تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 6%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 205908 / ڈاؤنلوڈ: 4272
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۸

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

 اب  انکے ظہور سے پہلے اگر تم اس دنیا فوت کر  جاۓ تو  یہی معرفت تمھار ی نجات اور سعادت کا باعث بنے گی تو پھر تمھارے لیۓ کیا نقصان کہ وہ ظہور کرۓ یا نہ کرۓ ،  لیکن یہ اسکے لیۓ نقصان ہے جو اپنے امام کی معرفت نہ رکھتا ہے  -

اسی طرح فضیل بن یسار  نے امام محمد باقر      سے  روایت کی ہے:يَقُولُ مَنْ مَاتَ وَ لَيْسَ لَهُ إِمَامٌ فَمِیتَتُهُ مِیتَةُ جَاهِلِيَّةٍ وَ مَنْ مَاتَ وَ هُوَ عَارِفٌ لِإِمَامِهِ لَمْ يَضُرَّهُ تَقَدَّمَ هَذَا الْأَمْرُ أَوْ تَأَخَّرَ وَ مَنْ مَاتَ وَ هُوَ عَارِفٌ لِإِمَامِهِ كَانَ كَمَنْ هُوَ مَعَ الْقَائِمِ فِی فُسْطَاطهِ  ” (1) آپ فرما تے ہیں جو شخص اس حالت میں مرۓجبکہ وہ اپنے امام کو نہیں پہچانتا ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا ہے ،اور وہ شخص جو اس دنیا سے چلے جاۓ جبکہ وہ اپنے امام زمانہ       کی صحیح معرفت رکھتا ہو تو  امام زمانہ کے ظہور  میں تاخیر اسے نقصان نہیں دے گا ،اور جو شخص مر جاۓ جبکہ اپنے امام کی معرفت کے ساتھ مر ۓ تو گویا  و ہ  اپنے امام کے ہمراہ  جہاد میں انکے خیمے میں ہے  -”

اسی طرح کسی اور حدیث میں جناب شیخ صدوق نقل فرماتے ہیں :ولا یکون الإیمان  صحیحا ً إلاّ من بعد علمه بحال من یؤمن به، كما قال اللّه تبارك وتعالی ” إلاّ من شهد بالحق وهم یعلمون (2) “  فلم یوجب لهم صحة ما یشهدون به إلاّ من بعدعلمهم ثم كذلك لن ینفع ایمان من آمن بالمهدی القآئم علیه السلام حتی یكون عارفاً بشأنه فی حال غیبته (3) کسی مؤمن کا ایمان اس وقت تک صحیح نہیں ہوتا جب تک جس چیز پر ایمان رکھتا ہے اس کے بارے میں پوری شناخت  نہیں رکھتا ہوں “جس طرح خدا وند متعال کا ارشاد ہے  الاّ من شہد بالحق وہم یعلموں  مگر ان افراد کے  جو علم و شناخت کے ساتھ حق کی گواہی دیں پس حق پر گواہی دینے والوں کی  گواہی قبول نہیں ہو گی مگر یہ کہ وہ  علم  رکھتا ہو ۔اسی طرح مہدی قائم عجل اللہ   پر ایمان رکھنے والوں کا ایمان انھیں فائدہ نہیں دے گا 

--------------

(1):- کلینی: اصول الکافی:ج۱ “ص۳۷۲ 

(2):- زخرف :۸۶ - 

(3):- صدوق :کمال الد ین اتمام النعمة :ج 1 ص 19

۴۱

(یعنی انکے ظہور اور قیام پر   اجمالی ایمان اور انکے ظہور کا انتظار انھیں فائدہ نہیں دے گا )مگر انکی غیبت کے دوران  انکے متعلق اور انکی شان ومنزلت کےبارے میں صحیح معرفت رکھتا ہو ۔

اور اما م زمانہ کی معرفت کے لیے بعض چیزون کو جاننا ضروری ہے  ان میں سے بعض اہم موارد یہاں ذکر کرتے ہیں کہ ان امور کو جانے بغیر کسی امام کی معرفت کامل اور مفید واقع نہیں ہو سکتی

ا: آپ کائنات کی پہلی مخلوق ہیں

 صحیح  روایات  سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام زمانہ   ا ورسول اکرم(ص) اور دیگر بارہ معصومینؑ کے پاکیزہ انوار کو اﷲ تعالی نے  کائنات کی تمام مخلوقات سے پہلے خلق فرمایا ہے چناچہ نبی اکرم (ص)  اس بارے  آنحضرت میں فرماتا ہے

لما اسری بی الی السماء ........  (1)   جس رات مجھے آسمان کی سیر لے جایا گیا تو عرش پر میری نظر  پڑی کہ وہاں لکھا ہوا تھا“لا إله الاّ اﷲ محمد رسول اﷲ  أیده بعلی....” اﷲ کے سواء کوئی معبود نہیں ہے محمؐد اسکے رسول ہیں اور علی ؑکے زریعے ہم نے انکی تایئد کی ہے ،اور میں نے عرش پر علی ؑوفاطمہؑ اور باقی گیارہ معصومینؑ کے  مقدس انوار کو دیکھا جنکے درمیان حضرت حجتؑ  کا نور کوکب درّی  کی مانند درخشان اور چمک رہا تھا  میں نے عرض کیا پروردگار یہ کس کا نور ہے ، اور وہ کن کے انوار ہیں ؟ آواز آئی یہ تیرے فرزندان ائمہ معصومینؑ کے انوار ہیں اور یہ نور حجت خدا ؑ کا نور ہے جو زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی ۔

--------------

(1):- سید ہاشم بحر ینی :مدینة  المعاجز ص ۱۵۳ -  

۴۲

اسی طرح امیر المومنین       فرماتے ہیں رسول خدا (ص)نے مجھ سے فرمایا :لما عرج بی إلی السماء.......   فقلت یا رب و من أوصیائی فنودیت یا محمد أن أوصیاءك المكتوبون علی ساق العرش فنظرت و أنا بین یدی ربی إلی ساق العرش فرأیت اثنی عشر نورا فی كل نور سطر أخضر مكتوب علیه اسم كل وصی من أوصیائی أولهم علی بن أبی طالب و آخرهم مهدی أمتی (1)    “ جب مجھے آسمان کی سیر پر لے جایا گیا .....تو میں نے عرض کیا پروردگارا کون ہیں میرےاوصیا ،   ندا آئی یا محمد(ص)  تمھارے اوصیا کے نام ساق عرش پر لکھے گیے  ہے میں نے  عرش کی طرف نظر کی تو گیارہ  انوار ایسیے دیکھا ہر نورمیں ایک سبز لکیر  ہے جس پر میرے ہر ایک وصی کے اسم  گرامی  لکھاگیا ہے سب سے پہلے علی ابن ابی طالبؑ  کا اسم گرامی اور آخر میں میری امت کا مہدیؑ  کا نام تھا -

ب :آ پؑ خالق ومخلوق کے درمیان واسطہ فیض ہیں

بعض روایات کے روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ امام زمانہ واسطہ فیض وبرکت ہیں ۔جناب شیخ مفیدابن عباس کے واسطے رسول خدا (ص) سے نقل کرتے ہیں :قال رسول الله ص ذكر الله عز و جل عبادة و ذكری عبادة و ذكر علی عبادة و ذكر الأئمة من ولده عبادة و الذی بعثنی بالنبوة و جعلنی خیر البریة إن وصیی لأفضل الأوصیاء و إنه لحجة الله علی عباده و خلیفته علی خلقه و من ولده الأئمة الهداة بعدی بهم یحبس الله العذاب عن أهل الأرض و بهم یمسك السماء أن تقع علی الأرض إلا بإذنه و بهم یمسك الجبال أن تمید بهم و بهم یسقی خلقه الغیث و بهم یخرج النبات أولئك أولیاء الله حقا و خلفائی صدقا عدتهم عدة الشهور و هی اثنا عشر شهرا..... (2)

--------------

(1):- صدوق :  کمال الد ین ج : 1 ص : 25 ۶   

(2):- شیخ مفید :الاختصاص ص :۴ 22 

۴۳

 آنحضرت(ص) نے فرمایا :اﷲکا  ذکر  اور میرا ذکر عبادت ہے ،اور علیؑ کا ذکر اور انکے فرزندان ائمہؑ کا ذکر بھی عبادت ہے ، قسم اس ذات کی جس نے مجھے نبوّت پر مبعوث کیا  ہے-......... اور میرے بعد علی ابن ابی طالبؑ اور انکے فرزندان ائمہ ھداء ؑ ہونگے انھیں کے واسطے ض        اﷲ تعالی اہل زمین سے عذاب کو ٹال دے گا  اور انھیں کی برکت سے آسمان  ٹوٹ کر زمین پر آنے سے بچا لے گا ،اور انھیں کی خاطر پہاڑوں کو بکھر جانے نہیں دے گا  اور انھین کے طفیل سے اپنی مخلوقات  کو باران رحمت سے سیراب کرے گا اور زمین سے سبزہ نکالے گا ،وہی لوگ ہیں جو اﷲ کے حقیقی دوست اور جانشین ہیں نیز امام علی ابن حسین  فرماتے ہین: وَ بِنَا يُمْسِكُ الْأَرْضَ أَنْ تَمِیدَ بِأَهْلِهَا وَ بِنَا يُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَ تُنْشَرُ الرَّحْمَةُ وَ تَخْرُجُ بَرَكَاتُ الْأَرْضِ وَ لَوْ لَا مَا فِی الْأَرْضِ مِنَّا لَسَاخَتْ‏ بِأَهْلِهَا (1)   ہمارے ذریعہ سے زمین اپنی  اہل کے ہمراہ پابرجا ہے اور ہمارے ذریعہ سے آسمان بارش برساتا ہے اور اسکی رحمتین پہیل جاتی ہین اور زمین سے برکات نکل آتی ہین اسی طرح دعاے عدلیہ کا فقرہ ہے جس میں آیا ہے :“ثم الحجة  الخلف القائم المنتظر المهدی المرجی .....ببقائه بقیت الدّنیا وبیمنه رُزق الوری وبوجوده ثبتت الأرض والسماء وبه یملاء اللّه الأرض قسطاً وعدلاً بعد ما ملئت ظلماً وجوراً ” میں گواہی دیتا ہوں انکے فرزند حجت خدا وجانشین واما م ؛ قائم منتظر مہدی  عجل اللہ فرجہ جن کے ساتھ عالم کی اُمید وابستہ ہے  انکے  وجود سے دنیا باقی ہے اور انکی برکت سے مخلوق روزی پارہی ہے ،اور انکے وجود سے زمین وآسمان قائم ہیں اور انھیں کے زریعے خدا  زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گا جب کہ وہ ظلم  وجور سے بھر چکی ہو گی

پس ان روایات کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ اس دور میں امام زمانہ خالق ومخلوق کے درمیاں واسطہ فیض ہیں اور انکے واسطے سےزمیں وآسمان اپنی جگہ ثابت اور حرکت میں ہیں اور انکے واسطے سے تمام مخلوقات تک رزق پہنچتی ہے ۔

--------------

(1):-  کمال الد ین و تمام النعمة / ج 1 / 207 / 21 ص : 201

۴۴

ج: آپؑ کی معرفت کے بغیر خداکی معرفت کامل نہیں ہے 

امام حسین          سے خدا کی معرفت کے بارے میں پوچھا  گیا تو حضرت نے فرمایا :“معرفة اهل كلّ زمان امامهم الذّی یجب طاعته” (1)   ہرزمانہ میں لوگوں کے اپنے امام کی معرفت مراد ہے جنکی اطاعت  کو لوگوں پر  واجب کیا ہے  -اسی طرح امام محمد باقر نے فرمایا : “انما یعرف اللّہ عزوجل ویعبدہ من عرف اللّہ وعرف امامہ منّا اہل البیت“  ؛صرف وہ شخص خدا کی معرفت حاصل کر سکتا ہے اور اسکی عبادت کر سکتا ہے جس نے اﷲ اور ہم اہل بیت ؑمیں سے اپنے اما م کو  پہچان لیا ہو  یا اہل بیت اطہار ؑکی امامت کا انکار کو کفر سے تعبیر کیا ہے (یعنی خدا کے انکار )  اگر چہ  وہ شخص کلمہ گو ہی کیوں نہ ہو  -جیسا کہ چھٹے امام  سے روایت ہے  آپ فرماتے :“من عرفنا كان مومنا ومن انكرنا كان كا فراً (2)   جس نے ہماری معرفت حاصل کرلی وہ مومن ہے اور جس نے ہمارا انکار کیا وہ کافر ہے -اسی طرح بعض روایت میں آیا ہے کہ امام خدا اور مخلوقات کے درمیان پرچم ہدایت ہے لہذا انکی معرفت کے بغیر اﷲ تعالی کی معرفت ممکن نہیں  ہے -

د: آپ تمام انبیاء ؑکے کمالات کا مظھر ہیں

متعدد روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ولی عصر عجل اﷲ فرجہ الشریف کی شخصیت جامع ترین شخصیت ہے اور آپ میں تمام انیباء کےکمالات پائے جاتے ہیں جس طرح آپکے آباواجداد کی ذوات مقدسہ تمام گذشتہ انبیاء کے کمالات کی حامل تھی سلمان فارسی نے آنحضرت(ص) سے روایت نقل کہ ہے آپ فرماتے ہیں :

--------------

(1):- مجلسی : بحار انوار، ج ۸۳ ،ص ۲۲ -

(2):- کلینی: کافی،ج 1 ، 181 - 

۴۵

 عَنْ سَلْمَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص الْأَئِمَّةُ بَعْدِی اثْنَا عَشَرَ عَدَدَ شُهُورِ الْحَوْلِ وَ مِنَّا مَهْدِيُّ هَذِهِ الْأُمَّةِ لَهُ هَيْبَةُ مُوسَی وَ بَهَاءُ عِیسَی وَ حُكْمُ دَاوُدَ وَ صَبْرُ أَيُّوبَ. (1)   میرے بعد بارہ امام  سال کے بارہ مہینوں کے برابر امام ہونگے اوراس امت کا مہدیؑ بھی ہم سے ہی ہوگا جس میں موسی کی ہیبت ،عیسی کی عزت وبہاء،داود کی قضاوت ،اور ایوب کا صبر سب موجود ہو گا

