تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 6%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 205936 / ڈاؤنلوڈ: 4272
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۸

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

امیر المؤمنین علیہ السلام نے سفید اون سے بنی ہوئی ایک تھیلی نکالی اور اسے دے دی اور اس سے فرمایا:یہ تمہارا حق ہے۔

پیغمبر اکرم(ص) نے اس شخص سے فرمایا:یہ لے لو اور میرے فرزندوں میں سے جو بھی تمہارے پاس آئے اور تم سے کوئی چیز مانگے تو اسے دے دو ۔اب تمہارا فقر باقی نہیں رہے گا اور کبھی محتاج نہیں ہو گے۔

 اس شخص نے کہا:جب میں بیدار ہوا تو پیسوں کی وہی تھیلی میرے ہاتھ میں تھی ۔میںنے اپنی بیوی کو جگایا اور اس سے کہا:چراغ جلاؤ۔اس نے چراغ جلایا۔میںنے وہ تھیلی کھولی اورجب میں نے ان پیسوں کو گناتومیں نے دیکھا کہ اس تھیلی میں ہزار اشرفیاں ہیں۔

میری بیوی نے مجھ سے کہا:خدا سے ڈرو!خدانخواستہ کہیں تم نے فقر کی وجہ سے لوگوں کو دھوکا دہینا تو شروع نہیں کردیا اور کسی تاجر کو دھوکا دے کر اس کا مال تو نہیں لے آئے؟

میںنے اس سے کہا:نہیں خدا کی قسم !ایسا نہیں ہے اور پھر میںنے اس سے اپنے خواب کاواقعہ بیان کیا۔پھر میں نے اپنے حساب کی کاپی کھول کر دیکھی تو میںنے اس میں دیکھا کہ امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے حساب میں ہزار اشرفی لکھی ہوئی ہے نہ اس سے کم  اور نہ ہی زیادہ۔(1)

اسی مناسبت سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک بہت بہترین روایت ذکر کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

''مَنْ أَعٰانَ فَقِیْرَنٰا،کٰانَ مُکٰافٰاتُهُ عَلٰی جَدِّنٰا مُحَمَّد '' (2)

جو کوئی ہم میں سے کسی فقیر کی مدد کرے اس کا اجر ہمارے جدّ محمد(ص) پر ہے۔

وہ کوفی شخص خاندان پیغمبر علیھم السلام سے سچی محبت کرتا تھا اور آنحضرت (ص) کے حکم سے اسے اس کا دنیاوی اجر مل گیا۔

--------------

[1]۔ فوائد الرضویہ:311

[2]۔ بحار الانوار:ج۱۰۰ص۱۲۴

۲۰۱

 جھوٹی محبتیں

کچھ لوگ خاندان وحی ونبوت علیھم السلام سے محبت و دوستی کا اظہار کرتے ہیں اور اس بارے میں خود کو اتنا سچا پیش کرتے ہیں کہ اس میں جھوٹ کا شائہ تک نہیں پایا جاتا۔اور ان کا وجود محبت اہلبیت علیھم السلام سے سرشار ہے؛ لیکن جب ہم ان کے رفتار و کردار کے بارے میںسوچتے ہیں اور ان کے کردار کی خاندان  نبوت ورسالت علیھم السلام کے دستورات سیملاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اہلبیت علیھم السلام سے دوستی و محبت کا اظہار خالصانہ اور سچانہیں ہے۔

بہت سے لوگ خود کو امام زمانہ عجل  اللہ فرجہ الشریف کا عاشق اور جاںنثار سمجھتے ہیں لیکن عملاً ان کا سہم (یعنی خمس ،جوکہ ان کے اپنے لئے خدا کی نعمتوں  کے نزول کاذریعہ ہے) ان کی آل کو ادا کرنے سے اجتناب کرتے ہیں!

جو شخص امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف مقدس اہداف کی راہ میں مال خرچ کرنے سے گریز کرے کیاوہ امام کے ظہور کے زمانے میں آپ پر اپنی جان نثار کرسکتا ہے؟

لیکن کیا حضرت امام زمانہ  عجل اللہ فرجہ الشریف نے اپنی توقیع میں یہ نہیں فرمایا:

''لَعْنَةُ اللّٰهِ وَ الْمَلاٰئِکَةِ وَالنّٰاسِ أَجْمَعِیْنَ لِیْ مَنِ اسْتَحَلَّ مِنْ أَمْوٰالِنٰا دِرْهَماً'' (1)

اس شخص پر خدا،ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہو جو ہمارے مال میں سے ایک درہم کو بھی اپنے لئے حلال جانے۔

--------------

[1]۔ بحار الانوار:ج۵۳ص۱۸۳، کمال الدین: ج۲ص۲۰۱، الصحیفة المبارکة المہدیة:282

۲۰۲

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے اہلبیت علیھم السلام سے محبت کا دعویٰ کرنے والوں کے بارے میں جابر سے فرمایا:

''یٰا جٰابِرُ، أَ یَکْتَفِْ مَنْ یَنْتَحِلُ التَّشَیُّعَ أَنْ یَقُوْلَ بِحُبِّنٰا أَهْلِ الْبَیْتِ ؟فَوَاللّٰهِ مٰا شِیْعَتُنٰا اِلاّٰ مَنِ اتَّقَی اللّٰهَ وَ أَطٰاعَهُ''(2)

اے جابر!کیا خود کو شیعہ کے طور پر دکھانا کافی ہے اور کہے کہ میں اہلبیت علیھم السلام سے محبت کرتا ہوں ۔خدا کی قسم !ہمارا شیعہ وہی ہے جو تقویٰ الٰہی رکھتا ہو اور اس کی اطاعت کرتا ہو۔

اس فرمان سے یوں استفادہ ہوتا ہے کہ:جو کوئی با تقویٰ نہیں اور خداکا مطیع نہیںاسے صرف محبت کے اظہار پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہئے۔

--------------

[2]۔ بحار الانوار:ج۷۰ص۹۷

۲۰۳

 نتیجۂ بحث

 محبت آپ کے دردو غم کے لئے اکسیر ہے ۔محبت کی کشش و جاذبہ انسان کو اس کے محبوب کی طرف کھینچتی ہے اور اس کے صفات و حالات محب میں ایجاد کرتی ہے اور اسے تقویت دیتی ہے۔محبت جتنی زیادہ ہو ،محب میں محبوب کے روحانی حالات اتنے ہی زیادہ ہو جاتے ہیں کہ جس سے اسے  محبوب کا تقرب حاصل ہو جائے۔یہی مودت کا معنی ہیجوہر انسان کو خاندان وحی علیھم ا لسلام سے ہونی چاہئے۔کیونکہ اجر رسالت ، اہلبیت اطہار علیھم السلام کی محبت  ہے۔

اس بناء پر اہلبیت علیھم السلام سے محبت و مودت کے ذریعے اپنی روح کو پروان چڑھائیں اور اس خاندان کے آستانۂ ولایت سے تقرب حاصل کریں تا کہ آپ کا وجود ولایت کے تابناک انوار سے سرشار ہو جائے اور آپ کے وجود سے برائیاں پاک ہو جائیں۔

 ان ہستیوں کے تقرب کا لازمہ یہ ہے کہ ان کے احکامات کی پیروی کی جائے اور ان کے دشمنوں سے  برات اور دوری کی جائے۔

 یہ ہے سچی محبت جسے آپ اپنے اور اپنے نزدیکی افراد کے دل کی گہرائیوں میں ایجاد کریں۔

جمعی کہ دم از مھر و ارادت دارند

در بام شرف ،کوس سیادت دارند

چون دست بہ دامان سعادت زدہ اند

پا بر سر نام و ننگِ عادت زدہ اند

۲۰۴

آٹھواں  باب

انتظار

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

''أَفْضَلُ عِبٰادَةِ الْمُؤْمِنِ اِنْتِظٰارُ فَرَجِ اللّٰهِ  ''

مومن کی سب سے افضل عبادت یہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے (سختی اورغم سے)  نجات کے انتظار میں رہے۔

    انتظار کی اہمیت    انتظار کے عوامل    امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے مقام و منزلت کی معرفت

    انتظار کے آثارسے واقفیت

    1۔ مایوسی اور ناامیدی سے کنارہ کشی

    2۔ روحانی تکامل

    مرحوم شیخ انصاری امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے شریعت کدہ پر    کامیابیوں کی کلید اور محرومیوں کے اسباب

    3۔ مقام ولایت کی معرفت    4۔ مہدویت کے دعویداروں کی پہچان

    امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے تکامل یافتہ منتظرین یا آپ کے عظیم اصحاب کی معرفت

    اصحاب با صفا کی طاقت و قدرت کا سر سری جائزہ

    ظہور کے زمانے کی معرفت

    1۔ باطنی تطہیر

    2 ۔ زمانۂ ظہور میں عقلوں کا کامل ہونا

    3 ۔ دنیا میں عظیم تبدیلی

    نتیجۂ بحث

۲۰۵

 انتظار کی اہمیت

انتظار ان با عظمت افراد کا خاصہ ہے جو کامیابی اور کامرانی کے راستے پر پوری طرح گامزن ہیں۔چونکہ غیبت کے دوران خاندان عصمت علیھم السلام کے دامن اطہر سے جاری عظیم شخصیتوں سے متعلق روایتیں نیز مستحکم اور مظبوط اقوال زریں ہو ئے ہیں ۔آنحضرت  کے ظہور کا انتظار کرنے والے ہر زمانے کے انسان سے افضل ہیں ۔

اسی لئے ایک گروہ انتظار کی  سختیوں کو دنیا میں کامیابی کی اہم کلید سمجھتا ہے ۔  ان کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان انتظار کے اسباب اور اس کے کمال کی معرفت اور وسیلہ سے حقیقت کے بحر سے کامیابی کے جواہر حاصل کر سکتا ہے نیز سماجی مشکلوں اور مادی رکاوٹوں سے بھی نجات پا سکتا ہے ۔انتظار صحیح معنی میں دشوار گزار حالت ہوتی ہے گویا کہ اسرار کے بھنور نے اس کا احاطہ کر رکھا ہے اور بہت ہی کم لوگوں نے حسب دلخواہ اس کے کمال کی راہ نکالی ہے اور دشمن کی مکاریوں کی مخالفت کی ہے چونکہ انتظار اپنے آخری اور بلند ترین مرحلہ میں امام زمان  عجل اللہ فرجہ الشریف  کی ملکوتی حکومت میں آسمانی نظام کے رائج کرنے اور اس کی خدمت کرنے میں آمادگی اور مدد کے معنوں میں آتا ہے کہ جسے غیر عادی اور غیر معمولی قدرت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے اور ایسا انتظار امام زمانہ  عجل اللہ فرجہ الشریف کے خاص اصحاب میں موجود ہے ۔[1]

--------------

[1] ۔ ہ لوگ جو امام زمانہ کی یاد اور توسل کے ساتھ انتظار کے مراسم برپا کرتے ہیں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ اس قسم کی مجالس و محافل الحمد للہ وسیع پیمانے پر منعقد ہو رہی ہیں اور ہماری مراد اس طرح کی مجالس کی نفی اور اس طرح کے افراد کے اندر حالت انتظار کی عدم موجودگی نہیں ہے ۔ کیونکہ انتظار میں درجات و مراتب پائے جاتے ہیں ۔ اور وہ افراد جو اس کے کمال اور عالی ترین مراتب تک پہنچے ہیں اگر چہ ان کی تعداد کم ہے لیکن انھیں افراد میں سے اٹھے ہیں ۔ اور سخت جاں فشانی اور جد و جہد اور سختیوں اور مشکلات کے تحمل کرنے کے ساتھ اس عظیم مقام کہ جس پر وہ فائز ہوئے ہیں کو حاصل کیا ہے ۔

