تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 4%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 205971 / ڈاؤنلوڈ: 4272
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۸

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

يہاں يہ اس بات كى حكايت كرتا ہے كہ برادران يوسف اس كلام كے مضمون پر اطمينان ركھتے تھے_

احكام :۴برادران يوسف :برادران يوسف اور يعقوبعليه‌السلام ۱، ۲، ۷، ۸; برادران يوسف كا اطمينان ۸;برادران يوسف كا اقرار۵; برادران يوسف كا توجيہ كرنا ۳;برادران يوسف كا جھوٹ بولنا ۱، ۲، ۳، ۸;برادران يوسف كا دعوي ۶;برادران يوسف كا عذر لانا ۳;برادران يوسف كى تہمتيں ۷; برادران يوسف كى سازش ۱، ۲، ۵، ۸

مقابلہ :مقابلے كے احكام ۴

يعقوبعليه‌السلام :يعقوبعليه‌السلام اور برادران يوسف ۶;يعقوب(ع) پر تہمت ۷; يعقوبعليه‌السلام كے دين ميں مقابلے۴

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كا بھيڑيئے كا لقمہ بننا ۳، ۵، ۶; يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۳، ۵، ۶، ۸;يوسف(ع) كى محافظت ميں كمى كرنا۵

آیت ۱۸

( وَجَآؤُوا عَلَى قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْراً فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ )

اور يوسف كے كرتے پر جھوٹا خون لگا كرلے آئے _يعقوب نے كہا كہ يہ بات صرف تمھارے دل نہ گڑھى ہے لہذا ميرا راستہ صبر جميل كاہے اور اللہ تمھارے بيان كے مقابلہ ميں ميرا مددگار ہے (۱۸)

۱_ يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں نے اسكو كنويں ميں ركھنے سے پہلے اس كے بدن سے قميص كو اتار ليا _

و جاء و على قميصه بدم كذب

۲_ برادران يوسف(ع) نے جھوٹ كے خون ( جو اسكا خون نہيں تھا) سے اسكى قميص كو رنگين كرديا_

وجاء و على قميصه بدم كذب

۳_ برادران يوسف(ع) ، يعقوب(ع) كو خون والى قميص دكھاكر اپنےمن گھڑت دعوى كو ثابت كرنا چاہتے تھے_

وجاء و على قميصه بدم كذب

۴_ يوسفعليه‌السلام كى قميص كا خونى ہونا يہ واضح و روشن دليل تھى كہ يوسفعليه‌السلام بھيڑے كا لقمہ نہيں بنے _

وجاء و على قميصه بدم كذب

(بدم ) كا لفظ ( جاءو ) كے ليے مفعول ہے اور ( على قميصہ ) لفظ ( دم ) كے ليے حال ہے _ لہذا (جاوء ...) كا معنى يہ ہوگا كہ وہ جھوٹے خون كو لائے تھے

۴۰۱

حالانكہ وہ خون قميص كے سامنے والے حصہ پر تھا حالانكہ عموماً زخمى ہونے والے كے لباس كا اندر اور استروالا حصہ خونى ہوتا ہے _ ليكن يوسفعليه‌السلام كے لباس كا اوپر والا حصہ خونى تھا اس سے يعقوب عليہ السلام بھانپ گئے كہ انكا بيٹا بھيڑے كا لقمہ نہيں بنے ہيں _

۵_ برادران يوسف نے يوسف(ع) كى قميص كو جس خون سے رنگين كيا تھا اس خون سے بخوبى معلوم ہوتا تھا كہ يہ جناب يوسف(ع) كا خون نہيں ہے _وجاء و على قميصه بدم كذب

(كذب) مصدر ہے ليكن آيت شريفہ ميں اسم فاعل ( كاذب) كے معنى ميں آيا ہے _ جب مصدر كو اسم فاعل كے معنى ميں استعمال كيا جائے تو مبالغہ كا فائدہ ديتا ہے _ تو ( دم كذب) كا معنى يہ ہوگا كہ ايسے جھوٹ كا خون كہ اسكا جھوٹا ہونا واضح اور وشن تھا_

۶_ برادران يوسف نے ان كى قميص جو كہيں سے بھى پھٹيہوئي نہيں تھى كو دكھا ياتو ان كا جھوٹا دعوى ( كہ يوسفعليه‌السلام كوبھيڑيا كھا گيا ہے ) واضح ہوگيا _وجاء و على قميصه بدم كذب

معمولاً جو شخص درندوں كا لقمہ بنتا ہے اسكا لباس صحيح و سالم نہيں رہتا _ اور زيادہ پھٹنے كى وجہ سے وہ لباس كى ماہيت سے خارج ہوجاتا ہے لہذا (قميص) كالفظ آيت ميں ذكر ہوا جسكو برادران يوسف نے يعقوبعليه‌السلام كو دكھا يا يہ اس بات كى طرف اشارہ كرتا ہے كہ يا تو لباس مكمل طور پرصحيح و سالم تھا يا نسبتاً سالم تھا يہ دوسرى دليل ہوئي كہ برادران يوسف اپنے دعوى ميں سچے نہيں ہيں _

۷_ يعقوب عليہ السلام اپنے بيٹوں كى اس قصّہ بيانى كو قبول نہيں كيا اور اس كے جھوٹے ہونے پر مطمئن ہوگئے _

فأكله الذئب قال بل سؤلت لكم انفسكم امر

(تسويل) ''سوّلت ''كا مصدر ہے جو آسان كرنے كے معنى ميں آتا ہے نيز ناپسند شے كو زينت دينا تا كہ اچھى معلوم ہو يہاں ( امر ) سے مراد يوسفعليه‌السلام كے خلاف مكر وفريب ہے اسى وجہ سے (بل سوّلت ...) كا معنى يوں ہوگا جو بات كہہ رہے ہو وہ درست نہيں ہے _ بلكہ تمہارے نفس نے ناپسند شے كو تمہارے ليےاچھا جلوہ ديا ہے اور اسكا مرتكب ہونا تمہارے ليے آسان ہے _

۸_ يعقوب عليہ السلام كو يوسفعليه‌السلام كے خلاف اپنے بيٹوں كى طرف سے سازش كرنے پر اطمينان تھا _بل سؤلت لكم انفسكم امر

۴۰۲

كلمہ (بل) اس بات كو بتاتا ہے كہ يعقوب عليہ السلام نے اپنے بيٹوں كى بات كو قبول نہيں كيا اور (سوّلت لكم ) كا جملہ بتاتا ہے كہ و ہ يوسف عليہ السلام كے خلاف ان كى سازش كو بھانپ گئے تھے_

۹_ يعقوب عليہ السلام حضرت يوسف(ع) كے خلاف اپنے بيٹوں كى سازش كا سبب ان كے نفس كا فريب اور نفسانيمكاريوں كا جلوہ سمجھتے تھے_بل سوّلت لكم انفسكم أمر

۱۰_ انسان كا نفس، بُرے و نامناسب كاموں كو زيبا ديكھانے اور ان كے انجام دلوانے پر قدرت ركھتا ہے _

بل سوّلت لكم انفسكم امر

۱۱_ يعقوب عليہ السلام نے اس بات كا فيصلہ كرليا كہ وہ اپنے بيٹوں كى اس خيانت پر جو يوسفعليه‌السلام كے بارے ميں تھى پر سكوت اختيار كريں اور اسكى چھان بين نہ كريں _بل سوّلت لكم و الله المستعان على ما تصفون

۱۲_ يعقوبعليه‌السلام نے يوسفعليه‌السلام كى جدائي اور اپنے بيٹوں كى غلط رفتار پر صبر و بردبار رہنے كا فيصلہ كرليا _فصبر جميل

ما قبل جملات كے قرينہ كى بناء پر(صبر ) كا متعلق يوسفعليه‌السلام كى جدائي اور ان كے بيٹوں كا جھوٹے قصّوں كى مناظر كشى اور غلط كام ہيں _

۱۳_ مشكلات اور تلخ ترين واقعات ميں صبر و حوصلہ سے كام لينا اچھى اور قابل تعريف خصلت ہے _ /فصبر جميل

مذكورہ تفسير اس صورت ميں ہے كہ جب لفظ (صبر) مبتدا اور (جميل) اسكى خبر ہے _

۱۴_ يعقوب عليہ السلام كا فراق يوسفعليه‌السلام ميں صبر و حوصلہ كرنا، قابل تعريف و تحسين تھا_فصبر جميل

كيونكہ ( جميل) (صبر) كے ليے صفت ہے تو يہاں مبتدا كو محذوف ليا جائے گا ( صبرى صبر جميل) يا خبر كو محذوف ليا جائے گا ( صبر جميل احسن) مذكورہ معنى اسى احتمال كى صورت ميں ہے _

۱۵_حضرت يعقوب(ع) نے حضرت يوسف(ع) كے بارے ميں اپنے بيٹوں كے اظہار نظر كى حقيقت كو معلوم كرنے كے ليئے خداوند عالم سے مدد طلب كي_والله المستعان على ما تصفون

(وصف) ''تصفون ''كا مصدر ہے جو بيان كرنے كے معنى ميں آتا ہے _ لفظ( ما ) سے مراديوسف(ع) كے بھائيوں كى يوسفعليه‌السلام كے بارے ميں جھوٹى باتيں ہيں ان كى غلط اور غير حقيقت باتوں كے بارے ميں خداوند متعال سے مدد طلب كرنے كا معنى يہ ہے كہ ان باتوں كى حقيقت ظاہر ہوجائے _

۴۰۳

۱۶_ يعقوبعليه‌السلام بہت زيادہ صابر اور موحد شخصيت تھے جو صرف خداوند وحدہ لاشريك كو مدد دينے پر قادر سمجھتے تھے _

والله المستعان على ما تصفون

۱۷_ اپنے امور ميں ضرورى ہے كہ صرف خداوند متعال پر توكل كيا جائے اور اس سے مددحاصل كى جائے_

والله المستعان على ما تصفون

(والله المستعان ) كى مثل جملات ميں مبتداء معرفہ اور اسكى خبر الف لام كے ساتھ غير عہدى ہے اور وہ حصر پر دلالت كرتى ہے _

۱۸_ خداوند متعال پر توكل كرنے والے بہت زيادہ صبر اور مقاومت كرنے والے انسان ہيں _

فصبر جميل والله المستعان على تصفون

۱۹_'' عن ا بى عبدالله عليه‌السلام '' قال لما ا وتى بقميص يوسف الى يعقوب كان به نضح من دم (۱)

ترجمہ : امام صادق(ع) سے روايت ہے كہ جب يعقوبعليه‌السلام كے ليے يوسف(ع) كى قميص لائي گئي تو اس پر خون كے چھينٹے گرائے گئے تھے_

۲۰_'' عن ا بى جعفر عليه‌السلام فى قوله '''' و جاؤ وا على قميصه بدم كذب'' قال: انهم ذبحوا جدياً على قميصه _ (۲)

امام باقرعليه‌السلام سے الله تعالى كے اس قول (جاؤ وا ...) كے بارے ميں روايت ہے : آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ انہوں نے بكرى كے بچے كو انكى قميص پر ذبح كيا تھا_

۲۱_'' عن على بن الحسين عليه‌السلام ... قال (يعقوب لهم ) بل سوّلت لكم ا نفسكم ا مراً و ما كان الله ليطعم لحم يوسف الذئب من قبل ا ن ا رى تا ويل رؤياه الصادقة (۳)

امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے يعقوبعليه‌السلام نے برادران يوسف(ع) سے كہا '' بل سوّلت لكم انفسكم امراً'' اور ايسا نہيں ہوسكتا كہ خداوند متعال يوسف عليہ السلام كے گوشت كو بھيڑے كى خوراك بنا دےقبل اس كے كہميں اسكى خواب كى صحيح تعبير و تاويل ديكھ نہ لوں _

۲۲_ '' عن الصادق عليه‌السلام فى قوله عزّوجل فى قول يعقوب '' فصبر جميل '' قال : بلا شكوى (۴)

____________________

۱) تفسير عياشى ، ج ۲، ص۱۷۱، ح۹، نورالثقلين ، ج۲ ص۴۱۷، ج۲۸_۲) تفسير قمى ، ج۱، ص۳۴۱، نورالثقلين ، ج۲، ص۴۱۷، ح۲۷_

۳) تفسير عياشى ، ج۲، ص۱۶۹، ح۵، تفسير برهان ، ج ۲ص ۲۴۷، ح۵_۴) امالى شيخ طوسى ، ج۱، ص۳۰۰، نور الثقلين ، ج۲، ص ۴۵۲، ح۱۴۷_

۴۰۴

امام صادقعليه‌السلام سے حضرت يعقوبعليه‌السلام كے قول كے بارے ميں خداوند عالم كے اس فرمان (فصبر جميل) كے بارے ميں روايت ہے: اس سے مرادايسا صبر جسميں شكوہ نہ ہو _

الله تعالى :الله تعالى كى مختصّات ۱۶; الله تعالى كى امداد ۱۶

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسفعليه‌السلام اور يعقوبعليه‌السلام ۳;برادران يوسف(ع) اور يوسفعليه‌السلام كى قميص۱، ۳;برادران يوسف(ع) كا جھوٹ بولنا ۷; برادران يوسف كا ناپسند عمل ۱۲; برادران يوسف(ع) كى سازش ۱، ۲، ۳، ۵، ۱۵، ۲۰، ۲۱ ; برادران يوسف كى سازش كے عوامل ۹; برادران يوسف كى ہوا و ہوس ۹، ۱۲;برادران يوسف كے جھوٹ بولنے كى وجوہات ۴، ۵، ۶;

توكلّ:الله تعالى پر توكل كى اہميت ۱۷

روايت : ۱۹، ۲۰، ۲۱، ۲۲/شدّت :شدّت ميں صبر۱۳

صابرين :۱۶، ۱۸/صبر:صبر كى اہميت ۱۳; صبر جميل۱۳; صبر جميل سے مراد۲۲

عمل :ناپسنديدہ عمل كا سبب ، ۱۰; ناپسنديدہ عمل كو خوبصورت پيش كرنے كى وجہ ۱۰

متوكلين :متوكلين كا صبر ۱۸; متوكلين كى خصوصيات ۱۸

موحدين : ۱۶/ہوا و ہوس:ہوا و ہوس كے آثار ۹، ۱۰

يعقوبعليه‌السلام :يعقوب(ع) اور برادران يوسف ۷; يعقوب(ع) اور برادرا ن يوسف كى سازش ۸، ۱۱;يعقوبعليه‌السلام اور حقائق كا ظاہر ہونا ۱۵;يعقوبعليه‌السلام كا اطمينان ۷، ۸; يعقوبعليه‌السلام كا صبر ۱۲، ۱۶، ۲۲; يعقوبعليه‌السلام كا عقيدہ ۱۶;يعقوبعليه‌السلام كا قصّہ ۱۱، ۱۲; يعقوبعليه‌السلام كا فيصلہ ۱۱، ۱۲; يعقوبعليه‌السلام كا مدد طلب كرنا ۱۵;يعقوبعليه‌السلام كى توحيد افعالى ۱۶;يعقوبعليه‌السلام كى سوچ ۹;يعقوبعليه‌السلام كى شخصيت ۱۶;يعقوبعليه‌السلام كے صبر كى تعريف ۱۴; يعقوبعليه‌السلام كے فضائل ۱۶

