تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 6%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 205909 / ڈاؤنلوڈ: 4272
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۸

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

 اب  انکے ظہور سے پہلے اگر تم اس دنیا فوت کر  جاۓ تو  یہی معرفت تمھار ی نجات اور سعادت کا باعث بنے گی تو پھر تمھارے لیۓ کیا نقصان کہ وہ ظہور کرۓ یا نہ کرۓ ،  لیکن یہ اسکے لیۓ نقصان ہے جو اپنے امام کی معرفت نہ رکھتا ہے  -

اسی طرح فضیل بن یسار  نے امام محمد باقر      سے  روایت کی ہے:يَقُولُ مَنْ مَاتَ وَ لَيْسَ لَهُ إِمَامٌ فَمِیتَتُهُ مِیتَةُ جَاهِلِيَّةٍ وَ مَنْ مَاتَ وَ هُوَ عَارِفٌ لِإِمَامِهِ لَمْ يَضُرَّهُ تَقَدَّمَ هَذَا الْأَمْرُ أَوْ تَأَخَّرَ وَ مَنْ مَاتَ وَ هُوَ عَارِفٌ لِإِمَامِهِ كَانَ كَمَنْ هُوَ مَعَ الْقَائِمِ فِی فُسْطَاطهِ  ” (1) آپ فرما تے ہیں جو شخص اس حالت میں مرۓجبکہ وہ اپنے امام کو نہیں پہچانتا ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا ہے ،اور وہ شخص جو اس دنیا سے چلے جاۓ جبکہ وہ اپنے امام زمانہ       کی صحیح معرفت رکھتا ہو تو  امام زمانہ کے ظہور  میں تاخیر اسے نقصان نہیں دے گا ،اور جو شخص مر جاۓ جبکہ اپنے امام کی معرفت کے ساتھ مر ۓ تو گویا  و ہ  اپنے امام کے ہمراہ  جہاد میں انکے خیمے میں ہے  -”

اسی طرح کسی اور حدیث میں جناب شیخ صدوق نقل فرماتے ہیں :ولا یکون الإیمان  صحیحا ً إلاّ من بعد علمه بحال من یؤمن به، كما قال اللّه تبارك وتعالی ” إلاّ من شهد بالحق وهم یعلمون (2) “  فلم یوجب لهم صحة ما یشهدون به إلاّ من بعدعلمهم ثم كذلك لن ینفع ایمان من آمن بالمهدی القآئم علیه السلام حتی یكون عارفاً بشأنه فی حال غیبته (3) کسی مؤمن کا ایمان اس وقت تک صحیح نہیں ہوتا جب تک جس چیز پر ایمان رکھتا ہے اس کے بارے میں پوری شناخت  نہیں رکھتا ہوں “جس طرح خدا وند متعال کا ارشاد ہے  الاّ من شہد بالحق وہم یعلموں  مگر ان افراد کے  جو علم و شناخت کے ساتھ حق کی گواہی دیں پس حق پر گواہی دینے والوں کی  گواہی قبول نہیں ہو گی مگر یہ کہ وہ  علم  رکھتا ہو ۔اسی طرح مہدی قائم عجل اللہ   پر ایمان رکھنے والوں کا ایمان انھیں فائدہ نہیں دے گا 

--------------

(1):- کلینی: اصول الکافی:ج۱ “ص۳۷۲ 

(2):- زخرف :۸۶ - 

(3):- صدوق :کمال الد ین اتمام النعمة :ج 1 ص 19

۴۱

(یعنی انکے ظہور اور قیام پر   اجمالی ایمان اور انکے ظہور کا انتظار انھیں فائدہ نہیں دے گا )مگر انکی غیبت کے دوران  انکے متعلق اور انکی شان ومنزلت کےبارے میں صحیح معرفت رکھتا ہو ۔

اور اما م زمانہ کی معرفت کے لیے بعض چیزون کو جاننا ضروری ہے  ان میں سے بعض اہم موارد یہاں ذکر کرتے ہیں کہ ان امور کو جانے بغیر کسی امام کی معرفت کامل اور مفید واقع نہیں ہو سکتی

ا: آپ کائنات کی پہلی مخلوق ہیں

 صحیح  روایات  سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام زمانہ   ا ورسول اکرم(ص) اور دیگر بارہ معصومینؑ کے پاکیزہ انوار کو اﷲ تعالی نے  کائنات کی تمام مخلوقات سے پہلے خلق فرمایا ہے چناچہ نبی اکرم (ص)  اس بارے  آنحضرت میں فرماتا ہے

لما اسری بی الی السماء ........  (1)   جس رات مجھے آسمان کی سیر لے جایا گیا تو عرش پر میری نظر  پڑی کہ وہاں لکھا ہوا تھا“لا إله الاّ اﷲ محمد رسول اﷲ  أیده بعلی....” اﷲ کے سواء کوئی معبود نہیں ہے محمؐد اسکے رسول ہیں اور علی ؑکے زریعے ہم نے انکی تایئد کی ہے ،اور میں نے عرش پر علی ؑوفاطمہؑ اور باقی گیارہ معصومینؑ کے  مقدس انوار کو دیکھا جنکے درمیان حضرت حجتؑ  کا نور کوکب درّی  کی مانند درخشان اور چمک رہا تھا  میں نے عرض کیا پروردگار یہ کس کا نور ہے ، اور وہ کن کے انوار ہیں ؟ آواز آئی یہ تیرے فرزندان ائمہ معصومینؑ کے انوار ہیں اور یہ نور حجت خدا ؑ کا نور ہے جو زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی ۔

--------------

(1):- سید ہاشم بحر ینی :مدینة  المعاجز ص ۱۵۳ -  

۴۲

اسی طرح امیر المومنین       فرماتے ہیں رسول خدا (ص)نے مجھ سے فرمایا :لما عرج بی إلی السماء.......   فقلت یا رب و من أوصیائی فنودیت یا محمد أن أوصیاءك المكتوبون علی ساق العرش فنظرت و أنا بین یدی ربی إلی ساق العرش فرأیت اثنی عشر نورا فی كل نور سطر أخضر مكتوب علیه اسم كل وصی من أوصیائی أولهم علی بن أبی طالب و آخرهم مهدی أمتی (1)    “ جب مجھے آسمان کی سیر پر لے جایا گیا .....تو میں نے عرض کیا پروردگارا کون ہیں میرےاوصیا ،   ندا آئی یا محمد(ص)  تمھارے اوصیا کے نام ساق عرش پر لکھے گیے  ہے میں نے  عرش کی طرف نظر کی تو گیارہ  انوار ایسیے دیکھا ہر نورمیں ایک سبز لکیر  ہے جس پر میرے ہر ایک وصی کے اسم  گرامی  لکھاگیا ہے سب سے پہلے علی ابن ابی طالبؑ  کا اسم گرامی اور آخر میں میری امت کا مہدیؑ  کا نام تھا -

ب :آ پؑ خالق ومخلوق کے درمیان واسطہ فیض ہیں

بعض روایات کے روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ امام زمانہ واسطہ فیض وبرکت ہیں ۔جناب شیخ مفیدابن عباس کے واسطے رسول خدا (ص) سے نقل کرتے ہیں :قال رسول الله ص ذكر الله عز و جل عبادة و ذكری عبادة و ذكر علی عبادة و ذكر الأئمة من ولده عبادة و الذی بعثنی بالنبوة و جعلنی خیر البریة إن وصیی لأفضل الأوصیاء و إنه لحجة الله علی عباده و خلیفته علی خلقه و من ولده الأئمة الهداة بعدی بهم یحبس الله العذاب عن أهل الأرض و بهم یمسك السماء أن تقع علی الأرض إلا بإذنه و بهم یمسك الجبال أن تمید بهم و بهم یسقی خلقه الغیث و بهم یخرج النبات أولئك أولیاء الله حقا و خلفائی صدقا عدتهم عدة الشهور و هی اثنا عشر شهرا..... (2)

--------------

(1):- صدوق :  کمال الد ین ج : 1 ص : 25 ۶   

(2):- شیخ مفید :الاختصاص ص :۴ 22 

۴۳

 آنحضرت(ص) نے فرمایا :اﷲکا  ذکر  اور میرا ذکر عبادت ہے ،اور علیؑ کا ذکر اور انکے فرزندان ائمہؑ کا ذکر بھی عبادت ہے ، قسم اس ذات کی جس نے مجھے نبوّت پر مبعوث کیا  ہے-......... اور میرے بعد علی ابن ابی طالبؑ اور انکے فرزندان ائمہ ھداء ؑ ہونگے انھیں کے واسطے ض        اﷲ تعالی اہل زمین سے عذاب کو ٹال دے گا  اور انھیں کی برکت سے آسمان  ٹوٹ کر زمین پر آنے سے بچا لے گا ،اور انھیں کی خاطر پہاڑوں کو بکھر جانے نہیں دے گا  اور انھین کے طفیل سے اپنی مخلوقات  کو باران رحمت سے سیراب کرے گا اور زمین سے سبزہ نکالے گا ،وہی لوگ ہیں جو اﷲ کے حقیقی دوست اور جانشین ہیں نیز امام علی ابن حسین  فرماتے ہین: وَ بِنَا يُمْسِكُ الْأَرْضَ أَنْ تَمِیدَ بِأَهْلِهَا وَ بِنَا يُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَ تُنْشَرُ الرَّحْمَةُ وَ تَخْرُجُ بَرَكَاتُ الْأَرْضِ وَ لَوْ لَا مَا فِی الْأَرْضِ مِنَّا لَسَاخَتْ‏ بِأَهْلِهَا (1)   ہمارے ذریعہ سے زمین اپنی  اہل کے ہمراہ پابرجا ہے اور ہمارے ذریعہ سے آسمان بارش برساتا ہے اور اسکی رحمتین پہیل جاتی ہین اور زمین سے برکات نکل آتی ہین اسی طرح دعاے عدلیہ کا فقرہ ہے جس میں آیا ہے :“ثم الحجة  الخلف القائم المنتظر المهدی المرجی .....ببقائه بقیت الدّنیا وبیمنه رُزق الوری وبوجوده ثبتت الأرض والسماء وبه یملاء اللّه الأرض قسطاً وعدلاً بعد ما ملئت ظلماً وجوراً ” میں گواہی دیتا ہوں انکے فرزند حجت خدا وجانشین واما م ؛ قائم منتظر مہدی  عجل اللہ فرجہ جن کے ساتھ عالم کی اُمید وابستہ ہے  انکے  وجود سے دنیا باقی ہے اور انکی برکت سے مخلوق روزی پارہی ہے ،اور انکے وجود سے زمین وآسمان قائم ہیں اور انھیں کے زریعے خدا  زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گا جب کہ وہ ظلم  وجور سے بھر چکی ہو گی

پس ان روایات کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ اس دور میں امام زمانہ خالق ومخلوق کے درمیاں واسطہ فیض ہیں اور انکے واسطے سےزمیں وآسمان اپنی جگہ ثابت اور حرکت میں ہیں اور انکے واسطے سے تمام مخلوقات تک رزق پہنچتی ہے ۔

--------------

(1):-  کمال الد ین و تمام النعمة / ج 1 / 207 / 21 ص : 201

۴۴

ج: آپؑ کی معرفت کے بغیر خداکی معرفت کامل نہیں ہے 

امام حسین          سے خدا کی معرفت کے بارے میں پوچھا  گیا تو حضرت نے فرمایا :“معرفة اهل كلّ زمان امامهم الذّی یجب طاعته” (1)   ہرزمانہ میں لوگوں کے اپنے امام کی معرفت مراد ہے جنکی اطاعت  کو لوگوں پر  واجب کیا ہے  -اسی طرح امام محمد باقر نے فرمایا : “انما یعرف اللّہ عزوجل ویعبدہ من عرف اللّہ وعرف امامہ منّا اہل البیت“  ؛صرف وہ شخص خدا کی معرفت حاصل کر سکتا ہے اور اسکی عبادت کر سکتا ہے جس نے اﷲ اور ہم اہل بیت ؑمیں سے اپنے اما م کو  پہچان لیا ہو  یا اہل بیت اطہار ؑکی امامت کا انکار کو کفر سے تعبیر کیا ہے (یعنی خدا کے انکار )  اگر چہ  وہ شخص کلمہ گو ہی کیوں نہ ہو  -جیسا کہ چھٹے امام  سے روایت ہے  آپ فرماتے :“من عرفنا كان مومنا ومن انكرنا كان كا فراً (2)   جس نے ہماری معرفت حاصل کرلی وہ مومن ہے اور جس نے ہمارا انکار کیا وہ کافر ہے -اسی طرح بعض روایت میں آیا ہے کہ امام خدا اور مخلوقات کے درمیان پرچم ہدایت ہے لہذا انکی معرفت کے بغیر اﷲ تعالی کی معرفت ممکن نہیں  ہے -

د: آپ تمام انبیاء ؑکے کمالات کا مظھر ہیں

متعدد روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ولی عصر عجل اﷲ فرجہ الشریف کی شخصیت جامع ترین شخصیت ہے اور آپ میں تمام انیباء کےکمالات پائے جاتے ہیں جس طرح آپکے آباواجداد کی ذوات مقدسہ تمام گذشتہ انبیاء کے کمالات کی حامل تھی سلمان فارسی نے آنحضرت(ص) سے روایت نقل کہ ہے آپ فرماتے ہیں :

