تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 4%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 205791 / ڈاؤنلوڈ: 4271
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۸

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

تفسير راہنما (جلدہشتم)

قرآنى موضوعات اور مفاہيم كے بارے ميں ايك جديد روش

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني اور

مركز فرہنگ و معارف قرآن كے محققين كى ايك جماعت

۳

۱۱- سورہ ہود

آیت ۱

( بسم الله الرحمن الرحیم )

( الَر كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ )

الر_يہ وہ كتاب ہے جس كى آيتيں محكم بنائي گئي ہيں اور ايك صاحب علم و حكمت كى طرف سے تفصيل كے ساتھ بيان كى گئي ہيں (۱)

۱_قرآن، ايك ايسى باعظمت كتاب ہے _ جسكى آيات كى صورت ميں تقسيم بندى كى گئي ہے _كتبٌ أُحكمت اياته

''كتاب'' مبتداء محذوف (ذلك ) كے ليے خبر ہے اور لفظ (كتاب) كو نكرہ اس ليئے لايا گيا ہے تاكہ اسكى عظمت بيان كى جائے ، اصل ميں عبارت اس طرح ہے _''ذلك الكتاب'' وہ كتاب جو عظيم الشان ہے _

۲_ تمام قرآنى آيات اور اسكى تعليمات متقن اور ہر قسم كے خلل و بطلان سے منزہ ہيں _كتب احكمت اياته

لفظ احكام (حكمت) كا مصدر ہے جو '' اتقان'' كے معنى ميں ہے_ '' احكمت آياتہ'' كا معنى يوں ہوگا ، كہ قرآن كى آيات كو اس طرح مہارت اور مضبوطى كے ساتھ مرتب كيا گيا ہے كہ اسميں كسى قسم كے خلل و نقص كى گنجائش نہيں ہے _

۳ _ تمام قرآنى آيات كو ايسے مترتب كيا گيا ہے كہ وہ واضح و روشن ہيں اور ان ميں كسى قسم كا ابہام و اجمال نہيں ہے_

كتب احكمت آياته ثم فضيلت

لفظ تفصيل فصلت كا مصدر ہے_ جوواضح و روشن كے معنى ميں ہے _ لہذا ''فصلّت '' سے مراد يہ ہے كہ آيات قرآن واضح و روشن ہيں اور اپنا مقصود پہنچانے ميں مجمل اور گنجلك نہيں ہيں _

۴_مطالب كا واضح و روشن ہونا ہر كتاب كى دو مناسب خصوصيات ہيں _لفظ و معنى ميں پائيدارى _

كتب احكمت آياته ثم فصلت

۵_ قرآن مجيد كى نظر ميں ايك كتاب كے مطالب كا روشن و واضح ہونا ،خاص اہميت كا حامل ہے _

كتب احكمت آياته ثم فصّلت

۴

ظاہراً آيت كريمہ ميں جو لفظ (ثم ) ذكر ہوا ہے _ ترتيب اور رتبةً متأخر ہونے كے معنى ميں ہے تأخر زمانى كے معنى ميں نہيں ہے _ تب ( ثم فصّلت) كا معنى يہ ہوگا آيات قرآنى جو اپنے مطالب و معانى ميں روشن و واضح ہيں وہ اپنے معانى ميں استحكام و پائيدارى كے سبب سے خاص خصوصيت ركھتے ہيں _

۶ _ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قرآن مجيد نازل ہونے كے بعد اسكى كتابت كا كام _كتبٌ أحكمت آياته

قرآن مجيد كو كتاب ( يعنى مكتووب) يا تو اسوجہ سے كہا گيا ہے كہ آيات كے نازل ہونے كے بعد انہيں لكھا گيا ہے يا اس كے بارے ميں خداوند عالم كى جانب سے تاكيد كى گئي ہے كہ اسكو لكھا جائے _ بہر حال دونوں دو صورتوں ميں مذكورہ مفہوم كا استفادہ ہوتاہے_

۷_ قرآن كريم ،خداوند متعال كى طرف سے كتاب ہےكتبٌ من لدن حكيم خبير

'' من لدن ...'' ممكن ہے ، لفظ '' فصلت '' اور ''أحكمت'' كے ليئے اور ''كتاب'' كے ليئے بعى قيد ہو اس بناء پر آيت كريمہ يہ دلالت كررہى ہے_ كہ قرآن مجيد خداوند حكيم اور خبير كى طرف سے اور اس كى آيات كا مستحكم اور واضح ہونا بھى اسى كى طرف سے ہے _

۸_ خداوند متعال حكيم ايسا منتظم اعلى جو كاموں كو مستحكم طريقے سے انجام ديتاہے ( اور خبير ( جاننے والا) ہے _

من لدن حكيم خبير

۹ _ قرآن كا مستحكم اور اسكى آيات كا واضح ہونا ، خداوند متعال كے حكيم اور خبير ہونے كا ايك جلوہ ہے _

كتب احكمتآياته ثم فصلت من لدن حكيم خبير

۱۰_ خود قرآنى آيات ، اس بات پرمستحكم اور روشن دليل ہيں كہ قرآن كتاب الہى اور اسكے حقائق پر صحيح ہيں _

كتبٌ احكمتآياته ثم فضلت من لدن حكيم خبير

لفظ آيات كا لغوى معنى ''علامات اور نشانياں '' ہيں _ قرآنى جملات كو آيات كا نام دينا يہ صفت لانا كہ يہ خدائے حكيم و دانا كى طرف سے ہيں اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ آيات قرآنى ، الہى حكيمانہ اور عالمانہ ہيں _ لہذامذكورہ آيت كا اس طرح معنى كيا جاسكتاہے كہ قرآن مجيد خدا ئے حكيم و خبير كى طرف سے ہے اور اسكى ايك ايك آيت اس مدعى پر دليل ہے_ اور يہ دلالت مستحكم بھى ہے اور روشن بھى ہے_

۱۱_'' عن سفيان بن سعيد الثورى قال: قلت لجعفر بن محمد(ع) يابن رسول الله

۵

معنى قول الله عزوجل ''الر ...'' قال: الر فمعناه أنا الله الرؤوف (۱) _

سفيان بن سعيد ثورى نقل كرتے ہيں كہ ميں نے امام جعفر صادقعليه‌السلام سے عرض كى :يابن رسول الله ; خداوند عزوجّل كے قول '' ...الر ...'' كا كيا معنى ہے _ فرمايا الر كا معنى أنا الله الرؤوف ، ميں الله رؤوف و مہربان ہوں ( يعنى الف سے ا نا اور لام سے الله اور راء سے رؤوف مراد ہے )_

۱۲ _'' عن ابى جعفر عليه‌السلام قال: إن حُيى بن أخطب و أخاه أبا ياسر بن أخطب و نفراً من اليهود من أهل نجران أتوا رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : فقالوا له : أليس فيما تذكر فيما أنزل اليك '' الم'' ؟ قال: بلى ثم قال (حيي) لرسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : هل مع هذا غيره ؟ قال: نعم قال: هات قال: ''الر''قا ل: ...الألف واحد واللام ثلاثون و الراء مأتان فقال أبوجعفر(ع) : ان هذه الايات أنزلت منهن ّ آيات محكمات هنّ ام الكتاب و اخر متشابهات و هى تجرى فى وجوه اخر على غير ما تأول به حيى و ابو ياسر و اصحابه (۲) امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے _ حيى بن اخطب اور اس كے بھائي ابوياسر اور نجران كے چند يہودى رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور عرض كى جو آپ نزول آيات كا دعوى كرتے ہيں _ كيا ان ميں ''الم'' نہيں ہے _پھر حيى نے كہا: كيا الم كے علاوہ اور بھى كچھ ہے ؟ فرمايا :ہاں تو اس نے كہا كہ بيان كريں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا''الر''_ الف (ايك ) لام ( تيئس) را ( دو سو) ...امام باقرعليه‌السلام فرماتے ہيں : آيات قرآنى ميں كچھ آيات محكمات ہيں جو قرآن كى اساس ہيں _ اور كچھ متشابہات ہيں جن كى تاويل ہوسكتى ہے _ ليكن اس تاويل كے علاوہ جو حيى وابوياسر اور ان كے دوستوں نے كى ہے_

اسماء اور صفات :حكيم ۸ ، ۹ ; خبير ۸ ، ۹

حروف مقطعہ :حروف مقطعہ سے مراد ۱۱ ،اور ۱۲ ہيں

خداوند متعال:خداوند متعال كى حكمت كى نشانياں ۹ ، خداوند متعال كے خبير ہونے كى علامتيں ۹

روايت : ۱۱ ، ۱۲

قرآن كريم :آيات قرآنى آيات كا نقص و عيب سے پاك ہونا ۲; آيات كا مستحكم ہونا۲،۹; عظمت قرآن كريم ۱ ;

____________________

۱) معانى الاخبار ص ۲۲، ح۱;نورالثقلين ج۲ص۲۹۰ ح۲_

۲)تفسير قمى ج۱ص۲۲۳;بحار الانوار ج۸۹;ص۳۷۵ ح۲_

۶

قرآن اوردلائل وحى ۲;قرآنى آيات كى خصوصيات ۲،۳;قرآن كريم كا مكتوب ہونا۶ ; قرآن كى خصوصيات ۱،۷;قرآن كريم كى حقانيت كے دلائل ۱۰; قرآن كريم ميں محكمات كا ہونا ۱۲ ;قرآن كريم ميں متشابہات كا ہونا ۱۲ ; قرآنى آيات۱; قرآنى آيات كى حقانيت۲ ; آيات كا واضح اور روشن ہونا۳،۹;قرآنى آيات كے اثرات ۱۰;قرآنى تعليمات كى حقانيت ۲; نزول قرآن كريم ۶; قرآن كريم كا جملات ميں

كتاب:كتاب الہى كا مستحكم ہونا ۴ ، ۵ ; كتاب الہى كا واضح ہونا۴،۵ ; كتاب الہى كى خصوصيات ۴

آسمانى كتابيں :۷

آیت ۲

( أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ اللّهَ إِنَّنِي لَكُم مِّنْهُ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ )

كہ اللہ كے علاوہ كسى كى عبادت نہ كرو_ ميں اسى كى طرف سے ڈرانے والا اور بشارت دينے والا ہوں (۲)

۱_خداوند عالم كى عبارت كرنا ضرورى ہے اور غير الله كى عبارت سے بچنا بھى ضرورى ہے_الا تعبدوا الاّ الله

۲ _ توحيد اور وحدہ لا شريك كى عبادت ،قرآن كريم كى روشن و مستحكم اوربنيادى تعليم ہے _

كتب أحكمت آياته ثم فصلت ا لا تعبدوا الاّ الله

''ا لاّ'' كا لفظ ''ا ن'' تفسيريہ اور '' لا'' ناہيہ سے مركب ہے اورجملہ_ ( لا تعبدوا ...) ''كتاب احكمت آياتہ ثم فصّلت '' كى تفسير ہے يعنى غير خدا كى عبادت سے منع كرنا ، قرآن كريم كى مستحكم اور واضح تعليم ہے_

تقسيم ہونا ۱ ; قرآنى آيات وحى الہى سے ۷،

۳_ غير خدا كى عبادت، برے انجام اور عذاب الہى كا سبب ہے _الاّ تعبدوا الاّ الله اننى لكم منه نذير

جملہ'' الاّ تعبدوا الا الله '' كے دو معنى ہيں _ ۱_ غير خدا كى عبادت سے منع كرنا _۲_خدا كى عبادت كو ضرورى قرار دينا (انذار) جو كہ برے انجام سے ڈرانے كے معنى ميں ہے وہ پہلے معنى سے مربوط ہے اور بشارت جو كہ خوشخبرى كے معنى ميں ہے وہ دوسرے معنى سے مربوط ہے_''لكم'' ميں جو لام ہے وہ تقويت كے ليے ہے اور ''نذيرو بشير'' كے متعلق ہے _

۴ _خداوند وحدہ لا شريك كى عبادت كا انجام نيك اور

۷

اچھاہے_اننى لكم منه بشير

۵ _مشركين كو ان كے برے انجام سے ڈرانا ،پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى ہے _الاّ تعبدوا الا الله اننى لكم منه نذير

۶ _ موحدين كو اچھے انجام كى خوشخبرى دينا ،پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى ہے _الا تعبدوا الا الله اننى لكم منه ...بشير

۷_ حضرت محمد مصطفىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، خداوند متعال كى طرف سے پيغمبر ہيں _

