تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 6%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 205952 / ڈاؤنلوڈ: 4272
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۸

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

ب۔ صبر کے درجات:

بعض علماء اخلاق اور اہل معرفت نا گوار امور پر صبر کرنے ( صبر خاص )کے لئے تین درجوں کے قائل ہوئے ہیں۔

١۔ تائبین کا صبر: اوراس سے مراد ہے شکوہ کا ترک کرنا، بے تابی اور بے قراری کا ثبوت نہ دینا، اور غیر فطری اور پریشان کن رفتارنہ رکھنا۔

٢۔ زاہدین کا صبر: یعنی اول درجہ کے علاوہ جوسختیاں، درد والم انسان کے لئے مقدر ہوئی ہیں ان پر قلبی طور سے راضی ہونا۔

٣۔ صدیقین کا صبر: یعنی پہلے دودرجہ کے علاوہ نسبت اس چیز سے جو خدا وند عالم نے اس کے لئے معین کر رکھا ہے، عشق کرنا اور اسے دوست رکھنا ۔(١)

ج۔ صبر کی اہمیت:

کلمہ ''صبر ''مختلف صورتوں میں سو بار سے زیادہ قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے کہ جس سے خود ہی اس موضوع کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ قرآن کریم بعض بنی اسرائیل کی ہدایت وپیشوائی کے منصب تک پہونچنے کی علت کے بیان میںفرماتا ہے: ''اور جب انہوں نے صبر کیا اس حال میں میری آیتوں پر یقین رکھتے تھے تو ہم نے ان میں سے بعض کو پیشوا قرار دیا کہ وہ ہمارے حکم سے (لوگوں کی) ہدایت کرتے تھے''۔(٢) اور آخرت میں صابروں کی کیفیت جزا کے بارے میں ایک جگہ پر ان کے عمل سے بہتر جزا کا وعدہ دیتا ہے: ''یقینا ً جن لوگوں نے صبر کیا تو جو انہوں نے عمل کیا ہے ہم انھیں اس سے بہتر جزا دیں گے''۔ ٣)

دوسری آیت میں صابروں کی مقدار جزا کی تعیین کے بارے میں ارشاد ہو تا ہے: ''وہ لوگ کہ جنہوں نے صبر کیا اور نیکیوں سے برائی کو دور کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیںروزی دی ہے اس میں سے انفاق کرتے ہیں اس لئے وہ لوگ دہر ی جزا پائیں گے''۔(٤)

____________________

١۔ نراقی، جامع السعادات، ج٣ ، ص ٢٨٤۔

٢۔ سجدہ ٢٤۔

٣۔ نمل ٩٦۔

٤۔ قصص ٥٤۔

۱۶۱

دوسری جگہ پر اعلان کرتا ہے کہ صابروں کا اجر اور ان کی جزابے حد اور ناقابل شمار ہے اور وہ لوگ بے حساب جزا پائیں گے: ''بے شک صابرین اپنی جزا بے حساب پوری پوری پائیں گے''۔(١) اسی طرح خداوند عالم نے صابروں کو ہمراہی کا وعدہ دیا ہے: '' صبر کروکیونکہ خدا صابروں کے ساتھ ہے ''۔(٢ ) وہ نصرت اور کامیابی کو صرف اور صر ف صبر و شکیبائی کے سایہ ممکن جانتا ہے''۔(٣) ہدایت، درود اور رحمت پروردگار کو صابروں کے حق میں قرار دیتا ہے۔(٤) صابروں کو اپنے دوستوں اور محبوبوںکے زمرہ میں بیان کرتا ہے۔(٥) بارہا اور بارہا اپنے رسولوںاور تمام انسانوں کو صبر کی تاکید کرتا ہے۔(٦) اپنے خاص بندوں کے بارے میں نقل کرتا ہے کہ وہ لوگ ہمیشہ خداوند سبحان سے صبر و شکیبائی کی توفیق کی درخواست کرتے رہے ہیں۔(٧) اس کے علاوہ مزید اور دسیوںمورد ہیں جو اسلام کے اخلاقی نظام میںصبر کی اہمیت بیان کرتے ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق ـ بھی فرماتے ہیں: ''صبر ایمان کے لئے وہی حیثیت رکھتا ہے جو جسم کے لئے سر کی حیثیت ہے، جس طرح سر کے نہ ہونے سے جسم کا خاتمہ ہوجاتاہے اسی طرح اگر صبر نہ ہوتوایمان بھی جاتارہے گا ''۔(٨) حضرت امام محمد باقر ـ سے صبر کی اہمیت کے بارے میں نقل ہوا ہے : '' جنت نا گواریوں سے گھری ہوئی ہے لہٰذا جو بھی دنیا میں نا گوارچیزوں پر صبر کرے وہ بہشت میں جائے گا۔ اور دوزخ نفسانی خواہشات اور لذّات میں گھری ہوئی ہے، لہٰذا جو بھی نفسانی خواہشات ولذات کی تکمیل کرے گا، وہ جہنم میںجائے گا ''۔(٩)

____________________

١۔ زمر ١٠۔

٢۔ انفعال ٤٦۔

٣۔ آل عمران ١٢٥۔

٤۔ بقرہ ١٥٧۔

٥۔ آل عمران ١٤٦۔

٦۔ احقاف ٣٥۔

٧۔ بقرہ ٢٥٠ ؛ اعراف ١٢٦۔

٨۔ کلینی، کافی ج ٢، ص٨٩، ح ٥۔

٩۔ ایضاً، ح٧۔

۱۶۲

د۔ صبر کے فوائد:

صبر کے بہت سے دینی و دنیوی فوائد شمار کئے جاسکتے ہیں، منجملہ ان کے حضرت علی ـ بعض گذشتہ امتوں کی عزت وذلت کے بارے میں اپنے ایک خطبہ میں فرماتے ہیں: ''جب خدا نے دیکھا کہ وہ کس طرح اس سے دوستی کی راہ میں اذیت و آزار پر صابر ہیں اور اس کے خوف سے نا گواریوں پر صبر و تحمل کرتے ہیں تو اس نے انھیں گرداب بلا سے نکال کر گشائش عطا کی، اور ذلت و خواری کے بعد انھیں با آبرو بنایا اور سکون و اطمینان کو خوف کا جا گزیں بنادیا۔ پھر وہ حکمراں بادشاہ اور باعظمت و شان پیشوا ہوگئے اور خدا کی کرامت ان کے حق میں یہاںتک پہنچ گئی کہ دیدۂ آرزو ان کے آخری درجہ کہ وہ اس جگہ پہونچا ان کی نگاہ اور اس کی انتہا کو نہ دیکھ سکی''۔(١)

بعض علماء اخلاق نے صبر کو مقدّرات الٰہی پر راضی رہنے کے مقام رضایت تک پہونچنے کا دروازہ قراردیا ہے، اور مقام رضا کو محبت پروردگار کی وادی تک پہونچنے کا دروازہ جانا ہے۔(٢) اس لحاظ سے صبر کے اہم فوائد میں سے اسی دنیا میں مقام '' رضا '' و'' محبت '' تک رسائی کا نام لیا جا سکتا ہے۔

''صبر '' کے لئے دیگر متعدد موضوعات بھی قابل ذکر ہیں، جیسے صبر و شکر میں مناسبتیں، صبر کے حصول کی راہیں اور اس کے مانند دوسرے موضوعات کہ اختصار کے پیش نظر ان کا ذکر نہیں کیا جارہا ہے۔

____________________

١۔ نہج البلاغہ، خطبہ ١٩٢۔

٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٣، ص ٢٨٣۔

۱۶۳

تیسرا باب :

اسلام کی نظر میں اخلا قی تر بیت

پہلی فصل :

اسلام میں اخلا قی تر بیت کے طر یقے

مقدمہ:

اخلاق اسلامی کے اصول اور مفاہیم سے آشنائی کے بعد یہ بات مناسب ہے کہ اپنے آپ سے سوال کریں '' نا مطلوب موجود '' کی حالت کو کس طرح '' ناموجود مطلوب '' سے تبدیل کیا جا سکتا ہے ؟ واضح عبارت میں اخلاقی تربیت کے طریقے کیا ہیں ؟

تربیتی طریقے، کبھی خود تربیتی اپنے ( لئے تربیتی) ہیں تو دیگر تربیتی کبھی دوسرے کے( لئے تربیتی) ہیں، کبھی قولی ہیں تو کبھی عملی، کبھی سلبی ( روکنے والے ) ہیں اور کبھی ایجابی (اصلاحی )، کبھی عام( یعنی تمام سن کے مراحل کے لئے ) ہیں اور کبھی خاص۔ رفتار کے مبادی(١) کے پیش نظر ان اخلاقی تربیت کی روشوں کو جو رفتار یا اس کے مبادی یعنی ابتدائی مرحلوں سے تعلق رکھتی ہیں، تین چیزوں: شناخت، سبب اور رفتار کے اعتبار سے مورد توجہ قرار دیں گے اور تفصیل سے آئندہ مباحث کے ضمن میں ان کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ چونکہ علوم تربیتی کی اصطلاحا ت (منجملہ اصول، روشیں، اہداف و مقاصد وغیرہ وغیرہ ) کی دقیق تعریف محل اختلا ف ہے اور ان کے سلسلہ میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں لہٰذا یہاںپر اس کتاب میں مورد نظر تعریف کی طرف اشارہ کریں گے۔ ''روش'' (طریقہ) سے مراد وہ کلی قوانین ہیں کہ ہر ایک جدا گانہ طور پر یا دوسری روشوں کی مدد سے مقصد تک پہنچانے کی خصوصیت کی حامل ہیں۔ ہر روش کے تحقق کیلئے ممکن ہے کہ ہر ایک کے لئے مختلف اسلوب اور متعدد فنون پائے جاتے ہوں جو روشوں کی نسبت جزئی تر قوانین کا مقصود ہیں۔

____________________

١۔گذشتہ علماء کے نظریات کے مطابق مبادی رفتار اس طرح ہیں: فائدہ کا تصوّر، اس کی تصدیق، شوق موکد۔ معاصر ماہرین نفسیات نے اس سے مشابہ ایک دوسری ترکیب پیش کی ہے ؛ وہ اس طرح ہے: شناخت، باعث اور عملی توانائی۔

۱۶۴

روشوں کے بیان میں ایک عقلی ترتیب پائی جاتی ہے کہ آسان تر دیگر تربیتی روشوں سے شروع ہوتی ہے اور مشکل تر خود تربیتی روشوں پر ختم ہوتی ہے۔ یہ عقلی ترتیب انسان کے اخلاقی اور نفسیاتی رشد سے بھی منطبق ہے اور اسلام کی تربیتی تعلیمات سے بھی ہم آہنگ ہے۔

ہر روش کو اس کی تعریف اور توضیح سے شروع ہے اور بعد کے مرحلہ میں آیات وروایات سے استفادہ کرتے ہوئے اس کا استناد اسلام سے ثابت کیا گیاہے پھراس کے بعد ( یا اس کے ضمن میں ) نفسیات کے علمی مطالعہ سے استفادہ کرتے ہوئے روش کی توضیح وتکمیل کی گئی ہے، یعنی نفسیات میں کون سے نظری اصول ومبانی کے ذریعہ اس روش کا دفاع کرسکتے ہیں اور اخلاقی تربیت میں اس کی تاثیر ثابت کی جاسکتی ہے، یہاں پر نفسیات کے اہم ترین نظریوں کے متعلق جو کہ تربیت اخلاقی سے مربوط ہیں بحث کی جارہی ہے۔

طریقے

١۔ تربیت کے لئے مناسب ماحول بنانا

انسان کی تکوین اور تغییر کا اہم ترین عامل مختلف ما حول کے حالات ہیں خواہ وہ زمانی یا مکانی یا اجتماعی ماحول ہو۔ بہت سے مقامات میں ماحول کی ترمیم واصلاح سے تربیت کے لئے مساعد اورسازگار ماحول فراہم کرکے جس کی تربیت کی جاتی ہے اس کی عادتوں، خصلتوں، افکار اور رفتار کو بدلا جا سکتا ہے اور جدیدخصوصیات کو اس کا جاگزین بنایا جا سکتا ہے، اس روش کی نفسیاتی بنیاد اس ماحول کے حالات سے انسان کے متاثر ہونے کی اصل ہے جو ماحول سازی ( بعض رفتار کی ہمراہی اور ہمنوائی بعض دیگر کے ساتھ ان کے ثابت کرنے کا باعث ہوتی ہے)، فعّال وکردار ساز ماحول سازی ( ایک ماحول میں خاص طرز عمل ورفتار پر جزا دی جاتی ہے ) یا اجتماعی تعلّم وتربیت ( رفتارکے مشاہدہ سے خاص نمونوں کی پیروی) کے نظریات کے بیان ہوتی ہے ضمن میں یہ روش خاص طور سے دوسروں کے ذریعہ اور انسان کے اولیاء کے ذریعہ بروئے کار لائی جاتی ہے، لیکن انسان خود بھی کسی حد تک موثر ہوسکتا ہے، اس روش کو وجود میں لانے کے جو طریقے لازم ہیں وہ ترتیب وار یہ ہیں:

۱۶۵

مقدمہ سازی، نمونہ سازی، ماحول کو صحیح و سالم بنانا اور حیثیت اور ماحول کو بدلنا۔

الف۔ مقدمہ سازی:

اس سے مراد یہ ہے کہ مناسب ماحول فراہم کرکے اخلاقی فضائل کے وجود میں آنے کا امکان اعلی حد تک فراہم کریں اور اس کے برعکس ایسے مقدّمات جو کہ منفی رخ رکھتے ہیں اور اخلاقی رذائل پیدا کرسکتے ہیں، ان کے وجود ہیں آنے کی روک تھام کریں، اس حصہ میں اسلام کی ہدایات قابل توجہ ہیں۔

ایک۔زوج یا زوجہ کے انتخاب میں کہ جو خاندان کا ایک رکن ہے، اس کے اخلاقی فضائل پر توجہ دینی چاہیے، انظر فی ای شی تضع ولدک فان العرق دساس(١) اس کے مقابل ایسے افراد جو غیر شائستہ گھرانے کے پروردہ ہیں، یاکم عقل اور احمق ہیں تو ایسے لوگوں سے شادی بیاہ کرنے سے اجتناب کرناچاہیے۔

حضرت امیرا لمومنین علی ـنے جومالک اشتر کو خط لکھا ہے اس میں اس کا رساز عنصر کی اس طرح تصریح فرمائی: ''ضروری ہے کہ اداری امور میں با فضیلت افراد سے استفادہ کرو ، وہی لوگ کہ جو نیک اور شریف خاندان سے ہوں اور اچھے ماضی اور نیک نامی کے ساتھ زندگی گذارچکے ہوں، جو لوگ عقل و ہوش، شجاعت و بہادری کے مالک، سخی اور بلند ہمت ہیں، وہ کرم کامرکز اور نیکی و فضیلت کا سرچشمہ ہیں''۔(٢)

لہٰذا ایسی اولاد جو شائستہ ماں اور با فضیلت باپ کی حمایت کے زیر سایہ پروان چڑھے ہیں اہم ترین مقدّمہ ساز عنصر ما حول اور تربیت کے لحاظ سے ان کا مددگار ہے۔(٣)