--------------

(1):- مجلسی : بحار انوار، ج ۸۳ ،ص ۲۲ -

(2):- کلینی: کافی،ج 1 ، 181 - 

۴۵

 عَنْ سَلْمَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص الْأَئِمَّةُ بَعْدِی اثْنَا عَشَرَ عَدَدَ شُهُورِ الْحَوْلِ وَ مِنَّا مَهْدِيُّ هَذِهِ الْأُمَّةِ لَهُ هَيْبَةُ مُوسَی وَ بَهَاءُ عِیسَی وَ حُكْمُ دَاوُدَ وَ صَبْرُ أَيُّوبَ. (1)   میرے بعد بارہ امام  سال کے بارہ مہینوں کے برابر امام ہونگے اوراس امت کا مہدیؑ بھی ہم سے ہی ہوگا جس میں موسی کی ہیبت ،عیسی کی عزت وبہاء،داود کی قضاوت ،اور ایوب کا صبر سب موجود ہو گا

اسی طرح چھٹے اما  م        فرماتے ہیں :إنّ قائمنا اهل البیت علیهم السلام اذا قام لبس ثیاب علی وسار بسیرة علی علیه السلام   (2) ہمارے قائم جب قیام کریں گۓ  تو اپنے جد علی علیہ السلا م کے لباس زیب تن کریں گۓ  اور انکی سیرت پر چلین گے

کسی اور روایت میں امام رضا  (ص) انکی  مثالی شخصیت کے بارے میں فرماتے ہیں :للإمام‏ علامات یكون أعلم الناس و أحكم الناس و أتقی الناس و أشجع الناس و أسخی الناس و أعبد الناس (3)   حضرت ولی عصر        لوگوں میں سب سے زیادۃ  دانا ؛حلیم ، بردبار اور پرہیزگار ہونگے وہ تمام انسانوں سے زیادہ بخشش کرنے والا؛  عابد اور عبادت گزار  ہونگے ” 

ھ: آپ تمام انبیاء اور ائمہ کی اُمیدوں کو  زند ہ کریں گے

 قرآن مجید نے مختلف مقامات پر واضح طور پر بیاں کیا ہے کہ پروردگار عالم نے تمام انبیاء کو دو بنیادی مقصد کے خاطر بیجھے ،ایک شرک و بت پرستی کو صفحہ ھستی سے مٹاکر تو حید ویکتا پرستی کو رائج دینے اور دوسرا یہ کہ سماج سے ظلم وتربریت کی ریشہ کنی کرکے اسکی جگہ عدل و  پاکدامنی کو رواج دینا تھا  -لیکن ہم دیکھتے ہیں اب تک روۓ زمین پر یہ مقصد تحقق نہیں پایا ہے

--------------

(1):- کل ین ی: کافی،ج1 ،ص 181 - 

(2):- صافیگلپائ ی گانی: منتخب الاثر فصل ۱ ص ۲۶ -    علیبن محمد خزاز قم ی: کفا یةالاثر ص : 4 

(3):- مجلسی :مرآۃ العقول ج ۴ ص ۳۶۸ - 

۴۶

جبکہ تمام علماء ،دانشور حضرات اس بات پر متفق ہیں کہ تمام انبیاء کے بعثت کا مقصد اور ہدف حضرت ولی عصر ارواحنا لہ الفداء ؑکے مبارک ہاتھوں سے انکے  آفاقی قیام کے ساۓ میں تحقق پاۓ گا،اورانھیں کے  زریعے کفر وشرک کا ریشہ خشک ہو جاۓ گا ،اور ظلم بربرییت کے اس  تاریک دورکا خاتمہ ہو کر عدل وتوحید کا سنہری دور پورے زمین پر غالب آۓ گا - چناچہ سورہ توبہ کے ۳۲ اور ۳۳ آیات کے ذیل میں تمام شیعہ مفسرین نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے اور وہ  آیہ مبارکہ یہ ہے :يُرِیدُونَ أَن يُطْفُِواْ نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَ يَأْبىَ اللَّهُ إِلَّا أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَ لَوْ كَرِهَ الْكَفِرُونَ٭ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنے منہ سے پھونک  مارکر بجھا دیں حالانکہ خدا اس کے علاوہ کچھ ماننے کے لۓ تیار نہیں ہے کہ وہ اپنے نور کو تمام کردے چاہیے کافروں کو یہ کتنا  ہی بُرا کیوں نہ لگے- هُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَی‏ وَ دِینِ الْحَقّ‏ِ لِيُظْهِرَهُ عَلىَ الدِّینِ كُلِّهِ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُون٭   خدا وہ ہے جس نے اپنے رسول(ص)  کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بناۓ چاہیے مشرکین کو کتنا ہی نا گوار  کیوں نہ ہو ۔

ان قرآنی آیات اور روایات کی روشنی میں آپکی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے ، کہ آپکی شخصیت تنہا وہ ذات ہیں جو انبیاء وائمہ ؑکی کوششوں کو نتیجہ خیز بنائیں گی اور تمام آسمانی رہبرون کی اُمیدوں کو تحقق بخشیں گے  اسی طرح پیغمبر اعظم (ص)انکے وجود اقدس کی برکت سے مؤمنین کے تشفی قلوب اور دلی تمناوں کے(جو کہ   حقیقت میں تمام  انبیاء اور ائمہ علیہ السلام کی بھی دلی آرزو تھی)  پورا ہونے وآپکے  علمی مقام  و  آپکے آنحضرت (ص)کے ساتھ نسبت اور آپ سے دشمنی رکھنے والوں اور تکلیف پہنچانے والوں کی سوء عاقبت  بیان کو  کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔قال رسول الله ص الأئمة بعدی اثنا عشر ثم قال كلهم من قریش ثم یخرج قائمنا فیشفی صدور قوم مؤمنین إلا أنهم أعلم منكم فلا تعلموهم ألا إنهم عترتی من لحمی و دمی ما بال أقوام یؤذونی فیهم لا أنالهم الله شفاعتی (1)

--------------

(1):- محقق طبرسی :الاحتجاج ج : 2 ص : 437 

۴۷

 رسول ﷲ(ص) نے فرمایا : میرے بعد بارہ امام ہونگے ؛ پھر فرمایا سب کے سب قریش سے ہونگے پھر ہمارے قائم ظہور کریں گے جسے مؤمنین کے دلوں کو تشفی ملے گی ؛ لیکن یاد رکھنا وہ (یعنی بارہ امام )تم سے بہتر اور  زیادہ علم رکھتے ہیں ؛کبھی انھیں سمجھانے کی کوشش نہ کرنا ! خبر دار !وہ لوگ میری عترت ؛میرے گوشت اور خون سے ہیں  کیا حال  گا ان قوموں کا  جومجھے اذیت دے ان کے حق میں خدا انھیں میری شفاعت نصیب نہ کرے    ۔

  اسی لیے روایت میں آیا ہے کی انکی معرفت اور اطاعت رسول اﷲ(ص) کی اطاعت اور معرفت ہے اور انکے  ظہور کا انکار نبی اکرم(ص) کی  رسالت کے   انکار کرنے کا برابر ہے اگر چہ وہ شخص مسلمان ہو نے کی بنا پر انکی نبوّت کا اعتراف ہی کیوں نہ کرے ،چنانچہ آپ(ص) فرماتے ہیں :قال رسول الله ص القائم من ولدی اسمه اسمی و كنیته كنیتی و شمائله شمائلی و سنته سنتی یقیم الناس علی ملتی و شریعتی یدعوهم إلی كتاب الله ربی من أطاعه أطاعنی و من عصاه عصانی و من أنكر غیبته فقد أنكرنی و من كذبه فقد كذبنی و من صدقه فقد صدقنی إلی الله أشكو المكذبین لی فی أمره و الجاحدین لقولی فی شأنه و المضلین لأمتی عن طریقته وَ سَيَعْلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ‏:. (1)   قائم میرا  فرزند  ہے انکا نام میرے نام پر انکی کنیت میری کنیت پر انکے شکل وشمائل میری شکل وشمائل جیسی ہوں گی اور انکی سنت میری سنت  پر ہوگی لوگوں کو میرے دین اورمیری شریعت پر پلٹا دیں گے   انھیں میرے پروردگار کی کتاب کی طرف دعوت دیں گے جو انکی اطاعت کرے اس نے میری اطاعت کی ہے اور جو انکی نافرنانی کرۓ اس نے میری نافرمانی کی ہے ،اور جو انکی غیبت کا انکار کرۓ اس نے مجھے انکار کیا ہے اور جو انھیں جھٹلائے اس نے مجھے جھٹلایا ہے اور جس نے انکی امامت اور غیبت کی تصدیق کرۓ اسنے میری رسالت کی تصدیق کی ہے....

--------------

(1):- علیبن محمد خزاز: کفا یةال اثر ص : 45  

۴۸

اس جیسے بہت سارے روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انکی معرفت اور اطاعت نہ صرف رسالت مآب(ص)  کی معرفت  اور اطاعت ہے اور  انکا  انکار نہ صرف آنحضرت (ص)کی رسالت کا انکار ہے بلکہ وعدہ  الھی کا انکار ہے ،ُمقصد خلقت بشر یت جو کہ عبادت کاملہ کے پورے انسانی معاشرے میں وجود میں لانا ہے اس مقصد کا انکار ہے

اور دوران غیبت میں ہمارا معاملہ دو مطلب سے خارج نہیں ہے یا یہ کہ ہم کلی طور پر امام زمانہ سے  بے گانہ اور اجنبی ہو جائین تو اس صورت میں کل قیامت کے دن میں ہمیں اپنی  حسرت کی انگلی مہنہ میں لیتے یہ کہنا ہو گا(یا حسرتا  !علی ما فرّطنا فیها ) اے کاش ہم نےاس بارے میں کوتا ہی نہ کیا ہو تا ! ،یا تھوڑی بہت معرفت اور آشنائی امام کی اپنی اندر پیدا کریں ۔

اورامام زمانہ کی یہ معرفت جسے ہم نے مختصر انداز میں بیاں کیا آپ کی شکل وصورت دیکھے بغیر بھی حاصل کی جاسکتی ہے ، لہذا ایک  مؤمن منتظر کی سب سے بڑی ذمہ داری اپنے وقت کی امام اور حجت خدا کی معرفت اور پہچان ہے کہ جسکے وجود کے بغیر زمین ایک لحظہ بھی اپنی جگہ ثابت نہیں رہ سکتی  ”لو خلت الأرض ساعة واحدة من حجة اللّه ،لساخت بأهلها“ (1)    اور بھی بہت سی روایات ہر زمانے  میں امام زمانہ کے موجود  ہونےکی ضرورت پر  دلالت کرتی ہیں  

۲: امام مہدی ؑ کی محبت

معرفت کا  لازمہ محبت ہے  یہ اس معنی میں کہ جب تک انسان کسی چیز کے بارے میں مکمل شناخت نہیں رکھتا اور اسکی خصوصیات کے بارے میں صحیح علم نہیں رکھتا  اور  اسکی عظمت وفضائل اسکے      مقام و منزلت سے بے خبر ہو اس وقت اسکے ساتھ اپنے لگاو کا اظہار نہیں کرسکتا اور نہ ہی اسکے اپنے دلی رابطہ اور علاقہ پیداکر سکتا  ہے لیکن اس کے بر عکس انسان جس قدر کسی چیزکی عظمت ؛ خصوصیات ؛  فضائل اور حقیقت سے واقف ہو جاۓ تو خود بخود اسکی محبت اسکے دل میں آجاتی ہے ،اور اسکی طرف توجہ بڑھتی چلی جاتی ہے 

--------------

(1):- صدوق : کمال الد ین ج : 2 ص : 4 ۱۱-: اعلام الور ی          425   -

۴۹

اور دلی رابطہ روز بروز اوردن بہ دن بڑھتا  اور مظبوط ہوتا جاتا ہے -اور خدا ورسول (ص)اور ائمہ اطہار ؑ کی محبت وہ شمع ہے جو انسان کے تاریک دلوں کو پاک  و منور کر دیتا ہے ، اور انسانوں کو گناہوں ؛برائیوں سے  نجات دیتا ہے کیونکہ معرفت محبت کا ستوں ہے اور محبت گناہوں سے بچنے کا عظیم ذریعہ اورتہذیب وتزکیہ نفس کی شاہراہ ہے لہذا وایات معصومین میں زمانہ غیبت کے دوران  امام عصر ارواحنا لہ الفدء کی محبت پر خاص  توجہ دینے پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے چناچہ رسول اکرم(ص)   فرماتے ہیں  :“خداوند متعال نے شب معراج مجھ پر وحی کیا : اےمحمدؐ ! زمین پر کس کو اپنی  امت پر اپنا جانشین بناکے آیاہے ؟ جبکہ خالق کائنات خود بہتر جانتے تھے ،میں نے کہا پروردگارا اپنے بھائی علی ابن ابی طالب       کو اچانک میں نے علی ابی طالب     .......اور حجت قائم          کو ایک درخشان ستارے کی مانند انکے درمیان دیکھا عرض کیا پروردگارا یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ تمھارے بعد ائمہؑ ہیں اور یہ قائم ہے جو میرے حلال کو حلال اور حرام کو حرام کر دے گا اورمیری دشمنون سے انتقام لے گا .اے محمد ! اسے دوستی کرو کیونکہ  میں انکو اور ان سے دوستی رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہوں  

پس اگر چہ تمام  معصومین کی محبت واجب ہے لیکن اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حجت کی محبت خاص اہمیت اور خصوصیت کے حامل ہے  اسیلۓ  آٹھویں امام ؑ اپنے آباء و اجداد کے واسطے امام علی علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا:قال لی أخی رسول اللّه ..........ومن أحبّ ان یلقی اللّه وقد كمل ایمانه وحسی اسلامه فلیتولّ الحجة صاحب الزّمان المنتظر .. (1)   ”مجھ میرے بھای رسول خدل (ص)نے فرمایا جو شخص اﷲ تعالی سے مکمل ایمان اور نیک اسلام کے ساتھ ملاقات کا خوہاں ہے تو اسے چاہے کہ حضرت حجت صاحب الزمان         کی ولایت کے پرچم تلے آجاۓ اور انھیں دوست رکھےّ لہذا منتظرین کی دوسری سب سے بڑی ذمہ داری امام عصر ارواحنا لہ فداء کی محبت کو اپنے اندر بڑھانا ہے اور ہمیشہ انکی طرف متوجہ رہنا ہے ، اور اسکے لیے مختلف ذریعے بیاں ہوۓ ہیں ،ہم یہاں پر  چند اہم موارد احادیث معصومین کی روشنی میں بیاں کرتے ہیں ۔

