تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 6%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 205852 / ڈاؤنلوڈ: 4271
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۸

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

٦۔ محبت و امید کے ساتھ خوف:

خدا کے دوست اس کے جمال کے شیفتہ ہونے کے باوجود اس کی عظمت کے ادراک کے نتیجہ میں خوفزدہ اور ہراساں رہتے ہیں کیونکہ جس طرح اللہ کے جمال کا ادراک محبت کا پیش خیمہ ہے اسی طرح اس کی عظمت کا ادراک بھی ہیبت اور ہراس کا سبب ہوتا ہے، یہ خوف و رجاء پروردگار کی بندگی میں مکمل تکمیل کا کردار ادا کرتے ہیں راہ الہی کے بعض راہرئووں نے کہا ہے: ''خدا کی بندگی صرف محبت کے ساتھ اور بغیر خوف کے، امید کی زیادتی اور حد درجہ انبساط و سرور کی وجہ سے آدمی کی ہلاکت کا باعث ہوجاتی ہے۔ نیز عبودیت صرف خوف وہراس کے ساتھ بغیر امید کے وحشت کی وجہ سے پروردگار سے دوری اور ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے، خدا وند ذوالجلال کی بندگی خوف ومحبت دونوں کے ساتھ اس کی محبت اور تقرب کا سبب ہوتی ہے ''۔(١)

٧۔اللہ کی محبت کا کتمان اور اس کا دعویٰ نہ کرنا:

محبت محبوب کے اسرار میںسے ایک سر ہے اور بسا اوقات اس کے اظہار میں کوئی ایسی چیز کہی جاتی ہے جو واقع کے برخلاف اور محبوب پرافترا پردازی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ انسان کی محبت پروردگار کے خاص دوستوں یعنی عظیم ملائکہ اور ان انبیاء و اولیاء کی محبت واشتیاق کے مراتب کی نسبت قابل ذکر تحفہ نہیں ہے جو خود کو خدا کے شائستہ عشق ومحبت میں ناکام تصور کرتے تھے، بلکہ حقیقی محبت کی علامت یہ ہے کہ اپنی محبت کے درجات کو ہیچ خیال کرے اور اسے قابل ذکر نہ سمجھے اور خود کو ہمیشہ اس سلسلہ میں قاصر اور عاجز خیال کرے۔

ج۔ خداوند عالم کی محبت کے علائم:

خداوند عالم کی محبت کے علائم کثرت اور فراوانی کے ساتھ انسان کے مختلف وجودی پہلوئوں میںپائے جاتے ہیں۔ یہاں پر ان علائم کی طرف جو کہ نفسانی صفت کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں، اشارہ کیا جاتا ہے:

١۔ پروردگار سے انس:

جب انسان کادل اللہ کے قرب اور محبوب کے جمال مکشوف کے مشاہدہ سے شاد ومسرور ہوتا ہے تو انسان کے قلب میں ایک بشارت داخل ہوتی ہے کہ جسے'' انس'' کہا جاتا ہے۔ خداوندعالم سے انس کی علامت یہ ہے کہ گوشہ نشینی، خلوت اور اس کے ذکر میںمشغول ہونا خلائق سے انس اور ہم نشینی کرنے سے کہیں زیادہ بہتر اور خوشگوار ہے ایسا شخص لوگوں کے درمیان ہونے کے باوجو د بھی در حقیقت تنہا ہے۔ اور جس وقت وہ خلوت میں ہوتا ہے ، حقیقت میں وہ اپنے محبوب کے ساتھ ہمنشین ہوتا ہے۔ اس کا جسم تو لوگوں کے درمیان ہوتا ہے لیکن اس کادل ان سے الگ اور جدا ہوتا ہے۔(٢)

____________________

١۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٨، ص ٧٦ ، ٧٧۔ ٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص١٢٤، ١٨٩، ١٩٠۔

۸۱

حضرت امیر المومنین علی ـ نے ایسے صفات کے حامل افراد کے متعلق فرمایا ہے: '' انھیں علم نے بصیرت کی حقیقت تک پہنچا دیا ہے اور یہ یقین کی روح کے ساتھ گھل مل گئے ہیں، انھوں نے ان چیزوں کو آسان بنالیا ہے جنھیں راحت پسندوں نے مشکل بنا رکھا تھا اور ان چیزوں سے انھیں حاصل کیا ہے جن سے جاہل وحشت زدہ تھے اور اس دنیا میں ان اجسام کے ساتھ رہے ہیں جن کی روحیں ملأ اعلیٰ سے وابستہ ہیں، یہی روئے زمین پر اﷲ کے خلیفہ اور اس کے دین کے داعی ہیں''۔(۱)

٢۔ خداوند عالم کی جانب اشتیاق:

جمال الہی کا مشاہدہ کرنے کے خواہاں افراد جب وہ غیب کے پردوں کے پیچھے محبوب کے رخسار کا نظارہ کرنے بیٹھے ہوں اور اس حقیقت تک پہونچ چکے ہیں کہ اس کے جلال و عظمت کی حقیقی رویت سے قاصر و عاجز ہیںتو جو کچھ انہوں نے نہیں دیکھا ہے اس کے مشاہدہ کے لئے ان کی تشنگی اور شوق بڑھتا جاتا ہے، اس حالت کو '' مقام شوق '' کہا جاتا ہے بر خلاف مقام انس، جو محبوب کے کھلے چہرے کے مشاہدے سے پیدا ہوتا ہے، مقام اشتیاق، محبوب کے محجوب (درپردہ) جمال و جلال کے ادراک کے شوق کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔(۴)

٣۔ قضائے الہی سے راضی ہونا:

'' رضا '' '' سخط'' یعنی ناراضگی کے مقابلہ میں ہے اور' 'رضا'' سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ خدا نے مقدر فرمایا ہے اس پر ظاہر و باطن، رفتار وگفتار میں اعتراض نہ کرنا۔ رضااللہ کی محبت کے علائم و لوازم میںشمار ہوتی۔ کیونکہ محب جو کچھ محبوب سے صادر ہوتا ہے اسے خوبصورت اور بہتر سمجھتا ہے جو انسان مقام رضا کا مالک ہوجاتا ہے اس کے نزدیک فقر و غنا، آرام وتکلیف، تندرستی اور بیماری، موت اور زندگی وغیرہ وغیرہ یکساںہوتی ہے اوران میں سے کسی ایک کا تحمل بھی دشوار نہیں ہوتا ہے، کیونکہ سب ہی کو محبوب کی طرف سے خیا ل کر تا ہے وہ ہمیشہ خود کو فرحت و سرور، آرام وآسائش میں محسوس کرتے ہوئے زندگی گذارتا ہے کیونکہ تمام چیزوںکو نگاہ رضایت سے دیکھتا ہے اور در حقیقت تمام امور اس کی مراد کے مطابق واقع ہوتے ہیں، نتیجہ کے طور پر ہر قسم کے غم و اندوہ سے دور ہوگا، قرآن کریم میں کئی جگہ اس مرتبہ کی طرف اشارہ ہوا ہے، منجملہ ان کے ''حزب اﷲ'' کی شناخت کراتے ہوئے فرماتا ہے: ''خدا وند رحمان ان سے راضی و خوشنود اور وہ اس سے راضی و خوشنود ہیں، یہ لوگ خدا کے گروہ ہیں، حزب خدا ہی کامیاب ہے''۔(۳)

____________________

١۔ نہج البلاغہ: حکمت ١٤٧۔ ٢۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٨، ص ٥٥۔

٣۔ مجادلہ ٢٢ ؛ بینہ ٨، ملاحظہ ہو۔

۸۲

حضرت امام زین العابدین ـ مقام رضا کی عظیم شان ومنزلت کے بیان میں فرماتے ہیں: ''زہد کا سب سے بلند درجہ ورع کا پست ترین درجہ ہے اور فدع کا بلندترین درجہ یقین کا پست ترین درجہ ہے اوریقین کا بلند ترین درجہ رضاکا سب سے پست مقام و درجہ ہے''۔(١) اس وجہ سے خداکے دوست جو کچھ وہ مقدّر فرماتا ہے اس پر رضامندی کے ساتھ ہرقسم کے غم و اندوہ سے دور ہوتے ہیںاور نہایت سرور شادمانی کے ساتھ خوشگوارزندگی گذارتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم میںمذکور ہے: ''آگاہ ہوکہ خداکے دوستوںکو نہ کوئی غم و اندوہ ہے اور نہ ہی کوئی خوف و ہراس انہوںنے اپنے تمام امور خدا کے حوالے کردئیے ہیںاور اس کے ارادہ کے سامنے سراپا تسلیم ہیں''۔(٢)

د۔محبت پروردگارکاانجام:

محبت الہی کاخاتمہ دیگرساری محبتوں کی طرح محبوب کے وصال پر منحصر نہیں ہے۔ اس رویت کا تحقق خداو ندعالم کی معرفت پر موقوف ہے، جو خود ہی تطہیر باطن اور دنیوی لگاؤسے دل کو پاک وصاف رکھنے کامحتاج ہے، محبت الہی کی راہ میں سیر وسلوک کرنے والوں کے لئے دنیا میں اس کا حصول ہوتا ہے۔

اس ملاقات کی حقیقت کا سمجھنا ہمیشہ انسانی اذہان کے لئے دشوار رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے راہ انکار اختیار کرلی ہے۔

حضرت علی ـ سے خوارج میں سے ایک شخص نے سوال کیا: '' کیا آپ نے اپنے رب کو اس کی عبادت کرتے وقت دیکھا ہے؟'' آپ نے صراحت کے ساتھ فرمایا: '' تم پر وائے ہو ! میں ان لوگوں میںسے نہیں ہوں جنھوں نے پروردگار کو نہ دیکھا ہو اور اس کی عبادت وپرستش کرتے ہوں '' اس وقت سوال کرنے والے نے اس ملاقات کی حقیقت اور ماہیت کے بارے میں سوال کیا: کس طرح آپ نے اسے دیکھا ہے ؟ آپ نے جواب دیا! ''تم پر وائے ہو ! نگاہیںدیکھنے کے وقت اس کا ادراک نہ کرسکیں لیکن قلوب حقایق ایمان کے ساتھ اسے دیکھتے ہیں''۔(٣)

____________________

١۔ اصول کافی، کلینی، ج٢، ص١٢٨، ح٤۔

٢۔یونس ٦٢۔

٣۔ اصول کافی، کلینی، باب ابطال الروےة، ح ٦، اسی طرح ملاحظہ ہو امام حسین ـ کی دعا ئے عرفہ۔

۸۳

دوسری نظر: خدا وندسبحان کی بندوں سے محبت

قرآن و روایات ا ہل بیت (ع) ان آیات وروایات کے حامل ہیں جو پروردگار کی اپنے بعض بندوں سے خاص محبت ودوستی کی عکاسی کرتی ہیں، اس محبت کے خاص علائم ہیں جوصرف اور صرف خاص بندوں کو شامل ہوتے ہیں۔

البتہ خداوند سبحان کی عام رحمت و محبت، دنیوی مواہب و احکام شرعی کے قالب میں سب کو شامل ہے جیسا کہ پہلے بھی اشارہ ہوچکا ہے کہ خدا وندعالم قرآن میںاپنی دوستی کو مجاہدین، نیکو کار افراد، زیادہ توبہ کرنے والوں، پرہیزگاروں، عدالت پیشہ افراد، صابروں، پاک وپاکیزہ افراد اور پروردگار پر اعتماد و بھروسہ کرنے والوں کی نسبت اعلان کرتا ہے۔(١)

جمال الہی کا دیداراور اس کا مشاہدہ اتنا لذت بخش اور سرور آور ہے جو ناقابل توصیف وتشریح ہے۔ جن لوگوں نے اس کے ادنیٰ مراتب کو بھی چکھا ہے وہ کبھی دیگر خیالی لذتوں سے اس کا سودا نہیں کرتے اسی وجہ سے انبیاء اور

اولیائے الہی نے اپنے محبوب سے اپنی مناجات میں مسلسل اپنے اشتیاق کااس کی بہ نسبت آشکار طور پر اظہار کیا ہے اورعرفاء اور سالکین نے اپنے اشعار اور قصائد میں جو انہوں نے بطور یادگار چھوڑے ہیں اپنے آتش عشق کے دلکش اور جاذب نظر مناظرکی، جمال محبوب کی مراد و ملاقات و شہود سے متعلق اظہار خیال کیا ہے نیز دوست کے فراق و جدائی کے غم انگیز اور حزن آور حالات کی منظر کشی کی ہے۔ ان کے نزدیک خدا کی ملاقات عرفان کی بلند ترین چوٹی اور سالکین کی سیرکا منتہیٰ ہے انھوں نے ایسی بہت سی کتابیں بھی تحریر فرمائی ہیں جن میں اس مقصد تک رسائی کے اسباب و ذرائع اور ان منازل ومراحل کو بیان کیا ہے جو اس راہ کے سالکوں کے لئے سرراہ پائے جاتے ہیں اور جو خطرات اس راہ میں ہیں ان سے بھی آگاہ کیا ہے نیز اس راہ میںجو زاد و توشہ کام آسکتا ہے اس کا بھی ذکر کیا ہے۔

خدا وند عالم کی داؤد پیغمبر سے گفتگو کے درمیان مذکور ہے: ''اے داؤد! ہمارے زمین میں رہنے والے بندوں سے کہو ! میں اس کا دوست ہوں جو مجھے دوست رکھتا ہے اور اس کا ہمنشین ہوں جو مجھ سے ہمنشینی کرتا ہے اور اس کا ہمدم ہوں جو میری یاد اور نام سے انسیت حاصل کرتا ہے اور اس کے ہمراہ ہوں جو میرے ہمراہ ہے، میں اس کا انتخاب کرتا ہوں جو میرا انتخاب کرتا ہے اور اس کا فرمانبردار ہوں جو میرا فرمانبردار ہے، جو انسان مجھے قلبی اعتبار سے دوست رکھتا ہے اور میں اس پریقین کرلوں تو اسے اپنے ساتھ قبول کرلوں گا ( اور اسے ایسا دوست رکھوںگا ) کہ میرے بندوں میں سے کوئی بندہ اس پر سبقت نہ کر پائے، جو انسان واقعی مجھے تلاش کرے تو پالے گا

____________________

١۔ ترتیب وار رجوع کیجئے: سورئہ صف، ٤ ؛ بقرہ ١٩٥ ، ٢٢٢ ۔ آل عمران ٧٦، ١٤٦، ١٥٩ ؛ مائدہ ٤٢، اور توبہ ١٠٨۔ منجملہ ان کے میرزاجواد ملکی تبریزی کارسالہ، ' ' لقاء اللہ''ملاحظہ ہو ۔

۸۴

اور جو کوئی میرے علاوہ کسی دوسرے کو تلاش کرے تو مجھے نہیں پائے گا، لہٰذا اے اہل زمین! دنیا کے فریبوں اور اس کی باطل چیزوںکو چھوڑ دو، اور میری کرامت، مصاحبت، ہمنشینی کے لئے جلدی کرو اور مجھ سے انس اختیار کرو تاکہ میں بھی تم سے انس اختیارکروں اور تم سے دوستی کے لئے جلدی کروں''۔(١)

٢۔توکل

اخلاق اسلامی میںایک دوسرا عام مفہوم جو نفسانی صفت پر ناظر اور انسان و خدا کے درمیان رابطہ کا بیان کرنے والا ہے''توکل''کامفہوم ہے۔ اس مختصر کتاب میںاس کے مقام و منزلت، ماہیت و درجات اورسعی و کوشش کے ساتھ اس کی نسبت کے بارے میں مطالعہ کریں گے۔

ایک۔ توکل کی حقیقت و ماہیت:

