوط كانت على طريق السيّارة الى الشام و مصر فكانت السيّارة تنزل بهم فيضيّفونهم فدعا هم البخل الى ان كانوا اذا نزل بهم الضيف فضحوه ...وانّما كانوا يفعلون ذلك بالضيف حتى ينكل النازل عنهم فأورثم البخل بلاء لا يستطيعون دفعه عن ا نفسهم حتى صاروا يطلبونه من الرجال فى البلاد و يعطونهم عليه الجعل (۲)

امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ قوم لوط كى آبادى ان مسافروں كے راستے ميں تھى جہاں سے مسافر شام و مصر جاتے تھے _ كارواں اس قوم كے پاس آتے اور ان كے مہمان بنتے تھے _ ان كا بخل اس حد تك پہنچ گيا تھا كہ جب كوئي مہمان ان كے پاس آتا ( تو اپنے اس برے كام كى وجہ سے) اسے رسوا كركے چھوڑتے تھے اس كام كو اس وجہ سے

انجام ديتے تھے تا كہ مہمان ان كے پاس نہ آئيں

____________________

۱) كافى ، ج ۵، ص ۵۴۷، ح ۶ _ نورالثقلين ، ج ۲ ، ص ۳۷۹، ح ۱۵۶ _

۲)علل الشرائع ، ص ۵۴۸، ح ۴ ، ب ۳۴۰_ نور الثقلين ، ج ۲ص ۳۸۲ ، ح ۱۶۵_

۲۳۱

اور واپس لوٹ جائيں پس ان كا بخل سبب بنا كہ وہ جس بلاء و مصيبت ميں گرفتار ہوگے(مرض ابنہ ) اس بيمارى كو اپنے سے دور كرنے كى قدرت نہيں ركھتے تھے يہاں تك كہ دوسرے شہروں كے لوگوں سے اگريہ چاہتے كہ ہمارے ساتھ يہ برا فعل انجام دو تو ان كو اجرت دينا پڑتى تھى _

۲۵_عن ابى عبداللّه(ع) فى قول لوط'' هؤلاء بناتى هن اطهرلكم'' قال عرض عليهم التزويج (۱)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے حضرت لوط(ع) كے اس قول (كہ ميرى بيٹياں تمہارے ليے پاكيزہ تر ہيں ) كے بارے ميں روايت ہے كہ آپ نے فرمايا: حضرت لوط(ع) نے انہيں ازدواج كرنے كى پيشكش كى تھي_

آبرو :حفظ آبرو كى اہميت ۱۹; ہتك آبرو سے اجتناب ۱۹

ازدواج :ازدواج كى اہميت ۱۵;ازدواج كے آثار ۸،۱۰; كافر سے ازدواج ۱۱

انحراف جنسى :انحراف جنسى كو روكنے كا طريقہ ۱۰; انحراف جنسى كى سزا ۱۶;انحراف جنسى كے آثار ۱۵

تقوا :تقوى اختيار كرنے كى دعوت ۱۴; تقوى نہ ہونے كى نشانياں ۲۱;تقوى نہ ہونے كے موارد ۱۵، ۱۸

خدا :خدا كى سزائيں ۱۶

رشد :رشد كرنے كے موانع ۲۱

روايت :۲۳، ۲۴، ۲۵

عذاب :عذاب كے اسباب ۱۶

غريزہ جنسى :غريزہ جنسيكى تسكين كا طريقہ ۸،۱۵

قوم لوطعليه‌السلام :قوم لوط(ع) اور حضرت لوطعليه‌السلام كے مہمان ۱،۵; قوم لوط(ع) اور مہمان ۲۴;قوم لوط(ع) كا بخل ۲۴;قوم لوط(ع) كا حملہ ۱;قوم لوط(ع) كى اذتيں ۱۳; قوم لوط(ع) كى برائي كرنا ۲;قوم لوط(ع) كى بے عقلى ۲۰ ; قوم لوط(ع) كى بے غيرتى ۲۰ ; قوم لوط(ع) كى تاريخ ۱،۲،۳،۵،۲۴; قوم لوط(ع) كى خصوصيات ۲۰ ; قوم لوط(ع) كى ہم جنس بازى ۲;قوم لوط(ع) كے رذائل ۲۴;قوم لوط(ع) كے فاسد ہونے كے آثار ۵; قوم لوط(ع) كے گناہ ۳; قوم لوط(ع) ميں تقوى كا نہ ہونا ۲۰ ; قوم لوط(ع) ميں لواط(ع) ۲،۳، ۲۴;قوم لوط(ع) ميں لواط(ع) كے آثار ۵

____________________

۱) كافى ، ج ۵ ص ۵۴۸، ح ۷ _ نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۳۷۹ ، ح ۱۵۷_

۲۳۲

گناہ كبيرہ :۴لواط :لواط كا گناہ ۴; لواط كى پليدى ۹

لوطعليه‌السلام :لوطعليه‌السلام اور خوارى ۱۷; لوطعليه‌السلام اور قوم لوط ۱۲، ۱۴، ۱۷، ۲۵ ; لوطعليه‌السلام اور مہمان نوازى ۱۴۷، ۱۷; لوطعليه‌السلام كا قصہ ۷، ۱۲، ۱۳، ۱۴، ۲۳، ۲۵;لوطعليه‌السلام كا منع كرنا ۷; لوط(ع) كو اذيت۱۳; لوطعليه‌السلام كى بيٹيوں سے شادى ۷ ، ۲۵; لوطعليه‌السلام كى پيشكش ۲۵;۱۳; لوطعليه‌السلام كى خواہشات ۷، ۱۷; لوطعليه‌السلام كى دعوتيں ۱۴; لوطعليه‌السلام كى لڑكيوں كا بالغ ہونا ۶; لوطعليه‌السلام كى متعدد بيٹياں ۶;لوطعليه‌السلام كى مہربانى ۱۲، ۱۳ ; لوطعليه‌السلام كى ہمسر كى جاسوسى ۲۳;لوطعليه‌السلام كے دين ميں ازدواج ۱۱;لوط(ع) كے ملنے كا طريقہ ۱۲،۱۳; لوط(ع) كے مہمان ۲

لوگ:لوگوں كى آبروريزى ۱۸

ملائكہ :ملائكہ عذاب اور لوطعليه‌السلام ۲۳

مہمان :مہمان سے دفاع ۷، ۱۲، ۱۴;مہمان سے دفاع كى اہميت ۲۲

ہم جنس بازى :ہم جنس بازى كا گناہ ۴; ہم جنس بازى كى پليدى ۹;ہم جنس بازى كے آثار ۲۱

آیت ۷۹

( قَالُواْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا لَنَا فِي بَنَاتِكَ مِنْ حَقٍّ وَإِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نُرِيدُ )

ان لوگوں نے كہا كہ آپ جانتے ہيں كہ ہميں آپ كى لڑكيوں ميں كوئي دلچسپى نہيں ہے اور آپ كو معلوم ہے كہ ہم كيا چاہتے ہيں (۷۹)

۱_ قوم لوط كے مفسدين نے ان كى پيشكش ( كہ ميرى لڑكيوں سے شادى كرلو اور مہمانوں سے تجاوز نہ كرو) كو قبول نہيں كيا _هؤلاء بناتى هنّ ا طهر لكم قالوا لقد علمت ما لنا فى بناتك من حق

۲_ ازدواج ترك كرنا ، غريزہ جنسى كو لواط كے طريقے سے پورا كرنا ، قوم لوط كے درميان ايك سنت اور معاشرتى اخلاق كے طور پر رائج ہوگيا تھا_قالوا لقد علمت ما لنا فى بناتك من حق و ء انك لتعلم ما نريد

۲۳۳

جب قوم لوط نے حضرت لوط(ع) كى لڑكيوں سے شادى كرنے كو اپنے خيال ميں بے جا سمجھا تو اس سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ عورتوں سے شادى كرنے كو ممنوع خيال كرتے تھے يا يہ كہ ان كا جنسى اخلاق اس حد تك ، طبيعى راستہ سے خارج ہو چكا تھا كہ جنس مخالف كى طرف ان كا ميلان ختم ہوچكا تھا_

۳_ قوم لوط كا لواط اور ہم جنس بازى كى طرف ميلان اورعورتوں كى طرف شوق نہ ركھناسبب بناكہ انہوں نے حضرت لوطعليه‌السلام كى پيشكش ( ان كى لڑكيوں سے شادى كرلو اور ان كے مہمانوں كے ساتھ تجاوز نہ كرو) كو ٹھكرا ديا _

قالوا لقد علمت ما لنا فى بناتك من حق و انك لتعلم ما نريد

۴_ حضرت لوطعليه‌السلام متعدد بيٹياں ركھتے تھے _ما لنا فى بناتك من حق

۵_ حضرت لوطعليه‌السلام اپنى قوم ميں اس بداخلاق اور برى عادت ہم جنس بازى كے راسخ ہونے سے آگاہ تھے_

و انك لتعلم ما نريد

قوم لوط(ع) :قوم لوط(ع) اور مہمان لوطعليه‌السلام ۱،۳;قوم لوط(ع) كا جھكاؤ ۳; قوم لوط(ع) كى رسومات ۲،۵;قوم لوط(ع) كى ہم جنس بازى ۲، ۳، ۵; قوم لوط(ع) ميں ازدواج ۲; قوم لوط(ع) ميں لواط(ع) ۲،۳

لوطعليه‌السلام :لوطعليه‌السلام كا قصہ ۱، ۳;لوطعليه‌السلام كى آگاہى ۵; لوطعليه‌السلام كى بيٹيوں سے ازدواج كو ردّ كرنا ۳; لوطعليه‌السلام كى پيشكش كو ردّ كرنا ۱، ۳; لوطعليه‌السلام كى متعدد بيٹياں ۴

آیت ۸۰

( قَالَ لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ )

لوط نے كہا كاش ميرے پاس قوت ہوتى يا ميں كسى مضبوط قلعہ ميں پناہ لے سكتا (۸۰)

۱_حضرت لوطعليه‌السلام نے اپنے آپ كو فسادى حملہ آوروں كے درميان ناتوان اور بے يار مدد گار خيال كيا _

قال لو ا ن لى بكم قوّة ا و ء اوى الى ركن شديد

۲_ حضرت لوطعليه‌السلام كى يہ آرزو تھى كہ ان ظالموں كے مقابلے ميں وہ قدرت ركھتے اور اپنے مہمانوں كو بچا سكتے _