۸_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت ،قرآن كا مستحكم ، واضح ا ور بنيادى پيغام ہے_

كتب ا حكمتآياته ثم فصلت اننى لكم منه نذير و بشير

جملہ''انّنى لكم منه'' ''لا تعبدوا '' كى طرح '' كتاب احكمت'' كى تفسير ہے ، يعنى اس كتاب الہى كے پيغامات ميں سے ايك پيغام ، پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت و نبوت ہے _

انبياء الہىعليه‌السلام : ۷

بشارت :نيك انجام كى بشارت ۶

توحيد :توحيد كا مستحكم عبادت ہونا ۲ ; توحيد عبادى ۲ ; توحيد كا وضاحت سے ذكر ہونا ۲; عبادت ميں توحيد كا ہونا خوشخبرى ہے ۴ ;عبادت ميں توحيد كى اہميت ۱ ، ۲ :

شرك:عبادت ميں شرك سے پرہيز ۱; عبادت ميں شرك كا انجام ۳

عبادت:خدا كے نزديك عبادت كى اہميت ۱ ; غير خدا كى عبادت كرنے والے كى عاقبت ۳

عاقبت :اچھے كاموں كى عاقبت ۴ ;برى عاقبت سے ڈرانا ۵ ; برے كاموں كى عاقبت ۳

قرآن:قرآن كى اہم ترين تعليمات ۲،۸

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مشركين ۵ ;حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور موحدين ۶ ;پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت كى اہميت ۸ ; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور نبوت ۷ ;قرآن ميں حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا ذكر ۸ ; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارياں ۵ ، ۶ ; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى

۸

نبوت كى وضاحت ۸; حضرت محمد مصطفىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خوشخبرياں ۶ ;حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مقامات ۸; رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا ڈرانا ۵

مشركين :مشركين كو ڈرانا ۵

موحدين :موحدين كو خوشخبرى دينا ۶

آیت ۳

( وَأَنِ اسْتَغْفِرُواْ رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُم مَّتَاعاً حَسَناً إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ وَإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنِّيَ أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيرٍ )

اور اپنے رب سے استغفار كرو پھر اس كى طرف متوجہ ہوجائووہ تم كو مقررہ مدت ميں بہترين فائدہ عطا كرے گا اور صاحب فضل كو اس كے فضل كا حق دے گا اور ميں تمھارے بارے ميں ايك بڑے دن كے عذاب سے خوفزدہ ہوں (۳)

۱ _ خدا كى بارگاہ ميں اپنے گناہوں كى توبہ اور استغفار كرنا ضرورى ہے_و ان استغفروا ربكم

۲_گناہوں (غير خدا كى عبادت و ...) سے توبہ و استغفار كرنا ضرورى ہے_ يہ قرآن مجيد كا مستحكم، روشن اور بنيادى پيغام ہے_و ان استغفروا ربكم

مذكورہ جملہ ميں ''ا ن'' تفسير يہ ہے لہذا''ا ستغفروا ربكم'' '' و لا تعبدوا '' كى طرح ''كتاب احكمت ...'' كى تفسير ہے_

۳ _ گناہوں كا معاف كرنا ،خداوندعالم كى ربوبيت كا پرتو ہے_استغفروا ربكم

۴ _ خداوند عالم كى طرف توجہ اور قرب الہى حاصل كرنا ضرورى ہے_استغفروا ربكم ثم توبوا

مفسرين نے '' توبوا اليہ'' كو '' استغفروا ربكم'' پر عطف كيا ہے ظاہرى طور پر اسى پر متفق ہيں اوراس كى چندتوجيہيں بيان كيں ہيں ان ميں سے جو ہمارے نزديك بہتر ہے وہ يہ

۹

ہے كہ يہاں توبہ سے مراد خدا كى طرف رجوع اور اس كے راستے گامزن ہوناہے _ نہ يہ كہ گناہوں سے توبہ كرنا ،خدا كى راہ پر گامزن كا معنى يہ ہے كہ اسكے اوامر كى اطاعت اور اسكے نواہى سے اجتناب كياجائے_

۵ _ خداوند عالم كى عبادت، شرك سے بيزارى ، حضرت محمد مصطفى كى رسالت كا اعتقاد اور گناہوں سے استغفار ، يہ سب خدا كى طرف متوجہ ہونے اور تقرب الہى كے ليے پيش خيمہ ہيں _الا تعبدوا الا الله و ان استغفروا ربكم ثم توبوا اليه

ظاہرى اعتبارى سے ''توبوا اليه ''كا مذكورہ جملوں ''الا تعبدوا '' ، ''انّنى لكم منه '' اور''اناستغفروا '' پر عطف ہے_

۶_خداوندعالم، انسانوں كو بہترين متاع زندگى عطا كرنے والا ہے_ليمتعكم متعاً حسنا

'' تمتيع '' (مصدر يمتع) ہے _ جو بہرہ مند كرنے كے معنى ميں ہے اور متاع اس شے كو كہتے ہيں جس سے فائدہ اٹھايا جاتاہے جيسے (وسائل زندگي)_

۷_ وحدہ لا شريك ذات كى پرستش، حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت پر ايمان ، شرك اور گناہوں سے استغفار اور خداوند عزوجل كى طرف توجہ كرنا ، يہ سب خدا كى عنايت اور دنيا ميں اچھى زندگى حاصل كرنے كا ذريعہ ہيں _

الا تعبدوا الا الله و ان استغفروا ربكم ثم توبوا اليه يمتتعكم متاعاً حسنا

۸_انسان كو دنيا ميں اچھى زندگى عطا كرنا ، قرآن كريم اور اديان الہى كے اہداف ميں سے ہے_

الا تعبدوا الا الله و ان استغفروا ربكم ثم توبوا اليه يمتعكم متعاً حسنا

۹_ دنيا ميں انسان كى زندگى محدود اورمقررہ مدت تك ہے _ليمتعكم متعاً حسناً الى اجل مسمي

يہاں (مسمّي) سے مراد معين اور محدود ہے _

۱۰ _ انسان،زندگانى بشر كے خاتمے اور اپنى موت كے وقت كو معلوم كرنے سے عاجز ہے_يمتعكم متعاً حسناً الى أجل مسمّي

لفظ اجل كو نكرہ لايا گياہے جو اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ انسان كى زندگى كا وقت معين اور مقرر ہے ليكن وہ معينہ وقت ان كے ليے نامعلوم ہى رہيگا اور اسے جاننے كا كوئي راستہ بھى نہيں ہے قابل ذكر ہے كہ اجل سے مراد ہر انسان كى زندگى كا اختتام اگر چہ يہ بھى احتمال پايا جاتاہے كہ اس سے مراد دينا ميں تمام انسانوں كى زندگى كا خاتمہ ہو _

۱۱_ جس كے نيك اعمال زيادہ ہوں گے _ تو وہ خدا سے زيادہ اجر پائے گا _

۱۰

يہا ں (فضل) سے مراد دوسروں سے عمل خير كا زيادہ ہونا ہے ( فضلہ ) كى ضمير ''كل'' كى طرف لوٹتى ہے_

۱۲_ آخرت ميں اجر الہى كا استحقاق، خداوند وحدہ لاشريك كى پرستش ، شرك سے دورى ، حضرت محمد مصطفىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - كى رسالت پر ايمان اور گناہوں سے استغفار پر موقوف ہے_ا لا تعبدوا الاّ الله ..يؤت كل ذى فضل فضله

آيت سے مذكورہ مطلب كا استفادہ اس احتمال كى بنياد پر ہے كہ جملہ ''يوت ...''اخروى اجر كو بيان كررہا ہو اور جملہ ما قبل ميں '' الى اجل'' كا ہونا اور اس جملے ميں ''ا لى اجل '' كا نہ ہونا بھى اسى مطلب كى تائيد كرتاہے_

۱۳_ پاداش اخروى عدالت خدا كے مطابق ہوگى _و يؤت كل ذى فضلً فضل

۱۴ _ غير خدا كى پرستش اور عبادت ميں شرك كرنا ، قيامت كے عذاب كا سبب ہے _

الا تعبدوا الا الله و ان تولوا فانى أخاف عليكم عذاب يوم كبير

''تولّوا'' فعل مضارع ہے _ اصل ميں (تتولّوا) تھا _ تولّى اعراض كرنے كے معنى ميں ہے اس كا متعلق گذشتہ احكام سے سمجھا جاسكتاہے اس بناپر ''ان تولوا ...'' يعنى اگر وحدہ لا شريك كى عبارت و غيرہ سے اعراض كيا

۱۵ _گناہوں كو استغفار كے ذريعہ محو نہ كرنا اور خدا كى طرف متوجہ نہ ہونا، عذاب قيامت ميں گرفتار ہونے كا سبب ہے_

و ا ن استغفروا ربكم ثم توبوا اليه و ان تولوا فانى أخاف عليكم عذاب يوم كبير

۱۶_ قيامت كا دن، بڑا دن ، اوراس كاعذاب خوفناك ہے _فانى أخاف عليكم عذاب يوم كبير

ظاہرى طور پر كلہ ''كبير '' يوم كے ليے صفت ليكن حقيقت ميں اس دن كے عذاب كى بندگى كو بيان كررہاہے اسى ليے اسے خوفناك عذاب سے تعبير كيا گياہے_

۱۷_ حضرت محمد مصطفى ،صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں كے خير خواہ پيغمبر اور مشركين و گناہگار لوگوں پر آنے والے عذاب سے پريشان تھے _فانى أخاف عليكم عذاب يوم كبير

اجل:اجل مسمى (وقت معين ) ۹; موت كے وقت سے لاعلمى ۱۰

اديان :اہداف اديان الہى ۸;مختلف اديان اور اچھى زندگى ۸

۱۱

استغفار:استغفار كى اہميت ۱ ; استغفار كى اہميت كى وضاحت ۲; استغفار كے آثار ۵ ، ۷ ، ۱۲ ; ترك استغفار كے آثار ۱۵ ; شرك سے ا ستغفار ۲ ، ۷ ; غير خدا كى عبادت سے استغفار ۲ ; گناہوں سے استغفار ۱ ، ۲ ، ۵، ۷ ، ۱۲ ، ۱۵ ;

انسان :انسانوں كا عاجز ہونا ۱۰

ايمان :ايمان كے آثار ۵،۷،۱۲; حضرت محمد مصطفىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان كے آثار ۵ ، ۷ ، ۱۲

اجر:اجر كے شرائط ۱۲ ; اخروى اجر ۱۲;اجر دينے ميں عدالت ۱۳ ; اجر كثرت كے عوامل ۱۱

تبرّى :شرك سے تبرى كے آثار ۵

تقرب :تقرب الہى كى اہميت ۴;تقرب الہى كے آثار ۷; تقرب الہى كے اسباب ۵

توحيد :توحيد عبادى ۷ ، ۱۲;توحيد كے آثار ۷ ، ۱۲

خدا :خداكى ربوبيت كى نشانياں ۳; خدا كى نعمتوں كا پيش خيمہ ۷ ; خداوند متعال كى نعمتيں ۶; عدالت الہى ۱۳

خدا كى طرف لوٹنا : ۱۵

خدا كى طرف پلٹنے كى آمادگي۵۰; خدا كى طرف پلٹنے كے آثار ۷ ; خدا كى طرف لوٹ جانے كى اہميت ۴

زندگى :دنياوى زندگى كا محدود ہونا ۹

شرك :شرك سے اجتناب كے آثار ۱۲ ،شرك كے آثار ۱۲;عبادت ميں شرك ۱۴

صالحين:نيك لوگوں كا اجر زيادہ ہونا ۱۱

عبادت :خدا كى عبادت كے آثار ۵;خدا كى عبادت ۵; عبادت كے آثار ۱۴; غير خدا كى عبادت ۱۴

عذاب:آخرت كا عذاب ۱۴،۱۵; آخرت كے عذاب كى خصوصيات ۱۶;عذا ب كے اسباب ۱۴ ، ۱۵

عمل صالح :نيك اعمال كے آثار ۱۱

قرآن :

۱۲

قرآن اور اچھى زندگى ۸ ; قرآن كى اہم ترين تعليمات ۲;قرآن مجيد كے اہداف ۸

قيامت :قيامت كى خصوصيات ۱۶ ;قيامت كى سختياں ۱۶ ; قيامت كى عظمت ۱۶

گناہ :گناہ كى بخشش۳

محمد مصطفىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مشركين ۱۷ ; پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا مہربان ہونا ۱۷ ;رسالت مآب اور گناہگار افراد ۱۷ ; رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پريشاني

