تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 6%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 205911 / ڈاؤنلوڈ: 4272
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۸

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

 اب  انکے ظہور سے پہلے اگر تم اس دنیا فوت کر  جاۓ تو  یہی معرفت تمھار ی نجات اور سعادت کا باعث بنے گی تو پھر تمھارے لیۓ کیا نقصان کہ وہ ظہور کرۓ یا نہ کرۓ ،  لیکن یہ اسکے لیۓ نقصان ہے جو اپنے امام کی معرفت نہ رکھتا ہے  -

اسی طرح فضیل بن یسار  نے امام محمد باقر      سے  روایت کی ہے:يَقُولُ مَنْ مَاتَ وَ لَيْسَ لَهُ إِمَامٌ فَمِیتَتُهُ مِیتَةُ جَاهِلِيَّةٍ وَ مَنْ مَاتَ وَ هُوَ عَارِفٌ لِإِمَامِهِ لَمْ يَضُرَّهُ تَقَدَّمَ هَذَا الْأَمْرُ أَوْ تَأَخَّرَ وَ مَنْ مَاتَ وَ هُوَ عَارِفٌ لِإِمَامِهِ كَانَ كَمَنْ هُوَ مَعَ الْقَائِمِ فِی فُسْطَاطهِ  ” (1) آپ فرما تے ہیں جو شخص اس حالت میں مرۓجبکہ وہ اپنے امام کو نہیں پہچانتا ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا ہے ،اور وہ شخص جو اس دنیا سے چلے جاۓ جبکہ وہ اپنے امام زمانہ       کی صحیح معرفت رکھتا ہو تو  امام زمانہ کے ظہور  میں تاخیر اسے نقصان نہیں دے گا ،اور جو شخص مر جاۓ جبکہ اپنے امام کی معرفت کے ساتھ مر ۓ تو گویا  و ہ  اپنے امام کے ہمراہ  جہاد میں انکے خیمے میں ہے  -”

اسی طرح کسی اور حدیث میں جناب شیخ صدوق نقل فرماتے ہیں :ولا یکون الإیمان  صحیحا ً إلاّ من بعد علمه بحال من یؤمن به، كما قال اللّه تبارك وتعالی ” إلاّ من شهد بالحق وهم یعلمون (2) “  فلم یوجب لهم صحة ما یشهدون به إلاّ من بعدعلمهم ثم كذلك لن ینفع ایمان من آمن بالمهدی القآئم علیه السلام حتی یكون عارفاً بشأنه فی حال غیبته (3) کسی مؤمن کا ایمان اس وقت تک صحیح نہیں ہوتا جب تک جس چیز پر ایمان رکھتا ہے اس کے بارے میں پوری شناخت  نہیں رکھتا ہوں “جس طرح خدا وند متعال کا ارشاد ہے  الاّ من شہد بالحق وہم یعلموں  مگر ان افراد کے  جو علم و شناخت کے ساتھ حق کی گواہی دیں پس حق پر گواہی دینے والوں کی  گواہی قبول نہیں ہو گی مگر یہ کہ وہ  علم  رکھتا ہو ۔اسی طرح مہدی قائم عجل اللہ   پر ایمان رکھنے والوں کا ایمان انھیں فائدہ نہیں دے گا 

--------------

(1):- کلینی: اصول الکافی:ج۱ “ص۳۷۲ 

(2):- زخرف :۸۶ - 

(3):- صدوق :کمال الد ین اتمام النعمة :ج 1 ص 19

۴۱

(یعنی انکے ظہور اور قیام پر   اجمالی ایمان اور انکے ظہور کا انتظار انھیں فائدہ نہیں دے گا )مگر انکی غیبت کے دوران  انکے متعلق اور انکی شان ومنزلت کےبارے میں صحیح معرفت رکھتا ہو ۔

اور اما م زمانہ کی معرفت کے لیے بعض چیزون کو جاننا ضروری ہے  ان میں سے بعض اہم موارد یہاں ذکر کرتے ہیں کہ ان امور کو جانے بغیر کسی امام کی معرفت کامل اور مفید واقع نہیں ہو سکتی

ا: آپ کائنات کی پہلی مخلوق ہیں

 صحیح  روایات  سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام زمانہ   ا ورسول اکرم(ص) اور دیگر بارہ معصومینؑ کے پاکیزہ انوار کو اﷲ تعالی نے  کائنات کی تمام مخلوقات سے پہلے خلق فرمایا ہے چناچہ نبی اکرم (ص)  اس بارے  آنحضرت میں فرماتا ہے

لما اسری بی الی السماء ........  (1)   جس رات مجھے آسمان کی سیر لے جایا گیا تو عرش پر میری نظر  پڑی کہ وہاں لکھا ہوا تھا“لا إله الاّ اﷲ محمد رسول اﷲ  أیده بعلی....” اﷲ کے سواء کوئی معبود نہیں ہے محمؐد اسکے رسول ہیں اور علی ؑکے زریعے ہم نے انکی تایئد کی ہے ،اور میں نے عرش پر علی ؑوفاطمہؑ اور باقی گیارہ معصومینؑ کے  مقدس انوار کو دیکھا جنکے درمیان حضرت حجتؑ  کا نور کوکب درّی  کی مانند درخشان اور چمک رہا تھا  میں نے عرض کیا پروردگار یہ کس کا نور ہے ، اور وہ کن کے انوار ہیں ؟ آواز آئی یہ تیرے فرزندان ائمہ معصومینؑ کے انوار ہیں اور یہ نور حجت خدا ؑ کا نور ہے جو زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی ۔

--------------

(1):- سید ہاشم بحر ینی :مدینة  المعاجز ص ۱۵۳ -  

۴۲

اسی طرح امیر المومنین       فرماتے ہیں رسول خدا (ص)نے مجھ سے فرمایا :لما عرج بی إلی السماء.......   فقلت یا رب و من أوصیائی فنودیت یا محمد أن أوصیاءك المكتوبون علی ساق العرش فنظرت و أنا بین یدی ربی إلی ساق العرش فرأیت اثنی عشر نورا فی كل نور سطر أخضر مكتوب علیه اسم كل وصی من أوصیائی أولهم علی بن أبی طالب و آخرهم مهدی أمتی (1)    “ جب مجھے آسمان کی سیر پر لے جایا گیا .....تو میں نے عرض کیا پروردگارا کون ہیں میرےاوصیا ،   ندا آئی یا محمد(ص)  تمھارے اوصیا کے نام ساق عرش پر لکھے گیے  ہے میں نے  عرش کی طرف نظر کی تو گیارہ  انوار ایسیے دیکھا ہر نورمیں ایک سبز لکیر  ہے جس پر میرے ہر ایک وصی کے اسم  گرامی  لکھاگیا ہے سب سے پہلے علی ابن ابی طالبؑ  کا اسم گرامی اور آخر میں میری امت کا مہدیؑ  کا نام تھا -

ب :آ پؑ خالق ومخلوق کے درمیان واسطہ فیض ہیں

بعض روایات کے روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ امام زمانہ واسطہ فیض وبرکت ہیں ۔جناب شیخ مفیدابن عباس کے واسطے رسول خدا (ص) سے نقل کرتے ہیں :قال رسول الله ص ذكر الله عز و جل عبادة و ذكری عبادة و ذكر علی عبادة و ذكر الأئمة من ولده عبادة و الذی بعثنی بالنبوة و جعلنی خیر البریة إن وصیی لأفضل الأوصیاء و إنه لحجة الله علی عباده و خلیفته علی خلقه و من ولده الأئمة الهداة بعدی بهم یحبس الله العذاب عن أهل الأرض و بهم یمسك السماء أن تقع علی الأرض إلا بإذنه و بهم یمسك الجبال أن تمید بهم و بهم یسقی خلقه الغیث و بهم یخرج النبات أولئك أولیاء الله حقا و خلفائی صدقا عدتهم عدة الشهور و هی اثنا عشر شهرا..... (2)

--------------

(1):- صدوق :  کمال الد ین ج : 1 ص : 25 ۶   

(2):- شیخ مفید :الاختصاص ص :۴ 22 

۴۳

 آنحضرت(ص) نے فرمایا :اﷲکا  ذکر  اور میرا ذکر عبادت ہے ،اور علیؑ کا ذکر اور انکے فرزندان ائمہؑ کا ذکر بھی عبادت ہے ، قسم اس ذات کی جس نے مجھے نبوّت پر مبعوث کیا  ہے-......... اور میرے بعد علی ابن ابی طالبؑ اور انکے فرزندان ائمہ ھداء ؑ ہونگے انھیں کے واسطے ض        اﷲ تعالی اہل زمین سے عذاب کو ٹال دے گا  اور انھیں کی برکت سے آسمان  ٹوٹ کر زمین پر آنے سے بچا لے گا ،اور انھیں کی خاطر پہاڑوں کو بکھر جانے نہیں دے گا  اور انھین کے طفیل سے اپنی مخلوقات  کو باران رحمت سے سیراب کرے گا اور زمین سے سبزہ نکالے گا ،وہی لوگ ہیں جو اﷲ کے حقیقی دوست اور جانشین ہیں نیز امام علی ابن حسین  فرماتے ہین: وَ بِنَا يُمْسِكُ الْأَرْضَ أَنْ تَمِیدَ بِأَهْلِهَا وَ بِنَا يُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَ تُنْشَرُ الرَّحْمَةُ وَ تَخْرُجُ بَرَكَاتُ الْأَرْضِ وَ لَوْ لَا مَا فِی الْأَرْضِ مِنَّا لَسَاخَتْ‏ بِأَهْلِهَا (1)   ہمارے ذریعہ سے زمین اپنی  اہل کے ہمراہ پابرجا ہے اور ہمارے ذریعہ سے آسمان بارش برساتا ہے اور اسکی رحمتین پہیل جاتی ہین اور زمین سے برکات نکل آتی ہین اسی طرح دعاے عدلیہ کا فقرہ ہے جس میں آیا ہے :“ثم الحجة  الخلف القائم المنتظر المهدی المرجی .....ببقائه بقیت الدّنیا وبیمنه رُزق الوری وبوجوده ثبتت الأرض والسماء وبه یملاء اللّه الأرض قسطاً وعدلاً بعد ما ملئت ظلماً وجوراً ” میں گواہی دیتا ہوں انکے فرزند حجت خدا وجانشین واما م ؛ قائم منتظر مہدی  عجل اللہ فرجہ جن کے ساتھ عالم کی اُمید وابستہ ہے  انکے  وجود سے دنیا باقی ہے اور انکی برکت سے مخلوق روزی پارہی ہے ،اور انکے وجود سے زمین وآسمان قائم ہیں اور انھیں کے زریعے خدا  زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گا جب کہ وہ ظلم  وجور سے بھر چکی ہو گی

پس ان روایات کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ اس دور میں امام زمانہ خالق ومخلوق کے درمیاں واسطہ فیض ہیں اور انکے واسطے سےزمیں وآسمان اپنی جگہ ثابت اور حرکت میں ہیں اور انکے واسطے سے تمام مخلوقات تک رزق پہنچتی ہے ۔

--------------

(1):-  کمال الد ین و تمام النعمة / ج 1 / 207 / 21 ص : 201

۴۴

ج: آپؑ کی معرفت کے بغیر خداکی معرفت کامل نہیں ہے 

امام حسین          سے خدا کی معرفت کے بارے میں پوچھا  گیا تو حضرت نے فرمایا :“معرفة اهل كلّ زمان امامهم الذّی یجب طاعته” (1)   ہرزمانہ میں لوگوں کے اپنے امام کی معرفت مراد ہے جنکی اطاعت  کو لوگوں پر  واجب کیا ہے  -اسی طرح امام محمد باقر نے فرمایا : “انما یعرف اللّہ عزوجل ویعبدہ من عرف اللّہ وعرف امامہ منّا اہل البیت“  ؛صرف وہ شخص خدا کی معرفت حاصل کر سکتا ہے اور اسکی عبادت کر سکتا ہے جس نے اﷲ اور ہم اہل بیت ؑمیں سے اپنے اما م کو  پہچان لیا ہو  یا اہل بیت اطہار ؑکی امامت کا انکار کو کفر سے تعبیر کیا ہے (یعنی خدا کے انکار )  اگر چہ  وہ شخص کلمہ گو ہی کیوں نہ ہو  -جیسا کہ چھٹے امام  سے روایت ہے  آپ فرماتے :“من عرفنا كان مومنا ومن انكرنا كان كا فراً (2)   جس نے ہماری معرفت حاصل کرلی وہ مومن ہے اور جس نے ہمارا انکار کیا وہ کافر ہے -اسی طرح بعض روایت میں آیا ہے کہ امام خدا اور مخلوقات کے درمیان پرچم ہدایت ہے لہذا انکی معرفت کے بغیر اﷲ تعالی کی معرفت ممکن نہیں  ہے -

د: آپ تمام انبیاء ؑکے کمالات کا مظھر ہیں

متعدد روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ولی عصر عجل اﷲ فرجہ الشریف کی شخصیت جامع ترین شخصیت ہے اور آپ میں تمام انیباء کےکمالات پائے جاتے ہیں جس طرح آپکے آباواجداد کی ذوات مقدسہ تمام گذشتہ انبیاء کے کمالات کی حامل تھی سلمان فارسی نے آنحضرت(ص) سے روایت نقل کہ ہے آپ فرماتے ہیں :

--------------

(1):- مجلسی : بحار انوار، ج ۸۳ ،ص ۲۲ -

(2):- کلینی: کافی،ج 1 ، 181 - 

۴۵

 عَنْ سَلْمَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص الْأَئِمَّةُ بَعْدِی اثْنَا عَشَرَ عَدَدَ شُهُورِ الْحَوْلِ وَ مِنَّا مَهْدِيُّ هَذِهِ الْأُمَّةِ لَهُ هَيْبَةُ مُوسَی وَ بَهَاءُ عِیسَی وَ حُكْمُ دَاوُدَ وَ صَبْرُ أَيُّوبَ. (1)   میرے بعد بارہ امام  سال کے بارہ مہینوں کے برابر امام ہونگے اوراس امت کا مہدیؑ بھی ہم سے ہی ہوگا جس میں موسی کی ہیبت ،عیسی کی عزت وبہاء،داود کی قضاوت ،اور ایوب کا صبر سب موجود ہو گا

اسی طرح چھٹے اما  م        فرماتے ہیں :إنّ قائمنا اهل البیت علیهم السلام اذا قام لبس ثیاب علی وسار بسیرة علی علیه السلام   (2) ہمارے قائم جب قیام کریں گۓ  تو اپنے جد علی علیہ السلا م کے لباس زیب تن کریں گۓ  اور انکی سیرت پر چلین گے