توکل کی حقیقت و ماہیت کس طر ح بیان کی جائے ؟ علماء اخلاق نے اس کی تعریف کے باب میں یہ ذکر کیا ہے: توکل یعنی اپنے تمام امور میں انسان کا خدا پر قلبی اطمینان اور اعتماد کرنا نیز تمام قدرتوں سے بیزاری اختیار کرنا ہے، البتہ انسان کے اندر اس حالت کا تحقق اس بات پر موقوف ہے کہ اس کا ایمان و یقین اور قوت قلب اس بات کو قبول کرے کہ عالم وبنی آدم کے کسی کام میں خدا کے علاوہ کوئی قوت اورطاقت موثر و کار ساز نہیں ہے اور تمام اسباب و علل قدرت الہی کے مقہور اور زیر اثرہیں اوراسی کے ارادہ کے تحت عمل کرتے ہیں کہ یہ خود توحید کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے۔ اس وجہ سے ''توکل'' کی اصل واساس توحید ہے اورحصول توحید کے بقیہ وہ وجود میں نہیں آسکتا۔(٢) یہ اس اعتبار سے ہے کہ خداوند عالم نے امور کو ان کے اسباب و علل کی طرف اور کاموںکو ان کے فاعل کی طرف منسوب کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ ایک طرح سے ہے اور علل اور فاعلوں کو حوادث اور افعال پر مسلّط کیا ہے؛ اگر چہ یہ تسلط اور غلبہ اصلی اور ذاتی نہیں ہے اور طبیعی علل اور انسانی فاعل تاثیر گذاری میں استقلال نہیں رکھتے، صرف خدا وند عالم ہے جو مستقل سبب اور تمام اسباب سے بالا تر ہے۔ اس بنا ء پر جب ایک عاقل اور رشید انسان نے کسی کام کا ارادہ کیا اور اس کے عادی و معمول کے مطابق اسباب و وسائل کو فراہم کیا تو وہ جانتا ہے کہ تدبیر امور میں مستقل سبب تنہا خدا ہے اورکسی قسم کی اصالت اور استقلال کا اپنے لئے نیز ان اسباب و علل کے لئے جن کا وہ استعمال کرتا ہے قائل نہیں ہے، لہٰذا وہ خداوند سبحان پر توکل کرتا ہے، اس بنا ء پر توکل کے معنی انسان یا طبیعی اسباب و علل کی جانب امور کے انتساب کی نفی کرنا اوراصالت و استقلال کو خدا سے مخصوص سمجھنا ہے(٣)

____________________

١۔ سید بن طاؤوس، مسکن الفواد، ص ٢٧۔٢۔ اسی لئے بعض علماء اخلاق نے توکل اور توحید کو ایک ردیف میںذکرکیا ہے، رجوع کیجئے: فیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص ٣٧٧۔٣۔ علامہ طباطبائی کی المیزان، ج ١١، ص ٢١٦ ، ٢١٧ ملاحظہ ہو۔

۸۵

دو۔ توکل کے درجات:

اخلاق اسلامی بعض علماء خداوند عالم پر توکل کے لئے تین درجات کے قائل ہیں کہ ان کا مختصر بیان درج ذیل ہے:

خداوندذ والجلال پرتوکل کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان اس پر اعتماد و اطمینان رکھے۔ بعینہ اس اعتما د کی طرح جو کسی وکیل پراپنے امور کی انجام دہی میں انتخاب کرکے رکھتا ہے۔ درحقیقت یہ توکل کا سب سے ادنی درجہ ہے اور آسانی کے ساتھ دسترسی کے قابل ہے اور زیادہ دن تک باقی رہتا ہے نیز انسان کے اختیار اور تد بیر سے بھی منافات نہیں رکھتا۔

توکل کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ انسان اصل توکل سے غافل اور اپنے وکیل یعنی خداوند سبحان کے بارے میں فانی ہے، بر خلاف پہلی قسم کے کہ انسان کی توجہ زیادہ تر وکالت کے قرار دادی رابطہ کی طرف ہوتی ہے۔ توکل کا یہ درجہ کم محقّق ہوتا ہے اور جلد ختم ہوجاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک دو دن سے زیادہ باقی نہیں رہتا ہے اور صرف خاص افراد کو حاصل ہوتا ہے انسان اس حالت میں اپنی بہتر سے بہتر کوشش گریہ اور خدا وند عالم سے دعا ودرخواست میں صرف کرتا ہے۔

توکل کا بلند ترین درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی تمام حرکات و سکنات کو خداوند عالم کے اختیار میں سمجھتا ہے۔ اس قسم اور قسم دوم میں فرق یہ ہے کہ اس میں انسان حتیٰ التماس، درخواست، تضرع و زاری اور دعا کو بھی نظر انداز کردیتا ہے اور اس بات کا اعتقاد رکھتا ہے کہ خداوند عالم اپنی حکمت سے امور کی تدبیر کرتا ہے اگر چہ وہ درخواست والتماس نہ کرے۔ اس توکل کا واقعی نمونہ حضرت ابراہیم ـ کا (خداپر) توکل کرنا ہے۔ کیونکہ جب نمرودیوں نے انھیںمنجنیق میں رکھ کر آگ میں ڈالا تو الہی فرشتہ انھیںیاد آوری کرتا ہے کہ وہ خدا سے امداد کی درخواست کریں، لیکن وہ جواب میں کہتے ہیں: ''خدا وندعالم کا میرے حال سے آگاہ ہونا، مجھے اس سے نجات کی درخواست کرنے سے بے نیاز کرتا ہے ''۔(١)

البتہ ایسی قسم ندرت سے دیکھنے میں آتی ہے اور نہایت کمیاب ہے۔ یہ صد یقین کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہوتی ہے اور اگر واقع ہو بھی گئی تو جلد ہی زائل ہوجاتی ہے اور چند لحظہ سے زیادہ اس کو دوام نہیں رہتا ۔(٢)

____________________

١۔ تفسیر قمی، ج٢، ص ٧٣ ملاحظہ ہو۔

٢۔ فیض کاشانی المحجة البیضائ، ج٧، ص ٤٠٨، ٤٠٩ ؛نراقی، ج٣، ص ٢٢٣تا ٢٢٥۔

۸۶

دوسرے رخ سے، لوگ خداوند عالم پر توکل و اعتماد کرنے میںیکساں مراتب و درجات نہیں رکھتے۔ ہر ایک کو چاہئے کہ اپنے توکل کے بقدر اپنے مقاصد تک پہنچنے میں اسباب و علل سے چارہ جوئی کرے۔ خداوند عالم ان لوگوں کے ساتھ جنہوں نے بالکل اسباب و علل طبیعی سے اپنا قطع تعلق کرلیا ہے اسی اعتماد کے تناسب سے برتائو کرے گا۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا ہے: ''خدا نہیں چاہتا ہے کہ مومنین کی روزی اس جگہ سے فراہم کرے جہاں سے وہ گمان نہیں رکھتے''(١) خداوند عالم کا یہ برتائو ان مومنین سے مخصوص ہے جو توکل کے اعلیٰ درجہ پرفائز ہیں ؛ لیکن جو لوگ اس درجہ پرفائز نہیں ہوئے ہیں اور ان کا خدا وند عالم پر اعتماد کے ساتھ ساتھ طبیعی اسباب و علل پر بھی اعتماد باقی ہے، خداوند عالم بھی اسباب و علل کے ذریعہ ان کی ضرورتوں کو پورا کرے گا۔(٢)

تین۔ توکل کی اہمیت:

قرآن کریم نے دسیوں بار صراحت اورکنایہ کے ساتھ انسان بالخصوص مومنین کو خداوند عالم پر توکل کی دعوت دی ہے اور بندوں کے اس اعتماد و اطمینان کے مقابل ان کے امور کی کفالت سے متعلق خداوند عالم کے وعدہ کا اعلان کیا ہے۔ منجملہ ان کے قرآن میں ذکر ہے: '' مومنین کو چاہئے کہ صرف اور صرف خدا پر توکل کریں''۔(٣) ''خداوند عالم توکل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے''۔(٤) اسی طرح خدا پر اعتماد اور توکل کے انجام کی نسبت اطمینان حاصل ہونے کے بارے میں قرآن فرماتا ہے: '' جو خدا پر اعتماد کرتا ہے اس کے لئے وہی کافی ہے ''(٥) احادیث نبوی اور اہل بیت (ع) کے ارشادات ان عبارتوں سے بھرے پڑے ہیں جن میں توکل کی اہمیت اور فضیلت بیان ہوئی ہے، مثال کے طور پر حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''بے شک بے نیازی اور عزت گردش کی حالت میں ہیں وہ جیسے ہی توکل کی منزل سے گذرتی ہیں اس جگہ کو اپنا ٹھکانہ اور وطن بنالیتی ہیں''۔(٦)

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج٥، ص٨٣، ح١۔ ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ص٦٠۔شیخ طوسی، امالی، ص٣٠٠، ح٥٩٣۔

٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص٢٢٩، ٢٣٠۔

٣۔ سورئہ آل عمران، آیت ١٢٢، ١٦٠۔ مائدہ ، آیت ١٢، ٢٦۔ توبہ آیت ٥٢۔ ابراہیم، آیت ١١۔ مجادلہ، آیت ١٠۔ تغابن، ١٣۔

٤ ۔سورئہ آل عمران، آیت ١٥٩۔

٥۔ سورئہ طلاق، آیت ٣۔

٦۔ کلینی، کافی ج٢، ص ٦٥، ح٣۔

۸۷

چار۔ سعی وکوشش اور توکل:

اگر چہ توکل کی حقیقت کے بارے میں غور و فکرکرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ توکل سعی وتلاش اور اسباب ووسائل سے استفادہ کرنے سے منافات نہیں رکھتا لیکن کبھی ایسا شبہہ پیش آتا ہے کہ اس کی جانب اشارہ کرنا مفید ہے۔ انسان ان امور کی نسبت جن کے اسباب و علل اس کے ارادہ سے خارج ہیں وہ توکل کے سوا کوئی چا رہ کا ر نہیں رکھتا لیکن ان حوادث کی نسبت جن کے اسباب و علل کی ایجاد اس کے ہاتھ میں ہے باوجودیکہ توکل کے سبب اسباب ووسائل کے لئے مستقل تاثیر کا قائل نہیں ہے، لیکن اس کا فریضہ ہے کہ ان کی فراہمی کے لئے کوشش کرے اور جس چیز کی سببیت کے لئے یقین یا گمان رکھتا ہے اس کا استعمال کرے اور اس حیثیت میں اپنی عقل و ہوش سے استفادہ کرے۔ کیونکہ خدا کی سنت اس بات پر قائم ہے کہ امور عالم اپنے خاص اسباب و علل کے ساتھ آگے بڑھیں، اسی بنیاد پر اس نے فرمایا ہے: '' جنگ کے موقع پر خاص طریقہ اور اسلحہ کے ساتھ نماز پڑھو''(١) '' اور اپنے لئے دفاعی قوت پیدا کرو''۔(٢) موسیٰ ـ کو حکم دیا کہ ''ہمارے بندوں کو شب (کے سناٹے) میں فرعونیوں کی نگاہوں سے بچا کر شہر سے نکال لو''۔(٣) پیغمبر اکرم نے جب ایک اعرابی کو دیکھا کہ اس نے خداوند عالم پر توکل کے بہانہ اپنے اونٹوں کو جنگل میں چھوڑدیا تو فرمایا: ''اعقلھا و توکّل''(٤) ''اونٹ کو باندھ دو اور خدا پر توکل کرو''۔

٣۔شکر

یہ مفہوم بھی چند لحاظ سے تحقیق کے قابل ہے :

ایک۔ شکر کی ماہیت اور درجات:

شکر کی ماہیت کے سلسلہ میں متعدد عبارتیں استعمال کی گئی ہیں'' نعمت کا تصوراور اس کااظہار ''(٥) ''منعم کی نعمت کی شناخت اور اس کی بہ نسبت سرور و شادمانی، اس سرورکے مقتضیٰ کے مطابق عمل کرنا امور خیر پر عزم کے ساتھ، منعم کی شکرگذاری اور خداوند عالم کی راہ بندگی میں نعمت کا استعمال''(٦) اور ''اظہار نعمت''(٧) یہ ساری تعریفیں شکر کے لئے بیان کی گئی ہیں ان تمام تعریفوںکو یکجا کرکے کہا جاسکتا ہے کہ درحقیقت شکروہی ''نعمت کا اظہار'' ہے ۔

____________________

١۔ سورئہ نساء ١٠١۔ ٢۔ سورئہ انفال ٦١۔ ٣۔سورئہ دخان ٢٣۔ ٤۔ طوسی، امالی، ص ١٩٣، ح ٣٢٩۔٥۔ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ قرآن، ص ٢٧٢۔

٦۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص ٢٣٣۔ اسی طرح ملا حظہ ہو فیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج٧، ص٤٤تا ١٤٦۔

٧۔ علا مہ طباطبائی، المیزان، ج٤، ص ٣٨، اور ج٦، ص ٢١٥۔

۸۸

نعمت کا اظہار ایک طرف اس کے تصورو ادراک کا مستلزم ہے اور دوسری طرف یہ اظہار مختلف مراتب اور پہلوؤں کا حامل ہے کیونکہ نعمت کے اظہار سے مراد اس کا ایسی راہ میںاستعمال کرنا ہے جس میں منعم نے ارادہ کیا ہو، اسی طرح اس کی کا ذکر اور اس کی نعمت کے لئے اس کی مدح و ثنا کرنا ہے۔ اس وجہ سے شکر سہ گانہ مراتب کا حامل ہے قلبی: (یاد کرنا ) ، زبانی (مدح و ثنا ) اورعملی۔ شکر خدا وندی سے مرادیہ ہے کہ انسان پہلے دل میں ہمیشہ اس کی نعمتوں کی طرف متوجہ ہواور اس کی نعمتوں کو یادرکھتا ہو۔ دوسرے یہ کہ اللہ کی بیکراں نعمتوں سے استفادہ کرنے کے وقت اللہ کی حمد و ستائش کے لئے زبان کھولے۔ تیسرے خدا کی نعمتوں اور اس کی برکتوں کواس راہ میںاستعمال کرے جس میں اس کی مرضی اور خواہش ہو ۔(١) شکر کے مقابل کفر ہے جو کہ اللہ کی نعمتوں کو پوشیدہ و مخفی کرنے کے معنی میں ہے۔ البتہ واضح ہے کہ اللہ کی بے شمار نعمتوں کی بہ نسبت اللہ کے شاکر بندے بھی شکر گزاری سے عہدہ بر نہیں ہو سکتے ، اس کے باوجود ادب بندگی اقتضاء کرتا ہے کہ اس راہ میں اپنی انتھک کوشش کرے۔ قرآن اللہ کی نعمتوں کی وسعت اور نوع بشر کے میزان شکر کے بارے میں فرماتا ہے: ''اور تم نے جو کچھ مانگا اس نے عطا کیا، اور اگر خدا کی نعمتوں کو شمار کرو تو ان کا شمار نہیں کرسکتے یقینا انسان بڑا ظالم اور ناشکرا ہے''۔(٢)

دو۔ شکر کی اہمیت:

آیات و روایات میں شکر کی شرح میںذکر ہوا ہے: شکر گزاری خدا کے صفات میں سے ہے '' اور خدا شکر گزار اور برد بار ہے''۔(٣) شکر گزاری جنت میں رہنے والوں کے کلام کی ابتدا وانتہا ہے: ''شکر اس خدا کا جس نے ہم سے کئے گئے اپنے وعدہ کو ہم پر سچ کردکھا یا ''(٤) اور ان کی مناجات کا آخری کلام یہ ہے: ''الحمد لله رب العالمین ''۔(٥) خدا وند عالم نے شکر گزاری کو ایمان کے ساتھ ساتھ عذاب سے روکنے کا باعث قرار دیا ہے: '' اگر شکر گذار بنو اور ایمان لے آؤ تو خدا تم پر عذاب کر کے کیا کرے گا ؟ ''(٦)

____________________

١۔ شکر کے مراتب کو معتبر و مستند احادیث کے مضامین سے استنباط کیا جا سکتا ہے ؛ جیسے کافی، ج٢، ص ٩٦، ح ١٥، اور ص ٩٥، ح٩، ١١۔

٢۔ سورئہ ابراہیم، آیت ٣٤، اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ اعراف، آیت ١٠ اور ١٧، سورئہ یونس، آیت ٦٠ اور سورئہ غافر، آیت ٦١۔