--------------

(1):-  کاف ی:ج1 ،ص179 اور الغ یبة ،نعمان یص 141  اور ک فایة الاثر ص 162 - 

۵۰

الف: امام مہدی ؑکی اطاعت اور تجدید بیعت 

امام زمانہ           ہ  کی محبت کے من جملہ مظاہر اور اثار میں سے ایک ؛ حضرتؑ کی اطاعت پر ثابت قدم رہنا اور انکی بیعت کی ہمیشہ تجدید کرنا ہے ، اور یہ جا ننا چاہیے کہ امام اور رہبر اسکے ہر چھوٹے بڑے کاموں  سےمطلع اوراسکے   رفتار وگفتار کو دیکھتے ہیں،اسکے  اچھے اور نیک کاموں  کود یکھ کر انکے  دل میں سرور آجاتاہے جبکہ اسکے  برے اور ناشائستہ کاموں کو دیکھ کر  انکو دکھ ہو تاہے ،اور دل غم وغصے سے بھر جاتا ہے اور یہ بھی معلوم ہونا چاہے کہ انکی رضا خدا  او رسول(ص) کی رضا ہے اور انکی کسی پر ناراضگی خدا و رسول(ص) کی ناراضگی  ہے ،اور میرا  ہر نیک عمل ہر اچھی گفتار اور ہر مثبت قدم اطاعت کی راہ میں روز موعود کو نزدیک کرنے میں مؤثر ثابت ہو گا ،اسی طرح میرا اخلاص ،دین ومذہب اور اہل ایمان کی نسبت میرا احساس مسؤلیت؛  انکے ظہور میں تعجیل کا سبب بنے گا ۔ اور یہ بھی جاننا چاہیے کہ  اما م  زمانہ ؑ کی اطاعت صرف اور صرف پیغمبر اکرم (ص)کی اطاعت اور انکے لاۓ ہوۓ دین کی مکمل  پیروی سے  حاصل ہوتا ہے ،اور جب تک عملی میدان میں اطاعت نہ ہومحبت ومودت معنی ہی نہیں رکھتا یا اگر اجمالی محبت دل میں ہو تو اسے آخری دم تک اطاعت کے بغیر محفوظ رکھنا بہت ہی دور کی بات ہے چناچہ عربی ضرت المثل مشہور ہے(وانت عاصیُ           ُ إنّ المحبَ لمن یحبُّ مطیعُ) یہ ساری نافرمانی اور سر پیچدگی کے ساتھ تم کس طرح اپنی محبت کا اظہار کرتے ہو جبکہ جو جسے محبت کرتا ہے ہمیشہ اسی کا اطاعت گزار ہوتا ہے۔

اسیلۓ صادق آل محمد        د فرماتے ہیں: مَنْ سُرَّ أَنْ يَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ الْقَائِمِ فَلْيَنْتَظِرْ وَ لْيَعْمَلْ بِالْوَرَعِ وَ مَحَاسِنِ الْأَخْلَاقِ وَ هُوَ مُنْتَظِرٌ فَإِنْ مَاتَ وَ قَامَ الْقَائِمُ بَعْدَهُ كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ أَدْرَكَهُ فَجِدُّوا وَ انْتَظِرُوا هَنِیئاً لَكُمْ أَيَّتُهَا الْعِصَابَةُ الْمَرْحُومَةُ  (1)

--------------

(1):- الصراطالمستقیم ج : 2 ص :  14 ۹ 

۵۱

  جو شخص چاہتا ہے ،کہ امام زمانہ کے اصحاب میں سے ہو جائیں تو اسے چاہۓ کہ انتظار کرۓ اور ساتھ ساتھ تقوی وپرہیزگاری اختیار کرے اور نیک اخلاق اپناۓ اسی طرح آپ سے ہی دعاۓعہد کے یہ فقرات نقل ہوۓ ہیں :“اللہم انّی اُجدد لہ فی صبیحة یوم ہذا وما عشت فی ایامی “ خدایا ! میں تجدید (عہد ) کرتا ہوں ہے ،آج کے دن کی صبح اور جتنے دنوں مین زندہ رہوں اپنے عقد وبیعت کی جو میرے گردن میں ہے میں اس بیعت سے نہ پلٹوں گا اور ہمشہ تک اس پر ثابت قدم ہوں گا ، خدایا مجھ کو ان کے اعوان وانصار اوران سے دفاع کرنے والوں  میں سے قرار  دۓ .....

بلکہ متعدد روایات سےیہ معلوم ہوتا ہے ، کہ اہل بیت اطہارؑ کی نسبت جو عہد وپیمان اپنے ماننے والوں کی گردن پر لیا ہے، وہ چھاردہ معصومینؑ  کی اطاعت حمایت اور ان سے محبت کا وعدہ ہے

چنانچہ خود امام زمانہؑ نے جناب شیخ مفید کو لکھے ہوۓ نامے میں فرماتے ہیں :“  و لو أن أشیاعنا وفقهم الله لطاعته علی اجتماع من القلوب فی الوفاء بالعهد علیهم لما تأخر عنهم الیمن بلقائنا و لتعجلت لهم السعادة بمشاهدتنا علی حق المعرفة و صدقها منهم بنا فما یحبسنا عنهم إلا ما یتصل بنا مما نكرهه و لا نؤثره منهم و الله المستعان و هو حسبنا و نعم الوكیل و صلاته علی سیدنا البشیر النذیر محمد و آله الطاهرین و سلم ‏ (1) “اگر ہمارے شیعہ  اﷲ تعالی انھیں اپنی اطاعت کی توفیق عنایت فرماۓ ،ایک دل اور متحد ہو کر ہمارے ساتھ باندھے گۓ عہد وپیمان کو وفا کرتے تو ہمارے  احسان اور ہماری ملاقات کا شرف وفیض ان سے ہرگز مؤخر نہ ہوتے : اور بہت جلد کامل معرفت اور سچی پہچان کے ساتھ ہمارے دیدار کی سعادت انکو نصیب ہوتی ،اور ہمیں شیعوں سے صرف اور صرف انکے ایک گروہ کی کردار نے  پوشیدہ کر رکھّا ہے  جو کردار ہمیں پسند نہیں اور ہم ان سے اس کردار کی توقع نہیں رکھتے تھے ،پروردگار عالم ہمارا بہترین مددگار ہے اور وہی ہمارے لیۓ  کافی ہے ۔

--------------

(1):- مجلسیبحار انوار ،ج52 ،ص 140 - 

۵۲

پس حصرت حجت علیہ السلام کے اس کلام سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اہل بیت اطہار ؑکے چاہنے والوں سے جس چیز کا عہد وپیمان لیا ہے ،وہ انکی ولایت ؛اطاعت؛ حمایت اورمحبت ہے ۔

اور جو چیز امام زمانہ کی زیارت سے محروم ہونے اور انکے ظہور میں تاخیر کا سبب بنی ہے وہ انکے  ماننے والوں کے آنجناب کی اطاعت اور حمایت کے لیے آمادہ نہ ہونا ہے ،اور یہی اطاعت اور حمایت ظہور  کے شرائط میں سے ایک اہم شرط  ہے ۔

اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ امیر المومنین        فرماتے ہیں :“إعلموا أنّ الأرض لاتخلو من حجة لللّه عزوجل ولكنّ اللّه سیعمی خلقه عنها بظلمهم وجورهم وإسرافهم علی انفسهم (1)   جان لو زمین ہرگز حجت خدا سے خالی نہیں ہو سکتی-لیکن عنقریب پروردگار عالم لوگوں کےظلم وجور اور اپنے نفسوں پر اسراف کرنے کی وجہ سے انھیں  انکی زیارت سے  محروم کر دۓ  گا  -

پس ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ منتظرین کی ذمہ داریوں میں سے  ایک اہم ذمہ داری صاحب العصروالزمان کی اطاعت اور تجدید بیعت ہے  اوریہی  شرط ظہور اور محبت کی شاہراہ ہے کہ جسکے بغیر حقیقی اورکامل محبت حاصل نہیں ہوتی ۔

ب: امام مہدی  کی یاد

امام زمانہ عجل اﷲ فرجہ کے بلند مقام کی شناخت اور انکی مودّت ومحبت کو اپنے دل میں پیدا  کرنے اور اسے رشد دینے  کے لیۓ ضروری ہے کہ ہمیشہ آنحضرت کو یاد کریں ،اور انکی طرف متوجہ رہیں یعنی بہت زیادہ توحہ کرنا چاہیے اور یقینی طور  پر  یہ اثر رکھتا ہے ،کیونکہ مسلم طور پر اگر کوئی اپنی روح  ایک چیز کی طرف متوجہ رکھے تو ہو ہی نہیں سکتا کہ اس چیز کے ساتھ رابطہ برقرارنہ ہو ۔

--------------

(1):-  طبرسی - الاحتجاج ج : 2 ص : 499 - 

۵۳

اسی طرح اگر آپ نے اما م زمانہ کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا تو خود یہ کثرت توجہ ؛روحی کشش  ایجاد کر دیتی ہے البتہ استعداد اورظرفیت  کی حفاظت اور شرائط کے ساتھ توجہ  اپنا  اثر خود بخود  چھوڑتاہے اور روایات کے تاکید بھی اسی لحاظ سے ہے ،کہ یہ توجہ اور یاد لا محالہ متوجہ اور متوجہ الیہ کے درمیان رابطہ پیدا کر دیتی ہے اور وقت گزر نے کے ساتھ یہ رابطہ شدت اختیار کرجاتا ہے اور پہلے سے زیادہ مؤثر ہوتا جاتا ہے اور ہمیں بھی آج سے اسکی تمرین کرنا چاہیے اور کم سے کم چوبیس گنٹھوں میں دو وقت صبح اوررات کے وقت  اپنے دل کو حضرت بقیۃ اﷲ  اعظم  ارواحنا لہالفداءکی طرف متوجہ کریں چنانچہ  معصومینؑ نے بھی ایک نماز صبح کے بعد دعا عہدپڑھنے  دوسرا نماز مغربین کے بعد اس دعا کو پڑھنے کا حکم دیا ہےالسلام علیك فی الیل اذا یغشی والنهار اذا تجلی ” سلام ہو تجھ پر جب رات کی تاریکی چھا جاۓ اورجب دن کا  اُجالا پھیل جاۓ(1)   اور امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے :جو شخص اس عہد نامہ کو چالیس صبح پڑھے گا وہ حضرت قائم علیہ السلام کے مددگاروں میں سے شمار ہو گا اور اگر وہ شخص انکے طہور سے پہلے مر جاۓ تو اﷲ تعالی اسے امام ؑکی خدمت کے لیۓ مبعوث کرۓ گا اور اسے ہر کلمہ کے عوض میں ہزار نیکیان مرحمت فرمائیگا اور ہزارگناہ محوکرے  گا(2)     اسی طرح ہر روز جمعہ کو امام زمانہ کی تجدید بیعت کرنا مستحب ہے تاہم آسمانی فرشتے بھی جمعہ کے دن بیت المعمور پرجمع ہوتے ہیں اور ائمہ معصومین ؑکے تجدید بیعت کرتےہیں-

اور امام مہدی ؑکے ساتھ اس روحی اور دلی توجہ کو مستحکم کرنے اور انکی یاد کو مؤثر بنانے  کےلیۓکچھ طریقہ کاربھی ہمیں بتاۓ ہیں ہم ان میں سے بعض موارد  یہاں ذکر کرتے ہیں - 

--------------

(1):- نعمانی:الغ یبة ،باب 10 ،ص 141 -

(2):- پیام اما زمانہ ۱۸۸ ، آیۃاﷲ وحید خراسانی کے اما م زمانہکے متعلق تقر یر کا ایک حصہ-

