تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 4%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 214685 / ڈاؤنلوڈ: 4511
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۸

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

عورت :اديان الہى ميں عورت ۲۲;عورت كا استقلال ۲۲; عورت كى ذمہ دارى ۲۲

كفار :كفار كے عذاب كا اعلان ۴

قوم لوطعليه‌السلام :سرزمين قوم لوط(ع) سے ہجرت ۱۳، ۱۴، ۱۵;قوم لوط(ع) كا عذاب ۲۴، ۲۷، ۲۸; قوم لوط(ع) كے عذاب كا وقت ۳، ۲۳، ۲۸;قوم لوط(ع) كے عذاب ميں تعجيل ۲۵; قوم لوط(ع) كے گناہ گار ۱۹

لوطعليه‌السلام :لوطعليه‌السلام اور ملائكہ ۲۵، ۲۸; لوطعليه‌السلام پر ايمان لانے والوں كى قلت ۱۲;لوطعليه‌السلام كے اطمينان ۸ ;لوطعليه‌السلام كا قصہ : ۱، ۲، ۳، ۷، ۸، ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۴، ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۱۸، ۱۹، ۲۴ ، ۲۵، ۲۶، ۲۷، ۲۸; لوطعليه‌السلام كا كفر كرنے والے ۱۹; لوط(ع) كا مربى ۶; لوط(ع) كا مقابلہ ۷; لوط(ع) كو وحى ۲; لوط(ع) كى امينت ۸;لوطعليه‌السلام كى جلدى ۲۴;لوطعليه‌السلام كى ذمہ

دارى ۱۴; لوطعليه‌السلام كى رات كو ہجرت ۱۱، ۲۷;لوطعليه‌السلام كى زوجہ كا عذاب ۱۸ ; لوطعليه‌السلام كى زوجہ كا كفر ۱۹; لوطعليه‌السلام كى زوجہ كا گناہ ۱۹ ; لوطعليه‌السلام كى گھر والوں كى ہجرت ۱۳;لوطعليه‌السلام كى مہمان نوازى ۷; لوطعليه‌السلام كى نجات ۱۳; لوطعليه‌السلام كى ہجرت ۱۳، ۱۴ ;لوطعليه‌السلام كى ہمسر كا مقدر ۱۸;لوطعليه‌السلام كى گھر والوں كا ايمان ۱۲; لوطعليه‌السلام كے گھر والوں كا پاك ہونا ۱۲;لوطعليه‌السلام كے مہمانوں كى رسالت ۲; لوطعليه‌السلام كے گھر والوں كى نجات ۱۳، ۲۶، ۲۷;لوطعليه‌السلام كے مہمان ۱;لوط(ع) كے ہمسفران ۱۶،۱۷ ; ہمسر لوط(ع) الہى عذاب كے وقت ۱۶، ۱۷; ہمسر لوطعليه‌السلام كا ہلاك ہونا ۲۸

ملائكہ :ملائكہ اور قوم لوط ۱۰; ملائكہ اور قوم لوط كا عذاب ۳; ملائكہ اور لوطعليه‌السلام ۲، ۸، ۱۱، ۱۵، ۱۶، ۲۴، ۲۶;ملائكہ اور لوطعليه‌السلام كے گھر والے ۱۵;ملائكہ كو نقصان پہنچانا ۹; ملائكہ كى نصيحت ۱۶

مہمان :مہمان سے دفاع كرنا ۷

۲۴۱

آیت ۸۲

( فَلَمَّا جَاء أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِّن سِجِّيلٍ مَّنضُودٍ )

پھر جب ہمارا عذاب آگيا تو ہم نے زمين كوتہ و بالا كرديا اور ان پر مسلسل كھر نجے دار پتھروں كى بارش كردى (۸۲)

۱_ الله تعالى نے ديار قوم لوط كہ تہہ و بالا كر كے ان كو نزول عذاب ميں گرفتار كيا _فلما جاء أمرنا جعلنا عليها و سافله

(عاليہا) (سافلہا) اور'' عليہا ''ميں جو '' ہا '' كى ضمير ہے وہ قريہ يا بہتسى بستيوں كى طرف لوٹتى ہے كہ جسميں قوم لوط زندگى بسر كرتے تھے_ ہر چيز كے عالى اور سافل سے اس كے اوپر اور نيچے والا حصّہ مراد ہے ( لسان العرب )

۲_ الله تعالى نے ديار قوم لوط كو تہہ و بالا كرنے كے ساتھ ساتھ ان پر سجّيل (كھر نجے دار پتھر) برسانے سے ان كو ہلاك كرديا_فلَمّا جاء امرنا أمطرنا عليها حجارة من سجيل

(سجّيل )كالفظ فارسى زبان كا ہے_ عربى زبان ميں استعمال ہو كرمعرب ہوگيا ہے يعني_ (كھرنجے دار پتھر)اور اسكا تلفظ ( سجّيل ) ہے ( لسان العرب )

۳_ قوم لوط دو مقامات پرساكنتھے ايك بلند مقام(پہاڑ كے دامن)اور دوسرے نيچے( ہموار زمين )پر _جعلنا عليها سافله

جملہ ( جعلنا عاليہاسافلہا) كادو طريقوں سے معنى كيا جاسكتا ہے۱_ ديار قوم لوط كے اوپر والے حصے كو ہم نيچے لائےيعنى اس كو تہہ و بالا كرديا ۲_ وہ گھر جو پہاڑ كے دامن ميں تھے انہيں ہموار زمين پر گراديا_ مذكورہ بالا مطلب دوسرے احتمال كى بنا ء پر ہے_

۴_ الله تعالى نے حضرت لوطعليه‌السلام كے مہمان فرشتوں كے ذريعہ ديار قوم لوط كوتباہ اور انہيں ہلاك كرديا _

انا أرسلنا الى قوم لوط انا رسل ربك فلما جاء أمر نا جعلنا عاليها سافله

الله تعالى نے ديارقوم لوط كى تخريب اور ان كے عذاب كے ليے فرشتوں كو بھيجا _ ليكن اس كام اور نزول عذاب كى نسبت اپنى طرف ديتے ہوئے فرمايا :(انا أرسلنا الى قوم لوط ) اور جملہ (جعلنا عالى ها سافلها ) سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ فرشتے نزول عذاب كے ليے وسيلہ تھے اور ان كا كام افعال الہى كا جلوہ تھا_

۵_ كائنات ميں فرشتوں كا عمل و دخل، حكم الہى سے اور اس كے افعال كا جلوہ ہے_

انا ارسلنا الى قوم لوط فلما جاء أمر نا جعلنا عالى ها سافله

۲۴۲

۶_ قوم لوط(ع) كے علاقہ كو تہہ و بالا كرنا اور ان پر پتھروں كى بارش كرنا يہ امر الہى سےبھيجا ہوا عذاب تھا_

فلما جاء أمرنا جعلنا عاليها سافلها و امرنا عليها حجارة

(أمرنا ) سے مراد عذاب الہى ہے _''عذاب'' كو امر كہنااس بات كى طرف اشارہ كرتا ہے كہ يہ نازل شدہ عذاب، امر اور فرمان الہى كى وجہ سے تھا_

۷_ قوم لوط پر نازل ہونے والا عذاب، سخت اور خوف ناك تھا_فلما جاء امرنا جعلنا عاليها سافله

(نا ) ضمير متكلم كى طرف لفظ ( امر) كا اضافہ كرنا عذاب كى عظمت اور بزرگى كو بتاتا ہے_

۸_ ظالم قوم لوط پر جو پتھر گرائے گئے وہ مٹى كے تہہ بہ تہہ اور آپس ميں ملے ہوئے پھتر ہوئے تھے_

و أمطرنا عليها حجارة من سجيل منضود

_(منضود ) يعنى ايك دوسرے كے اوپر ركھے گئے يہ لفظ ( سجيل) كى صفت واقع ہوئي ہے اسكا معنى يہ ہے كہ جو پتھر قوم لوط پر برسائے گئے مختلف تہہ ميں لگے ہوئے اور آپس ميں ملے ہوئے تھے_

۹_عن ا بى جعفر(ع) ان جبرئيل قال (لرسول اللّه ) انّى نوديت من تلقاء العرش اهبط الى قرية قوم لوط و ما حوت فاقلعها من تحت سبع ا رضين فهبطت على اهل القرية فاقلعتها ثم عرجت بها فقلّبتها عليهم حتى صار ا سفلها ا علاها فقال له رسول اللّه يا جبرئل و ا ين كانت قريتهم فى البلاد؟فقال جبرئيل كان موضح قريتهم فى موضع بحيرة طبرية اليوم و هى فى نواحى الشام قال له الرسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا رايتك حين قلّبتها عليهم فى ا يّى موضع من الارضين وقعت القرية و ا هلها ؟ فقال يا محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وقعت فيما بين بحرالشام الى مصر فصارت تلولاً فى البحر (۱)

امام محمد باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ جبرئيل آنحضرتعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور كہا كہ عرش سے نداء آئي كہ آبادى لوط اور اس كے درميانى حصے كى طرف اتر جاؤ اور اس جگہ كو سات زمينوں كے نيچے سے كھود ڈالو _ اور ميں وہاں گيا اور اس جگہ كو

____________________

۱) علل الشرائع ، ص ۵۵۱، ح ۵، ب ۳۴۰_ نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۳۸۴، ۱۶۶

۲۴۳

كھودا اور اسكو اوپر كى طرف اٹھا يا اور اس كو ان كے اوپر گرا ديايہاں تك كہ وہ تہہ و بالا ہوگئے _ آنحضرتعليه‌السلام نے جبرئيل سے سوال كيا قوم لوط كى آبادى كہاں تھى ؟ جبرئيل نے جواب ديا كہ ان كى آبادى آج جہاں دريا طبريہ واقع ہے وہاں ان كى آبادى تھى كہجو شام كے نواحى علاقہ ميں واقع تھا_ پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جبرائيل سے فرمايا :يہ بتاؤ كہ جب ان كى آبادى كو ان پر خراب كرديا تو وہ آبادى اور وہاں كے لوگ زمين كے كس مقام پر گرے_ جبرئيلعليه‌السلام نے عرض كى اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شام و مصر كے درميان دريا پر گرے اور ايك ٹيلے كى صورت ميں ہوگئے_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :آنحضرت اور قصہ لوطعليه‌السلام ۹

الله تعالى :افعال الہى كى نشانياں ۵;الله تعالى كے اوامر ۵،۶; الله تعالى كے عذاب ۱،۲، ۴،۶

سرزمين :قوم لوط كى سرزمين كا تہہ و بالا ہونا ۱،۶;قوم لوط كى سرزمين كا جغرافيہ ۳

روايت :۹

عذاب :عذاب استيصال ۱; عذاب سجّيل ۲، ۶، ۸;عذاب كا ذريعہ۲، ۸; عذاب كے مراتب ۷

قوم لوط(ع) :قوم لوط(ع) پر پتھروں كى بارش ۶; قوم لوط(ع) كا سخت عذاب ۷; قوم لوط(ع) كا عذاب ۱، ۲، ۴، ۸; قوم لوط(ع) كى تاريخ ۱، ۲، ۷; قوم لوطعليه‌السلام كى ہلاكت ۲،۴;قوم لوط(ع) كے عذاب كا سبب ۶;قوم لوط(ع) كے عذاب كى كيفيت ۹;قوم لوط(ع) كے عذاب والے پتھروں كى خصوصيات ۸

ملائكہ :افعال ملائكہ كا سبب ۵; ملائكہ كا عذاب ۴; ملائكہ كى قدر ت۴

۲۴۴

آیت ۸۳

( مُّسَوَّمَةً عِندَ رَبِّكَ وَمَا هِيَ مِنَ الظَّالِمِينَ بِبَعِيدٍ )

جن پر خدا كى طرف سے نشان لگے ہوئے تھے اور وہ بستى ان ظالموں سے كچھ دور نہيں ہے (۸۳)

۱_ ظالم قوم لوط پر جو پتھر برسائے گئے ان پرايك مخصوص نشانى تھى جس سے صرف الله تعالى ہى آگاہ تھا_

مسوّمة عند ربك

(سمية) و (سيماء) كا معنى نشانى و علامت ہے اور(تسويم) (مسّومة كا مصدر ہے) جسكا معنى علامت قرار دينا ہے_

يعنى نشانى و علامت ركھنے والى _ مذكورہ بالاتفسير ميں ( عند ربك ) كو (مسوّمة) كے متعلق قرار ديا گيا ہے_

۲_ قوم لوط پر جن پتھروں كو گرايا گيا وہ ايسى جگہ پر تھے كہ الله تعالى كے علاو كوئي بھى اس جگہ پر دسترسينہيں ركھتاتھا_

حجارة من سجيل منضود _ مسوّمة عند ربك

يہ مذكورہ تفسير اس صورت ميں ہوسكتى ہے جب ہم ( عند ربك ...)كو لفظ (مسوّمة) كى طرح لفظ ( حجارة) كے ليے صفت قرار ديں نہ يہ كہ لفظ (مسوّمة) كے ليے متعلق واقع ہو_ اس صورت ميں (عند ربك ...) كا معنى يوں ہوگا كہ وہ پتھر جو نازل ہوئے تھے وہ الله تعالى كے پاس تھے يعنى جس جگہ پر موجود تھے اس جگہ سے الله تعالى ہى آگاہ تھا_

۳_ الله تعالى كى ربوبيت كا تقاضا يہ ہے كہ انسانوں كے نظام كو منظم كرنے كے ليے گنہگاروں اور ظالموں كو سزا دے_

مسوّ مة عند ربّك

۴_ قوم لوط(ع) ، لواط جيسے برے عمل ميں آلودہ ہونے كى وجہ سے خداوند عالم كى بارگاہ ميں ظالم لوگ شمار ہوتے تھے _

وماهى من الظالمين ببعيد

۵_ قوم لوط كيبستي،مكہ كى سرزمين سے كچھ زيادہ فاصلہ نہيں ركھتى تھى _ما هى عن الظالمين ببعيد