۲۰۶

 انتظار جس مرحلے میں بھی ہو یہ عالم غیب سے غیبی مدد اور خدا سے تقرب کا راستہ  ہے  اور اگراس میں دوام ہو اوراگر یہ تکامل حاصل کرلے تو وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ انسان کے وجود میں نفس اور ضمیر سے نا آگاہی کی وجہ سے پیدا ہونے والی کشیدگی اور کھنچائو کو نیست و نابود کر دیتا ہے اور  انسان کے باطن میںنور اور آشنائی کے دریچے کھول دیتاہے اور اسی طرح سے انسان کے لئے تکامل کی راہ کھول دیتاہے کیونکہ انتظار تمام تر ضروری اور لازم مدارج میں آمادگی کی حالت کو کہتے ہیں ۔

 باطنی توجہ کو دنیا سے خلوص ، حقیقت اور نورانیت کی طرف جذب کرتیہے ۔ وہ جہان جس  سے تمام تر شیطانی اور طاغوتی قوتیں اور طاقتیں نابود ہو جائیں اس دنیائے انسانیت کی جان میں انوار الٰہی کی چمک جگمگا اٹھتی ہے ۔

اس حقیقت کی  طرف غور کرنے کے بعد ہم کہتے ہیں کہ ایسا شخص ہی انتظار کے عظیم مراحل کو طے کر سکتا ہے کہ جو غیر معمولی طاقت اور قوت کا حامل ہو ۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ امام عصرعجل اللہ فرجہ الشریف  کی حکومت ایکغیر معمولی حکومت ہوگی جس کا درک کرنا ہماری ہمت ، طاقت اور سوچ سے کہیں بالا تر ہے ۔ اور سب کے لئے ضروری ہے کہ مدد گار افراد حضرت بقیة اللہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے ارد گرد جمع ہو جائیں اور پہلی صف میں آپ کی مدد کریں تاکہ اللہ کے نیک لوگوں میں شمار ہوں اور آپ کے فرمان اور حکم کی اطاعت کرنے کی طاقت کو حاصل کریں جس کو حاصل کرنے کے لئے غیر عادی قدرت کا ہونا ضروری ہے ۔(1)

امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے تین سو تیرہ ممتاز ساتھیوں کے اوصاف اور خواص کو بیان کرنے   والی روایات ان کے بارے میں روحانی اور غیر عادی طاقتوں کے موجود ہونے کا پتا دیتی ہیں یہاں تک کہ غیبت کے زمانے میں بھی ۔

--------------

[1] ۔ بے شمار روایت میں امام عصر  کی حکومت کے اندر غیر معمولی طاقتوں سے استفادہ کی تصریح کی گئی ہے ۔

۲۰۷

 انتظار کے عوامل

 ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم انتظار کے حقیقی معنی سے آشنائی حاصل کرنے کی کوشش کریں اور  اپنے اور دوسروں کے اندر بھییہ حالت پیدا کریں ۔

 حالت انتظار کو حاصل کرنے ، سیکھنے اور اسے دوسروں تک آگے پہنچانے کے لئے مختلف راستے موجود ہیں جن سے استفادہ کرتے ہوئے ہم معاشرے میں انتظار کی حالت پیدا کر سکتے ہیں اور ان کے وجود کی گہرائیوں میں انتظار کے بیچ کوبا ثمر بنا سکتے ہیں اور درج ذیل بعض مہم ترین راہوں کے ذریعہ سے معاشرہ ، مسئلہ انتظار کی طرف مائل ہو سکتا ہے ۔

 1۔ ولایت کے عظیم مقام سے آشنائی اور عظمت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی شناخت ۔

2 ۔ انتظار کے حیران کن آثار کے ساتھ اس کے صحیح اور کامل معنی اور اس کے عظیم مراحل سے  آشنائی ۔

3۔ امام عصر کے اصحاب کے اوصاف و خصوصیات سے آشنائی جو انتظار کے عالی ترین مرتبہ تک پہنچے اور عظیم روحانی قوت سے ہمکنار ہوئے جو امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف  کے فرمان کو انجام دیتے ہیں ۔

4۔ انسان اور آئندہ زمانے کے لوگوں کی زندگی میںظہور کے زمانے میں واقع ہونے والے عظیم تحولات اور اہم ترین تغیرات سے آشنائی  ۔(1)

--------------

[1] ۔ ان کے علاوہ دوسرے راستے بھی موجود ہیں جو انسان کو انتظار کی طرف بلاتے ہیں ان میں سے بعض کی وضاحت ہم نے کتاب اسرار موفقیت میں ذکر کی ہے جیسے ۔ اخلاص ، معارف سے آشنائی محبت اہل بیت  خود سازی اور .......۔

۲۰۸

امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے مرتبہ کی معرفت، آپ کے محبین اور ساتھیوں کی شناخت اور عقل    اورفہم و ادراک کی تکمیل ، غیبت اور عالم نا مرئی سے ربطہ ، ناشناختہ موجودات کی شناخت ، دور دراز فضائوں اور آسمانوں کے سفر اور اسی قسم کے دوسرے مسائل لوگوں کو مسئلہ ظہور امام کی طرف متوجہ کرتے ہیں ۔

 نیزجو آنحضرت  کی عظیم الشان ار آفاقیحکومت کے لئے آمادگی پیدا کرتے ہیں یہ تمام حقائق ، پاک طینت افراد میں علم و آگہی اور جنون و عشق کا سرور پیدا کرتے ہیں اوراس طرح یہ افراد اس عظیم الشان زمانے کے دلدادہ ہو جاتے ہیں ۔ معاشرے اور سماج میں انتظار اور ظہور کی حالت پیدا کریں جو ہر انسان کی مسلم ذمہ داری ہے۔ اب اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں ۔

 امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے مقام و منزلت کی معرفت

امام کا باعظمت وجود اپنی نورانی خصوصیتوں کے سبب انتظار کی کیفیت کے لئے کلیدی حیثیت رکھتا ہے ۔ کیونکہ دنیا میں آپ  کے علاوہ کو ئی بھی رہبری ،امامت اور کائنات کی اصلاح کے لا ئق نہیں ہے یہ اسباب انسان کو آپ کی طرف جذب کرتے ہیں نیز آپ  خداکی آخری نشانی ہیں آپ ہی آخری راہنما اور ہادی ہیں جیسا کہ آپ سے متعلق حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام فر ماتے ہیں :

 ''عِلْمُ الْاَنْبِیٰاء فِی عِلْمِهِمْ وَسِرُّ الْاَوْصِیٰاء فِیْ سِرِّهِمْ وَ عَزُّالْاَوْلِیٰاءِ فِیْ عِزِّهِمْ ، کَالْقَطْرَةِ فِی الْبَحْرِ وَ الذَّرَّةِ فِی الْقَفْرِ'' (1)

--------------

[1]۔ بحار الانوار ،: ج۲۵ص۱۷۳

۲۰۹

  تمام نبیوں کا علم ،تمام اوصیاء کے راز،تمام اولیاء کی عزتیں آپ کے علم ،راز اور عزت کے مقابلے میں ایسے ہی ہے جیسے سمندر میں ایک قطرہ یا ریگستان میں ایک ذرہ ۔

 چونکہ ہم خاندان عصمت و طہارت  علیھم السلام کے آخری فرد کے دور میںزندگی گزار  رہے ہیں اسی لئے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم آپ کے زریں فرامین واقوال کے سائے میں رہتے ہو ئے تباہی اور بربادی کے طوفان سے بچیں اور آنحضرت  کے ظہور کے لئے راہ ہموار کریں نیز آپ  کی حکومت کے   انتظار میں ہرایک لمحہ شمار کرتے رہیں تا کہ آپ پرچم ہدایت وعدالت افلاک عدل و انصاف پر نصب فرما دیں ۔

 اگر کو ئی اس زمانے میں امام علیہ السلام کو پہچان لے اور زمانہ ٔغیبت میں امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی اس امداد سے آگاہی رکھتا ہو اور آپ کے ذریعے  زمانہ ٔ  ظہور میں دنیا اور انسانوں میں ایجاد ہونے والی تبدیلیوں سے بھی آشنا ہو تو وہ ہمیشہ آپ  کی یاد میں رہے گا اور اس طرح جیسا کہ حکم ہوا ہے(1) آفتاب ولایت کے طلوع کے انتظار میں زندگی بسر کرے گا ۔

 معرفت ؛ایسے انسان کے دل سے غلاظت اور زنگ کو پاک اور صاف کرکے اس کی جگہ پا کیزگی خلوص اور نورانیت کو جایگزین کرے گی۔ اب ایک نہا یت ہی پر کشش روایت کی طرف توجہ کریںجس سے امام  عجل اللہ فرجہ الشریف کے زمانہ ٔغیبت میں آپ  کی طرف سے غیبی امداد کا پتہ چلتاہے جابر جعفی حضرت جابر بن عبداللہ انصاری سے اور وہ حضور اکرم (ص) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ  نے فر مایا :

--------------

[1]۔ بحار لانوار:ج52ص145

۲۱۰

 ''....ذٰاکَ الَّذِی یَفْتَحُ اللّٰهُ تَعٰالٰی ذِکْرُهُ عَلٰی یَدَیْهِ مَشٰارِقَ الْاَرْضِ وَ مَغٰارِبَهٰا ، ذٰاکَ الَّذِیْ یَغِیْبُ عَنْ شِیْعَتِهِ وَ اَوْلِیٰا ئِهِ غَیْبَةً لاٰ یَثْبُتُ فِیْهٰا عَلَی الْقَوْلِ بِاِمٰامَتِهِ اِلاّٰ مَنْ اِمْتَحَنَ اللّٰهُ قَلْبَهُ بِالْاِیْمٰانِ ''''قٰالَ :فَقٰالَ جٰابِرُ :یٰا رَسُوْلَ اللّٰهِ فَهَلْ یَنْتَفِعُ الشِّیْعَةُ بِهِ فِیْ غَیْبَتِهِ ؟

فَقٰالَ : ای وَالَّذِیْ بَعْثَنِیْ بِالنُّبُوَّةِ أَنَّهُمْ لَیَنْتَفِعُوْنَ بِهِ وَ یَسْتَضِیْئُونَ بِنُوْرِ وِلاٰیَتِهِ فِی غَیْبَتِهِ کَانْتِفٰاعِ النّٰاسِ بِالشَّمْسِ ،وَاِنْ جَلَّلَهَا السِّحٰابُ ، یٰا جٰابِرُ ،هٰذٰا مَکْنُوْنُ سِرِّ اللّٰهِ وَ مَخْزُوْنُ عِلْمِهِ فَاکْتُمْهُ اِلاّٰ عَنْ أَهْلِهِ ''(1)

 وہ (امام زمانہ  عجل اللہ فرجہ الشریف) جن کے ذکر کو خداوند کریم زمین کے تمام گوشہ و کنار میں آپ  ہی کے ذریعہ پہنچائے گا وہ اپنے شیعوں اور محبوں  سے غائب رہیں گے اس طرح کہ بعض آپ  کی امامت کے منکر ہو جا ئیں گے سوائے ان افراد کے جن کے ایمان کا خداوند کریم نے امتحان لے رکھا ہو ۔

 جابر جعفی کہتے ہیں :جابر بن عباللہ انصاری نے پیغمبر اکرم(ص) کی خدمت میں عرض کی : یا رسو ل(ص) اللہ! کیا شیعہ ان کی غیبت کے زمانے میں ان سے بہرہ مند ہو سکیں گے ؟

 پیغمبر اکرم(ص) نے جواب میں فرمایا :

'' اس خدا کی قسم کہ جس نے مجھے رسالت پر مبعوث کیا وہ افراد آپ  کے وسیلہ سے بہرہ مند ہوں گے ان کی غیبت کے زمانے میں ان کے نور ولایت سے روشنی حاصل کریں گے ،جس طرح لوگ سورج سے بہرہ مند ہو تے ہیں اگر چہ بادل اسے ڈھانکے ہوئے ہوں۔اے جابر!وہ خدا کے مخفی رازوں اور اس کے علم کے خزانو ں میں سے ہے ۔لہٰذا اسے مخفی رکھو مگر اس کے اہل سے''.