۲۳۴

قال لو اُن لى بكم قوة

''لو'' كا لفظ آيت ميں حرف تمنا اور ليت كے معنى ميں ہے يعنى ( اے كاش)

۳_ حضرت لوطعليه‌السلام كى يہ آرزو كہ ايك مطمئنپناہ گاہ ہوتيجسميں اپنے مہمانوں كو پناہ ديتے اور ان ظالموں كے تجاوز سے انہيں بچاتے_قال لو أو ء اوى الى ركن شديد

۴_ مہمانوں كو ظالموں كے تجاوز سے بچانے كى ضرورت _لو ان لى بكم قوة

۵_ مفسدين اور ظالموں كے ساتھ مقابلہ كى ضرورت _لوان لى بكم قوة

۶_ ظلم اور ظالموں كے خلاف مقابلہ كرنے كى قدرت ركھنے كى آرزو كرنا، ايك مناسب اور پسنديدہ عمل ہے_

لو ان لى بكم قوة او ء اوى الى ركن شديد

آرزو :پسنديدہ آرزويں ۶; قدرت كى آرزو ۲، ۶; مقابلہ كرنے كے امكانات كى آرزو ۶

فساد :فساد سے مقابلہ ۶

قوم لوط :قوم لوط سے مقابلہ ۲

لوطعليه‌السلام :لوطعليه‌السلام كابے يار و مدد گار ہونا ۱; لوطعليه‌السلام كا قصہ ۱، ۲، ۳;لوطعليه‌السلام كى آرزو ۲،۳; لوطعليه‌السلام كى مہمان نوازى ۲، ۳ ; لوطعليه‌السلام كى پناہگاہ كى تلاش ۳

مفسدين :مفسدين سے مقابلہ ۲، ۶;مفسدين سے مقابلہ كى اہميت ۵

مہمان :مہمان كے دفاع كى اہميت ۴

۲۳۵

آیت ۸۱

( قَالُواْ يَا لُوطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَن يَصِلُواْ إِلَيْكَ فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّيْلِ وَلاَ يَلْتَفِتْ مِنكُمْ أَحَدٌ إِلاَّ امْرَأَتَكَ إِنَّهُ مُصِيبُهَا مَا أَصَابَهُمْ إِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ )

تو فرشتوں نے كہا كہ ہم آپ كے پروردگار كے نمائندے ہيں يہ ظالم آپ تك ہر گز نہيں پہنچ سكتے ہيں _ آپ اپنے گھر والوں كو لے رات كے كسى حصے ميں چلے جايئےور كوئي شخص كسى كى طرف مڑكربھى نہ ديكھے سوائے آپ كى زوجہ كے كہ اس تك وہى عذاب آنے والا ہے جو قوم تك آنے والا ہے ان كا وقت مقرر ہنگام صبح ہے اور كيا صبح قريب نہيں ہے (۸۱)

۱_ حضرت لوطعليه‌السلام كے مہمانوں نے حملہ آوروں كے مقابلے ميں ان كى بے كسى ديكھ كر اپنى حقيقت (فرشتہ ہونا) كو حضرت لوطعليه‌السلام كے ليے ظاہر كرديا _قال لو ان لى بكم قوّة قالوا یا لوط انا رسل ربك

۲_ حضرت لوط(ع) كے پاس جو فرشتے مہمان بن كر آئے تھے وہ ان كے ليے خداوند متعال سے پيغام لائے تھے_

قالو يا لوط انا رسل ربك

مذكورہ بالا معنى اس سے حاصل ہوتا ہے كہ فرشتوں نے اپنے آپ كو خدا كى طرف سے پيغام لانے والا (رسل ربك ) بتايا _

۳_ فرشتوں نے عذاب آنے كے وقت اور قوم لوط(ع) كى سزاسے حضرت لوط كو آگاہ كيا_

انا رسل ربك لن يصلوا اليك فأسر اليس الصبح بقريب

۴_ خداوند متعال، كفر اختيار كرنے والى اقوام كے عذاب كى اطلاع اس قوم كے پيغمبر كو ديتا ہے_

انا ارسلنا الى قوم لوط و لما جاء ت رسلنا لوطاً قالوا يا لوط انا رسل ربك

۵_ پيغمبروں كے علم و آگاہى كا محدود ہونا _قالوا يا لوط انا رسل ربك

۶_ حضرت لوط(ع) ، خداوند متعال كے تحت تربيت اور ان كى حمايت كے حامل تھے _انا رسل ربلك

مذكورہ معنى لفظ ( ربّك ) (تيرا مربّى و مدّبر) سےحاصل ہوتا ہے_

۷_ لوط(ع) اپنے مہمانوں (جو گھر ميں فرشتے تھے) كا دفاع كرنے اور ان حملہ آور ظالموں سے لڑنے كے ليے تيار تھے_

لن يصلوا اليك

۲۳۶

مذكورہ آيات سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ حملہ آور ، فرشتوں پر تجاوز كرنے كا ارادہ ركھتے تھے _ اسى وجہ سے ظاہراً فرشتے كہہ رہے تھے ( لن يصلوا الينا) وہ ہم تك نہيں پہنچ پائيں گے _ يہ بات دو مطلب كى طرف اشارہ كرتى ہے _ مہمان پر تجاوز، ميزبان پر تجاوز كے برابر ہے_۲ حضرت لوطعليه‌السلام جتنى قدرت ركھتے تھے حملہ آوروں كامقابلہ كرنے كيلئے تيار تھے_

۸_ عذاب پر مامورفرشتوں نے حضرت لوطعليه‌السلام كو اطمينان دلوايا كہ حملہ آور، ان كا كچھ نہيں بگاڑ سكتے اور انہيں كوئي نقصان نہيں پہنچ سكتا_قالوا يا لوط انا رسل ربك لن يصلو ا اليك

۹ _ انسان، فرشتوں كو كوئي نقصان نہيں پہچا سكتے اگر چہ وہ انسانوں كى شكل ميں كيوں نہ ہوں _

يا لوط انا رسل ربك لن يصلوا اليك

۱۰_ فرشتوں نے ظالموں كى حضرت لوطعليه‌السلام كے گھر تك رسائي كو روك ديا _انا رسل ربك لن يصلوا اليك فأسر بأهلك

۱۱_ فرشتوں نے حضرت لوطعليه‌السلام سے چاہا كہ اپنے گھر والوں كو رات كے وقت اپنى قوم كے علاقے سے لے جائيں _

فأسر بأهلك بقطع من الليل

''اسراء'' ''ا سر'' كا مصدر ہے جسكا معنى رات كو كوچ كرناہے _ (بأہلك) ميں ''باء متعدى '' كے ليے ہے اور (الليل ) ميں ''الف لام '' حضورى ہے پس (فأسر ) كے جملے كا معنى يوں ہوگا:(اے لوطعليه‌السلام ) اپنے گھر والوں كو اس رات كے كسى حصے ميں كوچ كراديں _

۱۲_ قوم لوط ميں صرف ان كے اہل خانہ ايمان لائے تھے اوروہ ان كى قوم كے ظلم و گناہوں سے پاك تھے _

كانوا يعملون السيئات فأسر بأهلك بقطع من الليل الاّ امرا تك

۱۳_ حضرت لوط(ع) اور ان كے گھر والوں كى نجات اسميں تھى كہ وہ ديار قوم لوط سے نكل جائيں _

فأسر بأهلك بقطع من الليل

۱۴_ حضرت لوطعليه‌السلام كو اس بات كا پابند كيا گيا تھا كہ عذاب كے نازل ہونے سے پہلے مخفى طوراپنى قوم كو بتلائے

بغير ان كى سرزمين سے نكل جائيں _فأسر بأهلك بقطع من الليل

فرشتوں كا يہ اصرار كہ حضرت لوطعليه‌السلام رات كو يہاں سے كوچ كريں مذكورہ بالا تفسير كى تائيد كرتا ہے او ر قابل ذكر ہے كہ يہ احتمال اس وقت ديا جاسكتا ہے جب فرشتوں كا حضرت لوطعليه‌السلام كو يہ كہنا ( فأسر ) عذاب نازل ہونے والى رات كونہ ہوبلكہ ايك دن پہلے ان كو بتايا گيا ہو_

۲۳۷

۱۵_ فرشتوں نے حضرت لوطعليه‌السلام اور ان كے اہل خانہ سے يہ چاہا كہ اپنے ديار سے نكلتے وقت نہ ركيں اور پھر اپنے گھر واپس بھى نہ لوٹيں _و لايلتفت منكم احد

۱۶_ فرشتوں نے حضرت لوطعليه‌السلام كو تاكيد كى كہ اپنى زوجہ كو عذاب سے بچانے كے ليے ساتھ نہ لے جائيں _

فأسر بأهلك بقطع من الليل الاّ امرا تك

مذكورہ معنى اسوقت ليا جاسكتا ہے كہ جب (امرا تك) ( اہلك ) سے استثناء ہو_

۱۷_ حضرت لوطعليه‌السلام كے گھر والوں ميں سے صرف انكى اہليہ نے رات كے وقت گھر سے كوچ نہيں كيااور ديار قوم لوط ميں واپس لوٹ آئي_و لا يلتفت منكم احد الاّ أمراتك

مذكورہ بالا معنياس احتمال كى بناء پر ہے جب( الا امراتك ) كا جملہ ( لا يلتفت ...) سے استثناء كيا گيا ہے_ پس جملہ ( لا يلتفت انہ مصيبہا ما اصابہم ) كا يہ معنى ہوگا كہ كوئي بھى تم ميں سے جانے سے نہيں ركنا چاہيے اورگھر واپس نہ لوٹے ليكن تمہارى اہليہ اسكى نافرمانى كرے گى اور واپس لوٹے گى كيونكہ اسے عذاب الہى ميں گرفتار ہونا ہے_

۱۸_ حضرت لوطعليه‌السلام كى زوجہ، كو ضرور قوم لوط(ع) كے مقدر شدہ عذاب ميں گرفتار ہونا تھا_

انه مصيبها ما اصابهم

(انہ) ميں ضمير ، ضمير شان ہے جو تاكيدسے حكايت ہے_

۱۹_ حضرت لوطعليه‌السلام كى زوجہ ان پر ايمان نہيں لائي اور قوم لوط كے گناہ ميں برابر كى شريك تھى _

