تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 8%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 213458 / ڈاؤنلوڈ: 4484
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۸

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

كيونكہ جملہ''ان تضل'' علت كو بيان كر رہا ہے لہذا اپنے مورد (عورتوں كى گواہي) كے غير كو بھى شامل ہو سكتا ہے _

٢٨_ اگر ايك گواہ بھول جائے يا غلطى كرے تو دوسرے پر اسے ياد دلانا واجب ہے_ان تضل احديهما فتذكر احديهما الاخري

٢٩_ جب گواہوں كو گواہى كيلئے بلايا جائے تو ان پر واجب ہے كہ گواہى ديں _ولايأب الشهداء اذا ما دعوا

يہ اس صورت ميں ہے كہ''اذا ما دعوا'' كا مطلب گواہى دينے كى دعوت ہو يعني''اذا ما دعوا الى اداء الشهادة'' _

٣٠_ جب مومنين كو گواہ بننے كيلئے كہا جائے تو ان پر اس كا قبول كرنا واجب ہے_ولايأب الشهداء اذا ما دعوا

يہ اس صورت ميں ہے كہ''اذا ما دعوا''سے مراد گواہ بننے كى دعوت ہو يعنى''اذا ما دعوا الى تحمل الشهادة''

٣١_ خودبخود گواہ بننا اور گواہى دينا واجب نہيں جب تك بلايا نہ جائے_ولايأب الشهداء اذا ما دعوا

كيونكہ گواہ بننے اور گواہى دينے كے وجوب كو دعوت دينے كے ساتھ مشروط كيا گياہے پس جملہ شرطيہ كا مفہوم يہ ہوگا كہ اگر گواہى كيلئے دعوت نہ دى جائے تو گواہ بننا اور گواہى دينا واجب نہيں ہے_

٣٢_ گواہى دينے كيلئے گواہوں كو حاضر كرنا جائز ہے_ ولاياب الشهداء اذا ما دعوا

٣٣_ معاملے كا چھوٹا يا بڑا ہونا لكھنے والے كيلئے ، قرضوں اور حقوق كى دستاويز تيار كرنے اور ان كى مدت كے لكھنے كے فريضہ سے اكتاہٹ كا موجب نہيں ہونا چاہئے_ولاتسئموا ان تكتبوه صغيرا او كبيرا الى اجله

٣٤_ مبادلات و معاملات كى دستاويز مرتب كرنے اور لكھنے كى خاص اہميت_ولاتسئموا ان تكتبوه صغيرا او كبيرا الى اجله

قرضے كى دستاويز لكھنے ميں اكتاہٹ برتنے سے نہى كرنا اگرچہ معاملہ چھوٹا ہى ہو، قرضوں اور معاملات كى دستاويز تيار كرنے كى اہميت سے حكايت كرتا ہے_

٣٥_ قرضوں ، ان كى مدت اور حقوق كا ثبت كرلينا

۳۴۱

معاملہ چھوٹا ہو يا بڑا خداوندعالم كے نزديك بڑا عادلانہ عمل اور گواہى قائم كرنے كيلئے بہت زيادہ ممد و معاون اور مضبوط و ٹھوس بنياد ہے_ذلكم اقسط عند الله و اقوم للشهادة

٣٦_ دستاويز تيار كرنے ميں الہى احكام پر عمل كرنا اور ان كا خيال ركھنا لوگوں كے حقوق كو عدل و انصاف كے ساتھ ادا كرنے كا سبب ہے_ذلكم اقسط عند الله

٣٧_ تيار شدہ دستاويز كو آئينى و حقوقى حيثيت حاصل ہے_ولاتسئموا ان تكتبوه ذلكم اقسط عند الله و اقوم للشهادة

٣٨_ عدل و انصاف قائم كرنا اور اس كو عام كرنا ،گواہى قائم كرنے اور ادا كرنے ميں ٹھوس بنياد كا فراہم كرنا اور شكوك و شبہات كے پيدا ہونے كى روك تھام كرنا معاملات كى دستاويز تيار كرنے كے لازم ہونے كا فلسفہ ہے_

ذلكم اقسط عند الله و ادنى الا ترتابوا

٣٩_ معاشرہ كے افراد كے حقوق كے سلسلہ ميں عدل و انصاف كى رعايت نہ كرنا اور اقتصادى روابط كے حدود كى تعيين ميں متزلزل رہنا، اقتصادى تعلقات كى بربادى كا سبب ہے_ذلكم اقسط عندالله و اقوم للشهادة و ادنى الا ترتابوا

كيونكہ''ذلكم اقسط ''مذكورہ احكام كى علت ہے لہذا يہ ايك قاعدہ كليہ ہے كہ سماجى انصاف اور اقتصادى روابط كى حدود مشخص كرنے ميں ثابت قدمى ايك ايسا قانون اور اصول ہے كہ اگر اس كى رعايت اور پابندى نہ كى جائے تو معاشرہ فتنہ و فساد كا شكار ہوجاتاہے_

٤٠_ معاشرہ كے اقتصادى تعلقات منظم و مرتب كرنے ميں بہت ٹھوس اقدامات اور سوچ بچار كى ضرورت ہے_

اذا تداينتم بدين فاكتبوه فليكتب و ليملل فليملل وليه بالعدل و استشهدوا شهيدين ولايأب الشهداء الا ترتابوا

٤١_ احكام كوانجام دينے كى ترغيب دلانے كيلئے قرآن كريم كا ايك طريقہ يہ ہے كہ ان احكام كا فلسفہ بيان كرتاہے_

ان تضل احديهما ذلكم اقسط عندالله و اقوم للشهادة و ادنى الا ترتابوا

۳۴۲

٤٢_ نقد معاملات ميں دستاويز تيار كرنا ضرورى نہيں ہے_

الا ان تكون تجارة حاضرة تديرونها بينكم فليس عليكم جناح الا تكتبوها

٤٣_نقد معاملات كى دستاويز تيار كرنا بھى اچھا اقدام ہے_*فليس عليكم جناح الا تكتبوها

٤٤_ معاملہ اگرچہ نقد ہو خريد و فروخت كے وقت گواہ بنانا لازمى ہے_واشهدوا اذا تبايعتم

٤٥_ لكھنے والوں اور گواہوں پر حرام ہے كہ وہ طرفين كو نقصان پہنچائيں يا ان كے ساتھ خيانت كريں _

ولايضار كاتب و لاشهيد يہ اس صورت ميں ہے كہ''لايضار'' فعل معلوم ہو نہ مجہول ايسى صورت ميں اس كا تعلق طرفين معاملہ سے ہوگا يعنى كاتب اور گواہ طرفين معاملہ كو نقصان نہ پہنچائيں _

٤٦_ لكھنے والے اور گواہ كو تحفظ فراہم كرنا ضرورى ہے_ولايضار كاتب و لاشهيد

يہ اس صورت ميں كہ''لايضار'' مجہول ہو اور''كاتب'' اور''شہيد''نائب فاعل ہو_

٤٧_ لكھنے اور گواہى دينے كى وجہ سے لكھنے والے يا گواہ كو پہنچنے والے نقصان كا تدارك كرنا ضرورى ہے_

ولايضار كاتب و لاشهيد يہ اس صورت ميں ہے كہ''لايضار'' فعل مجہول ہو اور ضرر سے مراد گواہى اور كتابت كے نتيجے ميں ہونے والا نقصان ہو يعنى كاتب اور گواہ پر كسى قسم كى خسارت نہ ڈالى جائے اس كا لازمہ يہ ہے كہ اگر انہيں ضرر پہنچے تو اس كا ازالہ ضرورى ہے مثلاً اپنے كام سے بيكار ہونا يا آنے جانے كا كرايہ وغيرہ_

٤٨_ گواہ اور معاملات لكھنے والے كو نقصان پہنچانا فسق اور حق سے انحراف و روگردانى ہے_

ولايضار كاتب و لاشهيد و ان تفعلوا فانه فسوق بكم يہ تب ہے كہ''لايضار'' فعل مجہول ہو_

٤٩_ گواہ اور لكھنے والے كا خيانت كرنا فسق اور حق سے انحراف ہے_

ولايضار كاتب و لاشهيد و ان تفعلوا فانه فسوق بكم يہ اس صورت ميں ہے كہ ''لايضار'' فعل معلوم ہو نہ مجہول _

۳۴۳

٥٠_ جو خسارہ كاتب اور گواہ كو كتابت اور گواہى كى وجہ سے اٹھا ناپڑے اس كا ازالہ نہ كرنا فسق اور حق سے انحراف كا موجب ہے_ولايضار كاتب و لاشهيد و ان تفعلوا فانه فسوق بكم اگر''لايضار'' مجہول ہو تو ''ضرر''سے مراد كتابت اور گواہى كے نتيجے ميں ہونے والے نقصانات ہيں يعنى كاتب اور شاہد كو پہنچنے والے نقصان كا پورا نہ كرنا فسق و فجور اور انحراف ہے_

٥١_ اقتصادى معاملات اور لين دين ميں الہى احكام پر عمل پيرا ہونے كيلئے تقوي اور خوف خدا، ممد و معاون ہے_

ولايضار كاتب و لاشهيد واتقوا الله

٥٢_ قرض كى دستاويز لكھنے والا طرفين كے علاوہ ايك تيسرا شخص ہونا چاہئے_*

وليكتب بينكم كاتب بالعدل ولايأب كاتب ولايضار كاتب

٥٣_ لين دين كرنے والوں ، گواہوں اور دستاويز تيار كرنے والوں كيلئے تقوي كى رعايت لازمى ہے_

اذا تدانيتم ولايأب كاتب و استشهدوا شهيدين واتقوا الله

گواہ، كاتب اور معاملہ كرنے والے''واتقوا الله ''كے خطاب ميں شامل ہيں _

٥٤_اسلام ميں اخلاقيات اور اقتصاديات ہم آہنگى ركھتے ہيں _اذا تداينتم ولا يأب كاتب واستشهدوا ولاتسئموا واتقوا الله

٥٥_ ايسے قوانين كى تعليم دينے والا خداوند عالم ہے جو معاشرتى اور اقتصادى روابط پر حاكم ہوں _

اذا تداينتم و يعلمكم الله

٥٦_ تقوي اپنانے كا طريقہ، خدا تعالي تعليم ديتا ہے_*واتقوا الله و يعلمكم الله

''واتقوا الله ''كے قرينہ كو ديكھتے ہوئے احتمال ديا جاسكتا ہے كہ''يعلمكم الله '' كا مفعول محذوف تقوي كا طريقہ ہو يعنى''يعلمكم الله طريقة التقوي'' _

٥٧_ معاشرہ كے افراد كى قانونى ملكيت كا احترام اور اس كے حدود كى رعايت كرنا ضرورى ہے_

اذا تداينتم ذلكم اقسط واتقوا الله احكام و مسائل كہ جن ميں اشخاص كى اپنے اموال پر ملكيت بھى ہے ، كو بيان كرنے نيز ان اموال كے دوسروں كى طرف نقل و انتقال كى

۳۴۴

شرائط كو بيان كرنے كے بعد تقوي كا حكم دينا بتلاتا ہے كہ ان مسائل كا احترام و رعايت كرنا ضرورى ہے_

٥٨_ خداوند عالم كا تمام موجودات عالم كے بارے ميں وسيع علم (خدا كا مطلق علم)_والله بكل شى عليم

٥٩_ خداوند عالم، عليم ہے_والله بكل شى عليم

٦٠_ الہى قوانين خدا وند عالم كے وسيع اور آفاقى علم سے نشأت پاتے ہيں _فاكتبوه ولايأب كاتب و ليملل واستشهدوا والله بكل شى عليم

٦١_ معاشرہ كے اندر مؤمنين ايك دوسرے كے سامنے جوابدہ ہيں اور سب كے سب ايك دوسرے كے ساتھ جڑے ہوئے ہيں _يا ايها الذين امنوا ولاياب كاتب ولاياب الشهداء و اشهدوا ولايضار كاتب و لاشهيد

اس آيت شريفہ نے لين دين كرنے والوں ، لكھنے والے اور گواہوں كے كچھ حقوق و فرائض معين كيئے ہيں جو كہ ان كے ايك دوسرے كے سامنے ذمہ دارى اور جواب دہى كو بيان كرتے ہيں _

٦٢_ لين دين كرنے والوں ، گواہوں اور لكھنے والوں كے اعمال و كردار خدا وند متعال كے وسيع علم كے احاطے ميں ہيں _اذا تداينتم وليكتب بينكم كاتب بالعدل ولاياب كاتب ولايأب الشهداء والله بكل شى عليم

احكام: ٢، ٣، ٤،٦، ٨، ١١، ١٢، ١٤، ١٦، ١٨، ١٩، ٢١، ٢٢، ٢٤، ٢٦، ٢٧، ٢٨، ٢٩، ٣٠، ٣١، ٣٢، ٣٧، ٤٢، ٤٤، ٤٥، ٤٧، ٥٢ احكام كا فلسفہ ٢٦، ٢٧، ٣٦، ٣٨، ٤١ احكام كى تشريع ٦٠