--------------

[1]۔ کمال الدین :146اور 147، بحارالانوار:ج36ص250

۲۱۱

جیسا کہ آپ  نے ملا حظہ فرمایا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اس حدیث میں تاکید کے ساتھ قسم کھائی ہے کہ شیعہ امام عصر ارواحناہ فداہ کے زمانہ غیبت میں آپ  کے نور ولایت سے روشنی حاصل کریں گے ۔

کیست بی پردہ بہ خور شید ،نظر باز کند      چشم پوشیدۂ ما،علت پیدائی توست

از لطافت نتوان یافت ،کجا می باشی               جای رحم است بر آن کس کہ تماشایی تست

 اگر چہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف اس زمانے میں غائب ہیں مگر حقیقت میں پردۂ غیبت ہمارے دلوں پر ہے ور نہ امام اس شخص کے لئے چمکتا ہوا نور ہیں جس کا دل آئینہ کی طرح پاک اور صاف ہو خواہ ظاہراً نابینا ہو ۔(1)

 اس حقیقت کی طرف توجہ انسان کی منزل ولایت اور آپ  کے علم اور قدرت کی طرف راہنمائی کرتی ہے اوردلوں کو امام زمانہ  عجل اللہ فرجہ الشریفکی محبت سے سرشار اور آنحضرت  کی آئندہ آنے والی حکومت   کے انتظار کو ایجاد کرتی ہے ۔

--------------

[1] ۔ اس مطلب کی وضاحت کے لئے کتاب اسرار موفقیت ج  2 کے صفحہ نمبر 50سے ابو بصیر کی روایت میں امام باقر  علیہ السلام  کے غائب  ہونے کے واقعہ کی طرف رجوع فرمائیں ۔

۲۱۲

  انتظار کے آثارسے واقفیت

 1۔ مایوسی اور ناامیدی سے کنارہ کشی

 ایسے معاشرے میں جہاںدین کا نام و نشان بھینہ ہو اور لوگ بہتر مستقبل کی فکر میں نہ ہوں تو ویاںقتل وغارت ، خوں ریزی ، خود کشی اور اسی طرح کی دوسری برائیاںوجود میں آتی ہیں ۔ چونکہ لوگ '' منفی عوامل '' جیسے فقر ، تنگدستی ، ظلم و ستم ، تجاوز ، قانون شکنی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور بے اعتنائی جیسے حالات سے دو چار ہوتے ہیں اور ان سے نبرد آزمائی کے حربوں سے ناواقفیت کی وجہ سے گھر ، سماج اور معاشرے کی تباہی دیکھتے ہی مایوسی و ناامیدی میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔

 چونکہ اس کی غیبی طاقت سے مایوس ہو جاتے ہیں لہٰذا ان مشکلوں سے بچنے کے لئے خود کشی کرنے کا ارادہ کرتے ہیں ۔ پھر اس ظلم اور بربریت کو اختیار کرکے صرف اپنی دنیا و آخرت ہی نہیں بلکہ اپنے اہل و عیال نیز رشتہ داروں تک کوبھی اس بھیانک تباہی میں مبتلا کر دیتے ہیں ۔

 وہ شخص جس کے دل میں انظار کی کیفیت موجزن ہے اور ہمہ وقت دنیا کے اندر نورولایت کے چمکنے کی امید میں ہے ، کبھی ایسا ظلم نہیں کر سکتا جو ا اپنے ساتھ پورے معاشرے کی تباہی کا سبب بنے ۔

۲۱۳

 چونکہ وہ انتظار کے مسائل سے واقف ہے اور نا امیدی ومایوسی سے کنارہ کش ہے ۔یہ روایت اسی حقیقت پر دلالت کرتی ہے ۔

'' عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْجَهْمِ قٰالَ سَأَلْتُ أَبَا الْحَسَنِ عَنْ شَیْئٍ مِنَ الْفَرَجِ ، فَقٰالَ : اَوَ لَسْتَ تَعْلَمُ أَنَّ اِنْتِظٰارِ الْفَرَجِ مِنَ الْفَرَجِ ؟ قُلْتُ لاٰ اَدْرِیْ اِلاّٰ اَنْ تُعَلِّمَنِیْ  فَقٰالَ نَعَمْ ، اِنْتِظٰارُ الْفَرَجِ مِنَ الْفَرَجِ '' (1)

حسین بن جہم کہتے ہیں :  میں نے حضرت موسیٰ بن جعفر علیہ السلام سے فرج کے بارے میں دریافت کیا تو امام نے فرمایا : کیا تم نہیں جانتے کہ فرج کا انتظار کشادگی اور وسعت میں ہے ۔ میں نے عرض کیا آپ نے جتنا مجھے بتایا ہے مجھے اس کے سوا نہیں معلوم ۔ امام نے فرمایا: ہاں! فرج کا انتظار کشادگی اور آسائش سے ہے ۔

2۔ روحانی تکامل

 انسان اپنے اندر انتظار کامل کے ایجاد کرنے کے ساتھ کچھ حد تک ظہور امام  کے زمانے کے لوگوں کے جیسے حالات ( تطہیر قلب) پیدا کر کے ،امید وانتظار کے وسیلہ سے اپنے آپ کو نا امیدی و تباہی سے نجات دلاسکتا ہے ۔

--------------

[1] ۔ بحارالانوار :ج۵۲ ص۱۳۰

۲۱۴

 اسی سے متعلق امام صادق علیہ السلام اپنے آباؤ اجداد سے اور اسی طرح  حضرت امیر المومنین  علی ابن ابیطالب علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت  نے فر مایا :

 ''أَفْضَلُ عِبٰادَةِ الْمُؤْمِنِ اِنْتِظٰارُ فَرَجِ اللّٰهِ ''  (1)

''مومن کی سب سے بہترین عبادت یہ ہے کہ وہ خدا سے فرج کا انتظار رکھتا ہو ''

اسی بنا پر انتظار کےذریعہ انسان ظہور امام عجل اللہ فرجہ الشریف  کے بعض آثار تکامل کو اپنے اندر ایجاد کرسکتا ہے ۔ ابوخالد کی اس بات کی وضاحت امام سجاد علیہ السلام کے اس فر مان سے ہو تی ہے :

 ''عَنْ اَبِیْ خٰالِدِ الْکٰابُلِی عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْحُسِیْنِ تَمْتَدُّ الْغَیْبَةُ بِوَلِیِّ اللّهِ الثّٰانِی عَشَرَ مِنْ اَوْصِیٰائِ رَسُوْلِ اللّٰهِ وَ الْأَئِمَّةِ بَعْدِهِ ،یٰا أَبٰاخٰالِدٍ ،اِنَّ أَهْلِ زَمٰانِ غَیْبَتِهِ ،اَلْقٰائِلُوْنَ بِاِمٰامَتِهِ ،اَلْمُنْتَظِرُوْنَ لِظُهُوْرِهِ ،أَفْضَلُ أَهْلِ کُلِّ زَمٰانٍ ،لِاَنَّ اللّٰهَ تَعٰالٰی ذِکْرُهُ أَعْطٰاهُمْ مِنَ الْعُقُوْلِ وَالْاَفْهٰامِ وَالْمَعْرِفَةِ مٰا صٰارَت بِهِ الْغَیْبَةُ عِنْدَ هُمْ بِمَنْزِلَةِ الْمُشٰاهَدَ ِة ،وَ جَعَلَهُمْ فِی ذٰلِکَ الزَّمٰانِ بِمَنْزِلَةِ الْمُجٰاهِدِیْنَ بَیْنَ یَدَیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ بِالسَّیْفِ ،اُوْلٰئِکَ الْمُخْلِصُوْنَ حَقّاً،وَ شِیْعَتُنٰا صِدْقاً ،وَالدُّعٰاةُ اِلٰی دِیْنِ اللّٰهِ سِرّاً وَ جَهْراً وَٰقالَ  : اِنْتِظٰارُ الْفَرَجِ مِنْ أَعْظَمِ الْفَرَجِ '' (2)

ابو خالد کابلی حضرت علی بن الحسین علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت  نے فرمایا :

ولی خدا جو پیغمبر اکرم (ص) کے اوصیاء میں سے بارہویں (خلیفہ ) اور آپ  کے بعد آئمہ اطہار علیھم السلام میں سے ہیں کی غیبت طولانی ہو گی اے ابو خالد!بے شک ان کے زمانۂ غیبت  کے لوگ ، ان کی امامت پر عقیدہ رکھنے والے اور ان ظہور کے منتظر لوگ ہر زمانے کے لو گوں سے افضل ہیں ۔

--------------

[1]۔ بحارالانوار:ج53 ص131

[2]۔ بحار الانوار: ج ۵۲ص۱۲۲

۲۱۵

 کیونکہ خداوند کریم عقلوں کوان کا ذکراس قدر عطا کرے گا کہ ان کے نزدیک غیبت مشاہد ے کی طرح ہو گی اور ان کو اس زمانے میں ان مجاہدین کی طرح قرار دیا جائے گا کہ جنہوں نے پیغمبر اکرم(ص)کے دور میں تلوار سے جہاد کیا ہو حقیقت میں وہی با اخلاص ہیں اور وہ ہمارے سچے شیعہ ہیں اور لوگوں کو ظاہری اور مخفی طور سے بھی دین خدا کی طرف بلاتے ہیں ۔

اس کے بعد امام سجاد  علیہ السلام نے فر مایا : ''ظہور کا  انتظار عظیم ترین فرج میں  سے ہے ۔''

دوست نزدیک تر از من ،بہ من است

وین عجیبتر کہ من از وی دورم

این سخن با کہ توان گفت کہ دوست

در کنار من و من مہجورم

 انتظار کی راہ تکامل تک پہنچنے والیسچے منتظرین اپنے آپ کو حکومت خدا کی غیبی قدرت سے پوری دنیا پر حکومت کے لئے آمادہ کرنے کے اثر سے غیبت کے زمانے میں بعض زمانۂ ظہور کے فردی خواص اور خصوصیات جیسے تطہیر قلب وغیرہ تک رسائی حاصل کرتے ہیں اس حد تک کہ غیبت کا زمانہ ان کے لئے روز روشن کی طرح عیاں ہے اگران کے اندر اس طرح کے اثرات نہ ہو ں تو کس طرح فرج اعظم کا انتظار فرج ہے ؟وہ حالت انتظار کے ساتھ غیبت اور زمانۂ ظہور کے در میان رابطہ قائم کرتے ہیںاور اس زمانے کے بعض حالات کوغیبت کے زمانے میں پا لیتے ہیں ۔(1)

--------------

 [1] ۔ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ  مرحوم بحر العلوم اور مرتضی ٰ شیخ انصاری  جیسے بہت کم افراد  ایسے حالات تک رسائی حاصل کرتے ہیں ۔

۲۱۶

 مرحوم شیخ انصاری امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے شریعت کدہ پر

 دلوں کو منور کرنے والا واقعہ دنیا ئے تشیع کی اس عظیم شخصیت کا ذکر ہے جس نے ظاہری اور باطنی دونوں محاذوں  پر غیبی امداد اور قوت سے دین مبین کی حفاظت کی ۔