اسی طرح چھٹے اما  م        فرماتے ہیں :إنّ قائمنا اهل البیت علیهم السلام اذا قام لبس ثیاب علی وسار بسیرة علی علیه السلام   (2) ہمارے قائم جب قیام کریں گۓ  تو اپنے جد علی علیہ السلا م کے لباس زیب تن کریں گۓ  اور انکی سیرت پر چلین گے

کسی اور روایت میں امام رضا  (ص) انکی  مثالی شخصیت کے بارے میں فرماتے ہیں :للإمام‏ علامات یكون أعلم الناس و أحكم الناس و أتقی الناس و أشجع الناس و أسخی الناس و أعبد الناس (3)   حضرت ولی عصر        لوگوں میں سب سے زیادۃ  دانا ؛حلیم ، بردبار اور پرہیزگار ہونگے وہ تمام انسانوں سے زیادہ بخشش کرنے والا؛  عابد اور عبادت گزار  ہونگے ” 

ھ: آپ تمام انبیاء اور ائمہ کی اُمیدوں کو  زند ہ کریں گے

 قرآن مجید نے مختلف مقامات پر واضح طور پر بیاں کیا ہے کہ پروردگار عالم نے تمام انبیاء کو دو بنیادی مقصد کے خاطر بیجھے ،ایک شرک و بت پرستی کو صفحہ ھستی سے مٹاکر تو حید ویکتا پرستی کو رائج دینے اور دوسرا یہ کہ سماج سے ظلم وتربریت کی ریشہ کنی کرکے اسکی جگہ عدل و  پاکدامنی کو رواج دینا تھا  -لیکن ہم دیکھتے ہیں اب تک روۓ زمین پر یہ مقصد تحقق نہیں پایا ہے

--------------

(1):- کل ین ی: کافی،ج1 ،ص 181 - 

(2):- صافیگلپائ ی گانی: منتخب الاثر فصل ۱ ص ۲۶ -    علیبن محمد خزاز قم ی: کفا یةالاثر ص : 4 

(3):- مجلسی :مرآۃ العقول ج ۴ ص ۳۶۸ - 

۴۶

جبکہ تمام علماء ،دانشور حضرات اس بات پر متفق ہیں کہ تمام انبیاء کے بعثت کا مقصد اور ہدف حضرت ولی عصر ارواحنا لہ الفداء ؑکے مبارک ہاتھوں سے انکے  آفاقی قیام کے ساۓ میں تحقق پاۓ گا،اورانھیں کے  زریعے کفر وشرک کا ریشہ خشک ہو جاۓ گا ،اور ظلم بربرییت کے اس  تاریک دورکا خاتمہ ہو کر عدل وتوحید کا سنہری دور پورے زمین پر غالب آۓ گا - چناچہ سورہ توبہ کے ۳۲ اور ۳۳ آیات کے ذیل میں تمام شیعہ مفسرین نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے اور وہ  آیہ مبارکہ یہ ہے :يُرِیدُونَ أَن يُطْفُِواْ نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَ يَأْبىَ اللَّهُ إِلَّا أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَ لَوْ كَرِهَ الْكَفِرُونَ٭ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنے منہ سے پھونک  مارکر بجھا دیں حالانکہ خدا اس کے علاوہ کچھ ماننے کے لۓ تیار نہیں ہے کہ وہ اپنے نور کو تمام کردے چاہیے کافروں کو یہ کتنا  ہی بُرا کیوں نہ لگے- هُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَی‏ وَ دِینِ الْحَقّ‏ِ لِيُظْهِرَهُ عَلىَ الدِّینِ كُلِّهِ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُون٭   خدا وہ ہے جس نے اپنے رسول(ص)  کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بناۓ چاہیے مشرکین کو کتنا ہی نا گوار  کیوں نہ ہو ۔

ان قرآنی آیات اور روایات کی روشنی میں آپکی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے ، کہ آپکی شخصیت تنہا وہ ذات ہیں جو انبیاء وائمہ ؑکی کوششوں کو نتیجہ خیز بنائیں گی اور تمام آسمانی رہبرون کی اُمیدوں کو تحقق بخشیں گے  اسی طرح پیغمبر اعظم (ص)انکے وجود اقدس کی برکت سے مؤمنین کے تشفی قلوب اور دلی تمناوں کے(جو کہ   حقیقت میں تمام  انبیاء اور ائمہ علیہ السلام کی بھی دلی آرزو تھی)  پورا ہونے وآپکے  علمی مقام  و  آپکے آنحضرت (ص)کے ساتھ نسبت اور آپ سے دشمنی رکھنے والوں اور تکلیف پہنچانے والوں کی سوء عاقبت  بیان کو  کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔قال رسول الله ص الأئمة بعدی اثنا عشر ثم قال كلهم من قریش ثم یخرج قائمنا فیشفی صدور قوم مؤمنین إلا أنهم أعلم منكم فلا تعلموهم ألا إنهم عترتی من لحمی و دمی ما بال أقوام یؤذونی فیهم لا أنالهم الله شفاعتی (1)

--------------

(1):- محقق طبرسی :الاحتجاج ج : 2 ص : 437 

۴۷

 رسول ﷲ(ص) نے فرمایا : میرے بعد بارہ امام ہونگے ؛ پھر فرمایا سب کے سب قریش سے ہونگے پھر ہمارے قائم ظہور کریں گے جسے مؤمنین کے دلوں کو تشفی ملے گی ؛ لیکن یاد رکھنا وہ (یعنی بارہ امام )تم سے بہتر اور  زیادہ علم رکھتے ہیں ؛کبھی انھیں سمجھانے کی کوشش نہ کرنا ! خبر دار !وہ لوگ میری عترت ؛میرے گوشت اور خون سے ہیں  کیا حال  گا ان قوموں کا  جومجھے اذیت دے ان کے حق میں خدا انھیں میری شفاعت نصیب نہ کرے    ۔

  اسی لیے روایت میں آیا ہے کی انکی معرفت اور اطاعت رسول اﷲ(ص) کی اطاعت اور معرفت ہے اور انکے  ظہور کا انکار نبی اکرم(ص) کی  رسالت کے   انکار کرنے کا برابر ہے اگر چہ وہ شخص مسلمان ہو نے کی بنا پر انکی نبوّت کا اعتراف ہی کیوں نہ کرے ،چنانچہ آپ(ص) فرماتے ہیں :قال رسول الله ص القائم من ولدی اسمه اسمی و كنیته كنیتی و شمائله شمائلی و سنته سنتی یقیم الناس علی ملتی و شریعتی یدعوهم إلی كتاب الله ربی من أطاعه أطاعنی و من عصاه عصانی و من أنكر غیبته فقد أنكرنی و من كذبه فقد كذبنی و من صدقه فقد صدقنی إلی الله أشكو المكذبین لی فی أمره و الجاحدین لقولی فی شأنه و المضلین لأمتی عن طریقته وَ سَيَعْلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ‏:. (1)   قائم میرا  فرزند  ہے انکا نام میرے نام پر انکی کنیت میری کنیت پر انکے شکل وشمائل میری شکل وشمائل جیسی ہوں گی اور انکی سنت میری سنت  پر ہوگی لوگوں کو میرے دین اورمیری شریعت پر پلٹا دیں گے   انھیں میرے پروردگار کی کتاب کی طرف دعوت دیں گے جو انکی اطاعت کرے اس نے میری اطاعت کی ہے اور جو انکی نافرنانی کرۓ اس نے میری نافرمانی کی ہے ،اور جو انکی غیبت کا انکار کرۓ اس نے مجھے انکار کیا ہے اور جو انھیں جھٹلائے اس نے مجھے جھٹلایا ہے اور جس نے انکی امامت اور غیبت کی تصدیق کرۓ اسنے میری رسالت کی تصدیق کی ہے....

--------------

(1):- علیبن محمد خزاز: کفا یةال اثر ص : 45  

۴۸

اس جیسے بہت سارے روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انکی معرفت اور اطاعت نہ صرف رسالت مآب(ص)  کی معرفت  اور اطاعت ہے اور  انکا  انکار نہ صرف آنحضرت (ص)کی رسالت کا انکار ہے بلکہ وعدہ  الھی کا انکار ہے ،ُمقصد خلقت بشر یت جو کہ عبادت کاملہ کے پورے انسانی معاشرے میں وجود میں لانا ہے اس مقصد کا انکار ہے

اور دوران غیبت میں ہمارا معاملہ دو مطلب سے خارج نہیں ہے یا یہ کہ ہم کلی طور پر امام زمانہ سے  بے گانہ اور اجنبی ہو جائین تو اس صورت میں کل قیامت کے دن میں ہمیں اپنی  حسرت کی انگلی مہنہ میں لیتے یہ کہنا ہو گا(یا حسرتا  !علی ما فرّطنا فیها ) اے کاش ہم نےاس بارے میں کوتا ہی نہ کیا ہو تا ! ،یا تھوڑی بہت معرفت اور آشنائی امام کی اپنی اندر پیدا کریں ۔

اورامام زمانہ کی یہ معرفت جسے ہم نے مختصر انداز میں بیاں کیا آپ کی شکل وصورت دیکھے بغیر بھی حاصل کی جاسکتی ہے ، لہذا ایک  مؤمن منتظر کی سب سے بڑی ذمہ داری اپنے وقت کی امام اور حجت خدا کی معرفت اور پہچان ہے کہ جسکے وجود کے بغیر زمین ایک لحظہ بھی اپنی جگہ ثابت نہیں رہ سکتی  ”لو خلت الأرض ساعة واحدة من حجة اللّه ،لساخت بأهلها“ (1)    اور بھی بہت سی روایات ہر زمانے  میں امام زمانہ کے موجود  ہونےکی ضرورت پر  دلالت کرتی ہیں  

۲: امام مہدی ؑ کی محبت

معرفت کا  لازمہ محبت ہے  یہ اس معنی میں کہ جب تک انسان کسی چیز کے بارے میں مکمل شناخت نہیں رکھتا اور اسکی خصوصیات کے بارے میں صحیح علم نہیں رکھتا  اور  اسکی عظمت وفضائل اسکے      مقام و منزلت سے بے خبر ہو اس وقت اسکے ساتھ اپنے لگاو کا اظہار نہیں کرسکتا اور نہ ہی اسکے اپنے دلی رابطہ اور علاقہ پیداکر سکتا  ہے لیکن اس کے بر عکس انسان جس قدر کسی چیزکی عظمت ؛ خصوصیات ؛  فضائل اور حقیقت سے واقف ہو جاۓ تو خود بخود اسکی محبت اسکے دل میں آجاتی ہے ،اور اسکی طرف توجہ بڑھتی چلی جاتی ہے 

--------------

(1):- صدوق : کمال الد ین ج : 2 ص : 4 ۱۱-: اعلام الور ی          425   -

۴۹

اور دلی رابطہ روز بروز اوردن بہ دن بڑھتا  اور مظبوط ہوتا جاتا ہے -اور خدا ورسول (ص)اور ائمہ اطہار ؑ کی محبت وہ شمع ہے جو انسان کے تاریک دلوں کو پاک  و منور کر دیتا ہے ، اور انسانوں کو گناہوں ؛برائیوں سے  نجات دیتا ہے کیونکہ معرفت محبت کا ستوں ہے اور محبت گناہوں سے بچنے کا عظیم ذریعہ اورتہذیب وتزکیہ نفس کی شاہراہ ہے لہذا وایات معصومین میں زمانہ غیبت کے دوران  امام عصر ارواحنا لہ الفدء کی محبت پر خاص  توجہ دینے پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے چناچہ رسول اکرم(ص)   فرماتے ہیں  :“خداوند متعال نے شب معراج مجھ پر وحی کیا : اےمحمدؐ ! زمین پر کس کو اپنی  امت پر اپنا جانشین بناکے آیاہے ؟ جبکہ خالق کائنات خود بہتر جانتے تھے ،میں نے کہا پروردگارا اپنے بھائی علی ابن ابی طالب       کو اچانک میں نے علی ابی طالب     .......اور حجت قائم          کو ایک درخشان ستارے کی مانند انکے درمیان دیکھا عرض کیا پروردگارا یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ تمھارے بعد ائمہؑ ہیں اور یہ قائم ہے جو میرے حلال کو حلال اور حرام کو حرام کر دے گا اورمیری دشمنون سے انتقام لے گا .اے محمد ! اسے دوستی کرو کیونکہ  میں انکو اور ان سے دوستی رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہوں  

پس اگر چہ تمام  معصومین کی محبت واجب ہے لیکن اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حجت کی محبت خاص اہمیت اور خصوصیت کے حامل ہے  اسیلۓ  آٹھویں امام ؑ اپنے آباء و اجداد کے واسطے امام علی علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا:قال لی أخی رسول اللّه ..........ومن أحبّ ان یلقی اللّه وقد كمل ایمانه وحسی اسلامه فلیتولّ الحجة صاحب الزّمان المنتظر .. (1)   ”مجھ میرے بھای رسول خدل (ص)نے فرمایا جو شخص اﷲ تعالی سے مکمل ایمان اور نیک اسلام کے ساتھ ملاقات کا خوہاں ہے تو اسے چاہے کہ حضرت حجت صاحب الزمان         کی ولایت کے پرچم تلے آجاۓ اور انھیں دوست رکھےّ لہذا منتظرین کی دوسری سب سے بڑی ذمہ داری امام عصر ارواحنا لہ فداء کی محبت کو اپنے اندر بڑھانا ہے اور ہمیشہ انکی طرف متوجہ رہنا ہے ، اور اسکے لیے مختلف ذریعے بیاں ہوۓ ہیں ،ہم یہاں پر  چند اہم موارد احادیث معصومین کی روشنی میں بیاں کرتے ہیں ۔