٣۔ سورئہ تغابن، آیت١٧ اسی طرح ملاحظہ ہوسورئہ نساء آیت ١٤٧۔

٤۔ سورئہ زمر ٧٤۔ ٥۔ یونس ١٠۔ ٦۔ نساء ١٤٧۔

۸۹

شکر گزاری کی فضیلت میںاتنا ہی کافی ہے کہ خداوندعالم صریحی طور پر بندوںکو اس کا حکم دیتا ہے: '' اور میرا شکر بجا لاؤ اور میرے ساتھ ناشکری نہ کرو ''(١) حضرت امام زین العابدین ـ کے بقول خداوند عالم کا شکر ادا کرنا انسان کو اللہ کی خاص محبت کے دائرہ میں قرار دیتا ہے: '' حقیقت میںخداوندعالم ہر محزون وغمزدہ دل اور ہر شکر گذار و قدرداں بندہ کودوست رکھتا ہے '' ۔(٢) اس وجہ سے حق شناسی اور شکر گزاری خداوند عالم اور انسان کے درمیان رابطہ بر قرارکرنے و الے اساسی وبنیادی عناصر میں سے ہے یہ انسان کا خدا کے ساتھ رابطہ ہے جس کی اصل الہٰی نعمتوں اور برکتوں کے ادراک اور ان کی نسبت قلبی اعتراف میں پوشیدہ ہے۔قابل ذکر بات ہے کہ ''شکر ''اپنے مجموعی مفہوم کے اعتبار سے لوگوں کی شکر گزاری بھی لوگوں کی خدمتوں کے سلسلہ میں شامل ہے اس طرح کے شکر کے سلسلہ میں اخلاق معاشرت کی بحث میںگفتگو کی جاتی ہے۔

تین۔ شکر خداوندی کا دنیوی نتیجہ:

سب سے اہم دنیوی اثر جو دینی کتابوں میں شکر گزاری کے لئے بیان کیا گیا ہے، پروردگار کی نعمتوں کا زیادہ ہونا ہے۔ قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے: ''جب کہ تمہارے رب نے اعلان کیا کہ اگر شکر کروگے تو(نعمت) کو تم پر زیادہ کردوں گا اور اگرناشکری کروگے تو یقینا میرا عذاب سخت ہے''۔(٣) یہ حقیقت بہت سی روایات میں بیان ہوئی ہے ؛ منجملہ ان کے حضرت علی ـ نے فرمایا: ''خداوند عالم کسی بندہ پر شکر گذاری کا دروازہ نہیں کھولتا، اس حال میں کہ نعمت کا دروازہ اس پر بندکردے '' ۔(٤)

یہ سوال ہمیشہ ہوتا رہتا ہے کہ آیا خداوند سبحان کی شکر گزاری بندوں کے لئے مقدور ہے؟کیونکہ سپاس گذار ی کی توفیق اور اس کی قوت خود خدا کی ایک نعمت ہے اور دوسرے شکر کامستلزم ہے۔ اگراس فریضہ کاانجام دینا انسان کے امکان سے خارج ہے، توپھر کس طرح ا نسان کو اس کے کرنے کاحکم دیتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: ''وہ باتیں جن کی خداوندعالم نے موسٰی ـ کووحی کی تھی ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ موسیٰ میراشکر ایسا اداکرو، جو میرے شایان شان ہو '' موسٰی ـ نے جواب میں پوچھا: خدایا! کس طرح تیری شکرگذاری کا حق ادا کروں جب کہ ہرطرح میری شکرگذاری خود ہی ایک دوسری نعمت ہے ؟ خدا نے جواب میں فرمایا: اب (جب کہ تم نے جان لیا کہ تمہارا شکر کرنا خود ہی ایک دوسری نعمت ہے) تم نے میرے شکرکا حق ادا کردیا '' ۔(١) یعنی شکر الہی کا حق یہ ہے کہ انسان اپنی آخری کوشش کو اس راہ میں صرف کرے، اسی کے ساتھ یہ یقین رکھتاہو کہ اللہ کے شایان شان شکر ادا نہیں ہوسکتا۔

____________________

١۔ بقرہ ١٥٢ اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ اعراف ١٤٤ اور سورئہ زمر ٦٦۔٢۔ کافی، کلینی، ج٢، ص٩٩ح٣٠۔ ٣۔ ابراہیم ٧۔ ٤۔ نہج البلاغہ، حکمت ٤٣٥؛ کافی، ج ٢، ص ٩٤، ح٢اورص ٩٥، ح ٩ ؛ امالی، ص ٥٩۔

۹۰

ب۔ نفس کا اپنی عاقبت کی طرف رجحان

بعض عام اخلاقی مفاہیم انسان کے نفسانی حالات کے نظام کو اپنی عاقبت اور انجام کار کے لئے وجود میں لاتے ہیں وہ اہم ترین مفاہیم جو اس باب میں ذکر ہوئے ہیں یہ ہیں: خوف، رجائ، مایوسی، نا امیدی اور تدبیر خداوندی سے حفاظت۔ چونکہ یاس و ناامیدی ''خوف وخشیت '' کے لئے نقصاندہ اور تدبیر خداوندی سے حفاظت، امید و رجاء کے لئے بلا شمار ہوتی ہے، نتیجہ کے طور پر بحث و گفتگوکا موضوع اس حصہ میں'' خوف و امید '' ہے اور دیگرمفاہیم انھیںدو عنوانوں کے تحت زیر بحث قرار پائیں گے۔

١۔خوف

الف۔ خوف کا مفہو م:

خوف یعنی مستقبل میں یقینی یاظنّی علامتوں کی بنیاد پر انسان کے لئے کسی ایسے ناگوار واقعہ کے پیش آنے کا احتمال(٢) جو فطری طور پر درد مندی اور پریشانی کا باعث ہے۔(٣) اس بناپر ''خوف'' ''بزدلی'' سے اساسی فرق رکھتا ہے کیونکہ'' جبن (بزدلی ) '' سے مراد ہے خود کو دفاع اور انتقام وغیرہ سے ایسی جگہوں پر روکنا جہاں شرعی اور عقلی دونوں لحاظ سے اس کا اقدام کرنا جائز اور بہتر ہے۔(٤)

____________________

١۔ کافی، کلینی، ج٢، ص٩٨، ص٩٨، ح٢٧ملاحظہ ہو۔

٢۔ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ قرآن، ص ١٦١۔

(٣۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص ٢٤٩؛ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص٢٠٩۔

٤۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٢٠٩۔

۹۱

علماء اخلاق نے پہلی تقسیم میں خوف کو دو پسندیدہ اور ناپسندیدہ قسم میں تقسیم کیاہے۔ ناپسند خوف وہی خدا کے علاوہ کسی دوسری چیز سے خوف کھانا ہے اور خوف پسندیدہ عذاب خداوندی اور برے انجام سے خوف کھاناہے اور حقیقت میں اپنی بری رفتار اور اعمال کے ناگوار عواقب سے خوف کھانا ہے۔ یہاں پر ہماری بحث کا موضوع پسندیدہ خوف ہے۔

ب۔ خوف کے درجات:

اخلاق اسلامی کی مشہور کتابوں میں ''ورع'' ''تقویٰ'' اور ''صدق'' کو ''خوف '' کے درجات میں شمار کیا گیا ہے اس طرح سے خوف کا سب سے معمولی درجہ یہ ہے کہ وہ اس بات کا باعث ہو کہ انسان اخلاقی ممنوعات ومنہیات کے ارتکاب سے پرہیز کرے۔ ''خوف ''کے اس درجہ کو ''ورع ''کہتے ہیں۔ اور جب خوف کی قوت اورطاقت میںاضافہ ہوجائے اور وہ اس بات کا باعث ہوکہ انسان محرمات کے ارتکاب کے علاوہ مشکوک و مشتبہ چیزوں سے بھی پرہیز کرے تو اسے تقویٰ'' کہتے ہیں۔ تقویٰ میں صداقت یہ ہے کہ حتی بعض جائز و مباح امور کے ارتکاب سے بھی پرہیز کرے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ حرام کے ارتکاب کی راہ ہموار کردے اور آخر کار جب انسان خدا سے شدت خوف کی وجہ سے سراپا آمادئہ خدمت ہوتا ہے اور ضرورت سے زیادہ کوئی گھر نہیں بناتا اور نہ کوئی مال ذخیرہ کرتا ہے اور اس مال کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا جس کے بارے میں اسے معلوم ہے کہ اسے ایک دن چھوڑ جائے گا اور کوئی سانس بھی غیر خدا کی راہ میں نہیں لیتا تو درحقیقت اس نے ''صدق ''کی وادی میںقدم رکھ دیا ہے اور ایسے مرتبہ کے مالک کو صدّیق کہتے ہیں اس بنا پر مقام ''صدق'' اپنے اندر تقویٰ و ورع بھی رکھتا ہے اور تقویٰ و ورع کا حامل بھی ہے البتہ ''ورع'' عفّت کے ساتھ بھی ہے کیونکہ عفّت نفسانی شہوات وخواہشات سے پرہیز کرنے کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں ہے لیکن اس کے بر عکس صادق نہیں ہے۔(١)

ج۔ خوف کی اہمیت:

اولاً

خدا کا خوف انسان کے لئے سعادت حاصل کرنے میں بڑا بنیادی کردار اداکرتا ہے، کیونکہ پہلے بیان کئے گئے مباحث کی روشنی میں انسان کی سعادت پروردگارسے ملاقات اور اس کے جوار میں سکونت اختیارکرنے کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ بات انس ومحبت الہی کے سایہ ہی میں ممکن و میسر ہے اور وہ خود معرفت الہی پر منحصر ہے اور معرفت خود فکر کی مرہون منت ہے اور انس محبت وذکرپر منحصر ہے۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٢١٩، ٢٢٠۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص ٢٧٠ ، ١ ٢٧۔

۹۲

فکر وذکر الہی اس وقت ہوتا ہے جب انسان اپنے دل کو دنیاوی محبت سے الگ کر لے اور دنیا سے قلبی لگاؤ کو قطع کرنے کے لئے شہوتوں اور لذتوں سے کنارہ کشی کرنے کے سواکوئی اور راستہ نہیں ہے۔ اور خوف خدا وندی کی آگ لذتوں اور شہوتوںکی راہ میں ایک کار آمد اسلحہ ہے۔(١) نتیجةً خوف الہی انسان کا مقصد کی طرف حرکت کرنے کا پہلا سنگ بنیاد ہے۔

ثانیاً،

بہت سی آیات وروایات مختلف انداز سے خدا کے خوف کی اہمیت و منزلت پر تاکید کرتی ہیں۔ منجملہ ان کے قرآن نے خدا سے خوف کرنے والوں کورحمت و رضوان و ہدایت کا وعدہ دیا ہے: ''ان لوگوں کے لئے جو اپنے رب کاخوف رکھتے تھے ہدایت و رحمت تھی''۔(٢) ''خدا ان لوگوں سے راضی و خوشنود ہے اور وہ لوگ بھی اس سے راضی و خوشنود ہیں یہ جزا اس کی ہے جو اپنے رب سے ڈرتا ہے''۔(٣) اسی طرح قرآن خوف کا دعوی صرف حقیقی عالموں سے قبول کرتا ہے: ''خدا کے بندوں میں صرف علماء ہیں جواس سے ڈرتے ہیں''۔(٤) دوسری جگہ خوف کو ایمان کے لوازم میں شمار کیا ہے: ''مومنین وہی لوگ ہیںکہ جب خدا کاذکر ہو تو ان کے دل خوفزدہ ہوں''(٥) سر انجام قرآن نے خدا ترس لوگوں سے بہشت کا وعدہ کیا ہے: '' اور رہے وہ جو خدا کے سامنے کھڑے ہونے سے ہراساں ہیں اور اپنے نفس کو ہواو ہوس سے روک رکھا ہے، اس کا ٹھکانہ بہشت ہے ''۔(٦) خداوندعالم کی حضرت عیسیٰ ـسے گفتگو میں مذکور ہے: ''اے عیسیٰ ! مجھ سے ڈرواور میرے بندوں کو میری نسبت خوف دلاؤ، شاید گناہگار لوگ جو وہ گناہ کرتے ہیں اس سے باز آجائیں اور نتیجہ کے طور پر ہلاک نہ ہوں سوائے ان کے جو جانتے ہیں''۔(٧)

____________________

١۔ ایضاً۔

٢۔ اعراف ١٥٤۔

٣۔ بینہ ٨۔

٤۔ فاطر ٢٨۔

٥۔انفال ٢ ۔ آل عمران ١٧٥۔

٦۔ نازعات ٤٠، ٤١۔

٧۔) کافی، ج ٨، ص ١٣٨، ح ١٠٣۔

۹۳

د۔ خوف کے بارے میں ہوشیاری:

خداوند ذو الجلال سے خوف کھانا وادی قرب الہی میں بندوں کے سلوک کے لئے ایک تازیانہ ہے۔ جیسا کہ اس تازیانہ کا کمزور ہونا یا فقدان، الہی راہ کے سالکوں کے لئے بے زادو راحلہ بنادیتا ہے، حد سے زیادہ اس کی زیادتی بھی امید کی کرن کو اس کے دل میں منزل مقصود تک پہونچنے کے امکان میں خاموش کردے گی اور حرکت کرنے کی طاقت بھی اس سے سلب کرلے گی۔ لہٰذا خدا وند عالم سے خوف میں افراط کرنا رحمت الہی سے قنوط ومایوسی ہے جو خوف خدا کی عظیم آفت ہے۔ اور اخلاقی برائی شمار ہوتی ہے ]بعض ارباب لغت نے قنوط کو مایوسی کا شدید درجہ سمجھتے ہیں ۔(١) اسی بنیاد پر قرآن کریم رحمت خداوندی سے مایوسی کو محض گمراہی تصور کرتا ہے: '' کون ہے جز گمراہوں کے جو رحمت خداوندی سے مایوس ہوتا ہے ؟ ''(٢) اور دوسری جگہ رحمت خداوندی سے مایوسی کو کا فروںکا شیوہ تصور کرتا ہے: '' یقینا ً کافروں کے سوا کوئی رحمت الہی سے مایوس نہیں ہوتا ''۔(٣) بہت سے موارد میںانسان کاخوف زندگی کے برے انجام اور شوم عاقبت سے ہوتا ہے ؛ خوف اس بات کا کہ کہیں انسان کفر کی حالت یا خدا کے انکار یا شک وتردید کی حالت میں دنیا سے چلا جائے یا ایسے حال میں دنیا چھوڑے کہ اس کا دل خدا کی محبت اور اس کے انس سے خالی ہو، نتیجہ کے طور پر اپنے اعمال سے شرمندہ اور عذاب الہی میںگرفتار ہو۔ واضح ہے کہ جو بھی ایسا خوف و ہراس دل میں رکھے گا اسی وقت سے اپنی را ہ وروش اور گفتار کو بدلنا چاہے گا اور یہ وہی خدا سے خوف رکھنے کی فضیلت کا رمز ہے۔

٢۔ امید

الف۔ امید کا مفہوم: '' رجائ'' (''امید '' ) سے مراد قلبی سکون کا احساس ہے اور وہ کسی ایسے امرکے تحقق کے انتظار کے نتیجہ میں ہے جو محبوب اور خوش آیند ہے، البتہ ایسی صورت میں جبکہ اس محبوب امر کے اکثر اسباب اور موجبات محقق وثابت ہوں۔ لیکن جب اسباب کاوجود یا عدم معلوم نہ ہو تو ایسے انتظار کو '' تمنا'' اور '' آرزو'' کہا جاتا ہے۔ اگر امر محبوب کے وجود کے اسباب و علل فراہم نہ ہوں اور اس کے باوجود انسان اس کے تحقق کا انتظار رکھتا ہو توایسے انتظار کو '' فریب '' اور ''حماقت '' کہتے ہیں اور کبھی اس پر رجاء و امید کامفہوم صادق نہیں آتا ہے۔ ''امید ''بھی '' خوف وہراس '' کے مانند ایسی جگہ ذکر کی جاتی ہے جہاں واقعہ کا ظاہر ہونا عام طور سے محتمل ہو نہ کہ قطعی۔ اس وجہ سے امید سورج کے طلوع یا غروب کے متعلق جس کا تحقق قطعی ہے ، صحیح نہیں ہے۔(٤)