 شیخ انصار ی کے ایک شاگرد ، آپ کے امام  علیہ السلام سے تعلق اور امام  علیہ السلام کے شریعت کدہ پر شرفیابی کو یوں بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی غرض سے کربلا پہنچا۔ انہی ایام میں ایک بار میں آدھی رات کے وقت حمام جا نے کے لئے گھر سے باہر آیا ، چونکہ گلیوں میں کیچڑ و غیرہ زیادہ تھا لہذا میں نے اپنے ساتھ ایک شمع بھی لے لی اور میں  اس کی مدہم روشنی میں چلنے لگا ۔ کچھ فاصلے پر ایک شخص نظر آیا میں نے محسوس کیا جیسے شیخ انصاری ہو ں ۔  راستہ طے کرکے جیسے ہی قریب ہوا تو یقین ہو گیا آپ ہی ہیں ۔میں نے سو چا یہ حضور اس تاریکی میں کہاں تشریف لے جا رہے ہیں جب کہ آپ کی بینا ئی بھی کمزور ہے ۔میں نے سو چا کہیں کو ئی آپ کا تعاقب نہ کر رہا ہو کہ جو آپ کو نقصان پہنچا ئے لہٰذا خاموشی سے آپ کے پیچھے چلنے لگا ۔کچھ دور چلنے کے بعد وہ ایک پرا نی ساخت کے مکان کے دروازے پر کھڑے ہو ئے اور خلو ص نیت کے ساتھ زیارت جامعہ پڑھنے لگے ۔

زیارت سے فارغ ہو تے ہی اس مکان میں داخل ہو ئے ۔پھر میں نے کچھ نہیں دیکھا صرف آپ کی آواز آرہی تھی ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ آپ کسی سے ہم کلام ہیں ۔میں وہاں سے پلٹا پھر حمام گیا اور اس کے بعد حرم مطہر گیا وہاں میں نے شیخ  کو دیکھا ۔

۲۱۷

 اس سفر سے واپس آکر میں نجف اشرف میں شیخ کی خدمت میں پہنچا اور اس رات والے واقعہ کو دہرایا اور اس کی تفصیل پو چھی ،پہلے تو شیخ نے انکار کیا لیکن مزید اصرار پر آپ  نے فر مایا :

جب امام  سے ملاقات کی خواہش ہوتی ہے تو میں اس گھر کے دروازے پر چلا جاتا ہوں ،جسے تم اب کبھی نہیں دیکھ پا ؤگے ،زیارت جامعہ پڑھنے کے بعد اذن طلب کرتا ہوں ۔اگر اجازت مل جاتی ہے تو آنحضرت  کی خدمت میں فیضیاب ہو تا ہوں ۔جو مسائل میری سمجھ سے بالا ہوتے ہیں آپ  اسے بطور احسن حل فر ماتے ہیں ۔

پھر شیخ  نے فرمایا:اور سنو جب تک میں زندہ ہوں اس واقعہ کو چھپا ئے رکھنا ۔ہرگز کسی کے سامنے بیان نہ کرنا ۔(1)

 اسی طرح اور دوسری بزرگ شخصیتیں بھی ہیں جنہوں نے امام  سے بارہا ملاقات کی ہے اور اپنے آپ کو حضرت  کے ظہور کے لئے ہمہ وقت آمادہ رکھتے تھے ان لوگوں کی طرح نہیں کہ جو قرآنی آیتوں کی تأ ویل اور توجیہ کریں گے نیز آنحضرت  کے ساتھ جنگ بھی کریں گے ۔

کلید گنج سعادت فتد بہ دست کسی

کہ نخل ہستی اورا بود بَرِ ہنری

چو مستعد نظر نیستی ،وصال مجوی

کہ جام جم ندہد سود ،وقت بی بصری

--------------

[1] ۔ زندگانی و شخصیت شیخ انصاری  : 106

۲۱۸

  کامیابیوں کی کلید اور محرومیوں کے اسباب

 یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے :کس طرح ہر دفعہ شیخ اجازت حاصل کر لیتے تھے اور امام  عجل اللہ فرجہ الشریف  کے شریعت کدہ میں زیارت جامعہ کے پڑھتے اور اجازت لے کر ساتھ بیت الشرف میں داخل ہوتے اور اپنے مہربان امام  عجل اللہ فرجہ الشریف کے ساتھ گفتگو کرتے ؟

 انہوں نے کس طرح یہ مرتبہ حاصل کیا تھا ؟نیز ان کے شاگردنے بھی امام عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کے بیت الشرف کو دیکھا اس کے باوجودیہ افتخار نہیں رکھتے تھے چونکہ مرحوم شیخ   نے ان سے فر مادیا تھا کہ اس کے بعد تم اس بیت الشرف کو کبھی نہیں دیکھ پا ؤگے ۔

 یہ سوال اہم ہے اور اس کا اطمینان بخش  جواب دینا بھی ضروری  ہے ۔  افسوس کی بات ہے کہ بعض افراد اس طرح کے سوالات کے لئے پہلے سے تیار شدہ جواب رکھتے ہیں اور مقابل کو فوراً جواب دیتے ہیں :خدا نے اسی طرح چا ہا ہو گا یا خدا ان میں سے (نعوذ باللہ ) بعض افراد کے ساتھ رشتہ داری  اور ان کے قوم و قبیلہ سے اپنا ئیت رکھتا ہے اور کسی قسم کا ارتباط پیدا کرنے  کے لئے دوسرے لوگوں کے طلب کرنے کی ضرورت نہیں ہے !

 اس قسم کے جوابات عموما ً ذمہ داریوں سیجان چھڑانے کا طریقہ ہیںلیکنیہ صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ نہ ہی جوابات قانع کنندہ ہیں اور نہ ہی ان سے کبھی کسی کو راہ  تکامل کی طرف راہنمائی کرسکتے ہیں ہم اس سوال کا جواب خاندان وحی علیھم السلام کے فرا مین کی روشنی  میں دیں گے ۔

۲۱۹

خداوند عالم نے تمام انسانوں کو رو حانی کمال اور معنویت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے اور اپنی عمومی دعوت میں جو کوئی بھی اس راہ میں قدم بڑھائے اجر اور بدلہ عنایت کیاہے اسی طرح کہ جیسے میزبان اپنے مہمانوں کو دعوت کرتا ہے اور سب کی شرکت کی صورت میں خدمت اور پذیرائی کرتا ہے،نیزخداوند کریم نے بھی کمال و ارتقاء کا زمینہ ہر انسان کے لئے فرا ہم کیا ہے ۔اور اسی طرح ان کو  تکامل کی طرف دعوت دی ہے اور قرآن مجید میں صریحاً فر مایا ہے :

 (وَالَّذِیْنَ جٰاهَدُوْا فِیْنٰا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلُنٰا ) (1)

''جو بھی ہماری راہ میں کو شش کرے ہم ضرور اسے اپنی راہ میں ہدایت کریں گے ''

 مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ خدا کی دعوت کا جواب دیں اور روحانی کمال اور معنوی کارتقاء کی راہ میں  قدم بڑھائیں ۔لہٰذایہ بات مسلم ہے کہ انسان کے اندر ارتقاء کا مادہ موجود ہے اور وہ اس قدرت سے بہرہ مند بھی ہے، لیکن اس سے استفادہ نہیں کرتا جیسے تنگ نظر  اور چحوٹی سوچ کے مالک دولت مند افراد ہمیشہ بینک اکاؤنٹ پر کرنے میں لگے رہتے ہیں اور اس سے خوشحال رہتے ہیں ، انہیں کبھی بھی اس مال و دولت سے استفادہ کرنے کی توفیق نہیں ہوتی ۔کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ موجودہ قوتوں اور توانائیوں سے استفادہ کیا جائے  تاکہ اپنے خسارے اور گھاٹے کا جبران ہو سکے اور عظیم مقاصد تک رسائی حاصل ہو سکے ۔بہت سارے لوگ روحانی اور معنوی کمال تک پہنچنے کی ذاتی طور پر بہت زیادہ آمادگی اور توانائی رکھتے ہیں چونکہ ان امور کے ساتھ ان کا کوئی کام نہیں ہوتا لہٰذا اس قسم کی تمام تر توانائیوں سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرتے یہاں تک کہ دنیا کو خیر آباد کہہ دیتے ہیں اور ان توانائیوں کو اپنے ساتھ زیر خاک لے جاتے یتے ہیں

--------------

[1]۔ سورۂ عنکبوت ، آیت: 69

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

۱۱_ الله تعالى نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان پر ايمان لانے والوں كو اپنى عبادت سے انحراف اور شرككى طرف ميلان ركھنےسے منع فرمايا ہے_ولاتطغو

(طغيان) (لاتطغوا) كا مصدر ہے جو حد سے تجاوز كرنے كے معنى ميں آتا ہے _ يہاں طغيان كا مصداق، گذشتہ آيات جو شرك و توحيد كے بارے ميں تھيں كو مد نظر ركھتے ہوئے، توحيد سے انحراف اور شرك كى طرف جھكاؤ ہے_

۱۲_ شرك اور غيرالله كى پرستش كرنا، طيغانى اور حقيقت سے تجاوزنے كے مترداف ہے_

۱۳_ دين كے مبلغين، توحيد اور احكام الہى كے پرچار ميں اپنے معين كيے ہوئے حدود و قوانين سے تجاوز نہ كريں _

فاستقم كما امرت ولاتطغو

مذكورہ بالا مطلبہ (لاتطغوا ) كو (فاستقم ) سے ارتباط دينے سے حاصل ہوا ہے _ اور (لاتطغوا) كا متعلق( استقامت) كو ليا گيا ہے يعنى اپنے ثابت قدم ہونے ميں بھى طغيان و تجاوز نہ كرنا بلكہ قوانين الہى كو سامنے ركھتے ہوئے عمل كرنا _

۱۴_الله تعالى انسانوں كے اعمال كو ديكھتا ہے اور ان كے تمام اعمال سے آگاہ ہے _انه بما تعملون بصير

۱۵_ دين الہى ميں استقامت،اور توحيد پر ثابت قدم رہنا ،اجر الہيكا موجب ہے _فاستقم انه بما تعملون بصير

اوامر و نواہى كے بعد يہ ذكر كرنا كہخداوند عالم بندوں كے اعمال سے آگاہى و علم ركھتا ہےيہ سزا و جزا دينے كى طرف اشارہ ہے _

۱۶_ الله تعالى كے مقابلے ميں تجاوز و سركشى كرنا اور شرك كى طرف جھكاؤ اور غير الله كى پرستش كرنا،خداوند عالم كى سزا كا موجب ہے _ولاتطغوا انه بما تعملون بصير

۱۷_ انسانوں كے اعمال و رفتار پر الله تعالى كى نظارت اور آگاہى كا يقين اور عقيدہ،دين كے راستے ميں ثابت قدمى اور استقامت كا موحب ہے _فاستقم كما امرت و من تاب معك انه بما تعملون بصير

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور شرك عبادى ۱۱;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى استقامت ۱، ۲، ۳،۴ ; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى ۳،۴;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى شرعى ذمہ دارى ۱; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى مشكلات۵

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۵

استقامت:

۳۲۱

استقامت كے عوامل ۹، ۱۰، ۱۷; استقامت كے موانع ۸

اسمأ و صفات :بصير ۱۴

اقرار :توحيد كا اقرار ۶

الله تعالى :الله تعالى اور انسانوں كا عمل ۱۴; الله تعالى كا علم غيب ۱۴;الله تعالى كى بصيرت ۱۴; الله تعالى كى نواہى ۱۱;الله تعالى كے اوامر ۱