اسماء و صفات: عليم ٥٩

اقتصاد: اقتصاداور اخلاق ٥٤

اقتصادى نظام: ٤٠، ٥٤، ٥٥، ٥٧

اقرار: اقرار كے احكام ١٤

۳۴۵

انتخاب كرنا: انتخاب كرنے كى شرائط ٥

ايمان: ايمان كے آثار ا

تحريك: تحريك كے عوامل ١

تربيت: تربيت كا طريقہ ٤١

تقوي: تقوي كى اہميت ١٢، ٥٣، ٥٦ ;تقوي كے اثرات ١٥، ٥١

حقوق: حقوق كى لكھائي ٣٥

حقوق كا نظام: ١٩

خدا تعالي: خداتعالي كا علم ٥٨، ٦٠، ٦٢ خدا تعالي كى نعمتيں ٩

خوف: خوف كے اثرات ٥١

دستاويز: دستاويز تيار كرنا٢، ٤، ٥، ٦، ٧، ٨، ١١، ١٢، ١٣، ١٦، ٢١، ٣٣، ٣٤، ٣٦، ٤٣ ;دستاويز كى اہميت ٧; دستاويز كى شرائط ٨، ١١

دينى نظام تعليم: ٥١

سفيہہ: سفيہہ كا كفيل ١٦ ; سفيہہ كى كفالت ١٨ ; سفيہہ كے حقوق ١٧

سماجى روابط: ٥٥ سماجى نظام: ١٨، ٥٥، ٦١

شرعى فريضہ: اس پر عمل كرنا ١، ٥١

عدل وانصاف : اسكى اہميت ١٩، ٢٠، ٣٥، ٣٨، ٣٩

علم: علم اور شرعى فريضہ ١٠; علم كے اثرات ١٠

علماء: علماء كى ذمہ دارى ١٠

عمل: عمل صالح كا پيش خيمہ ا٤;عمل كا پيش خيمہ ١، ٥١

۳۴۶

عورت: عورت كى گواہى ٢٣، ٢٦ ; عورت كى لغزش ٢٥

فساد: فساد كا پيش خيمہ٣٩ ; فساد كے عوامل ٥٠; فساد كے موارد ٤٨، ٤٩

فقہى قاعدہ: ١٤ قانون سازي: قانون سازى كى شرائط ١٧

قرض: قرض كا لكھنا ٣٥ ;قرض كى دستاويز ٢، ٤، ٥، ٦، ٧، ٨، ١٦، ٣٣، ٥٢; قرض كے احكام ٢، ٣، ٤، ٦، ٨، ١١، ١٢، ١٦، ٢١، ٢٢، ٢٥ قرض ميں گواہى ٢٤

كاتب: اسكى خيانت ٤٥، ٤٩ ;اسكى ذمہ دارى ٥٣; اس كى شرائط ٥٣

كفالت: كفالت كے احكام ١٩; كفالت ميں عدل و عدالت ١٩، ٢٠

كمزور و ناتوان: كمزور و ناتو ان كى كفالت ١٨ ;كمزور و ناتوان كے حقوق ١٧ ;كمزور و ناتوان كے كفيل ١٦

گمراہي: گمراہى كے عوامل ٥٠;گمراہى كے موارد ٤٨، ٤٩

گواہ: گواہ كو نقصان ٤٨ ;گواہ كى خيانت ٤٥، ٤٩ ; گواہى كى ذمہ دارى ٥٣; گواہ كى شرائط ٢٢، ٢٤

گواہي: گواہى دينا ٣٥ ، ٣٨;گواہى كا واجب ہونا ٢٩، ٣٠ ; گواہى كى اہميت ٤٦ ; گواہى كے احكام ٢١، ٢٢، ٢٤، ٢٦، ٢٧، ٢٨، ٢٩، ٣٠، ٣١، ٣٢، ٤٤، ٤٧، ٥٠; گواہى ميں بالغ ہونا ٢٢

لكھائي: لكھائي كى اہميت ٤٦ ; لكھائي كى نعمت ٩ ; لكھائي كے احكام ٤٧، ٥٠; لكھائي ميں عدل و عدالت ٥

لوگ: لوگوں كے حقوق ١٥، ٣٦، ٣٩

مالكيت: مالكيت كى اہميت ٥٧

محرمات: ٤٥

مرد: مرد كى گواہى ٢٣، ٢٦

معاشرہ:

۳۴۷

اسكے انحطاط كے اسباب و عوامل ٣٩ معاشرہ كى ذمہ دارى ا٦ ; معاشرے ميں مؤمنين ٦١

معاملہ: اس ميں گواہ ٤٨، ٤٩ ;اس ميں گواہى ٤٤ ; نقد معاملہ٤٢،٤٣

وَإِن كُنتُمْ عَلَى سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُواْ كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَّقْبُوضَةٌ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللّهَ رَبَّهُ وَلاَ تَكْتُمُواْ الشَّهَادَةَ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ وَاللّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ (٢٨٣)

اور اگر تم سفر ميں ہو اور كوئي كاتب نہيں مل رہا ہے تو كوئي رہن ركھ دو اور ايك كو دوسرے پر اعتبار ہو تو جس پر اعتبار ہے اس كو چاہئے كہ امانت كو واپس كردے اور خدا سے ڈرتا رہے_ اور خبردار گواہى كو چھپانا نہيں كہ جو ايسا كرے گا اس كا دل گنہگار ہو گا اور الله تمھارے اعمال سے خوب باخبر ہے _

١_ اگر كاتب نہ مل سكے تو قرض و بقاياجات كى دستاويزكى بجائے كوئي چيز گروى ركھنا (رہن) كافى ہے_

و ان كنتم على سفر و لم تجدوا كاتبا

معاہدہ: اسكے احكام ٣٧

مقروض: اسكى ذمہ دارى ١٢

واجبات: ٢، ٣، ٤، ١٢، ١٦، ٢١، ٢٩، ٣٠، ٤٤

فرھان مقبوضة ظاہرى طور پر جملہ''و لم تجدوا كاتبا'' بيان ہے''على سفر'' كا يعنى مسافر ہونا خصوصيت نہيں ركھتا بلكہ سفر صرف وہ مورد

۳۴۸

ہے كہ جس ميں عموماً لكھنے والا نہيں ملتا پس اصل چيز كاتب كا نہ ملنا ہے سفر ميں ہو يا حضر ميں _

٢_ اگر مقروض پر اعتماد ہو تو كوئي چيز گروى ركھنا ضرورى نہيں ہے_فان امن بعضكم بعضا فليؤد الذى اؤتمن امانته

جملہ''فان امن '' گروى ركھنے كا فلسفہ بيان كر رہا ہے يعنى قرض كے ضائع ہونے كے خوف كو ختم كرنا لہذا اگر يہ پريشانى مقروض پر اعتماد كے ذريعے دور ہوجائے تو رہن لينے كى ضرورت نہيں ہے البتہ يہ معني تب درست ہے كہ جملہ''فان امن ...'' رہن لينے كے لزوم سے استثنا ہو اور امانت سے مراد قرض ہو_

٣_ امانت كو اس كے مالك كو لوٹانا واجب ہے_فليؤد الذى اؤتمن امانته

٤_ گروى ركھى جانے والى چيز امانت ہے_فرهان مقبوضة فان امن بعضكم بعضا فليؤد الذى اؤتمن امانته

يہ اس صورت ميں ہے كہ امانت سے مراد گروى ركھى جانے والى چيز ہونہ كہ قرض جو طرفين ميں سے كسى كے ذمے رہتا ہے_

٥_ گروى ركھى جانے والى چيز كا اس كے مالك كو لوٹانا واجب ہے_فرهان مقبوضة فان امن بعضكم بعضا فليؤد الذى اؤتمن امانته

٦_ امانت ميں خيانت حرام ہے_فليؤد الذى اؤتمن امانته و ليتق الله ربه

٧_ اقتصادى و تجارتى لين دين كے آسان ہونے ميں اعتماد و امانت كى تاثير_فان امن بعضكم بعضا فليؤد الذى اؤتمن امانته گذشتہ ايك احتمال كى بناپر قرض دينے والے پر مقروض سے رہن لينا لازمى نہيں ہے اور يہ چيز اقتصادى معاملات ميں آسانى ہے_

٨_ اسلام ميں اقتصادى روابط كا اخلاقيات سے ہم آہنگ ہونا_فرهان مقبوضة فان امن بعضكم بعضا

٩_ خوف خدا اور تقوي امانتيں لوٹانے اور الہى احكام پر عمل كرنے كا موجب بنتے ہيں _فليؤد الذى اؤتمن امانته و ليتق الله ربه

١٠_ گواہى كا كتمان كرنا حرام ہے_ولاتكتموا الشهادة

۳۴۹

١١_ گناہگار دل كتمان شہادت كا (گواہى نہ دينے كا ) سرچشمہ ہيں _و من يكتمها فانه اثم قلبه

١٢_ گواہى چھپانا قلبى گناہ ہے_و من يكتمها فانه اثم قلبه

١٣_ خدا تعالي كا انسان كے اعمال كے بارے ميں ہر لحاظ سے مكمل آگاہ ہونا_والله بما تعملون عليم

١٤_ خدا تعالي كى طرف سے امانت ميں خيانت كرنے والوں اور گواہى چھپانے والوں كو تنبيہ _

فليؤد الذى اؤتمن امانته ولاتكتموا الشهادة والله بما تعملون عليم

١٥_ انسان كے اعمال سے خداوند عالم كى مكمل آگاہى كى طرف متوجہ رہنا الہى احكام پر عمل اور خداتعالي كى نافرمانى سے اجتناب كا پيش خيمہ ہے_والله بما تعملون عليم

٦ا_ رہن كى شرط يہ ہے كہ جو چيز رہن ميں دى جارہى ہے اس قبضہ كرليا جائے _

فرهان مقبوضة اس مطلب كى مؤيّد امام باقر(ع) سے يہ روايت ہے كہ فرمايا لارھن الا مقبوضا (١) رہن تب ہوتاہے جب قبضہ كرلياجائے_

١٧_ گواہى كا چھپانا، چھپانے والے كے باطنى كفركى حكايت كرتا ہے_ولاتكتموا الشهادة و من يكتمها فانه آثم قلبه امام باقر(ع) آيت''فانہ آثم قلبہ''كے بارے ميں فرماتے ہيں _ كافر قلبہ (٢) اس كا دل كافر ہے_

احكام: ١، ٢، ٣،٤، ٥، ٦، ١٠، ١٦

اعتماد: اعتماد كى اہميت ٧

اقتصاد: اقتصاد اور اخلاق ٨

اقتصادى نظام: ٧، ٨

____________________

١) تہذيب شيخ طوسي ج ٧ ص ١٧٦ حديث٣٦ ، نورالثقلين ج ١ ص ٣٠١ حديث ٢٠٤ا_

٢) من لايحضرہ الفقيہ ج ٣ ص ٣٥ حديث ٥، نورالثقلين ج ١ ص ٣٠١ حديث ١٢٠٧_

۳۵۰

امانت: امانت كا لوٹانا ٩ امانت كى اہميت ٧; امانت كے احكام ٣، ٤، ٦ ; امانت ميں خيانت ٦، ١٤

انسان: انسان كا عمل ١٣

تقوي: تقوي كا پيش خيمہ ٥ا;تقوي كے اثرات ٩

خداتعالي: خداتعالي كا علم ١٣، ١٥ خداتعالي كى تنبيہ١٤

دستاويز: دستاويز تيار كرنا ا

دل: دل كا كفر ١٧; دل كا گناہ ١٢

روايت : ١٦، ١٧

رہن: احكام رہن ١، ٢، ٤، ٥، ١٦

شرعى فريضہ: شرعى فريضہ پر عمل ٩، ١٥

قرض: قرض كے احكام ١، ٢

گواہي: گواہى كے احكام ١٠ گواہى كا چھپانا ١٠، ١١، ١٢، ١٤، ١٧

مالى روابط: ٧

محرمات: ٦، ١٠

واجبات: ٣، ٥

۳۵۱

لِلَّهِ ما فِي السَّمَاواتِ وَمَا فِي الأَرْضِ وَإِن تُبْدُواْ مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُم بِهِ اللّهُ فَيَغْفِرُ لِمَن يَشَاء وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاء وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (٢٨٤)

الله ہى كے لئے زمين و آسمان كى كل كا ئنات ہے _تم اپنے دل كى باتوں كا اظہار كرو يا ان پر پردہ ڈالو وہ سب كا محاسبہ كرے گا _ وہ جس كو چاہے گا بخش دے گا اور جس پر چاہے گا عذاب كرے گا وہ ہر شے پر قدرت و اختيار ركھنے والا ہے _

١_ آسمانوں اور زمين كى تمام موجودات كا تنہا مالك خداوند عالم ہے_لله ما فى السماوات و ما فى الارض

