تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 0%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 971
مشاہدے: 196365
ڈاؤنلوڈ: 3900


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 196365 / ڈاؤنلوڈ: 3900
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 8

مؤلف:
اردو

۱۸_ زليخا حضرت يوسفعليه‌السلام كو اسكى خواہشات پورا نہ كرنے پر ناقدر اور احسان فراموش سمجھتى تھى _

روادته التى فى بيتها انه ربّى أحسن مثوى

مذكورہ معنى ميں ( انّہ ربّى ...) كو (التى ہو فى بيتہا ) كے جملے سے اخذ شدہ مفہوم پرناظر قرار ديا گيا ہے يعنى اس اعتبار سے كہ زليخا ، حضرت يوسفعليه‌السلام كى مالكن تھى اور اسكو اپنے گھر ميں آرام و آسائش فراہم كر رہى تھى لہذا وہ يوسفعليه‌السلام سے يہ توقع ركھتى تھى كہ وہ ميرے كہنے پر انكار نہيں كرے گا ليكن يوسفعليه‌السلام (انہ ربي ...) كے ذريعہ يہبتاناچاہتے ہيں كہ ميرا خدا ميرے تمام كام مربى و مدّبرتھا اور ہے اور ميرے ليے سزاوار يہى ہے كہ ميں اسى كى اطاعت و فرمانبردارى كروں _

۱۹_ زليخا حضرت يوسفعليه‌السلام كى جو خدمت و احترام كرتى تھى اس وجہ سے وہ يہ توقع ركھتى تھى كہ يوسفعليه‌السلام اس كے ناجائز مطالبے كو قبول كرلے گا _راودته التى هو فى بيتها ...قال إنه ربّي

۲۰_ يوسفعليه‌السلام نے زليخا كے سامنے اس بات كى وضاحت كردى كہ اسكى زندگيكى گاڑى كا چلن خداوند عالم كى عنايت اورتدبير كى وجہ سے ہے _معاذا لله إنه ربّى احسن مثوي

( إنہ ) كى ضمير ( الله ) كى طرف لوٹتى ہے _ مذكورہ تفسير ميں (انہ ربّى ) جملہ (معاذا لله ) كى تعليل ہے تو اس صورت ميں مذكورہ عبارت كا معنى يہ ہوگا (اس مكرو فريب ميں ) ميں خداوند متعال كى پناہ مانگتا ہوں اور اس سے نجات كے ليے اسكى مدد مانگتا ہوں كيونكہ ميرى زندگى كے امور كو چلانے والا وہى ہے _

۲۱_ حضرت يوسف(ع) نے زليخا كے حكم اور اسكى دعوت كے جواب ميں خداوند متعال كو اطاعت ، قدر شناسى اور شكر گزارى كے سزاوار سمجھا _قال معاذا لله انه ربّى احسن مثوى

۲۲_حضرت يوسف(ع) نے زليخا كى خواہش ( ہمبسترى اور وصال) كى در خواست كو قبول كرنے كو اپنے ليے خداوند متعال كے احسانات كى فراموشى تصّور كيا _انّه ربى أحسن مثواي

۲۳_ انسان كو لوگوں كے احترام كے سبب، خداوند متعال كى معصيت نہيں كرنى چاہيے_

أكرمى مثويه قال معاذا لله انه ربّي

۲۴_ گناہ كا ارتكاب ،ناشكرى اورنعمت الہى كا كفران ہے _قال معاذا لله إنه ربّى أحسن مثواى انه لا يفلح الظالمون

۲۵_ انسان كا خداوند متعال كى طرف سے در خواست قبول كرنا اور گناہ كے ارتكاب سے بچنا، ربوبيت

۴۲۱

الہى كا جلوہ ہے _معاذالله إنه ربى أحسن

۲۶_ ربوبيت خداوندى پر يقين اور اس كے احسان اور نعمتوں پر توجہ كرنا، انسان كو گناہوں سے دور رہنے ميں مدد ديتا ہے _معاذالله انه ربّى أحسن مثوى

۲۷_ ظالم و ستم گر لوگ كبھى بھى كامياب و كامران نہيں ہوسكتے ہيں _انّه لايفلح الظالمون

(انہ ) كى ضمير،ضمير شأن ہے جو جملہ كے معنى پر تاكيد كرتى ہے _

۲۸_ حضرت يوسف،عليه‌السلام زليخا كى ناجائز خواہش پر تسليم ہونے كو اپنے ليے ظلم و ستم گرى سمجھتے تھے _

انّه لايفلح الظالمون

۲۹_ زنا كا مرتكب ہونا اور عفت كے حجاب كو توڑنا، ستم ستمگرى ہے _قال معاذا لله انه لايفلح الظالمون

(معاذالله ) كا معنى فحش گناہ كا ارتكاب ہے اور (انہ ربى ...) كا معنى يہ ہوا كہ گناہ و برائي كا مرتكب ہونا، خداوند متعال كى ناشكرى اور احسان فراموشى ہے _ اور اسى وجہ سے (انہ لايفلح الظالمون) مذكورہ معانى كے ليے علت واقع ہوا ہے _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ فحشاء كا مرتكب ہونا اور گناہوں كے ارتكاب كے ذريعہ خداوند متعال كى ناشكرى ايك ظلم ہے _

۳۰_ خداوند متعال كى نعمتوں كو نظر انداز كرنا اور گناہوں كے ارتكاب كے ذريعہ اسكى ناشكر ى كرنا، ظلم ہے _

إنه ربّى لايفلح الظالمون

۳۱_ فحشاء و منكر كا ارتكاب اور خداوند متعال كى نعمتوں كے مقابلے ميں ناشكرى كرنا،فلاح و كاميابى كے ليے مانع ہے _

انه لايفلح الظالمون

۳۲_''عن على بن الحسين عليه‌السلام ... فلما راهق يوسف راودته إمرا ته الملك عن نفسه (۱)

ترجمہ : امام سجاد عليہ السلام سے روايت ہے:جب حضرت يوسفعليه‌السلام جوانى كے جو بن ميں پہنچے تو بادشاہ كى بيوى نے ان سے جنسى خواہش كا تقاضا كيا

احكام : ۱۳

استعاذہ :الله تعالى سے استغازہ كرنے كے آثار۱۲; الله تعالى سے استعاذہ كى اہميت ۱۱، ۱۲

____________________

۱)علل الشرائع ، ص۴۸، ح ۱ب۴۱; نورالثقلين ج ۲ ، ص ۴۱۴، ح ۱۷_

۴۲۲

اطاعت :الله تعالى كى اطاعت كرنے كى اہميت ۲۳

الله تعالى :الله تعالى كى ربوبيت ۲۰، الله تعالى كى ربوبيت كى نشانياں ۲۵

امور :تعجب آور امور ۱۴

انسان :انسانوں كى ذمہ دارى ۲۳

ايمان :ايمان كے آثار ۲۶; ربوبيت الہى پر ايمان۲۶

انكار :نعمت سے انكار كا ظلم ۳۰;نعمت سے انكار كے آثار ۳۱; نعمت سے انكار كے موارد ۲۴

دعا :اجابت دعا۲۵

دوستى :شوہر دار عورت سے دوستى ۱۳

ذكر :اللہ تعالى كى نعمت كا ذكر۲۶; ; الله تعالى كے احسان كا ذكر ۲۶;الله تعالى كے ذكر كے آثار ۱۱، ۱۷