--------------

(1):-  کاف ی:ج1 ،ص179 اور الغ یبة ،نعمان یص 141  اور ک فایة الاثر ص 162 - 

۵۰

الف: امام مہدی ؑکی اطاعت اور تجدید بیعت 

امام زمانہ           ہ  کی محبت کے من جملہ مظاہر اور اثار میں سے ایک ؛ حضرتؑ کی اطاعت پر ثابت قدم رہنا اور انکی بیعت کی ہمیشہ تجدید کرنا ہے ، اور یہ جا ننا چاہیے کہ امام اور رہبر اسکے ہر چھوٹے بڑے کاموں  سےمطلع اوراسکے   رفتار وگفتار کو دیکھتے ہیں،اسکے  اچھے اور نیک کاموں  کود یکھ کر انکے  دل میں سرور آجاتاہے جبکہ اسکے  برے اور ناشائستہ کاموں کو دیکھ کر  انکو دکھ ہو تاہے ،اور دل غم وغصے سے بھر جاتا ہے اور یہ بھی معلوم ہونا چاہے کہ انکی رضا خدا  او رسول(ص) کی رضا ہے اور انکی کسی پر ناراضگی خدا و رسول(ص) کی ناراضگی  ہے ،اور میرا  ہر نیک عمل ہر اچھی گفتار اور ہر مثبت قدم اطاعت کی راہ میں روز موعود کو نزدیک کرنے میں مؤثر ثابت ہو گا ،اسی طرح میرا اخلاص ،دین ومذہب اور اہل ایمان کی نسبت میرا احساس مسؤلیت؛  انکے ظہور میں تعجیل کا سبب بنے گا ۔ اور یہ بھی جاننا چاہیے کہ  اما م  زمانہ ؑ کی اطاعت صرف اور صرف پیغمبر اکرم (ص)کی اطاعت اور انکے لاۓ ہوۓ دین کی مکمل  پیروی سے  حاصل ہوتا ہے ،اور جب تک عملی میدان میں اطاعت نہ ہومحبت ومودت معنی ہی نہیں رکھتا یا اگر اجمالی محبت دل میں ہو تو اسے آخری دم تک اطاعت کے بغیر محفوظ رکھنا بہت ہی دور کی بات ہے چناچہ عربی ضرت المثل مشہور ہے(وانت عاصیُ           ُ إنّ المحبَ لمن یحبُّ مطیعُ) یہ ساری نافرمانی اور سر پیچدگی کے ساتھ تم کس طرح اپنی محبت کا اظہار کرتے ہو جبکہ جو جسے محبت کرتا ہے ہمیشہ اسی کا اطاعت گزار ہوتا ہے۔

اسیلۓ صادق آل محمد        د فرماتے ہیں: مَنْ سُرَّ أَنْ يَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ الْقَائِمِ فَلْيَنْتَظِرْ وَ لْيَعْمَلْ بِالْوَرَعِ وَ مَحَاسِنِ الْأَخْلَاقِ وَ هُوَ مُنْتَظِرٌ فَإِنْ مَاتَ وَ قَامَ الْقَائِمُ بَعْدَهُ كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ أَدْرَكَهُ فَجِدُّوا وَ انْتَظِرُوا هَنِیئاً لَكُمْ أَيَّتُهَا الْعِصَابَةُ الْمَرْحُومَةُ  (1)

--------------

(1):- الصراطالمستقیم ج : 2 ص :  14 ۹ 

۵۱

  جو شخص چاہتا ہے ،کہ امام زمانہ کے اصحاب میں سے ہو جائیں تو اسے چاہۓ کہ انتظار کرۓ اور ساتھ ساتھ تقوی وپرہیزگاری اختیار کرے اور نیک اخلاق اپناۓ اسی طرح آپ سے ہی دعاۓعہد کے یہ فقرات نقل ہوۓ ہیں :“اللہم انّی اُجدد لہ فی صبیحة یوم ہذا وما عشت فی ایامی “ خدایا ! میں تجدید (عہد ) کرتا ہوں ہے ،آج کے دن کی صبح اور جتنے دنوں مین زندہ رہوں اپنے عقد وبیعت کی جو میرے گردن میں ہے میں اس بیعت سے نہ پلٹوں گا اور ہمشہ تک اس پر ثابت قدم ہوں گا ، خدایا مجھ کو ان کے اعوان وانصار اوران سے دفاع کرنے والوں  میں سے قرار  دۓ .....

بلکہ متعدد روایات سےیہ معلوم ہوتا ہے ، کہ اہل بیت اطہارؑ کی نسبت جو عہد وپیمان اپنے ماننے والوں کی گردن پر لیا ہے، وہ چھاردہ معصومینؑ  کی اطاعت حمایت اور ان سے محبت کا وعدہ ہے

چنانچہ خود امام زمانہؑ نے جناب شیخ مفید کو لکھے ہوۓ نامے میں فرماتے ہیں :“  و لو أن أشیاعنا وفقهم الله لطاعته علی اجتماع من القلوب فی الوفاء بالعهد علیهم لما تأخر عنهم الیمن بلقائنا و لتعجلت لهم السعادة بمشاهدتنا علی حق المعرفة و صدقها منهم بنا فما یحبسنا عنهم إلا ما یتصل بنا مما نكرهه و لا نؤثره منهم و الله المستعان و هو حسبنا و نعم الوكیل و صلاته علی سیدنا البشیر النذیر محمد و آله الطاهرین و سلم ‏ (1) “اگر ہمارے شیعہ  اﷲ تعالی انھیں اپنی اطاعت کی توفیق عنایت فرماۓ ،ایک دل اور متحد ہو کر ہمارے ساتھ باندھے گۓ عہد وپیمان کو وفا کرتے تو ہمارے  احسان اور ہماری ملاقات کا شرف وفیض ان سے ہرگز مؤخر نہ ہوتے : اور بہت جلد کامل معرفت اور سچی پہچان کے ساتھ ہمارے دیدار کی سعادت انکو نصیب ہوتی ،اور ہمیں شیعوں سے صرف اور صرف انکے ایک گروہ کی کردار نے  پوشیدہ کر رکھّا ہے  جو کردار ہمیں پسند نہیں اور ہم ان سے اس کردار کی توقع نہیں رکھتے تھے ،پروردگار عالم ہمارا بہترین مددگار ہے اور وہی ہمارے لیۓ  کافی ہے ۔

--------------

(1):- مجلسیبحار انوار ،ج52 ،ص 140 - 

۵۲

پس حصرت حجت علیہ السلام کے اس کلام سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اہل بیت اطہار ؑکے چاہنے والوں سے جس چیز کا عہد وپیمان لیا ہے ،وہ انکی ولایت ؛اطاعت؛ حمایت اورمحبت ہے ۔

اور جو چیز امام زمانہ کی زیارت سے محروم ہونے اور انکے ظہور میں تاخیر کا سبب بنی ہے وہ انکے  ماننے والوں کے آنجناب کی اطاعت اور حمایت کے لیے آمادہ نہ ہونا ہے ،اور یہی اطاعت اور حمایت ظہور  کے شرائط میں سے ایک اہم شرط  ہے ۔

اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ امیر المومنین        فرماتے ہیں :“إعلموا أنّ الأرض لاتخلو من حجة لللّه عزوجل ولكنّ اللّه سیعمی خلقه عنها بظلمهم وجورهم وإسرافهم علی انفسهم (1)   جان لو زمین ہرگز حجت خدا سے خالی نہیں ہو سکتی-لیکن عنقریب پروردگار عالم لوگوں کےظلم وجور اور اپنے نفسوں پر اسراف کرنے کی وجہ سے انھیں  انکی زیارت سے  محروم کر دۓ  گا  -

پس ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ منتظرین کی ذمہ داریوں میں سے  ایک اہم ذمہ داری صاحب العصروالزمان کی اطاعت اور تجدید بیعت ہے  اوریہی  شرط ظہور اور محبت کی شاہراہ ہے کہ جسکے بغیر حقیقی اورکامل محبت حاصل نہیں ہوتی ۔

ب: امام مہدی  کی یاد

امام زمانہ عجل اﷲ فرجہ کے بلند مقام کی شناخت اور انکی مودّت ومحبت کو اپنے دل میں پیدا  کرنے اور اسے رشد دینے  کے لیۓ ضروری ہے کہ ہمیشہ آنحضرت کو یاد کریں ،اور انکی طرف متوجہ رہیں یعنی بہت زیادہ توحہ کرنا چاہیے اور یقینی طور  پر  یہ اثر رکھتا ہے ،کیونکہ مسلم طور پر اگر کوئی اپنی روح  ایک چیز کی طرف متوجہ رکھے تو ہو ہی نہیں سکتا کہ اس چیز کے ساتھ رابطہ برقرارنہ ہو ۔

--------------

(1):-  طبرسی - الاحتجاج ج : 2 ص : 499 - 

۵۳

اسی طرح اگر آپ نے اما م زمانہ کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا تو خود یہ کثرت توجہ ؛روحی کشش  ایجاد کر دیتی ہے البتہ استعداد اورظرفیت  کی حفاظت اور شرائط کے ساتھ توجہ  اپنا  اثر خود بخود  چھوڑتاہے اور روایات کے تاکید بھی اسی لحاظ سے ہے ،کہ یہ توجہ اور یاد لا محالہ متوجہ اور متوجہ الیہ کے درمیان رابطہ پیدا کر دیتی ہے اور وقت گزر نے کے ساتھ یہ رابطہ شدت اختیار کرجاتا ہے اور پہلے سے زیادہ مؤثر ہوتا جاتا ہے اور ہمیں بھی آج سے اسکی تمرین کرنا چاہیے اور کم سے کم چوبیس گنٹھوں میں دو وقت صبح اوررات کے وقت  اپنے دل کو حضرت بقیۃ اﷲ  اعظم  ارواحنا لہالفداءکی طرف متوجہ کریں چنانچہ  معصومینؑ نے بھی ایک نماز صبح کے بعد دعا عہدپڑھنے  دوسرا نماز مغربین کے بعد اس دعا کو پڑھنے کا حکم دیا ہےالسلام علیك فی الیل اذا یغشی والنهار اذا تجلی ” سلام ہو تجھ پر جب رات کی تاریکی چھا جاۓ اورجب دن کا  اُجالا پھیل جاۓ(1)   اور امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے :جو شخص اس عہد نامہ کو چالیس صبح پڑھے گا وہ حضرت قائم علیہ السلام کے مددگاروں میں سے شمار ہو گا اور اگر وہ شخص انکے طہور سے پہلے مر جاۓ تو اﷲ تعالی اسے امام ؑکی خدمت کے لیۓ مبعوث کرۓ گا اور اسے ہر کلمہ کے عوض میں ہزار نیکیان مرحمت فرمائیگا اور ہزارگناہ محوکرے  گا(2)     اسی طرح ہر روز جمعہ کو امام زمانہ کی تجدید بیعت کرنا مستحب ہے تاہم آسمانی فرشتے بھی جمعہ کے دن بیت المعمور پرجمع ہوتے ہیں اور ائمہ معصومین ؑکے تجدید بیعت کرتےہیں-

اور امام مہدی ؑکے ساتھ اس روحی اور دلی توجہ کو مستحکم کرنے اور انکی یاد کو مؤثر بنانے  کےلیۓکچھ طریقہ کاربھی ہمیں بتاۓ ہیں ہم ان میں سے بعض موارد  یہاں ذکر کرتے ہیں - 

--------------

(1):- نعمانی:الغ یبة ،باب 10 ،ص 141 -

(2):- پیام اما زمانہ ۱۸۸ ، آیۃاﷲ وحید خراسانی کے اما م زمانہکے متعلق تقر یر کا ایک حصہ-

۵۴

1 :امام مہدی ؑکی نیابت میں صدقہ دینااور نماز پڑھنا

امام زمانہ کی محبت کو بڑھانے اور انکی یادکو زندہ رکھنے اور  اپنی دلی توجہ کو متمرکز کرنے کے لیۓ ایک بہت ہی اہم ذریعہ انکی نیابت میں صدقہ دینا اور نماز پڑھنا  بلکہ ہر نیک کام جس میں خدا کی رضا ہو انجام دینا ہے-ہماری ان سے دلبستگی وتوجہ اور انکی اطاعت وپیروی ایسی ہونی چاہیے جس طرح خدا  و رسول ؐاور خود امام زمانہؑ اور انکے  اجداد طاہرینؑ ہم سے چاہتے  ہیں  ہم جب بھی نماز حاجت بجالاۓ یا صدقہ دین تو  آنجناب کی حاجتوں کو اپنے حاجتوں پر مقدم اور انکی نیابت میں  صدقہ دینے کو  اپنے اوپر اور اپنے عزیزوں کے اوپر صدقہ دینے پر مقدم کرنا چاہے ،اور اپنے لیۓ دعا کرنے سے پہلے انکے سلامتی اور تعجیل ظہور کے لیے دعا کرنی چاہیے،اسی طرح ہر نیک عمل جو انکے وفاء کا سبب بنتا ہے اپنے کاموں پر مقدم کرۓ تاکہ آنحضرت بھی ہماری طرف توجہ کرۓ اور ہم پر احسان کرۓ(1)    اور اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ سرور کائنات(ص) فرماتے ہیں : “کسی بندے کا ایمان کامل نہیں ہوتا جب تک وہ اپنی ذات سے زیادہ مجھ سے اور  اپنی خاندان سے زیادہ میری خاندان کو نہیں  چاہتا ہو ، اسی طرح اسکے نزدیک  اپنی عترت سے زیادہ میری عترت اور اپنی ذات سے زیادہ میری ذات عزیزتر نہ ہو -  اسی طرح متعدد روایات میں ائمہ معصومینؑ کو صلہ دینے کے بارے میں آیا ہے ،کہ ایک درہم امام کو صلہ میں دینا دوملین درہم دیگر کار خیر میں خرچ کرنے کے برابر ہے ؛ یا کسی اور روایت میں.آیا ہے ایک درہم جو  اپنے  امام کو دۓ اسکا ثواب اُحد کی پہاڑی سے بھی سنگین ہے يَا مَيَّاحُ دِرْهَمٌ يُوصَلُ بِهِ الْإِمَامُ أَعْظَمُ وَزْناً مِنْ أُحُدٍ (2) اسی طرح امام کے نیابت میں حج بجا لانے؛ زیارت پر جانے ،اعتکاف پر بیٹھنے ،اور صدقہ دینے کی تاکید کیا گیا ہے ۔ یقینا ان کاموں کا ایک اہم مقصد اورہدف اما م زمانہ کی یاد کو ہر وقت  اپنے دل ودماغ میں زندہ رکھنا  اوران سے اپنی قلبی و روحی توجہ کو تقویت دینا اور   ان کی محبت میں اضافۃ کرنا ہے ، دوسری عبارت میں یہ کہ ایک حقیقی منتظر کی خصوصیت یہ ہونی چاہیے کہ وہ  ہر چیز میں اپنے امام کو یاد رکھے اور انکو کبھی یاد سے جانے نہ دۓ ۔

--------------

(1):- مجلسی :ج ۱۰۲  ،ص ۱۱۱ مصباح الزائر ص ۲۳۵ - 

(2):- کشف المحجہ: فصل ۱۵۰ ،ص ۱۵۱ - 

۵۵

2: انکے  فراق کی داغ میں ہمیشہ غمگین رہنا .