کسی اور روایت میں امام رضا  (ص) انکی  مثالی شخصیت کے بارے میں فرماتے ہیں :للإمام‏ علامات یكون أعلم الناس و أحكم الناس و أتقی الناس و أشجع الناس و أسخی الناس و أعبد الناس (3)   حضرت ولی عصر        لوگوں میں سب سے زیادۃ  دانا ؛حلیم ، بردبار اور پرہیزگار ہونگے وہ تمام انسانوں سے زیادہ بخشش کرنے والا؛  عابد اور عبادت گزار  ہونگے ” 

ھ: آپ تمام انبیاء اور ائمہ کی اُمیدوں کو  زند ہ کریں گے

 قرآن مجید نے مختلف مقامات پر واضح طور پر بیاں کیا ہے کہ پروردگار عالم نے تمام انبیاء کو دو بنیادی مقصد کے خاطر بیجھے ،ایک شرک و بت پرستی کو صفحہ ھستی سے مٹاکر تو حید ویکتا پرستی کو رائج دینے اور دوسرا یہ کہ سماج سے ظلم وتربریت کی ریشہ کنی کرکے اسکی جگہ عدل و  پاکدامنی کو رواج دینا تھا  -لیکن ہم دیکھتے ہیں اب تک روۓ زمین پر یہ مقصد تحقق نہیں پایا ہے

--------------

(1):- کل ین ی: کافی،ج1 ،ص 181 - 

(2):- صافیگلپائ ی گانی: منتخب الاثر فصل ۱ ص ۲۶ -    علیبن محمد خزاز قم ی: کفا یةالاثر ص : 4 

(3):- مجلسی :مرآۃ العقول ج ۴ ص ۳۶۸ - 

۴۶

جبکہ تمام علماء ،دانشور حضرات اس بات پر متفق ہیں کہ تمام انبیاء کے بعثت کا مقصد اور ہدف حضرت ولی عصر ارواحنا لہ الفداء ؑکے مبارک ہاتھوں سے انکے  آفاقی قیام کے ساۓ میں تحقق پاۓ گا،اورانھیں کے  زریعے کفر وشرک کا ریشہ خشک ہو جاۓ گا ،اور ظلم بربرییت کے اس  تاریک دورکا خاتمہ ہو کر عدل وتوحید کا سنہری دور پورے زمین پر غالب آۓ گا - چناچہ سورہ توبہ کے ۳۲ اور ۳۳ آیات کے ذیل میں تمام شیعہ مفسرین نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے اور وہ  آیہ مبارکہ یہ ہے :يُرِیدُونَ أَن يُطْفُِواْ نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَ يَأْبىَ اللَّهُ إِلَّا أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَ لَوْ كَرِهَ الْكَفِرُونَ٭ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنے منہ سے پھونک  مارکر بجھا دیں حالانکہ خدا اس کے علاوہ کچھ ماننے کے لۓ تیار نہیں ہے کہ وہ اپنے نور کو تمام کردے چاہیے کافروں کو یہ کتنا  ہی بُرا کیوں نہ لگے- هُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَی‏ وَ دِینِ الْحَقّ‏ِ لِيُظْهِرَهُ عَلىَ الدِّینِ كُلِّهِ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُون٭   خدا وہ ہے جس نے اپنے رسول(ص)  کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بناۓ چاہیے مشرکین کو کتنا ہی نا گوار  کیوں نہ ہو ۔

ان قرآنی آیات اور روایات کی روشنی میں آپکی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے ، کہ آپکی شخصیت تنہا وہ ذات ہیں جو انبیاء وائمہ ؑکی کوششوں کو نتیجہ خیز بنائیں گی اور تمام آسمانی رہبرون کی اُمیدوں کو تحقق بخشیں گے  اسی طرح پیغمبر اعظم (ص)انکے وجود اقدس کی برکت سے مؤمنین کے تشفی قلوب اور دلی تمناوں کے(جو کہ   حقیقت میں تمام  انبیاء اور ائمہ علیہ السلام کی بھی دلی آرزو تھی)  پورا ہونے وآپکے  علمی مقام  و  آپکے آنحضرت (ص)کے ساتھ نسبت اور آپ سے دشمنی رکھنے والوں اور تکلیف پہنچانے والوں کی سوء عاقبت  بیان کو  کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔قال رسول الله ص الأئمة بعدی اثنا عشر ثم قال كلهم من قریش ثم یخرج قائمنا فیشفی صدور قوم مؤمنین إلا أنهم أعلم منكم فلا تعلموهم ألا إنهم عترتی من لحمی و دمی ما بال أقوام یؤذونی فیهم لا أنالهم الله شفاعتی (1)

--------------

(1):- محقق طبرسی :الاحتجاج ج : 2 ص : 437 

۴۷

 رسول ﷲ(ص) نے فرمایا : میرے بعد بارہ امام ہونگے ؛ پھر فرمایا سب کے سب قریش سے ہونگے پھر ہمارے قائم ظہور کریں گے جسے مؤمنین کے دلوں کو تشفی ملے گی ؛ لیکن یاد رکھنا وہ (یعنی بارہ امام )تم سے بہتر اور  زیادہ علم رکھتے ہیں ؛کبھی انھیں سمجھانے کی کوشش نہ کرنا ! خبر دار !وہ لوگ میری عترت ؛میرے گوشت اور خون سے ہیں  کیا حال  گا ان قوموں کا  جومجھے اذیت دے ان کے حق میں خدا انھیں میری شفاعت نصیب نہ کرے    ۔

  اسی لیے روایت میں آیا ہے کی انکی معرفت اور اطاعت رسول اﷲ(ص) کی اطاعت اور معرفت ہے اور انکے  ظہور کا انکار نبی اکرم(ص) کی  رسالت کے   انکار کرنے کا برابر ہے اگر چہ وہ شخص مسلمان ہو نے کی بنا پر انکی نبوّت کا اعتراف ہی کیوں نہ کرے ،چنانچہ آپ(ص) فرماتے ہیں :قال رسول الله ص القائم من ولدی اسمه اسمی و كنیته كنیتی و شمائله شمائلی و سنته سنتی یقیم الناس علی ملتی و شریعتی یدعوهم إلی كتاب الله ربی من أطاعه أطاعنی و من عصاه عصانی و من أنكر غیبته فقد أنكرنی و من كذبه فقد كذبنی و من صدقه فقد صدقنی إلی الله أشكو المكذبین لی فی أمره و الجاحدین لقولی فی شأنه و المضلین لأمتی عن طریقته وَ سَيَعْلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ‏:. (1)   قائم میرا  فرزند  ہے انکا نام میرے نام پر انکی کنیت میری کنیت پر انکے شکل وشمائل میری شکل وشمائل جیسی ہوں گی اور انکی سنت میری سنت  پر ہوگی لوگوں کو میرے دین اورمیری شریعت پر پلٹا دیں گے   انھیں میرے پروردگار کی کتاب کی طرف دعوت دیں گے جو انکی اطاعت کرے اس نے میری اطاعت کی ہے اور جو انکی نافرنانی کرۓ اس نے میری نافرمانی کی ہے ،اور جو انکی غیبت کا انکار کرۓ اس نے مجھے انکار کیا ہے اور جو انھیں جھٹلائے اس نے مجھے جھٹلایا ہے اور جس نے انکی امامت اور غیبت کی تصدیق کرۓ اسنے میری رسالت کی تصدیق کی ہے....

--------------

(1):- علیبن محمد خزاز: کفا یةال اثر ص : 45  

۴۸

اس جیسے بہت سارے روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انکی معرفت اور اطاعت نہ صرف رسالت مآب(ص)  کی معرفت  اور اطاعت ہے اور  انکا  انکار نہ صرف آنحضرت (ص)کی رسالت کا انکار ہے بلکہ وعدہ  الھی کا انکار ہے ،ُمقصد خلقت بشر یت جو کہ عبادت کاملہ کے پورے انسانی معاشرے میں وجود میں لانا ہے اس مقصد کا انکار ہے

اور دوران غیبت میں ہمارا معاملہ دو مطلب سے خارج نہیں ہے یا یہ کہ ہم کلی طور پر امام زمانہ سے  بے گانہ اور اجنبی ہو جائین تو اس صورت میں کل قیامت کے دن میں ہمیں اپنی  حسرت کی انگلی مہنہ میں لیتے یہ کہنا ہو گا(یا حسرتا  !علی ما فرّطنا فیها ) اے کاش ہم نےاس بارے میں کوتا ہی نہ کیا ہو تا ! ،یا تھوڑی بہت معرفت اور آشنائی امام کی اپنی اندر پیدا کریں ۔

اورامام زمانہ کی یہ معرفت جسے ہم نے مختصر انداز میں بیاں کیا آپ کی شکل وصورت دیکھے بغیر بھی حاصل کی جاسکتی ہے ، لہذا ایک  مؤمن منتظر کی سب سے بڑی ذمہ داری اپنے وقت کی امام اور حجت خدا کی معرفت اور پہچان ہے کہ جسکے وجود کے بغیر زمین ایک لحظہ بھی اپنی جگہ ثابت نہیں رہ سکتی  ”لو خلت الأرض ساعة واحدة من حجة اللّه ،لساخت بأهلها“ (1)    اور بھی بہت سی روایات ہر زمانے  میں امام زمانہ کے موجود  ہونےکی ضرورت پر  دلالت کرتی ہیں  

۲: امام مہدی ؑ کی محبت

معرفت کا  لازمہ محبت ہے  یہ اس معنی میں کہ جب تک انسان کسی چیز کے بارے میں مکمل شناخت نہیں رکھتا اور اسکی خصوصیات کے بارے میں صحیح علم نہیں رکھتا  اور  اسکی عظمت وفضائل اسکے      مقام و منزلت سے بے خبر ہو اس وقت اسکے ساتھ اپنے لگاو کا اظہار نہیں کرسکتا اور نہ ہی اسکے اپنے دلی رابطہ اور علاقہ پیداکر سکتا  ہے لیکن اس کے بر عکس انسان جس قدر کسی چیزکی عظمت ؛ خصوصیات ؛  فضائل اور حقیقت سے واقف ہو جاۓ تو خود بخود اسکی محبت اسکے دل میں آجاتی ہے ،اور اسکی طرف توجہ بڑھتی چلی جاتی ہے 

--------------

(1):- صدوق : کمال الد ین ج : 2 ص : 4 ۱۱-: اعلام الور ی          425   -

۴۹

اور دلی رابطہ روز بروز اوردن بہ دن بڑھتا  اور مظبوط ہوتا جاتا ہے -اور خدا ورسول (ص)اور ائمہ اطہار ؑ کی محبت وہ شمع ہے جو انسان کے تاریک دلوں کو پاک  و منور کر دیتا ہے ، اور انسانوں کو گناہوں ؛برائیوں سے  نجات دیتا ہے کیونکہ معرفت محبت کا ستوں ہے اور محبت گناہوں سے بچنے کا عظیم ذریعہ اورتہذیب وتزکیہ نفس کی شاہراہ ہے لہذا وایات معصومین میں زمانہ غیبت کے دوران  امام عصر ارواحنا لہ الفدء کی محبت پر خاص  توجہ دینے پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے چناچہ رسول اکرم(ص)   فرماتے ہیں  :“خداوند متعال نے شب معراج مجھ پر وحی کیا : اےمحمدؐ ! زمین پر کس کو اپنی  امت پر اپنا جانشین بناکے آیاہے ؟ جبکہ خالق کائنات خود بہتر جانتے تھے ،میں نے کہا پروردگارا اپنے بھائی علی ابن ابی طالب       کو اچانک میں نے علی ابی طالب     .......اور حجت قائم          کو ایک درخشان ستارے کی مانند انکے درمیان دیکھا عرض کیا پروردگارا یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ تمھارے بعد ائمہؑ ہیں اور یہ قائم ہے جو میرے حلال کو حلال اور حرام کو حرام کر دے گا اورمیری دشمنون سے انتقام لے گا .اے محمد ! اسے دوستی کرو کیونکہ  میں انکو اور ان سے دوستی رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہوں  

پس اگر چہ تمام  معصومین کی محبت واجب ہے لیکن اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حجت کی محبت خاص اہمیت اور خصوصیت کے حامل ہے  اسیلۓ  آٹھویں امام ؑ اپنے آباء و اجداد کے واسطے امام علی علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا:قال لی أخی رسول اللّه ..........ومن أحبّ ان یلقی اللّه وقد كمل ایمانه وحسی اسلامه فلیتولّ الحجة صاحب الزّمان المنتظر .. (1)   ”مجھ میرے بھای رسول خدل (ص)نے فرمایا جو شخص اﷲ تعالی سے مکمل ایمان اور نیک اسلام کے ساتھ ملاقات کا خوہاں ہے تو اسے چاہے کہ حضرت حجت صاحب الزمان         کی ولایت کے پرچم تلے آجاۓ اور انھیں دوست رکھےّ لہذا منتظرین کی دوسری سب سے بڑی ذمہ داری امام عصر ارواحنا لہ فداء کی محبت کو اپنے اندر بڑھانا ہے اور ہمیشہ انکی طرف متوجہ رہنا ہے ، اور اسکے لیے مختلف ذریعے بیاں ہوۓ ہیں ،ہم یہاں پر  چند اہم موارد احادیث معصومین کی روشنی میں بیاں کرتے ہیں ۔

--------------

(1):-  کاف ی:ج1 ،ص179 اور الغ یبة ،نعمان یص 141  اور ک فایة الاثر ص 162 - 

۵۰

الف: امام مہدی ؑکی اطاعت اور تجدید بیعت 

امام زمانہ           ہ  کی محبت کے من جملہ مظاہر اور اثار میں سے ایک ؛ حضرتؑ کی اطاعت پر ثابت قدم رہنا اور انکی بیعت کی ہمیشہ تجدید کرنا ہے ، اور یہ جا ننا چاہیے کہ امام اور رہبر اسکے ہر چھوٹے بڑے کاموں  سےمطلع اوراسکے   رفتار وگفتار کو دیکھتے ہیں،اسکے  اچھے اور نیک کاموں  کود یکھ کر انکے  دل میں سرور آجاتاہے جبکہ اسکے  برے اور ناشائستہ کاموں کو دیکھ کر  انکو دکھ ہو تاہے ،اور دل غم وغصے سے بھر جاتا ہے اور یہ بھی معلوم ہونا چاہے کہ انکی رضا خدا  او رسول(ص) کی رضا ہے اور انکی کسی پر ناراضگی خدا و رسول(ص) کی ناراضگی  ہے ،اور میرا  ہر نیک عمل ہر اچھی گفتار اور ہر مثبت قدم اطاعت کی راہ میں روز موعود کو نزدیک کرنے میں مؤثر ثابت ہو گا ،اسی طرح میرا اخلاص ،دین ومذہب اور اہل ایمان کی نسبت میرا احساس مسؤلیت؛  انکے ظہور میں تعجیل کا سبب بنے گا ۔ اور یہ بھی جاننا چاہیے کہ  اما م  زمانہ ؑ کی اطاعت صرف اور صرف پیغمبر اکرم (ص)کی اطاعت اور انکے لاۓ ہوۓ دین کی مکمل  پیروی سے  حاصل ہوتا ہے ،اور جب تک عملی میدان میں اطاعت نہ ہومحبت ومودت معنی ہی نہیں رکھتا یا اگر اجمالی محبت دل میں ہو تو اسے آخری دم تک اطاعت کے بغیر محفوظ رکھنا بہت ہی دور کی بات ہے چناچہ عربی ضرت المثل مشہور ہے(وانت عاصیُ           ُ إنّ المحبَ لمن یحبُّ مطیعُ) یہ ساری نافرمانی اور سر پیچدگی کے ساتھ تم کس طرح اپنی محبت کا اظہار کرتے ہو جبکہ جو جسے محبت کرتا ہے ہمیشہ اسی کا اطاعت گزار ہوتا ہے۔