معاش:اچھى زندگى كى اہميت ۸ ;اچھى زندگى كے اسباب ۷; اچھى زندگى كے حصول كا سبب ۶

آیت ۴

( إِلَى اللّهِ مَرْجِعُكُمْ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ )

تم سب كى بازگشت خدا ہى كى طرف ہے اور وہ ہرشے پر قدرت ركھنے والا ہے (۴)

۱ _ تمام انسان خدا كى طرف سے ہيں _ اور اس كى طرف لوٹ كر جاناہے _الى الله مرجعكم

رجوع اسى چيز كى طرف لوٹنے كو كہتے ہيں جہاں سے آغاز ہوا ہو(مفردات راغب)_

۲ _ قيامت كا دن انسانوں كا خداوند عالم كى بارگاہ پلٹنے ميں دن ہے _فانى ا خاف عليكم عذاب يوم كبير _ الى الله مرجعكم

۳ _ اگرانسان اس طرف متوجہ ہوجائے كہ يقينا اسے خدا ہى كى طرف پلٹنا ہے تو وہ وحدہ لا شريك كى عبادت كرے گا اور غير خدا كى عبادت سے خوفزدہ بھى ہوگا_فانّى أخاف عليكم عذاب يوم كبير ، الى الله مرجعكم

''الى الله مرجعكم'' كا جملہ ''و ان تولوا فانى أخاف ...'' كى تعليل كے قائم مقام يعنى پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مشركين كے ليے اس وجہ سے پريشان ہيں كہ وہ لوگ خدا ہى كى طرف پلٹيں گے

۱۳

اور شرك كيوجہ سے عذاب ميں گرفتار ہوں گے لہذا جو بھى اس حقيقت كو قبول كرے كہ بازگشت خدا ہى كى طرف ہے تو وہ الله كے علاوہ نہ كسى كى بندگى كريگا اور نہ ہى كسى كو اس كا شريك ٹھہرائے گا_

۴ _ خداوند، عالم ہر كام كے انجام دينے پر قدرت ركھتاہے_و هو على كل شيء قدير

۵ _ معاد كا وجو د اور قيامت كا بر پا ہونا، خداوند عالم كے قادرمطلق ہونے كى بنيا دپر ہے _

فانى اخاف عليكم عذاب يوم كبير ، الى الله مرجعكم و هو على كل شيء قدير

۶ _ خداوند عزوجل كى قدرت مطلق پر يقين اور اسكى طرف متوجہ ہونا، معاد اور روز قيامت كے بارے ميں ہرقسم كے شك و شبہہ كو دور كرديتاہے_الى الله مرجعكم و هو على كل شى ء قدير

مسئلہ معاد اور روز قيامت كو بيان كرنے كے بعد خدا كى قدرت كا تذكرہ اس ليے كيا گيا ہے كہ لوگوں كو خدا كى قدرت مطلق كى طرف متوجہ كياجائے تا كہ وہ روز قيامت (جس پر نوع بشر كا عقيدہ ركھنا مشكل ہے)كے بارے ميں شك نہ كريں _

۷_ خداوند متعال ،موحدين كو اجر اور مشركين و غير خدا كى پرستش كرنے والوں كو عذاب دينے پر قادر ہے_

يمتعكم متعاً حسناً و ان تولّوا فانى أخاف عليكم عذاب يوم كبير و هو على كل شيء قدير

مذكورہ مطلب ميں جملہ ''و ہو ...''كے معني''يمتعكم متاعاً ''و''اخاف عليكم '' كے ذيل ميں بيان ہوچكے ہيں _

ا سما ء و صفات:قدير۴

انسان:انسانوں كا انجام ۱ ; انسانوں كا آغاز۱

ايمان :ايمان كے آثار ۳ ، ۶ ، خداوند عزوجل كى طرف لوٹنے پر ايمان ركھنا ۳ ; قدرت خدا پر ايمان ركھنا ۶ ; قيامت پر ايمان كے اسباب ۶ ; معاد پر ايمان كے اسباب ۶

توحيد :توحيد كى آمادگى ۳;توحيد عبادى ۳

خدا:خداوند عزوجل كى خصوصيات ۱ ; خداوند متعال كى قدرت ۴ ، ۷ ;خداوند عزوجل كى قدرت كے آثار۵

۱۴

خداوند عزوجل كى طرف لوٹنا : ۱خداوند متعال كى طرف لوٹنے كا وقت ۲

ذكر:آثار ذكر ۶ ; قدرت خداوندى كا ذكر۶

شبھہ:شبھہ كو دور كرنے كے عوامل ۶

شرك :شرك عبادى كے موانع۳

قيامت :قيامت كا حتمى طور پر واقع ہونا ۵ ; قيامت كى خصوصيات ۲

مشركين :مشركين كا عذاب ۷

معاد:معاد كا حتماً واقع ہونا۵

موحدين :موحدين كى دنيا ميں اچھى زندگى ۷

آیت ۵

( أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ لِيَسْتَخْفُواْ مِنْهُ أَلا حِينَ يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمْ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ )

آگاہ ہوجائو كہ يہ لوگ اپنے سينوں كو دہرائے لے رہے ہيں كہ اس طرح پيغمبر سے چھپ جائيں تو آگاہ رہيں كہ يہ جب اپنے كپڑوں كو خوب لپيٹ ليتے ہيں تو اس وقت بھى وہ ان كے ظاہر و باطن دونوں كو جانتا ہے كہ وہ تمام سينوں كے رازوں كا جاننے والا ہے (۵)

۱ _زمانہ بعثت كے مشركين، پروردگار سے اپنى بات چھپانے كے ليے اپنا سرگريبان ميں ڈال ليتے تھے اور پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف كى گئي سازشوں كے بارے ميں كانا پھوسى كے ذريعہ تبادلہ خيال كيا كرتے تھے_الا انهم يثنون صدورهم ليستخفوا منه

ثنّى ( مصدر يثنون ہے ) اس كے معانى ميں ايك معنى لپٹنا اور جھكاناہے''استخفائ'' كا معنى اپنے آپكو مخفى كرنا ہے اور '' منہ''كى ضمير''الله '' كى طرف لوٹ رہى ہے _ كيونكہ مشركين كا سينوں كو خم كرنے ( سركو گريبان ميں ڈالنے) كا مقصد اپنے آپكو خدا سے مخفى ركھنا تھا ( اس سے پتہ چلتاہے كہ اس انداز سے وہ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف باتيں كرتے اور كى گئي سازشوں كے بارے ميں تبادلہ خيال كرتے تھے_

۱۵

۲ _عصر بعثت كے مشركين كى يہ خام خيالى تھى كہ خداوند عالم ہمارى باتوں اور مخفى امور سے آگاہ نہيں ہے_

الا انهم يثنون صدورهم يستغفوا منه

۳ _ بعثت كے زمانہ ميں مشركين مكہ ،پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اسلام كے خلاف مخفى ميٹنگوں كے ذريعہ سازشيں بناتے تھے_

الا حين يستغشون ثيابهم يعلم ما يسرون و ما يعلنون

'' استغشى ثبابہ'' يعنى اپنے لباس سے اپنے كو مخفى كرنا تا كہ ديكھا ئي نہ دے( لسان العرب) ''حين ''، '' يعلم '' كے متعلق ہے _ لہذا جملہ '' الا حين يستغشون ثيابہم يعلم ...'' كا معنى يوں ہوگا _ كہ جب مشركين اپنے آپ كو چھپا تے تھے تو وہ مسائل كو بھى اپنے درميان بيان كرتے تھے_ ان ميں سے بعض كو چھپاتے تھے ( ما يسرون) اور بعض كو ظاہر كرتے تھے ( و ما يعلنون) گويا اس آيت كا معنى يہ ہوا كہ مشركين فقط اپنے آپ كو مخفى نہيں كرتے تھے _ بلكہ اپنے مخفى پروگراموں ميں پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف سازش كرتے تھے_

۴ _ مشركين مكہ كى پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى على الاعلان مخالفت اور خفيہ سازشيں _

الا حين يستغشون ثيابهم يعلم ما يسرون و ما يعلنون

۵ _پروردگار عالم كى مشركين كى مخفى سازشوں اور ظاہرى محاذ آرائي سے آگاہي_الا حين يستغشون ثيابهم يعلم ما يسرون و ما يعلنون

۶_ خداوند متعال،تمام افكار اور خيالات سے آگاہ ہے_انه عليم بذات الصدور

۷_عن ابى جعفر عليه‌السلام قال: أخبرنى جابر بن عبدالله ان المشركين كانوا اذا مروا برسو ل الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حول البيت طأطأ أحدهم ظهره و رأسه هكذا و غطى راسه بثوبه لا يراه رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فأنزل الله عزوجل : ''ألا انهم يثنون صدورهم ليستخفوا منه ا لا حين يستغشون ثيابهم يعلم ما يسرون و ما يعلنون'' (۱) امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ جابر ابن عبدالله نے مجھے بتايا جب كعبہ كے اطراف ميں مشركين، رسالت مآب كے قريب سے گذرتے تھے_ توكچھ ان ميں سے اپنے سر اور پيٹھ كو خم كرليتے تھے (خود جابر نے بھى ايسا كركے دكھايا)_

____________________

۱)كافى ج/۸ ، ص ۱۴۴ ، ح ۱۱۵ ; نورالثقلين ج/۲ ص ۳۳۵ ، ح ۶_

۱۶

اور اپنے سركولباس ميں چھپاليتے تھے تا كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان كو نہ ديكھ سكيں ، تب خداوند متعال نے اس آيت كو نازل فرمايا :'' الا انهم يثنون صدورهم يستخفط منه الا حين يستغثون ثيابهم ...''

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۱ ، ۴

اسماء و صفات :صفات جلال ۲ ; عليم ۶

انسان :افكار انسانى ۶

خدا:خداوند متعال او رجہل ۲ : خداوند متعال و علم غيب ۵ ، ۶

روايت : ۷

مشركين :صدر اسلام كے مشركين اور حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مصطفىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۱ ; صدر اسلام كے مشركين كى غلط فكر۲ صدر اسلام ميں مشركين كى سازش ۱ ; مشركين اور رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۷ ; مشركين كا محاذ بنانا ۵ ;مشركين كى سازش ۵ ;مشركين كى صد ر اسلام ميں كانا پھوسى مشركين كے پيش آنے كا طريقہ ۷

مشركين مكہ :مشركين مكہ اور حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مصطفىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۳ ، ۴ ;مشركين مكہ كى سازش ۳ ، ۴ ; مشركين مكہ كى محاذ آرائي ۴; مشركين كى مخفى ميٹنگيں ۳

آیت ۶

( وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِي الأَرْضِ إِلاَّ عَلَى اللّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ )

اور زمين پر چلنے والى كوئي مخلوق ايسى نہيں ہے جس كا رزق خدا كے ذمہ نہ ہو _ وہ ہر ايك كے سونپے جانے كى جگہ اور اس كے قرار كى منزل كو جانتا ہے اور سب كچھ كتاب مبين ميں محفوظ ہے (۶)

۱ _خداوند عالم ،زمين پر چلنے والى ہر مخلوق كے رزق كا ذمہ دار ہے_

و ما من دابة فى الارض الاّ على الله رزقها

۲ _ ہر جاندار شے اپنى زندگى كے دوران ، غذا كے حصول كا حق ركھتى ہے _و ما من دابة فى الارض الا على الله رزقها

۳ _ ہر زندہ شے كو روزى دينا ،خدا كے ذمہ ہے_و ما من دابة فى الارض الاّ على الله رزقها

۱۷

۴ _ خداوند متعال ہر جاندار شے كى دائمى اور عارضى رہنے والى جگہ سے واقف ہے _يعلم مستقرها و مستودعها

'' مستقر '' استقرار كا اسم مكان ہے _جو قرار پانے كى جگہ كے معنى ميں ہے _پس (مستقرہا)

اس جگہ كو كہتے ہيں جسے جاندار شے نے اپنے ليئے قرار ديا ہو اب وہ چاہے دائمى منزل ہو يا غالبى (مستودع) اسم مكان ہے استيداع سے (يعنى امانت ركھنا يا امانت لينا ) اور چونكہ امانت دائمى طور سے كہيں نہيں ركھى جاتى بلكہ عارضى طور پر ركھى جاتى ہے لہذا يہ كہا جاسكتاہے كہ (مستودعہا) سے مراد وہ جگہ ہے جہاں جاندار شے عارضى طور پر رہتى ہے_