بعض معصومین ؑبھی  امام زمانہؑ کی غیبت کے دوران کو یاد کرتے ہوۓ انکے شوق دیدار میں آنسو بھاتے تھے اور ان سے زیارت کی تمنا کرتے تھے ہاں تک اما م زمانہ کی فراق میں مہموم وغمگین ہونا مومن کی نشانیوں میں سے شمار کیا ہے جیسا کہ امیر المؤمنین        اپنے  حقیقی چاہنے والوں کی اوصاف اور نشانیا ں یوں بیاں فرماتے ہیں

“ومن الدلائل ان يُری من شوقه          مثل السقیم  وفی الفؤاد غلائلٌ

ومن الدلآئل ان یری من اُنسه            مستوحشاَ من كل ما هو مشاغل ٌ 

ومن الدلآئل ضحكه بین الوری               والقلب مخزون كقلب الثاكل "

انکی نشانیوں، میں سے ایک یہ ہے کہ شدت شوق کی وجہ سے بیمار جیسے نظر آئیں گۓ جبکہ انکا دل درد سے پھٹ رہا ہو گا ۔

انکی دوسری نشانی یہ ہے کہ اپنے محبوب کے اُنس میں اس طرح نظر آئیں گۓ کہ ہر وہ چیزجو انہیں محبوب سے دور کر دیتی ہے اس سے  بھاگ جاتے ہونگے   ۔

اور تیسری نشانی یہ ہے کہ دیکھنے  میں خندان نظر آئیں گۓ   جبکہ  انکا دل اس شخص کی طرح محزون ومغموم ہو گا جسکا جوان بیٹا اس دنیا سے فوت کرگیا ہو ۔

لیکن خصوصیت کے ساتھ امام ولی عصرؑ کی فراق وجدائی اور انکے مقدس قلب پر جو مصیبتین گزر تی  ہیں انکو یاد کرتے ہوۓ آنسو بہانا گریہ وزاری کرنے کی بہت ساری فضیلت بیاں ہوئی ہے ،اور واقعی اور حقیقی مؤمن کی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے چنانچہ چھٹے امام        اس بارے میں فرماتے ہیں :إِيَّاكُمْ وَ التَّنْوِیهَ أَمَا وَ اللَّهِ لَيَغِیبَنَّ إِمَامُكُمْ سِنِیناً مِنْ دَهْرِكُمْ وَ لَتُمَحَّصُنَّ حَتَّی يُقَالَ مَاتَ قُتِلَ هَلَكَ بِأَيِّ وَادٍ سَلَكَ وَ لَتَدْمَعَنَّ عَلَيْهِ عُيُونُ الْمُؤْمِنِینَ  (1)

--------------

(1):- کلینی :اصول کافی،ج ۲ ،ص ۱۵۶ اور،ج   ۱ ص ۵۳۸ -  

۵۶

اے مفضل خدا کی قسم تمھارے امام ؑسالوں سال پردہ غیب میں ہونگے اور تم لوگ سخت امتحان کا شکار ہوگا یہاں تک انکے بارے میں کہا جاے گا کہ وہ فوت کر گیا ہے یا انھیں قتل کیا گیا ہے ؟ ...لیکن مؤمنین انکی فراق میں گریاں ہونگے....... 

کسی دوسرے حدیث میں جسے  جناب شیخ صدوق نے سدیر صیرفی سےروایت کی  ہے ،کہتے ہیں :قَالَ دَخَلْتُ أَنَا وَ الْمُفَضَّلُ بْنُ عُمَرَ وَ أَبُو بَصِیرٍ وَ أَبَانُ بْنُ تَغْلِبَ عَلَی مَوْلَانَا أَبِی عَبْدِ اللَّهِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع فَرَأَيْنَاهُ جَالِساً عَلَی التُّرَابِ وَ عَلَيْهِ مِسْحٌ خَيْبَرِيٌّ مُطَوَّقٌ بِلَا جَيْبٍ مُقَصَّرُ الْكُمَّيْنِ وَ هُوَ يَبْكِی بُكَاءَ الْوَالِهِ الثَّكْلَی ذَاتَ الْكَبِدِ الْحَرَّی قَدْ نَالَ الْحُزْنُ مِنْ وَجْنَتَيْهِ وَ شَاعَ التَّغَيُّرُ فِی عَارِضَيْهِ وَ أَبْلَی الدُّمُوعُ مَحْجِرَيْهِ وَ هُوَ يَقُولُ سَيِّدِی غَيْبَتُكَ نَفَتْ رُقَادِی وَ ضَيَّقَتْ عَلَيَّ مِهَادِی وَ أَسَرَتْ مِنِّی رَاحَةَ فُؤَادِی (1)   ایک دن میں؛ مفضل بن عمیر ؛ابو بصیر اور ابان بن تغلب ہم سب مولا امام صادق      کی خدمت میں شرفیاب ہوۓ  تو آپکو اس حالت میں دیکھا کہ آپ فرش کو جمع کرکے خاک پر تشریف فرما ہیں ،  جُبہ خیبری  زیب تن کیۓ  ہوۓ ہیں -جو عام طور پر مصیبت زدہ لوگ پہنتے ہیں -،چہرہ مبارک پر حزن واندوہ کی آثار نمایاں ہیں اور اس شخص کی مانندبے تابی سے  گریہ کر رہے ہیں کہ جس کا جوان بیٹا فوت کر چکا ہو  ،آنکھوں سے آنسوں جاری ہے ،اور زبان پر فرما رہے ہیں  اے میرے دل کا سرور تیری جدائی نے میرے  آنکھوں سے ننید اُڑا لی ہے اور مجھ سے چین چھین لی ہے ،اے میرے سردار تیری غیبت نے میری مصیبتوں کو بے انتہا کر دی ہے .......روایت بہت ہی طولانی ہے اور بہت ہی ظریف نکات بھی موجود ہیں جو چاہتے ہیں تو مراجعہ کریں

پس  ان روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے  کہ  ائمہ بھی امام زمان علیہ السلام کی غیبت سے نگران  اور انکے شوق دیدار میں بے تاب  وگریاں تھے۔

--------------

(1):- کلینی :اصول کافی ،ج۱ ،ص ۳۳۶  باب غیبت -  ---- کمال الد ین ج : 2 ص 35: بحارال انوار ج : 51 ص : 219     

۵۷

۳ : علوم ومعارف اہل بیتؑ کو رواج دینا

علوم ومعارف اہل بیت علیہم السلام کی نشر و اشاعت اور ترویج؛حقیقت میں اہل بیت اطہار ؑکے امر کی احیا کرنے کے مصادیق میں سے ہے جس کے بہت تاکید کیا گیا ہے“اور منتظرین کی ایک اہم ذمہ داریوں میں سے بھی ہےجس طرح روایت میں امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا گیا ہے آپ فرماتے ہیں:تَزَاوَرُوا فَإِنَّ فِی زِيَارَتِكُمْ إِحْيَاءً لِقُلُوبِكُمْ وَ ذِكْراً لِأَحَادِیثِنَا وَ أَحَادِیثُنَا تُعَطِّفُ بَعْضَكُمْ عَلَی بَعْضٍ فَإِنْ أَخَذْتُمْ بِهَا رَشَدْتُمْ وَ نَجَوْتُمْ وَ إِنْ تَرَكْتُمُوهَا ضَلَلْتُمْ وَ هَلَكْتُمْ فَخُذُوا بِهَا وَ أَنَا بِنَجَاتِكُمْ زَعِیمٌ ایک دوسرے کی ملاقات کرو، زیارت پر جاو چونکہ تمھارے ان ملاقاتوں سے تمھارے قلوب زندہ اورہماری احادیث کی یاد آوری ہوتی ہے،اور ہماری احادیث تمھارے ایک دوسرے پرمہربان ہونے کا سبب بنتی ہیں پس تم نے ان احادیث کو لے لیا اور اس پرعمل کیا تو تم کامیاب ہو جاؤ گے نجات پاؤ گۓ اور جب بھی اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہلاک ہو جاؤ گۓ  ،پس ان احادیث پر عمل کرو میں تمھاری نجات کی ضمانت دونگا ”(1) اسی طرح کسی دوسرے حدیث میں ابن شعبہ حرّانی نے چھٹے امام ؑسے نقل کیا ہے آپ منتظرین کی توصیف میں فرماتے  ہیں:وفرقة احّبونا وحفظوا قولنا ،واطاعو أمرنا ولم یخالفوا فعلنا فاولئك منّا ونحن منهم (2) اور ایک گروہ وہ ہے جو ہمیں دوست رکھتا ہے،ہمارے کلام کی حفاظت کرتا ہے،ہمارے امرکی اطاعت کرتا ہے اور ہماری سیرت اور فعل کی مخالفت نہیں کرتا ہے، وہ ہم سے ہے اور ہم ان سے ہیں عصر غیبت میں  امام زمانہ کی بہترین  خدمت جس کی امام صادق علیہ السلام تمنا کرتے تھے ، علوم اہل بیت کی نشرو اشاعت انکی فضائل ومناقب کو لوگوں تک پہنچانا  ہے ، جو حقیقت میں دین خدا کی نصرت ہے جس کے بارے میں پروردگار عالم خود  فرماتا ہےوَ لَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ  إِنَّ اللَّهَ لَقَوِىٌّ عَزِیز٭ (3) بے شک اﷲ اسکی مدد کرۓ گا جو اسکی نصرت کرۓ اور بتحقیق خداوند عالم صاحب قدرت اور ہر چیز پر غلبہ رکھنے والاہے

--------------

(1):- وسائل الش یعة ج : 16 ص : 34 ۶ بحارالانوار ج : 71 ص : 35 ۸ 

(2):- تحف العقول :ص 513 :اور بحار انوار :ج75 ،ص 38۲ -

(3):- سورہحج ۴۰ - 

۵۸

۴:فقیہ اہل بیت ؑکی اطاعت اور پیروی

امام زمانہ ؑکی غیبت سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ پروردگار عالم نے اس امت کو اپنے آپ پر چھوڑ دیا ہو یا  انکی ہدایت ورہبری کا کچھ انتظام نہیں کیا ہو ؟،یہ اسلئے کہ اگر چہ حکمت الھی کی بنا پر حجت خدا لوگوں کے عادی زندگی سے مخفی ہیں ،لیکن آپکی نشانیاں اور آثار  اہل بصیرت پر مخفی نہیں ہے(بنفسی انت من مغیب ٍِ لم یخل منّا ، بنفسی انت من نازح ِ ما نزح عنّا ) (1) “ قربان ہوجاوں آپ پر پردہ غیبت میں ہیں لیکن ہمارے درمیاں ہے ،فدا ہو جاوں  آپ پر ہماری آنکھوں سے مخفی ہیں لیکن ہم سے جدا نہیں ہے ”

اسیلئے معصومؑ  فرماتے ہیں :وإن غاب عن الناس شخصه فی حال هدنة لم یغب عنهم مثبوت علمه (2)   ”اگر چہ غیبت کے دوران انکی شخصیت لوگوں کی نظروں سے مخفی ہونگی(3)   لیکن انکے علمی آثار اہل بصیرت پر عیان ہوں گے ۔ یعنی اسکا مطلب یہ ہے کہ خود  امام لوگوں کے حالات سے آگاہ ہین  اور جو علوم علماء اور فقہاء کے نزدیک  احادیث اور سیرت کی صورت میں موجود ہیں اوہ بہی انکے ہی آثار ہین- لوگ  اگر چہ انکے نورانی چہرے کی زیارت سے محروم ہیں اور مستقیم انکی اطاعت نہیں کر سکتے لیکن انکے نائب عام ؛ ولی فقیہ اور علماء کی اطاعت کے ذریعے اپنے امام کی اطاعت کر  سکتے ہیں ،کہ جنکی اطاعت کا خود معصومین علیہم السلام نے حکم دیا ہے“ “فَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنَ الْفُقَهَاءِ صَائِناً لِنَفْسِهِ حَافِظاً لِدِینِهِ مُخَالِفاً عَلَی هَوَاهُ مُطِیعاً لِأَمْرِ مَوْلَاهُ فَلِلْعَوَامِّ أَنْ يُقَلِّدُواه (4) .  اور فقہامیں سے وہ فقیہہ جو اپنے دین کا پابند ہو، نفس پر کنڑول رکھتا ہو ، نفسانی خواہشات کے تابع نہ ہو، اور اپنے مولا کے فرمان بردار ہو تو انکی اطاعت اور پیروی(تقلید )سب  عوام پر واجب ہے ۔

--------------

(1):- دعایندب ہ کا ا یکفقرہ

(2):- صافیگلپائ ی گانی :منتخب الاثر ،ص ۲۷۲ - 

(3):- البتہواضح ر ہے یہ غیبت کےپہل ی  معنی کی بنیاد پر ہے

(4):- مجلسی:بحار الانوار،ج2 ،ص 88 - وسائل الش یعة ج : 27 ص : 13

۵۹

 یا خود امام زمانہ علیہ الصلاۃ والسلام اس بارے فرماتے ہیں :أَمَّا الْحَوَادِثُ الْوَاقِعَةُ فَارْجِعُوا فِیهَا إِلَی رُوَاةِ حَدِیثِنَا فَإِنَّهُمْ حُجَّتِی عَلَيْكُمْ وَ أَنَا حُجَّةُ اللَّهِ عَلَيْهِم‏  (1) اور درپیش مسائل میں ہمارے احادیث کے جاننے والے (فقہاء) کی طرف مراجعت کریں ،جس طرح میں ان پر حجت ہوں اسی طرح وہ تمھارے اوپر میری جانب سے حجت ہیں یعنی اگر حجت خدا غیبت میں ہیں تو لوگوں کوبغیر حجت کے رہا نہیں کیا گیا ہے ،بلکہ فقہاء ان پر حجت ہیں انکی پیروی  خدا اورسولؐ کی پیروی ہے ۔