يوسفعليه‌السلام :

يوسفعليه‌السلام كا بھيڑے كا لقمہ بننا ۴،۶; يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، ۶، ۷، ۸، ۹، ۱۱، ۱۹، ۲۰، ۲۱; يوسف(ع) كى جدائي ميں صبر ۱۲، ۱۴;يوسف(ع) كى قميص ۶; يوسفعليه‌السلام كى قميص كا خون ۲، ۴، ۵، ۱۹، ۲۰;يوسفعليه‌السلام خلاف سازش ۸،۹

۴۰۵

آیت ۱۹

( وَجَاءتْ سَيَّارَةٌ فَأَرْسَلُواْ وَارِدَهُمْ فَأَدْلَى دَلْوَهُ قَالَ يَا بُشْرَى هَـذَا غُلاَمٌ وَأَسَرُّوهُ بِضَاعَةً وَاللّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَعْمَلُونَ )

اور وہاں ايك قافلہ آيا جس كے پانى نكالنے والے نے اپنا ڈول كنويں ميں ڈالا تو آواز دى ارے واہ يہ تو بچہ ہے اور اسے ايك قيمتى سرمايہ سمجھ كر چھپاليا اور اللہ ان كے اعمال سے خوب باخبر ہے (۱۹)

۱_ جس كنويں ميں حضرت يوسفعليه‌السلام تھے اس كے اطراف ميں ايك قافلے نے پڑاؤ ڈالا اور جو پانى لانے پر مامور تھا انہوں نے اسے كنويں كى طرف روانہ كيا_و جاء ت سيّارة فا رسلوا واردهم

'' وارد '' اس شخص كو كہتے ہيں جو كنويں ، نہر اور اس طرح كى جگہوں سے پانيلينےآتا ہے _

۲_ قافلے كا پانى لانے والے نے جب پانى لينے كے ليے كنعان كے كنويں ميں اپنا ڈول ڈالاتو خلاف توقع اس نے ايك بچے كو باہر نكالا_فأدلى دلوه قال يا بشرى هذا غلام

( أدلا ) ا دلى كا مصدر ہے جو ڈول ڈالنے كے معنى ميں آتا ہے _اور ''غلام '' چھوٹے بچے كو كہا جاتا ہے _( مصباح الميز )

۳_ يوسفعليه‌السلام نے قافلہ كے پانى لانے والے كى رسّى و ڈول سے چمٹكراپنے آپ كو كنويں سے نجات دى _

فأرسلوا و اردهم فأدنى دلوه قال يا بشرى هذا غلام

۴_ قافلے كاپانى لانے والا، حضرت يوسفعليه‌السلام كوپاكر بہت متعجب اور خوشحال ہوا اور اپنے ساتھيوں كواسكى خوشخبرى دي_قال يا بشرى هذا غلام

۵_ يوسفعليه‌السلام كو پانے والا قافلہ حضرت يوسف(ع) كو بطور تجارتى سامان اپنے ساتھ لے گيا_و اسرّوه بضعة

(بضاعة) اس مال و اجناس كو كہتے ہيں جو تجارت

۴۰۶

كے ليے ہو تا ہے_

۶_حضرت يوسف(ع) كو پانے والے قافلہ نے ان كو تجارتى سامان قرار دہتے كى وجہ سے چھپانے كى بہرپور كوشش كي_

و اسرّوه بضعة

(اسرّوا) (پوشيدہ و مخفى ركھنا) كے معنى ميں (قرار ينے كا مضى متضمن ہے) اسى وجہ سے لفظ (بضاعة) كو مفعول دوم كے طور پر منصوب كيا گيا ہے_ تو جملے كا معنى يوں ہوگا كہ يوسفعليه‌السلام كو تجارتى سامان بنا كر انكو مخفى ركھا گيا_

۷_ يوسفعليه‌السلام كا كنويں سے نجات پانا، ان كى غلامى كا آغاز تھا_و اسّروه بضعة

انسان كو ( بضاعت) تجارتى سامان قرار دينا ،اس كے غلام ہونے يا غلام خيال كرنے كے مترادف ہے_

۸_حضرت يعقوبعليه‌السلام كے زمانے ميں انسانوں كو غلام كے طور پر خريد و فروخت كا رواج تھا_و أسرّوه بضعة

۹_ خداوند متعال، انسانوں كے اعمال و كردار سے آگاہ ہے_و اللّه عليم بما يعملون

۱۰_ اہل قافلہ، يوسفعليه‌السلام كو غلام بنانے كو غير شرعى اور غير قانونى كام سمجھتے تھے_و أسرّوه بضاعة و اللّه عليم بمايعملون

حالانكہ وہ بچہ جو لا وارث ملا ہو اسكو غلامى ميں لانا اور قابل فروخت قرار دينا جائز اور قانونى كام تھا_لہذايوسفعليه‌السلام كو مخفى ركھنا،معقول نہيں تھا _(ا سرّوه بضاعة)

۱۱_ يوسفعليه‌السلام كو پانے والا قافلہ، ان كو ( خريد و فروخت كا) سامان قرار دينے پر گنہگار اور عذاب الہى كا مستحق قرار پايا_

و أسرّوه بضاعة و اللّه عليم بما يعملون

اس چيز كى ياد آورى كہخداوند متعال، بندوں كے اعمال سے آگاہ ہے ممكن ہے اس كے عذاب دينے كى طرف اشارہ ہو_

۱۲_ يعقوبعليه‌السلام كے زمانہ ميں راستہ سے ملنے والے انسان كى خريد و فروخت، نامناسب اور غير قانونى كام تھا_

و أسرّوه بضاعة

۱۳_ كنعان كے كنويں كے اطراف ميں اہل قافلہ كا كچھ دير كے ليے پڑاؤ ڈالنا اور كنويں سے يوسفعليه‌السلام كو نجات دينا اور اپنے ساتھ لے جانا، مشيت الہى كے مطابق اور اسكى دقيق نظارت ميں انجام پايا _

و جاء ت سيّارة و اللّه عليم بما يعملون

(ما يعملون) ميں ''ما'' سے مراد ممكن ہے يوسف (ع)

۴۰۷

كو خريد و فروخت كا ساما ن قرار دينا ہو (أسرّوه بضاعة ) اور نيز يہ بھى احتمال ہے كہ قافلہ كى تمام داستان جو يوسف(ع) كے بارے ميں ہے وہ مراد ہو_ پہلے احتمال كى بناء پرالله كا علم ان كے اعمال و رفتار كے بارے ميں ( خريد و فروخت كاسامان قرار دينا) انكو سزا دينے كے بارے ميں كنايہ ہے_دوسرے معنى كى صورت ميں علم خدا، اس كى تقدير و تدبير سے كنايہ ہے _ يعنى تمام امور جو يوسفعليه‌السلام كو كنويں سے نجات دينے كاسبب ہوئے ( كنعان كے اطراف ميں قافلے كا گزرنا ، كنويں كے قريب پڑاؤ ڈالنا ...) تمام كے تمام امورالله تعالى كى نظارت و نگرانى ميں واقع ہوئے_

الله تعالى :الله تعالى كا علم غيب ۹; الله تعالى كى تقدير ۱۳; الله تعالى كى نظارت ۱۳

اسماء و صفات :عليم ۹

غلامى كا نظام :غلامى كے نظام كى تاريخ ۸; يعقوبعليه‌السلام كے زمانے ميں غلامى كا نظام ۸

گمشدہ (انسان ) كى دريافت :گمشدہ انسان كى تجارت كا ناپسنديدہ ہونا ۱۲; يعقوبعليه‌السلام زمانہ ميں گمشدہ انسان كى تجارت ۱۲

يوسفعليه‌السلام كو پانے والا قافلہ:يوسفعليه‌السلام كو پالينے والا قافلہ اور يوسفعليه‌السلام ۵، ۶، ۱۰، ۱۱;يوسفعليه‌السلام كو پانے والے قافلے كا پڑاؤ ۱۳; يوسفعليه‌السلام كو پانے والے قافلے كاساقى ۱; يوسفعليه‌السلام كو پانے والے قافلے كو بشارت۴;يوسفعليه‌السلام كو پانے والے قافلے كے ساقى كى بشارت ۴; يوسفعليه‌السلام كو پالينے والے قافلے كى سزا،۱۱;يوسف(ع) كو پالينے والے قافلے كے ساقى كى خوشى ۴; يوسفعليه‌السلام كے پانے والے قافلے كى فكر ۱۰

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كا چھپانا ۶; يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، ۶ ، ۷، ۱۳; يوسفعليه‌السلام كى غلامى ۷، ۱۰;يوسفعليه‌السلام كى كنويں سے نجات ۲، ۳، ۷، ۱۳;يوسفعليه‌السلام كے كنويں كا قصّہ ۱

۴۰۸

آیت ۲۰

( وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُودَةٍ وَكَانُواْ فِيهِ مِنَ الزَّاهِدِينَ )

اور ان لوگوں نے يوسف كو معمولى قيمت پر بيچ ڈالا چند درہم كے عوض اور وہ لوگ تو ان سے بيزار تھے ہي(۲۰)

۱_ يوسفعليه‌السلام كو اہل قافلہ نے بہت ہى ناچيز اور كم درہموں ميں فروخت كرديا_و شروه بثمن بخس دراهم معدودة

(شرائ) (شروا) كا مصدر ہے فروخت كرنے كے معنى ميں آتا ہے_ اور (شروہ) ميں فاعل كى ضمير (سيّارة) كى طرف لوٹتى ہے (بخس ) مصدر ہے جو اسم مفعول كے معنى ميں ہے_( مبخوس _ ناقص اور ناچيز)كے معنى ميں ہے ( ثمن بخس) يعنى جس قيمت سے خريدارى كى گئي ہے وہ شے ارزش كے اعتبار سے اس سے زيادہ ہو (معدودة) كا معنى شمار كيا گيا ہےيہاں بہت كم ہونے سے كنايہ ہے_

۲_ تمام اہل قافلہ خود كو يوسفعليه‌السلام كى نسبت صاحب نفع خيال كرتے تھے اور اپنے آپ كو اسكا مالك سمجھتے تھے_

اسرّوه بضاعة و شروه بثمن

يوسفعليه‌السلام كو تجارتى سامان قرار دينے اور انہيں فروخت كرنے كى نسبت قافلہ كيطرف دى گئي ہے اس سے مذكورہ تفسير كا استفادہ ہو تاہے_

۳_ اہل قافلہ جنہوں نے يوسفعليه‌السلام كوپاياتھا ان كو اپنے پاس ركھنے ميں كوئي دلچسپى نہيں ركھتے تھے_

شروه و كانوا فيه من الزاهدين

(زہد) كسى شے كو بے فائدہ سمجھ كر اسكى طرف رغبت نہ ركھنے كو كہتے ہيں _ شايد اہل قافلہ كو خوف تھاكہ لا وارث انسان كو غلام بناناايك نامناسب رويہ ہے اور يہ لوگوں پر فاش نہ ہوجائے_ اس وجہ سے انہوں نے اس كے ليے بہت ہى كم قيمت قراردى تا كہ جلدى ہى فروخت ہوجائے_

۴_ اہل قافلہ كا يوسفعليه‌السلام كى فروخت ميں جلدى كرنا اور ان كى نگہداشت ميں بے توجہى كا اظہار كرنا، انكو كم قيمت فروخت كرنے كا سبب تھا_و شروه بثمن بخس و كانوا فيه من الزاهدين

۴۰۹

(و كانوا ) كا جملہ (شروه بثمن بخس ) كے جملے كى تعليل كے مقام پرہے _ يعنى يوسفعليه‌السلام كو اپنے پاس ركھنے ميں ان كى دلچسپى نہ لينا ، ان كو كم قيمت فروخت كرنے كا موجب تھي_

۵_ يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں نے اسكو بہت ہى كم درہم اور ناچيز سى قيمت اہل قافلہ كو فروخت كرديا_

و شروه بثمن بخس

مذكورہ تفسير اس صورت ميں ہوسكتى ہے كہ(شروہ) كے فاعل كى ضمير سے مراد برادران يوسف ہوں اس بناء پر يوسفعليه‌السلام كے بھائي فروخت كرنے والے اور اہل قافلہ اس كے خريدارتھے_ عبارت(الذى اشتراہ من مصر)بعد والى آيت ميں ممكن ہے اس بات كى تائيد كرتى ہوچونكہ مصر ميں يوسفعليه‌السلام كى خريد و فروخت سے پہلے بھى ان كى ايك مرتبہ خريد و فروخت ہوچكى ہے_

۶_ يوسف(ع) ، اپنے بھائيوں كى نظر ميں بے قيمت اور كم ارزش تھے_و كانوا فيه من الزاهدين

(كانوا) كى ضمير مذكورہ معنى كى صورت ميں برادران يوسفعليه‌السلام كى طرف لوٹ رہى ہے _

۷_ يعقوبعليه‌السلام كے زمانے ميں انسانوں كى غلامى كا اور انكى خريد و فروخت كا كام رائج تھا_و شروه بثمن بخس

۸_ يعقوبعليه‌السلام كے زمانے ميں درہم ( چاندى كا سكہ) رائج كرنسى تھي_دراهم معدودة

۹_'' عن على ابن الحسين عليه‌السلام : فلما ا خرجوه ا قبل إليهم إخوة يوسف فقالوا هذا عبدنا ا منكم من يشترى هذا العبد؟ فاشتراه رجل منهم بعشرين درهماً و كان اخوته فيه من الزاهدين (۱)

امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے كہ جب قافلے والوں نے يوسفعليه‌السلام كوكنويں سے باہر نكالا تو اس كے بھائي ان كے قريب گئے اور ان سے كہا : كہ يہ ہمارا غلام ہے كيا كوئي تم ميں سے ايسا ہے جو اسكو خريدے؟ تو اس وقت ايك شخص نے ان سے بيس درہم ميں خريد ليا اور حضرتعليه‌السلام كے بھائي ان ميں كوئي دلچسپى نہيں لے رہے تھے_

برادران يوسف(ع) :برادران يوسف(ع) اور يوسفعليه‌السلام ۵، ۶; برادران يوسف(ع) كى فكر ۶