____________________

١۔ ملاحظہ ہو ابو ہلال عسکری اور نور الدین جزائری کی کتاب معجم الفروق اللغوےة، ص ٤٣٥، ٤٣٦۔ ٢۔ سورئہ حجر، آیت ٥٦۔ ٣۔ سورئہ یوسف، آیت ٨٧۔ ٤۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص٢٤٩۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٢٤٤۔

۹۴

ب۔ امید کی اہمیت:

قرآن وروایات میں رحمت خداوندی ا ور نیک انجام سے امید مختلف جہات اور اسالیب میںمورد تاکید وترغیب واقع ہوا ہے کہ ذیل میں ان کے صرف اصلی محور کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔

١۔ وہ آیات وروایات جو رحمت خداوندی سے اس مایوسی اور نا امیدی کی مذمت میںہے جو '' امید '' کے مقابل ہے، وارد ہوئی ہیں، ان میں سے بعض بیان ہوچکی ہیں۔

٢۔ وہ آیات وروایات جو بندوں کو واضح طور پر فضل خداوندی کا امید وار بناتی ہیں اور اس کی تشویق وترغیب کرتی ہیں؛ منجملہ ان کے یہ ہے کہ خداوند ذوالجلال رسول اکرم سے فرماتا ہے: ''عمل کرنے والے (مومنین ) ان اعمال پر اعتماد نہ کریں جو میرے ثواب کے حصول کے لئے انجام دیتے ہیں، کیونکہ اگر اپنی تمام عمر میری عبادت کے لئے کوشاں ہوںاور زحمت کریں اس کے بعد بھی کوتاہی کی ہو اور میری عبادت کی کنہ و حقیقت کو کہ جس کے سبب سے وہ کرامت جو میرے نزدیک ہے اور میری بہشت کی نعمتوںکو تلاش کرتے ہیں، نہیں پہونچ سکتے، بلکہ انھیںچاہئے کہ میری رحمت پر اعتماد کریں اور میری بخشش کے امید وار رہیں''۔(١)

٣۔ قرآن وروایات میں مذکور ہے کہ فرشتے اور اللہ کے انبیاء ہمیشہ مومنین کے لئے خداوند عالم سے عفو و بخشش طلب کرتے رہتے ہیں اور یہ خود رحمت خداوندی سے امید رکھنے کا باعث ہے۔

قرآن میں مذکور ہے: ''فرشتے اپنے پروردگار کی حمد میں تسبیح پڑھتے ہیں اوران لوگوںکے لئے جو زمین میں ہیں عفو وبخشش طلب کرتے ہیں''۔(٢)

٤۔ وہ آیات وروایات جو اللہ کے بے کراں عفو ومغفرت پر دلالت کرتی ہیں: ''یقیناً تمہارا رب لوگوں کی نسبت ان کے ستم کے باوجود بخشنے والاہے''۔(٣)

اسی طرح جو کچھ پیغمبر اکرم کی شفاعت کے بارے میں ان کی امت کی نسبت وارد ہوا ہے،(٤) یا وہ آیات وروایات جو اس بات کو بیان کرنے والی ہیں کہ جہنم صرف اور صرف کافروں کے لئے فراہم کی گئی ہے،(٥) یا مومنین کے آتش (جہنم ) میں ہمیشہ رہنے کی نفی کرتی ہیں، اسی طرح گناہگاروں کو عفو و گذشت کی درخواست میں جلدی کرنے کی دعوت دیتی ہیں یہ تمام آیات وروایات درحقیقت خداوندعالم سے امید رکھنے اور حسن عاقبت کی تشویق کرتی ہیں۔(٦)

____________________

١۔ کافی، ج٢، ص٧١، ح ١۔ ٢۔سورئہ شوری، آیت٥۔ ٣۔سورئہ رعد، آیت ٦۔ ٤۔ سورئہ ضحی کی پانچویںآیت کی تفسیر ملاحظہ ہو۔

٥۔ سورئہ آل عمران، آیت ١٣١۔ ٦۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٢٤٧ تا ٢٥٤۔

۹۵

ج۔ امیدکے نقصانات:

خداوندعالم کی رحمت سے امید اور نیک انجام کی توقع رکھنے سے دو لحاظ سے شدت کے ساتھ خطرہ محسوس ہوتاہے کہ ذیل میںا ن کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔

١۔ بغیر عمل کے امید وارہونا:

'' امید '' کی تعریف میں کہا گیا ہے کہ کسی خوش آیند امر کے تحقق کے انتظار کے نتیجہ میں قلبی کو اس صورت میں امید واری کا نام دیا جاتا ہے کہ جب اس کے اکثر وبیشتر اسباب وعلل فراہم ہوں ورنہ خوش آیند سر انجام کا انتظار بغیر اس کے اسباب کے تحقق کے '' حماقت ''اور ''غرور'' کے سوا کوئی چیز نہیں ہوگی۔

امیدواری کی ایک اہم ترین مشکل درواقع جھوٹی اور بے بنیاد امیدیں ہیں، اسلام کے اخلاقی نظام میں سعادتمندی اور نیک بختی صرف عمل صالح کی راہ سے گذرتی ہے لیکن بہت سے ایسے افراد ہیں جو بغیر کوشش اور نیک عمل کے، نیک اور اچھے انجام کی امیدکے داعویدار ہیں۔ حضرت علی ـ اس گرو ہ کو ہوشیار کرتے ہوئے فرماتے ہیں''کیا تم امید رکھتے ہو کہ تمہیںخدا متواضع افراد جیسا اجر دے دیگا جب کہ تم اس کے نزدیک سرکشوں میں شمار سے ہو اور صدقہ دینے والوں کے ثواب کی آرزو رکھتے ہو جب کہ تم نعمت سے مالامال ہو اوراسے بے چاروں اور بیوہ عورتوں پر خرچ کرنے سے دریغ کرتے ہو !آدمی نے جو کچھ کیا ہے وہ اسی کی جزا پاتا ہے اور جو اس نے پہلے روانہ کیا ہے اسی پر وارد ہوتا ہے''۔(١)

٢۔ تدبیر خداوندی سے اپنے کو محفوظ سمجھنا:

خداوند رحمان کی بخشش کا حد درجہ امیدوار ہونا تدبیر خداوندی (سزائے الہی) سے بے خوفی کا احساس دلاتا ہے جو کہ اخلاقی رزائل میںسے ایک ہے۔ خود کو اللہ کے عذاب سے محفوظ سمجھنا خوف الہی سے منافات رکھتا ہے، نیز تدبیر الہی سے امان کا احساس انسان کو گناہ و عصیان میںغوطہ لگانے کا آغاز ہے۔ اسی بنیاد پر انبیاء واولیاء خود کو امن وامان میں نہیں سمجھتے تھے اور ہمیشہ عذاب خداوندی سے خوفزدہ رہتے تھے۔ قرآن کریم تدبیر خداوندی سے امان کے احساس کی مذمت میں فرماتا ہے: ''آیا انہوں نے خود کو تدبیر خداوندی سے امان میں خیال کیا ہے ؟ (باوجودیکہ) خسارہ اٹھانے والے لوگوں کے علاوہ کوئی بھی خود کو تدبیر الہی سے محفوظ نہیں سمجھتا''۔(٢)

____________________

١۔ نہج البلاغہ، مکتوب ٢١، اور ملاحظہ ہو خطبہ ١٦٠، حکمت١٥٠ حرانی، تحف العقول، ص ٢ ۔ کافی، کلینی، ج٢، ص ٦٨، ح٥۔

٢۔ اعراف ٩٩۔

۹۶

۳۔ خوف ورجاء کے درمیان مناسبتیں:

اس سلسلہ میں دورخ سے توجہ کی جاسکتی ہے: ایک قلب انسان پر ان میں سے ہر ایک کی کیفیت اور اثر کے اعتبار سے، دوسرے یہ کہ دونوں ایک دوسرے کے مقابل کیا مقام ومنزلت اور کیا اہمیت رکھتے ہیں ،یعنی یہ کہ آیا امید، خوف سے زیادہ اہم چیز ہے یا اس کے عکس (خوف امید سے زیادہ اہم ہے؟)

پہلی بات تویہ ہے کہ خوف ورجاء گذشتہ مفہوم کے اعتبار سے اصل وجود میں ایک دوسرے کی نسبت لازم وملزوم ہیں ؛ کیونکہ ''خوف '' کسی ناگوار امر کے وقوع اور آئندہ ممکن الحصول چیز کے انتظار کے نتیجہ میں قلبی گھبراہٹ اور پریشانی ہے ، اس وجہ سے جس طرح اس کا واقع ہونا احتمال رکھتا ہے اسی طرح اس کاواقع نہ ہونا بھی احتمال رکھتا ہے نیز جس طرح اس کا واقع ہوناناگوار اور نا خوش آیند ہے اسی طرح اس کا واقع نہ ہونا بھی خوش آیند اور اس کے عدم کا انتظار خودہی مایۂ امید ہوگا۔اس وجہ سے ہرامید اپنے دامن میں خوف و ہراس رکھتی ہے اور اس کے برعکس ہر خوف و ہراس بھی اپنے دامن میں امید رکھتا ہے۔ رہا اس سوال کا جواب کہ ان دونوں کا اثر انسان پر کس درجہ ہے؟ کہا جا سکتا ہے: یہ نسبت اسی اندازہ اور میزان کے ساتھ ہونی چاہیے کہ ان دونوںمیں سے کوئی بھی دوسرے کے اثر حرکت اور کارآمد ہونے کو کم نہ کرے، کیونکہ خوف و رجاء عمل صالح اور خداوند عالم سے تقرب کا ذریعہ ہیں، اور یہ اس وقت ثابت ہوگا جب دونوں ہی تعادل وتوازن کے ساتھ( میانہ حالت پر) ہوں۔

دوسری بات یہ ہے کہ اہمیت کے اعتبار سے جب دونوں کا ایک دوسرے سے مقایسہ کیا جائے تو یہی ذہن میں آتا ہے کہ اس قیاس کو دوسطح میں انجام دیا جا سکتا ہے: ١ فرداًفرداًافراد اور مصادیق کے اعتبار سے، ٢ مصادیق سے صرف نظر کرکے تنہاخوف ورجاء کی حقیقت پر غور کرتے ہوئے افراد کی نسبت ان دونوںمیں سے ہر ایک کا مقدم ہونا فردکی حالت سے وابستہ ہے۔ بعض کو ''امید '' متحرک کردیتی ہے تو بعض کو ''خوف '' متحرک بنادیتا ہے۔ واضح ہے کہ مناسب دوا ہرایک کے لئے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن معین افراد واشخاص سے قطع نظر اور خوف و رجاء کی حقیقت کے پیش نظر بعض آیات(١) و روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ اگر عمل خداوندرحمان پر امید کے ذریعہ انجام پائے تو اس عمل پر جو خوف کی بنا پر وجود میں آتا ہے۔ برتری رکھتا ہے۔ منجملہ ان کے حضرت علی ـسے نقل ہوا ہے: ''رحمت الہی کی امید خوف الٰہی سے زیادہ قوی ہے۔کیونکہ خداوندعالم سے تمہارا خوف کھانا تمہارے گناہوں سے پیدا ہوتا ہے لیکن خدا سے تمہاری امید اس کی بخشش سے پیدا ہوتی ہے، لہٰذا خوف تمہاری طرف سے ہے اور امید اس کی طرف سے''۔(٢) دعائے جوشن کبیر میں وارد ہوا ہے:''یا من سبقت رحمته غضبه'' اے وہ ذات جس کی رحمت اس کے غضب پر سبقت رکھتی ہے۔

____________________

١۔ فصلت ٢٣ اور فتح ١٢۔ ٢۔ شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدیدمعتزلی، ج٢٠، ص ٣١٩ ،ح ٦٦٦۔

۹۷

ج۔ نفس کا خود اپنی طرف رجحان

نفس انسانی کے اپنی نسبت رجحان کا تعادل وتوازن بعبارت دیگر اپنے کام سے متعلق صحیح جانچ پڑتال رکھنا اخلاق اسلامی میں عام مفاہیم کے دوسرے گروہ کا ہدف ومقصد ہے۔ سب سے اہم وہ مفہوم جو انسانی کے اپنی نسبت مثبت رجحان اور صحیح جانچ پڑتال کا ذریعہ بیان کرتا ہے وہ '' انکساری '' یا '' خود شکنی '' اور '' تواضع '' ہے۔

١۔ انکسار نفس

نفس کی انکساری اور خود شکنی سے مراد یہ ہے کہ انسان بغیر اس کے کہ اپنا کسی غیر سے مقایسہ کرے خود کو سب سے حقیر چھوٹا سمجھے نیز خود پسند اور اپنے آپ سے راضی نہ ہو، خود شکنی تواضع کا سرچشمہ ہے اور بغیر اس کے تواضع محقق نہیں ہوتی۔ اس بنا پر جو کچھ تواضع کی اہمیت اور فضیلت کے بارے میں بیان کیا جائے گاوہ سب فروتنی اور خود شکنی کی فضیلت پر بھی دلالت کرے گا، اور شاید اسی وجہ سے آیات و روایات میں زیادہ تر ''تواضع '' کے سلسلہ میں تاکید کی گئی ہے اور انکساری نفس اور خود کو حقیر شمار کرنے کے بارے میں کم ذکر آیا ہے۔ انکساری نفس کی فضیلت کے مختلف پہلوئوں کو جب اس کے موانع سے مقایسہ کریں اور ان کے متضاد مفاہیم پر غور کریں تو بخوبی دریافت کرسکتے ہیں، یہ موانع درج ذیل ہیں:(١)

پہلی نظر عُجب(خود پسندی)

عُجب خود ستائی اور غرور فروتنی اور خودکو حقیر شمار کرنے کے اصلی و بنیادی موانع میں سے ایک ہے، چونکہ خودستائی حقیقت میں خود پسندی کی علامت اور اس کے ملحقات میں سے ہے لہذا ہم موانع کی بحث کو خود پسندی اور غرور کے محور پر بیان کریں گے۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٣٤٣ملاحظہ ہو۔

۹۸

الف۔ عُجب کا مفہوم:

عُجب یعنی خود کو اس کمال کی وجہ سے عظیم اور بلند سمجھنا ا جو وہ اپنے اندر سمجھتا ہے خواہ وہ کمال واقعاً اس میں پایا جاتا ہو یا نہ پایا جاتا ہو، نیز جس چیز کو وہ کمال تصور کررہا ہے واقعاً بھی کمال ہو یا نہ ہو اس وجہ سے خود پسندی میں بھی انکسار نفس اور فروتنی کے مانند دوسرے سے مقایسہ نہیں پایا جاتا ہے اور بغیر اس کے کہ انسان اپنا دوسروں سے مقایسہ کرے اپنے اندرپائے جانے والے واقعی یاخیالی کمال کے تصوّر کی وجہ سے نیز اس بات سے غفلت کے سبب کہ ہر کمال خدا کی جانب سے ہے، اپنے آپ پر مغرور اور راضی و خوشنود ہے اور اپنی حالت کوپسند کرتا ہے۔ بر خلاف ''کبر '' کے کہ متکبر انسان اپنے آپ سے راضی و خوشنود ہونے کے علاوہ خود کو دوسروں سے مقایسہ کرکے اور اپنے آپ کو غیروں سے بہتر سمجھتا ہے نیز اپنے لئے دوسروں کے مقابل حق اور اہمیت و امتیاز کا قائل ہے(١)

