تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 6%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 205889 / ڈاؤنلوڈ: 4272
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۸

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

٢۔ وضو کو قصد قربت کے ساتھ انجام دینا چاہئے یعنی خدائے تعالیٰ کے حکم کو بجالانے کے لئے وضو انجام دے۔(١)

٣۔ضروری نہیں کہ نیت کو زبان پر لا ئے ،یا اپنے دل ہی دل میں (کلمات نیت) دہرائے،بلکہ اسی قدر کافی ہے کہ جانتاہو کہ وضو انجام دے رہا ہے، اس طرح کہ اگر اس سے پوچھا جائے کہ کیا کررہا ہے؟ تو جواب میں کہے کہ وضو کررہا ہوں ۔(٢)

مسئلہ: اگر نماز کا وقت اتنا تنگ ہوچکا ہوکہ و ضو کرنے کی صورت میں پوری نماز یا نماز کا ایک حصہ وقت گزرنے کے بعد پڑھا جائے گا تو اس صورت میں تیمم کرنا چاہئے(٣)

____________________

(١)توضیح المسائل،ص ٣١شرط ہشتم.

(٢)توضیح المسائل،م ٢٨٢.

(٣) توضیح المسائل، م ٠ ٢٨.

۶۱

سبق: ٨ کا خلاصہ

١۔وضو کاپانی پاک ، مطلق اور مباح ہونا چاہئے ، لہٰذا نجس ومضاف پانی سے وضو کرنا ہر حالت میں باطل ہے، چاہے پانی کے مضاف یا نجس ہونے کے بارے میں علم رکھتا ہویانہیں۔

٢۔ غصبی پانی سے وضو کرنا باطل ہے، البتہ اگر جانتا ہو کہ پانی غصبی ہے۔

٣۔ اگر وضو کے اعضا نجس ہوں تو وضو باطل ہے ،اسی طرح اگر وضو کے اعضاپر کوئی مانع ہوکہ پانی اعضا تک نہ پہنچ پائے تو وضو باطل ہے۔

٤۔ اگر وضو میں ترتیب وموالات کا لحاظ نہ رکھا جائے تو وضو باطل ہے۔

٥۔ جو خود وضو کرسکتا ہو اسے دھونے یا مسح کرنے میں کسی دوسرے کی مدد نہیں لینی چاہئے

٦۔ وضو کو خدائے تعالیٰ کا حکم بجالانے کی نیت سے انجام دینا چاہئے۔

٧۔ اگر انسان وضو کرنے کی صورت میں اسکی پوری نماز یا نماز کا ایک حصہ وقت گزرنے کے بعد پڑھا جائے گا تو اس صورت میں تیمم کرنا چاہئے۔

۶۲

سوالات:

١۔ مختلف اداروں کے وضوخانوں میں وہاں کے ملازموں کے علاوہ دوسرے لوگوں کا وضو کرنا کیا حکم رکھتا ہے؟

٢۔ پانی کے ان منابع یا پانی سرد کرنے کی مشینوںسے جو پینے کے پانی کے لئے مخصوص ہوں، وضو کرنا کیا حکم رکھتا ہے؟

٣۔ جوخود وضو انجام دینے سے معذور ہو، اس کا فرض کیا ہے؟

٤۔ وضو میں قصد قربت کی وضاحت کیجئے۔

٥۔ وضوکی ترتیب وموالات میں کیا فرق ہے؟

۶۳

سبق نمبر٩

وضوء جبیرہ

'' جبیرہ'' کی تعریف:جودوائی زخم پر لگائی جاتی ہے یا جوچیز مرہم پٹی کے عنوان سے زخم پر باندھی جاتی ہے، اسے'' جبیرہ'' کہتے ہیں ۔

١۔ اگر کسی کے اعضائے وضو پر زخم یا شکستگی ہو اور معمول کے مطابق وضو کرسکتاہو، تواسے معمول کے مطابق وضو کرنا چاہئے،(١)

مثلاً:

الف۔ زخم کھلاہے اور پانی اس کے لئے مضرنہیں ہے۔

ب۔ زخم پر مرہم پٹی لگی ہے لیکن کھولنا ممکن ہے اور پانی مضر نہیں ہے ۔

٢*خم چہرے پر یا ہاتھوں میں ہواور کھلا ہو تو اس پر پانی ڈالنا مضر ہو*، اگر اس کے اطراف کو دھویا جائے تو کافی ہے۔(٢)

____________________

(١)توضیح المسائل م ٣٢٤۔ ٣٢٥

(٢) توضیح المسائل م ٤ ٣٢۔ ٥ ٣٢.