درہم :يعقوبعليه‌السلام كے زمانے ميں درہم كا ہونا ۸

____________________

۱)علل الشرائع ، ص ۴۸، ح ۱ ، ب ۴۱; نور الثقلين ، ج ۲، ص ۴۱۳، ح ۱۷_

۴۱۰

روايت : ۹

غلام ركھنا :غلام ركھنے كى تاريخ ۷; يعقوبعليه‌السلام كے زمانے ميں غلام كا ركھنا ۷

كرنسى :كرنسى كى تاريخ ۸; يعقوبعليه‌السلام كے زمانے ميں رائج كرنسى ۸

يوسفعليه‌السلام كو پانے والا قافلہ :يوسفعليه‌السلام كو پانے والا قافلہ اور يوسفعليه‌السلام ۱، ۲، ۳، ۴; يوسفعليه‌السلام كو پانے والے قافلہ كا دعوى ۲

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام سے بے توجہى ۳، ۴، ۹; يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، ۶، ۹;يوسفعليه‌السلام كى فروخت ۱، ۴، ۵، ۹; يوسفعليه‌السلام كى ملكيت كا دعوى ۲

آیت ۲۱

( وَقَالَ الَّذِي اشْتَرَاهُ مِن مِّصْرَ لاِمْرَأَتِهِ أَكْرِمِي مَثْوَاهُ عَسَى أَن يَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَداً وَكَذَلِكَ مَكَّنِّا لِيُوسُفَ فِي الأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُ مِن تَأْوِيلِ الأَحَادِيثِ وَاللّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ )

اور مصر كے جس شخص نے انھيں ۱_خريد اتھا اس نے اپنى بيوى سے كہا كہ اسے عزت و احترام كے ساتھ ركھو شايد يہ ہميں كوئي فائدہ پہنچائے يا ہم اسے اپنا فرزند بناليں اور اس طرح ہم نے يوسف كو زمين ميں اقتدار ديا اور تا كہ اس طرح انھيں خوابوں كى تعبير كا علم سكھائيں اور اللہ اپنے كام پر غلبہ ركھنے والا ہے يہ اور بات ہے كہ اكثر لوگوں كو اس كا علم نہيں ہے (۲۱)

۱_ يوسفعليه‌السلام كو پانے والا قافلہ مصر ميں داخل ہوا اور اسى ہى ديار ميں اسكو فروخت كرديا_

و شروه بثمن و قال الذى اشترىه من مصر

۲_ عزيز مصر نے مصر ميں قافلے والوں سے يوسفعليه‌السلام كو خريدليا _و قال الذى اشترىه من مصر

(من مصر)كے بارے ميں احتمال ہے كہ(اشتراہ ) كے متعلق ہو اور يہ بھى احتمال ہے كہ ( الذى اشتراہ ) كے ليے حال ہو _ ليكن مذكورہ بالا تفسير احتمال اول كى صورت ميں ممكن ہے اور بعد ميں آنے والى آيات اس بات كو بيان كر رہى ہيں كہ (الذى اشتراہ ) سے مراد عزيز مصر ہے_

۴۱۱

۳_ يوسفعليه‌السلام كا خريدار (زليخا كا شوہر) مصرى شہرى تھا_و قال الذى اشترى ه من مصر

مذكورہ تفسير اس صورت ميں ہے كہ جب (من مصر) كا متعلق محذوف ہواورجملہ ( الذى اشتراہ ) كے ليے صفت ہو يعنى جملہ يوں ہو گا _ (قال الذى اشتراہ و ہو من اہل مصر ) اس نے كہا جس نے اسكو خريدا درحالا نكہ وہ اہل مصر ميں سے تھا_

۴_ زليخا كا شوہر، يوسفعليه‌السلام كو خريدتے وقت ( عزيزى ) كے مرتبے پر نہيں تھا_و قال الذى اشترىه من مصر

خريدار يوسفعليه‌السلام كو عزيز مصر كے( قرآن مجيد) عنوان سے ياد نہ كرنا،ممكن ہے مذكورہ تفسير كى طرف اشارہ ہو_

۵_ عزيز مصر ،نے يوسفعليه‌السلام كو خريدتے وقت ان كى بلند شخصيت اور مقام والاسے اطمينان حاصل كرليا _

لا مرأته أكرمى مثوىه عسى أن ينفعن

۶_ عزيز مصر چاہتا تھا كہ يوسفعليه‌السلام سے اپنے كاموں كے ليے استفادہ كرے يا اسكو اپنے اور اپنى بيوى كى فرزندى ميں لے آئے_قال الذى أكرمى مثوى ه عسى أن ينفعنا أو نتخذه ولد

۷_ عزيز مصر نے يوسفعليه‌السلام كى مدد اور اسكو اپنى فرزندى ميں لانے كا سبب اپنى اور اپنى بيوى زليخا كى اس سے محبت كو قرارديا_أكرمى مثوى ه عسى أن ينفعنا أو نتخذه ولد

جملہ ( عسى ) جملہ ( اكرمى مثواہ) كے ليے علت ہے _ تو جملے كا معنى يوں ہوگا _ كہ ميں تم سے يہ چاہتا ہوں كہ تم اسكا احترام كرو تا كہ وہ ہم سے محبت كرنے لگے تا كہ اسكى مدد سے ہم اپنے دل كو بہلائيں يا يہ كہ اسكو منہ بولا بيٹا بنا نے ميں كامياب ہوجائيں _

۸_ عزيز مصر نے يوسفعليه‌السلام كے كاموں كو اپنى بيوى زليخا كے سپرد كيا اور اس سے كہا كہ انكا احترام كرے اور ان كے مقام و مرتبے كا خيال ركھے_لا مرأته أكرمى مثوىه

(مثوى ) اسم مكان ہے جو گھر يا رہائش گاہ كے معنى ميں آتا ہے _( اكرمى مثواہ ) يعنى اس كى منزل ومقام كا احترام كرو_ گھر اور رہائش گاہ كے مناسب و اچھے ہونے پر تاكيد بتاتى ہے كہ اصل ميں اس شخص كى تعظيم ہے جو اس جگہ رہائش پذير ہے_

۹_ عزيز مصر اور اسكى بيوى زليخااولاد كى نعمت سے محروم تھے_أو نتخذه ولد

معمولاً وہ لوگ جو اولاد نہيں ركھتے، وہى كسى كو اپنى اولاد قرار ديتے ہيں اوراسوجہ سے جملہ ( نتخذہ ولداً) مذكورہ بالا معنى كى

۴۱۲

طرف ممكن ہے اشارہ ہو اور يوسفعليه‌السلام كو اپنى فرزندى ميں لانے كا بيان كلمہ (عسى ) سے ظاہر ہوتا ہے جو اس احتمال پر تاكيد كررہا ہے_

۱۰_ كسى شخص كو فرزند (منہ بولا بيٹے) كے طور پر انتخاب كرنا، يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں متداول امر تھا اور قديم مصر ميں اسكى قانونى حيثيت تھى _أو نتخذه ولد

۱۱_ خداوند متعال نے يوسفعليه‌السلام كو عزيز مصر كے گھرانے ميں داخل كر كے يوسفعليه‌السلام كے ليے اس سرزمين مصر ميں بانفوذ اور قدرتمند ہونے كے راستہ كو ہموار كيا_و كذلك مكّنا ليوسف فى الأرض

(الأرض) سے مراد مصر كى سرزمين ہے_ ''تمكين '' ''مكنّا ''كا مصدر ہے جو مكان و جگہ دينے كے معنى ميں آتا ہے _ نيز قدرت اور سلطنت عطا كرنے كے معنى ميں آتا ہے (فى الأرض)كى قيد اس بات كو بتاتى ہے كہ آيت شريفہ ميں (مكنّا) سے دوسرا معنى مراد ہے_

۱۲_ عزيز مصر كے گھر، يوسفعليه‌السلام آرام و آسائش ميں تھے_كذّلك مكنّا ليوسف فى الأرض

۱۴_ يوسفعليه‌السلام كا عزيز مصر كے گھر ميں داخل ہونا، خداوند متعال كے انكے بارے ميں وعدوں كے پورا ہونے كا پيش خيمہ تھا_و كذلك مكّنا ليوسف فى الا رض و لنعلّمه من تا ويل الاحاديث

(لنعلّمہ) كا ايك مقدر كلام پر عطف ہے يعنى''مكنّاليوسف لنفعل كذا و لنعلّمه '' لنفعل كذا سے مراد وہ امور تھے جنكو حضرت يوسفعليه‌السلام كے قصے كے شروع ميں خداوند عالم نے بيان فرمايا تھا مثلا (رأيتهم لى ساجدين ) و(كذلك يجتبيك ربك ...)

۱۵_ خداوند متعال، يوسفعليه‌السلام كو خوابوں كى تعبير اور واقعات كى تفسير و تحليل كا سكھانے والا ہے_

و لنعلّمه من تأويل الاحاديث

۱۶_ خوابوں كيتعبير اور واقعات كى تفسير وتحليل كى تعليم ، يوسفعليه‌السلام كو عزيز مصر كے گھر ميں لے جانے كى تقدير الہى كى خاطر تھا_كذلك مكنا ليوسف فى الا رض و لنعلّمه من تا ويل الأحاديث

(لام)'' لنعلمہ'' ميں غايت كے ليے ہے اور متعلق كى غرض و ہدف كو بيان كرتا تھا_

۱۷_ تعبير خواب كا علم اور آنے والے واقعات كى تحليل كرنے پرقدرت، خداوند متعال كى نعمتوں ميں سے ہے_

۴۱۳

كذلك و لنعلّمه من تأويل الاحاديث

۱۸_آنے والے واقعات كى تاريخ اور انكا انجام پذير ہونا ، تقدير الہى اور اس كے قدرت اور اختيار ميں ہے_

و قال الذى اشترىه و كذلك مكّنا ليوسف فى الأرض

۱۹_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى تعبير و تا ويل خواب اور آنے والے حالات كى تحليل كا علم ،مطلق و لا محدود علم تھا_و لنعلّمه من تأويل الاحاديث/ مذكورہ بالا تفسير كا حرف (من) جو كہ تبعيض كے ليے ہے سے استفادہ ہوتا ہے _ لہذا( ولنعلّمہ ...) كا معنى يوں ہوگا _ كچھ آنے والے حوادث و واقعات كى تحليل اور تاويل يا كچھ خوابوں كى تعبير كو ان كو سكھا ئيں _

۲۰_ آنے والے حالات اور آئندہ كے ماجروں كى تحليل و تاويل اور خوابوں كى تعبير كا علم ،بہت اہميت والا اور قيمتى ہے_و كذلك مكنا ليوسف فى الارض و لنعلّمه من تأويل الاحاديث

۲۱_ خداوند متعال اپنى مشيت اور ارادوں كو انجام دينے پر قادر ہے _والله غالب على ا مره

(أمرہ ) كى ضمير ( الله ) كى طرف لوٹنى ہے _ امر الہى سے مراد وہ كام ہيں كہ جن سے ارادہ الہى اور مشيت خداوند ى اس كے تحقق اور انجام دينے كے ساتھ تعلق ركھتى ہے _

۲۲_ كوئي شے اور كوئي ذات،ارادہ الہى كو روكنے كى طاقت نہيں ركھتى _والله غالب على أمره

۲۳_ يوسفعليه‌السلام كى زندگى كے حوادث و واقعات فرمان و تدبر الہى سے وجود ميں آئے ہيں _

و كذلك مكنّا ليوسف فى الا رض والله غالب على ا مره

(أمرہ ) كے مصاديق ( كذلك مكنّا ليوسف) كے جملے كے قرينے سے يوسفعليه‌السلام كے امور كى تدبير ہے _ بعض مفسّرين نے (أمرہ ) كى ضمير كو يوسفعليه‌السلام كى طرف پلٹايا ہے اس صورت ميں جملہ ( والله غالب على امرہ) كا معنى يہ ہوگا ( كہ خداوند متعال يوسفعليه‌السلام كے امور پر غالب ہے اور اس كے امور كے نظم و ترتيب ميں اسى كا اختيار ہے ) _ مذكورہ بالاتفسير ميں كچھ زيادہ ہى وضاحت ہے_

۲۴_ لوگوں كى اكثريت اس بات سے ناگاہ ہے كہ تمام امور، خداوند عالم كى تدبير كے مطابق انجام پاتے ہيں اور وہ اپنى مشيت كے تحقق پر قادر ہے نيز تمام افراد اس كے مقابلہ ميں عاجز و ناتواں ہيں _

والله غالب على ا مره و لكنّ ا كثر النّاس لا يعلمون

۴۱۴

اكثريت:اكثريت كا جہل ۲۴

الله تعالى :الله تعالى كا ارادہ حتمى ہونا ۲۲;الله تعالى كى تعليمات ۱۵، ۱۶;الله تعالى كى تقدير و مقدرات ۱۶ ، ۱۸; الله تعالى كى ربوبيت ۲۳، ۲۴;الله تعالى كى ربوبيت كے آثار ۱۸;الله تعالى كى قدرت ۲۱، ۲۴ ; الله تعالى كى مشيت ۲۱، ۲۴;الله تعالى كى مشيت كا حتمى ہونا ۲۲;الله تعالى كى نعمتيں ۱۳، ۱۷ ; الله تعالى كے ارادے كے تحقق كا پيش خيمہ ۱۴;الله تعالى كے افعال ۱۱، الله تعالى كے اوامر ۲۳

انسان :انسانوں كا عجز ۲۴//تاريخ :تاريخ ميں تبديلى كا سبب ۱۸//زليخا:زليخا اور يوسفعليه‌السلام ۷، ۸ ; زليخا كالاولد ہونا ۹

عزيز مصر :عزيز مصر اور يوسفعليه‌السلام ۲، ۶،۸;عزيز مصر اور يوسفعليه‌السلام كے درجات ۵; عزيز مصر كا بے اولاد ہونا ۹;عزيز مصر كى خواہشات ۸;عزيز مصركى قوميت ۳;عزيز مصر يوسفعليه‌السلام كى خريدارى كے وقت ۴

علم و دانش :آئندہ واقعات كى تحليل كے علم و دانش كى اہميت ۲۰;خوابوں كى تعبيركے علم و دانش كى اہميت ۲۰; علم و دانش كى قيمتى ہونا۲۰

قديمى و تاريخى مصر :قديمى و تاريخى مصر ميں منہ بولا بيٹا۱۰

منہ بولا بيٹا:منہ بولا بيٹا بنانے كى تاريخ ۱۰; منہ بولا بيٹا يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں ۱۰

موجودات:موجودات كا عاجز ہونا ۲۲

نعمت :آسائش كى نعمت ۱۳;آئندہ كے واقعات كى تحليل كے علم كى نعمت ۱۷; تعبير خواب كے علم كى نعمت ۱۷; قدرت كى نعمت ۱۳