مذكورہ معنى اسى صورت ميں ہے كہ جب (ہي) كى ضمير كو قوم لوط كى بستييا بستيوں كى طرف لوٹائيں ، اور ( الظالمين ) سے مراد كفار و مشركين مكہ ہوں _

۶_ الله تعالى نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا انكاركرنے والوں اور مشركين كو دنياوى عذاب اور پتھروں كے نازل ہونے كے عذاب سے ڈرايا_و ما هى من الظالمين ببعيد

۲۴۵

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو مخاطب(عند ربّك) قرار دينے كے بعد جملہ ( و ما ہى ...) كا ذكرممكن ہے اس بات پر قرينہ ہو كہ ان (الظالمين ) سے مراد عصر بعثت كے كافر و مشرك ہيں _

۷_ ستمگر معاشرے، دنياوى سزاؤں اور پتھروں والے عذاب ميں گرفتار ہونے والے ہيں _وماهى من الظالمين ببعيد

سياق كلام سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ (ہي) كى ضمير ممكن ہے (قرية) يعنيبستى يا بستيوں كى طرف لوٹے، ياپہلے والى آيت ميں لفظ ( حجارة) كى طرف پلٹ رہى ہو _تو دوسرى صورت ميں آيت كا معنى يہ ہوگا كہ فلاں پتھر ظالموں سے دور نہيں ہے ، يعنى ظالم اس عذاب ميں گرفتار ہونے والے ہيں اور ان كے ليے اس طرح كے پتھر آمادہ ہيں _

۷_ ہمجنس بازى كرنأظلم ہے اور جو معاشرہ جو اس مرض ميں مبتلا ہے وہ دنياوى عذاب ميں گرفتار ہونے والا ہے_

و ما هى من الظالمين ببعيد

مذكورہ آيات كى روشنى ميں (الظالمين) سے مراد لواط كرنے والے لوگ ہيں _

۸_ الله تعالى ، انسانوں كو گزرے ہوئے لوگوں كے واقعات اور ظالموں كے برے انجام سے عبرت حاصل كرنے كى دعوت ديتا ہے_و ما هى من الظالمين ببعيد

مذكورہ تفسير اس صورت ميں ہے جب ہم ( ہى ) كى ضمير سے مراد قوم لوط كى آبادى ليں تو (ما ہى ...) كا جملہ لوگوں كو اس بات كى ترغيب ديتا ہے كہ قوم لوط كى آبادى كى طرف نگاہ كرو اور عذب الہى كے آثار كا مشاہدہ كرو تا كہ تم اس سے عبرت حاصل كرسكو_

۱۰_عن ا بى جعفر عليه‌السلام ... قال اللّه عزوجل لمحمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : '' و ما هى من الظالمين ببعيد'' من ظالمى امتك ان عملوا ما عمل قوم لوط ... (۱)

امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے: كہ الله تعالى آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو مخاطب ہو كر فرما رہا ہے : اگر تيرى امت نے قوم لوط والے عمل كو انجام ديا ، تو وہ پتھر ظالموں سے دور نہيں ہيں _

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

____________________

۱) كافى ، ج ۵ ، ص ۵۴۶، ح ۵; نورالثقلين ، ج ۲ ، ص ۳۷۷، ح ۱۵۵_

۲۴۶

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے منكرين كى سزا ۶

انسان :انسانوں كودعوت ۹; انسانوں كا مدبّر ۳

الله تعالى :الله تعالى كا خوف دلوانا ۶;الله تعالى كا علم ۱۰;الله تعالى كى ربوبيت كے آثار ۳; الله تعالى كى دعوتيں ۹

پتھر :پتھر كى بارش سے ڈرانا ۶

سرزمين :قوم لوط كى سرزمين اور مكہ ۵;قوم لوط كى سرزمين كا جغرافيہ۵

سزا :دنياوى سزاؤں سے ڈرانا ۶

ظالمين :ظالموں پر پتھروں كى بارش ۷;ظالموں كى دنياوى سزا ۷; ظالموں كى سزا ۳; ظالموں كے انجام سے عبرت ۹; ظالموں كے انجام كا مطالعہ ۹; ظالموں كے عذاب كا نزديك ہونا ۱۰

ظلم :ظلم كے موارد ۴، ۸

عبرت :عبرت كے اسباب ۹

عذاب :سجيل ( چھوٹے نوكيلے پتھر) كا عذاب ۱، ۷;عذاب سے ڈرانا ۶

قوم لوط :قوم لوط كأظلم ۲;قوم لوط كے عذاب والے پتھروں كى جگہ ۲;قوم لوط كے عذاب والے پتھروں كى نشانى ۱; قوم لوط ميں لواط ۴

كفار :كفار كے موارد ۶

گنہگار :گنہگاروں كى سزا ۳

لواط :لواط كأظلم ۷

مشركين :مشركين كو ڈرانا ۶

ہم جنس باز لوگ :ہم جنس باز لوگوں كا دنيا ميں عذاب ۸

ہمجنس بازى :ہمجنس بازى كأظلم ، ۸

۲۴۷

آیت ۸۴

( وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْباً قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـهٍ غَيْرُهُ وَلاَ تَنقُصُواْ الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ إِنِّيَ أَرَاكُم بِخَيْرٍ وَإِنِّيَ أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ مُّحِيطٍ )

اور ہم نے مدين كى طرف ان كى بھائي شعيب كو بھيجا تو انھوں نے كہا كہ اے قوم اللہ كى عبادت كركہ اس كے علاوہ تيرا كوئي خدا نہيں ہے اور خبردار ناپ تول ميں كمى نہ كرنا كہ ميں تمھيں بھلائي ميں ديكھ رہا ہوں اور ميں تمھارے بارے ميں اس دن كے عذاب سے ڈرتا ہوں جو سب كو احاطہ كرلے گا(۸۴)

۱_ حضرت شعيبعليه‌السلام ،انبياء اور رسل الہى ميں سے تھے_و الى مدين أخاهم شعيب

۲_ حضرت شعيبعليه‌السلام كى رسالت، مدائن كے لوگوں تك محدو د تھى _و الى مدين اخاهم شعيب

۳_ حضرت شعيبعليه‌السلام اور مدائن كے لوگوں كے درميان رشتہ دارى اور حسب و نسب تھا_

و الى مدين اخاهم شعيب

(أخاہم)كا جملہ يہ بتاتا ہے كہ حضرت شعيبعليه‌السلام اہل مدائن ميں سے تھے اور ان كے رشتہ دار تھے يا يہ كہ ان كے ليے درد دل ركھنے والے تھے_ مذكورہ معنى احتمال اول كى صورت ميں بيان كيا گيا ہے_

۴_ حضرت شعيب،عليه‌السلام مقام رسالت پر فائز ہونے سے پہلے بھى مدائن كے لوگوں سے محبت اوران كے دكھ ميں شريك تھے_و الى مدين اخاهم شعيب

۵_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے لوگوں كے نفسياتى پہلو كواجا گر

۲۴۸

كرتے ہوئے اپنى دعوت كا آغاز كيا_قال يا قوم اعبدوا اللّه

(يا قوم ) كے جملے سے خطاب كرنا، نفسياتى پہلو كو اجا گر كرنا ہے_

۶_ حضرت شعيبعليه‌السلام كا مدائن كے لوگوں كو پہلا پيغام، خدائے وحدہ لاشريك كى عبادت كرنے كى دعوت دينا تھا_

قال يا قوم اعبدوا اللّه

۷_ مدائن كے لوگ ،الله تعالى كے وجود پر اعتقاد ركھتے تھے_قال يا قوم اعبدوا الله ما لكم من اله غيره

۸_ الله تعالى كے وجود پر يقين ركھنا ،تاريخ بشر ميں بہت بنيادى اعتقاد ہے_قال يا قوم اعبدوا اللّه ما لكم من اله غيره

۹_ حضرت شعيبعليه‌السلام كى قوم ،مشرك اور عبادت الہى سے منہ موڑنے والى تھي_اعبدوا اللّه ما لكم من اله غيره

۱۰_ انسان، قديم ايام سے ہى معبود كى عبادت اور اسكى طرف جھكاؤ ركھتا ہے_اعبدو ا اللّه ما لكم من اله غيره

۱۱_ الله تعالى كى عبادت ضرورى ہے اور اس كے علاوہ كوئي بھى عبادت كى لائق نہيں ہے_

اعبدوا اللّه ما لكم من اله غيره

۱۲_ توحيد عملى كى بنياد، توحيد نظرى ہے_اعبدوا اللّه مالكم من اله غيره

۱۳_صرف الله تعالى ہى حقيقت ميں لائق عبادت ہے_اعبدوا اللّه ما لكم من اله غيره

۱۴_ حضرت شعيبعليه‌السلام كى اصلى ذمہ داري، شرك كا مقابلہ كرنا تھا_قال يا قوم ما لكم من اله غيره

۱۵_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے اپنى قوم كو يہ بتايا كہ الله تعالى كے علاوہ كوئي معبود نہيں ہے اور ان كو توحيد پرستى اور شرك سے دور رہنے كى دعوت دى _قال يا قوم اعبدوا اللّه ما لكم من اله غيره

۱۶_ حضرت شعيب(ع) نے اپنى قوم سے چاہا كہ ترازو ميں دھو كا اور ناپ تول ميں كمى نہ كريں _

و لا تنقصوا المكيال و الميزان

(مكيال ) پيمانہ كے معنى ميں ہے_ كم كرنے كا معنى يا تو متعارف حجم سے كم يامتعارف مقدار كے پيمانہ كو پورا نہ بھرنا ہے ( ميزان) بھى ترازو كے معنى ميں ہے_ترازو كو كم ركھنے كا معنى يا تو يہ ہے كہ متعارف مقدار سے كم اس ميں وزن كيا جائے يا جو تولنے كى مقدار ہے اس كو كم كرناہے كہ وہ مقدار معين سے كم ہو_

۱۷_ حضرت شعيبعليه‌السلام كى قوم كے درميان كا روبارى امور ميں كم فروشى اور بے عدالتى كا پايا جانا_

و لا تنقصوا المكيال و الميزان

۲۴۹

۱۸_ حضرت شعيبعليه‌السلام كى قوم ،الله تعالى كى نعمتوں ، روزى اور مال و منال سے بہرہ مند تھے_انى ارى كم بخير

(ارى ) كا مصدر (رؤيت) ہے جو ديكھنے اور مشاہدہ كرنے كے معنى ميں آتا ہے_ ( بخير) ميں باء ملابست ہے يہاں ( خير ) سے مراد پہلے والى آيت ( لا تنقصوا ...) كے قرينہ كى وجہ سے روزى اور مال و ثروت ہے _ تو آيت كا معنى يوں ہوگا كہ تم تو مال و ثروت ركھنے والے لوگ ہوتمھارے ليےيہ بات صحيح نہيں ہے كہ تم كم تولنے كا بہانہ بناؤ_

۱۹_ حضرت شعيبعليه‌السلام كى قوم نے اپنى زندگى ميں روزى اور مال و ثروت فراواں ركھنے كے باوجود بھى دھو كہ دہى اور كم تولنا شروع كرديا تھا_لا تنقصوا ان ارى كم بخير

۲۰_ لوگوں كا غنى و ثروت مند ہونا، كوئي بنيادى دليل نہيں بن سكتى كہ وہ تجارت ميں دھو كہ دہى نہ كرے_

لا تنقصوا المكيال و الميزان انى ارى كم بخير

۲۱_ حضرت شعيبعليه‌السلام كى قوم ،فہم و ذكاوت سے بہرہ مند تھي_انّى ارى كم بخير

( انى اراكم بخير ) كے جملے كو (اعبدوا اللّہ ...) كے ليے علت قرار دے سكتے ہيں تو اس صورت ميں ( خير) سے مراد ہوش و ذكاوت ہوگى كيونكہ وحدہ لا شريك كى عبادت كى طرف توجہ ہونا عقل و فہم كے ساتھ سازگار ہے _ تو اس صورت ميں ( اعبدوا اللّہ انى ارى كم بخير) كا معنى يوں ہوگا كہ تم لوگ عقل و فہم ركھتے ہو لہذاو حدہ لاشريك كى عبادت كرو _تم سے بعيد ہے كہ اس كے ساتھ شريك قراردو_

۲۲_ حضرت شعيبعليه‌السلام اپنى قوم كے گنہگار اور مشركين كے مستقبل كے بارے ميں پريشان تھے_

انّى ا خاف عليكم عذاب يوم محيط

۲۳_ غير الله كى عبادت، عبادت ميں شرك اور ظلم كرنا نيز تجاوز كرنے ميں جلدى كرنا ،قيامتكے عذاب كا سببہے_

اعبدوا اللّه ولا تنقصوا المكيال انى ا خاف عليكم عذاب يوم محيط

۲۴_ قيامت كے دن كا عذاب، ايسا عذاب ہے جو تمام گنہگاروں اور كافروں كو شامل ہوگا _انّى أخاف عليكم عذاب يوم محيط

كلمة( محيط) كا معنى (احاطہ كرنے والا اور تمام كو شامل ہونے والا) ہے ظاہراً يہ ( يوم ) كے لفظ كے ليے صفت واقع ہوا ہے_اصل ميں عذاب كى صفت كو بيان كر رہا ہے يعني'' محيط عذابہ ''

۲۵۰

۲۵_ قيامت كے دن كے عذاب ميں گرفتار ہونے والوں كا فرار ناممكن ہے_انّى ا خاف عليكم عذاب يوم محيط

(عذاب ) كى جو صفت '' تمام كو شامل ہونے والا'' بيان ہوئي ہے اس سے مراد وہ لوگ ہيں جو عذاب كے مستحق ہيں _ تمام لوگوں كو شامل ہوگا كسى سے نہيں ٹلے گا _ يعنى جو مستحق عذاب ہيں ان سے ٹلنے والا نہيں ہے _ يعنى گنہگاروں پر ہر طرف سے اس طرح عذاب آجائے گا كہ وہ كسى صورت ميں فرار نہيں كر سكيں گے_