اس بنا پر، ''کبر'' کا محقق ہونا اس بات کا مستلزم ہے کہ'' عُجب '' بھی پایا جائے، لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہے کہ جہاں عُجب و خود پسندی ہووہاں کبر بھی ضروری ہو۔کبھی انسان کی خود پسندی اس درجہ بڑھ جاتی ہے کہ جو اس کے اندر کمال پایا جاتا ہے اس کی وجہ سے اپنے لئے خدا وند عالم سے حقوق اور مطالبات کا انتظار کرتا ہے اور اپنے لئے خدا کے نزدیک حیثیت و مرتبہ کا قائل ہو جاتا ہے، اس طرح سے کہ ناگوار حوادث کا وقوع اپنے لئے بعید سمجھتا ہے ایسی حالت کو ''ادلال'' کہا جاتا ہے ،درحقیقت یہ حالت خود پسندی کا سب سے بڑا اور بدترین درجہ ہے۔(٢)

ب۔ خود پسندی کی مذمت :

قرآن کریم میں بارہاخود پسندی کی مذمت کی گئی ہے، منجملہ ان کے جنگ حنین میں مسلمانوں کی شکست کی علّت بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے: ''یقیناً خداوندرحمان نے تمہاری بہت سے مواقع پر مدد کی ہے اورحنین کے روز بھی جب کہ تمہاری کثرت تعداد نے تمہیں فخر وناز میں مبتلا کر دیا تھا لیکن اس نے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور زمین اپنی تمام تر وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی، پھر تم دشمن کی طرف پیٹھ کر کے فرار کر گئے''۔(٣)

اس آیت میں خود پسندی کا ذکر اخلاقی برائی کے عنوان سے ہوا ہے جو کہ لشکر اسلام کی شکست کا باعث بن گئی ۔ پیغمبر اکرم سے منقو ل ہے کہ خدا وند عالم نے حضرت داؤد ـ سے فرمایا: ''اے داؤد! گناہگاروں کو بشارت دے دو اور صدیقین (سچے اور پاک باز لوگوں کو ) ڈراؤ۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٣٢١، ٣٢٢ملاحظہ ہو۔ ٢۔ ایضاً، ص٣٢٢۔٣۔ سورئہ توبہ، آیت٢٥۔ اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ حشر، آیت ٢۔ سورئہ کہف، آیت ٤٠۔ اور سورئہ فاطر، آیت ٨۔

۹۹

داؤد ـ نے عرض کی: گناہگاروں کو کس طرح مژدہ سنائوں اورصدیقین کوکیسے ڈراؤں ؟ خدا نے فرمایا: اے داؤد! گنہگاروں کو اس بات کی خوش خبری دو کہ میں توبہ قبول کروں گا اوران کے گناہوں کو معاف کر دوں گا اور صدیقین کو ڈراؤ کہ اپنے اعمال پر اترائیں نہیں ، کیونکہ کوئی ایسا بندہ نہیں ہے جس کا محاسبہ کروں مگر یہ کہ وہ ہلاک ہو۔(١)

بے شک خود پسندی اور خود بینی اخلاق اسلامی کی رو سے نہ صرف ایک غیر اخلاقی عمل ہے بلکہ اخلاقی رذائل کی ایک شاہراہ ہے اورجو تعبیریں دینی کتابوںمیں اس کی مذمت میں وارد ہوئی ہیں وہ اس مختصر کتاب کی گنجائش سے باہر ہیں۔(٢)

ج۔خود پسندی کے اسباب:

اسلامی اخلاق کے عالموںنیخود پسندی کے بہت سے اسباب و عوامل ذکر کئے ہیں کہ ان میں سے اہم ترین درج ذیل ہیں:

١۔ جسمانی بنیاد پر خود پسندی، جیسے خوبصورتی، جسم کا تناسب، اس کی صحت اور اس کا قوی ہونا، خوش آواز ہونا ِ اور اس کے مانند۔

٢۔ اقتداراور قدرت کے احساس کی بنا پر خود پسندی، جیسا کہ خدا وندعالم قوم عاد کے بارے میں فرماتا ہے کہ وہ لوگ اسی طرح کے توہم کا شکار ہوکر بولے: '' ہم سے زیادہ قوی کون ہے(٣) ؟'' اس طرح کی خود پسندی عام طور پر جنگ اور ظلم وستم ایجاد کرتی ہے۔

٣۔ عقل ودانش، ذہانت وآگاہی اور دینی اور دنیوی امور کے بارے میں دقیق اور وسیع علم رکھنے کی بنیاد پر خود پسندی۔ اس طرح کی خود پسندی کا نتیجہ خود رائی، ہٹ دھرمی، مشورہ سے بے نیازی کا احساس، دوسروں کو جاہل خیال کرنا اور عالموں اور دانشوروں کی باتوں کو سننے سے پرہیز کرنا ہے۔

٤۔ انتساب کی وجہ سے خود پسندی یعنی باشرف نسب اور با عظمت بزرگوں کی طرف منسوب ہونے کی بنا پر جیسے بنی ہاشم کی طرف منسوب ہونااور سید ہونا یا بزرگ خاندان سے تعلق یاشاہان وسلاطین کی طرف انتساب۔ انسان کاایسا خیال اپنے لئے لوگوں کی خدمت گذاری کی چاہت پیدا کرتا ہے۔

____________________

١۔ اصول کافی، کلینی، ج٢، ص ٣١٤، ح٨۔

٢۔ علامہ مجلسی ،بحار الانوار، ج ٧١، ص ٢٢٨تا ص ٢٣٥۔ کافی، ج ٢، ص ٣١٣، ٣١٤۔

٣۔ سورئہ فصلت، آیت ١٥۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

آیت ۹

( اقْتُلُواْ يُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضاً يَخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبِيكُمْ وَتَكُونُواْ مِن بَعْدِهِ قَوْماً صَالِحِينَ )

تم لوگ يوسف كو قتل كردو يا كسى زميں ميں پھينك دوتو باپ كا رخ تمھارے ہى طرف ہوجائے گا اور تم سب ان كے بعد صالح قوم بن جائو گے (۹)

۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے خلاف سازش والى ٹينگ ميں اكثر بھائيوں كى رائے يہ تھى كہ يا تو يوسف كو قتل كيا جائے يا درو دراز علاقے ميں جلا وطن كرديا جائے_اقتلوا يوسف او اطرحوه ارضا

(اقتلوا يوسف) كے جملے كى دو طرح كى تفسير كر سكتے ہيں ۱_ يوسفعليه‌السلام كے كچھ بھائيوں نے ان كو قتل كرنے كا مشورہ ديا اور دوسروں نے انہيں جلاوطنكرنے كا مشورہ ديا۲_ اكثريت اس كے خلاف سازش كانظريہ ركھتے تھے _ خواہ اس كو قتل كرديں يا اسكو جلا وطن كرديں يہ بات قابل ذكر ہے كہ بعد والى آيت شريفہ ميں جملہ ( ان كنتم فاعلين) بتاتا ہے كہ ان بھائيوں ميں ايك تھا جو ان دونوں نظريے كے خلاف تھا اسى وجہ سے اكثريت كا لفظ بولا گيا كہ اكثريت كى يہ رائے تھي_

۲_يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں كا حسد، ان كے قتل ياجلا وطن كرنے كے ارادے كا سبببنا_

اذ قالوا ليوسف و اخوه احب اقتلوا يوسف

۳_ حسد انسان كو قتل يا اپنے بھائي كوجلا وطن كرنے جيسے گناہوں پراكساتا ہے_

و اذ قالوا ليوسف و اخوه احب اقتلوا يوسف او اطرحوه ارضا

۴_ يوسفعليه‌السلام كے بھائي، حضرت يوسف(ع) كى گھرانے ميں عدم موجودگى كو يعقوب كى اپنے ليے مكمل توجہ كا سبب سمجھتے تھے_اقتلوا يوسف يخل لكم وجه ابيكم

(يخل لكم وجہ ابيكم ) (تمہارے ليے تمہارے والد كا چہرہ خالى ہو) يہ اس بات سے كنايہ ہے كہ ان كى توجہ و الطاف ، يوسف سے دور ہو جائے گا اور فقط تمہارے ليے ہوگا_(يخل) كا فعل (اقتلوا) اور (اطرحوا) امر كا جواب ہے _

۳۸۱

اور يہ'' يخل'' كا فعل (ان)شرطيہ جو مقدر ہے اس كے ذريعے مجزوم ہو ا ہے_يعني( ان تقتلوہ او تظروحوہ يخل لكم) _

۵_ يوسفعليه‌السلام كے بھائي، حضرت يوسف(ع) كى عدم موجود گى ميں بنيامين كو يعقوبعليه‌السلام كى محبت جلب كرنے ميں اپنا رقيب خيال نہيں كرتے تھے_ليوسف و اخوه احب اقتلوا يوسف يخل لكم وجه ابيكم

يوسفعليه‌السلام كے بھائي يعقوبعليه‌السلام كى يوسفعليه‌السلام اور بنيامين سے بہت زيادہ محبت سے رنجيدہ تھے ليكن وہ يوسفعليه‌السلام كو درميان سے ہٹانے سے اپنى مشكل كو حل شدہ سمجھتے تھے اسى وجہ سے وہ يہ خيال كرتے تھے كہ يعقوبعليه‌السلام كى ان كى طرف كامل توجہسے تنہا بنيامين مانع نہيں بن سكتا_

۶_ انسان كے محبوب ہونے كا عشق ،اسے مقصود تك پہنچنے كے ليے قتل و جنايت پر اكساتا ہے_

اقتلوا ليوسف يخل لكم وجه ابيكم

۷_ يوسفعليه‌السلام كے بھائي حضرت يعقوبعليه‌السلام كے پاس ان كى موجودگى كو اپنے ليے مشكلات اور بدبختى سمجھتے تھے_

اقتلوا يوسف تكونوا من بعده قوما صالحين

۸_ يوسفعليه‌السلام كے بھائي اپنے امور كى صلاح وبہبود، ضرت يوسف(ع) كے قتل ميں خيال كرتے تھے _

اقتلوا يوسف او اطرحوه ارضا و تكونوا من بعده قوماً صالحين

(قوما صالحين ) ميں صلاح سے مراد،د نياوى امور كى اصلاح ہے _ كيونكہ ظاہر يہ ہو تا ہے كہ (تكونوا) كا فعل مضارع (يخل) پر عطف ہے اور (اقتلوا) (اطرحوہ) فعل امر كا جواب ہے پس اس صورت ميں (تكونوا ) كے جملے كا معنى يہ ہوگا_ اگر يوسفعليه‌السلام كو قتل كرديں يا اسكو جلاو طنكرديں تو تمہارے كاموں كى اصلاح ہوجائے گى اور تم سے بدبختى دور ہوجائے گي_

۹_ يوسفعليه‌السلام كے بھائي اس خيال ميں تھے كہ ان كو قتل يا جلاوطن كرنے كے بعد وہ توبہ كرليں گئے اور راہ راست پر آجائيں گے_اقتلوا يوسف وتكونوا من بعده قوماً صالحين

(قوما صالحين) سےمذكورہ بالا معنى ميں دينى و اخلاقى اصلاح مراد لى گئي ہے اور اس بنياد پر كہ (و تكونوا) ميں و ''أو مع'' كے معنى ميں ہے _ اور ( تكونوا) كا جملہ (ان ) مقدرہ كے ذريعے منصوب ہے_ تو اس صورت ميں (اقتلوا يوسف و تكونوا من بعدہ قوماً صالحين) كا معنى يوں ہو جائے گا_ كہ يوسفعليه‌السلام كو قتل كردو ليكن اس شرط كے ساتھ كہ اس كے بعد تم درگاہ الہى ميں توبہ كر لو اور نيك اور صالح لوگوں ميں سے ہوجاؤ_

۱۰_ يوسفعليه‌السلام كے بھائي ان كے قتل يا جلا وطن كرنے كو گناہ

۳۸۲

اور نامناسب سمجھتے تھے اوروہ اس بات كے معترف بھى تھے_

اقتلوا يوسف او اطرحوه ارضاً و تكونوا من بعد ه قوماً صالحين

۱۱_عن على بن الحسين عليه‌السلام فى قوله تعالى :(و تكونوا من بعده قوماً صالحين ) اى تتوبون (۱)

امام سجادعليه‌السلام سے خداوند عالم كے اس جملہ(و تكونوا من بعدہ قوما ً صالحين) كے بارے ميں روايت نقل ہوئي ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا:اس سے مراد يہ ہے كہ وہ اس كام كے بعد توبہ كرنے كا ارادہ ركھتے تھے_

اقرار :گناہ كا اقرار ۱۰

برادران يوسف :برادران يوسف اور بنيامين ۵; برادران يوسف اور يوسفعليه‌السلام ۱، ۴، ۷; برادران يوسف اور يوسفعليه‌السلام كا قتل ۱۰;برادران يوسف اور يوسفعليه‌السلام كى جلا وطن ۱۰;برادران يوسف كا اقرار ۱۰;برادران يوسف كا حسد كرنا ۲; برادران يوسف كى توبہ ۹، ۱۱; برادران يوسف كى سازش ۱;برادران يوسف كى فكر ۴،۵، ۷، ۸، ۹، ۱۰;برادران يوسف كى مصلحتى فكر ۸

بھائي:بھائي كا قتل ۳;بھائي كے دربدر ہونے كے اسباب۳

جرم :جرم كا سبب ۶

حسد :حسد كے آثار ۲،۳

روايت : ۱۱

روابط :روابط كے آثار ۶; محبوب ہونے كے ليے روابط ۶

قتل :قتل كا سبب ۶; قتل كے عوامل ۳

گناہ :گناہ كے عوامل ۳

يعقوبعليه‌السلام :يعقوبعليه‌السلام كى اپنے بيٹوں سے محبت ۴،۵

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كا جلا وطن ہونا ۸، ۹; يوسفعليه‌السلام كا قتل ۸،۹; يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۵، ۷، ۸، ۹، ۱۱;يوسفعليه‌السلام كے جلا وطن ہونے كى سازش ۱،۲;يوسفعليه‌السلام كے خلاف سازش كرنا ۱; يوسفعليه‌السلام كے قتل كى سازش ۱،۲

____________________

۱)علل الشرائع ، ص ۴۷، ح ۱ ، ب ۴۱; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۴۱۲، ح ۱۷_

۳۸۳

آیت ۱۰

( قَالَ قَآئِلٌ مَّنْهُمْ لاَ تَقْتُلُواْ يُوسُفَ وَأَلْقُوهُ فِي غَيَابَةِ الْجُبِّ يَلْتَقِطْهُ بَعْضُ السَّيَّارَةِ إِن كُنتُمْ فَاعِلِينَ )

ان ميں سے ايك شخص نے كہا كہ يوسف كو قتل نہ كرو بلكہ كسى اندھے كنويں ميں ڈال دوتا كہ كوئي قافلہ اٹھالے جائے اگر تم كچھ كرناہى چاہتے ہو(۱۰)

۱_ يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں ميں سے ايك (لاوي) نے سازش كے اجتماع ميں دوسرے بھائيوں كو اس كو قتل كرنے سے منع كيا _قال قائل منهم لا تقتلوا يوسف

(قائل) كا كلمہ مفرد ہونا يہ بتاتا ہے كہ يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں ميں سے صرف ايك نے اس كے قتل كى مخالفت كى _ روايت كےمطابق جو بعد ميں ذكر ہوگئي اسكا نام (لاوى ) تھا_

۲_ لاوى اس بات ميں اپنے دوسرے بھائيوں كے مخالف تھا كہ يوسفعليه‌السلام كے خلاف سازش كى جائے اور اس كو والد گرامى حضرت يعقوبعليه‌السلام سے دور كيا جائے_لا تقتلوا يوسف و القوه فى غى بت الجب ان كنتم فاعلين

(ان كنتم فاعلين ) (كہ اگر تم يوسفعليه‌السلام كے خلاف سازش كرنے ميں مصمم ارادہ ركھتے ہو) كا جملہ بتاتا ہے كہ لاوى اس سازش كو عملى كرنے ميں راضى نہيں تھا_ اور يہ بات بھى لازم الذكر ہے كہ (ان كنتم ) كا جملہ جو كہ شرط ہے اسكا جواب وہ معنى ہے جس كا جملہڑڑالقوہ ...'' سے استفادہ ہوتا ہے ہے تو جملہ كامل يوں ہوگا _ (ان كنتم فاعلين فالقوه فى غيبت الجب ) اگر تم اس سازش پر عمل كرتے بھى ہو تو اسكو تاريك كنويں ميں ڈال دو_