يوسفعليه‌السلام :يوسف(ع) ، عزيز مصر كے گھر ميں ۱۲، ۱۴، ۱۶; يوسفعليه‌السلام كا احترام ۸;يوسفعليه‌السلام كا خريدار ۲; يوسفعليه‌السلام كا علم محدود ہونا ۱۹;يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۳، ۶، ۷، ۸، ۱۱، ۱۲، ۱۴ ;يوسفعليه‌السلام كا مدبّر ۲۳; يوسفعليه‌السلام كا معلّم ۱۵، ۱۶; يوسفعليه‌السلام كو آئندہ كے واقعات كى تحليل كا علم ۱۵، ۱۶ ، ۱۹;يوسفعليه‌السلام كو خوابوں كى تعبير كا علم ۱۵، ۱۶، ۱۹; يوسفعليه‌السلام كو منہ بولابيٹا بنانا ۶،۷;يوسفعليه‌السلام كى آسائش ۱۲; يوسفعليه‌السلام كى حكومت كا پيش خيمہ ۱۱; يوسفعليه‌السلام كى فروخت ۱;يوسفعليه‌السلام كے اقتدار كا پيش خيمہ ۱۱; يوسفعليه‌السلام كے چناؤ كا سبب ۱۴;يوسف(ع) كے خريدار كى قوميت ۳;يوسفعليه‌السلام مصر ميں ۱، ۲، ۱۱

۴۱۵

آیت ۲۲

( وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَيْنَاهُ حُكْماً وَعِلْماً وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ )

اور جب يوسف اپنى جوانى كى عمر كو پہنچے تو ہم نے انھيں حكم اور علم عطا كرديا كہ ہم اسى طرح نيك عمل كرنے والوں كو جزا ديا كرتے ہيں (۲۲)

۱_ يوسفعليه‌السلام نے اپنے بچپن اور نوجوانى كے ايّام، عزيز مصر كے گھر ميں گذارے يہاں تك كہ جوان ہوئے اور جسمانى اور عقلى بلوغ تك پہنچے_

كلمہ (اشدّ) جسطرح لسان العرب نے سبويہ سے نقلكيا ہے (شدّة)كى جمع ہے جو (طاقت و قدرت ) كے معنى ميں ہےلہذا (أشدّ) سے مراد مختلف طاقتيں ہيں جو مقام كى مناسبت سے جسمانى و عقلى طاقت كو شامل ہيں _

۲_ يوسفعليه‌السلام جب جوانى كى عمر ميں پہنچے تو جسمانى و ذہنى ترقى كے ساتھ ساتھ بلند حكمت اور وسيع علم كے حامل ہوگئے_

ولّما بلغ أشدّه اتيناه حكماً و علما

(حكماً) اور (علماً ) كے الفاظ كا نكرہ استعمال كرنا، اس حكمت و علم كى عظمت كو بتاتا ہے جو خداوند عالم نے حضرت يوسفعليه‌السلام كو عطاكى تھي_ اور (اتي) فعلكو (نا ) كى ضمير متكلم كى طرف اسناد دينا، اس حقيقت كى تائيد كرتى ہے اور يہ جو خداوند متعال نے زليخا كى يوسف(ع) كے ساتھ مكارى كى داستان كو بيان كرنے سے پہلے ان كے علم و حكمت كو بيان كياہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ يوسفعليه‌السلام زمانہ جوانى ميں علم و حكمت كے مالك تھے_اسى وجہ سے يہ احتمال نہيں ديا جاسكتا كہ زليخا كى يوسف(ع) سے داستان جوانى كے گزرنے كے بعد ہوئي ہو يعنى حضرت اسوقت مثلا تئيس يا چاليس سال كے ہوں _

۳_ خداوند متعال ہى يوسفعليه‌السلام كوحكمت و علم كا عطا كرنے والا ہے _أتيناه حكماً و علما

۴_ حضرت يوسفعليه‌السلام جوانى ہى ميں لوگوں كے درميان فيصلہ اور قضاوت كرنے كى قدرت ركھتے تھے _

ولّما بلغ أشدّه أتيناه حكماً و علم

۴۱۶

بعض مفسرين نے (حكم ) سے مراد معارف الہى كا علم، احكام شريعت،حكمت،اور لوگوں كے درميان قضاوت كا معنى بيان كيا ہے اور (علم ) سے مراد تعبير خواب سے آگاہى ، آئندہ حوادث و واقعات كى تحليل اورمصالح و مفاسد كى شناخت قرار دياہے _

۵_ يوسفعليه‌السلام كا سن رشد ميں پہنچنا، علم و حكمت كے حامل ہونے كا سبب تھا_ولّما بلغ أشدّه اتيناه حكماً و علما

۶_ يوسفعليه‌السلام جوانى كى عمراور رشدكے مقام پر پہنچنے كے بعد مقام نبوت پر فائز ہوئے_ولّما بلغ أشدّه اتيناه حكماً و علما

مذكورہ معنى اس صورت ميں ہے كہ بعض مفسرين نے (حكم ) سے مراد مقام نبوت اور (علم ) سے مراد شريعت كا علم بيانكيا ہے _

۷_ مقام نبوت تك پہنچنے كے ليے اسكى صلاحيت اور سبب كى ضرورت ہوتى ہے _ولّما بلغ أشدّه اتيناه حكماً و علم

۸_ يوسفعليه‌السلام نيك لوگوں كا واضح و روشن نمونہ تھے _و كذلك نجزى المحسنين

۹_ يوسف(ع) كا حكمت اور علم سے بہرہ مند ہونا، خداوند متعال كى طرف سے انكے نيك كاموں كى جزاء تھي_

(جزاء) (نجزى ) كا مصدر ہے _ جسكا معنى جزاء و سزا ہے _

۱۰_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے نيك كام، ان كے مقام نبوت پر فائز ہونے كا سبب بنے _

أتيناه حكماً و علماً و كذلك نجزى المحسنين

۱۱_ احسان او ر نيكى كرنا، علم و حكمت سے بہرمند ہونے كاسبب ہے_أتيناه حكماً و علماً و كذلك نجزى المحسنين

۱۲_ نيك لوگوں كوجزاء عطا كرنا اور ان كو علم و حكمت سے بہرہ مند كرنا، سنت الہى ہے _

أتيناه حكماً و علماً و كذلك نجزى المحسنين

( كذلك نجزى المحسنين) ميں (نجزي)فعل مضارع ہے جواستمرار سے حكايت كرتا ہے _ اور تفسير ميں اس سے سنت كا معنى كيا گيا ہے _

۱۳_ نيك لوگوں كو الله تعالى دنيا ميں بھى جزاء ديتا ہے _أتيناه حكماً و علماً و كذلك نجزى المحسنين

احسان :احسان كے آثار ۱۱; احسان كى اہميت ۱۰، ۱۱، ۱۲

الله تعالى :الله تعالى كى جزاء ۹، ۱۳; الله تعالى كى سنت ۱۲; الله تعالى كى عطا ۳

۴۱۷

الله تعالى كى سنتيں :جزاء دينے كى سنت ۱۲; سزا دينے كى سنت ۱۲

حكمت :حكمت كا سبب ۱۱//صلاحيتيں :صلاحيتوكا فائدہ ۷//علم :علم كا سبب۱۱

محسنين :محسنين كا علم ۱۲; محسنين كى جزاء ۹، ۱۲; محسنين كى حكمت ۱۲;محسنين كى دنيا ميں جزاء ۱۳

نبوت :نبوت كا جوانى ميں عطا ہونا ۶;نبوت كے شرائط ۷

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام پر احسان كے آثار ۱۰; يوسفعليه‌السلام كا بچپنا ۱;يوسفعليه‌السلام كا رشد ۱، ۲، ۶; يوسفعليه‌السلام كا عزيز مصر كے گھر ميں ہونا ۱;يوسفعليه‌السلام كا علم ۲،۹ ; يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۴;يوسفعليه‌السلام كا محسنين سے ہونا ۸;يوسفعليه‌السلام كواحسان كى جزاء ۹;يوسفعليه‌السلام كى جوانى ۲، ۴، ۶; يوسفعليه‌السلام كى حكمت ۲، ۹;يوسفعليه‌السلام كى حكمت كا سبب ۵ ; يوسفعليه‌السلام كى حكمت كا سبب ۳;يوسفعليه‌السلام كى زندگى كے مراحل ۱;يوسفعليه‌السلام كى قضاوت ۴;يوسفعليه‌السلام كى نبوت ۶;يوسفعليه‌السلام كى نبوت كے اسباب ۱۰;يوسفعليه‌السلام كى نوجوانى ۱;يوسفعليه‌السلام كے علم كا سبب ۱ ;يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۲، ۴ ;يوسفعليه‌السلام كے مقامات ۶; يوسفعليه‌السلام ميں رشد كے آثار ۵; يوسفعليه‌السلام ميں علم كا سبب ۵

آیت ۲۳

( وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَن نَّفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ قَالَ مَعَاذَ اللّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ إِنَّهُ لاَ يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ )

اور اس نے ان سے اظہار محبت كيا جس كے گھر ميں يوسف رہتے تھے اور دروازے بند كردئے ۱_اور كہنے لگى لوآئو يوسف نے كہا كہ معاذ اللہ وہ ميرا مالك ہے اس نے مجھے اچھى طرح ركھا ہے اور ظلم كرنے والے كبھى كامياب نہيں ہوتے (۲۳)

۱_ زليخا ،حضرت يوسف(ع) كى عاشق ہوگئي _و راودته التى هو فى بيتها و غلّقت الابواب

۲_ زليخا، حضرت يوسفعليه‌السلام سے اپنے عشق و محبت كا اظہار كر كے انہيں اپنے ساتھ وصال كى دعوت ديتى تھي_و راودته التى هو فى بيتهاعن نفسه

(مراودة ) (راودت) كا مصدر ہے _ جسكا معنى نرم لہجے ميں درخواست كرنا ہے (عن نفسہ) درخواست كے موردكو بتاتا ہےاسى وجہ سے (راودتہ ...) كا معنى يوں ہوا كہ زليخا نے بہت ہى نرم لہجے ميں يوسفعليه‌السلام سے اپنى محبت و عشق كا اظہار كركے اس سے خواہش كى كہ اپنے آپ كو ميرے اختيار ميں دے دے_ يہ ملنے اور وصال كرنے كے تقاضا سے كنايہ ہے

۴۱۸

۳_ زليخا اپنے مقصد كے حصول كے ليے حضرت يوسف(ع) كو ہميشہ اپنا ہم فكربنانےكے ليے مسلسل كوشش و سعيكرتى رہى _وراودته التى هو فى بيتها عن نفسه

مذكورہ بالا معنى اس صورت ميں ہے كہ جب (راد يرود) ( كہ مراود بھى اسى سے ہے) كے ساتھ جيسا كہ بعض اہل لضت نے كہا ہے اپنے مطلوب تك پہنچے كے ليے مسلسل كوشش و سعى كرنے كى قيد بھى ہو_

۴_ حضر ت يوسف(ع) مسلسل زليخا كى اس خواہش (وصال اور ہمبسترى كرنے) سے اجتناب كرتے رہے _

وراودته التى هو فى بيتها عن نفسه

بعض اہل لغت نے (مراودة) كے معنى ميں دو طرف كى كشمكش اور جھگڑے كو قيد قرارد ديا ہے_ اور انہوں نے كہا ہے كہ ( مراودة) كا معنى يہ ہے كہ دوميں سے ايك كسى شے كو چاہتا ہو اوردوسرا كسى اور شے كو چاہتا ہو _مذكورہ معنى بھى اسى صورت ميں كيا گيا ہے _

۵_ زليخا ،حضرت يوسفعليه‌السلام پر ظاہرى تسلط كواپنى خواہشات پورے كرنے كے ليے انہيں آمادہ كرنے كے ليے كارآمد سمجھتى تھى _

قرآن مجيد نے زليخا كو اس طرح بيان كيا ہے (التى ہو فى بيتہا ) وہ عورت كہ جس كے گھر ميں يوسفعليه‌السلام رہتے تھے) اس طرح سے زليخا كى صفت بيان كرنا يوسفعليه‌السلام پر زليخا كے تسلط كو بتا رہا ہے_

۶_ زليخا، نے حضرت يوسف(ع) سے كام لينے اور اس كے ساتھ وصال كرنے كے ليے اپنے محل كے دروازوں كو تالہ لگاديا اور انہيں اپنے پاس بلايا _راودته وغلّقت الا بواب و قالت هيت لك

(تغليق) ''غلّقت'' كا مصدر ہے _ تالہ لگانے كے معنى ميں آتا ہے (ہيت لك ) اسم فعل امر ہے _ جو (تم آؤ) كے معنى ميں آتا ہے _

۷_ زليخا كا محل ، مجلل اور شأن والا تھا اور اسميں بہت زيادہ دروازے تھے_و غلّقت الا بواب

(غلّقت الابواب ) باب تفعيل ہے دروازوں كے بند كرنے كے لئے بات تفعيل كو ذكر كرنا ممكن ہے شدّت مبالغہ كو بتاتا ہو _ يعنى دروازوں كو تالہ لگايا ور ان كے اندر والے حصوں كو محكم طريقے

۴۱۹

سے بند كيا اور يہ بات ممكن ہے دروازوں كى كثرت پر دلالت كرے_ مذكورہ بالا تفسير اسى دوسرے معنى كى صورت ميں ہے _

۸_ زليخا، نے حضرت يوسفعليه‌السلام سے اپنا كام حاصل كرنے كے ليے سہولتيں اور تمام شرائط كوفراہم كيا تھا_

روادته و غلّقت الابواب وقالت هيت لك

۹_ حضرت يوسف(ع) ، نے زليخا كے ظاہرى تسلط اور تمام شرائط مہيا ہونے كے باوجود بھى اسكى خواہش كو قبول نہيں كيا اور اس كے سامنے تسليم نہيں ہوئے_راودته وقالت هيت لك قال معاذ الله

(معاذ) مصدر اور مفعول مطلق ہے فعلمقدر كے ليے جو ''اعوذ'' ہے يعنى (أعوذ بالله معاذ)_

۱۰_ يوسف عليہ السلام شہوت رانى كے تمام وسائل فراہم ہونے كے باوجود ( يعنى زليخا كى خواہش اور اسكا اپنى مرضى كا اظہار كرنا ،محل كا خالى اوردروازوں كا بند ہونا ) بھى خدا كى پناہ مانگى _قال معاذا لله

۱۱_ خداوند متعال كى طرف توجہ اور اسكى پناہ طلب كرنا ، شہوت رانى كے برے انجام سے محفوظ رہنے كا راستہ ہے _

قال معاذا لله

۱۲_ گناہ كے گرداب اور لغزش سے نجات كے ليے ضرورى ہے كہ خداوند متعال كى پناہ لى جائے_قال معاذا لله