۵۴

1 :امام مہدی ؑکی نیابت میں صدقہ دینااور نماز پڑھنا

امام زمانہ کی محبت کو بڑھانے اور انکی یادکو زندہ رکھنے اور  اپنی دلی توجہ کو متمرکز کرنے کے لیۓ ایک بہت ہی اہم ذریعہ انکی نیابت میں صدقہ دینا اور نماز پڑھنا  بلکہ ہر نیک کام جس میں خدا کی رضا ہو انجام دینا ہے-ہماری ان سے دلبستگی وتوجہ اور انکی اطاعت وپیروی ایسی ہونی چاہیے جس طرح خدا  و رسول ؐاور خود امام زمانہؑ اور انکے  اجداد طاہرینؑ ہم سے چاہتے  ہیں  ہم جب بھی نماز حاجت بجالاۓ یا صدقہ دین تو  آنجناب کی حاجتوں کو اپنے حاجتوں پر مقدم اور انکی نیابت میں  صدقہ دینے کو  اپنے اوپر اور اپنے عزیزوں کے اوپر صدقہ دینے پر مقدم کرنا چاہے ،اور اپنے لیۓ دعا کرنے سے پہلے انکے سلامتی اور تعجیل ظہور کے لیے دعا کرنی چاہیے،اسی طرح ہر نیک عمل جو انکے وفاء کا سبب بنتا ہے اپنے کاموں پر مقدم کرۓ تاکہ آنحضرت بھی ہماری طرف توجہ کرۓ اور ہم پر احسان کرۓ(1)    اور اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ سرور کائنات(ص) فرماتے ہیں : “کسی بندے کا ایمان کامل نہیں ہوتا جب تک وہ اپنی ذات سے زیادہ مجھ سے اور  اپنی خاندان سے زیادہ میری خاندان کو نہیں  چاہتا ہو ، اسی طرح اسکے نزدیک  اپنی عترت سے زیادہ میری عترت اور اپنی ذات سے زیادہ میری ذات عزیزتر نہ ہو -  اسی طرح متعدد روایات میں ائمہ معصومینؑ کو صلہ دینے کے بارے میں آیا ہے ،کہ ایک درہم امام کو صلہ میں دینا دوملین درہم دیگر کار خیر میں خرچ کرنے کے برابر ہے ؛ یا کسی اور روایت میں.آیا ہے ایک درہم جو  اپنے  امام کو دۓ اسکا ثواب اُحد کی پہاڑی سے بھی سنگین ہے يَا مَيَّاحُ دِرْهَمٌ يُوصَلُ بِهِ الْإِمَامُ أَعْظَمُ وَزْناً مِنْ أُحُدٍ (2) اسی طرح امام کے نیابت میں حج بجا لانے؛ زیارت پر جانے ،اعتکاف پر بیٹھنے ،اور صدقہ دینے کی تاکید کیا گیا ہے ۔ یقینا ان کاموں کا ایک اہم مقصد اورہدف اما م زمانہ کی یاد کو ہر وقت  اپنے دل ودماغ میں زندہ رکھنا  اوران سے اپنی قلبی و روحی توجہ کو تقویت دینا اور   ان کی محبت میں اضافۃ کرنا ہے ، دوسری عبارت میں یہ کہ ایک حقیقی منتظر کی خصوصیت یہ ہونی چاہیے کہ وہ  ہر چیز میں اپنے امام کو یاد رکھے اور انکو کبھی یاد سے جانے نہ دۓ ۔

--------------

(1):- مجلسی :ج ۱۰۲  ،ص ۱۱۱ مصباح الزائر ص ۲۳۵ - 

(2):- کشف المحجہ: فصل ۱۵۰ ،ص ۱۵۱ - 

۵۵

2: انکے  فراق کی داغ میں ہمیشہ غمگین رہنا .

بعض معصومین ؑبھی  امام زمانہؑ کی غیبت کے دوران کو یاد کرتے ہوۓ انکے شوق دیدار میں آنسو بھاتے تھے اور ان سے زیارت کی تمنا کرتے تھے ہاں تک اما م زمانہ کی فراق میں مہموم وغمگین ہونا مومن کی نشانیوں میں سے شمار کیا ہے جیسا کہ امیر المؤمنین        اپنے  حقیقی چاہنے والوں کی اوصاف اور نشانیا ں یوں بیاں فرماتے ہیں

“ومن الدلائل ان يُری من شوقه          مثل السقیم  وفی الفؤاد غلائلٌ

ومن الدلآئل ان یری من اُنسه            مستوحشاَ من كل ما هو مشاغل ٌ 

ومن الدلآئل ضحكه بین الوری               والقلب مخزون كقلب الثاكل "

انکی نشانیوں، میں سے ایک یہ ہے کہ شدت شوق کی وجہ سے بیمار جیسے نظر آئیں گۓ جبکہ انکا دل درد سے پھٹ رہا ہو گا ۔

انکی دوسری نشانی یہ ہے کہ اپنے محبوب کے اُنس میں اس طرح نظر آئیں گۓ کہ ہر وہ چیزجو انہیں محبوب سے دور کر دیتی ہے اس سے  بھاگ جاتے ہونگے   ۔

اور تیسری نشانی یہ ہے کہ دیکھنے  میں خندان نظر آئیں گۓ   جبکہ  انکا دل اس شخص کی طرح محزون ومغموم ہو گا جسکا جوان بیٹا اس دنیا سے فوت کرگیا ہو ۔

لیکن خصوصیت کے ساتھ امام ولی عصرؑ کی فراق وجدائی اور انکے مقدس قلب پر جو مصیبتین گزر تی  ہیں انکو یاد کرتے ہوۓ آنسو بہانا گریہ وزاری کرنے کی بہت ساری فضیلت بیاں ہوئی ہے ،اور واقعی اور حقیقی مؤمن کی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے چنانچہ چھٹے امام        اس بارے میں فرماتے ہیں :إِيَّاكُمْ وَ التَّنْوِیهَ أَمَا وَ اللَّهِ لَيَغِیبَنَّ إِمَامُكُمْ سِنِیناً مِنْ دَهْرِكُمْ وَ لَتُمَحَّصُنَّ حَتَّی يُقَالَ مَاتَ قُتِلَ هَلَكَ بِأَيِّ وَادٍ سَلَكَ وَ لَتَدْمَعَنَّ عَلَيْهِ عُيُونُ الْمُؤْمِنِینَ  (1)

--------------

(1):- کلینی :اصول کافی،ج ۲ ،ص ۱۵۶ اور،ج   ۱ ص ۵۳۸ -  

۵۶

اے مفضل خدا کی قسم تمھارے امام ؑسالوں سال پردہ غیب میں ہونگے اور تم لوگ سخت امتحان کا شکار ہوگا یہاں تک انکے بارے میں کہا جاے گا کہ وہ فوت کر گیا ہے یا انھیں قتل کیا گیا ہے ؟ ...لیکن مؤمنین انکی فراق میں گریاں ہونگے....... 

کسی دوسرے حدیث میں جسے  جناب شیخ صدوق نے سدیر صیرفی سےروایت کی  ہے ،کہتے ہیں :قَالَ دَخَلْتُ أَنَا وَ الْمُفَضَّلُ بْنُ عُمَرَ وَ أَبُو بَصِیرٍ وَ أَبَانُ بْنُ تَغْلِبَ عَلَی مَوْلَانَا أَبِی عَبْدِ اللَّهِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع فَرَأَيْنَاهُ جَالِساً عَلَی التُّرَابِ وَ عَلَيْهِ مِسْحٌ خَيْبَرِيٌّ مُطَوَّقٌ بِلَا جَيْبٍ مُقَصَّرُ الْكُمَّيْنِ وَ هُوَ يَبْكِی بُكَاءَ الْوَالِهِ الثَّكْلَی ذَاتَ الْكَبِدِ الْحَرَّی قَدْ نَالَ الْحُزْنُ مِنْ وَجْنَتَيْهِ وَ شَاعَ التَّغَيُّرُ فِی عَارِضَيْهِ وَ أَبْلَی الدُّمُوعُ مَحْجِرَيْهِ وَ هُوَ يَقُولُ سَيِّدِی غَيْبَتُكَ نَفَتْ رُقَادِی وَ ضَيَّقَتْ عَلَيَّ مِهَادِی وَ أَسَرَتْ مِنِّی رَاحَةَ فُؤَادِی (1)   ایک دن میں؛ مفضل بن عمیر ؛ابو بصیر اور ابان بن تغلب ہم سب مولا امام صادق      کی خدمت میں شرفیاب ہوۓ  تو آپکو اس حالت میں دیکھا کہ آپ فرش کو جمع کرکے خاک پر تشریف فرما ہیں ،  جُبہ خیبری  زیب تن کیۓ  ہوۓ ہیں -جو عام طور پر مصیبت زدہ لوگ پہنتے ہیں -،چہرہ مبارک پر حزن واندوہ کی آثار نمایاں ہیں اور اس شخص کی مانندبے تابی سے  گریہ کر رہے ہیں کہ جس کا جوان بیٹا فوت کر چکا ہو  ،آنکھوں سے آنسوں جاری ہے ،اور زبان پر فرما رہے ہیں  اے میرے دل کا سرور تیری جدائی نے میرے  آنکھوں سے ننید اُڑا لی ہے اور مجھ سے چین چھین لی ہے ،اے میرے سردار تیری غیبت نے میری مصیبتوں کو بے انتہا کر دی ہے .......روایت بہت ہی طولانی ہے اور بہت ہی ظریف نکات بھی موجود ہیں جو چاہتے ہیں تو مراجعہ کریں

پس  ان روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے  کہ  ائمہ بھی امام زمان علیہ السلام کی غیبت سے نگران  اور انکے شوق دیدار میں بے تاب  وگریاں تھے۔

--------------

(1):- کلینی :اصول کافی ،ج۱ ،ص ۳۳۶  باب غیبت -  ---- کمال الد ین ج : 2 ص 35: بحارال انوار ج : 51 ص : 219     

۵۷

۳ : علوم ومعارف اہل بیتؑ کو رواج دینا

علوم ومعارف اہل بیت علیہم السلام کی نشر و اشاعت اور ترویج؛حقیقت میں اہل بیت اطہار ؑکے امر کی احیا کرنے کے مصادیق میں سے ہے جس کے بہت تاکید کیا گیا ہے“اور منتظرین کی ایک اہم ذمہ داریوں میں سے بھی ہےجس طرح روایت میں امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا گیا ہے آپ فرماتے ہیں:تَزَاوَرُوا فَإِنَّ فِی زِيَارَتِكُمْ إِحْيَاءً لِقُلُوبِكُمْ وَ ذِكْراً لِأَحَادِیثِنَا وَ أَحَادِیثُنَا تُعَطِّفُ بَعْضَكُمْ عَلَی بَعْضٍ فَإِنْ أَخَذْتُمْ بِهَا رَشَدْتُمْ وَ نَجَوْتُمْ وَ إِنْ تَرَكْتُمُوهَا ضَلَلْتُمْ وَ هَلَكْتُمْ فَخُذُوا بِهَا وَ أَنَا بِنَجَاتِكُمْ زَعِیمٌ ایک دوسرے کی ملاقات کرو، زیارت پر جاو چونکہ تمھارے ان ملاقاتوں سے تمھارے قلوب زندہ اورہماری احادیث کی یاد آوری ہوتی ہے،اور ہماری احادیث تمھارے ایک دوسرے پرمہربان ہونے کا سبب بنتی ہیں پس تم نے ان احادیث کو لے لیا اور اس پرعمل کیا تو تم کامیاب ہو جاؤ گے نجات پاؤ گۓ اور جب بھی اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہلاک ہو جاؤ گۓ  ،پس ان احادیث پر عمل کرو میں تمھاری نجات کی ضمانت دونگا ”(1) اسی طرح کسی دوسرے حدیث میں ابن شعبہ حرّانی نے چھٹے امام ؑسے نقل کیا ہے آپ منتظرین کی توصیف میں فرماتے  ہیں:وفرقة احّبونا وحفظوا قولنا ،واطاعو أمرنا ولم یخالفوا فعلنا فاولئك منّا ونحن منهم (2) اور ایک گروہ وہ ہے جو ہمیں دوست رکھتا ہے،ہمارے کلام کی حفاظت کرتا ہے،ہمارے امرکی اطاعت کرتا ہے اور ہماری سیرت اور فعل کی مخالفت نہیں کرتا ہے، وہ ہم سے ہے اور ہم ان سے ہیں عصر غیبت میں  امام زمانہ کی بہترین  خدمت جس کی امام صادق علیہ السلام تمنا کرتے تھے ، علوم اہل بیت کی نشرو اشاعت انکی فضائل ومناقب کو لوگوں تک پہنچانا  ہے ، جو حقیقت میں دین خدا کی نصرت ہے جس کے بارے میں پروردگار عالم خود  فرماتا ہےوَ لَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ  إِنَّ اللَّهَ لَقَوِىٌّ عَزِیز٭ (3) بے شک اﷲ اسکی مدد کرۓ گا جو اسکی نصرت کرۓ اور بتحقیق خداوند عالم صاحب قدرت اور ہر چیز پر غلبہ رکھنے والاہے

--------------

(1):- وسائل الش یعة ج : 16 ص : 34 ۶ بحارالانوار ج : 71 ص : 35 ۸ 

(2):- تحف العقول :ص 513 :اور بحار انوار :ج75 ،ص 38۲ -

(3):- سورہحج ۴۰ - 

۵۸

۴:فقیہ اہل بیت ؑکی اطاعت اور پیروی

امام زمانہ ؑکی غیبت سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ پروردگار عالم نے اس امت کو اپنے آپ پر چھوڑ دیا ہو یا  انکی ہدایت ورہبری کا کچھ انتظام نہیں کیا ہو ؟،یہ اسلئے کہ اگر چہ حکمت الھی کی بنا پر حجت خدا لوگوں کے عادی زندگی سے مخفی ہیں ،لیکن آپکی نشانیاں اور آثار  اہل بصیرت پر مخفی نہیں ہے(بنفسی انت من مغیب ٍِ لم یخل منّا ، بنفسی انت من نازح ِ ما نزح عنّا ) (1) “ قربان ہوجاوں آپ پر پردہ غیبت میں ہیں لیکن ہمارے درمیاں ہے ،فدا ہو جاوں  آپ پر ہماری آنکھوں سے مخفی ہیں لیکن ہم سے جدا نہیں ہے ”

اسیلئے معصومؑ  فرماتے ہیں :وإن غاب عن الناس شخصه فی حال هدنة لم یغب عنهم مثبوت علمه (2)   ”اگر چہ غیبت کے دوران انکی شخصیت لوگوں کی نظروں سے مخفی ہونگی(3)   لیکن انکے علمی آثار اہل بصیرت پر عیان ہوں گے ۔ یعنی اسکا مطلب یہ ہے کہ خود  امام لوگوں کے حالات سے آگاہ ہین  اور جو علوم علماء اور فقہاء کے نزدیک  احادیث اور سیرت کی صورت میں موجود ہیں اوہ بہی انکے ہی آثار ہین- لوگ  اگر چہ انکے نورانی چہرے کی زیارت سے محروم ہیں اور مستقیم انکی اطاعت نہیں کر سکتے لیکن انکے نائب عام ؛ ولی فقیہ اور علماء کی اطاعت کے ذریعے اپنے امام کی اطاعت کر  سکتے ہیں ،کہ جنکی اطاعت کا خود معصومین علیہم السلام نے حکم دیا ہے“ “فَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنَ الْفُقَهَاءِ صَائِناً لِنَفْسِهِ حَافِظاً لِدِینِهِ مُخَالِفاً عَلَی هَوَاهُ مُطِیعاً لِأَمْرِ مَوْلَاهُ فَلِلْعَوَامِّ أَنْ يُقَلِّدُواه (4) .  اور فقہامیں سے وہ فقیہہ جو اپنے دین کا پابند ہو، نفس پر کنڑول رکھتا ہو ، نفسانی خواہشات کے تابع نہ ہو، اور اپنے مولا کے فرمان بردار ہو تو انکی اطاعت اور پیروی(تقلید )سب  عوام پر واجب ہے ۔