٢_ خدا وند متعال كى مطلق مالكيت پر توجہ مالى و اقتصادى روابط ميں عدل و انصاف اور ا حكام الہى پر عمل كرنے كا پيش خيمہ ہے_اذا تداينتم بدين و ان كنتم على سفر لله ما فى السماوات و ما فى الارض

٣_ خدا وند متعال اس كا حساب لے گا جو آدمى كے دل ميں ہے چاہے اسے ظاہر كرے يا چھپائے ركھے_

وان تبدوا ما فى انفسكم او تخفوه يحاسبكم به الله

٤_ گواہى چھپانے والوں كو خداتعالي كى تنبيہہ اور ان كے گناہ كا محاسبہ_و من يكتمها فانه اثم قلبه و ان تبدوا ما فى انفسكم او تخفوه يحاسبكم به الله

٥_ خداوند عالم، انسان كى نفسيانى صفات و صلاحيتوں اور نيتوں كا حساب بھى لے گا_و ان تبدوا ما فى انفسكم يحاسبكم به الله

۳۵۲

''ما فى انفسكم'' نيتوں كے علاوہ نفسيانى صفات (جيسے شجاعت، بزدلي، بخل وغيرہ) كو بھى شامل ہوسكتا ہے ليكن اگر''فى انفسكم'' جار و مجرور استقرار كے متعلق ہونہ صرف وجودكے تو نفس ميں يہى صفات مستقر ہيں _

٦_ انسان كا نفس اور باطن اس كے اعمال كا سرچشمہ ہے_و ان تبدوا ما فى انفسكم او تخفوه

جملہ''و ان تبدوا '' كا مطلب يہ ہے كہ انسان سے مقام عمل ميں وہى اعمال صادر ہوتے ہيں جو اس كے دل ميں ہوتے ہيں يعنى مقام عمل ميں اعمال ،انسان كے باطن اور نفس كا مظہر ہيں _

٧_ انسان كے اعمال اور اس كى نيتوں كا مالك خداوند متعال ہے_ لله مافى السماوات و ما فى الارض وان تبدوا ما فى انفسكم او تخفوه يحاسبكم به الله

٨_ خداتعالي كى مطلق مالكيت انسان كے اعمال ،اس كى نيتوں اور ان كے حساب پر حكمرانى كى علت ہے_

لله ما فى السماوات و ما فى الارض و ان تبدوا ما فى انفسكم او تخفوه يحاسبكم به الله

جملہ''لله ما فى السماوات ''،''ان تبدوا ''كيلئے تمہيد كے طور پر ہے يعنى خداوندعالم سب چيزوں كا حقيقى مالك ہے كہ جن ميں سے انسان كے اعمال اور اس كى نيتيں بھى ہيں _ اور چونكہ وہ حقيقى مالك ہے لہذا انسان كے اعمال اور نيتوں كا حساب لينے پر قدرت ركھتا ہے_

٩_ خداوند عالم، انسان كے اعمال اور نيتوں كا حساب لينے كے بعد يا اسے معاف كردے گا يا عذاب كرے گا_

و ان تبدوا فيغفر لمن يشاء و يعذب من يشاء

١٠_ انسان كے گناہوں كى بخشش يا ان پر عذاب كرنا خداوند متعال كى مشيت سے و ابستہ ہے_

فيغفر لمن يشاء و يعذب من يشاء

١١_ خداوند متعال كى رحمت و مغفرت اس كے عذاب ، قہر اور غضب پر مقدم ہے_ *فيغفر لمن يشاء و يعذب من يشاء يہ نكتہ عذاب سے پہلے مغفرت كے ذكر سے حاصل كيا گيا ہے_

١٢_ انسانوں كو سزا دينا ان كے اپنے اعمال كا نتيجہ اور انجام ہے_

۳۵۳

و ان تبدوا ما فى انفسكم يحاسبكم به الله و يعذب من يشاء

١٣_ قرآن كريم كا انسانوں كى تربيت ميں خوف و رجاء (خوف و اميد) كى روش سے استفادہ كرنا_

يحاسبكم به الله فيغفر لمن يشاء و يعذب من يشاء

١٤_ خدا تعالي انسان كے اعمال اور اس كى نيتوں كا حساب لينے اور اسے بخشنے يا عذاب كرنے پر قادر ہے_

و ان تبدوا يحاسبكم به الله فيغفر و يعذب والله على كل شى قدير

١٥_ خدا وند عالم كى قدرت، مطلقہ ہے _و الله على كل شى قدير

١٦_ خداوند متعال، قدير ہے_و الله على كل شى قدير

آسمان: آسمان كا مالك ١

اسماء و صفات: قدير ١٦

انسان: انسان كا عمل ٧، ٨، ٩، ١٤ انسان كا مالك ٧، انسان كى نيت ٣، ٥، ٧، ٨، ٩، ١٤

تربيت: تربيت كا طريقہ ١٣

خداتعالي: خدا تعالي كا حساب لينا ٣، ٤، ٥، ٨، ٩، ١٤ ;خدا تعالي كا عذاب ١١، ١٤;خداتعالي كا معاف كرنا ٩; خداتعالي كى تنبيہہ٤; خدا تعالي كى رحمت ١١ خداتعالي كى طرف سے سزا ٩; خداتعالي كى قدرت ١٥، ١٦ ;خداتعالي كى مالكيت ١، ٢، ٧، ٨ ;خدا تعالي كى مشيت ١٠; خداتعالي كى مغفرت ١١، ١٤

خوف: خوف اور اميد ١٣

راہ و روش: راہ و روش كى بنياديں ٦

زمين: زمين كا مالك ١

شرعى فريضہ: شرعى فريضہ پر عمل ٢

عدل و انصاف: عدل و انصاف قائم كرنا ٢

علم: علم كے اثرات ٢

۳۵۴

عمل: عمل كا پيش خيمہ ٢; عمل كى سزا ١٢ ;عمل كے اثرات ١٢

گناہ: گناہ كى بخشش ١٠ ; گناہ كى سزا ١٠

مالى روابط: ٢

آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللّهِ وَمَلآئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لاَ نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ وَقَالُواْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (٢٨٥)

رسول ان تمام باتوں پر ايمان ركھتا ہے جو اس كى طرف نازل كى گئي ہيں اور مومنين بھى سب الله اور ملائكہ اور مرسلين پر ايمان ركھتے ہيں ان كا كہنا ہے كہ ہم رسولوں كے در ميان تفريق نہيں كرتے _ ہم نے پيغام الہى كو سنا اور اس كى اطاعت كى _ پروردگار اب تيرى مغفرت در كار ہے اور تيرى ہى طرف پلٹ كرآنا ہے _

١_ پيغمبر اكرم (ص) كا اس چيز پر ايمان جو پروردگار كى طرف سے ان پر نازل ہوئي _آمن الرسول بما انزل اليه من ربه

٢_ دين كى تبليغ و ترويج كرنے والوں كا دين پر يقين ہونا چاہئے_آمن الرسول بما انزل اليه من ربه

خداوند متعال كا اس نكتہ پر توجہ كرنا كہ آنحضرت(ص) خود قرآن اور اپنے اوپر نازل كئے جانے والے احكام پر ايمان ركھتے تھے مذكورہ بالا نكتے كى طرف اشارہ ہوسكتا ہے_

٣_ قرآن كريم اور وحى كا نازل ہونا خداوند عالم كى

۳۵۵

ربوبيت سے نشأة پاتا ہے_آمن الرسول بما انزل اليه من ربه

٤_ خداوند متعال كے نزديك پيغمبر اكرم (ص) كا عظيم المرتبہ ہونا_آمن الرسول بما انزل اليه من ربه

كلمہ'' رب ''كى ضمير كى طرف اضافت تشريفيہ ہے كہ جس سے آنحضرت(ص) كے مقام كى عظمت كاپتہ چلتاہے_

٥_ پيغمبر اكرم(ص) كے ايمان كا دوسرے مومنين كے ايمان پر افضل و برتر ہونا_ *آمن الرسول بما انزل اليه من ربه و المؤمنون كل آمن رسول خدا (ص) كا ايمان ''والمؤمنون كلّ ... ''ميں بيان كيا جاسكتا تھا اسے جدا ذكر كرنے كى ضرورت نہ تھى ليكن آنحضرت (ص) كے ايمان كى امتيازى حيثيت اور برترى كو واضح كرنے كى خاطر عليحدہ ذكر كيا گيا ہے_

٦_ ايمان كے كئي مراتب ہيں _ *آمن الرسول و المؤمنون كل امن بالله ''آمن الرسول'' اور ''والمؤمنون كل آمن''ميں ايمان كا تكرار كرنا اس كے مختلف مراتب كى حكايت كرتا ہے_

٧_ پيغمبر اسلام (ص) اور مومنين كا ملائكہ، آسمانى كتابوں اور انبياء (ع) پر ايمان_آمن الرسول و المؤمنون كل آمن بالله و ملائكته و كتبه و رسله كلمہ''كل'' مومنين كے علاوہ پيغمبر اكرم (ص) كو بھى شامل ہے يعنى پيغمبر اكرم (ص) اور مؤمنين سب كے سب خدااور پر ايمان ركھتے ہيں _

٨_ مومنين كا اس چيزپر ايمان جو آنحضرت(ص) پر خداتعالي كى طرف سے نازل كيا گيا ہے _آمن الرسول بما انزل اليه من ربه و المؤمنون يہ اس صورت ميں ہے كہ كلمہ ''المومنون'' كا ''الرسول'' پر عطف ہو نہ كہ يہ مبتدا ہو يعنى آنحضرت (ص) اور مومنين اس پر ايمان ركھتے ہيں جوآپ(ص) پر نازل ہوا ہے_

٩_ رسول اكرم (ص) اور مومنين ہر ايك پيغمبر پر ايمان ركھتے ہيں اور كسى ايك كا بھى انكار نہيں كرتے_

لانفرق بين احد من رسله

١٠_ مومنين كى نظر ميں تمام انبيائے (ع) الہى كا عقيدہ اور ہدف ايك تھا_

و المومنون كل آمن بالله و كتبه و

۳۵۶

رسله لانفرق بين احد من رسله

١١_ تمام انبياء اور آسمانى كتابوں ميں سے ہر ايك پر ايمان ضرورى ہے_كل آمن و كتبه و رسله لانفرق بين احد من رسله

١٢_ آنحضرت (ص) كا تمام سابقہ انبياء (ع) اور آسمانى كتابوں پر ايمان_كل آمن لانفرق بين احد من رسله

يہ اس صورت ميں ہے كہ كلمہ''كل'' تمام مومنين كے علاوہ پيغمبر اكرم (ص) كو بھى شامل ہو اس كا نتيجہ يہ ہوگا كہ جملہ''لانفرق '' پيغمبر اكرم(ص) كا قول بھى بن جائے گا_

١٣_ ايمان كا لازمہ قبول كرنا، اطاعت كرنا اور سرتسليم خم كرنا ہے_لانفرق بين احد من رسله و قالوا سمعنا و اطعنا

''سمعنا''(سمع سے سننے كے معنى ميں ) قبول كرنے سے كنايہ ہے_

١٤_ مؤمنين خداوندعالم كى مغفرت كے طلبگار ہيں _غفرانك ربنا

١٥_ خدا اور انبياء (ع) كى اطاعت كرنا اور مغفرت طلب كرنا مؤمنين كى خصوصيات ميں سے ہے_و قالوا سمعنا و اطعنا غفرانك ربنا

١٦_ خداوند عالم كے احكام كى اطاعت كرنا اور انہيں قبول كرنا اللہ تعالي كى بخشش كا ذريعہ ہے_و قالوا سمعنا و اطعنا غفرانك ربنا پيغمبر اكرم (ص) اور مؤمنين جو كہ تمام انسانوں كيلئے نمونہ كے طور پر ذكر كئے گئے ہيں ، اطاعت اور قبول كرنے كے بعد خداتعالي كى مغفرت كى اميد كو پيش كرتے ہيں _

١٧_ خدا وند متعال كى بخشش اس كى ربوبيت كا تقاضا ہے_غفرانك ربنا

١٨_ خداوند عالم كے سامنے اپنے فرائض انجام دينے كے بارے ميں مومنين كا عاجزى كا اظہار و احساس_

قالوا سمعنا و اطعنا غفرانك ربنا مومنين كا خداوند عالم كے احكام كو قبول كر كے ان كى اطاعت كرنے كے باوجود مغفرت طلب كرنا دلالت كرتا ہے كہ وہ خداوند متعال كے حضور اپنے فرائض كى انجام دہى سے عاجز ہيں _

١٩_ خداوند متعال كے انبياء (ع) ،اس كى مغفرت كے محتاج اور طالب ہيں _قالوا سمعنا و اطعنا غفرانك ربنا