دو۔ اچھے نام کا انتخاب اولاد کا والدین پر جوحق ہے اور اس کی تاکید کی گئی ہے یہ ہے کہ۔''ہر انسان کی سب سے پہلے نیکی اس کے فرزند کے حق میںاس کا اچھا نام رکھنا ہے لہٰذا تم میں سے ہر ایک کو چا ہیے کہ اپنے فرزندوں کا اچھا نام رکھو''۔ ( اول ما یبر الرجل ولدہ ان یسمیہ باسم حسن فلیحسن احدکم اسم ولدہ)۔(٤)

نیک اور شائستہ نام تربیتی اور نفسیاتی اثر رکھتا ہے اور انسان کی صلاح و فلاح نیز خوبیوں کو فراہم کرنے کا مقدّمہ ہے یا پھر اسے فرو مائگی اور پستی کی سمت لے جاتا ہے۔ ( الاسم یدل علی المسمی ) ۔

____________________

١۔ فلسفی، کودک، ج ١، ص ٦٤۔ حسن الاخلاق، برہان کرم الاعراق، افراد کی اخلاقی خصلتیں خاندان کی پاکیزگی اور فضیلت کی دلیل ہیں، غرر الحکم۔٢۔ نہج البلاغہ، نا مہ ٥٣۔ ٣۔ جنٹک کے علاوہ کہ جن کا ذکر فی الحال مقصود نہیں ہے۔٤۔ وسائل الشیعہ: ج ١٥، ص ١٢٢۔

۱۶۶

٣۔ محل زندگی کا انتخاب (ملک، شہر یا دیہات، محلہ اور پڑوسی کا انتخاب) بھی مقدّمہ ساز عنا صر میں ہے۔ اسی طرح محل تحصیل، کام کاج، احباب اور معاونین سب ہی ( تربیت کی ) راہ ہموار کر نے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔(١)

ب۔ نمو نہ سازی :

کہا جا سکتا ہے کہ ہر ماحول کو بنا نے والے اس سماج اور ماحول برگزیدہ اور سر بر آور دہ افراد ہی ہوتے ہیں۔ لہٰذ ایک اچھے تر بیتی ماحول کی ایجاد کا ایک طریقہ اس ماحول میں اچھے نمونوں کو وجود میں لانا ہے اور برے نمونوں دور کر نا ہے۔ سماج میں پسندیدہ اور محبوب نمونہ خود بخود اس ماحول میں رہنے والوں کو ان کی طرف کھینچ لا تاہے اور ان کے مکارم اخلاق کو دوسرے لوگ نمونہ بنالیتے ہیں۔

آلبرٹ بنڈورا (١٩٧٨) کہ جو اجتماعی تعلّم کے نظریہ کا واضع ہے۔ تعلّم (سیکھنے) کا سب سے اہم طریقہ مشاہداتی تعلّم کو جانتا ہے کہ وہی تقلید یا نمونہ کا اختیار کرنا ہے انسان ایک نمونہ یا سر مشق کا انتخاب کرکے اس کے عمل کی تقلید کرنے لگتا ہے۔ بنڈ ور ا اس طرح کے تعلّم کو چار مر حلہ میں تو ضیح دتیا ہے: مر حلہ توجہ، حا فظہ کے حوالے کرنا، دوبارہ تخلیق اور سبب ومحرّک۔ ممتا ز صفات، عطو فت ومہر بانی کا بار، پیچید گی، برجستگی اور استعمالی اہمیت نمونہ میں اور حسّی ظرفیت، ابھارنے کی سطح، درک کرنے کی آماد گی اور گزشتہ تقویت مشا ہدہ کر نے والے کے اندر نمونہ شخص کے عمل سے منطبق نتیجۂ عمل کی مدد کرتی ہے۔(٢)

زندہ نمونوں کے علا وہ جو کہ مساعد اورسازگار تر بتیی ماحول ایجاد کر تے ہیں مر بی حضرات ماضی کے اخلاقی اور انسانی نمونوں کی شناخت کر ا کے انھیں حیات نو عطا کر سکتے ہیں اور بنڈورا کے نظریہ میں مذ کو رہ خصو صیات پر نظر کر تے ہو ئے بار عاطفی، ممتاز حالت، بر جستگی وغیرہ کے اعتبار سے ان کے متعلق تا کید اور سر مایہ گذاری کرسکتے ہیں نمونوں کے دقیق موئثر اور محبوب چہرہ کی ترسیم تربیت پانے والوں کے لئے ان کے ذہن وروح میں حسب ضرورت نمونوں کے فقدان کے خلا کو پر کرسکتی ہے اور وہ تدریجاً ان کے مثل بن سکتے ہیں۔

____________________

١۔ ہمنشینوں اور دوستوں کی تاثیر کے بارے میں اس کے بعد بحث کریں گے۔

٢۔ روانشناسی پرورشی، ص ٣١٤۔

۱۶۷

قرآن کر یم میں اس شیوہ سے بہت زیادہ استفاد ہ کیا گیا ہے، بالخصوص اکثر قرآنی نمونے جو ان اور تا ثیر گذار ہیں۔ یوسف شہوت کے مقا بل قہرمان مقا ومت، کہف کے جوان راہ خدا میں رشد و ہد ایت کیلئے ہجرت کے نمونے، اسماعیل حکم خدا کے سا منے سر اپاتسلیم کی مثال اور ابر اہیم عادت شکن اور بت شکن جوان ہیں۔ قرآن کے جوان نمو نوں کے علا وہ دیگر نمونے بھی پائے جا تے ہیں کہ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

دین کی تبلیغ میں نوح پا یداری اور استقامت کا نمو نہ، مصا ئب زمانہ اور شدائد روز گا رپر ایوب صبر وتحمل کا نمونہ، طاغوت سے جنگ ومبازرہ کرنے میں داؤد شجاعت اور شہامت کا نمو نہ وغیر ہ وغیرہ، قرآن ان تما م حضرات کی شان میں فرماتا ہے: ''...... وہ لوگ(خدا کے پیغمبر ) ایسے لوگ ہیں جن کی خدا نے ہدایت کی ہے لہٰذ ان کی ہدایت کا اقتدا کرو''۔(١)

بالآخرہ پیغمبر اکرم زندگی کے تمام مراحل میں تمام عالمین کے لئے مطلق نمونہ ہیں ، '' لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنہ''(٢) کیو نکہ آپ ''خلق عظیم '' کے ما لک، ''مکارم اخلا ق کا آئینہ '' اور '' رحمة للعالمین '' ہیں۔

ماں باپ اور ان کے بعد اساتذہ اور تربیت کرنے والے بھی تربیت سیکھنے والوںکے لئے پہلا نمونہ ہیں۔ تربیت کا اہم نکتہ یہ ہے کہ اہم موقعیت وحیثیت کے مالک، زیادہ کامیاب، زیادہ علم ودانش یا معنوی بلندی کے مالک اکثر دوسروں کی نظر کو اپنی طرف جلب کرتے ہیں اور ان کے لئے نمونہ بن جاتے ہیں۔

خوش قسمتی سے طالب علموں کی نظر میں عام طور پر اساتذہ اور والدین ان خصوصیات کے یا ان میں سے بعض کے مالک ہوتے ہیں۔ لیکن بہر صورت اس برتری اور برجستگی کا نہ ہونا معنوی، علمی اور اجتماعی شعبوں میں تربیت پانے والوں کوکسی اور سمت لے جاتا ہے۔

حضرت امیر المومنین علی ـ فرماتے ہیں:'' پیغمبر اکرم ہر روز میرے لئے اپنے مکارم اخلاق میں سے ایک کو بیان کرتے تھے اور مجھے اس کی پیروی کرنے کا حکم دیتے تھے ''۔(٣) حضرت امام موسیٰ کاظم ـ فرماتے ہیں: ''بچے اپنے والدین کی خوبیوںاور صلاحیتوں سے محفوظ ہوتے ہیں ''۔(٤)

____________________

١۔ اولئک الذین ھدی اللہ فبھد یھم اقتدہ، سورئہ انعام، آیت ٩٠۔ ٢۔ سورئہ احزاب، آیت، ٢١۔٣۔ یرفع لی کل یوم علما من اخلاقہ و یامرنی با لاقتداء بہ ؛نہج البلاغہ، خ ١٩٢۔

٤۔ یحفظ الاطفال بصلاح آبائھم، بحار الانوار ج ٥، ص ١٧٨۔

۱۶۸

نمونہ سازی کے طریقہ سے استفادہ کرنے کے سلسلہ میں قرآن کریم نے کم از کم دو اخلاقی اور تربیتی نکتوں کی طرف توجہ دلائی ہے ؛ اول یہ کہ اس نے محبوب اور پسندیدہ افراد کو کلی طور پر نیز عام عنوان سے بیان کیا ہے، جیسے: تائبین، متطہّرین،متّقین، صالحین، صابرین، محسنین اور مجاہدین وغیرہ اور کبھی خاص طور سے اور نا م کے ساتھ (پیغمبروں سے متعلق) بیان کیا ہے، لیکن قابل نفرت ومذمّت افراد کا ذکر قرآن میں استثنائی موارد (جیسے ابو لہب) کے علاوہ کلی عناوین کے تحت ہوا ہے، جیسے: تجاوز کرنے والے، اسراف کرنے والے، خود پسند افراد، کفار، ظالمین اور متکبرین وغیرہ۔ اس وجہ سے ہم کو بھی چاہیے کہ قرآن کریم کی پیروی کرتے ہوئے اسی روش کا انتخاب کریں کہ اخلاقی فضائل کی شناخت کرانے میں کلی عناوین بھی اور صاحبان فضائل کے اسماء بھی بیان کریں، منفی مقامات پر اشخاص کے نام بیان کرنے سے اجتناب کریں۔

دوسرے نمونوں کا انتخاب کرنا ہے، قرآن کریم ایک ساتھ محبوب اور منفور افراد کا ذکر کرکے انسانی سماج کو علم وآگہی کے ساتھ اپنے منظور نظر نمونوں کے انتخاب کی دعوت دیتا ہے، حتیٰ کہ گذشتہ آباء اجداد کے سلسلہ میں بھی آگاہ کرتا ہے کہ بغیر علم و آگہی کے ان کی اندھی تقلید کرکے اپنی زندگی تباہ و برباد نہ کریں۔ انہوں نے کہا: ''ہم نے آباو اجداد کو ایک آئین پر پایا ہے لہٰذا ہم بھی انھیںکا اتباع کرتے ہیں ' اس (پیغمبر) نے کہا ''خواہ جس پر تم نے اپنے آباء واجداد کو پایا ہے اس سے زیادہ ہدایت کرنے والا بھی تمہارے لئے لے آؤں تب بھی ایسا کرو گے''؟(١) اس وجہ سے ہم پر لازم ہے کہ انسانوں کی آزادی کو باقی رکھتے ہوئے نیز مطلوب نمونوں اور معیاروں کا تعارف کراتے ہوئے تربیت پانے والوں کے لئے آگاہانہ انتخاب کی راہ فراہم کریں۔

ج۔ما حول کوصحیح و سالم رکھنا:

برے اور شر پسند افراد ہر ماحو ل اور سماج میںعام طور پر پائے جاتے ہیں۔ بیشک فاسد اور برے ماحول اخلاقی تربیت کے معاملہ کو دشوار بلکہ بعض اوقات نا ممکن بنا دیتا ہے، اس وجہ سے ماحول کو صحیح وسالم رکھنا کہ جو تقریبا ً امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کے زندہ کرنے کے مساوی فریضہ ہے،سب کے لئے ایک عقلی، انسانی نیز دینی فریضہ ہے۔ اس طرز اور شیوہ سے مراد معاشرے کے تمام افراد کے اندر خوبیوں کی ایجاد اور ان کا احیاء کرنا ہے اور برے امور کو ختم کرنا ہے۔ درج ذیل نکات امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت اور ان کے پہلوئوں کو کہ جو دراصل معاشرہ میں اخلاقی تربیت کو آسان کرنے والے ہیں، زیادہ واضح کرتے ہیں۔

____________________

١۔ سورئہ زخرف، آیت ٢٣، ٢٤۔

۱۶۹

١۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اس نکتہ کو واضح انداز میں اپنے دامن میں رکھتا ہے کہ دعوت ایک شناختہ شدہ شرعی اور عقلی معیار پر ہونی چاہیے۔(١) اس وجہ سے جب بھی بات شرعی واجب یا حرام کی ہوتو چاہیے کہ اس کی ثقافتی پشت پناہی ایجاد کی جائے ا ورایک معروف یامنکر کے عنوان سے اکثر لوگوں کے نزدیک متعار ف ہو۔ ایسے حالات میں امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کو عام مقبولیت حاصل ہو گی۔ بعبارت دیگر امر با لمعروف کی دشواری اور کلی طور پر اس کاقبول نہ ہونے میں مشکل نہیں ہے بلکہ مشکل ان خاص موارد اور مصادیق میں ہے کہ جن کا معروف یا منکر ہونا کافی حد تک مستدل طور سے لوگوں کے لئے واضح نہیں کیاگیا ہے۔

٢۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سب کا فریضہ ہے، لیکن امر و نہی کرنے والے خاص شرائط کے حامل ہوں، منجملہ ان کے امر و نہی کے شرائط کی شناخت(٢) نیز خود معروف اور منکر کی پہچان ضروری ہے، اس کے علاوہ یا د دہانی اور بیان کا طریقہ اس طرح ہو کہ زیادہ سے زیادہ تاثیر کی امید ہو۔

٣۔ امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کے موارد کو وسیع ہونا چاہئے اور خاص مصادیق میں کہ جو اس وقت سماج اور معاشرہ میں زیادہ رایج اور شائع ہے (جیسے بے حجابی) میں محصور نہ ہو۔ اخلاق کے خلاف اعمال جیسے رشوت لینا، تہمت لگانا، غیبت کرنا اور بد گوئی وغیرہ ایک عام ثقافت اور تہذیب کی صورت میں معیّن شدہ نصائح اور نہی عن المنکر کا مورد واقع ہوں، تاکہ مثال کے طور پر بے حجاب یہ خیال نہ کریں کہ نہی عن المنکر ہمیشہ انہیں کے بارے میں ہے۔

د۔ موقعیت کا تبدیل کرنا:

کسی ماحول کے حالات کی قوّت اور اس کی اثر گذاری اس حد تک ہوتی ہے کہ صرف موقعیت اور حالات کے تبدیل کرنے سے اخلاقی تربیت حاصل ہوپاتی ہے۔ اگر چہ ماحول کی تبدیلی بہت زیادہ مالی اخرجات اور نفسیاتی بوجھ کی حامل ہوتی اخراجات ہے، ایک سا ز گار تربیتی ماحول ایجاد کرنے کے لئے آخری طرز کے عنوان سے ضروری ہے۔ ''ہجرت'' منجملہ ان دستورات میں سے ہے کہ جس کی دین میں تاکید ہوئی ہے اور کبھی واجب حد تک پہونچ جاتی ہے۔ قرآن مجید کے بقول جب فرشتے کچھ لوگوں کی روح قبض کرنے آتے ہیں تووہ لوگ ماحول کے ناموافق ہونے کو اپنا عذر بیان کرتے ہیں، لیکن فرشتے کہتے ہیں ''.... کیا خدا کی زمین وسیع نہیں تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے ....''۔(٣)