فأسر فأهلك الّا أمراتك انه مصيبها ما اصابهم

(انه مصيبها ما اصابهم ) كا جملہ يہ بتاتا ہے كہ حضرت لوطعليه‌السلام كى بيوي، قوم لوط كى سزا ميں برابر كيشريك تھى يہ اس بات كو بتاتا ہے كہ اس كا گناہ بھى قوم لوط كے گناہ كى طرح تھا_گويا كہ وہ اس كے كاموں پر راضى تھى ياجيسا كہ بعض روايات ميں يہ بھى ذكر ہوا ہے كہ گناہ كرنے ميں وہ ان كى مدد كرتى تھي_

۲۰_انبياء كرام سے رشتہ داري، عذاب الہى سے نجات دينے ميں مؤثر نہيں ہے_الّا امراتك انه مصيبها ما ا صابهم

۲۱_ گنہگاروں كيلئے مقدر شدہ سزاؤں كو جارى كرنے ميں ان كے حسب و نسب كا لحاظ نہيں كرنا چاہيے_الاّ أمراتك انه مصيبها ما أصابهم

۲۲_ اديان الہى كى نگاہ ميں عورت ايك مستقل فكر و عقيدہ كى مالك اور اپنے اعمال كى خود ہى جوا ب وہ ہے_

فأسر فأهلك بقطع من الليل الّا امرا تك انه مصيبها ما أصابهم

۲۳۸

۲۳_ فرشتوں كا ديار قوم لوط ميں اول صبح كو آنا اس قوم پر نزول عذاب كا مقرر وقت تھا_ان موعدهم الصبح

''الصبح''ميں ''الف ولام'' مضاف اليہ كى جگہ پر ہے پس ( ان موعد ہم الصبح) كا معنى يوں ہوگا كہ آج رات كى سحر كو قوم لوط پر عذاب موعود كا وقت ہے_

۲۴_ فرشتوں نے حضرت لوطعليه‌السلام سے چاہا كہ اپنے جانے ميں دير نہ كريں كيونكہ عذاب الہى كا وقت قريب ہے_

فأسر بأهلك ان موعدهم الصبح اليس الصبح بقريب

جملہ ''ان موعد ہم الصبح ...'' جملہ''فاسر فاهلك '' كى علّت كے قائم مقام ہے_

۲۵ _ حضرت لوطعليه‌السلام نے فرشتوں سے چاہا كہ اسكى قوم كو عذاب دينے ميں جلدى كريں _

ان موعدهم الصبح ا ليس الصبح بقريب

( اليس ) ميں استفہام تقريرى ہے اور اس كا مقصد يہہے كہ مخاطب، مضمون جملہ كا اعتراف و اقرار كر رہا ہے كہ اس كے بعد وہ واقع ہو_ اور حضرت لوطعليه‌السلام سے يہ اقرار و اعتراف لينا كہ انكى قوم كا عذاب نزديك ہےيہ اس بات كى طرف اشارہ كرتاہے كہ وہ اپنى قوم پر عذاب ميں تعجيل كے خواہاں تھے_

۲۶_عن ا بى جعفر عليه‌السلام ... ''فلّما جاء آل لوط المرسلون قالوا: (فأسر بأهلك ) يا لوط اذا مضى لك من يومك هذا سبعة ايام و ليا ليها '' بقطع من الليل'' اذا مضى نصف الليل (۱)

امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے جب الله تعالى كے فرشتے خاندان لوطعليه‌السلام كے پاس آئے تو انہوں نے كہا اے لوط(ع) اس تاريخ سے سات رات و دن گذرنے كے بعد آدھى رات كو اپنے اہل خانہ كو اس سرزمين سے باہر لے جائيں ۲۷_عن ا بى جعفر عليه‌السلام ... ان اللّه تعالى لما ا راد عذابهم ( قوم لوط ) بعث اليهم ملائكة و قالوا للوط : ا سر بأهلك من هذا القرية الليلة فلَمّاانتصف الليل سار لوط ببناته (۲)

____________________

۱)علل اشرائع ، ص ۵۴۹، ح ۴ ، ب ۳۴۰ _ نور الثقلين ج ۲ ص ۳۸۳ ، ح ۱۶۵_

۲) علل اشرائع ، ص ۵۵۰، ح ۵ ، ب ۳۴۰_ نور الثقلين ، ج ۲ ص ۳۸۴ ، ح ۱۶۶_

۲۳۹

امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ الله تعالى نے جب قوم لوط پر عذاب نازل كرنے كا ارادہ فرماياتو فرشتوں كو ان كى طرف بھيجا انہوں نے حضرت لوطعليه‌السلام سے كہا كہ آج رات اس آبادى سے اپنے گھر والوں كو دور لے جا ئے جب آدھى رات ہوئي تو حضرت لوطعليه‌السلام اپنى بيٹيوں كو آبادى سے دور لے گئے

۲۸_عن ا بى بصير و غيره عن احدهما عليها السّلام لما قال جبرئيل : '' انا رسل ربك '' قال له لوط(ع) : نعم قال: يا جبرئيل عجّل ، قال : يا جبرئيل عجّل ، قال : ( ان موعدهم الصبح ا ليس الصبح بقريب'' فأدخل جناحه تحتها حتّى اذا استعلت قلّبها عليهم و رمى جدران المدينه بحجار من سجّيل و سمعت امرا ة لوط الهَدّة فهلكت منها (۱)

ابو بصير اور ان كے علاوہ دوسرے افراد امام باقرعليه‌السلام يا امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت كرتے ہيں كہ جب حضرت جبرئيل نے حضرت لوطعليه‌السلام سے كہا كہ ہم الله تعالى كے بھيجے ہوئے فرشتے ہيں _ توحضرت لوطعليه‌السلام نے كہا جلدى كرو جناب جبرئيل نے كہا ٹھيك ہے پھر حضرت لوطعليه‌السلام نے كہا جلدى كرو حضرت جبرئيل نے كہا ان كے عذاب كا وقت صبح ہے كيا صبح نزديك نہيں ہے؟ پھر اس ( جبرئيل ) نے اپنے پروں كو اس علاقہ كى زمين كے اندر داخل كيا پھر جب آبادى اوپر كى طرف گئي تو اس نے اوپر سے ان كو نيچے گراديا اور اس شہر كى ديواروں كو سجيل ( مٹى كے پتھروں ) سے سنگ بارى كى ، لوطعليه‌السلام كى زوجہ نے ديواروں كے گرنے كى سخت آواز كو سنا اور اسى آواز كے سبب ہلاك ہوگئي_

انبياء :انبياء اور كافروں كا عذاب ۴; انبياء كے ساتھ رشتہ دارى ۲۰; انبياءعليه‌السلام كے علم كا احاطہ ۵

انسان :انسان اور ملائكہ ۹; انسانوں كا عاجز ہونا ۹

الله تعالى :الله تعالى كى امداد ۶; الله تعالى كى ربوبيت ۶

پيغمبر الہى : ۲روايت : ۲۶، ۲۷، ۲۸سزا :سزا دينے ميں عدالت كرنا ۲۱

سزا كا قانون : ۲۱

عذاب :اہل عذاب ۱۸; سجيل كے ساتھ عذاب ۲۸; صبح كو عذاب ۲۳، ۲۸; عذاب سے نجات ۲۰;عذاب كا اظہار ۲۸

____________________

۱) علل اشرائع ، ص ۵۵۲، ح ۶، ب ۳۴۰; تفسير عياشى ج ۲ ص ۱۵۶، ح ۵۴_

۲۴۰

عورت :اديان الہى ميں عورت ۲۲;عورت كا استقلال ۲۲; عورت كى ذمہ دارى ۲۲

كفار :كفار كے عذاب كا اعلان ۴

قوم لوطعليه‌السلام :سرزمين قوم لوط(ع) سے ہجرت ۱۳، ۱۴، ۱۵;قوم لوط(ع) كا عذاب ۲۴، ۲۷، ۲۸; قوم لوط(ع) كے عذاب كا وقت ۳، ۲۳، ۲۸;قوم لوط(ع) كے عذاب ميں تعجيل ۲۵; قوم لوط(ع) كے گناہ گار ۱۹

لوطعليه‌السلام :لوطعليه‌السلام اور ملائكہ ۲۵، ۲۸; لوطعليه‌السلام پر ايمان لانے والوں كى قلت ۱۲;لوطعليه‌السلام كے اطمينان ۸ ;لوطعليه‌السلام كا قصہ : ۱، ۲، ۳، ۷، ۸، ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۴، ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۱۸، ۱۹، ۲۴ ، ۲۵، ۲۶، ۲۷، ۲۸; لوطعليه‌السلام كا كفر كرنے والے ۱۹; لوط(ع) كا مربى ۶; لوط(ع) كا مقابلہ ۷; لوط(ع) كو وحى ۲; لوط(ع) كى امينت ۸;لوطعليه‌السلام كى جلدى ۲۴;لوطعليه‌السلام كى ذمہ

دارى ۱۴; لوطعليه‌السلام كى رات كو ہجرت ۱۱، ۲۷;لوطعليه‌السلام كى زوجہ كا عذاب ۱۸ ; لوطعليه‌السلام كى زوجہ كا كفر ۱۹; لوطعليه‌السلام كى زوجہ كا گناہ ۱۹ ; لوطعليه‌السلام كى گھر والوں كى ہجرت ۱۳;لوطعليه‌السلام كى مہمان نوازى ۷; لوطعليه‌السلام كى نجات ۱۳; لوطعليه‌السلام كى ہجرت ۱۳، ۱۴ ;لوطعليه‌السلام كى ہمسر كا مقدر ۱۸;لوطعليه‌السلام كى گھر والوں كا ايمان ۱۲; لوطعليه‌السلام كے گھر والوں كا پاك ہونا ۱۲;لوطعليه‌السلام كے مہمانوں كى رسالت ۲; لوطعليه‌السلام كے گھر والوں كى نجات ۱۳، ۲۶، ۲۷;لوطعليه‌السلام كے مہمان ۱;لوط(ع) كے ہمسفران ۱۶،۱۷ ; ہمسر لوط(ع) الہى عذاب كے وقت ۱۶، ۱۷; ہمسر لوطعليه‌السلام كا ہلاك ہونا ۲۸