۳_ لاوى نے اپنے بھائيوں كو مشورہ ديا كہ اگر تم يوسفعليه‌السلام كو اپنے سے دور كرنے پر تلے ہوئے ہو تو اسكو اس كنويں ميں ڈال دو جہاں قافلوں كے آنے جانے كا راستہ ہے_قال قائل منهم لا تقتلوا يوسف و القوه فى غيبت الجب يلتقطه بعض السيّارة

(جبّ) كنويں كے معنى ميں ہے_ بعض اہل لغت (جبّ) كا معنى گہرا اور عميق كنواں كرتے ہيں _ جو پانى سے بھرا ہوا ہو _ مجمع البيان ميں (غيبت الجب) كا معنى يوں كيا گيا ہے گڑا يا طاقچہ مانند جو كنويں كے پانى كے اوپر عموما بنايا جاتا ہے_ (سيارہ ) اس جماعت كو كہتے ہيں جو سفر كرتے ہيں جنہيں قافلے بھى كہا جاتا ہے_

۳۸۴

۴_ لاوى اپنے اس مشورے (يعنى يوسفعليه‌السلام كو كنويں ميں ڈالا جائے) سے يوسفعليه‌السلام كى جان كى حفاظت اور انہيں كو قتل كرنے سے بچانا چاہتا تھا_لا تقتلوا يوسف و القوه فى غيبت الجب يلتقطه بعض السيارة

لاوى كا يہ مشورہ كہ يوسف كو اس كنويں ميں ڈالا جائے جو آنے جانے والے قافلوں كے راستے ميں ہو_ اس مشورہ كے مقابلہ ميں تھا كہ اسكو جنگل و بيابان ميں اكيلا چھوڑا جائے (او اطرحوہ ارضاً) نيز ساتھيہ بھى تصريح كرنا كہ كوئي نہ كوئي قافلہ اسكو پالے گا_ ( يلتقطہ بعض السيارة) يہ بات دلالت كرتى ہے كہ وہ نہيں چاہتا تھا كہ يوسفعليه‌السلام كى زندگى تلف ہوجائے_

۵_ لاوى كى طرف سے جس كنويں كے بارے ميں مشورہ ديا گيا تھا كہ اس ميں يوسفعليه‌السلام كو ڈالا جائے وہ معين و مخصوص كنواں تھا_القوه فى غيبت الجب

(الجب ) ميں جو الف لام ہے ظاہر يہ ہے كہ يہ عہد ذہنى ہے يعنى وہ كنواں پہلے سے معين و مشخص تھا_

۶_ لاوي، يوسفعليه‌السلام كو كنويں ميں ڈال دينے كو يوسفعليه‌السلام تك قافلوں كى رسائي كا پيش خيمہ سمجھتا تھا اور اس بات كو اسكى موت سے نجات كا ذريعہ ديكھ رہا تھا_يلتقطه بعض السيارة

التقاط ( يلتقطة) كا مصدر ہے جو پانا يا حاصل كرنے كے معنى ميں آتا ہے_

۷_(عن على بن الحسين عليه‌السلام ... قال كبيرهم '' و لا تقتلوا يوسف '' و لكن '' القوه فى غيابت الجب ''(۱)

امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے كہ ان كے بڑے بھائي نے كہا كہ يوسفعليه‌السلام كو قتل نہ كرنا بلكہ اسكو كنويں كى مخفى جگہ ميں ڈال دينا_

۸_عن ابى جعفر عليه‌السلام ... فقال لاوى لا يجوز قتله و نغيبه عن ابينا (۲)

پھر لاوى نے كہا كہ انكا قتل كرنا جائز نہيں ہے ليكن اسكو ہم اپنے والد گرامى سے دورديتے ہيں _

برادران يوسف :برادران يوسف كى سازش ۱، ۲، ۳، ۴

روايت : ۷، ۸لاوى :

____________________

۱) علل الشرائع ، ص ۴۷، ح۱، ب۴۱; نور الثقلين ، ج ۲، ص ۴۱۳ ، ح ۱۷_

۲) تفسير قمى ، ج ۱ ص ۳۴۰; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۴۱۵، ح ۱۹_

۳۸۵

لاوى اور يوسفعليه‌السلام ۳;لاوى اور يوسفعليه‌السلام كا جلا وطن ہونا ۲; لاوى اور يوسفعليه‌السلام كا قتل ۱، ۴;لاوى اوريوسفعليه‌السلام كى نجات ۴،۶;لاوى كا مشورہ ۱، ۳، ۵، ۸;لاوى كى فكر ۲; لاوى كے مشورے كا فلسفہ ۴، ۶

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۶، ۷، ۸; يوسفعليه‌السلام كنويں ميں ۳،۷;يوسفعليه‌السلام كے خلاف سازش ۱، ۲، ۳; يوسف كے كنويں كا قصّہ ۵

آیت ۱۱

( قَالُواْ يَا أَبَانَا مَا لَكَ لاَ تَأْمَنَّا عَلَى يُوسُفَ وَإِنَّا لَهُ لَنَاصِحُونَ )

ان لوگوں نے يعقوب سے كہا كہ بابا كيا بات ہے كہ آپ يوسف كے بارے ميں ہم پر بھروسہ نہيں كرتے ہيں حالانكہ ہم ان پر شفقت كرنے والے ہيں (۱۱)

۱_ لاوى كا يہ مشورہ كہ (يوسفعليه‌السلام كو قتل نہ كيا جائے اور اسكو كنويں ميں ڈالا جائے) دوسرے بھائيوں نے قبول كرليا اور ان لوگوں كے مور تائيد واقع ہوا _لا تقتلوا يوسف و القوه فى غيبت الجب قالوا ىا بانا مالك

يعقوبعليه‌السلام كے سامنے ( تمام بھائيوں كا حاضر ہونا اور ) يوسفعليه‌السلام كو چراگاہوں كى طرف لے جانے كے ليے ان كو راضى كرنا _ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ لاوى كا يہ مشورہ (القوہ فى غيبت الجب ) آخر ى بات تھى جسكو لاوى نےبيان كيا تھااور سب نے اسكو قبول كيا_

۲_ يعقوبعليه‌السلام ، ہميشہ يوسفعليه‌السلام كے خلاف ان كے بھائيوں كے مكر و فريب سے پريشان تھے_

ىا بانا مالك لا تأمنّا على يوسف

۳_ يعقوبعليه‌السلام ، يوسفعليه‌السلام كو ان كے بھائيوں كے سپرد كرنے سے ہميشہ اجتناب كرتے تھے_

مالك لا تأمنّا على يوسف

۴_ يعقوبعليه‌السلام سے يوسفعليه‌السلام كو لے جانا تا كہ(اپنى سازش كو عملى جامہ پہنائيں ) برادران يوسف كے ليے ايك بنيادى اور اساسى مشكل تھى _قالوا ىأبانامالك لا تأمنّا على يوسف

۵_ برادران يوسف كا باپ سے يوسفعليه‌السلام كو لے جانے كے ليے اسكى رضايت حاصل كرنے كيلئے زمينہ ہموار كرنا _

ىأبانا مالك لا تأمنّا على يوسف

۶_ يعقوبعليه‌السلام كى اولاد جھوٹ و مكر پر اتر آئي تا كہ حضرت

۳۸۶

يعقوب(ع) كا اعتماد حاصل كريں اور وہ يوسفعليه‌السلام كو ان كے سپرد كرنے پر راضى ہوجائيں _و انا له لناصحون

۷_ يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں نے يعقوبعليه‌السلام كے سامنے شكايت كى اور اس بات پر تنقيد كى كہ وہ يوسفعليه‌السلام كى نسبت ہم پر اعتماد نہيں كرتے ہيںقالوا ى أبانا مالك لا تأمنّا

۸_ يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے ان كے حضور يوسفعليه‌السلام سے اپنى خير خواہى كے بارے ميں تاكيد كى _

مالك لا تأمنّا على يوسف و انا له لناصحون

۹_ يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے ان سے اظہار محبت كر كے اور ان كے احساسات كو ابھار كر ان كو فريب دينا چاہتے تھے_

قالوا ى أبانا مالك لا تأمنّا على يوسف

مذكورہ بالا تفسير ( ىأبانا) اے ہمارے والد گرامى اور (مالك لا تأمنّا ...) '' آپ كو كياہو گيا ہے كہ يوسفعليه‌السلام كے بارے ميں ہم پر بے اعتمادى كر رہے ہيں '' سے حاصل ہوئي ہے_

۱۰_ حسد ، انسان كو جھوٹ بولنا اور اپنے نزديك اور محبوب ترين شخص كے ساتھ مكرو فريب جيسے گناہ كرنے پر مجبور كرتا ہے_قالوا ىأبانا مالك لا تأمنّا على يوسف و انا له لناصحون

برادارن يوسف :برادارن يوسفعليه‌السلام اور لاوى كا مشورہ ۱; برادران يوسف(ع) اور يعقوبعليه‌السلام كا راضى ہونا ۵، ۶; برادران يوسف(ع) اور يعقوبعليه‌السلام ۷، ۸، ۹; برادران يوسف(ع) اور يوسفعليه‌السلام ۷; برادران يوسف(ع) سے بے اعتمادى ۷; برادران يوسف(ع) كا برتاؤ ۹; برادران يوسفعليه‌السلام كا جھوٹ بولنا ۶; برادران يوسفعليه‌السلام كا خير خواہى كرنے كا اظہار كرنا ۸;برادران يوسف(ع) كا شكوہ ۷; برادران يوسف(ع) كا محبت كا اظہار كرنا ۹;برادران يوسفعليه‌السلام كا مكر ۹;برادران يوسف(ع) كى سازش ۴ ،۵، ۶،۹

جھوٹ:جھوٹ كے اسباب ۱۰

حسد :حسد كے آثار ۱۰

عزير و اقارب :عزير و اقارب سے مكركرنا ۱۰

گناہ :گناہ كے عوامل ۱۰

لاوى :لاوى كے مشورے كا قبول ہونا ۱

۳۸۷

مكر :مكر كا سبب ۱۰

يعقوبعليه‌السلام :حضرت يعقوبعليه‌السلام اور برادران يوسف ۳; يعقوبعليه‌السلام اور برادران يوسف(ع) كى سازش ۲; يعقوبعليه‌السلام كى پريشانى ۲; يعقوبعليه‌السلام و يوسفعليه‌السلام ۳

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۳، ۴، ۵، ۶، ۷، ۸، ۹; يوسفعليه‌السلام كا كنويں ميں ہونا ۱;يوسفعليه‌السلام كے خلاف سازش ۲، ۴

آیت ۱۲

( أَرْسِلْهُ مَعَنَا غَداً يَرْتَعْ وَيَلْعَبْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ )

كل ہمارے ساتھ بھيج ديجئے كچھ كھائے پئے اور كھيلے اور ہم تو اس كى حفاظت كرنے والے موجود ہى ہيں (۱۲)

۱_ يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے يوسفعليه‌السلام كے خلاف اپنى سازش كو عملى كرنے كے ليے ان سے چاہا كہ يوسفعليه‌السلام كو ہمارے ساتھ چراگاہ كى طرف بھيجيں _ارسله معنا غدا

۲_ يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں نے اس كے خلاف سازش كو عملى جامہ پہنانے كے ليے آپس ميں صلاح و مشورہ اور اپنے باپ سے گفتگو كرنے كے دوسرے دن كو معين كيا _اذ قالوا قالوا ى أبانا ارسله معنا غدا

۳_ يوسفعليه‌السلام كے بھائي اپنے ناپاك اور ناروا منصوبے كو حضرت يوسف(ع) كے خلاف عملى جامہ پہنانے كے لئے جلدى ميں تھے اور اسميں انتظار كو مناسب نہيں سمجھتے تھے_ارسله معنا غدا

مذكورہ بالا معنى ان بھائيوں كى اس وضاحت سے (كہ كل يوسفعليه‌السلام كو ہمارے ساتھ بھيج ديجيئے) استفادہ ہوتاہے_

۴_ يوسفعليه‌السلام كے بھائي اپنى اس اظہار محبت كے ساتھ كہ يوسفعليه‌السلام كى جسمانى ضروريات كو پورا كرنے كے بہانے (سير و تفريح و گھومنا پھرنا اور كھيل كودكے ليے جانا ) اپنى خيرخواہى كو ثابت كرنا چاہتے تھے_

و انا له لناصحون ، ارسله معنا غدا ً يرتع و يلعب

رتع ( يرتع) كا مصدر ہے_ بہت زيادہ كھانے پينے كى چيزوں سے استفادہ كرنا اور باغوں كے پھلوں كا نوش كرنا ، كھيتى اور چراگاہوں ميں جانا _

۵_ برادارن يوسف(ع) ، يوسفعليه‌السلام كو گھومنے پھرنے كى ضرورت اور سير و تفريح گاہ ميں كھانا كھلانے كا بہانے بنا كو اسكو

۳۸۸

جنگل بياباں ميں لے جانا چاہتے تھے اور يعقوبعليه‌السلام سے دور كرنا چاہتے تھے_ارسله معنا غداً يرتع و يلعب

۶_ حضرت يوسف،عليه‌السلام بھائيوں كى اس كے خلاف سازش كے وقت بچبن يا نوجوانى كے سن ميں تھے_

ارسله معنا غداً يرتع و يلعب

مذكورہ بالا معنى ( يلعب)'' كھيل كو ے دگا ''سے حاصل ہوا ہے كيونكہ كھيل كو دكے لفظ كو معمولاً بچوں يا نوجوانوں كے ليے استعمال كيا جاتا ہے_

۷_ كھلى اور سر سبز جگہوں پر جانا، كھيل و كود اور گھومنا پھر نا يہ بچوں كيطبعى ضرورت ہے_

و انا له لناصحون ، ارسله معنا غداً يرتع و يلعب

۸_ يعقوبعليه‌السلام كے سامنے ان كے بيٹوں نے حضرت يوسفعليه‌السلام كى حفاظت اور نگہدارى كو بہت زيادہ تاكيد كے ساتھ اپنى گردن پر ليا _و انا له لحافظون

جملہ اسميہ ميں (انّ) اور لام تاكيد سے بہت زيادہ تاكيد حاصل ہوتى ہے_

۹_ يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں كا نامناسب عمل ( سازش كرنا ، جھوٹ بولنا ، فريب و دغہ كرنا ) ان ميں شيطان كے نفود سے پيدا ہوا تھا_ان الشيطان للانسان عدو مبين اقتلوا يوسف ارسله معنا غداً يرتع و يلعب

۱۰_ انسانوں ميں شيطان كا نفود اور بغض و نفاق ، جھوٹ بولنے اور دغہ و فريب دينے اور غلط قسم كى ناروا سازشيں كرنے كى ترغيب دينا، يہ انسانوں كے ساتھ اس كى واضح دشمنى كا ثبوت ہے_

ان الشيطان للانسان عدو مبين اقتلوا يوسف ارسله معنا غداً يرتع و يلعب و انا له لحافظون

۱۱_عن ابى جعفر فقالوا كما حكى الله عزوجل '' ارسله معنا غداً يرتع و يلعب '' اى يرعى الغنم و يلعب '' (۱)

امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے _ جسطرح خداوند متعال نے ذكر فرمايا اسى طرح برادران يوسف(ع) نے كہا :

'' ارسله معنا غداً يرتع و يلعب ''