۳۵۷

يہ اس صورت ميں ہے كہ''قالوا''كى ضمير مؤمنين كے علاوہ رسل كى طرف بھى لوٹے_

٢٠_ مؤمنين كا معاد اور خداتعالي كى طرف لوٹنے پر اعتقاد و يقين_و اليك المصير

٢١_ كائنات كى حركت صرف خدا كى طرف ہے_و اليك المصير المصيرميں ''ال''جنس كا ہے يعنى ہر قسم كى حركت و تحول خداتعالي كى طرف ہے اور تمام كائنات ميں تغير و تبدل اور حركت پائي جاتى ہے_

آنحضرت (ص) : آپ (ص) كا ايمان ١، ٥، ٧، ٩، ١٢ ;_آپ(ص) كے فضائل ٤

اطاعت: اطاعت كى اہميت ١٣ ; اطاعت كے اثرات ١٦; انبياء (ع) كى اطاعت ١٥ ;خدا كى اطاعت ١٣، ١٥، ١٦

انبياء (ع) : انبياء (ع) كا عقيدہ ١٠ ; انبياء (ع) كى دعا ١٩ ;انبياء (ع) كى ہم آہنگى ١٠ ; انبياء (ع) كے اہداف ١٠

ايمان: آسمانى كتابوں پر ايمان ٧، ١١، ١٢ ;انبياء (ع) پر ايمان ٧، ٩، ١١، ١٢;ايمان كے اثرات ١٣; ايمان كے مراتب ٥، ٦;خدا پر ايمان ٧ ;خدا كے مبعوث كيئے گئے پرايمان ١، ٨; قيامت پر ايمان ٢٠ ;ملائكہ پر ايمان ٧

خداتعالي: خداتعالي كى ربوبيت ٣، ١٧ ;خداتعالي كى مغفرت ١٤، ١٧، ١٩

سرتسليم خم كرنا: اسكى اہميت ١٣

عالم خلقت : اس كا انجام ٢١ ;اسكى حركت ٢١

قرآن كريم : قرآن كريم كا نزول ٣

مغفرت: مغفرت كا پيش خيمہ ١٦

مقربين: ٤

مومنين: مومنين كا استغفار ١٥; مومنين كا ايمان ٧، ٨، ٩، ٢٠ ; مومنين كا عقيدہ ١٠;مومنين كى دعا ١٤ مومنين كى صفات ١٥، ١٨

وحي: اس كا نزول ٣

۳۵۸

لاَ يُكَلِّفُ اللّهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلاَ تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلاَ تُحَمِّلْنَا مَا لاَ طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَآ أَنتَ مَوْلاَنَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (٢٨٦)

الله كسى نفس كو اس كى وسعت سے زيادہ تكليف نہيں ديتا _ ہر نفس كے لئے اس كى حاصل كى ہوئي نيكيوں كا فائدہ بھى ہے اور اس كى كمائي ہوئي برائيوں كا مظلمہ بھى _ پروردگار ہم جو كچھ بھول جائيں يا ہم سے غلطى ہو جائے اس كا ہم سے مواخذہ نہ كرنا _ خدايا ہم پر ويسا بوجھ نہ ڈالنا جيسا پہلے والى امتوں پر ڈالا گيا ہے _ پروردگار ہم پر وہ بار نہ ڈالنا جس كى ہم ميں طاقت نہ ہو _ ہميں معاف كر دينا ہميں بخش دينا ہم پر رحم كرنا تو ہمار امولا اور مالك ہے اب كا فروں كے مقابلہ ميں ہمارى مدد فرما _

١_ خداوند متعال ہر انسان پر اس كى عادى توان و استعداد سے زيادہ بوجھ نہيں ڈالتا_لايكلف الله نفسا الا وسعها

اس نكتے ميں ''عادي''كى قيد كلمہ''وسع''سے سمجھى گئي ہے كہ جس كے معني''مايسھل عليہ من المقدور''كے ہيں يعنى جو اس كى توان كے لحاظ سے اس پر آسان ہو_

٢_ عادى توان شرعى ذمہ دارى كى شرط ہے_لايكلف الله نفسا الا وسعها

٣_ خداوند عالم كى جانب سے عائدكردہ فرائض و تكاليف ہر انسان كى ظرفيت اور صلاحيت كے مطابق ہيں _

۳۵۹

لايكلف الله نفسا الا وسعها

٤_ الہى فرائض كے تحمل و برداشت كرنے ميں انسانوں كى توان و ظرفيت فرق كرتى ہے_لايكلف الله نفسا الا وسعها

كلمہ''نفسا''كو مفرد لانا كہ جو ہرہر انسان كى طرف اشارہ ہے اور''وسعہا''كى ضمير كو''نفسا''كى طرف لوٹانا، ممكن ہے اس حقيقت كے بيان كرنے كى خاطر ہو كہ ہر انسان مخصوص قدرت اور قوت برداشت كا حامل ہے_

٥_ انسان كے اچھے ، برے اعمال كے نتائج خود اس كى طرف پلٹتے ہيں _لها ما كسبت و عليها ما اكتسبت

٦_ اعمال اور ان كے نتائج ايك نظام اور قانون كے تحت ہيں _لها ما كسبت و عليها ما اكتسبت

٧_ مومنين كى خداوند عالم سے يہ درخواست كہ شرعى فرائض ميں ان كى خطا اور فراموشى پر انہيں عذاب نہ كرے_

لايكلف الله نفسا الا وسعها ...ربنا لاتو اخذنا ان نسينا او اخطا نا

٨_ مومنين اگر غلطى كى وجہ سے يا بھول كر خداوند متعال كے احكام كو انجام نہ دے سكيں تو اپنے آپ كو عذاب كا مستحق سمجھتے ہيں _ربنا لاتو اخذنا ان نسينا او اخطانا عذاب كے معاف كرنے كى درخواست ضمنا ً استحقاق عذاب كا اعتراف ہے_

٩_ خداوند متعال كے احكام ميں خطا اور نسيان سے بچنے كى كوشش كرنا ضرورى ہے_*ربنا لاتو اخذنا ان نسينا او اخطا نا خطا اور نسيان پر عذاب نہ كرنے كى درخواست سے پتہ چلتا ہے كہ بھول كر يا غلطى سے احكام الہى كو چھوڑ نے والے كو بھى عذاب كا احتمال ہے پس الہى احكام ميں حتى الامكان خطا اور نسيان سے بچنے كى كوشش كرنى چاہيئے_

١٠_ مؤمنين گناہوں كے ترك اور احكام پر عمل كرنے كے پابند ہوتے ہيں _و قالوا سمعنا و اطعنا ربنا لاتو اخذنا ان نسينا او اخطا نا خدا تعالي كے احكام ميں خطا اور نسيان كے نتائج پر توجہ اور ان كے مورد ميں مغفرت كى درخواست مومنين كى اپنے اعمال و كردار پر خاص توجہ ركھنے كا غماز ہے_

١١_ خطا اور نسيان انسان كى ترقى كے موانع ميں سے

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

۱۸_ زليخا حضرت يوسفعليه‌السلام كو اسكى خواہشات پورا نہ كرنے پر ناقدر اور احسان فراموش سمجھتى تھى _

روادته التى فى بيتها انه ربّى أحسن مثوى

مذكورہ معنى ميں ( انّہ ربّى ...) كو (التى ہو فى بيتہا ) كے جملے سے اخذ شدہ مفہوم پرناظر قرار ديا گيا ہے يعنى اس اعتبار سے كہ زليخا ، حضرت يوسفعليه‌السلام كى مالكن تھى اور اسكو اپنے گھر ميں آرام و آسائش فراہم كر رہى تھى لہذا وہ يوسفعليه‌السلام سے يہ توقع ركھتى تھى كہ وہ ميرے كہنے پر انكار نہيں كرے گا ليكن يوسفعليه‌السلام (انہ ربي ...) كے ذريعہ يہبتاناچاہتے ہيں كہ ميرا خدا ميرے تمام كام مربى و مدّبرتھا اور ہے اور ميرے ليے سزاوار يہى ہے كہ ميں اسى كى اطاعت و فرمانبردارى كروں _

۱۹_ زليخا حضرت يوسفعليه‌السلام كى جو خدمت و احترام كرتى تھى اس وجہ سے وہ يہ توقع ركھتى تھى كہ يوسفعليه‌السلام اس كے ناجائز مطالبے كو قبول كرلے گا _راودته التى هو فى بيتها ...قال إنه ربّي

۲۰_ يوسفعليه‌السلام نے زليخا كے سامنے اس بات كى وضاحت كردى كہ اسكى زندگيكى گاڑى كا چلن خداوند عالم كى عنايت اورتدبير كى وجہ سے ہے _معاذا لله إنه ربّى احسن مثوي

( إنہ ) كى ضمير ( الله ) كى طرف لوٹتى ہے _ مذكورہ تفسير ميں (انہ ربّى ) جملہ (معاذا لله ) كى تعليل ہے تو اس صورت ميں مذكورہ عبارت كا معنى يہ ہوگا (اس مكرو فريب ميں ) ميں خداوند متعال كى پناہ مانگتا ہوں اور اس سے نجات كے ليے اسكى مدد مانگتا ہوں كيونكہ ميرى زندگى كے امور كو چلانے والا وہى ہے _

۲۱_ حضرت يوسف(ع) نے زليخا كے حكم اور اسكى دعوت كے جواب ميں خداوند متعال كو اطاعت ، قدر شناسى اور شكر گزارى كے سزاوار سمجھا _قال معاذا لله انه ربّى احسن مثوى

۲۲_حضرت يوسف(ع) نے زليخا كى خواہش ( ہمبسترى اور وصال) كى در خواست كو قبول كرنے كو اپنے ليے خداوند متعال كے احسانات كى فراموشى تصّور كيا _انّه ربى أحسن مثواي

۲۳_ انسان كو لوگوں كے احترام كے سبب، خداوند متعال كى معصيت نہيں كرنى چاہيے_

أكرمى مثويه قال معاذا لله انه ربّي

۲۴_ گناہ كا ارتكاب ،ناشكرى اورنعمت الہى كا كفران ہے _قال معاذا لله إنه ربّى أحسن مثواى انه لا يفلح الظالمون

۲۵_ انسان كا خداوند متعال كى طرف سے در خواست قبول كرنا اور گناہ كے ارتكاب سے بچنا، ربوبيت

۴۲۱

الہى كا جلوہ ہے _معاذالله إنه ربى أحسن

۲۶_ ربوبيت خداوندى پر يقين اور اس كے احسان اور نعمتوں پر توجہ كرنا، انسان كو گناہوں سے دور رہنے ميں مدد ديتا ہے _معاذالله انه ربّى أحسن مثوى

۲۷_ ظالم و ستم گر لوگ كبھى بھى كامياب و كامران نہيں ہوسكتے ہيں _انّه لايفلح الظالمون

(انہ ) كى ضمير،ضمير شأن ہے جو جملہ كے معنى پر تاكيد كرتى ہے _

۲۸_ حضرت يوسف،عليه‌السلام زليخا كى ناجائز خواہش پر تسليم ہونے كو اپنے ليے ظلم و ستم گرى سمجھتے تھے _

انّه لايفلح الظالمون

۲۹_ زنا كا مرتكب ہونا اور عفت كے حجاب كو توڑنا، ستم ستمگرى ہے _قال معاذا لله انه لايفلح الظالمون

(معاذالله ) كا معنى فحش گناہ كا ارتكاب ہے اور (انہ ربى ...) كا معنى يہ ہوا كہ گناہ و برائي كا مرتكب ہونا، خداوند متعال كى ناشكرى اور احسان فراموشى ہے _ اور اسى وجہ سے (انہ لايفلح الظالمون) مذكورہ معانى كے ليے علت واقع ہوا ہے _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ فحشاء كا مرتكب ہونا اور گناہوں كے ارتكاب كے ذريعہ خداوند متعال كى ناشكرى ايك ظلم ہے _

۳۰_ خداوند متعال كى نعمتوں كو نظر انداز كرنا اور گناہوں كے ارتكاب كے ذريعہ اسكى ناشكر ى كرنا، ظلم ہے _

إنه ربّى لايفلح الظالمون

۳۱_ فحشاء و منكر كا ارتكاب اور خداوند متعال كى نعمتوں كے مقابلے ميں ناشكرى كرنا،فلاح و كاميابى كے ليے مانع ہے _

انه لايفلح الظالمون

۳۲_''عن على بن الحسين عليه‌السلام ... فلما راهق يوسف راودته إمرا ته الملك عن نفسه (۱)

ترجمہ : امام سجاد عليہ السلام سے روايت ہے:جب حضرت يوسفعليه‌السلام جوانى كے جو بن ميں پہنچے تو بادشاہ كى بيوى نے ان سے جنسى خواہش كا تقاضا كيا

احكام : ۱۳

استعاذہ :الله تعالى سے استغازہ كرنے كے آثار۱۲; الله تعالى سے استعاذہ كى اہميت ۱۱، ۱۲