روايت : ۳۲

زليخا :زليخا اور يوسفعليه‌السلام ۳، ۵، ۶، ۸، ۱۹، ۳۲;زليخا اور يوسفعليه‌السلام كا انكار ۱۸;زليخاكا تسلّط۵; زليخا كا كام لينا ۲، ۳، ۴، ۶، ۲۲;زليخا كا يوسفعليه‌السلام سے عشق ۱، ۲; زليخا كى خواہشات ۲۱، ۳۲;زليخا كى سازش ۶; زليخاكى فكر ۱۸; زليخا كى كوشش ۳;زليخا كى نامناسب توقعات۱۹;زليخا كے كام لينے كا سبب ۵ ، ۸;زليخا كے محل كى خصوصيات ۷; زليخا كے محل كے دروازے ۶، ۷

زنا :زنا كا ظلم ۲۹;زنا كے احكام ۱۳; شوہر والى عورت سے زنا ۱۳

سعادت مندى :سعادت مندى سے محروم افراد ۲۷; سعادت مندى كے موانع ۳۱

شہوت پرستى :شہوت پرستى كے موانع ۱۱

ظالمين :ظالموں كا محروم ہونا ۲۷

ظلم :ظلم كے موارد ۲۸، ۲۹، ۳۰

عفت :بے حيائي كا ظلم ۲۹

فحشاء :

۴۲۳

فحشاء وبرائي كے آثار ۳۱

گناہ :گناہ سے بچاؤ ۲۵;گناہ سے نجات كا طريقہ ۱۲; گناہ كا ظلم ۳۰;گناہ كے آثار ۲۴; گناہ كے ترك كا سبب۲۶;گناہ كے ترك كى اہميت ۲۳; گناہ كے موانع ۱۷

متقين :۱۵

محرمات :۱۳

موحدين : ۱۵

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام اور زليخا ۴، ۲۰، ۲۱ ، ۲۲;يوسفعليه‌السلام اور زليخا كى خواہشات ۹، ۱۰، ۲۸;يوسفعليه‌السلام اور كفران نعمت ۲۲; يوسفعليه‌السلام سے درخواست كرنا ۲;يوسفعليه‌السلام كا الله سے پناہ مانگنا ۱۰; يوسفعليه‌السلام كا بالغ ہونا ۳۲;يوسفعليه‌السلام كا تقوى ۱۵، ۱۶;يوسفعليه‌السلام كا عقيدہ ۲۰، ۲۱، ۲۲; يوسف(ع) كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۵، ۶، ۸، ۹، ۱۰، ۱۵، ۱۸، ۱۹، ۲۰، ۲۱، ۲۲، ۲۸، ۳۲;يوسفعليه‌السلام كا مدبر ہونا ۲۰;يوسف(ع) كى اطاعت ۱۵، ۱۶، ۲۱; يوسفعليه‌السلام كى توحيد ۱۵، ۱۶;يوسفعليه‌السلام كى جوانى ۱۵;يوسفعليه‌السلام كى حكمت كے آثار ۱۶;يوسفعليه‌السلام كى عفت ۴، ۹، ۱۴;يوسفعليه‌السلام كى فكر ۲۸;يوسفعليه‌السلام كے علم كے آثار ۱۶;يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۱۴، ۱۵

آیت ۲۴

( وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا لَوْلا أَن رَّأَى بُرْهَانَ رَبِّهِ كَذَلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاء إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ )

اور يقينا اس عورت نے ان سے بڑائي كا ارادہ كيا اور وہ بھى ارادہ كر بيٹھتے اگر اپنے رب كى دليل نہ ديكھ ليتے يہ تو ہم نے اس طرح كا انتظام كيا كہ ان سے برائي اور بدكارى كا رخ موڑ ديں كہ وہ ہمارے مخلص بندوں ميں سے تھے (۲۴)

۱_ يوسفعليه‌السلام كا زليخا سے وصال كرنے سے انكار پراس نے چاہا كہ وہ اور اس پر غلبہ كے ذريعہ اپنے مقصد كو حاصل كرے _ولقد همّت به

لفظ (ہمّة) اور اس كےتمام مشتقات اگر حرف (باء) كے ساتھ متعدى ہوں تو قصد كرنے كے معنى ميں آتے ہيں لہذا اس صورت ميں ( ولقد ہمّت بہ) يعنى بے شك زليخا نے يوسفعليه‌السلام كا ارادہ كيا تا كہ اس سے اپنى آرزو كو پورا كرے چونكہ زليخا اس طرح كا پہلے سے ارادہ ركھتي تھى (راوتہ التى ) سے معلوم ہوتا ہے كہ اس مقصد سے مراد كوئي دوسرا عزم ہے _اور بعد والى آيت ميں (استقبا ...)

۴۲۴

(يعنى دروازے كى طرف جانے ميں پر اس نے سبقت كي) كا جملہ بتاتا ہے كہ اس كا انجام اس كے غم و غصہ پر ختم ہوا _

۲_ فقط يوسفعليه‌السلام كا الله تعالى كى دليل و حجت كا مشاہدہ كرنا، زليخا سے ہمبسترى كرنے اور اس كى خواہش كو پوراكرنے سے مانع ہوا _و همّ بهالولا أن رء ابرهان ربّه

(ہم بہا) كا جملہ ( لو لا أن ...) كے جواب كے قائم مقام ہے يعنى اگر وہ دليل و برہان الہى كا مشاہدہ نہ كرتے تو زليخا كى طرف رغبت كرتے _ يہى ( برہان ) كا معنى حجت اور دليل ہے_ اس كے واضح مصاديق وہ دليليں ہيں جو ما قبل آيت ميں گذر چكى ہيں _ يعنى برہان كا مشاہدہ يہ چيزيں تھيں : الف:يوسف(ع) ربوبيت الہى اوراسكى نعمتوں كا مشاہدہ كرتے تھے (انه ربّى أحسن مثواي ) ب: يوسفعليه‌السلام كو مكمل يقين تھا كہ گنہگار اور ظالم لوگ كبھى بھى نجات نہيں پائيں گے _ (انه لايفلح الظالمون )

ج:انہيں اس بات ميں شك نہيں تھا كہ زليخا كے ساتھ وصال، ظلم اور معصيت الہى ہے (معاذالله ) ...)