--------------

(1):- دعایندب ہ کا ا یکفقرہ

(2):- صافیگلپائ ی گانی :منتخب الاثر ،ص ۲۷۲ - 

(3):- البتہواضح ر ہے یہ غیبت کےپہل ی  معنی کی بنیاد پر ہے

(4):- مجلسی:بحار الانوار،ج2 ،ص 88 - وسائل الش یعة ج : 27 ص : 13

۵۹

 یا خود امام زمانہ علیہ الصلاۃ والسلام اس بارے فرماتے ہیں :أَمَّا الْحَوَادِثُ الْوَاقِعَةُ فَارْجِعُوا فِیهَا إِلَی رُوَاةِ حَدِیثِنَا فَإِنَّهُمْ حُجَّتِی عَلَيْكُمْ وَ أَنَا حُجَّةُ اللَّهِ عَلَيْهِم‏  (1) اور درپیش مسائل میں ہمارے احادیث کے جاننے والے (فقہاء) کی طرف مراجعت کریں ،جس طرح میں ان پر حجت ہوں اسی طرح وہ تمھارے اوپر میری جانب سے حجت ہیں یعنی اگر حجت خدا غیبت میں ہیں تو لوگوں کوبغیر حجت کے رہا نہیں کیا گیا ہے ،بلکہ فقہاء ان پر حجت ہیں انکی پیروی  خدا اورسولؐ کی پیروی ہے ۔

فَإِنِّی قَدْ جَعَلْتُهُ عَلَيْكُمْ حَاكِماً فَإِذَا حَكَمَ بِحُكْمِنَا فَلَمْ يَقْبَلْهُ مِنْهُ فَإِنَّمَا اسْتَخَفَّ بِحُكْمِ اللَّهِ وَ عَلَيْنَا رَدَّ وَ الرَّادُّ عَلَيْنَا الرَّادُّ عَلَی اللَّهِ وَ هُوَ عَلَی حَدِّ الشِّرْكِ بِاللَّه‏.  ” (2) اور ہم نے انھیں  تمھارے اوپر حاکم بنایا ہے ،پس وہ(فقیہ )جو حکم دیتا ہے وہ ہمارے حکم سے دیتا ہے جو ان سے قبول نہ کرۓ تو گویا اسنے حکم خدا کی بے اعتنائی کہ ہے ،اور ہمیں رد کیا ہے اور جو ہمیں رد کرے اسنے خدا کو رد کیا ہے  جو حقیقت میں خدا سے  شرک لانے کی حد میں ہے یعنی   انکی نافرمانی ہمارے نافرمانی ہے اورہماری نافرمانی خدا کی نافرمانی اور خدا کی نافرمانی شرک ہے اور اھل بیتؑ نے اپنے مانے والے شیعوں کو ابلیس اور اسکے کارندوں کی شر سے بچا کر رکھنے اور انکے ععقیدتی و ایمانی  حدود کی نگہبانی کو علماء ،فقہاء کی سب سے بڑی ذمہ داری بتائی ہے اور فرمایا ہے  :علماء شیعتنا مرابطون فی الثغر الذی یلی إبلیس و عفاریته یمنعونهم عن الخروج علی ضعفاء شیعتنا و عن أن یتسلط علیهم إبلیس و شیعته النواصب ألا فمن انتصب لذلك من شیعتنا كان أفضل ممن جاهد الروم و الترك و الخزر ألف ألف مرة لأنه یدفع عن أدیان محبینا و ذلك یدفع عن أبدانهم   ” (3) ہمارے شیعوں کے علماء ان حدود کے محافظ اور نگہبان ہیں کہ جن حدود سے گزر کر شیطان اور اسکے کارندے اور پیروان داخل ہوتے ہیں اوریہ علماء  ہمارے کمزور شیعوں پر شیطان کے غلبہ آنے اور انھیں بے ایمانی کی طرف سوق دینے سے بچاتے ہیں ،

--------------

(1):- """"   """"ج 53 ،ص 181 - الغیبةللطوس یص : ۲۹۱ 

(2):- کلینی :اصول   الکاف یج : 1 ص : ۶۷ -   تہذ یب ال اح کام ج : 6 ص :  21 ۸  

(3):- الصراط المستقیم :ج ۳ ،ص۵۵ ،  الاحتجاج ج : 2 ص۳۸۵  :  عوالی اللئالی ج ۱ ص ۱۸ . 

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

۵_ آخرت كا ميدان، تمام انسانوں كو جمع كرنے كى جگہ ہے_ذلك يوم مجموع له الناس

(ذلك ) (الأخرة) كى طرف اشارہ ہے _ اسم اشارہ كو مذكر لانے كى وجہ ممكن ہے يہ ہو كہ (يوم) خبر ہے اور وہ مذكر ہے_

۶_ قيامت كے مقامات ( حساب و كتاب ، سزا وجزاء دينے كا مقام ،و غيرہ سے گذرنے كا مقصد، تمام لوگوں كو قيامت كے ميدان ميں جمع كرنا ہے _ذلك يوم مجموع له الناس

مذكور بالا معنى اس صورت ميں حاصل ہوگا جب (لہ) ميں لام غايت اور غرض كامعنى دے_ پس اس صورت ميں (ذلك يوم ...) كا معنى يوں ہوگا_ قيامت ايسا دن ہے كہ الله تعالى قيامت كے مقامات سے گزارنے كے ليے تمام لوگوں كو اس دن جمع كرے گا_

۷_ قيامت كا ميدان ، اور اس كے مقامات، واضح ، ظاہر اور تمام لوگوں كے ليے قابل ديد و رؤيت ہيں _

ذلك يوم مشهود

ظاہرى طور پر(مشہود) (مشاہدہ كا مقام) يہ متعلق موصوف كے ليے صفت ہے _ اس سے مقصود اس دن كامشاہدہ مراد نہيں ہے بلكہ ان چيزوں كا مشاہدہ ہے جو اس دن موجود ہوں گئي ، يا وجود ميں آئيں گئي ، قيامت كے حالات و مقامات يا وہ انسان جو روز قيامت موجود ہوں و غيرہ

۸_قال الصدوق روى و تقوم القيامة فى يوم الجمعه قال الله و عزوجل: ذلك يوم مجموع له الناس و ذلك يوم مشهود (۱)

شيخ صدوقفرماتے ہيں : روايت نقل ہوئي ہے كہ قيامت، جمعہ كے دن واقع ہوگي ...اورالله تعالى عزوجل اسى دن كو يوم المجموع سے ياد فرما رہا ہے_ذلك يوم مجموع

آخرت :آخرت كا احتمال دينے كے آثار ۳; آخرت كے اثبات كے دلائل ۳

____________________

۱) من لا يحضرة الفقيہ ، ج ۱ ، ص ۴۲۲، ح ۱۲۴۱;بحار الانوار ، ج ۷، ص ۶۱، ح ۱۲_

۳۰۱

انسان :انسانوں كا آخرت ميں حشر ۵

اَجر :اَجر اخروى كا فلسفہ ۶

حساب و كتاب :آخرت ميں حساب و كتاب كا فلسفہ ۶

خوف :آخرت كے عذاب كا خوف ۲

روايت : ۸

عبرت :عبرت كے عوامل ۳

عذاب :دنياوى عذاب كے آثار ۴; عذاب اخروى كى خصوصيات ۲;عذاب اخروى كى شدت ۲; عذاب استيصال سے عبرت حاصل كرنا ۳;عذاب اخروى كے دلائل ۱;عذاب كے مراتب ۲

قيامت :قيامت جمعہ كے دن ۸;قيامت كا دن ۸; قيامت كو جھٹلانے والوں كا عاجز ہونا ۴;قيامت كى حقانيت كے دلائل ۱;قيامت كى خصوصيات ۵،۷;قيامت كے دلائل كو سمجھنا ۴;قيامت كے دن سب كا جمع ہونا ۵، ۸;قيامت كے مقامات كى رؤيت ۷;قيامت ميں حساب و كتاب كے مقامات ۶; قيامت ميں حشر كا فلسفہ ۶

كفار :كفار كا عذاب ۱

سزا :آخرت ميں سزا كا فلسفہ ۶

مشركين :مشركين كا عذاب ۱

آیت ۱۰۴

( وَمَا نُؤَخِّرُهُ إِلاَّ لِأَجَلٍ مَّعْدُودٍ )

اور ہم اپنے عذاب كو صرف ايك معينہ مدت كے لئے ٹال رہے ہيں (۱۰۴)

۱_ الله تعالى نے قيامت برپا كرنے كے ليے ايك مخصوص وقت معين كيا ہوا ہے _و ما نو خرة إلّأ لاجل معدود

۲_ قيامت كى بر پائي اپنے مخصوص وقت سے مو خر نہيں ہوگئي_و ما نؤخرة الأ لاجل معدود

۳۰۲

مذكورہ تفسير ميں (لأجل) ميں لام كو (الى ) كے معنى ميں ليا گيا ہے _

۳_ قيامت ميں تأخير كا سبباور علت صرف اس مخصوص وقت كے انتظار كے علاوہ كچھ نہيں ہے_

و ما نؤخرة الأ لاجل معدود

مذكورہ معنى اسوقت ليا جاسكتا ہے جب (لأجل) كے لام سے لام تعليل مراد ليا جائے_

۴_ قيامت آنے كاوقت لوگوں پر مخفى ہے اور اس طرح مخفى ہى رہے گا _و ما نؤخره إلّأ لاجل معدود

۵_ قيامت آنے ميں بہت تھوڑا وقت باقى ہے_و ما نؤخره إلّأ لاجل معدود

(معدود)كا معنى گناچنا وقت معنى گناہ يعنى كم وقت ہونے كى طرف اشارہ ہے_

قيامت :قيامت ميں تأخير ۲، ۳; قيامت كے وقت كى تعيين۱; قيامت كے وقت سے ناواقفيت ۴; قيامت كا حتمى ہونا ۲; قيامت كا نزديك ہونا ۵; قيامت كا وقت ۱، ۳،۵

آیت ۱۰۵

( يَوْمَ يَأْتِ لاَ تَكَلَّمُ نَفْسٌ إِلاَّ بِإِذْنِهِ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ )

اس كے بعد جس دن وہ آجائے گا تو كوئي شخص بھى اذن خدا كے بغير كسى سے بات بھى نہ كرسكے گا_ اس دن كچھ بدبخت ہوں گے اور كچھ نيك بخت(۱۰۵)

۱_ قيامت كے دن، الله تعالى كى اجازت كے بغير كوئي بات نہيں كر سكے گا _يوم يأت لا تكلم نفس الّا باذنه

(يأت ) ميں جو ضمير ہے وہ ( يوم) كى طرف پلٹتى ہے اور (يوم يأت) ميں يوم ، وقت و زمان كے معنى ميں ہے_يعنى وہ وقت جس دن قيامت برپا ہوگى اورقابل ذكر ہے كہ ( لا تكلم) اصل ميں ( لاتتكلم) تھا _ قواعد صرف كى وجہ سے ايك تاحذف ہوگئي ہے_

۲_ قيامت كے دن، الله تعالى كى حاكميت مطلق اس كے بندوں پر ظاہر و عياں ہوتى چلى جائے گي_

يوم يأت لاتكلم نفس الّا باذنه

چونكہ دنياميں كوئي كام بھى اذن الہى كے بغير وجود ميں نہيں آتا تو جملہ ( لاتكلم نفس الاّ باذنہ) سے مراد يہ ہے كہ يہ حقيقت،

۳۰۳

قيامت كے دن تمام پر واضح ہوجائے گى اور لوگ اسكو محسوس كريں گے_

۳_ قيامت كے دن لوگوں سے اختيار و انتخاب، سلب ہوجائے گا _يوم يأت لا تكلم نفس الاّ باذنه

قيامت ميں كلام كرنے كے ليے اذن الہى كا ضرورى ہونا ، يہ بتاتا ہے كہ ميدان قيامت، دنياكى مانند نہيں ہے كہ انسان اپنى مرضى سے بات كر ے يا كوئي كام انجام دے لے، يا كوئي ايسا كام كرے جو مرضى الہى كے مطابق نہ ہوبلكہ ان سے اختيار كو سلب كرليا جائے گا اور يہ نہيں ہو سكے گا كہ جو چاہيں كہہ ڈاليں _

۰۴قيامت كے دن، انسان دو گروہ ميں بٹ جائيں گے_ ايك گروہ بدبخت جبكہ دوسرا گروہ، خوشبخت ہوگا

فمنهم شقى وسعيد

۵_ انبياءعليه‌السلام كى رسالت كے منكرين اور مشرك، آخرت كے ميدان ميں بدبخت سياہ گروہ تشكيل دينے والے ہيں _

و ما ظلمناهم و لكن ظلموا ا نفسهم فمنهم شقي

گذشتہ آيات شرك پرستى اور انبياءعليه‌السلام كى رسالت سے انكار كے بارے ميں تھيں يہ اس بات پرقرينہ ہے كہ مشركين اور منكرين رسالت، شقاوت و بدبختى كا واضح و مسلم مصداق ہيں _