ملائكہ :ملائكہ اور قوم لوط ۱۰; ملائكہ اور قوم لوط كا عذاب ۳; ملائكہ اور لوطعليه‌السلام ۲، ۸، ۱۱، ۱۵، ۱۶، ۲۴، ۲۶;ملائكہ اور لوطعليه‌السلام كے گھر والے ۱۵;ملائكہ كو نقصان پہنچانا ۹; ملائكہ كى نصيحت ۱۶

مہمان :مہمان سے دفاع كرنا ۷

۲۴۱

آیت ۸۲

( فَلَمَّا جَاء أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِّن سِجِّيلٍ مَّنضُودٍ )

پھر جب ہمارا عذاب آگيا تو ہم نے زمين كوتہ و بالا كرديا اور ان پر مسلسل كھر نجے دار پتھروں كى بارش كردى (۸۲)

۱_ الله تعالى نے ديار قوم لوط كہ تہہ و بالا كر كے ان كو نزول عذاب ميں گرفتار كيا _فلما جاء أمرنا جعلنا عليها و سافله

(عاليہا) (سافلہا) اور'' عليہا ''ميں جو '' ہا '' كى ضمير ہے وہ قريہ يا بہتسى بستيوں كى طرف لوٹتى ہے كہ جسميں قوم لوط زندگى بسر كرتے تھے_ ہر چيز كے عالى اور سافل سے اس كے اوپر اور نيچے والا حصّہ مراد ہے ( لسان العرب )

۲_ الله تعالى نے ديار قوم لوط كو تہہ و بالا كرنے كے ساتھ ساتھ ان پر سجّيل (كھر نجے دار پتھر) برسانے سے ان كو ہلاك كرديا_فلَمّا جاء امرنا أمطرنا عليها حجارة من سجيل

(سجّيل )كالفظ فارسى زبان كا ہے_ عربى زبان ميں استعمال ہو كرمعرب ہوگيا ہے يعني_ (كھرنجے دار پتھر)اور اسكا تلفظ ( سجّيل ) ہے ( لسان العرب )

۳_ قوم لوط دو مقامات پرساكنتھے ايك بلند مقام(پہاڑ كے دامن)اور دوسرے نيچے( ہموار زمين )پر _جعلنا عليها سافله

جملہ ( جعلنا عاليہاسافلہا) كادو طريقوں سے معنى كيا جاسكتا ہے۱_ ديار قوم لوط كے اوپر والے حصے كو ہم نيچے لائےيعنى اس كو تہہ و بالا كرديا ۲_ وہ گھر جو پہاڑ كے دامن ميں تھے انہيں ہموار زمين پر گراديا_ مذكورہ بالا مطلب دوسرے احتمال كى بنا ء پر ہے_

۴_ الله تعالى نے حضرت لوطعليه‌السلام كے مہمان فرشتوں كے ذريعہ ديار قوم لوط كوتباہ اور انہيں ہلاك كرديا _

انا أرسلنا الى قوم لوط انا رسل ربك فلما جاء أمر نا جعلنا عاليها سافله

الله تعالى نے ديارقوم لوط كى تخريب اور ان كے عذاب كے ليے فرشتوں كو بھيجا _ ليكن اس كام اور نزول عذاب كى نسبت اپنى طرف ديتے ہوئے فرمايا :(انا أرسلنا الى قوم لوط ) اور جملہ (جعلنا عالى ها سافلها ) سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ فرشتے نزول عذاب كے ليے وسيلہ تھے اور ان كا كام افعال الہى كا جلوہ تھا_

۵_ كائنات ميں فرشتوں كا عمل و دخل، حكم الہى سے اور اس كے افعال كا جلوہ ہے_

انا ارسلنا الى قوم لوط فلما جاء أمر نا جعلنا عالى ها سافله

۲۴۲

۶_ قوم لوط(ع) كے علاقہ كو تہہ و بالا كرنا اور ان پر پتھروں كى بارش كرنا يہ امر الہى سےبھيجا ہوا عذاب تھا_

فلما جاء أمرنا جعلنا عاليها سافلها و امرنا عليها حجارة

(أمرنا ) سے مراد عذاب الہى ہے _''عذاب'' كو امر كہنااس بات كى طرف اشارہ كرتا ہے كہ يہ نازل شدہ عذاب، امر اور فرمان الہى كى وجہ سے تھا_

۷_ قوم لوط پر نازل ہونے والا عذاب، سخت اور خوف ناك تھا_فلما جاء امرنا جعلنا عاليها سافله

(نا ) ضمير متكلم كى طرف لفظ ( امر) كا اضافہ كرنا عذاب كى عظمت اور بزرگى كو بتاتا ہے_

۸_ ظالم قوم لوط پر جو پتھر گرائے گئے وہ مٹى كے تہہ بہ تہہ اور آپس ميں ملے ہوئے پھتر ہوئے تھے_

و أمطرنا عليها حجارة من سجيل منضود

_(منضود ) يعنى ايك دوسرے كے اوپر ركھے گئے يہ لفظ ( سجيل) كى صفت واقع ہوئي ہے اسكا معنى يہ ہے كہ جو پتھر قوم لوط پر برسائے گئے مختلف تہہ ميں لگے ہوئے اور آپس ميں ملے ہوئے تھے_

۹_عن ا بى جعفر(ع) ان جبرئيل قال (لرسول اللّه ) انّى نوديت من تلقاء العرش اهبط الى قرية قوم لوط و ما حوت فاقلعها من تحت سبع ا رضين فهبطت على اهل القرية فاقلعتها ثم عرجت بها فقلّبتها عليهم حتى صار ا سفلها ا علاها فقال له رسول اللّه يا جبرئل و ا ين كانت قريتهم فى البلاد؟فقال جبرئيل كان موضح قريتهم فى موضع بحيرة طبرية اليوم و هى فى نواحى الشام قال له الرسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا رايتك حين قلّبتها عليهم فى ا يّى موضع من الارضين وقعت القرية و ا هلها ؟ فقال يا محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وقعت فيما بين بحرالشام الى مصر فصارت تلولاً فى البحر (۱)

امام محمد باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ جبرئيل آنحضرتعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور كہا كہ عرش سے نداء آئي كہ آبادى لوط اور اس كے درميانى حصے كى طرف اتر جاؤ اور اس جگہ كو سات زمينوں كے نيچے سے كھود ڈالو _ اور ميں وہاں گيا اور اس جگہ كو

____________________

۱) علل الشرائع ، ص ۵۵۱، ح ۵، ب ۳۴۰_ نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۳۸۴، ۱۶۶

۲۴۳

كھودا اور اسكو اوپر كى طرف اٹھا يا اور اس كو ان كے اوپر گرا ديايہاں تك كہ وہ تہہ و بالا ہوگئے _ آنحضرتعليه‌السلام نے جبرئيل سے سوال كيا قوم لوط كى آبادى كہاں تھى ؟ جبرئيل نے جواب ديا كہ ان كى آبادى آج جہاں دريا طبريہ واقع ہے وہاں ان كى آبادى تھى كہجو شام كے نواحى علاقہ ميں واقع تھا_ پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جبرائيل سے فرمايا :يہ بتاؤ كہ جب ان كى آبادى كو ان پر خراب كرديا تو وہ آبادى اور وہاں كے لوگ زمين كے كس مقام پر گرے_ جبرئيلعليه‌السلام نے عرض كى اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شام و مصر كے درميان دريا پر گرے اور ايك ٹيلے كى صورت ميں ہوگئے_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :آنحضرت اور قصہ لوطعليه‌السلام ۹

الله تعالى :افعال الہى كى نشانياں ۵;الله تعالى كے اوامر ۵،۶; الله تعالى كے عذاب ۱،۲، ۴،۶

سرزمين :قوم لوط كى سرزمين كا تہہ و بالا ہونا ۱،۶;قوم لوط كى سرزمين كا جغرافيہ ۳

روايت :۹

عذاب :عذاب استيصال ۱; عذاب سجّيل ۲، ۶، ۸;عذاب كا ذريعہ۲، ۸; عذاب كے مراتب ۷

قوم لوط(ع) :قوم لوط(ع) پر پتھروں كى بارش ۶; قوم لوط(ع) كا سخت عذاب ۷; قوم لوط(ع) كا عذاب ۱، ۲، ۴، ۸; قوم لوط(ع) كى تاريخ ۱، ۲، ۷; قوم لوطعليه‌السلام كى ہلاكت ۲،۴;قوم لوط(ع) كے عذاب كا سبب ۶;قوم لوط(ع) كے عذاب كى كيفيت ۹;قوم لوط(ع) كے عذاب والے پتھروں كى خصوصيات ۸

ملائكہ :افعال ملائكہ كا سبب ۵; ملائكہ كا عذاب ۴; ملائكہ كى قدر ت۴

۲۴۴

آیت ۸۳

( مُّسَوَّمَةً عِندَ رَبِّكَ وَمَا هِيَ مِنَ الظَّالِمِينَ بِبَعِيدٍ )

جن پر خدا كى طرف سے نشان لگے ہوئے تھے اور وہ بستى ان ظالموں سے كچھ دور نہيں ہے (۸۳)

۱_ ظالم قوم لوط پر جو پتھر برسائے گئے ان پرايك مخصوص نشانى تھى جس سے صرف الله تعالى ہى آگاہ تھا_

مسوّمة عند ربك

(سمية) و (سيماء) كا معنى نشانى و علامت ہے اور(تسويم) (مسّومة كا مصدر ہے) جسكا معنى علامت قرار دينا ہے_

يعنى نشانى و علامت ركھنے والى _ مذكورہ بالاتفسير ميں ( عند ربك ) كو (مسوّمة) كے متعلق قرار ديا گيا ہے_

۲_ قوم لوط پر جن پتھروں كو گرايا گيا وہ ايسى جگہ پر تھے كہ الله تعالى كے علاو كوئي بھى اس جگہ پر دسترسينہيں ركھتاتھا_

حجارة من سجيل منضود _ مسوّمة عند ربك

يہ مذكورہ تفسير اس صورت ميں ہوسكتى ہے جب ہم ( عند ربك ...)كو لفظ (مسوّمة) كى طرح لفظ ( حجارة) كے ليے صفت قرار ديں نہ يہ كہ لفظ (مسوّمة) كے ليے متعلق واقع ہو_ اس صورت ميں (عند ربك ...) كا معنى يوں ہوگا كہ وہ پتھر جو نازل ہوئے تھے وہ الله تعالى كے پاس تھے يعنى جس جگہ پر موجود تھے اس جگہ سے الله تعالى ہى آگاہ تھا_