*(اراکی) اگر تر ہاتھ اس پر کھینچنا مضر نہ ہوتو ہاتھ اس پر کھینچ لیں اور اگر ممکن نہ ہو تو ایک پاک کپڑا اس پر رکھ کر ترہاتھ اس پر کھنچ لیں اور اگر اس قدربھی مضر ہو یازخم نجس ہو اور پانی نہیں ڈال سکتا ہو تو اس صورت میں زخم کے اطراف کو اوپرسے نیچے کی طرف دھولیں اور احتیاط کے طور پر ایک تیمم بھی انجام دے (گلپائیگانی) تر ہاتھ کو اس پر کھینچ لے اور اگر یہ بھی مضر ہوتو یا زخم نجس ہواور پانی ڈال نہ سکتے ہوں تو اس صورت میں زخم کے ا طراف کو اوپرسے نیچے کی طرف دھولیں تو کافی ہے. (مسئلہ ٣٣١)

۶۴

٣۔ اگر زخم یا شکستگی سرکے اگلے حصے یا پائوں کے اوپروالے حصہ (مسح کی جگہ) میں ہو، اور زخم کھلا ہو، اگر مسح نہ کرسکے ، تو ایک کپڑا اس پر رکھ کر ہاتھ میں موجود وضو کی باقی ماندہ رطوبت سے کپڑے پر مسح کریںز۔(١)

وضوء جبیرہ انجام دینے کا طریقہ:

وضوء جبیرہ میں وضو کی وہ جگہیں جن کو دھونا یا مسح کرنا ممکن ہو، معمول کے مطابق دھویا یامسح کیا جائے، اور جن مواقع پر یہ ممکن نہ ہو، تو ترہاتھ کو جبیرہ پر کھنچ لیں۔

چندمسائل:

١۔ اگر جبیرہ نے حد معمول سے بیشتر زخم کے اطراف کو ڈھانپ لیا ہو اور اسے ہٹانا ممکن نہ ہو٭٭ تو وضو جبیرہ کرنے کے بعد ایک تیمم بھی انجام دینا چاہئے۔(٢)

٢۔ جو شخص یہ نہ جانتاہوکہ اس کا فریضہ وضوء جبیرہ ہے یا تیمم احتیاط واجب کی بناپر اسے دونوں (یعنی وضوء جبیرہ وتیمم)انجام دینا چاہئے۔(٣)

٣۔ اگر جبیرہ نے پورے چہرے یا ایک ہاتھ کو پورے طور پرڈھانپ لیا ہوتو وضوء جبیرہ کافی ہے۔٭٭٭

____________________

(١) توضیح المسائل ، م ٣٢٦

(٢)توضیح المسائل۔م ٣٣٥.

(٣) توضیح المسائل۔م ٣٤٣

*(گلپائیگانی) احتیاط کی بناپر لازم ہے کہ تیمم بھی کریں ( خوئی) تیمم کرنا چاہئے، اور احتیاط کے طور پر وضوجبیرہ بھی کرے. (مسئلہ ٣٣٢)

٭٭(خوئی) تیمم کرنا چاہئے، مگریہ کہ جبیرہ تیمم کے مواقع پر ہو تو اس صورت میں ضروری ہے کہ وضو کرے اور پھر تیمم بھی کرے (مسئلہ ٣٤١).

٭٭٭ (خوئی) احتیاط کی بناء پر تیمم کرے اور وضوء جبیرہ بھی کرے، (گلپائیگانی) وضوء جبیرہ کرے اور احتیاط واجب کی بناء پر اگرتمام یا بعض تیمم کے مواقع پوشیدہ نہ ہوں تو تیمم بھی کرے.(مسئلہ ٣٣٦)

۶۵

٤۔ جس شخص کی ہتھیلی اور انگلیوں پر جبیرہ (مرہم پٹی)ہو اور وضو کے وقت اس پر ترہاتھ کھینچاہو، تو سراور پا ئوں کو بھی اسی رطوبت سے مسح کرسکتا ہے (ز)یا وضو کی دوسری جگہوں سے رطوبت لے سکتا ہے۔(١)

٥۔اگر چہرہ اور ہاتھ پر چند جبیرہ ہوں،تو ان کی درمیان والی جگہ کو دھونا چاہئے، یا اگر (چند) جبیرہ سر اور پائوں کے اوپر والے حصے میں ہوں تو ان کے درمیان والی جگہوں پر مسح کرنا چاہئے، اور جن جگہوں پرجبیرہ ہے ان پر جبیرہ کے حکم پر عمل کرے۔(٢)

جن چیزوں کے لئے وضو کرنا ضروری ہے

١۔ نماز پڑھنے کے لئے(نماز میت کے علاوہ)

٢۔ طواف خانہ کعبہ کے لئے ۔

٣۔بدن کے کسی بھی حصے کی کسی جگہ سے قرآن مجید کی لکھائی اور خدا کے نام کو مس کرنے کے لئے۔(٣) ٭٭