۲۶_عن ا بى عبداللّه عليه‌السلام : لم يبعث اللّه عزوجل من العرب الا خمسة انبياء : هوداً و صالحاً و اسماعيلً و شعيباً و محمداً خاتم النبيين صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،وكان شعيب بكاء (۱)

امام صادق(ع) سے روايت ہے كہ الله تعالى نے عربوں ميں سے صرف پانچ انبياءعليه‌السلام كو مبعوث رسالت فرمايا ہے حضرت ہودعليه‌السلام ،حضرت صالحعليه‌السلام ، حضرت اسماعيلعليه‌السلام ، حضرت شعيبعليه‌السلام اور خاتم المرسلينصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ليكن حضرت شعيبعليه‌السلام ان ميں سے سب سے زيادہ گريہ كرنے والے تھے_

۲۷_عن على بن الحسين عليه‌السلام قال : ان اوّل من عمل المكيال و الميزان شعيب النبى عليه‌السلام عمله بيده ..(۲)

امام على بن الحسين زين العابدين(ع) فرماتے ہيں : پيمانہ اور ترازو كوسب سے پہلے بنانے والے حضرت شعيب نبىعليه‌السلام تھے ، جسكو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے بنايا _

۲۸_عن ابى جعفر عليه‌السلام ( فى حديث طويل) و ا ما شعيب فانه ا رسل الى مدين و هى لا تكمل اربعين بيتاً (۳)

امام باقرعليه‌السلام سے ايك بہت طولانى روايت ہے اسميں حضرتعليه‌السلام فرماتے ہيں جب حضرت شعيبعليه‌السلام كو مدائن ميں نبى بنا كر بھيجا گيا تو اسوقت مدائن ميں چاليس گھر نہيں تھے_

۲۹_عن أبى عبداللّه عليه‌السلام فى قول اللّه : ''انى اراكم بخير '' قال : كان سعرهم رخيصاً (۴)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ ( انى اراكم بخير) سے مراد آيت ميں يہ ہے كہ ان كے درميان چيزوں كى قيمت كم تھى _

اقتصاد :اقتصاد ميں خلاف ورزى كے آثار۲۳

____________________

۱)قصص الانبياء رواندى ، ص ۱۴۵، ح ۱۵۷; بحار الانوار ، ج ۱۲ ص ۳۸۵ ، ح ۱۱_۲)قصص الانبياء رواندى ، ص ۱۴۲، ح ۱۵۳; بحار الانوار ، ج ۱۲، ص ۳۸۲، ح ۶_

۳)كمال الدين صدوق ، ص ۲۲۰ ، ح ۲، ب ۲۲; بحار الانوار ، ج ۱۱، ص ۵۱، ح ۴۹_۴) تفسير عياشى ، ج ۲ ، ص ۱۵۹ ، ح ۶۱; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۳۹۰، ح ۱۸۸_

۲۵۱

انبياء :انبياء سے رشتہ دارى ۳; عرب كے انبياءعليه‌السلام ۲; علاقائي انبياءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۲

انسان :انسان كا جھكاؤ ۱۰

اہل مدائن :اہل مدائن كا انجام ۲۲;اہل مدائن كا شرك ۹; اہل مدائن كا عقيدہ ۷; اہل مدائن كا فہم ۲۱; اہل مدائن كا فہم و درك ۲۱; اہل مدائن كا كفر ۹;اہل مدائن كو الله كى پہچان ۷; اہل مدائن كو دعوت ۶، ۱۵، ۱۶;اہل مدائن كى اقتصادى خلاف ورزياں ۱۷، ۱۹; اہل مدائن كى تاريخ ۹، ۱۵، ۱۷، ۱۸، ۱۹;اہل مدائن كى ثروتمندى ۱۸، ۱۹; اہل مدائن كى كم فروشى ۱۷، ۱۹; اہل مدائن كى نعمتيں ۱۸، ۲۱;اہل مدائن كے تعداد ميں كمى ۲۸;اہل مدائن كے پيغمبر ۲;اہل مدائن ميں اشياء كا كم قيمت ہونا ۲۹; اہل مدائن ميں بے عدالتى ۱۷

الله تعالى :الله تعالى كى خصوصيات ۱۳; الله تعالى كى معرفتكى تاريخ ۷، ۸

الله كے رسول : ۱

ايمان :الله تعالى پر ايمان لانا ۸; توحيد پر ايمان لانے كى اہميت ۱۱

تبليغ :تبليغ ميں احساسات كو ابھارنا ۵

توحيد :توحيد عبادى ۱۳;توحيد عبادى كى اہميت ۶،۱۱; توحيد عبادى كى طرف دعوت ۶،۱۵; توحيد عملى كا پيش خيمہ ۱۲; توحيد نظرى كى اہميت ۱۲/ثروت :ثروت اور اقتصادى خلاف ورزياں ۲۰

جھكاؤ:عبادت كى طرف جھكاؤ ۱۰; معبود كى طرف جھكاؤ ۱۰

روايت : ۲۶، ۲۷، ۲۸، ۲۹

شرك :شرك سے اجتناب كى دعوت ۱۵;شرك عبادى كے آثار ۲۳

شعيبعليه‌السلام :حضرت شعيبعليه‌السلام اور اہل مدائن ۳; حضرت شعيبعليه‌السلام اور ترازو ۲۷; حضرت شعيبعليه‌السلام اور كثرت گريہ ۲۶; حضرت شعيبعليه‌السلام اور گنہگار ۲۲; حضرت شعيبعليه‌السلام اور مشركين ۲۲; حضرت شعيبعليه‌السلام اور نا پنے كا پيمانہ ۲۷; حضرت شعيب كا شرك سے مقابلہ ۱۴; حضرت شعيبعليه‌السلام كا مہربان ہونا ۴; حضرت شعيبعليه‌السلام كى پريشانى ۲۲;حضرت شعيبعليه‌السلام كى تبليغ ۱۵; حضرت شعيبعليه‌السلام كى تبليغ كا طريقہ ۵; حضرت شعيبعليه‌السلام كى تعليمات ۶; حضرت شعيبعليه‌السلام كى دعوت دينا ۵، ۱۵، ۱۶; حضرت شعيبعليه‌السلام كى رسالت ۱۴; حضرت

۲۵۲

شعيبعليه‌السلام كى رسالت كا محدود ہونا ۲; حضرت شعيبعليه‌السلام كى قوميت ۲۶; حضرت شعيبعليه‌السلام كى نبوت ۱; حضرت شعيبعليه‌السلام كے پيش آنے كا طريقہ ۴; حضر شعيبعليه‌السلام كے رشتہ دار۳; حضرت شعيبعليه‌السلام كے فضائل۴; حضرت شعيبعليه‌السلام نبوت سے پہلے ۴

ظلم :ظلم كے آثار ۱۳

عذاب :آخرت كے عذاب كا حتمى ہونا ۱۵; آخرت كے عذاب كا عمومى ہونا ۲۴;آخرت كے عذاب كى خصوصيات ۲۴; آخرت كے عذاب كے اسباب ۲۳

عقيدہ :الله تعالى پر عقيدہ ۷; عقيدہ كى تاريخ ۷، ۸

كفار :كفار پر آخرت ميں عذاب ۲۴

كم فروشى :كم فروشى سے منع كرنا ۱۶

گنہگار :گنہگاروں پر آخرت كا عذاب ۲۴

مشركين : ۹

نظريہ كائنا ت:توحيدينظريہ كائنات ۱۲، ۱۳; نظريہ كائنات اور عقيدہ ۱۱

آیت ۸۵

( وَيَا قَوْمِ أَوْفُواْ الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ وَلاَ تَبْخَسُواْ النَّاسَ أَشْيَاءهُمْ وَلاَ تَعْثَوْاْ فِي الأَرْضِ مُفْسِدِينَ )

اے قوم ناپ تول ميں انصاف سے كام لو اور لوگوں كو كم چيزيں مت دو اور روئے زمين ميں فساد مت پھيلا تے پھرو (۸۵)

۱_ حضرت شعيب(ع) نے اپنے لوگوں سے تقاضا كيا كہ چيزوں كى خريد و فروخت كے ناپ و تول ميں كمى نہ كريں _

و يا قوم اوفوا المكيال و الميزان بالقسط

( مكيال) كا معنى پيمانہ ہے_ اسكو پورا بھر كے دينے كا معنى يہ ہے كہ جو پيمانہ بازار ميں چل رہ

۲۵۳

ہے اس سے كم نہ ہويعنى معمول كے مطابق پر كيا جائے_ ناپ و تول كے پورا كرنے كا معنى يہ ہے جس چيز كو ديا جارہا ہے اسكے وزن كى مقدار معمول بازار كے مطابق ہو اس سے كم نہ ہو_

۲_ حضرت شعيبعليه‌السلام اپنے لوگوں كو ان كے معاملات ميں عدل و انصاف كرنے كى دعوت دينے والے تھے_

و يا قوم اوفوا المكيال و الميزان بالقسط

۳_ قوم شعيبعليه‌السلام ميں اقتصادى امور ميں بے عدالتى اور ناپ تول ميں كمى كرنا، واضح ترين اقتصادى انحراف تھا_

و يا قوم اوفوا المكيال و الميزان بالقسط

۴_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے اپنى قوم سے كہا كہ لوگوں كى چيزوں كو خريدتے وقت ان كى مقدار ميں كمى نہ كريں اوران كى قيمت واقعى سے كم ظاہر نہ كرے_لا تبخسوألناس ا شياء هم

( نخس) يعنى كم كرنا اور عيب دار بيان كرنا (المصباح المنير)

۵_ انبياء كے پروگرام، عبادت، عقائد ، معاشرتى اور اقتصاد ى مسائل كو شامل ہوتے ہيں _

يا قوم اعبدوا اللّه و لا تبخسوا الناس أشياء هم

۶_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے اپنے لوگوں كو پورى سرزمين پر فساد كرنے سے منع كيا _و لا تعثوا فى ألارض مفسدين

(عَثو) ( لا تعثوا) كا مصدر ہے جو فساد كرنے كے معنى ميں آتا ہے_

۷_ فساد پھيلانا اور فساد كرنا، حرام او رناپسنديدہ كام ہے_و لا تعثوا فى ألارض مفسدين

(مفسدين ) كالفظ حال كى تاكيد ہے يعنى نہي''لا تعثوألا تفسدوا ''كى تاكيد كے ليے آيا ہے_

۸_ كم تولنا اورلوگوں كيچيزكو بے ارزش و كم قيمت جلوہ دينا، حرام اور زمين پر فساد پھيلانا ہے_

أوفوا المكيال و الميزان و لا تعثوا فى الارض مفسدين

۹_ فساد اور فساد پھيلانے كا مقابلہ كرنا، انبياء كے اہم مقاصدميں سے ہے_و لا تعثوا فى ألارض مفسدين

۱۰_ خوشحال معاشرے تمام سرزمين پر ظلم و ستم كو پھيلانے اوراقتصادى انحرافات كے خطرہ سے دو چار ہيں _

ان ارى كم بخير أوفوا المكيال و لا تعثوا فى الارض مفسدين

۲۵۴

احكام: ۷، ۸

اقتصاد :اقتصاد ميں عدالت كرنے كى دعوت ۲، ۴; اقتصادى خلاف ورزيوں كا سبب ۱۰;اقتصادى ضرر كى پہچان ۳، ۸

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام كا جہاد ۹;انبياءعليه‌السلام كى تعليمات كے پہلو ۵;انبياءعليه‌السلام كى عبادى تعليمات ۵; انبياءعليه‌السلام كى معاشرتى تعليمات ۵;انبياءعليه‌السلام كے اہداف ۹

اہل مدائن :اہل مدائن كا فتنہ برپا كرنا ۶; اہل مدائن كو دعوت ۱، ۲; اہل مدائن كى اقتصادى خلاف ورزياں ۳، ۴; اہل مدائن كى كم فروشى ۱، ۳

امراء :امراء اور اقتصادى خلاف ورزياں ۱۰; امراء اور ظلم كى وسعت۱۰

شعيبعليه‌السلام :حضر ت شعيبعليه‌السلام كى تعليمات ۱، ۲، ۴; حضرت شعيبعليه‌السلام كى دعوت ۱،۲،۴; حضرت شعيبعليه‌السلام كے انذار ۶

ظلم :ظلم كا پيش خيمہ ۱۰

فتنہ برپاكرنا :فتنہ برپا كرنے كا ممنوع ہونا ۶;فتنہ برپا كرنے كا ناپسند ہونا ۷;فتنہ برپا كرنے كى حرمت ۷; فتنہ برپا كرنے كے احكام ۷;فتنہ برپا كرنے كے ساتھ مقابلہ ۹; فتنہ برپا كرنے كے موارد ۸

كم فروشى :كم فروشى كى حرمت ۸; كم فروشى سے روكنا ۱

مال:دوسرے كے اموال كو بے قيمت جلوہ دينا ۴، ۸

محرمات : ۷

معاملہ :معاملہ كرنے كے احكام ۸

۲۵۵

آیت ۸۶

( بَقِيَّةُ اللّهِ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ وَمَا أَنَاْ عَلَيْكُم بِحَفِيظٍ )

اللہ كى طرف كا ذخيرہ تمھارے حق ميں بہت بہتر ہے اگر تم صاحب ايمان ہو اور اور ميں تمھارے معاملات كا نگران اور ذمہ دار نہيں ہوں (۸۶)

۱_عادلانہ طريقے والى تجارت وكاروبار سےجو نفع حاصل ہوتا ہے وہ نفع حلال اور پاك ہے_بقيت اللّه خير لكم

لين دين كے بارے ميں گفتگو اورمعاملات و تجارت ميں انصاف كرنا ممكن ہے يہ قرينہ ہو كہ (بقيت) (جو باقى رہ گيا ہے) اس سے مراد عادلانہ تجارت و لين دين سے فروخت كرنے والوں كا نفع ہے_