۳_ يوسفعليه‌السلام ،جسمانى طور پر زليخا كى خواہش و آرزو كو پورا كرسكتے تھے _

و لقد همّت به و همّ بها لولا أن راء برهان ربّه

قرآن مجيدنے يہ بيان كرنے كے بعد كہ زليخا نے يوسفعليه‌السلام سے اپنى آرزو كو پورا كرنے كے لئے تمام وسائل مہياكئے ہوئے تھى اور اس نے موانع كو برطرف كرد يا تھا جملہ(هم بها لو لا ...) كو فقط حضرت يوسفعليه‌السلام كے ليے مانع، برہان كا مشاہدہ ذكر كيا ہے تا كہ يہگمان نہہو كہ ان ميں مردانگى طاقت نہيں تھى اور وہ اس كا م پر قدرت نہيں ركھتے تھے_

۴_ يوسفعليه‌السلام كا برہان اور حجت الہى سے بہرہ مند ہونا (يعنى ربوبيت الہى كا مشاہدہ كرنا ) انكے گناہوں كے ارتكاب سے عصمت كا سبب ہے _لولا أن راء برهان ربه كذلك لنصرف عنه السوء و الفحشاء

۵_ خداوند متعال كا يوسفعليه‌السلام كو دليل و برہان كا مشاہدہ كرانے كے ذريعےانہيں زليخا سے وصال (زنا) كرنے اور اسكو شہوت كى نگاہ سے ديكھنے سے محفوظ و امان ميں ركھا_كذلك لنصرف عنه السوء و الفحشاء

(فحشاء) اس گناہ و معصيت كو كہتے ہيں جو بہت ہى برى اور پليد ہو (لسان العرب) (سوء) كا معنى بدى اور گناہ ہے _ اسكو (فحشاء) كے مدمقابل ذكر كرنےكے قرينہ كى بناء پراس سے مراد چھوٹا گناہ ہے _ (السوء) اور (الفحشاء) پر الف لام ممكن ہے عہد كا ہو _ پس (الفحشاء) سے مراد زنا كرنا اور (السوء) سے شہوت كى نگاہ مراد ہے _ اور يہ بھى احتمال ممكن ہے كہ (أل) ان دونوں لفظوں پر جنس كاہولہذا مذكورہ گناہ مورد نظر مصاديق ميں سے شمار ہو نگے _

۴۲۵

۶_ يوسفعليه‌السلام كڑيل جوانى ميں چھوٹے و بڑے گناہ سے معصوم و محفوظ تھے_

كذلك لنصرف عنه السوء و الفحشاء انه من عبادنا المخلصين

۷_ برہان و دليل الہى كا مشاہدہ كرنا ( حقائق كا درك مثلا ربوبيت الہى كا ملاحظہ، گناہ كى بدى كاعلم ، گنہگاروں اور ظالموں كے نجات نہ پانے پر يقين) يہ سب انبيائ(ع) كى عصمت كے سبب ہيں _و همّ بهالو لا أن رء ا برهان ربّه

۸_ انبياءعليه‌السلام ،اللہ تعالى كى امداد كے سايہ ميں گناہ و فحشا سے محفوظ و معصوم ہوتے ہيں _

كذلك لنصرف عنه السوء و الفحشاء

(لنصرف عنہ ...) يعنى ( تاكہ بدى و پليدى كو اس سے دور كريں ) گناہ كو يوسفعليه‌السلام سے دور كرنے كوخداوند متعال كى طرف نسبت دى گئي ہے _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ برہان الہى كا مشاہدہ بھى توفيق الہى اور اسكى مدد كے سبب تھا_

۹_ شوہر دار عورت سے نزديكى اور زناكا ارتكاب، بہت ہى برا اور قبيح گناہ ہے_لنصرف عنه السوء و الفحشاء

۱۰_حضرت يوسفعليه‌السلام ،خداوند متعال كے اطاعت گذار اور مخلص بندوں ميں سے تھا_انه من عبادنا المخلصين

(مخلصين) ( خالص ہونے والوں ) سے مراد يہ ہے كہ غير اللہ كا ان ميں كوئي حصہ نہيں ہے اور وہ كامل طور پر اللہ كے اختيار اور اس كے اوامر كے تحت ہيں اور نہ شيطان ان پر حاكم ہے اور نہ ہى وہ ہوس نفسانى كے قيدى ہيں _

۱۱_ خداوند متعال كے خالص بندے ( جوہر اعتبار سے اطاعت الہى كرتے ہيں ) كبھى بھى گناہ ميں آلودہ اور كسى معصيت كے مرتكب نہيں ہوتے ہيں _لنصرف عنه السوء و الفحشاء انه من عبادنا المخلصين

۱۲_ اللہ عزوجل كے خالص بندے، برہان الہى (ربوبيت الہى پر يقين و غيرہ ...) سے بہرہ مند ہوتے ہيں _

هم بها لو لا أن رء ابرهان ربّه انه من عبادنا المخلصين

۱۳_'' عن الرضا عليه‌السلام ... و ا ما قوله عزوجل فى يوسف عليه‌السلام : '' و لقد همّت به همّ بها '' فانّها همّت بالمعصية و همّ يوسف بقتلهاإن أجبرته فصرف اللّه عنه قتلها و الفاحشه و هو قوله عزوجل : كذلك لنصرف عنه السوء و الفحشاء يعنى

۴۲۶

القتل و الزنا (۱)/ امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے : حضرتعليه‌السلام نے فرمايا كہ اللہ تعالى كاحضرت يوسفعليه‌السلام كے بارے ميں اس فرمان ( ولقد ہمّت بہ و ہمّ بہا) سے مراد يہ ہے كہ اس عورت نے گناہ كا ارادہ كيا ليكن يوسفعليه‌السلام نےيہ ارادہ كيا كہ اگر اس عورت نے انہيں گناہ پر مجبور كيا تو وہ اسے قتل كردے گئے ...'' پس خداوند عالم نے انہيں قتل اور خلاف عفت كام سے محفوظ ركھا اور خداوند عالم كے اس قول'' كذلك لنصرف عنه السوء الفحشاء '' سے مراد يہى ہے_

۱۴_عن على بن الحسين عليه‌السلام انه قال قامت إمراة العزيز الى الصّنم فا لقت عليه ثوبا فقال لها يوسف : ما هذا ؟ قالت : استحيى من الصّنم ان يرانا فقال لها يوسف : ا تستحيين مّمن لا يسمع و لا يبصر و لا ا ستحى أنا ممن خلق الانسان و علّمه فذلك قوله عزوجل : ''لو لا أن را ى برهان ربّه '' (۲)

امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے كہ عزيز مصر كى زوجہ نے ( جو يوسفعليه‌السلام كے ليے خلوت كى جگہ بنائي ہوئي تھي) وہاں سے اٹھى وہاں جوبت موجود تھااس پر كپڑاڈالا _ يوسفعليه‌السلام نے اس سے كہا : كيا كر رہى ہو؟ تو اس نے جواب ديا كہ ميں بت سے شرم كرتى ہوں جو مجھے ديكھ رہا ہے پھر حضرت يوسفعليه‌السلام نے فرمايا جو نہ ديكھتا ہے اور نہ ہى سنتا ہے تو اس سے تو شرم كر رہى ہے ليكن ميں كيا اس سے حيا نہ كروں جس نے انسان كو خلق كيااور اسے علم عطا كيا ہے ؟ يہى وہ بات ہے كہ خداوند متعال نے فرمايا (لو لا أن رأى )

۱۵_عن الصادق عليه‌السلام (فى البرهان الذى را ى يوسف)النبوة المانعة من ارتكاب لفواحش و الحكمة الصارفة عن القبايح (۳)

امام صادقعليه‌السلام فرماتے ہيں : وہ برہان جو يوسفعليه‌السلام نے ديكھا وہ برہان نبوت تھا جو گناہوں سے ارتكاب سے مانع ہوا _ اور وہ حكمت تھى جو برے كاموں سے روكتى ہے_

۱۶_عن الرضا(ع) : لقد همّت به و لو لا أن را ى برهان ربّه لهمّ بها كما همّت به لكنه كان معصوما ً و المعصوم لايّهم بذنب (۴)