____________________

١۔'' المعروف'' اسم لکل فعل یعرف بالعقل او الشرع حسنہ والمنکر ما ینکر ھما (المفردات ) معروف ہر اس فعل کو کہتے ہیں جسے عقل یا شرع کے ذریعہ نیک جانا جائے اور منکر ہر اس فعل کو کہتے ہیں جسے عقل یا شرع ناپسند کریں۔ ٢۔ سورئہ توبہ، آیت ٧١ اور ملاحظہ ہو: المیزان، ج ٣ ، ص ٣٧٣۔

٣۔ الم تکن ارض اللہ واسعة فتھاجروا فیھا۔۔۔ سورئہ نسا ئ، آیت ٩٧۔

۱۷۰

جو انسان ایسے گھر یا محلہ میں زندگی بسر کرتا ہے کہ وہاں کے رہنے والے اپنی یا اپنی اولاد کی شائستہ تربیت کے لئے موافق اور ساز گار ماحول نہیں رکھتے وہ اسی طریقہ سے استفادہ کرتے ہوئے جدید امکانات کو اپنے اہل وعیال اور خاندان کے افراد کے رشد و تغیرّ کے لئے فراہم کرسکتا ہے۔ اپنے یا اپنے اقرباء کے نا پسند ناموں کا تبدیل کرنا بھی اس خاص نفسیاتی ماحول کو نظر میں رکھتے ہوئے جو اسی سے پیدا ہوتا ہے تغییر موقعیت کے موارد میں شمار ہوتا ہے۔(١) ایسی نشست جس میں اخلاق کے خلاف اعمال کی روک تھام نہ ہوسکے اسے ترک کردینا چاہیے: ''مجرمین کے بارے میں وہ سوال کررہے ہوں گے: کس چیز نے تمہیں جہنم کی آگ میں جھونک دیا؟ وہ کہیں گے: ہم لوگوں کے برے کاموں میں شامل ہوجایا کرتے تھے۔(٢)

اسلام ایک مسلمان کے روزانہ کے معمول کی تعیین میں اسی طر یقہ اور روش سے مدد لیتا ہے اور اسے مذہبی مراکز جیسے مساجد میں مسلسل حاضر ہونے کی دعوت دیتا ہے یہ اسے خود ہی ایک قسم کی تغییر موقعیت ہے اگر چہ ہجرت شمار نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ ایک قسم کی اخلاقی تازگی اورشادابی انسان کو عطا کرتی ہے اور اسے ایک ہی طرح کے ماحول سے اور بسا اوقات روزانہ کے نا مساعد اور غیرموافق ماحول سے جدا کردیتی ہے۔

٢۔ ضرورتوں کو صحیح طریقہ سے پورا کرنا

ضرورتو ںکو صحیح طریقہ سے پورا کرنے سے مراد یہ ہے کہ ضروریات زندگی کو ایک متعادل حد تک اخلاقی تربیت دینے اور بالاتر ضرورتوں کی تکمیل کرنے سے پہلے پورا کیا جائے۔ سبب اور محّرک کے ا ثر کے پیش نظر جو کہ عمل کے اصول ومبادی میں سے ایک ہے، جب تک کہ انسان بھوک کے زیراثر یاجنسی میلان کے تحت تاثیر ہے یا کم از کم اپنی زندگی کیلئے کوئی پناہ گا ہ نہیں رکھتا، ایسا انسان اخلاق کی بلندیوں کی طرف قدم نہیں بڑھا سکتا۔

اسلامی تعلیمات میں یہ نکتہ مورد توجہ واقع ہوا ہے، سورئہ ''قریش '' میں خدا وند سبحان کی عبادت کی دعوت کا ذکر ان کی خوراک فراہم کرنے اور امنیت کے ذکر کے بعدہوتی ہے: '' لہٰذا انھیں چا ہیے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں، وہی ذات کہ جس نے انھیںبھوک سے نجات دی اورنا امنی سے انھیںرہائی دلائی''۔ ''فلیعبدو ا رب ھذا البیت الذی اطعمھم من جوع وآمنھم من خوف''۔(٣ )

____________________

(١) ان رسول ا للّہ کان یغےّرا لاسماء القبیحة فی الرجال والبلدان، وسائل الشیعہ، ج ١٥، ص ١٢٤۔

(٢)یتسائَ لون عن المجرمین ما سلککم فی سقر قالوا و کنا نخوض مع الخائضین ، سورئہ مدثر، آیت ٤٠ تا٤٥ ۔

(٣) سورہ ٔقریش، آیت ٣، ٤۔

۱۷۱

مندرجہ ذیل آیات میں غور خوص کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اخلاقی صفات، تقویٰ، شکر، اور عمل صالح وغیرہ انسان کی اوّلین ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد ذکر ہوئے ہیں:و کلوا مما رزقکم الله حلالاً طیبا واتقو الله ۔۔۔(١) ۔ اور جو کچھ خدا نے تمہیں حلال اور پاکیزہ رزق دیا ہے اس میں سے کھائو اور خدا سے درتے رہو....۔ ''یا ایا الذین آ منوا کلوا من طیبات ما رزقناکم واشکرو الله ۔۔ اے ایمان لانے والوں! جو ہم نے تمہیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اس میں سے کھائو اور خدا کا شکر ادا کرو....۔(٢) ''یاایھا الرسل کلو ا من الطیبات و اعملوا صالحا۔۔۔'' اے میرے رسولو! تم پاکیزہ غذائیں کھائو اور نیک عمل انجام دو.....۔(٣) پیغمبر اکرم نے حدیث ایک شریف میں زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے اثر کے سلسلہ میں اس سے بلند تر ضرورتوں پر نظرکرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے: '' اگر روٹی نہ ہوتی توہم نماز نہیں پڑھتے، روزہ نہیں رکھتے اور پروردگار کے واجبات کو ادا نہیں کرسکتے تھے ''۔(٤) اور دوسری جگہ پر فرماتے ہیں: ''قریب ہے کہ فخرو نا داری کفر و ناشکری کا سبب بن جائے '' ۔(٥) پیغمبر اکرم اور ائمہ طاہرین (ع) کی سیرت میں بھی ہم ملاحظہ کرتے ہیں آپ حضرات عملی طور پر محرومین کی طرف توجہ دیتے اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرتے تھے، شب کے سناٹے اور سردی اور گرمی کے موسم میں بھی ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتے تھے(٦) اور یہی بات انوارہدایت کے درک کرنے کے مقدمات ان کے لئے فراہم کرتی تھی۔ حتی کہ دشمنوں سے ملاقات کے موقع پر بھی صلاح وہدایت کی دعوت سے پہلے ان کی معاشی ضرورتوں کو پورا کرتے تھے۔

____________________

١۔ سورہ ٔما ئدہ، آیت ٨٨۔

٢۔سورہ ٔبقرہ ، آیت ١٧٢۔

٣۔ سورئہ مومنون، آیت ٥١۔

٤۔فلو لا الخبز ما صلینا ولا صمنا ولا ادینا فرائض ربنا عز وجل ۔ کا فی ،ج ٦، ص ٢٨٧۔

٥۔کاد الفقر ان یکون کفرا، کا فی، ج ٥، ص ٣ ٧۔

٦۔ الحیاة، ج ٣، ص ٢٣٢تا ٢٣٤ ملاحظہ ہو۔

۱۷۲

حضرت امام حسن ـکی سیرت نادان مخالفین کے ساتھ یہی انسانی روش اور سیرت تھی:

ایک شامی نے معاویہ کے ورغلانے پر ایک دن امام حسن کو گالی دی، امام نے اس سے کچھ نہیں کہا یہاں تک کہ خاموش ہو گیا، اس وقت آپ نے شیریں مسکراہٹ کے ساتھ اس کو سلام کیا اور فرمایا: '' بوڑھے آدمی! فکر کرتا ہوں کہ تو ایک پردیسی ہے اور خیال کرتا ہوں کہ تو راستہ بھول گیا ہے اگر مجھ سے رضایت طلب کرے گا تو تجھے رضایت دوں گا اور اگر کچھ ہم سے طلب کرے گا اور راہنمائی چاہے گا تو تیری راہنمائی کروں گا اور اگرتیرے دوش پر کوئی بوجھ ہے تو اسے اٹھا لوں گا اور اگر بھوکا ہے تو شکم سیر کردوںگا اور اگر محتاج ہے تو تیری ضرورت پوری کردوں گا، (خلاصہ ) جو کا م بھی ہو گا اسے انجام دیدوںگا اور اگر میرے پاس آئے گا تو بہت آرام سے رہے گا کہ مہمان نوازی کے ہر طرح کے وسائل و اسباب میرے پاس فراہم ہیں''۔

وہ شامی شرمندہ ہوگیا اور رو کر کہنے لگا: ''میں گواہی دیتا ہوں کہ روئے زمین پر آپ خدا کے جانشین ہیں، خدا بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کہاں قرار دے۔ آپ اور آپ کے والد میرے نزدیک مبغوض ترین انسان تھے لیکن اب آپ سب سے زیادہ محبوب ہیں ''بوڑھا آدمی اس دن امام حسن ـ کا مہمان ہوا اور جب وہاں سے گیاتو حضرت کی دوستی کا دم بھر نے لگا۔(١)

آبراھام مزلو ہیومینسٹ ماہر نفسیات نے آدمی کے اغراض واسباب کی طبقہ بندی کے لئے جدید طریقہ پیش کیا ہے، اس نے ضرورتوں کے ترتیب و ار سلسلہ کو پیش کیا کہ جو زندگی کی اساسی ضرورتوں سے شروع ہو تا ہے اور اس سے بالا تر سطحوں میں نفسیاتی اغراض واسباب تک پہونچ جاتا ہے وہ کہتا ہے: ''..... انسان کی با مقصد حیات میں تنظیم کی اہم اصل اساسی ضرورتوں کی ترتیب اولویت کے مراتب کے سلسلہ کی صورت میں کمتر یا بیشتر غلبہ کی قدرت کے ساتھ ہوتی ہے۔ وہ اہم محرّک جو اس تنظیم کا باعث ہوتی ہے وہ ضعیف تر ضرورتوں کا پیدا ہونا ہے جو کہ قوی تر ضرورتوںکو پورا کرنے سے ایک سالم انسان میں پائی جاتی ہے۔ جب بھی ضرورت زندگی پوری نہیں ہوتی، جسم پر غلبہ پا جاتی ہے اور تمام استعداد اور صلاحیتوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیتی ہے اور ان صلاحیتوںکو اس طرح منظّم کرتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ان سے استفادہ کرسکے۔ نسبی رضا مندی ان

____________________

١۔ بحار الانوار، ج، ٣ ٤، ص ٣٤٤۔

۱۷۳

ضرورتوں کو محو کردیتی ہے اور بعدکے سلسلہ میں مراتب کی ضرورتوں سے بلند مجموعہ کو موقع دیتی ہے کہ وہ ظاہر ہوں، شخصیت پر غلبہ پاکر انھیںمنظّم کریں اس طرح کہ، بھوک کا درد اٹھانے کے بجائے امن و سلامتی کے لئے پریشان ہو۔ یہ اصل سلسلہ مراتب میں ضرورتوں کے دوسرے مجموعوں یعنی محبت، احترام اور خود آگے بڑھنے اور ترقی کرنے پر بھی صادق ہے۔(١)

اسی وجہ سے محتاج سماج اوراجتماع میں علمی، ہنری اور اخلاقی تخلیق کم وجود میں آتی ہے۔

مزلوکا نظریہ ہے کہ سالم افراد بلند ضرورتوں کی طرف رخ کرتے ہیں، یعنی اپنی با لقوة استعدادوں کے عمل ہونے کے خواہشمند ہوتے ہیں اور آس پاس کی دنیا کو پہچاننا چاہتے ہیں۔ مقصد، بے نیاز کرنا، تجربہ حیات کی توسیع، سرور و شادمانی کا اضافہ اور زندہ ہونے کی تحریک ہے.... نیک اخلاقی صفات جن کو و ہ'' وجود میں اقدار ''سے تعبیر کرتا ہے اس موقعیت کی طرف رخ کرتے ہیں۔ بعض ہستی کی قدریں اس کی نظر میں یہ ہیں: حقیقت (بے اعتمادی بد گمانی اور تشکیک کے مقابل)، نیکی (نفرت کے مقابل)، کمال (ناامیدی اور بے معنی ہونے کے مقابل)، یکتائی (بے ثباتی کے مقابل)، نظم (عدم امنیت واحتیاط کے احساس کے مقابل )، خود کفائی ( ذمہ داری کو دوسروں کے حوالے کرنے کے مقابل )(٢) ۔

یہ نظریہ کہ انسان کمتر ضرورتوں کی طرف توجہ کئے بغیر یا ایک حد تک ان کی تکمیل، انسانی فضائل کی طرف قدم نہیں اٹھاتا، یہ سماج کے اکثر افراد کے بارے میں صادق آتا ہے۔

دو نکتوں کی طرف توجہ دیتے ہو ئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ '' ضرورتوں کو صحیح طور سے پورا کرنے کی روش ''اس بات کے علاوہ کہ دوسری روشوں کا مقدمہ ہے، خود اسے بھی ایک اخلاقی تربیت کی روش کے عنوان سے پیش کیا جاسکتا ہے۔پہلے یہ کہ ادنی ضرورتوںکو پورا کرنے سے بلند ترین ضرورتیں پیدا ہو تی ہیں، یعنی علّت وسبب کا جنبہ پیدا کرتی ہیں۔ عمل کے علّی اور سببی جنبہ کا وجود تر بیت اخلاقی کے ایک اہم حصہ کو منظّم کرتا ہے۔

____________________

١۔ انگیزش و ہیجان، ص ١٠١۔

۱۷۴

٢۔ اپنی جلوہ نمائی تحقق نفس تک ر سائی اور بالقوة توانائی کے لئے ذوقی تقارن خوبصورتی اور نظم تعارف، جاننا، سمجھنا، تلا ش کرنا، سنجیدگی، عزت نفس، کفایت، اجراء اور اصول تعلق و محبت کی ضرورت غیر سے وابستہ ہونا، سا لمیت کی ضرورت کی مقبولیت، امنیت کا احسا س اور خطرے سے دوری فیز یولوژیائی ضرورتیں، گرسنگی، تشنگی اور جنسی خواہشروانشناسی کمال، ص ١٢٥۔

دوسرے یہ کہ اس سے توانائیوں کو تخلیہ اورباطنی قوتوں کے اعتدال کے لئے آمادگی حاصل ہوتی ہے۔ جیسا کہ علماء اخلاق کے اخلاقی نظام میں ذکر ہوا ہے یہ نکتہ نہایت قابل توجہ اور اہمیت کا حامل ہے کہ سہ گانہ قوتیں شہوت، غضب، اور عقل، عدالت اور اعتدل کے سایہ میں ایک دوسرے کے ساتھ اکھٹا ہو جائیں۔ یہ رویہ یعنی اعتدال قوتوں کے استعمال کرنے میں تربیت اخلاقی کی ترقی میں ایک نا گزیر امر ہے۔

سید قطب الدین لکھتے ہیں: انسان کی تربیت کے لئے اسلام کے اسباب و وسائل میں ان ذمہ دارریوں سے چھٹکارا دلانا ہے جو کبھی کبھی جسم و جان میں اکھٹا ہوتی ہیں اسلام ان باروں اور ذمہ داریوں کو اکھٹا جمع نہیں کرتا مگر یہ کہ انھیں چھوڑنے کے لئے