چند مسائل:

١۔اگر نماز اور طواف وضو کے بغیر انجام دے جائیں تو باطل ہیں۔

٢۔ بے وضو شخص، اپنے بدن کے کسی حصے کو درج ذیل تحریروں سے مس نہیں کرسکتاہے:

* قرآن مجید کی تحریر، لیکن اس کے ترجمہ کے بارے میں کوئی حرج نہیں ۔

*خدا کا نام، جس زبان میں بھی لکھا گیا، جیسے: اللہ، '' خدا'' '' God ''۔

*پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا اسم گرامی(احتیاط واجب کی بناء پر)

*ائمہ اطہار علیہم السلام کے اسماء گرامی (احتیاط واجب کی بناء پر)

____________________

(١)توضیح المسائل م٣٣٢.

(٢)توضیح المسائل م٣٣٤.

(٣)توضیح المسائل م٣١٦.

*(خوئی ، گلپائیگانی) سر اور پائوں کو اسی رطوبت سے مسح کرے (مسئلہ ٣٣٨)

٭٭اس مسئلہ کی تفصیل ٤٤ویں سبق میں آئے گی۔

۶۶

*حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا اسم گرامی(١) (احتیاط واجب کی بناء پر)

درج ذیل کاموں کے لئے وضو کرنا مستحب ہے:

*مسجد اور ائمہ (ع) کے حرم جانے کے لئے۔

*قرآن پڑھنے کے لئے۔

*قرآن مجید کو اپنے ساتھ رکھنے کے لئے۔

*قرآن مجید کی جلد یا حاشیہ کو بدن کے کسی حصے سے مس کرنے کے لئے۔

*اہل قبور کی زیارت کے لئے(٢)

وضو کیسے باطل ہوتا ہے؟

١۔انسان سے پیشاب،یا پاخانہ یا ریح خارج ہونا۔

٢۔نیند،جب کان نہ سن سکیں اور آنکھیں نہ دیکھ سکیں۔

٣۔وہ چیزیں جو عقل کو ختم کردیتی ہیں،جیسے:دیوانگی،مستی اور بیہوشی۔

٤۔عورتوں کا استحاضہ وغیرہ۔*

٥۔جوچیز غسل کا سبب بن جاتی ہے،جیسے جنابت،حیض، مس میت وغیرہ۔(٣)

____________________

(١)توضیح المسائل م٣١٧، ٣١٩.

(٢)توضیح المسائل م٣٢٢.

(٣)توضیح المسائل م ٢٢٣

*یہ مسئلہ خواتین سے مربوط ہے، اس کی تفصیلات کے لئے توضیح المسائل مسئلہ ٣٣٩ تا ٥٢٠ دیکھئے.

۶۷

سبق ٩ کا خلاصہ

١۔جس شخص کے اعضائے وضو پر زخم،پھوڑا یا شکستگی ہو لیکن معمول کے مطابق وضو کرسکتا ہے تو اسے معمول کے مطابق وضو کرنا چاہئے۔

٢۔جو شخص اعضائے وضو کو نہ دھو سکے یا پانی کو ان پر نہ ڈال سکتا ہو تو اس کے لئے زخم کے اطراف کو دھونا ہی کافی ہے ، اور تیمم ضروری نہیں ہے۔

٣۔اگر زخم یا چوٹ پر پٹی بندھی ہو،لیکن اس کو کھولنا ممکن ہو(مشکل نہ ہو)تو جبیرہ کو کھول کر معمول کے مطابق وضو کرے۔

٤۔جب زخم بندھا ہو اور پانی اس کے لئے مضر ہو تو اسے کھولنے کی ضرورت نہیں اگر چہ کھولنا ممکن بھی ہو۔

٥۔نماز،طواف کعبہ،بدن کے کسی حصہ کو قرآن مجید کے خطوط اور خدا کے نام سے مس کرنے کے لئے وضو کرنا ضروری ہے۔

٦۔بدن کے کسی حصے کو وضو کے بغیر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ائمہ اطہار اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہم اجمعین کے اسمائے گرامی سے مس کرنا احتیاط واجب کی بناء پر جائز نہیں ہے۔

٧۔پیشاب اور پاخانہ کا نکلنا وضو کو باطل کردیتا ہے۔

٨۔نیند،دیوانگی،بیہوشی،مستی،جنابت،حیض اور مس میت وضو کو باطل کردیتے ہیں۔

۶۸

سوالات:

١۔جس شخص کے پائوں کی تین انگلیوں پر جبیرہ (مرہم پٹی)ہو تو وضو کے سلسلے میں اس کا کیا فریضہ ہے؟

