تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 6%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 205861 / ڈاؤنلوڈ: 4271
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۸

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

''المیزان'' میں مرحوم علامہ طباطبائی کا کلام الٰہی کے امتحانوں کے سلسلہ میں تربیتی عنوان سے قابل توجہ ہے: ''... اس وجہ سے انسانوں کے لئے عام الٰہی تربیت حُسن عاقبت اور سعادت اس دعوت دینے کے اعتبار سے امتحان ہے کیونکہ انسان کے لئے حالات کو مشخص و معین اور آشکار کرتی ہے کہ آیا یہ شخص کس عالم سے متعلق ہے: عالم ثواب وا جزا یا عالم عقاب و سزا۔ اس وجہ سے خداوند متعال اپنے تصرفات کو حوادث کی تشریع اور توجیہ کے عنوان سے بلائ، ابتلأ اور فتنہ نام دیتا ہے، مثال کے طور پر عام عنوان سے فرماتا ہے: (اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً )(١) ''بے شک ہم نے روئے زمین کی ہر چیز کو زمین کی زینت قرار دیا ہے تاکہ ان لوگوں کا امتحان لیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے '' یا فرماتا ہے: (وَنَبْلُوکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَةً )(٢) ''... اور ہم اچھائی اور برائی کے ذریعہ تم سب کو آزمائیں گے...'' یافرماتا ہے:(اَنَّمَا اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَة )(٣) '' تمہارے اموال اور اولاد فتنہ ہیں'' وغیرہ۔

یہ آیات جیسا کہ آپ ملاحظہ کررہے ہیں انسان سے متعلق ہر مصیبت وبلا کو ''الٰہی امتحان وآزمائش'' شمار کرتی ہیں تمام امور کے لئے جیسے اس کا وجود، اس کے اجزا اور اعضاء جیسے آنکھ، کان یا اس کے وجود سے خارج چیزیں جو اُس سے مربوط ہیںجیسے اولاد بیوی، رشتہ دار، احباب، مال، جاہ و مرتبہ مقام اور وہ تمام امور کہ جن سے وہ کسی قسم کا فائدہ حاصل کرتاہے، اسی طرح ان کے مقابل امور جیسے موت اور تمام مصیبتیں ۔ ان آیات میں افراد کے اعتبار سے بھی ایک عمومیت پائی جاتی ہے یعنی مومن وکافر، نیکوکار اور گناہگار، انبیاء اور ان سے کم درجہ والے سارے افرادمعرض بلا و امتحان میں ہیں، لہٰذا یہ اﷲ کی ایک جاری وساری سنت ہے کہ کوئی اس سے الگ نہیں ہوسکتا''۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔکہف آیت ٧۔

٢۔ سورۂ انبیاء آیت ٣٥۔

٣۔سورۂ تغابن آیت ١٥ ۔

٤۔ المیزان ج٤ ص٣٦۔

۲۲۱

یہ بات کہ امتحان اور ابتلاء جملہ امور میں تمام افراد کے لئیاﷲ کی بلا استثناء ایک جاری سنت ہے ، ابتلا کے تربیتی روش سے منافات نہیں رکھتی، کیونکہ اس طرح کے امور کے ساتھ ہمارے طرز عمل کو ایک تربیتی طرز کے عنوان سے مانا جاسکتا ہے یعنی مشکلات میں صبر وتحمل اور نعمات میں شکر کہ جس کی بازگشت ہمارے طرز عمل ہی کی جانب ہے، خود اخلاقی تربیت کے عوامل میں محسوب ہوسکتا ہے: اور ہم قطعی طور پر تم کو کچھ چیزوں جیسے خوف،بھوک، اموال، نفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور ان صابروں کو بشارت دیدو، (وہی لوگ) کہ جب ان پر مصیبت پڑتی ہے، کہتے ہیں: ''ہم خدا ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جائیں گے''(١)

اس کے علاوہ اگرچہ آیات میں خیر وشر، نعمت ونقمت، سختی اور سہولت سب کو امتحان اور ابتلا کے مصادیق میں شمار کیا گیا ہے حتی کہ بعض روایات میں شکر و کشادگی کی منزل میں طرز عمل کو صبر وناگواری کے وقت سے زیادہ سخت جانا گیا ہے، لیکن جو چیز امتحان کے موقع پر افراد کی توجہ کا زیادہ تر مرکز ہوتی ہے وہ ناگوار ، رنج آمیز اور اندوہگین حوادث وواقعات کا مقابلہ کرنا ہے، چنانچہ مذکورہ آیت میں تصریح کی گئی ہے کہ خوفناک اور ہولناک امور، بھوک، دلبندوں اور عزیزوں کے فقدان، اموال اور سرمایہ حیات کی نسبت آفات وحوادث وغیرہ سے (کہ جنھیں اصطلاح میں ''مصیبت'' کہا جاتا ہے) تمھیں آزمائیں گے، ان امور کا مقابلہ کرنے کے لئے آمادگی اور اُن سے ہمارا طرز مقابلہ ان میدان کو ایک تربیتی اور اصلاحی مدرسہ بناسکتا ہے۔

ابتلاء اور سختیوں سے مقابلہ کے تربیتی علائم روایات میں یوں بیان ہوئیہیں: گناہ سے پاک ہونا، باطنی خاکساری وتذلل اور خارجی سرافرازی وسربلندی، کبرونخوت کا زائل ہونا، درجہ بلند ہونا، شدائد ومشکلات کے سامنے ثابت قدمی، آخرت اور خدا کی ملاقات کا اشتیاق۔

''...یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ خدا نے جو کچھ تمھارے دلوں میں ہے (عمل میں) آزمائش کرے اور جوکچھ تمہارے ضمیر کی حقیقت ہے اُسے آشکار کردے اور خدا سینوں کے اسرار سے آگاہ ہے''۔(٢)

____________________

١۔ سورہ ٔبقرہ آیت ١٥٥۔١٥٦۔

٢۔ (وَلِیَبْتَلِیَ اللّٰهُ مَا فِی صُدُوْرِکُمْ وَلِیُمَحِّصَ مَا فِی قُلُوبِکُم، وَاللّٰهُ عَلِیْم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ )(سورہ ٔآل عمران آیت ١٥٤)۔

۲۲۲

حضرت امام جعفر صادق ـنے بھی فرمایا: '' وہ لوگ آزمائش کی بھٹی میں آزمائے جائیں گے، جس طرح سونے کو بھٹی میں آزمایا جاتا ہے اور خالص کئے جائیںگے جس طرح سونا کھرا اور خالص کیا جاتا ہے''۔(١)

سید قطب کی تحریر کے مطابق: تمام وسائل پر حوادث کی ایک تربیتی وسیلہ کے عنوان سے فضیلت وبرتری یہ ہے کہ ایسی خاص حالت روح میں پیدا کرتے ہیں کہ گویا اس کو پگھلادیتے ہیں۔ حادثہ روح کو کامل طور سے جھنجھوڑدیتا ہے وردّ عمل (تاثیر وتاثر) ایک حرارت اس کے باطن میں ایجاد کردیتا ہے کہ کبھی نرم کرنے کے لئے یانرم کرنے کی حد تک پہنچنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ یہ حالت روح میں نہ ہمیشہ پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی نفس کے لئے آسان ہے کہ سکون واطمینان اور امن وامان یا راحت طلبی کی حالت میں اس تک پہنچ جائے۔

''... ایک مثل لوگ کہتے ہیں: جب تک لوہا گرم ہے کوٹ لو، () کیونکہ لوہے کی گرمی کے وقت اُس پر ہتھوڑا مارنا آسان ہے اور اسے جس شکل میں چاہے بدل سکتے ہیں... اس وجہ سے سختیوں اور حوادث سے استفادہ کرنا تربیت کے اہم مطالب میں سے ہے، کیونکہ نفس کے پگھلنے اور گداز ہونے کی صورت میں مربی تربیت دئے جانے والے کو ارشاد وتہذیب کے جس رنگ میں چاہے رنگ سکتا ہے وہ اس طرح کہ کبھی اس کا اثرزائل نہیں ہو گا یا کم ازکم جلدی زائل نہیں ہو گا''۔(٢)

اسی طرح سختیو ں سے استفادہ اور عیش وراحت سے دوری کو اس شیوہ کا مکمِّل (پوراکرنے والا) جانا جا سکتا ہے، سختیاں انسان کے گوہروجودکو جلابخشتی ہیں، اور اس میں نکھاراورچمک پیدا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ سختی، مقاومت کہ جوحادثوں اور سختیوں کی طوفان میں ہمیں حاصل ہو تی ہے، انسان کو نادرست اخلاقی میلانات اور رجحانات کے مقابل محفوظ رکھتی ہے اس وجہ سے روایات میں تاکیدکی گئی ہے کہ بچہ تھوڑا سا کو مشکلات اور سختیوں سے دوچارکرو۔

حضرت امام موسیٰ کاظم ـ فرماتے ہیں:

''بہترہے بچہ عہدطفولیت میںزندگی کی ناگزیرسختیوں اور مشکلوں کا سامنا کرے جو کہ حیات کا تاوان ہے تاکہ جوانی اوربڑھاپے میں بردباراورصابرہو'' ۔(٣)

____________________

١۔''یفتنون کما یفتن الذهب، یخلصون کما یخلص الذهب'' ۔(کافی ج١ص ٣٧٠۔)

٢۔ روش تربیتی اسلام، ص٢٨٧،٢٨٨۔

٣۔ وسائل الشیقہ، ج٥، ص١٢٦۔

۲۲۳

حضرت علی ـ فرماتے ہیں:

''جنگل، ہوا اور طوفان میں پرورش پانے والے درخت باغبا ن کے پر و ر دہ اور تروتازہ درختوں سے بہتر ہوتے ہیں''۔(١)

اسلام میں جہاد اسی زاویہ سے قابل تو جہ و تحقیق ہے دین کے دشمنوں سے جہاد اور مقابلہ خواہ صدر اسلام میں ہو یا بعد کے زمانوں میں ( بالخصوص آخری دفاع مقدس کے دوران) ایک تربیتی اور اخلاقی مدرسہ رہا ہے ، اور اخلاق کی بلندیوں پر فائز انسان اُس مدرسہ سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں:

''ہم یقینا تمہیں آزمائیں گے تاکہ تم میں سے مجاہدین اور صابرین کو جان لیں اور (اس طرح) تمھارے حالات کو باقاعدہ جانچ لیں ''۔(٢)

ڈاکٹر'' ویکٹور فرانکل ''سویڈن کا ماہر نفسیات ہے اور ہیومنسٹ معالجین میں سے محسوب ہوتا ہے اور خود بھی ایک طولانی مدت تک جرمنی کے نازیوں چھائونی میں دوسری عالمی جنگ میں اسیر رہا ہے، اس نے اپنی آنکھوں سے جو انسان سوزی کی بھٹیاں دیکھیں اور بھوک، سردی، بیماری اور سخت ترین رنج والم اٹھائے لیکن اس کی جان بچ گئی۔ چھائونی سے آزاد ہونے کے بعد اُس نے اپنے معنوی علاج کے مکتب ( Logothrapy )کی بنیاد ان تین راہوں میں سے ایک راہ کے کشف وتفہیم پر رکھی:

١: ۔اچھے امور کا انجام دینا۔

٢: ۔تجربۂ اعلیٰ جیسے عشق۔

٣رنج والم برداشت کرنا۔

وہ تیسری راہ کی وضاحت میں کہتا ہے: رنج والم کابرداشت کرنا انسان کی بہترین وجودی جلوہ گاہ ہے اور جو بات اہم ہے وہ انسان کا رنج والم کے ساتھ فکر اور سلوک کا انداز ہے۔ ہدف زندگی رنج والم سے فرار کرنا نہیں ہے، بلکہ زندگی کو بامعنی بنانا ہے کہ اُسے واقعی مفہوم عطا کرے۔ ہر چیز کو ایک انسان سے لیاجاسکتا ہے مگر انسان کی آخری آزادی کو اس کی رفتار کے انتخاب میں ڈاسٹایوفسکی کے بقول: میں صرف ایک چیز سے ڈرتاہوں اور وہ یہ کہ اپنے رنج والم کی شایستگی اور لیاقت نہ رکھوں۔(٣)

____________________

١۔ نہج البلاغہ، نامہ، ٤٥۔

٢۔ سورہ ٔمحمد آیت٣١۔

٣۔ دیکٹور فرانکل: انسان درجستوی معنا۔

۲۲۴

د ۔معاشرت و مجالست:

اخلاقی ملکات کے رسوخ کے لئے ایک دوسرا عملی شیوہ صالح اور اخلاقی فضائل کے حامل افراد کے ساتھ زندگی گذارنا اور ناپاک نیز اخلاقی رذائل میں مبتلا افراد کی مجالست وہمنشینی سے اجتناب کرنا ہے، نفس شناسی کے دلائل بہت سی جہتوں سے قابل توجہ ہیں کہ جو تفصیل اور تکرار کے محتاج نہیں ہیں، منجملہ ان کے تقلید اور دوسروں کے اعمال کا مشاہدہ (باندوار کا نظریہ)،قوت بخش چیزوں کے وجود کے ساتھ ماحول سازی اور تداعی (موافقت وہماہنگی) کی ایجاد (ا سکینر کا فعال ماحول سازی کا نظریہ ، یعنی مثال کے طور پر ایک اچھے اور صالح گروہ میں اگر ایک اچھا باعمل انسان سے صادر ہو تو دیگر تمام افراد کے ذریعہ اس کی تقویت کی جائے)۔ (نظریہ تسہیل اجتماعی )(١) ہے (دوسروں کا وجود حتی غیر فعال تماشائیوں کا وجود انسان کی فعّالیت کو قوت بخشتا ہے (کیونکہ انسان کے مقصد کو بلندی عطا کرتا ہے) ۔

آیات وروایات میں نیکو کاروں کی معاشرت اخلاقی تربیت کے ایک شیوہ کے عنوان سے مورد تاکید واقع ہوئی ہے اور بزرگوں نے بھی اس سلسلہ میں مستقل کتابیں تالیف کی ہیں۔

قال الحواریون لعیسیٰ ـ: یاروح اللّٰہ مَن نجالسُ اذاً؟ قال: من یذکرکم اللّٰہ رؤیتہ ویزید فی عملکم منطقہ ویرغبکم فی الآخرة عملہ۔(٢) حواریوں نے حضرت عیسیٰ ـ سے پوچھا:

اے روح اﷲ! اس وقت ہم کس کے ساتھ ہمنشینی رکھیں؟ انھوں نے فرمایا: جس کا دیدار تمھیں اﷲ کی یاد دلائے، جس کی بات تمھارے علم میں اضافہ کرے اور جس کا عمل تمھارے اندر آخرت کے متعلق رغبت پیدا کرے۔