۱۷۵

یکبارگی جمع کرے۔(١)

اس روش کے محقق ہونے کے لئے لازم طریقے یہ ہیں: معاشی نظام کی جانب توجہ، ازدواج، ورزش اور کام کاج ۔

الف ۔معاشی نظام کی طرف توجہ:

بہت سے اخلاقی جرائم کی بنیاد مال اور خوراک اور غذا کی کمی ہے۔ پہلے مرحلہ میں معاش کی فراہمی خانوادہ کے ذمہ ہے دوسرے مرحلہ میں حکومت کی ذمہ داریوں میں سے ہے نیز اس نظام کے ذمہ ہے جو سماج پر حکومت کررہا ہے اور تیسرے مرحلہ میں نیکو کا راور قدرت مند افراد کے ذمہ ہے۔ بہر صورت تربیت کرنے والوں کی تگ و دو اس مسئلہ کی نسبت تربیتی نقطہ نظر سے تربیت اخلاقی میں بہت سے موانع کو دور کرنے والی ہے۔

ب۔ ازدواج:

ازدواج کے تربیتی اور اخلاقی فوائد (جیسے خود خواہی و خود غرض سے دور ہونا، دوسروں کی خدمت کے لئے آمادگی اور ان کی طرف توجہ، عواطف و جذبات کا بار آور ہونا، محبتوں کا ثمر دینا اور ذمہ داری قبول کرنے کے لئے آمادگی وغیرہ وغیرہ ) کے علاوہ ازدواج کا اہم اور ابتدائی کردار غریزہ جنسی کی ضرورت کو فطری اور شرعی طریقہ سے صحیح طور پر پورا کرنا۔ اس نکتہ کی طرف توجہ کرنا چاہیے کہ ایسا جوان جس کا غریزہ جنسی شباب پر ہے اور ماحول کے بہت سے محرک بھی اس کے اندر اور زیادہ اس آگ کو بھڑکا رہے ہیں، وہ جوان سختی سے خود کو گناہ سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔(٢) پیغمبر نے فرمایا ہے : '' جب کوئی انسان شادی کرتا ہے تو اس کا نصف دین کامل ہو جاتا ہے لہٰذا بقیہ نصف کے سلسلہ میں اسے تقویٰ اختیار کرنا

____________________

١۔ روش تربیتی در اسلام، ص ٢٨٢۔

٢۔ مراد یہ ہے کہ جنسی غریزہ جوانوں کو زیادہ مشکلات سے دو چار کرتا ہے، نہ یہ کہ کلی طور پر تربیت اور اصلاح کا راستہ ہی بند کردے ۔

۱۷۶

چاہئے''۔(١) پیغمبر کے اس حکیمانہ ارشاد سے یہ نکتہ بھی قا بل استفادہ ہے کہ اللہ کا تقویٰ ا ور اخلاقی ورع، شادی کے بعد زیادہ آسان اور قابل حصول ہے۔

ج۔ورزش:

جسمانی ضرورتوں کو صحیح طور پر پوراکرنے میں اور جوانی کی قوتوں کی جلاء میں ورزش کا کردار قابل انکار نہیں ہے۔ اخلاقی تربیت میں ورزش کا کردار دو جہت سے قابل اہمیت ہے:

اول۔وہ جسمانی سلامتی اور فرحت کہ جو ورزش سے پیدا ہوتی ہے، روحی، ذہنی اور نفسیاتی سلامتی نیز اخلاقی فضائل کے لئے مقدمہ ہوتی ہے۔ ہماری تہذیب اور ثقافت میں قوت اورجوانمردی ہمیشہ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ رہی ہیں۔ ورزش اخلاقی توجیہ نبی اور ائمہ (ع) کی سیرت میںآتی ہے ۔ پیغمبر اکرم ایسے مردوں سے ملاقات کے وقت جو زور آزمائی کے لئے وزن اٹھا رہے تھے، فرماتے ہیں: ''لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر وہ انسان ہے جو خواہشات نفس پر غالب ہو''۔(٢) امیر المومنین ـ دعائے کمیل میں خدا سے جسمانی قویٰ کی تقویت کی درخواست خدمت الٰہی کے لئے کرتے ہیں،یارب.... قو علی خدمتک علی جوارحی ۔ اس کے مقابل کمزور اور پست افراد تربیت کے خلاف امور انجام دیتے ہیں۔دوسری جہت ۔ ضرورتوں سے توجہ ہٹانا ہے، بالخصوص جوانی کے زمانہ میں جنسی ضرورتیںاپنی تکمیل کا تقاضہ کرتی ہیں۔ ایسے حالات میں کہ ابھی جائز اور مشروع طریقہ سے صحیح طور پر جنسی خواہشات کی تکمیل کے امکانات فراہم نہیں ہوئے ہیں، ورزش ضرورتوں سے توجہ ہٹانے کا ایک مفید اور اہم ذریعہ ہے۔

د۔ کام:

کام کاج کے مسئلہ کو '' معاشی نظام کی طرف تو جہ '' کی بحث میں ذکر کیا جاسکتا ہے، لیکن چونکہ اس کا اسلام میں ایک خاص مرتبہ ہے، اور استاد مطہری کے بقول: کام اسلام میں ایک مقدس اور پاکیزہ شے ہے،(٣) نیز بہت سے تربیتی جہات اس میں پائے جاتے ہیں، لہٰذا ہم نے اسے جدا گانہ طور پر ذکر کیا ہے، ایک طرف کام صحیح طور پر قوتوں کی جلاء اور اضافی بار کے تخلیہ کاموجب ہوتا ہے اور دوسری طرف شخصیت کے احساس، ذہنی علاج، تمرکز خیال، ضرورتوں سے توجہ ہٹانے کا باعث ہوتا ہے، کہ یہ سب اخلاقی تربیت کے لئے معاون وسیلہ ہیں۔(۴)

____________________

١۔ اذا تزوج العبد فقد استکمل نصف الدین فلیتق اللہ فی نصف الباقی ۔ بحا ر الانوار، ج ٣ ١٠، ص ٢١٩۔''من تزوج فقد احرز نصف دینہ ، فلیتق اللہ فی النصف الباق''۔بحار الانوار ،ج١٠٣، ص٢١٩۔٢۔ اشجع الناس من غا لب ھواہ۔ میزان الحکمة، ج ١٠، ص ٣٨٧۔٣۔ تعلیم وتربیت در اسلام، ص ٤١١۔۴ ۔ ان جملوں کی طرف توجہ دینا مذکورہ بالا مطلب کی تائید میں موثر ہے: سقراط: ''دیانت کے بعد کام نیک بختی اور سعادت کا سرمایہ ہے''۔ پاسکال: '' تما م فکری اور اخلاقی برائیوں کی جڑ بے کاری ہے جو ملک بھی اس عظیم عیب کو بر طرف کرنا چاہتا ہے اسے لوگوں کو کام پر آمادہ کرنا چائیے تاکہ اس سے روحی سکون کہ جس سے معدودے چند افراد آگاہ ہیں، حاصل ہو ''۔ ساموئل اسمایلز: '' دیانت کے بعد انسان کی تربیت کے لئے کام سے بہتر کوئی مدرسہ تعمیر نہیں کیا گیا ہے ''۔ بحوالۂ تعلیم و تربیت در اسلام، ص ٤٣٠۔

۱۷۷

٣۔ ا حترام شخصیت کے طریقے

اخلاق اسلامی کی اساسی بنیاد انسان کا اپنی ذاتی کرامت اور شرافت کی طرف توجہ دینا ہے: ''یقینا ً ہم نے اولاد آدم کو کرامت سے نوازا ( انھیں عزت عطا کی ) ...اور انھیں اپنی بہت سی مخلوقات پر واضح فوقیت و برتری عطا کی۔(۱)

خود آگاہی اور اس بات کی طرف توجہ کہ انسان ایک بلند وبر ترمخلوق ہے اور اپنے اندر بے مثال اور قیمتی گوہر رکھتا ہے یہ بات اس کو (حبّ ذات کی بناپر) اپنی ذاتی کرامت کی حفاظت وپاسداری کے لئے دعوت دیتی ہے اور اخلاق کی بلند قدروں کی طرف کھینچتا ہے: ''اکرم نفسک عن کل دنےة و ان ساقتک الیٰ الرغائب فانک لن تعتاض بما تبذل من نفسک عوضا ً''(۲) اپنے نفس کو ہر طرح کی پستی سے پاکیزہ رکھو ! چاہے وہ پستی پسندیدہ اشیاء تک پہونچا ہی کیوں نہ دے کیونکہ جو اپنی عزّت نفس تم دوگے اس کی قیمت اور عوض تمہیں کبھی مل نہیں سکتا۔

'' انسان کی حقیقت'' چونکہ آسمانی قداست و پا کیزگی کی حامل ہے اور وہ علم، قدرت اور آزادی کے چشمہ سے سیراب ہوا ہے لہٰذا وہ جھوٹ، باطل، طبیعت کی اسیری، گراوٹ اور پستی و ذلت و شہوت اور جہل میں ہاتھ پاؤں مارنے کے مخالف ہے اسی وجہ سے ہوشیار انسان ہرطرح کے اخلاقی ر ذائل سے کہ جو اس کی عزت اور غیرت

____________________

۱۔لقد کرمنا بنی آدم...... و فضلناهم علی کثیرممن خلقنا تفضیلا ۔ سورئہ اسرائ، آیت ٧٠۔

۲ نہج البلاغہ، مکتوب ٣١۔

۱۷۸

سے منافات رکھتے ہیں، بیزار ہوتا ہے۔(١) اس کے مقابل ایک ایسا انسان جو ذلّت، پستی اور فرومایہ ہونے کا احساس کرے اور اپنے اندر پائی جانے والی عظیم شرافت پر یقین نہ رکھے، وہ ہر طرح کے نا پسند اخلاقی افعال کے ارتکاب سے بے پرواہ ہوتا ہے:اللئیم لا یستحی، اللئیم اذا قدر ا فحش واذا وعد اخلف، اللئیم لا یرجیٰ خیره ولا یسلم من شره ولا تؤمن غوائله، اللئیم مضاد لسائر الفضا ئل و جامع لجمیع الرذائل ۔( ٢) کمینہ شخص شرم نہیں کرتا، کمینہ جب قدرت پاتا ہے برائی کرتا ہے اور جب وعدہ کرتا ہے تو اس کے خلاف کرتا ہے، کمینہ سے خیر کی امید نہیں کی جا سکتی اور اس کے شر سے محفوظ نہیں رہا جا سکتا اور اس کے فسادوں سے بے خوف نہیں رہا جا سکتا، کمینہ تمام فضائل کا مخالف اور تمام رذائل کا حامل ہوتا ہے۔ من ھانت علیہ نفسہ فلا تامن شرہ۔(٣) جو انسان خود کو بے حیثیت سمجھتا ہو اس کے شر سے بے خوف نہ رہو۔

اس مطلب کی وضاحت نفسیاتی اعتبار سے خود انسان کے خیال واعتقاد سے ہماہنگ ہونا یا نہ ہونا ہے: اگر میں بے رحمانہ اور احمقانہ عمل کا مرتکب ہوں تو میری عزت نفس ملامت کا شکار ہوجائے گی۔ کیونکہ وہ عمل میرے ذہن کو اس امکان کی طرف متوجہ کرے گا کہ میں ایک بیوقوف اور ظالم انسان ہوں۔ سینکڑوں آزمائش کے درمیان کے عدم موافقت کے نظریہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ واضح ترین نتائج ایسے حالات میں حاصل ہوئے ہیں جو انسان کی عزت نفس سے مربوط ہیں، کیونکہ جس طرح امید کی جاتی ہے کہ جو افراد زیادہ عزت نفس کے مالک ہیں، اگر ان سے بے رحمانہ اور احمقانہ رفتار سرزد ہو جائے تو دوسروں سے زیادہ نا موافقت کا احساس کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی انسان معمولی عزت نفس رکھتا ہو تو کیا پیش آسکتا ہے؟ اگر ایسا انسان غیر اخلاقی اور احمقانہ عمل کا ارتکاب کرے تو زیادہ ناموافقت کا احساس نہیں کرے گا ...دوسری طرف وہ انسان جوزیادہ عزت نفس کا مالک ہے، غالباً وہ ایک برے عمل کے ارتکاب کے وسوسہ کے مقابل مقاومت کرتا ہے، اس لئے کہ بے برے کام اس کے اندر زیادہ سے زیادہ نا موافقت ایجاد کردیتا ہے۔(٤)

____________________

١۔ الصدق عزّ والکذب عجز، سچ عزت (کا سبب) ہے کتاریخ یعقوبی، ج ٢، ص ٢٤٦ ؛ الغیبة جھد العاجز، مازنی غیور قط،غیبت عاجز کی کوشش ہے، کسی غیرتمند نے کبھی زنا نہیں کیا ( نہج البلاغہ، ح ٢٩٧ ) ؛ الکذب والخیانة لیسا من اخلاق الکرام، جھوٹ اور خیانت اچھے اخلاق سے نہیں ہیں (غرر) وموت فی عز خیر من حیاة فی ذل ،عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر، (بحار الانوار، ج٤٤، ص ١٩٢)

٢۔ غرر الحکم، تیسری فصل، ص ٢٦٠۔

٣۔ بحار الانوار، ج ١٧، ص ٢١٤۔

٤۔ روانشناسی اجتماعی، ترجمہ شکرکن، ص ١٥٠ ، ١٥١ ۔

۱۷۹

اس وجہ سے اخلاقی تربیت کی ایک روش شخصیت کااحترام ہے یعنی ایسے امور کا انجام دینا کہ جن سے خود کو یقین ہو یا جس کی تربیت کی جارہی ہے اس کو اپنی قدروقیمت کا یقین حاصل ہو۔ ایڈلر، A ، y.adler جوکہ ایک فردی نفسیات کاموجد ہے اس نے احساس کمتری کو اپنے نظریہ کی اساس قرار دی ہے اور اسے علت اور تمام غیر معمولی رفتار کی علت اور سر چشمہ سمجھتا ہے۔احساس کمتری رنگین دھاگہ کے مانندجو نفسیاتی اختلال کے تمام حالات میں کھنچا ہواہے۔ ایک غصہ وریا بے صلاحیت بچہ سن رسیدہ ہوکر بھی نفسیاتی تعادل کی قوت نہیں رکھتا ہے۔ نفسیاتی مریض، مجرمین، جنسی منحرفین اور روحی بیمار سباپنی نا رسائی اور ضعف کے احساس کا رنج و الم برداشت کرتے ہیں۔ اور مسلسل شک وتردید اور گمراہی میں زندگی بسرکرتے ہیں اورایک معتمد ومستحکم مرکزتلاش کرتے ہیں...احساس کمتری طبیعی ارتقا کے لئے رکاوٹ بنتاہے(١) اور یہ اس وقت ہوتاہے کہ بچہ مکمل اس احساس میںغوطہ لگاتا ہے اور لاحاصل ہاتھ پاؤں مارنے کے باوجود خود کواس حالت سے نجات دینا چاہتا ہے، اس حالت میںبد گمانی اور وحشت احساس کمتری کی راہ کوکھول دیتی ہے اور بچہ نفسیاتی اختلال کا شکار ہوجاتا ہے، اس موقع پر ذہنی ونفسیاتی حرکت، سکو ن اور سکوت کا شکار ہوجاتی ہے ، اس معنی میں کہ بچہ پھر اپنے ضعف اور نقائص کو دور کرنے پر قادر نہیں ہوتاہے، ناچار اس کے علاوہ کوئی راہ نہیں رکھتا کہ خیالی تعادل بخشنے(جھوٹی تلافی) سے خود کو ماحول کے حوالے کردے۔(٢)