اسیلۓ صادق آل محمد        د فرماتے ہیں: مَنْ سُرَّ أَنْ يَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ الْقَائِمِ فَلْيَنْتَظِرْ وَ لْيَعْمَلْ بِالْوَرَعِ وَ مَحَاسِنِ الْأَخْلَاقِ وَ هُوَ مُنْتَظِرٌ فَإِنْ مَاتَ وَ قَامَ الْقَائِمُ بَعْدَهُ كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ أَدْرَكَهُ فَجِدُّوا وَ انْتَظِرُوا هَنِیئاً لَكُمْ أَيَّتُهَا الْعِصَابَةُ الْمَرْحُومَةُ  (1)

--------------

(1):- الصراطالمستقیم ج : 2 ص :  14 ۹ 

۵۱

  جو شخص چاہتا ہے ،کہ امام زمانہ کے اصحاب میں سے ہو جائیں تو اسے چاہۓ کہ انتظار کرۓ اور ساتھ ساتھ تقوی وپرہیزگاری اختیار کرے اور نیک اخلاق اپناۓ اسی طرح آپ سے ہی دعاۓعہد کے یہ فقرات نقل ہوۓ ہیں :“اللہم انّی اُجدد لہ فی صبیحة یوم ہذا وما عشت فی ایامی “ خدایا ! میں تجدید (عہد ) کرتا ہوں ہے ،آج کے دن کی صبح اور جتنے دنوں مین زندہ رہوں اپنے عقد وبیعت کی جو میرے گردن میں ہے میں اس بیعت سے نہ پلٹوں گا اور ہمشہ تک اس پر ثابت قدم ہوں گا ، خدایا مجھ کو ان کے اعوان وانصار اوران سے دفاع کرنے والوں  میں سے قرار  دۓ .....

بلکہ متعدد روایات سےیہ معلوم ہوتا ہے ، کہ اہل بیت اطہارؑ کی نسبت جو عہد وپیمان اپنے ماننے والوں کی گردن پر لیا ہے، وہ چھاردہ معصومینؑ  کی اطاعت حمایت اور ان سے محبت کا وعدہ ہے

چنانچہ خود امام زمانہؑ نے جناب شیخ مفید کو لکھے ہوۓ نامے میں فرماتے ہیں :“  و لو أن أشیاعنا وفقهم الله لطاعته علی اجتماع من القلوب فی الوفاء بالعهد علیهم لما تأخر عنهم الیمن بلقائنا و لتعجلت لهم السعادة بمشاهدتنا علی حق المعرفة و صدقها منهم بنا فما یحبسنا عنهم إلا ما یتصل بنا مما نكرهه و لا نؤثره منهم و الله المستعان و هو حسبنا و نعم الوكیل و صلاته علی سیدنا البشیر النذیر محمد و آله الطاهرین و سلم ‏ (1) “اگر ہمارے شیعہ  اﷲ تعالی انھیں اپنی اطاعت کی توفیق عنایت فرماۓ ،ایک دل اور متحد ہو کر ہمارے ساتھ باندھے گۓ عہد وپیمان کو وفا کرتے تو ہمارے  احسان اور ہماری ملاقات کا شرف وفیض ان سے ہرگز مؤخر نہ ہوتے : اور بہت جلد کامل معرفت اور سچی پہچان کے ساتھ ہمارے دیدار کی سعادت انکو نصیب ہوتی ،اور ہمیں شیعوں سے صرف اور صرف انکے ایک گروہ کی کردار نے  پوشیدہ کر رکھّا ہے  جو کردار ہمیں پسند نہیں اور ہم ان سے اس کردار کی توقع نہیں رکھتے تھے ،پروردگار عالم ہمارا بہترین مددگار ہے اور وہی ہمارے لیۓ  کافی ہے ۔

--------------

(1):- مجلسیبحار انوار ،ج52 ،ص 140 - 

۵۲

پس حصرت حجت علیہ السلام کے اس کلام سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اہل بیت اطہار ؑکے چاہنے والوں سے جس چیز کا عہد وپیمان لیا ہے ،وہ انکی ولایت ؛اطاعت؛ حمایت اورمحبت ہے ۔

اور جو چیز امام زمانہ کی زیارت سے محروم ہونے اور انکے ظہور میں تاخیر کا سبب بنی ہے وہ انکے  ماننے والوں کے آنجناب کی اطاعت اور حمایت کے لیے آمادہ نہ ہونا ہے ،اور یہی اطاعت اور حمایت ظہور  کے شرائط میں سے ایک اہم شرط  ہے ۔

اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ امیر المومنین        فرماتے ہیں :“إعلموا أنّ الأرض لاتخلو من حجة لللّه عزوجل ولكنّ اللّه سیعمی خلقه عنها بظلمهم وجورهم وإسرافهم علی انفسهم (1)   جان لو زمین ہرگز حجت خدا سے خالی نہیں ہو سکتی-لیکن عنقریب پروردگار عالم لوگوں کےظلم وجور اور اپنے نفسوں پر اسراف کرنے کی وجہ سے انھیں  انکی زیارت سے  محروم کر دۓ  گا  -

پس ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ منتظرین کی ذمہ داریوں میں سے  ایک اہم ذمہ داری صاحب العصروالزمان کی اطاعت اور تجدید بیعت ہے  اوریہی  شرط ظہور اور محبت کی شاہراہ ہے کہ جسکے بغیر حقیقی اورکامل محبت حاصل نہیں ہوتی ۔

ب: امام مہدی  کی یاد

امام زمانہ عجل اﷲ فرجہ کے بلند مقام کی شناخت اور انکی مودّت ومحبت کو اپنے دل میں پیدا  کرنے اور اسے رشد دینے  کے لیۓ ضروری ہے کہ ہمیشہ آنحضرت کو یاد کریں ،اور انکی طرف متوجہ رہیں یعنی بہت زیادہ توحہ کرنا چاہیے اور یقینی طور  پر  یہ اثر رکھتا ہے ،کیونکہ مسلم طور پر اگر کوئی اپنی روح  ایک چیز کی طرف متوجہ رکھے تو ہو ہی نہیں سکتا کہ اس چیز کے ساتھ رابطہ برقرارنہ ہو ۔

--------------

(1):-  طبرسی - الاحتجاج ج : 2 ص : 499 - 

۵۳

اسی طرح اگر آپ نے اما م زمانہ کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا تو خود یہ کثرت توجہ ؛روحی کشش  ایجاد کر دیتی ہے البتہ استعداد اورظرفیت  کی حفاظت اور شرائط کے ساتھ توجہ  اپنا  اثر خود بخود  چھوڑتاہے اور روایات کے تاکید بھی اسی لحاظ سے ہے ،کہ یہ توجہ اور یاد لا محالہ متوجہ اور متوجہ الیہ کے درمیان رابطہ پیدا کر دیتی ہے اور وقت گزر نے کے ساتھ یہ رابطہ شدت اختیار کرجاتا ہے اور پہلے سے زیادہ مؤثر ہوتا جاتا ہے اور ہمیں بھی آج سے اسکی تمرین کرنا چاہیے اور کم سے کم چوبیس گنٹھوں میں دو وقت صبح اوررات کے وقت  اپنے دل کو حضرت بقیۃ اﷲ  اعظم  ارواحنا لہالفداءکی طرف متوجہ کریں چنانچہ  معصومینؑ نے بھی ایک نماز صبح کے بعد دعا عہدپڑھنے  دوسرا نماز مغربین کے بعد اس دعا کو پڑھنے کا حکم دیا ہےالسلام علیك فی الیل اذا یغشی والنهار اذا تجلی ” سلام ہو تجھ پر جب رات کی تاریکی چھا جاۓ اورجب دن کا  اُجالا پھیل جاۓ(1)   اور امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے :جو شخص اس عہد نامہ کو چالیس صبح پڑھے گا وہ حضرت قائم علیہ السلام کے مددگاروں میں سے شمار ہو گا اور اگر وہ شخص انکے طہور سے پہلے مر جاۓ تو اﷲ تعالی اسے امام ؑکی خدمت کے لیۓ مبعوث کرۓ گا اور اسے ہر کلمہ کے عوض میں ہزار نیکیان مرحمت فرمائیگا اور ہزارگناہ محوکرے  گا(2)     اسی طرح ہر روز جمعہ کو امام زمانہ کی تجدید بیعت کرنا مستحب ہے تاہم آسمانی فرشتے بھی جمعہ کے دن بیت المعمور پرجمع ہوتے ہیں اور ائمہ معصومین ؑکے تجدید بیعت کرتےہیں-

اور امام مہدی ؑکے ساتھ اس روحی اور دلی توجہ کو مستحکم کرنے اور انکی یاد کو مؤثر بنانے  کےلیۓکچھ طریقہ کاربھی ہمیں بتاۓ ہیں ہم ان میں سے بعض موارد  یہاں ذکر کرتے ہیں - 

--------------

(1):- نعمانی:الغ یبة ،باب 10 ،ص 141 -

(2):- پیام اما زمانہ ۱۸۸ ، آیۃاﷲ وحید خراسانی کے اما م زمانہکے متعلق تقر یر کا ایک حصہ-

۵۴

1 :امام مہدی ؑکی نیابت میں صدقہ دینااور نماز پڑھنا

امام زمانہ کی محبت کو بڑھانے اور انکی یادکو زندہ رکھنے اور  اپنی دلی توجہ کو متمرکز کرنے کے لیۓ ایک بہت ہی اہم ذریعہ انکی نیابت میں صدقہ دینا اور نماز پڑھنا  بلکہ ہر نیک کام جس میں خدا کی رضا ہو انجام دینا ہے-ہماری ان سے دلبستگی وتوجہ اور انکی اطاعت وپیروی ایسی ہونی چاہیے جس طرح خدا  و رسول ؐاور خود امام زمانہؑ اور انکے  اجداد طاہرینؑ ہم سے چاہتے  ہیں  ہم جب بھی نماز حاجت بجالاۓ یا صدقہ دین تو  آنجناب کی حاجتوں کو اپنے حاجتوں پر مقدم اور انکی نیابت میں  صدقہ دینے کو  اپنے اوپر اور اپنے عزیزوں کے اوپر صدقہ دینے پر مقدم کرنا چاہے ،اور اپنے لیۓ دعا کرنے سے پہلے انکے سلامتی اور تعجیل ظہور کے لیے دعا کرنی چاہیے،اسی طرح ہر نیک عمل جو انکے وفاء کا سبب بنتا ہے اپنے کاموں پر مقدم کرۓ تاکہ آنحضرت بھی ہماری طرف توجہ کرۓ اور ہم پر احسان کرۓ(1)    اور اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ سرور کائنات(ص) فرماتے ہیں : “کسی بندے کا ایمان کامل نہیں ہوتا جب تک وہ اپنی ذات سے زیادہ مجھ سے اور  اپنی خاندان سے زیادہ میری خاندان کو نہیں  چاہتا ہو ، اسی طرح اسکے نزدیک  اپنی عترت سے زیادہ میری عترت اور اپنی ذات سے زیادہ میری ذات عزیزتر نہ ہو -  اسی طرح متعدد روایات میں ائمہ معصومینؑ کو صلہ دینے کے بارے میں آیا ہے ،کہ ایک درہم امام کو صلہ میں دینا دوملین درہم دیگر کار خیر میں خرچ کرنے کے برابر ہے ؛ یا کسی اور روایت میں.آیا ہے ایک درہم جو  اپنے  امام کو دۓ اسکا ثواب اُحد کی پہاڑی سے بھی سنگین ہے يَا مَيَّاحُ دِرْهَمٌ يُوصَلُ بِهِ الْإِمَامُ أَعْظَمُ وَزْناً مِنْ أُحُدٍ (2) اسی طرح امام کے نیابت میں حج بجا لانے؛ زیارت پر جانے ،اعتکاف پر بیٹھنے ،اور صدقہ دینے کی تاکید کیا گیا ہے ۔ یقینا ان کاموں کا ایک اہم مقصد اورہدف اما م زمانہ کی یاد کو ہر وقت  اپنے دل ودماغ میں زندہ رکھنا  اوران سے اپنی قلبی و روحی توجہ کو تقویت دینا اور   ان کی محبت میں اضافۃ کرنا ہے ، دوسری عبارت میں یہ کہ ایک حقیقی منتظر کی خصوصیت یہ ہونی چاہیے کہ وہ  ہر چیز میں اپنے امام کو یاد رکھے اور انکو کبھی یاد سے جانے نہ دۓ ۔

--------------

(1):- مجلسی :ج ۱۰۲  ،ص ۱۱۱ مصباح الزائر ص ۲۳۵ - 

(2):- کشف المحجہ: فصل ۱۵۰ ،ص ۱۵۱ - 

۵۵

2: انکے  فراق کی داغ میں ہمیشہ غمگین رہنا .