یا ابن مسعود، فلیکن جلساؤک الابرار واخوانک الاتقیاء والزهاد لانّ اللّٰه تعالیٰ قال فی کتابه : (الاخلاء یومئذ بعضهم لبعض عدو الّا المتقین(٣) اے ابن مسعود! تمھارے ہمنشین نیک لوگ ہونے چاہئیں اور تمھارے بھائی (دوست) متیقن وزاہدین ہونے چاہئیں اس لئے کہ تم خدائے تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے: ''اس دن صاحبان تقویٰ کے علاوہ تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیںگے'' ۔

____________________

١۔زمینہ روانشناسی ج٢ ص٢ ٣٧۔

٢۔ بحار الانوار ج٧٧ ص١٤٧۔

٣۔ بحار الانوار ج٧٧ ص١٠٠۔

۲۲۵

امام علی ـ:جالس العلماء تزدد حلماً ۔(١) علمائے کی ہمنشینی اختیار کرو کہ ان کی ہمنشینی حلم میں اضافہ کرتی ہے۔

امام حسین ـ:مجالس الصالحین داعیة الی الصلاح ۔(٢) صالحین کی مجالس (نشست) صلاح ونیکی کی طرف دعوت دیتی ہے۔

امام علی ـ:جالس العلماء یزددعلمک ویحسن ادبک وتزکوا نفسک ۔(٣) علماء کی ہمنشینی اختیار کرو کہ اس سے تمھارے علم میں اضافہ ہوگا، تمھارا ادب اچھا ہوگا اور تمھارا نفس پاک ہوگا۔

امام علی ـ:علیک باخوان الصدق فاکثر من اکتسابهم فانّهم عدة عند الرخاء وجُنَّة عند البلائ ۔(٤) تم پر سچے (نیک) دوستوںکی ہمنشینی لازم ہے پس ان سے زیادہ زیادہ سے زیادہ کسب فیض کرو اس لئے کہ وہ آسائش کے وقت وسیلۂ دفاع ہیں اور مصیبت کے وقت سپر ہیں۔

امام علی ـ:جانبوا الاشر وجالسوا الاخیار ۔(٥) بروں سے پرہیز کرو اور نیکوں کی ہمنشینی اختیار کرو۔

حضرت امام محمد باقرـ:لاتقارن ولاتواخ اربعة: الاحمق والبخیل والجبان والکذاب ۔(٦) چار افراد سے ہمنشینی اور دوستی اختیار نہ کرو: احمق، کنجوس، ڈرپوک اور جھوٹے سے۔

امام علی ـ:مجالسة اهل الهویٰ منساة للایمان ۔(٧) خواہش پرست کی ہمنشینی ایمان کو بھلادیتی ہے۔

____________________

١۔ غرر الحکم فصل ٣ص ٤٧۔

٢۔ بحار الانوار ج٧٨ ص١٤١۔

٣۔ غرر الحکم فصل ١ص ٤٣٠۔

٤۔ بحار الانوار ج٧٤ ص١٨٧۔

٥۔ غرر الحکم

٦۔ بحار الانوار ج٧٤ ص١٨٧۔

٧۔ نہج البلاغہ ج٨٦۔

۲۲۶

۴: ۔ تشویق اور تنبیہ کا طریقہ

''تشویق ''لغت میں آرزومند کرنے، شوق دلانے اور راغب کرنے کے معنی میں ہے۔(فرہنگ معین)

یہاں پر ''تشویق'' سے مراد انسان کی درخواست سے متعلق اور مطلوب امور سے عمل انجام دینے کے بعد عمل کے اضافہ یا اس کی تثبیت کے لئے استفادہ کرناہے۔

''تنبیہ''بھی لغت میں آگاہ کرنے، بیدار کرنے، تادیب اورسزادینے کے معنی میں ہے (فرہنگ معین)۔ یہاں پر تنبیہ سے مراد انسان کے لئے تکلیف دہ اسباب ووسائل سے عمل انجام دینے کے بعد عمل کو دور یا کم کرنے کے لئے استفادہ کرناہے۔ اس وجہ سے تشویق یا تنبییہ کو خود انسان یا دوسروں کے ذریعہ عملکو کنٹرول کرنے کا ایک سسٹم جاننا چاہئے کہ پسندیدہ یا ناپسندیدہ عمل کے بعد اس عمل کی زیادتی یا کمی کے لئے ان چیزوں کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔

تشویق یا تنبیہ کا نفسیاتی مبنیٰ، فعال ماحول سازی کے نظریہ کے مطابق، درج ذیل آزمائشوں پر استوار ہے:

١ ۔ہر جواب جو ایک قوت بخش محرک کے نتیجہ میں حاصل ہو، اس کی تکرار کی جاتی ہے ۔

٢ ۔قوت بخش محرک ایک ایسی چیز ہے کہ جواب ملنے کے احتمال کو بڑھاتا ہے۔

٣۔ان قوت بخش چیزوں جو ذاتی طور پر تقویت کرنے کی خاصیت کے حامل ہیں،اولین یا غیر شرطی قوت بخش کہتے ہیں، اوّلین مثبت قوت بخش جاندار کی جسمانی قوت ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں جیسے: پانی، غذا، ہوا، وغیرہ۔ اوّلین منفی قوت بخش چیزیں ذاتی طور پر تکلیف دہ خاصیت رکھتی ہیں جیسے: مارپیٹ، گالم گلوج ، زیادہ حرارت اور زیادہ نور وغیرہ۔

٤ ۔ثانوی یاشرطی قوت بخش چیزیںوہ ہیں جو کلاسیک ماحول سازی (اوّلین بخش چیزوں کے ساتھ ہمراہی چیزوں کے ساتھ ہمراہی اور تداعی ) کے اصول کے مطابق تقویت کرنے کی خاصیت رکھتی ہیں جیسے: روپیہ، انعام، نمبر وغیرہ ۔

٥ ۔اگر کوئی رفتار کسی چیز کی تقویت سے بڑھ جائے اور اسے ایک مدت تک تقویت نہ کریں، تو وہ تدریجاً موقوف ہوجائے گی کہ اُسے ''خاموشی''بھی کہتے ہیں۔

٦ ۔تنبیہ، ایک نادرست اورنامطلوب رفتار کے دور کرنے کے لئیتکلیف دہ محرک وسبب کے واردکرنے کے معنی میں ہے۔

۲۲۷

٧ ۔ کبھی کبھی تقویت مسلسل تقویت سے زیادہ اثر رکھتی ہے، لہٰذا اگر مربی (تربیت دینے والا) ہر بار مطلوب اور پسندیدہ رفتار کے ظاہر ہونے کے بعد جزاوسزا دے، تو ناخواستہ طور پر اس کے وقوع کا احتمال کم ہوتا جائے گا، لیکن اگر مربی کبھی کبھی چند بار مطلوب رفتار انجام دینے کے بعد جزا دے، تو اس کے توقعکا احتمال زیادہ ہوجائے گا زیادہ موثر یہ ہے کہ تربیت کی ابتدا میں مسلسل جزا ہو اور رضایت بخش سطح تک پہنچنے کے بعد نوبت وار کبھی کبھی ہوجائے ۔

٨۔ آغاز میں اجتماعی قوت بخش (ستائش، تائید اور مسکراہٹ وغیرہ) محسوس طور پر قوت بخش چیزوں کے ساتھ استعمال کی جائے اور اس کے بعد محسوس قوت بخش چیزیں ترک کردی جائیں ، آیات وروایات میں تشویق وتنبیہ کے تربیتی کردار پر تاکید کی گئی ہے۔

حضرت امیر المومنین علی ـ مالک اشتر کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''تمہارے نزدیک نیکو کار اور بدکاریکساں نہ ہوں، کیونکہ یہ امر (یکساں قرار دینا) نیکو کاروں کے نیکی ترک کرنے اور نااہلوں کی بدکاری میں اضافہ کا باعث ہوگا، لہٰذا ادب کی رعایت کے لئے ان میں سے ہر ایک کے ساتھ حالات کے مطابق برتائو رکھو''۔(١)

''نیکوکاروں کی اصلاح ان کا ادب و احترام کرنے سے ہوتی ہے اور بدکاروں کی اصلاح ان کی تادیب کرنے (سزا دینے)سے''۔(٢)

''جوکچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے وہ سب خدا کے لئے ہے، تاکہ جن لوگوں نے برا کیا ہے وہ ان کے کرتوت کی انھیں سزا دے اور جن لوگوں نے احسان ونیکی ہے انھیں اچھا بدلہ دے ''۔(٣)

''خداوند سبحان نے جزا اپنی اطاعت پراور سزا اپنی معصیت پر قرار دی ہے، تاکہ اپنے بندوں کو اپنے عذاب سے باز رکھے اور بہشت کی طرف روانہ کرے''۔(٤)

____________________

١۔ بحار الانوار ج٧٧ ص٤٦۔

٢۔''استطلاح الاخیار باکرامهم والاشراربتأدیبهم'' (بحار الانوار ج٧٨ ص٢٤٥)۔

٣۔ سورہ ٔنجم آیت ٣١۔

٤۔ نہج البلاغہ حکمت ٣٦٨۔

۲۲۸

ادیان الٰہی اور اسلام میں قانون عذاب وثواب کو دو اعتبارسے دیکھا جاسکتا ہے

: اول

یہ کہ ان کا اعلان کرنا انذار وتبشیر کا پہلو رکھتا ہے ، دوسرے یہ کہ ثواب وعقاب کی واقعیت عینی ہے کہ اُن میں سے بعض دنیا میں (جیسے سکون واطمینان، راحت وچین ، زندگی کی آسائش اور عیش وعشرت کو احساس ) اور درک کرتا ہے، اس لحاظ سے تشویق وتنبیہ اُن دونوں کی تطبیق واقع سے دور نہیں ہے۔ اُس کا اخروی حصہ جیسے حور وقصر ومحلات وغیرہ بھی ایمانی بصیرت (انسان کا دوسرے عالم اور وعدہ الٰہی کے قطعی ہونے اور اس بات پر اعتقاد رکھنا کہ انسان اپنے اعمال سے اس ثواب یاعقاب کو اس وقت بھی عینی تجسم بخشتا ہے ) کے اقتضا کے مطابق حاضر وموجود ہیں اور انھیں بھی تنبیہ وتشویق کے مصادیق میں شمار کرسکتے ہیں۔ اس بناپر بہشت ودوزخ اور ا ﷲ کے وعدہ و وعید سے متعلق تمام آیات ایک طرح بندوں کی تشویق اورتنبیہ کے لئے ہیں تاکہ وہ اپنی عادت اور روش کو بدل ڈالیں اور فلاح وکامیابی اور فضائل اخلاقی کے حامل ہونے کی راہ میں گامزن ہوجائیں۔ لیکن ان لوگوں کے لئے جن کا عقیدہ وایمان کمزور ہے، ان کے لئے وہ آیات انذار وتبشیر ہی کی حد میں ہوں گی ۔

دوسرانکتہ

جس کی ہمیں تاکید کرنی ہے یہ ہے کہ یہاں پر تشویق، ترغیب اور تحریض (ابھارنے) کے علاوہ ایک چیز ہے، تشویق عمل انجام دینے کے بعد کی چیز ہے، لیکن ترغیب وتحریض قبل ازعمل سے مربوط ہیں۔ تشویق وتنبیہ کے وہ طریقے جن میں ایک طرح منطقی ترتیب کا لحاظ کیا جاسکتا ہے، درج ذیل ہیں:

الف ۔ عاطفی توجہ:

محبت آمیز نگاہ ، مسکرانا، اور ہر قسم کی تائید ، مہر ومحبتاور طلف کا احساس تربیت پانے والے کو عزت نفس کے عمیق احساس میں مبتلا کردیتاہے، کیونکہ ہر انسان حُبّ ذات کے زیر اثر غیروں کی محبت اورتوجہ حاصل کرنے کا محتاج ہوتا ہے۔(١) درج ذیل آیات اس سلسلہ میں قابل توجہ ہیں: (وَاخْفِضْ جِنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ المُؤمِنِیْنَ )(٢) ''اور جو صاحبان ایمان آپ کی اتباع کرلیں ان کے لئے اپنے شانوں کو جھکادیجئے''۔

____________________

١۔اس بات کی مزید توضیح ''تکریم شخصیت کی روش ''کی بحث میں گذر چکی ہے۔

٢۔ سورہ ٔشعراء آیت٢١٥۔

۲۲۹

(وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰواةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهُ وَلَاتَعْدُ عَیْنَاکَ عَنْهُمْ )(١)

''اور اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ صبر آمادہ کرو جو صبح وشام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اسی کی مرضی کے طلبگار ہیں اور خبردار تمھاری نگاہیں ان کی طرف سے نہ پھرجائیں...''۔

ان آیات میں خداوند متعال اپنے مہربان حبیب سے چاہتا ہے کہ مومنین کے لئے لطف ومرحمت کے بازو جھکادیں، ان کی طرف سے چشم محبت نہ ہٹائیں اوران کے ساتھ ہمراہی اور صبر وشکیبائی کریں دوسری آیت میں اپنے رسول کی بلند ترین ان صفات کے حامل ہونے اور مومنین کے ساتھ ایسی معاشرت رکھنے پر معاملات کرنے کی توصیف کرتا اورفخرو مباہات کرتا ہے:

''یقیناً تمھارے پاس تمھیں میں سے وہ پیغمبر آیا ہے کہ تمہاری ہر مصیبت پراس کے لئے بہت ناگوار ہے وہ تمہاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مومنین پر دلسوز ومہربان ہے''۔(٢)

جی ہاں، وہ روح پرورنگاہ جو انسانوں پر عشق ومحبت کے ساتھ پڑتی ہے، انسان کو متحرک کرنے کے لئے کافی ہے اور بلال وسلمان کی صف میں بٹھادیتی ہے۔

ب ۔ زبانی تشویق:

تعریف وتمجید ، دعا، شکریہ ادا کرنا اور زبانی قدردانی بھی اُن عام وسائل اور اسباب میں سے ہیں کہ بلند مقاصد اور گرانمایہ اخلاقی اعمال تک رسائی کے لئے اُن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے خداوند عالم اپنے پیغمبر سے چاہتا ہے کہ مومنین سے زکات لینے کے بعد ان کے لئے دعا کریں۔(٣)

حضرت امیر المومنین علی ـ نے بھی مالک اشتر سے خطاب کرتے ہوئے انھیں اس نکتہ کی یاد آوری کی ہے:

... ان کی پے درپے تشویق کرو اور جو انھوں نے اہم کام انجام دئے ہیں انھیں شمار کرو (اہمیت دو) کیونکہ ان کے نیک کاموں کی یاد آوری ان کے دلیروں کو زیادہ سے زیادہ حرکت کرنے پر ابھارتی ہے، اور وہ لوگ جو کام میں سستی کرتے ہیں انھیں کام کرنے کا شوق پیدا ہوگا، انشاء اﷲ ۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔکہف آیت٢٨۔ ٢۔ سورہ ٔتوبہآیت ١٢٨۔٣۔ سورہ ٔتوبہ آیت ١٠٣۔ ٤۔ نہج البلا غہ نامہ ٥٣۔