۲_ شرعى طريقے سے تجارت جو ظلم و ستم سے خالى ہو اسميں جو حلال منافع حاصل ہوتے ہيں وہ الله تعالى كى عطا ہے_

بقيّت اللّه خير لكم

مذكورہ بالامعني، لفظ ( بقيت ) كو (اللّہ) كى طرف اضافت دينے سے حاصل ہوا ہے_

۳_ صرف اہل ايمان، حلال اور انصاف كے ساتھ منافع حاصل ہونے كو اچھا سمجھتے ہيں اور حرام سے نفع حاصل كرنے كو ظالمانہ اور ناپسند خيال كرتے ہيں _بقيّت اللّه خير لكم ان كنتم مؤمنين

حلال اور انصاف سے حاصل ہونے والا منافع فقط اہل ايمان والوں كے ليے خير و بھلائي نہيں ہے بلكہ خواہ معاشرہ مومن ہو يا نہ ہو، عدل و انصاف دونوں كے ليے خير و بھلائي ہے ليكن ( ان كنتم مؤمنين ) ميں يقين كرنے اور سمجھنے كى شرط مومن ہونا ہے يعنى اگر تم ايمان والے ہو تو تمھيں يقين ہوگا كہ منافع حلال خير ہے ور نہ تمھيں يقين نہيں ہوگا _

۴_ حضرت شعيب(ع) نے اپنے لوگوں كو جو تعليمات ديں ان ميں سے تجارت كو عادلانہ اور احكام الہى كے سعادت مند ہونے اور منافع حلال ميں خير و بھلائي كا ہونا تھا_

۲۵۶

يا قوم بقيّت اللّه خير لكم

۵_ امت كى سعادت اور بھلائي، معارف الہى پر يقين اور ايمان لانے اور احكام دين پر عمل كرنے ميں ہے_

بقيّت اللّه خير لكم

بعض مفسّرين نے( بقيّت اللّہ ) سے مراد اطاعت الہى كو ليا ہے اور بعض نے احكام اور معارف الہى كو قرار ديا ہے ، مذكورہ معنى اسى نظريے كى بنياد پر ہے_

۶_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے مدائن كے لوگوں كو بتايا كہ وہ اپنى ان تعليمات كو قبول كرنے پر انہيں مجبور نہيں كرنا چاہتے _

و ما أنا عليكم بحفيظ

(حفيظ) مراقب اور نگہبان كے معنى ميں ہے_ كيونكہ( على ) كے ساتھ متعدى ہوا ہے تو تسلّط كا معنى بھى دے گا تو اس صورت ميں ( و ما انا ...) كا معنى يہ ہوگا كہ ميں تمھيں تمھارے غلط اعمال سے مجبوراً روكنے اور نيك اعمال كى طرف لے جانے پرمامور نہيں ہوں _

۷_ انبياءعليه‌السلام ، لوگوں كو معارف اور احكام الہى كو قبول كرنے ميں جبر كرنے پر مامور نہيں تھے_و ما انا عليكم بحفيظ

۸_عن الباقر عليه‌السلام ... نحن و اللّه بقية اللّه فى ارضه (۱)

امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ الله كى قسم ہم زمين پر ( بقية الله ) ہيں _

احكام : ۱انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام كى ذمہ داريوں كى حدود ۷

ايمان :ايمان كے آثار ۵; دين كى تعليمات پر ايمان ۵

الله تعالى :الله تعالى كى بخشيش۲/ائمہعليه‌السلام :ائمہعليه‌السلام كے درجات ۸

بقية الله :بقية الله سے مراد ۸

تجارت :تجارت كے احكام ۱; تجارت كے منافع ۲; تجارت كے منافع كا حلال ہونا ۱; تجارت ميں عدالت ۱، ۲;حلال تجارت ميں خير و بھلائي ۴

حلال :۱

____________________

۱) بحار الانوار ، ج ۶۹،ص ۱۸۸، ح ۹; بحار الانوار ، ج ۲۶، ص ۳۱۲، ح ۱_

۲۵۷

خير و بھلائي :خير و بھلائي كے عوامل ۵

دين :تعليمات دينى ميں خير و بھلائي ۴; دين ميں اكراہ و جبر كى نفى ۶، ۷

روايت : ۸

سعادت :سعادت كے اسباب ۴، ۵

شرعى فريضہ :شرعى فريضہ پر عمل كرنے كے آثار ۵

شعيبعليه‌السلام :حضرت شعيبعليه‌السلام كى تعليمات ۴، ۶;حضرت شعيبعليه‌السلام كى شريعت ميں آزادى ۶

مومنين :مومنين اور اقتصادى خلاف ورزياں ۳;مؤمنين كا ادراك كرنا ۳; مومنين كا عقيدہ ۳ ; مومنين كے فضائل ۳

منافع:حرام منافع ميں بھلائي كا نہ ہونا ۳; حلال منافع ۱،۲; حلال منافع ميں خير و بھلائي ہونا ۳، ۴

آیت ۸۷

( قَالُواْ يَا شُعَيْبُ أَصَلاَتُكَ تَأْمُرُكَ أَن نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَن نَّفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاء إِنَّكَ لَأَنتَ الْحَلِيمُ الرَّشِيدُ )

ان لوگوں نے طنز كيا كہ شعيب كيا تمھارى نماز تمھيں يہ حكم ديتى ہے كہ ہم اپنے بزرگوں كے معبودوں كو چھوڑديں يا اپنے اموال ميں اپنى مرضى كے مطابق تصرف نہ كريں تم تو بڑے بردبار اور سمجھ دار معلوم ہوتے ہو(۸۷)

۱_ حضرت شعيبعليه‌السلام كے دين ميں نماز ايك روشن ترين نمونہ تھا_قالوا يا شعيب عليه‌السلام ا صلاتك تأمرك

مدائن كے لوگ حضرت شعيبعليه‌السلام كے دينى كاموں ميں انكينماز كا نام ليتے تھے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ نماز انكے دينى امور ميں ايك واضح اور اہم امر تھا_

۲_ گذشتہ اديان ميں نماز، ايك شرعى حكم تھا_

قالوا ياشعيب ا صلاتك تأمرك

۳_ مدائن كے لوگ ،حضرت شعيبعليه‌السلام كى عبادت اور نماز كا مذاق اڑاتے تھے_ا صلاتك تأمرك ان نترك ما يعبد ء اباؤن

جملة(اصلاتك ) ميں استفہام، استہزاء اور مذاق اڑانے كو بتاتا ہے_

۴_ قوم شعيبعليه‌السلام اور ان كے ا باء اجداد، مشرك اور خدائے وحدہ لا شريك كے غير كى عبادت كرتے تھے _

ان نترك ما يعبد آباؤنا

۲۵۸

۵_ حضرت شعيبعليه‌السلام ، لوگوں كو غير الله كى عبادت ترك كرنے كى دعوت ديتےتھے اور اپنى قوم كى شرك پرستى كے ساتھ مقابلہ كرتے تھے_أصلاتك تأمرك ان نترك ما يعبد آباؤنا

۶_ قوم شعيب كى اپنے باپ دادا اور بزرگوں كے آداب و رسوم كى پابندى كرنا ، انكى جھوٹے خداؤں كى پرستش كرنے كا سبب ودليل تھى _أن نترك ما يعبد آباؤنا

(ما يعبد ...) ميں ''ما ''كے لفظ سے مراد بت اور معبود ہيں _ اور ان كى صفت جملہ ( يعبد آباؤنا ) كے ساتھ لانا يہ دليل ہے كہ وہ بت پرستى پر اصرار كرتے تھے_ تو اس صورت ميں ( ان نترك ...) كا معنى يوں ہوگا كہ ہم بتوں كى پوچا كو نہيں چھوڑتے كيونكہ ہمارے آباؤ اجداد ان كى عبادت كرتے تھے اور ہم بھى ان كى طرح ان كى پرستش كو جارى ركھيں گے_

۷_ قومى تعصب، اندھى تقليد و بے جا پيروى كرنے كا سبب بنتا ہے_أن نترك ما يعبد آباؤنا

۸_ معاشروں كا گذشتہ اقوام كے باطل آداب و رسوم كا پابند ہونا،ان كى افكار اور ان ميں حق كے پرچاركے لئے مانع ہے_

أن نترك ما يعبد آباؤنا

۹_حضرت شعيب(ع) كے معارف الہى كى تبليغ كے اصلى مخاطب، نوجوان اور درميانى عمر كے لوگ تھے_

أن نترك ما يعبد آباؤنا

(يعبد) جو فعل مضارع ہے اس سے يہ معلوم ہوتا ہے كہ ( آباؤنا ) سے مراد كہ فقط گذشتہ نسل مخاطب نہيں ہے_ بلكہ ان كے موجودہ آباؤ اجداد بھى مورد نظر ہيں تو اس صورت ميں طبيعى طور پر مخاطب، جوان اور درميانى عمر كے لوگ ہوں گے_

۱۰_ حضرت شعيب(ع) كى تعليمات ميں مالكوں كے ليے اپنے اموال ميں تصرف كرنے كے ليے خاص قواعد و ضوابط تھے_أصلاتك تأمرك ان نترك ما يعبد ء اباؤنا او ان نفعل فى اموالنا ما نشاؤ

( ان نفعل )كا ( ما يعبد) پر عطف ہے اسى وجہ سے ( ان نفعل ) (ان نترك ) كے ليے مفعول ہے_

۱۱_ اديان الہى ميں مالكوں كے ليے اپنے مال ميں

۲۵۹

تصرف كرنے كے ليےبے قيد و شرط اور مطلق آزادى درست نہيں ہے_اصلاتك تأمرك ان نترك ان نفعل فى اموالنا ما نَشَاؤ

۱۲_ مالكوں كو اپنے مال كے تصرف ميں كوئي قيد و شرط لگائے بغير آزادى دينا ، لين دين ميں بے عدالتى اور نا انصافى كا موجب ہوتى ہے_أوفوا المكيال و الميزان بالقسط ا و ان نفعل فى اموالنا ما نشاؤ

۱۳_ قوم شعيب نے مالك كو اپنے اموال كے دخل وتصرف ميں اسكى مرضى پر چھوڑ ديا اور اس كے ليے كو ئي قانون و ضابطہ قرار دينے كو مناسب نہيں سمجھتے تھے _أو أن نفعل فى ا موالنا ما نشاؤ

۱۴_حضرت شعيبعليه‌السلام حتى اپنى قوم كے كفار كے نزديك بھى تجربہ كا راور با فہم شخصيت تھے_

انك لا نت الحليم الرشيد

(حلم) كے معانى عقل و فہم كے ہيں حليم اوپر والى آيت ميں اسى سے مشتق ہے _(الرشيد )كا معنى تجربہ كار اور ہدايت يافتہ ہے _يہ بات قابل ذكر ہے كہ حضرت شعيبعليه‌السلام كا ہدايت يافتہ ہونےسے مدائن كے لوگوں كى مراد اخلاقى او رمعاشرتى امور و غيرہ تھے _

۱۵_حضرت شعيبعليه‌السلام اپنى قوم كے كافروں كے در ميان بھى نيك اخلاق ركھنے والے مشہور تھے _

انك لا نت الحليم الرشيد

مذكورہ بالا تفسير ميں (حليم )سے مراد بردبار شخص ليا گيا ہے _انسان كا بردبار ہونا اس كے نيك اخلاق ہونے كو بتاتا ہے_

۱۶_الله تعالى پيغمبروں كو مشہور نيك انسانوں ميں سے انتخاب كرتا ہے _انك لا نت الحليم الرشيد

۱۷_مدائن كے لوگ، اہل شرك كے معبودوں كے ساتھ حضرت شعيب(ع) كے جہاد كو ان كے رشد و فہم كے خلاف سمجھتے تھے _أصلاتك تا مرك ا ن نترك ما يعبد ء اباؤُنا ...انك لا نت الحليم الرشيد

۱۸_قوم شعيب كے لوگ، مالكوں كواپنے اموال كے تصرف كى آزادى ميں محدود كرنے كو نامعقول اور صحيح خيال نہيں كرتے تھے_أو أن نفعل فى اموالنا ما نَشَؤا انك لأنت الحليم الرشيد

اقتصاد :اقتصاد ميں ضرر كى پہچان ۱۲; اقتصادى خلاف ورزى كا سبب ۱۲

انبياءعليه‌السلام :

۲۶۰

انبياءعليه‌السلام كا انتخاب ۱۶; انبياءعليه‌السلام كا سابقہ ۱۶; انبياءعليه‌السلام كا نيك نام ہونا ۱۶

اہل مدائن :اہل مدائن اور حضرت شعيبعليه‌السلام ۱۴، ۱۵، ۱۷;اہل مدائن كاانگيزہ ۶;اہل مدائن كا شرك ۴، ۵، ۶; اہل مدائن كا عقيدہ ۴;اہل مدائن كا مزاح اڑانا ۳;اہل مدائن كى تقليد ۶;اہل مدائن كى فكر ۸;اہل مدائن كے آباء و اجداد كا شرك ۴;اہل مدائن كے آباء و اجداد كا عقيدہ ۴; اہل مدائن كے درميانى عمر كے لوگ ۹ ; اہل مدائن كے نوجوان ۹; اہل مدائن ميں مالكيت ۱۳