بعض معصومین ؑبھی  امام زمانہؑ کی غیبت کے دوران کو یاد کرتے ہوۓ انکے شوق دیدار میں آنسو بھاتے تھے اور ان سے زیارت کی تمنا کرتے تھے ہاں تک اما م زمانہ کی فراق میں مہموم وغمگین ہونا مومن کی نشانیوں میں سے شمار کیا ہے جیسا کہ امیر المؤمنین        اپنے  حقیقی چاہنے والوں کی اوصاف اور نشانیا ں یوں بیاں فرماتے ہیں

“ومن الدلائل ان يُری من شوقه          مثل السقیم  وفی الفؤاد غلائلٌ

ومن الدلآئل ان یری من اُنسه            مستوحشاَ من كل ما هو مشاغل ٌ 

ومن الدلآئل ضحكه بین الوری               والقلب مخزون كقلب الثاكل "

انکی نشانیوں، میں سے ایک یہ ہے کہ شدت شوق کی وجہ سے بیمار جیسے نظر آئیں گۓ جبکہ انکا دل درد سے پھٹ رہا ہو گا ۔

انکی دوسری نشانی یہ ہے کہ اپنے محبوب کے اُنس میں اس طرح نظر آئیں گۓ کہ ہر وہ چیزجو انہیں محبوب سے دور کر دیتی ہے اس سے  بھاگ جاتے ہونگے   ۔

اور تیسری نشانی یہ ہے کہ دیکھنے  میں خندان نظر آئیں گۓ   جبکہ  انکا دل اس شخص کی طرح محزون ومغموم ہو گا جسکا جوان بیٹا اس دنیا سے فوت کرگیا ہو ۔

لیکن خصوصیت کے ساتھ امام ولی عصرؑ کی فراق وجدائی اور انکے مقدس قلب پر جو مصیبتین گزر تی  ہیں انکو یاد کرتے ہوۓ آنسو بہانا گریہ وزاری کرنے کی بہت ساری فضیلت بیاں ہوئی ہے ،اور واقعی اور حقیقی مؤمن کی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے چنانچہ چھٹے امام        اس بارے میں فرماتے ہیں :إِيَّاكُمْ وَ التَّنْوِیهَ أَمَا وَ اللَّهِ لَيَغِیبَنَّ إِمَامُكُمْ سِنِیناً مِنْ دَهْرِكُمْ وَ لَتُمَحَّصُنَّ حَتَّی يُقَالَ مَاتَ قُتِلَ هَلَكَ بِأَيِّ وَادٍ سَلَكَ وَ لَتَدْمَعَنَّ عَلَيْهِ عُيُونُ الْمُؤْمِنِینَ  (1)

--------------

(1):- کلینی :اصول کافی،ج ۲ ،ص ۱۵۶ اور،ج   ۱ ص ۵۳۸ -  

۵۶

اے مفضل خدا کی قسم تمھارے امام ؑسالوں سال پردہ غیب میں ہونگے اور تم لوگ سخت امتحان کا شکار ہوگا یہاں تک انکے بارے میں کہا جاے گا کہ وہ فوت کر گیا ہے یا انھیں قتل کیا گیا ہے ؟ ...لیکن مؤمنین انکی فراق میں گریاں ہونگے....... 

کسی دوسرے حدیث میں جسے  جناب شیخ صدوق نے سدیر صیرفی سےروایت کی  ہے ،کہتے ہیں :قَالَ دَخَلْتُ أَنَا وَ الْمُفَضَّلُ بْنُ عُمَرَ وَ أَبُو بَصِیرٍ وَ أَبَانُ بْنُ تَغْلِبَ عَلَی مَوْلَانَا أَبِی عَبْدِ اللَّهِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع فَرَأَيْنَاهُ جَالِساً عَلَی التُّرَابِ وَ عَلَيْهِ مِسْحٌ خَيْبَرِيٌّ مُطَوَّقٌ بِلَا جَيْبٍ مُقَصَّرُ الْكُمَّيْنِ وَ هُوَ يَبْكِی بُكَاءَ الْوَالِهِ الثَّكْلَی ذَاتَ الْكَبِدِ الْحَرَّی قَدْ نَالَ الْحُزْنُ مِنْ وَجْنَتَيْهِ وَ شَاعَ التَّغَيُّرُ فِی عَارِضَيْهِ وَ أَبْلَی الدُّمُوعُ مَحْجِرَيْهِ وَ هُوَ يَقُولُ سَيِّدِی غَيْبَتُكَ نَفَتْ رُقَادِی وَ ضَيَّقَتْ عَلَيَّ مِهَادِی وَ أَسَرَتْ مِنِّی رَاحَةَ فُؤَادِی (1)   ایک دن میں؛ مفضل بن عمیر ؛ابو بصیر اور ابان بن تغلب ہم سب مولا امام صادق      کی خدمت میں شرفیاب ہوۓ  تو آپکو اس حالت میں دیکھا کہ آپ فرش کو جمع کرکے خاک پر تشریف فرما ہیں ،  جُبہ خیبری  زیب تن کیۓ  ہوۓ ہیں -جو عام طور پر مصیبت زدہ لوگ پہنتے ہیں -،چہرہ مبارک پر حزن واندوہ کی آثار نمایاں ہیں اور اس شخص کی مانندبے تابی سے  گریہ کر رہے ہیں کہ جس کا جوان بیٹا فوت کر چکا ہو  ،آنکھوں سے آنسوں جاری ہے ،اور زبان پر فرما رہے ہیں  اے میرے دل کا سرور تیری جدائی نے میرے  آنکھوں سے ننید اُڑا لی ہے اور مجھ سے چین چھین لی ہے ،اے میرے سردار تیری غیبت نے میری مصیبتوں کو بے انتہا کر دی ہے .......روایت بہت ہی طولانی ہے اور بہت ہی ظریف نکات بھی موجود ہیں جو چاہتے ہیں تو مراجعہ کریں

پس  ان روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے  کہ  ائمہ بھی امام زمان علیہ السلام کی غیبت سے نگران  اور انکے شوق دیدار میں بے تاب  وگریاں تھے۔

--------------

(1):- کلینی :اصول کافی ،ج۱ ،ص ۳۳۶  باب غیبت -  ---- کمال الد ین ج : 2 ص 35: بحارال انوار ج : 51 ص : 219     

۵۷

۳ : علوم ومعارف اہل بیتؑ کو رواج دینا

علوم ومعارف اہل بیت علیہم السلام کی نشر و اشاعت اور ترویج؛حقیقت میں اہل بیت اطہار ؑکے امر کی احیا کرنے کے مصادیق میں سے ہے جس کے بہت تاکید کیا گیا ہے“اور منتظرین کی ایک اہم ذمہ داریوں میں سے بھی ہےجس طرح روایت میں امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا گیا ہے آپ فرماتے ہیں:تَزَاوَرُوا فَإِنَّ فِی زِيَارَتِكُمْ إِحْيَاءً لِقُلُوبِكُمْ وَ ذِكْراً لِأَحَادِیثِنَا وَ أَحَادِیثُنَا تُعَطِّفُ بَعْضَكُمْ عَلَی بَعْضٍ فَإِنْ أَخَذْتُمْ بِهَا رَشَدْتُمْ وَ نَجَوْتُمْ وَ إِنْ تَرَكْتُمُوهَا ضَلَلْتُمْ وَ هَلَكْتُمْ فَخُذُوا بِهَا وَ أَنَا بِنَجَاتِكُمْ زَعِیمٌ ایک دوسرے کی ملاقات کرو، زیارت پر جاو چونکہ تمھارے ان ملاقاتوں سے تمھارے قلوب زندہ اورہماری احادیث کی یاد آوری ہوتی ہے،اور ہماری احادیث تمھارے ایک دوسرے پرمہربان ہونے کا سبب بنتی ہیں پس تم نے ان احادیث کو لے لیا اور اس پرعمل کیا تو تم کامیاب ہو جاؤ گے نجات پاؤ گۓ اور جب بھی اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہلاک ہو جاؤ گۓ  ،پس ان احادیث پر عمل کرو میں تمھاری نجات کی ضمانت دونگا ”(1) اسی طرح کسی دوسرے حدیث میں ابن شعبہ حرّانی نے چھٹے امام ؑسے نقل کیا ہے آپ منتظرین کی توصیف میں فرماتے  ہیں:وفرقة احّبونا وحفظوا قولنا ،واطاعو أمرنا ولم یخالفوا فعلنا فاولئك منّا ونحن منهم (2) اور ایک گروہ وہ ہے جو ہمیں دوست رکھتا ہے،ہمارے کلام کی حفاظت کرتا ہے،ہمارے امرکی اطاعت کرتا ہے اور ہماری سیرت اور فعل کی مخالفت نہیں کرتا ہے، وہ ہم سے ہے اور ہم ان سے ہیں عصر غیبت میں  امام زمانہ کی بہترین  خدمت جس کی امام صادق علیہ السلام تمنا کرتے تھے ، علوم اہل بیت کی نشرو اشاعت انکی فضائل ومناقب کو لوگوں تک پہنچانا  ہے ، جو حقیقت میں دین خدا کی نصرت ہے جس کے بارے میں پروردگار عالم خود  فرماتا ہےوَ لَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ  إِنَّ اللَّهَ لَقَوِىٌّ عَزِیز٭ (3) بے شک اﷲ اسکی مدد کرۓ گا جو اسکی نصرت کرۓ اور بتحقیق خداوند عالم صاحب قدرت اور ہر چیز پر غلبہ رکھنے والاہے

--------------

(1):- وسائل الش یعة ج : 16 ص : 34 ۶ بحارالانوار ج : 71 ص : 35 ۸ 

(2):- تحف العقول :ص 513 :اور بحار انوار :ج75 ،ص 38۲ -

(3):- سورہحج ۴۰ - 

۵۸

۴:فقیہ اہل بیت ؑکی اطاعت اور پیروی

امام زمانہ ؑکی غیبت سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ پروردگار عالم نے اس امت کو اپنے آپ پر چھوڑ دیا ہو یا  انکی ہدایت ورہبری کا کچھ انتظام نہیں کیا ہو ؟،یہ اسلئے کہ اگر چہ حکمت الھی کی بنا پر حجت خدا لوگوں کے عادی زندگی سے مخفی ہیں ،لیکن آپکی نشانیاں اور آثار  اہل بصیرت پر مخفی نہیں ہے(بنفسی انت من مغیب ٍِ لم یخل منّا ، بنفسی انت من نازح ِ ما نزح عنّا ) (1) “ قربان ہوجاوں آپ پر پردہ غیبت میں ہیں لیکن ہمارے درمیاں ہے ،فدا ہو جاوں  آپ پر ہماری آنکھوں سے مخفی ہیں لیکن ہم سے جدا نہیں ہے ”

اسیلئے معصومؑ  فرماتے ہیں :وإن غاب عن الناس شخصه فی حال هدنة لم یغب عنهم مثبوت علمه (2)   ”اگر چہ غیبت کے دوران انکی شخصیت لوگوں کی نظروں سے مخفی ہونگی(3)   لیکن انکے علمی آثار اہل بصیرت پر عیان ہوں گے ۔ یعنی اسکا مطلب یہ ہے کہ خود  امام لوگوں کے حالات سے آگاہ ہین  اور جو علوم علماء اور فقہاء کے نزدیک  احادیث اور سیرت کی صورت میں موجود ہیں اوہ بہی انکے ہی آثار ہین- لوگ  اگر چہ انکے نورانی چہرے کی زیارت سے محروم ہیں اور مستقیم انکی اطاعت نہیں کر سکتے لیکن انکے نائب عام ؛ ولی فقیہ اور علماء کی اطاعت کے ذریعے اپنے امام کی اطاعت کر  سکتے ہیں ،کہ جنکی اطاعت کا خود معصومین علیہم السلام نے حکم دیا ہے“ “فَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنَ الْفُقَهَاءِ صَائِناً لِنَفْسِهِ حَافِظاً لِدِینِهِ مُخَالِفاً عَلَی هَوَاهُ مُطِیعاً لِأَمْرِ مَوْلَاهُ فَلِلْعَوَامِّ أَنْ يُقَلِّدُواه (4) .  اور فقہامیں سے وہ فقیہہ جو اپنے دین کا پابند ہو، نفس پر کنڑول رکھتا ہو ، نفسانی خواہشات کے تابع نہ ہو، اور اپنے مولا کے فرمان بردار ہو تو انکی اطاعت اور پیروی(تقلید )سب  عوام پر واجب ہے ۔

--------------

(1):- دعایندب ہ کا ا یکفقرہ

(2):- صافیگلپائ ی گانی :منتخب الاثر ،ص ۲۷۲ - 

(3):- البتہواضح ر ہے یہ غیبت کےپہل ی  معنی کی بنیاد پر ہے

(4):- مجلسی:بحار الانوار،ج2 ،ص 88 - وسائل الش یعة ج : 27 ص : 13

۵۹

 یا خود امام زمانہ علیہ الصلاۃ والسلام اس بارے فرماتے ہیں :أَمَّا الْحَوَادِثُ الْوَاقِعَةُ فَارْجِعُوا فِیهَا إِلَی رُوَاةِ حَدِیثِنَا فَإِنَّهُمْ حُجَّتِی عَلَيْكُمْ وَ أَنَا حُجَّةُ اللَّهِ عَلَيْهِم‏  (1) اور درپیش مسائل میں ہمارے احادیث کے جاننے والے (فقہاء) کی طرف مراجعت کریں ،جس طرح میں ان پر حجت ہوں اسی طرح وہ تمھارے اوپر میری جانب سے حجت ہیں یعنی اگر حجت خدا غیبت میں ہیں تو لوگوں کوبغیر حجت کے رہا نہیں کیا گیا ہے ،بلکہ فقہاء ان پر حجت ہیں انکی پیروی  خدا اورسولؐ کی پیروی ہے ۔

فَإِنِّی قَدْ جَعَلْتُهُ عَلَيْكُمْ حَاكِماً فَإِذَا حَكَمَ بِحُكْمِنَا فَلَمْ يَقْبَلْهُ مِنْهُ فَإِنَّمَا اسْتَخَفَّ بِحُكْمِ اللَّهِ وَ عَلَيْنَا رَدَّ وَ الرَّادُّ عَلَيْنَا الرَّادُّ عَلَی اللَّهِ وَ هُوَ عَلَی حَدِّ الشِّرْكِ بِاللَّه‏.  ” (2) اور ہم نے انھیں  تمھارے اوپر حاکم بنایا ہے ،پس وہ(فقیہ )جو حکم دیتا ہے وہ ہمارے حکم سے دیتا ہے جو ان سے قبول نہ کرۓ تو گویا اسنے حکم خدا کی بے اعتنائی کہ ہے ،اور ہمیں رد کیا ہے اور جو ہمیں رد کرے اسنے خدا کو رد کیا ہے  جو حقیقت میں خدا سے  شرک لانے کی حد میں ہے یعنی   انکی نافرمانی ہمارے نافرمانی ہے اورہماری نافرمانی خدا کی نافرمانی اور خدا کی نافرمانی شرک ہے اور اھل بیتؑ نے اپنے مانے والے شیعوں کو ابلیس اور اسکے کارندوں کی شر سے بچا کر رکھنے اور انکے ععقیدتی و ایمانی  حدود کی نگہبانی کو علماء ،فقہاء کی سب سے بڑی ذمہ داری بتائی ہے اور فرمایا ہے  :علماء شیعتنا مرابطون فی الثغر الذی یلی إبلیس و عفاریته یمنعونهم عن الخروج علی ضعفاء شیعتنا و عن أن یتسلط علیهم إبلیس و شیعته النواصب ألا فمن انتصب لذلك من شیعتنا كان أفضل ممن جاهد الروم و الترك و الخزر ألف ألف مرة لأنه یدفع عن أدیان محبینا و ذلك یدفع عن أبدانهم   ” (3) ہمارے شیعوں کے علماء ان حدود کے محافظ اور نگہبان ہیں کہ جن حدود سے گزر کر شیطان اور اسکے کارندے اور پیروان داخل ہوتے ہیں اوریہ علماء  ہمارے کمزور شیعوں پر شیطان کے غلبہ آنے اور انھیں بے ایمانی کی طرف سوق دینے سے بچاتے ہیں ،

--------------

(1):- """"   """"ج 53 ،ص 181 - الغیبةللطوس یص : ۲۹۱ 

(2):- کلینی :اصول   الکاف یج : 1 ص : ۶۷ -   تہذ یب ال اح کام ج : 6 ص :  21 ۸  

(3):- الصراط المستقیم :ج ۳ ،ص۵۵ ،  الاحتجاج ج : 2 ص۳۸۵  :  عوالی اللئالی ج ۱ ص ۱۸ . 