۲۳۰

زبانی تشویق میں اہم نکتہ یہ ہے کہ اور موقع ومحل سے اس حد تک استفادہ ہو اور افراط وتفریط یا چاپلوسی کی حالت پیدا نہ ہو امام علی ـ نے فرمایا ہے:

جب تم تعریف وثنا کر و تو اختصار پر اکتفاکرو۔(١)

سب سے زیادہ بے عقلی اور حماقت، تعریف وستائش یا مذمت میں زیادتی کرناہے۔(٢)

''استحقاق سے زیادہ تعریف کرناچاپلوسی ہے اور اس (استحقاق) سے کم تعریف کرنا حسد یا عاجزی کی علامت ہے''۔(٣)

بہت سے افراد اپنی تعریف وتمجید ہونے سے مغرور ہوجاتے ہیں۔(٤)

ج ۔ عملی تشویق:

انعام، ہدیہ، تحفہ وغیرہ دینا، نمبر، تنخواہ یا حقوق یا مزدوری میں اضافہ کرنا، سیاحت اور تفریح کے لئے لے جانا، کھیلنے کی یا دوستوں کے ہمراہ باہر جانے کی اجازت دیناوغیرہ ، یہ سب عملی تشویق شمار ہوتی ہے کہ موقعیت کے اعتبار سے ان کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔

پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی سیرت میں ایسے متعددمقامات پائے جاتے ہیں کہ کسی ایک آدمی کے نیک عمل کا مشاہدہ کرنے کے بعد اُسے صلہ اورہدیہ دیتے ہیں حتی کبھی اپنا لباس بھی دیدیتے تھے، جیسے کمیت بن زیاداسدی کی داستان کہ حضرت امام زین العابدین ـ کی خدمت میں پہنچے اور کہا: میں نے آپ کی مدح وثنا میں کچھ اشعار کہے ہیں اور چاہتا ہوں کہ انھیں پیغمبر سے تقرب کا وسیلہ قراردوں۔پھر اپنا معردف قصیدہ آخرتک پڑھا، جب قصیدہ تمام ہو گیا، امام ـ نے فرمایا: ''ہم تمہاری جزا نہیں دے سکتے، امید ہے کہ خداوندعالم تمہیں جزادے۔''پھر اس کے بعد اپنے بعض لباس انھیں دیدیئے اوراُن کے حق میں اس طرح دعا کی: ''خدا یا! کمیت نے تیرے پیغمبر کے خاندان کی نسبت، اس حالت میں نیک فریضہ اداکیا کہ اکثرلوگوں نے اس کام سے نجل کیا اور شانہ خالی کیا ہے جوحق دوسروں نے پوشیدہ رکھا تھا اس نے آشکار کردیا۔ خدایا! اسے سعادت مندزندگی عطا کر اور اُسے شہادت نصیب کر اور اُسے نیک جزا دے کہ ہم اُس کی جزا نہیں دے سکتے جزا ور ناتواں ہیں۔

____________________

١۔ ''اذا مدحت فاختصر ''(غرر الحکم، فصل ٤ص٤٦٦)۔٢۔ ''اکبر الحمق الاغراق فی المدح والذم '' (غرر الحکم، فصل ٧ص٧٧)۔٣۔''الثناء بأکثر من الاستحقاق ملق والتقصیر عن الاستحقاق عیّ أوحسد'' (بحارالانوار ج٧٣ص ٢٩٥)۔٤۔''رُبّ مفتون بحسن القول فیه'' (بحارالانوار ج٧٣ص ٢٩٥)۔

۲۳۱

کمیت نے بعد میں کہا: ''میں ہمیشہ ان دعائوں کی برکت سے بہرہ مند رہا ہوں'' حضرت نے اس طریقہ سے کمیت کی روح شجاعت اور حق گوئی کی تشویق اور تائیدکی۔ اسی کے مشابہ داستان حضرت امام علی رضا ـ کے بارے میں بھی دعبل خز اعی کی نسبت ہے جب وہ قصیدہ پڑھ چکے تو حضرت نے وہ دس ہزار درہم کہ جن پر آپ کا نام کندہ تھا اُنھیں عطا کیا اور دعبل نے ہر درہم کو اپنی قوم کے درمیان (دس) درہم میں فروخت کیا۔(١)

درج ذیل نکات کی رعایت تشویق کی تاثیرمیں اضافہ کرتی ہے:

١۔تشویق ابھارنے اور قوت بخشنے کا ذریعہ ہے لہٰذا خودوہی ھدف نہیں بن جانا چاہئیکہ اور تربیت پانے والے کے تمام افکار داذہان کو اپنے ہی لئے سرگرم رکھے۔ تشویق کبھی کبھی کرنا، اس کا فیزیکی سطح سے اجتماعی ومعنوی بلندی کی طرف لے جانااور تشویق کا مستحق ہونا (رشوت کی حالت کا نہ رکھنا ) ایک حدتک مذکورہ اشکال واعتراض کو برطرف کردیتاہے۔

٢۔ تربیت پانے والے کو تشویق کی علت مکمل طور پرواضح اور معلوم ہونی چاہئے۔

٣۔تشویق موقع ومحل کے اعتبار سے ہو تاکہ کار آمد اور موثر ثابت ہو۔

٤۔تشویق کرتے وقت اُس کا کسی دوسرے سے مقائسہ اور موازنہ نہیں کرنا چاہئے ؛کیونکہ اُس پر بُرااثرپڑے گا۔

٥۔ مجمع میں تشویق وتحسین کرنا زیادہ اثر رکھتا ہے کیونکہ دوسروں کو بھی آمادہ کرتا ہے۔

د۔ جزاسے محرومیت اور نیکو کار کو جزادینا:

اس مرحلہ کے بعد تبنیہ کے طریقوں میںداخل ہو جائیں گے۔ مربی تربیت دئے جانے والے کی نا شائستہ حرکات وسکنات کو ختم کرنے کے لئیاسے ان بعض جزائوں اورمواہب سے محروم کردے جن کی وہ امید رکھتا ہے یایہ کہ نیکوکاروں کو جزادے کر اُسے اپنی محرومیت کی جانب متوجہ کرے اور اس کے اشتباہ وخطا کی نشاندہی کرے۔حضرت علی ـ کے گہربار اور زریں کلام میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ''نیکو کار کو جزا دے کر بدکار کو ان کی بدکاری سے روک دو''۔(٢)

____________________

١۔عیون اخبارالرضا ـ، ج١، ص١٥٤۔

٢۔ ''از جرالمسء بثواب المحسن''بحار، ج٧٥، ص٤٤، باب ٣٦

۲۳۲

(اَفَمَنْ کَانَ مُؤمِناً کَمَنْ کَانَ فَاسِقاً لَایَسْتَوُونَ(١)

''کیا وہ شخص جو صاحب ایمان ہے اس کے مثل ہوجائے گا جو فاسق ہے؟ ہرگز نہیں ، دونوں برابر نہیں ہوسکتے''۔

(لَایَسْتَوِی اَصْحَابُ النَّاسِ وَاَصْحَابُ الْجَنََّةِ ۔۔۔)(٢)

''اصحاب جنت اور اصحاب جہنم ایک جیسے نہیں ہوسکتے''۔

(وَمَایَسْتَوِی الاعمیٰ والبصیروالّذین آمنواوعملواالصالحات ولاالمسء قلیلا ماتتذکرون(٣)

''اور یاد رکھو کہ اندھے اور نابینا برابر نہیں ہوسکتے ہیں اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کئے ہیں وہ بدکاروں جیسے نہیں ہوسکتے ہیں، مگر تم لوگ بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو''۔

خداوند عالم ان آیات میں واضح طورپر نیکوکاروں اوربدکار روں کے مسادی نہ ہو نے کا اعلان کرتا ہے، اس سے اس کا مقصود یہ ہے کہ سب جان لیں کہ اچھے لوگوں کے لئے جزا ہے اور ناشائستہ اور قبیح اعمال والوں کے لئے محرومیت کے سوا کچھ نہیں ہے۔

ہ۔جرمانہ اور تلافی:

جرمانہ نمبرکم کرنے ، پیسہ دینے، دوستوں کے لئے مٹھائی خریدنے وغیرہ کی صورتوں میں ہوتا ہے۔ تلافی جیسے اس انسان سے عذر کرنا جس کی توہین کی ہے یا جس جگہ کوئی نقصان پہنچایا ہے اس کی تعمیر کرے یا مرمت کرے جرمانہ کے سلسلہ میں توجہ رکھنا چاہئے کہ ادا کرنے یا کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اوربے چارگی اوربیزاری کی حالت پیدا نہ ہو۔ جرمانہ کے شیوہ سے استفادہ کی شرط یہ ہے کہ انسان کی ایک مدت تک تقویت کی جائے تاکہ پہلے جو اُسے جزائیں دی گئی ہیں بعد میں اُس سے واپس لی جاسکیں۔

اسلام میں دیت کاقانون اس کے حقوقی جنبہ کے علاوہ تربیتی جنبہ سے بھی ایک قسم کا جرمانہ حساب ہوتا ہے۔

و۔ سرزنش وتوبیخ اور جسمانی توبیخ وتنبیہ:

توبیخ ، غیض وغضب کی نظر سے شروع ہوتی ہے اور علانیہ توبیخ تک پہنچتی ہے۔(٤)

____________________

١۔ سورئہ سجدہ، آیت ١٨۔ ٢۔ سورہ ٔحشرآیت ٢٠۔

٣۔ سورہ ٔغافر، آیت ٥٨۔ ٤۔ ایک اعتبار سے مخفی اور پوشیدہ توبیخ کو جرمانہ اور تلافی سے قبل جاننا چاہئے)۔

۲۳۳

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''عقلمندوں کی سزا کنایہ اور اشارہ کی صورت میں ہوتی ہے اورنادانوں کی سزا واضح اور صریح انداز میں ہوتی ہے۔(١)

''تعریض (کنایہ میں توبیخ کرنا) عقلمند کے لئے آشکار توبیخ سے کہیں زیادہ سخت ہے''(٢)

حضرت امام جعفر صادق ـ ''شعرانی'' جوکہ پیغمبر کے چاہنے والوں میں سے تھے، خلوت میں بالواسطہ طور پر نصیحت کے ذریعہ انھیں ان کے ناپسند عمل (شرابخوری ) کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''اچھا کام سب کے لئے اچھا ہے اور تمہارے لئے سب سے بہتر ہے اس انتساب کی وجہ سے جو تم ہم (اہل پیغمبر)سے رکھتے ہو اور برا کام سب کے لئے برا ہے لیکن تم سے سب سے زیادہ برا ہے اس انتساب کی وجہ سے کہ جو تم ہم سے رکھتے ہو''۔(٣)

جسمانی تنبیہ سب سے آخری مرحلہ میں ہے کہ گذشتہ مراحل میں ناکامی کی صورت میںخاص شرائط وحالات پائے جانے کی صورت میں اُس سے استفادہ ہوتا ہے، تنبیہی طریقہ کلی طریقے پر اور جسمانی تنبیہ خاص طور پر صاحبان نظر کے نزدیک محل اختلاف میں ہے، بعض جیسے سعدی ومولوی جسمانی تنبیہ کے طرفدار تھے، اور اس سے استفادہ کو جائز سمجھتے ہیں کہ بعض دیگر جیسے غزالی، بوعلی اور ابن خلدون نے مربی کو جسمانی تنبیہ سے تین بار سے زیادہ یا غصہ کی حالت میں روکا ہے۔(٤)

ماہرین نفسیات کے درمیان بھی بعض جیسے رین اور ہولز خاص شرائط وحالات پائے جانے کی صورت میں تنبیہ سے استفادہ کو رفتار تغییر کے معاملہ میں مفید جانتے ہیں(٥)

____________________

١۔''عقوبة العقلاء التلویح وعقوبة الجهال التصریح ''(میزان الحکمة ج١ص ٧٢)۔

٢۔''التعریض للعاقل اشد من عقابه'' (میزان الحکمة ج١ص ٧٢)۔

٣۔''یا شقر ان انّ الحسن لکل احد حسن وانه منک احسن لمکانک منّا وان القبیح لکل احدٍ قبیح وانّه منک اقبح'' (بحار الانوار ج٤٧ ص٣٤٩ باب ١١)۔

٤۔ نقش تربیت معلم، دفتر ہمکاری حوزہ ودانشگاہ۔

٥۔ ہیلگارد:روان شناسی یادگیر ص ٣٣٧۔

۲۳۴

اس کے باوجود اکثر ماہرین نفسیات رفتار کی تبدیلی اور تربیت کے لئے تنبیہ سے استفادہ کے مخالف ہیں۔

ا سکینرنہایت تاکید کے ساتھ تنبیہ سے استفادہ کو کلی طور پر خطرناک ، نامطلوب اور بے اثر شمار کرتا ہے اور متعدد دلائل بھی اپنے مدعا کے لئے پیش کرتا ہے:(١)

١ ۔تنبیہ دوسرے نامطلوب مضر آثار کا پیش خیمہ ہوتی ہے، جیسے عمومی خوف۔

٢ ۔تنبیہ اجسم کو پتہ دیتی ہے کہ کیا کام نہ کرے نہ یہ کہ کیا کام کرے۔

٣ ۔تنبیہ دوسروں کو صدمہ پہنچانے کی توجیہ کرتی ہے۔

٤۔تربیت پانے والا اگر مشابہ موقعیت میں واقع ہو جائے اور قابل تنبیہ نہ ہوتو ممکن ہے وہ اسی کام کے کرنے پر مجبور ہوجائے۔

٥ ۔تنبیہ، تنبیہ کرنے والے اور دوسروں کی نسبت پر خاش ایجاد کرتی ہے۔

٦ ۔تنبیہ عام طور پر ایک نامطلوب جواب کو دوسرے نامطلوب جواب کا جانشین بنادیتی ہے، جیسے بد نظمی کی جگہ رونا۔

ا سکینر اس کے بعد تنبیہ کے لئے بہت سی جانشین چیزوں کا ذکر کرتا ہے، جیسے ایسے مقتضیات کی تبدیلی جو نامطلوب رفتار کا باعث ہوتی ہے اور ناموافق رفتار کی نامطلوب رفتار سے تقویت ، آخر میں نتیجہ نکالتا ہے کہ نامطلوب عادات کے ختم کرنے کا بہترین طریقہ انھیں نظرانداز کرنا یا پھرخاموشی (تغافل اسی کے مانند ہے) اسلام کی نظر میں(٢) اگرتربیت نچلے درجوں اور طریقوں سے ممکن ہو تو جسمانی تنبیہ سے استفادہ جائز نہیں ہے اور اس کے علاوہ جسمانی تادیب اور تنبیہ (اس شرط کے ساتھ کہ اس حد میں نہ ہو کہ دیت لازم آجائے تو) جائز ہے انسان کے ولی کے علاوہ کی طرف سے بھی اجازت کے ساتھ ہونا چاہئے۔اس کی مقدار بھی محدود ہے (زیادہ سے زیادہ تین سے دس ضرب تک) فقہاء کے فتاویٰ بھی اسی طرح ہیں۔(٣)