تعصب:قوميتعصب كے آثار ۷; ناپسند يدہ تعصب كے آثار ۸

تقليد :آباء و اجداد كى تقليد ۶، ۸; اندھى تقليد كا سبب ۷;اندھى تقليد كے آثار ۸

رشد :فكرى رشد كے موانع ۸

شرك :شرك عبادى ۴،۶

شعيبعليه‌السلام :حضرت شعيبعليه‌السلام كا پسنديدہ اخلاق ۱۵; حضرت شعيبعليه‌السلام كا شرك سے مقابلہ ۵،۱۷; حضرت شعيبعليه‌السلام كا قصہ ۳،۹;حضرت شعيبعليه‌السلام كى تبليغ ۹;حضرت شعيبعليه‌السلام كى تعليمات ۵، ۱۰; حضرت شعيبعليه‌السلام كى شريعت ميں مالكيت ۱۰;حضرت شعيبعليه‌السلام كى شريعت ميں نماز كى اہميت ۱; حضرت شعيبعليه‌السلام كى سوچ ۱۴;حضرت شعيبعليه‌السلام كى عبادات كا مذاق اڑانا ۳; حضرت شعيبعليه‌السلام كى نماز كامذاق ۳; حضرت شعيبعليه‌السلام كى ہدايت ۱۴; حضرت شعيبعليه‌السلام كے فضائل ۱۴، ۱۵; حضرت شعيبعليه‌السلام كے مخاطب ۹

معاشرہ :معاشرے كے فساد كى پہچان ۸

مال :مال ميں تصرف كرنے كى محدوديت ۱۱، ۱۲، ۱۳، ۱۸

مالكيت :اديان ميں مالكيت ۱۱;مالكيت ميں آزادى ۱۱، ۱۲

مشركين : ۴

معاملہ :معاملہ ميں ظلم كا سبب ۱۲

نوجوان :نوجوانوں كى اہميت ۹

نماز :شريعت ميں نماز كا ہونا ۲; نماز اديان الہى ميں ۲

۲۶۱

آیت ۸۸

( قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَىَ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي وَرَزَقَنِي مِنْهُ رِزْقاً حَسَناً وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَى مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ إِنْ أُرِيدُ إِلاَّ الإِصْلاَحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِيقِي إِلاَّ بِاللّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ )

شعيب نے كہا كہ اے قوم والو تمھارا كيا خيال ہے كہ اگر ميں خدا كى طرف سے روشن دليل ركھتا ہوں اور اس نے مجھے بہترين رزق عطا كرديا ہے اور ميں يہ بھى نہيں چاہتا ہوں كہ جس چيز سے تم كو روكتا ہوں خود اسى كى خلاف ورزى كروں ميں تو صرف اصلاح چاہتا ہوں جہاں تك ميرے امكان ميں ہو_ ميرى توفيق صرف اللہ سے وابستہ ہے اسى پر ميرا اعتماد ہے اور اسى كى طرف ميں توجہ كررہاہوں (۸۸)

۱_ حضرت شعيبعليه‌السلام اپنى رسالت كے ليے معجزہ اور روشن دليل ركھتے تھے _

يا قوم أرءيتم ان كنت على بيّنة من ربي

۲_ الله تعالى ، اپنے پيغمبروں كو معجزہ اورواضح دليليں عطا كرنے والا ہے _ان كنت على بيُنة من ربّي

۳_ الله تعالى ،اپنے پيغمبروں كا مربى اور ان كے امور كى تدبير كرنے والا ہے _ان كنت على بيّنة من ربّي

( ربّ) مربى اور مدبر كے معنيميں ہے_

۴_ پيغمبروں كو معجزہ اور روشن دلائل عطا كرنے كا مقصد، ان كى رسالت كے مقاصد كى پيشرفت اور امر نبوت كى تدبير ہے_ان كنت على بيّنة من ربّي

۵_ حضرت شعيبعليه‌السلام كا كافروں اور مشركين سے رو يّہ قابل رحم اور مشفقانہ تھا _

يا قوم أرءيتم

( يا قوم ) سے خطاب كرنا، حضرت شعيبعليه‌السلام كى شفقت اور مہربانى كو بتاتا ہے _

۶_ لوگوں كى آزادى و عقائد اور رسومات پر پابندى لگانے كے ليے دليل اور وشن برھان ہونى چاہيے_

ا صلاتك تأمرك قال يا قوم أرءيتم ان كنت على بيّنة من ربّي

۷_ لوگوں كے كردار اور عقائد كى اصلاح نيز ان كى آزادى و اختيار كو محدود كرنا، الہى رسالت ہے جوپيغمبروں كى ذمہ دارى ہے_ا صلاتك تأمرك ان نترك قال يا قوم ارء يتم ان كنت على بيّنة من ربّي

۲۶۲

۸_ الله تعالى نے شعيبعليه‌السلام كو روزى اور اپنى و پسنديدہ خاص نعمت سے نواز اور انہيں مقام نبوت عطا فرمايا_

أرءيتم ان رزقنى منه رزقاً حسن

يہاں ( رزقاً حسنا ) سے مراد، مورد كى مناسبت سے مقام نبوت و پيغمبرى ہے _

۹_ حضرت شعيبعليه‌السلام كا مقام نبوت پر فائز ہو نا، ان كو اس بات پر آمادہ كرتا ہے كہ وہ لوگوں كو توحيد اور اپنے معاملات ميں عدل و انصاف كى دعوت ديں _قالوا يا شعيب ا صلوتك تأمرك قال يا قوم أرءيتم ان كنت على بيّنة من ربّى و رزقنى منه رزقاً حسن

مذكورہ آيت ميں حضرت شعيبعليه‌السلام كى گفتگو انكى قوم كے مزاح كى تحليل كا جواب ہے جو انہوں نے (أصلاتك ...) سے كيا اور حضرتعليه‌السلام نے جملہ (أرءيتم ) سے اسكا جواب دياجو اس بات كو بتاتا ہے كہ حضرت شعيبعليه‌السلام كو الله تعالى نے جو مقام و منزلت عطا فرمائي تھى اس كے مقابلے ميں وہ ذمہ دار تھے كہ ان كے غلط كاموں اور غلط رسم و رسوم اورعقائد كى مخالفت كريں _

۱۰_ مقام نبوت پر فائز ہونا، الله تعالى كى طرف سے اپنے پيغمبروں كے ليے نيك اور مخصوص روزى ہے_

و رزقنى منه رزقاً حسنا

۱۱_ الله تعالى كى طرف سے بشريت كے ليے معارف الہى اور احكام دينى كا ہونا، عطا اورنيك روزى ہے_

و رزقنى منه رزقاً حسنا

يہاں يہ كہہ سكتے ہيں كہ ( رزقاً حسناً) سے مراد (أعبدوا الله ...) ( جو اس سے پہلے والى آيت ميں ہے) كو مد نظر ركھتے ہوئے معارف اور احكام الہى ہيں جنكو الله تعالى نے حضرت شعيبعليه‌السلام كو بتايا تا كہ لوگوں كو ان كى تعليم دے _

۱۲_ حضرت شعيبعليه‌السلام اپنے معاشرے كے حرام رزق سے آلودہ ہونے كے باوجود بھى حلال اور نيك روز ى سے بہرہ مند تھے_

يا قوم ا وفوالمكيا و الميزان و رزقنى منه رزقاً حسنا

حضرت شعيبعليه‌السلام نے مدائن كے لوگوں كے لين دين اور معاملات كو ظالمانہ كہا اور ان كى آمدنى كو اچھا نہيں سمجھا ليكن اس بعدفرمايا كہ ميں نيك روزى كا حامل ہوں _

۲۶۳

تو يہاں يہ احتمال ديا جاسكتا ہے كہ (رزقاً حسناً ) سے مراد دنيا كى نيك روزى ہے _

۱۳_ جس لين دين ميں ظلم و ستم نہ ہو اور روزى كو حاصل كرنے ميں عدل و انصاف الحاظ ركھاجائے تو اديان الہى ميں ايسى روزي، نيك اور حلال ہے _و رزقنى منه رزقاً حسنا

۱۴_ حضرت شعيبعليه‌السلام ، تونگرى اور وسيع روزي، كے حامل تھے _ورزقنى منه رزقاً حسنا

۱۵_ نيك و حلال روزي، الله تعالى كى طرف سے ہوتى ہے اور اس كے اسباب بھى وہى مہيا كرتا ہے _

ورزقنى منه رزقاً حسنا ً

مذكورہ بالا معنى ( منہ ) كى ضمير كا مرجع، الله تعالى كو قرار ديں تو يہ معنى حاصل ہوتا ہے _

۱۶_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے لوگوں كو بتايا كہ ميں نے جو تعليمات اور قوانين بتائے ہيں ميں ہميشہ ان كا پابند تھااور اس پر عمل كرتا رہوں گا_ما اريد ان اخالفكم الى ما انهى كم عنه

( اخالفكم ) كا فعل چونكہ حرف (الي) سے متعدى ہوا ہے لہذا اسميں ( اميل ) كا معنى پاياجاتا ہے تو اس صورت ميں ( ما اريد ...) كا معنى يوں ہوگا كہ ميں نہيں چاہتا ہوں كہ تمھارے ساتھ مخالفت كروں اور جس سے ميں نے آپكو منع كيا اسكو ميں انجام دوں _

۱۷_ مبلغين اور معاشرے كى اصلاح كرنے والوں كے ليے ضرورى ہے كہ وہ تعليمات دينى اور اپنے اصلاحى پروگراموں پرپابند رہيں _و ما اريد ان اخالفكم الى ما انهى كم عنه

۱۸_ حضرت شعيب(ع) ، لين دين ميں ظلم و ستم اور جھوٹے معبودوں كى عبادت كرنے ميں ہرگز ميلان نہيں ركھتے تھے _و ما ا ريد ان اخالفكم الى ما انهى كم عنه

۱۹_ حضرت شعيب،عليه‌السلام شہر مدائن ميں كاروبار اور اقتصادى معاملات كرنے ميں مشغول تھے_

أوفوا المكيال و الميزان و ما أريد ان اخالفكم الى ما انهى كم عنه

حضرت شعيبعليه‌السلام نے لين دين ميں عدل و انصاف اور معاملات ميں كم فروشى اور ظلم و ستم سے پرہيز پر بہت زيادہ تاكيد كرنے كے بعد فرمايا ميں نے جن چيزوں سے تم كو منع كيا ہے ميں خود اس پر عمل نہيں كروں گا_ يہ بات بتاتى ہے كہ وہ خود بھى لين دين كرنے ميں مشغول تھے_

۲۰_ حضرت شعيبعليه‌السلام كامقصد، مدائن كے آداب و رسوم اور ان كى ظالمانہ رفتار اور معاشرے كے فساد كى اصلاح كرنا

۲۶۴

تھا _ان أريد الّأ الاصلاح ما استطعت

۲۱_ حضرت شعيب(ع) نے اپنى طاقت و استطاعت كے مطابق معاشرے كے فساد كو دوركرنے اور اس كى اصلاح كرنے كى كوشش كى _ان أريت الّأ الاصلاح مااستطعت

( ما ) كا حرف جملہ ( ما استطعت ) ميں ظرفيہ مصدريہ ہے _ يعنى مدت اور زمان كے معنى ميں ہے _ كيونكہ فعل ( استطعت ) كو ما مصدريہ كے بعد مصدر كى تاديل ميں ليا گيا ہے _ تو اس صورت ميں ( ان اريد ...) كا معنى يوں ہوگا(مدة استطاعتى الاصلاح ما اريد الّأ الاصلاح ) جتنى بھى ميرى اصلاح كرنے كى استطاعت ہوگى سوائے اصلاح كے اور كچھ نہيں كروں گا _

۲۲_ قائدين اور دين كے مبلغين كو چاہيئے كہ معاشرے كى اصلاح اور دين الہى كى تبليغ ميں جتنى قدرت ركھتے ہيں اتنى كوشش كريں _ان ا ريد الّأ الاصلاح ما استطعت

۲۳_ بشرى معاشرہ كى اصلاح، توحيد ، وحدہ لا شريك كى پرستش لين دين اور اقتصادى امور ميں عدل و انصاف كرنے ميں پوشيدہ ہے_قال يا قوم اعبدوا الله ا وفوا المكيال و الميزان بالقسط ان ا ريد الّأ الاصلاح

۲۴_ حضرت شعيبعليه‌السلام ، معاشرہ كى اصلاح ميں اپنى كاميابى كو الله تعالى كى مددكے مر ہوں منت سمجھتے تھے _

ان اريد الّأ الاصلاح ما استطعت و ما توفيقى الّا بالله عليه توكلت

آيت شريفہ ميں ( توفيق) كا لفظ مصدر مجہول ہے جو اپنے نائب فاعل ( يا متكلم ) كى طرف اضافہ ہوا ہے اور اسميں (بأ) استعانت كے ليے آئي ہے تو اس صورت ميں ( و ماتوفيقى ...) كا معنى يوں ہوگا كہ الله تعالى ہى كى توفيق سے ميں اچھے كاموں ميں كامياب ہوسكوں گا _

۵_حضرت شعيب،عليه‌السلام تنہا الله تعالى كى ذات كو اپنى پناہگاہ سمجھتے تھے اور فقط اس كے حضورميں جھكتےتھے_

و اليه انيب (انابة ) انيب كا مصدر ہے جسكا معنى رجوع كرنا اور اسكى طرف آنا ہے _

۲۶_ نيك كاموں ميں انسان كى كاميابي، الله تعالى كى مدد ميں پنہاں ہے _و ما توفيقى الّا بالله

۲۷_الله تعالى كى ذات پرتوكل كرنا اوراپنے امور كو اس

۲۶۵

كے سپرد كرنا ضرورى ہے_عليه توكلت

۲۸_ الله تعالى كى طرف توجہ اور اسكى طرف جھكنا، ايك ضرورى امر ہے _و اليه انيب

۲۹_ انسان كى كاميابى كے ليے الله تعالى كے علاوہ كسى اور طاقت كاكارساز نہ ہونا يہ دليل ہے كہ اس ذات پر توكل كيا جائے اور اس كے حضور جھكا جائے _ما توفيقى الّا بالله عليه توكلت و اليه انيب

( عليہ توكلت و اليہ انيب) كا جملہ ( ما توفيقى ...) كے ليے نتيجہ كے مقام پر ہے _

۳۰_ جو معاشرہ كى اصلاح كرنا چاہتے ہيں ان كے ليے ضرورى ہے كہ وہ فقط الله كى ذات پر توكل كريں اور اس كے حضور جھكيں _ان اريد الّأ الاصلاح عليه توكلت و اليه انيب