احساس کہتر نامی کتاب میں، ایڈلر کے نظریہ کی توضیح کے سلسلہ میں جو احساس کمتری سے پیدا شدہ زندگی کی روش کی اس طرح منظر کشی کرتے ہیں: احساس کمتری درجہ کیفیت اور سب سے پہلے نتیجہ کے اعتبار سے جو اس سے تجربے کے ضمن میں حاصل ہوتا ہے، انسان کے طرز زندگی کی تعیین کرتی ہے۔ یہاں پر تین اساسی ساز وسامان اور اس کے بعد تین طرز زندگی کو مشخص کیا جاسکتاہے ، طبیعی جبران کا سازو سامان، گریز وناامیدی کا ساز و سامان اور خیالی جبران کاساز وسامان۔

١۔ طبیعی تلافی:

یہ تلافی ایک نتیجہ خیز اساسی روش کے پایہ پر استوار ہے کہ جو نفسیاتی محوروں کی واقعی تعیین کرتا ہے، مثال کے طور پر ایک حادثہ کا شکار انسان کہ جو جسمی اور عضوی نقص رکھتا ہے، اسے صحیح کرنے یا مرکزی اعصبابی مشین اور دیگر اعضاء کے وسیلہ سے اسی ایک تلافی کی طرف رہنمائی کی جاتی ہے۔

____________________

١۔ ایڈلر: روانشناسی فردی، ترجمہ حسن زمانی، ص ٥٩۔

٢۔ ایضاً، ص٥٧۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

آیت ۹

( اقْتُلُواْ يُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضاً يَخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبِيكُمْ وَتَكُونُواْ مِن بَعْدِهِ قَوْماً صَالِحِينَ )

تم لوگ يوسف كو قتل كردو يا كسى زميں ميں پھينك دوتو باپ كا رخ تمھارے ہى طرف ہوجائے گا اور تم سب ان كے بعد صالح قوم بن جائو گے (۹)

۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے خلاف سازش والى ٹينگ ميں اكثر بھائيوں كى رائے يہ تھى كہ يا تو يوسف كو قتل كيا جائے يا درو دراز علاقے ميں جلا وطن كرديا جائے_اقتلوا يوسف او اطرحوه ارضا

(اقتلوا يوسف) كے جملے كى دو طرح كى تفسير كر سكتے ہيں ۱_ يوسفعليه‌السلام كے كچھ بھائيوں نے ان كو قتل كرنے كا مشورہ ديا اور دوسروں نے انہيں جلاوطنكرنے كا مشورہ ديا۲_ اكثريت اس كے خلاف سازش كانظريہ ركھتے تھے _ خواہ اس كو قتل كرديں يا اسكو جلا وطن كرديں يہ بات قابل ذكر ہے كہ بعد والى آيت شريفہ ميں جملہ ( ان كنتم فاعلين) بتاتا ہے كہ ان بھائيوں ميں ايك تھا جو ان دونوں نظريے كے خلاف تھا اسى وجہ سے اكثريت كا لفظ بولا گيا كہ اكثريت كى يہ رائے تھي_

۲_يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں كا حسد، ان كے قتل ياجلا وطن كرنے كے ارادے كا سبببنا_

اذ قالوا ليوسف و اخوه احب اقتلوا يوسف

۳_ حسد انسان كو قتل يا اپنے بھائي كوجلا وطن كرنے جيسے گناہوں پراكساتا ہے_

و اذ قالوا ليوسف و اخوه احب اقتلوا يوسف او اطرحوه ارضا

۴_ يوسفعليه‌السلام كے بھائي، حضرت يوسف(ع) كى گھرانے ميں عدم موجودگى كو يعقوب كى اپنے ليے مكمل توجہ كا سبب سمجھتے تھے_اقتلوا يوسف يخل لكم وجه ابيكم

(يخل لكم وجہ ابيكم ) (تمہارے ليے تمہارے والد كا چہرہ خالى ہو) يہ اس بات سے كنايہ ہے كہ ان كى توجہ و الطاف ، يوسف سے دور ہو جائے گا اور فقط تمہارے ليے ہوگا_(يخل) كا فعل (اقتلوا) اور (اطرحوا) امر كا جواب ہے _

۳۸۱

اور يہ'' يخل'' كا فعل (ان)شرطيہ جو مقدر ہے اس كے ذريعے مجزوم ہو ا ہے_يعني( ان تقتلوہ او تظروحوہ يخل لكم) _

۵_ يوسفعليه‌السلام كے بھائي، حضرت يوسف(ع) كى عدم موجود گى ميں بنيامين كو يعقوبعليه‌السلام كى محبت جلب كرنے ميں اپنا رقيب خيال نہيں كرتے تھے_ليوسف و اخوه احب اقتلوا يوسف يخل لكم وجه ابيكم

يوسفعليه‌السلام كے بھائي يعقوبعليه‌السلام كى يوسفعليه‌السلام اور بنيامين سے بہت زيادہ محبت سے رنجيدہ تھے ليكن وہ يوسفعليه‌السلام كو درميان سے ہٹانے سے اپنى مشكل كو حل شدہ سمجھتے تھے اسى وجہ سے وہ يہ خيال كرتے تھے كہ يعقوبعليه‌السلام كى ان كى طرف كامل توجہسے تنہا بنيامين مانع نہيں بن سكتا_

۶_ انسان كے محبوب ہونے كا عشق ،اسے مقصود تك پہنچنے كے ليے قتل و جنايت پر اكساتا ہے_

اقتلوا ليوسف يخل لكم وجه ابيكم

۷_ يوسفعليه‌السلام كے بھائي حضرت يعقوبعليه‌السلام كے پاس ان كى موجودگى كو اپنے ليے مشكلات اور بدبختى سمجھتے تھے_

اقتلوا يوسف تكونوا من بعده قوما صالحين

۸_ يوسفعليه‌السلام كے بھائي اپنے امور كى صلاح وبہبود، ضرت يوسف(ع) كے قتل ميں خيال كرتے تھے _

اقتلوا يوسف او اطرحوه ارضا و تكونوا من بعده قوماً صالحين

(قوما صالحين ) ميں صلاح سے مراد،د نياوى امور كى اصلاح ہے _ كيونكہ ظاہر يہ ہو تا ہے كہ (تكونوا) كا فعل مضارع (يخل) پر عطف ہے اور (اقتلوا) (اطرحوہ) فعل امر كا جواب ہے پس اس صورت ميں (تكونوا ) كے جملے كا معنى يہ ہوگا_ اگر يوسفعليه‌السلام كو قتل كرديں يا اسكو جلاو طنكرديں تو تمہارے كاموں كى اصلاح ہوجائے گى اور تم سے بدبختى دور ہوجائے گي_

۹_ يوسفعليه‌السلام كے بھائي اس خيال ميں تھے كہ ان كو قتل يا جلاوطن كرنے كے بعد وہ توبہ كرليں گئے اور راہ راست پر آجائيں گے_اقتلوا يوسف وتكونوا من بعده قوماً صالحين

(قوما صالحين) سےمذكورہ بالا معنى ميں دينى و اخلاقى اصلاح مراد لى گئي ہے اور اس بنياد پر كہ (و تكونوا) ميں و ''أو مع'' كے معنى ميں ہے _ اور ( تكونوا) كا جملہ (ان ) مقدرہ كے ذريعے منصوب ہے_ تو اس صورت ميں (اقتلوا يوسف و تكونوا من بعدہ قوماً صالحين) كا معنى يوں ہو جائے گا_ كہ يوسفعليه‌السلام كو قتل كردو ليكن اس شرط كے ساتھ كہ اس كے بعد تم درگاہ الہى ميں توبہ كر لو اور نيك اور صالح لوگوں ميں سے ہوجاؤ_

۱۰_ يوسفعليه‌السلام كے بھائي ان كے قتل يا جلا وطن كرنے كو گناہ

۳۸۲

اور نامناسب سمجھتے تھے اوروہ اس بات كے معترف بھى تھے_

اقتلوا يوسف او اطرحوه ارضاً و تكونوا من بعد ه قوماً صالحين

۱۱_عن على بن الحسين عليه‌السلام فى قوله تعالى :(و تكونوا من بعده قوماً صالحين ) اى تتوبون (۱)

امام سجادعليه‌السلام سے خداوند عالم كے اس جملہ(و تكونوا من بعدہ قوما ً صالحين) كے بارے ميں روايت نقل ہوئي ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا:اس سے مراد يہ ہے كہ وہ اس كام كے بعد توبہ كرنے كا ارادہ ركھتے تھے_

اقرار :گناہ كا اقرار ۱۰

برادران يوسف :برادران يوسف اور بنيامين ۵; برادران يوسف اور يوسفعليه‌السلام ۱، ۴، ۷; برادران يوسف اور يوسفعليه‌السلام كا قتل ۱۰;برادران يوسف اور يوسفعليه‌السلام كى جلا وطن ۱۰;برادران يوسف كا اقرار ۱۰;برادران يوسف كا حسد كرنا ۲; برادران يوسف كى توبہ ۹، ۱۱; برادران يوسف كى سازش ۱;برادران يوسف كى فكر ۴،۵، ۷، ۸، ۹، ۱۰;برادران يوسف كى مصلحتى فكر ۸

بھائي:بھائي كا قتل ۳;بھائي كے دربدر ہونے كے اسباب۳

جرم :جرم كا سبب ۶

حسد :حسد كے آثار ۲،۳

روايت : ۱۱

روابط :روابط كے آثار ۶; محبوب ہونے كے ليے روابط ۶

قتل :قتل كا سبب ۶; قتل كے عوامل ۳

گناہ :گناہ كے عوامل ۳

يعقوبعليه‌السلام :يعقوبعليه‌السلام كى اپنے بيٹوں سے محبت ۴،۵

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كا جلا وطن ہونا ۸، ۹; يوسفعليه‌السلام كا قتل ۸،۹; يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۵، ۷، ۸، ۹، ۱۱;يوسفعليه‌السلام كے جلا وطن ہونے كى سازش ۱،۲;يوسفعليه‌السلام كے خلاف سازش كرنا ۱; يوسفعليه‌السلام كے قتل كى سازش ۱،۲

____________________

۱)علل الشرائع ، ص ۴۷، ح ۱ ، ب ۴۱; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۴۱۲، ح ۱۷_

۳۸۳

آیت ۱۰

( قَالَ قَآئِلٌ مَّنْهُمْ لاَ تَقْتُلُواْ يُوسُفَ وَأَلْقُوهُ فِي غَيَابَةِ الْجُبِّ يَلْتَقِطْهُ بَعْضُ السَّيَّارَةِ إِن كُنتُمْ فَاعِلِينَ )

ان ميں سے ايك شخص نے كہا كہ يوسف كو قتل نہ كرو بلكہ كسى اندھے كنويں ميں ڈال دوتا كہ كوئي قافلہ اٹھالے جائے اگر تم كچھ كرناہى چاہتے ہو(۱۰)

۱_ يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں ميں سے ايك (لاوي) نے سازش كے اجتماع ميں دوسرے بھائيوں كو اس كو قتل كرنے سے منع كيا _قال قائل منهم لا تقتلوا يوسف

(قائل) كا كلمہ مفرد ہونا يہ بتاتا ہے كہ يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں ميں سے صرف ايك نے اس كے قتل كى مخالفت كى _ روايت كےمطابق جو بعد ميں ذكر ہوگئي اسكا نام (لاوى ) تھا_

۲_ لاوى اس بات ميں اپنے دوسرے بھائيوں كے مخالف تھا كہ يوسفعليه‌السلام كے خلاف سازش كى جائے اور اس كو والد گرامى حضرت يعقوبعليه‌السلام سے دور كيا جائے_لا تقتلوا يوسف و القوه فى غى بت الجب ان كنتم فاعلين

(ان كنتم فاعلين ) (كہ اگر تم يوسفعليه‌السلام كے خلاف سازش كرنے ميں مصمم ارادہ ركھتے ہو) كا جملہ بتاتا ہے كہ لاوى اس سازش كو عملى كرنے ميں راضى نہيں تھا_ اور يہ بات بھى لازم الذكر ہے كہ (ان كنتم ) كا جملہ جو كہ شرط ہے اسكا جواب وہ معنى ہے جس كا جملہڑڑالقوہ ...'' سے استفادہ ہوتا ہے ہے تو جملہ كامل يوں ہوگا _ (ان كنتم فاعلين فالقوه فى غيبت الجب ) اگر تم اس سازش پر عمل كرتے بھى ہو تو اسكو تاريك كنويں ميں ڈال دو_

۳_ لاوى نے اپنے بھائيوں كو مشورہ ديا كہ اگر تم يوسفعليه‌السلام كو اپنے سے دور كرنے پر تلے ہوئے ہو تو اسكو اس كنويں ميں ڈال دو جہاں قافلوں كے آنے جانے كا راستہ ہے_قال قائل منهم لا تقتلوا يوسف و القوه فى غيبت الجب يلتقطه بعض السيّارة

(جبّ) كنويں كے معنى ميں ہے_ بعض اہل لغت (جبّ) كا معنى گہرا اور عميق كنواں كرتے ہيں _ جو پانى سے بھرا ہوا ہو _ مجمع البيان ميں (غيبت الجب) كا معنى يوں كيا گيا ہے گڑا يا طاقچہ مانند جو كنويں كے پانى كے اوپر عموما بنايا جاتا ہے_ (سيارہ ) اس جماعت كو كہتے ہيں جو سفر كرتے ہيں جنہيں قافلے بھى كہا جاتا ہے_

۳۸۴

۴_ لاوى اپنے اس مشورے (يعنى يوسفعليه‌السلام كو كنويں ميں ڈالا جائے) سے يوسفعليه‌السلام كى جان كى حفاظت اور انہيں كو قتل كرنے سے بچانا چاہتا تھا_لا تقتلوا يوسف و القوه فى غيبت الجب يلتقطه بعض السيارة

لاوى كا يہ مشورہ كہ يوسف كو اس كنويں ميں ڈالا جائے جو آنے جانے والے قافلوں كے راستے ميں ہو_ اس مشورہ كے مقابلہ ميں تھا كہ اسكو جنگل و بيابان ميں اكيلا چھوڑا جائے (او اطرحوہ ارضاً) نيز ساتھيہ بھى تصريح كرنا كہ كوئي نہ كوئي قافلہ اسكو پالے گا_ ( يلتقطہ بعض السيارة) يہ بات دلالت كرتى ہے كہ وہ نہيں چاہتا تھا كہ يوسفعليه‌السلام كى زندگى تلف ہوجائے_

۵_ لاوى كى طرف سے جس كنويں كے بارے ميں مشورہ ديا گيا تھا كہ اس ميں يوسفعليه‌السلام كو ڈالا جائے وہ معين و مخصوص كنواں تھا_القوه فى غيبت الجب