____________________

۱)علل الشرائع ، ص۴۸، ح ۱ب۴۱; نورالثقلين ج ۲ ، ص ۴۱۴، ح ۱۷_

۴۲۲

اطاعت :الله تعالى كى اطاعت كرنے كى اہميت ۲۳

الله تعالى :الله تعالى كى ربوبيت ۲۰، الله تعالى كى ربوبيت كى نشانياں ۲۵

امور :تعجب آور امور ۱۴

انسان :انسانوں كى ذمہ دارى ۲۳

ايمان :ايمان كے آثار ۲۶; ربوبيت الہى پر ايمان۲۶

انكار :نعمت سے انكار كا ظلم ۳۰;نعمت سے انكار كے آثار ۳۱; نعمت سے انكار كے موارد ۲۴

دعا :اجابت دعا۲۵

دوستى :شوہر دار عورت سے دوستى ۱۳

ذكر :اللہ تعالى كى نعمت كا ذكر۲۶; ; الله تعالى كے احسان كا ذكر ۲۶;الله تعالى كے ذكر كے آثار ۱۱، ۱۷

روايت : ۳۲

زليخا :زليخا اور يوسفعليه‌السلام ۳، ۵، ۶، ۸، ۱۹، ۳۲;زليخا اور يوسفعليه‌السلام كا انكار ۱۸;زليخاكا تسلّط۵; زليخا كا كام لينا ۲، ۳، ۴، ۶، ۲۲;زليخا كا يوسفعليه‌السلام سے عشق ۱، ۲; زليخا كى خواہشات ۲۱، ۳۲;زليخا كى سازش ۶; زليخاكى فكر ۱۸; زليخا كى كوشش ۳;زليخا كى نامناسب توقعات۱۹;زليخا كے كام لينے كا سبب ۵ ، ۸;زليخا كے محل كى خصوصيات ۷; زليخا كے محل كے دروازے ۶، ۷

زنا :زنا كا ظلم ۲۹;زنا كے احكام ۱۳; شوہر والى عورت سے زنا ۱۳

سعادت مندى :سعادت مندى سے محروم افراد ۲۷; سعادت مندى كے موانع ۳۱

شہوت پرستى :شہوت پرستى كے موانع ۱۱

ظالمين :ظالموں كا محروم ہونا ۲۷

ظلم :ظلم كے موارد ۲۸، ۲۹، ۳۰

عفت :بے حيائي كا ظلم ۲۹

فحشاء :

۴۲۳

فحشاء وبرائي كے آثار ۳۱

گناہ :گناہ سے بچاؤ ۲۵;گناہ سے نجات كا طريقہ ۱۲; گناہ كا ظلم ۳۰;گناہ كے آثار ۲۴; گناہ كے ترك كا سبب۲۶;گناہ كے ترك كى اہميت ۲۳; گناہ كے موانع ۱۷

متقين :۱۵

محرمات :۱۳

موحدين : ۱۵

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام اور زليخا ۴، ۲۰، ۲۱ ، ۲۲;يوسفعليه‌السلام اور زليخا كى خواہشات ۹، ۱۰، ۲۸;يوسفعليه‌السلام اور كفران نعمت ۲۲; يوسفعليه‌السلام سے درخواست كرنا ۲;يوسفعليه‌السلام كا الله سے پناہ مانگنا ۱۰; يوسفعليه‌السلام كا بالغ ہونا ۳۲;يوسفعليه‌السلام كا تقوى ۱۵، ۱۶;يوسفعليه‌السلام كا عقيدہ ۲۰، ۲۱، ۲۲; يوسف(ع) كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۵، ۶، ۸، ۹، ۱۰، ۱۵، ۱۸، ۱۹، ۲۰، ۲۱، ۲۲، ۲۸، ۳۲;يوسفعليه‌السلام كا مدبر ہونا ۲۰;يوسف(ع) كى اطاعت ۱۵، ۱۶، ۲۱; يوسفعليه‌السلام كى توحيد ۱۵، ۱۶;يوسفعليه‌السلام كى جوانى ۱۵;يوسفعليه‌السلام كى حكمت كے آثار ۱۶;يوسفعليه‌السلام كى عفت ۴، ۹، ۱۴;يوسفعليه‌السلام كى فكر ۲۸;يوسفعليه‌السلام كے علم كے آثار ۱۶;يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۱۴، ۱۵

آیت ۲۴

( وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا لَوْلا أَن رَّأَى بُرْهَانَ رَبِّهِ كَذَلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاء إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ )

اور يقينا اس عورت نے ان سے بڑائي كا ارادہ كيا اور وہ بھى ارادہ كر بيٹھتے اگر اپنے رب كى دليل نہ ديكھ ليتے يہ تو ہم نے اس طرح كا انتظام كيا كہ ان سے برائي اور بدكارى كا رخ موڑ ديں كہ وہ ہمارے مخلص بندوں ميں سے تھے (۲۴)

۱_ يوسفعليه‌السلام كا زليخا سے وصال كرنے سے انكار پراس نے چاہا كہ وہ اور اس پر غلبہ كے ذريعہ اپنے مقصد كو حاصل كرے _ولقد همّت به

لفظ (ہمّة) اور اس كےتمام مشتقات اگر حرف (باء) كے ساتھ متعدى ہوں تو قصد كرنے كے معنى ميں آتے ہيں لہذا اس صورت ميں ( ولقد ہمّت بہ) يعنى بے شك زليخا نے يوسفعليه‌السلام كا ارادہ كيا تا كہ اس سے اپنى آرزو كو پورا كرے چونكہ زليخا اس طرح كا پہلے سے ارادہ ركھتي تھى (راوتہ التى ) سے معلوم ہوتا ہے كہ اس مقصد سے مراد كوئي دوسرا عزم ہے _اور بعد والى آيت ميں (استقبا ...)

۴۲۴

(يعنى دروازے كى طرف جانے ميں پر اس نے سبقت كي) كا جملہ بتاتا ہے كہ اس كا انجام اس كے غم و غصہ پر ختم ہوا _

۲_ فقط يوسفعليه‌السلام كا الله تعالى كى دليل و حجت كا مشاہدہ كرنا، زليخا سے ہمبسترى كرنے اور اس كى خواہش كو پوراكرنے سے مانع ہوا _و همّ بهالولا أن رء ابرهان ربّه

(ہم بہا) كا جملہ ( لو لا أن ...) كے جواب كے قائم مقام ہے يعنى اگر وہ دليل و برہان الہى كا مشاہدہ نہ كرتے تو زليخا كى طرف رغبت كرتے _ يہى ( برہان ) كا معنى حجت اور دليل ہے_ اس كے واضح مصاديق وہ دليليں ہيں جو ما قبل آيت ميں گذر چكى ہيں _ يعنى برہان كا مشاہدہ يہ چيزيں تھيں : الف:يوسف(ع) ربوبيت الہى اوراسكى نعمتوں كا مشاہدہ كرتے تھے (انه ربّى أحسن مثواي ) ب: يوسفعليه‌السلام كو مكمل يقين تھا كہ گنہگار اور ظالم لوگ كبھى بھى نجات نہيں پائيں گے _ (انه لايفلح الظالمون )

ج:انہيں اس بات ميں شك نہيں تھا كہ زليخا كے ساتھ وصال، ظلم اور معصيت الہى ہے (معاذالله ) ...)

۳_ يوسفعليه‌السلام ،جسمانى طور پر زليخا كى خواہش و آرزو كو پورا كرسكتے تھے _

و لقد همّت به و همّ بها لولا أن راء برهان ربّه

قرآن مجيدنے يہ بيان كرنے كے بعد كہ زليخا نے يوسفعليه‌السلام سے اپنى آرزو كو پورا كرنے كے لئے تمام وسائل مہياكئے ہوئے تھى اور اس نے موانع كو برطرف كرد يا تھا جملہ(هم بها لو لا ...) كو فقط حضرت يوسفعليه‌السلام كے ليے مانع، برہان كا مشاہدہ ذكر كيا ہے تا كہ يہگمان نہہو كہ ان ميں مردانگى طاقت نہيں تھى اور وہ اس كا م پر قدرت نہيں ركھتے تھے_

۴_ يوسفعليه‌السلام كا برہان اور حجت الہى سے بہرہ مند ہونا (يعنى ربوبيت الہى كا مشاہدہ كرنا ) انكے گناہوں كے ارتكاب سے عصمت كا سبب ہے _لولا أن راء برهان ربه كذلك لنصرف عنه السوء و الفحشاء

۵_ خداوند متعال كا يوسفعليه‌السلام كو دليل و برہان كا مشاہدہ كرانے كے ذريعےانہيں زليخا سے وصال (زنا) كرنے اور اسكو شہوت كى نگاہ سے ديكھنے سے محفوظ و امان ميں ركھا_كذلك لنصرف عنه السوء و الفحشاء

(فحشاء) اس گناہ و معصيت كو كہتے ہيں جو بہت ہى برى اور پليد ہو (لسان العرب) (سوء) كا معنى بدى اور گناہ ہے _ اسكو (فحشاء) كے مدمقابل ذكر كرنےكے قرينہ كى بناء پراس سے مراد چھوٹا گناہ ہے _ (السوء) اور (الفحشاء) پر الف لام ممكن ہے عہد كا ہو _ پس (الفحشاء) سے مراد زنا كرنا اور (السوء) سے شہوت كى نگاہ مراد ہے _ اور يہ بھى احتمال ممكن ہے كہ (أل) ان دونوں لفظوں پر جنس كاہولہذا مذكورہ گناہ مورد نظر مصاديق ميں سے شمار ہو نگے _

۴۲۵

۶_ يوسفعليه‌السلام كڑيل جوانى ميں چھوٹے و بڑے گناہ سے معصوم و محفوظ تھے_

كذلك لنصرف عنه السوء و الفحشاء انه من عبادنا المخلصين

۷_ برہان و دليل الہى كا مشاہدہ كرنا ( حقائق كا درك مثلا ربوبيت الہى كا ملاحظہ، گناہ كى بدى كاعلم ، گنہگاروں اور ظالموں كے نجات نہ پانے پر يقين) يہ سب انبيائ(ع) كى عصمت كے سبب ہيں _و همّ بهالو لا أن رء ا برهان ربّه

۸_ انبياءعليه‌السلام ،اللہ تعالى كى امداد كے سايہ ميں گناہ و فحشا سے محفوظ و معصوم ہوتے ہيں _

كذلك لنصرف عنه السوء و الفحشاء

(لنصرف عنہ ...) يعنى ( تاكہ بدى و پليدى كو اس سے دور كريں ) گناہ كو يوسفعليه‌السلام سے دور كرنے كوخداوند متعال كى طرف نسبت دى گئي ہے _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ برہان الہى كا مشاہدہ بھى توفيق الہى اور اسكى مدد كے سبب تھا_

۹_ شوہر دار عورت سے نزديكى اور زناكا ارتكاب، بہت ہى برا اور قبيح گناہ ہے_لنصرف عنه السوء و الفحشاء

۱۰_حضرت يوسفعليه‌السلام ،خداوند متعال كے اطاعت گذار اور مخلص بندوں ميں سے تھا_انه من عبادنا المخلصين

(مخلصين) ( خالص ہونے والوں ) سے مراد يہ ہے كہ غير اللہ كا ان ميں كوئي حصہ نہيں ہے اور وہ كامل طور پر اللہ كے اختيار اور اس كے اوامر كے تحت ہيں اور نہ شيطان ان پر حاكم ہے اور نہ ہى وہ ہوس نفسانى كے قيدى ہيں _

۱۱_ خداوند متعال كے خالص بندے ( جوہر اعتبار سے اطاعت الہى كرتے ہيں ) كبھى بھى گناہ ميں آلودہ اور كسى معصيت كے مرتكب نہيں ہوتے ہيں _لنصرف عنه السوء و الفحشاء انه من عبادنا المخلصين

۱۲_ اللہ عزوجل كے خالص بندے، برہان الہى (ربوبيت الہى پر يقين و غيرہ ...) سے بہرہ مند ہوتے ہيں _

هم بها لو لا أن رء ابرهان ربّه انه من عبادنا المخلصين

۱۳_'' عن الرضا عليه‌السلام ... و ا ما قوله عزوجل فى يوسف عليه‌السلام : '' و لقد همّت به همّ بها '' فانّها همّت بالمعصية و همّ يوسف بقتلهاإن أجبرته فصرف اللّه عنه قتلها و الفاحشه و هو قوله عزوجل : كذلك لنصرف عنه السوء و الفحشاء يعنى

۴۲۶

القتل و الزنا (۱)/ امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے : حضرتعليه‌السلام نے فرمايا كہ اللہ تعالى كاحضرت يوسفعليه‌السلام كے بارے ميں اس فرمان ( ولقد ہمّت بہ و ہمّ بہا) سے مراد يہ ہے كہ اس عورت نے گناہ كا ارادہ كيا ليكن يوسفعليه‌السلام نےيہ ارادہ كيا كہ اگر اس عورت نے انہيں گناہ پر مجبور كيا تو وہ اسے قتل كردے گئے ...'' پس خداوند عالم نے انہيں قتل اور خلاف عفت كام سے محفوظ ركھا اور خداوند عالم كے اس قول'' كذلك لنصرف عنه السوء الفحشاء '' سے مراد يہى ہے_