اسكو ہمارے ساتھ بھيجنا تا كہ بھيڑ ، بكريوں كو چرائے اور كھيلے كودے_

انسان :انسان كے دشمن ۱۰

____________________

۱) تفسير قمى ، ۱ ، ص ۳۴۰; بحار الانوار ، ج ۱۲، ص ۲۱۸، ح ۱

۳۸۹

برادران يوسف :برادران يوسف اور يعقوبعليه‌السلام ۸; برادران يوسف اور يوسفعليه‌السلام ۵،۸; برادران يوسف اور يوسفعليه‌السلام كى ضروريات ۴;برادران يوسف كا جلدى كرنا ۳; برادران يوسف كا وعدہ دينا ۸; برادران يوسف كى خيرخواہى كااظہار ۴;برادران يوسف كى خواہشات ۱۱;برادران يوسف كى سازش ۱، ۳، ۴، ۶; برادران يوسف كى سازش كا پيش خيمہ ۵; برادران يوسف كى سازش كا سرچشمہ۹; برادران يوسف كى سازش كا وقت ۲; برادران يوسف كى محبت كااظہار ۴;برادران يوسف كى نامناسب حركات ۹; براردان يوسف(ع) كے جھوٹ بولنے كا سبب۹; برادران يوسف(ع) كے مكرو فريب كا سبب۹

بچہ :بچہ كى ضروريات ۷

تفريح :سبزہ زار ميں تفريح كرنا ۷

جھوٹ:جھوٹ كى تشويق ۱۰

روايت: ۱۱

شيطان :شيطان كا كردار ۱۰; شيطان كا نفود ۱۰; شيطان كى دشمنى كے آثار ۱۰;شيطان كے نفود كے آثار ۹

ضرورتيں :سير و تفريح كى ضرورت ۵، ۷; كھيل كود كى ضرورت ۵،۷

كھيل كود:سبزہ زار ميں كھيل كود كرنا ۷

مكر :مكر و فريب كى تشويق ۱۰

نفاق :نفاق كى تشويق ۱۰

نفسيات:بچے كى نفسيات۷

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كا بچپن ۶;يوسفعليه‌السلام كا چوپانى كرنا ۱۱; يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، ۶، ۷، ۸ ، ۱۱;يوسفعليه‌السلام كا كھيلنا ۱۱;يوسفعليه‌السلام كو ہمراہ لے جانا ۱; يوسفعليه‌السلام كى حفاظت ۸;يوسفعليه‌السلام كى مادى ضروريات ۵;يوسف(ع) كى نوجوانى ۶; يوسفعليه‌السلام كے خلاف سازش ۱، ۲، ۳، ۶

۳۹۰

آیت ۱۳

( قَالَ إِنِّي لَيَحْزُنُنِي أَن تَذْهَبُواْ بِهِ وَأَخَافُ أَن يَأْكُلَهُ الذِّئْبُ وَأَنتُمْ عَنْهُ غَافِلُونَ )

يعقوب نے كہا كہ مجھے اس كا لے جانا تكليف پہنچاتا ہے اور ميں ڈرتاہوں كہ كہيں اسے بھيڑيا نہ كھا جائے اور تم غافل ہى رہ جائو (۱۳)

۱_ يعقوبعليه‌السلام ، يوسفعليه‌السلام كو ان كے بھائيوں كے ساتھ بھيجنے پر راضى نہيں تھے اور اس سے وہ پرہيز كرنا چاہتے تھے_

قال انى ليحزننى ان تذهبوا به

۲_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے ليے يوسفعليه‌السلام كے فراق و جدائي كا غم ان كو بھائيوں كے ساتھ بھيجنے سے روكتا تھا_

مالك لا تأمنّا قال انى ليحزننى ان تذهبوا به

۳_ يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹے يوسفعليه‌السلام سے بہت ہى محبت كرتے تھے اور ان كى جدائي سے پريشان اور محزون ہوتے تھے_قال انى ليحزننى ان تذهبوا به

۴_ يعقوبعليه‌السلام نے يوسفعليه‌السلام كے بارے ميں اپنے بيٹوں پر عدم اعتمادى ركھنے كے باوجود اس كا اظہار نہيں كيا_

قال انى ليحزننى ان تذهبوا به و اخاف ان يأكله الذئب

۵_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كا يوسفعليه‌السلام كو اپنے بيٹوں كے ہمراہ نہ بھيجنے كے دلائل ميں سے ايك دليل، يوسفعليه‌السلام كى جان پر بھيڑيوں كے حملہ كا خوف تھا_قال انى اخاف ان ياكله الذئب

۶_ عصر يعقوبعليه‌السلام ميں كنعان كے اطراف اور چراگاہوں ميں لوگوں پر بھيڑيوں كا حملہ ممكن اور مشہور تھا_

اخاف ان ياكله الذئب و انتم عنه غافلون

۷_صحرا ميں يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں كا يوسفعليه‌السلام كى حفاظت سے غافل ہوجانا، يعقوبعليه‌السلام كے ليے غير متوقع نہيں تھا_اخاف ان يأكله الذئب و انتم عنه غافلون

۸_ '' عن ابى عبدالله عليه‌السلام ' 'قال : ان بنى يعقوب لما سألوا اباهم يعقوب ان يأذن ليوسف فى الخروج معهم قال لهم '' انى اخاف ان ياكله الذئب و انتم عنه غافلون ''

۳۹۱

قرّب يعقوب لهم العلّة اعتلوا بها فى يوسف(ع) (۱)

امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ فرماتے ہيں جب يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے اپنے باپ سے يوسفعليه‌السلام كے بارے ميں اجازت لى تا كہ يوسفعليه‌السلام كو شہر سے باہر اپنے ساتھ لے جائيں تو ان كے باپ نے كہا : كہ ميں ڈرتاہوں كہ بھيڑيا اس كو كھانہ جائے اور تم اس كى حفاظت سے غفلت بر تو پس يعقوبعليه‌السلام نے يوسف(ع) كے نہ لانے كا جو بہانہ انہوں نے بنايا تھا ان كے ذہن ميں ڈال ديا_

۹_عن على بن الحسين عليه‌السلام ... قال يعقوب عليه‌السلام ( انى ليحزننى ان تذهبوا به و اخاف ان يأكله الذئب) فأنتزعه حذراً عليه من ان يكون البلوى من الله عزوجل على يعقوب فى يوسف خاصّه (۲)

امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے آپ فرماتے ہيں يعقوبعليه‌السلام نے ( اپنے بيٹوں ) سے كہا ( كہ تمہارا يوسفعليه‌السلام كو لے جانا مجھے غمزدہ اور محزون كرتا ہے كيونكہ ڈرتا ہوں كہ اسكو بھيريا نہ كھا جائے پھر يوسفعليه‌السلام كو ان كے ہاتھوں سے واپس لے ليا كيونكہ ان كو يہ خوف تھا كہ جو مصيبت خدا كى طرف سے اس پر آنے والى تھي( خصوصا يوسفعليه‌السلام كے بارے ميں ) ان پر نازل نہ ہوجائے_

احساسات :پدرى احساسات ۳//برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسف اور يوسفعليه‌السلام ۷; برادران يوسف كا عذر ۸; برادران يوسف كى غفلت ۷//روايت :۸،۹//سرزمين :سرزمين كنعان ميں بھيڑيے كا خطرہ ۶

يعقوبعليه‌السلام :يعقوبعليه‌السلام اور برادارن يوسف ۴، ۹; يعقوبعليه‌السلام اور برادران يوسف كى خواہشات ۱، ۵; يعقوبعليه‌السلام اور يوسفعليه‌السلام ۵;يعقوب اور يوسفعليه‌السلام كى جدائي ۳ ; يعقوبعليه‌السلام كا بہانہ گيرى ۱، ۲، ۵;يعقوب(ع) كا حزن و غم ۲، ۳; يعقوبعليه‌السلام كا خوف ۵; يعقوبعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۳ ،۴، ۵;يعقوبعليه‌السلام كى برادران يوسف(ع) سے بے اعتمادى ۴;يعقوبعليه‌السلام كى مخالفت كے دلائل ۵; يعقوبعليه‌السلام كى يوسفعليه‌السلام سے محبت ۳; يعقوبعليه‌السلام كے زمانہ ميں بھيڑيوں كا خطرہ ۶; يعقوبعليه‌السلام كے غم زدہ ہونے كا فلسفہ ۹;يعقوبعليه‌السلام يوسفعليه‌السلام كى جدائي ميں ۲

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كابھڑيے كا لقمہ بننے كاخوف ۹; يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۷، ۸ ، ۹; يوسفعليه‌السلام كى حفاظت ۵، ۷

____________________

۱)علل الشرائع ، ص ۳۵۸ ح ۵۶، ب ۳۷۰: نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۴۱۵، ح ۲۰ _۲) علل الشرائع ، ص ۴۷، ح ۱ ، ب ۴۱ ; نور الثقلين ج ۲ ، ص ۴۱۲، ح ۱۷_

۳۹۲

آیت ۱۴

( قَالُواْ لَئِنْ أَكَلَهُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّا إِذاً لَّخَاسِرُونَ )

اور ان لوگوں نے كہا كہ اگر اسے بھيڑيا كھا گيا اور ہم سب اس كے بھائي ہى ہيں تو ہم بڑے خسارہ والوں ميں ہوجائيں گے (۱۴)

۱_ يوسفعليه‌السلام كے بھائي متحد اور طاقتور گروہ تھے_و نحن عصبة

۲_ يوسفعليه‌السلام كے بھائي اپنے طاقتور ہونے اور كثريت پر مغرور تھے_لئن اكله الذئب و نحن عصبه

۳_ يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے اپنى زيادہ قدرت و طاقت كو ياد كر كے ان كى پريشانى (يوسفعليه‌السلام پر بھيڑيوں كا حملہ ) كو بے جا خيال كيا _اخاف قالوا لئن اكله الذئب و نحن عصبه

۴_ برادران يوسف(ع) ،يوسفعليه‌السلام كى حفاظت نہ كرنے پر اپنى بے لياقتى كے معترف تھے_

لئن اكله الذئب و نحن عصبة انا اذاً لخاسرون

۵_ يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں نے اپنے باپ كى موجودگى ميں يوسفعليه‌السلام كى ہلاكت كو اپنے ليے تباہى و بربادى ظاہر كيا_

انا اذاً لخاسرون

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسف(ع) اور يعقوب(ع) ۳، ۵; برادران يوسف(ع) اور يوسفعليه‌السلام كى محافظت ۴; برادران يوسف(ع) اور يوسفعليه‌السلام كى ہلاكت ۵;برادران يوسف(ع) كا اتحاد ۱; برادران يوسف(ع) كا تكبر ۲; برادران يوسف(ع) كا نقصان اٹھانا ۵; برادران يوسف(ع) كى فكر ۵;برادران يوسف(ع) كى قدرت ۱، ۳; برادران يوسف(ع) كى كثرت ۲

يعقوبعليه‌السلام :يعقوبعليه‌السلام كو خطرے كا احساس ۳; يعقوبعليه‌السلام كى پريشانى ۳

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۳، ۴، ۵

۳۹۳

آیت ۱۵

( فَلَمَّا ذَهَبُواْ بِهِ وَأَجْمَعُواْ أَن يَجْعَلُوهُ فِي غَيَابَةِ الْجُبِّ وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُم بِأَمْرِهِمْ هَـذَا وَهُمْ لاَ يَشْعُرُونَ )

اس كے بعد جب وہ سب يوسف كو لے گئے اور يہ طے كرليا كہ انھيں اندھے كنويں ميں ڈال ديں اور ہم نے يوسف كى طرف وحى كردى كہ عنقريب تم ان كو اس سازش سے باخبر كروگے اور انھيں خيال بھى نہ ہوگا(۱۵)

۱_ يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے اپنے دھو كے اور مكارى سے يوسفعليه‌السلام كو اپنے ساتھ لے جانے پر ان كو راضى كرليا_

انا له لحافظون فلما ذهبوا به

۲_ انبياءعليه‌السلام كے ليے ممكن ہے كہ وہ دوسروں كى فكر وسوچ سے بے خبر ہوں _

انا له لحافظون فلما ذهبوا به و اجمعوا ان يجعلوه فى غيابت الجب

۳_ الله كے ابنياءعليه‌السلام بھى نا اہل لوگوں كے مكر و فريب اور ان پر اعتماد نہ كرنے سےمحفوظ نہيں تھے_

انا له لحافظون فلما ذهبوا به و اجمعوا ان يجعلوه فى غيابت الجب

۴_ يوسفعليه‌السلام كے بھائي اسكوصحرا ميں لے جانے سے پہلے اس كے انجام و عاقبت كے متعلق قطعى طور پر متفق نہيں تھے_فلما ذهبوا به و اجمعو

اجماع كا لفظ( اجمعوا ) كا مصدر ہے_ اسكا معنى '' را ى اور عقيدہ ميں متفق ہونا نيز فيصلہ كرنا اور كسى كام كو انجام دينے كے ليے آمادہ ہونا '' ہيں اور مذكورہ بالا تفسير معنى اول كو مد نظر ركھتے ہوئے كى گئي ہے_

۵_ يوسفعليه‌السلام كے بھائي اس كے خلاف سازش ميں اسكو قتل كرنے سے پرہيز كر رہے تھے اور وہ چاہتے تھے كہ وہ زندہ رہ جائے_و القوه فى غيابت الجب و اجمعوا ان

يجعلوه فى غيابت الجب

برادران يوسف چاہتے تھے كہ اسكو كنويں ميں ركھ ديں نہ يہ كہ اسے كنويں ميں ڈال ديں اس سے ظاہر ہوتا ہے كہ وہ اسكو زندہ ركھنے كى كوشش ميں تھے_

۶_ يوسفعليه‌السلام كے تمام بھائيوں نے اسكو ہمراہ لے جانے كے بعد اسكو كنويں كے تاريك طاقچے ميں ركھنے كے ليے اپنے آپ كو آمادہ كيا_فلما ذهبوا به و اجمعوا ان يجعلوه فى غيابت الجب

۳۹۴

مذكورہ تفسير ميں (اجماع) كا معنى فيصلہ كرنے اور كام كو انجام دينے كے ليے مہيا ہونے كاليا گيا ہے يہ بات قابل ذكر ہے كہگذشتہ آيات ۹، ۱۰، ۱۱; اس معنى كى تائيد كرتى ہيں _

۷_ برادران يوسفعليه‌السلام كا حضرت يوسف(ع) كو كنويں ميں ركھے جانے كى حالت كا منظر بہت ہى برا اور غمزدہ و غمگين تھا_فلما ذهبوا به و اجمعوا ان يجعلوه فى غيابت الجب

(لما) حرف شرط ہے اور اسكا جواب، آيت شريفہ ميں ذكر نہيں ہوا اسكا جواب ذكر نہ كرنے كا مقصد يہ تھا كہ وہ وقت جس وقت يوسفعليه‌السلام كو كنويں ميں ركھا جارہا تھا بہت ہى برا اور دل كودكھانے والا تھا _ يعنيجس وقت يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں نے يہ فيصلہ كر ليا كہ اسكو كنويں ميں ركھ ديں تو يہ ايسى حالت ہے كہ اس كے سننے كى طاقت ركھنا بہت ہى مشكل ہے_

۸_ خداوند متعال نے يوسفعليه‌السلام كو وحى كے ذريعے كنعان كے كنويں سے نجات اور بھائيوں سے دوبارہ ملاقات كى نويد و خوشخبرى دي_و اوحينا اليه لتنبّئنّهم بأمرهم هذ

جملہ (لتنبّئنّهم ) (بے شك تو اس واقعہ كى اپنے بھائيوں سے ياد آورى كرے گا) يوسفعليه‌السلام كى كنويں سے نجات پر دلالت كرتا ہے نيز اس بات كى حكايت كرتا ہے كہ تو آيندہ اپنے بھائيوں سے ملاقات كرے گا_

۹_ خداوند متعال كى يوسفعليه‌السلام كو كنعان كے كنويں ميں وحى كرنا، اسكى خاص عنايت و مہربانى تھى _

ان يجعلوه فى غيابت الجب و اوحينا اليه

۱۰_يوسف،عليه‌السلام بچپن كى عمر ميں وحى كو دريافت كرنے كى صلاحيت ركھتے تھے_

فلّما ذهبوا به ...واوحيناإليه

۱۱_ وحى الہى كو دريافت اور سمجھنے كے ليے كسى خاص سن كى ضرورت نہيں _و اوحينا اليه

۱۲_ يوسفعليه‌السلام ، بچپن ميں ہى نبوت كے مقام پر فائز ہوئے_و اوحينا اليه

۱۳_ يوسفعليه‌السلام كا كنعان كے كنويں كے واقعہ كى بھائيوں كو يادآورى كرانا، يوسفعليه‌السلام كو خداوند متعال كى طرف سے وحى كا اصل مقصد تھا_واوحينا اليه لتنبّئنّهم بأمرهم هذا و هم لا يشعرون