۱۳_ شادى شدہ عورتوں سے دوستى اور جنسى روابط ركھنا حرام ہے _قالت هيت لك قال معاذالله

( استعاذہ) اور خدا كى پناہ ميں جانا، گناہ اور شر پھيلانے والے مسئلہ ميں ہوتا ہے _

۱۴_ يوسفعليه‌السلام كى پاكدامنى تعجب آوراور انكى عصمت شگفت انگيز تھي_

و روادته التى و غلّقت الا بواب و قالت هيت لك قال معاذالله

۱۵_ يوسفعليه‌السلام جوانى كى اوج ميں ہى انسان موحد اور خداوند متعال كا فرمانبرداراور پرہيزو تقوى كى معراج پر تھے_

معاذا لله انه ربّى احسن مثواي

۱۶_ يوسفعليه‌السلام كا حقيقى توحيد پرست، اطاعت الہى ميں مخلص ہونا اور ان كا تقوى و پرہيزگارى ،اس علم و حكمت كا جلوہ تھا جو خداوند متعال ان كو عطا فرما ئي تھي_أتيناه حكاً و علماً قال معاذالله انه ربّى أحسن مثواي

۱۷_ خداوند متعال كى طرف توجہ ، انسان كو گناہ سے روكتى ہے _قال معاذا لله

۴۲۰

۱۸_ زليخا حضرت يوسفعليه‌السلام كو اسكى خواہشات پورا نہ كرنے پر ناقدر اور احسان فراموش سمجھتى تھى _

روادته التى فى بيتها انه ربّى أحسن مثوى

مذكورہ معنى ميں ( انّہ ربّى ...) كو (التى ہو فى بيتہا ) كے جملے سے اخذ شدہ مفہوم پرناظر قرار ديا گيا ہے يعنى اس اعتبار سے كہ زليخا ، حضرت يوسفعليه‌السلام كى مالكن تھى اور اسكو اپنے گھر ميں آرام و آسائش فراہم كر رہى تھى لہذا وہ يوسفعليه‌السلام سے يہ توقع ركھتى تھى كہ وہ ميرے كہنے پر انكار نہيں كرے گا ليكن يوسفعليه‌السلام (انہ ربي ...) كے ذريعہ يہبتاناچاہتے ہيں كہ ميرا خدا ميرے تمام كام مربى و مدّبرتھا اور ہے اور ميرے ليے سزاوار يہى ہے كہ ميں اسى كى اطاعت و فرمانبردارى كروں _

۱۹_ زليخا حضرت يوسفعليه‌السلام كى جو خدمت و احترام كرتى تھى اس وجہ سے وہ يہ توقع ركھتى تھى كہ يوسفعليه‌السلام اس كے ناجائز مطالبے كو قبول كرلے گا _راودته التى هو فى بيتها ...قال إنه ربّي

۲۰_ يوسفعليه‌السلام نے زليخا كے سامنے اس بات كى وضاحت كردى كہ اسكى زندگيكى گاڑى كا چلن خداوند عالم كى عنايت اورتدبير كى وجہ سے ہے _معاذا لله إنه ربّى احسن مثوي

( إنہ ) كى ضمير ( الله ) كى طرف لوٹتى ہے _ مذكورہ تفسير ميں (انہ ربّى ) جملہ (معاذا لله ) كى تعليل ہے تو اس صورت ميں مذكورہ عبارت كا معنى يہ ہوگا (اس مكرو فريب ميں ) ميں خداوند متعال كى پناہ مانگتا ہوں اور اس سے نجات كے ليے اسكى مدد مانگتا ہوں كيونكہ ميرى زندگى كے امور كو چلانے والا وہى ہے _

۲۱_ حضرت يوسف(ع) نے زليخا كے حكم اور اسكى دعوت كے جواب ميں خداوند متعال كو اطاعت ، قدر شناسى اور شكر گزارى كے سزاوار سمجھا _قال معاذا لله انه ربّى احسن مثوى

۲۲_حضرت يوسف(ع) نے زليخا كى خواہش ( ہمبسترى اور وصال) كى در خواست كو قبول كرنے كو اپنے ليے خداوند متعال كے احسانات كى فراموشى تصّور كيا _انّه ربى أحسن مثواي

۲۳_ انسان كو لوگوں كے احترام كے سبب، خداوند متعال كى معصيت نہيں كرنى چاہيے_

أكرمى مثويه قال معاذا لله انه ربّي

۲۴_ گناہ كا ارتكاب ،ناشكرى اورنعمت الہى كا كفران ہے _قال معاذا لله إنه ربّى أحسن مثواى انه لا يفلح الظالمون

۲۵_ انسان كا خداوند متعال كى طرف سے در خواست قبول كرنا اور گناہ كے ارتكاب سے بچنا، ربوبيت

۴۲۱

الہى كا جلوہ ہے _معاذالله إنه ربى أحسن

۲۶_ ربوبيت خداوندى پر يقين اور اس كے احسان اور نعمتوں پر توجہ كرنا، انسان كو گناہوں سے دور رہنے ميں مدد ديتا ہے _معاذالله انه ربّى أحسن مثوى

۲۷_ ظالم و ستم گر لوگ كبھى بھى كامياب و كامران نہيں ہوسكتے ہيں _انّه لايفلح الظالمون

(انہ ) كى ضمير،ضمير شأن ہے جو جملہ كے معنى پر تاكيد كرتى ہے _

۲۸_ حضرت يوسف،عليه‌السلام زليخا كى ناجائز خواہش پر تسليم ہونے كو اپنے ليے ظلم و ستم گرى سمجھتے تھے _

انّه لايفلح الظالمون

۲۹_ زنا كا مرتكب ہونا اور عفت كے حجاب كو توڑنا، ستم ستمگرى ہے _قال معاذا لله انه لايفلح الظالمون

(معاذالله ) كا معنى فحش گناہ كا ارتكاب ہے اور (انہ ربى ...) كا معنى يہ ہوا كہ گناہ و برائي كا مرتكب ہونا، خداوند متعال كى ناشكرى اور احسان فراموشى ہے _ اور اسى وجہ سے (انہ لايفلح الظالمون) مذكورہ معانى كے ليے علت واقع ہوا ہے _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ فحشاء كا مرتكب ہونا اور گناہوں كے ارتكاب كے ذريعہ خداوند متعال كى ناشكرى ايك ظلم ہے _

۳۰_ خداوند متعال كى نعمتوں كو نظر انداز كرنا اور گناہوں كے ارتكاب كے ذريعہ اسكى ناشكر ى كرنا، ظلم ہے _

إنه ربّى لايفلح الظالمون

۳۱_ فحشاء و منكر كا ارتكاب اور خداوند متعال كى نعمتوں كے مقابلے ميں ناشكرى كرنا،فلاح و كاميابى كے ليے مانع ہے _

انه لايفلح الظالمون

۳۲_''عن على بن الحسين عليه‌السلام ... فلما راهق يوسف راودته إمرا ته الملك عن نفسه (۱)

ترجمہ : امام سجاد عليہ السلام سے روايت ہے:جب حضرت يوسفعليه‌السلام جوانى كے جو بن ميں پہنچے تو بادشاہ كى بيوى نے ان سے جنسى خواہش كا تقاضا كيا

احكام : ۱۳

استعاذہ :الله تعالى سے استغازہ كرنے كے آثار۱۲; الله تعالى سے استعاذہ كى اہميت ۱۱، ۱۲

____________________

۱)علل الشرائع ، ص۴۸، ح ۱ب۴۱; نورالثقلين ج ۲ ، ص ۴۱۴، ح ۱۷_

۴۲۲

اطاعت :الله تعالى كى اطاعت كرنے كى اہميت ۲۳

الله تعالى :الله تعالى كى ربوبيت ۲۰، الله تعالى كى ربوبيت كى نشانياں ۲۵

امور :تعجب آور امور ۱۴

انسان :انسانوں كى ذمہ دارى ۲۳

ايمان :ايمان كے آثار ۲۶; ربوبيت الہى پر ايمان۲۶

انكار :نعمت سے انكار كا ظلم ۳۰;نعمت سے انكار كے آثار ۳۱; نعمت سے انكار كے موارد ۲۴

دعا :اجابت دعا۲۵

دوستى :شوہر دار عورت سے دوستى ۱۳

ذكر :اللہ تعالى كى نعمت كا ذكر۲۶; ; الله تعالى كے احسان كا ذكر ۲۶;الله تعالى كے ذكر كے آثار ۱۱، ۱۷

روايت : ۳۲

زليخا :زليخا اور يوسفعليه‌السلام ۳، ۵، ۶، ۸، ۱۹، ۳۲;زليخا اور يوسفعليه‌السلام كا انكار ۱۸;زليخاكا تسلّط۵; زليخا كا كام لينا ۲، ۳، ۴، ۶، ۲۲;زليخا كا يوسفعليه‌السلام سے عشق ۱، ۲; زليخا كى خواہشات ۲۱، ۳۲;زليخا كى سازش ۶; زليخاكى فكر ۱۸; زليخا كى كوشش ۳;زليخا كى نامناسب توقعات۱۹;زليخا كے كام لينے كا سبب ۵ ، ۸;زليخا كے محل كى خصوصيات ۷; زليخا كے محل كے دروازے ۶، ۷

زنا :زنا كا ظلم ۲۹;زنا كے احكام ۱۳; شوہر والى عورت سے زنا ۱۳

سعادت مندى :سعادت مندى سے محروم افراد ۲۷; سعادت مندى كے موانع ۳۱

شہوت پرستى :شہوت پرستى كے موانع ۱۱

ظالمين :ظالموں كا محروم ہونا ۲۷

ظلم :ظلم كے موارد ۲۸، ۲۹، ۳۰

عفت :بے حيائي كا ظلم ۲۹

فحشاء :

۴۲۳

فحشاء وبرائي كے آثار ۳۱

گناہ :گناہ سے بچاؤ ۲۵;گناہ سے نجات كا طريقہ ۱۲; گناہ كا ظلم ۳۰;گناہ كے آثار ۲۴; گناہ كے ترك كا سبب۲۶;گناہ كے ترك كى اہميت ۲۳; گناہ كے موانع ۱۷

متقين :۱۵

محرمات :۱۳

موحدين : ۱۵

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام اور زليخا ۴، ۲۰، ۲۱ ، ۲۲;يوسفعليه‌السلام اور زليخا كى خواہشات ۹، ۱۰، ۲۸;يوسفعليه‌السلام اور كفران نعمت ۲۲; يوسفعليه‌السلام سے درخواست كرنا ۲;يوسفعليه‌السلام كا الله سے پناہ مانگنا ۱۰; يوسفعليه‌السلام كا بالغ ہونا ۳۲;يوسفعليه‌السلام كا تقوى ۱۵، ۱۶;يوسفعليه‌السلام كا عقيدہ ۲۰، ۲۱، ۲۲; يوسف(ع) كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۵، ۶، ۸، ۹، ۱۰، ۱۵، ۱۸، ۱۹، ۲۰، ۲۱، ۲۲، ۲۸، ۳۲;يوسفعليه‌السلام كا مدبر ہونا ۲۰;يوسف(ع) كى اطاعت ۱۵، ۱۶، ۲۱; يوسفعليه‌السلام كى توحيد ۱۵، ۱۶;يوسفعليه‌السلام كى جوانى ۱۵;يوسفعليه‌السلام كى حكمت كے آثار ۱۶;يوسفعليه‌السلام كى عفت ۴، ۹، ۱۴;يوسفعليه‌السلام كى فكر ۲۸;يوسفعليه‌السلام كے علم كے آثار ۱۶;يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۱۴، ۱۵

آیت ۲۴

( وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا لَوْلا أَن رَّأَى بُرْهَانَ رَبِّهِ كَذَلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاء إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ )

اور يقينا اس عورت نے ان سے بڑائي كا ارادہ كيا اور وہ بھى ارادہ كر بيٹھتے اگر اپنے رب كى دليل نہ ديكھ ليتے يہ تو ہم نے اس طرح كا انتظام كيا كہ ان سے برائي اور بدكارى كا رخ موڑ ديں كہ وہ ہمارے مخلص بندوں ميں سے تھے (۲۴)

۱_ يوسفعليه‌السلام كا زليخا سے وصال كرنے سے انكار پراس نے چاہا كہ وہ اور اس پر غلبہ كے ذريعہ اپنے مقصد كو حاصل كرے _ولقد همّت به

لفظ (ہمّة) اور اس كےتمام مشتقات اگر حرف (باء) كے ساتھ متعدى ہوں تو قصد كرنے كے معنى ميں آتے ہيں لہذا اس صورت ميں ( ولقد ہمّت بہ) يعنى بے شك زليخا نے يوسفعليه‌السلام كا ارادہ كيا تا كہ اس سے اپنى آرزو كو پورا كرے چونكہ زليخا اس طرح كا پہلے سے ارادہ ركھتي تھى (راوتہ التى ) سے معلوم ہوتا ہے كہ اس مقصد سے مراد كوئي دوسرا عزم ہے _اور بعد والى آيت ميں (استقبا ...)

۴۲۴

(يعنى دروازے كى طرف جانے ميں پر اس نے سبقت كي) كا جملہ بتاتا ہے كہ اس كا انجام اس كے غم و غصہ پر ختم ہوا _

۲_ فقط يوسفعليه‌السلام كا الله تعالى كى دليل و حجت كا مشاہدہ كرنا، زليخا سے ہمبسترى كرنے اور اس كى خواہش كو پوراكرنے سے مانع ہوا _و همّ بهالولا أن رء ابرهان ربّه

(ہم بہا) كا جملہ ( لو لا أن ...) كے جواب كے قائم مقام ہے يعنى اگر وہ دليل و برہان الہى كا مشاہدہ نہ كرتے تو زليخا كى طرف رغبت كرتے _ يہى ( برہان ) كا معنى حجت اور دليل ہے_ اس كے واضح مصاديق وہ دليليں ہيں جو ما قبل آيت ميں گذر چكى ہيں _ يعنى برہان كا مشاہدہ يہ چيزيں تھيں : الف:يوسف(ع) ربوبيت الہى اوراسكى نعمتوں كا مشاہدہ كرتے تھے (انه ربّى أحسن مثواي ) ب: يوسفعليه‌السلام كو مكمل يقين تھا كہ گنہگار اور ظالم لوگ كبھى بھى نجات نہيں پائيں گے _ (انه لايفلح الظالمون )

ج:انہيں اس بات ميں شك نہيں تھا كہ زليخا كے ساتھ وصال، ظلم اور معصيت الہى ہے (معاذالله ) ...)