۳_ الله تعالى كى ربوبيت كا تقاضا يہ ہے كہ انسانوں كے نظام كو منظم كرنے كے ليے گنہگاروں اور ظالموں كو سزا دے_

مسوّ مة عند ربّك

۴_ قوم لوط(ع) ، لواط جيسے برے عمل ميں آلودہ ہونے كى وجہ سے خداوند عالم كى بارگاہ ميں ظالم لوگ شمار ہوتے تھے _

وماهى من الظالمين ببعيد

۵_ قوم لوط كيبستي،مكہ كى سرزمين سے كچھ زيادہ فاصلہ نہيں ركھتى تھى _ما هى عن الظالمين ببعيد

مذكورہ معنى اسى صورت ميں ہے كہ جب (ہي) كى ضمير كو قوم لوط كى بستييا بستيوں كى طرف لوٹائيں ، اور ( الظالمين ) سے مراد كفار و مشركين مكہ ہوں _

۶_ الله تعالى نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا انكاركرنے والوں اور مشركين كو دنياوى عذاب اور پتھروں كے نازل ہونے كے عذاب سے ڈرايا_و ما هى من الظالمين ببعيد

۲۴۵

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو مخاطب(عند ربّك) قرار دينے كے بعد جملہ ( و ما ہى ...) كا ذكرممكن ہے اس بات پر قرينہ ہو كہ ان (الظالمين ) سے مراد عصر بعثت كے كافر و مشرك ہيں _

۷_ ستمگر معاشرے، دنياوى سزاؤں اور پتھروں والے عذاب ميں گرفتار ہونے والے ہيں _وماهى من الظالمين ببعيد

سياق كلام سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ (ہي) كى ضمير ممكن ہے (قرية) يعنيبستى يا بستيوں كى طرف لوٹے، ياپہلے والى آيت ميں لفظ ( حجارة) كى طرف پلٹ رہى ہو _تو دوسرى صورت ميں آيت كا معنى يہ ہوگا كہ فلاں پتھر ظالموں سے دور نہيں ہے ، يعنى ظالم اس عذاب ميں گرفتار ہونے والے ہيں اور ان كے ليے اس طرح كے پتھر آمادہ ہيں _

۷_ ہمجنس بازى كرنأظلم ہے اور جو معاشرہ جو اس مرض ميں مبتلا ہے وہ دنياوى عذاب ميں گرفتار ہونے والا ہے_

و ما هى من الظالمين ببعيد

مذكورہ آيات كى روشنى ميں (الظالمين) سے مراد لواط كرنے والے لوگ ہيں _

۸_ الله تعالى ، انسانوں كو گزرے ہوئے لوگوں كے واقعات اور ظالموں كے برے انجام سے عبرت حاصل كرنے كى دعوت ديتا ہے_و ما هى من الظالمين ببعيد

مذكورہ تفسير اس صورت ميں ہے جب ہم ( ہى ) كى ضمير سے مراد قوم لوط كى آبادى ليں تو (ما ہى ...) كا جملہ لوگوں كو اس بات كى ترغيب ديتا ہے كہ قوم لوط كى آبادى كى طرف نگاہ كرو اور عذب الہى كے آثار كا مشاہدہ كرو تا كہ تم اس سے عبرت حاصل كرسكو_

۱۰_عن ا بى جعفر عليه‌السلام ... قال اللّه عزوجل لمحمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : '' و ما هى من الظالمين ببعيد'' من ظالمى امتك ان عملوا ما عمل قوم لوط ... (۱)

امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے: كہ الله تعالى آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو مخاطب ہو كر فرما رہا ہے : اگر تيرى امت نے قوم لوط والے عمل كو انجام ديا ، تو وہ پتھر ظالموں سے دور نہيں ہيں _

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

____________________

۱) كافى ، ج ۵ ، ص ۵۴۶، ح ۵; نورالثقلين ، ج ۲ ، ص ۳۷۷، ح ۱۵۵_

۲۴۶

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے منكرين كى سزا ۶

انسان :انسانوں كودعوت ۹; انسانوں كا مدبّر ۳

الله تعالى :الله تعالى كا خوف دلوانا ۶;الله تعالى كا علم ۱۰;الله تعالى كى ربوبيت كے آثار ۳; الله تعالى كى دعوتيں ۹

پتھر :پتھر كى بارش سے ڈرانا ۶

سرزمين :قوم لوط كى سرزمين اور مكہ ۵;قوم لوط كى سرزمين كا جغرافيہ۵

سزا :دنياوى سزاؤں سے ڈرانا ۶

ظالمين :ظالموں پر پتھروں كى بارش ۷;ظالموں كى دنياوى سزا ۷; ظالموں كى سزا ۳; ظالموں كے انجام سے عبرت ۹; ظالموں كے انجام كا مطالعہ ۹; ظالموں كے عذاب كا نزديك ہونا ۱۰

ظلم :ظلم كے موارد ۴، ۸

عبرت :عبرت كے اسباب ۹

عذاب :سجيل ( چھوٹے نوكيلے پتھر) كا عذاب ۱، ۷;عذاب سے ڈرانا ۶

قوم لوط :قوم لوط كأظلم ۲;قوم لوط كے عذاب والے پتھروں كى جگہ ۲;قوم لوط كے عذاب والے پتھروں كى نشانى ۱; قوم لوط ميں لواط ۴

كفار :كفار كے موارد ۶

گنہگار :گنہگاروں كى سزا ۳

لواط :لواط كأظلم ۷

مشركين :مشركين كو ڈرانا ۶

ہم جنس باز لوگ :ہم جنس باز لوگوں كا دنيا ميں عذاب ۸

ہمجنس بازى :ہمجنس بازى كأظلم ، ۸

۲۴۷

آیت ۸۴

( وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْباً قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـهٍ غَيْرُهُ وَلاَ تَنقُصُواْ الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ إِنِّيَ أَرَاكُم بِخَيْرٍ وَإِنِّيَ أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ مُّحِيطٍ )

اور ہم نے مدين كى طرف ان كى بھائي شعيب كو بھيجا تو انھوں نے كہا كہ اے قوم اللہ كى عبادت كركہ اس كے علاوہ تيرا كوئي خدا نہيں ہے اور خبردار ناپ تول ميں كمى نہ كرنا كہ ميں تمھيں بھلائي ميں ديكھ رہا ہوں اور ميں تمھارے بارے ميں اس دن كے عذاب سے ڈرتا ہوں جو سب كو احاطہ كرلے گا(۸۴)

۱_ حضرت شعيبعليه‌السلام ،انبياء اور رسل الہى ميں سے تھے_و الى مدين أخاهم شعيب

۲_ حضرت شعيبعليه‌السلام كى رسالت، مدائن كے لوگوں تك محدو د تھى _و الى مدين اخاهم شعيب

۳_ حضرت شعيبعليه‌السلام اور مدائن كے لوگوں كے درميان رشتہ دارى اور حسب و نسب تھا_

و الى مدين اخاهم شعيب

(أخاہم)كا جملہ يہ بتاتا ہے كہ حضرت شعيبعليه‌السلام اہل مدائن ميں سے تھے اور ان كے رشتہ دار تھے يا يہ كہ ان كے ليے درد دل ركھنے والے تھے_ مذكورہ معنى احتمال اول كى صورت ميں بيان كيا گيا ہے_

۴_ حضرت شعيب،عليه‌السلام مقام رسالت پر فائز ہونے سے پہلے بھى مدائن كے لوگوں سے محبت اوران كے دكھ ميں شريك تھے_و الى مدين اخاهم شعيب

۵_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے لوگوں كے نفسياتى پہلو كواجا گر

۲۴۸

كرتے ہوئے اپنى دعوت كا آغاز كيا_قال يا قوم اعبدوا اللّه

(يا قوم ) كے جملے سے خطاب كرنا، نفسياتى پہلو كو اجا گر كرنا ہے_

۶_ حضرت شعيبعليه‌السلام كا مدائن كے لوگوں كو پہلا پيغام، خدائے وحدہ لاشريك كى عبادت كرنے كى دعوت دينا تھا_

قال يا قوم اعبدوا اللّه

۷_ مدائن كے لوگ ،الله تعالى كے وجود پر اعتقاد ركھتے تھے_قال يا قوم اعبدوا الله ما لكم من اله غيره

۸_ الله تعالى كے وجود پر يقين ركھنا ،تاريخ بشر ميں بہت بنيادى اعتقاد ہے_قال يا قوم اعبدوا اللّه ما لكم من اله غيره

۹_ حضرت شعيبعليه‌السلام كى قوم ،مشرك اور عبادت الہى سے منہ موڑنے والى تھي_اعبدوا اللّه ما لكم من اله غيره

۱۰_ انسان، قديم ايام سے ہى معبود كى عبادت اور اسكى طرف جھكاؤ ركھتا ہے_اعبدو ا اللّه ما لكم من اله غيره

۱۱_ الله تعالى كى عبادت ضرورى ہے اور اس كے علاوہ كوئي بھى عبادت كى لائق نہيں ہے_

اعبدوا اللّه ما لكم من اله غيره

۱۲_ توحيد عملى كى بنياد، توحيد نظرى ہے_اعبدوا اللّه مالكم من اله غيره

۱۳_صرف الله تعالى ہى حقيقت ميں لائق عبادت ہے_اعبدوا اللّه ما لكم من اله غيره

۱۴_ حضرت شعيبعليه‌السلام كى اصلى ذمہ داري، شرك كا مقابلہ كرنا تھا_قال يا قوم ما لكم من اله غيره

۱۵_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے اپنى قوم كو يہ بتايا كہ الله تعالى كے علاوہ كوئي معبود نہيں ہے اور ان كو توحيد پرستى اور شرك سے دور رہنے كى دعوت دى _قال يا قوم اعبدوا اللّه ما لكم من اله غيره

۱۶_ حضرت شعيب(ع) نے اپنى قوم سے چاہا كہ ترازو ميں دھو كا اور ناپ تول ميں كمى نہ كريں _