۶_ موحدين اور انبياء(ع) كى رسالت پرايمان لے آنے والے، قيامت كے دن سعادتمندوں اور خوشبختوں كے گروہ كو تشكيل دينے والے ہيں _فمنهم شقى و سعيد

۷_(عن عبداللّه بن سلام مولى رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انه قال : سألت رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فقلت : فأولاد المشركين فى الجنة ا م فى النار؟ فقال : انه اذا كان يوم القيامة فيأمر اللّه عزوجل ناراً ثم يأمر اللّه تبارك و تعالى اطفال المشركين ان يلقوا ا نفسهم فى تلك النار فمن سبق له فى علم اللّه عزوجل ان يكون سعيداً ا لقى نفسه فيها و من سبق له فى علم اللّه عزوجل ان يكون شقياً امتنع فلم يلق نفسه فى النار و ذلك قول اللّه عزوجل ; فمنهم شقيّ و سعيد _(۱)

عبدالله بن سلام سے نقل ہوا ہے كہ ميں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال كيا كہ مشركين كى اولاد جو بچپن ہى ميں اس دنياميں سے چلى گئي وہ جنتى ہيں

____________________

۱) توحيد صدوق ، ص ۳۹۱; ح ۱ ،ب ۶۱; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۳۹۵، ح ۲۱۲_

۳۰۴

يا جہنمى ؟ تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا: جب قيامت برپاہوگى تو الله تعالى اس وقت جہنم كى آگ كو حكم دے گا كہ حاضر ہوجائے_ جب وہ حاضر ہوگى تب وہ مشركين كے بچوں كو حكم دے گا كہ اپنے آپكو جہنم ميں گرا ديں _ تو جو بچے علم خدا ميں سعادت مند لكھے ہونگے وہ اپنے آپ كو آگ ميں گرا ديں گے وہ اور جوعلم الہى ميں شقاوتمند اور بدبخت ہوں گے وہ حكم الہى كو قبول كرنے سے انكار كريں گے ، اور خود كو آگ ميں نہيں گرائيں گے _ تو يہى حكم الہى ہے كہ(فمنہم شقى و سعيداً)

۸_عن على عليه‌السلام انه قال: حقيقة السعادة ا ن يختم الرجل عمله بالسعادة و حقيقة الشقاء ا ن يختم المرء عمله بالشقاء (۱)

امير المؤمنينعليه‌السلام سے روايت ہے كہ سعادت كى حقيقت يہ ہے كہ انسان اپنے عمل كوسعادت پر ختم كرے(عاقبت بخيرہو) اور شقاوت و بدبختى كى حقيقت يہ ہے كہ اپنے عمل كو بدبختى پر ختم كرے_

الله تعالي:الله تعالى كا اذن۱; الله تعالى كى آخرت ميں حاكميت۲

انبياءعليه‌السلام :انبياء پر ايمان لانے والے ۶;انبياء كى تكذيب كرنے والوں كى شقاوت۵

انسان:قيامت كے دن انسان۳; قيامت ميں انسانوں كى تقسيم۴

روايت:۷،۸

سعادت:سعادت كا معيار۷;سعادت كى حقيقت۸سعادت مند افراد:۶

قيامت ميں سعادت مند افراد۴

____________________

۱) خصال صدوق ، ص ۵، ح ۱۴ ، باب الواحد ; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۲۹۸، ح ۲۲۰_

۳۰۵

آیت ۱۰۶

( فَأَمَّا الَّذِينَ شَقُواْ فَفِي النَّارِ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ )

پس جو لوگ بدبخت ہوں گے وہ جہنم ميں رہيں گے جہاں ان كے لئے صرف ہائے وائے اور چيخ پكار ہوگى (۱۰۶)

۱_ قيامت كے ميدان ميں بدبخت ( مشركين اورانبياءعليه‌السلام كى رسالت كے منكر) لوگوں كو جہنم كى آگ كى طرف روانہ كيا جائے گا _فأما الذين شقوا ففى النار

۲_ آگ كى شدت سے جہنموں كيمسلسل چيخ و بكار بلند ہے _لهم فيها زفير و شهيق

(زفير) و (شہيق) ايسى آواز ہے جو غمگين اور محزون شخص نكالتا ہے _ اس فرق كے ساتھ كہ (شہيق) بلند تر اور طولانى آواز كو كہتے ہيں _ اسى وجہ سے مذكورہ تفسير ميں (زفير) سے آہ و پكاراور (شہيق) سے چيخمراد لى گئيہے_

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام كو جھٹلانے والے جہنم ميں ۱

جہنم :آتش جہنم كى خصوصيات ۲

جہنمى لوگ :جہنميوں كى آہ وپكار ۲; جہنميوں كى چيخ و پكار ۲

شقاوتمند لوگ :شقاوتمند لوگ جہنم ميں ۱

عذاب :عذاب آخرت كى شدت ۲; عذاب كے مراتب ۲

مشركين :مشركين جہنم ميں ۱

۳۰۶

آیت ۱۰۷

( خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالأَرْضُ إِلاَّ مَا شَاء رَبُّكَ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ )

وہ وہيں ہميشہ رہنے والے ہيں جب تك آسمان و زمين قائم ہيں مگر يہ كہ آپ كا پروردگار نكالنا چاہے كہ وہ جو بھى چاہے كرسكتا ہے (۱۰۷)

۱_ قيامت ميں بدبخت لوگوں كے ليے جہنم كى آگ ہميشہ كى جگہ ہے_خالدين فيها ما دامت السموات و الارض

(مادامت السماوات و الارض )(يعنى جب تك زمين و آسمان قائم ہيں ) كا جملہ ہميشگى اور دوام سے كنايہہے اور اس خلود و ہميشگى كے ليئے تاكيد ہے جس كا ''خالدين'' سے استفادہ ہو رہا ہے_

۲_ جہنم اور اسكى آگ، ہميشہ كے ليے اور پائيدار ہے_خالدين فيها ما دامت السموات و الارض

۳_ آخرت كا ميدان، دنيا كى طرح زمين و آسمان ركھتا ہے_ما دامت السموات و الارض

قيامت كے آتے ہى زمين و آسمان ريزہ ريزہ ہوجائيں گے تو اس سے معلوم ہوا كہ (السماوات و الارض) اس آيت اور اس كے بعد والى آيت ميں آخرت كے آسمان و زمين ہيں _ اس صورت ميں (ال) جو ان دونوں لفظوں پر داخل ہے _ مضاف اليہ كے بدلے ميں ہے _ اصل ميں اس طرح ہے _(سماوات الأخرة و ا رضها )

۴_ آخرت كى سرا،ايك زمين اور متعدد آسمانوں كى حامل ہے_ما دامت السموات و الأرض

مذكورہ معنى اسوجہ سے ليا گيا ہے كہ (أرض) كا لفظ مفرد اور (السموات ) كا لفظ جمع ذكر ہوا ہے_

۵_ جہنم ميں جہنميوں كا ہميشہ رہنا يا ہميشہ نہ رہنا، مشيت الہى سے مربوط ہے_خالدين فيها إلّا ما شاء ربك

۶_ الله تعالى كى مشيت،قابل تخلف نہيں ہے_إلّا ما شاء ربك

۷_ جہنموں كا جہنم كى آگ سے نجات حاصل كرنا ممكن ہے ليكن اسكا تعلق مشيت الہى سے ہے_

خالدين فيها إلّا ما شاء ربك

۳۰۷

(الاّ ما شاء ربك ) ميں ''ما '' موصولہ ہے ممكن ہے اس سے مدت و زمان مراد ليا گيا ہو _ اس صورت ميں (مستثنى منہ ) مدت وزمان ہوگا جسكو ہميشگى اور دوام كے ساتھ توصيف كيا گيا ہے اس بناء پر (خالدين فيہا ...) كا معنى يوں ہوگا _ دوزخى لوگ ہميشہ كے ليے آگ ميں رہيں گے مگر يہ كہ ان كے ہميشہ رہنے كو الله تعالى ختم كردے_

۸_ الله تعالى ، كچھ دوزخيوں كو دوخ كى آگ سے چھٹكارہ دے گا اور عذاب سے نجات دے گا _خالدين فيها إلّا ما شاء ربك

يہ تفسير تب ہے كہ (الا ما شاء ربك) ميں ''ما''سے مراد اشخاص ليے جائيں اس وقت (مستثنى منہ ) ضمير ہوگى جو ( خالدين) ميں مستتر ہوگى _ تب (خالدين فيہا ) كا معنى يہ ہوگا كہ دوزخى لوگ آگ ميں ہميشہ رہيں گے مگر وہ لوگ جنكو الله تعالى چاہے گا كہ وہ وہاں ہميشہ نہ رہيں اور (فعال لما يريد) كا جملہ اس بات كى طرف اشارہ كرتا ہے كہ الله تعالى اپنى مشيت سے كچھ دوزخيوں كو نجات عطا كرے گا_

۹_ الله تعالى جو چاہے انجام دے سكتا ہے_إن ربك فعال لما يريد

۱۰_ الله تعالى كى كائنات پر حكومت، مطلق حكومتہے اور اسكى قدرت ميں كسى قسم كا تناز عہ نہيں ہے_

ان ربك فعال لما يريد

۱۱_ الله تعالى كا جہنميوں كودوزخ ميں ہميشہ رہنے كى خبر دينا يہ اس كے ليے مانع نہيں ہوسكتا كہ وہ ان كو كچھ مدت كے ليے وہاں ركھے_خالدين فيها إلّا ما شاء ربك إن ربك فعال لما يريد

(ان ربك ...) كا جملہ ان حقائق كے ليے علت واقع ہو رہا ہے جو آيت شريفہ ميں مورد بحث ہيں _ كيونكہ اسكى حاكميت مطلق ہے اور كوئي چيز اس كے ارادہ كے عملى ہونے ميں مانع نہيں بن سكتى _ اگر وہ چاہے كہ دوزخى ہميشہ كہ ليے جہنم ميں رہيں تو ايسا ہى ہوگا _ اگر وہ چاہے كہ تمام يا كچھ كو اس سے نجات عطا فرمائے تو ايسا ہى ہوگا اگر اس نے انہيں جہنم ميں ركھنے كا وعدہ كيا ہو تو بھى اسے اس پر عمل نہ كرنے سے كوئي روك نہيں سكتا ہے _

۱۲_ الله تعالى كى قدرت اور مطلق حاكميت كى طرف توجہ اور اس پر يقين ركھنا،اسكى انسانوں اور باقى كائنات پر ربوبيت كو قبول كرنے كى دليل ہے_

۳۰۸

إلّا ما شاء ربك ان ربك فعال لما يريد

مذكورہ بالا تفسير، كا كلمہ ( ربّ) كو ملحوظ خاطزر ركھتے ہوئے استفادہ كيا گيا ہے_

آخرت :آخرت كا آسمان۳; آخرت كى زمين ۳،۴; آخرت كے آسمانوں كا متعدد ہونا ۴

الله تعالى :الله تعالى كا اختيار ۹; الله تعالى كا ارادہ ۹; الله تعالى كا خبر دينا ۱۱;الله تعالى كا نجات دينا ۸; الله تعالى كى ربوبيت كا قبول كرنا ۱۲;الله تعالى كى قدرت كى خصوصيات ۱۰;الله تعالى كى مشيت كا حتمى ہونا ۶; الله تعالى كى مشيت كے آثار ۵، ۷;الله تعالى كى قدرت ۹;الله تعالى كى مطلق العنان حاكميت ۱۰; الله تعالى كے افعال ۹

انسان :انسانوں كا مدبّر ۱۲

ايمان :الله تعالى كى حاكميت پر ايمان ۱۲; الله تعالى كى قدرت پر ايمان ۱۲;ايمان كے آثار ۱۲

توحيد :توحيد افعالى ۱۰

جہنم :جہنم سے نجات ۷;جہنم كا ہميشہ ہونا ۲;جہنم كى آگ كا ہميشہ ہونا ۲; جہنم ميں ہميشہ رہنا ۱، ۵، ۱۱; جہنم كى آگ كى خصوصيات ۲

جہنم كے لوگ :جہنم كے لوگوں كو نجات د ينا ۷،۸

شقاوتمند لوگ:شقاوتمند لوگوں كا جہنم ميں ہونا۱

عذاب :عذاب سے نجات ۸

كائنات :كائنات كى تدبير ۱۲;كائنات كى حاكميت ۱۰

۳۰۹

آیت ۱۰۸

( وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُواْ فَفِي الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالأَرْضُ إِلاَّ مَا شَاء رَبُّكَ عَطَاء غَيْرَ مَجْذُوذٍ )

اور جو لوگ نيك بخت ہيں وہ جنت ميں ہوں گے اور وہيں ہميشہ رہيں گے جب تك كہ آسمان و زمين قائم ہيں مگر يہ كہ پروردگار اس كے خلاف چاہے _يہ خدا كى ايك عطا ہے جو ختم ہونے والى نہيں ہے (۱۰۸)

۱_ قيامت كے ميدان ميں بہشت، سعادتمند لوگوں كى جگہ ہے_و أما الذين سعدوا ففى الجنة خالدين فيه

۲_ بہشتى لوگ ہميشہ بہشت ميں رہيں گے_و اما الذين سعدوا ففى الجنة خالدين فيها مادامت السموات و الارض

۳_ قيامت ميں سعادت و خوشبختيكا حصول، توفيق الہى سے ہے_و أما الذين سعدوا ففى الجنة

(سُعدوا) كا فعل مجہول لانا اور (شقوا) كا فعل معلوم ذكر كرنے كا مقصد يہ ہے كہ بدبخت لوگ بدبختى كو اپنے كرتو توں كى وجہ سے پاتے ہيں اور سعادت مند لوگوں كى سعادت كے اسباب توفيق الہى سے حاصل ہوتے ہيں _