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

انبياءعليه‌السلام كا انتخاب ۱۶; انبياءعليه‌السلام كا سابقہ ۱۶; انبياءعليه‌السلام كا نيك نام ہونا ۱۶

اہل مدائن :اہل مدائن اور حضرت شعيبعليه‌السلام ۱۴، ۱۵، ۱۷;اہل مدائن كاانگيزہ ۶;اہل مدائن كا شرك ۴، ۵، ۶; اہل مدائن كا عقيدہ ۴;اہل مدائن كا مزاح اڑانا ۳;اہل مدائن كى تقليد ۶;اہل مدائن كى فكر ۸;اہل مدائن كے آباء و اجداد كا شرك ۴;اہل مدائن كے آباء و اجداد كا عقيدہ ۴; اہل مدائن كے درميانى عمر كے لوگ ۹ ; اہل مدائن كے نوجوان ۹; اہل مدائن ميں مالكيت ۱۳

تعصب:قوميتعصب كے آثار ۷; ناپسند يدہ تعصب كے آثار ۸

تقليد :آباء و اجداد كى تقليد ۶، ۸; اندھى تقليد كا سبب ۷;اندھى تقليد كے آثار ۸

رشد :فكرى رشد كے موانع ۸

شرك :شرك عبادى ۴،۶

شعيبعليه‌السلام :حضرت شعيبعليه‌السلام كا پسنديدہ اخلاق ۱۵; حضرت شعيبعليه‌السلام كا شرك سے مقابلہ ۵،۱۷; حضرت شعيبعليه‌السلام كا قصہ ۳،۹;حضرت شعيبعليه‌السلام كى تبليغ ۹;حضرت شعيبعليه‌السلام كى تعليمات ۵، ۱۰; حضرت شعيبعليه‌السلام كى شريعت ميں مالكيت ۱۰;حضرت شعيبعليه‌السلام كى شريعت ميں نماز كى اہميت ۱; حضرت شعيبعليه‌السلام كى سوچ ۱۴;حضرت شعيبعليه‌السلام كى عبادات كا مذاق اڑانا ۳; حضرت شعيبعليه‌السلام كى نماز كامذاق ۳; حضرت شعيبعليه‌السلام كى ہدايت ۱۴; حضرت شعيبعليه‌السلام كے فضائل ۱۴، ۱۵; حضرت شعيبعليه‌السلام كے مخاطب ۹

معاشرہ :معاشرے كے فساد كى پہچان ۸

مال :مال ميں تصرف كرنے كى محدوديت ۱۱، ۱۲، ۱۳، ۱۸

مالكيت :اديان ميں مالكيت ۱۱;مالكيت ميں آزادى ۱۱، ۱۲

مشركين : ۴

معاملہ :معاملہ ميں ظلم كا سبب ۱۲

نوجوان :نوجوانوں كى اہميت ۹

نماز :شريعت ميں نماز كا ہونا ۲; نماز اديان الہى ميں ۲

۲۶۱

آیت ۸۸

( قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَىَ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي وَرَزَقَنِي مِنْهُ رِزْقاً حَسَناً وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَى مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ إِنْ أُرِيدُ إِلاَّ الإِصْلاَحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِيقِي إِلاَّ بِاللّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ )

شعيب نے كہا كہ اے قوم والو تمھارا كيا خيال ہے كہ اگر ميں خدا كى طرف سے روشن دليل ركھتا ہوں اور اس نے مجھے بہترين رزق عطا كرديا ہے اور ميں يہ بھى نہيں چاہتا ہوں كہ جس چيز سے تم كو روكتا ہوں خود اسى كى خلاف ورزى كروں ميں تو صرف اصلاح چاہتا ہوں جہاں تك ميرے امكان ميں ہو_ ميرى توفيق صرف اللہ سے وابستہ ہے اسى پر ميرا اعتماد ہے اور اسى كى طرف ميں توجہ كررہاہوں (۸۸)

۱_ حضرت شعيبعليه‌السلام اپنى رسالت كے ليے معجزہ اور روشن دليل ركھتے تھے _

يا قوم أرءيتم ان كنت على بيّنة من ربي

۲_ الله تعالى ، اپنے پيغمبروں كو معجزہ اورواضح دليليں عطا كرنے والا ہے _ان كنت على بيُنة من ربّي

۳_ الله تعالى ،اپنے پيغمبروں كا مربى اور ان كے امور كى تدبير كرنے والا ہے _ان كنت على بيّنة من ربّي

( ربّ) مربى اور مدبر كے معنيميں ہے_

۴_ پيغمبروں كو معجزہ اور روشن دلائل عطا كرنے كا مقصد، ان كى رسالت كے مقاصد كى پيشرفت اور امر نبوت كى تدبير ہے_ان كنت على بيّنة من ربّي

۵_ حضرت شعيبعليه‌السلام كا كافروں اور مشركين سے رو يّہ قابل رحم اور مشفقانہ تھا _

يا قوم أرءيتم

( يا قوم ) سے خطاب كرنا، حضرت شعيبعليه‌السلام كى شفقت اور مہربانى كو بتاتا ہے _

۶_ لوگوں كى آزادى و عقائد اور رسومات پر پابندى لگانے كے ليے دليل اور وشن برھان ہونى چاہيے_

ا صلاتك تأمرك قال يا قوم أرءيتم ان كنت على بيّنة من ربّي

۷_ لوگوں كے كردار اور عقائد كى اصلاح نيز ان كى آزادى و اختيار كو محدود كرنا، الہى رسالت ہے جوپيغمبروں كى ذمہ دارى ہے_ا صلاتك تأمرك ان نترك قال يا قوم ارء يتم ان كنت على بيّنة من ربّي

۲۶۲

۸_ الله تعالى نے شعيبعليه‌السلام كو روزى اور اپنى و پسنديدہ خاص نعمت سے نواز اور انہيں مقام نبوت عطا فرمايا_

أرءيتم ان رزقنى منه رزقاً حسن

يہاں ( رزقاً حسنا ) سے مراد، مورد كى مناسبت سے مقام نبوت و پيغمبرى ہے _

۹_ حضرت شعيبعليه‌السلام كا مقام نبوت پر فائز ہو نا، ان كو اس بات پر آمادہ كرتا ہے كہ وہ لوگوں كو توحيد اور اپنے معاملات ميں عدل و انصاف كى دعوت ديں _قالوا يا شعيب ا صلوتك تأمرك قال يا قوم أرءيتم ان كنت على بيّنة من ربّى و رزقنى منه رزقاً حسن

مذكورہ آيت ميں حضرت شعيبعليه‌السلام كى گفتگو انكى قوم كے مزاح كى تحليل كا جواب ہے جو انہوں نے (أصلاتك ...) سے كيا اور حضرتعليه‌السلام نے جملہ (أرءيتم ) سے اسكا جواب دياجو اس بات كو بتاتا ہے كہ حضرت شعيبعليه‌السلام كو الله تعالى نے جو مقام و منزلت عطا فرمائي تھى اس كے مقابلے ميں وہ ذمہ دار تھے كہ ان كے غلط كاموں اور غلط رسم و رسوم اورعقائد كى مخالفت كريں _

۱۰_ مقام نبوت پر فائز ہونا، الله تعالى كى طرف سے اپنے پيغمبروں كے ليے نيك اور مخصوص روزى ہے_

و رزقنى منه رزقاً حسنا

۱۱_ الله تعالى كى طرف سے بشريت كے ليے معارف الہى اور احكام دينى كا ہونا، عطا اورنيك روزى ہے_

و رزقنى منه رزقاً حسنا

يہاں يہ كہہ سكتے ہيں كہ ( رزقاً حسناً) سے مراد (أعبدوا الله ...) ( جو اس سے پہلے والى آيت ميں ہے) كو مد نظر ركھتے ہوئے معارف اور احكام الہى ہيں جنكو الله تعالى نے حضرت شعيبعليه‌السلام كو بتايا تا كہ لوگوں كو ان كى تعليم دے _

۱۲_ حضرت شعيبعليه‌السلام اپنے معاشرے كے حرام رزق سے آلودہ ہونے كے باوجود بھى حلال اور نيك روز ى سے بہرہ مند تھے_

يا قوم ا وفوالمكيا و الميزان و رزقنى منه رزقاً حسنا

حضرت شعيبعليه‌السلام نے مدائن كے لوگوں كے لين دين اور معاملات كو ظالمانہ كہا اور ان كى آمدنى كو اچھا نہيں سمجھا ليكن اس بعدفرمايا كہ ميں نيك روزى كا حامل ہوں _

۲۶۳

تو يہاں يہ احتمال ديا جاسكتا ہے كہ (رزقاً حسناً ) سے مراد دنيا كى نيك روزى ہے _

۱۳_ جس لين دين ميں ظلم و ستم نہ ہو اور روزى كو حاصل كرنے ميں عدل و انصاف الحاظ ركھاجائے تو اديان الہى ميں ايسى روزي، نيك اور حلال ہے _و رزقنى منه رزقاً حسنا

۱۴_ حضرت شعيبعليه‌السلام ، تونگرى اور وسيع روزي، كے حامل تھے _ورزقنى منه رزقاً حسنا

۱۵_ نيك و حلال روزي، الله تعالى كى طرف سے ہوتى ہے اور اس كے اسباب بھى وہى مہيا كرتا ہے _

ورزقنى منه رزقاً حسنا ً

مذكورہ بالا معنى ( منہ ) كى ضمير كا مرجع، الله تعالى كو قرار ديں تو يہ معنى حاصل ہوتا ہے _

۱۶_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے لوگوں كو بتايا كہ ميں نے جو تعليمات اور قوانين بتائے ہيں ميں ہميشہ ان كا پابند تھااور اس پر عمل كرتا رہوں گا_ما اريد ان اخالفكم الى ما انهى كم عنه

( اخالفكم ) كا فعل چونكہ حرف (الي) سے متعدى ہوا ہے لہذا اسميں ( اميل ) كا معنى پاياجاتا ہے تو اس صورت ميں ( ما اريد ...) كا معنى يوں ہوگا كہ ميں نہيں چاہتا ہوں كہ تمھارے ساتھ مخالفت كروں اور جس سے ميں نے آپكو منع كيا اسكو ميں انجام دوں _

۱۷_ مبلغين اور معاشرے كى اصلاح كرنے والوں كے ليے ضرورى ہے كہ وہ تعليمات دينى اور اپنے اصلاحى پروگراموں پرپابند رہيں _و ما اريد ان اخالفكم الى ما انهى كم عنه

۱۸_ حضرت شعيب(ع) ، لين دين ميں ظلم و ستم اور جھوٹے معبودوں كى عبادت كرنے ميں ہرگز ميلان نہيں ركھتے تھے _و ما ا ريد ان اخالفكم الى ما انهى كم عنه

۱۹_ حضرت شعيب،عليه‌السلام شہر مدائن ميں كاروبار اور اقتصادى معاملات كرنے ميں مشغول تھے_

أوفوا المكيال و الميزان و ما أريد ان اخالفكم الى ما انهى كم عنه

حضرت شعيبعليه‌السلام نے لين دين ميں عدل و انصاف اور معاملات ميں كم فروشى اور ظلم و ستم سے پرہيز پر بہت زيادہ تاكيد كرنے كے بعد فرمايا ميں نے جن چيزوں سے تم كو منع كيا ہے ميں خود اس پر عمل نہيں كروں گا_ يہ بات بتاتى ہے كہ وہ خود بھى لين دين كرنے ميں مشغول تھے_

۲۰_ حضرت شعيبعليه‌السلام كامقصد، مدائن كے آداب و رسوم اور ان كى ظالمانہ رفتار اور معاشرے كے فساد كى اصلاح كرنا

۲۶۴

تھا _ان أريد الّأ الاصلاح ما استطعت

۲۱_ حضرت شعيب(ع) نے اپنى طاقت و استطاعت كے مطابق معاشرے كے فساد كو دوركرنے اور اس كى اصلاح كرنے كى كوشش كى _ان أريت الّأ الاصلاح مااستطعت

( ما ) كا حرف جملہ ( ما استطعت ) ميں ظرفيہ مصدريہ ہے _ يعنى مدت اور زمان كے معنى ميں ہے _ كيونكہ فعل ( استطعت ) كو ما مصدريہ كے بعد مصدر كى تاديل ميں ليا گيا ہے _ تو اس صورت ميں ( ان اريد ...) كا معنى يوں ہوگا(مدة استطاعتى الاصلاح ما اريد الّأ الاصلاح ) جتنى بھى ميرى اصلاح كرنے كى استطاعت ہوگى سوائے اصلاح كے اور كچھ نہيں كروں گا _

۲۲_ قائدين اور دين كے مبلغين كو چاہيئے كہ معاشرے كى اصلاح اور دين الہى كى تبليغ ميں جتنى قدرت ركھتے ہيں اتنى كوشش كريں _ان ا ريد الّأ الاصلاح ما استطعت

۲۳_ بشرى معاشرہ كى اصلاح، توحيد ، وحدہ لا شريك كى پرستش لين دين اور اقتصادى امور ميں عدل و انصاف كرنے ميں پوشيدہ ہے_قال يا قوم اعبدوا الله ا وفوا المكيال و الميزان بالقسط ان ا ريد الّأ الاصلاح