(الجب ) ميں جو الف لام ہے ظاہر يہ ہے كہ يہ عہد ذہنى ہے يعنى وہ كنواں پہلے سے معين و مشخص تھا_

۶_ لاوي، يوسفعليه‌السلام كو كنويں ميں ڈال دينے كو يوسفعليه‌السلام تك قافلوں كى رسائي كا پيش خيمہ سمجھتا تھا اور اس بات كو اسكى موت سے نجات كا ذريعہ ديكھ رہا تھا_يلتقطه بعض السيارة

التقاط ( يلتقطة) كا مصدر ہے جو پانا يا حاصل كرنے كے معنى ميں آتا ہے_

۷_(عن على بن الحسين عليه‌السلام ... قال كبيرهم '' و لا تقتلوا يوسف '' و لكن '' القوه فى غيابت الجب ''(۱)

امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے كہ ان كے بڑے بھائي نے كہا كہ يوسفعليه‌السلام كو قتل نہ كرنا بلكہ اسكو كنويں كى مخفى جگہ ميں ڈال دينا_

۸_عن ابى جعفر عليه‌السلام ... فقال لاوى لا يجوز قتله و نغيبه عن ابينا (۲)

پھر لاوى نے كہا كہ انكا قتل كرنا جائز نہيں ہے ليكن اسكو ہم اپنے والد گرامى سے دورديتے ہيں _

برادران يوسف :برادران يوسف كى سازش ۱، ۲، ۳، ۴

روايت : ۷، ۸لاوى :

____________________

۱) علل الشرائع ، ص ۴۷، ح۱، ب۴۱; نور الثقلين ، ج ۲، ص ۴۱۳ ، ح ۱۷_

۲) تفسير قمى ، ج ۱ ص ۳۴۰; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۴۱۵، ح ۱۹_

۳۸۵

لاوى اور يوسفعليه‌السلام ۳;لاوى اور يوسفعليه‌السلام كا جلا وطن ہونا ۲; لاوى اور يوسفعليه‌السلام كا قتل ۱، ۴;لاوى اوريوسفعليه‌السلام كى نجات ۴،۶;لاوى كا مشورہ ۱، ۳، ۵، ۸;لاوى كى فكر ۲; لاوى كے مشورے كا فلسفہ ۴، ۶

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۶، ۷، ۸; يوسفعليه‌السلام كنويں ميں ۳،۷;يوسفعليه‌السلام كے خلاف سازش ۱، ۲، ۳; يوسف كے كنويں كا قصّہ ۵

آیت ۱۱

( قَالُواْ يَا أَبَانَا مَا لَكَ لاَ تَأْمَنَّا عَلَى يُوسُفَ وَإِنَّا لَهُ لَنَاصِحُونَ )

ان لوگوں نے يعقوب سے كہا كہ بابا كيا بات ہے كہ آپ يوسف كے بارے ميں ہم پر بھروسہ نہيں كرتے ہيں حالانكہ ہم ان پر شفقت كرنے والے ہيں (۱۱)

۱_ لاوى كا يہ مشورہ كہ (يوسفعليه‌السلام كو قتل نہ كيا جائے اور اسكو كنويں ميں ڈالا جائے) دوسرے بھائيوں نے قبول كرليا اور ان لوگوں كے مور تائيد واقع ہوا _لا تقتلوا يوسف و القوه فى غيبت الجب قالوا ىا بانا مالك

يعقوبعليه‌السلام كے سامنے ( تمام بھائيوں كا حاضر ہونا اور ) يوسفعليه‌السلام كو چراگاہوں كى طرف لے جانے كے ليے ان كو راضى كرنا _ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ لاوى كا يہ مشورہ (القوہ فى غيبت الجب ) آخر ى بات تھى جسكو لاوى نےبيان كيا تھااور سب نے اسكو قبول كيا_

۲_ يعقوبعليه‌السلام ، ہميشہ يوسفعليه‌السلام كے خلاف ان كے بھائيوں كے مكر و فريب سے پريشان تھے_

ىا بانا مالك لا تأمنّا على يوسف

۳_ يعقوبعليه‌السلام ، يوسفعليه‌السلام كو ان كے بھائيوں كے سپرد كرنے سے ہميشہ اجتناب كرتے تھے_

مالك لا تأمنّا على يوسف

۴_ يعقوبعليه‌السلام سے يوسفعليه‌السلام كو لے جانا تا كہ(اپنى سازش كو عملى جامہ پہنائيں ) برادران يوسف كے ليے ايك بنيادى اور اساسى مشكل تھى _قالوا ىأبانامالك لا تأمنّا على يوسف

۵_ برادران يوسف كا باپ سے يوسفعليه‌السلام كو لے جانے كے ليے اسكى رضايت حاصل كرنے كيلئے زمينہ ہموار كرنا _

ىأبانا مالك لا تأمنّا على يوسف

۶_ يعقوبعليه‌السلام كى اولاد جھوٹ و مكر پر اتر آئي تا كہ حضرت

۳۸۶

يعقوب(ع) كا اعتماد حاصل كريں اور وہ يوسفعليه‌السلام كو ان كے سپرد كرنے پر راضى ہوجائيں _و انا له لناصحون

۷_ يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں نے يعقوبعليه‌السلام كے سامنے شكايت كى اور اس بات پر تنقيد كى كہ وہ يوسفعليه‌السلام كى نسبت ہم پر اعتماد نہيں كرتے ہيںقالوا ى أبانا مالك لا تأمنّا

۸_ يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے ان كے حضور يوسفعليه‌السلام سے اپنى خير خواہى كے بارے ميں تاكيد كى _

مالك لا تأمنّا على يوسف و انا له لناصحون

۹_ يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے ان سے اظہار محبت كر كے اور ان كے احساسات كو ابھار كر ان كو فريب دينا چاہتے تھے_

قالوا ى أبانا مالك لا تأمنّا على يوسف

مذكورہ بالا تفسير ( ىأبانا) اے ہمارے والد گرامى اور (مالك لا تأمنّا ...) '' آپ كو كياہو گيا ہے كہ يوسفعليه‌السلام كے بارے ميں ہم پر بے اعتمادى كر رہے ہيں '' سے حاصل ہوئي ہے_

۱۰_ حسد ، انسان كو جھوٹ بولنا اور اپنے نزديك اور محبوب ترين شخص كے ساتھ مكرو فريب جيسے گناہ كرنے پر مجبور كرتا ہے_قالوا ىأبانا مالك لا تأمنّا على يوسف و انا له لناصحون

برادارن يوسف :برادارن يوسفعليه‌السلام اور لاوى كا مشورہ ۱; برادران يوسف(ع) اور يعقوبعليه‌السلام كا راضى ہونا ۵، ۶; برادران يوسف(ع) اور يعقوبعليه‌السلام ۷، ۸، ۹; برادران يوسف(ع) اور يوسفعليه‌السلام ۷; برادران يوسف(ع) سے بے اعتمادى ۷; برادران يوسف(ع) كا برتاؤ ۹; برادران يوسفعليه‌السلام كا جھوٹ بولنا ۶; برادران يوسفعليه‌السلام كا خير خواہى كرنے كا اظہار كرنا ۸;برادران يوسف(ع) كا شكوہ ۷; برادران يوسف(ع) كا محبت كا اظہار كرنا ۹;برادران يوسفعليه‌السلام كا مكر ۹;برادران يوسف(ع) كى سازش ۴ ،۵، ۶،۹

جھوٹ:جھوٹ كے اسباب ۱۰

حسد :حسد كے آثار ۱۰

عزير و اقارب :عزير و اقارب سے مكركرنا ۱۰

گناہ :گناہ كے عوامل ۱۰

لاوى :لاوى كے مشورے كا قبول ہونا ۱

۳۸۷

مكر :مكر كا سبب ۱۰

يعقوبعليه‌السلام :حضرت يعقوبعليه‌السلام اور برادران يوسف ۳; يعقوبعليه‌السلام اور برادران يوسف(ع) كى سازش ۲; يعقوبعليه‌السلام كى پريشانى ۲; يعقوبعليه‌السلام و يوسفعليه‌السلام ۳

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۳، ۴، ۵، ۶، ۷، ۸، ۹; يوسفعليه‌السلام كا كنويں ميں ہونا ۱;يوسفعليه‌السلام كے خلاف سازش ۲، ۴

آیت ۱۲

( أَرْسِلْهُ مَعَنَا غَداً يَرْتَعْ وَيَلْعَبْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ )

كل ہمارے ساتھ بھيج ديجئے كچھ كھائے پئے اور كھيلے اور ہم تو اس كى حفاظت كرنے والے موجود ہى ہيں (۱۲)

۱_ يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے يوسفعليه‌السلام كے خلاف اپنى سازش كو عملى كرنے كے ليے ان سے چاہا كہ يوسفعليه‌السلام كو ہمارے ساتھ چراگاہ كى طرف بھيجيں _ارسله معنا غدا

۲_ يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں نے اس كے خلاف سازش كو عملى جامہ پہنانے كے ليے آپس ميں صلاح و مشورہ اور اپنے باپ سے گفتگو كرنے كے دوسرے دن كو معين كيا _اذ قالوا قالوا ى أبانا ارسله معنا غدا

۳_ يوسفعليه‌السلام كے بھائي اپنے ناپاك اور ناروا منصوبے كو حضرت يوسف(ع) كے خلاف عملى جامہ پہنانے كے لئے جلدى ميں تھے اور اسميں انتظار كو مناسب نہيں سمجھتے تھے_ارسله معنا غدا

مذكورہ بالا معنى ان بھائيوں كى اس وضاحت سے (كہ كل يوسفعليه‌السلام كو ہمارے ساتھ بھيج ديجيئے) استفادہ ہوتاہے_

۴_ يوسفعليه‌السلام كے بھائي اپنى اس اظہار محبت كے ساتھ كہ يوسفعليه‌السلام كى جسمانى ضروريات كو پورا كرنے كے بہانے (سير و تفريح و گھومنا پھرنا اور كھيل كودكے ليے جانا ) اپنى خيرخواہى كو ثابت كرنا چاہتے تھے_

و انا له لناصحون ، ارسله معنا غدا ً يرتع و يلعب

رتع ( يرتع) كا مصدر ہے_ بہت زيادہ كھانے پينے كى چيزوں سے استفادہ كرنا اور باغوں كے پھلوں كا نوش كرنا ، كھيتى اور چراگاہوں ميں جانا _

۵_ برادارن يوسف(ع) ، يوسفعليه‌السلام كو گھومنے پھرنے كى ضرورت اور سير و تفريح گاہ ميں كھانا كھلانے كا بہانے بنا كو اسكو

۳۸۸

جنگل بياباں ميں لے جانا چاہتے تھے اور يعقوبعليه‌السلام سے دور كرنا چاہتے تھے_ارسله معنا غداً يرتع و يلعب

۶_ حضرت يوسف،عليه‌السلام بھائيوں كى اس كے خلاف سازش كے وقت بچبن يا نوجوانى كے سن ميں تھے_

ارسله معنا غداً يرتع و يلعب

مذكورہ بالا معنى ( يلعب)'' كھيل كو ے دگا ''سے حاصل ہوا ہے كيونكہ كھيل كو دكے لفظ كو معمولاً بچوں يا نوجوانوں كے ليے استعمال كيا جاتا ہے_

۷_ كھلى اور سر سبز جگہوں پر جانا، كھيل و كود اور گھومنا پھر نا يہ بچوں كيطبعى ضرورت ہے_

و انا له لناصحون ، ارسله معنا غداً يرتع و يلعب

۸_ يعقوبعليه‌السلام كے سامنے ان كے بيٹوں نے حضرت يوسفعليه‌السلام كى حفاظت اور نگہدارى كو بہت زيادہ تاكيد كے ساتھ اپنى گردن پر ليا _و انا له لحافظون

جملہ اسميہ ميں (انّ) اور لام تاكيد سے بہت زيادہ تاكيد حاصل ہوتى ہے_

۹_ يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں كا نامناسب عمل ( سازش كرنا ، جھوٹ بولنا ، فريب و دغہ كرنا ) ان ميں شيطان كے نفود سے پيدا ہوا تھا_ان الشيطان للانسان عدو مبين اقتلوا يوسف ارسله معنا غداً يرتع و يلعب

۱۰_ انسانوں ميں شيطان كا نفود اور بغض و نفاق ، جھوٹ بولنے اور دغہ و فريب دينے اور غلط قسم كى ناروا سازشيں كرنے كى ترغيب دينا، يہ انسانوں كے ساتھ اس كى واضح دشمنى كا ثبوت ہے_

ان الشيطان للانسان عدو مبين اقتلوا يوسف ارسله معنا غداً يرتع و يلعب و انا له لحافظون

۱۱_عن ابى جعفر فقالوا كما حكى الله عزوجل '' ارسله معنا غداً يرتع و يلعب '' اى يرعى الغنم و يلعب '' (۱)

امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے _ جسطرح خداوند متعال نے ذكر فرمايا اسى طرح برادران يوسف(ع) نے كہا :

'' ارسله معنا غداً يرتع و يلعب ''

اسكو ہمارے ساتھ بھيجنا تا كہ بھيڑ ، بكريوں كو چرائے اور كھيلے كودے_

انسان :انسان كے دشمن ۱۰

____________________

۱) تفسير قمى ، ۱ ، ص ۳۴۰; بحار الانوار ، ج ۱۲، ص ۲۱۸، ح ۱

۳۸۹

برادران يوسف :برادران يوسف اور يعقوبعليه‌السلام ۸; برادران يوسف اور يوسفعليه‌السلام ۵،۸; برادران يوسف اور يوسفعليه‌السلام كى ضروريات ۴;برادران يوسف كا جلدى كرنا ۳; برادران يوسف كا وعدہ دينا ۸; برادران يوسف كى خيرخواہى كااظہار ۴;برادران يوسف كى خواہشات ۱۱;برادران يوسف كى سازش ۱، ۳، ۴، ۶; برادران يوسف كى سازش كا پيش خيمہ ۵; برادران يوسف كى سازش كا سرچشمہ۹; برادران يوسف كى سازش كا وقت ۲; برادران يوسف كى محبت كااظہار ۴;برادران يوسف كى نامناسب حركات ۹; براردان يوسف(ع) كے جھوٹ بولنے كا سبب۹; برادران يوسف(ع) كے مكرو فريب كا سبب۹

بچہ :بچہ كى ضروريات ۷

تفريح :سبزہ زار ميں تفريح كرنا ۷

جھوٹ:جھوٹ كى تشويق ۱۰

روايت: ۱۱

شيطان :شيطان كا كردار ۱۰; شيطان كا نفود ۱۰; شيطان كى دشمنى كے آثار ۱۰;شيطان كے نفود كے آثار ۹

ضرورتيں :سير و تفريح كى ضرورت ۵، ۷; كھيل كود كى ضرورت ۵،۷

كھيل كود:سبزہ زار ميں كھيل كود كرنا ۷

مكر :مكر و فريب كى تشويق ۱۰

نفاق :نفاق كى تشويق ۱۰

نفسيات:بچے كى نفسيات۷

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كا بچپن ۶;يوسفعليه‌السلام كا چوپانى كرنا ۱۱; يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، ۶، ۷، ۸ ، ۱۱;يوسفعليه‌السلام كا كھيلنا ۱۱;يوسفعليه‌السلام كو ہمراہ لے جانا ۱; يوسفعليه‌السلام كى حفاظت ۸;يوسفعليه‌السلام كى مادى ضروريات ۵;يوسف(ع) كى نوجوانى ۶; يوسفعليه‌السلام كے خلاف سازش ۱، ۲، ۳، ۶