۴_ آخرت كى سرا، دنيا كى طرح زمين و آسمان ركھتى ہے_مادامت السموات و الارض

۵_ آخرت،ايك زمين اور متعدد آسمان كى حامل ہے_ما دامت السموات و الارض

۶_ اہل بہشت كا بہشت ميں ہميشہ كے ليے رہنا مشيت، الہى كا مرہون منت ہے _

و أما الذين سعدوا ففى الجنة خالدين الاّ ما شاء ربك

۷_ كوئي شے اور كوئي شخص، مشيت الہى كے نافذ ہونے

ميں ركاوٹ نہيں بن سكتا ہے _خالدين فيها الاّ ما شاء ربك

۸_ الله تعالى كا اہل بہشت كو بہشت ميں ہميشہ ركھنے كا وعدہ، اسكى مشيت كو محدود نہيں كرسكتا اوراسكے وقتى ہونے ميں مانع نہيں ہوسكتا ہے_خالدين فيها الا ما شاء ربك عطاءً غير مجذوذ

۳۱۰

(عطا غير مجذوذ) كا جملہ (خالدين فيہا) كے ليے تاكيد ہے جو بہشت ميں ہميشہ رہنے اور اسكى ہميشہ كى نعمتوں كو بتاتا ہے_ اور بہشت كى ہميشہ كى نعمتوں اور اس ميں خلود كے بيان كے ضمن ميں جملہ (ما شاء ربك ) كااستثناء يہ بتاتا ہے كہ الله تعالى كا يہ وعدہ كرنا موجب نہيں بنتا كہ اس كى مشيت محدود ہوجائے اور اس كے خلاف عمل كرنے سے اسكے روك دے_

۹_بہشت اور اسكى نعمتيں ، عطيہ الہى ہيں _عطاءً غير مجذوذ

۱۰_ اہل جنّت سے جنّت اور اسكى نعمتيں واپس نہيں لى جائيں گى اور وہ ختم ہونے والى بھى نہيں ہيں _

عطاءً غير مجذوذ

(عطاءً) لفظ( الجنّة) كے ليے حال واقع ہوا ہے (مجذوذ) يقينى و قطعى ہونے كے معنى ميں ہے اس بناء پر عطا ء غير مجذوذ كا مطلب يہ ہے كہ لوگ بہشت ميں داخل ہوں گے در حاليكہ بہشت اور اسكى نعمتيں ختم ہونے والى نہيں ہيں بلكہ ہميشہ كے ليے ہيں _

آخرت :آخرت كا آسمان ۴; آخرت كى زمين ۴، ۵; آخرت كے آسمانوں كا متعدد ہونا ۵

الله تعالى :الله تعالى كى توفيقات ۳; الله تعالى كى مشيت ۸; الله تعالى كى مشيت كا حتمى ہونا ۷;الله تعالى كى مشيت كے آثار ۶; الله تعالى كى نعمتيں ۹;الله تعالى كے وعدہ و وعيدكا كردار۸

اہل بہشت :۱اہل بہشت كا ہميشہ رہنا ۲، ۶

بہشت :بہشت كا ہميشہ ہونا ۱۰; بہشت كى خصوصيات ۱۰; بہشت كى نعمتوں كا ہميشہ ہونا ۱۰; بہشت ميں ہميشہ كے ليے ہونا ۲، ۶، ۸

توفيقات :آخرت ميں سعادت مندى كى توفيق ۳

سعادتمند لوگ :بہشت ميں سعادت مند لوگ ۱

موجودات :موجودات كا عاجز ہونا ۷

نعمت :بہشت كى نعمت ۹

۳۱۱

آیت ۱۰۹

( فَلاَ تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِّمَّا يَعْبُدُ هَـؤُلاء مَا يَعْبُدُونَ إِلاَّ كَمَا يَعْبُدُ آبَاؤُهُم مِّن قَبْلُ وَإِنَّا لَمُوَفُّوهُمْ نَصِيبَهُمْ غَيْرَ مَنقُوصٍ )

لہذا خدا كے علاوہ جس كى بھى يہ پرستش كرتے ہيں اس كى طرف سے آپ كسى شبہ ميں نہ پڑيں يہ اسى طرح پرستش كررہے ہيں جس طرح ان كے باپ دادا كررہے تھے اور ہم انھيں پورا پورا حصہ بغير كسى كمى كے ديں گے (۱۰۹)

۱_ شرك اور غير الله كى پرستش كرنا ، باطل اور بے بنياد كردار ہے_فلا تك فى مرية مما يعبد هؤلاء

( فلا تك فى مرية مما يعبد ہؤلاء )كا جملہ بتاتاہے كہ اہل شرك كے معبودوں ميں شك و ترديد كرنا مناسب نہيں ليكن اس بارے ميں وضاحت نہيں ہے كہ كس صورت يا صورتوں ميں شك و ترديد نہيں كرنى چاہيئے _ كلام كے قرائن اس شے كو بتاتا ہے كہ اگر ( كما) كا لفظ آيت شريفہ ميں علت كو بيان كر رہا ہو تو يہ بتاتا ہے كہ شك و ترديد نہ كرنا اسوجہ سے روا نہيں كيونكہ وہ مشركين جو بتوں كى پوجا كرتے تھے بغير كسى دليل كے اپنے اجداد كى اسميں تقليد كرتے تھے_ اسى وجہ سے اس كے باطل ہونے ميں كوئي شك و ترديد نہيں ہے_

۲_ مشركين اپنے شرك آميز عقائد ميں كوئي دليل و حجت نہيں ركھتے ہيں _ما يعبدون الا كما يعبد ء اباؤهم من قبل

۳_ اہل شرك كے خودساختہ معبود، اپنے پرستش كرنے والوں كا دفاع كرنے كى كوئي قدرت و طاقت نہيں ركھتے_

فلا تك فى مرية مما يعبد هؤلاء

جملہ (لاتك ...) كاگذشتہ اقوام كى داستان پرمتفر ع ہونا،اس نكتے كى طرف اشارہ كرتا ہے كہ گذشتہ مشركين كے واقعات كو تم نے جب سن ليا تو يہ حقيقت تم پر روشن ہوگى ہے كہ اہل شرك كے معبود ، اپنے ماننے والوں كو ہلاكت سے نجات دينے پر قدرت نہيں ركھتے تھے_لہذااس زمانے

۳۱۲

ميں بھى تمھارے دل ميں يہ شك و ترديدنہيں ہونى چاہيے كہ تمہارے معبود بھى تمہارے ليے كچھ كرسكيں گے_

۴_ مشرك اقوام كى تاريخ كا مطالعہ اور ان كے برے انجام كى طرف توجہ كرنے سے يہ بات واضح ہوجاتى ہے كہ شرك كا عقيدہ باطل ہے اوران كے بنائے ہوئے معبودوں ميں كوئي دم و خم نہيں ہے _فلا تك فى مرية مما يعبد هؤلاء

۵_ اہل شرك كے معبود، اپنے ماننے والوں كوتباہى و خسارت كے علاوہ كچھ نہيں ديتے ہيں _

فلا تك فى مرية مما يعبد هؤلاء ما يعبدون الا كما يعبد ء اباؤهم

آيت شريف ميں ( كما) كو اگر تشبيہ فرض كريں تو جملہ ( فلا تك ...) كو جملہ ( انا لموفوہم ...) سے ملا كر معنى كريں تو مطلب يہہوگا كہ مشركين كے معبود ولانے اپنے ماننے والوں كے ليے تباہى و خسارت كے علاوہ كچھ نہيں ديا اسميں كسى كو شك وترديد نہيں تو ( و ما زادو ہم غير تتبيب) آيت ۱۰۱ يہ بيان كر رہا ہے ( اے رسول) تيرے زمانے ميں بھى اہل شرك كے معبود اسى طرح كے ہيں _

۶_ عصر بعثت كے مشركين كے آباء و اجداد اور گذشتہ لوگ شرك اورجھوٹے معبودوں كى پرستش كرتے تھے_

ما يعبدون الا كما يعبد ء اباؤهم من قبل

۷_ گذشتہ لوگوں كى تقليد اور پہلے زمانے كے لوگوں كى پيروى كرنے كى سنت نے عصر بعثت ميں باطل و جھوٹے معبودوں كى پرستش كے ليے مشركين كو آمادہ كيا _ما يعبدون إلاّ كما يعبد ء اباؤهم من قبل

مذكورہ معنى ميں ( كما) كو علت لياگيا ہے تب (ما يعبدون ...) كا معنى يوں ہوگا: مشركين كا بت پرستى كى طرف جھكاؤ اس وجہ سے ہے كہ ان كے آباء و اجداد بت پرست تھے_

۸_ الله تعالى ، مشركين كى سزا و عقاب كو بغير كسى كمى و نقص كے انہيں دے گا_

و انا لموفّوهم نصيبهم غير منقوص

الله تعالى :الله تعالى كى سزائيں ۸

تحريك :تحريك كے عوامل ۷

تقليد :اندھى تقليد كے آثار ۷; بزرگان كى تقليد ۷

جھوٹے معبود :جھوٹے معبودوں كا ضرر دينا ۵; جھوٹے معبودوں كا عاجز ہونا ۳;جھوٹے معبودوں كے عجز پر دلائل ۴

۳۱۳

ذكر :مشركين كے انجام كا ذكر ۴

شرك :شرك عبادى كا سبب ۷; شرك كى بے منطقى ۲; شرك كے بطلان پر دلائل ۴;شرك عبادى كا بطلان ۱

شناخت :شناخت كا طريقہ ۴

عدالتى نظام :۸

مشركين :صدر اسلام كےمشركين كا شرك عبادى ۷; تصدر اسلام كے مشركين كے بزرگوں كا عقيدہ ۶; مشركين كا نقصان اٹھانا ۵;مشركين كى تباہى ۵ ; مشركين كى تاريخ كا مطالعہ ۴;مشركين كى سزا ۸

آیت ۱۱۰

( وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَاخْتُلِفَ فِيهِ وَلَوْلاَ كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيبٍ )

اور ہم نے موسى كو كتاب دى تو اس ميں بھى اختلاف پيدا كرديا گيا اور اگر تمھارے پروردگار كى طرف سے پہلے بات نہ ہوگئي ہوتى تو ان كے درميان فيصلہ كرديا جاتا اور يہ لوگ اس عذاب كى طرف سے شك ميں پڑے ہوئے ہيں (۱۱۰)

۱_حضرت موسىعليه‌السلام ، آسمانى كتاب ركھنے والے انبياء ميں سے تھے_و لقد ءاتينا موسى الكتاب

۲_ الله تعالى ، اپنے انبياء كو آسمانى كتاب عطا كرنے والا ہے_و لقد ءاتينا موسى الكتاب

۳_ قوم موسى نے توريت كى حقانيت ميں اختلاف كيا _ كچھ نے اس كو قبول كيا اور كچھ نے اس كا انكار كيا_

و لقد ءاتينا موسى الكتاب فاختلف فيه

۴_حضرت موسىعليه‌السلام كے پيروكاروں كااختلاف تورات كے اصلى اور اس كے مضامين ميں تھا_

۵_ انسانوں كا آسمانى كا كتابوں كو قبول كرنے يانہ

۳۱۴

كرنے كا تقاضا يہ ہے كہ ان كے درميان فيصلہ الله تعالى كرنے والا ہے اور اس فيصلہ كا انجام(سزا و جزا) كا وہى مسبب ہے_فاختلف فيه و لو لا كلمة سبقت من ربك لقضى بينهم

۶_ الله تعالى نے دنيا كى زندگى كو آسمانى كتابوں كے ماننے والوں اور منكرين كے درميان اپنے فيصلہ كرنے كى جگہ قرار نہيں دى ہے_لو لا كلمة سبقت من ربك لقضى بينهم

(كلمہ ) سے مراد ايساامر ہے كہ جسكو الله تعالى نے مقدر كيا ہے وہ انسانوں كى بقا اور حيات دنياوى كا پورا ہونا ہے_

( و لكم فى الارض مستقر و متاع الى حين ) تم اس زمين پر( دنياوى زندگى كے پورا ہونے تك) مستقر رہوں گے اور اس كى نعمتوں سے بہرہ مند ہوگے_ بقرہ ۳۶ جس آيات ميں يہي(تقدير و كلمہ ہے)_

۷_ الله تعالى كا دنيا كى زندگى ميں حق و باطل كے درميان فيصلہ نہ كرنا يہ ايسى تقدير و حكم ہے جسكو خود اسى نے مقرر و معين كيا ہے_لو لا كلمة سبقت من ربك لقضى بينهم

۸_ الله تعالى نے حق پرستوں اور باطل فكرركھنے والوں كے درميان دنيا كى زندگى ميں انصاف نہ كرنے كو مقدر و تقدير بنانا، يہ انسانى امور ميں تدبيراور جوامع بشرى كى مصلحتوں كو مد نظر ركھتے ہوئے كيا ہے_لو لا كلمة سبقت من ربك لقضى بينهم

مذكورہ بالا تفسير كلمہ ( ربّ) سے جو كہ مدّبر او ر مربّى كے معنى ميں ہے سے استفادہ كرتے ہوئے كى گئي ہے _(لو لا كلمة سبقت ...) ميں جس تقدير كو بيان كيا گيا ہے وہ ان نوں كے امور كى تدبير ہے_

۹_ الله تعالى اپنى تقدير كى بناء پر توريت كى حقانيت سے انكار كرنے والوں كو مہلت دى ہے اور ان كے بارے ميں دنيا ميں داورى نہيں كرے گا_فاختلف فيه و لو لا كلمة سبقت من ربك لقضى بينهم