____________________

١۔ ہرگنھان: روان شناسییاد گیری ص١٣٣۔

٢۔ البتہ تنبیہ کے موضوع پر اسلام کی فقہی نظر کا استخراج (حکم اولیہ اور ثانویہ کی صورت میں) مستقل فرصت کا محتاج ہے۔

٣۔ امام علی رضا ـ: ''التادیب ما بین ثلاث الی عشرةٍ''مستدرک الوسائل ج٣ص٢٤٨۔تحریر الوسیلة ج٢ص ٤٧٧۔

۲۳۵

تنبیہ کی نفی پر ا سکینرکے اعتراضات کے بارے میں کلی طور پر کہا جاسکتا ہے:

١۔ بعض ماہرین نفسیات جیسے رین اور ہولز خاص شرائط وحالات کے تحت( جیسے یہ کہ تنبیہ نامطلوب کاموں کے بعد فوراًبلافاصلہ ہو اور اس حد تک ہو کہ انسان کے لئے تکلیف دہ ہو... تنبیہ کو رفتار کی تبدیلی میں موثر جانتے ہیں اور اس سلسلہ میں آزمائشیں بھی کی ہیں۔

٢ ۔تنبیہ کے ہیجان آور نتائج (جیسے خوف یا پرخاش) کہ اسکینز جس کا ذکر کرتا ہے اس صورت میں منفی ہوجائیں گے جبکہ پہلے سے مربی اور تربیت پانے والے کے درمیان صرف ایک عاطفی ررابطہ رہا ہو کہ تنبیہ کی تاثیرکی شرط بھی اس طرح کے رابطہ موجود ہونا ہے۔

حضرت امیرالمومنین ـ کے ایک چاہئے والے نے چوری کی تو حضرت نے اُس کے ہاتھ کو قطع کردیا۔ ''ابن کوائ'' جو کہ خوارج میں سے تھا اس نے موقع غنیمت سمجھتے ہوئے اس سے سوال کیا: کس نے تمھارے ہاتھ کو قطع کردیا ہے؟ اس نے جواب دیا: میرے ہاتھ کو پیغمبروں کے اوصیاء کے سید وسردار، قیامت کے دن سرخرو حضرات کے پیشوا، مومنین کی نسبت سب سے زیادہ حقدار نے ابن کواء غصہ میں بولا: وائے ہو تم پر! وہ تمہارے ہاتھ کو قطع کرتے ہیں اور تو ان کی اس طرح مدح و ثنا کرتا ہے؟ اس نے جواب دیا: کیوںتعریف نہ کروں جبکہ ان کی محبت میرے گوشت وخون میں ملی ہوئی ہے، خدا کی قسم میرے انھوں نے ہاتھ کو صرف حق کی خاطر قطع کیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ مجھے آخرت کی سزا سے نجات دیں۔(١)

٣ ۔تنبیہ نا پسند استعدادوں اور صلاحیتوں کے کنٹرول کرنے اور خاموش کرنے کا ذریعہ ہے۔ ان لوگوں کے لئے جن کے بارے میں نرم رویّہ نتیجہ بخش ثابت نہیں ہوتا ہے، صرف ممکن طریقہ یہ ہے کہ ایک توبیخ وسرزنش یا پھر نفسیاتی جھنجھوڑ ان کے اندر ایجاد کریں، بالخصوص اگر تسلط پسند اور طغیان آمیز طبیعت رکھتے ہوں، جس طرح انسان کے جسم میں بدبودار اور کثیف غدود کو قطع کردیتے یا جلادیتے ہیں تاکہ دیگر حصوں تک سرایت نہ کرے۔ ''البرٹ الیس ''ان ماہرین نفسیات میں ہے کہ جواپنے علاج اور مشاورہ میں ناگہانی سرزنش وتوبیخ اور اس کے مانند دوسری چیزوں سے استفادہ کرتا ہے اور ایک جھٹکا دے مشاورہ کے درمیان مراجع کو اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے۔

____________________

١۔ بحار الانوار ج٤٠ ص٢٨١،٢٨٢۔

۲۳۶

اسلام کا سزائی اور جزائی نظام بھی جوکہ خاص جسمانی سزائوں پر مشتمل ہے، اپنے حقوقی پہلوئوں کے علاوہ، تربیتی رخ سے بھی قابل توجہ ہے، کیونکہ انسان کو جرم کی تکرار سے روکتا ہے۔

مذکورہ نکات کے علاوہ تنبیہ کے استعمال میں درج ذیل چیزیں اس کی تربیتی تاثیر میں اضافہ کرتی ہیں:

١۔ہر قسم کی تنبیہ سے پہلے ناپسند عمل کی علت کی شناخت سے مطمئن ہوں، بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مختلف گھریلو اور روحی مسائل ومشکلات کی بنا پر جوکہ ہم پرپوشیدہ ہیں، یہ خطا سرزد ہوگئی ہو، ایسی صورت میں تنبیہ مشکلات اور پیچیدگی کواضافہ کرتی ہے۔

٢ ۔ وہ تنبیہ مؤثر ہے جو جذبۂ انتقام اور غیض وغضب کی عنوان سے نہ ہو، اس وجہ سے بے جاسرزنش اور حد سے زیادہ تحقیر وتوہین سے پرہیز کیاجانا چاہئے۔

٣ ۔تنبیہ سنجیدہ اور حسب ضرورت ہو اور میزان خطا سے آگے نہ بڑھ جائے۔ حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''ملامت میں زیادہ روی ضد اور ہٹ دھرمی کی آگ کو بھڑکادیتی ہے''۔(١)

٤۔تنبیہ انسان کی نامطلوب صفت یاعمل سے دقیق رابطہ رکھتی ہو اور اسے تنبیہ کی علت کی نسبت مکمل آگاہی حاصل ہو۔

٥ ۔اگر انسان اپنے عمل سے شرمندہ وپشیمان ہوگیا اور اپنی رفتار سے باز آگیا تو اسے لطف ومہربانی کے ساتھ قبول کرلینا چاہئے۔

____________________

١۔''الافراط فی الملامة یشبّ نار اللجاجة'' (غرر الحکم ،ج١،ص ٨٨)۔

۲۳۷

تیسری فصل :

اسلام میں اخلا قی تر بیت کے طر یقے

۱۔خود پر ناظر ہونا

یہ روش مکمل طور پر ''خود تربیتی'' صورت میں انجام پائے گی، اپنے آپ پر نظارت سے مراد یہ ہے کہ انسان کامل ہوشیاری اور مراقبت کے ساتھ قبول شدہ اخلاقی اقدار کی نسبت کوشش کرے کہ جو (جوارحی یا جوانحی) رفتار وکردار اخلاقی فضائل کے منافی ہیں اس کے وجود میں راستہ پیدا نہ کرنے پائیں اور اُس کے اخلاقی ملکات وقوّتوں کے زوال اور سستی کا باعث نہ بنیں۔

اپنے آپ پر روش نظارت کے نفسیاتی مبانی میں دو مرحلے قابل تفکیک ہیں: پہلا مرحلہ اس روش کے استعمال سے متعلق ہے کہ تربیت پانے والا شوق اور مقصد کے اعتبار سے باندازۂ کافی آمادگی رکھتا ہو۔(١)

یہ مرحلہ گذشتہ روشوں کی مدد سے بالخصوص اقدار کی طرف دعوت کی روش اور عقلانی توانائی کی تربیت کی روش کے ذریعہ عملی ہونا چائیے، یعنی ایک شخص اس نظریہ تک پہنچے کہ یہ اقدار اور اخلاقی مقاصد اُس کے وجود میں پائدار رہیں اور اخلاقی رذائل اُس سے مٹ جائیں دوسرا مرحلہ اس روش کی تاثیر کی کیفیت کو واضح کرنا ہے۔ نفسیاتی نظام کے صادرات اور واردات تدریجی صورت میں بیماری وجود ی شکل کی تعمیر کرتے ہیں ، اور نفس شناسی کی اصطلاح میںہمارے تزکیہ باطن اور ظاہر کو ایک تعادل پسندی کی طرف آگے بڑھاتی ہے، اس وجہ سے واردات وصادرات کی نوع کیفیت پر نظارت (کہ جو ہماری نیّات اور مقاصد کو بھی شامل ہوتی ہے)اس شکل کو جہت دینے میں کہ جو ان کا نتیجہ ہے، مؤثر بلکہ قابل تعیین ہوسکتی ہے۔

____________________

١۔ اخلاقی کتب میں اسے ''مقام یقظہ'' یعنی مقام بیداری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

۲۳۸

(اسکینز کے )فعال ماحول سازی کے نمونہ میں یہ روش تقریبی طور پر ایک مستقل روش کے عنوان کے تحت تین مرحلہ بیان کی جاتی ہے ۔(١)

١ ۔اپنا مشاہدہ : اپنی رفتارکو دقت کے ساتھ جزئی اورکمّی (مقدار ک )لحاظ سیثبت وضبط کرتا ہے۔

٢ ۔خود سنجی: (اپنے کو تولنا) موجودہ رفتاروں آئیڈیل نمونہ کے ساتھ کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے مقایسہ اور موازنہ کیا جاتا ہے۔

٣ ۔ خود تقویتی: (اپنے آپ کو قوت پہنچانا) ایسی رفتار جو ہدف کو زیادہ قریب کرتی ہے اور اُس سے سنخیت رکھتی ہے ، اس پر جزا دی جاتی ہے اور اس کے مدمقابل رفتار کومنفی تقویت کے ساتھ اور کبھی تنبیہ کے ذریعہ قابو اور کنٹرول میں رکھا جاتا ہے ۔

اس طرح سے رفتاری آثار ونتائج (پاداش اور تنبیہ)سے استفادہ کرنے سے اپنے آپ پر ایک دائمی نظارت اور مراقبت عمل میں آتی ہے دوسرے طریقے جو ا سکینر اپنے کنٹرول اور ضبط نفس کے لئے اس سلسلہ میں ذکر کرتا ہے، یہ ہیں: اور اسباب وشرائط کا آسان یا تنگ کرنا (مثال کے طور پر فضول خرچ انسان، اپنی جیب میں کم پیسہ رکھے)، محرومیت، عاطفی شرائط وحالات پر تسلط، تکلیف دہ محرک سے استفادہ (جیسے گھنٹی والی گھڑی) اور دوسرے امور کی انجام دہی۔

مکتب سلوکیت کا نمونہ ا سکینر کے نظریہ کے مطابق رفتار کی نظارت اور جانچ معمولی اور کم اہمیت کی حامل ہیں ، لیکن ہم اس نمونہ اور توضیح سے بالاترین سطحوں کے لئے اور اپنے آپ پر نظارت کے لئے استفادہ کرسکتے ہیںاور تیّات ، اہداف ومقاصد حتی کہ اپنی رفتار وکردار کی خوبیوں پر کنٹرول کرسکتے ہیں۔ اخلاقی کتابوں میں یہ روش بہت زیادہ مورد توجہ رہی ہے اور اس سے متعلق مستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔(٢) ان کتابوں میں مراقبہ، محاسبہ یا مرابطہ مرز بانی]دشمن سے سرحد کی حفاظت[ کے عناوین کے تحت یہ بحث کی گئی ہے۔(٣)

____________________

.۱ Psychoegyobhelthp.۱۰۳;۱۰k

٢۔جیسے ان کے محاسبة النفس از سید ابن طائوس اور محاسبة النفس کفعمی)

٣۔اخلاقی تربیت کی روش میں عرفاء شیعہ نے آخری دوسو سال میں (ملاحسین قلی ہمدانی، میرزا علی آقا قاضی، مرحوم بہاری، حاج میرزا جواد تبریزی ، مرحوم علامہ طباطبائی اور امام خمینی تک نے )اپنے آپ پر نظارت (مراقبہ ومحاسبہ) کی روش پر بہت تاکید کی ہے اور اسے اپنے سلوک کی بنیاد قرار دیا ہے۔

۲۳۹

'' ابو حامد بندوں کے درمیان صرف صاحبان بصیرت جانتے ہیں کہ خداند عزوجل ان کا محافظ اورنگراں ہے اورمحاسبہ میں دقت سے کام لیا ہے اور ان کی نسبت بہت جزئی امور میں بھی سوال اوربازپرس کرتا ہے، لہٰذا یہ لوگ جانتے ہیں کہ ان امور سے نجات کا راستہ محاسبہ اورمراقبہ کے لزوم کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ کہ نفس کو حرکات اور لحظات کی نسبت جانچتے رہیں، لہٰذا جو اپنے نفس کو روز قیامت کے حساب وکتاب سے پہلے مورد محاسبہ قرار دے تو اُس دن اُس کا حساب آسان اور سوال کے وقت اُس کا جواب آمادہ ہوگا اورنتیجہ نیک اور اچھا ہوگا۔ اورجو کوئی اپنے نفس کا محاسبہ نہ کرے گا اس کی حسرت دائمی اور قیامت کے مواقف میں اُس کا توقف طولانی ہوگااور اس کی برائیاں اسے ایسی ذلت وخواری کے گڑھے میں ڈھکیل دیں گی۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ خداوندعالم کی اطاعت کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے اور اُسی نے صبر مرزبانی کا حکم دیا ہے:

(یَا اَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوْا ۔۔۔)۔(١)