و لا تنقصوا المكيال و الميزان

(مكيال ) پيمانہ كے معنى ميں ہے_ كم كرنے كا معنى يا تو متعارف حجم سے كم يامتعارف مقدار كے پيمانہ كو پورا نہ بھرنا ہے ( ميزان) بھى ترازو كے معنى ميں ہے_ترازو كو كم ركھنے كا معنى يا تو يہ ہے كہ متعارف مقدار سے كم اس ميں وزن كيا جائے يا جو تولنے كى مقدار ہے اس كو كم كرناہے كہ وہ مقدار معين سے كم ہو_

۱۷_ حضرت شعيبعليه‌السلام كى قوم كے درميان كا روبارى امور ميں كم فروشى اور بے عدالتى كا پايا جانا_

و لا تنقصوا المكيال و الميزان

۲۴۹

۱۸_ حضرت شعيبعليه‌السلام كى قوم ،الله تعالى كى نعمتوں ، روزى اور مال و منال سے بہرہ مند تھے_انى ارى كم بخير

(ارى ) كا مصدر (رؤيت) ہے جو ديكھنے اور مشاہدہ كرنے كے معنى ميں آتا ہے_ ( بخير) ميں باء ملابست ہے يہاں ( خير ) سے مراد پہلے والى آيت ( لا تنقصوا ...) كے قرينہ كى وجہ سے روزى اور مال و ثروت ہے _ تو آيت كا معنى يوں ہوگا كہ تم تو مال و ثروت ركھنے والے لوگ ہوتمھارے ليےيہ بات صحيح نہيں ہے كہ تم كم تولنے كا بہانہ بناؤ_

۱۹_ حضرت شعيبعليه‌السلام كى قوم نے اپنى زندگى ميں روزى اور مال و ثروت فراواں ركھنے كے باوجود بھى دھو كہ دہى اور كم تولنا شروع كرديا تھا_لا تنقصوا ان ارى كم بخير

۲۰_ لوگوں كا غنى و ثروت مند ہونا، كوئي بنيادى دليل نہيں بن سكتى كہ وہ تجارت ميں دھو كہ دہى نہ كرے_

لا تنقصوا المكيال و الميزان انى ارى كم بخير

۲۱_ حضرت شعيبعليه‌السلام كى قوم ،فہم و ذكاوت سے بہرہ مند تھي_انّى ارى كم بخير

( انى اراكم بخير ) كے جملے كو (اعبدوا اللّہ ...) كے ليے علت قرار دے سكتے ہيں تو اس صورت ميں ( خير) سے مراد ہوش و ذكاوت ہوگى كيونكہ وحدہ لا شريك كى عبادت كى طرف توجہ ہونا عقل و فہم كے ساتھ سازگار ہے _ تو اس صورت ميں ( اعبدوا اللّہ انى ارى كم بخير) كا معنى يوں ہوگا كہ تم لوگ عقل و فہم ركھتے ہو لہذاو حدہ لاشريك كى عبادت كرو _تم سے بعيد ہے كہ اس كے ساتھ شريك قراردو_

۲۲_ حضرت شعيبعليه‌السلام اپنى قوم كے گنہگار اور مشركين كے مستقبل كے بارے ميں پريشان تھے_

انّى ا خاف عليكم عذاب يوم محيط

۲۳_ غير الله كى عبادت، عبادت ميں شرك اور ظلم كرنا نيز تجاوز كرنے ميں جلدى كرنا ،قيامتكے عذاب كا سببہے_

اعبدوا اللّه ولا تنقصوا المكيال انى ا خاف عليكم عذاب يوم محيط

۲۴_ قيامت كے دن كا عذاب، ايسا عذاب ہے جو تمام گنہگاروں اور كافروں كو شامل ہوگا _انّى أخاف عليكم عذاب يوم محيط

كلمة( محيط) كا معنى (احاطہ كرنے والا اور تمام كو شامل ہونے والا) ہے ظاہراً يہ ( يوم ) كے لفظ كے ليے صفت واقع ہوا ہے_اصل ميں عذاب كى صفت كو بيان كر رہا ہے يعني'' محيط عذابہ ''

۲۵۰

۲۵_ قيامت كے دن كے عذاب ميں گرفتار ہونے والوں كا فرار ناممكن ہے_انّى ا خاف عليكم عذاب يوم محيط

(عذاب ) كى جو صفت '' تمام كو شامل ہونے والا'' بيان ہوئي ہے اس سے مراد وہ لوگ ہيں جو عذاب كے مستحق ہيں _ تمام لوگوں كو شامل ہوگا كسى سے نہيں ٹلے گا _ يعنى جو مستحق عذاب ہيں ان سے ٹلنے والا نہيں ہے _ يعنى گنہگاروں پر ہر طرف سے اس طرح عذاب آجائے گا كہ وہ كسى صورت ميں فرار نہيں كر سكيں گے_

۲۶_عن ا بى عبداللّه عليه‌السلام : لم يبعث اللّه عزوجل من العرب الا خمسة انبياء : هوداً و صالحاً و اسماعيلً و شعيباً و محمداً خاتم النبيين صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،وكان شعيب بكاء (۱)

امام صادق(ع) سے روايت ہے كہ الله تعالى نے عربوں ميں سے صرف پانچ انبياءعليه‌السلام كو مبعوث رسالت فرمايا ہے حضرت ہودعليه‌السلام ،حضرت صالحعليه‌السلام ، حضرت اسماعيلعليه‌السلام ، حضرت شعيبعليه‌السلام اور خاتم المرسلينصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ليكن حضرت شعيبعليه‌السلام ان ميں سے سب سے زيادہ گريہ كرنے والے تھے_

۲۷_عن على بن الحسين عليه‌السلام قال : ان اوّل من عمل المكيال و الميزان شعيب النبى عليه‌السلام عمله بيده ..(۲)

امام على بن الحسين زين العابدين(ع) فرماتے ہيں : پيمانہ اور ترازو كوسب سے پہلے بنانے والے حضرت شعيب نبىعليه‌السلام تھے ، جسكو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے بنايا _

۲۸_عن ابى جعفر عليه‌السلام ( فى حديث طويل) و ا ما شعيب فانه ا رسل الى مدين و هى لا تكمل اربعين بيتاً (۳)

امام باقرعليه‌السلام سے ايك بہت طولانى روايت ہے اسميں حضرتعليه‌السلام فرماتے ہيں جب حضرت شعيبعليه‌السلام كو مدائن ميں نبى بنا كر بھيجا گيا تو اسوقت مدائن ميں چاليس گھر نہيں تھے_

۲۹_عن أبى عبداللّه عليه‌السلام فى قول اللّه : ''انى اراكم بخير '' قال : كان سعرهم رخيصاً (۴)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ ( انى اراكم بخير) سے مراد آيت ميں يہ ہے كہ ان كے درميان چيزوں كى قيمت كم تھى _

اقتصاد :اقتصاد ميں خلاف ورزى كے آثار۲۳

____________________

۱)قصص الانبياء رواندى ، ص ۱۴۵، ح ۱۵۷; بحار الانوار ، ج ۱۲ ص ۳۸۵ ، ح ۱۱_۲)قصص الانبياء رواندى ، ص ۱۴۲، ح ۱۵۳; بحار الانوار ، ج ۱۲، ص ۳۸۲، ح ۶_

۳)كمال الدين صدوق ، ص ۲۲۰ ، ح ۲، ب ۲۲; بحار الانوار ، ج ۱۱، ص ۵۱، ح ۴۹_۴) تفسير عياشى ، ج ۲ ، ص ۱۵۹ ، ح ۶۱; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۳۹۰، ح ۱۸۸_

۲۵۱

انبياء :انبياء سے رشتہ دارى ۳; عرب كے انبياءعليه‌السلام ۲; علاقائي انبياءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۲

انسان :انسان كا جھكاؤ ۱۰

اہل مدائن :اہل مدائن كا انجام ۲۲;اہل مدائن كا شرك ۹; اہل مدائن كا عقيدہ ۷; اہل مدائن كا فہم ۲۱; اہل مدائن كا فہم و درك ۲۱; اہل مدائن كا كفر ۹;اہل مدائن كو الله كى پہچان ۷; اہل مدائن كو دعوت ۶، ۱۵، ۱۶;اہل مدائن كى اقتصادى خلاف ورزياں ۱۷، ۱۹; اہل مدائن كى تاريخ ۹، ۱۵، ۱۷، ۱۸، ۱۹;اہل مدائن كى ثروتمندى ۱۸، ۱۹; اہل مدائن كى كم فروشى ۱۷، ۱۹; اہل مدائن كى نعمتيں ۱۸، ۲۱;اہل مدائن كے تعداد ميں كمى ۲۸;اہل مدائن كے پيغمبر ۲;اہل مدائن ميں اشياء كا كم قيمت ہونا ۲۹; اہل مدائن ميں بے عدالتى ۱۷

الله تعالى :الله تعالى كى خصوصيات ۱۳; الله تعالى كى معرفتكى تاريخ ۷، ۸

الله كے رسول : ۱

ايمان :الله تعالى پر ايمان لانا ۸; توحيد پر ايمان لانے كى اہميت ۱۱

تبليغ :تبليغ ميں احساسات كو ابھارنا ۵

توحيد :توحيد عبادى ۱۳;توحيد عبادى كى اہميت ۶،۱۱; توحيد عبادى كى طرف دعوت ۶،۱۵; توحيد عملى كا پيش خيمہ ۱۲; توحيد نظرى كى اہميت ۱۲/ثروت :ثروت اور اقتصادى خلاف ورزياں ۲۰

جھكاؤ:عبادت كى طرف جھكاؤ ۱۰; معبود كى طرف جھكاؤ ۱۰

روايت : ۲۶، ۲۷، ۲۸، ۲۹

شرك :شرك سے اجتناب كى دعوت ۱۵;شرك عبادى كے آثار ۲۳

شعيبعليه‌السلام :حضرت شعيبعليه‌السلام اور اہل مدائن ۳; حضرت شعيبعليه‌السلام اور ترازو ۲۷; حضرت شعيبعليه‌السلام اور كثرت گريہ ۲۶; حضرت شعيبعليه‌السلام اور گنہگار ۲۲; حضرت شعيبعليه‌السلام اور مشركين ۲۲; حضرت شعيبعليه‌السلام اور نا پنے كا پيمانہ ۲۷; حضرت شعيب كا شرك سے مقابلہ ۱۴; حضرت شعيبعليه‌السلام كا مہربان ہونا ۴; حضرت شعيبعليه‌السلام كى پريشانى ۲۲;حضرت شعيبعليه‌السلام كى تبليغ ۱۵; حضرت شعيبعليه‌السلام كى تبليغ كا طريقہ ۵; حضرت شعيبعليه‌السلام كى تعليمات ۶; حضرت شعيبعليه‌السلام كى دعوت دينا ۵، ۱۵، ۱۶; حضرت شعيبعليه‌السلام كى رسالت ۱۴; حضرت