۳۱_عبدالله بن الفضل الهاشمى قال : سألت ابا عبدالله جعفر بن محمد عليه‌السلام عن قول الله عزوجل ( و ما توفيقى الّا بالله ) قال : اذ فعل العبد ما ا مره الله عزوجل به من الطاعة كان فعله وفقاً لأمر الله عزوجل وسمى العبد به موفقاً لأمر الله عزوجل و سمى العبد به موفّقاً و اذاء اراد العبد ان يدخل فى شئي: من معاصى الله فحال الله تبارك و تعالى بينه و بين تلك المعصية فتركها كان تركه لها بتوفيق الله تعالى ذكره ) (۱)

ترجمہ: عبدالله بن فضل ہاشمى نے امام صادقعليه‌السلام سے الله تعالى كے اس قول ( و ما توفيقى الّا بالله ...) كے بارے ميں سوال كيا كہ اس سے كيا مراد ہے ؟ تو حضرتعليه‌السلام نے جواب ديتے ہوئے فرمايا كہ جب انسان الله كى اطاعت كرتا ہے اور جو اس نے حكم ديا ہے اس كو بجالاتا ہو تو اسكا عمل اوامر الہى كے مطابق ہوتا ہے اس انسان كو انسان كامياب كہتے ہيں _( يعنى الله تعالى كى توفيق اس كے شامل حال ہوتى ہے)اگر انسان كوئي گناہ انجام دينے كا ارادہ كرتا ہے اور الله تعالى اس كے اس گناہ كے انجام دينے ميں كوئي مانع قرار ديتا ہے جسكى وجہ سے وہ گناہ ترك كرديتا ہے يہ گناہ كا ترك كرنا بھى الله تعالى كى توفيق ہے _

آزادى :آزادى كى حدود كا تعين۷; آزادى كى محدوديت كا ملاك ۶

اصلاح كرنے والے :اصلاح كرنے والوں كيذمہ داري۱۷، ۳۰

____________________

۱) توحيد صدوق ، ص ۲۴۲، ح ۱، ب ۳۵ نور الثقلين ج ۲، ص ۳۹۳، ح ۱۹۸_

۲۶۶

اطاعت :الله كى اطاعت كے آثار ۳۱

اقتصاد :اقتصاد ميں عدالت كرنے كے آثار ۲۳; اقتصاد ميں عدالت كى دعوت ۹

امور:امور كا سپرد كرنا ۷

انبياء :انبياءعليه‌السلام كا اصلاح كرنا ۷;انبياء كا مدبّر ۳; انبياءعليه‌السلام كا مربى ۳;انبياءعليه‌السلام كى خاص روزى ۱۰; انبياءعليه‌السلام كى رسالت ۸; انبياءعليه‌السلام كى نبوت كے دلائل ۲;انبياءعليه‌السلام كى نبوت ۱۰; انبياءعليه‌السلام كے اہداف كے تحقق كا سبب ۴; انبياءعليه‌السلام كے دلائل كا فلسفہ ۴; انبياءعليه‌السلام كے معجزہ كا فلسفہ ۴; انبياءعليه‌السلام كے مقامات ۱۰; رسالت انبياءعليه‌السلام كى اہميت ۴

انسان :انسانوں كے عقيدہ كى اصلاح ۷; انسانوں كے عمل كى اصلاح ۷

الله تعالى :الله تعالى كى بخشش ۲، ۱۱;الله تعالى كى توفيقات ۱۵، ۳۱; الله تعالى كى خاص عنايات ۱۰;الله كى ربوبيت ۳; الله تعالى كى روزياں ۱۱;الله تعالى كى مدد كے آثار ۲۴، ۲۶; الله تعالى كى نعمتيں ۸;الله تعالى كے افعال ۳

الله تعالى كى طرف لوٹنا : ۲۵، ۲۸، ۲۹

اہل مدائن:اہل مدائن كى حرام خورى ۱۲

تحريك :تحريك كے عوامل ۹

توحيد :توحيد عبادى كے آثار ۲۳; توحيد كى دعوت ۹

توكل :الله كى ذات پر توكل كى اہميت ۲۷، ۲۹، ۳۰; توكل كا فلسفہ ۲۹

دين :دين كى اہميت

دينى رہبر:دينى رہبر اور اصلاح معاشرہ ۲۲; دينى رہبر اور دين ۲۲; دينى رہبر اور دين كى ذمہ دارى ۲۲

ذكر :الله تعالى كے ذكر كى اہميت ۲۸

رسومات :باطل رسومات سے مقابلہ ۶

روايت :۳۱

۲۶۷

روزى :اديان الہى ميں حلال روزى ۱۳; پسنديدہ روزى ۸، ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۳; پسنديدہ روزى كا سبب ۱۵; حلال روزى كا سبب ۱۵;حلال روزى كے معيار ۱۳

شعيبعليه‌السلام :حضرت شعيبعليه‌السلام اور اقتصادى خلاف ورزياں ۱۸; حضرت شعيبعليه‌السلام اور اہل مدائن كى رسومات ۲۰; حضرت شعيبعليه‌السلام اور باطل معبود ۱۸; حضرت شعيب(ع) اور فساد سے جہاد ۲۰، ۲۱; حضرت شعيبعليه‌السلام اور كفار ۵;حضرت شعيب(ع) اور مشركين ۵; حضرت شعيبعليه‌السلام كا ايمان ۱۶; حضرت شعيبعليه‌السلام كى تبليغ كا سبب ۹;حضرت شعيبعليه‌السلام كا جہاد ۲۱;حضرت شعيب(ع) كا شرعى وظيفہ پر عمل كرنا ۱۶;حضرت شعيبعليه‌السلام كا عقيدہ ۲۴، ۲۵; حضرت شعيبعليه‌السلام كا قصہ ۱۹; حضرت شعيبعليه‌السلام كا كام ۱۹; حضرت شعيبعليه‌السلام كا معجزہ ۱; حضرت شعيبعليه‌السلام كے ميل جول كا طريقہ ۵; حضرت شعيبعليه‌السلام كى اصلاح كرنا ۲۰، ۲۱; حضرت شعيبعليه‌السلام كى تجارت ۱۹; حضرت شعيبعليه‌السلام كى تعليمات ۱۶; حضرت شعيبعليه‌السلام كى توحيد ۲۵; حضرت شعيب(ع) كى ثروتمندى ۱۴; حضرت شعيب(ع) كى حلال روزى ۱۲; حضرت شعيبعليه‌السلام كى روزى ۸، ۱۴; حضرت شعيبعليه‌السلام كى كاميابى ۲۴; حضرت شعيبعليه‌السلام كى مہربانى ۵; حضرت شعيب(ع) كى نبوت ۸; حضرت شعيبعليه‌السلام كى نبوت كے دلائل ۱; حضرت شعيبعليه‌السلام كے درجات ۸، ۹; حضرت شعيبعليه‌السلام كے دلائل ۱; حضرت شعيب(ع) كے ميل جون كا طريقہ ۵; حضرت شعيبعليه‌السلام كى نبوت كے آثار ۹

عقيدہ :باطل عقيدے كے ساتھ جہاد كرنے كا طريقہ ۶;عقيدہ صحيح كرنے كى دليل ۶;عقيدہ ميں دليل كى اہميت ۶

عمل :عمل خير ميں كاميابى ۲۶

گناہ :گناہ كے آثار ۳۱

مبلغين :مبلغين اور دين ۱۷،۲۲;مبلغين اور معاشرہ كى اصلاح۲۲; مبلغين كى ذمہ دارى ۱۷، ۲۲

معجزہ :معجزہ كا سبب ۲

موجودات :موجودات كا عاجز ہونا ۲۹

موفقيت :موفقيت كا سبب ۲۹; موفقيت كى نشانياں ۳۱;موفقيت كے اسباب ۲۶

نبوت :نبوت كى اہميت

نعمت :خاص نعمتوں كے حامل ۸

۲۶۸

آیت ۷۹

( وَيَا قَوْمِ لاَ يَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِي أَن يُصِيبَكُم مِّثْلُ مَا أَصَابَ قَوْمَ نُوحٍ أَوْ قَوْمَ هُودٍ أَوْ قَوْمَ صَالِحٍ وَمَا قَوْمُ لُوطٍ مِّنكُم بِبَعِيدٍ )

اور اے قوم كہيں ميرى مخالفت تم پر ايسا عذاب نازل نہ كرادے جيسا عذاب قوم نوح،قوم ہود يا قوم صالح پر نازل ہواتھا اور قوم لوط بھى تم سے كچھ دور نہيں ہے (۸۹)

۱_ مدائن كے لوگ، حضرت شعيبعليه‌السلام كى مخالفت پر كمر بستہ ہوگئے اور ان كے ساتھ بغض اور دشمنى كرنے لگے_

لا يجر منّكم شقاقي

۲_ انبياء كے ساتھ مخالفت اور دشمني،دنيا ميں عذاب الہى ميں گرفتارى كا سبب بنتا ہے_

(شقاق ) مخالفت اور دشمنى كے معنى ميں ہے_ اور ( شقاقي) كا جملہ اپنے مفعول كى طرف مضاف ہوا ہے اوراس كا فاعل محذوف ہے_يعنى يوں ہوگا (عداوتكم اياى )(جرم ) (لا يجرمنّكم ) كا مصد رہے جو كمانے كے معنى ميں ہے يہ بات قابل ذكر ہے كہ اگر چہ آيت شريفہ ميں كمانے كے بارے ميں نہى گى گئي ہے ليكن حقيقت ميں (شقاق) سے نہى كى گئي ہے تو اس صورت ميں جملہ (لا يجر منّكم ...) كا معني يوں ہوگا كہ مجھ سے عداوت نہ كرو ميرى دشمنى عذاب الہى كے نزول كا سبب بنے گى جيسے قوم نوح و پر عذاب نازل ہوا تھا_

۳_ حضرت نوحعليه‌السلام ، ہودعليه‌السلام ، صالحعليه‌السلام ، لوطعليه‌السلام ،كى قوميں انبياءعليه‌السلام سے مخالفت اور دشمنى كے سبب دنياوى عذاب الہى ميں گرفتار ہوئے_مثل ما اصاب قوم نوح و ما قوم لوط منكم ببعيد

۴_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے اپنى قوم كے كفار و ظالم لوگوں كو بعض گذشتہ اقوام كى برى عاقبت كى مثال دے كر ڈرايا _

و يا قوم لا يجرمنّكم شقا قى ان يصيبكم مثل ما أصاب قوم نوح أو قوم هود

۲۶۹

۵_ حضرت شعيبعليه‌السلام كى تبليغ كا طريقہ يہ تھا كہگذشتہ اقوام كے عذاب و تاريخ اور عذاب كے سبب كو ذكر كر تے تھے_

و يا قوم لا يجرمنّكم شقاقى ان يصيبكم مثل ما اصاب قوم نوح

۶_ حضرت لوطعليه‌السلام كى قوم، حضرت شعيب(ع) كى قوم سے پہلے زندگى بسر كرتى تھى اور ان كے درميان كوئي زيادہ فاصلہ نہيں تھا _وماقوم لوط(ع) منكم ببعيد

قوم لوط اور قوم شعيب كے قرب ميں دو طرح كا احتمال ديا جاسكتا ہے _ ممكن ہے (و ما قوم لوط ...) سے مراد قرب مكانى ہو ياممكن ہے قرب زمانى ہو آيت شريفہ ميں اسكى وضاحت نہ كرنا يہ دليل ہے كہ دونوں مراد ہوں _

۷_ مدائن كا شہر، ديار قوم لوط كے نزديك تھا _و ما قوم لوط منكم ببعيد

۸_ حضرت نوحعليه‌السلام ، ہودعليه‌السلام ، صالحعليه‌السلام ، اور لوط(ع) ، حضرت شعيبعليه‌السلام سے پہلے كے انبياء تھے_

مثل ما اصاب قوم نوح و ما قوم لوط منكم ببعيد

۹_ حضرت شعيبعليه‌السلام كا زمانہ، حضرت نوحعليه‌السلام ، ہودعليه‌السلام اور صالحعليه‌السلام كے زمانہ سے زيادہ دور نہيں تھا _

مثل ما أصاب قوم نوح أو قوم هود أو قوم صالح و ما قوم لوط منكم ببعيد

چونكہ حضرت شعيبعليه‌السلام نے مذكورہ اقوام ميں سے قوم لوط كو مدائن كے لوگوں كے ہمعصر ہونے سے ياد كيا ہے لہذا مذكورہ بات كا استفادہ ہوتاہے_

۱۰_ گذشتہ مورد عذاب ٹھہرى جانے والى قوموں كى ہلاكت كے اسباب و علل ميں دقت كرنا، عبرت ودرس حاصل كرنے كے ليے ضرورى ہے_مثل ما أصاب قوم نوح و ما قوم لوط منكم ببعيد

۱۱_ مبلغين دين كے ليے ضرورى ہے كہ گذشتہ تاريخ اور گذرے ہوئے لوگوں كے انجام كو بيان كرنے كے ذريعہفائدہ اٹھائيں اور ان كے انجام كے اسباب كو بيان كركے لوگوں كو انبياء كے اہداف كى طرف توجہ دلائيں _

و يا قوم لا يجرمنّكم شقاقى ان يصيبكم مثل ما ا صاب قوم نوح

اقوام گذشتہ :گذشتہ اقوام كا انجام ۴; گذشتہ اقوام كى تاريخ كا مطالعہ ۱۰;گذشتہ اقوام كے انجام سے عبرت ۱۱

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام سے دشمنى كے آثار ۲، ۳; انبياء سے مقابلہ كے آثار ۲، ۳; تاريخ انبياءعليه‌السلام ۸، ۹; حضرت شعيب