''اے صاحبان ایمان تم لوگ صبر کرو، صبر کی تعلیم دو اور مرابطہ یعنی دشمن سے جہاد کے لئے تیاری کرو...'' لہٰذا تم مرابطہ ومرزبانی کرو پہلے مشارطہ کے ذریعہ اس کے بعد مراقبہ کے ذریعہ پھر محاسبہ اور پھر معاقبہ (سزا دینے) کے ذریعہ پھر اس کے بعد مجاہدہ اورمعاتبہ (عتاب کرنے) کے ذریعہ ...''(٢) اس لحاظ سے ایک دوسرے رخ سے بھی اپنے آپ پر نظارت اور نگرانی کا لزوم معلوم ہوا، محاسبۂ اعمال کردار کے تولنے کے لئے موازین قسط کے قرار دینا، قیامت کے دن حساب وکتاب کرنااور ہمارے نامہ اعمال میں ان کے جزئیات کو ضبط کرنا کہ جن کو ہر شخص واضح طور پر دیکھے گا، ان سب باتوں کے قطعی ہونے کے پیش نظر محاسبہ اوراعمال پر نظارت کے لزوم کے سلسلہ میں کوئی تردید نہیں رہ جاتی اورخداوند اس سے کہیں زیادہ کریم ہے کہ اپنے بندوں سے دوبارہ حساب کا مطالبہ کرے۔ قرآنی آیات اس سلسلہ میں بہت زیادہ واضح ہیں: ''ہم عدل وانصاف کا ترازو قیامت کے دن قرار دیں گے، پس کسی نفس پر بھی کسی چیز میں ستم نہیں جائے گا، اگر( کسی کا عمل) رائی کے دانہ کے برابر بھی ہوگا اُسے ہم لے آئیں گے اور ہم سب کا حساب کرنے کے لئے کافی ہیں ''۔(٣) ''اور جب نامۂ اعمال سامنے رکھا جائے گا، اُس وقت مجرمین کو اپنے نامۂ اعمال کے مندرجات سے خوفزدہ دیکھوگے اور وہ کہیں گے : اے ہم پروائے ہو، یہ کیسا نامۂ اعمال ہے کہ جس میں کوئی ]کام[ چھوٹا ہو یابڑاچھوڑا نہیں گیاہے، بلکہ سب کو جمع کرلیاہے اور جوکچھ انھوں نے انجام دیا ہے وہ سب اس میں موجود پائیں گے اور تمہارا رب کسی پر ستم روا نہیں رکھتا''۔(٤) اپنے آپ پر نظارت کے طریقے درج ذیل ہیں:

____________________

١۔ سورہ ٔآل عمران آیت ٢٠٠۔ ٢۔ احیاء العلوم، غزالی ج٤ص ٤١٧، ٤١٨۔٣۔ سورہ ٔانبیاء آیت٤٧۔ ٤۔سورہ ٔکہف آیت٤٩۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

۱۸_ زليخا حضرت يوسفعليه‌السلام كو اسكى خواہشات پورا نہ كرنے پر ناقدر اور احسان فراموش سمجھتى تھى _

روادته التى فى بيتها انه ربّى أحسن مثوى

مذكورہ معنى ميں ( انّہ ربّى ...) كو (التى ہو فى بيتہا ) كے جملے سے اخذ شدہ مفہوم پرناظر قرار ديا گيا ہے يعنى اس اعتبار سے كہ زليخا ، حضرت يوسفعليه‌السلام كى مالكن تھى اور اسكو اپنے گھر ميں آرام و آسائش فراہم كر رہى تھى لہذا وہ يوسفعليه‌السلام سے يہ توقع ركھتى تھى كہ وہ ميرے كہنے پر انكار نہيں كرے گا ليكن يوسفعليه‌السلام (انہ ربي ...) كے ذريعہ يہبتاناچاہتے ہيں كہ ميرا خدا ميرے تمام كام مربى و مدّبرتھا اور ہے اور ميرے ليے سزاوار يہى ہے كہ ميں اسى كى اطاعت و فرمانبردارى كروں _

۱۹_ زليخا حضرت يوسفعليه‌السلام كى جو خدمت و احترام كرتى تھى اس وجہ سے وہ يہ توقع ركھتى تھى كہ يوسفعليه‌السلام اس كے ناجائز مطالبے كو قبول كرلے گا _راودته التى هو فى بيتها ...قال إنه ربّي

۲۰_ يوسفعليه‌السلام نے زليخا كے سامنے اس بات كى وضاحت كردى كہ اسكى زندگيكى گاڑى كا چلن خداوند عالم كى عنايت اورتدبير كى وجہ سے ہے _معاذا لله إنه ربّى احسن مثوي

( إنہ ) كى ضمير ( الله ) كى طرف لوٹتى ہے _ مذكورہ تفسير ميں (انہ ربّى ) جملہ (معاذا لله ) كى تعليل ہے تو اس صورت ميں مذكورہ عبارت كا معنى يہ ہوگا (اس مكرو فريب ميں ) ميں خداوند متعال كى پناہ مانگتا ہوں اور اس سے نجات كے ليے اسكى مدد مانگتا ہوں كيونكہ ميرى زندگى كے امور كو چلانے والا وہى ہے _

۲۱_ حضرت يوسف(ع) نے زليخا كے حكم اور اسكى دعوت كے جواب ميں خداوند متعال كو اطاعت ، قدر شناسى اور شكر گزارى كے سزاوار سمجھا _قال معاذا لله انه ربّى احسن مثوى

۲۲_حضرت يوسف(ع) نے زليخا كى خواہش ( ہمبسترى اور وصال) كى در خواست كو قبول كرنے كو اپنے ليے خداوند متعال كے احسانات كى فراموشى تصّور كيا _انّه ربى أحسن مثواي

۲۳_ انسان كو لوگوں كے احترام كے سبب، خداوند متعال كى معصيت نہيں كرنى چاہيے_

أكرمى مثويه قال معاذا لله انه ربّي

۲۴_ گناہ كا ارتكاب ،ناشكرى اورنعمت الہى كا كفران ہے _قال معاذا لله إنه ربّى أحسن مثواى انه لا يفلح الظالمون

۲۵_ انسان كا خداوند متعال كى طرف سے در خواست قبول كرنا اور گناہ كے ارتكاب سے بچنا، ربوبيت

۴۲۱

الہى كا جلوہ ہے _معاذالله إنه ربى أحسن

۲۶_ ربوبيت خداوندى پر يقين اور اس كے احسان اور نعمتوں پر توجہ كرنا، انسان كو گناہوں سے دور رہنے ميں مدد ديتا ہے _معاذالله انه ربّى أحسن مثوى

۲۷_ ظالم و ستم گر لوگ كبھى بھى كامياب و كامران نہيں ہوسكتے ہيں _انّه لايفلح الظالمون

(انہ ) كى ضمير،ضمير شأن ہے جو جملہ كے معنى پر تاكيد كرتى ہے _

۲۸_ حضرت يوسف،عليه‌السلام زليخا كى ناجائز خواہش پر تسليم ہونے كو اپنے ليے ظلم و ستم گرى سمجھتے تھے _

انّه لايفلح الظالمون

۲۹_ زنا كا مرتكب ہونا اور عفت كے حجاب كو توڑنا، ستم ستمگرى ہے _قال معاذا لله انه لايفلح الظالمون

(معاذالله ) كا معنى فحش گناہ كا ارتكاب ہے اور (انہ ربى ...) كا معنى يہ ہوا كہ گناہ و برائي كا مرتكب ہونا، خداوند متعال كى ناشكرى اور احسان فراموشى ہے _ اور اسى وجہ سے (انہ لايفلح الظالمون) مذكورہ معانى كے ليے علت واقع ہوا ہے _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ فحشاء كا مرتكب ہونا اور گناہوں كے ارتكاب كے ذريعہ خداوند متعال كى ناشكرى ايك ظلم ہے _

۳۰_ خداوند متعال كى نعمتوں كو نظر انداز كرنا اور گناہوں كے ارتكاب كے ذريعہ اسكى ناشكر ى كرنا، ظلم ہے _

إنه ربّى لايفلح الظالمون

۳۱_ فحشاء و منكر كا ارتكاب اور خداوند متعال كى نعمتوں كے مقابلے ميں ناشكرى كرنا،فلاح و كاميابى كے ليے مانع ہے _

انه لايفلح الظالمون

۳۲_''عن على بن الحسين عليه‌السلام ... فلما راهق يوسف راودته إمرا ته الملك عن نفسه (۱)

ترجمہ : امام سجاد عليہ السلام سے روايت ہے:جب حضرت يوسفعليه‌السلام جوانى كے جو بن ميں پہنچے تو بادشاہ كى بيوى نے ان سے جنسى خواہش كا تقاضا كيا

احكام : ۱۳

استعاذہ :الله تعالى سے استغازہ كرنے كے آثار۱۲; الله تعالى سے استعاذہ كى اہميت ۱۱، ۱۲

____________________

۱)علل الشرائع ، ص۴۸، ح ۱ب۴۱; نورالثقلين ج ۲ ، ص ۴۱۴، ح ۱۷_

۴۲۲

اطاعت :الله تعالى كى اطاعت كرنے كى اہميت ۲۳

الله تعالى :الله تعالى كى ربوبيت ۲۰، الله تعالى كى ربوبيت كى نشانياں ۲۵

امور :تعجب آور امور ۱۴

انسان :انسانوں كى ذمہ دارى ۲۳

ايمان :ايمان كے آثار ۲۶; ربوبيت الہى پر ايمان۲۶

انكار :نعمت سے انكار كا ظلم ۳۰;نعمت سے انكار كے آثار ۳۱; نعمت سے انكار كے موارد ۲۴

دعا :اجابت دعا۲۵

دوستى :شوہر دار عورت سے دوستى ۱۳

ذكر :اللہ تعالى كى نعمت كا ذكر۲۶; ; الله تعالى كے احسان كا ذكر ۲۶;الله تعالى كے ذكر كے آثار ۱۱، ۱۷

روايت : ۳۲

زليخا :زليخا اور يوسفعليه‌السلام ۳، ۵، ۶، ۸، ۱۹، ۳۲;زليخا اور يوسفعليه‌السلام كا انكار ۱۸;زليخاكا تسلّط۵; زليخا كا كام لينا ۲، ۳، ۴، ۶، ۲۲;زليخا كا يوسفعليه‌السلام سے عشق ۱، ۲; زليخا كى خواہشات ۲۱، ۳۲;زليخا كى سازش ۶; زليخاكى فكر ۱۸; زليخا كى كوشش ۳;زليخا كى نامناسب توقعات۱۹;زليخا كے كام لينے كا سبب ۵ ، ۸;زليخا كے محل كى خصوصيات ۷; زليخا كے محل كے دروازے ۶، ۷

زنا :زنا كا ظلم ۲۹;زنا كے احكام ۱۳; شوہر والى عورت سے زنا ۱۳

سعادت مندى :سعادت مندى سے محروم افراد ۲۷; سعادت مندى كے موانع ۳۱

شہوت پرستى :شہوت پرستى كے موانع ۱۱

ظالمين :ظالموں كا محروم ہونا ۲۷

ظلم :ظلم كے موارد ۲۸، ۲۹، ۳۰

عفت :بے حيائي كا ظلم ۲۹

فحشاء :

۴۲۳

فحشاء وبرائي كے آثار ۳۱

گناہ :گناہ سے بچاؤ ۲۵;گناہ سے نجات كا طريقہ ۱۲; گناہ كا ظلم ۳۰;گناہ كے آثار ۲۴; گناہ كے ترك كا سبب۲۶;گناہ كے ترك كى اہميت ۲۳; گناہ كے موانع ۱۷

متقين :۱۵

محرمات :۱۳

موحدين : ۱۵

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام اور زليخا ۴، ۲۰، ۲۱ ، ۲۲;يوسفعليه‌السلام اور زليخا كى خواہشات ۹، ۱۰، ۲۸;يوسفعليه‌السلام اور كفران نعمت ۲۲; يوسفعليه‌السلام سے درخواست كرنا ۲;يوسفعليه‌السلام كا الله سے پناہ مانگنا ۱۰; يوسفعليه‌السلام كا بالغ ہونا ۳۲;يوسفعليه‌السلام كا تقوى ۱۵، ۱۶;يوسفعليه‌السلام كا عقيدہ ۲۰، ۲۱، ۲۲; يوسف(ع) كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۵، ۶، ۸، ۹، ۱۰، ۱۵، ۱۸، ۱۹، ۲۰، ۲۱، ۲۲، ۲۸، ۳۲;يوسفعليه‌السلام كا مدبر ہونا ۲۰;يوسف(ع) كى اطاعت ۱۵، ۱۶، ۲۱; يوسفعليه‌السلام كى توحيد ۱۵، ۱۶;يوسفعليه‌السلام كى جوانى ۱۵;يوسفعليه‌السلام كى حكمت كے آثار ۱۶;يوسفعليه‌السلام كى عفت ۴، ۹، ۱۴;يوسفعليه‌السلام كى فكر ۲۸;يوسفعليه‌السلام كے علم كے آثار ۱۶;يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۱۴، ۱۵

آیت ۲۴

( وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا لَوْلا أَن رَّأَى بُرْهَانَ رَبِّهِ كَذَلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاء إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ )

اور يقينا اس عورت نے ان سے بڑائي كا ارادہ كيا اور وہ بھى ارادہ كر بيٹھتے اگر اپنے رب كى دليل نہ ديكھ ليتے يہ تو ہم نے اس طرح كا انتظام كيا كہ ان سے برائي اور بدكارى كا رخ موڑ ديں كہ وہ ہمارے مخلص بندوں ميں سے تھے (۲۴)

۱_ يوسفعليه‌السلام كا زليخا سے وصال كرنے سے انكار پراس نے چاہا كہ وہ اور اس پر غلبہ كے ذريعہ اپنے مقصد كو حاصل كرے _ولقد همّت به

لفظ (ہمّة) اور اس كےتمام مشتقات اگر حرف (باء) كے ساتھ متعدى ہوں تو قصد كرنے كے معنى ميں آتے ہيں لہذا اس صورت ميں ( ولقد ہمّت بہ) يعنى بے شك زليخا نے يوسفعليه‌السلام كا ارادہ كيا تا كہ اس سے اپنى آرزو كو پورا كرے چونكہ زليخا اس طرح كا پہلے سے ارادہ ركھتي تھى (راوتہ التى ) سے معلوم ہوتا ہے كہ اس مقصد سے مراد كوئي دوسرا عزم ہے _اور بعد والى آيت ميں (استقبا ...)

۴۲۴

(يعنى دروازے كى طرف جانے ميں پر اس نے سبقت كي) كا جملہ بتاتا ہے كہ اس كا انجام اس كے غم و غصہ پر ختم ہوا _

۲_ فقط يوسفعليه‌السلام كا الله تعالى كى دليل و حجت كا مشاہدہ كرنا، زليخا سے ہمبسترى كرنے اور اس كى خواہش كو پوراكرنے سے مانع ہوا _و همّ بهالولا أن رء ابرهان ربّه

(ہم بہا) كا جملہ ( لو لا أن ...) كے جواب كے قائم مقام ہے يعنى اگر وہ دليل و برہان الہى كا مشاہدہ نہ كرتے تو زليخا كى طرف رغبت كرتے _ يہى ( برہان ) كا معنى حجت اور دليل ہے_ اس كے واضح مصاديق وہ دليليں ہيں جو ما قبل آيت ميں گذر چكى ہيں _ يعنى برہان كا مشاہدہ يہ چيزيں تھيں : الف:يوسف(ع) ربوبيت الہى اوراسكى نعمتوں كا مشاہدہ كرتے تھے (انه ربّى أحسن مثواي ) ب: يوسفعليه‌السلام كو مكمل يقين تھا كہ گنہگار اور ظالم لوگ كبھى بھى نجات نہيں پائيں گے _ (انه لايفلح الظالمون )

ج:انہيں اس بات ميں شك نہيں تھا كہ زليخا كے ساتھ وصال، ظلم اور معصيت الہى ہے (معاذالله ) ...)