۱۴_عن على بن الحسين عليه‌السلام انه قال قامت إمراة العزيز الى الصّنم فا لقت عليه ثوبا فقال لها يوسف : ما هذا ؟ قالت : استحيى من الصّنم ان يرانا فقال لها يوسف : ا تستحيين مّمن لا يسمع و لا يبصر و لا ا ستحى أنا ممن خلق الانسان و علّمه فذلك قوله عزوجل : ''لو لا أن را ى برهان ربّه '' (۲)

امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے كہ عزيز مصر كى زوجہ نے ( جو يوسفعليه‌السلام كے ليے خلوت كى جگہ بنائي ہوئي تھي) وہاں سے اٹھى وہاں جوبت موجود تھااس پر كپڑاڈالا _ يوسفعليه‌السلام نے اس سے كہا : كيا كر رہى ہو؟ تو اس نے جواب ديا كہ ميں بت سے شرم كرتى ہوں جو مجھے ديكھ رہا ہے پھر حضرت يوسفعليه‌السلام نے فرمايا جو نہ ديكھتا ہے اور نہ ہى سنتا ہے تو اس سے تو شرم كر رہى ہے ليكن ميں كيا اس سے حيا نہ كروں جس نے انسان كو خلق كيااور اسے علم عطا كيا ہے ؟ يہى وہ بات ہے كہ خداوند متعال نے فرمايا (لو لا أن رأى )

۱۵_عن الصادق عليه‌السلام (فى البرهان الذى را ى يوسف)النبوة المانعة من ارتكاب لفواحش و الحكمة الصارفة عن القبايح (۳)

امام صادقعليه‌السلام فرماتے ہيں : وہ برہان جو يوسفعليه‌السلام نے ديكھا وہ برہان نبوت تھا جو گناہوں سے ارتكاب سے مانع ہوا _ اور وہ حكمت تھى جو برے كاموں سے روكتى ہے_

۱۶_عن الرضا(ع) : لقد همّت به و لو لا أن را ى برهان ربّه لهمّ بها كما همّت به لكنه كان معصوما ً و المعصوم لايّهم بذنب (۴)

امام رضا(ع) فرماتے ہيں : وہ عورت جس نے يوسفعليه‌السلام كا ارادہ كيا تھا اگر يوسفعليه‌السلام برہان الہى كا مشاہدہ نہ كرتے تو وہ بھى ايسا ارادہ كر ليتے حضرت يوسف(ع) معصوم تھے اور معصوم كبھى بھى گناہ كا ارادہ نہيں كرتا_

____________________

۱)عيون الاخبار الرضا ، ج ۱ ، ص ۱۹۳، ح ۱ ب ۱۴; نور الثقلين ج ۲ ، ص ۴۱۹ ، ح ۴۱_۲) عيون الاخبار الرضا ، ج ۲ ، ص ۴۵ ، ح ۱۶۲; نور الثقلين ، ج ، ص ۴۱۹، ح ۴۳_

۳) مجمع البيان ، ج ۵ ، ص ۳۴۴ ; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۴۲۱ ، ح ۵۰_۴) عيون الاخبار الرضا ، ج ۱ ، ص ۲۰۱ ، ح ۱ ، ب ۱۱۵; نور الثقلين ج ۲ ، ص ۴۱۹ ، ح ۴۲_

۴۲۷

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى دليليوں كا فائدہ ۲، ۴، ۵، ۷;اللہ تعالى كى ربوبيت كو درك كرنے كے آثار ۷; اللہ تعالى كى ربوبيت كے آثار ۴; اللہ تعالى كى مدد كا فائدہ ۸

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام كى عصمت كاسبب ۸ ;انبيا ءعليه‌السلام كى عصمت كے عوامل ۷; انبياءعليه‌السلام كے مقامات ۸

ايمان :اللہ تعالى كى ربوبيت پر ايمان ۱۲

حقائق :حقائق كودرك كرنے كے آثار ۷

روايت : ۱۳، ۱۴، ۱۵، ۱۶

زليخا :زليخا اور يوسفعليه‌السلام ۱; زليخا كا آرزو كرنا ۱;زليخا كا ارادہ ۱۳

زنا :زنا كا گناہ ۹;زنا كى پليدى و برائي ۹; شوہر والى عورت سے زنا ۹

ظالمين :ظالمين كى گمراہى ۷

گناہ :گناہ سے عصمت ۶، ۸، ۱۱ ; گناہ كبيرہ۹;گناہ كى پليدى و برائي كو درك كرنے كے آثار ۷; گناہ كے موانع ۴

گنہگار :گنہگاروں كى گمراہى ۷

مخلصين :۱۰

مخلصين اور اللہ تعالى كى دليليں ۱۲;مخلصين كا ايمان ۱۲; مخلصين كى خصوصيات ۱۱، ۱۲مخلصين كى عصمت ۱۱; مخلصين كے فضائل ۱۱

مطيع افراد : ۱۰

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام اور زليخا ۳، ۵ يوسفعليه‌السلام پر اللہ تعالى كى حجت ۲، ۳، ۵، ۱۴، ۱۵، ۱۶; يوسف(ع) كا ارادہ ۱۳;يوسفعليه‌السلام كا خلوص ۱۰; يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۵، ۶، ۱۳، ۱۵، ۱۶; يوسفعليه‌السلام كا مخلصين سے ہونا ۱۰;يوسفعليه‌السلام كى جوانى ۶;يوسف(ع) كى جنسى قوت ۳;يوسف كى حكمت ۱۵; ۱۶;يوسف كى عصمت كا سبب ۵;يوسفعليه‌السلام كى عفت ۵;يوسفعليه‌السلام كى عصمت كے عوامل ۲، ۴;يوسف كى عصمت ۶، يوسف كى فرمانبردارى ۱۰; يوسفعليه‌السلام كى نبوت ۱۵;يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۱۰;يوسف كے مقامات ۶، ۱۶

۴۲۸

آیت ۲۵

( وَاسُتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِن دُبُرٍ وَأَلْفَيَا سَيِّدَهَا لَدَى الْبَابِ قَالَتْ مَا جَزَاء مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِكَ سُوَءاً إِلاَّ أَن يُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِيمٌ )

اور دونوں نے دروازے كى طرف سبقت كى اور اس نے ان كا كرتا پيچھے سے پھاڑ ديا اور دونوں نے اس كے سردار كو دورازہ ہى پر ديكھ ليا _اس نے گھبرا كر فرياد كى كہ جو تمھارے عورت كے ساتھ برائي كا ارادہ كرے اس كى سزا اس كے علاوہ كياہے كہ اسے قيدى بناديا جائے يا اس پر دردناك عذاب كيا جائے (۲۵)

۱_ زليخا، حضرت يوسفعليه‌السلام سے اپنى آرزو كو پورا كرنے اورانكونزديكى پر آمادہ كرنے كے ليے ان سے جھگڑا كرنے پر تل گئي_و استبقا الباب

۲_ حضرت يوسفعليه‌السلام ،ذليخا سے الجھنے سے نجات پانے كى خاطر باہر جانے والے دروازے كى طرف لپكے_

و لقد همت به استبقا الباب

''الباب'' كو معرفہ لانا خاص دروازہ كى طرف اشارہ ہے _مقام كى مناسب سے يہ كہا جا سكتا ہے اس سے مراد باہر نكلنے والا دروازہ ہے_

۳_ گناہ سے آلودہ نہ ہونے كے لئے معصيت كے ماحول سے نكلنے كى كوشش كرنا ضرورى ہے_و استبقا الباب

۴_ زليخا، حضرت يوسفعليه‌السلام كو حاصل كرنے اوران كو باہر جانے سے روكنے كى خاطر ان كے پيچھے جلدى سے باہر جانے والے دروازے كى طرف لپكي_و استبقا الباب

۵_حضرت يوسف(ع) ، زليخا سے دور بھا گنے كى كوشش ميں باہر جانے والے دروازے تك اس سے پہلے پہنچ گئے_

و استبقا الباب و قدت قميضه من دبر

۶_ زليخا نے حضرت يوسفعليه‌السلام كو باہر جانے سے روكنے كے ليے ان كى قميض كو پيچھے سے پكڑا اور اسكو زور سے اپنى طرف كھينچا_و استبقا الباب و قدت قميصه من دبر

۷_ زليخا كا يوسفعليه‌السلام كى قميض كو پكڑنے كى وجہ سے قميض ميں سوراخ ہوگيا اور وہ سارى كى سارى پھٹ گئي_

و قدت قميضه من دبر

۴۲۹

(قدّ) (قدّت) كا مصدر ہے جس كا معنى اوپر سے نيچے تمام كا تمام شگافتہ اور پار ہ كرنا ہے (لسان العرب) اس صورت ميں (قدّ القميص) يعنى اوپر سے نيچے تك سارى كى سارى قميض پھٹ گئي_

۸_ حضرت يوسفعليه‌السلام ، دروازے كو كھولنے اور زليخا كے مكر سے بھاگنے ميں كامياب ہوگئے_

و ألفيا سيدها لدا الباب

۹_ زليخا كا يوسفعليه‌السلام كے پيچھے دوڑنا اور ان كا اس سے بھاگنے كے دوران ہى جب دروازہ كھلا تو انہوں نے عزيز مصر كو دروازے ميں پايا_و الفياسيدها لدا الباب

(إلفا) (ألفيا) كا مصدر ہے جو پانااور روبرو ہونے كے معنى ميں آتا ہے (سيّد) كا معنى سردار اور صاحب عظمت ہے _ ليكن يہاں مراد شوہر ہے_

۱۰_ يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں شوہر كا بيوى كے ليے آقا و سردار ہونا_و ألفيا سيدها لدا الباب

۱۱_ زليخا نے جب اپنے شوہر '' عزيز مصر ''كو ديكھا تو يوسفعليه‌السلام پر اپنے اوپر تجاوز كرنے كے ارادے كى تہمت لگائي _

قالت ما جزاء من ا راد با هلك سوء

(جزاء ) كا معنى انجام اور سزا ہے اور اس آيت شريفہ ميں (ما) نافيہ ہے _ اسى وجہ سے (ما جزاء ) كا معنى يہ ہوگا _ جوتيرى بيوى پر تجاوز كرنے كا ارادہ كرے اسكى سزا نہيں ہوسكتى مگر زندان يا دردناك عذاب _

۱۲_ زليخا كا يوسفعليه‌السلام پر تہمت لگانے ميں پہل كرنا _

و ألفيا سيّدها لدا الباب قالت ما جزاء من ا راد با هلك سوء

۱۳_ زليخا كا عزير مصر كے سامنے اپنى صفائي پيش كرنے كى كوشش كرنا _قالتما جزاء من ا راد با هلك سوء

۱۴_ زليخا كا عزيز مصر كو ابھارنے كا مقصد حضرت يوسف(ع) كا مؤاخدہ اور انہيں سزا دينا تھا _

ما جزا ء من ا راد با هلك سوء ً الا ان يسجن او عذاب اليم

ابھارنے كا معنى زليخا كے قول ( اہلك) سے استفادہ ہوا ہے_يعنى تيرى بيوى كے قول كا استعمال ،عزير مصر كو اسكى سزا و عقاب پر ابھارنے كيخاطر تھا_

۴۳۰

۱۵_ زليخانے عزير مصر كے سامنے يوسفعليه‌السلام كو تجاوزكرنے سے متہم نہيں كيا _ما جزاء من أراد با هلك سوء

مذكورہ بالا معنى كا (أراد )(قصد كيا) كے فعل سے استفادہ كيا گيا ہے_

۱۶_ يوسفعليه‌السلام كو قيد ميں ڈالنا يا اس پر شكنجہ كرنا يہ زليخا كى عزير مصر كو سزا دينے كى تجويزتھي_

ما جزاء من أراد با هلك سو ء اً إلّا ان يسجن ا و عذاب اليم

۱۷_ قديمى و تاريخى مصر اور يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں قيد خانے كا ہونا _إلا أن يسجن

۱۸_ قديمى و تاريخى مصر اور يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں مجرموں كو قيد ميں ڈالنا اور ان پر شكنجہ كرنامتداول و رائج تھا_

إلاّ ان يسجن أو عذاب أليم

۱۹_ قديمى مصر ميں اشراف اور بزرگان كى بيويوں پر تجاوز كا ارادہ كرنا، مستوجب سزا و عقاب تھا_

ما جزاء من أراد با هلك سوء اًإلاّ أن يسجن أو عذاب اليم

۲۰_عن على بن الحسين(ع) : فغلقت الابواب عليها و عليه و قالت : لا تخف و ا لقت نفسها عليه فا فلت منها هاربا إلى الباب ففتحه فلحقته فجذبت قميصه من خلفه (۱)

امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے: ( عزير مصر) كى بيوى نے اپنے اور يوسفعليه‌السلام كے ليے دروازوں كو بند كرديا اور اس سے كہا ڈر و مت : اور اپنے آپ كو اس پر گرادو : حضرت يوسف(ع) اس سے بھاگ گئے اور دروازے كى طرف بھا گنا شروع كرديا اور دروازے كو كھول ديا يہاں تك كہ وہ عورت بھى ان تك پہنچ گئي اور اس نے ان كى قميض كو پيچھے سے كھينچا_

اشراف :اشراف كى بيويوں پر تجاوز كرنے كى سزا ۱۹

روايت : ۲۰

زليخا :زليخا اور عزير مصر ۹، ۱۳، ۱۴; زليخا اور يوسفعليه‌السلام ۱، ۴، ۶، ۷، ۱۱، ۱۲، ۱۵;زليخا اور حضرت يوسف(ع) كى سزا ۱۴ ; زليخا كا صفائي پيش كرنا ۱۳; زليخا تہمتيں ۱۱، ۱۲ ; زليخا كى سازش ۴، ۵، ۶، ۷، ۸، ۱۴; زليخا كى مراد پانے كى كوشش ۱

زندان :

____________________

۱) علل الشرائع ، ص ۴۸، ح ۱ ، ب ۴۱; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۴۱۴، ح ۱۷_

۴۳۱

زندان كى تاريخ ۱۷، ۱۸; يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں زندان ۱۷

سزاء :سزا كى شناخت ۱۸، ۱۹

شكنجہ :شكنجہ كى تاريخ ۱۸; حضرت يوسف(ع) كے زمانے ميں شكنجہ ۱۸

عزير مصر :عزير مصراور حضرت يوسف(ع) كى سزاء ۱۴;عزير مصر كو ابھارنا ۱۴

قديمى مصر :قديمى مصر ميں اشراف كى بيويوں كا احترام ۱۹; قديم مصر ميں شكنجہ ۱۸;قديمى مصر ميں قيد خانہ ۱۷; قديم مصر ميں قيدى بنانا ۱۸

قيد ميں ڈالنا:يوسف(ع) كے زمانہ ميں قيد ميں ڈالنا۱۷

گناہ :گناہ كى جگہ سے اجتناب كى اہميت ۳

مرد كى سردارى :مرد كى سردارى كى تاريخ ۱۰; يوسفعليه‌السلام كے ميں مرد كى سالارى ۱۰

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام اور زليخا۲، ۵، ۹;يوسفعليه‌السلام اورعزيز مصر ۹; يوسف(ع) پر تہمت ۱۱، ۱۲،۱۵;يوسف(ع) پر شكنجہ ۱۶; يوسفعليه‌السلام كابھاگنا ۲، ۵، ۸;يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۴، ۵، ۶، ۷، ۸، ۹، ۱۱، ۱۲، ۱۳، ۱۴، ۱۵، ۱۶، ۲۰; يوسفعليه‌السلام كو قيدى بنانا ۱۶;يوسفعليه‌السلام كى سزاء ۱۶;يوسف(ع) كى قميض ۶ ، ۲۰;يوسفعليه‌السلام كى قميض كا پھٹ جانا۷;يوسفعليه‌السلام كى نجات۸;يوسفعليه‌السلام كے خلاف سازش ۱، ۴، ۵، ۱۴

آیت ۲۶

( قَالَ هِيَ رَاوَدَتْنِي عَن نَّفْسِي وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ أَهْلِهَا إِن كَانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِن قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنَ الكَاذِبِينَ )

يوسف نے كہا كہ اس نے خود مجھے سے اظہار محبت كيا ہے اوراس پر اس كے گھر والوں ميں سے ايك گواہ نے گواہى بھى دے دى كہ اگر ان كا دامن سامنے سے پھٹا ہے تو وہ سچى ہے اور يہ جھوٹوں ميں سے ہيں (۲۶)

۱_ يوسفعليه‌السلام كا زليخا كى تہمت كے مقابلے ميں اپنا دفاع كرنا_

قال هى راودتنى عن نفسي

۲_يوسفعليه‌السلام نے عزيز مصر كے سامنے زليخا كى ناجائز خواہش اور اس كے مقابلے ميں اپنے انكار كرنے كو بيان كيا اور خود كو ہر برے ارادے سے پاك و منزا قرار ديا _قال هى راودتنى عن نفسي

۴۳۲

(هى راودتني ) اور (أناقمت ) كى جو نحوى تركيب ہے كہ مبتداء فاعل كے معنى ميں ہے اور اسكى خبر خود فعل ہے _ كبھى يہ تاكيد پر دلالت كرتى ہے اور كبھى حصر پر دلالت كرتى ہے_ چونكہ يوسف(ع) اپنے سے الزام كو دور كرنے كى كوشش ميں تھے تو اس سے معلوم ہوتا ہے كہ(ہى راودتني) كا جملہ حصر پر دلالت كر رہا ہے _ تو اس صورت ميں جملہ ( ہى راودتنى ) كا معنى يہ ہوگا كہ وہ (زليخا) مجھ سے اپنى آرزو پورى كرنے كى خواہش ركھتى تھى ليكن ميں نے يہ خواہش پورى نہيں كى اور ميں اس سے انكار كرتا رہا_

۳_ ضرورى ہے كہ نامناسب تہمتوں سے انسان اپنا دفاع كرے _

قالت ما جزاء قال هى راودتنى عن نفسي

۴_ اپنے دفاع كے ليے دوسرے كے گناہوں كو افشاء كرنا جائزہے_قالت قال هى راودتنى عن نفسي

۵_ يوسفعليه‌السلام نے زليخا كى نزديكى اور وصال كى خواہش كو اپنے دفاع كے وقت تك مخفى ركھا اور اسے فاش نہيں كيا_

قالت قال هى راودتنى عن نفسي

۶_ يوسفعليه‌السلام اپنے دفاع كے وقت مطمئن اور پر سكون تھے_قال هى راودتنى عن نفسي

يوسفعليه‌السلام نے اپنے اتہام كو دور كرنے كے ليے اپنى كلام (هى راودتنى عن نفسى ) ميں نہ تو تاكيد كے الفاظ استعمال كئے اور نہ ہى قسم وغيرہ اٹھائي _ يہ اس بات كى دليل ہے كہ اس مقام پر حضرت يوسف(ع) نہايت مطمئن اور پر سكون تھے_

۷_ عزيز مصر نے يوسف اورزليخا كے ماجرا ميں اپنى طرف سے فيصلہ نہيں ديا اور جلدى فيصلہكرنے سے پرہيز كيا_

قالت قال هى راودتنى عن نفسى و شهد شاهد من اهله

۸_ زليخا كے رشتہ داروں ميں ايك شخص نے زليخا اور يوسفعليه‌السلام كے ماجرا ميں مداخلت كى اور ان كے درميان اس نے فيصلہ كيا_و شهد شاهد من أهله

۹_ يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے واقعہ ميں قضاوت كرنے والا اگرچہ زليخا كے رشتہ داروں ميں سے تھا ليكن اس نے غير جابندار ہو كر حق كا فيصلہ ديا_

۴۳۳

و شهد شاهد من أهلها إن كان قميصه قدّ من قبل

۱۰_ يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے واقعہ كى قضاوت كرنے والا، اپنا فيصلہ دينے سے پہلے يوسفعليه‌السلام كى قميض كے پھٹ جانے سے آگاہ ہوچكا تھا_و شهد شاهد من أهلها إن كان قميصه قدّ

۱۱_ يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے واقعہ كا فيصلہ كرنے والے نے زليخا كى سچائي اور يوسفعليه‌السلام كے جھوٹ كو يوسفعليه‌السلام كى آگے كى جانب سے قميض كو پھٹنے پر منحصر قرار ديا_ان كان قميصه قدّ من قبل فصدقت و هو من الكاذبين

۱۲_ يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے واقعہ كا فيصلہ كرنے والا، اپنے صحيح فيصلے اور قميض كے پھٹنے پر كامل اطمينان ركھتا تھا_

و شهد شاهد من أهلها إن كا ن قميصه قدّ من قبل

(شہد شاہد) كے جملے ميں گواہى سے مراد اظہار نظر اور قضاوت كرنا وغيرہ ہے _ اس لفظ كا ذكر جو كہ شہادت ومشاہدہ پر موقوف ہے بتاتا ہے كہ وہ شخص اپنى قضاوت و فيصلے پر اتنا مطمئن تھا گويا اس نے ماجرا كو اپنى آنكھوں ہى سے ديكھا ہے_

۱۳_عن على بن الحسين عليه‌السلام ... قال : يوسف و اله يعقوب ما ا ردت بأهلك سوء بل هى راودتنى عن نفسى فسل هذا الصبى و كان عندها من أهلها صبى زائر لها فانطق اللّه الصبى لفصل القضاء فقال انظر الى قميص يوسف (۱)

امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے كہ يوسف نے كہا : مجھے يعقوبعليه‌السلام كے خدا كى قسم ميں تيرى بيوى كے بارے ميں برى نظر نہيں ركھتا تھا_ خود اس نے مجھے دعوت دى تم اس بچے سے پوچھ لو _ وہ بچہ اس عورت كے رشتہ داروں ميں سے تھا جو اس كو ديكھنے كے ليے آيا تھا پھر خداوند متعال نے قضاوت كرنے كے ليے اس بچے كو زبان دى اور وہ كلام كرنے لگا اور اس نے كہا: يوسفعليه‌السلام كى قميض كو ديكھو

احكام :۴

راز فاش كرنا :راز فاش كرنے كا جواز ۴;راز فاش كرنے كے احكام ۴

روايت :۱۳

خود :اپنا دفاع ۱، ۴، ۶;اپنے دفاع كى اہميت ۳، ۵; اپنے سے تہمت كو دور كرنا ۳

زليخا :

۴۳۴

زليخا كا اپنى آرزو كو پورا كرنے كى كوشش كرنا ۲، ۵زليخا كى صداقت كے دلائل ۱۱; زليخا كے رشتہ داروں كى قضاوت ۸، ۹

عزيز مصر :عزيز مصر اور قصّہ يوسفعليه‌السلام ۷

قضاوت :اپنے دعوى كو ثابت كرنے ميں قضاوت كى نشانياں ۱۱; قضاوت ميں عدالت ۹; قضاوت ميں قضاوت كى علامات كا كردار ۱۱

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام اور زليخا كى تہمتيں ۱; يوسفعليه‌السلام اورعزيز مصر ۲; يوسفعليه‌السلام كا پر سكون ہونا ۶; يوسف(ع) كا دفاع ۱، ۶; يوسفعليه‌السلام كا راز فاش كرنا ۲، ۵; يوسف كا صفائي پيش كرنا ۲; يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱، ۲، ۵، ۷، ۹، ۱۰، ۱۲، ۱۳; يوسفعليه‌السلام كا گواہ ۱۳;يوسف(ع) كى قميض ۱۳;يوسف(ع) كى قميض كا پھٹنا ۱۰، ۱۱، ۱۲;يوسف(ع) كے پيش آنے كا طريقہ ۶; يوسفعليه‌السلام كے جھوٹ بولنے كے دلائل ۱۱; يوسفعليه‌السلام كے قصے ميں قاضى كا اطمينان ۱۲; يوسف(ع) كے قصّے كا قاضى ۹، ۱۰، ۱۱

آیت ۲۷

( وَإِنْ كَانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِن دُبُرٍ فَكَذَبَتْ وَهُوَ مِن الصَّادِقِينَ )

اور اگر ان كا كرتا پيچھے سے پھٹا ہے تو وہ جھوٹى ہے اور يہ سچوں ميں سے ہيں (۲۷)

۱_ يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے واقعے كا فيصلہ كرنے والے نے كُرتے كے پيچھے سے پھٹنے كى وجہ سے زليخا كے دعوى كو جھوٹا اور يوسفعليه‌السلام كو سچا قرار ديا _و ان كان و هو من الصادقين

۲_ يوسف(ع) اور زليخا كے قضيے ميں فيصلہ كرنے والے كے نزديك كرتے كا پھٹنا حقيقت كشف ہونے كا محور قرارپايا _

و شهد شاهد و هو من الصادقين

قميض كے پھٹنے سے قضيے كى حقيقت كو بھانپ لينا فيصلہ كرنے والے كى ذہانت وہوشيارى پردلالت

دلالت كرتا ہے_ اور ساتھ ہى اس نے زليخا كے رشتہ دار ہونے كے باوجود بھى حق كو مخفى نہيں ركھا_ اس سے اسكى حق پرستى اور عدالت ثابت ہوتى ہے_

۳_مجرم كى تشخيصكے ليے جرم كى شناخت ميں مختلف طريقوں كو اختيار كرنا ضرورى ہے_ان كان و هو من الصادقين

جرم :