۲۷۰

سے پہلے كے انبياءعليه‌السلام ۸، ۹

اہل مدائن :اہل مدائن اور شعيبعليه‌السلام ۱; اہل مدائن كو خبردار كرنا ۴; اہل مدائن كى تاريخ ۱، ۶; اہل مدائن كى دشمنى ۱; اہل مدائن كى عاقبت ۴

تاريخ :تاريخ سے عبرت ۱۰، ۱۱

تبليغ :تبليغ كا طريقہ ۱۱

تذكر :تاريخ كا تذكرہ ۵; گذرى ہوئي اقوام كى ہلاكت كا ذكر ۵

سرزمين:قوم لوط كى سرزمين كا جغرافيہ۷; مدائن كى سرزمين كى جغرافيائي حالت ۷

شعيبعليه‌السلام :حضرت شيعبعليه‌السلام كا قصہ ۴; حضرت شعيبعليه‌السلام كا متنبہ كرنا ۴;حضرت شعيب(ع) كى تاريخ ۹; حضرت شعيبعليه‌السلام كى تبليغ كا طريقہ ۵; حضرت شعيب(ع) كے دشمن ۱

صالحعليه‌السلام :حضرت صالحعليه‌السلام كى تاريخ ۹

عبرت :عبرت كے اسباب ۱۰;عبرت كے عوامل كے اسباب ۱۱

عذاب :اہل عذاب ۳; عذاب دنياوى كے اسباب ۲، ۳

قوم ثمود :قوم ثمود كا دنياوى عذاب ۳

قوم عاد :قوم عاد كا دنياوى عذاب ۳

قوم لوط :قوم لوط كا دنياوى عذاب ۳;قوم لوط كى تاريخ ۶

قوم نوح :قوم نوح كا دنياوى عذاب ۳

مبلغين :مبلغين كى ذمہ دارى ۱۱

نوحعليه‌السلام :نوحعليه‌السلام كى تاريخ ۹

ہودعليه‌السلام :ہودعليه‌السلام كى تاريخ ۹

۲۷۱

آیت ۹۰

( وَاسْتَغْفِرُواْ رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي رَحِيمٌ وَدُودٌ )

اور اپنے پروردگار سے استغفار كرو اس كے بعد اس كى طرف متوجہ ہوجائو كہ بيشك ميرا پروردگار بہت مہربان اور محبت كرنے والا ہے (۹۰)

۱_ الله تعالى كے حضورگناہوں سے معافى اور استغفار كرنے كى ضرورت _و استغفروا ربّكم

۲_ الله تعالى كى طرف توجہ اوراسكا تقرب حاصل كرنے كى ضرورت _ثم توبوا اليه

مذكورہ معنى كا سبب ( آيت ۳۶ كے شمار ۴ سے) استفادہ كرسكتے ہيں _

۳_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے مدائن كے لوگوں كو گناہوں سے استغفار اور ذات اقدس كى طرف توجہ اور اس كے تقرب كے حصول كى دعوت دى _و استغفروا ربّكم ثم توبوا اليه

۴_ الله وحدہ لا شريك پر ايمان، اسكى پرستش اور گناہوں سے معافى ( مثلا شرك ،، فساد برپا كرنے ، لين و دين ميں عدالت كا لحاظ نہ كرنے) مانگنا، الله كى طرف توجہ اور اس كے تقرب كو حاصل كرنے كا پيش خيمہ ہيں _

و استغفروا ربّكم ثم توبوا اليه

مذكورہ بالا معنى ( توبوا اليہ) كو حرف ثم كے ذريعے ( استغفروا ربّكم ) پرعطف كرنے سے حاصل ہوا ہے _ يہ بات قابل ذكر ہے كہ سابقہ آيات كے قرينہ كى بناء پر استغفار كا متعلق شرك كرنے اور تجارتى لين دين ميں بے عدالتى اور فساد پھيلانے اور انبياءعليه‌السلام الہى سے مخالفت كرنے كا گناہ ہيں _

۵_بندوں كے گناہوں كى بخشش ،ربوبيت الہى كا جلوہ ہے_و استغفروا ربّكم

۶_ حضرت شعيبعليه‌السلام كى تعليمات ميں سے درگاہ الہى ميں تقرب كا حصول، طلب مغفرت كا ضرورى ہونا اور

۲۷۲

ربوبيت كو الله تعالى ہى ميں منحصر كرنا تھا_و استغفروا ربّكم ثم توبوا اليه

۷_ الله تعالى ،رحيم ( مہربان )اور (ودود) مخلوق كو دوست ركھنے والا ہے_ان ربّى رحيم ودود

۸_ حضرت شعيبعليه‌السلام كى تعليمات ميں سے الله تعالى كو رحيم اور اپنے بندوں سے محبت كرنے والا ،تعارف كروانا تھا_

ان ربّى رحيم ودود

۹_ استغفار كرنے والوں كے گناہوں كى بخشش اور الله كے راستے پر چلنے والوں كو قرب الہى كا حصول خدواند عالم كى رحمت ،مہربانى اور محبت كا جلوہ ہے_و استغفروا ربّكم ثم توبوا اليه ان ربى رحيم ودود

۱۰_ خطا كرنے والوں كى اصلاح كے ليے مہربانى اور محبت، ان كى تربيت ميں بہت مؤثر ہوتى ہے_

و استغفروا ربّكم ان ربّى رحيم ودود

الله تعالى كا يہ صفت، بيان كر نا كہ اپنے بندوں كے ساتھ مہربانى اور محبت كرنے والا ہے گناہوں سے استغفار كرنے كى تاكيد كرنے كے بعد مذكورہ بالا معنى كو بتاتا ہے_

۱۱_ حضرت شعيب(ع) اپنى قوم كے توبہ كرنے والوں كے ليے مشمول رحمت الہى كا واسطہ تھے_

و استغفروا ربّكم ثم توبوا اليه ان ربى رحيم ودود

(استغفروا ربّكم) ميں لوگوں كوخطاب ہے_ ظاہرى طور پر ( ان ربّي)كے خطاب كى جگہ پر ان ربّكم كہا جانا چاہيے تھا يہ جابجا كرنا ممكن ہے اس نكتہ كى طرف اشارہ ہو كہ خداوند عالم اپنے انبياء كے واسطہ سے لوگوں كو اپنى محبت و رحمت كے زير سايہ قرار ديتا ہے اور يہ انبياء اس كے بندوں پر سبب فيض الہى ہيں _

استغفار :استغفار كى اہميت ۱، ۶; استغفار كى دعوت ۳

اسما و صفات :رحيم ۷; ودود ۷

اہل مدائن :اہل مدائن كو دعوت ۳; اہل مدائن كے توبہ كرنے والوں پر رحمت ۱۱

ايمان :توحيد پر ايمان ۴

الله كى طرف لوٹنا :الله كى طرف لوٹنے كا پيش خيمہ ۴;الله كى طرف لوٹنے كى اہميت ۲، ۳

الله تعالى :الله تعالى كى خصوصيات ۶; الله تعالى كى دوستى ۸;

۲۷۳

الله تعالى كى ربوبيت كى نشانياں ۵;الله تعالى كى رحمت كى علامتيں ۹;الله تعالى كى محبت كى علامتيں ۹; الله تعالى كى مہربانى ۸; الله تعالى كى مہربانى كى نشانياں ۹

اہل سلوك و اہل طريقت :

اہل سلوك كا تقرب ۹

تربيت :تربيت ميں محبت ۱۰; تربيت ميں مؤثر عوامل ۱۰; تربيت ميں مہربانى ۱۰

تقرب:تقرب كا سبب ۴تقرب كى اہميت ۲، ۶; تقرب كى دعوت ۳

توحيد :توحيد الہى ۶

شرك:شرك كى بخشش ۴

شعيبعليه‌السلام :حضرت شعيبعليه‌السلام اور اہل مدائن ۳; حضرت شعيبعليه‌السلام اور رحمت الہى ۱۱;حضرت شعيب(ع) كى تاثير ۱۱; حضرت شعيبعليه‌السلام كى تبليغ ۳ ; حضرت شعيبعليه‌السلام كى تعليمات ۶،۸; حضرت شعيبعليه‌السلام كے درجات ۱۱

عبادت :عبادت الہى ۴

گناہ :گناہ كى بخشش ۴، ۵، ۹

محبت :محبت كے آثار ۱۰

آیت ۹۱

( قَالُواْ يَا شُعَيْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِيراً مِّمَّا تَقُولُ وَإِنَّا لَنَرَاكَ فِينَا ضَعِيفاً وَلَوْلاَ رَهْطُكَ لَرَجَمْنَاكَ وَمَا أَنتَ عَلَيْنَا بِعَزِيزٍ )

ان لوگوں نے كہا كہ اے شعيب آپ كى اكثر باتيں ہمارى سمجھ ميں نہيں آتى ہيں اور ہم تو آپ كو اپنے در ميان كمزور ہى پارہے ہيں كہ اگر اپ كا قبيلہ نہ ہوتا تو ہم آپ كو سنگسار كرديتے اور آپ ہو پر غالب نہيں آسكتے تھے (۹۱)

۱_ مدائن كے لوگ، حضرت شعيبعليه‌السلام كى بہت سى تعليمات كو درك كرنے اور سمجھنے سے محروم تھے اوروہ اسك اعتراف بھى كرتے تھے_قالوايا شعيب ما نفقه كيراً مما تقول

۲_ مدائن كے لوگوں كى منفعت پرستى ، حرام خوارى ، تعصب اور قوم پرستي، حضرت شعيبعليه‌السلام كى تعليمات ميں فكر كرنے اور انہيں سمجھنے ميں مانع تھيں _قالوا يا شعيب ما نفقه كثيراً مما تقول

۲۷۴

۳_ مدائن كے لوگ، حضرت شعيبعليه‌السلام كى بہت سى تعليمات كوفضول اور بے فائدہ كلام سمجھتے تھے اور اس پر توجہ كرنے كو بھى ضرورى نہيں سمجھتے تھے_ما نفقه كثيراً مما تقول

(ما نفقہ)كا معنى يعنى آپكى بہت سى باتوں كو ہم نہيں سمجھ پاتے ، ممكن ہے ان كا نہ سمجھنا حقيقت ہو _ يعنى درك و فہم نہيں ركھتے تھے كہ حضرتعليه‌السلام كى تعليمات كو سمجھ سكيں مثلا توحيد كامسئلہ ہمارے ليے حل ہونے والا نہيں _مالك كا اپنے مال ميں تصرف محدود ہے يہ بات قابل فہم نہيں وغيرہ_يا يہ كہ بے ثمر و بے جا اور نا معقول بات ہونے پر كنايہ ہو يعنى تمہارى باتيں اتنى ضعيف و بے اثر ہيں كہ ان ميں فكر و تأمل كرنا اور ان كو سمجھنا اور عمل كرنا بے فائدہ ہے _ مذكورہ بالامعنى دوسرے احتمال كى صورت ميں حاصل ہوتا ہے_

۴_ حضرت شعيب(ع) ، مدائن كے لوگوں كے درميان يار و مددگار نہ ركھنے كى وجہ سے ضعيف و ناتوان تھے_

و انا لنرى ك فينا ضعيف

( فينا ) ( يعنى ہمارے درميان ميں ) اس سے معلوم ہوتا ہے كہ مدائن كے لوگ حضرت شعيبعليه‌السلام كو ان كے مخالفين كى نسبت سے ضعيف اور ناتوان سمجھتے تھے نہ يہ كہ خود وہ ضعيف و لاغر شخص تھے يعنى مذكورہ معنى اس صورت ميں ہے كہ (يار و مددگار ) كا نہ ركھنا مراد ہو_

۵_ مدائن كے لوگ، حضرت شعيبعليه‌السلام كى تعليمات اور ان كى رسالت كو معاشرہ ميں بے اثر خيال كرتے تھے_

قالوا يا شعيب ما نفقه كثيرا ً مما تقول و انا لنرى ك فينا ضعيف

جملہ (ما نفقه ...) كو جملہ (و انا لنراك ...) كے ساتھ ملا كر ديكھا جائے ،حقيقت ميں يہ حضرت شعيب(ع) كى ناكامى كے خيال پر ا ستدلال ہے _ يعنى مدائن كے لوگ شعيبعليه‌السلام كو درك نہيں كرتے تھے بلكہ بے اعتنائي كرتے تھے تا كہ ان كے ہم فكر بن سكتےاور خود حضرتعليه‌السلام بھى يہ قدرت اور توانائي نہيں ركھتے تھے تا كہ زور اور ڈنڈے كے ذريعے اپنى فكر كو ان پرتحميل كرتے اسى وجہ سے ان كے كامياب ہونے كا كوئي راستہ نہيں تھا_

۶_ حضرت شعيب(ع) ، مدائن كے لوگوں كى نگاہ ميں سنگسار ہونے كى سزا و مجازات كے مستحق تھے_

و لو لا رهطك لرجمناك

۷_ حضرت شعيبعليه‌السلام ، شہر مدائن ميں گنے چنے ہمنوا ركھتے تھے_و لو لا رهطك لرجمناك

۸_ حضرت شعيبعليه‌السلام كے خاندان والوں نے انہيں نہيں چھوڑا بلكہ وہ ان كى حمايت كرتے تھے _

۲۷۵

لو لا رهطك لرجمنك

۹_ مدائن كے لوگوں كے نزديك، حضرت شعيبعليه‌السلام كا خاندان و قبيلہ، قابل احترام تھا_لو لا رهطك لرجمنك

(رہط) اس گروہ كو كہتے ہيں جو دس آدميوں سے تجاوز نہ كرے _ اگر اس كے ساتھ رجل جيسے كلمہ كا اضافہ ہوجائے (رہط الرجل ) تو قوم و قبيلہ و خاندان كا معنى ديتا ہے_

۱۰_ حضرت شعيبعليه‌السلام كے قبيلہ كا مدائن كے لوگوں ميں احترام اور بزرگي، ان كو سنگسار كرنے كى سزا دينے ميں مانع تھي_و لو لا رهطك لرجمنك