۳_ يوسفعليه‌السلام ،جسمانى طور پر زليخا كى خواہش و آرزو كو پورا كرسكتے تھے _

و لقد همّت به و همّ بها لولا أن راء برهان ربّه

قرآن مجيدنے يہ بيان كرنے كے بعد كہ زليخا نے يوسفعليه‌السلام سے اپنى آرزو كو پورا كرنے كے لئے تمام وسائل مہياكئے ہوئے تھى اور اس نے موانع كو برطرف كرد يا تھا جملہ(هم بها لو لا ...) كو فقط حضرت يوسفعليه‌السلام كے ليے مانع، برہان كا مشاہدہ ذكر كيا ہے تا كہ يہگمان نہہو كہ ان ميں مردانگى طاقت نہيں تھى اور وہ اس كا م پر قدرت نہيں ركھتے تھے_

۴_ يوسفعليه‌السلام كا برہان اور حجت الہى سے بہرہ مند ہونا (يعنى ربوبيت الہى كا مشاہدہ كرنا ) انكے گناہوں كے ارتكاب سے عصمت كا سبب ہے _لولا أن راء برهان ربه كذلك لنصرف عنه السوء و الفحشاء

۵_ خداوند متعال كا يوسفعليه‌السلام كو دليل و برہان كا مشاہدہ كرانے كے ذريعےانہيں زليخا سے وصال (زنا) كرنے اور اسكو شہوت كى نگاہ سے ديكھنے سے محفوظ و امان ميں ركھا_كذلك لنصرف عنه السوء و الفحشاء

(فحشاء) اس گناہ و معصيت كو كہتے ہيں جو بہت ہى برى اور پليد ہو (لسان العرب) (سوء) كا معنى بدى اور گناہ ہے _ اسكو (فحشاء) كے مدمقابل ذكر كرنےكے قرينہ كى بناء پراس سے مراد چھوٹا گناہ ہے _ (السوء) اور (الفحشاء) پر الف لام ممكن ہے عہد كا ہو _ پس (الفحشاء) سے مراد زنا كرنا اور (السوء) سے شہوت كى نگاہ مراد ہے _ اور يہ بھى احتمال ممكن ہے كہ (أل) ان دونوں لفظوں پر جنس كاہولہذا مذكورہ گناہ مورد نظر مصاديق ميں سے شمار ہو نگے _

۴۲۵

۶_ يوسفعليه‌السلام كڑيل جوانى ميں چھوٹے و بڑے گناہ سے معصوم و محفوظ تھے_

كذلك لنصرف عنه السوء و الفحشاء انه من عبادنا المخلصين

۷_ برہان و دليل الہى كا مشاہدہ كرنا ( حقائق كا درك مثلا ربوبيت الہى كا ملاحظہ، گناہ كى بدى كاعلم ، گنہگاروں اور ظالموں كے نجات نہ پانے پر يقين) يہ سب انبيائ(ع) كى عصمت كے سبب ہيں _و همّ بهالو لا أن رء ا برهان ربّه

۸_ انبياءعليه‌السلام ،اللہ تعالى كى امداد كے سايہ ميں گناہ و فحشا سے محفوظ و معصوم ہوتے ہيں _

كذلك لنصرف عنه السوء و الفحشاء

(لنصرف عنہ ...) يعنى ( تاكہ بدى و پليدى كو اس سے دور كريں ) گناہ كو يوسفعليه‌السلام سے دور كرنے كوخداوند متعال كى طرف نسبت دى گئي ہے _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ برہان الہى كا مشاہدہ بھى توفيق الہى اور اسكى مدد كے سبب تھا_

۹_ شوہر دار عورت سے نزديكى اور زناكا ارتكاب، بہت ہى برا اور قبيح گناہ ہے_لنصرف عنه السوء و الفحشاء

۱۰_حضرت يوسفعليه‌السلام ،خداوند متعال كے اطاعت گذار اور مخلص بندوں ميں سے تھا_انه من عبادنا المخلصين

(مخلصين) ( خالص ہونے والوں ) سے مراد يہ ہے كہ غير اللہ كا ان ميں كوئي حصہ نہيں ہے اور وہ كامل طور پر اللہ كے اختيار اور اس كے اوامر كے تحت ہيں اور نہ شيطان ان پر حاكم ہے اور نہ ہى وہ ہوس نفسانى كے قيدى ہيں _

۱۱_ خداوند متعال كے خالص بندے ( جوہر اعتبار سے اطاعت الہى كرتے ہيں ) كبھى بھى گناہ ميں آلودہ اور كسى معصيت كے مرتكب نہيں ہوتے ہيں _لنصرف عنه السوء و الفحشاء انه من عبادنا المخلصين

۱۲_ اللہ عزوجل كے خالص بندے، برہان الہى (ربوبيت الہى پر يقين و غيرہ ...) سے بہرہ مند ہوتے ہيں _

هم بها لو لا أن رء ابرهان ربّه انه من عبادنا المخلصين

۱۳_'' عن الرضا عليه‌السلام ... و ا ما قوله عزوجل فى يوسف عليه‌السلام : '' و لقد همّت به همّ بها '' فانّها همّت بالمعصية و همّ يوسف بقتلهاإن أجبرته فصرف اللّه عنه قتلها و الفاحشه و هو قوله عزوجل : كذلك لنصرف عنه السوء و الفحشاء يعنى

۴۲۶

القتل و الزنا (۱)/ امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے : حضرتعليه‌السلام نے فرمايا كہ اللہ تعالى كاحضرت يوسفعليه‌السلام كے بارے ميں اس فرمان ( ولقد ہمّت بہ و ہمّ بہا) سے مراد يہ ہے كہ اس عورت نے گناہ كا ارادہ كيا ليكن يوسفعليه‌السلام نےيہ ارادہ كيا كہ اگر اس عورت نے انہيں گناہ پر مجبور كيا تو وہ اسے قتل كردے گئے ...'' پس خداوند عالم نے انہيں قتل اور خلاف عفت كام سے محفوظ ركھا اور خداوند عالم كے اس قول'' كذلك لنصرف عنه السوء الفحشاء '' سے مراد يہى ہے_

۱۴_عن على بن الحسين عليه‌السلام انه قال قامت إمراة العزيز الى الصّنم فا لقت عليه ثوبا فقال لها يوسف : ما هذا ؟ قالت : استحيى من الصّنم ان يرانا فقال لها يوسف : ا تستحيين مّمن لا يسمع و لا يبصر و لا ا ستحى أنا ممن خلق الانسان و علّمه فذلك قوله عزوجل : ''لو لا أن را ى برهان ربّه '' (۲)

امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے كہ عزيز مصر كى زوجہ نے ( جو يوسفعليه‌السلام كے ليے خلوت كى جگہ بنائي ہوئي تھي) وہاں سے اٹھى وہاں جوبت موجود تھااس پر كپڑاڈالا _ يوسفعليه‌السلام نے اس سے كہا : كيا كر رہى ہو؟ تو اس نے جواب ديا كہ ميں بت سے شرم كرتى ہوں جو مجھے ديكھ رہا ہے پھر حضرت يوسفعليه‌السلام نے فرمايا جو نہ ديكھتا ہے اور نہ ہى سنتا ہے تو اس سے تو شرم كر رہى ہے ليكن ميں كيا اس سے حيا نہ كروں جس نے انسان كو خلق كيااور اسے علم عطا كيا ہے ؟ يہى وہ بات ہے كہ خداوند متعال نے فرمايا (لو لا أن رأى )

۱۵_عن الصادق عليه‌السلام (فى البرهان الذى را ى يوسف)النبوة المانعة من ارتكاب لفواحش و الحكمة الصارفة عن القبايح (۳)

امام صادقعليه‌السلام فرماتے ہيں : وہ برہان جو يوسفعليه‌السلام نے ديكھا وہ برہان نبوت تھا جو گناہوں سے ارتكاب سے مانع ہوا _ اور وہ حكمت تھى جو برے كاموں سے روكتى ہے_

۱۶_عن الرضا(ع) : لقد همّت به و لو لا أن را ى برهان ربّه لهمّ بها كما همّت به لكنه كان معصوما ً و المعصوم لايّهم بذنب (۴)

امام رضا(ع) فرماتے ہيں : وہ عورت جس نے يوسفعليه‌السلام كا ارادہ كيا تھا اگر يوسفعليه‌السلام برہان الہى كا مشاہدہ نہ كرتے تو وہ بھى ايسا ارادہ كر ليتے حضرت يوسف(ع) معصوم تھے اور معصوم كبھى بھى گناہ كا ارادہ نہيں كرتا_

____________________

۱)عيون الاخبار الرضا ، ج ۱ ، ص ۱۹۳، ح ۱ ب ۱۴; نور الثقلين ج ۲ ، ص ۴۱۹ ، ح ۴۱_۲) عيون الاخبار الرضا ، ج ۲ ، ص ۴۵ ، ح ۱۶۲; نور الثقلين ، ج ، ص ۴۱۹، ح ۴۳_

۳) مجمع البيان ، ج ۵ ، ص ۳۴۴ ; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۴۲۱ ، ح ۵۰_۴) عيون الاخبار الرضا ، ج ۱ ، ص ۲۰۱ ، ح ۱ ، ب ۱۱۵; نور الثقلين ج ۲ ، ص ۴۱۹ ، ح ۴۲_

۴۲۷

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى دليليوں كا فائدہ ۲، ۴، ۵، ۷;اللہ تعالى كى ربوبيت كو درك كرنے كے آثار ۷; اللہ تعالى كى ربوبيت كے آثار ۴; اللہ تعالى كى مدد كا فائدہ ۸

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام كى عصمت كاسبب ۸ ;انبيا ءعليه‌السلام كى عصمت كے عوامل ۷; انبياءعليه‌السلام كے مقامات ۸

ايمان :اللہ تعالى كى ربوبيت پر ايمان ۱۲

حقائق :حقائق كودرك كرنے كے آثار ۷

روايت : ۱۳، ۱۴، ۱۵، ۱۶

زليخا :زليخا اور يوسفعليه‌السلام ۱; زليخا كا آرزو كرنا ۱;زليخا كا ارادہ ۱۳

زنا :زنا كا گناہ ۹;زنا كى پليدى و برائي ۹; شوہر والى عورت سے زنا ۹

ظالمين :ظالمين كى گمراہى ۷

گناہ :گناہ سے عصمت ۶، ۸، ۱۱ ; گناہ كبيرہ۹;گناہ كى پليدى و برائي كو درك كرنے كے آثار ۷; گناہ كے موانع ۴

گنہگار :گنہگاروں كى گمراہى ۷

مخلصين :۱۰

مخلصين اور اللہ تعالى كى دليليں ۱۲;مخلصين كا ايمان ۱۲; مخلصين كى خصوصيات ۱۱، ۱۲مخلصين كى عصمت ۱۱; مخلصين كے فضائل ۱۱

مطيع افراد : ۱۰

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام اور زليخا ۳، ۵ يوسفعليه‌السلام پر اللہ تعالى كى حجت ۲، ۳، ۵، ۱۴، ۱۵، ۱۶; يوسف(ع) كا ارادہ ۱۳;يوسفعليه‌السلام كا خلوص ۱۰; يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۵، ۶، ۱۳، ۱۵، ۱۶; يوسفعليه‌السلام كا مخلصين سے ہونا ۱۰;يوسفعليه‌السلام كى جوانى ۶;يوسف(ع) كى جنسى قوت ۳;يوسف كى حكمت ۱۵; ۱۶;يوسف كى عصمت كا سبب ۵;يوسفعليه‌السلام كى عفت ۵;يوسفعليه‌السلام كى عصمت كے عوامل ۲، ۴;يوسف كى عصمت ۶، يوسف كى فرمانبردارى ۱۰; يوسفعليه‌السلام كى نبوت ۱۵;يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۱۰;يوسف كے مقامات ۶، ۱۶

۴۲۸

آیت ۲۵

( وَاسُتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِن دُبُرٍ وَأَلْفَيَا سَيِّدَهَا لَدَى الْبَابِ قَالَتْ مَا جَزَاء مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِكَ سُوَءاً إِلاَّ أَن يُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِيمٌ )

اور دونوں نے دروازے كى طرف سبقت كى اور اس نے ان كا كرتا پيچھے سے پھاڑ ديا اور دونوں نے اس كے سردار كو دورازہ ہى پر ديكھ ليا _اس نے گھبرا كر فرياد كى كہ جو تمھارے عورت كے ساتھ برائي كا ارادہ كرے اس كى سزا اس كے علاوہ كياہے كہ اسے قيدى بناديا جائے يا اس پر دردناك عذاب كيا جائے (۲۵)

۱_ زليخا، حضرت يوسفعليه‌السلام سے اپنى آرزو كو پورا كرنے اورانكونزديكى پر آمادہ كرنے كے ليے ان سے جھگڑا كرنے پر تل گئي_و استبقا الباب

۲_ حضرت يوسفعليه‌السلام ،ذليخا سے الجھنے سے نجات پانے كى خاطر باہر جانے والے دروازے كى طرف لپكے_

و لقد همت به استبقا الباب

''الباب'' كو معرفہ لانا خاص دروازہ كى طرف اشارہ ہے _مقام كى مناسب سے يہ كہا جا سكتا ہے اس سے مراد باہر نكلنے والا دروازہ ہے_

۳_ گناہ سے آلودہ نہ ہونے كے لئے معصيت كے ماحول سے نكلنے كى كوشش كرنا ضرورى ہے_و استبقا الباب

۴_ زليخا، حضرت يوسفعليه‌السلام كو حاصل كرنے اوران كو باہر جانے سے روكنے كى خاطر ان كے پيچھے جلدى سے باہر جانے والے دروازے كى طرف لپكي_و استبقا الباب

۵_حضرت يوسف(ع) ، زليخا سے دور بھا گنے كى كوشش ميں باہر جانے والے دروازے تك اس سے پہلے پہنچ گئے_

و استبقا الباب و قدت قميضه من دبر

۶_ زليخا نے حضرت يوسفعليه‌السلام كو باہر جانے سے روكنے كے ليے ان كى قميض كو پيچھے سے پكڑا اور اسكو زور سے اپنى طرف كھينچا_و استبقا الباب و قدت قميصه من دبر

۷_ زليخا كا يوسفعليه‌السلام كى قميض كو پكڑنے كى وجہ سے قميض ميں سوراخ ہوگيا اور وہ سارى كى سارى پھٹ گئي_

و قدت قميضه من دبر

۴۲۹

(قدّ) (قدّت) كا مصدر ہے جس كا معنى اوپر سے نيچے تمام كا تمام شگافتہ اور پار ہ كرنا ہے (لسان العرب) اس صورت ميں (قدّ القميص) يعنى اوپر سے نيچے تك سارى كى سارى قميض پھٹ گئي_