۵ _ خداوند عالم كاتمام اشياء سے متعلق كامل علم، موجودات كو روزى پہنچانا اور ان كے امور كى تدبير كى بنياد ہے_

و ما من دآبة فى الارض الاّ على الله رزقها و يعلم مستقرهاو مستودعها

(على الله رزقہا ) كے بعد موجودات كے بارے ميں علم خدا كا تذكرہ اس ليے كيا گيا ہے تا كہ اس نكتہ كى طرف متوجہ كيا جائے كہ موجودات كو روزى پہنچانے اور ان كے امور كى تدبير كے ليے وسيع علم كى ضرورت ہے جو خدا كے پاس موجود ہے_

۶_ ہر جاندار كا نام و پتہ،كتنى اور كونسى روزى كس جگہ اسے دينى چاہيے يہ سب كچھ كتاب ميں لكھا ہوا ہے_

و ما من دآبة كل فى كتب

لفظ '' كل'' كا مضاف اليہ محذوف ہے _ اور گذشتہ جملات سے گويا يوں ظاہر ہوتاہے كہ آيت كا معنى اس طرح ہے '' كل دابة و ما يتعلق بہا فى كتاب مبين '' ہر زمين پر چلنے والى شے اور اس سے متعلق امور كتاب روشن ميں موجود ہيں _

۷_ وہ كتاب جسميں خداوند متعال نے موجودات كے احوال كو درج كيا ہے '' وہ روشن كتا ب ہے اور اس ميں كچھ جو لكھا گيا ہے اسميں كوئي ابہا م نہيں ہے _كل فى كتب مبين

۸_'' قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لا تهتم للرزق فان الله تعالى يقول: ( و ما من دابة فى الارض الا على الله رزقها ...'' (۱)

رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روايت نقل ہوئي ہے كہ رزق و روزى كے ليے پريشان نہ ہوں كيونكہ خداوند عالم كا ارشاد ہے كہ زمين پر كوئي بھى جاندار ايسا نہيں ہے كہ جس كى روزى خدا كے ذمہ نہ ہو_

____________________

۱)مكارم الاخلاق ص ۴۵۵; بحارالانوار ج۷۴ ص ۱۰۶ ، ح۱_

۱۸

امور:امور كى تدبير كا سرچشمہ ۵

جاندار:جانداروں كى روزى روشن كتاب ميں ۶; جانداروں كى روزى كا بند و بست ۳ ، ۵ ; جانداروں كى روزى كاسبب ۱;جانداروں كى روزى كا لكھا جانا ۶ ; جانداروں كى روزى كى جگہ ۶ ; جانداروں كى عارضى جگہ ۴ ; جانداروں كى مادى ضروريات ۲; جانداروں كى ہميشہ والى جگہ ۴ ; جانداروں كے حقوق ۲ ، ۳

حقوق:خداوند متعال پر حق ركھنا ۳

خدا:خدا كا علم ۵ ; خدا كا علم غيب ۴ ;خدا كى رزاقيت ۱ ، ۳ ; خدا كى قدرت كا سہارا ۵

روايت : ۸

روزى :روزى كا حتمى ہونا ۸ ; روزى كا سبب۸

كتاب مبين :روشن كتاب كى خصوصيات ۷

آیت ۷

( وَهُوَ الَّذِي خَلَق السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاء لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً وَلَئِن قُلْتَ إِنَّكُم مَّبْعُوثُونَ مِن بَعْدِ الْمَوْتِ لَيَقُولَنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ إِنْ هَـذَا إِلاَّ سِحْرٌ مُّبِينٌ )

اور وہى وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمين كو چھ دونوں ميں پيدا كيا ہے اور اس كا تخت اقتدار پانى پر تھاتا كہ تمھيں آزمائے كہ تم ميں سب سے بہتر عمل كرنے والا كون ہے اور اگر آپ كہيں گے كہ تم لوگ موت كے بعد پھر اٹھائے جانے والے ہوتو يہ كافر كہيں گے كہ يہ تو صرف ايك كھلا ہوا جادو ہے (۷)

۱ _ خداوند متعال ، زمين اور آسمانوں كو خلق كرنے والا ہے _

۱۹

هو الذى خلق السموات والارض

۲ _ زمين اور آسمانوں كى خلقت ،تدريجى طور پر انجام پائي اور چھ دنوں (چھ ادوار) ميں انجام پائي ہے_

خلق السموات والا رض فى ستة ا يام

آيت شريفہ ميں (ايام ) سے مراد معمولا جو معنى ليا جاتاہے وہ نہيں ہے-(يعنى ون يا دن و رات)بلكہ اس سے مراد ،ادوار او ر مراحل ہيں اس ليے كہ دن اپنے رائج اور متعارف معنى ميں زمين كى خلقت كے بعد ہى قابل فرض ہے_

۳ _ كائنات كى خلقت، اپنے اندر متعدد آسمانوں كو ركھتى ہے _

۴ _ زمين و آسمانوں كى خلقت سے قبل كائنات كا وجود پانى ميں منحصر تھا_و كا ن عرشه على الماء

'' عرش'' بادشاہ كے تخت كو كہتے ہيں ليكن آيت كريمہ ميں اس سے مراد سلطنت اور حكومت ہے او ر جملہ '' و كان عرش على المائ'' ''كان'' كى وجہ سے اس معنى ميں ہے كہ قبل اس كے كہ خداوند عالم زمين و آسمان كو خلق كرتا اسكى حكومت و سلطنت پانى پر تھى اور يہ معنى بھى سمجھتا جاسكتاہے كہ زمين و آسمان كى خلقت سے پہلے كائنات كى تشكيل پانى سے تھي_

۵ _ زمين اور آسمانوں كى پيدائش كا اصلى مواد پانى ہے _خلق السموات والارض فى ستة ايام و كان عرشه على الماء

مندرجہ بالا معنى و جملوں يعنى '' خلق السموات ...'' (و كان عرشه على السماء ) كے ارتباط سے حاصل كيا گيا ہے _ يعنى زمين و آسمانوں كى خلقت سے پہلے ہستى كا وجود پانى ميں منحصرتھا_اور خداوند متعال اس پر حكومت اور تسلط ركھتا تھا يہ اس كى طرف بھى اشارہ ہوسكتا ہے كہ خداوند عالم نے گذشتہ تمام پانى كو يا اس كے بعض حصہ كو زمين و آسمان ميں تبديل كرديا_

۶_ خداوند عالم كائنات كا حاكم اور فرمان دينے والا ہے_وكان عرشه على الماء

۷_ خداوند متعال انسانوں كو آزماتاہے_ليبلوكم ايكم احسن عملا

۸_ خداوند متعال كے آزمانے كا مقصد نيك عمل كرنے والوں ( كامل انسانوں ) كو وجود ميں لاناہے_

ليبلوكم ايّكم احسن عملا

بلاء (يبلوا) كا مصدر ہے _ جوآزمانے كے معنى ميں ہے _ لوگوں كو خداوند متعال كا آزمانا اسوجہ سے نہيں ہے كہ ان پر اطلاع حاصل كرے لہذا امتحان سے مراد در حقيقت اس چيز كو ظاہر كرتاہے جو امتحان كا مقصد ہے پس ليبلوكم كے يہ معنى ہوں گے كہ تمہيں آزمائے اور آزمائش كا مقصد يہ ہے كہ نيك اور اچھے افراد ظاہر اور آشكار ہوں _

۲۰

۹_ زمين و آسمانوں كى خلقت كا مقصد ،نيك ترين افراد (كامل انسانوں ) كو وجود ميں لاناہے_

خلق السموات والارض ليبلوكم ايكم ا حسن عملا

'' ليبلوكم'' ، '' خلق السموات '' كے متعلق ہے _ اور خلقت كائنات كے مقصد كو بيان كرتاہے_

۱۰_ تمام انسان مرنے كے بعد قيامت كے ميدان ميں حاضر ہونے كے ليے زندہ اور اٹھائے جائيں گے_

و لئن قلت انكم مبعوثون من بعد الموت

۱۱_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كا ايك مقصد يہ تھا كہ لوگوں كو مرنے كے بعد كى زندگى اور قيامت كے برپا ہونے كى طرف توجہ دلائي جائے_و لئن قلت انكم مبعوثون من بعد الموت

۱۲_ گذشتہ دور كے كافر ،قيامت كو بے معنى اور پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى طرف سے اس كے بيان كو واضح دھوكہ اور جادو سمجھتے تھے_ان هذا الا سحرٌ مبين

''ہذا'' كا ارشاد پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اس قول كى طرف ہے جسميں آپ فرماتے تھے كہ مردوں كو زندہ كيا جائيگا اور قيامت برپا ہوگى اور لفظ سحر كا اطلاق اس گفتار اور دعوى پر تشبيہ كے عنوان سے ہے اور اسميں وجہ شباہت باطل ہونا اور دھوكہ دينا ہے_ يعنى يہ ظاہرى باتيں فريب دينے والى ہيں _ اور حقيقت سے خالى اور بے بنياد يہ باتيں باطل اور دھوكہ بازى ميں جادو كى مانند ہيں _

۱۳ _ خداوند متعال كى طرف سے انسانوں كى آزمائش ، معاد اور روز قيامت كى روشنى ميں قابل توجيہ ہے_

خلق السموات والارض ليبلوكم ايّكم احسن عملاً و لئن قلت انكم مبعوثون

انسانوں كى آزمائش كے بعد مسئلہ قيامت كا تذكرہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ قيامت كے برپا كرنے كے بغيرانسانوں كى آزمائش كے بعد مسئلہ قيامت كا تذكرہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ قيامت كے برپا كرنے كے بغير انسانوں كى آزمائش اور نيك لوگوں كے برے لوگوں سے جدا كرنا نتيجہ خيز ثابت نہيں ہوسكتا _

۱۴ _'' عن الرضا عليه‌السلام قال: ان الله تبارك و تعالى خلق السموات والارض فى ستة ايام ليظهر للملائكة ما يخلفه منها شيئا بعد شيء فيستدل بحدوث ما يحدث على الله تعالى مرّة بعد مرّة ...و اما قوله عزوجل : ''ليبلوكم ايّكم ا حسن عملاً'' فانه خلقهم ليبلوهم بتكليف طاعته و عبادته ، لا على سبيل الامتحان و التجربة لانه لم يزل عليما ً بكل شيئ ...'' (۱) امام رضا عليہ السلام سے روايت

____________________

۱) عيون اخبار الرضا ج/۱ ، ص ۱۳۴ ، ح ۳۳ ، نورالثقلين ج/ ۲ ص ۳۳۶ ، ح/ ۱۰_

۲۱

ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا :بے شك خداوند متعال نے آسمانوں اور زمين كو چھ دنوں ميں خلق كيا ...جس شے كو بھى خلق فرماتا ملائكہ كے سامنے ايك كے بعد دوسرے كو ظاہر فرماتا تا كہ خداند متعال كى نئي خلقت سے اس كے وجود ہونے پر استدلال كيا جاسكے ...قول خداوند متعال'' ليبلوكم ايّكم احسن عملاً'' يعنى خداوند متعال نے انسانوں كوخلق فرمايا تا كہ اپنى عبادت اور طاعت كے ذريعے ان كا امتحان لے ، نہ اسوجہ سے كہ وہ ان كے حالات سے آگاہى حاصل كرے كيونكہ وہ ازل سے تمام موجودات كے حالات سے واقف تھا اور ہے

۱۵_قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان الله قدّر مقادير الخلايق قبل ا ن يخلق السموات والارض بخمسين ا لف سنة و كان عرشه على الماء (۱) رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حديث ہے كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا خداوند متعال نے آسمانوں اور زمين كى خلقت سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوقات كے مقدرات كو معين كيا جبكہ اسوقت خداتعالى كا عرش پانى پر تھا_

۱۶_عن محمد بن مسلم قال : قال لى ا بوجعفر عليه‌السلام : كان كل شيء ماء اً و كان عرشه على الماء ، فأمر الله عزّ ذكره الماء فاضطرم ناراً ثم ا مر النار فخمدت فارتفعت من خمودها دخان فخلق الله عزوجل السموات من ذلك الدخان و خلق الله عزوجل الارض من الرّماد ...(۲) محمد بن مسلم نقل كرتے ہيں كہ امام باقرعليه‌السلام نے فرمايا: تمام چيزيں پانى تھيں ، اور خداوند عزوجل كا عرش پانى پر مستقر تھا پھر خدا عزوّجل كے حكم سے وہ پانى آگ ميں تبديل ہوگيا پھر آگ كو حكم ديا ك بجھ جا وہ و بجھ گئي پھر اس آگ كے بجھنے سے دھواں اٹھا تو خداوند عالم نے آسمانوں كو اس دھواں سے خلق كيا اور اس كى خاكستر سے زمين كو خلق كيا_