الله تعالى كى طرف لوٹنا :۶

ايمان :آخرت كى سزا پر ايمان ۱۰;آخرت ميں جزا پر ايمان ۱۰;ايمان كے آثار ۱۰

پادرش:پادرش كے اسباب۱۵

تبليغ:تبليغ كا طريقہ ۱۳;تبليغ كى آسيب شناسي۱۳

تجاوز :تجاوز كے موارد ۱۲

توحيد:توحيد پر استقامت ۱، ۲، ۹; توحيد پر استقامت كى جزاء ۱۵; توحيد كى تبليغ ميں استقامت ۳

جذبہ:جذبے سے اسباب۹،۱۰

دين :تبليغ دين ميں استقامت ۳

دينداري:ديندارى ميں استقامت ۵، ۱۰، ۱۷; دين دارى ميں استقامت كى جزائ۱۵; صدر اسلام ميں ديندارى ۵

ذكر :الله كى آخرت ميں قضاوت كا ذكر ۱۰; الله كى نظارت كا ذكر۷ ۱; الله كے علم كا ذكر ۱۷; انبياء كے واقعات كا ذكر ۹; كافروں كى عاقبت كا ذكر ۹; مؤمنين كى عاقبت كا ذكر ۹

سزا :سزا كے اسباب ۱۶

شرك :شرك سے منع كرنا ۱۱شرك كى حقيقت ۱۲; شرك كى سزا ۱۶

شك :شك كے آثار ۸

صحابہ :

۳۲۲

اسلام سے پہلے والے صحابہ ۷; صحابہ اور شرك ۷ ; صحابہ كى توبہ ۷

طغياني:طغيانى كى سزا۱۶; طغيانى كے موارد۱۲

عبادت :غير الله كى عبادت كے آثار ۱۶;عبادت ميں استقامت ۱، ۲، ۹

مبلّغين :مبلّغين كى ذمہ دارى ۱۳

مسلمين :صدر اسلام كے مسلمين كى مشكلات ۵

مومنين :مؤمنين اور شرك عبادى ۱۱; مؤمنين كى استقامت ۲، ۳; مؤمنين كى ذمہ دارى ۲، ۳

نافرمانى :الله تعالى كى نافرمانى ۱۶;كى نافرمانى كى سزاء ۱۶

نظريہ كائنات:نظريہ كائنات اور ايڈيالوجى ۱۰، ۱۷

آیت ۱۱۳

( وَلاَ تَرْكَنُواْ إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُواْ فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللّهِ مِنْ أَوْلِيَاء ثُمَّ لاَ تُنصَرُونَ )

اور خبردار تم لوگ ظالموں كى طرف جھكائو اختيار نہ كرنا كہ جہنم كى آگ تمھيں چھولے گى اور خدا كے علاوہ تمھارا كوئي سرپرست نہيں ہوگا اور تمھارى مدد بھى نہيں كى جائے گي(۱۱۳)

۱_ ستم گروں اور ظالموں پر بھروسہ اوران كى طرف ميلان ركھنا ، حرام اور گناہ كبيرہ ہے _(ولاتركنوا الى الذين ظلموا )(الركون الى شيء ) كسى شے كى طرف تمايل اور اس پر اعتماد كرنے كے معنى ميں ہے_

۲_ ستم گروں اور ظالموں پر اعتماد و تمايل ركھنا، جہنم كى آگ ميں گرفتار ہونے كا سبب ہے _

ولاتركنوا الى الذين ظلموا فتمسكم النّار

۳_ ظلم و ستم كرنے والے، جہنم كى آگ ميں ڈالے جائيں گے _فتمسكم النار

(فتمسكم النار ) كا جملہ بتاتا ہے كہ ظالموں پر اعتماد كرنا، آگ ميں جانے كا موجب ہے اور يہ معنى بتاتا ہے كہ خود ظلم و ستم كرنے والے بھى جہنم

۳۲۳

كى آگ ميں ڈالے جائيں گے _(فتمسكم) سے يہ بھى معنى ليا جاسكتا ہے كہ خود ظالم لوگ آگ كى مانند ہيں ان كا سہا را يا ان پر اعتمار كرنے سے آگ تمھيں بھى اپنى لپيٹ ميں لے گي_

۴_ شرك ،غيرالله كى عبادت اور ظلم كرنا، آتش دوزخ ميں ڈالے جانے كا سبب ہيں _

ولاتركنوا الى الذين ظلموا فتمسكم النار

ظلم كے مصداق جو مورد نظر ہيں گذشتہ آيات كو مدنظر ركھتے ہوئے وہ شرك اور غير الله كى عبادت كرنا ہيں _

۵_ مسلمانوں كو چاہيئے كہ اپنے دين مبين كو محكم كرنے كے ليے اور اس كے مقاصد كى تكميل كے ليے ظالم و ستمگروں پر بھروسہ نہ كريں اورنہ ہى ان سےمدد طلب كريں _فاستقم كما امرت و من تاب معك ولاتركنوا الى الذين ظلمو

دين كى راہ ميں استقامت دكھانے كا حكم آنے كے بعد ظالم لوگوں كى طرف تمايل اور ان پر بھروسہ كرنے سے منع كرنا ، مؤمنين كو خبردار كرنا ہے كہ ايسا نہ ہو كہ اپنے مقاصد ( دين كى راہ ميں استقامت اور اس كے مقاصد كى تكميل ) كے ليے ظالموں پر اعتماد كريں اور ان سے مد د حاصل كريں _

۶_ توحيد و دين كو پھيلانے كے ليے ظالموں پر اعتماد كرنا ، طغيان گرى اور شرعى حدود سے نكل جانا ہے_

فاستقم كما امرت لاتطغوا ولاتركنوا الى الذين ظلمو

(لاتركنوا ) كا جملہ ممكن ہے كہ (لا تطغوا ) كا مصداق ہو اور (كما امرت ) كى تفسير ہو_

۷_ ستمگر لوگ كبھى بھى اہل ايمان كو ان كے توحيدى مقاصدميں ترقى و تكميل كے ليے مدد نہيں كريں گے_

ولاتركنوالى الذين ظلموا مالكم من دون الله من اولياء

۸_ ہدف ،وسيلہ كى توجيہہ و تاويل نہيں كرسكتا _فاستقم كما امرت ولاتطغوا ولاتركنوا الى الذين ظلمو

۹_ فقط الله تعالى ہى انسانوں كا سرپرست اور مددگار ہے_وما لكم من دون الله من اولياء

۱۰_ الله تعالى كى سرپرستى اور ولايت كو قبول نہ كرنا، انسان كو مختلف اولياء و سرپرستوں كے جال ميں گرفتار كرديتا ہے _

و مالكم من دون الله من اولياء

معنى و مقصود (كہ خدا كے علاونہ كوئي سرپرست نہيں ) كو سمجھا نے كے ليے جمع '' اوليا''كى جگہ مفرد ''ولى '' كو لانا كافى تھا ليكن جمع كو ذكر كرنا مختلف نكات كى طرف اشارہ ہے اور مذكورہ بالا نكتہ ان ميں سے ايك ہے_

۱۱_ ظالم لوگ ،ولايت اور سرپرستى كے لائق نہيں ہيں _ولاتركنوا الى الذين ظلموا و مالكم من دون الله من اولياء

۳۲۴

۱۲_ فقط الله تعالى عزّوجل پر بھروسہ اور اس سے مدد كرنے سے ہى دين كو محكم اور اس كے مقاصد كى تكميل كى جاسكتى ہے _فاستقم كما امرت و مالكم من دون الله من اولياء

مذكورہ بالا تفسير، (فاستقم ..) كو جملہ (ما لكم من دون الله من اولياء ) سے ارتباط دينے سے حاصل ہوئي ہے _

۱۳_ جہنم كى آگ ميں گرفتار ہونے والوں كو كوئي بھى نجات نہ دے گا اور نہ كوئي ان كى مدد نہ كرسكے گا _ثم لاتنصرون

۱۴_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قول الله عزوجل : (ولاتركنوا الى الذين ظلموا ...) قال: هو الرجل يأتى السلطان فيحب بقائه الى ان يدخل يده الى كيسه فيعطيه (۱)

امام صادقعليه‌السلام سے الله تعالى كے اس قول (لاتركنوا الى الذين ظلموا )كے بارے ميں روايت ہے كہ ظالم پرركون كا معنى يہ ہے كہ انسان،ظالم سلطان كے پاس چلاجائے اور دوست ركھتا ہو كہ يہ زندہ رہے اور اپنى جيب ميں ہاتھ ڈال كر اسے ديتا ہے_

۱۵_عن رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم من مدح سلطاناً جائراً و تخفّف و تَضَعضَع له طمعاً فيه كان قرينه الى النار قال الله عزوجل : (ولاتركنوا الى الذين ظلموا فتمسكم النار) (۲)

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روايت ہے كہ اگر كوئي شخص اپنے طمع كى خاطر سلطان جائر كى خوشامد كرے اور اس كے مقابلے ميں اپنے آپ كو ذليل كرے تو جہنم ميں اس كا ساتھى ہوگا اس لئے كہ الله تعالى نے فرمايا :ولاتركنوا

۱۶_عن على بن الحسين عليه‌السلام (فى حديث طويل ) ولا تركنوا الى الدنيا فان اللّه عز و جل قال لمحمد صلى اللّه عليه و آله و سلم :( و لا تركنوا لى الذين ظلمو ا فتمسكم النار ) و لا تركنوا الى زهرة الدنيا و ما فيها ركون من اتخذها دار قرار و منزل استيطان ...)(۳)

امام سجادعليه‌السلام سے (طويل حديث كے ضمن ميں ) يہ روايت ہے كہ دنيا پر اطمينان و اعتماد نہ كريں كيونكہ الله تعالى نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو فرمايا(ولا تركنوا ...) اوردنيا كى زيبائي اور جو كچھ اس ميں ہے اس پر اس طرح اطمينان و اعتماد نہ كرنا ، جس طرح كوئي اپنے گھر ميں ہميشہ رہنے كے ليے اس سے دل باندھ لے _

____________________

۱) كافى ، ج ۵، ص ۱۰۸، ح ۱۲; نورالثقلين ، ج۲، ۴۰۰، ح۲۳۱_۲) امالى صدوق ، ص ۳۴۷، ح ۱، مجلس ۶۶_ بحارالانوار ، ج ۷۲، ص ۳۶۹، ح۳_

۳) كافى ، ج ۸، ص ۷۵، ح ۲۹; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۴۰۰، ح۲۳۱_

۳۲۵

۱۷_عن ابى عبدالله عليه‌السلام (فى قوله تعالى ) ''ولا تركنوا الى الذين ظلمو افتمسكم النار '' قال : اما انه لم يجعلها خلوداً و لكن تمسكم النار فلا تركنوا اليهم (۱)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے ( الله تعالى كے اس قول ولا تركنوا ...) كے بارے ميں روايت نقل ہوئي ہے كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا خبردار رہيں كہ الله تعالى نے (ظالم لوگوں پر اعتماد و بھروسہ كرنے والوں كے ليے)ہميشگى جہنم قرار نہيں دى ہے _ليكن تم اس كى لپيٹ ميں آسكتے ہو اس سے ظالموں پر اطمينان اور بھروسہ كرنے سے پرہيز كرو_

۱۸_عن النبى صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قال و قال لقمان لابنه : يا بنيّ ان كنت صالحاً فابعد من الاشرار و السفهاء فربّما اصابهم الله بعذاب فيصيبك معهم فقد افصح الله سبحانه و تعالى بقوله و و قال سبحانه: و لا تركنوا الى الذين ظلموا فتمسكم النار (۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روايت ہے كہ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ لقمان حكيم نے اپنے فرزند سے كہا كہ اگر تم مؤدب انسان ہو تو، كم ذہين اور شرير لوگوں سے دورى اختيار كرو _ كيونكہ ممكن ہے الله تعالى ان پر عذاب كو نازل كردے اور وہ عذاب تمھيں بھى گھير لے اور الله تعالى نے واضح طور پر فرمايا ہے و( و لا تركنوا الى الذين ...)