فَإِنِّی قَدْ جَعَلْتُهُ عَلَيْكُمْ حَاكِماً فَإِذَا حَكَمَ بِحُكْمِنَا فَلَمْ يَقْبَلْهُ مِنْهُ فَإِنَّمَا اسْتَخَفَّ بِحُكْمِ اللَّهِ وَ عَلَيْنَا رَدَّ وَ الرَّادُّ عَلَيْنَا الرَّادُّ عَلَی اللَّهِ وَ هُوَ عَلَی حَدِّ الشِّرْكِ بِاللَّه‏.  ” (2) اور ہم نے انھیں  تمھارے اوپر حاکم بنایا ہے ،پس وہ(فقیہ )جو حکم دیتا ہے وہ ہمارے حکم سے دیتا ہے جو ان سے قبول نہ کرۓ تو گویا اسنے حکم خدا کی بے اعتنائی کہ ہے ،اور ہمیں رد کیا ہے اور جو ہمیں رد کرے اسنے خدا کو رد کیا ہے  جو حقیقت میں خدا سے  شرک لانے کی حد میں ہے یعنی   انکی نافرمانی ہمارے نافرمانی ہے اورہماری نافرمانی خدا کی نافرمانی اور خدا کی نافرمانی شرک ہے اور اھل بیتؑ نے اپنے مانے والے شیعوں کو ابلیس اور اسکے کارندوں کی شر سے بچا کر رکھنے اور انکے ععقیدتی و ایمانی  حدود کی نگہبانی کو علماء ،فقہاء کی سب سے بڑی ذمہ داری بتائی ہے اور فرمایا ہے  :علماء شیعتنا مرابطون فی الثغر الذی یلی إبلیس و عفاریته یمنعونهم عن الخروج علی ضعفاء شیعتنا و عن أن یتسلط علیهم إبلیس و شیعته النواصب ألا فمن انتصب لذلك من شیعتنا كان أفضل ممن جاهد الروم و الترك و الخزر ألف ألف مرة لأنه یدفع عن أدیان محبینا و ذلك یدفع عن أبدانهم   ” (3) ہمارے شیعوں کے علماء ان حدود کے محافظ اور نگہبان ہیں کہ جن حدود سے گزر کر شیطان اور اسکے کارندے اور پیروان داخل ہوتے ہیں اوریہ علماء  ہمارے کمزور شیعوں پر شیطان کے غلبہ آنے اور انھیں بے ایمانی کی طرف سوق دینے سے بچاتے ہیں ،

--------------

(1):- """"   """"ج 53 ،ص 181 - الغیبةللطوس یص : ۲۹۱ 

(2):- کلینی :اصول   الکاف یج : 1 ص : ۶۷ -   تہذ یب ال اح کام ج : 6 ص :  21 ۸  

(3):- الصراط المستقیم :ج ۳ ،ص۵۵ ،  الاحتجاج ج : 2 ص۳۸۵  :  عوالی اللئالی ج ۱ ص ۱۸ . 

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

رسالت كے دعوے ميں جھوٹے ہونے كى تہمت لگائي _سوف تعلمون من هو كاذب

۶_ حضرت شعيب(ع) ، لوگوں پر اتمام حجت كرنے كے بعد، ان كے لجوج ہوے كى وجہ سے انكے برے انجام كا انتظار كرنے لگے_و ارتقبوا انّى معكم رقيب

آيت شريفہ ميں (رقيب) كا منى منتظر ہونا ہے_

اہل مدائن :اہل مدائن پر اتمام حجت ۶; اہل مدائن كا براانجام ۶; اہل مدائن كو ڈرانا ۱، ۴; اہل مدائن كى تاريخ ۲; اہل مدائن كى تہمتيں ۵;اہل مدائن كى لجاجت ۶; اہل مدائن كے ايمان لانے سے نااُميدى ۲

شعيبعليه‌السلام :حضرت شعيبعليه‌السلام اور اہل مدائن ۱; حضرت شعيب(ع) پر جھوٹ بولنے كى تہمت ۵; حضرت شعيبعليه‌السلام كا ڈرانا ۱، ۴;حضرت شعيبعليه‌السلام كا شرك كے خلاف جہاد ۳;حضرت شعيبعليه‌السلام كا قصہ ۱، ۲، ۴، ۵، ۶;حضرت شعيبعليه‌السلام كى اتمام حجت ۶; حضرت شعيبعليه‌السلام كى استقامت ۳; حضرت شعيبعليه‌السلام كى اميديں ۱;حضرت شعيبعليه‌السلام كى ذمہ دارى ۳; حضرت شعيبعليه‌السلام كى نااُميدى ۲;حضرت شعيبعليه‌السلام كے انتظار ۶

عذاب :خوار و ذليل كرنے والاعذاب ۴;عذاب سے ڈرانا ۴; عذاب كے مراتب ۴

آیت ۹۴

( وَلَمَّا جَاء أَمْرُنَا نَجَّيْنَا شُعَيْباً وَالَّذِينَ آمَنُواْ مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مَّنَّا وَأَخَذَتِ الَّذِينَ ظَلَمُواْ الصَّيْحَةُ فَأَصْبَحُواْ فِي دِيَارِهِمْ جَاثِمِينَ )

اور جب ہمارا حك (عذاب ) آگيا تو ہم نے شعيب اور ان كے ساتھ ايمان لانے والوں كو اپنى رحمت سے بچاليا اور ظلم كرنے والوں كو ايك چنگھاڑنے پكڑليا تو وہ اپنے ديار ہى ميں الٹ پلٹ ہوگئے (۹۴)

۱_ الله تعالى نے مدائن كے لوگوں كو كفر و شرك پر اصرار اور حضرت شعيبعليه‌السلام كى تعليمات كو قبول نہ كرنے پر سخت

عذاب ميں گرفتار كيا _و لما جاء أمرن

(امر ) سے مراد قوم شعيبعليه‌السلام پر نازل شدہ عذاب مراد ہے_ اور ( نا) جو ضمير متكلم ہے_ اسكى طرف اضافہ كرنا بزرگى عذاب كو بتاتا ہے _

۲_ كائنات ميں حكم الہى بغير كسى كمى و زيادتى كے متحقق ہوتا ہے_و لما جاء ا مرن

۲۸۱

عذاب كو ( امر) سے تعبير كرنا جو ( فرمان) كے معنى ميں ہے اس نكتہ كى طرف اشارہ كرتا ہے كہ جس كے تحقق كے بارے ميں الله تعالى حكم ديتا ہے وہ بغير كسى كمى و زيادتى كے انجام پذير ہوتا ہے _ يعنى جو فعل انجام پاياہے وہى فرمان ہے_

۳_ مدائن كے كچھ لوگوں نے الله تعالى كى توحيد كو قبول كيا اور حضرت شعيبعليه‌السلام كى رسالت پر ايمان لائے_

نجّينا شعيباً و الذين ء امنوا معه

۴_ الله تعالى نے حضرت شعيبعليه‌السلام اور ان كے ماننے والوں كو اہل مدائن پر نازل شدہ عذاب سے بچاليا_

و لما جاء أمرنا نجينا شعيباً و الذين ء امنوا معه

۵_حضرت شعيبعليه‌السلام اور ان كے پيروكاروں كو نازل شدہ دنياوى عذاب سے بچالينا، يہ رحمت الہى كا ان پر جلوہ تھا_

نجينا شعيباً و الذين ء امنوا معه برحمة منّ

۶_ رحمت الہى كے لائق، اہل ايمان ہيں _نجينا شعيباً و الذين ء امنوا معه برحمة منّ

۷_ قوم شعيبعليه‌السلام كے كفار،ايك خوفناك آواز سے ہلاك ہوئے_و أخذت الذين ظلموا الصيحة

۸_ قوم شعيب كے لوگ ،ظلم و ستم كرنے والے تھے_و اخذت الذين ظلموا الصيحة

(الذين ظلموا) سے مراد قوم شعيب كے لوگ ہيں جنہوں نے شرك پرستى اور حضرت شعيبعليه‌السلام كى رسالت سے انكار كيا اور كم تولانيز لين دين ميں بے عدالتى سے كام لينے پر اصرار كيا_مذكورہ بالا معنى ميں ستم كرنے والوں سے ان كو ياد كيا گيا ہے جو مذكورہ وجوہات كى بناء پر تھا_

۹_ شرك، انبياءعليه‌السلام كى رسالت سے انكار ، اور لين دين ميں عدل و انصاف كا لحاظ نہ كرنا، ظلم و ستمگرى ہے_

و أخذت الذين ظلموا الصيحة

۱۰_ظالم، مشركين اور وہ جو لين دين ميں كم تولتے اور عدل و انصاف نہيں كرتے، دنيا كے عذاب (عذاب استيصال) ميں گرفتار ہونے والے ہيں _و أخذت الذين ظلموا الصيحة

۱۱_ قوم شعيب كے كفار، عذاب الہى كى وجہ سے زمين پر

۲۸۲

گرپڑے اور ہلاك ہوگئے_فأصبحوا فى ديارهم جاثمين

(جثوم) (جاثمين) كا مصدر ہے جسكا معنى زمين سے چپك جانا اور حركت نہ كرنا ہے_ بعض نے سينہ كے بل زمين پر گرنے كا معنى ليا ہے(لسان العرب )

۱۲_ اس چنج اور خوفناك آواز كہ جس نے مدائن كے لوگوں كو گھيراتھا اس نے ان سے گھر سے باہر آنے كى طاقت كو سلب كرليا_و ا خذت الذين ظلموا الصيحة فأصبحوا فى دى ارهم جاثمين

(فى ديارہم)( جاثمين ) كے متعلق ہے اور اس پر دلالت كرتا ہے كہ قوم شعيب اپنے گھروں ميں ہلاك ہوگئے _ يہ اس بات كو بتاتا ہے كہ وہ خطرناك آواز اتنى سخت تھى كى مدائن كے لوگ اس كے سننے كے بعد گھر سے نہ نكل سكے _ كيونكہ ايسے موارد ميں انسان گھر سے باہر نكل جاتا ہے_

۱۳_ قوم شعيب كے كفار، رات كو عذاب ميں گرفتار ہوئے اور صبح ہوتے ہى ہلاك ہوگئے_

فأصبحوا فى ديارهم جاثمين

(اصبحوا) كا معنى ممكن ہے (دخلوا فى الصباح ) يعنى صبح ميں داخل ہونا ہواور ممكن ہے (صاروا)وہ ہوگئے كے معنى ميں ہو_ پہلے معنى كى صورت ميں ''فاصبحوا'' كا معنى يہ ہوگا كہ قوم شعيب كى ہلاكت صبح كے وقت ہوئي ، او ( فأصبحوا) كے فأ كے قرينہ سےمعلوم ہوتا ہے كہ عذاب (يعنى مہيب آواز) رات كو واقع ہوا_

اقتصاد:اقتصادى خلاف ورزيوں كأظلم ۹; اقتصادى خلاف ورزى كرنے والوں كا عذاب ۱۰

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام كو جھٹلانے كأظلم ۹

اہل مدائن :اہل مدائن كاشرك پر اصرار ۱; اہل مدائن كأظلم ۸; اہل مدائن كا عذاب ۱، ۷; اہل مدائن كى تاريخ ۷، ۱۱، ۱۲، ۱۳;اہل مدائن كى لجاجت ۱; اہل مدائن كى معاشرتى گروہ بندى ۳;اہل مدائن كى ہلاكت كا وقت ۱۳;اہل مدائن كے عذاب كا وقت ۱۳; اہل مدائن كے عذاب كى خصوصيات ۱۱، ۱۲;اہل مدائن كے موحدين ۳;اہل مدائن كے ہلاك ہونے كى كيفيت ۱۱، ۱۲

الله تعالى :اوامر الہى كا حتمى ہونا۲; الله تعالى كا نجات دينا ۴; الله تعالى كى رحمت كى نشانياں ۵; الله تعالى كے عذاب ۱

رحمت :رحمت كے حق دار ۶/شرك :شرك كأظلم ۹; شرك كى سزا ۱

۲۸۳

شعيبعليه‌السلام :حضرت شعيبعليه‌السلام كا قصہ ۴;حضرت شعيبعليه‌السلام كى نجات ۴، ۵;حضرت شعيبعليه‌السلام كے پيروكاروں كى نجات ۴،۵; حضرت شعيبعليه‌السلام كے مومنين ۳

ظالمين :ظالموں پر دنيا ميں عذاب ۱۰;ظالموں پر عذاب استيصال ۱۰

ظلم :ظلم كے موارد ۹

عذاب :آسمانى صيحہ سے عذاب ۷، ۱۲;اہل عذاب ۱۰;رات ميں عذاب ۱۳;عذاب استيصال سے نجات ۵;عذاب سے نجات ۴; عذاب كاذريعہ ۷;عذاب كے اسباب ۱; عذاب كے مراتب ۱

مومنين :مؤمنين كے فضائل ۶

مشركين :مشركين پر دنياوى عذاب ۱۰;مشركين پر عذاب استيصال ۱۰

ناپ تول ميں كمى كرنا :ناپ تول ميں كمى كرنے كا عذاب ۱۰

ہلاكت :صبح كے وقت ميں ہلاك ہونا ۱۳

آیت ۹۵

( كَأَن لَّمْ يَغْنَوْاْ فِيهَا أَلاَ بُعْداً لِّمَدْيَنَ كَمَا بَعِدَتْ ثَمُودُ )

جيسے كبھى يہاں بسے ہى نہيں تھے اور آگاہ ہوجائو كہ قوم مدين كے لئے ويسے ہى ہلاكت ہے جيسے قوم ثمود ہلاك ہوگئي تھى (۹۵)