۲۴_ حضرت شعيبعليه‌السلام ، معاشرہ كى اصلاح ميں اپنى كاميابى كو الله تعالى كى مددكے مر ہوں منت سمجھتے تھے _

ان اريد الّأ الاصلاح ما استطعت و ما توفيقى الّا بالله عليه توكلت

آيت شريفہ ميں ( توفيق) كا لفظ مصدر مجہول ہے جو اپنے نائب فاعل ( يا متكلم ) كى طرف اضافہ ہوا ہے اور اسميں (بأ) استعانت كے ليے آئي ہے تو اس صورت ميں ( و ماتوفيقى ...) كا معنى يوں ہوگا كہ الله تعالى ہى كى توفيق سے ميں اچھے كاموں ميں كامياب ہوسكوں گا _

۵_حضرت شعيب،عليه‌السلام تنہا الله تعالى كى ذات كو اپنى پناہگاہ سمجھتے تھے اور فقط اس كے حضورميں جھكتےتھے_

و اليه انيب (انابة ) انيب كا مصدر ہے جسكا معنى رجوع كرنا اور اسكى طرف آنا ہے _

۲۶_ نيك كاموں ميں انسان كى كاميابي، الله تعالى كى مدد ميں پنہاں ہے _و ما توفيقى الّا بالله

۲۷_الله تعالى كى ذات پرتوكل كرنا اوراپنے امور كو اس

۲۶۵

كے سپرد كرنا ضرورى ہے_عليه توكلت

۲۸_ الله تعالى كى طرف توجہ اور اسكى طرف جھكنا، ايك ضرورى امر ہے _و اليه انيب

۲۹_ انسان كى كاميابى كے ليے الله تعالى كے علاوہ كسى اور طاقت كاكارساز نہ ہونا يہ دليل ہے كہ اس ذات پر توكل كيا جائے اور اس كے حضور جھكا جائے _ما توفيقى الّا بالله عليه توكلت و اليه انيب

( عليہ توكلت و اليہ انيب) كا جملہ ( ما توفيقى ...) كے ليے نتيجہ كے مقام پر ہے _

۳۰_ جو معاشرہ كى اصلاح كرنا چاہتے ہيں ان كے ليے ضرورى ہے كہ وہ فقط الله كى ذات پر توكل كريں اور اس كے حضور جھكيں _ان اريد الّأ الاصلاح عليه توكلت و اليه انيب

۳۱_عبدالله بن الفضل الهاشمى قال : سألت ابا عبدالله جعفر بن محمد عليه‌السلام عن قول الله عزوجل ( و ما توفيقى الّا بالله ) قال : اذ فعل العبد ما ا مره الله عزوجل به من الطاعة كان فعله وفقاً لأمر الله عزوجل وسمى العبد به موفقاً لأمر الله عزوجل و سمى العبد به موفّقاً و اذاء اراد العبد ان يدخل فى شئي: من معاصى الله فحال الله تبارك و تعالى بينه و بين تلك المعصية فتركها كان تركه لها بتوفيق الله تعالى ذكره ) (۱)

ترجمہ: عبدالله بن فضل ہاشمى نے امام صادقعليه‌السلام سے الله تعالى كے اس قول ( و ما توفيقى الّا بالله ...) كے بارے ميں سوال كيا كہ اس سے كيا مراد ہے ؟ تو حضرتعليه‌السلام نے جواب ديتے ہوئے فرمايا كہ جب انسان الله كى اطاعت كرتا ہے اور جو اس نے حكم ديا ہے اس كو بجالاتا ہو تو اسكا عمل اوامر الہى كے مطابق ہوتا ہے اس انسان كو انسان كامياب كہتے ہيں _( يعنى الله تعالى كى توفيق اس كے شامل حال ہوتى ہے)اگر انسان كوئي گناہ انجام دينے كا ارادہ كرتا ہے اور الله تعالى اس كے اس گناہ كے انجام دينے ميں كوئي مانع قرار ديتا ہے جسكى وجہ سے وہ گناہ ترك كرديتا ہے يہ گناہ كا ترك كرنا بھى الله تعالى كى توفيق ہے _

آزادى :آزادى كى حدود كا تعين۷; آزادى كى محدوديت كا ملاك ۶

اصلاح كرنے والے :اصلاح كرنے والوں كيذمہ داري۱۷، ۳۰

____________________

۱) توحيد صدوق ، ص ۲۴۲، ح ۱، ب ۳۵ نور الثقلين ج ۲، ص ۳۹۳، ح ۱۹۸_

۲۶۶

اطاعت :الله كى اطاعت كے آثار ۳۱

اقتصاد :اقتصاد ميں عدالت كرنے كے آثار ۲۳; اقتصاد ميں عدالت كى دعوت ۹

امور:امور كا سپرد كرنا ۷

انبياء :انبياءعليه‌السلام كا اصلاح كرنا ۷;انبياء كا مدبّر ۳; انبياءعليه‌السلام كا مربى ۳;انبياءعليه‌السلام كى خاص روزى ۱۰; انبياءعليه‌السلام كى رسالت ۸; انبياءعليه‌السلام كى نبوت كے دلائل ۲;انبياءعليه‌السلام كى نبوت ۱۰; انبياءعليه‌السلام كے اہداف كے تحقق كا سبب ۴; انبياءعليه‌السلام كے دلائل كا فلسفہ ۴; انبياءعليه‌السلام كے معجزہ كا فلسفہ ۴; انبياءعليه‌السلام كے مقامات ۱۰; رسالت انبياءعليه‌السلام كى اہميت ۴

انسان :انسانوں كے عقيدہ كى اصلاح ۷; انسانوں كے عمل كى اصلاح ۷

الله تعالى :الله تعالى كى بخشش ۲، ۱۱;الله تعالى كى توفيقات ۱۵، ۳۱; الله تعالى كى خاص عنايات ۱۰;الله كى ربوبيت ۳; الله تعالى كى روزياں ۱۱;الله تعالى كى مدد كے آثار ۲۴، ۲۶; الله تعالى كى نعمتيں ۸;الله تعالى كے افعال ۳

الله تعالى كى طرف لوٹنا : ۲۵، ۲۸، ۲۹

اہل مدائن:اہل مدائن كى حرام خورى ۱۲

تحريك :تحريك كے عوامل ۹

توحيد :توحيد عبادى كے آثار ۲۳; توحيد كى دعوت ۹

توكل :الله كى ذات پر توكل كى اہميت ۲۷، ۲۹، ۳۰; توكل كا فلسفہ ۲۹

دين :دين كى اہميت

دينى رہبر:دينى رہبر اور اصلاح معاشرہ ۲۲; دينى رہبر اور دين ۲۲; دينى رہبر اور دين كى ذمہ دارى ۲۲

ذكر :الله تعالى كے ذكر كى اہميت ۲۸

رسومات :باطل رسومات سے مقابلہ ۶

روايت :۳۱

۲۶۷

روزى :اديان الہى ميں حلال روزى ۱۳; پسنديدہ روزى ۸، ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۳; پسنديدہ روزى كا سبب ۱۵; حلال روزى كا سبب ۱۵;حلال روزى كے معيار ۱۳

شعيبعليه‌السلام :حضرت شعيبعليه‌السلام اور اقتصادى خلاف ورزياں ۱۸; حضرت شعيبعليه‌السلام اور اہل مدائن كى رسومات ۲۰; حضرت شعيبعليه‌السلام اور باطل معبود ۱۸; حضرت شعيب(ع) اور فساد سے جہاد ۲۰، ۲۱; حضرت شعيبعليه‌السلام اور كفار ۵;حضرت شعيب(ع) اور مشركين ۵; حضرت شعيبعليه‌السلام كا ايمان ۱۶; حضرت شعيبعليه‌السلام كى تبليغ كا سبب ۹;حضرت شعيبعليه‌السلام كا جہاد ۲۱;حضرت شعيب(ع) كا شرعى وظيفہ پر عمل كرنا ۱۶;حضرت شعيبعليه‌السلام كا عقيدہ ۲۴، ۲۵; حضرت شعيبعليه‌السلام كا قصہ ۱۹; حضرت شعيبعليه‌السلام كا كام ۱۹; حضرت شعيبعليه‌السلام كا معجزہ ۱; حضرت شعيبعليه‌السلام كے ميل جول كا طريقہ ۵; حضرت شعيبعليه‌السلام كى اصلاح كرنا ۲۰، ۲۱; حضرت شعيبعليه‌السلام كى تجارت ۱۹; حضرت شعيبعليه‌السلام كى تعليمات ۱۶; حضرت شعيبعليه‌السلام كى توحيد ۲۵; حضرت شعيب(ع) كى ثروتمندى ۱۴; حضرت شعيب(ع) كى حلال روزى ۱۲; حضرت شعيبعليه‌السلام كى روزى ۸، ۱۴; حضرت شعيبعليه‌السلام كى كاميابى ۲۴; حضرت شعيبعليه‌السلام كى مہربانى ۵; حضرت شعيب(ع) كى نبوت ۸; حضرت شعيبعليه‌السلام كى نبوت كے دلائل ۱; حضرت شعيبعليه‌السلام كے درجات ۸، ۹; حضرت شعيبعليه‌السلام كے دلائل ۱; حضرت شعيب(ع) كے ميل جون كا طريقہ ۵; حضرت شعيبعليه‌السلام كى نبوت كے آثار ۹

عقيدہ :باطل عقيدے كے ساتھ جہاد كرنے كا طريقہ ۶;عقيدہ صحيح كرنے كى دليل ۶;عقيدہ ميں دليل كى اہميت ۶

عمل :عمل خير ميں كاميابى ۲۶

گناہ :گناہ كے آثار ۳۱

مبلغين :مبلغين اور دين ۱۷،۲۲;مبلغين اور معاشرہ كى اصلاح۲۲; مبلغين كى ذمہ دارى ۱۷، ۲۲

معجزہ :معجزہ كا سبب ۲

موجودات :موجودات كا عاجز ہونا ۲۹

موفقيت :موفقيت كا سبب ۲۹; موفقيت كى نشانياں ۳۱;موفقيت كے اسباب ۲۶

نبوت :نبوت كى اہميت

نعمت :خاص نعمتوں كے حامل ۸

۲۶۸

آیت ۷۹

( وَيَا قَوْمِ لاَ يَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِي أَن يُصِيبَكُم مِّثْلُ مَا أَصَابَ قَوْمَ نُوحٍ أَوْ قَوْمَ هُودٍ أَوْ قَوْمَ صَالِحٍ وَمَا قَوْمُ لُوطٍ مِّنكُم بِبَعِيدٍ )

اور اے قوم كہيں ميرى مخالفت تم پر ايسا عذاب نازل نہ كرادے جيسا عذاب قوم نوح،قوم ہود يا قوم صالح پر نازل ہواتھا اور قوم لوط بھى تم سے كچھ دور نہيں ہے (۸۹)

۱_ مدائن كے لوگ، حضرت شعيبعليه‌السلام كى مخالفت پر كمر بستہ ہوگئے اور ان كے ساتھ بغض اور دشمنى كرنے لگے_

لا يجر منّكم شقاقي

۲_ انبياء كے ساتھ مخالفت اور دشمني،دنيا ميں عذاب الہى ميں گرفتارى كا سبب بنتا ہے_

(شقاق ) مخالفت اور دشمنى كے معنى ميں ہے_ اور ( شقاقي) كا جملہ اپنے مفعول كى طرف مضاف ہوا ہے اوراس كا فاعل محذوف ہے_يعنى يوں ہوگا (عداوتكم اياى )(جرم ) (لا يجرمنّكم ) كا مصد رہے جو كمانے كے معنى ميں ہے يہ بات قابل ذكر ہے كہ اگر چہ آيت شريفہ ميں كمانے كے بارے ميں نہى گى گئي ہے ليكن حقيقت ميں (شقاق) سے نہى كى گئي ہے تو اس صورت ميں جملہ (لا يجر منّكم ...) كا معني يوں ہوگا كہ مجھ سے عداوت نہ كرو ميرى دشمنى عذاب الہى كے نزول كا سبب بنے گى جيسے قوم نوح و پر عذاب نازل ہوا تھا_

۳_ حضرت نوحعليه‌السلام ، ہودعليه‌السلام ، صالحعليه‌السلام ، لوطعليه‌السلام ،كى قوميں انبياءعليه‌السلام سے مخالفت اور دشمنى كے سبب دنياوى عذاب الہى ميں گرفتار ہوئے_مثل ما اصاب قوم نوح و ما قوم لوط منكم ببعيد

۴_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے اپنى قوم كے كفار و ظالم لوگوں كو بعض گذشتہ اقوام كى برى عاقبت كى مثال دے كر ڈرايا _

و يا قوم لا يجرمنّكم شقا قى ان يصيبكم مثل ما أصاب قوم نوح أو قوم هود

۲۶۹

۵_ حضرت شعيبعليه‌السلام كى تبليغ كا طريقہ يہ تھا كہگذشتہ اقوام كے عذاب و تاريخ اور عذاب كے سبب كو ذكر كر تے تھے_

و يا قوم لا يجرمنّكم شقاقى ان يصيبكم مثل ما اصاب قوم نوح

۶_ حضرت لوطعليه‌السلام كى قوم، حضرت شعيب(ع) كى قوم سے پہلے زندگى بسر كرتى تھى اور ان كے درميان كوئي زيادہ فاصلہ نہيں تھا _وماقوم لوط(ع) منكم ببعيد

قوم لوط اور قوم شعيب كے قرب ميں دو طرح كا احتمال ديا جاسكتا ہے _ ممكن ہے (و ما قوم لوط ...) سے مراد قرب مكانى ہو ياممكن ہے قرب زمانى ہو آيت شريفہ ميں اسكى وضاحت نہ كرنا يہ دليل ہے كہ دونوں مراد ہوں _

۷_ مدائن كا شہر، ديار قوم لوط كے نزديك تھا _و ما قوم لوط منكم ببعيد

۸_ حضرت نوحعليه‌السلام ، ہودعليه‌السلام ، صالحعليه‌السلام ، اور لوط(ع) ، حضرت شعيبعليه‌السلام سے پہلے كے انبياء تھے_

مثل ما اصاب قوم نوح و ما قوم لوط منكم ببعيد

۹_ حضرت شعيبعليه‌السلام كا زمانہ، حضرت نوحعليه‌السلام ، ہودعليه‌السلام اور صالحعليه‌السلام كے زمانہ سے زيادہ دور نہيں تھا _

مثل ما أصاب قوم نوح أو قوم هود أو قوم صالح و ما قوم لوط منكم ببعيد

چونكہ حضرت شعيبعليه‌السلام نے مذكورہ اقوام ميں سے قوم لوط كو مدائن كے لوگوں كے ہمعصر ہونے سے ياد كيا ہے لہذا مذكورہ بات كا استفادہ ہوتاہے_