الله تعالى :الله تعالى كى ولايت ۹;الله تعالى كى ولايت سے منہ پھيرنے كے آثار ۱۰; الله تعالى كے مختصّات ۹

احكام : ۱//انسان :انسانوں كا مددگار ۹

اہل جہنم :اہل جہنم كا بے يارو مددگارہونا۱۳

تبليغ:تبليغ كا طريقہ ۱۲//تجاوز :تجاوز كے موارد ۶

توكل :الله تعالى پر توكل كے آثار ۱۲

جہنم :جہنم كے اسباب ۲، ۴، ۱۵;جہنم ميں ہميشہ كے ليے رہنا ۱۷

جھكاؤ:ظالموں كى طرف جھكاؤ ۱۴; ظالموں كى طرف جھكاؤ كا گناہ ۱; ظالموں كى طرف جھكاؤ كى حرمت ۱; ظالموں كى طرف جھكاؤ كى سرزنش ۱۸;

____________________

۱) تفسير عياشى ، ج ۲ ، ص ۱۶۱، ح ۷۲; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۴۰۰، ح ۲۳۳_

۲) بحار الانوار ، ج ۷۱، ص ۱۸۹، ح ۱۸_

۳۲۶

اظالموں كى طرف جھكاؤ كى نہى ۵;ظالموں كى طرف جھكاؤ كے آثار ۲، ۱۵

دينا كو طلب كرنا :دنيا كو طلب كرنے كى سرزنش ۱۶;دنيا كو طلب كرنے كے آثار ۱۶

ديندارى :ديندارى ميں استقامت ۵، ۱۲

راويت :۱۴، ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۱۸

شرك :شرك كے آثار ۴; شرك كأظلم ۴

طغيان:طغيانى كے موارد۶

ظالمين :ظالم اور توحيد ۷; ظالم اور مومنين ۷; ظالم اور ولايت ۱۱;ظالموں پر اعتماد ۶;ظالموں پر اعتماد كرنے كے آثار ۲; ظالموں پر اعتماد كرنے سے نہي۵;ظالموں پر اعتماد كرنے كى حرمت ۱ ; ظالموں كا انجام ۳; ظالموں كا جہنم ميں ہونا ۳; ظالموں كا نالائق ہونا ۱۱;

ظلم :ظلم كے موارد ۴

عبادت :غير الله كى عبادت كأظلم ہونا ۴;غير الله كى عبادت كے آثار ۴

عذاب :عذاب كے اسباب ۱۸

گناہان كبيرہ : ۱

محرمات :۱

مدد طلب كرنا :الله تعالى سے مدد طلب كرنے كے آثار ۱۲; ظالموں سے مدد طلب كرنا ۵

مسلمين :مسلمين اور ظالمين ۵; مسلمين كى ذمہ دارى ۵

مومنين :مومنين كى امداد كرنا ۷

نظريہ كائنات :توحيدى نظريہ كائنات ۹

ولايت :غير الله كى ولايت كو قبول كرنے كا سبب ۱۰

ولى :ولى كے شرائط ۱۱

ہدف و وسيلہ : ۸

۳۲۷

آیت ۱۱۴

( وَأَقِمِ الصَّلاَةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفاً مِّنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّـيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ )

اور پيغمبر آپ دن كے دونوں حصوں ميں اور رات گئے نماز قائم كريں كہ نيكياں برائيوں كو ختم كردينے والى ہيں اور يہ ذكر خدا كرنے والوں كے لئے ايك نصيحت ہے (۱۱۴)

۱_نماز يوميہ كو اس كے مقررہ وقت ميں بجالانا، ضرورى ہے_و اقم الصلوة طرفى النهار و زلفاً من الّيل

۲_ دن كے دو طرف ( صبح و عصر يا صبح و مغرب ) اور رات كے شروع ہونے كا وقت، نماز كے مقررہ، اوقات ہيں _

و اقم الصلوة طرفى النهار و زلفاً من الّيل

(طرف) جانب اور كنارہ كو كہتے ہيں _ دن كے دونوں طرف ( صبح و عصر يا صبح و مغرب) پر صدق كرتے ہيں _(زُلَف ) ( زلفة) كى جمع ہے_ جو رات كى پہلى گھڑيوں كو كہا جاتا ہے _ جو مغرب و عشا كا وقت ہے_

۳_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو لوگوں كے ليے اقامہ نماز كا نمونہ ہونا چاہيئے_و اقم الصلاة

مفسرين كا خيال ہے كہمذكورہ آيت شريفہ ميں نماز سے مراد، نماز يوميہ ہے اور يہ نماز تمام لوگوں پر واجب ہے _ لہذا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اقامہ نماز كے ليے مخاطب قرار دينا، مذكورہ بالا تفسير كى طرف اشارہ ہوسكتا ہے_

۴_ نماز كا قائم كرنا، دين كے راستے ميں استقامت اور تبليغ كر نے كا ذريعہ ہے_فاستقم كما امرت و اقم الصلاة

۵_ نيك كاموں كو انجام دينا، برے كاموں كو ترك كرنے كا سبب ہيں _ان الحسنات يذهبن السيئات

(يذہبن السيئات ) برائيوں كا مٹ جانا، اس معنى كا احتمال ديتاہے كہ برے كام اصلا وجود ميں

۳۲۸

نہيں آئے اس بنياد پر اس بنياد پر (انّ الحسنات ) كا جملہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ نيك كام كرنے سے انسان كے اندر يہ صالحيت پيدا ہو جاتى ہے كہ وہ برے كاموں كى طرف نہيں جاتا_

۶_ نيك كاموں كو انجام دينے سے گناہوں كى بخشش ہوجاتى ہے_ان الحسنات يذهبن السيئات

مذكورہ تفسير اسى صورت ميں ہے كہ جب ہم (يذهبن السيئات ) كا معنى ،گناہوں كا ختم ہو جانا كريں تو اس بناء پر جملہ (انّ الحسنات .) يہ بتاتا ہے كہ انسان كا نيك كام كرنا، برے كاموں كو ختم كرديتا ہے اور انسان بخشا جاتا ہے_

۷_ دن را ت كى نمازيں ، نيك كاموں كا واضح ترين مصداق ہيں _و اقم الصلاة ان الحسنات يذهبن السيئات

۸_ يوميہ نمازيں ، ناروا كاموں كے ترك كرنے اور گناہوں كى بخشش كا ذريعہ ہيں _

و اقم الصلاة ان الحسنات يذهبن السيئات

۹_ نماز يوميہ كے اقامة كا حكم، الله تعالى كے مواعظ اور مہم نصيحتوں ميں سے ہے_و اقم الصلاة ذلك ذكرى

(ذلك ) كا مشاراليہ اس آيت كے تمام دستورات اور ما قبل دو آيات كے دستورات كو شامل ہے_ اور مذكور معنى (ذلك ذكرى ) كو (اقم الصلاة) كے ساتھ ملا كرحاصل ہوا ہے _ (ذلك) كا اشارہ دور كے ليے ہوتا ہے ليكن يہاں اسكا نزديك كے ليے استعمال ہونا، مشار اليہ كى عظمت اور اہميت كى طرف اشارہ كرتا ہے_

۱۰_ نماز، الله تعالى كو ياد كرنے اور اسكو فراموش نہ كرنے كا ذريعہ ہے_و ا قم الصلاة ذلك ذكرى

۱۱_ دين پر ثابت قدمى كا ضرورى ہونا ، نافرمانى اور سركشى سے پرہيز كرنا ، ظالم اور ستم گر لوگوں كى طرف جھكاؤ اور ان پر اعتماد نہ كرنا ، الله تعالى كے مواعظ اور مہم نصيحتوں ميں سے ہے_

فاستقم كما امرت و لا تطغوا و لا تركنوا الى الذين ظلموا ذلك ذكرى للذكرين

۱۲_ نيك كاموں كے سبب گناہوں كا محو ہوجانا، اس ذات اقدس كى ياد كو باقى ركھنے كے ليے مناسب ترين حقيقت ہے _

ان الحسنات يذهبن السيئات ذلك ذكرى للذاكرين

۱۳_ صرف نصيحت حاصل كرنے والے ہى الله تعالى كے مواعظ اور نصيحتوں سے نصيحت حاصلہيں گے_ذلك ذكرى للذاكرين

زمخشرى نے كتاب كشاف ميں (ذكرى ) كا معنى موعظہ اور ( ذاكرين ) كا معنى نصيحت قبول كرنے والے كيا ہے_

۳۲۹

۱۴_عن ابى جعفر عليه‌السلام ( فى حديث) و قال تبارك و تعالى ''اقم الصلاة طرفى النهار '' و طرفاه صلاة المغرب و الغداة '' و زلفاً من الليل '' فهى صلاة العشاء الأخرة (۱)

امام باقرعليه‌السلام سے ايك حديث كے ضمن ميں روايت ہوئي ہے _ ...كہ خداوند عالم فرماتا ہے (اقم الصلاة طرفى النهار ) اس كے دونوں طرف سے مراد ، نماز مغرب اور صبح ہے اور فرمايا كہ(زلفاً من الليل ) سے مراد، نماز عشاء ہے_

۱۵_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قول الله عزوجل : ''انّ الحسنات يذهبن السيئات ''قال : صلاة المؤمن بالليل تذهب بما عمل من ذنب بالنهار (۲)// امام جعفر صادقعليه‌السلام سے آيت شريفہ (ان الحسنات يذهبن السيئات ) كے بارے ميں روايات نقل ہوئي ہے كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ اس سے مراد يہ ہے كہ مومن كى رات والى نماز، اس كے دن كے تمام انجام شدہ گناہوں كو پاك كرديتى ہے_

۱۶_عن على عليه‌السلام انه قال : الصلوات الخمس كفّارة لما بينهنّ ما اجتنبت الكبائر و هى التى قال اللّه عزّوجل : '' ان الحسنا ت يذهبن السيئات '' (۳)

امير المؤمنينعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہيں كہ پانچ وقت كى نماز ميں ان گناہوں كا كفارہ ہے جو انسان ان نمازوں كے در ميان فاصلہ ميں انجام ديتا ہے بشرطيكہ گناہ كبيرہ سے اجتناب كرتا ہواوريہى الله تعالى كے فرمان(ان الحسنات يذہبن السيئات )كا معنى ہے_

۱۷_عن امير المؤمنين عليه‌السلام : ان اللّه تعالى يكفّر بكل حسنة سيئة قال الله عزوجل: (ان الحسنات يذهبن السيئات ) (۴)

اميرالمؤمنينعليه‌السلام سے روايت ہے كہ الله تعالى ہر نيك عمل كے بدلے ميں ايك برائي كو مٹاديتا ہے _ الله تعالى عزّوجل ّفرماتا ہے:'' ان الحسنات يذهبن السيئات''

۱۸_عن رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : يهّم العبد ...