۳۹۰

آیت ۱۳

( قَالَ إِنِّي لَيَحْزُنُنِي أَن تَذْهَبُواْ بِهِ وَأَخَافُ أَن يَأْكُلَهُ الذِّئْبُ وَأَنتُمْ عَنْهُ غَافِلُونَ )

يعقوب نے كہا كہ مجھے اس كا لے جانا تكليف پہنچاتا ہے اور ميں ڈرتاہوں كہ كہيں اسے بھيڑيا نہ كھا جائے اور تم غافل ہى رہ جائو (۱۳)

۱_ يعقوبعليه‌السلام ، يوسفعليه‌السلام كو ان كے بھائيوں كے ساتھ بھيجنے پر راضى نہيں تھے اور اس سے وہ پرہيز كرنا چاہتے تھے_

قال انى ليحزننى ان تذهبوا به

۲_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے ليے يوسفعليه‌السلام كے فراق و جدائي كا غم ان كو بھائيوں كے ساتھ بھيجنے سے روكتا تھا_

مالك لا تأمنّا قال انى ليحزننى ان تذهبوا به

۳_ يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹے يوسفعليه‌السلام سے بہت ہى محبت كرتے تھے اور ان كى جدائي سے پريشان اور محزون ہوتے تھے_قال انى ليحزننى ان تذهبوا به

۴_ يعقوبعليه‌السلام نے يوسفعليه‌السلام كے بارے ميں اپنے بيٹوں پر عدم اعتمادى ركھنے كے باوجود اس كا اظہار نہيں كيا_

قال انى ليحزننى ان تذهبوا به و اخاف ان يأكله الذئب

۵_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كا يوسفعليه‌السلام كو اپنے بيٹوں كے ہمراہ نہ بھيجنے كے دلائل ميں سے ايك دليل، يوسفعليه‌السلام كى جان پر بھيڑيوں كے حملہ كا خوف تھا_قال انى اخاف ان ياكله الذئب

۶_ عصر يعقوبعليه‌السلام ميں كنعان كے اطراف اور چراگاہوں ميں لوگوں پر بھيڑيوں كا حملہ ممكن اور مشہور تھا_

اخاف ان ياكله الذئب و انتم عنه غافلون

۷_صحرا ميں يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں كا يوسفعليه‌السلام كى حفاظت سے غافل ہوجانا، يعقوبعليه‌السلام كے ليے غير متوقع نہيں تھا_اخاف ان يأكله الذئب و انتم عنه غافلون

۸_ '' عن ابى عبدالله عليه‌السلام ' 'قال : ان بنى يعقوب لما سألوا اباهم يعقوب ان يأذن ليوسف فى الخروج معهم قال لهم '' انى اخاف ان ياكله الذئب و انتم عنه غافلون ''

۳۹۱

قرّب يعقوب لهم العلّة اعتلوا بها فى يوسف(ع) (۱)

امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ فرماتے ہيں جب يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے اپنے باپ سے يوسفعليه‌السلام كے بارے ميں اجازت لى تا كہ يوسفعليه‌السلام كو شہر سے باہر اپنے ساتھ لے جائيں تو ان كے باپ نے كہا : كہ ميں ڈرتاہوں كہ بھيڑيا اس كو كھانہ جائے اور تم اس كى حفاظت سے غفلت بر تو پس يعقوبعليه‌السلام نے يوسف(ع) كے نہ لانے كا جو بہانہ انہوں نے بنايا تھا ان كے ذہن ميں ڈال ديا_

۹_عن على بن الحسين عليه‌السلام ... قال يعقوب عليه‌السلام ( انى ليحزننى ان تذهبوا به و اخاف ان يأكله الذئب) فأنتزعه حذراً عليه من ان يكون البلوى من الله عزوجل على يعقوب فى يوسف خاصّه (۲)

امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے آپ فرماتے ہيں يعقوبعليه‌السلام نے ( اپنے بيٹوں ) سے كہا ( كہ تمہارا يوسفعليه‌السلام كو لے جانا مجھے غمزدہ اور محزون كرتا ہے كيونكہ ڈرتا ہوں كہ اسكو بھيريا نہ كھا جائے پھر يوسفعليه‌السلام كو ان كے ہاتھوں سے واپس لے ليا كيونكہ ان كو يہ خوف تھا كہ جو مصيبت خدا كى طرف سے اس پر آنے والى تھي( خصوصا يوسفعليه‌السلام كے بارے ميں ) ان پر نازل نہ ہوجائے_

احساسات :پدرى احساسات ۳//برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسف اور يوسفعليه‌السلام ۷; برادران يوسف كا عذر ۸; برادران يوسف كى غفلت ۷//روايت :۸،۹//سرزمين :سرزمين كنعان ميں بھيڑيے كا خطرہ ۶

يعقوبعليه‌السلام :يعقوبعليه‌السلام اور برادارن يوسف ۴، ۹; يعقوبعليه‌السلام اور برادران يوسف كى خواہشات ۱، ۵; يعقوبعليه‌السلام اور يوسفعليه‌السلام ۵;يعقوب اور يوسفعليه‌السلام كى جدائي ۳ ; يعقوبعليه‌السلام كا بہانہ گيرى ۱، ۲، ۵;يعقوب(ع) كا حزن و غم ۲، ۳; يعقوبعليه‌السلام كا خوف ۵; يعقوبعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۳ ،۴، ۵;يعقوبعليه‌السلام كى برادران يوسف(ع) سے بے اعتمادى ۴;يعقوبعليه‌السلام كى مخالفت كے دلائل ۵; يعقوبعليه‌السلام كى يوسفعليه‌السلام سے محبت ۳; يعقوبعليه‌السلام كے زمانہ ميں بھيڑيوں كا خطرہ ۶; يعقوبعليه‌السلام كے غم زدہ ہونے كا فلسفہ ۹;يعقوبعليه‌السلام يوسفعليه‌السلام كى جدائي ميں ۲

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كابھڑيے كا لقمہ بننے كاخوف ۹; يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۷، ۸ ، ۹; يوسفعليه‌السلام كى حفاظت ۵، ۷

____________________

۱)علل الشرائع ، ص ۳۵۸ ح ۵۶، ب ۳۷۰: نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۴۱۵، ح ۲۰ _۲) علل الشرائع ، ص ۴۷، ح ۱ ، ب ۴۱ ; نور الثقلين ج ۲ ، ص ۴۱۲، ح ۱۷_

۳۹۲

آیت ۱۴

( قَالُواْ لَئِنْ أَكَلَهُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّا إِذاً لَّخَاسِرُونَ )

اور ان لوگوں نے كہا كہ اگر اسے بھيڑيا كھا گيا اور ہم سب اس كے بھائي ہى ہيں تو ہم بڑے خسارہ والوں ميں ہوجائيں گے (۱۴)

۱_ يوسفعليه‌السلام كے بھائي متحد اور طاقتور گروہ تھے_و نحن عصبة

۲_ يوسفعليه‌السلام كے بھائي اپنے طاقتور ہونے اور كثريت پر مغرور تھے_لئن اكله الذئب و نحن عصبه

۳_ يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے اپنى زيادہ قدرت و طاقت كو ياد كر كے ان كى پريشانى (يوسفعليه‌السلام پر بھيڑيوں كا حملہ ) كو بے جا خيال كيا _اخاف قالوا لئن اكله الذئب و نحن عصبه

۴_ برادران يوسف(ع) ،يوسفعليه‌السلام كى حفاظت نہ كرنے پر اپنى بے لياقتى كے معترف تھے_

لئن اكله الذئب و نحن عصبة انا اذاً لخاسرون

۵_ يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں نے اپنے باپ كى موجودگى ميں يوسفعليه‌السلام كى ہلاكت كو اپنے ليے تباہى و بربادى ظاہر كيا_

انا اذاً لخاسرون

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسف(ع) اور يعقوب(ع) ۳، ۵; برادران يوسف(ع) اور يوسفعليه‌السلام كى محافظت ۴; برادران يوسف(ع) اور يوسفعليه‌السلام كى ہلاكت ۵;برادران يوسف(ع) كا اتحاد ۱; برادران يوسف(ع) كا تكبر ۲; برادران يوسف(ع) كا نقصان اٹھانا ۵; برادران يوسف(ع) كى فكر ۵;برادران يوسف(ع) كى قدرت ۱، ۳; برادران يوسف(ع) كى كثرت ۲

يعقوبعليه‌السلام :يعقوبعليه‌السلام كو خطرے كا احساس ۳; يعقوبعليه‌السلام كى پريشانى ۳

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۳، ۴، ۵

۳۹۳

آیت ۱۵

( فَلَمَّا ذَهَبُواْ بِهِ وَأَجْمَعُواْ أَن يَجْعَلُوهُ فِي غَيَابَةِ الْجُبِّ وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُم بِأَمْرِهِمْ هَـذَا وَهُمْ لاَ يَشْعُرُونَ )

اس كے بعد جب وہ سب يوسف كو لے گئے اور يہ طے كرليا كہ انھيں اندھے كنويں ميں ڈال ديں اور ہم نے يوسف كى طرف وحى كردى كہ عنقريب تم ان كو اس سازش سے باخبر كروگے اور انھيں خيال بھى نہ ہوگا(۱۵)

۱_ يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے اپنے دھو كے اور مكارى سے يوسفعليه‌السلام كو اپنے ساتھ لے جانے پر ان كو راضى كرليا_

انا له لحافظون فلما ذهبوا به

۲_ انبياءعليه‌السلام كے ليے ممكن ہے كہ وہ دوسروں كى فكر وسوچ سے بے خبر ہوں _

انا له لحافظون فلما ذهبوا به و اجمعوا ان يجعلوه فى غيابت الجب

۳_ الله كے ابنياءعليه‌السلام بھى نا اہل لوگوں كے مكر و فريب اور ان پر اعتماد نہ كرنے سےمحفوظ نہيں تھے_

انا له لحافظون فلما ذهبوا به و اجمعوا ان يجعلوه فى غيابت الجب

۴_ يوسفعليه‌السلام كے بھائي اسكوصحرا ميں لے جانے سے پہلے اس كے انجام و عاقبت كے متعلق قطعى طور پر متفق نہيں تھے_فلما ذهبوا به و اجمعو

اجماع كا لفظ( اجمعوا ) كا مصدر ہے_ اسكا معنى '' را ى اور عقيدہ ميں متفق ہونا نيز فيصلہ كرنا اور كسى كام كو انجام دينے كے ليے آمادہ ہونا '' ہيں اور مذكورہ بالا تفسير معنى اول كو مد نظر ركھتے ہوئے كى گئي ہے_

۵_ يوسفعليه‌السلام كے بھائي اس كے خلاف سازش ميں اسكو قتل كرنے سے پرہيز كر رہے تھے اور وہ چاہتے تھے كہ وہ زندہ رہ جائے_و القوه فى غيابت الجب و اجمعوا ان

يجعلوه فى غيابت الجب

برادران يوسف چاہتے تھے كہ اسكو كنويں ميں ركھ ديں نہ يہ كہ اسے كنويں ميں ڈال ديں اس سے ظاہر ہوتا ہے كہ وہ اسكو زندہ ركھنے كى كوشش ميں تھے_

۶_ يوسفعليه‌السلام كے تمام بھائيوں نے اسكو ہمراہ لے جانے كے بعد اسكو كنويں كے تاريك طاقچے ميں ركھنے كے ليے اپنے آپ كو آمادہ كيا_فلما ذهبوا به و اجمعوا ان يجعلوه فى غيابت الجب

۳۹۴

مذكورہ تفسير ميں (اجماع) كا معنى فيصلہ كرنے اور كام كو انجام دينے كے ليے مہيا ہونے كاليا گيا ہے يہ بات قابل ذكر ہے كہگذشتہ آيات ۹، ۱۰، ۱۱; اس معنى كى تائيد كرتى ہيں _

۷_ برادران يوسفعليه‌السلام كا حضرت يوسف(ع) كو كنويں ميں ركھے جانے كى حالت كا منظر بہت ہى برا اور غمزدہ و غمگين تھا_فلما ذهبوا به و اجمعوا ان يجعلوه فى غيابت الجب

(لما) حرف شرط ہے اور اسكا جواب، آيت شريفہ ميں ذكر نہيں ہوا اسكا جواب ذكر نہ كرنے كا مقصد يہ تھا كہ وہ وقت جس وقت يوسفعليه‌السلام كو كنويں ميں ركھا جارہا تھا بہت ہى برا اور دل كودكھانے والا تھا _ يعنيجس وقت يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں نے يہ فيصلہ كر ليا كہ اسكو كنويں ميں ركھ ديں تو يہ ايسى حالت ہے كہ اس كے سننے كى طاقت ركھنا بہت ہى مشكل ہے_

۸_ خداوند متعال نے يوسفعليه‌السلام كو وحى كے ذريعے كنعان كے كنويں سے نجات اور بھائيوں سے دوبارہ ملاقات كى نويد و خوشخبرى دي_و اوحينا اليه لتنبّئنّهم بأمرهم هذ

جملہ (لتنبّئنّهم ) (بے شك تو اس واقعہ كى اپنے بھائيوں سے ياد آورى كرے گا) يوسفعليه‌السلام كى كنويں سے نجات پر دلالت كرتا ہے نيز اس بات كى حكايت كرتا ہے كہ تو آيندہ اپنے بھائيوں سے ملاقات كرے گا_

۹_ خداوند متعال كى يوسفعليه‌السلام كو كنعان كے كنويں ميں وحى كرنا، اسكى خاص عنايت و مہربانى تھى _

ان يجعلوه فى غيابت الجب و اوحينا اليه

۱۰_يوسف،عليه‌السلام بچپن كى عمر ميں وحى كو دريافت كرنے كى صلاحيت ركھتے تھے_

فلّما ذهبوا به ...واوحيناإليه

۱۱_ وحى الہى كو دريافت اور سمجھنے كے ليے كسى خاص سن كى ضرورت نہيں _و اوحينا اليه

۱۲_ يوسفعليه‌السلام ، بچپن ميں ہى نبوت كے مقام پر فائز ہوئے_و اوحينا اليه

۱۳_ يوسفعليه‌السلام كا كنعان كے كنويں كے واقعہ كى بھائيوں كو يادآورى كرانا، يوسفعليه‌السلام كو خداوند متعال كى طرف سے وحى كا اصل مقصد تھا_واوحينا اليه لتنبّئنّهم بأمرهم هذا و هم لا يشعرون

۱۴_ خداوند متعال نے يوسفعليه‌السلام كو يہ خبر دى كہ تيرى اپنے بھائيوں سے آيندہ ملاقات، چاہ كنعان كے واقعہ كے كافى مدت بعد ہوگى _لتنبّئنّهم بأمرهم هذا و هم لا يشعرون