امام رضا(ع) فرماتے ہيں : وہ عورت جس نے يوسفعليه‌السلام كا ارادہ كيا تھا اگر يوسفعليه‌السلام برہان الہى كا مشاہدہ نہ كرتے تو وہ بھى ايسا ارادہ كر ليتے حضرت يوسف(ع) معصوم تھے اور معصوم كبھى بھى گناہ كا ارادہ نہيں كرتا_

____________________

۱)عيون الاخبار الرضا ، ج ۱ ، ص ۱۹۳، ح ۱ ب ۱۴; نور الثقلين ج ۲ ، ص ۴۱۹ ، ح ۴۱_۲) عيون الاخبار الرضا ، ج ۲ ، ص ۴۵ ، ح ۱۶۲; نور الثقلين ، ج ، ص ۴۱۹، ح ۴۳_

۳) مجمع البيان ، ج ۵ ، ص ۳۴۴ ; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۴۲۱ ، ح ۵۰_۴) عيون الاخبار الرضا ، ج ۱ ، ص ۲۰۱ ، ح ۱ ، ب ۱۱۵; نور الثقلين ج ۲ ، ص ۴۱۹ ، ح ۴۲_

۴۲۷

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى دليليوں كا فائدہ ۲، ۴، ۵، ۷;اللہ تعالى كى ربوبيت كو درك كرنے كے آثار ۷; اللہ تعالى كى ربوبيت كے آثار ۴; اللہ تعالى كى مدد كا فائدہ ۸

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام كى عصمت كاسبب ۸ ;انبيا ءعليه‌السلام كى عصمت كے عوامل ۷; انبياءعليه‌السلام كے مقامات ۸

ايمان :اللہ تعالى كى ربوبيت پر ايمان ۱۲

حقائق :حقائق كودرك كرنے كے آثار ۷

روايت : ۱۳، ۱۴، ۱۵، ۱۶

زليخا :زليخا اور يوسفعليه‌السلام ۱; زليخا كا آرزو كرنا ۱;زليخا كا ارادہ ۱۳

زنا :زنا كا گناہ ۹;زنا كى پليدى و برائي ۹; شوہر والى عورت سے زنا ۹

ظالمين :ظالمين كى گمراہى ۷

گناہ :گناہ سے عصمت ۶، ۸، ۱۱ ; گناہ كبيرہ۹;گناہ كى پليدى و برائي كو درك كرنے كے آثار ۷; گناہ كے موانع ۴

گنہگار :گنہگاروں كى گمراہى ۷

مخلصين :۱۰

مخلصين اور اللہ تعالى كى دليليں ۱۲;مخلصين كا ايمان ۱۲; مخلصين كى خصوصيات ۱۱، ۱۲مخلصين كى عصمت ۱۱; مخلصين كے فضائل ۱۱

مطيع افراد : ۱۰

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام اور زليخا ۳، ۵ يوسفعليه‌السلام پر اللہ تعالى كى حجت ۲، ۳، ۵، ۱۴، ۱۵، ۱۶; يوسف(ع) كا ارادہ ۱۳;يوسفعليه‌السلام كا خلوص ۱۰; يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۵، ۶، ۱۳، ۱۵، ۱۶; يوسفعليه‌السلام كا مخلصين سے ہونا ۱۰;يوسفعليه‌السلام كى جوانى ۶;يوسف(ع) كى جنسى قوت ۳;يوسف كى حكمت ۱۵; ۱۶;يوسف كى عصمت كا سبب ۵;يوسفعليه‌السلام كى عفت ۵;يوسفعليه‌السلام كى عصمت كے عوامل ۲، ۴;يوسف كى عصمت ۶، يوسف كى فرمانبردارى ۱۰; يوسفعليه‌السلام كى نبوت ۱۵;يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۱۰;يوسف كے مقامات ۶، ۱۶

۴۲۸

آیت ۲۵

( وَاسُتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِن دُبُرٍ وَأَلْفَيَا سَيِّدَهَا لَدَى الْبَابِ قَالَتْ مَا جَزَاء مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِكَ سُوَءاً إِلاَّ أَن يُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِيمٌ )

اور دونوں نے دروازے كى طرف سبقت كى اور اس نے ان كا كرتا پيچھے سے پھاڑ ديا اور دونوں نے اس كے سردار كو دورازہ ہى پر ديكھ ليا _اس نے گھبرا كر فرياد كى كہ جو تمھارے عورت كے ساتھ برائي كا ارادہ كرے اس كى سزا اس كے علاوہ كياہے كہ اسے قيدى بناديا جائے يا اس پر دردناك عذاب كيا جائے (۲۵)

۱_ زليخا، حضرت يوسفعليه‌السلام سے اپنى آرزو كو پورا كرنے اورانكونزديكى پر آمادہ كرنے كے ليے ان سے جھگڑا كرنے پر تل گئي_و استبقا الباب

۲_ حضرت يوسفعليه‌السلام ،ذليخا سے الجھنے سے نجات پانے كى خاطر باہر جانے والے دروازے كى طرف لپكے_

و لقد همت به استبقا الباب

''الباب'' كو معرفہ لانا خاص دروازہ كى طرف اشارہ ہے _مقام كى مناسب سے يہ كہا جا سكتا ہے اس سے مراد باہر نكلنے والا دروازہ ہے_

۳_ گناہ سے آلودہ نہ ہونے كے لئے معصيت كے ماحول سے نكلنے كى كوشش كرنا ضرورى ہے_و استبقا الباب

۴_ زليخا، حضرت يوسفعليه‌السلام كو حاصل كرنے اوران كو باہر جانے سے روكنے كى خاطر ان كے پيچھے جلدى سے باہر جانے والے دروازے كى طرف لپكي_و استبقا الباب

۵_حضرت يوسف(ع) ، زليخا سے دور بھا گنے كى كوشش ميں باہر جانے والے دروازے تك اس سے پہلے پہنچ گئے_

و استبقا الباب و قدت قميضه من دبر

۶_ زليخا نے حضرت يوسفعليه‌السلام كو باہر جانے سے روكنے كے ليے ان كى قميض كو پيچھے سے پكڑا اور اسكو زور سے اپنى طرف كھينچا_و استبقا الباب و قدت قميصه من دبر

۷_ زليخا كا يوسفعليه‌السلام كى قميض كو پكڑنے كى وجہ سے قميض ميں سوراخ ہوگيا اور وہ سارى كى سارى پھٹ گئي_

و قدت قميضه من دبر

۴۲۹

(قدّ) (قدّت) كا مصدر ہے جس كا معنى اوپر سے نيچے تمام كا تمام شگافتہ اور پار ہ كرنا ہے (لسان العرب) اس صورت ميں (قدّ القميص) يعنى اوپر سے نيچے تك سارى كى سارى قميض پھٹ گئي_

۸_ حضرت يوسفعليه‌السلام ، دروازے كو كھولنے اور زليخا كے مكر سے بھاگنے ميں كامياب ہوگئے_

و ألفيا سيدها لدا الباب

۹_ زليخا كا يوسفعليه‌السلام كے پيچھے دوڑنا اور ان كا اس سے بھاگنے كے دوران ہى جب دروازہ كھلا تو انہوں نے عزيز مصر كو دروازے ميں پايا_و الفياسيدها لدا الباب

(إلفا) (ألفيا) كا مصدر ہے جو پانااور روبرو ہونے كے معنى ميں آتا ہے (سيّد) كا معنى سردار اور صاحب عظمت ہے _ ليكن يہاں مراد شوہر ہے_