۱_ مدائن كے لوگوں پر نازل ہونے والے عذاب نے ان كى نابود ى كے ساتھ ساتھ ان كے ديار ميں ان كى زندگى كے آثار بھى مٹا ديئے _كأن لم يغنوا فيه

( غنى ) ( لم يغنوا ) كا مصدر ہے جسكا معني رہنا اور سكونت اختيار كرنا ہے _ ( فيہ ) كى ضمير پہلى والى آيت ميں لفظ ديار كى طرف پلٹ رہى ہے _اور جملہ ( كأن لم يغنوا فيہا ) كا معنى يہ ہوگا _ كہ گويا قوم شعيب نے اپنے ديار ميں سكونت اختيارنہيں كى تھى _ يہ كنايہ ہے كہ ان كا ديار نابود اور ان كى زندگى كے آثار مٹ گئے _

۲۸۴

۲_ مدائن كے لوگ، ہلاكت اور رحمت الہى سے دورى كے مستحق تھے _ألا بُعداً لمدين

مذكورہ معنى كى وضاحت كے ليے اسى سورہ كى آيت ۶۰ ميں شمارہ ۵ كى طرف رجوع كيا جائے _

۳_ شرك ، ظلم ، ناپ توميں كمى اور لين دين ميں بے عدالتى و نا انصاف كرنا ، رحمت الہى سے دورى اور ہلاكت كے اسباب ہيں _و إلى مدين ا خاهم شعيباً ألا بُعداً لمدين

۴_ قوم ثمود، رحمت الہى سے محروم ہوئے اور الله تعالى كے عذابوں سے ہلاك ہوئے _كما بعدت ثمود

۵_ اہل مدائن ( قوم شعيب ) كى عاقبت كا انجام ثموديان ( قوم صالح ) كى طرح ہوا _ألا بُعداً لمدين كما بعدت ثمود

(اَلَا بُعداً ) كے جملے ميں جو تشبيہ ہے وہ مدائن كے لوگوں كى قوم ثمود كى طرح ہلاكت بيان كرنے كے علاوہ آيت شريفہ ۸۹ ميں بيان شدہ حضرت شعيب(ع) كى كلام پر بھى ناظر ہے كہ انہوں نے اپنے لوگوں كو گذشتہ اقوام كى عاقبت ميں گرفتار ہونے سے خبردار كيا تھا وہ يہى قوم صالح (ثموديان ) تھي_

اقتصاد :اقتصادى خلاف ورزيوں كے آثار ۳

اہل مدائن :اہل مدائن كى تاريخ ۱; اہل مدائن كى عاقبت ۵; اہل مدائن كى محروميت ۲; اہل مدائن كى ہلاكت ۱،۲;اہل مدائن كے عذاب كى خصوصيات ۱

رحمت :رحمت سے محروم ہونے والے ۲، ۴;رحمت سے محروم ہونے كے اسباب ۳

شرك :شرك كے آثار ۳

قوم ثمود :قوم ثمود كا انجام ۵;قوم ثمود كا عذاب ۴; قوم ثمود كى تاريخ ۴;قوم ثمود كى محروميت ۴; قوم ثمود كى ہلاكت ۴

ناپ تول ميں كمى :ناپ تول ميں كمى كے آثار ۳

ہلاكت :ہلاكت كا سبب ۳

۲۸۵

آیت ۹۶

( وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَى بِآيَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُّبِينٍ )

اور ہم نے موسى كو اپنى نشانيوں اور روشن دليل كے ساتھ بھيجا(۹۶)

۱_ حضرت موسىعليه‌السلام ،انبياء الہى ميں سے تھے_و لقد أرسلنا موسى

۲_ حضرت موسي(ع) اپنى الہى رسالت پر عظيم اورفراواں معجزات ركھتے تھے _و لقد أرسلنا موسى با ياتن

مذكورہ آيت شريفہ ميں آيات ( نشانياں ) سے مراد، معجزات ہيں اور جمع كے صيغے سے ذكر كرنے كا مقصد يہ ہے كہ معجزات فراواں اور كثرت كے ساتھ تھے اور متكلم كى ضمير ( نا )كى طرف اضافہ كا مقصد ان معجزات كى بزرگى و عظمت كو بيان كرنا ہے _

۳_ حضرت موسىعليه‌السلام ، اپنى الہى رسالت پر حجت اورر وشن و واضح دليل ركھتے تھے _

و لقد أرسلنا موسى بايتنا و سلطان مبين

( سلطان ) حجت اور برہان كے معنى ميں ہے_ (مبين ) روشن اور روشن كرنے والے كے معنى ميں ہے _ لازم اور متعدى دونوں ميں استعمال ہوتا ہے _

۴_ فرعونيوں پر موسىعليه‌السلام كا غلبہ اور ان كو مغلوب بنانا، الله كى طرف سے مقرر شدہ امر تھا _

و لقد ارسلنا موسى باياتنا وسلطان مبين

مذكورہ معنى ميں ( سلطان ) سے مراد ظاہرى تسلط اور غلبہ ليا گيا ہے _

۵_ الله تعالى نے حضرت موسىعليه‌السلام كى رسالت كے آغازميں ہى اپنى نشانى اور معجزہ سے نوازا، نہ كہ لوگوں كے تقاضا اور درخواست كرنے كے بعد عطا كيا _و لقد أرسلنا موسى با ياتنا و سلطان مبين

(بأياتنا) ميں بامصاحبت اور ہمراہى كے معنى ميں ہے _ لہذا (لقد ارسلنا ...) جملہ كا معنى يہ ہے كہ حضرت موسىعليه‌السلام مبعوث ہونے كے وقت سے آيات و معجزات ركھتے تھے برخلاف گذشتہ انبياء كہ ان كو معجزات لوگوں كے تقاضے پر عطا كيے جاتے تھے _

۲۸۶

الله تعالى : الله تعالى كى بخشش ۵; الله تعالى كے مقدّرات ۴

الله ے رسول : ۱

فرعوني:فرعونيوں كى شكست ۴

موسىعليه‌السلام :حضرت موسىعليه‌السلام كا معجزہ ۵; حضرت موسىعليه‌السلام كى كاميابى ۴;حضرت موسىعليه‌السلام كى نبوت ۱;حضرت موسىعليه‌السلام كى نبوت كے دلائل ۲،۳; حضرت موسىعليه‌السلام كى نشانياں ۳;حضرت موسىعليه‌السلام كے غلبے كا سبب ۴;حضرت موسىعليه‌السلام كے فضائل ۵;حضرت موسىعليه‌السلام كے معجزات كى كثرت ۲

آیت ۹۷

( إِلَى فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَاتَّبَعُواْ أَمْرَ فِرْعَوْنَ وَمَا أَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِيدٍ )

فرعون اور اس كى قوم كى طرف تو لوگوں نے فرعون كے حكم كا اتباع كرليا جب كہ فرعون كا حكم عقل و ہوش والا نہيں تھا (۹۷)

۱_ الله تعالى نے حضرت موسىعليه‌السلام كو فرعون اور اس كے دربار كے بزرگوں كى ہدايت كے ليے انكى طرف بھيجا _

و لقد أرسلنا موسى الى فرعون و ملايه _

۲_ فرعون اور اسكى قوم، حضرت موسىعليه‌السلام كى رسالت كے دائرہ كار ميں تھى _و لقد ارسلنا موسى الى فرعون و ملايه

( ملايہ ) كا معنى گروہ ، جمعيت اور اشراف و بزرگان قوم كے معنى ميں بھى آتا ہے _ پس جملہ (ارسلنا موسى الى فرعون و ملايہ ) كا معنى يہ ہوا كہ فرعون كى قوم اور جو اس سے وابستہ لوگ تھے حضرت موسىعليه‌السلام كى رسالت كى حدود ميں تھے _ جب فرعون اور اسكى قوم اور اس كے دربارى رسالت موسىعليه‌السلام كى حدود ميں تھے يعنى ان كى قوم شمار ہوتے تھے _

۳_ فرعون، اسكى قوم اور اس كے دربارى امراء نے حضرت موسىعليه‌السلام كى رسالت كو قبول نہيں كيا _

فاتبعوا أمر فرعون

(فاتبعوا امر فرعون )حضرت موسىعليه‌السلام كے رسول ہونے بعد فرعون كے حكم كى پيروى كرنے، ( ارسلنا موسى )كا مطلب يہ ہےكہ فرعون كى قوم اور اسكے دربار كے اشراف نے حضرت موسىعليه‌السلام كى رسالت كى مخالفت كى _

۲۸۷

۴_ فرعون كى قوم اور اس كے دربارى اس كے حكم پر حضرت موسىعليه‌السلام كى رسالت كى مخالفت پر اتر آئے ، ''فاتبعوا امر فرعون'' (انہوں نے فرعون كے حكم كى پيروى كى )يہ جملہ قوم فرعون كى مخالفت كو بيان كرتاہے_كہ رسالت حضرت موسىعليه‌السلام كى مخالفت فرعون كے حكم سے ہوئي تھى _

۵_ فرعون كے احكامات، لوگوں كے ليے ہرگز ہدايت كرنے اور ان كو صحيح راستہ دكھانے والے نہيں تھے_

و ما امر فرعون برشيد

( رشيد) كا معنى درست اور صحيح ہونے كا ہے _ كبھى ( مرشد ) صحيح راہنمائي كے معنى ميں بھى آتا ہے _

۶_ حضرت موسىعليه‌السلام كے پيغامات اور رسالت، لوگوں كو صحيح راستہ دكھانے اور ہدايت كى راہ بتانے والى تھي_

أرسلنا موسى الى فرعون و ملايه فاتبعوا امر فرعون و ما امر فرعون برشيد

۷_ گمراہ اور فساد رہبر، اپنى امت كى گمراہى اورضلالت كا موجب ہوتے ہيں _

فاتبعوا امر فرعون و ما امر فرعون برشيد

اشراف فرعون:اشراف فرعون اور موسىعليه‌السلام ۳; اشراف فرعون كى ہدايت۱

اطاعت :فرعون كى اطاعت ۴

رہبر:رہبروں كى ضلالت ۷; گمراہ رہبروں كا كردار ۷

فرعون :فرعون اور موسىعليه‌السلام ۳; فرعون كا گمراہ كرنا۵; فرعون كى ہدايت ۱;فرعون كے اوامر ۴، ۵

فرعوني:فرعونى اور حضرت موسىعليه‌السلام ۳

گمراہى :گمراہى كے عوامل ۷

معاشرہ :معاشرہ كے مضرات كى شناخت ۵

موسىعليه‌السلام :حضرت موسىعليه‌السلام اور فرعون ۲; حضرت موسىعليه‌السلام اور فرعوني۲;حضرت موسىعليه‌السلام كا قصہ ۳;حضرت موسي(ع) كو جھٹلانے والے ۳، ۴;حضرت موسىعليه‌السلام كى تعليمات كى خصوصيات ۶; حضرت موسىعليه‌السلام كى رسالت ۱; حضرت موسىعليه‌السلام كى رسالت كى حدود ۲; حضرت موسىعليه‌السلام كى ہدايت كرنا ۱،۶

۲۸۸

آیت ۹۸

( يَقْدُمُ قَوْمَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَوْرَدَهُمُ النَّارَ وَبِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُودُ )

وہ روز قيامت اپنى قوم كے آگے آگے چلے گا اور انھيں جہنم ميں وارد كردے گا جو بدترين وارد ہونے كى جگہ ہے (۹۸)

۱_ فرعون، قيامت كے دن اپنے پيروكاروں كے آگے آگے جہنم ميں داخل ہوگا _

يقدم قومه يوم القيامة فأوردهم النار

(قدوم ) يقدم كا مصدر ہے _ اسكا معنى آگے آگے چلنا اور سبقت كرنے كا ہے_

۲_ فرعون، قيامت كے دن اپنے پيروكاروں كو جہنم كى آگ ميں لے جائے گا _فأوردهم النار

(اورد ) كا فعل ماضى لانا جبكہ آئندہ كے بارے ميں خبردى جارہى ہے يہ بتاتا ہے كہ جہنم كى آگ ميں ان كا داخل ہونا حتمى ہے _

۳_ فرعونيوں كا فرعون كى قيادت ميں جہنم كى طرف جانا، دنيا ميں اس كے غلط كاموں كا نتيجہ ہے _

و ما أمر فرعون برشيد ، يقدم قومه يوم القيامة فأوردهم النّار

(يقدم قومہ ...) كا جملہ (و ما امر فرعون برشيد) كے جملے كى تفسير ہے _ يہ فرعون كى پيروي كرنے والوں كے برے انجام كو بتارہا ہے_

۴_ قيامت ميں لوگوں كے وہى رہبر ہوں گے جو دنيا ميں ان كے رہبر تھے _فاتبعوا أمر فوعون يقدم قومه يو القيامة

( يقدم قومہ ) كا جملہ يہ بتاتا ہے كہ دنيا ميں جس نے جس كسى كى اتباع كى ہے ( فاتبعوا امر فرعون) آخرت ميں بھى اسى كى قيادت ميں رہے گا_

۵_بشرى معاشرے كے رہبر، ان كى اْخروى سعادت و شقاوت ميں كافى مؤثر ہيں _

فاتبعوا أمر فرعون يقدم قومه يوم القيامة فأوردهم النار

۶_ وہ قوانين اور اصول جو ہدايت كرنے اور بزرگى عطا كرنے والے ہيں وہى انسان كے ليے اخروى سعادت كا ذخيرہ اور دوزخ كى آگ سے نجات كا

۲۸۹

ذريعہ ہيں _و ما أمر فرعون برشيد يقدم قومه يو م القيامة فأوردهم النار

۷_ رسل الہى كى پيروى نہ كرنے كا انجام، دوزخ كى آگ ہے _

و لقد أرسلنا موسى الى فرعون و ملايه فاتبعوا امر فرعون و بئس الورد المورود

۸_ دوزخ كى آگ بدقسمتى كا نتيجہ اور برى جگہ ہے _و بئس الورد المورود

( الورد )كا معنى نصيب اور قسمت ہے _ اور يہ بئس كا فاعل ہے _ ( ال) جو اس پر ہے جنس كا ہے (المورد ) وہ شے جسميں داخل ہوتے ہيں يہ مذمت كے ساتھ مخصوص ہے _ اس پر (ال) عہد ذكرى ہے _ جو دوزخ كى آگ كى طرف اشارہ ہے تو اس صورت ميں ( بئس الورد المورود) كا معنى يوں ہوگا _ وہ بد نصيب اور بدقسمت لوگ ہيں جو جہنم كى آگ ميں جائيں گے _