۱۷_ ''عن على ابن الحسين عليه‌السلام قال : ان الله عزوجل خلق العرش من ا نوار مختلفة فمن ذلك النور نور ا خضر و نور ا صفر و نور ا حمر ...و نور ا بيض ''(۳) امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے : حضرتعليه‌السلام نے فرمايا : بے شك خداوند عزوجل نے عرش كو مختلف انوار سے خلق فرمايا ان انوار ميں سبز، زرد، سرخ اور سفيد نور تھا_

۱۸_عن على عليه‌السلام ... خلق الله عرشه من نوره و

____________________

۱) الدرالمنثور ج/۴ ص ۴۰۳_

۲) كافى ج/۸ ص ۱۵۳ ، ج/ ۱۴۲ ، تفسير برہان ج/ ۲ ص ۲۰۷ ، ح ۴_

۳) توحيد صدوق ص ۳۲۶ ح ۱ ، ب ۵۱ ; تفسير برہان ج/ ۲ ص ۲۰۸ ح ۷_

۲۲

جعله على الماء و ذلك قوله : '' و كان عرشه على الماء ...'' (۱) امام علىعليه‌السلام سے روايت ہے كہ حضرتعليه‌السلام نے فرمايا: (خداوند متعال ) نے عرش كو اپنے نور سے خلق فرمايا، اور اسكو پانى پر قرار ديا ...اسى بارے ميں خداوند عزوجل فرماتاہے:'' و كان عرشه على الماء ...''

۱۹_'' عن ابى عبدالله عليه‌السلام '' قال: العرش فى وجه هو جمله الخلق و فى وجه آخر العرش هو العلم الذى اطلع الله عليه انبياء ه و رسوله و حججه ..(۲)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے حضرتعليه‌السلام نے فرمايا: عرش ايك لحاظ سے پورى مخلوق ہے _ دوسرے اعتبار سے عرش ايك ايسا علم ہے كہ جس سے خداوند متعال نے اپنے پيغمبروں ، رسولوں اور اپنى حجتوں كو آگاہ فرماياہے_

۲۰_ رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روايت ہے كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا:الله تبارك و تعالى كا قول ''ليبلوكم ا يكم ا حسن عملاً'' يعنى انكم ا زهد فى الدنيا (۳) الله تبارك و تعالى كا يہ قول كہ تمھيں آزمانا چاہتاہے كہ تم ميں سے كس كا عمل اچھا ہے يعنى دنيا ميں زہد كے اعتبار سے تم ميں سب سے بہتر كون ہے_

۲۱_عن النبى صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انّه تلاهذه الآية '' ليبلوكم ايّكم ا حسن عملاً'' قال: ايّكم ا حسن عقلاً و ا ورع عن محارم الله و ا سرع فى طاعة الله ;(۴)

رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روايت ہے كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس آيت مباركہ كى تلاوت فرمائي''ليبلوكم ايّكم احسن عملاً'' پھر فرمايا خداوند عزوجل تمہيں آزمانا چاہتاہے كہ تم ميں عقل اور محرمات الہى سے اجتناب كرنے ميں سب سے بہتر كون ہے نيز اطاعت خدا ميں سب سے زيادہ سبقت كرنے والا كون ہے_

۲۲_'' عن ا بى عبدالله عليه‌السلام فى قول الله عزوجل ''ليبلوكم ايّكم ا حسن عملاً'' قال : ليس يعنى ا كثر عملاً و لكن ا صوبكم عملاً (۵) امام جعفر صادق عليہ السلام سے قول عزوجل''ليبلوكم ايّكم ا حسن عملاً'' كے بارے ميں روايت ہے كہ حضرتعليه‌السلام نے فرمايا كہ اس سے مراد زيادہ عمل كرنا نہيں بلكہ تمہارا صحيح عمل كرنا مراد ہے_

۲۳_ امير المؤمنينعليه‌السلام سے روايت نقل ہوئي ہے_ حضرت (ع)

____________________

۱) بحار الانوار ج/ ۴۰ ص ۱۹۵ ح ۸۰_۲) معانى الاخبار ص ۲۹ ح ۱ ، بحار الانوا ر ج/۵۵، ص ۲۸ ح ۴۷_۳) مكارم الاخلاق ص ۴۴۷ ; بحار الانوار ج/ ۷۴ ص ۹۳ ، ح/۱_۴) تفسير طبرى جزء ۱۲ ، ص ۵ ; مجمع البيان ج/ ۱۰ ، ص ۴۸۴_۵) كافى ج/ ۲ص ۱۶ ، ح۴ ; نورالثقلين ج/ ۲ ص _۳۴ ، ح۲۲_

۲۳

نے فرمايا: ''ان الله تعالى قد كشف الخلق كشفة لا انه جهل ما اخفوه من مصون اسرارهم و مكنون ضمائرهم و لكن ليبلوهم ايّهم احسن عملاً فيكون الثواب والعقاب بوائ (۱)

بے شك خداوند متعال اپنى مخلوقات كى تمام تر تبديلوں كے حالات سے آگاہ ہوا يہ اس معنى ميں نہيں ہے كہ اس كى مخلوقات جو اسرار و رموز كو مخفى كرتى تھى خداوند عالم اس سے جاہل تھا بلكہ يہ اس معنى ميں ہے كہ انہيں آزمائے تا كہ ان كى جزا و سزا اعمال كے مطابق ہو _

آسمان :آسمانوں كا خالق ۱۰; آسمانوں كا متعدد ہونا ; آسمانوں كى خلقت ۱۶ ; آسمانوں كى خلقت كا تدريجى ہونا ۲ ، ۱۴ ; آسمانوں كى خلقت كا عنصر ۵; آسمانوں كى خلقت كا فلسفہ ۹ ; آسمانوں كى خلقت كى مدت ۲

اعداد :چھ كا عدد ۲

امتحان :امتحان كا وسيلہ ۱۴ ; امتحان كا فلسفہ ۲۰ ، ۲۳

انسان:انسان مرنے كے بعد ۱۰ ; انسانوں كا آخرت ميں محشور ہونا ۱۰; انسانوں كا امتحان ۷، ۱۳ ; انسانوں كى خلقت كا فلسفہ ۱۴; انسانوں كے امتحان كا فلسفہ ۸ ، ۱۴ ; كامل انسان كى پيدائش كا سبب ۸ ، ۹

پانى :پانى كى خلقت كا وقت ۲۰ ; پانى كے فوائد ۵

خدا:خداوند متعال كى حاكميت۶ ; خداوند متعال كى خالقيت ۱; خداوند متعال كے امتحانات ۷،۸،۱۳; خداوند متعال كے مقدرات ۱۵

خلقت :عالم خلقت كا حاكم ۶

ياد دہاني:آخرت كى زندگى كى ياد آورى ۱۱ ; قيامت كى ياد دہانى ۱۱

خلق فرمايا:آسمانوں سے پہلے كى خلقت ۴; زمين سے پہلے كى خلقت ۴

روايت: ۱۴ ، ۱۵ ، ۱۶ ، ۱۷ ، ۱۸ ، ۱۹ ، ۲۰ ، ۲۱ ، ۲۲ ، ۲۳

زمين :زمين كا خالق ۱ ; زمين كى خلقت ۱۶ ; زمين كى خلقت تدريجاً ہے ۲ ، ۱۴ ; زمين كى خلقت كا عنصر ۵ ; زمين كى خلقت كا فلسفہ ۹ ; زمين كى خلقت كى مدت ۲

____________________

۱) نہج البلاغہ خطبہ ۱۴۴ ; نورالثقلين ج/ ۲ ص ۳۴۰ ، ح ۲۳_

۲۴

عرش:عرش خدا اور پاني۱۵ ، ۱۸ ; عرش سے مراد ۱۹;عرش كى خلقت ۱۷ ، ۱۸

قيامت :قيامت كا كردار۱۳;قيامت كو جھٹلانے والے ۱۲

كفار:كفار اور قيامت ۱۲;كفار كى تہمتيں ۱۲ ;كفار كى فكر۱۲

محسنين:نيكى كرنے والوں سے مراد ۲۰ ، ۱ ۲ ، ۲۲ ;نيكى كرنے والوں كے وجود كا سبب ۸ ، ۹

محمد مصطفىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جادوگرى كى تہمت ۱۲ ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت ۱۱

مردہ :مردوں كو آخرت ميں زندہ كرنا ۱۰

آیت ۸

( وَلَئِنْ أَخَّرْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ إِلَى أُمَّةٍ مَّعْدُودَةٍ لَّيَقُولُنَّ مَا يَحْبِسُهُ أَلاَ يَوْمَ يَأْتِيهِمْ لَيْسَ مَصْرُوفاً عَنْهُمْ وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُواْ بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ )

اور اگر ہم ان كے عذاب كو ايك معينہ مدت كيلئے ٹال ديں تو طنز كريں گے كہ عذاب كو كس چيز نے روك ليا ہے _آگاہ ہوجائو كہ جس دن عذاب آجائے گا تو پھر پلٹنے والا نہيں ہے اور پھر وہ عذاب ان كو ہر طرف سے گھير لے گا جس كا يہ مذاق اڑارہے تھے(۸)

۱_ وہ لوگ جو قرآن ، رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قيامت كے منكر ہيں وہ دنيوى عذاب كے مستحق ہيں اور انہيں اس عذاب سے ڈرايا بھى گيا ہے_و لئن ا خرنا عنهم العذاب

جملہ (مايحسبہ ) (كونسى چيز نزول عذاب سے مانع ہے؟) يہ بتاتاہے كہ يہاں عذاب سے مراد دنيا كا عذاب ہے اوريہ جملہ يہ بھى بتاتاہے كہ گذشتہ كفار كو اس عذاب سے ڈرايا گياتھا_

۲_ خدا كے عذاب اور وعيد كا معين وقت تاخير اور ٹلنے كے قابل ہے_

كلمہ تاخير ''اخرنا'' كا مصدر ہے جو كبھى كسى چيزكو بعد والے زمانہ ميں قرار دينے كے معنى ميں آتاہے اور كبھى ٹالنے اور معينہ مدت سے تاخير

۲۵

ميں ڈالنے كے معنى ميں آتاہے مذكورہ عبارت دوسرے معنى كى بنياد پر ہے _ اور جملہ '' ما يحسبہ'' اس معنى كى تاييد كرتاہے_

۳_ كفار كے عذاب ميں تاخير اور اسكا روكنا تھوڑى مدت كے ليے ہوتاہے _لئن ا خرنا عنهم العذاب الى امة معدودة

آيت ميں لفظ ''امة'' كے معنى زمانہ اور وقت كے ہيں _

۴_گذشتہ كفار، عذاب كى تاخير سے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ڈرانے كو بے بنياد سمجھتے اور ان كا مذاق اڑاتے تھے_

لئن ا خرنا ليقولن مايحسبه

''جملہما كانوا به يستهزؤن'' قرينہ ہے كہ جملہ ''ما يحسبہ'' ميں استفہام تمسخر اور مذاق اڑانے كے ليے ہے لہذا''ليقولن'' سے مراد يہ ہے كہ وہ تمسخر وا ستہزا سے پوچھتے ہيں كہ كس چيز نے آنے والے عذاب كو روك ديا ہے؟

۵_ كفار ،عنقريب عذاب الہى ميں گرفتار ہوں گے_الى امة معدودة الا يوم يأتيهم ليس مصروفاً عنهم

( يأتيہم ) ميں فاعل كى ضمير عذاب كى طرف لوٹتى ہے_ اور لفظ '' يوم '' مصروفاً كے ليے ظرف ہے_

۶_كفار پر عذاب نازل ہونے كے بعد اٹھايا نہيں جائے گا_الا يوم ياتيهم ليس مصروفاًعنهم

۷_ الله كا عذاب كفار كو گھيرلے گا_الا يوم ياتيهم و حاق بهم ما كانوا به يستهزون

( حاق بہم) كا جملہ ( ليس مصروفا) كے جملے پر عطف ہے اور جملہ ''ياتيہم'' كے قرينہ كى بنا (حاق) كا لفظ جو فعل ماضى ہے _ مضارع (يحيق) كے معنى ميں ہے ( يعنى گھير لے گا ) اور (ماكانوا ) سے مراد عذاب الہى ہے _