٢۔وضوء جبیرہ انجام دینے کا طریقہ مثال کے ساتھ بیان کیجئے؟

٤۔کیا جبیرہ پر موجود رطوبت سے مسح کیا جاسکتا ہے؟

٤۔اگر جبیرہ نجس ہو اور اسے ہٹانا بھی ممکن نہ ہو تو فریضہ کیا ہے؟

٥۔کیا اونگھنا وضو کو باطل کردیتا ہے؟

٦۔ایک شخص نے میت کو ہاتھ لگادیا تو کیا اس کا وضو باطل ہوجائے گا؟

۶۹

سبق نمبر١٠

غسل

بعض اوقات نماز (اور ہر وہ کام،جس کے لئے وضو لازمی ہے)کے لئے غسل کرنا چاہئے، یعنی حکم خدا کو بجالانے کے لئے تمام بدن کو دھونا، اب ہم غسل کے مواقع اور اس کے طریقے کو بیان کرتے ہیں:

واجب غسلوں کی قسمیں:

مردوںاور عورتوں کے درمیان مشترک

١۔جنابت

٢۔مس میت

٣۔میت

عورتوں سے مخصوص

١۔حیض

٢۔استحاضہ

٣۔نفاس

غسل کی تعریف وتقسیم کے بعد ذیل میں واجب غسل کے مسائل بیان کریں گے:

غسل جنابت:

١۔انسان کیسے مجنب ہوتا ہے؟

جنابت کے اسباب:

١۔منی کا نکلنا

کم ہو یا زیادہ

سوتے میں ہو یا جاگتے میں

۷۰

٢۔جماع

حلال طریقہ سے ہو یا حرام منی نکل آئے یا نہ نکلے(١)

٢۔اگر منی اپنی جگہ سے حرکت کرے لیکن باہر نہ آئے تو جنابت کا سبب نہیں ہوتا۔(٢)

٣۔جو شخص یہ جانتا ہو کہ منی اس سے نکلی ہے یا یہ جانتا ہو کہ جو چیز باہر آئی ہے وہ منی ہے، تو وہ مجنب سمجھا جائے گااور اسے ایسی صورت میں غسل کرنا چاہئے۔(٣)

٤۔جو شخص یہ نہیں جانتا کہ جو چیز اس سے نکلی ہے،وہ منی ہے یا نہیں، تومنی کی علامت ہونے کی صورت میں مجنب ہے ورنہ حکم جنابت نہیں ہے۔(٤)

٥۔منی کی علامتیں:(٥)

*شہوت کے ساتھ نکلے ۔

*دبائو اور اچھل کر نکلے۔

____________________

(١)تحریر الوسیلہج١ص٣٦.

(٢)تحریر الوسیلہ ج١ص٣٦ ، م ١.

(٣)تحریر الوسیلہ ج١ص١٣٦۔العروة الوثقیٰ ج١ص٣٧٨.

(٤)تحریر الوسیلہ ج١ص١٣٦۔ العروة الوثقیٰ ج١ص٣٧٨.

(٥)تحریر الوسیلہ ج١ص١٣٦۔العروة الوثقیٰ ج١ص٣٧٨.

۷۱

*باہر آنے کے بعد بدن سست پڑے۔ *

اس لحاظ سے اگر کسی سے کوئی رطوبت نکلے اور نہ جانتا ہو کہ یہ منی ہے یا نہ،تو مذکورہ تما م علامتوں کے موجود ہونے کی صورت میں وہ مجنب مانا جائے گا، ورنہ مجنب نہیں ہے، چنانچہ اگر ان علامتوںمیں سے کوئی ایک علامت نہ پائی جاتی ہو اور بقیہ تمام علامتیں موجود ہوں تب بھی وہ مجنب نہیں مانا جائے گا،غیر از عورت اور بیمار کے،ان کے لئے صرف شہوت کے ساتھ منی کا نکلنا کافی ہے۔ ٭٭

٦۔مستحب ہے انسان منی کے نکلنے کے بعد پیشاب کرے اگر پیشاب نہ کرے اور غسل کے بعد کوئی رطوبت اس سے نکلے،اور نہ جانتا ہو کہ منی ہے یا نہیں تو وہ منی کے حکم میں ہے۔(١)

وہ کام جو مجنب پر حرام ہیں:(٢)

*قرآن مجید کی لکھائی،خداوندعالم کے نام،احتیاط واجب کے طور پر پیغمبروں،ائمہ اطہار اور حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہم اجمعین کے اسمائے گرامی کو بدن کے کسی حصہ سے چھونا ۔ ٭٭٭

مسجد الحرام اور مسجد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں داخل ہونا،اگر چہ ایک دروازہ سے داخل ہوکر دوسرے سے نکل بھی جائے۔

*مسجد میں ٹھہرنا۔

*مسجد میں کسی چیز کو رکھنا اگر چہ باہر سے ہی ہو۔ ٭٭٭*

____________________

(١)توضیح المسائل م٣٤٨.