____________________

۱) معانى الأخبار ، ص ۳۳۲، ح ۵; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۴۰۰، ح ۲۳۴_۲) كافى ، ج ۳ ، ص ۲۶۶، ح ۱۰; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۴۰۱، ح ۲۳۴_

۳) دعائم الاسلام ، ج ۱ ، ص ۱۳۵; بحار الانوار ، ج ۷۹، ص ۲۳۳، ح ۵۷_

۴) امالى شيخ طوسى ، ج ۱ ، ص ۲۵; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۴۰۲، ح ۲۳۸_

۳۳۰

بالسيئة ا ن يعملها و ان هو عملها ا جّل سبع ساعات و قال صاحب الحسنات لصاحب السيئات لا تعجل عسى ان يتبها بحسنة تمحوها فان اللّه عزّوجل يقول: ''انّ الحسنات يذهبن السيئات'' (۱)

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روايت نقل ہوئي ہے كہ جب كوئي الله كا بندہ نامناسب كام كو انجام دينے كا ارادہ كرتا ہے اوراگر اس كام كو انجام دے ديتا ہے_ تو سات گھنٹوں تك اسے مہلت دى جاتى ہے اور نيك كاموں كو لكھنے والا فرشتہ ، برے كاموں كو لكھنے والے فرشتہ سے كہتا ہے :كہ تم جلدى نہ كرو ممكن ہے كہيہ كسى نيك كام كو انجام دے اور يہ برائي مٹ جائے الله تعالى فرماتا ہے : (ان الحسنات يذهبن السيئات )

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى ۳; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نماز۳

احكام : ۱، ۲

استقامت :استقامت كا پيش خيمہ ۴

الله تعالى :الله تعالى كے مواعظ ۹، ۱۱;الله تعالى كے مواعظ سے عبرت لينا ۱۳

بخشش:بخشش كے اسباب ۶، ۸

بيزارى :ظالموں سے بيزارى كى اہميت ۱۱

دين :دين كى تبليغ ۴

ديندارى :ديندارى ميں استقامت ۴; ديندارى ميں استقامت كى اہميت ۱۱

ذكر :الله كےذكر كا طريقہ ۱۰; گناہ سے كفارہ كا ذكر ۱۲

روايت :۱۴، ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۱۸

عمل :پسنديدہ عمل كے آثار ۵، ۶، ۱۲، ۱۵،۱۶، ۱۷، ۱۸; پسنديدہ عمل كے موارد ۷; ناپسند عمل سے اجتناب ۵،۸

گناہ :گناہ كے كفارہ كے اسباب ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۱۸

لوگ :

____________________

۱)كافى ، ج ۲ ، ص ۴۲۹، ح ۴ ; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۴۰۱ ، ح ۲۳۵_

۳۳۱

لوگوں كا نمونہ ۳

نافرمانى :نافرمانى سے اجتناب كى اہميت ۱۱

نصيحت قبول كرنے والے :نصيحت قبول كرنے والوں كے فضائل ۱۳

نماز :نماز شب كے آثار ۱۵; نماز صبح كا وقت ۲، ۱۴; نماز عشاء كا وقت ۲، ۱۴; نماز عصر كا وقت ۲; نماز قائم كرنے كى اہميت ۱; نماز قائم كرنے كے آثار ۴;نماز كى اہميت ۱۰; نماز كے آثار ۸، ۱۶; نماز كے احكام ۱، ۲; نماز كے اوقات۱، ۲، ۱۴;نماز مغرب كا وقت ۲، ۱۴;نماز يوميہ كى فضيلت ۷;نماز يوميہ كے قائم كرنے كى اہميت ۹

نمونہ قرار دينا:حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو نمونہ قرار دينا۳

آیت ۱۱۵

( وَاصْبِرْ فَإِنَّ اللّهَ لاَ يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ )

اور آپ صبر سے كام ليں كہ خدا نيك عمل كرنے والوں كے اجر كو ضايع نہيں كرتا ہے (۱۱۵)

۱_الله تعالى اپنے نبى كو صبر و شكيبائي اختيار كرنے كى دعوت ديتا ہے_واصبر

۲_ دين كى مشكلات ميں صبر كو توشہ راہ بنانا، ضرورى ہے_فاستقم كما امرت و اصبر

۳_ دين پرپابند رہنا ، نافرمانى سے پرہيز كرنا ، ظالم و ستمگر لوگوں پر اعتماد اور ان كا سہارا نہ لينا يہ صبر كو توشہ راہ بنانے كے امور ہيں _فاستقم كما امرت و لا تركنوا الى الذين ظلموا و اصبر

۴_ نماز كو اس كے مقررہ اوقات ميں قائم كرنا،صبر اختيا ر كرنے كا محتاج ہے_و اقم الصّلاة طرفى النهار و اصبر

۵_ الله تعالى نيك اعمال كرنے والوں كے اجر و ثواب كو كم نہيں كرتا اور ان كو اپنے اعمال و كردار كى جزاء سے محروم نہيں كرتا _فان اللّه لا يضيع اجر المحسنين

۳۳۲

۶_ وہ لوگ جو فرمان الہى كى اطاعت كرنے پر صبرسے كام ليں وہ محسنين ميں سے ہيں _

و اصبر فانّ اللّه لا يضيع اجر المحسنين

۷_ دين كا پابند رہنا ، نافرمانى اورتجاوز سے پرہيز كرنا ، ظالم لوگوں كا سہارا نہ لينا اور نماز قائم كرنا يہ نيك كام ہيں اور الله كے نزديك اجر و ثواب ركھتے ہيں _فاستقم و لا تركنوا اقم الصلاة فان الله لا يضيع اجر المحسنين

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى ۱

استقامت :استقامت كے آثار ۷

اطاعت :اطاعت ميں صبر كرنا ۶;الله كى اطاعت ۶اطاعت كرنے والے:۶

الله تعالى :الله تعالى كا اجرو ثواب ۵; الله تعالى كى دعوتيں ۱

جزاء و ثواب :جزا و ثواب كے اسباب ۷

جھكاؤ و ميلان :ظالموں كى طرف جھكاؤ و ميلان كو ترك كرنا ۳;ظاموں كى طرف جھكاؤ و ميلان كو ترك كرنے كے آثار ۷

ديندارى :ديندارى ميں استقامت ۳، ۷; ديندارى ميں صبر ۲، ۳

سختى :سختى ميں صبر ۲

صابرين : ۶

صبر:صبر كى اہميت ۱، ۲، ۳، ۴; صبر كى دعوت ۱

عمل :پسنديدہ عمل كے موارد ۷

محسنين ۶:محسنين كے ليے جزاء كا حتمى ہونا ۵

نافرمانى :نافرمانى سے اجتناب ۳;نافرمانى سے اجتناب كے آثار ۷

نماز :نماز كے قائم كرنے پر صبر كرنا ۴

۳۳۳

آیت ۱۱۶

( فَلَوْلاَ كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِن قَبْلِكُمْ أُوْلُواْ بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الأَرْضِ إِلاَّ قَلِيلاً مِّمَّنْ أَنجَيْنَا مِنْهُمْ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مَا أُتْرِفُواْ فِيهِ وَكَانُواْ مُجْرِمِينَ )

تو تمھارے پہلے والے زمانوں اور نسلوں ميں ايسے صاحبان عقل كيوں نہيں پيدا ہوئے ہيں جو لوگوں كو زمين ميں فساد پھيلانے سے روكتے علاوہ ان چند افراد كے جنھيں ہم نے نجات ديدى اور ظالم تو اپنے عيش ہى كے پيچھے پڑے رہے اور يہ سب كے سب مجرم تھے (۱۱۶)

۱_ پہلے والى امتيں جو ہلاك ہوئيں ( مثلاً امت نوح ، ہود ، صالح ، ولوط ...) يہ امتيں فاسد اور تباہ كار تھيں _

فلو لا كان من القرون من قبلكم اولو بقية ينهون عن الفساد

(قرن ) (قرون ) كا واحد ہے جو ايسى امت اور معاشرہ كو كہا جاتا ہے جو ايك ہى زمانے ميں زندگى بسركريں _

۲_ پہلى امتوں پر عذاب اور ان كى بربادى كا سبب ،ان كا فساد اور تباہ كارى تھى _

فلو لاكان من القرون من قبلكم ا ُولُوا بقية ينهون عن الفساد

( ممن انجينا منہم ) كى عبارت اس بات كى دليل ہے كہ (القرون من قبلكم ) سے مراد، وہ امتيں ہيں جو عذاب الہى ميں گرفتار ہوئيں اور ہلاك ہوگئيں _

۳_ پہلے والى امتوں كا فساد اور ان كى تباہ كارياں وسيع پيمانے پراور ہر طرف تھيں _ينهون عن الفساد فى الأرض

''فى الأرض'' كى قيد، ان كے فساد كى وسعت كو بيان كررہى ہے_

۴_ ہلاك ہونے والى پہلى امتوں ميں كوئي اصلاح كرنے والا اور دلسوز شخص جو ان كو فساد و تباہى سے روكے، موجود نہيں تھا_فلو لا كان من القرون من قبلكم اُولُوابقية ينهون عن الفساد

''بقية'' كے معانى ميں سے ايك معنى فضل و نيكى ہے تفسير كشاف ميں آيا ہے كہ فلان شخص ''بقية الاقوم'' ہے يعنى قوم كے نيك افراد ميں سے ہے اس بناء پر ''اُولُو بقية'' يعنى نيك اور بافضل لوگ اور اس مقام كى مناسب سے دلسوز و مصلح لوگ معين _ اور لوہ ''كيوں نہ'' كے معنى ميں ہے '' لہذا فلولا ...'' كا معنى يہ ہو گا كہ تم سے پہلى والى امتوں ميں اصلاح كرنے والے لوگ كيوں نہ تھے تا كہ انہيں فساد تباہى سے روكتے ؟_

۳۳۴

۵_ جب فساد اور تباہى كا رواج ہوجائے اور وہ سب لوگوں كو اپنى لپيٹ ميں لے لے تو اس وقت امتوں پر عذاب الہى كے آنے كا خطرہ ہوتا ہے_ينهون عن الفساد فى الارض

۶_ لوگوں كو فساد اور گناہ كرنے سے روكنا اور نہى عن المنكر كرنا، ضرورى ہے _فلو لا كان اولوا بقية ينهون عن الفساد

۷_ گذشتہ اديان ميں ، نہى عن المنكر كرنا واجب تھا _فلو لا كا ن اولو ا بقية ينهون عن الفساد

۸_ گذشتہ ہلاك ہونے والى امتوں ميں بہت كم لوگ ايسے تھے جو فساد اور برائيوں سے دور تھے اور لوگوں كو بھى فساد اور گناہ سے روكتے تھے_فلو لا كان اُولُوا بقية ينهون عن الفساد فى الأرض الّا قليل

۹_ الله تعالى نے گذشتہ امتوں ميں سے صرف نيك لوگوں اور نہى عن المنكر كرنے والوں كو اپنے نازل شدہ عذاب سے رہائي بخشى _الّا قليلاً ممن انجينا منهم

( منہم ) (قليلاً) كےليے قيد ہے _ اور اسكى ضمير ( القرون) كى طرف لوٹتى ہے_ اور (ممّن) ( من مَن)ميں ( من ) بيانيہ ہے _ تو (الّا قليلاً ...) كا معنى يوں ہوگا كہ گذشتہ معاشروں ميں كچھ گنے چنے لوگ صاحب فہم و درك تھے جو فساد و برائيوں سے روكتے تھے اور صرف انہوں نے ہى نجات پائي_

۱۰_ لوگوں كو فساد اور برائيوں سے روكنا اور نہى عن المنكر كرنا، الله كے عذاب سے نجات و رہائي كا سبب ہے_

الّا قليلاً ممن انجينا منهم

۱۱_ گذشتہ ہلاك ہونے والى امتوں ميں نہى عن المنكر كرنے والوں كا كم ہونا،سبب تھا كہ وہ اپنے معاشرے كو فساد اور تباہى سے نہ بچا سكے _الّا قليلاً ممن انجينا منهم

(الّا قليلاً ) كا جملہ (انجيناہم ) كے قرينے كى وجہ سے اس پر دلالت كرتا ہے، كہ الله تعالى نے نہى عن المنكر كرنے والوں كو جوگنے چنے تھے نجات دى اور ان كے پورے معاشرے كو عذاب