۸_ كفا ر،جب عذاب الہى كے روبرو ہوں گے تو اس سے اپنے آپ كو نجات نہيں دے سكيں گے _

و حاق بهم ما كانوا به يستهزؤن

'' ليس مصروفاً عنہم'' كا جملہ يہ بتاتاہے كہ كفار سے عذاب كو اٹھايا نہيں جائے گا اور (حاق بہم ...) كا جملہ اس معنى كو بتاتاہے كہ وہ خود بھى اس عذاب سے فرار نہيں كرسكتے ہيں _

۹_ پيغمبروں كى طرف سے كيے گئے عذاب كے وعدوں كا كفار ہميشہ مذاق اڑايا كرتے تھے_

و حاق بهم ما كانوا به يستهزء ون

انبياء :انبياء عليہم السلام كا مذاق اڑانے والے ۹; پيغمبروں كے عذاب سے ڈرانے كا مذاق۹

۲۶

خدا:خداوند متعال كا عذاب گھيرلينے والا ہے ۷; خداوند متعال كے عذاب ۵ ،۶; خداوند عالم كے عذاب كے وعدوں كا مذاق ۹; خداوند متعال كے وعدہ عذاب ميں تاخير۲ ; عذاب الہى ميں تأخير ۲

عذاب:اہل عذاب ۱; دنيا كے عذاب سے ڈرانا ۱

قرآن:قرآن مجيد كے منكرين ۱

قيامت :قيامت كے منكرين ۱

كفار:كافروں كا عذاب حتمى ہونا ۵ ، ۸; كافروں كا عذاب ۷ ;كافروں كا مذاق اڑانا۴ ، ۹;كافروں كو دھمكى ۱ ; كفار اور حضرت محمد مصطفىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۴ ; كفار عذاب الہى كے وقت ۸۰ ;كفار كا عاجز ہونا ۸ ; كفار كى خصوصيات ۹; كفار كى فكر۴ ; كفار كے عذاب كا ہميشہ ہونا ۶ ; كفار كے عذاب ميں تأخير ۳

محمد مصطفىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا مذاق اڑانے والے ۴; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى دھمكيوں كا مسخرہ كرنے والے۴ ; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كے ;منكر

آیت ۹

( وَلَئِنْ أَذَقْنَا الإِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنَاهَا مِنْهُ إِنَّهُ لَيَؤُوسٌ كَفُورٌ )

اور اگر ہم انسان كو رحمت دے كرچھين ليتے ہيں تو مايوس ہوجاتا ہے اور كفر كرنے لگتا ہے (۹)

۱_ انسانوں كو نعمتيں عطا كرنا اور ان كا واپس لے لينا يہ خداوند متعال كے ہاتھ اور اختيار ميں ہے _

و لئن ا ذقنا الانسن منا رحمة ثم نزعنها منه

۲ _ انسان جب دنيا كى آسائشوں اور خدا كى نعمتوں كو اپنے ہاتھوں سے گنوا ديتاہے _ تو خداوند متعال كى رحمتوں سے نا اميد اور كائنات ميں خداوندعالم كى تدبير كا منكر ہوجاتاہے_و لئن ا ذقنا الانسان انه ليؤس كفور

ممكن ہے كہ لفظ''كفور'' كفر سے نكلا ہو جو انكار كے معنى ميں ہے_ اس صورت ميں جملہ (انّہ ...كفوراً ...)اس بات كى طرف اشارہ كررہاہے كہ نعمتيں ملنے اور ان كے سلب ہوجانے كے بعدتو انسان يہ خيال كرتاہے كہ عالم كائنات ميں جو تغير و تبديلى رونما ہوتى ہے وہ خداوند متعال كے ہاتھ ميں نہيں ہے بلكہ اس كے اختيار سے

۲۷

خارج ہے _

۳ _ خداوند عالم، انسانوں كو نعمتيں دے كر اور كبھى نعمتوں كو چھين كر ان كا امتحان ليتاہے_

ليبلوكم ايّكم ا حسن عملاً و لئن ا ذقنا الانسن منا رحمة ثم نزّعنها منه

۴_ خداوند متعال كى نعمتيں ،لوگوں كے ليے اسكى رحمت كا جلوہ ہيں _و لئن اذقنا الانسان منا رحمة

اس آيت ميں (رحمت) كے لفظ سے نعمت كا معنى استخراج كيا گيا ہے_

۵_ انسان جن نعمتوں كا حامل ہے ان سے شديد محبت كرتاہے_ثم نزعنها منه

''نزع'' كا معنى اكھاڑنا كے ہيں اس لفظ كا سلب نعمت ميں استعمال،اس بات كو سمجھا تاہے كہ انسان دنياوى نعمتوں سے بہت محبت كرتاہے _

۶_ انسان اپنى جان و روح كے لحاظ ايك ضعيف اور عاجز مخلوق ہے_

و لئن ا ذقنا الانسان منا رحمة ثم نزعناها منه انه ليئوس كفور

(ا ذقنا ) كا لفظ لغوى اعتبار سے (ذوق ) سے ہے جو ذائقہ كو سمجھنے كے ليے غذا كے چكھنے كے معنى ميں ہے _قرآن مجيد نے نعمت كى عطا كو غذا كا مزہ چكھنے سے تشبہہ دى ہے تا كہ اس نكتہ كى طرف اشارہ كرے كہ انسان ،روح و جان كے اعتبار سے ايك ضعيف مخلوق ہے _ اتنا ضعيف ہے كہ دنيا كى معمولى سى نعمت كو جب پالينے كے بعد ہاتھ سے دے بيٹھتاہے تو خود كو سنبھال نہيں سكتا آخر كار كفر اور ناشكرى طرف چلا جاتاہے_

۷_ انسان كو چاہيے كہ ہميشہ خواہ محتاج ہو يا بے نياز خداوند عزوجل كا شكر گزار رہے_

و لئن اذقنا الانسان منا رحمة انه ليئوس كفور

۸_ مشكلات ميں گھرنے اور وسائل وامكانات كو ہاتھ سے دے دينے كے بعد بھى انسان ،رحمت الہى كا اميدوار ہونا چاہيئےثم نزعنها منه انه ليئوس كفور

امتحان :امتحان كا آلة ۳ ; سلب نعمت كے ذريعہ امتحان ۳; نعمت دے كر امتحان لينا۳

اميد ركھنا :خداوند متعال كى رحمت پر اميد ركھنا ۸ ; پريشانيوں ميں اميد ركھنا ۸ ; غربت و تنگدستى ميں اميد ركھنا ۸; خداوند متعال سے اميدوار رہنے كى اہميت ۹_

انسان:انسان كا امتحان ۳ ; انسان نعمت كے سلب ہونے

۲۸

كے وقت ۲ ; انسان كا اثر قبول كرنا ۲۰ ; انسان كے وظائف۷ ; انسان كى صفات ۲ ، ۵ ، ۶ ; انسان كى كمزورى ۶ ; انسان كى دلبستگى ۵

خدا:خداوند غزوجل كے اختيارات ۱ ; خداوند متعال كى آزمائش ۳ ; خدا كى ربوبيت كا جھٹلانا ۲ ; خداوند متعال كى رحمت كى نشانياں ۴ ; خداوند متعال كى نعمتيں ۴

شكر:بے نيازى ميں شكر ۷; ;دائمى شكر ۷; شكر كرنے كي اہميت ۷ ;غربت و تنگدستى ميں شكر ۷

لو لگانا :دنياوى آسائشوں سے دل لگانا۵ ; نعمت الہى سے دل لگانا۵

نعمت:نعمت كا سبب ۱;نعمت كے چھن جانے كا سبب ۱

نااميدي:خداوند متعال كى رحمت سے نااميدى ۲;نااُميدى كے اسباب ۲

آیت ۱۰

( وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ نَعْمَاء بَعْدَ ضَرَّاء مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ ذَهَبَ السَّيِّئَاتُ عَنِّي إِنَّهُ لَفَرِحٌ فَخُورٌ )

اور اگر تكليف پہنچنے كے بعد نعمت اور آرام كا مزہ چكھا ديتے ہيں تو كہتا ہے كہ اب تو ہمارى سارى برائياں چلى گئيں اور وہ خوش ہوكر اكڑنے لگتا ہے (۱۰)

۱_ خداوند متعال ، انسانوں كو دنيا كى نعمتيں عطا كرنے والا ہے _و لئن ا ذقنه نعماء

(نعما) نعمت كے معنى ميں ہے _ اس لفظ كو اسوجہ سے يہاں لايا گيا ہے كيونكہ لفظ (ضرائ) كے ہم وزن ہے _

۲ _ انسان جب عيش و آرام كے عالم ميں ہوتاہے تو اپنے كو سختيوں اور پريشانيوں سے محفوظ سمجھتاہے_

و لئن ا ذقنه نعماء بعد ضرّاء مسته ليقولنّ ذهب السيئات عني

(لئن ا ذقنه ) كا جملہ مشكلات كے برطرف ہونے پر دلالت كرتاہے اس بناء پر جملہ ''ذہب

۲۹

السيئات عني'' (رنج و الم مجھ سے دور ہوگئے) جن كے كہنے اور اس پر اعتقاد ركھنے كى وجہ سے انسان كى مذمت كى گئي ہے كا مفہوم كچھ اور ہے اور وہ يہ ہے كہ مشكلات و پريشانيوں ميں دوبارہ گرفتار نہ ہونے كا خيال ہے_

۳ _ انسان مشكلات كے برطرف ہونے كے بعد اور دنياوى نعمتوں كے ملنے پر بہت ہى خوشى كا اظہار كرتاہے جس سے وہ تكبر اور فخر كرنے لگتاہے _و لئن اذقنه نعماء بعد ضرّاء مسته ليقولن ذهب السيئات عني

جملہ '' انہ لفرح فخور '' جملہ مستا نفہ ہے_ يہ اس معنى كو منعكس كرتاہے_ جو ( ليقولنَّ ...) كے جملے سے حاصل ہوتاہے _ يعنى انسان خيال كرتاہے كہ وہ مشكلات ميں دوبارہ مبتلا نہيں ہو گا _ لہذاوہ بہت ہى خوشحال اور فخر كرنے لگتاہے_

۴ _عيش و آرام پانے كے بعد غرور ، تكبر، زيادہ خوش ہونا برے صفات ميں سے اور اس كى مذمت كى گئي ہے_

و لئن اذقنه نعماء بعد ضرّاء مسته ليقولن ذهب السيئات عني

بعد كى آيت (الا الذين ...)اس معنى كو سمجھا رہى ہے كہ قرآن كا مقصد ،انسان كى اس صفت كو بيان كرنے كا فقط خبر دينا نہيں ہے بلكہ در حقيقت اس انسان كى مذمت كرنامقصود ہے جس ميں يہ صفت پائي جاتى ہو_

۵ _ انسان كى زندگى ميں كبھى مشكلات و پريشانياں اور كبھى آرام و آسائش ہے _و لطن اذقنه ، نعماً بعد فتراء سته

'' ضرائ'' مشكل اور دكھ كے معنى ميں ہے اور مشكلات و پريشانيوں ميں گرفتارہونے والے كے ليے لفظ ( مس) كو استعمال كيا گيا ہے _ اس سے يہ اشارہ ملتاہے كہ معمولاً مشكلات و پريشانياں ہميشہ نہيں رہتى اور نعمتوں كے عطا كو چھكنے سے تعبير كيا گيا ہے اس سے يہ بتانا چاہتے ہيں كہ يہ دنياوى نعمتيں جلدى ختم ہونے والى ہيں _

۶_ انسان كے روحى اورنفسياتى جسمانى حالات ( نااميد ہونا ، بہت زيادہ خوشحال ہونا ، تكبر ) و غيرہ تھوڑى سى ہى پريشانى اور آسائش سے تبديل ہوجاتے ہيں _و لئن ا ذقنا الانسن انّه ليئوس كفور و لئن ا ذقنه نعما انه لفرح فخور

آسائش :آسائش ہميشہ كے ليے نہيں ۵

اخلاق :اخلاقى برائياں ۴

انسان:انسان آسائش كے وقت ۲ ; انسان خوش گذرانى كے وقت ۲ ; انسان كا اثر قبول كرنا ۶ انسان كا تكبر ۶ ; انسان كے حالات ۲ ،۳