۲۵۲

شعيبعليه‌السلام كى رسالت كا محدود ہونا ۲; حضرت شعيبعليه‌السلام كى قوميت ۲۶; حضرت شعيبعليه‌السلام كى نبوت ۱; حضرت شعيبعليه‌السلام كے پيش آنے كا طريقہ ۴; حضر شعيبعليه‌السلام كے رشتہ دار۳; حضرت شعيبعليه‌السلام كے فضائل۴; حضرت شعيبعليه‌السلام نبوت سے پہلے ۴

ظلم :ظلم كے آثار ۱۳

عذاب :آخرت كے عذاب كا حتمى ہونا ۱۵; آخرت كے عذاب كا عمومى ہونا ۲۴;آخرت كے عذاب كى خصوصيات ۲۴; آخرت كے عذاب كے اسباب ۲۳

عقيدہ :الله تعالى پر عقيدہ ۷; عقيدہ كى تاريخ ۷، ۸

كفار :كفار پر آخرت ميں عذاب ۲۴

كم فروشى :كم فروشى سے منع كرنا ۱۶

گنہگار :گنہگاروں پر آخرت كا عذاب ۲۴

مشركين : ۹

نظريہ كائنا ت:توحيدينظريہ كائنات ۱۲، ۱۳; نظريہ كائنات اور عقيدہ ۱۱

آیت ۸۵

( وَيَا قَوْمِ أَوْفُواْ الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ وَلاَ تَبْخَسُواْ النَّاسَ أَشْيَاءهُمْ وَلاَ تَعْثَوْاْ فِي الأَرْضِ مُفْسِدِينَ )

اے قوم ناپ تول ميں انصاف سے كام لو اور لوگوں كو كم چيزيں مت دو اور روئے زمين ميں فساد مت پھيلا تے پھرو (۸۵)

۱_ حضرت شعيب(ع) نے اپنے لوگوں سے تقاضا كيا كہ چيزوں كى خريد و فروخت كے ناپ و تول ميں كمى نہ كريں _

و يا قوم اوفوا المكيال و الميزان بالقسط

( مكيال) كا معنى پيمانہ ہے_ اسكو پورا بھر كے دينے كا معنى يہ ہے كہ جو پيمانہ بازار ميں چل رہ

۲۵۳

ہے اس سے كم نہ ہويعنى معمول كے مطابق پر كيا جائے_ ناپ و تول كے پورا كرنے كا معنى يہ ہے جس چيز كو ديا جارہا ہے اسكے وزن كى مقدار معمول بازار كے مطابق ہو اس سے كم نہ ہو_

۲_ حضرت شعيبعليه‌السلام اپنے لوگوں كو ان كے معاملات ميں عدل و انصاف كرنے كى دعوت دينے والے تھے_

و يا قوم اوفوا المكيال و الميزان بالقسط

۳_ قوم شعيبعليه‌السلام ميں اقتصادى امور ميں بے عدالتى اور ناپ تول ميں كمى كرنا، واضح ترين اقتصادى انحراف تھا_

و يا قوم اوفوا المكيال و الميزان بالقسط

۴_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے اپنى قوم سے كہا كہ لوگوں كى چيزوں كو خريدتے وقت ان كى مقدار ميں كمى نہ كريں اوران كى قيمت واقعى سے كم ظاہر نہ كرے_لا تبخسوألناس ا شياء هم

( نخس) يعنى كم كرنا اور عيب دار بيان كرنا (المصباح المنير)

۵_ انبياء كے پروگرام، عبادت، عقائد ، معاشرتى اور اقتصاد ى مسائل كو شامل ہوتے ہيں _

يا قوم اعبدوا اللّه و لا تبخسوا الناس أشياء هم

۶_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے اپنے لوگوں كو پورى سرزمين پر فساد كرنے سے منع كيا _و لا تعثوا فى ألارض مفسدين

(عَثو) ( لا تعثوا) كا مصدر ہے جو فساد كرنے كے معنى ميں آتا ہے_

۷_ فساد پھيلانا اور فساد كرنا، حرام او رناپسنديدہ كام ہے_و لا تعثوا فى ألارض مفسدين

(مفسدين ) كالفظ حال كى تاكيد ہے يعنى نہي''لا تعثوألا تفسدوا ''كى تاكيد كے ليے آيا ہے_

۸_ كم تولنا اورلوگوں كيچيزكو بے ارزش و كم قيمت جلوہ دينا، حرام اور زمين پر فساد پھيلانا ہے_

أوفوا المكيال و الميزان و لا تعثوا فى الارض مفسدين

۹_ فساد اور فساد پھيلانے كا مقابلہ كرنا، انبياء كے اہم مقاصدميں سے ہے_و لا تعثوا فى ألارض مفسدين

۱۰_ خوشحال معاشرے تمام سرزمين پر ظلم و ستم كو پھيلانے اوراقتصادى انحرافات كے خطرہ سے دو چار ہيں _

ان ارى كم بخير أوفوا المكيال و لا تعثوا فى الارض مفسدين

۲۵۴

احكام: ۷، ۸

اقتصاد :اقتصاد ميں عدالت كرنے كى دعوت ۲، ۴; اقتصادى خلاف ورزيوں كا سبب ۱۰;اقتصادى ضرر كى پہچان ۳، ۸

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام كا جہاد ۹;انبياءعليه‌السلام كى تعليمات كے پہلو ۵;انبياءعليه‌السلام كى عبادى تعليمات ۵; انبياءعليه‌السلام كى معاشرتى تعليمات ۵;انبياءعليه‌السلام كے اہداف ۹

اہل مدائن :اہل مدائن كا فتنہ برپا كرنا ۶; اہل مدائن كو دعوت ۱، ۲; اہل مدائن كى اقتصادى خلاف ورزياں ۳، ۴; اہل مدائن كى كم فروشى ۱، ۳

امراء :امراء اور اقتصادى خلاف ورزياں ۱۰; امراء اور ظلم كى وسعت۱۰

شعيبعليه‌السلام :حضر ت شعيبعليه‌السلام كى تعليمات ۱، ۲، ۴; حضرت شعيبعليه‌السلام كى دعوت ۱،۲،۴; حضرت شعيبعليه‌السلام كے انذار ۶

ظلم :ظلم كا پيش خيمہ ۱۰

فتنہ برپاكرنا :فتنہ برپا كرنے كا ممنوع ہونا ۶;فتنہ برپا كرنے كا ناپسند ہونا ۷;فتنہ برپا كرنے كى حرمت ۷; فتنہ برپا كرنے كے احكام ۷;فتنہ برپا كرنے كے ساتھ مقابلہ ۹; فتنہ برپا كرنے كے موارد ۸

كم فروشى :كم فروشى كى حرمت ۸; كم فروشى سے روكنا ۱

مال:دوسرے كے اموال كو بے قيمت جلوہ دينا ۴، ۸

محرمات : ۷

معاملہ :معاملہ كرنے كے احكام ۸

۲۵۵

آیت ۸۶

( بَقِيَّةُ اللّهِ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ وَمَا أَنَاْ عَلَيْكُم بِحَفِيظٍ )

اللہ كى طرف كا ذخيرہ تمھارے حق ميں بہت بہتر ہے اگر تم صاحب ايمان ہو اور اور ميں تمھارے معاملات كا نگران اور ذمہ دار نہيں ہوں (۸۶)

۱_عادلانہ طريقے والى تجارت وكاروبار سےجو نفع حاصل ہوتا ہے وہ نفع حلال اور پاك ہے_بقيت اللّه خير لكم

لين دين كے بارے ميں گفتگو اورمعاملات و تجارت ميں انصاف كرنا ممكن ہے يہ قرينہ ہو كہ (بقيت) (جو باقى رہ گيا ہے) اس سے مراد عادلانہ تجارت و لين دين سے فروخت كرنے والوں كا نفع ہے_

۲_ شرعى طريقے سے تجارت جو ظلم و ستم سے خالى ہو اسميں جو حلال منافع حاصل ہوتے ہيں وہ الله تعالى كى عطا ہے_

بقيّت اللّه خير لكم

مذكورہ بالامعني، لفظ ( بقيت ) كو (اللّہ) كى طرف اضافت دينے سے حاصل ہوا ہے_

۳_ صرف اہل ايمان، حلال اور انصاف كے ساتھ منافع حاصل ہونے كو اچھا سمجھتے ہيں اور حرام سے نفع حاصل كرنے كو ظالمانہ اور ناپسند خيال كرتے ہيں _بقيّت اللّه خير لكم ان كنتم مؤمنين

حلال اور انصاف سے حاصل ہونے والا منافع فقط اہل ايمان والوں كے ليے خير و بھلائي نہيں ہے بلكہ خواہ معاشرہ مومن ہو يا نہ ہو، عدل و انصاف دونوں كے ليے خير و بھلائي ہے ليكن ( ان كنتم مؤمنين ) ميں يقين كرنے اور سمجھنے كى شرط مومن ہونا ہے يعنى اگر تم ايمان والے ہو تو تمھيں يقين ہوگا كہ منافع حلال خير ہے ور نہ تمھيں يقين نہيں ہوگا _

۴_ حضرت شعيب(ع) نے اپنے لوگوں كو جو تعليمات ديں ان ميں سے تجارت كو عادلانہ اور احكام الہى كے سعادت مند ہونے اور منافع حلال ميں خير و بھلائي كا ہونا تھا_

۲۵۶

يا قوم بقيّت اللّه خير لكم

۵_ امت كى سعادت اور بھلائي، معارف الہى پر يقين اور ايمان لانے اور احكام دين پر عمل كرنے ميں ہے_

بقيّت اللّه خير لكم

بعض مفسّرين نے( بقيّت اللّہ ) سے مراد اطاعت الہى كو ليا ہے اور بعض نے احكام اور معارف الہى كو قرار ديا ہے ، مذكورہ معنى اسى نظريے كى بنياد پر ہے_

۶_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے مدائن كے لوگوں كو بتايا كہ وہ اپنى ان تعليمات كو قبول كرنے پر انہيں مجبور نہيں كرنا چاہتے _