۳_ يوسفعليه‌السلام ،جسمانى طور پر زليخا كى خواہش و آرزو كو پورا كرسكتے تھے _

و لقد همّت به و همّ بها لولا أن راء برهان ربّه

قرآن مجيدنے يہ بيان كرنے كے بعد كہ زليخا نے يوسفعليه‌السلام سے اپنى آرزو كو پورا كرنے كے لئے تمام وسائل مہياكئے ہوئے تھى اور اس نے موانع كو برطرف كرد يا تھا جملہ(هم بها لو لا ...) كو فقط حضرت يوسفعليه‌السلام كے ليے مانع، برہان كا مشاہدہ ذكر كيا ہے تا كہ يہگمان نہہو كہ ان ميں مردانگى طاقت نہيں تھى اور وہ اس كا م پر قدرت نہيں ركھتے تھے_

۴_ يوسفعليه‌السلام كا برہان اور حجت الہى سے بہرہ مند ہونا (يعنى ربوبيت الہى كا مشاہدہ كرنا ) انكے گناہوں كے ارتكاب سے عصمت كا سبب ہے _لولا أن راء برهان ربه كذلك لنصرف عنه السوء و الفحشاء

۵_ خداوند متعال كا يوسفعليه‌السلام كو دليل و برہان كا مشاہدہ كرانے كے ذريعےانہيں زليخا سے وصال (زنا) كرنے اور اسكو شہوت كى نگاہ سے ديكھنے سے محفوظ و امان ميں ركھا_كذلك لنصرف عنه السوء و الفحشاء

(فحشاء) اس گناہ و معصيت كو كہتے ہيں جو بہت ہى برى اور پليد ہو (لسان العرب) (سوء) كا معنى بدى اور گناہ ہے _ اسكو (فحشاء) كے مدمقابل ذكر كرنےكے قرينہ كى بناء پراس سے مراد چھوٹا گناہ ہے _ (السوء) اور (الفحشاء) پر الف لام ممكن ہے عہد كا ہو _ پس (الفحشاء) سے مراد زنا كرنا اور (السوء) سے شہوت كى نگاہ مراد ہے _ اور يہ بھى احتمال ممكن ہے كہ (أل) ان دونوں لفظوں پر جنس كاہولہذا مذكورہ گناہ مورد نظر مصاديق ميں سے شمار ہو نگے _

۴۲۵

۶_ يوسفعليه‌السلام كڑيل جوانى ميں چھوٹے و بڑے گناہ سے معصوم و محفوظ تھے_

كذلك لنصرف عنه السوء و الفحشاء انه من عبادنا المخلصين

۷_ برہان و دليل الہى كا مشاہدہ كرنا ( حقائق كا درك مثلا ربوبيت الہى كا ملاحظہ، گناہ كى بدى كاعلم ، گنہگاروں اور ظالموں كے نجات نہ پانے پر يقين) يہ سب انبيائ(ع) كى عصمت كے سبب ہيں _و همّ بهالو لا أن رء ا برهان ربّه

۸_ انبياءعليه‌السلام ،اللہ تعالى كى امداد كے سايہ ميں گناہ و فحشا سے محفوظ و معصوم ہوتے ہيں _

كذلك لنصرف عنه السوء و الفحشاء

(لنصرف عنہ ...) يعنى ( تاكہ بدى و پليدى كو اس سے دور كريں ) گناہ كو يوسفعليه‌السلام سے دور كرنے كوخداوند متعال كى طرف نسبت دى گئي ہے _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ برہان الہى كا مشاہدہ بھى توفيق الہى اور اسكى مدد كے سبب تھا_

۹_ شوہر دار عورت سے نزديكى اور زناكا ارتكاب، بہت ہى برا اور قبيح گناہ ہے_لنصرف عنه السوء و الفحشاء

۱۰_حضرت يوسفعليه‌السلام ،خداوند متعال كے اطاعت گذار اور مخلص بندوں ميں سے تھا_انه من عبادنا المخلصين

(مخلصين) ( خالص ہونے والوں ) سے مراد يہ ہے كہ غير اللہ كا ان ميں كوئي حصہ نہيں ہے اور وہ كامل طور پر اللہ كے اختيار اور اس كے اوامر كے تحت ہيں اور نہ شيطان ان پر حاكم ہے اور نہ ہى وہ ہوس نفسانى كے قيدى ہيں _

۱۱_ خداوند متعال كے خالص بندے ( جوہر اعتبار سے اطاعت الہى كرتے ہيں ) كبھى بھى گناہ ميں آلودہ اور كسى معصيت كے مرتكب نہيں ہوتے ہيں _لنصرف عنه السوء و الفحشاء انه من عبادنا المخلصين

۱۲_ اللہ عزوجل كے خالص بندے، برہان الہى (ربوبيت الہى پر يقين و غيرہ ...) سے بہرہ مند ہوتے ہيں _

هم بها لو لا أن رء ابرهان ربّه انه من عبادنا المخلصين

۱۳_'' عن الرضا عليه‌السلام ... و ا ما قوله عزوجل فى يوسف عليه‌السلام : '' و لقد همّت به همّ بها '' فانّها همّت بالمعصية و همّ يوسف بقتلهاإن أجبرته فصرف اللّه عنه قتلها و الفاحشه و هو قوله عزوجل : كذلك لنصرف عنه السوء و الفحشاء يعنى

۴۲۶

القتل و الزنا (۱)/ امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے : حضرتعليه‌السلام نے فرمايا كہ اللہ تعالى كاحضرت يوسفعليه‌السلام كے بارے ميں اس فرمان ( ولقد ہمّت بہ و ہمّ بہا) سے مراد يہ ہے كہ اس عورت نے گناہ كا ارادہ كيا ليكن يوسفعليه‌السلام نےيہ ارادہ كيا كہ اگر اس عورت نے انہيں گناہ پر مجبور كيا تو وہ اسے قتل كردے گئے ...'' پس خداوند عالم نے انہيں قتل اور خلاف عفت كام سے محفوظ ركھا اور خداوند عالم كے اس قول'' كذلك لنصرف عنه السوء الفحشاء '' سے مراد يہى ہے_

۱۴_عن على بن الحسين عليه‌السلام انه قال قامت إمراة العزيز الى الصّنم فا لقت عليه ثوبا فقال لها يوسف : ما هذا ؟ قالت : استحيى من الصّنم ان يرانا فقال لها يوسف : ا تستحيين مّمن لا يسمع و لا يبصر و لا ا ستحى أنا ممن خلق الانسان و علّمه فذلك قوله عزوجل : ''لو لا أن را ى برهان ربّه '' (۲)

امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے كہ عزيز مصر كى زوجہ نے ( جو يوسفعليه‌السلام كے ليے خلوت كى جگہ بنائي ہوئي تھي) وہاں سے اٹھى وہاں جوبت موجود تھااس پر كپڑاڈالا _ يوسفعليه‌السلام نے اس سے كہا : كيا كر رہى ہو؟ تو اس نے جواب ديا كہ ميں بت سے شرم كرتى ہوں جو مجھے ديكھ رہا ہے پھر حضرت يوسفعليه‌السلام نے فرمايا جو نہ ديكھتا ہے اور نہ ہى سنتا ہے تو اس سے تو شرم كر رہى ہے ليكن ميں كيا اس سے حيا نہ كروں جس نے انسان كو خلق كيااور اسے علم عطا كيا ہے ؟ يہى وہ بات ہے كہ خداوند متعال نے فرمايا (لو لا أن رأى )

۱۵_عن الصادق عليه‌السلام (فى البرهان الذى را ى يوسف)النبوة المانعة من ارتكاب لفواحش و الحكمة الصارفة عن القبايح (۳)

امام صادقعليه‌السلام فرماتے ہيں : وہ برہان جو يوسفعليه‌السلام نے ديكھا وہ برہان نبوت تھا جو گناہوں سے ارتكاب سے مانع ہوا _ اور وہ حكمت تھى جو برے كاموں سے روكتى ہے_

۱۶_عن الرضا(ع) : لقد همّت به و لو لا أن را ى برهان ربّه لهمّ بها كما همّت به لكنه كان معصوما ً و المعصوم لايّهم بذنب (۴)

امام رضا(ع) فرماتے ہيں : وہ عورت جس نے يوسفعليه‌السلام كا ارادہ كيا تھا اگر يوسفعليه‌السلام برہان الہى كا مشاہدہ نہ كرتے تو وہ بھى ايسا ارادہ كر ليتے حضرت يوسف(ع) معصوم تھے اور معصوم كبھى بھى گناہ كا ارادہ نہيں كرتا_

____________________

۱)عيون الاخبار الرضا ، ج ۱ ، ص ۱۹۳، ح ۱ ب ۱۴; نور الثقلين ج ۲ ، ص ۴۱۹ ، ح ۴۱_۲) عيون الاخبار الرضا ، ج ۲ ، ص ۴۵ ، ح ۱۶۲; نور الثقلين ، ج ، ص ۴۱۹، ح ۴۳_

۳) مجمع البيان ، ج ۵ ، ص ۳۴۴ ; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۴۲۱ ، ح ۵۰_۴) عيون الاخبار الرضا ، ج ۱ ، ص ۲۰۱ ، ح ۱ ، ب ۱۱۵; نور الثقلين ج ۲ ، ص ۴۱۹ ، ح ۴۲_

۴۲۷

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى دليليوں كا فائدہ ۲، ۴، ۵، ۷;اللہ تعالى كى ربوبيت كو درك كرنے كے آثار ۷; اللہ تعالى كى ربوبيت كے آثار ۴; اللہ تعالى كى مدد كا فائدہ ۸

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام كى عصمت كاسبب ۸ ;انبيا ءعليه‌السلام كى عصمت كے عوامل ۷; انبياءعليه‌السلام كے مقامات ۸

ايمان :اللہ تعالى كى ربوبيت پر ايمان ۱۲

حقائق :حقائق كودرك كرنے كے آثار ۷

روايت : ۱۳، ۱۴، ۱۵، ۱۶

زليخا :زليخا اور يوسفعليه‌السلام ۱; زليخا كا آرزو كرنا ۱;زليخا كا ارادہ ۱۳

زنا :زنا كا گناہ ۹;زنا كى پليدى و برائي ۹; شوہر والى عورت سے زنا ۹

ظالمين :ظالمين كى گمراہى ۷

گناہ :گناہ سے عصمت ۶، ۸، ۱۱ ; گناہ كبيرہ۹;گناہ كى پليدى و برائي كو درك كرنے كے آثار ۷; گناہ كے موانع ۴

گنہگار :گنہگاروں كى گمراہى ۷

مخلصين :۱۰

مخلصين اور اللہ تعالى كى دليليں ۱۲;مخلصين كا ايمان ۱۲; مخلصين كى خصوصيات ۱۱، ۱۲مخلصين كى عصمت ۱۱; مخلصين كے فضائل ۱۱

مطيع افراد : ۱۰

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام اور زليخا ۳، ۵ يوسفعليه‌السلام پر اللہ تعالى كى حجت ۲، ۳، ۵، ۱۴، ۱۵، ۱۶; يوسف(ع) كا ارادہ ۱۳;يوسفعليه‌السلام كا خلوص ۱۰; يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۵، ۶، ۱۳، ۱۵، ۱۶; يوسفعليه‌السلام كا مخلصين سے ہونا ۱۰;يوسفعليه‌السلام كى جوانى ۶;يوسف(ع) كى جنسى قوت ۳;يوسف كى حكمت ۱۵; ۱۶;يوسف كى عصمت كا سبب ۵;يوسفعليه‌السلام كى عفت ۵;يوسفعليه‌السلام كى عصمت كے عوامل ۲، ۴;يوسف كى عصمت ۶، يوسف كى فرمانبردارى ۱۰; يوسفعليه‌السلام كى نبوت ۱۵;يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۱۰;يوسف كے مقامات ۶، ۱۶

۴۲۸

آیت ۲۵

( وَاسُتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِن دُبُرٍ وَأَلْفَيَا سَيِّدَهَا لَدَى الْبَابِ قَالَتْ مَا جَزَاء مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِكَ سُوَءاً إِلاَّ أَن يُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِيمٌ )

اور دونوں نے دروازے كى طرف سبقت كى اور اس نے ان كا كرتا پيچھے سے پھاڑ ديا اور دونوں نے اس كے سردار كو دورازہ ہى پر ديكھ ليا _اس نے گھبرا كر فرياد كى كہ جو تمھارے عورت كے ساتھ برائي كا ارادہ كرے اس كى سزا اس كے علاوہ كياہے كہ اسے قيدى بناديا جائے يا اس پر دردناك عذاب كيا جائے (۲۵)

۱_ زليخا، حضرت يوسفعليه‌السلام سے اپنى آرزو كو پورا كرنے اورانكونزديكى پر آمادہ كرنے كے ليے ان سے جھگڑا كرنے پر تل گئي_و استبقا الباب

۲_ حضرت يوسفعليه‌السلام ،ذليخا سے الجھنے سے نجات پانے كى خاطر باہر جانے والے دروازے كى طرف لپكے_

و لقد همت به استبقا الباب

''الباب'' كو معرفہ لانا خاص دروازہ كى طرف اشارہ ہے _مقام كى مناسب سے يہ كہا جا سكتا ہے اس سے مراد باہر نكلنے والا دروازہ ہے_

۳_ گناہ سے آلودہ نہ ہونے كے لئے معصيت كے ماحول سے نكلنے كى كوشش كرنا ضرورى ہے_و استبقا الباب

۴_ زليخا، حضرت يوسفعليه‌السلام كو حاصل كرنے اوران كو باہر جانے سے روكنے كى خاطر ان كے پيچھے جلدى سے باہر جانے والے دروازے كى طرف لپكي_و استبقا الباب

۵_حضرت يوسف(ع) ، زليخا سے دور بھا گنے كى كوشش ميں باہر جانے والے دروازے تك اس سے پہلے پہنچ گئے_

و استبقا الباب و قدت قميضه من دبر

۶_ زليخا نے حضرت يوسفعليه‌السلام كو باہر جانے سے روكنے كے ليے ان كى قميض كو پيچھے سے پكڑا اور اسكو زور سے اپنى طرف كھينچا_و استبقا الباب و قدت قميصه من دبر

۷_ زليخا كا يوسفعليه‌السلام كى قميض كو پكڑنے كى وجہ سے قميض ميں سوراخ ہوگيا اور وہ سارى كى سارى پھٹ گئي_

و قدت قميضه من دبر

۴۲۹

(قدّ) (قدّت) كا مصدر ہے جس كا معنى اوپر سے نيچے تمام كا تمام شگافتہ اور پار ہ كرنا ہے (لسان العرب) اس صورت ميں (قدّ القميص) يعنى اوپر سے نيچے تك سارى كى سارى قميض پھٹ گئي_

۸_ حضرت يوسفعليه‌السلام ، دروازے كو كھولنے اور زليخا كے مكر سے بھاگنے ميں كامياب ہوگئے_