۳۰

پريشانى :پريشانى كے دور ہونے كے آثار ۳ ; پريشانيوں سے اپنے كو محفوظ خيال كرنا ۲ ; مشكلات اور پريشانيوں كا ناپائيدار ہون

تكبر:تكبر كى مذمت ۴ ; تكبر كے اسباب ۳

خدا :خداوند متعال كى بخشش ۱ ; خداوند متعال كى نعمتيں ۱

خوشي:خوشى ميں افراط; خوشى ميں افراط كى مدمت ۴;

رفاہ:رفاہ كے آثار ۳; رفاہ كى ناپائيداري

فخر و مباہات :فخر كرنے كى مذمت ۴ ; فخر كرنے كے اسباب ۳

مادى سہوليات:مادى سہوليات كا سرچشمہ

نعمت :نعمت كا سبب ۱

آیت ۱۱

( إِلاَّ الَّذِينَ صَبَرُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أُوْلَـئِكَ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ )

علاوہ ان لوگوں كے جو ايمان لائے ہيں اور انھوں نے نيك اعمال كئے ہيں كہ انكے لئے مغفرت ہے اور بہت بڑا اجر بھى ہے (۱۱)

۱_ صابرين اور اعمال صالح بجالانے والے نعمتوں كے چھن جانے اور تنگدستى ميں مبتلاء ہوجانے كے بعد رحمت خدا سے مايوس ہوتے ہيں اور نہ اس كى تدبير كا انكار كرتے ہيں _انه ليؤس كفور الا الذين صبروا و عملوا لصلحات

۲ _ صابر لوگ ہميشہ نيك اعمال كرنے والے ، اور ہر حال ميں خداوند متعال كو فراموش نہ كرنے والے اور شكر گزار ہيں _

لئن ا ذقنا الانسان منا رحمة انه ليئوس كفور الا الذين صبروا

مذكورہ مطلب اس احتمال كى بناء پر ہے كہ كفور اس كفران سے ہے جو ناشكر ے كے معنى ميں ہے _

۳۱

۳_ صابرين جو نيك اعمال انجام دينے والے ہيں دنياوى نعمتوں اور عيش و آرام پاجانے كے بعد بھى تكبر اور غرور كرتے ہيں اور نہ خوشحال ہوتے ہيں _انه لفرح فخور ، الا الذين صبروا و عملو ا الصلحات

۴ _ مشكلات اورپريشانيوں ميں صبر و شكيبائي كى ضرورت ہے اسى طرح كبھى عيش و آرام ميں بھى ہے_

لئن ا ذقنا الانسان منا رحمة الا الذين صبروا

۵_ جس طرح عيش و آرام ميں نيك كاموں كو انجام دينے كى ضرورت ہے _ اسى طرح مشكلات و پريشانيوں اور رنج و الم ميں گرفتار ہوجانے كے بعدبھى _لئن اذقنا الانسان منا رحمة ثم نزعنها منه انه ليؤس كفور الا الذين صبروا و عملوا الصالحات

۶_ اچھے كاموں كو بجالانا اور صبر كرنا انسان كى روح كو تقويت بخشتاہے اور روحى و نفسياتى لغزشوں سے نجات ديتاہے _

انه ليئوس كفور انه لفرح فخور ، الا الذين صبروا و عملوا لاصالحات

آيت ۹ ، ۱۰ ميں ارشاد ہوتاہے كہ انسان تھوڑى سى آسائش اور سختى ميں لڑكھڑا جاتاہے_ اور خود كو كھو ديتاہے مذكورہ آيت ميں اس خصلت سے ان كو استثناء كيا گيا ہے جولوگ صبر كرتے ہيں اور اچھے كام بجا لاتے ہيں _

۷_ خداوند متعال كى آزمائش ميں كاميابى ، نيك كاموں كو انجام دينے اور صبر كرنے ميں ہے _

ليبلوكم اتكم احسن عملاً لئن ا ذقنا الانسان الا الذين صبروا و عملو الصالحات

۸_ صبر پيشہ ہونا بھى نيك كاموں كے سبب ہے _الا الذين صبروا و عملوا الصالحات

۹_ صابر لوگ جو نيك اعمال كرتے ہيں وہ خداوند متعال كى مغفرت سے بہرہ مند ہوتے ہيں _ اور ان كے گناہ بخشے جاتے ہيں _اولئك لهم مغفرة

۱۰_ وہ لوگ جو صبر كرتے ہيں اور نيك اعمال انجام ديتے ہيں بڑے اجر الہى (جنت ) كے مستحق ہيں _

اولئك لهم مغفرة و ا جر كبير

۱۱ _ بڑا اجر الہى ( جنّت) گناہوں كى بخشش كے سبب سے حاصل ہوتاہے_اولئك لهم مغفرة و اجر كبير

لفظ''مغفرت'' كو''ا جركبير'' پر مقدم كرنے كا مقصد يہ ہوسكتاہے كہ عظيم اجر خداوندى كا حصول

۳۲

اورجنت ميں داخل ہونا گناہوں كى بخشش كے مرہون منت ہے _

آسائش :آسائش ميں صبر كى اہميت ۴

اجر :آخرت كا اجر ۱۱ ; اجر كے مرتبے ۱۰ ، ۱۱ ; اجر كے اسباب ۱۱

استقامت :استقامت كے اسباب ۶

اطمينان :اطمينان كے عوامل ۶

امتحان :امتحان ميں كاميابى كے عوامل ۷

اہل ذكر :بخشش:بخشش كے آثار ۱۱ ; بخشش كے مستحقين ۹

پريشانى :پريشانى سے نجات كے اسباب ۶

جنّت :اجر جنت : ۱۰؛ اجر جنت كے اسباب ۱۱؛ اہل بہشت : ۱۰

خدا:خداوند متعال كے امتحان ۷ ; خداوند متعال كے اجر ۱۰ ، ۱۱

سہولتيں :سہولتوں ميں صبر كى اہميت ۴

شكر كرنے والے : ۲

صالحين :صالحين كى بخشش ۹ ; صالحين كا ايمان ۱ ; صالحين كا اجر اخروى ۱۰ ; صالحين ہميشہ ذكر الہى ميں ۲ ; صالحين ہميشہ شكر گزارى ميں ۲

صبر:صبر كے آثار ۶،۷ ; صبر كے اثرا نداز ہونے كا سبب ۸

نيك اعمال :نيك عمل كرنے والے دنيا كى نعمتوں ميں ۵ ; نيك عمل كرنےوالے سہولت ميں ۵ ; نيك عمل كرنے والے مشكل ميں ۵; نيك اعمال كے آثار ۶ ، ۷ ; نيك عمل كى اہميت ۵ ;

صبر كرنے والے :

۳۳

صابرين آسائش كے وقت ۳ ;صابرين اور اظہار فكر ;صابرين اور تكبر ; صابرين اور خوشى ۳ ; صابرين اور غربت۱; صابرين سہولت كے وقت ۳ ;صابرين كى خصوصيات ۱ ، ۲ ،۳; صابرين نعمت كے چلے جانے پر ۱ ; صبر كرنے والوں كى بخشش ۹ ; صبر كرنے والے ہميشہ شكر الہى ميں ۲ ; صبر كرنے والے ہميشہ ذكر الہى ميں ۲

فكرى تقويت:فكريتقويت كے اسبا ب۶

مشكل :مشكل ميں صبر كى اہميت ۴

آیت ۱۲

( فَلَعَلَّكَ تَارِكٌ بَعْضَ مَا يُوحَى إِلَيْكَ وَضَآئِقٌ بِهِ صَدْرُكَ أَن يَقُولُواْ لَوْلاَ أُنزِلَ عَلَيْهِ كَنزٌ أَوْ جَاء مَعَهُ مَلَكٌ إِنَّمَا أَنتَ نَذِيرٌ وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ )

پس كيا تم ہمارى وحى كے بعض حصوں كو اس لئے ترك كرنے والے ہو يا اس سے تمہارا سينہ اس لئے تنگ ہوا ہے كہ يہ لوگ كہيں گے كہ ان كے اوپر خزانہ كيوں نہيں نازل ہوايا ان كے ساتھ ملك كيوں نہيں آيا _ تو آپ صرف عذاب الہى سے ڈرانے والے ہيں اور اللہ ہر شے كا نگراں اور ذمہ دار ہے(۱۲)

۱ _ قيامت كے ذكر كے سبب مشركين جناب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تكذيب كرتے تھے اور اپنے غير معقول مشورہ سے پيغمبر كو بعض آيات كے ترك كرنے اور ابلاغنہ كرنے كے خطراتميں ڈال ديتے تھے_

فلعلك تارك بعض ما يوحى اليك و ضائق به صدرك ان يقولوا لو لا انزل عليه كنز

يہ بات واضح ہے كہ وہ خوف و شك جو لفظ (لعلّ) سے ظاہر ہورہاہے _وہ متكلم ( خداوند ) نہيں ہے _ بلكہ وہ مخاطب (جناب رسالت مآب) كے شك و ترديد كو بيان كرتاہے _ يا اس خاص مورد كى طرف اشارہ ہے كہ جہاں ہو انسان بعض آيات كے ترك كرنے كو بعيد نہيں سمجھتا لہذا ''لعلك تارك ...'' اس معنى كو سمجھا رہاہے كہ پيغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كچھ ايسے ہى حادث سے دوچار تھے كہ جس ميں يہ احتمال اور خوف تھا كہ جہاں پيغمبر بعض آيات كے ابلاغ ميں شك و ترديد ميں پڑجائيں اور عارضى طورسے مصلحت يہ سمجھيں كہ ان آيات كو نہيں ہوتى كہ كچھ آيات كو ابلاغ نہ كرے

۳۴

(لعلك تارك ...) يہ بتاتاہے كہ پيغمبر اس وقت تك ابلاغ نہ كريں جب تك حالات سازگار نہ ہو جائيں جملہ (ا ن يقولوا ...) ميں لام تاكيد اور لا نافيہ مقدر ہيں _ يعنى اصل ميں(لان لا يقولوا ...) ہے_ يہ جملہ ان اسباب كى طرف اشارہ كرتاہے جو خوف و خطر كا سبب بنے ہيں _لعلك تارك كو ساتويں آيت پر تفريع كرنا اس بات كو سمجھاتاہے كہ قيامت كا جھٹلانا بھى ان خوف و خطر كے اسباب كو مہيا كرنے ميں موثر ہو_

۲_ پيغمبر اسلام كى يہ ذمہ دارى تھى _ كہ جن احكام اور معارف الہى كى خداوند متعال كى طرف سے وحى كى گئي ہے_ ان كو لوگوں تك پہنچائے _ اگر چہ بعض احكام كے بيان سے لوگوں كى مخالفت اور محاذ آرائي كا سامنا بھى كيوں نہ كرنا پڑے _

ان هذا الا سحر مبين فعلك تارك بعض ما يوحى اليك

۳_ قرآن مجيد كى كچھ آيات كے ابلاغ كو ترك كرنے كا خيال پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ليے اور پريشانى اور غم كا سبب بنتا تھا_فعلك تارك بعض ما يوحى اليك و ضائق به صدرك

مذكورہ معنى اسوقت ليا جاسكتاہے_ كہ جب جملہ (وضائق بہ صدرك) كو حاليہ قرار ديں _ اور(بہ) ميں ضمير كا مرجع ( ترك ابلاغ ) ہو جو جملہ ( لعلّك تارك ...) سے حاصل ہوتاہے _ اور اس كى طرف اس ضمير كو لوٹا يا گيا ہے _ يعنى اگر اس طر ح كے حالات پيدا ہوجائيں كہ ( اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) تم كچھ آيات الہى كو ابلاغ كرنے ميں شك و ترديد ميں پڑجاو اور اس ترك ابلاغ كے خيار كو ذہن ميں دھراتے رہو تو يہ خيال آپ ہى كو پريشان ميں ڈال دے گا_

۴ _ مبلغ دين كى ذمہ دارى ہے كہ تمام قوانين اسلام اور معارف دين لوگوں كے ليے بيان كريں اور ان ميں سے كچھ بھى پنہان نہ كريں _فلعلّك تارك بعض ما يوحى اليك

۵ _ بعض معارف اسلام اور احكام دين سے لوگوں كا وحشت زدہ اور اپنى قبول كرنے كے مواقع كا فراہم نہ ہونا يہ ديل نہيں بنتا كہ ان كا تبليغ نہ كى جائے_ان هذا الا سحر مبين فعلك تارك بعض ما يوحى اليك

۶_ قرآنى آيات وہ حقائق ہيں جو وحى كے ذريعہ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر

۳۵

نازل ہوتى تھيں _فلعلك تارك بعض ما يوحى اليك

۷_ مشركين كے ليے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كے برحق ہونے كى دليل يہ تھى _ كہ معجزہ كے طور پر(خداوند متعال كى طرف سے) كوئي خزانہ اور مال كثير ان پرنازل ہو_ان يقولوا لو لا انزل عليه كنزٌ

۸_ مشركين كاآنحضرت كے برحق ہونے پر اطمينان حاصل كرنے كے ليے يہ مطالبہ تھا كہ پيغمبر اسلام كے ساتھ فرشتہ نازل ہو جو ہميشہ ان كے ساتھ رہے_ان يقولوا لو لا جاء معه ملك

۹_ مشركين كے بے جا مطالبات اور معجزات دكھانے كى خواہشات آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پريشانى و غم كا سبب بنتى تھيں _

و ضائق به صدرك ان يقولوا لو لا ا نزل عليه كنز ا و جاء معه ملك

مذكورہ مطلب اس صورت ميں آيت سے حاصل كيا جاسكتاہے جب (بہ ) كى ضمير( ا ن يقولوا ...) كى طرف پلٹے ، دوسرے الفاظ ميں( ان يقولوا ...) كا جملہ ضمير ( بہ ) كا بدل ہو _ يعنى اس طرح جملہ ہوگا ''و ضائق صدرك بان يقولوا ...''