۱۴_ خداوند متعال نے يوسفعليه‌السلام كو يہ خبر دى كہ تيرى اپنے بھائيوں سے آيندہ ملاقات، چاہ كنعان كے واقعہ كے كافى مدت بعد ہوگى _لتنبّئنّهم بأمرهم هذا و هم لا يشعرون

۳۹۵

(و هم لا يشعرون ) جملہ حاليہ (لتنبّئنّ ) كے ساتھ متعلق ہے_ يعنى تو ان كو خبر دے گا درحالانكہ وہ متوجہ نہيں ہوں گے ( يعنى تمہيں نہيں پہچانتے ہوں گے ) يعنى برادران يوسف ميں سے كوئي بھى آيندہ ملاقات كے وقت اسكو نہيں پہچان سكے گا اس سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ ملاقات كافى مدت كے بعدہوگى _

۱۵_ وحى الہى كے مضامينميں سے كچھ يہ بھى تھا كہ دوبارہ ملاقات ميں يوسفعليه‌السلام اپنے بھائيوں پر تسلّط اور قدرت ركھتا ہوگا_و اوحينا اليه لتنبّئنّهم بأمرهم هذا و هم لا يشعرون

يہ كہ برادران يوسف ميں سے كوئي بھى آيندہ ملاقات ميں ان كو نہيں پہچان سكے گا مذكورہ وجوہات كے علاوہ ايك اور وجہ بھى ہو سكتى ہے وہ يہ كہ خداوند متعال جملہ ( و ہم لا يشعرون ) سے يوسفعليه‌السلام كو يہ بتانا چاہتا ہے كہ تم اسوقت اس درجہ و مقام پر فائز ہوگے كہ تيرے بھائي اس كا تصور بھى نہيں كرسكتے يہاں تك كہ وہ احتمال ديں كہ تم ان كے بھائي ہو_

۱۶_ برادران يوسف، وحى الہى كو سننے اور محسوس كرنے پر قدرت نہيں ركھتے تھے_و اوحينا اليه و هم لا يشعرون

مذكورہ بالا تفسير اس صورت ميں ہے كہ (و ہم لا يشعرون) كا جملہ جو حال ہے وہ فعل (اوحينا) كے ساتھ متعلق ہو تو اس صورت ميں ( و ہم لا يشعرون ) كا معنى يوں ہوگا كہ وہ لوگ ہمارى يوسفعليه‌السلام كو جو وحى ہوئي اسكو نہيں سمجھ رہے تھے_

۱۷_'' قال ابوحمزه : فقلت لعلى بن الحسين(ع) : ابن كم كان يوسف يوم القوه فى الجب''؟فقال : ابن تسع سنين (۱)

ابوحمزہ كہتے ہيں كہ ميں نے امام سجادعليه‌السلام سے عرض كى كہ جب حضرت يوسفعليه‌السلام كو كنويں ميں ڈالا گيا تو وہ كتنے سال كے تھے ، توانہوں نے فرمايا وہ نو سال كے تھے_

۱۸_''قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لما القى يوسف فى الجب اتاه جبرئيل عليه‌السلام فقال له : يا غلام ، من القاك فى هذا الجب ؟ قال : اخوتى _ قال : و لم ؟ قال : لمودّة ابى ايّاى حسدونى (۲)

____________________

۱) علل الشرائع ، ص ۴۸، ح ۱ ، ب ۴۱ ; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۴۱۴ ، ح ۱۷_

۲) الدر المنثور ، ج ۴ ، ص ۵۱۱_

۳۹۶

رسالت مأبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ جب يوسفعليه‌السلام كو كنويں ميں ڈالا گيا تو جبرئيلعليه‌السلام ان كے پاس تشريف لائے اور كہا : اے جوان : كس نے تمہيں اس كنويں ميں ڈالا ہے؟ تو انہوں نے جواب ديا : ميرے بھائيوں نے پھر جبرئيل نے كہا كيوں ؟ تو انہوں نے جواب ديا كيونكہ ميرے والد گرامى مجھ سے زيادہ محبت كرتے تھے اسى وجہ سے وہ مجھے سے حسد كرتے تھے_

۱۹_عن ابى جعفر عليه‌السلام فى قوله '' لتنبّئنّهم بأمرهم هذا و هم لا يشعرون '' يقول لا يشعرون انك انت يوسف (۱)

امام باقرعليه‌السلام خداوند متعال كے اس قول (لتنبّئنّهم و هم لا يشعرون ) كے بارے ميں روايت ہے كہ آپ فرماتے ہيں خداوند متعال يہ فرما رہا ہے يعنيوہ نہيں جانتےكہ تم وہى يوسف ہو_

۲۰_'' عن على بن الحسين عليه‌السلام ... فانطلقوا به مسرعين مخافة ان يأخذه منهم ولا يدفعه اليهم (۲)

امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے كہ يوسفعليه‌السلام كے بھائي يوسفعليه‌السلام كو جلدى سے لے گئے ايسا نہ ہو كہ يعقوبعليه‌السلام ان كے ہاتھوں سے اسكو لے ليں اور ان كو واپس نہ ديں _

الله تعالى :الله تعالى كى پيشگوئي ۱۴;الله تعالى كى خوشخبرياں ۸; الله تعالى كا فضل ۹

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام اور لا علمى ۲;انبياءعليه‌السلام كا نا اہل لوگوں پر اعتماد ۳;انبياءعليه‌السلام كى عصمت كى حدود ۳;انبياء كے دھو كہ كھانے كا امكان ۳;انبياءعليه‌السلام كے علم كا دائرہ ۲

براردان يوسف :برادران يوسف اور وحى كا ادراك ۱۶; برادران يوسف اور يعقوبعليه‌السلام ۱; برادران يوسف اور يوسفعليه‌السلام ۱۹، ۲۰; برادران يوسف اور يوسفعليه‌السلام كا قتل ۵ ; برادران يوسف اور يوسفعليه‌السلام كى عاقبت ۴;برادران يوسف كا جھوٹ بولنا ۱; برادران يوسف كا عاجز ہونا ۱۶; برادران يوسف كا فيصلہ ۴;برادران يوسف كا مكر و فريب۱;برادران يوسف كى جہالت ۱۹; برادران يوسف كى سازش ۵، ۶، ۲۰

روايت : ۱۷، ۱۸، ۱۹، ۲۰نبوّت :بچپن مين نبوت ۱۲وحى :وحى كے شرائط ۱۱; بچپنے ميں وحى ۱۰، ۱۱

يعقوبعليه‌السلام : يعقوبعليه‌السلام كا راضى ہونا ۱

____________________

۱) تفسير قمى ، ج ۱ ، ص ۳۴۰; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۴۱۶، ح ۲۵

۲) علل الشرائع ، ص ۴۷، ح ۱ ، ب ۴۱; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۴۱۳ ، ح ۱۷_

۳۹۷

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام اور برادران ۱۳; يوسفعليه‌السلام اور بھائيوں سے ملاقات ۸، ۴،۱۵ ;يوسفعليه‌السلام پر فضل و كرم ۹;يوسف كا بچپنا ۱۰، ۱۲; يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۴، ۵، ۶، ۷، ۸، ۹، ۱۳ ، ۱۴ ، ۱۵، ۱۷، ۱۸، ۱۹، ۲۰;يوسفعليه‌السلام كا كنويں ميں جانا ۹، ۱۸;يوسف كا كنويں ميں گرائے جانے كے وقت سن ۱۷;يوسفعليه‌السلام كو سازش سے كنويں ميں ڈالنا ۶، ۷; يوسف(ع) كو نجات كى بشارت ۸;يوسفعليه‌السلام كو وحى ۸، ۹، ۱۰، ۱۳، ۱۴، ۱۵، ۱۶;يوسفعليه‌السلام كى جبرئيل سے گفتگو ۱۸;يوسفعليه‌السلام كى حكومت ۱۵ ; يوسفعليه‌السلام كى صلاحيت ۱۰; يوسفعليه‌السلام كى نبوت ۱۲; يوسفعليه‌السلام كے خلاف سازش ۵، ۶;يوسفعليه‌السلام كے مقامات ۱۰، ۱۲

آیت ۱۶

( وَجَاؤُواْ أَبَاهُمْ عِشَاء يَبْكُونَ )

اور وہ لوگ رات كے وقت باپ كے پاس روتے پيٹتے آئے (۱۶)

۱_ يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے، يوسفعليه‌السلام كو كنويں ميں چھوڑنے كے بعد روتے ہوئے اپنے باپ كے پاس آئے_

و جاء و أباهم عشاء ً يبكون

۲_ يوسفعليه‌السلام كے بھائي اپنے جھوٹے واقعہ كو حق جلوہ دينے كے ليے بڑى دير سے شام كے قريب اپنے والد گرامى كے پاس حاضر ہوئے_و جاء و أباهم عشاء ً يبكون

(عشا ) رات كى شروع كى تاريكى كو كہا جاتا ہے_ بعض اہل لغت نے كہا ہے كہ (عشا ) اول مغرب سے لے كر رات تيسرے حصے تك كو كہتے ہيں _ قرآن مجيد ميں جھوٹے قصّہ كے بيان كا وقت (شروع رات كا وقت بتايا گيا ہے) مذكورہ تفسير ميں اسى بات كى طرف اشارہ ہے_

۳_ رونا اور چيخ و پكار، صداقت و حقانيت كى دليل نہيں ہوسكتى _وجاء و آباهم عشاءً يبكون

۴_ بھائي كى جدائي اور اس كے قتل ہونے پر رونا جائز ہے _جاء و آباهم عشاءً يبكون

اگر چہ برادران يوسف كے افعال و گفتار، احكام شرعى كى دليل نہيں بن سكتے _ ليكن اسى وجہ سے كہ يہ عمل (بھائي كى جدائي پر رونا ) يعقوب نبىعليه‌السلام كے سامنے انجام ہوا اور انہوں نے اس عمل پر سرزنش نہيں كى اس سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ اس عمل كو حرام اور ناپسند نہيں سمجھتے تھے _

۳۹۸

احكام : ۴

برادر :برادر كے قتل پر رونا ۴

برادران يوسف :برادران يوسف اور يعقوبعليه‌السلام ۱، ۲;برادران يوسف كا رات كو لوٹنا ۲; برادران يوسف كا رونا ۱; برادران يوسف كى سازش ۲

حقانيت :حقانيت كے دلائل ۳

صداقت :صداقت كے دلائل ۳

گريہ :گريہ كا جائز ہونا ۴;گريہ كے آثار ۳;گريہ كے احكام ۴

يوسفعليه‌السلام :يوسف كا قصّہ ۱، ۲

آیت ۱۷

( قَالُواْ يَا أَبَانَا إِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَكْنَا يُوسُفَ عِندَ مَتَاعِنَا فَأَكَلَهُ الذِّئْبُ وَمَا أَنتَ بِمُؤْمِنٍ لِّنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ )

كہنے لگے بابا ہم دوڑ لگانے چلے گئے اور يوسف كو اپنے سامان كے پاس چھوڑ ديا تو تو ايك بھيڑيا آكر انھيں كھا گيا اور آپ ہمارى بات كا يقين نہ كريں گے چاہے ہم كتنے ہى سچے كيوں نہ ہوں (۱۷)

۱_ برادران يوسف(ع) نے مكمل اتفاق رائے كے ساتھ يعقوب عليہ السلام كے سامنے آنے سے پہلے اپنى جھوٹى بنائي ہوئي داستان كو بنايا اور سنوا را تا كہ يعقوب(ع) كے سامنے پيش كريں _قالوا يا بانا ذهبنا فا كله الذئب

يہ بات واضح ہے كہ يعقوبعليه‌السلام كے تمام بيٹوں نے باپ كے سامنے منہ نہيں كھولا بلكہ ان ميں سے ايك نے ان سے بات كى ، ليكن اس جھوٹى بات كى نسبت تمام كى طرف دى گئي ہے لہذا(قالوا ) كا لفظ استعمال كيا گيا _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ پہلے انہوں نے جھوٹى باتوں كو بناكر آپس ميں اتفاق كرليا تھا اور اس پر اتفاق نظر كرليا تھا_

۲_ يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں نے اپنے والد گرامى يعقوب عليہ السلام كو يوسفعليه‌السلام كا بھيڑے كا لقمہ بن جانے كے بارے ميں جھوٹى خبر دى _قالوا أكله الذئب

۳_ برادران يوسف كا يہ ايك جھوٹا بہانہ تھا كہ وہ دوڑ كے مقابلے اور بھاگ دوڑ ميں مشغول ہونے كى وجہ سے يوسفعليه‌السلام سے غافل ہوگئے اور وہ بھيڑے كا لقمہ بن گيا _يا بانا ذهبنا نستبق و تركنا يوسف عند متاعنا

۳۹۹

( استباق ) كا معنى مقابلہ كرنا اور ايك دوسرے سے آگے برھ جانا ہے اور (نستبق ) كا جملہ (ذہبنا) ميں فاعل (نا ) كے ليے حال ہے تو اس صورت ميں (ذہبنا نستبق) كا معنى يوں ہوگا كہ ہم جارہے تھے اور اس دوسرے كے ساتھ دوڑلگا رہے تھے _جانا اور مقابلہ كرنا يہ تير انداز ى يا گھوڑا سوراى كے مقابلوں كے ساتھ سازگار نہيں ہے بلكہ اس سے مراد ، دوڑنے كا مقابلہ ہے _

۴_ يعقوبعليه‌السلام كے دين ميں دوڑ لگانے كا مقابلہ جائز اور حضرتعليه‌السلام كے زمانے ميں رائج تھا_

قالوا يا بانا إنّا ذهبنا نستبق

۵_ يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں نے اپنے بنائے ہوئے قصّے (يوسفعليه‌السلام كا بھيڑيے كا لقمہ بننا ) ميں با دل ناخواستہ يوسفعليه‌السلام كى حفاظت ميں كوتاہى كرنے كا اعتراف كيا_انّا له لحافظون ذهبنا نستبق فا كله الذئب

۶_ يعقوب عليہ السّلام نے اپنے بيٹوں كے اس دعوى (اسكا بھيڑے كالقمہ بن جانا ) كو قبول نہ كيا اور نہ ہى اس پر يقين كيا_و ما أنت بمومن لنا

۷_ يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے حضرت يعقوبعليه‌السلام كواپنى داستان ميں يقين نہ كرنے كى شكايت كى _

و ما أنت بمؤمن لنا و لو كنّا صادقين

(ولو كنّا صادقين) كو اگر جملہ ( و ما أنت بمؤمن لنا ) كے ساتھ ملاديں تو معنى يہ ہوگا _ كہ اگر ہم يوسفعليه‌السلام كے بارے ميں حقيقت بھى كہيں تو آپ قبول نہيں كريں گے اور اگر جھوٹ بھى بوليں تب بھى قبول نہيں كريں گے _ يہ دونوں صورتيں آپ كے ليے كوئي فرق نہيں كرتيں يہ يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كى بات تھى كہ وہ اپنے باپ پر تہمت لگار ہےتھے كہ آپ ہمارى بات پركبھى بھى يقين نہيں كريں گے_

۸_ برادران يوسف(ع) ،اپنے جھوٹے قصے كى يعقوب عليہ السلام كے سامنے منظر كشى اور انہيں باور كرانے ميں ناكام ہونے پرمطمئن تھے_و ما أنت بمؤمن لنا و لو كنّا صادقين

( ايمان ) كسى كى تصديق كرنا اور اس كے دعوى پر يقين كرنا كے معنى ميں آتا ہے _ اور جملہ اسميہ ميں بازائدہ كو ذكر كرنا تاكيد پر دلالت كرتا ہے اور

۴۰۰

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945

946

947

948

949

950

951

952

953

954

955

956

957

958

959

960

961

962

963

964

965

966

967

968

969

970

971