(٢)تحریر الوسیلہ ج١ص٣٩٣٨.

*گلپائیگانی:اگر شہوت کے ساتھ اچھل کر باہر آئے یا اچھل کر باہر آنے کے بعد بدن سست پڑے،تو یہ رطوبت حکم منی میں ہے۔

٭٭خوئی اگر شہوت کے ساتھ باہر آئے اور بدن سست پڑے، تو منی کے حکم میں ہے(مسئلہ٣٥٢)

٭٭٭(خوئی)پیغمبروں اور ائمہ علیہم السلام کے نام کو چھونا بھی حرام ہے۔

٭٭٭*(اراکی)اگر توقف نہ ہو تو کوئی چیز مسجد میں رکھنے میں حرج نہیں ہے۔(خوئی)کسی چیز کو اٹھانے کے لئے داخل ہونا بھی حرام ہے۔(مسئلہ٣٥٢)۔

۷۲

*قرآن مجید کے ان سوروں کا پڑھنا،جن میں واجب سجدہ ہے،حتی ایک کلمہ بھی پڑھنا حرام ہے۔ *

*ائمہ علیہم السلام کے حرم میں توقف کرنا۔(احتیاط واجب کی بنا پر)۔ ٭٭

قرآن مجید کے وہ سورے جن میں واجب سجدہ ہیں:

(١)٣٢واں سورہ۔سجدہ۔

(٢)٤١واں سورہ۔فصلت۔

(٣)٥٣واں سورہ۔نجم۔

(٤)٩٦واں سورہ۔ علق۔

چند مسائل:

*اگر شخص مجنب مسجد کے ایک دروازہ سے داخل ہوکر دوسرے سے خارج ہوجائے(عبور توقف کے بغیر)تو کوئی حرج نہیں ہے، البتہ مسجد الحرام اور مسجد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علاوہ کیونکہ ان کے درمیان سے گزرنا بھی جائز نہیں(١)

اگر کسی کے گھر میں نماز کے لئے ایک کمرہ یا جگہ معین ہو(اسی طرح دفتروں اور اداروں میں)تو وہ جگہ حکم مسجد میں شمار نہیں ہوگی۔(٢)

____________________

(١)تحریر الوسیلہ ج ١ص٣٩٣٨.

(٢)العروة الوثقیٰ ج١ص٢٨٨م٣.

*گلپائیگانی،خوئی)صرف آیات سجدہ کا پڑھنا حرام ہے (مسئلہ٣٦١).

٭٭(اراکی)اماموں کے حرم میں بھی جنابت کی حالت میں توقف کرنا حرام ہے. (مسئلہ ٣٥٢)

۷۳

سبق ١٠ کا خلاصہ:

١۔ واجب غسل دو قسم کے ہیں:

الف:مر د اور عورتوں میں مشترک ۔

ب:عورتوں سے مخصوص

٢۔اگر انسان کی منی نکل آئے یا ہمبستری کرے تو مجنب ہوجاتا ہے۔

٣۔جو شخص جانتا ہوکہ مجنب ہوگیا ہے تو اس کو چاہئے کہ غسل بجالائے ،اور جو نہیں جانتا کہ مجنب ہوا ہے یا نہیں؟تواس پر غسل واجب نہیں ہے۔

٤۔منی کے علامتیں حسب ذیل ہیں:

*شہوت کے ساتھ نکلتی ہے۔

*دبائو اور اچھل کر نکلتی ہے۔

*اس کے بعد بدن سست پڑجاتا ہے ۔

٥۔مجنب پر حسب ذیل امور حرام ہیں:

*قرآن کی لکھائی،خدا، پیغمبروں،اور ائمہ اور حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہم اجمعین کے ناموں کو مس کرنا۔

*مسجد الحرام اور مسجد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں داخل ہونا نیز دیگر مساجد میں توقف۔

*کوئی چیز مسجد میں رکھنا۔

*قرآن مجید کے ان سوروں کا پڑھنا جن میں واجب سجدے ہیں ۔

٦۔مساجد سے عبور کرنا،اگر توقف نہ کریں بلکہ ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے سے نکل آئیں تو کوئی حرج نہیں ،صرف مسجد الحرام اور مسجد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں عبور بھی جائز نہیں ہے۔

۷۴

سوالات:

١۔ مرد اور عورتوں کے درمیان مشترک غسلوں کو بیان کیجئے؟

٢۔ایک شخص نیند سے بیدار ہونے کے بعد اپنے لباس میں ایک رطوبت مشاہدہ کرتا ہے لیکن جتنی بھی فکر کی، منی کی علامتیں نہیں پاتا ہے، تو اس کا فریضہ کیا ہے؟

٣۔شخص مجنب کا امام زادوں کے حرم میں داخل ہونے کے بارے میں کیا حکم ہے؟

٤۔کیا شخص مجنب،فوجی چھاؤنیوں، دفتروں اور اداروں کے نماز خانوں میں توقف کرسکتا ہے؟

۷۵

سبق نمبر١١

غسل کرنے کا طریقہ

غسل میں پورا بدن اور سروگردن دھونا چاہئے،خواہ غسل واجب ہو مثل جنابت یا مستحب مثل غسل جمعہ،دوسرے لفظوں میں تمام غسل کرنے میں آپس میں کسی قسم کا فرق نہیں رکھتے، صرف نیت میں فرق ہے۔

____________________

(١)توضیح المسائل م٣٦٨٣٦٧٣٦١.

۷۶

وضاحت:

غسل دوطریقوں سے انجام دیا جاسکتا ہے:

''ترتیبی''اور ''ارتماسی''۔

غسل ترتیبی میں پہلے سروگردن کو دھویاجاتا ہے،پھر بدن کا دایاں نصف حصہ اور اس کے بعد بدن کا بایاں نصف حصہ دھویا جاتا ہے۔

ارتماسی غسل میں،پورے بدن کو ایک دفعہ پانی میں ڈبو دیا جاتا ہے، لہٰذا غسل ارتماسی اسی صورت میں ممکن ہے جب اتنا پانی موجود ہو جس میں پورا بدن پانی کے نیچے ڈوب سکے۔

غسل صحیح ہونے کے شرائط:

١۔موالات کے علاوہ تمام شرائط جو وضو کے صحیح ہونے کے بارے میں بیان ہوئے،غسل کے صحیح ہونے میں بھی شرط ہیں،اور ضروری نہیں ہے کہ بدن کو اوپر سے نیچے کی طرف دھویا جائے۔(١)

٢۔جس شخص پر کئی غسل واجب ہوں تو وہ تمام غسلوں کی نیت سے صرف ایک غسل بجالاسکتا ہے۔(٢)

٣۔جو شخص غسل جنابت بجالائے،اسے نماز کے لئے وضو نہیں کرنا چاہئے، لیکن دوسرے غسلوں سے نماز نہیں پڑھی جاسکتی بلکہ وضو کرنا ضروری ہے۔(٣) *

____________________

(١)توضیح المسائلم٣٨٠.

(٢)توضیح المسائلم٣٨٩.

(٣)توضیح المسائلم٣٩١.

*(خوئی)غسل استحاضۂ متوسطہ اور مستحب غسلوں کے علاوہ دوسرے واجب غسلوں کے بعد بھی وضو کے بغیر نماز پڑھی جاسکتی ہے،اگر چہ احتیاط مستحب ہے کہ وضو بھی کیا جائے(مسئلہ٣٩٧)۔

۷۷

٤۔غسل ارتماسی میں پورا بدن پاک ہونا چاہئے،لیکن غسل ترتیبی میں پورے بدن کا پاک ہونا ضروری نہیں ہے،اور اگر ہر حصہ کو غسل سے پہلے پاک کیا جائے تو کافی ہے۔(١) *

٥۔غسل جبیرہ،وضو ء جبیرہ کی مانند ہے،لیکن احتیاط واجب کی بناء پر اسے ترتیبی صورت میں بجالانا چاہئے۔(٢) ٭٭

٦۔واجب روزے رکھنے والے،روزے کی حالت میں غسل ارتماسی نہیں کرسکتا،کیونکہ روزہ دار کو پورا سر پانی کے نیچے نہیں ڈبوناچاہئے،لیکن بھولے سے غسل ارتماسی انجام دیدے تو صحیح ہے۔(٣)

٧۔غسل میں ضروری نہیں کہ پورے بدن کو ہاتھ سے دھویا جائے،بلکہ غسل کی نیت سے پورے بدن تک پانی پہنچ جائے تو کافی ہے۔(٤)

غسل مس میت :

١۔اگر کوئی شخص اپنے بدن کے کسی ایکحصہ کو ایسے مردہ انسان سے مس کرے جو سرد ہوچکا ہو اور اسے ابھی غسل نہ دیا گیا ہو،تو اسے غسل مس میت کرنا چاہئے۔(٥)

٢۔درج ذیل مواقع پر مردہ انسان کے بدن کو مس کرنا غسل مس میت کا سبب نہیں بنتا:

*انسان میدان جہاد میں درجہ شہادت پر فائز ہوچکاہو اور میدان جہاد میں ہی جان دے چکا ہو۔* * *

____________________

(١)توضیح المسائلم٢٧٢.(٢)توضیح المسائل م٣٣٩.