و ألفيا سيدها لدا الباب

۹_ زليخا كا يوسفعليه‌السلام كے پيچھے دوڑنا اور ان كا اس سے بھاگنے كے دوران ہى جب دروازہ كھلا تو انہوں نے عزيز مصر كو دروازے ميں پايا_و الفياسيدها لدا الباب

(إلفا) (ألفيا) كا مصدر ہے جو پانااور روبرو ہونے كے معنى ميں آتا ہے (سيّد) كا معنى سردار اور صاحب عظمت ہے _ ليكن يہاں مراد شوہر ہے_

۱۰_ يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں شوہر كا بيوى كے ليے آقا و سردار ہونا_و ألفيا سيدها لدا الباب

۱۱_ زليخا نے جب اپنے شوہر '' عزيز مصر ''كو ديكھا تو يوسفعليه‌السلام پر اپنے اوپر تجاوز كرنے كے ارادے كى تہمت لگائي _

قالت ما جزاء من ا راد با هلك سوء

(جزاء ) كا معنى انجام اور سزا ہے اور اس آيت شريفہ ميں (ما) نافيہ ہے _ اسى وجہ سے (ما جزاء ) كا معنى يہ ہوگا _ جوتيرى بيوى پر تجاوز كرنے كا ارادہ كرے اسكى سزا نہيں ہوسكتى مگر زندان يا دردناك عذاب _

۱۲_ زليخا كا يوسفعليه‌السلام پر تہمت لگانے ميں پہل كرنا _

و ألفيا سيّدها لدا الباب قالت ما جزاء من ا راد با هلك سوء

۱۳_ زليخا كا عزير مصر كے سامنے اپنى صفائي پيش كرنے كى كوشش كرنا _قالتما جزاء من ا راد با هلك سوء

۱۴_ زليخا كا عزيز مصر كو ابھارنے كا مقصد حضرت يوسف(ع) كا مؤاخدہ اور انہيں سزا دينا تھا _

ما جزا ء من ا راد با هلك سوء ً الا ان يسجن او عذاب اليم

ابھارنے كا معنى زليخا كے قول ( اہلك) سے استفادہ ہوا ہے_يعنى تيرى بيوى كے قول كا استعمال ،عزير مصر كو اسكى سزا و عقاب پر ابھارنے كيخاطر تھا_

۴۳۰

۱۵_ زليخانے عزير مصر كے سامنے يوسفعليه‌السلام كو تجاوزكرنے سے متہم نہيں كيا _ما جزاء من أراد با هلك سوء

مذكورہ بالا معنى كا (أراد )(قصد كيا) كے فعل سے استفادہ كيا گيا ہے_

۱۶_ يوسفعليه‌السلام كو قيد ميں ڈالنا يا اس پر شكنجہ كرنا يہ زليخا كى عزير مصر كو سزا دينے كى تجويزتھي_

ما جزاء من أراد با هلك سو ء اً إلّا ان يسجن ا و عذاب اليم

۱۷_ قديمى و تاريخى مصر اور يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں قيد خانے كا ہونا _إلا أن يسجن

۱۸_ قديمى و تاريخى مصر اور يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں مجرموں كو قيد ميں ڈالنا اور ان پر شكنجہ كرنامتداول و رائج تھا_

إلاّ ان يسجن أو عذاب أليم

۱۹_ قديمى مصر ميں اشراف اور بزرگان كى بيويوں پر تجاوز كا ارادہ كرنا، مستوجب سزا و عقاب تھا_

ما جزاء من أراد با هلك سوء اًإلاّ أن يسجن أو عذاب اليم

۲۰_عن على بن الحسين(ع) : فغلقت الابواب عليها و عليه و قالت : لا تخف و ا لقت نفسها عليه فا فلت منها هاربا إلى الباب ففتحه فلحقته فجذبت قميصه من خلفه (۱)

امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے: ( عزير مصر) كى بيوى نے اپنے اور يوسفعليه‌السلام كے ليے دروازوں كو بند كرديا اور اس سے كہا ڈر و مت : اور اپنے آپ كو اس پر گرادو : حضرت يوسف(ع) اس سے بھاگ گئے اور دروازے كى طرف بھا گنا شروع كرديا اور دروازے كو كھول ديا يہاں تك كہ وہ عورت بھى ان تك پہنچ گئي اور اس نے ان كى قميض كو پيچھے سے كھينچا_

اشراف :اشراف كى بيويوں پر تجاوز كرنے كى سزا ۱۹

روايت : ۲۰

زليخا :زليخا اور عزير مصر ۹، ۱۳، ۱۴; زليخا اور يوسفعليه‌السلام ۱، ۴، ۶، ۷، ۱۱، ۱۲، ۱۵;زليخا اور حضرت يوسف(ع) كى سزا ۱۴ ; زليخا كا صفائي پيش كرنا ۱۳; زليخا تہمتيں ۱۱، ۱۲ ; زليخا كى سازش ۴، ۵، ۶، ۷، ۸، ۱۴; زليخا كى مراد پانے كى كوشش ۱

زندان :

____________________

۱) علل الشرائع ، ص ۴۸، ح ۱ ، ب ۴۱; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۴۱۴، ح ۱۷_

۴۳۱

زندان كى تاريخ ۱۷، ۱۸; يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں زندان ۱۷

سزاء :سزا كى شناخت ۱۸، ۱۹

شكنجہ :شكنجہ كى تاريخ ۱۸; حضرت يوسف(ع) كے زمانے ميں شكنجہ ۱۸

عزير مصر :عزير مصراور حضرت يوسف(ع) كى سزاء ۱۴;عزير مصر كو ابھارنا ۱۴

قديمى مصر :قديمى مصر ميں اشراف كى بيويوں كا احترام ۱۹; قديم مصر ميں شكنجہ ۱۸;قديمى مصر ميں قيد خانہ ۱۷; قديم مصر ميں قيدى بنانا ۱۸

قيد ميں ڈالنا:يوسف(ع) كے زمانہ ميں قيد ميں ڈالنا۱۷

گناہ :گناہ كى جگہ سے اجتناب كى اہميت ۳

مرد كى سردارى :مرد كى سردارى كى تاريخ ۱۰; يوسفعليه‌السلام كے ميں مرد كى سالارى ۱۰

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام اور زليخا۲، ۵، ۹;يوسفعليه‌السلام اورعزيز مصر ۹; يوسف(ع) پر تہمت ۱۱، ۱۲،۱۵;يوسف(ع) پر شكنجہ ۱۶; يوسفعليه‌السلام كابھاگنا ۲، ۵، ۸;يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۴، ۵، ۶، ۷، ۸، ۹، ۱۱، ۱۲، ۱۳، ۱۴، ۱۵، ۱۶، ۲۰; يوسفعليه‌السلام كو قيدى بنانا ۱۶;يوسفعليه‌السلام كى سزاء ۱۶;يوسف(ع) كى قميض ۶ ، ۲۰;يوسفعليه‌السلام كى قميض كا پھٹ جانا۷;يوسفعليه‌السلام كى نجات۸;يوسفعليه‌السلام كے خلاف سازش ۱، ۴، ۵، ۱۴

آیت ۲۶

( قَالَ هِيَ رَاوَدَتْنِي عَن نَّفْسِي وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ أَهْلِهَا إِن كَانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِن قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنَ الكَاذِبِينَ )

يوسف نے كہا كہ اس نے خود مجھے سے اظہار محبت كيا ہے اوراس پر اس كے گھر والوں ميں سے ايك گواہ نے گواہى بھى دے دى كہ اگر ان كا دامن سامنے سے پھٹا ہے تو وہ سچى ہے اور يہ جھوٹوں ميں سے ہيں (۲۶)

۱_ يوسفعليه‌السلام كا زليخا كى تہمت كے مقابلے ميں اپنا دفاع كرنا_

قال هى راودتنى عن نفسي

۲_يوسفعليه‌السلام نے عزيز مصر كے سامنے زليخا كى ناجائز خواہش اور اس كے مقابلے ميں اپنے انكار كرنے كو بيان كيا اور خود كو ہر برے ارادے سے پاك و منزا قرار ديا _قال هى راودتنى عن نفسي

۴۳۲

(هى راودتني ) اور (أناقمت ) كى جو نحوى تركيب ہے كہ مبتداء فاعل كے معنى ميں ہے اور اسكى خبر خود فعل ہے _ كبھى يہ تاكيد پر دلالت كرتى ہے اور كبھى حصر پر دلالت كرتى ہے_ چونكہ يوسف(ع) اپنے سے الزام كو دور كرنے كى كوشش ميں تھے تو اس سے معلوم ہوتا ہے كہ(ہى راودتني) كا جملہ حصر پر دلالت كر رہا ہے _ تو اس صورت ميں جملہ ( ہى راودتنى ) كا معنى يہ ہوگا كہ وہ (زليخا) مجھ سے اپنى آرزو پورى كرنے كى خواہش ركھتى تھى ليكن ميں نے يہ خواہش پورى نہيں كى اور ميں اس سے انكار كرتا رہا_

۳_ ضرورى ہے كہ نامناسب تہمتوں سے انسان اپنا دفاع كرے _

قالت ما جزاء قال هى راودتنى عن نفسي

۴_ اپنے دفاع كے ليے دوسرے كے گناہوں كو افشاء كرنا جائزہے_قالت قال هى راودتنى عن نفسي

۵_ يوسفعليه‌السلام نے زليخا كى نزديكى اور وصال كى خواہش كو اپنے دفاع كے وقت تك مخفى ركھا اور اسے فاش نہيں كيا_

قالت قال هى راودتنى عن نفسي

۶_ يوسفعليه‌السلام اپنے دفاع كے وقت مطمئن اور پر سكون تھے_قال هى راودتنى عن نفسي

يوسفعليه‌السلام نے اپنے اتہام كو دور كرنے كے ليے اپنى كلام (هى راودتنى عن نفسى ) ميں نہ تو تاكيد كے الفاظ استعمال كئے اور نہ ہى قسم وغيرہ اٹھائي _ يہ اس بات كى دليل ہے كہ اس مقام پر حضرت يوسف(ع) نہايت مطمئن اور پر سكون تھے_

۷_ عزيز مصر نے يوسف اورزليخا كے ماجرا ميں اپنى طرف سے فيصلہ نہيں ديا اور جلدى فيصلہكرنے سے پرہيز كيا_

قالت قال هى راودتنى عن نفسى و شهد شاهد من اهله

۸_ زليخا كے رشتہ داروں ميں ايك شخص نے زليخا اور يوسفعليه‌السلام كے ماجرا ميں مداخلت كى اور ان كے درميان اس نے فيصلہ كيا_و شهد شاهد من أهله

۹_ يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے واقعہ ميں قضاوت كرنے والا اگرچہ زليخا كے رشتہ داروں ميں سے تھا ليكن اس نے غير جابندار ہو كر حق كا فيصلہ ديا_

۴۳۳

و شهد شاهد من أهلها إن كان قميصه قدّ من قبل

۱۰_ يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے واقعہ كى قضاوت كرنے والا، اپنا فيصلہ دينے سے پہلے يوسفعليه‌السلام كى قميض كے پھٹ جانے سے آگاہ ہوچكا تھا_و شهد شاهد من أهلها إن كان قميصه قدّ

۱۱_ يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے واقعہ كا فيصلہ كرنے والے نے زليخا كى سچائي اور يوسفعليه‌السلام كے جھوٹ كو يوسفعليه‌السلام كى آگے كى جانب سے قميض كو پھٹنے پر منحصر قرار ديا_ان كان قميصه قدّ من قبل فصدقت و هو من الكاذبين

۱۲_ يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے واقعہ كا فيصلہ كرنے والا، اپنے صحيح فيصلے اور قميض كے پھٹنے پر كامل اطمينان ركھتا تھا_

و شهد شاهد من أهلها إن كا ن قميصه قدّ من قبل

(شہد شاہد) كے جملے ميں گواہى سے مراد اظہار نظر اور قضاوت كرنا وغيرہ ہے _ اس لفظ كا ذكر جو كہ شہادت ومشاہدہ پر موقوف ہے بتاتا ہے كہ وہ شخص اپنى قضاوت و فيصلے پر اتنا مطمئن تھا گويا اس نے ماجرا كو اپنى آنكھوں ہى سے ديكھا ہے_

۱۳_عن على بن الحسين عليه‌السلام ... قال : يوسف و اله يعقوب ما ا ردت بأهلك سوء بل هى راودتنى عن نفسى فسل هذا الصبى و كان عندها من أهلها صبى زائر لها فانطق اللّه الصبى لفصل القضاء فقال انظر الى قميص يوسف (۱)

امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے كہ يوسف نے كہا : مجھے يعقوبعليه‌السلام كے خدا كى قسم ميں تيرى بيوى كے بارے ميں برى نظر نہيں ركھتا تھا_ خود اس نے مجھے دعوت دى تم اس بچے سے پوچھ لو _ وہ بچہ اس عورت كے رشتہ داروں ميں سے تھا جو اس كو ديكھنے كے ليے آيا تھا پھر خداوند متعال نے قضاوت كرنے كے ليے اس بچے كو زبان دى اور وہ كلام كرنے لگا اور اس نے كہا: يوسفعليه‌السلام كى قميض كو ديكھو

احكام :۴

راز فاش كرنا :راز فاش كرنے كا جواز ۴;راز فاش كرنے كے احكام ۴

روايت :۱۳

خود :اپنا دفاع ۱، ۴، ۶;اپنے دفاع كى اہميت ۳، ۵; اپنے سے تہمت كو دور كرنا ۳

زليخا :

۴۳۴

زليخا كا اپنى آرزو كو پورا كرنے كى كوشش كرنا ۲، ۵زليخا كى صداقت كے دلائل ۱۱; زليخا كے رشتہ داروں كى قضاوت ۸، ۹

عزيز مصر :عزيز مصر اور قصّہ يوسفعليه‌السلام ۷

قضاوت :اپنے دعوى كو ثابت كرنے ميں قضاوت كى نشانياں ۱۱; قضاوت ميں عدالت ۹; قضاوت ميں قضاوت كى علامات كا كردار ۱۱

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام اور زليخا كى تہمتيں ۱; يوسفعليه‌السلام اورعزيز مصر ۲; يوسفعليه‌السلام كا پر سكون ہونا ۶; يوسف(ع) كا دفاع ۱، ۶; يوسفعليه‌السلام كا راز فاش كرنا ۲، ۵; يوسف كا صفائي پيش كرنا ۲; يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱، ۲، ۵، ۷، ۹، ۱۰، ۱۲، ۱۳; يوسفعليه‌السلام كا گواہ ۱۳;يوسف(ع) كى قميض ۱۳;يوسف(ع) كى قميض كا پھٹنا ۱۰، ۱۱، ۱۲;يوسف(ع) كے پيش آنے كا طريقہ ۶; يوسفعليه‌السلام كے جھوٹ بولنے كے دلائل ۱۱; يوسفعليه‌السلام كے قصے ميں قاضى كا اطمينان ۱۲; يوسف(ع) كے قصّے كا قاضى ۹، ۱۰، ۱۱