۱۰_ يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں شوہر كا بيوى كے ليے آقا و سردار ہونا_و ألفيا سيدها لدا الباب

۱۱_ زليخا نے جب اپنے شوہر '' عزيز مصر ''كو ديكھا تو يوسفعليه‌السلام پر اپنے اوپر تجاوز كرنے كے ارادے كى تہمت لگائي _

قالت ما جزاء من ا راد با هلك سوء

(جزاء ) كا معنى انجام اور سزا ہے اور اس آيت شريفہ ميں (ما) نافيہ ہے _ اسى وجہ سے (ما جزاء ) كا معنى يہ ہوگا _ جوتيرى بيوى پر تجاوز كرنے كا ارادہ كرے اسكى سزا نہيں ہوسكتى مگر زندان يا دردناك عذاب _

۱۲_ زليخا كا يوسفعليه‌السلام پر تہمت لگانے ميں پہل كرنا _

و ألفيا سيّدها لدا الباب قالت ما جزاء من ا راد با هلك سوء

۱۳_ زليخا كا عزير مصر كے سامنے اپنى صفائي پيش كرنے كى كوشش كرنا _قالتما جزاء من ا راد با هلك سوء

۱۴_ زليخا كا عزيز مصر كو ابھارنے كا مقصد حضرت يوسف(ع) كا مؤاخدہ اور انہيں سزا دينا تھا _

ما جزا ء من ا راد با هلك سوء ً الا ان يسجن او عذاب اليم

ابھارنے كا معنى زليخا كے قول ( اہلك) سے استفادہ ہوا ہے_يعنى تيرى بيوى كے قول كا استعمال ،عزير مصر كو اسكى سزا و عقاب پر ابھارنے كيخاطر تھا_

۴۳۰

۱۵_ زليخانے عزير مصر كے سامنے يوسفعليه‌السلام كو تجاوزكرنے سے متہم نہيں كيا _ما جزاء من أراد با هلك سوء

مذكورہ بالا معنى كا (أراد )(قصد كيا) كے فعل سے استفادہ كيا گيا ہے_

۱۶_ يوسفعليه‌السلام كو قيد ميں ڈالنا يا اس پر شكنجہ كرنا يہ زليخا كى عزير مصر كو سزا دينے كى تجويزتھي_

ما جزاء من أراد با هلك سو ء اً إلّا ان يسجن ا و عذاب اليم

۱۷_ قديمى و تاريخى مصر اور يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں قيد خانے كا ہونا _إلا أن يسجن

۱۸_ قديمى و تاريخى مصر اور يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں مجرموں كو قيد ميں ڈالنا اور ان پر شكنجہ كرنامتداول و رائج تھا_

إلاّ ان يسجن أو عذاب أليم

۱۹_ قديمى مصر ميں اشراف اور بزرگان كى بيويوں پر تجاوز كا ارادہ كرنا، مستوجب سزا و عقاب تھا_

ما جزاء من أراد با هلك سوء اًإلاّ أن يسجن أو عذاب اليم

۲۰_عن على بن الحسين(ع) : فغلقت الابواب عليها و عليه و قالت : لا تخف و ا لقت نفسها عليه فا فلت منها هاربا إلى الباب ففتحه فلحقته فجذبت قميصه من خلفه (۱)

امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے: ( عزير مصر) كى بيوى نے اپنے اور يوسفعليه‌السلام كے ليے دروازوں كو بند كرديا اور اس سے كہا ڈر و مت : اور اپنے آپ كو اس پر گرادو : حضرت يوسف(ع) اس سے بھاگ گئے اور دروازے كى طرف بھا گنا شروع كرديا اور دروازے كو كھول ديا يہاں تك كہ وہ عورت بھى ان تك پہنچ گئي اور اس نے ان كى قميض كو پيچھے سے كھينچا_

اشراف :اشراف كى بيويوں پر تجاوز كرنے كى سزا ۱۹

روايت : ۲۰

زليخا :زليخا اور عزير مصر ۹، ۱۳، ۱۴; زليخا اور يوسفعليه‌السلام ۱، ۴، ۶، ۷، ۱۱، ۱۲، ۱۵;زليخا اور حضرت يوسف(ع) كى سزا ۱۴ ; زليخا كا صفائي پيش كرنا ۱۳; زليخا تہمتيں ۱۱، ۱۲ ; زليخا كى سازش ۴، ۵، ۶، ۷، ۸، ۱۴; زليخا كى مراد پانے كى كوشش ۱

زندان :

____________________

۱) علل الشرائع ، ص ۴۸، ح ۱ ، ب ۴۱; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۴۱۴، ح ۱۷_

۴۳۱

زندان كى تاريخ ۱۷، ۱۸; يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں زندان ۱۷

سزاء :سزا كى شناخت ۱۸، ۱۹

شكنجہ :شكنجہ كى تاريخ ۱۸; حضرت يوسف(ع) كے زمانے ميں شكنجہ ۱۸

عزير مصر :عزير مصراور حضرت يوسف(ع) كى سزاء ۱۴;عزير مصر كو ابھارنا ۱۴

قديمى مصر :قديمى مصر ميں اشراف كى بيويوں كا احترام ۱۹; قديم مصر ميں شكنجہ ۱۸;قديمى مصر ميں قيد خانہ ۱۷; قديم مصر ميں قيدى بنانا ۱۸

قيد ميں ڈالنا:يوسف(ع) كے زمانہ ميں قيد ميں ڈالنا۱۷

گناہ :گناہ كى جگہ سے اجتناب كى اہميت ۳

مرد كى سردارى :مرد كى سردارى كى تاريخ ۱۰; يوسفعليه‌السلام كے ميں مرد كى سالارى ۱۰

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام اور زليخا۲، ۵، ۹;يوسفعليه‌السلام اورعزيز مصر ۹; يوسف(ع) پر تہمت ۱۱، ۱۲،۱۵;يوسف(ع) پر شكنجہ ۱۶; يوسفعليه‌السلام كابھاگنا ۲، ۵، ۸;يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۴، ۵، ۶، ۷، ۸، ۹، ۱۱، ۱۲، ۱۳، ۱۴، ۱۵، ۱۶، ۲۰; يوسفعليه‌السلام كو قيدى بنانا ۱۶;يوسفعليه‌السلام كى سزاء ۱۶;يوسف(ع) كى قميض ۶ ، ۲۰;يوسفعليه‌السلام كى قميض كا پھٹ جانا۷;يوسفعليه‌السلام كى نجات۸;يوسفعليه‌السلام كے خلاف سازش ۱، ۴، ۵، ۱۴

آیت ۲۶

( قَالَ هِيَ رَاوَدَتْنِي عَن نَّفْسِي وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ أَهْلِهَا إِن كَانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِن قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنَ الكَاذِبِينَ )

يوسف نے كہا كہ اس نے خود مجھے سے اظہار محبت كيا ہے اوراس پر اس كے گھر والوں ميں سے ايك گواہ نے گواہى بھى دے دى كہ اگر ان كا دامن سامنے سے پھٹا ہے تو وہ سچى ہے اور يہ جھوٹوں ميں سے ہيں (۲۶)