(٣)توضیح المسائل م٣٧١. (٤)استفتاآت ج١ص٥٦س١١٧.(٥)توضیح المسائلم٥٢١.

*(خوئی)غسل ارتماسی یا ترتیبی میں قبل از غسل تمام بدن کا پاک ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ اگر پانی میں ڈبکی لگانے یا غسل کی نیت سے پانی ڈالنے سے بدن پاک ہوجائے تو غسل انجام پاجائے گا۔

* *(اراکی) احتیاط مستحب ہے کہ ترتیبی بجالائیں نہ ارتماسی، (خوئی) اسے ترتیبی بجالائیں (مسئلہ ٣٣٧) (گلپائیگانی) ترتیبی انجام دیں تو بہتر ہے، اگر چہ ارتماسی بھی صحیح ہے۔ (مسئلہ ٣٤٥)

* * * (خوئی)شہید کے بدن سے مس کرنے کی صورت میں احتیاط واجب کی بنا پر غسل لازم ہے (العروة الوثقیٰ ج١، ص٣٩٠، م١١)

۷۸

*وہ مردہ انسان جس کا بدن گرم ہو اور ابھی سرد نہ ہوا ہو۔

*وہ مردہ انسان جسے غسل دیا گیا ہو۔(١)

٣۔غسل مس میت کو غسل جنابت کی طرح انجام دینا چاہئے،لیکن جس نے غسل مس میت کیا ہو،اور نماز پڑھنا چاہے تو اسے وضو بھی کرنا چاہئے۔(٢)

غسل میت:

١۔اگر کوئی مومن زاس دنیا سے چلا جائے،تو تمام مکلفین پر واجب ہے کہ اسے غسل دیں،کفن دیں،اس پر نماز پڑھیں اور پھر اسے دفن کریں، لیکن اگر اس کام کو بعض افراد انجام دے دیں تو دوسروں سے ساقط ہوجاتا ہے۔(٣)

٢۔میت کو درج ذیل تین غسل دینا واجب ہیں:

اول:سدر (بیری ) کے پانی سے۔

دوم:کافور کے پانی سے۔

سوم:خالص پانی سے۔(٤)

٣۔غسل میت،غسل جنابت کی طرح ہے،احتیاط واجب ہے کہ جب تک غسل ترتیبی ممکن ہو،میت کو غسل ارتماسی نہ دیں۔(٥)

____________________

(١)تحریر الوسیلہ ج١ ص٦٣۔ توضیح المسائل م٥٢٢ و ٥٢٦۔ استفتاآتص٧٩. العروة الوثقیٰج١ص٣٩٠م١١.

(٢)توضیح المسائلم٥٣٠.

(٣)توضیح المسائلم٥٤٢.

(٤)توضیح المسائلم٥٥٠.

(٥)توضیح المسائلم٥٦٥.

*(تمام مراجع)کوئی مسلمان (مسئلہ٥٤٨).

۷۹

عورتوں کے مخصوص غسل:(حیض،نفاس و استحاضہ):

١۔عورت،بچے کی پیدائش پر جو خون دیکھتی ہے،اسے خون نفاس کہتے ہیں۔(١)

٢۔عورت،اپنی ماہانہ عادت کے دنوں میں جو خون دیکھتی ہے،اسے خون حیض کہتے ہیں۔(٢)

٣۔جب عورت خون حیض اور نفاس سے پاک ہوجائے تو نماز اور جن امور میں طہارت شرط ہے ان کے لئے غسل کرے۔(٣)

٤۔ایک اور خون جسے عورتیں دیکھتی ہیں،استحاضہ ہے اور بعض مواقع پر اس کے لئے بھی نماز اور جن امور میں طہارت شرط ہے اُن کے لئے غسل کرنا چاہئے۔(٤)

____________________

(١)توضیح المسائلم٥٠٨.

(٢)توضیح المسائلم٥٥.

(٣)توضیح المسائلم٤٤٦٥١٥.

(٤)توضیح المسائلم٣٩٦٣٩٥.