آیت ۲۷

( وَإِنْ كَانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِن دُبُرٍ فَكَذَبَتْ وَهُوَ مِن الصَّادِقِينَ )

اور اگر ان كا كرتا پيچھے سے پھٹا ہے تو وہ جھوٹى ہے اور يہ سچوں ميں سے ہيں (۲۷)

۱_ يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے واقعے كا فيصلہ كرنے والے نے كُرتے كے پيچھے سے پھٹنے كى وجہ سے زليخا كے دعوى كو جھوٹا اور يوسفعليه‌السلام كو سچا قرار ديا _و ان كان و هو من الصادقين

۲_ يوسف(ع) اور زليخا كے قضيے ميں فيصلہ كرنے والے كے نزديك كرتے كا پھٹنا حقيقت كشف ہونے كا محور قرارپايا _

و شهد شاهد و هو من الصادقين

قميض كے پھٹنے سے قضيے كى حقيقت كو بھانپ لينا فيصلہ كرنے والے كى ذہانت وہوشيارى پردلالت

دلالت كرتا ہے_ اور ساتھ ہى اس نے زليخا كے رشتہ دار ہونے كے باوجود بھى حق كو مخفى نہيں ركھا_ اس سے اسكى حق پرستى اور عدالت ثابت ہوتى ہے_

۳_مجرم كى تشخيصكے ليے جرم كى شناخت ميں مختلف طريقوں كو اختيار كرنا ضرورى ہے_ان كان و هو من الصادقين

جرم :

۴۳۵

جرم كو ثابت كرنے كے دليليں ۴

جرم كى شناخت كرنا :جرم كى شناخت كرنے كا طريقہ ۴

زليخا :زليخا كے جھوٹے ہونے كے دلائل ۱

قضاوت :دعوى كو ثابت كرنے ميں قضاوت كے طور طريقے ۱; قضاوت ميں قضائي طور طريقوں كا كردار ۱

مجرمين :مجرمين كى تشخيص كا طريقہ ۴

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كى سچائي كے دلائل ۱;يوسفعليه‌السلام كى قميض كا پھٹ جانا ۱، ۲; يوسفعليه‌السلام كے قصّے كا قاضى ۱; يوسفعليه‌السلام كے قصّے كى قضاوت ۳;يوسفعليه‌السلام كے قصہ كے قاضى كى عدالت ۳; يوسفعليه‌السلام كے قصّے ميں قاضى كے فضائل ۳; يوسفعليه‌السلام كے قصّےميں قاضى كى كام ميں سوجھ بوجھ ۳

آیت ۲۸

( فَلَمَّا رَأَى قَمِيصَهُ قُدَّ مِن دُبُرٍ قَالَ إِنَّهُ مِن كَيْدِكُنَّ إِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيمٌ )

پھر جو ديكھا كہ ان كا كرتا پيچھے سے پھٹا ہے تو اس نے كہا كہ يہ تم عورتوں كى مكار ى ہے تمھارا مكر بہت عظيم ہوتاہے (۲۸)

۱_ عزيز مصر نے يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے ماجرا كى حقيقت كو كشف كرنے كے ليے خود ہى تحقيق كى اور قميض اور اسكے پھٹ جانے كے انداز كا ملاحظہ كيا _فلّمارءا قميصه قُدّ من دُبر

ظاہر يہ ہے كہ ( رأي) ميں ضمير، عزيز مصر كى طرف لوٹتى ہے_

۲_ عزيز مصر، نے حضرت يوسفعليه‌السلام كے كرتے كو پيچھے سے پھٹا ہوا ديكھ كر ان كى سچائي كوسمجھ ليا_

فلما رءا قميصه قُدّ من دُبر قال انه من كيدكنّ

۳_ عزيز مصر نے يوسفعليه‌السلام كى سچائي كو جاننے كے بعد يوسفعليه‌السلام كے حق ميں فيصلہ ديا اور زليخا كو مجرم ٹھہرايا_

فلما رءاى قميصه قدّ من دبر قال انه من كيدكن

۴_ عزيز مصر نے واقعہ يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے قاضى كى طرف سے پيش كردہ شواہدكو حضرت يوسفعليه‌السلام سے

۴۳۶

تہمت دور كرنے اور اسكى بے گناہى كو ثابت كرنے ليے كافى سمجھا_فلما رءا قميصه قدّ من دبر قال انه من كيدكن

۵_ عزيز مصر نے يوسفعليه‌السلام كى حقانيت كو سمجھنے كے بعد عورتوں كو مكر و حيلہ سے مجسم انسان قرار ديا _

إنه من كيدكنَّ

۶_ ناجائز جنسى روابط اور اخلاقى انحرافات كو وجود ميں لانے ميں عورتوں كا بہت زيادہ حصہ ہے_انه من كيدكنَّ

مذكورہ معنى اس صورت ميں ہے جب ( انّہ ) كى ضمير وصال كے ارادے كى محبت كى طرف لوٹ رہى ہوجس كا جملہ ( ہى راودتنى ) سے استفادہہوتاہے _

۷_ عزيز مصر نے يوسفعليه‌السلام سے اپنى آرزو پورا كرنے والے مكر كو زليخا كے زنانہ مكر و حيلوں سے قرار ديا _

إنّه من كيدكن

يہ احتمال ہے كہ ( انّہ) كى ضمير (غلقت الابواب ) كے جملے سے جو حقيقت ظاہر ہوتى ہے كى طرف پلٹے مذكورہ معنى اسى احتمال كى بناء پر ہے_

۸_ عزيز مصر نے زليخا كا حضرت يوسفعليه‌السلام كو متہم كرنے اور ان كے ليے سزا كے مقرر كرنے ميں پہل كرنے كو زليخا كا مكر قرار ديا _قالت ما جزاء من أراد با هلك سوء اً انه من كيدكنَّ

مذكورہ بالا معنى اس صورت ميں ہے كہ جب (انّہ ...) كى ضمير كو ( قالت ما جزاء ...) آيت ۲۵ كے معنى كى طرف لوٹائيں اور وہ معنى يہ ہے كہ زليخا نے اپنے آپ كو پاكدامن اورمقابل كو گنہگار ثابت كرنے ميں پہل كى ہے_

۹_ عزيم مصر كا عورتوں كے مزاج اور ان كے مكر و فريب سے آگاہ ہونا _إن كيد كنَّ عظيم

۱۰_ عورتوں كامكر و فريب، بہت ہى بڑا مكر و فريب ہوتا ہے_ان كيدكن عظيم

اگرچہ جملہ ( ان كيدكن عظيم ) عزيز مصر كا كلام ہے _ ليكن مفسرين قائل ہيں كہ اگر قرآن مجيد ميں خداوند متعال كسى كلام كو نقل كرے اور اسكو ردّ نہ كرے تو اس سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ كلام حق ہے_

۱۱_ مكر و فريب عورتوں كاوہ ذريعہ ہے جن سے وہ اخلاقى فساد وانحراف ايجادكرتى ہيں _انه من كيدكنَّ

۱۲_ عورتوں كے مكر و فريب سے ہوشيار رہنا ضرورى ہے_انه من كيدكن انه كيدكنَّ عظيم

۴۳۷

۱۳_ عزيز مصر كا يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے قصّے ميں اپنى رائے دينے اور قضاوت كرنے ميں عدالت اور انصاف سے كام لينا _فلما رءا قميصه قال إنه من كيدكنَّ إن كيدكُنَّ عظيم

اخلاق :اخلاقى فساد كے عوامل ۶

زليخا :زليخا كا مكر ۷، ۸;زليخا كى آرزو پورى كى خواہش ۷;زليخا كى تہمتيں ۴، ۸; زليخا كے خلاف فيصلہ ہونا ۳

عزيز مصر :عزيز مصر اور زليخا ۳، ۷; عزيز مصر اور عورتوں كا مكر ۹;عزيز مصر اور يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱، ۷، ۸، ۱۳;عزيز مصر اور يوسفعليه‌السلام كى صداقت ۲; عزيز مصر اور يوسف ۳، ۴، ۵; عزيز مصر كا آگاہ ہونا ۹;

عزيز مصر كا چھان بين كرنا ۱; عزيز مصر كى عدالت ۱۳; عزيز مصر كى قضاوت ۱۳

عورتيں :عورتوں كا فساد پھيلانا ۶، ۱۱; عورتوں كا مكر ۵، ۷، ۸، ۱۰، ۱۱ ; عورتوں كے مكركے مقابلہ ميں ہوشيار و چالاك ہونا ۱۲

فساد :فساد كا ذريعہ۱۱

گمراہى :گمراہى كا ذريعہ ۱۱

مكر :بہت بڑا مكر ۱۰

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام پر تہمت ۴، ۸;يوسفعليه‌السلام كى صداقت ۳، ۵; يوسفعليه‌السلام كى صداقت كے دلائل ۲، ۴; يوسفعليه‌السلام كے كرتے كا پھٹ جانا ۱، ۲، ۴

۴۳۸

آیت ۲۹

( يُوسُفُ أَعْرِضْ عَنْ هَـذَا وَاسْتَغْفِرِي لِذَنبِكِ إِنَّكِ كُنتِ مِنَ الْخَاطِئِينَ )

يوسف اب تم اس سے اعراض كرو اور زليخا تو اپنے گناہ كے لئے استغفار كر كہ تو خطا ركاروں ميں ہے (۲۹)

۱_ عزيز مصر نے يوسفعليه‌السلام سے چاہا كہ زليخا كے معاملے كو بھلاو اور اسكو چھپادے_يوسف أعرض عن هذ

(اعرض عن هذا ) كا معنى زليخا كے ماجرے كو فراموش كرنا يعنى اسكو مخفى كرنے اوراس سے صرف نظر كرنے كے معنى ميں ہے_ يعنى اس كے بارے ميں كسى سے گلا و شكوہ نہيں كرنا _ كيونكہ زليخا كے خلافكسى قسم كا اقدام كرنا حضرت يوسف(ع) كے مقام جو كہ ايك زرخريد غلام تھے سے سازگار نہيں تھا_

۲_ واقعہ كى حقيقت ظاہر ہونے كے بعد عزيز مصر كى طرف سے حضرت يوسفعليه‌السلام كا اكرام و احترام _

يوسف أعرض عن هذا

لفظ ( يوسف ) منادى اور ( يا) حرف نداء ہے جو يہاں حذف ہوگيا ہے _ عزيز مصر اس كو حذف كركے يوسفعليه‌السلام سے اپنى قربت اور محبت كا اظہار كرنا چاہتا ہے اور انكا نام لے كر ان سے اپنى مہربانى اور عطوفت كو بيان كر رہاہے_

۳_ عزيز مصر كے سامنے جب زليخا كى غلطى ثابت ہوگئي تو اس نے اسے استغفار كرنے اور گناہ سے معافى طلب كرنے كے ليے كہا _و استغفرى لذنبك إنّك كنت من الخاطئين

جملہ (و استغفرى لذنبك ) ''اپنے گناہوں كى معافى مانگو''ميں يہ بيان نہيں ہوا كہ زليخا كس سے معافى طلب كرے _ بعض مفسرين نے كہا ہے كہ استغفار سے مراد خداوند متعال سے استغفار كرنا ہے _ بعض نے كہا ہے كہ خود عزيز مصر سے معافى طلب كرنا مرادہے_

۴_ عورت كا اپنے شوہر كے علاوہ كسى سے جنسى رابطہ ركھنا نامناسب اور ناجائز ہے _و استغفرى لذنبك

۵_ قديم ايّام سے انسان، عورت كا اپنے شوہر كے علاوہ كسى سے جنسى روابط كے ناجائز و نامناسب ہونے كا اعتقاد ركھتا تھااور اس كى تاكيد كرتاتھا_و استغفرى لذنبك إنك كنت من الخاطئين

۴۳۹

زليخا :زليخا كے مكر كو چھپانا ۱

عزيز مصر :عزيز مصر اور زليخا ۳; عزيز مصر اور يوسفعليه‌السلام ۱، ۲; عزيز مصر كى توقعات ۱، ۳

ناجائز روابط :ناجائز روابط تاريخ كى نظر ميں ۵; ناجائز روابط كى برائي ۵;نامحرم سے رابطہ ۴

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام سے درخواست كرنا ۱;يوسفعليه‌السلام كا احترام ۲ ; يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱، ۲، ۳

آیت ۳۰

( وَقَالَ نِسْوَةٌ فِي الْمَدِينَةِ امْرَأَةُ الْعَزِيزِ تُرَاوِدُ فَتَاهَا عَن نَّفْسِهِ قَدْ شَغَفَهَا حُبّاً إِنَّا لَنَرَاهَا فِي ضَلاَلٍ مُّبِينٍ )

اور پھر شہر كى عورتوں نے كہنا شروع كرديا كہ عزيز مصر كى عورت اپنے جوان كو اپنى طرف كھينچ رہى تھى اور اسے اس كى محبت نے مدہوش بنا ديا تھا ہم يہ ديكھ رہے ہيں كہ يہ عورت بالكل ہى كھلى ہوئي گمراہى ميں ہے (۳۰)

۱_ زليخا كا يوسفعليه‌السلام سے عشق اور اسكا ان سے اپنى آرزو كو پورا كرنے كى خواہش كرنا، شہر ميں پھيل گيا _

و قال نسوة فى المدينة امرأت العزيز تراودفتىاها

۲_ مصر كے دار لخلافہ ميں يوسف(ع) اور زليخا كے قصہ كى خبر عام ہونے كاسبب اشراف كى عور تيں تھيں _

و قال نسوة فى المدينة

مذكورہ معنى اس صورت ميں ہوسكتا ہے كہ جب (فى المدينة) كا جملہ ( قال) كے متعلق ہو لہذا جملہ يوں ہوگا ( قال نسوة فى المدينة ...) يعنى عورتوں نے يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے عشق كو اس شہر ( دار الخلافہ مصر ) ميں پھيلا ديا _

۳_ زليخا كا يوسفعليه‌السلام سے عشق اور اسكا ان سے اپنى آرزو كو پورا كرنےكے لئے اصرار، اشراف لوگوں كى بيويوں كى زبان پر جارى ہوگيا _و قال نسوة فى المدينة امرأت العزيز ترادو فتى ها عن نفسه

( فى المدينة) ممكن ہے (قال) كے متعلق ہو

۴۴۰

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945

946

947

948

949

950

951

952

953

954

955

956

957

958

959

960

961

962

963

964

965

966

967

968

969

970

971