اطاعت :فرعون كى اطاعت كرنے كا انجام ۳

جہنم :جہنم سے نجات كى اہميت ۶;جہنم كى آگ ۷،۸; جہنم كى بدبختى ۸;جہنم ميں پہلے جانے والے ۱; جہنم ميں جانے كے اسباب ۷

جہنمى افراد : ۱،۲،۳

رہبر:دنيا كے رہبر ۴; قيامت ميں رہبر ۴

رہبري:رہبرى كے كردار كى اہميت ۵

سعادت :سعادت اخروى كى اہميت ۵;سعادت اخروى كے اسباب ۵

شقاوت :شقاوت اخروى كے اسباب۵

فرعون:فرعون اور فرعونى لوگ ۲;فرعون كا آگے آگے ہونا ۱،۳ ; فرعون كا جہنم ميں جانا ۱; فرعون كا مؤثر ہونا ۲ فرعون قيامت كے دن ۱;فرعون كى گمراہى كى علامات ۳

فرعونى افراد:جہنم ميں فرعونيوں كا ہوناا ۱، ۲، ۳; فرعونى قيامت كے دن ۱۰

قانون:خوشبختى كے قانون كا ملاك ۶

نافرمانى :انبياءعليه‌السلام كى نافرمانى كا انجام ۷

۲۹۰

آیت ۹۹

( وَأُتْبِعُواْ فِي هَـذِهِ لَعْنَةً وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ بِئْسَ الرِّفْدُ الْمَرْفُودُ )

ان لوگوں كے پيچھے اس دنيا ميں بھى لعنت لگادى گئي ہے اور روز قيامت بھى يہ بدترين عطيہ ہے جو انھيں ديا جائے گا (۹۹)

۱_ فرعون اور اسكے پيروكار، دنيا اور آخرت ميں لعنت الہى ميں گرفتار اور رحمت الہى سے دور ہيں _

و اُتبعوا فى هذه لعنة و يوم القيامة

(اتبعوا) كى ضمير فرعون اور اسكى قوم كى طرف پلٹتى ہے _ (اتباع) (اتبعوا ) كا مصدر ہے جو ساتھ ملانے يا پيچھے بھيجنا كے معنى ميں آتا ہے _لہذا ( و اتبعوا ...) كا معنى يوں ہوگا _ يعنى فرعون اور اسكى قوم دنيا اور آخرت ميں لعنت الہى كو اپنے ساتھ ساتھ پائيں گے _

۲_ انبياءعليه‌السلام كى رسالت كو قبول نہ كرنا، دنيا و آخرت ميں لعنت الہى ميں گرفتار ہونے اور دنيا و آخرت ميں رحمت الہى سے دور ہونے كا سبب ہے _و لقد أرسلنا موسى و أتبعوا فى هذه لعنة و يوم القيامة

۳_ لعنت الہى اور رحمت الہى سے دور ہونا برا انعام اور بدترين سزا ہے _بئس الرفد المرفود

(الرفد ) كا معنى عطيہ و انعام ہے اور (بئس) كا فاعل ہے _ اور اس پر الف و لام جنس كا ہے _ (المرفود) سے مراد برا انعام و عطيہ ہے _ اس ميں (ال) عہد ذكرى ہے اور لعنت اور رحمت خدا سے دورى كى طرف اشارہ ہے_لہذا (بئس الرفد المرفود ) كا معنى يوں ہوگا _ يہ انعام (جو لعنت الہى ہے ) يہ برا انعام و عطيہ ہے _

۴_ دنيا ميں فرعونيوں كو جو انعام ملا وہ برا انعام اور آخرت ميں جو سزا ملے گى وہ بدترين سزا ہوگى _

و أتبعوا فى هذه لعنة و يوم القيامة الرفد المرفود

آيت شريفہ ميں سزا و برے انجام كو تمسخر كے طور پر (رفد ) ( يعنى انعام و عطيہ ) سے ياد كيا گيا ہے_

۲۹۱

الله تعالى :الله تعالى كى لعنت ۳; الله تعالى كيلعنت كے اسباب ۲

انبياءعليه‌السلام :انبياء كى تكذيب كے آثار ۲

رحمت :آخرت ميں رحمت الہى سے محروم ہونا ۲; رحمت الہى سے دنيا ميں محروم ہونا ۲;رحمت الہى سے محروم لوگ ۱; رحمت الہى سے محروم ہونا ۳

عطايا:برے انعامات ۳،۴

فرعون :فرعون پر لعنت ۱; فرعون كا محروم ہونا ۱

فرعونى لوگ:فرعونيوں كى آخرت كى سزا ۴;فرعونيوں پر لعنت ۱; فرعونيوں كى دنيا ميں سزا ۴; فرعونيوں كى محروميت ۱

لعنت:لعنت كے مستحق ۱

آیت ۱۰۰

( ذَلِكَ مِنْ أَنبَاء الْقُرَى نَقُصُّهُ عَلَيْكَ مِنْهَا قَآئِمٌ وَحَصِيدٌ )

يہ چند بستيوں كى خبريں ہيں جو ہم آپ سے بيان كررہے ہيں _ ان ميں سے بعض باقى رہ گئي ہيں اور بعض كٹ پٹ كر برابر ہوگئي ہيں (۱۰۰)

۱_ قوم فرعون ، نوح(ع) ، ہود(ع) ، صالح(ع) ، لوط(ع) ، اور شعيبعليه‌السلام كے واقعات، تاريخ بشرى كے اہم واقعات ہيں _ذلك من أنباء القرى

(انباء)جمع نبأ ہے اور نبأ جيسے مفردات راغب ميں ذكر ہوا ہے كہ اس خبر كو كہتے ہيں جسكا بہت بڑا فائدہ ہو'' قرى '' ( قريہ ) كى جمع ہے بستيوں كو كہا جاتا ہے _

۲_ الله تعالى آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو ہلاك ہونے والى اقوام كے واقعات اور عذاب سے تباہ شدہ بستيوں كے بعض حالات سے آگاہ فرماتا تھا _ذلك من انباء القرى ...نقصه عليك

۳_ كچھ بستياں جن پر عذاب آيا تھا نابود و مٹ چكى تھيں ، ليكن كچھ بستيوں كے آثار آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانے ميں باقى تھے _ذلك من أنباء القرى منها قائم و حصيد

(قائم) كا معنى كھڑا اور استوار ہونااور( حصيد) كاٹى ہوئي جو و گندم ) ہے آيت شريفہ ميں ويران نہ ہونے والى بستيوں كو اس

۲۹۲

زراعت كےمشابہہ قرار ديا گيا ہے جو اپنے تنے پر قائم ہواور بتاہ شدہ بستيوں كو كائي ہوئي كھيتى كے ساتھ تشبہيہ دى گئي ہے _

۴_ بعض گذشتہ اقوام پر عذاب كا نزول سب افراد كو شامل نہيں تھابلكہ ان كى كچھ نسل باقى رہ گئي تھى _

مذكورہ معنى اس صورت ميں ہے كہ ( منہا ) سے مرادمن اہلہا ہولہذا( منہا قائم ) سے مراد يہہے كہ بعض اقوام جو عذاب الہى ميں گرفتار ہوئي تھيں ان ( آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) كے زمانہ ميں ابھى موجودہيں _اور باقى اقوام كلى طور پر نابود ہوچكى تھيں ان ميں سے كچھ بھى باقى نہيں رہا_

۵_ بعض گذشتہ اقوام، عذاب الہى كے نازل ہونے كى وجہ سے بالكل مٹ گئيں اور ان كى كوئي نسل باقى نہيں رہى _

منها ...حصيد

۶_ قرآن مجيد، تاريخ بشر اور گذشتہ اقوام كے انجام سے آگاہى كا مركز ہے _

ذلك من اؤنباء القرى نقصه عليك منها قائم و حصيد

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور گذرى ہوئي اقوام كا انجام ۲; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور گذرى ہوئي اقوام كى ہلاكت ۲

الله تعالى :الله تعالى كى خبريں ۲

اہل مدائن :اہل مدائن كى تاريخ ۱

تاريخ :تاريخ كے اہم ترين واقعات ۱;تاريخ كے منابع ۶

شناخت :منابع كى شناخت ۶

عذاب:اہل عذاب كا مٹ جانا ۵;اہل عذاب كى نسل ۵ اہل عذاب كى نسل كى بقاء ۴;عذاب شدہ شہروں كا باقى رہنا ۳; عذاب شدہ شہروں كى نابودى ۳

فرعونى لوگ:فرعونيوں كى تاريخ۱

قرآن :قرآن مجيد كا كردار ۶

قوم ثمود :قوم ثمود كى تاريخ ۱

قوم لوط:قوم لوط كى تاريخ ۱

۲۹۳

قوم نوح :قوم نوح كى تاريخ ۱

قوم عاد :قوم عاد كى تاريخ ۱

آیت ۱۰۱

( وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَـكِن ظَلَمُواْ أَنفُسَهُمْ فَمَا أَغْنَتْ عَنْهُمْ آلِهَتُهُمُ الَّتِي يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ مِن شَيْءٍ لِّمَّا جَاء أَمْرُ رَبِّكَ وَمَا زَادُوهُمْ غَيْرَ تَتْبِيبٍ )

اور ہم نے ان پر كوئي ظلم نہيں كيا ہے بلكہ انھوں نے خود اپنے اوپر ظلم كيا ہے تو عذاب كے آجانے كے بعد ان كے وہ خدا بھى كام نہ آئے جنھيں وہ خدا كو چھوڑ كر پكاررہے تھے اور ان خدائوں نے مزيد ہلاكت كے علاوہ انھيں كچھ نہيں ديا(۱۰۱)

۱_ الله تعالى ، اپنے بندوں پر ظلم نہيں كرتا ہے _و ما ظلمناهم

۲_ الله تعالى انسانوں كو گناہوں ( شرك پرستى ، انبياء كے انكار و غيرہ ) كى طرف رغبت نہيں دلاتا ہے_و ما ظلمناهم

الله تعالى كا اپنى مخلوق پر ظلم نہ كرنے سے مراد يہ ہے كہ وہ ان كو ہلاكت اور عذاب كے اسباب (شرك و غيرہ ...) كى طرف رغبت نہيں دلاتا پس جو عذاب ان پرنازل ہوئے ہيں وہ ان كے اعمال كى وجہ سے ہيں _

۳_ شرك ، انبياءعليه‌السلام كا انكار اور گناہوں كا مرتكب ہونا يہ ايسے ظلم ہيں جو مشركين،كفاراور گہنگار اپنے حق ميں انجام ديتے ہيں _ولكن ظلموا انفسهم

(ظلموا انفسهم ) انہوں نے اپنى جانوں پر ظلم كيا اس سے مراد گناہ اور اس كے آثار اور جو چيزيں ان كے ساتھ ہوتيں ہيں وہ ہے_ مذكورہ معنى پہلے لحاظ كو مدّ نظر ركھتے ہوئے بيان كيا گيا ہے _

۴_ مشركين ، كفار اور گنہگاروں كا عذاب الہى ميں گرفتار ہونا، ايسأظلم و سزا ہے كہ جس كا خود انہوں نے اپنے ليئے زمينہ فراہم كيا ہے_ولكن ظلموا انفسهم

يہ بات بيان ہوچكى ہے كہ ( نفس پر ظلم كرنا ) گناہ اوراس كے آثارنيز وہ افعال جو گناہوں كے ساتھ ساتھ ہوتے ہيں مراد ليے گئے ہيں مذكورہ معنى دوسرے احتمال كو مد نظر ركھتے ہوئے كيا گيا ہے _ لہذا ( ظلموا انفسہم ) يعنى كافروں پر عذاب كا نزول، ان كے گناہوں كے آثاراور نتيجہ ہے _ يہ ايسأظلم ہے جوخود انہوں نے اپنے اوپر روا ركھا _

۲۹۴

۵_ گذشتہ ہلاك شدہ قوموں ، قوم نوح(ع) ، عاد(ع) ، ثمود(ع) ، قوم شعيب(ع) و لوط(ع) اورفرعون نے شرك اور انبياء كى رسالت كے انكار كى وجہ سے اپنے اوپر ظلم كيا _و ما ظلمنا هم ولكن ظلموا ا نفسهم

ضمير ( ہم ) اور اس كى مانند دوسرى ضمائر جو آيت شريفہ ميں مورد بحث واقع ہوئي ہيں ان سے مراد ايسى اقوام ہيں جن كے حالات سورہ ہود ميں بيان ہوئے ہيں يعنى قوم نوح ، عاد و غيرہ

۶_ گذشتہ اقوام ( قوم فرعون و عاد ...) پر جو عذاب نازل ہوا وہ ان كى اپنى خلاف ورزيوں كى وجہ سے تھا_

و ما ظلمنا هم ولكن ظلموا انفسهم

۷_ مشركين، عذاب الہى كے نزول كے وقت پربتوں اور اپنے جھوٹے معبودوں سے مدد طلب كرتے ہيں اور اس كو ٹالنے كے ليے ان سے امداد چاہتے ہيں _فما أغنت عنهم ء الهتهم التى يدعون من دون الله من شيء لما جاء أمر ربك

(أمرربك ) سے مراد، عذاب الہى ہے _ اور لفظ اغناء ( أغنت) كا مصدر ہے _ جو كفايت كرنے اور دور كرنے كے معنى ميں آتا ہے_ (من شيئ) ( ما ا غنت ) كے ليے مفعول ہے _ اور اس سے مراد عذاب الہى ہے _ تو اس صورت ميں (فما أغنت عنہم آلہتہم من شيء) سے مراد يہ ہے كہ، ان كے معبود،ان كے ليے كافى نہ ہوئے _ حتى كہ تھوڑے سے عذاب كو بھى ان سے دور نہيں كرسكے_