و ما أنا عليكم بحفيظ

(حفيظ) مراقب اور نگہبان كے معنى ميں ہے_ كيونكہ( على ) كے ساتھ متعدى ہوا ہے تو تسلّط كا معنى بھى دے گا تو اس صورت ميں ( و ما انا ...) كا معنى يہ ہوگا كہ ميں تمھيں تمھارے غلط اعمال سے مجبوراً روكنے اور نيك اعمال كى طرف لے جانے پرمامور نہيں ہوں _

۷_ انبياءعليه‌السلام ، لوگوں كو معارف اور احكام الہى كو قبول كرنے ميں جبر كرنے پر مامور نہيں تھے_و ما انا عليكم بحفيظ

۸_عن الباقر عليه‌السلام ... نحن و اللّه بقية اللّه فى ارضه (۱)

امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ الله كى قسم ہم زمين پر ( بقية الله ) ہيں _

احكام : ۱انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام كى ذمہ داريوں كى حدود ۷

ايمان :ايمان كے آثار ۵; دين كى تعليمات پر ايمان ۵

الله تعالى :الله تعالى كى بخشيش۲/ائمہعليه‌السلام :ائمہعليه‌السلام كے درجات ۸

بقية الله :بقية الله سے مراد ۸

تجارت :تجارت كے احكام ۱; تجارت كے منافع ۲; تجارت كے منافع كا حلال ہونا ۱; تجارت ميں عدالت ۱، ۲;حلال تجارت ميں خير و بھلائي ۴

حلال :۱

____________________

۱) بحار الانوار ، ج ۶۹،ص ۱۸۸، ح ۹; بحار الانوار ، ج ۲۶، ص ۳۱۲، ح ۱_

۲۵۷

خير و بھلائي :خير و بھلائي كے عوامل ۵

دين :تعليمات دينى ميں خير و بھلائي ۴; دين ميں اكراہ و جبر كى نفى ۶، ۷

روايت : ۸

سعادت :سعادت كے اسباب ۴، ۵

شرعى فريضہ :شرعى فريضہ پر عمل كرنے كے آثار ۵

شعيبعليه‌السلام :حضرت شعيبعليه‌السلام كى تعليمات ۴، ۶;حضرت شعيبعليه‌السلام كى شريعت ميں آزادى ۶

مومنين :مومنين اور اقتصادى خلاف ورزياں ۳;مؤمنين كا ادراك كرنا ۳; مومنين كا عقيدہ ۳ ; مومنين كے فضائل ۳

منافع:حرام منافع ميں بھلائي كا نہ ہونا ۳; حلال منافع ۱،۲; حلال منافع ميں خير و بھلائي ہونا ۳، ۴

آیت ۸۷

( قَالُواْ يَا شُعَيْبُ أَصَلاَتُكَ تَأْمُرُكَ أَن نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَن نَّفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاء إِنَّكَ لَأَنتَ الْحَلِيمُ الرَّشِيدُ )

ان لوگوں نے طنز كيا كہ شعيب كيا تمھارى نماز تمھيں يہ حكم ديتى ہے كہ ہم اپنے بزرگوں كے معبودوں كو چھوڑديں يا اپنے اموال ميں اپنى مرضى كے مطابق تصرف نہ كريں تم تو بڑے بردبار اور سمجھ دار معلوم ہوتے ہو(۸۷)

۱_ حضرت شعيبعليه‌السلام كے دين ميں نماز ايك روشن ترين نمونہ تھا_قالوا يا شعيب عليه‌السلام ا صلاتك تأمرك

مدائن كے لوگ حضرت شعيبعليه‌السلام كے دينى كاموں ميں انكينماز كا نام ليتے تھے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ نماز انكے دينى امور ميں ايك واضح اور اہم امر تھا_

۲_ گذشتہ اديان ميں نماز، ايك شرعى حكم تھا_

قالوا ياشعيب ا صلاتك تأمرك

۳_ مدائن كے لوگ ،حضرت شعيبعليه‌السلام كى عبادت اور نماز كا مذاق اڑاتے تھے_ا صلاتك تأمرك ان نترك ما يعبد ء اباؤن

جملة(اصلاتك ) ميں استفہام، استہزاء اور مذاق اڑانے كو بتاتا ہے_

۴_ قوم شعيبعليه‌السلام اور ان كے ا باء اجداد، مشرك اور خدائے وحدہ لا شريك كے غير كى عبادت كرتے تھے _

ان نترك ما يعبد آباؤنا

۲۵۸

۵_ حضرت شعيبعليه‌السلام ، لوگوں كو غير الله كى عبادت ترك كرنے كى دعوت ديتےتھے اور اپنى قوم كى شرك پرستى كے ساتھ مقابلہ كرتے تھے_أصلاتك تأمرك ان نترك ما يعبد آباؤنا

۶_ قوم شعيب كى اپنے باپ دادا اور بزرگوں كے آداب و رسوم كى پابندى كرنا ، انكى جھوٹے خداؤں كى پرستش كرنے كا سبب ودليل تھى _أن نترك ما يعبد آباؤنا

(ما يعبد ...) ميں ''ما ''كے لفظ سے مراد بت اور معبود ہيں _ اور ان كى صفت جملہ ( يعبد آباؤنا ) كے ساتھ لانا يہ دليل ہے كہ وہ بت پرستى پر اصرار كرتے تھے_ تو اس صورت ميں ( ان نترك ...) كا معنى يوں ہوگا كہ ہم بتوں كى پوچا كو نہيں چھوڑتے كيونكہ ہمارے آباؤ اجداد ان كى عبادت كرتے تھے اور ہم بھى ان كى طرح ان كى پرستش كو جارى ركھيں گے_

۷_ قومى تعصب، اندھى تقليد و بے جا پيروى كرنے كا سبب بنتا ہے_أن نترك ما يعبد آباؤنا

۸_ معاشروں كا گذشتہ اقوام كے باطل آداب و رسوم كا پابند ہونا،ان كى افكار اور ان ميں حق كے پرچاركے لئے مانع ہے_

أن نترك ما يعبد آباؤنا

۹_حضرت شعيب(ع) كے معارف الہى كى تبليغ كے اصلى مخاطب، نوجوان اور درميانى عمر كے لوگ تھے_

أن نترك ما يعبد آباؤنا

(يعبد) جو فعل مضارع ہے اس سے يہ معلوم ہوتا ہے كہ ( آباؤنا ) سے مراد كہ فقط گذشتہ نسل مخاطب نہيں ہے_ بلكہ ان كے موجودہ آباؤ اجداد بھى مورد نظر ہيں تو اس صورت ميں طبيعى طور پر مخاطب، جوان اور درميانى عمر كے لوگ ہوں گے_

۱۰_ حضرت شعيب(ع) كى تعليمات ميں مالكوں كے ليے اپنے اموال ميں تصرف كرنے كے ليے خاص قواعد و ضوابط تھے_أصلاتك تأمرك ان نترك ما يعبد ء اباؤنا او ان نفعل فى اموالنا ما نشاؤ

( ان نفعل )كا ( ما يعبد) پر عطف ہے اسى وجہ سے ( ان نفعل ) (ان نترك ) كے ليے مفعول ہے_

۱۱_ اديان الہى ميں مالكوں كے ليے اپنے مال ميں

۲۵۹

تصرف كرنے كے ليےبے قيد و شرط اور مطلق آزادى درست نہيں ہے_اصلاتك تأمرك ان نترك ان نفعل فى اموالنا ما نَشَاؤ

۱۲_ مالكوں كو اپنے مال كے تصرف ميں كوئي قيد و شرط لگائے بغير آزادى دينا ، لين دين ميں بے عدالتى اور نا انصافى كا موجب ہوتى ہے_أوفوا المكيال و الميزان بالقسط ا و ان نفعل فى اموالنا ما نشاؤ

۱۳_ قوم شعيب نے مالك كو اپنے اموال كے دخل وتصرف ميں اسكى مرضى پر چھوڑ ديا اور اس كے ليے كو ئي قانون و ضابطہ قرار دينے كو مناسب نہيں سمجھتے تھے _أو أن نفعل فى ا موالنا ما نشاؤ

۱۴_حضرت شعيبعليه‌السلام حتى اپنى قوم كے كفار كے نزديك بھى تجربہ كا راور با فہم شخصيت تھے_

انك لا نت الحليم الرشيد

(حلم) كے معانى عقل و فہم كے ہيں حليم اوپر والى آيت ميں اسى سے مشتق ہے _(الرشيد )كا معنى تجربہ كار اور ہدايت يافتہ ہے _يہ بات قابل ذكر ہے كہ حضرت شعيبعليه‌السلام كا ہدايت يافتہ ہونےسے مدائن كے لوگوں كى مراد اخلاقى او رمعاشرتى امور و غيرہ تھے _

۱۵_حضرت شعيبعليه‌السلام اپنى قوم كے كافروں كے در ميان بھى نيك اخلاق ركھنے والے مشہور تھے _

انك لا نت الحليم الرشيد

مذكورہ بالا تفسير ميں (حليم )سے مراد بردبار شخص ليا گيا ہے _انسان كا بردبار ہونا اس كے نيك اخلاق ہونے كو بتاتا ہے_

۱۶_الله تعالى پيغمبروں كو مشہور نيك انسانوں ميں سے انتخاب كرتا ہے _انك لا نت الحليم الرشيد

۱۷_مدائن كے لوگ، اہل شرك كے معبودوں كے ساتھ حضرت شعيب(ع) كے جہاد كو ان كے رشد و فہم كے خلاف سمجھتے تھے _أصلاتك تا مرك ا ن نترك ما يعبد ء اباؤُنا ...انك لا نت الحليم الرشيد

۱۸_قوم شعيب كے لوگ، مالكوں كواپنے اموال كے تصرف كى آزادى ميں محدود كرنے كو نامعقول اور صحيح خيال نہيں كرتے تھے_أو أن نفعل فى اموالنا ما نَشَؤا انك لأنت الحليم الرشيد

اقتصاد :اقتصاد ميں ضرر كى پہچان ۱۲; اقتصادى خلاف ورزى كا سبب ۱۲

انبياءعليه‌السلام :

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945

946

947

948

949

950

951

952

953

954

955

956

957

958

959

960

961

962

963

964

965

966

967

968

969

970

971