۱۰_ گذشتہ مورد عذاب ٹھہرى جانے والى قوموں كى ہلاكت كے اسباب و علل ميں دقت كرنا، عبرت ودرس حاصل كرنے كے ليے ضرورى ہے_مثل ما أصاب قوم نوح و ما قوم لوط منكم ببعيد

۱۱_ مبلغين دين كے ليے ضرورى ہے كہ گذشتہ تاريخ اور گذرے ہوئے لوگوں كے انجام كو بيان كرنے كے ذريعہفائدہ اٹھائيں اور ان كے انجام كے اسباب كو بيان كركے لوگوں كو انبياء كے اہداف كى طرف توجہ دلائيں _

و يا قوم لا يجرمنّكم شقاقى ان يصيبكم مثل ما ا صاب قوم نوح

اقوام گذشتہ :گذشتہ اقوام كا انجام ۴; گذشتہ اقوام كى تاريخ كا مطالعہ ۱۰;گذشتہ اقوام كے انجام سے عبرت ۱۱

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام سے دشمنى كے آثار ۲، ۳; انبياء سے مقابلہ كے آثار ۲، ۳; تاريخ انبياءعليه‌السلام ۸، ۹; حضرت شعيب

۲۷۰

سے پہلے كے انبياءعليه‌السلام ۸، ۹

اہل مدائن :اہل مدائن اور شعيبعليه‌السلام ۱; اہل مدائن كو خبردار كرنا ۴; اہل مدائن كى تاريخ ۱، ۶; اہل مدائن كى دشمنى ۱; اہل مدائن كى عاقبت ۴

تاريخ :تاريخ سے عبرت ۱۰، ۱۱

تبليغ :تبليغ كا طريقہ ۱۱

تذكر :تاريخ كا تذكرہ ۵; گذرى ہوئي اقوام كى ہلاكت كا ذكر ۵

سرزمين:قوم لوط كى سرزمين كا جغرافيہ۷; مدائن كى سرزمين كى جغرافيائي حالت ۷

شعيبعليه‌السلام :حضرت شيعبعليه‌السلام كا قصہ ۴; حضرت شعيبعليه‌السلام كا متنبہ كرنا ۴;حضرت شعيب(ع) كى تاريخ ۹; حضرت شعيبعليه‌السلام كى تبليغ كا طريقہ ۵; حضرت شعيب(ع) كے دشمن ۱

صالحعليه‌السلام :حضرت صالحعليه‌السلام كى تاريخ ۹

عبرت :عبرت كے اسباب ۱۰;عبرت كے عوامل كے اسباب ۱۱

عذاب :اہل عذاب ۳; عذاب دنياوى كے اسباب ۲، ۳

قوم ثمود :قوم ثمود كا دنياوى عذاب ۳

قوم عاد :قوم عاد كا دنياوى عذاب ۳

قوم لوط :قوم لوط كا دنياوى عذاب ۳;قوم لوط كى تاريخ ۶

قوم نوح :قوم نوح كا دنياوى عذاب ۳

مبلغين :مبلغين كى ذمہ دارى ۱۱

نوحعليه‌السلام :نوحعليه‌السلام كى تاريخ ۹

ہودعليه‌السلام :ہودعليه‌السلام كى تاريخ ۹

۲۷۱

آیت ۹۰

( وَاسْتَغْفِرُواْ رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي رَحِيمٌ وَدُودٌ )

اور اپنے پروردگار سے استغفار كرو اس كے بعد اس كى طرف متوجہ ہوجائو كہ بيشك ميرا پروردگار بہت مہربان اور محبت كرنے والا ہے (۹۰)

۱_ الله تعالى كے حضورگناہوں سے معافى اور استغفار كرنے كى ضرورت _و استغفروا ربّكم

۲_ الله تعالى كى طرف توجہ اوراسكا تقرب حاصل كرنے كى ضرورت _ثم توبوا اليه

مذكورہ معنى كا سبب ( آيت ۳۶ كے شمار ۴ سے) استفادہ كرسكتے ہيں _

۳_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے مدائن كے لوگوں كو گناہوں سے استغفار اور ذات اقدس كى طرف توجہ اور اس كے تقرب كے حصول كى دعوت دى _و استغفروا ربّكم ثم توبوا اليه

۴_ الله وحدہ لا شريك پر ايمان، اسكى پرستش اور گناہوں سے معافى ( مثلا شرك ،، فساد برپا كرنے ، لين و دين ميں عدالت كا لحاظ نہ كرنے) مانگنا، الله كى طرف توجہ اور اس كے تقرب كو حاصل كرنے كا پيش خيمہ ہيں _

و استغفروا ربّكم ثم توبوا اليه

مذكورہ بالا معنى ( توبوا اليہ) كو حرف ثم كے ذريعے ( استغفروا ربّكم ) پرعطف كرنے سے حاصل ہوا ہے _ يہ بات قابل ذكر ہے كہ سابقہ آيات كے قرينہ كى بناء پر استغفار كا متعلق شرك كرنے اور تجارتى لين دين ميں بے عدالتى اور فساد پھيلانے اور انبياءعليه‌السلام الہى سے مخالفت كرنے كا گناہ ہيں _

۵_بندوں كے گناہوں كى بخشش ،ربوبيت الہى كا جلوہ ہے_و استغفروا ربّكم

۶_ حضرت شعيبعليه‌السلام كى تعليمات ميں سے درگاہ الہى ميں تقرب كا حصول، طلب مغفرت كا ضرورى ہونا اور

۲۷۲

ربوبيت كو الله تعالى ہى ميں منحصر كرنا تھا_و استغفروا ربّكم ثم توبوا اليه

۷_ الله تعالى ،رحيم ( مہربان )اور (ودود) مخلوق كو دوست ركھنے والا ہے_ان ربّى رحيم ودود

۸_ حضرت شعيبعليه‌السلام كى تعليمات ميں سے الله تعالى كو رحيم اور اپنے بندوں سے محبت كرنے والا ،تعارف كروانا تھا_

ان ربّى رحيم ودود

۹_ استغفار كرنے والوں كے گناہوں كى بخشش اور الله كے راستے پر چلنے والوں كو قرب الہى كا حصول خدواند عالم كى رحمت ،مہربانى اور محبت كا جلوہ ہے_و استغفروا ربّكم ثم توبوا اليه ان ربى رحيم ودود

۱۰_ خطا كرنے والوں كى اصلاح كے ليے مہربانى اور محبت، ان كى تربيت ميں بہت مؤثر ہوتى ہے_

و استغفروا ربّكم ان ربّى رحيم ودود

الله تعالى كا يہ صفت، بيان كر نا كہ اپنے بندوں كے ساتھ مہربانى اور محبت كرنے والا ہے گناہوں سے استغفار كرنے كى تاكيد كرنے كے بعد مذكورہ بالا معنى كو بتاتا ہے_

۱۱_ حضرت شعيب(ع) اپنى قوم كے توبہ كرنے والوں كے ليے مشمول رحمت الہى كا واسطہ تھے_

و استغفروا ربّكم ثم توبوا اليه ان ربى رحيم ودود

(استغفروا ربّكم) ميں لوگوں كوخطاب ہے_ ظاہرى طور پر ( ان ربّي)كے خطاب كى جگہ پر ان ربّكم كہا جانا چاہيے تھا يہ جابجا كرنا ممكن ہے اس نكتہ كى طرف اشارہ ہو كہ خداوند عالم اپنے انبياء كے واسطہ سے لوگوں كو اپنى محبت و رحمت كے زير سايہ قرار ديتا ہے اور يہ انبياء اس كے بندوں پر سبب فيض الہى ہيں _

استغفار :استغفار كى اہميت ۱، ۶; استغفار كى دعوت ۳

اسما و صفات :رحيم ۷; ودود ۷

اہل مدائن :اہل مدائن كو دعوت ۳; اہل مدائن كے توبہ كرنے والوں پر رحمت ۱۱

ايمان :توحيد پر ايمان ۴

الله كى طرف لوٹنا :الله كى طرف لوٹنے كا پيش خيمہ ۴;الله كى طرف لوٹنے كى اہميت ۲، ۳

الله تعالى :الله تعالى كى خصوصيات ۶; الله تعالى كى دوستى ۸;

۲۷۳

الله تعالى كى ربوبيت كى نشانياں ۵;الله تعالى كى رحمت كى علامتيں ۹;الله تعالى كى محبت كى علامتيں ۹; الله تعالى كى مہربانى ۸; الله تعالى كى مہربانى كى نشانياں ۹

اہل سلوك و اہل طريقت :

اہل سلوك كا تقرب ۹

تربيت :تربيت ميں محبت ۱۰; تربيت ميں مؤثر عوامل ۱۰; تربيت ميں مہربانى ۱۰

تقرب:تقرب كا سبب ۴تقرب كى اہميت ۲، ۶; تقرب كى دعوت ۳

توحيد :توحيد الہى ۶

شرك:شرك كى بخشش ۴

شعيبعليه‌السلام :حضرت شعيبعليه‌السلام اور اہل مدائن ۳; حضرت شعيبعليه‌السلام اور رحمت الہى ۱۱;حضرت شعيب(ع) كى تاثير ۱۱; حضرت شعيبعليه‌السلام كى تبليغ ۳ ; حضرت شعيبعليه‌السلام كى تعليمات ۶،۸; حضرت شعيبعليه‌السلام كے درجات ۱۱

عبادت :عبادت الہى ۴

گناہ :گناہ كى بخشش ۴، ۵، ۹

محبت :محبت كے آثار ۱۰

آیت ۹۱

( قَالُواْ يَا شُعَيْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِيراً مِّمَّا تَقُولُ وَإِنَّا لَنَرَاكَ فِينَا ضَعِيفاً وَلَوْلاَ رَهْطُكَ لَرَجَمْنَاكَ وَمَا أَنتَ عَلَيْنَا بِعَزِيزٍ )

ان لوگوں نے كہا كہ اے شعيب آپ كى اكثر باتيں ہمارى سمجھ ميں نہيں آتى ہيں اور ہم تو آپ كو اپنے در ميان كمزور ہى پارہے ہيں كہ اگر اپ كا قبيلہ نہ ہوتا تو ہم آپ كو سنگسار كرديتے اور آپ ہو پر غالب نہيں آسكتے تھے (۹۱)

۱_ مدائن كے لوگ، حضرت شعيبعليه‌السلام كى بہت سى تعليمات كو درك كرنے اور سمجھنے سے محروم تھے اوروہ اسك اعتراف بھى كرتے تھے_قالوايا شعيب ما نفقه كيراً مما تقول

۲_ مدائن كے لوگوں كى منفعت پرستى ، حرام خوارى ، تعصب اور قوم پرستي، حضرت شعيبعليه‌السلام كى تعليمات ميں فكر كرنے اور انہيں سمجھنے ميں مانع تھيں _قالوا يا شعيب ما نفقه كثيراً مما تقول

۲۷۴

۳_ مدائن كے لوگ، حضرت شعيبعليه‌السلام كى بہت سى تعليمات كوفضول اور بے فائدہ كلام سمجھتے تھے اور اس پر توجہ كرنے كو بھى ضرورى نہيں سمجھتے تھے_ما نفقه كثيراً مما تقول

(ما نفقہ)كا معنى يعنى آپكى بہت سى باتوں كو ہم نہيں سمجھ پاتے ، ممكن ہے ان كا نہ سمجھنا حقيقت ہو _ يعنى درك و فہم نہيں ركھتے تھے كہ حضرتعليه‌السلام كى تعليمات كو سمجھ سكيں مثلا توحيد كامسئلہ ہمارے ليے حل ہونے والا نہيں _مالك كا اپنے مال ميں تصرف محدود ہے يہ بات قابل فہم نہيں وغيرہ_يا يہ كہ بے ثمر و بے جا اور نا معقول بات ہونے پر كنايہ ہو يعنى تمہارى باتيں اتنى ضعيف و بے اثر ہيں كہ ان ميں فكر و تأمل كرنا اور ان كو سمجھنا اور عمل كرنا بے فائدہ ہے _ مذكورہ بالامعنى دوسرے احتمال كى صورت ميں حاصل ہوتا ہے_

۴_ حضرت شعيب(ع) ، مدائن كے لوگوں كے درميان يار و مددگار نہ ركھنے كى وجہ سے ضعيف و ناتوان تھے_

و انا لنرى ك فينا ضعيف

( فينا ) ( يعنى ہمارے درميان ميں ) اس سے معلوم ہوتا ہے كہ مدائن كے لوگ حضرت شعيبعليه‌السلام كو ان كے مخالفين كى نسبت سے ضعيف اور ناتوان سمجھتے تھے نہ يہ كہ خود وہ ضعيف و لاغر شخص تھے يعنى مذكورہ معنى اس صورت ميں ہے كہ (يار و مددگار ) كا نہ ركھنا مراد ہو_

۵_ مدائن كے لوگ، حضرت شعيبعليه‌السلام كى تعليمات اور ان كى رسالت كو معاشرہ ميں بے اثر خيال كرتے تھے_

قالوا يا شعيب ما نفقه كثيرا ً مما تقول و انا لنرى ك فينا ضعيف

جملہ (ما نفقه ...) كو جملہ (و انا لنراك ...) كے ساتھ ملا كر ديكھا جائے ،حقيقت ميں يہ حضرت شعيب(ع) كى ناكامى كے خيال پر ا ستدلال ہے _ يعنى مدائن كے لوگ شعيبعليه‌السلام كو درك نہيں كرتے تھے بلكہ بے اعتنائي كرتے تھے تا كہ ان كے ہم فكر بن سكتےاور خود حضرتعليه‌السلام بھى يہ قدرت اور توانائي نہيں ركھتے تھے تا كہ زور اور ڈنڈے كے ذريعے اپنى فكر كو ان پرتحميل كرتے اسى وجہ سے ان كے كامياب ہونے كا كوئي راستہ نہيں تھا_

۶_ حضرت شعيب(ع) ، مدائن كے لوگوں كى نگاہ ميں سنگسار ہونے كى سزا و مجازات كے مستحق تھے_

و لو لا رهطك لرجمناك

۷_ حضرت شعيبعليه‌السلام ، شہر مدائن ميں گنے چنے ہمنوا ركھتے تھے_و لو لا رهطك لرجمناك

۸_ حضرت شعيبعليه‌السلام كے خاندان والوں نے انہيں نہيں چھوڑا بلكہ وہ ان كى حمايت كرتے تھے _