۱_ يوسفعليه‌السلام كا زليخا كى تہمت كے مقابلے ميں اپنا دفاع كرنا_

قال هى راودتنى عن نفسي

۲_يوسفعليه‌السلام نے عزيز مصر كے سامنے زليخا كى ناجائز خواہش اور اس كے مقابلے ميں اپنے انكار كرنے كو بيان كيا اور خود كو ہر برے ارادے سے پاك و منزا قرار ديا _قال هى راودتنى عن نفسي

۴۳۲

(هى راودتني ) اور (أناقمت ) كى جو نحوى تركيب ہے كہ مبتداء فاعل كے معنى ميں ہے اور اسكى خبر خود فعل ہے _ كبھى يہ تاكيد پر دلالت كرتى ہے اور كبھى حصر پر دلالت كرتى ہے_ چونكہ يوسف(ع) اپنے سے الزام كو دور كرنے كى كوشش ميں تھے تو اس سے معلوم ہوتا ہے كہ(ہى راودتني) كا جملہ حصر پر دلالت كر رہا ہے _ تو اس صورت ميں جملہ ( ہى راودتنى ) كا معنى يہ ہوگا كہ وہ (زليخا) مجھ سے اپنى آرزو پورى كرنے كى خواہش ركھتى تھى ليكن ميں نے يہ خواہش پورى نہيں كى اور ميں اس سے انكار كرتا رہا_

۳_ ضرورى ہے كہ نامناسب تہمتوں سے انسان اپنا دفاع كرے _

قالت ما جزاء قال هى راودتنى عن نفسي

۴_ اپنے دفاع كے ليے دوسرے كے گناہوں كو افشاء كرنا جائزہے_قالت قال هى راودتنى عن نفسي

۵_ يوسفعليه‌السلام نے زليخا كى نزديكى اور وصال كى خواہش كو اپنے دفاع كے وقت تك مخفى ركھا اور اسے فاش نہيں كيا_

قالت قال هى راودتنى عن نفسي

۶_ يوسفعليه‌السلام اپنے دفاع كے وقت مطمئن اور پر سكون تھے_قال هى راودتنى عن نفسي

يوسفعليه‌السلام نے اپنے اتہام كو دور كرنے كے ليے اپنى كلام (هى راودتنى عن نفسى ) ميں نہ تو تاكيد كے الفاظ استعمال كئے اور نہ ہى قسم وغيرہ اٹھائي _ يہ اس بات كى دليل ہے كہ اس مقام پر حضرت يوسف(ع) نہايت مطمئن اور پر سكون تھے_

۷_ عزيز مصر نے يوسف اورزليخا كے ماجرا ميں اپنى طرف سے فيصلہ نہيں ديا اور جلدى فيصلہكرنے سے پرہيز كيا_

قالت قال هى راودتنى عن نفسى و شهد شاهد من اهله

۸_ زليخا كے رشتہ داروں ميں ايك شخص نے زليخا اور يوسفعليه‌السلام كے ماجرا ميں مداخلت كى اور ان كے درميان اس نے فيصلہ كيا_و شهد شاهد من أهله

۹_ يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے واقعہ ميں قضاوت كرنے والا اگرچہ زليخا كے رشتہ داروں ميں سے تھا ليكن اس نے غير جابندار ہو كر حق كا فيصلہ ديا_

۴۳۳

و شهد شاهد من أهلها إن كان قميصه قدّ من قبل

۱۰_ يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے واقعہ كى قضاوت كرنے والا، اپنا فيصلہ دينے سے پہلے يوسفعليه‌السلام كى قميض كے پھٹ جانے سے آگاہ ہوچكا تھا_و شهد شاهد من أهلها إن كان قميصه قدّ

۱۱_ يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے واقعہ كا فيصلہ كرنے والے نے زليخا كى سچائي اور يوسفعليه‌السلام كے جھوٹ كو يوسفعليه‌السلام كى آگے كى جانب سے قميض كو پھٹنے پر منحصر قرار ديا_ان كان قميصه قدّ من قبل فصدقت و هو من الكاذبين

۱۲_ يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے واقعہ كا فيصلہ كرنے والا، اپنے صحيح فيصلے اور قميض كے پھٹنے پر كامل اطمينان ركھتا تھا_

و شهد شاهد من أهلها إن كا ن قميصه قدّ من قبل

(شہد شاہد) كے جملے ميں گواہى سے مراد اظہار نظر اور قضاوت كرنا وغيرہ ہے _ اس لفظ كا ذكر جو كہ شہادت ومشاہدہ پر موقوف ہے بتاتا ہے كہ وہ شخص اپنى قضاوت و فيصلے پر اتنا مطمئن تھا گويا اس نے ماجرا كو اپنى آنكھوں ہى سے ديكھا ہے_

۱۳_عن على بن الحسين عليه‌السلام ... قال : يوسف و اله يعقوب ما ا ردت بأهلك سوء بل هى راودتنى عن نفسى فسل هذا الصبى و كان عندها من أهلها صبى زائر لها فانطق اللّه الصبى لفصل القضاء فقال انظر الى قميص يوسف (۱)

امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے كہ يوسف نے كہا : مجھے يعقوبعليه‌السلام كے خدا كى قسم ميں تيرى بيوى كے بارے ميں برى نظر نہيں ركھتا تھا_ خود اس نے مجھے دعوت دى تم اس بچے سے پوچھ لو _ وہ بچہ اس عورت كے رشتہ داروں ميں سے تھا جو اس كو ديكھنے كے ليے آيا تھا پھر خداوند متعال نے قضاوت كرنے كے ليے اس بچے كو زبان دى اور وہ كلام كرنے لگا اور اس نے كہا: يوسفعليه‌السلام كى قميض كو ديكھو

احكام :۴

راز فاش كرنا :راز فاش كرنے كا جواز ۴;راز فاش كرنے كے احكام ۴

روايت :۱۳

خود :اپنا دفاع ۱، ۴، ۶;اپنے دفاع كى اہميت ۳، ۵; اپنے سے تہمت كو دور كرنا ۳

زليخا :

۴۳۴

زليخا كا اپنى آرزو كو پورا كرنے كى كوشش كرنا ۲، ۵زليخا كى صداقت كے دلائل ۱۱; زليخا كے رشتہ داروں كى قضاوت ۸، ۹

عزيز مصر :عزيز مصر اور قصّہ يوسفعليه‌السلام ۷

قضاوت :اپنے دعوى كو ثابت كرنے ميں قضاوت كى نشانياں ۱۱; قضاوت ميں عدالت ۹; قضاوت ميں قضاوت كى علامات كا كردار ۱۱

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام اور زليخا كى تہمتيں ۱; يوسفعليه‌السلام اورعزيز مصر ۲; يوسفعليه‌السلام كا پر سكون ہونا ۶; يوسف(ع) كا دفاع ۱، ۶; يوسفعليه‌السلام كا راز فاش كرنا ۲، ۵; يوسف كا صفائي پيش كرنا ۲; يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱، ۲، ۵، ۷، ۹، ۱۰، ۱۲، ۱۳; يوسفعليه‌السلام كا گواہ ۱۳;يوسف(ع) كى قميض ۱۳;يوسف(ع) كى قميض كا پھٹنا ۱۰، ۱۱، ۱۲;يوسف(ع) كے پيش آنے كا طريقہ ۶; يوسفعليه‌السلام كے جھوٹ بولنے كے دلائل ۱۱; يوسفعليه‌السلام كے قصے ميں قاضى كا اطمينان ۱۲; يوسف(ع) كے قصّے كا قاضى ۹، ۱۰، ۱۱