۸_ حضرت يوسفعليه‌السلام ، دروازے كو كھولنے اور زليخا كے مكر سے بھاگنے ميں كامياب ہوگئے_

و ألفيا سيدها لدا الباب

۹_ زليخا كا يوسفعليه‌السلام كے پيچھے دوڑنا اور ان كا اس سے بھاگنے كے دوران ہى جب دروازہ كھلا تو انہوں نے عزيز مصر كو دروازے ميں پايا_و الفياسيدها لدا الباب

(إلفا) (ألفيا) كا مصدر ہے جو پانااور روبرو ہونے كے معنى ميں آتا ہے (سيّد) كا معنى سردار اور صاحب عظمت ہے _ ليكن يہاں مراد شوہر ہے_

۱۰_ يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں شوہر كا بيوى كے ليے آقا و سردار ہونا_و ألفيا سيدها لدا الباب

۱۱_ زليخا نے جب اپنے شوہر '' عزيز مصر ''كو ديكھا تو يوسفعليه‌السلام پر اپنے اوپر تجاوز كرنے كے ارادے كى تہمت لگائي _

قالت ما جزاء من ا راد با هلك سوء

(جزاء ) كا معنى انجام اور سزا ہے اور اس آيت شريفہ ميں (ما) نافيہ ہے _ اسى وجہ سے (ما جزاء ) كا معنى يہ ہوگا _ جوتيرى بيوى پر تجاوز كرنے كا ارادہ كرے اسكى سزا نہيں ہوسكتى مگر زندان يا دردناك عذاب _

۱۲_ زليخا كا يوسفعليه‌السلام پر تہمت لگانے ميں پہل كرنا _

و ألفيا سيّدها لدا الباب قالت ما جزاء من ا راد با هلك سوء

۱۳_ زليخا كا عزير مصر كے سامنے اپنى صفائي پيش كرنے كى كوشش كرنا _قالتما جزاء من ا راد با هلك سوء

۱۴_ زليخا كا عزيز مصر كو ابھارنے كا مقصد حضرت يوسف(ع) كا مؤاخدہ اور انہيں سزا دينا تھا _

ما جزا ء من ا راد با هلك سوء ً الا ان يسجن او عذاب اليم

ابھارنے كا معنى زليخا كے قول ( اہلك) سے استفادہ ہوا ہے_يعنى تيرى بيوى كے قول كا استعمال ،عزير مصر كو اسكى سزا و عقاب پر ابھارنے كيخاطر تھا_

۴۳۰

۱۵_ زليخانے عزير مصر كے سامنے يوسفعليه‌السلام كو تجاوزكرنے سے متہم نہيں كيا _ما جزاء من أراد با هلك سوء

مذكورہ بالا معنى كا (أراد )(قصد كيا) كے فعل سے استفادہ كيا گيا ہے_

۱۶_ يوسفعليه‌السلام كو قيد ميں ڈالنا يا اس پر شكنجہ كرنا يہ زليخا كى عزير مصر كو سزا دينے كى تجويزتھي_

ما جزاء من أراد با هلك سو ء اً إلّا ان يسجن ا و عذاب اليم

۱۷_ قديمى و تاريخى مصر اور يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں قيد خانے كا ہونا _إلا أن يسجن

۱۸_ قديمى و تاريخى مصر اور يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں مجرموں كو قيد ميں ڈالنا اور ان پر شكنجہ كرنامتداول و رائج تھا_

إلاّ ان يسجن أو عذاب أليم

۱۹_ قديمى مصر ميں اشراف اور بزرگان كى بيويوں پر تجاوز كا ارادہ كرنا، مستوجب سزا و عقاب تھا_

ما جزاء من أراد با هلك سوء اًإلاّ أن يسجن أو عذاب اليم

۲۰_عن على بن الحسين(ع) : فغلقت الابواب عليها و عليه و قالت : لا تخف و ا لقت نفسها عليه فا فلت منها هاربا إلى الباب ففتحه فلحقته فجذبت قميصه من خلفه (۱)

امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے: ( عزير مصر) كى بيوى نے اپنے اور يوسفعليه‌السلام كے ليے دروازوں كو بند كرديا اور اس سے كہا ڈر و مت : اور اپنے آپ كو اس پر گرادو : حضرت يوسف(ع) اس سے بھاگ گئے اور دروازے كى طرف بھا گنا شروع كرديا اور دروازے كو كھول ديا يہاں تك كہ وہ عورت بھى ان تك پہنچ گئي اور اس نے ان كى قميض كو پيچھے سے كھينچا_

اشراف :اشراف كى بيويوں پر تجاوز كرنے كى سزا ۱۹

روايت : ۲۰

زليخا :زليخا اور عزير مصر ۹، ۱۳، ۱۴; زليخا اور يوسفعليه‌السلام ۱، ۴، ۶، ۷، ۱۱، ۱۲، ۱۵;زليخا اور حضرت يوسف(ع) كى سزا ۱۴ ; زليخا كا صفائي پيش كرنا ۱۳; زليخا تہمتيں ۱۱، ۱۲ ; زليخا كى سازش ۴، ۵، ۶، ۷، ۸، ۱۴; زليخا كى مراد پانے كى كوشش ۱

زندان :

____________________

۱) علل الشرائع ، ص ۴۸، ح ۱ ، ب ۴۱; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۴۱۴، ح ۱۷_

۴۳۱

زندان كى تاريخ ۱۷، ۱۸; يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں زندان ۱۷

سزاء :سزا كى شناخت ۱۸، ۱۹

شكنجہ :شكنجہ كى تاريخ ۱۸; حضرت يوسف(ع) كے زمانے ميں شكنجہ ۱۸

عزير مصر :عزير مصراور حضرت يوسف(ع) كى سزاء ۱۴;عزير مصر كو ابھارنا ۱۴

قديمى مصر :قديمى مصر ميں اشراف كى بيويوں كا احترام ۱۹; قديم مصر ميں شكنجہ ۱۸;قديمى مصر ميں قيد خانہ ۱۷; قديم مصر ميں قيدى بنانا ۱۸

قيد ميں ڈالنا:يوسف(ع) كے زمانہ ميں قيد ميں ڈالنا۱۷

گناہ :گناہ كى جگہ سے اجتناب كى اہميت ۳

مرد كى سردارى :مرد كى سردارى كى تاريخ ۱۰; يوسفعليه‌السلام كے ميں مرد كى سالارى ۱۰

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام اور زليخا۲، ۵، ۹;يوسفعليه‌السلام اورعزيز مصر ۹; يوسف(ع) پر تہمت ۱۱، ۱۲،۱۵;يوسف(ع) پر شكنجہ ۱۶; يوسفعليه‌السلام كابھاگنا ۲، ۵، ۸;يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۴، ۵، ۶، ۷، ۸، ۹، ۱۱، ۱۲، ۱۳، ۱۴، ۱۵، ۱۶، ۲۰; يوسفعليه‌السلام كو قيدى بنانا ۱۶;يوسفعليه‌السلام كى سزاء ۱۶;يوسف(ع) كى قميض ۶ ، ۲۰;يوسفعليه‌السلام كى قميض كا پھٹ جانا۷;يوسفعليه‌السلام كى نجات۸;يوسفعليه‌السلام كے خلاف سازش ۱، ۴، ۵، ۱۴

آیت ۲۶

( قَالَ هِيَ رَاوَدَتْنِي عَن نَّفْسِي وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ أَهْلِهَا إِن كَانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِن قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنَ الكَاذِبِينَ )

يوسف نے كہا كہ اس نے خود مجھے سے اظہار محبت كيا ہے اوراس پر اس كے گھر والوں ميں سے ايك گواہ نے گواہى بھى دے دى كہ اگر ان كا دامن سامنے سے پھٹا ہے تو وہ سچى ہے اور يہ جھوٹوں ميں سے ہيں (۲۶)

۱_ يوسفعليه‌السلام كا زليخا كى تہمت كے مقابلے ميں اپنا دفاع كرنا_

قال هى راودتنى عن نفسي

۲_يوسفعليه‌السلام نے عزيز مصر كے سامنے زليخا كى ناجائز خواہش اور اس كے مقابلے ميں اپنے انكار كرنے كو بيان كيا اور خود كو ہر برے ارادے سے پاك و منزا قرار ديا _قال هى راودتنى عن نفسي

۴۳۲

(هى راودتني ) اور (أناقمت ) كى جو نحوى تركيب ہے كہ مبتداء فاعل كے معنى ميں ہے اور اسكى خبر خود فعل ہے _ كبھى يہ تاكيد پر دلالت كرتى ہے اور كبھى حصر پر دلالت كرتى ہے_ چونكہ يوسف(ع) اپنے سے الزام كو دور كرنے كى كوشش ميں تھے تو اس سے معلوم ہوتا ہے كہ(ہى راودتني) كا جملہ حصر پر دلالت كر رہا ہے _ تو اس صورت ميں جملہ ( ہى راودتنى ) كا معنى يہ ہوگا كہ وہ (زليخا) مجھ سے اپنى آرزو پورى كرنے كى خواہش ركھتى تھى ليكن ميں نے يہ خواہش پورى نہيں كى اور ميں اس سے انكار كرتا رہا_

۳_ ضرورى ہے كہ نامناسب تہمتوں سے انسان اپنا دفاع كرے _

قالت ما جزاء قال هى راودتنى عن نفسي

۴_ اپنے دفاع كے ليے دوسرے كے گناہوں كو افشاء كرنا جائزہے_قالت قال هى راودتنى عن نفسي

۵_ يوسفعليه‌السلام نے زليخا كى نزديكى اور وصال كى خواہش كو اپنے دفاع كے وقت تك مخفى ركھا اور اسے فاش نہيں كيا_

قالت قال هى راودتنى عن نفسي

۶_ يوسفعليه‌السلام اپنے دفاع كے وقت مطمئن اور پر سكون تھے_قال هى راودتنى عن نفسي

يوسفعليه‌السلام نے اپنے اتہام كو دور كرنے كے ليے اپنى كلام (هى راودتنى عن نفسى ) ميں نہ تو تاكيد كے الفاظ استعمال كئے اور نہ ہى قسم وغيرہ اٹھائي _ يہ اس بات كى دليل ہے كہ اس مقام پر حضرت يوسف(ع) نہايت مطمئن اور پر سكون تھے_

۷_ عزيز مصر نے يوسف اورزليخا كے ماجرا ميں اپنى طرف سے فيصلہ نہيں ديا اور جلدى فيصلہكرنے سے پرہيز كيا_

قالت قال هى راودتنى عن نفسى و شهد شاهد من اهله

۸_ زليخا كے رشتہ داروں ميں ايك شخص نے زليخا اور يوسفعليه‌السلام كے ماجرا ميں مداخلت كى اور ان كے درميان اس نے فيصلہ كيا_و شهد شاهد من أهله

۹_ يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے واقعہ ميں قضاوت كرنے والا اگرچہ زليخا كے رشتہ داروں ميں سے تھا ليكن اس نے غير جابندار ہو كر حق كا فيصلہ ديا_

۴۳۳

و شهد شاهد من أهلها إن كان قميصه قدّ من قبل

۱۰_ يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے واقعہ كى قضاوت كرنے والا، اپنا فيصلہ دينے سے پہلے يوسفعليه‌السلام كى قميض كے پھٹ جانے سے آگاہ ہوچكا تھا_و شهد شاهد من أهلها إن كان قميصه قدّ

۱۱_ يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے واقعہ كا فيصلہ كرنے والے نے زليخا كى سچائي اور يوسفعليه‌السلام كے جھوٹ كو يوسفعليه‌السلام كى آگے كى جانب سے قميض كو پھٹنے پر منحصر قرار ديا_ان كان قميصه قدّ من قبل فصدقت و هو من الكاذبين

۱۲_ يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے واقعہ كا فيصلہ كرنے والا، اپنے صحيح فيصلے اور قميض كے پھٹنے پر كامل اطمينان ركھتا تھا_

و شهد شاهد من أهلها إن كا ن قميصه قدّ من قبل

(شہد شاہد) كے جملے ميں گواہى سے مراد اظہار نظر اور قضاوت كرنا وغيرہ ہے _ اس لفظ كا ذكر جو كہ شہادت ومشاہدہ پر موقوف ہے بتاتا ہے كہ وہ شخص اپنى قضاوت و فيصلے پر اتنا مطمئن تھا گويا اس نے ماجرا كو اپنى آنكھوں ہى سے ديكھا ہے_

۱۳_عن على بن الحسين عليه‌السلام ... قال : يوسف و اله يعقوب ما ا ردت بأهلك سوء بل هى راودتنى عن نفسى فسل هذا الصبى و كان عندها من أهلها صبى زائر لها فانطق اللّه الصبى لفصل القضاء فقال انظر الى قميص يوسف (۱)

امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے كہ يوسف نے كہا : مجھے يعقوبعليه‌السلام كے خدا كى قسم ميں تيرى بيوى كے بارے ميں برى نظر نہيں ركھتا تھا_ خود اس نے مجھے دعوت دى تم اس بچے سے پوچھ لو _ وہ بچہ اس عورت كے رشتہ داروں ميں سے تھا جو اس كو ديكھنے كے ليے آيا تھا پھر خداوند متعال نے قضاوت كرنے كے ليے اس بچے كو زبان دى اور وہ كلام كرنے لگا اور اس نے كہا: يوسفعليه‌السلام كى قميض كو ديكھو

احكام :۴

راز فاش كرنا :راز فاش كرنے كا جواز ۴;راز فاش كرنے كے احكام ۴

روايت :۱۳

خود :اپنا دفاع ۱، ۴، ۶;اپنے دفاع كى اہميت ۳، ۵; اپنے سے تہمت كو دور كرنا ۳

زليخا :

۴۳۴

زليخا كا اپنى آرزو كو پورا كرنے كى كوشش كرنا ۲، ۵زليخا كى صداقت كے دلائل ۱۱; زليخا كے رشتہ داروں كى قضاوت ۸، ۹

عزيز مصر :عزيز مصر اور قصّہ يوسفعليه‌السلام ۷

قضاوت :اپنے دعوى كو ثابت كرنے ميں قضاوت كى نشانياں ۱۱; قضاوت ميں عدالت ۹; قضاوت ميں قضاوت كى علامات كا كردار ۱۱

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام اور زليخا كى تہمتيں ۱; يوسفعليه‌السلام اورعزيز مصر ۲; يوسفعليه‌السلام كا پر سكون ہونا ۶; يوسف(ع) كا دفاع ۱، ۶; يوسفعليه‌السلام كا راز فاش كرنا ۲، ۵; يوسف كا صفائي پيش كرنا ۲; يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱، ۲، ۵، ۷، ۹، ۱۰، ۱۲، ۱۳; يوسفعليه‌السلام كا گواہ ۱۳;يوسف(ع) كى قميض ۱۳;يوسف(ع) كى قميض كا پھٹنا ۱۰، ۱۱، ۱۲;يوسف(ع) كے پيش آنے كا طريقہ ۶; يوسفعليه‌السلام كے جھوٹ بولنے كے دلائل ۱۱; يوسفعليه‌السلام كے قصے ميں قاضى كا اطمينان ۱۲; يوسف(ع) كے قصّے كا قاضى ۹، ۱۰، ۱۱