۳۹۵

(و هم لا يشعرون ) جملہ حاليہ (لتنبّئنّ ) كے ساتھ متعلق ہے_ يعنى تو ان كو خبر دے گا درحالانكہ وہ متوجہ نہيں ہوں گے ( يعنى تمہيں نہيں پہچانتے ہوں گے ) يعنى برادران يوسف ميں سے كوئي بھى آيندہ ملاقات كے وقت اسكو نہيں پہچان سكے گا اس سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ ملاقات كافى مدت كے بعدہوگى _

۱۵_ وحى الہى كے مضامينميں سے كچھ يہ بھى تھا كہ دوبارہ ملاقات ميں يوسفعليه‌السلام اپنے بھائيوں پر تسلّط اور قدرت ركھتا ہوگا_و اوحينا اليه لتنبّئنّهم بأمرهم هذا و هم لا يشعرون

يہ كہ برادران يوسف ميں سے كوئي بھى آيندہ ملاقات ميں ان كو نہيں پہچان سكے گا مذكورہ وجوہات كے علاوہ ايك اور وجہ بھى ہو سكتى ہے وہ يہ كہ خداوند متعال جملہ ( و ہم لا يشعرون ) سے يوسفعليه‌السلام كو يہ بتانا چاہتا ہے كہ تم اسوقت اس درجہ و مقام پر فائز ہوگے كہ تيرے بھائي اس كا تصور بھى نہيں كرسكتے يہاں تك كہ وہ احتمال ديں كہ تم ان كے بھائي ہو_

۱۶_ برادران يوسف، وحى الہى كو سننے اور محسوس كرنے پر قدرت نہيں ركھتے تھے_و اوحينا اليه و هم لا يشعرون

مذكورہ بالا تفسير اس صورت ميں ہے كہ (و ہم لا يشعرون) كا جملہ جو حال ہے وہ فعل (اوحينا) كے ساتھ متعلق ہو تو اس صورت ميں ( و ہم لا يشعرون ) كا معنى يوں ہوگا كہ وہ لوگ ہمارى يوسفعليه‌السلام كو جو وحى ہوئي اسكو نہيں سمجھ رہے تھے_

۱۷_'' قال ابوحمزه : فقلت لعلى بن الحسين(ع) : ابن كم كان يوسف يوم القوه فى الجب''؟فقال : ابن تسع سنين (۱)

ابوحمزہ كہتے ہيں كہ ميں نے امام سجادعليه‌السلام سے عرض كى كہ جب حضرت يوسفعليه‌السلام كو كنويں ميں ڈالا گيا تو وہ كتنے سال كے تھے ، توانہوں نے فرمايا وہ نو سال كے تھے_

۱۸_''قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لما القى يوسف فى الجب اتاه جبرئيل عليه‌السلام فقال له : يا غلام ، من القاك فى هذا الجب ؟ قال : اخوتى _ قال : و لم ؟ قال : لمودّة ابى ايّاى حسدونى (۲)

____________________

۱) علل الشرائع ، ص ۴۸، ح ۱ ، ب ۴۱ ; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۴۱۴ ، ح ۱۷_

۲) الدر المنثور ، ج ۴ ، ص ۵۱۱_

۳۹۶

رسالت مأبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ جب يوسفعليه‌السلام كو كنويں ميں ڈالا گيا تو جبرئيلعليه‌السلام ان كے پاس تشريف لائے اور كہا : اے جوان : كس نے تمہيں اس كنويں ميں ڈالا ہے؟ تو انہوں نے جواب ديا : ميرے بھائيوں نے پھر جبرئيل نے كہا كيوں ؟ تو انہوں نے جواب ديا كيونكہ ميرے والد گرامى مجھ سے زيادہ محبت كرتے تھے اسى وجہ سے وہ مجھے سے حسد كرتے تھے_

۱۹_عن ابى جعفر عليه‌السلام فى قوله '' لتنبّئنّهم بأمرهم هذا و هم لا يشعرون '' يقول لا يشعرون انك انت يوسف (۱)

امام باقرعليه‌السلام خداوند متعال كے اس قول (لتنبّئنّهم و هم لا يشعرون ) كے بارے ميں روايت ہے كہ آپ فرماتے ہيں خداوند متعال يہ فرما رہا ہے يعنيوہ نہيں جانتےكہ تم وہى يوسف ہو_

۲۰_'' عن على بن الحسين عليه‌السلام ... فانطلقوا به مسرعين مخافة ان يأخذه منهم ولا يدفعه اليهم (۲)

امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے كہ يوسفعليه‌السلام كے بھائي يوسفعليه‌السلام كو جلدى سے لے گئے ايسا نہ ہو كہ يعقوبعليه‌السلام ان كے ہاتھوں سے اسكو لے ليں اور ان كو واپس نہ ديں _

الله تعالى :الله تعالى كى پيشگوئي ۱۴;الله تعالى كى خوشخبرياں ۸; الله تعالى كا فضل ۹

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام اور لا علمى ۲;انبياءعليه‌السلام كا نا اہل لوگوں پر اعتماد ۳;انبياءعليه‌السلام كى عصمت كى حدود ۳;انبياء كے دھو كہ كھانے كا امكان ۳;انبياءعليه‌السلام كے علم كا دائرہ ۲

براردان يوسف :برادران يوسف اور وحى كا ادراك ۱۶; برادران يوسف اور يعقوبعليه‌السلام ۱; برادران يوسف اور يوسفعليه‌السلام ۱۹، ۲۰; برادران يوسف اور يوسفعليه‌السلام كا قتل ۵ ; برادران يوسف اور يوسفعليه‌السلام كى عاقبت ۴;برادران يوسف كا جھوٹ بولنا ۱; برادران يوسف كا عاجز ہونا ۱۶; برادران يوسف كا فيصلہ ۴;برادران يوسف كا مكر و فريب۱;برادران يوسف كى جہالت ۱۹; برادران يوسف كى سازش ۵، ۶، ۲۰

روايت : ۱۷، ۱۸، ۱۹، ۲۰نبوّت :بچپن مين نبوت ۱۲وحى :وحى كے شرائط ۱۱; بچپنے ميں وحى ۱۰، ۱۱

يعقوبعليه‌السلام : يعقوبعليه‌السلام كا راضى ہونا ۱

____________________

۱) تفسير قمى ، ج ۱ ، ص ۳۴۰; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۴۱۶، ح ۲۵

۲) علل الشرائع ، ص ۴۷، ح ۱ ، ب ۴۱; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۴۱۳ ، ح ۱۷_

۳۹۷

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام اور برادران ۱۳; يوسفعليه‌السلام اور بھائيوں سے ملاقات ۸، ۴،۱۵ ;يوسفعليه‌السلام پر فضل و كرم ۹;يوسف كا بچپنا ۱۰، ۱۲; يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۴، ۵، ۶، ۷، ۸، ۹، ۱۳ ، ۱۴ ، ۱۵، ۱۷، ۱۸، ۱۹، ۲۰;يوسفعليه‌السلام كا كنويں ميں جانا ۹، ۱۸;يوسف كا كنويں ميں گرائے جانے كے وقت سن ۱۷;يوسفعليه‌السلام كو سازش سے كنويں ميں ڈالنا ۶، ۷; يوسف(ع) كو نجات كى بشارت ۸;يوسفعليه‌السلام كو وحى ۸، ۹، ۱۰، ۱۳، ۱۴، ۱۵، ۱۶;يوسفعليه‌السلام كى جبرئيل سے گفتگو ۱۸;يوسفعليه‌السلام كى حكومت ۱۵ ; يوسفعليه‌السلام كى صلاحيت ۱۰; يوسفعليه‌السلام كى نبوت ۱۲; يوسفعليه‌السلام كے خلاف سازش ۵، ۶;يوسفعليه‌السلام كے مقامات ۱۰، ۱۲

آیت ۱۶

( وَجَاؤُواْ أَبَاهُمْ عِشَاء يَبْكُونَ )

اور وہ لوگ رات كے وقت باپ كے پاس روتے پيٹتے آئے (۱۶)

۱_ يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے، يوسفعليه‌السلام كو كنويں ميں چھوڑنے كے بعد روتے ہوئے اپنے باپ كے پاس آئے_

و جاء و أباهم عشاء ً يبكون

۲_ يوسفعليه‌السلام كے بھائي اپنے جھوٹے واقعہ كو حق جلوہ دينے كے ليے بڑى دير سے شام كے قريب اپنے والد گرامى كے پاس حاضر ہوئے_و جاء و أباهم عشاء ً يبكون

(عشا ) رات كى شروع كى تاريكى كو كہا جاتا ہے_ بعض اہل لغت نے كہا ہے كہ (عشا ) اول مغرب سے لے كر رات تيسرے حصے تك كو كہتے ہيں _ قرآن مجيد ميں جھوٹے قصّہ كے بيان كا وقت (شروع رات كا وقت بتايا گيا ہے) مذكورہ تفسير ميں اسى بات كى طرف اشارہ ہے_

۳_ رونا اور چيخ و پكار، صداقت و حقانيت كى دليل نہيں ہوسكتى _وجاء و آباهم عشاءً يبكون

۴_ بھائي كى جدائي اور اس كے قتل ہونے پر رونا جائز ہے _جاء و آباهم عشاءً يبكون

اگر چہ برادران يوسف كے افعال و گفتار، احكام شرعى كى دليل نہيں بن سكتے _ ليكن اسى وجہ سے كہ يہ عمل (بھائي كى جدائي پر رونا ) يعقوب نبىعليه‌السلام كے سامنے انجام ہوا اور انہوں نے اس عمل پر سرزنش نہيں كى اس سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ اس عمل كو حرام اور ناپسند نہيں سمجھتے تھے _

۳۹۸

احكام : ۴

برادر :برادر كے قتل پر رونا ۴

برادران يوسف :برادران يوسف اور يعقوبعليه‌السلام ۱، ۲;برادران يوسف كا رات كو لوٹنا ۲; برادران يوسف كا رونا ۱; برادران يوسف كى سازش ۲

حقانيت :حقانيت كے دلائل ۳

صداقت :صداقت كے دلائل ۳

گريہ :گريہ كا جائز ہونا ۴;گريہ كے آثار ۳;گريہ كے احكام ۴

يوسفعليه‌السلام :يوسف كا قصّہ ۱، ۲

آیت ۱۷

( قَالُواْ يَا أَبَانَا إِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَكْنَا يُوسُفَ عِندَ مَتَاعِنَا فَأَكَلَهُ الذِّئْبُ وَمَا أَنتَ بِمُؤْمِنٍ لِّنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ )

كہنے لگے بابا ہم دوڑ لگانے چلے گئے اور يوسف كو اپنے سامان كے پاس چھوڑ ديا تو تو ايك بھيڑيا آكر انھيں كھا گيا اور آپ ہمارى بات كا يقين نہ كريں گے چاہے ہم كتنے ہى سچے كيوں نہ ہوں (۱۷)

۱_ برادران يوسف(ع) نے مكمل اتفاق رائے كے ساتھ يعقوب عليہ السلام كے سامنے آنے سے پہلے اپنى جھوٹى بنائي ہوئي داستان كو بنايا اور سنوا را تا كہ يعقوب(ع) كے سامنے پيش كريں _قالوا يا بانا ذهبنا فا كله الذئب

يہ بات واضح ہے كہ يعقوبعليه‌السلام كے تمام بيٹوں نے باپ كے سامنے منہ نہيں كھولا بلكہ ان ميں سے ايك نے ان سے بات كى ، ليكن اس جھوٹى بات كى نسبت تمام كى طرف دى گئي ہے لہذا(قالوا ) كا لفظ استعمال كيا گيا _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ پہلے انہوں نے جھوٹى باتوں كو بناكر آپس ميں اتفاق كرليا تھا اور اس پر اتفاق نظر كرليا تھا_

۲_ يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں نے اپنے والد گرامى يعقوب عليہ السلام كو يوسفعليه‌السلام كا بھيڑے كا لقمہ بن جانے كے بارے ميں جھوٹى خبر دى _قالوا أكله الذئب

۳_ برادران يوسف كا يہ ايك جھوٹا بہانہ تھا كہ وہ دوڑ كے مقابلے اور بھاگ دوڑ ميں مشغول ہونے كى وجہ سے يوسفعليه‌السلام سے غافل ہوگئے اور وہ بھيڑے كا لقمہ بن گيا _يا بانا ذهبنا نستبق و تركنا يوسف عند متاعنا

۳۹۹

( استباق ) كا معنى مقابلہ كرنا اور ايك دوسرے سے آگے برھ جانا ہے اور (نستبق ) كا جملہ (ذہبنا) ميں فاعل (نا ) كے ليے حال ہے تو اس صورت ميں (ذہبنا نستبق) كا معنى يوں ہوگا كہ ہم جارہے تھے اور اس دوسرے كے ساتھ دوڑلگا رہے تھے _جانا اور مقابلہ كرنا يہ تير انداز ى يا گھوڑا سوراى كے مقابلوں كے ساتھ سازگار نہيں ہے بلكہ اس سے مراد ، دوڑنے كا مقابلہ ہے _

۴_ يعقوبعليه‌السلام كے دين ميں دوڑ لگانے كا مقابلہ جائز اور حضرتعليه‌السلام كے زمانے ميں رائج تھا_

قالوا يا بانا إنّا ذهبنا نستبق

۵_ يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں نے اپنے بنائے ہوئے قصّے (يوسفعليه‌السلام كا بھيڑيے كا لقمہ بننا ) ميں با دل ناخواستہ يوسفعليه‌السلام كى حفاظت ميں كوتاہى كرنے كا اعتراف كيا_انّا له لحافظون ذهبنا نستبق فا كله الذئب

۶_ يعقوب عليہ السّلام نے اپنے بيٹوں كے اس دعوى (اسكا بھيڑے كالقمہ بن جانا ) كو قبول نہ كيا اور نہ ہى اس پر يقين كيا_و ما أنت بمومن لنا

۷_ يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے حضرت يعقوبعليه‌السلام كواپنى داستان ميں يقين نہ كرنے كى شكايت كى _

و ما أنت بمؤمن لنا و لو كنّا صادقين

(ولو كنّا صادقين) كو اگر جملہ ( و ما أنت بمؤمن لنا ) كے ساتھ ملاديں تو معنى يہ ہوگا _ كہ اگر ہم يوسفعليه‌السلام كے بارے ميں حقيقت بھى كہيں تو آپ قبول نہيں كريں گے اور اگر جھوٹ بھى بوليں تب بھى قبول نہيں كريں گے _ يہ دونوں صورتيں آپ كے ليے كوئي فرق نہيں كرتيں يہ يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كى بات تھى كہ وہ اپنے باپ پر تہمت لگار ہےتھے كہ آپ ہمارى بات پركبھى بھى يقين نہيں كريں گے_

۸_ برادران يوسف(ع) ،اپنے جھوٹے قصے كى يعقوب عليہ السلام كے سامنے منظر كشى اور انہيں باور كرانے ميں ناكام ہونے پرمطمئن تھے_و ما أنت بمؤمن لنا و لو كنّا صادقين

( ايمان ) كسى كى تصديق كرنا اور اس كے دعوى پر يقين كرنا كے معنى ميں آتا ہے _ اور جملہ اسميہ ميں بازائدہ كو ذكر كرنا تاكيد پر دلالت كرتا ہے اور

۴۰۰

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945

946

947

948

949

950

951

952

953

954

955

956

957

958

959

960

961

962

963

964

965

966

967

968

969

970

971