آیت ۲۷

( وَإِنْ كَانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِن دُبُرٍ فَكَذَبَتْ وَهُوَ مِن الصَّادِقِينَ )

اور اگر ان كا كرتا پيچھے سے پھٹا ہے تو وہ جھوٹى ہے اور يہ سچوں ميں سے ہيں (۲۷)

۱_ يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے واقعے كا فيصلہ كرنے والے نے كُرتے كے پيچھے سے پھٹنے كى وجہ سے زليخا كے دعوى كو جھوٹا اور يوسفعليه‌السلام كو سچا قرار ديا _و ان كان و هو من الصادقين

۲_ يوسف(ع) اور زليخا كے قضيے ميں فيصلہ كرنے والے كے نزديك كرتے كا پھٹنا حقيقت كشف ہونے كا محور قرارپايا _

و شهد شاهد و هو من الصادقين

قميض كے پھٹنے سے قضيے كى حقيقت كو بھانپ لينا فيصلہ كرنے والے كى ذہانت وہوشيارى پردلالت

دلالت كرتا ہے_ اور ساتھ ہى اس نے زليخا كے رشتہ دار ہونے كے باوجود بھى حق كو مخفى نہيں ركھا_ اس سے اسكى حق پرستى اور عدالت ثابت ہوتى ہے_

۳_مجرم كى تشخيصكے ليے جرم كى شناخت ميں مختلف طريقوں كو اختيار كرنا ضرورى ہے_ان كان و هو من الصادقين

جرم :

۴۳۵

جرم كو ثابت كرنے كے دليليں ۴

جرم كى شناخت كرنا :جرم كى شناخت كرنے كا طريقہ ۴

زليخا :زليخا كے جھوٹے ہونے كے دلائل ۱

قضاوت :دعوى كو ثابت كرنے ميں قضاوت كے طور طريقے ۱; قضاوت ميں قضائي طور طريقوں كا كردار ۱

مجرمين :مجرمين كى تشخيص كا طريقہ ۴

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كى سچائي كے دلائل ۱;يوسفعليه‌السلام كى قميض كا پھٹ جانا ۱، ۲; يوسفعليه‌السلام كے قصّے كا قاضى ۱; يوسفعليه‌السلام كے قصّے كى قضاوت ۳;يوسفعليه‌السلام كے قصہ كے قاضى كى عدالت ۳; يوسفعليه‌السلام كے قصّے ميں قاضى كے فضائل ۳; يوسفعليه‌السلام كے قصّےميں قاضى كى كام ميں سوجھ بوجھ ۳

آیت ۲۸

( فَلَمَّا رَأَى قَمِيصَهُ قُدَّ مِن دُبُرٍ قَالَ إِنَّهُ مِن كَيْدِكُنَّ إِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيمٌ )

پھر جو ديكھا كہ ان كا كرتا پيچھے سے پھٹا ہے تو اس نے كہا كہ يہ تم عورتوں كى مكار ى ہے تمھارا مكر بہت عظيم ہوتاہے (۲۸)

۱_ عزيز مصر نے يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے ماجرا كى حقيقت كو كشف كرنے كے ليے خود ہى تحقيق كى اور قميض اور اسكے پھٹ جانے كے انداز كا ملاحظہ كيا _فلّمارءا قميصه قُدّ من دُبر

ظاہر يہ ہے كہ ( رأي) ميں ضمير، عزيز مصر كى طرف لوٹتى ہے_

۲_ عزيز مصر، نے حضرت يوسفعليه‌السلام كے كرتے كو پيچھے سے پھٹا ہوا ديكھ كر ان كى سچائي كوسمجھ ليا_

فلما رءا قميصه قُدّ من دُبر قال انه من كيدكنّ

۳_ عزيز مصر نے يوسفعليه‌السلام كى سچائي كو جاننے كے بعد يوسفعليه‌السلام كے حق ميں فيصلہ ديا اور زليخا كو مجرم ٹھہرايا_

فلما رءاى قميصه قدّ من دبر قال انه من كيدكن

۴_ عزيز مصر نے واقعہ يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے قاضى كى طرف سے پيش كردہ شواہدكو حضرت يوسفعليه‌السلام سے

۴۳۶

تہمت دور كرنے اور اسكى بے گناہى كو ثابت كرنے ليے كافى سمجھا_فلما رءا قميصه قدّ من دبر قال انه من كيدكن

۵_ عزيز مصر نے يوسفعليه‌السلام كى حقانيت كو سمجھنے كے بعد عورتوں كو مكر و حيلہ سے مجسم انسان قرار ديا _

إنه من كيدكنَّ

۶_ ناجائز جنسى روابط اور اخلاقى انحرافات كو وجود ميں لانے ميں عورتوں كا بہت زيادہ حصہ ہے_انه من كيدكنَّ

مذكورہ معنى اس صورت ميں ہے جب ( انّہ ) كى ضمير وصال كے ارادے كى محبت كى طرف لوٹ رہى ہوجس كا جملہ ( ہى راودتنى ) سے استفادہہوتاہے _

۷_ عزيز مصر نے يوسفعليه‌السلام سے اپنى آرزو پورا كرنے والے مكر كو زليخا كے زنانہ مكر و حيلوں سے قرار ديا _

إنّه من كيدكن

يہ احتمال ہے كہ ( انّہ) كى ضمير (غلقت الابواب ) كے جملے سے جو حقيقت ظاہر ہوتى ہے كى طرف پلٹے مذكورہ معنى اسى احتمال كى بناء پر ہے_

۸_ عزيز مصر نے زليخا كا حضرت يوسفعليه‌السلام كو متہم كرنے اور ان كے ليے سزا كے مقرر كرنے ميں پہل كرنے كو زليخا كا مكر قرار ديا _قالت ما جزاء من أراد با هلك سوء اً انه من كيدكنَّ

مذكورہ بالا معنى اس صورت ميں ہے كہ جب (انّہ ...) كى ضمير كو ( قالت ما جزاء ...) آيت ۲۵ كے معنى كى طرف لوٹائيں اور وہ معنى يہ ہے كہ زليخا نے اپنے آپ كو پاكدامن اورمقابل كو گنہگار ثابت كرنے ميں پہل كى ہے_

۹_ عزيم مصر كا عورتوں كے مزاج اور ان كے مكر و فريب سے آگاہ ہونا _إن كيد كنَّ عظيم

۱۰_ عورتوں كامكر و فريب، بہت ہى بڑا مكر و فريب ہوتا ہے_ان كيدكن عظيم

اگرچہ جملہ ( ان كيدكن عظيم ) عزيز مصر كا كلام ہے _ ليكن مفسرين قائل ہيں كہ اگر قرآن مجيد ميں خداوند متعال كسى كلام كو نقل كرے اور اسكو ردّ نہ كرے تو اس سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ كلام حق ہے_

۱۱_ مكر و فريب عورتوں كاوہ ذريعہ ہے جن سے وہ اخلاقى فساد وانحراف ايجادكرتى ہيں _انه من كيدكنَّ