مدائن كے لوگ اس بات كى وضاحت كرتے ہوئے كہتے ہيں كہ حضرت شعيبعليه‌السلام ان كے درميان ضعيف ہے _ اس سے معلوم ہوتاہے كہ(لو لا رہطك) سے مراد يہ نہيں ہے كہ وہ حضرت كے خاندان سے مقابلہ كرنے كى صلاحيت نہيں ركھتے تھے _ بلكہ بعد والى آيت ميں جملہ ( ما انت علينا بعزيي) و (ارہطى ا عز ...) كے قرينہ سے معلوم ہوتا ہے كہ ( لو لا رہطك ) سے مراد (لو لا عزة قومك و كرامتہم عندنا ) ہے يعنى اگر تمہارے خاندان كى عزت و عظمت نہ ہوتى تو تم كو سزا ديتے_

۱۱_ مدائن كے لوگ، حضرت شعيبعليه‌السلام كو شرك اوران كى بے عدالتى كے خلاف جہاد كرنے كى وجہ سے ان كو قابل عزت و احترام نہيں سمجھتے تھے_و ما ا نت علينا بعزيز

(عزيز) قابل احترام اور بزرگوار ہونے كے معنى ميں ہے اور شكست ناپذير كے معنى ميں بھى آتا ہے_ ليكن آيت شريفہ ميں پہلے معنى ميں آيا ہے_

ادراك :ادراك سے محروم ہونے والے ۱

اہل مدائن :اہل مدائن اور حضرت شعيبعليه‌السلام ۶،۱۱;اہل مدائن اور حضرت شعيبعليه‌السلام كى تعليمات ۱، ۲، ۳، ۵; اہل مدائن اور حضرت شعيبعليه‌السلام كى سزا۱۰; اہل مدائن اور حضرت شعيبعليه‌السلام كے رشتہ دار ۹;اہل مدائن كا اقرار ۱;اہل مدائن كا تعصب ۲;اہل مدائن كى تاريخ ۳، ۵;اہل مدائن كى حرام خورى ۲; اہل مدائن كى سوچ ۳، ۴، ۵، ۶،۱۱;اہل مدائن كى قوم پرستى ۲;اہل مدائن كى محروميت ۱; اہل مدائن كى منفعت طلبى ۲;اہل مدائن كے محروم ہونے كے اسباب ۲

تعصب :تعصب كے آثار ۲

حرام خورى :

۲۷۶

حرام خورى كے آثار ۲

دين :دينى آفات كى پہچان

شعيبعليه‌السلام :حضرت شعيبعليه‌السلام اور سزا ۶;حضرت شعيبعليه‌السلام اور سنگسار ہونا ۶;حضرت شعيبعليه‌السلام كا احترام ۱۱; حضرت شعيبعليه‌السلام كا بے يار و مددگار ہونا ۴; حضرت شعيبعليه‌السلام كا ضعف ۴; حضرت شعيبعليه‌السلام كا شرك كے خلاف جہاد ۱۱; حضرت شعيبعليه‌السلام كا قصہ ۳،۴، ۷، ۹، ۱۰، ۱۱ ; حضرت شعيبعليه‌السلام كا گروہ ۷;حضرت شعيبعليه‌السلام كى سزا ميں موانع ۱۰; حضرت شعيبعليه‌السلام كى سنگسارى ميں موانع ۱۰;حضرت شعيبعليه‌السلام كے حامى ۸;حضرت شعيبعليه‌السلام كے رشتہ دار ۸;حضرت شعيبعليه‌السلام كے رشتہ داروں كا احترام ۹، ۱۰; حضرت شعيبعليه‌السلام كے رشتہ داروں كى اقليت ۷

منفعت طلبى :منفعت طلبى كے آثار ۲

آیت ۹۲

( قَالَ يَا قَوْمِ أَرَهْطِي أَعَزُّ عَلَيْكُم مِّنَ اللّهِ وَاتَّخَذْتُمُوهُ وَرَاءكُمْ ظِهْرِيّاً إِنَّ رَبِّي بِمَا تَعْمَلُونَ مُحِيطٌ )

شعيب نے كہا كہ كيا ميرا قبيلہ تمھارى نگاہ ميں اللہ سے زيادہ عزيز ہے اور تم نے اللہ كو بالكل پس پشت ڈال ديا ہے جب كہ ميرا پروردگار تمھارے اعمال كا خوب احاطہ كئے ہوئے ہے (۹۲)

۱_ مدائن كے لوگ، حضرت شعيبعليه‌السلام كے زمانے ميں الله تعالى كو مكمل طور پر فراموش كر چكے تھے اور اسكى عزت و جلالت سے غافل تھے_أرهطى اعزّ عليكم من اللّه و اتخذتموه ورآئكم ظهريّ

(ظہريّ) اسى شے كو كہتے ہيں كہ انسان جس سے پشت كرلے، يہ كنايہ ہے اس شے كے ليے جسكو بھول چكے ہوں اور اسكى پروانہ كى جائے اور (اتخذتموہ ورآء كم ) كا جملہ بتاتا ہے (كہ الله تعالى كو تم نے پس پشت ڈال ديا ہے) يہ كنايہ ہے كہ ( تم نے الله تعالى كو فراموش كرديا) پس كلمہ (ظہريّاً) حال موكد ہے_

۲_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے اپنى قوم سے چاہا ، كہ الله تعالى كى

۲۷۷

عزت و عظمت كومدّ نظر ركھ كر اس كے احكام اور دين كو قبول كريں _أرهطى اعزّ عليكم من اللّه

(ارہطى اعزّ ...)كا جملہ حضرت شعيب(ع) كے جواب ( لو لا رہطك)كے مقابلہ ميں ہے كہا جا سكتا ہے: وہ يہ كہناچاہتے ہيں كہ اگر تم مجھے ميرے خاندان كى عزت كى وجہ سے سنگسار نہيں كر رہے ہوتو الله تعالى كى عزت و عظمت جو ہر كسى كى عزت و عظمت سے بلند و برتر ہے اسكو كيوں مد نظر نہيں ركھتے ہو اور اس كے غير كى عبادت كرتے ہو_

۳_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے مدائن كے لوگوں كو الله تعالى سے غافل ہونے كى وجہ سے ڈانٹا اور انكى سرزنش كي_

أرهطى ا عزّ عليكم من اللّه و اتخذتموه ورآئكم ظهريّ

(ارہطي ) كے جملہ ميں استفہام ،انكار توبيخى ہے_

۴_ الله تعالى تمام لوگوں سے عزت منداور وہ اپنے كاموں ميں مصمّم اور اپنے ارادوں كو انجام دينے ميں سزاوار اور لائق تر ہے_قال يا قوم أرهطى ا عزّ عليكم من اللّه

۵_ الله تعالى سے غفلت اور اسكى عزت و عظمت كو فراموش كرنا، نامناسب اور قابل سرزنش ہے_

و اتخذتموه ورآء كم ظهريّ

جملہ( اتخذتموہ ...) كا ( رہطى اعزّ ...) كے جملے پر عطف ہے _ لہذا اس جملہ ميں استفہام تو بيخى كا بھى لحاظ كيا گيا ہے يعنى ''أتخذتموہ ''استفہام توبيخى جملہ معطوف عليہ پر بھى آئے گا_

۶_ الله تعالى انسانوں كے اعمال پر پورى نگاہ كيئے ہوئے ہے اور تمام جوانب سے ان كے كردار سے آگاہ ہے_

ان ربّى بما تعملون محيط

۷_ انسانوں كے اعمال و كردار، الله تعالى كى مشيت وارادہ سے خارج نہيں ہيں _ان ربّى بما تعملون محيط

۸_ حضرت شعيب(ع) ، نے مدائن كے لوگوں كى كفر آميز رفتار پر الله تعالى كى عظمت و قدرت كو بيان كر كے ان دھمكيوں كى پروا نہيں كي_لو لا رهطك لرجمناك ان ربّى بما تعملون محيط

چنانچہ ممكن ہے كہ الله تعالى كى اعمال پر قدرت سے مراد اسكى اعمال پر حاكميت وغلبہ ہو اور حضرت شعيبعليه‌السلام كا ( ان اللّہ ...) كى جگہ پر ( ان ربّى )كہنے كا مقصد يہ كہ تمہارے اعمال پر الله قدرت ركھتا ہے اور وہى ميرا پالنے والے اور ميرا مدبّر ہے لہذا وہ تمھيں اجازت نہيں دے گا كہ تم مجھ پر غلبہ كرو _ اگر بالفرض تم نے غلبہ بھى كرليا تو اسميں ميرى تربيت كا پہلوہو گا_ اسى وجہ سے تمہارے ڈرانے كى مجھے كوئي پروا نہيں ہے_

۲۷۸

۹_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے مدائن كے لوگوں كو الله تعالى كے حساب و كتاب اور اسكى سزاؤں سے ڈرايا _

ان ربّى بما تعملون محيط

الله تعالى كا لوگوں كے اعمال و كردار پر قدرت ركھنے سے مراد، اگر چہ ان كے اعمال سے آگاہ ہونا ہو _ جملہ (ان ربّى ...) كناية ہے كہ الله تعالى حساب و كتاب لينے اور سزا دينے والا ہے_

۱۰_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے مدائن كے لوگوں كے نابجا اور نا مناسب باتوں كا يہ جواب ديا كہ الله تعالى تمہارے اعمال و رفتار پر قدرت ركھتا ہے اور وہ بہت عزت و جلال والا ہے اسوجہ سے تمھيں اس كے حضور سرتسليم خم ہونا چاہيے_

و إنا لنرى ك فينا ضعيفاً قال يا قوم أرهطى ا عزّ عليكم من اللّه ان ربّى بما تعملون محيط

اسماء و صفات :محيط ۶

اطاعت :الله تعالى كى اطاعت ۴

الله تعالى :الله تعالى كا احاطہ ۱۰; الله تعالى كا علمى احاطہ ۶; الله تعالى كى خصوصيات ۴;الله تعالى كى عزت ۲، ۴، ۱۰; الله تعالى كى مشيت كى حاكميت ۷; الله تعالى كے ارادے كى حاكميت ۷

انسان :انسانوں كا عمل ۷

اہل مدائن :اہل مدائن اور الله تعالى كى عزت و عظمت ۱; اہل مدائن اور دين ۲;اہل مدائن كو جواب ۱۰; اہل مدائن كو خبردار كرنا ۹;اہل مدائن كو دعوت ۲; اہل مدائن كا ڈرانا ۸; اہل مدائن كى بيہودہ كلام ۱۰; اہل مدائن كى سرزنش ۳;اہل مدائن كى غفلت ۱، ۳

تذكر :الله تعالى كى سزا ؤں كا تذكر ۹;الله تعالى كے حساب و كتاب كا تذكر ۹

جبر و اختيار :۷

ذكر :الله كے ذكر كى اہميت ۴

شعيبعليه‌السلام :حضرت شعيب(ع) اور الله كى حاكميت ۸; حضرت شعيبعليه‌السلام اور اہل مدائن ۸، ۱۰;حضرت شعيبعليه‌السلام كا احتجاج ۱۰; حضرت شعيبعليه‌السلام كا قصہ ۲، ۳، ۸، ۹; حضرت شعيبعليه‌السلام كا متوجہ و خبردار كرنا ۹;حضرت شعيبعليه‌السلام كى تبليغ ۲;حضرت شعيبعليه‌السلام كى سرزنش

۲۷۹

۳;حضرت شعيبعليه‌السلام كى فكر ۸

غافل ہونے والے :الله تعالى سے غافل ہونے والے ۱، ۳

غفلت :الله تعالى سے غفلت كا ناپسند يدہ ہونا ۵;الله تعالى كى عظمت سے غافل ہونا۵

آیت ۹۳

( وَيَا قَوْمِ اعْمَلُواْ عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ سَوْفَ تَعْلَمُونَ مَن يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ وَمَنْ هُوَ كَاذِبٌ وَارْتَقِبُواْ إِنِّي مَعَكُمْ رَقِيبٌ )

اور اے قوم تم اپنى جگہ پر اپنا كام كرو ميں اپنا كام كررہا ہوں عنقريب جان لوگے كہ كس كے پاس عذاب آكر اسے رسوا كرديتا ہے اور كون جھوٹا ہے اور انتظار كرو كہ ميں بھى تمھارے ساتھ انتظار كرنے والا ہوں (۹۳)

۱_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے كفر اختيار كرنے والے لجوج لوگوں كو ڈراتے اور خبردار كرتے ہوئے كہا كہ وہ اپنے غلط نظريات پر قائم رہيں جيسے پہلے وہ قائم تھے_و يا قوم اعملوا على مكانتكم

۲_ حضرت شعيب(ع) ، مدائن كے لوگوں سے ايمان نہ لانے پر نااميد اور مايوس ہوچكے تھے_

اعملوا عليى مكانتكم سوف تعلمون و ارتقبو

جو كچھ كرسكتے ہو اس ميں كمى نہ كرو ، اپنے غلط نظريات پر قائم رہو ، عنقريب جان لوگے ، انتظار كرو ، يہ ايسے جملات ہيں كہ جہنيں انسان نااُميدى اور مايوسى كے وقت ان كو ذكر كرتا ہے اور (ارتقاب) (ارتقبوا) كا مصدر ہے_ جسكا معنى انتظار كرنا ہے_

۳_ حضرت شعيبعليه‌السلام اپنے نظريات ( رسالت الہى كو پہنچانا ، اور شرك و فساد سے جہاد كرنا) پر قائم رہنے كے پابند تھے_انى عامل

۴_ حضرت شعيب(ع) نے اپنى قوم كے كفار كو ذليل و خوار كرنے والے عذاب سے ڈرايا _

سوف تعلمون من يأتيه عذاب يخزيه و ارتقبوا

۵_ مدائن كے لوگوں نے حضرت شعيبعليه‌السلام پر اپنى نبوت و

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945

946

947

948

949

950

951

952

953

954

955

956

957

958

959

960

961

962

963

964

965

966

967

968

969

970

971