۸_ بت اور خيالى معبود، اپنى پرستش كرنے والوں كى كبھى بھى فرياد رسى نہيں كرتے اور ان سے تھوڑے سے بھى عذاب الہى كو دور نہيں كرسكتے_فما أغنت عنهم ء الهتهم التى يدعون من دون اللّه من شيء لما جاء أمر ربك

۹_ فقط الله تعالى ہى عذاب اور مصيبتوں سے نجات دينے والا ہے_فما ا غنت من دون اللّه

(ألہتہم ) كى صفت ( التى يدعون من دون اللّہ ) كو لانا گويا يہ بتاتا ہے كہ غير الله كو مدد كے ليے نہيں بلانا چاہيے كيونكہ الله تعالى وحدہ لا شريك كے علاوہ كوئي بھى عذاب كوٹال نہيں سكتا _

۱۰_ مشركين پر جو عذاب نازل ہوا وہ حكم الہى سے تھا_لما جاء أمر ربك

۱۱_ مشركين اور گناہ ميں آلودہ افراد پر عذاب الہى كا نازل ہونا، ربوبيت الہى كا جلوہ اور انسانوں كے امور كو منظم و مرتب كرنے كى وجہ سے ہوتا ہے_لما جاء امر ربك

مذكورہ بالا معني، كا كلمہ ( ربّ) ( مدبر و مربي)كو ملحوظ خاطر ركھتے ہوئے استفادہ كيا گيا ہے_

۲۹۵

۱۲_ الله تعالى كے احكام كسى كمى و زيادتى كے بغير انجام پاتے ہيں _لما جاء أمر ربك

(امر ) سے عذاب كو تعبير كرنے سے مراد، فرمان الہى ہے يہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ جس چيز كے انجام كے بارے ميں الله تعالى كا فرمان ہوتا ہے وہ بغير كسى كمى و زيادتى كے انجام پاتا ہے ، اس طرح كہ وہ انجام پانے والا كام، وہى امر و فرمان الہى ہے_

۱۳_ الله تعالى ، نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانے كے مشركين اور ان كى رسالت سے انكار كرنے والوں كو عذاب الہى اور سزا سے ڈرايا_فما أغنت عنهم ء الهتهم لما جاء أمر ربك

گذشتہ اقوام كى عاقبت كے بارے ميں نتيجہ لينے كے بيان كے سلسلہ ميں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اس طرح خطاب كرنا ( لما جاء امر ربك ) اور (ذلك من انباء القرى نقصہ عليك ) اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ عصر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مشركين بھى ان مختلف قسم كے عذاب ميں گرفتار ہونے كے خطرہ سے دو چار تھے_

۱۴_ جھوٹے معبودوں كى عبادت كرنے والے وہ لوگ ہيں جو تباہ وبرباد اور گھاٹے ميں ہيں _و ما زاوهم غيرتتبيب

(تتبيب) كا لغوى معنى نقصان اٹھانا ،نقصان دينا ، ہلاكت ميں ڈالنا ، نفرين اور ہلاك ہونے اور خسارت كى درخواست كرنے كے معنى ميں آيا ہے_

۱۵_ جھوٹے معبودوں سے مدد طلب كرنا، نہصرف ان مدد طلب كرنے والوں كوكوئي فائدہ نہيں ديتابلكہ ان كے ليے تباہى اور گھاٹے ميں اضافہ كا موجب ہے_و ما زاوهم غير تتبيب

(وما زادوہم ...) كے جملے ميں يہ بتايا گياہے كہ بت، گھاٹے و نقصان كو زيادہ كرنے والے ہيں جبكہ بت نقصان دينے پرقدرت نہيں ركھتے ہيں (مازادوہم ...) سے مرادجملہ (التى يدعون ...) كے قرينہ كى بنيادپر يہ ہے كہ بتوں پر اعتقاد ركھنا، نقصان كا موجب بنتا ہے اور نزول عذاب كے وقت ان سے مدد طلب كرنا، ان مدد طلب كرنے والوں كے ليے نقصان ميں اضافہ كا موجب ہے_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :آنحضرت كے جھٹلانے والوں كو ڈرانا ۱۳

اسماء و صفات :صفات جلالہ ۱، ۲

الله تعالى :

۲۹۶

اوامر الہى كا حتمى ہونا ۱۲; لله تعالى اور ظلم ۱; االله تعالى كا پاك و پاكيز ہونا ۱، ۲; الله تعالى كا ڈرانا ۱۳;الله تعالى كا نجات دينا ۹;الله تعالى كى خصوصيات ۹;الله تعالى كى ہدايت كرنا ۲;ربوبيت الہى كى نشانياں ۱۱; الله تعالى كے اوامر ۱۰

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام كو جھٹلانے كأظلم ۳;انبياءعليه‌السلام كو جھٹلانے كے آثار ۵

انسان :انسانوں كا مدبر ۱۱

اہل مدائن :اہل مدائن كأظلم ۵; اہل مدائن كا عذاب ۶; اہل مدائن كى سزا ۶

بت :بت اور عذاب سے نجات ۸; بتوں كا عاجز ہونا ۸

جھوٹے معبود :جھوٹے معبود اور عذاب سے نجات ۸;جھوٹے معبودوں كا عاجز ہونا ۸

خود :خود پر ظلم كرنا ۳، ۴، ۵

سزا :سزا سے ڈرانا ۱۳

شرك :شرك كأظلم ۳;شرك كے آثار ۵

ظالمين :۳، ۵

ظلم :ظلم كے موارد ۳

عذاب :عذاب سے ڈرانا ۱۳; عذاب سے نجات ۹

قوم ثمود :قوم ثمود كأظلم ۵; قوم ثمود كا عذاب ۶; قوم ثمود كى سزا ۶

قوم عاد:قوم عاد كأظلم ۵; قوم عاد كا عذاب ۶; قوم عاد كى سزا ۶

قوم فرعون :قوم فرعون كأظلم ۵; قوم فرعون كا عذاب ۶; قوم فرعون كى سزا ۶

قوم لوط :قوم لوط كأظلم ۵; قوم لوط كا عذاب ۶; قوم لوط كى سزا ۶

قوم نوح:قوم نوح كأظلم ۵; قوم نوح كا عذاب ۶; قوم نوح كى سزا ۶

۲۹۷

كفار :كفار پر عذاب كے عوامل ۴

گناہ :گناہ كرنے كأظلم ۳

گناہگار :گناہگاروں كا عذاب ۱۱; گنہگاروں كے عذاب كے اسباب ۴

مدد طلب كرنا :بتوں سے مدد طلب كرنا ۷; بے ثمر مدد طلب كرنا ۱۵;جھوٹے معبودوں سے مدد طلب كرنا۷; جھوٹے معبودوں سے مدد طلب كرنے كا نقصان ۴

مشركين :صدر اسلام كے مشركين كو ڈرانا ۱۳; مشركين، عذاب كے وقت ۷; مشركين كا عذاب ۱۱; مشركين كا مدد طلب كرنا ۷;مشركين كا نقصان اٹھانا ۱۴; مشركين كى ہلاكت كا سبب ۱۴; مشركين كے عذاب كا سبب ۱۰;مشركين كے عذاب كے اسباب ۴

آیت ۱۰۲

( وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ )

اور اسى طرح تمھارے پروردگار كى گرفت ہوتى ہے جب وہ ظلم كرنے والى بستيوں كو اپنى گرفت ميں ليتا ہے كہ اس كى گرفت بہت ہى سخت اور دردناك ہوتى ہے (۱۰۲)

۱_ سيلاب جيسے پانى كام جوش مارنا ، طوفانى بارشوں كابرسنا بستيوں كا اوپر نيچے ہوجانا ، عذاب والے پتھروں گا گرنا، نابود كرنے والى صحيہ اور دردناك آواز يں الله تعالى كى عقوبيتيں اور عذاب استيصال كا نمونہ ہيں _و كذلك أخذ ربك

(ذلك ) كا اشارہ، ان عذابوں كى طرف ہے جو اس سورہ ميں بيان ہوتے ہيں جيسے طوفان نوح ، قوم لوط كى آبادى كا زير و بالا ہوجانا و غيرہ_

۲_ ظلم كرنے والى قوميں (كفر و شرك اختيار كرنے والے معاشرے) الہى عقوبتوں اور عذاب استيصال ميں گرفتار ہونےكے خطرہ سے دچار ہيں _كذلك أخذ ربك اذا أخذ القرى و هى ظالمة

۳_ الہى عذاب ،ان شہروں ا ور بستيوں پر نازل ہوتا ہے جن ميں عام طور پر كفر و شرك كے آثار اور ظالم لوگ موجودہوں _و كذلك أخذ ربك اذا أخذ القرى و هى ظالمة

۲۹۸

بستيوں كى طرف ظلم كى نسبت دينا ( و ہى ظالمة) نسبت مجازى ہے _ يہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ ان بستيوں كے اكثر بلكہ تقريباً تمام لوگ ظالم تھے گويأظلم و ستم ان شہروں كے گلى كوچے ميں نماياں تھا_

۴_ ظلم و ستم كرنے والے ( كافر و مشرك) افراد پر عذاب الہى كا نازل ہونا،انسانوں كے امور كى تدبير كے سلسلہ ميں ربوبيت الہى كا جلوہ ہے_و كذلك أخذ ربك اذا أخذ القرى و هى ظالمة

۵_ الله تعالى نے عصر بعثت كے مشركين اور كفار كو دنيا ميں سخت عذاب سے ڈرايا _

و كذلك أخذ ربك اذا أخذ القرى و هى ظالمة ان اخذ اليم شديد

(كذلك اخذ ربك) ميں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو مخاطب قرار دينے سے مذكورہ بالا معنى حاصل ہوتا ہے_

۶_ الله تعالى كا عذاب ،دردناك اور سخت عذاب ہے_ان أخذه اليم شديد

اكثريت:ظلم كى اكثريت ۳

الله تعالى :الله تعالى كا ڈرانا ۵; الله تعالى كا عذاب ۱، ۳;الله تعالى كى ربوبيت كى نشانياں ۴;الله تعالى كى سزائيں ۱، ۲; الله تعالى كے عذاب كى خصوصيات ۶

انسان :انسانوں كا مدبر ہونا ۴

شرك:شرك كے آثار ۳

ظالمين :ظالموں پر عذاب ۲،۴; ظالموں كى سزا ۲

ظلم :ظلم كے آثار

عذاب :عذاب كا ذرئيعہ ۱; اہل عذاب ۲; بارش كے ذرئيہ عذاب۱;دردناكى عذاب۶;دنياوى عذاب سے ڈرانا ۵; صيحہ آسمانى كے ذريئعہ عذاب ۱; عذاب استيصال ۱، ۲; عذاب سجّيل (كھرنجے دار پتھر) ۱; عذاب شہروں كى ويرانى سے ۱; عذاب طوفان سے ۱;شديدعذاب۵;عذاب كے اسباب ۳ ; مرتب عذاب ۵

كفار :صدر اسلام كے كفار كودھمكى دينا ۵; كافروں كا عذاب ۲، ۴; كفار كى سزا ۲

كفر:كفر كے آثار ۳

مشركين :صدر اسلام كے مشركين كى تہديد ۵; مشركين كا عذاب ۲، ۴; مشركين كى سزا ۲

۲۹۹

آیت ۱۰۳

( إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَةً لِّمَنْ خَافَ عَذَابَ الآخِرَةِ ذَلِكَ يَوْمٌ مَّجْمُوعٌ لَّهُ النَّاسُ وَذَلِكَ يَوْمٌ مَّشْهُودٌ )

اس بات ميں ان لوگوں كے لئے نشانى پائي جاتى ہے جو عذاب آخرت سے ڈرنے والے ہيں _ وہ دن جس دن تمام لوگ جمع كئے جائيں گے اور وہ سب كى حاضرى كا دن ہوگا (۱۰۳)

۱_ كفار و مشرك قوموں پر عذابوں كا نازل ہونا، قيامت كے وجود اور آخرت كے عذاب كى بہت بڑى نشانى ہے_

ان فى ذلك لأية

(آية) كا يہاں معنى نشانى ہے_ اور (لمن خاف عذاب الأخرة) كے قرينے سے اس كا متعلق قيامت كى حقانيت اور اس دن كے عذاب كى طرف اشارہ ہے _ لفظ ( آية ) كو نكرہ لانا، يہ اس دن كى بزرگى و عظمت كو بتاتا ہے_لہذا ( ان فى ذلك لأية) كا معنى يہ ہوگا كہ ان دنياوى عذابوں ميں قيامت كى حقانيت اور اس كے عذابوں پر بہت بڑى نشانى ہے_

۲_ آخرت كا عذاب ، بہت سخت عذاب اور سزاوار ہے كہ اس سے ڈراجائے_لمن خاف عذاب الأخرة

۳_ روز آخرت كے وجود كے احتمال سے استيصال عذاب سے عبرتليتا ہے اوران عذابوں سے اس بات كو قبول كرتا ہے كہ يہ دليل ہے كہ آخرت كا ميدان لگايا جائے گا_ان فى ذلك لأية لمن خاف عذاب الأخرة

كلمہ (خاف) جو آيت مذكورہ ميں ہے اس سے احتمال دينے كا معنى استفادہ ہوتا ہے_لہذا مذكورہ تفسير اسى بناء پر ہے _

۴_ جو قيامت پر يقين نہيں ركھتے وہ دنيا كے عذابوں كو قيامت اور اخروى عذابوں پر اسكى دليل ہونے كو درك نہيں كرسكتے_

ان فى ذلك لأية لمن خاف عذاب الأخرة

يہ بات واضح ہے كہ دنيا كے عذابوں كو قيامت كى حقانيت پر دليل قرار دينا، كسى خاص گروہ كے ساتھ مخصوص نہيں ہے _ اور لام ( لمن خاف ...) ميں لام انتفاع ہے _ يہ اس بات كى طرف اشارہ ہے _ اگر چہ يہ عذابوں كينشانى كسى خاص گروہ كے ساتھ مخصوص نہيں ہے ليكن قيامت پر ايمان نہ ركھنےوالے اس كو سمجھنے سے محروم ہيں _

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945

946

947

948

949

950

951

952

953

954

955

956

957

958

959

960

961

962

963

964

965

966

967

968

969

970

971