۱۰_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى يہ ہے كہ احكام الہى اور معارف دين كو لوگوں تك پہنچائے اور ان كو (عذاب الہى ) سے ڈرائے نہ يہ كہ ان كى بے تكى خواہشات كو پورا كرے _انما انت نذير

۱۱_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تبليغ اور خوف خدا دلانے كے بعد لوگوں كے اعمال اور انكے كفر كے ذمہ دار نہيں ہيں _

انما ا نت نذير

جملہ ( انّما ا نت نذير) ميں جو لفظ انما سے حصر كيا گيا ہے_يہ حصر اضافى ہے _ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى كو بتاتاہے _

۱۲_ خداوند متعال تمام چيزوں كا نگہبان اور مدبر ہے_والله على كل شيء وكيل

(وكيل ) اسكو كہتے ہيں جو دوسروں كے كام كو اپنے ذمہ ليے ہوئے ہو _ اور چونكہ آيت كريمہ ميں لفظ( على ) كے ذريعے سے متعدى ہواہے_ اس وجہ سے حفاظت اور نگہبانى كا معنى اس ميں مضمر ہے _ اسى وجہ سے جملہ ( والله علي ...) كا اشارہ اس معنى كى طرف ہے _ كہ خداوند متعال لوگوں كے تمام امور ميں ان كا حافظ اور نگہبان ہے_

۱۳ _ معجزہ دكھانا اور لوگوں كے مطالبات اور ان كے تقاضوں كو پورا كرنا خداوند عالم كے اختيار ميں ہے نہ كے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہاتھ ميں ہے_انّما ا نت نذير والله على كل شيء وكيل

۳۶

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۹

اسماء و صفات :وكيل ۱۲

امور:مدبر الامور۱۲

ايمان :حضرت محمد مصطفى پر ايمان ۷

تبليغ :تبليغ نقض كى پہچان ۴ ، ۵ ; تبليغ اور لوگوں كا خوف ۵; تبليغ كے شرائط ۴ ، ۵

خدا:افعال خداوند ۱۲ ; خداوند متعال كا پالنے والا ہونا ۱۲ ; خداوند متعال كى شان و شوكت ۱۳ ; خداوند متعال كا محافظ ہونا ۱۲

دين :تبليغ دين كى اہميت ۱۲ ; دين كى تبليغ ۴ ، ۵ ،۱۰

قرآن :قرآن مجيد كا وحى ہونا ۶

مبلغين :مبلغين كا فريضہ ۴

محمد مصطفى (صلى الله عليہ و آلہ و سلم ):رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا ڈرانا ۱۰ ، رسالت مآب كى تبليغ ۱۰ ; رسالت مآب كے غم زدہ ہونے كے اسباب ۳ ، ۹ ، رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا دائرہ اختيار ۱۳ ; رسالت مآب كى ذمہ دارى كا دائرہ ۱۱ ; رسالت مآب اور وحى كا پہنچانا ۱ ، ۲ ۸ ۳ ; رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارياں ۲ ، ۱۰ ، رسالت مآب پر خزانے كا نازل ہونا ۷ ; رسالت مآب پر وحى ں نازل ہونا۶

مشركين :مشركين كى بے تكى خواہشات ۱ ، ۸ ، ۹ ; مشركين اور قيامت كا جھٹلانا ۱ ; مشركين اور رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۱ ، ۷ ، ۸ ،۹ ; مشركين اور معجزہ ۷ ; مشركين كا خواہشات معجزہ ۷ ، ۹

معجزہ :خواہشاتى معجزہ ۸ ، ۱۳ ; معجزے كا سبب ۱۳

ملائكہ :ملائكہ كے نازل ہونے كى درخواست ۸

۳۷

آیت ۱۳

( أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُواْ بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُواْ مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ )

كيا يہ لوگ كہتے ہيں كہ يہ قرآن بند ے نے گڑھ ليا ہے تو كہہ ديجئے كہ اس كے جيسے دس سورہ گڑھ كر تم بھى لے آئو اور اللہ كے علاوہ جس كو چاہو اپنى مدد كے لئے بلالواگر تم اپنى بات ميں سچے ہو(۱۳)

۱_بعثت كے زمانے كے مشركين قرآن مجيد كو بنايا ہوا جھوٹ اور پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اپنى گھڑى ہوئي بات سمجھتے تھے_

ام يقولون ا فترىه

(ا فترائ) جھوٹ گھڑنے كے معنى ميں ہے_ اسكے فاعل كى ضمير پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى طرف لوٹتى ہے_

۲ _ قرآن مجيد نے مشركين كو چيلخ كرتے ہوئے ان سے قرآن جيسے دس سورہ لانے كا مطالبہ كيا اور اپنى مقابلہ كى دعوت دى _ام يقولون افترى ه قل فاتوا بعشر سور مثله

۳_ پروردگار عالم نے انسان كے ليے قرآن مجيد جيسے سورہ لانے كے ليے كوئي قيد و شرط بن لگائي ہے_

فاتوا بعشر سور مثله مفتريات و ادعوا من استعطم

جملہ ( من استطعتم ...) ميں لفظ ''من ''تمام جن و انس عرب و عجم كو شامل ہے _ اور اس سے مراد يہ ہے كہ قرآن كى مثل لانے ہيں كسى محدوديت كو تصور نہيں كيا گيا _

۴ _ خداوند متعال نے ( قرآن كى مثل لانے ميں ) انسانوں كے يہ شرط نہيں لگائي كہ ان مطالب كو ان سورتوں ميں لايا جاتے _ جو حقائق اور واقعيت پر مبنى ہوں _فاتوا بعشر سور مثله مفتريات

آيت ميں '' عشر سورة كى صفت مفتريات (گڑھى ہوئي باتيں ) لانے كا مقصد يہ تھا_ كہ قرآن كے مقابلے ميں جو آيات تم لاؤگے _ اس كے ليے ضرورى نہيں ہے _ كہ ان كے مطالب حقائق اور

۳۸

واقعيت پر مبنى ہوں _ بلكہ فصاحت و بلاغت اور كلام كى ترتيب ميں ہم مثل ہوں _ تو بھى كافى ہے_

۵_مشركين كو قرآن مجيد جيسے سورہ بنانے ميں ہر ايك سے مدد طلب كرنے كى اجازت دى گئي تھى _و ادعوا من استطعتم

۶ _ خداوند متعال نے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو مشركين كے خلاف استدلال كرنا اور ان كے نامناسب دعوؤں كا جواب تعليم فرمايا _ام يقولون افترى ه قل فاتوا

مذكورہ معنى كو لفظ (قُل) سے استفادہ كيا گيا ہے_ جو پيغمبر سے خطاب ہے_

۷_ قرآن كى مثل لانا بھى صرف خدا كے اختيار ميں ہے_وادعوا من استطعتم من دون الله

'' من دون الله '' كے جملے كا معنى يہ نہيں كہ خداوند متعال سے مدد طلب نہ كرو بلكہ وہ ''من استطعتم'' سے عموم كى تاكيد سے ساتھ اس حقيقت كو بيان كررہاہے كہ قرآن جيسالانا صرف خدا كے اختيار ميں ہے _

۸_ رسالت مآب كے زمانے ميں ہى قرآن مجيد كو ''سورة'' كے نام سے مختلف حصوں ميں تقسيم كرديا گيا تھا_

فاتوا بعشر سو مثل

۹_مدعا كا سچ او ر صحيح ثابت كرنا دليل و برہان كا محتاج ہے_قل فاتوا بعشر سور مثله ان كنتم صادقين

'' فاتوا بعشر سور'' حقيقت ميں ''ان كنتم '' كا جواب شرط ہے معنى يہ ہے _ اگر تم اپنے دعوى ميں سچے ہو تو اسى كى مثل دس سورتوں كو لاكر دكھاو_

ادعا:دعوى ميں دليل كى اہميت ۹ ; دعوى كو ثابت كرنے كے شرائط ۹

اعداد:دس كا عدد۲

خدا:خداوند متعال كى خصوصيات ۷; خداوند متعال كى تعليمات ۶

قرآن :تاريخ قرآن مجيد ۸ ; قرآن مجيد كا چيلنج ۲ ;قرآن مجيد كا عمومى چيلنج ۳، ۴ ، ۵ ; قرآن مجيد كى سورہ بندى ۸ ; قرآن مجيد كا صدر اسلام ميں ہونا۸ ; قرآن مجيد اور مشركين ۲ ; قرآن مجيد كى مثل لانا ۲ ، ۳ ، ۴ ، ۵، ۷

۳۹

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :حضرت محمد مصطفىعليه‌السلام كا دليل لانا ۶ ; رسالت مآب پر بہتان ۱ ; رسالت مآب اور مشركين ۶ ; حضرت

مشركين :مشركين كے بے جادعوے ۶ ; صدر اسلام ميں مشركين كى بہتان بازى ۱ ; صدر اسلام كے مشركين اور قرآن ۱; مشركين اور قرآن ۵

آیت ۱۴

( فَإِن لَّمْ يَسْتَجِيبُواْ لَكُمْ فَاعْلَمُواْ أَنَّمَا أُنزِلِ بِعِلْمِ اللّهِ وَأَن لاَّ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ فَهَلْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ )

پھر اگر يہ آپ كى بات قبول نہ كريں تو تم سب سمجھ لو كہ جو كچھ نازل كيا گيا ہے سب خدا كے علم سے ہے اور اس كے علاوہ كوئي خدا نہيں ہے تو كيا اب تم اسلام لانے والے ہو(۱۴)

۱_ تمام انسان اور ان كے جھوٹے خدا قرآن مجيد كى مثل دس سورہ لانے سے عاجز ہيں _

قل فاتوا بعشر سور مثله فالم يستجيوا لكم

'' فہل انتم مسلمون'' كے قرينہ كى وجہ سے لكم اور اعلموا كے مخاطب مشركين ہيں _ اس بناپر ( يستجيبوا ...) كے فاعل كى ضمير (من استطعتم) كى طرف لوٹتى ہے _ اس سے يہ معنى حاصل ہوگا _ كہ اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مشركين سے كہہ دو كہ اگر كوئي حتى تمہارے معبود بھى اپنى ناتوانى كى وجہ سے قرآن كے مثل لانے كے تمہارے تقاضے كو پورا نہيں كرسكے تو

۲ _ قرآن خداوند متعال كى طرف سے كتاب ہے اور اس كے علم كا ايك جلوہ ہے_فاعلموا انّما انزل بعلم الله

۳ _قرآن كا مثل لانے ہيں ہيں مشركين كا عاجز اور ناتوان ہوجانا واضح اور روشن دليل ہے كہ قرآن خداوند متعال كى طرف سے ہے _ اور اس كا سرچشمہ علم خداوند ى ہے _فالّم يستجيبوا لكم فاعلموا ا نما انزل بعلم الله

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945

946

947

948

949

950

951

952

953

954

955

956

957

958

959

960

961

962

963

964

965

966

967

968

969

970

971