۱۲_ عورتوں كے مكر و فريب سے ہوشيار رہنا ضرورى ہے_انه من كيدكن انه كيدكنَّ عظيم

۴۳۷

۱۳_ عزيز مصر كا يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے قصّے ميں اپنى رائے دينے اور قضاوت كرنے ميں عدالت اور انصاف سے كام لينا _فلما رءا قميصه قال إنه من كيدكنَّ إن كيدكُنَّ عظيم

اخلاق :اخلاقى فساد كے عوامل ۶

زليخا :زليخا كا مكر ۷، ۸;زليخا كى آرزو پورى كى خواہش ۷;زليخا كى تہمتيں ۴، ۸; زليخا كے خلاف فيصلہ ہونا ۳

عزيز مصر :عزيز مصر اور زليخا ۳، ۷; عزيز مصر اور عورتوں كا مكر ۹;عزيز مصر اور يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱، ۷، ۸، ۱۳;عزيز مصر اور يوسفعليه‌السلام كى صداقت ۲; عزيز مصر اور يوسف ۳، ۴، ۵; عزيز مصر كا آگاہ ہونا ۹;

عزيز مصر كا چھان بين كرنا ۱; عزيز مصر كى عدالت ۱۳; عزيز مصر كى قضاوت ۱۳

عورتيں :عورتوں كا فساد پھيلانا ۶، ۱۱; عورتوں كا مكر ۵، ۷، ۸، ۱۰، ۱۱ ; عورتوں كے مكركے مقابلہ ميں ہوشيار و چالاك ہونا ۱۲

فساد :فساد كا ذريعہ۱۱

گمراہى :گمراہى كا ذريعہ ۱۱

مكر :بہت بڑا مكر ۱۰

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام پر تہمت ۴، ۸;يوسفعليه‌السلام كى صداقت ۳، ۵; يوسفعليه‌السلام كى صداقت كے دلائل ۲، ۴; يوسفعليه‌السلام كے كرتے كا پھٹ جانا ۱، ۲، ۴

۴۳۸

آیت ۲۹

( يُوسُفُ أَعْرِضْ عَنْ هَـذَا وَاسْتَغْفِرِي لِذَنبِكِ إِنَّكِ كُنتِ مِنَ الْخَاطِئِينَ )

يوسف اب تم اس سے اعراض كرو اور زليخا تو اپنے گناہ كے لئے استغفار كر كہ تو خطا ركاروں ميں ہے (۲۹)

۱_ عزيز مصر نے يوسفعليه‌السلام سے چاہا كہ زليخا كے معاملے كو بھلاو اور اسكو چھپادے_يوسف أعرض عن هذ

(اعرض عن هذا ) كا معنى زليخا كے ماجرے كو فراموش كرنا يعنى اسكو مخفى كرنے اوراس سے صرف نظر كرنے كے معنى ميں ہے_ يعنى اس كے بارے ميں كسى سے گلا و شكوہ نہيں كرنا _ كيونكہ زليخا كے خلافكسى قسم كا اقدام كرنا حضرت يوسف(ع) كے مقام جو كہ ايك زرخريد غلام تھے سے سازگار نہيں تھا_

۲_ واقعہ كى حقيقت ظاہر ہونے كے بعد عزيز مصر كى طرف سے حضرت يوسفعليه‌السلام كا اكرام و احترام _

يوسف أعرض عن هذا

لفظ ( يوسف ) منادى اور ( يا) حرف نداء ہے جو يہاں حذف ہوگيا ہے _ عزيز مصر اس كو حذف كركے يوسفعليه‌السلام سے اپنى قربت اور محبت كا اظہار كرنا چاہتا ہے اور انكا نام لے كر ان سے اپنى مہربانى اور عطوفت كو بيان كر رہاہے_

۳_ عزيز مصر كے سامنے جب زليخا كى غلطى ثابت ہوگئي تو اس نے اسے استغفار كرنے اور گناہ سے معافى طلب كرنے كے ليے كہا _و استغفرى لذنبك إنّك كنت من الخاطئين

جملہ (و استغفرى لذنبك ) ''اپنے گناہوں كى معافى مانگو''ميں يہ بيان نہيں ہوا كہ زليخا كس سے معافى طلب كرے _ بعض مفسرين نے كہا ہے كہ استغفار سے مراد خداوند متعال سے استغفار كرنا ہے _ بعض نے كہا ہے كہ خود عزيز مصر سے معافى طلب كرنا مرادہے_

۴_ عورت كا اپنے شوہر كے علاوہ كسى سے جنسى رابطہ ركھنا نامناسب اور ناجائز ہے _و استغفرى لذنبك

۵_ قديم ايّام سے انسان، عورت كا اپنے شوہر كے علاوہ كسى سے جنسى روابط كے ناجائز و نامناسب ہونے كا اعتقاد ركھتا تھااور اس كى تاكيد كرتاتھا_و استغفرى لذنبك إنك كنت من الخاطئين

۴۳۹

زليخا :زليخا كے مكر كو چھپانا ۱

عزيز مصر :عزيز مصر اور زليخا ۳; عزيز مصر اور يوسفعليه‌السلام ۱، ۲; عزيز مصر كى توقعات ۱، ۳

ناجائز روابط :ناجائز روابط تاريخ كى نظر ميں ۵; ناجائز روابط كى برائي ۵;نامحرم سے رابطہ ۴

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام سے درخواست كرنا ۱;يوسفعليه‌السلام كا احترام ۲ ; يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱، ۲، ۳

آیت ۳۰

( وَقَالَ نِسْوَةٌ فِي الْمَدِينَةِ امْرَأَةُ الْعَزِيزِ تُرَاوِدُ فَتَاهَا عَن نَّفْسِهِ قَدْ شَغَفَهَا حُبّاً إِنَّا لَنَرَاهَا فِي ضَلاَلٍ مُّبِينٍ )

اور پھر شہر كى عورتوں نے كہنا شروع كرديا كہ عزيز مصر كى عورت اپنے جوان كو اپنى طرف كھينچ رہى تھى اور اسے اس كى محبت نے مدہوش بنا ديا تھا ہم يہ ديكھ رہے ہيں كہ يہ عورت بالكل ہى كھلى ہوئي گمراہى ميں ہے (۳۰)

۱_ زليخا كا يوسفعليه‌السلام سے عشق اور اسكا ان سے اپنى آرزو كو پورا كرنے كى خواہش كرنا، شہر ميں پھيل گيا _

و قال نسوة فى المدينة امرأت العزيز تراودفتىاها

۲_ مصر كے دار لخلافہ ميں يوسف(ع) اور زليخا كے قصہ كى خبر عام ہونے كاسبب اشراف كى عور تيں تھيں _

و قال نسوة فى المدينة

مذكورہ معنى اس صورت ميں ہوسكتا ہے كہ جب (فى المدينة) كا جملہ ( قال) كے متعلق ہو لہذا جملہ يوں ہوگا ( قال نسوة فى المدينة ...) يعنى عورتوں نے يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے عشق كو اس شہر ( دار الخلافہ مصر ) ميں پھيلا ديا _

۳_ زليخا كا يوسفعليه‌السلام سے عشق اور اسكا ان سے اپنى آرزو كو پورا كرنےكے لئے اصرار، اشراف لوگوں كى بيويوں كى زبان پر جارى ہوگيا _و قال نسوة فى المدينة امرأت العزيز ترادو فتى ها عن نفسه

( فى المدينة) ممكن ہے (قال) كے متعلق ہو

۴۴۰