۱۰_ الله تعالى ، ثابت رہنے والے قوانين اور اصولوں كو انسانوں كے امور كے ليے مقرر كرتا ہے _

و لو لا كلمة سبقت من ربك لقضى بينهم

۱۱_ حق سے منحرفين كو مہلت دينا ،الله تعالى كے اصولوں ميں سے ہے_و لو لا كلمة سبقت من ربّك لقضى بينهم

۱۲_توريت كى حقانيت كے منكر اس كے باو جود كہ توريت كے غلط ہونے يقين نہ ركھتے تھے پھر بھى اس كى حقانيت كا انكار كرگئے_و انهم لفى شك منه مريب

(انّہم ) كى ضمير سے وہ مراد ہيں جنہوں نے

۳۱۵

توريت كو قبول نہيں كيا_ اہل ادب كى اصطلاح ميں يہ ضمير (ہم) بطور استخدام اختلاف كرنے والوں كى طرف لوٹتى ہے جو جملہ ( فاختلف فيہ) سے حاصل ہو رہا ہے _ (مريب) يا فعل لازم ہے اور اس كى معنى شك و ريب ہے اور شك كے ليے تاكيد كے طور پر ہے يا پھر فعل متعددى ہے جس كا معنى ''شك ميں ڈالنا'' ہے_

آسمانى كتابيں :آسمانى كتابوں پر ايمان لانے والے ۶; آسمانى كتابوں كا سرچشمہ ۲;آسمانى كتابوں كو جھٹلانے والے ۶;آسمانى كتابوں ميں اختلاف ۵

اختلاف :اختلاف كے آثار ۵

انبياءعليه‌السلام :اولوالعزم انبياءعليه‌السلام ۱

انسانانسانوں كا مدبر۸; انسانوں كے مصالح ۸

الله تعالى :الله تعالى كى جزا كا سبب ۵; الله تعالى كى ربوبيت ۸;الله تعالى كى سزاؤں كا سبب ۵; الله تعالى كى قضاوت كا زمانہ۶،۷; الله تعالى كى قضاوت ۸;

الله تعالى كى قضاوت كا سبب ۵;الله تعالى كى مہلتيں ۹;الله تعالى كى نعمتيں ۲;الله تعالى كے اصول ۱۰، ۱۱; الله تعالى كے مقدرات ۷،۹

الله كے رسول : ۱

الله كے اصول :مہلت دينے كا اصول ۱۱

بنى اسرائيل:بنى اسرائيل اور توريت ۳،۴;بنى اسرائيل كا اختلاف ۳،۴; بنى اسرائيل كى تاريخ ۳،۴;

توريت :توريت پر ايمان لانے والے ۳;توريت كو جھٹلانے والوں كا شك ۱۲; توريت كو جھٹلانے والوں كى مہلت ۹; توريت كو جھٹلانے والے ۳

قضاوت :حق و باطل كے درميان قضاوت ۷، ۸; مومنين اور كافرين كے درميان قضاوت ۸

منكرين :منكرين كو مہلت ۱۱

حضرت موسىعليه‌السلام :حضرت موسىعليه‌السلام كى نبوت ۱;حضرت موسىعليه‌السلام كے مقامات ۱

۳۱۶

آیت ۱۱۱

( وَإِنَّ كُـلاًّ لَّمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ رَبُّكَ أَعْمَالَهُمْ إِنَّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ خَبِيرٌ )

اور يقينا تمھارا پروردگار سب كے اعمال كا پورا پورا بدلہ دے گا اور وہ ان سب كے اعمال سے خوب باخبر ہے (۱۱۱)

۱_ الله تعالى قيامتكے دن آسمانى كتابوں پر ايمان والوں او ران كا انكار كرنے والوں كے درميان قضاوت كرے گا_

ولو لا كلمة سبقت و انّ كلّاً لما ليوفينّهم ربك اعمالهم

(كلّا ) سے مراد ( فاختلف فيہ ) كے قرينہ كى وجہ سے جو اس سے پہلے والى آيت ميں ذكر ہوا ہے آسمانى كتابوں پر ايمان لانے والے اور ان كا انكار كرنے والے ہيں _ اور (لولا لقضى بينہم ) كے قرينہ كى وجہ سے معلوم ہوتا ہے كہ خداوند عالم، قيامت كے ميدان ميں سزا و جزا دينے سے پہلے انسانوں كے درميان قضاوت كرے گا_

۲_قيامت ميں آسمانى كتابوں پر ايمان لانے والے اپنے كردار كى جزا كو كامل طور پر حاصل كريں گے _

''اعمالہم'' سے مراد، اعمال كا اجر و پاداش ہے لہذا '' إن كلاً'' يعنى خداوند عالم مكمل طور پر اجر و پاداش دے گا_

و انّ كلّاً لما ليوفينّهم ربك اعمالهم

۳_ آسمانى كتابوں كا انكار كرنے والے آخرت، كے عذاب ميں گرفتار ہوں گے _و انّ كلاّ لما ليوفينّهم ربّك اعمالهم

يہ بات قابل ذكر ہے كہ كلمہ ( لمّأ ) اس معنى اور آيت ميں ان كے مقام كے بارے ميں مفسرين نے كافى گفتگو كى ہے جو اس بارے ميں تحقيق كرنا چاہتے ہيں انہيں چاہيئے كہ تفسير اور ادب كى مفصل كتابوں كى طرف رجوع كريں _ مختصراً جو عرض كرنا چاہتے ہيں وہ يہ كہ (لمّا) شرطيہ ہے اور اسكا فعل محذوف ہے _ اصل ميں كلام يوں ہوگا (انّ كلّا لمّا اتتهم الساعة ليوفينّهم )

۴_خدواند عالم كا اجر و سزا، انسانوں كے اعمال كے مطابق ہے اس ميں كسى قسم كى كوئي كمى ميں ہے_

۳۱۷

ليوفينّهم ربك اعمالهم

(توفيہ ) (يوفى ) كا مصدر ہے جسكا معنى كامل طور پر ادا كرنے كا ہے _

۵_ الله تعالى انسانوں كے كفر و ايمان نيك وبد اعمال كو مجسم اور آئينہ كى صورت ميں لاكر سزا و جزا دے گا _

و انّ كلّما لمّا ليوفينّهم ربك اعمالهم

''اعمال'' كہہ كہ اس سے جزا و سزا كا ارادہ كرنا گويا اس نكتہ كى طرف اشارہ ہے كہ اعمال كى جزا و سزا مجسم اور آئينہ كى صورت ميں ہے گويا جزا سزا وہى اعمال ہى ميں _

۶_خداوند عالم كا جزا اور سزا دينا، اس كى ربوبيت كا پرتو ہے_لينوفينّهم ربك اعمالهم

۷_ الله تعالى انسانوں كے تمام اعمال اور ان كى حقيقت سے آگاہ ہے _انه بما يعملمون خبير

( خبرت الأمر) يعنى اس امر كى حقيقت كو ميں نے جان ليا ( لسان العرب) تو اس صورت ميں ( انہ بما يعملون خبير) كا معنى يوں ہوگا كہ بے شك الله تعالى تمہارے اعمال كى حقيقت اور اصليت سے آگاہ ہے _

۸_ انسانوں كے اعمال و رفتار كے مطابق كامل طور پر سزا و جزا فقط وہ ذات دے سكتى ہے جو انكے اعمال و رفتار كى جزئيات سے مكمل طور پر آگاہ ہو_ليوفينّهم ربك اعمالهم انه بما يعملون خبير

اعمال كى مكمل طور پر جزا و سزا كو بيان كرنے كے بعد خداوند عالم كا تمام اعمال اور اس كى جزئيات كو بيان كرنے سے مندرجہ بالا يد معنى حاصل ہوتا ہے_

آسمانى كتب :آسمانى كتب پر ايمان لانے والے ۱،۲;آسمانى كتابوں كا انكار كرنے والوں كى آخرت ميں سزا ۳; آسمانى كتب كى تكذيب كرنے والے ۱

اسماء و صفات :خبير ۷

انسان :انسانوں كے عمل كا علم ۸

ايمان :ايمان كا اجر ۵

الله تعالى :الله تعالى اور انسانوں كا عمل ۷; الله تعالى كا جزا دنيا ۶; الله تعالى كا علم غيب ۷; الله تعالى كى ربوبيت كى نشانياں ۶;الله تعالى كى سزائيں ۶; الله تعالى كى آخرت ميں قضاوت ۱

جزاء:عمل كى مناسبت سے جزا دينا۴،۸

۳۱۸

سزاء:عمل كے مطابق سزا دينا ۴،۸

عدالتى نظام : ۴،۸

عمل :پسنديدہ عمل كى جزاء ۵; عمل كا مجسم ہونا ۵; عمل كے حساب و كتاب كے شرائط ۸; ناپسند عمل كى سزاء ۵

قضاوت :مؤمنين و كافروں كے درميان قضاوت ۱

كفر:كفر كى سزاء۵

مومنين :مومنين كى آخرت ميں جزاء ۲

آیت ۱۱۲

( فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَن تَابَ مَعَكَ وَلاَ تَطْغَوْاْ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ )

لہذا آپ كو جس طرح حكم ديا گيا ہے اسى طرح استقامت سے كام ليں اور وہ بھى جنھوں نے آپ ك ساتھ توبہ كرلى ہے اور كوئي كسى طرح كى زيادتى نہ كرے كہ خدا سب كے اعمال كو خوب ديكھنے والا ہے (۱۱۲)

۱_ الله تعالى نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو توحيد اور الله كى عبادت پر ثابت قدم اور استقامت كا حكم ديا ہے _

فاستقم كا امرت

( استقم ) كامتعلق ذكر نہيں ہوا تا كہ عموم كا معنى دے ليكن كيونكہ گذشتہ آيات، توحيد اور عبادت الہى كے بارے ميں تھيں اسى وجہ سے مذكورہ بالا عبارت ميں ان كا ذكر كيا گيا ہے _

۲_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہمراہ مؤمنين كى بھى ذمہ دارى تھى كہ توحيد اور الله كى عبادت پر ثابت قدم اور استقامت سے كام ليں _فاستقم و من تاب معك

(من تاب ) كا عطف (فاستقم ) ميں جو ضمير مستتر ہے اس پر ہے لہذا جملہ يوں ہوگا _ (وليستقم من تاب معك )

۳_ دين كى تبليغ اور توحيد كے پر چار ميں استقامت، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اس پر ايمان لانے والوں كى ذمہ دارى تھى _

فاستقم كما امرت و من تاب معك

آيت كا يہ جملہ ( تم اور تيرے پيروكار ثابت قدمى اور استقامت كريں ) يہ اس معنى كو بتاتا ہے كہ تم

۳۱۹

توحيد اور احكام دين كى پابندى كرو اور اس پر ثابت قدم رہو خبردار مشكلات اور سختياں تم كو حق كے راستے سے منحرف كريں يا ممكن ہے كہ اس معنى كو بتا كر رہا ہو كہ توحيد اور دين مبين كى تبليغ پر ثابت قدم رہنا اور حق كى دعوت دينے سے رنجيدہ اور تھكن ظاہر نہ كرنا _ مذكورہ بالا تفسير اسى احتمال دوّم كى صورت ميں ہے _

۴_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو چاہيے كہ پائيدارى اور استقامت دكھانے ميں فرمان و امر الہى كى اسا س پر عمل كريں _

فاستقم كما امرت

۵_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور صدر اسلام كے مسلمانوں كے ليے مكہ كے حالات بہت دشوار تھے_ اور دين الہى پر عمل كرنا ايك مشكل كام تھا جس كے ليے استقامت اور ثابت قدمى بہت ضرورى تھى _فاستقم كما امرت و من تاب معك

۶_ توحيد كو ماننا ،الله تعالى كى طرف لوٹنے كے مترداف ہے _و من تاب معك

۷_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے صحابہ، حضرت پر ايمان لانے سے پہلے مشرك تھے اور توحيد كى طرف جھكاؤ كے سبب انہوں نے شرك سے توبہ كرلى _و من تاب معك

توبہ سے يہاں مراد گذشتہ آيات ،آيات كى روشنى ميں جو شرك اور توحيد كے بارے ميں تھيں ، شرك سے منہ موڑنا اورتوحيد پر عمل كرنا ہے _ يہ بات قابل ذكر ہے كہ (معك) (تاب) كے فاعل كے ليے حال واقع ہوا ہے _ اس صورت ميں ( من تاب معك) كا معنى يوں ہوگا _ وہ لوگ جنہوں نے شرك سے توبہ كى ہے وہ تيرے اور تيرے اصحاب كے ساتھ ہيں

۸_ شك و ترديد،استقامت اور ثابت قدمى كے ليے ركاوٹ ہيں _

فلاتك فى مرية ممّا يعبد هؤلا فاستقم كما امرت و من تاب معك

۹_ انبياءعليه‌السلام اور ان كى مؤمن اور كافر اقوام كے واقعات پر توجہ كرنا ، انسان كو توحيد اور الله كى پرستش پر ثابت قدم رہنے اور استقامت كرنے پر اكساتے ہيں _فاستقم كما امرت

مذكورہ بالا معنى اس صورت ميں ہے كہ جب ہم (فاستقم ) كے جملے كو گذشتہ اقوام كے بارے ميں جو آيات ہيں ان كا نتيجہ فرض كريں _

۱۰_ الله تعالى ، قيامت كے دن كى قضاوت اور داورى كرنے كو مد نظر ركھتے ہوئے اورميں آخرت سزا و جزاء پر يقين ركھنا،انسان كو دين كے راستے پر استقامت پر آمادہ كرتا ہے _لقضى بينهم انّ كلّاً لما ليوفينّهم اعمالهم فاستقم كما امرت

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945

946

947

948

949

950

951

952

953

954

955

956

957

958

959

960

961

962

963

964

965

966

967

968

969

970

971