۳۳۵

سے ہلاك كرديا_

تھوڑ ى مقدار ميں ہونے كى صورت ميں صاحب عقل و خرد اپنے معاشرے كو فساد سے نہ بچاسكے اس وجہ سے ان كے معاشرے پر عذاب نازل ہوگيا _

۱۲_ گذشتہ ہلاك ہونے والى امتيں ، دنيا وى لذّات اور مال و متاع سے دل لگائے ہوئے تھيں _

واتبع الذين ظلموا ما ترفوا فيه

۱۳_ گذشتہ امتوں كا مادى لذتوں اور دنياوى مال و متاع كى طرف جھكاؤ، ان كو فساد و تباہى كى طرف لے گيا_

و اتبع الذين ظلموا ما ا ترفوا فيه

(تُرفہ ) بمعنى نعمت ہے اور (مترف) اسكو كہا جاتا ہے كہ جسكو نعمت كى فراوانى نے بے ہوش اور سركش كرديا ہو _ اور آيت شريفہ ميں ( ما) سے مراد، مال و منال او رمادى لذتيں ہيں _ اس بناء پر (ما أترفوا فيہ ) كا معنى يوں ہوگا كہ وہ لوگ مال و منال اور دنيا كى لذتوں كى وجہ سےمست اور سركش ہوگئے تھے_

۱۴_ گذشتہ ہلاك ہونے والے معاشرے گناہگار تھے_و كانوا مجرمين

۱۵_ دنيا كے مال و منال اور مادى لذتوں سے دل لگانا ، گناہ ہے _و اتبع الذين ظلموا ما ا ُترفوا فيه و كانوا مجرمين

۱۶_ دنيا كى لذتوں سے دل لگانا اور رفاہ طلبى و ستمگرى كا پيش خيمہ اور جرم وگناہ كے ميلان كا سبب ہے_

واتبع الذين ظلموا ما ا ُترفوا فيه و كانوا مجرمين

احكام :۷

اديان :اديان كى تعليمات ۷

اقوام :فاسد قوميں ۱

الله تعالى :الله تعالى كا نجات دينا ۹

جرم :جرم ايجاد كرنے والے عوامل ۱۶

دنيا طلبى :دنيا طلبى كا گناہہونا ۱۵;دينا طلبى كے آثار ۱۳، ۱۶; رفاہ و آسائش كے آثار ۱۶

ظلم :ظلم كا سبب ۱۶

۳۳۶

عذاب :عذاب سے نجات كے اسباب ۱۰، عذاب كے اسباب ۲، ۵

فساد :فساد سے روكنے كے آثار ۱۰; فساد سے نہى كرنا ۶; فساد كے آثار ۲، ۵; فساد كے عوامل ، ۱۳

قوم ثمود :قوم ثمود كا فساد ۱

قوم عاد:قوم عاد كا فساد ۱

قوم لوط:قوم لوط كا فساد ۱

قوم نوح :قوم نوح كا فساد ۱

گذشتہ اقوام :گذشتہ اقوام كا عذاب ۲; گذشتہ اقوام كا فساد ۱، ۲، ۳; گذشتہ اقوام كى دنيا طلبى ۱۲، ۱۳; گذشتہ اقوام كى ہلاكت ۲; گذشتہ اقوام ميں اصلاح كرنے والوں كى نجات ۹;گذشتہ اقوام ميں گناہ ۱۴; گذشتہ

اقوام ميں مصلحين ۴;گذشتہ اقوام ميں مصلحين كا كم ہونا۸;گذشتہ اقوام ميں نہى عن المنكر كرنے والوں كى كمي۸، ۱۱;گذشتہ اقوام ميں نہى عن المنكر كرنے والے ۴

گناہ :گناہ سے روكنا ۶ گناہ كا سبب ۱۶; گناہ كے موارد۱۵

گناہ كرنے والے :۱۴

نہى عن المنكر كرنے والے :نہى عن المنكر كرنے والوں كو نجات ۹;نہى عن المنكر كرنے والے اور گذشتہ اقوام كے فساد و برائياں ۱۱

نہى عن المنكر :نہى عن المنكر اديّان ميں ۷; نہى عن المنكر كى اہميت ۶; نہى عن المنكر كے آثار ۱۰; نہى عن المنكر كے احكام ۷

واجبات :اديان ميں واجبات ۷

ہلاكت :ہلاكت كے عوامل ۲

۳۳۷

آیت ۱۱۷

( وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِيُهْلِكَ الْقُرَى بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا مُصْلِحُونَ )

اور آپ كے پروردگار كا كام يہ نہيں ہے كہ كسى قريہ كو ظلم كركے تباہ كردے جب كہ اس كے رہنے والے اصلاح كرنے والے ہوں (۱۱۷)

۱_ الله تعالى نے كبھى بھى انسان معاشرے كو ظلم كے ذريعے اور بغير كى وجہ كے دنياوى عذاب ميں نہ مبتلا كيا ہے اور نہ كرے گا _و ما كان ربك ليهلك القرى بظلم

( بظلم ) ميں ''با'' ملا بست كے ليے ہے _ اس صورت ميں ( ما كان ) كے جملے كا معنى يوں ہوگا كہ ہرگز الله تعالى ، بستى كے لوگوں كو ظلم كے ذريعے ہلاك نہيں كرتا _ يہاں بستيوں كى طرف ہلاكت كى نسبت دينے كا مقصد يہ ہے كہ يہاں ہلاك كرنے سے مراد، دنياوى ہلاكت اور عذاب استيصال ہے _

۲_ الله تعالى كااپنے بندوں سے يہ طريقہ كا ر رہا ہے كہ كم ان سے معمولى سے ستم و ظلم كے بغير عادلانہ برتاؤ كيا جائے_

و ما كان ربك ليهلك القرى بظلم

جملہ (ما كان ليفعل كذا) كى تركيب( كہ ممكن نہ تھا كہ ايسا كرتا) بات پردلالت كر رہى ہے كہ يہ فعل ، اس فاعل سے صادر نہيں ہو سكتا_

۳_ الله تعالى ، نيك قوموں كو جو اچھے كام كرنے والى ہيں پر عذاب استيصال نازل نہيں كرتا _

و ما كان ربك ليهلك القرى بظلم و اهلها مصلحون

۴_ نيك اعمال كرنے والى قوموں پر عذاب كا نازل كرنا، ان پر ظلم ہے _

و ما كان ربك ليهلك القرى بظلم و اهلها مصلحون

( مصلح) كا معنى خود كو اور دوسروں كو اصلاح كرنے كے معنى ميں آتا ہے _ ليكن مذكورہ تفسير پہلے معنى كى صورت ميں ہے _

۵_ نيك اعمال كرنے والے معاشرے كو ہلاك كرنا اور انسانوں پر ظلم كرنا، ربوبيت الہى كے مقام اور اس ذات كے مدبّر ہونے كے ساتھ سازگار نہيں ہے _و ما كان ربك ليهلك القرى بظلم ا و هلها مصلحون

مذكورہ معنى (ربّ) سےليا گيا ہے جس كا معنى مربّى اور مدبّر_

۳۳۸

۶_ گذشتہ ہلاك ہونے والى امتيں ( مثلاً امت نوح ، ہود، صالح، شعيب اور قوم فرعون) ناصالح اور فساد كرنے والى قوميں تھيں _فلو لا كان من القروں ما كان ربك ليهلك القرى بظلم

اس حقيقت كے پيش نظركہ الله تعالى نيك قوموں كو ہلاك نہيں كرتا ( فلو لا كان ...) كے ذريعے گذشتہ قوموں كو ہلاك كرنے كى طرف اشارہ كرنا يہ بتاتا ہے كہ گذشتہ قوميں ناصالح اور مستحق عذاب تھيں نہ يہ كہ الله تعالى كى طرف سے ان پر ظلم و ستم ہوا ہے_

۷_(عن رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : يا ابن مسعود انصف الناس من نفسك و انصح الأمة و ارحمهم ، فاذا كنت كذلك و غضب الله على اهل بلدة انت فيها و ا راد ا ن ينزل عليهم العذاب نظر اليك فرحمهم بك ، يقول الله تعالى : '' و ما كان ربك ليهلك القرى بظلم و ا هلها مصلحون'' (۱)

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روايت ہے كہ ابن مسعود كو مخاطب ہو كر فرماتے ہيں _ اے ابن مسعود : لوگوں كے ساتھ منصفانہ طريقہ كار اپنا ؤاور اپنى قوم كے خير خواہ بنو اور ان پر رحم كرو _ اگر تم ايسے بن جاؤگے تو الله تعالى جب چاہے گا اس قوم پر عذاب نازل كرے جسميں تم موجود ہو توتم پر نظر لطف كرے گا اور تمھارى خاطر اس قوم پر عذاب نہيں كرے گا_ كيونكہ الله تعالى فرماتا ہے_ ''و ما كان ربك ''

اسماء و صفات :اصلاح كرنے والے :اصلاح كرنے والوں پر عذاب ۷

اقوام :اقوام صالح پر ظلم ۴; اقوام صالح پر عذاب ۴; اقوام صالح كا عذاب سے بچ جانا۳;اقوام فاسد ، ۶; اقوام كى ہلاكت كا فلسفہ ۱

الله تعالى :الله تعالى اور ظلم ۱; الله تعالى كا پاك و پاكيزہ ہونا ۱; الله تعالى كا طريقہ كار۲;الله تعالى كى ربوبيت ۵; الله تعالى كى عدالت ۲

اہل مدائن :اہل مدائن كا فساد ۶

روايت: ۷

____________________

۱) مكارم الأخلاق ، ص ۴۵۷، ب ۱۲; بحارالانوار ، ج ۷۴ ص ۱۰۹، ح۱_

۳۳۹

صالحين :صالحين پرظلم ۵

صفات جلال: ۱،۵

ظلم :ظلم كے موارد ۴

عذاب :عذاب استيصال ۳; عذاب سے نجات ۳

قوم ثمود :قوم ثمود كا فساد ۶

قوم عاد :قوم عاد كا فساد ۶

قوم فرعون:قوم فرعون كا فساد ۶

قوم نوح :قوم نوح كا فساد ۶

گذشتہ اقوام :گذشتہ اقوام كا فساد ۶

آیت ۱۱۸

( وَلَوْ شَاء رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلاَ يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ )

اور اگر آپ كا پروردگار چاہ ليتا تو سارے انسانوں كو ايك قوم بناديتا(ليكن وہ جبر نہيں كرتا ہے (لہذا يہ ہميشہ مختلف ہى رہيں گے (۱۱۸)

۱_ الله تعالى كى مشيّت ا س ميں نہيں كہ انسانوں كو دين حق كے قبول كرنے ميں مضطر اور مجبور كرے _

ولو شاء ربك لجعل الناس امة واحدة

مذكورہ آيت ميں (مشيت) سے مراد، مشيّت تكوينى ہے جو جبر و اكراہ كے مساوى ہے اور (الّا من رحم) جو بعد والى آيت ميں ذكر ہے كے قرينہ سے تمام كے اتفاق كرنے اور ايك امت كي

تشكيل سے مراد كلمہ حق و دين الہى پر اتفاق كرنا ہے_اس صورت ميں (لوشا ...) كا معنى يوں ہوگا كہ اگر الله تعالى ارادہ كرليتا كہ تمام انسان ايك دين حق پر اتفاق كرليں تو ايسا ہى ہوتا ليكن الله تعالى نے ايسا نہيں چاہا بلكہ وہ چاہتا ہے كہ لوگ اپنے اراے اور اختيار كے ساتھ حق كى طرف آئيں _

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945

946

947

948

949

950

951

952

953

954

955

956

957

958

959

960

961

962

963

964

965

966

967

968

969

970

971