آیت ۲۷

( وَإِنْ كَانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِن دُبُرٍ فَكَذَبَتْ وَهُوَ مِن الصَّادِقِينَ )

اور اگر ان كا كرتا پيچھے سے پھٹا ہے تو وہ جھوٹى ہے اور يہ سچوں ميں سے ہيں (۲۷)

۱_ يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے واقعے كا فيصلہ كرنے والے نے كُرتے كے پيچھے سے پھٹنے كى وجہ سے زليخا كے دعوى كو جھوٹا اور يوسفعليه‌السلام كو سچا قرار ديا _و ان كان و هو من الصادقين

۲_ يوسف(ع) اور زليخا كے قضيے ميں فيصلہ كرنے والے كے نزديك كرتے كا پھٹنا حقيقت كشف ہونے كا محور قرارپايا _

و شهد شاهد و هو من الصادقين

قميض كے پھٹنے سے قضيے كى حقيقت كو بھانپ لينا فيصلہ كرنے والے كى ذہانت وہوشيارى پردلالت

دلالت كرتا ہے_ اور ساتھ ہى اس نے زليخا كے رشتہ دار ہونے كے باوجود بھى حق كو مخفى نہيں ركھا_ اس سے اسكى حق پرستى اور عدالت ثابت ہوتى ہے_

۳_مجرم كى تشخيصكے ليے جرم كى شناخت ميں مختلف طريقوں كو اختيار كرنا ضرورى ہے_ان كان و هو من الصادقين

جرم :

۴۳۵

جرم كو ثابت كرنے كے دليليں ۴

جرم كى شناخت كرنا :جرم كى شناخت كرنے كا طريقہ ۴

زليخا :زليخا كے جھوٹے ہونے كے دلائل ۱

قضاوت :دعوى كو ثابت كرنے ميں قضاوت كے طور طريقے ۱; قضاوت ميں قضائي طور طريقوں كا كردار ۱

مجرمين :مجرمين كى تشخيص كا طريقہ ۴

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كى سچائي كے دلائل ۱;يوسفعليه‌السلام كى قميض كا پھٹ جانا ۱، ۲; يوسفعليه‌السلام كے قصّے كا قاضى ۱; يوسفعليه‌السلام كے قصّے كى قضاوت ۳;يوسفعليه‌السلام كے قصہ كے قاضى كى عدالت ۳; يوسفعليه‌السلام كے قصّے ميں قاضى كے فضائل ۳; يوسفعليه‌السلام كے قصّےميں قاضى كى كام ميں سوجھ بوجھ ۳

آیت ۲۸

( فَلَمَّا رَأَى قَمِيصَهُ قُدَّ مِن دُبُرٍ قَالَ إِنَّهُ مِن كَيْدِكُنَّ إِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيمٌ )

پھر جو ديكھا كہ ان كا كرتا پيچھے سے پھٹا ہے تو اس نے كہا كہ يہ تم عورتوں كى مكار ى ہے تمھارا مكر بہت عظيم ہوتاہے (۲۸)

۱_ عزيز مصر نے يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے ماجرا كى حقيقت كو كشف كرنے كے ليے خود ہى تحقيق كى اور قميض اور اسكے پھٹ جانے كے انداز كا ملاحظہ كيا _فلّمارءا قميصه قُدّ من دُبر

ظاہر يہ ہے كہ ( رأي) ميں ضمير، عزيز مصر كى طرف لوٹتى ہے_

۲_ عزيز مصر، نے حضرت يوسفعليه‌السلام كے كرتے كو پيچھے سے پھٹا ہوا ديكھ كر ان كى سچائي كوسمجھ ليا_

فلما رءا قميصه قُدّ من دُبر قال انه من كيدكنّ

۳_ عزيز مصر نے يوسفعليه‌السلام كى سچائي كو جاننے كے بعد يوسفعليه‌السلام كے حق ميں فيصلہ ديا اور زليخا كو مجرم ٹھہرايا_

فلما رءاى قميصه قدّ من دبر قال انه من كيدكن

۴_ عزيز مصر نے واقعہ يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے قاضى كى طرف سے پيش كردہ شواہدكو حضرت يوسفعليه‌السلام سے

۴۳۶

تہمت دور كرنے اور اسكى بے گناہى كو ثابت كرنے ليے كافى سمجھا_فلما رءا قميصه قدّ من دبر قال انه من كيدكن

۵_ عزيز مصر نے يوسفعليه‌السلام كى حقانيت كو سمجھنے كے بعد عورتوں كو مكر و حيلہ سے مجسم انسان قرار ديا _

إنه من كيدكنَّ

۶_ ناجائز جنسى روابط اور اخلاقى انحرافات كو وجود ميں لانے ميں عورتوں كا بہت زيادہ حصہ ہے_انه من كيدكنَّ

مذكورہ معنى اس صورت ميں ہے جب ( انّہ ) كى ضمير وصال كے ارادے كى محبت كى طرف لوٹ رہى ہوجس كا جملہ ( ہى راودتنى ) سے استفادہہوتاہے _

۷_ عزيز مصر نے يوسفعليه‌السلام سے اپنى آرزو پورا كرنے والے مكر كو زليخا كے زنانہ مكر و حيلوں سے قرار ديا _

إنّه من كيدكن

يہ احتمال ہے كہ ( انّہ) كى ضمير (غلقت الابواب ) كے جملے سے جو حقيقت ظاہر ہوتى ہے كى طرف پلٹے مذكورہ معنى اسى احتمال كى بناء پر ہے_

۸_ عزيز مصر نے زليخا كا حضرت يوسفعليه‌السلام كو متہم كرنے اور ان كے ليے سزا كے مقرر كرنے ميں پہل كرنے كو زليخا كا مكر قرار ديا _قالت ما جزاء من أراد با هلك سوء اً انه من كيدكنَّ

مذكورہ بالا معنى اس صورت ميں ہے كہ جب (انّہ ...) كى ضمير كو ( قالت ما جزاء ...) آيت ۲۵ كے معنى كى طرف لوٹائيں اور وہ معنى يہ ہے كہ زليخا نے اپنے آپ كو پاكدامن اورمقابل كو گنہگار ثابت كرنے ميں پہل كى ہے_

۹_ عزيم مصر كا عورتوں كے مزاج اور ان كے مكر و فريب سے آگاہ ہونا _إن كيد كنَّ عظيم

۱۰_ عورتوں كامكر و فريب، بہت ہى بڑا مكر و فريب ہوتا ہے_ان كيدكن عظيم

اگرچہ جملہ ( ان كيدكن عظيم ) عزيز مصر كا كلام ہے _ ليكن مفسرين قائل ہيں كہ اگر قرآن مجيد ميں خداوند متعال كسى كلام كو نقل كرے اور اسكو ردّ نہ كرے تو اس سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ كلام حق ہے_

۱۱_ مكر و فريب عورتوں كاوہ ذريعہ ہے جن سے وہ اخلاقى فساد وانحراف ايجادكرتى ہيں _انه من كيدكنَّ

۱۲_ عورتوں كے مكر و فريب سے ہوشيار رہنا ضرورى ہے_انه من كيدكن انه كيدكنَّ عظيم

۴۳۷

۱۳_ عزيز مصر كا يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے قصّے ميں اپنى رائے دينے اور قضاوت كرنے ميں عدالت اور انصاف سے كام لينا _فلما رءا قميصه قال إنه من كيدكنَّ إن كيدكُنَّ عظيم

اخلاق :اخلاقى فساد كے عوامل ۶

زليخا :زليخا كا مكر ۷، ۸;زليخا كى آرزو پورى كى خواہش ۷;زليخا كى تہمتيں ۴، ۸; زليخا كے خلاف فيصلہ ہونا ۳

عزيز مصر :عزيز مصر اور زليخا ۳، ۷; عزيز مصر اور عورتوں كا مكر ۹;عزيز مصر اور يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱، ۷، ۸، ۱۳;عزيز مصر اور يوسفعليه‌السلام كى صداقت ۲; عزيز مصر اور يوسف ۳، ۴، ۵; عزيز مصر كا آگاہ ہونا ۹;

عزيز مصر كا چھان بين كرنا ۱; عزيز مصر كى عدالت ۱۳; عزيز مصر كى قضاوت ۱۳

عورتيں :عورتوں كا فساد پھيلانا ۶، ۱۱; عورتوں كا مكر ۵، ۷، ۸، ۱۰، ۱۱ ; عورتوں كے مكركے مقابلہ ميں ہوشيار و چالاك ہونا ۱۲

فساد :فساد كا ذريعہ۱۱

گمراہى :گمراہى كا ذريعہ ۱۱

مكر :بہت بڑا مكر ۱۰

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام پر تہمت ۴، ۸;يوسفعليه‌السلام كى صداقت ۳، ۵; يوسفعليه‌السلام كى صداقت كے دلائل ۲، ۴; يوسفعليه‌السلام كے كرتے كا پھٹ جانا ۱، ۲، ۴

۴۳۸

آیت ۲۹

( يُوسُفُ أَعْرِضْ عَنْ هَـذَا وَاسْتَغْفِرِي لِذَنبِكِ إِنَّكِ كُنتِ مِنَ الْخَاطِئِينَ )

يوسف اب تم اس سے اعراض كرو اور زليخا تو اپنے گناہ كے لئے استغفار كر كہ تو خطا ركاروں ميں ہے (۲۹)

۱_ عزيز مصر نے يوسفعليه‌السلام سے چاہا كہ زليخا كے معاملے كو بھلاو اور اسكو چھپادے_يوسف أعرض عن هذ

(اعرض عن هذا ) كا معنى زليخا كے ماجرے كو فراموش كرنا يعنى اسكو مخفى كرنے اوراس سے صرف نظر كرنے كے معنى ميں ہے_ يعنى اس كے بارے ميں كسى سے گلا و شكوہ نہيں كرنا _ كيونكہ زليخا كے خلافكسى قسم كا اقدام كرنا حضرت يوسف(ع) كے مقام جو كہ ايك زرخريد غلام تھے سے سازگار نہيں تھا_

۲_ واقعہ كى حقيقت ظاہر ہونے كے بعد عزيز مصر كى طرف سے حضرت يوسفعليه‌السلام كا اكرام و احترام _

يوسف أعرض عن هذا

لفظ ( يوسف ) منادى اور ( يا) حرف نداء ہے جو يہاں حذف ہوگيا ہے _ عزيز مصر اس كو حذف كركے يوسفعليه‌السلام سے اپنى قربت اور محبت كا اظہار كرنا چاہتا ہے اور انكا نام لے كر ان سے اپنى مہربانى اور عطوفت كو بيان كر رہاہے_

۳_ عزيز مصر كے سامنے جب زليخا كى غلطى ثابت ہوگئي تو اس نے اسے استغفار كرنے اور گناہ سے معافى طلب كرنے كے ليے كہا _و استغفرى لذنبك إنّك كنت من الخاطئين

جملہ (و استغفرى لذنبك ) ''اپنے گناہوں كى معافى مانگو''ميں يہ بيان نہيں ہوا كہ زليخا كس سے معافى طلب كرے _ بعض مفسرين نے كہا ہے كہ استغفار سے مراد خداوند متعال سے استغفار كرنا ہے _ بعض نے كہا ہے كہ خود عزيز مصر سے معافى طلب كرنا مرادہے_

۴_ عورت كا اپنے شوہر كے علاوہ كسى سے جنسى رابطہ ركھنا نامناسب اور ناجائز ہے _و استغفرى لذنبك

۵_ قديم ايّام سے انسان، عورت كا اپنے شوہر كے علاوہ كسى سے جنسى روابط كے ناجائز و نامناسب ہونے كا اعتقاد ركھتا تھااور اس كى تاكيد كرتاتھا_و استغفرى لذنبك إنك كنت من الخاطئين

۴۳۹

زليخا :زليخا كے مكر كو چھپانا ۱

عزيز مصر :عزيز مصر اور زليخا ۳; عزيز مصر اور يوسفعليه‌السلام ۱، ۲; عزيز مصر كى توقعات ۱، ۳

ناجائز روابط :ناجائز روابط تاريخ كى نظر ميں ۵; ناجائز روابط كى برائي ۵;نامحرم سے رابطہ ۴

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام سے درخواست كرنا ۱;يوسفعليه‌السلام كا احترام ۲ ; يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱، ۲، ۳

آیت ۳۰

( وَقَالَ نِسْوَةٌ فِي الْمَدِينَةِ امْرَأَةُ الْعَزِيزِ تُرَاوِدُ فَتَاهَا عَن نَّفْسِهِ قَدْ شَغَفَهَا حُبّاً إِنَّا لَنَرَاهَا فِي ضَلاَلٍ مُّبِينٍ )

اور پھر شہر كى عورتوں نے كہنا شروع كرديا كہ عزيز مصر كى عورت اپنے جوان كو اپنى طرف كھينچ رہى تھى اور اسے اس كى محبت نے مدہوش بنا ديا تھا ہم يہ ديكھ رہے ہيں كہ يہ عورت بالكل ہى كھلى ہوئي گمراہى ميں ہے (۳۰)

۱_ زليخا كا يوسفعليه‌السلام سے عشق اور اسكا ان سے اپنى آرزو كو پورا كرنے كى خواہش كرنا، شہر ميں پھيل گيا _

و قال نسوة فى المدينة امرأت العزيز تراودفتىاها

۲_ مصر كے دار لخلافہ ميں يوسف(ع) اور زليخا كے قصہ كى خبر عام ہونے كاسبب اشراف كى عور تيں تھيں _

و قال نسوة فى المدينة

مذكورہ معنى اس صورت ميں ہوسكتا ہے كہ جب (فى المدينة) كا جملہ ( قال) كے متعلق ہو لہذا جملہ يوں ہوگا ( قال نسوة فى المدينة ...) يعنى عورتوں نے يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے عشق كو اس شہر ( دار الخلافہ مصر ) ميں پھيلا ديا _

۳_ زليخا كا يوسفعليه‌السلام سے عشق اور اسكا ان سے اپنى آرزو كو پورا كرنےكے لئے اصرار، اشراف لوگوں كى بيويوں كى زبان پر جارى ہوگيا _و قال نسوة فى المدينة امرأت العزيز ترادو فتى ها عن نفسه

( فى المدينة) ممكن ہے (قال) كے متعلق ہو

۴۴۰

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945

946

947

948

949

950

951

952

953

954

955

956

957

958

959

960

961

962

963

964

965

966

967

968

969

970

971