۲۷۵

لو لا رهطك لرجمنك

۹_ مدائن كے لوگوں كے نزديك، حضرت شعيبعليه‌السلام كا خاندان و قبيلہ، قابل احترام تھا_لو لا رهطك لرجمنك

(رہط) اس گروہ كو كہتے ہيں جو دس آدميوں سے تجاوز نہ كرے _ اگر اس كے ساتھ رجل جيسے كلمہ كا اضافہ ہوجائے (رہط الرجل ) تو قوم و قبيلہ و خاندان كا معنى ديتا ہے_

۱۰_ حضرت شعيبعليه‌السلام كے قبيلہ كا مدائن كے لوگوں ميں احترام اور بزرگي، ان كو سنگسار كرنے كى سزا دينے ميں مانع تھي_و لو لا رهطك لرجمنك

مدائن كے لوگ اس بات كى وضاحت كرتے ہوئے كہتے ہيں كہ حضرت شعيبعليه‌السلام ان كے درميان ضعيف ہے _ اس سے معلوم ہوتاہے كہ(لو لا رہطك) سے مراد يہ نہيں ہے كہ وہ حضرت كے خاندان سے مقابلہ كرنے كى صلاحيت نہيں ركھتے تھے _ بلكہ بعد والى آيت ميں جملہ ( ما انت علينا بعزيي) و (ارہطى ا عز ...) كے قرينہ سے معلوم ہوتا ہے كہ ( لو لا رہطك ) سے مراد (لو لا عزة قومك و كرامتہم عندنا ) ہے يعنى اگر تمہارے خاندان كى عزت و عظمت نہ ہوتى تو تم كو سزا ديتے_

۱۱_ مدائن كے لوگ، حضرت شعيبعليه‌السلام كو شرك اوران كى بے عدالتى كے خلاف جہاد كرنے كى وجہ سے ان كو قابل عزت و احترام نہيں سمجھتے تھے_و ما ا نت علينا بعزيز

(عزيز) قابل احترام اور بزرگوار ہونے كے معنى ميں ہے اور شكست ناپذير كے معنى ميں بھى آتا ہے_ ليكن آيت شريفہ ميں پہلے معنى ميں آيا ہے_

ادراك :ادراك سے محروم ہونے والے ۱

اہل مدائن :اہل مدائن اور حضرت شعيبعليه‌السلام ۶،۱۱;اہل مدائن اور حضرت شعيبعليه‌السلام كى تعليمات ۱، ۲، ۳، ۵; اہل مدائن اور حضرت شعيبعليه‌السلام كى سزا۱۰; اہل مدائن اور حضرت شعيبعليه‌السلام كے رشتہ دار ۹;اہل مدائن كا اقرار ۱;اہل مدائن كا تعصب ۲;اہل مدائن كى تاريخ ۳، ۵;اہل مدائن كى حرام خورى ۲; اہل مدائن كى سوچ ۳، ۴، ۵، ۶،۱۱;اہل مدائن كى قوم پرستى ۲;اہل مدائن كى محروميت ۱; اہل مدائن كى منفعت طلبى ۲;اہل مدائن كے محروم ہونے كے اسباب ۲

تعصب :تعصب كے آثار ۲

حرام خورى :

۲۷۶

حرام خورى كے آثار ۲

دين :دينى آفات كى پہچان

شعيبعليه‌السلام :حضرت شعيبعليه‌السلام اور سزا ۶;حضرت شعيبعليه‌السلام اور سنگسار ہونا ۶;حضرت شعيبعليه‌السلام كا احترام ۱۱; حضرت شعيبعليه‌السلام كا بے يار و مددگار ہونا ۴; حضرت شعيبعليه‌السلام كا ضعف ۴; حضرت شعيبعليه‌السلام كا شرك كے خلاف جہاد ۱۱; حضرت شعيبعليه‌السلام كا قصہ ۳،۴، ۷، ۹، ۱۰، ۱۱ ; حضرت شعيبعليه‌السلام كا گروہ ۷;حضرت شعيبعليه‌السلام كى سزا ميں موانع ۱۰; حضرت شعيبعليه‌السلام كى سنگسارى ميں موانع ۱۰;حضرت شعيبعليه‌السلام كے حامى ۸;حضرت شعيبعليه‌السلام كے رشتہ دار ۸;حضرت شعيبعليه‌السلام كے رشتہ داروں كا احترام ۹، ۱۰; حضرت شعيبعليه‌السلام كے رشتہ داروں كى اقليت ۷

منفعت طلبى :منفعت طلبى كے آثار ۲

آیت ۹۲

( قَالَ يَا قَوْمِ أَرَهْطِي أَعَزُّ عَلَيْكُم مِّنَ اللّهِ وَاتَّخَذْتُمُوهُ وَرَاءكُمْ ظِهْرِيّاً إِنَّ رَبِّي بِمَا تَعْمَلُونَ مُحِيطٌ )

شعيب نے كہا كہ كيا ميرا قبيلہ تمھارى نگاہ ميں اللہ سے زيادہ عزيز ہے اور تم نے اللہ كو بالكل پس پشت ڈال ديا ہے جب كہ ميرا پروردگار تمھارے اعمال كا خوب احاطہ كئے ہوئے ہے (۹۲)

۱_ مدائن كے لوگ، حضرت شعيبعليه‌السلام كے زمانے ميں الله تعالى كو مكمل طور پر فراموش كر چكے تھے اور اسكى عزت و جلالت سے غافل تھے_أرهطى اعزّ عليكم من اللّه و اتخذتموه ورآئكم ظهريّ

(ظہريّ) اسى شے كو كہتے ہيں كہ انسان جس سے پشت كرلے، يہ كنايہ ہے اس شے كے ليے جسكو بھول چكے ہوں اور اسكى پروانہ كى جائے اور (اتخذتموہ ورآء كم ) كا جملہ بتاتا ہے (كہ الله تعالى كو تم نے پس پشت ڈال ديا ہے) يہ كنايہ ہے كہ ( تم نے الله تعالى كو فراموش كرديا) پس كلمہ (ظہريّاً) حال موكد ہے_

۲_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے اپنى قوم سے چاہا ، كہ الله تعالى كى

۲۷۷

عزت و عظمت كومدّ نظر ركھ كر اس كے احكام اور دين كو قبول كريں _أرهطى اعزّ عليكم من اللّه

(ارہطى اعزّ ...)كا جملہ حضرت شعيب(ع) كے جواب ( لو لا رہطك)كے مقابلہ ميں ہے كہا جا سكتا ہے: وہ يہ كہناچاہتے ہيں كہ اگر تم مجھے ميرے خاندان كى عزت كى وجہ سے سنگسار نہيں كر رہے ہوتو الله تعالى كى عزت و عظمت جو ہر كسى كى عزت و عظمت سے بلند و برتر ہے اسكو كيوں مد نظر نہيں ركھتے ہو اور اس كے غير كى عبادت كرتے ہو_

۳_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے مدائن كے لوگوں كو الله تعالى سے غافل ہونے كى وجہ سے ڈانٹا اور انكى سرزنش كي_

أرهطى ا عزّ عليكم من اللّه و اتخذتموه ورآئكم ظهريّ

(ارہطي ) كے جملہ ميں استفہام ،انكار توبيخى ہے_

۴_ الله تعالى تمام لوگوں سے عزت منداور وہ اپنے كاموں ميں مصمّم اور اپنے ارادوں كو انجام دينے ميں سزاوار اور لائق تر ہے_قال يا قوم أرهطى ا عزّ عليكم من اللّه

۵_ الله تعالى سے غفلت اور اسكى عزت و عظمت كو فراموش كرنا، نامناسب اور قابل سرزنش ہے_

و اتخذتموه ورآء كم ظهريّ

جملہ( اتخذتموہ ...) كا ( رہطى اعزّ ...) كے جملے پر عطف ہے _ لہذا اس جملہ ميں استفہام تو بيخى كا بھى لحاظ كيا گيا ہے يعنى ''أتخذتموہ ''استفہام توبيخى جملہ معطوف عليہ پر بھى آئے گا_

۶_ الله تعالى انسانوں كے اعمال پر پورى نگاہ كيئے ہوئے ہے اور تمام جوانب سے ان كے كردار سے آگاہ ہے_

ان ربّى بما تعملون محيط

۷_ انسانوں كے اعمال و كردار، الله تعالى كى مشيت وارادہ سے خارج نہيں ہيں _ان ربّى بما تعملون محيط

۸_ حضرت شعيب(ع) ، نے مدائن كے لوگوں كى كفر آميز رفتار پر الله تعالى كى عظمت و قدرت كو بيان كر كے ان دھمكيوں كى پروا نہيں كي_لو لا رهطك لرجمناك ان ربّى بما تعملون محيط

چنانچہ ممكن ہے كہ الله تعالى كى اعمال پر قدرت سے مراد اسكى اعمال پر حاكميت وغلبہ ہو اور حضرت شعيبعليه‌السلام كا ( ان اللّہ ...) كى جگہ پر ( ان ربّى )كہنے كا مقصد يہ كہ تمہارے اعمال پر الله قدرت ركھتا ہے اور وہى ميرا پالنے والے اور ميرا مدبّر ہے لہذا وہ تمھيں اجازت نہيں دے گا كہ تم مجھ پر غلبہ كرو _ اگر بالفرض تم نے غلبہ بھى كرليا تو اسميں ميرى تربيت كا پہلوہو گا_ اسى وجہ سے تمہارے ڈرانے كى مجھے كوئي پروا نہيں ہے_

۲۷۸

۹_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے مدائن كے لوگوں كو الله تعالى كے حساب و كتاب اور اسكى سزاؤں سے ڈرايا _

ان ربّى بما تعملون محيط

الله تعالى كا لوگوں كے اعمال و كردار پر قدرت ركھنے سے مراد، اگر چہ ان كے اعمال سے آگاہ ہونا ہو _ جملہ (ان ربّى ...) كناية ہے كہ الله تعالى حساب و كتاب لينے اور سزا دينے والا ہے_

۱۰_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے مدائن كے لوگوں كے نابجا اور نا مناسب باتوں كا يہ جواب ديا كہ الله تعالى تمہارے اعمال و رفتار پر قدرت ركھتا ہے اور وہ بہت عزت و جلال والا ہے اسوجہ سے تمھيں اس كے حضور سرتسليم خم ہونا چاہيے_

و إنا لنرى ك فينا ضعيفاً قال يا قوم أرهطى ا عزّ عليكم من اللّه ان ربّى بما تعملون محيط

اسماء و صفات :محيط ۶

اطاعت :الله تعالى كى اطاعت ۴

الله تعالى :الله تعالى كا احاطہ ۱۰; الله تعالى كا علمى احاطہ ۶; الله تعالى كى خصوصيات ۴;الله تعالى كى عزت ۲، ۴، ۱۰; الله تعالى كى مشيت كى حاكميت ۷; الله تعالى كے ارادے كى حاكميت ۷

انسان :انسانوں كا عمل ۷

اہل مدائن :اہل مدائن اور الله تعالى كى عزت و عظمت ۱; اہل مدائن اور دين ۲;اہل مدائن كو جواب ۱۰; اہل مدائن كو خبردار كرنا ۹;اہل مدائن كو دعوت ۲; اہل مدائن كا ڈرانا ۸; اہل مدائن كى بيہودہ كلام ۱۰; اہل مدائن كى سرزنش ۳;اہل مدائن كى غفلت ۱، ۳

تذكر :الله تعالى كى سزا ؤں كا تذكر ۹;الله تعالى كے حساب و كتاب كا تذكر ۹

جبر و اختيار :۷

ذكر :الله كے ذكر كى اہميت ۴

شعيبعليه‌السلام :حضرت شعيب(ع) اور الله كى حاكميت ۸; حضرت شعيبعليه‌السلام اور اہل مدائن ۸، ۱۰;حضرت شعيبعليه‌السلام كا احتجاج ۱۰; حضرت شعيبعليه‌السلام كا قصہ ۲، ۳، ۸، ۹; حضرت شعيبعليه‌السلام كا متوجہ و خبردار كرنا ۹;حضرت شعيبعليه‌السلام كى تبليغ ۲;حضرت شعيبعليه‌السلام كى سرزنش

۲۷۹

۳;حضرت شعيبعليه‌السلام كى فكر ۸

غافل ہونے والے :الله تعالى سے غافل ہونے والے ۱، ۳

غفلت :الله تعالى سے غفلت كا ناپسند يدہ ہونا ۵;الله تعالى كى عظمت سے غافل ہونا۵

آیت ۹۳

( وَيَا قَوْمِ اعْمَلُواْ عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ سَوْفَ تَعْلَمُونَ مَن يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ وَمَنْ هُوَ كَاذِبٌ وَارْتَقِبُواْ إِنِّي مَعَكُمْ رَقِيبٌ )

اور اے قوم تم اپنى جگہ پر اپنا كام كرو ميں اپنا كام كررہا ہوں عنقريب جان لوگے كہ كس كے پاس عذاب آكر اسے رسوا كرديتا ہے اور كون جھوٹا ہے اور انتظار كرو كہ ميں بھى تمھارے ساتھ انتظار كرنے والا ہوں (۹۳)

۱_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے كفر اختيار كرنے والے لجوج لوگوں كو ڈراتے اور خبردار كرتے ہوئے كہا كہ وہ اپنے غلط نظريات پر قائم رہيں جيسے پہلے وہ قائم تھے_و يا قوم اعملوا على مكانتكم

۲_ حضرت شعيب(ع) ، مدائن كے لوگوں سے ايمان نہ لانے پر نااميد اور مايوس ہوچكے تھے_

اعملوا عليى مكانتكم سوف تعلمون و ارتقبو

جو كچھ كرسكتے ہو اس ميں كمى نہ كرو ، اپنے غلط نظريات پر قائم رہو ، عنقريب جان لوگے ، انتظار كرو ، يہ ايسے جملات ہيں كہ جہنيں انسان نااُميدى اور مايوسى كے وقت ان كو ذكر كرتا ہے اور (ارتقاب) (ارتقبوا) كا مصدر ہے_ جسكا معنى انتظار كرنا ہے_

۳_ حضرت شعيبعليه‌السلام اپنے نظريات ( رسالت الہى كو پہنچانا ، اور شرك و فساد سے جہاد كرنا) پر قائم رہنے كے پابند تھے_انى عامل

۴_ حضرت شعيب(ع) نے اپنى قوم كے كفار كو ذليل و خوار كرنے والے عذاب سے ڈرايا _

سوف تعلمون من يأتيه عذاب يخزيه و ارتقبوا

۵_ مدائن كے لوگوں نے حضرت شعيبعليه‌السلام پر اپنى نبوت و

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945

946

947

948

949

950

951

952

953

954

955

956

957

958

959

960

961

962

963

964

965

966

967

968

969

970

971