۴۳۵

جرم كو ثابت كرنے كے دليليں ۴

جرم كى شناخت كرنا :جرم كى شناخت كرنے كا طريقہ ۴

زليخا :زليخا كے جھوٹے ہونے كے دلائل ۱

قضاوت :دعوى كو ثابت كرنے ميں قضاوت كے طور طريقے ۱; قضاوت ميں قضائي طور طريقوں كا كردار ۱

مجرمين :مجرمين كى تشخيص كا طريقہ ۴

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كى سچائي كے دلائل ۱;يوسفعليه‌السلام كى قميض كا پھٹ جانا ۱، ۲; يوسفعليه‌السلام كے قصّے كا قاضى ۱; يوسفعليه‌السلام كے قصّے كى قضاوت ۳;يوسفعليه‌السلام كے قصہ كے قاضى كى عدالت ۳; يوسفعليه‌السلام كے قصّے ميں قاضى كے فضائل ۳; يوسفعليه‌السلام كے قصّےميں قاضى كى كام ميں سوجھ بوجھ ۳

آیت ۲۸

( فَلَمَّا رَأَى قَمِيصَهُ قُدَّ مِن دُبُرٍ قَالَ إِنَّهُ مِن كَيْدِكُنَّ إِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيمٌ )

پھر جو ديكھا كہ ان كا كرتا پيچھے سے پھٹا ہے تو اس نے كہا كہ يہ تم عورتوں كى مكار ى ہے تمھارا مكر بہت عظيم ہوتاہے (۲۸)

۱_ عزيز مصر نے يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے ماجرا كى حقيقت كو كشف كرنے كے ليے خود ہى تحقيق كى اور قميض اور اسكے پھٹ جانے كے انداز كا ملاحظہ كيا _فلّمارءا قميصه قُدّ من دُبر

ظاہر يہ ہے كہ ( رأي) ميں ضمير، عزيز مصر كى طرف لوٹتى ہے_

۲_ عزيز مصر، نے حضرت يوسفعليه‌السلام كے كرتے كو پيچھے سے پھٹا ہوا ديكھ كر ان كى سچائي كوسمجھ ليا_

فلما رءا قميصه قُدّ من دُبر قال انه من كيدكنّ

۳_ عزيز مصر نے يوسفعليه‌السلام كى سچائي كو جاننے كے بعد يوسفعليه‌السلام كے حق ميں فيصلہ ديا اور زليخا كو مجرم ٹھہرايا_

فلما رءاى قميصه قدّ من دبر قال انه من كيدكن

۴_ عزيز مصر نے واقعہ يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے قاضى كى طرف سے پيش كردہ شواہدكو حضرت يوسفعليه‌السلام سے

۴۳۶

تہمت دور كرنے اور اسكى بے گناہى كو ثابت كرنے ليے كافى سمجھا_فلما رءا قميصه قدّ من دبر قال انه من كيدكن

۵_ عزيز مصر نے يوسفعليه‌السلام كى حقانيت كو سمجھنے كے بعد عورتوں كو مكر و حيلہ سے مجسم انسان قرار ديا _

إنه من كيدكنَّ

۶_ ناجائز جنسى روابط اور اخلاقى انحرافات كو وجود ميں لانے ميں عورتوں كا بہت زيادہ حصہ ہے_انه من كيدكنَّ

مذكورہ معنى اس صورت ميں ہے جب ( انّہ ) كى ضمير وصال كے ارادے كى محبت كى طرف لوٹ رہى ہوجس كا جملہ ( ہى راودتنى ) سے استفادہہوتاہے _

۷_ عزيز مصر نے يوسفعليه‌السلام سے اپنى آرزو پورا كرنے والے مكر كو زليخا كے زنانہ مكر و حيلوں سے قرار ديا _

إنّه من كيدكن

يہ احتمال ہے كہ ( انّہ) كى ضمير (غلقت الابواب ) كے جملے سے جو حقيقت ظاہر ہوتى ہے كى طرف پلٹے مذكورہ معنى اسى احتمال كى بناء پر ہے_

۸_ عزيز مصر نے زليخا كا حضرت يوسفعليه‌السلام كو متہم كرنے اور ان كے ليے سزا كے مقرر كرنے ميں پہل كرنے كو زليخا كا مكر قرار ديا _قالت ما جزاء من أراد با هلك سوء اً انه من كيدكنَّ

مذكورہ بالا معنى اس صورت ميں ہے كہ جب (انّہ ...) كى ضمير كو ( قالت ما جزاء ...) آيت ۲۵ كے معنى كى طرف لوٹائيں اور وہ معنى يہ ہے كہ زليخا نے اپنے آپ كو پاكدامن اورمقابل كو گنہگار ثابت كرنے ميں پہل كى ہے_

۹_ عزيم مصر كا عورتوں كے مزاج اور ان كے مكر و فريب سے آگاہ ہونا _إن كيد كنَّ عظيم

۱۰_ عورتوں كامكر و فريب، بہت ہى بڑا مكر و فريب ہوتا ہے_ان كيدكن عظيم

اگرچہ جملہ ( ان كيدكن عظيم ) عزيز مصر كا كلام ہے _ ليكن مفسرين قائل ہيں كہ اگر قرآن مجيد ميں خداوند متعال كسى كلام كو نقل كرے اور اسكو ردّ نہ كرے تو اس سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ كلام حق ہے_

۱۱_ مكر و فريب عورتوں كاوہ ذريعہ ہے جن سے وہ اخلاقى فساد وانحراف ايجادكرتى ہيں _انه من كيدكنَّ

۱۲_ عورتوں كے مكر و فريب سے ہوشيار رہنا ضرورى ہے_انه من كيدكن انه كيدكنَّ عظيم

۴۳۷

۱۳_ عزيز مصر كا يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے قصّے ميں اپنى رائے دينے اور قضاوت كرنے ميں عدالت اور انصاف سے كام لينا _فلما رءا قميصه قال إنه من كيدكنَّ إن كيدكُنَّ عظيم

اخلاق :اخلاقى فساد كے عوامل ۶

زليخا :زليخا كا مكر ۷، ۸;زليخا كى آرزو پورى كى خواہش ۷;زليخا كى تہمتيں ۴، ۸; زليخا كے خلاف فيصلہ ہونا ۳

عزيز مصر :عزيز مصر اور زليخا ۳، ۷; عزيز مصر اور عورتوں كا مكر ۹;عزيز مصر اور يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱، ۷، ۸، ۱۳;عزيز مصر اور يوسفعليه‌السلام كى صداقت ۲; عزيز مصر اور يوسف ۳، ۴، ۵; عزيز مصر كا آگاہ ہونا ۹;

عزيز مصر كا چھان بين كرنا ۱; عزيز مصر كى عدالت ۱۳; عزيز مصر كى قضاوت ۱۳

عورتيں :عورتوں كا فساد پھيلانا ۶، ۱۱; عورتوں كا مكر ۵، ۷، ۸، ۱۰، ۱۱ ; عورتوں كے مكركے مقابلہ ميں ہوشيار و چالاك ہونا ۱۲

فساد :فساد كا ذريعہ۱۱

گمراہى :گمراہى كا ذريعہ ۱۱

مكر :بہت بڑا مكر ۱۰

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام پر تہمت ۴، ۸;يوسفعليه‌السلام كى صداقت ۳، ۵; يوسفعليه‌السلام كى صداقت كے دلائل ۲، ۴; يوسفعليه‌السلام كے كرتے كا پھٹ جانا ۱، ۲، ۴

۴۳۸

آیت ۲۹

( يُوسُفُ أَعْرِضْ عَنْ هَـذَا وَاسْتَغْفِرِي لِذَنبِكِ إِنَّكِ كُنتِ مِنَ الْخَاطِئِينَ )

يوسف اب تم اس سے اعراض كرو اور زليخا تو اپنے گناہ كے لئے استغفار كر كہ تو خطا ركاروں ميں ہے (۲۹)

۱_ عزيز مصر نے يوسفعليه‌السلام سے چاہا كہ زليخا كے معاملے كو بھلاو اور اسكو چھپادے_يوسف أعرض عن هذ

(اعرض عن هذا ) كا معنى زليخا كے ماجرے كو فراموش كرنا يعنى اسكو مخفى كرنے اوراس سے صرف نظر كرنے كے معنى ميں ہے_ يعنى اس كے بارے ميں كسى سے گلا و شكوہ نہيں كرنا _ كيونكہ زليخا كے خلافكسى قسم كا اقدام كرنا حضرت يوسف(ع) كے مقام جو كہ ايك زرخريد غلام تھے سے سازگار نہيں تھا_

۲_ واقعہ كى حقيقت ظاہر ہونے كے بعد عزيز مصر كى طرف سے حضرت يوسفعليه‌السلام كا اكرام و احترام _

يوسف أعرض عن هذا

لفظ ( يوسف ) منادى اور ( يا) حرف نداء ہے جو يہاں حذف ہوگيا ہے _ عزيز مصر اس كو حذف كركے يوسفعليه‌السلام سے اپنى قربت اور محبت كا اظہار كرنا چاہتا ہے اور انكا نام لے كر ان سے اپنى مہربانى اور عطوفت كو بيان كر رہاہے_

۳_ عزيز مصر كے سامنے جب زليخا كى غلطى ثابت ہوگئي تو اس نے اسے استغفار كرنے اور گناہ سے معافى طلب كرنے كے ليے كہا _و استغفرى لذنبك إنّك كنت من الخاطئين

جملہ (و استغفرى لذنبك ) ''اپنے گناہوں كى معافى مانگو''ميں يہ بيان نہيں ہوا كہ زليخا كس سے معافى طلب كرے _ بعض مفسرين نے كہا ہے كہ استغفار سے مراد خداوند متعال سے استغفار كرنا ہے _ بعض نے كہا ہے كہ خود عزيز مصر سے معافى طلب كرنا مرادہے_

۴_ عورت كا اپنے شوہر كے علاوہ كسى سے جنسى رابطہ ركھنا نامناسب اور ناجائز ہے _و استغفرى لذنبك

۵_ قديم ايّام سے انسان، عورت كا اپنے شوہر كے علاوہ كسى سے جنسى روابط كے ناجائز و نامناسب ہونے كا اعتقاد ركھتا تھااور اس كى تاكيد كرتاتھا_و استغفرى لذنبك إنك كنت من الخاطئين

۴۳۹

زليخا :زليخا كے مكر كو چھپانا ۱

عزيز مصر :عزيز مصر اور زليخا ۳; عزيز مصر اور يوسفعليه‌السلام ۱، ۲; عزيز مصر كى توقعات ۱، ۳

ناجائز روابط :ناجائز روابط تاريخ كى نظر ميں ۵; ناجائز روابط كى برائي ۵;نامحرم سے رابطہ ۴

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام سے درخواست كرنا ۱;يوسفعليه‌السلام كا احترام ۲ ; يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱، ۲، ۳

آیت ۳۰

( وَقَالَ نِسْوَةٌ فِي الْمَدِينَةِ امْرَأَةُ الْعَزِيزِ تُرَاوِدُ فَتَاهَا عَن نَّفْسِهِ قَدْ شَغَفَهَا حُبّاً إِنَّا لَنَرَاهَا فِي ضَلاَلٍ مُّبِينٍ )

اور پھر شہر كى عورتوں نے كہنا شروع كرديا كہ عزيز مصر كى عورت اپنے جوان كو اپنى طرف كھينچ رہى تھى اور اسے اس كى محبت نے مدہوش بنا ديا تھا ہم يہ ديكھ رہے ہيں كہ يہ عورت بالكل ہى كھلى ہوئي گمراہى ميں ہے (۳۰)

۱_ زليخا كا يوسفعليه‌السلام سے عشق اور اسكا ان سے اپنى آرزو كو پورا كرنے كى خواہش كرنا، شہر ميں پھيل گيا _

و قال نسوة فى المدينة امرأت العزيز تراودفتىاها

۲_ مصر كے دار لخلافہ ميں يوسف(ع) اور زليخا كے قصہ كى خبر عام ہونے كاسبب اشراف كى عور تيں تھيں _

و قال نسوة فى المدينة

مذكورہ معنى اس صورت ميں ہوسكتا ہے كہ جب (فى المدينة) كا جملہ ( قال) كے متعلق ہو لہذا جملہ يوں ہوگا ( قال نسوة فى المدينة ...) يعنى عورتوں نے يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے عشق كو اس شہر ( دار الخلافہ مصر ) ميں پھيلا ديا _

۳_ زليخا كا يوسفعليه‌السلام سے عشق اور اسكا ان سے اپنى آرزو كو پورا كرنےكے لئے اصرار، اشراف لوگوں كى بيويوں كى زبان پر جارى ہوگيا _و قال نسوة فى المدينة امرأت العزيز ترادو فتى ها عن نفسه

( فى المدينة) ممكن ہے (قال) كے متعلق ہو

۴۴۰

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945

946

947

948

949

950

951

952

953

954

955

956

957

958

959

960

961

962

963

964

965

966

967

968

969

970

971