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

اسى طرح احتمال ہے كہ (نسوة) كے ليے صفت ہو تو دوسرے احتمال كى صورت ميں جملہ ( قال نسوة فى المدينة ...) سے مراد يعنى شہر كى عورتيں زليخا كے قصّے كو ايك دوسرے كے ليے بيان كرتى تھيں _

۴_ زليخا، عزيز مصر كى بيوى تھى _امرأت العزيز

۵_ يوسفعليه‌السلام كا عشق، زليخا كے دل و جان ميں راسخ ہوگيا تھا اور وہ اس عشق كے سامنے مسخّر ہوگئي تھى _قد شغفها حبّ (شغاف ) دل كے پردے يا دل كے مركزى نقطے كو كہا جاتا ہے _ پس ( شغف) كا معنى يہ ہوگا كہ يہ اس كے ليے دل كا غلاف بن گيا يا دل كے مركز تك پہنچ گيا _( شغفہا ) كے فاعل كى ضمير (فتى ہا )) كى طرف لوٹتى ہے اور (حبّاً) تميز ہے جوفاعل كا بدل ہے_ تو عبارت يوں گئي ( شغف حب يوسف اياہا ) يعنى يوسفعليه‌السلام كى محبت زليخا كے ليے دل كا غلاف ہوگئي اور اسكو گھير ليا يا يہ معنى كريں گئے كہ يوسفعليه‌السلام كے عشق نے زليخا كے دل كے پردہ كو پھاڑ كر اسميں نفوذ كرليا _

۶_زليخا كا يوسفعليه‌السلام پر فريفتہ ہونا اور اس كے عشق كى داستان، يوسفعليه‌السلام كى عين جوانى ميں تھى _

تراودفتى ها عن نفسه قد شغفها حبّ

۷_ اشراف كى عورتوں نے زليخا كا ايك زر خريد غلام سے آرزو پورا كرنےكے تقاضا كو برا سمجھا اوراسكى اس بات پر ملامت كرتى تھيں _و قال نسوة فى المدينة امرأت العزيز تراود فتى ها عن نفسه قد شغفها حبّ

(فتا ) غلام اور عبد كے معنى ميں ہے اور جوان كے معنى ميں بھى آتا ہے _ احتمال ديا جاسكتا ہے كہ جملہ (تراود فتاہا ) ميں (فتا) كے دونوں معنى مراد ليے گئے ہوں _

۸_ زرخريد غلام پر عاشق ہونا اور اس سے جنسى آرزو كا تقاضا كرنا، اشراف كى عورتوں اورزليخا كى ہم سن عورتوں كى نظر ميں واضح و روشن غلطى و خطا تھى _قد شغفها حبّاً إنا لنرى ها فى ضلال مبين اشراف كى عورتوں كايوسفعليه‌السلام كو ( غلام يا زليخا كا چھو كرا ) كہنا اس پر انگشت نمائي كرناتھا كہ كيوں اس نے اپنے زرخريد غلام سے عشق كيا ہے_

۹_ زليخا كا يوسفعليه‌السلام سے عشق كرنا در حالانكہ وہ عزيز مصر جيسے شخص كى بيوى تھى يہ اشراف كى عورتوں كے ليے بہت ہى تعجب آور بات اور اسكى بہت ہى سرزنش اور ملامت كا موجب تھى _امرأت العزيز تراود فتى ها عن نفسه

اشراف كى عورتوں كا زليخا كو ( عزيز مصر كى بيوى سے) ياد كرنا اسكى برائي كو زيادہ جلوہ دينا ہے_ يعنى غلاموں سے عشق ومعشوقى تو برى بات ہے چہ جائيكہ عزيز مصر كى بيوى ہو كر يہ كام كرے يہ تو بہت ہى نامناسب بات ہے _

۴۴۱

۱۰_عن على بن الحسين عليه‌السلام ... فلما سمع الملك كلام الصبى قال ليوسف : (أعرض عن هذا ) و اكتمه قال : فلم يكتمه يوسف و ا ذاعه فى المدينه حتى قلن نسوة منهنّ امرا ة العزيز تراود فتاها عن نفسه (۱)

امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے كہ جب بادشاہ نے اس بچے كى بات كو سنا ...تو پھر يوسفعليه‌السلام سے كہا اس بات كو فراموش كردو _ اور اسكو دل ميں ركھ لو _ (امامعليه‌السلام فرماتے ہيں ) كہ يوسفعليه‌السلام نے اس بات كو چھپايا نہيں بلكہ شہر والوں كو بتا ديا _ تب شہر كى چند عورتوں نے يہ كہا كہ عزيز مصر كى بيوى نے غلام كو اپنى ہوس پورى كرنے كى دعوت دى ہے_

۱۱_عن أبى جعفر عليه‌السلام فى قوله '' قد شغفها حبّا'' يقول : قد حجبها حبّه عن النّاس فلا تعقل غيره (۲)

امام باقرعليه‌السلام سےخداوند عالم كے اس قول( قد شغفہا حبّاً) كے بارے ميں سوال كيا گيا تو حضرتعليه‌السلام نے فرمايا : كہ عزيز مصر كى بيوى كے دل پر يوسف(ع) كے عشق نے اس طرح پردہ ڈال ديا تھا كہ وہ لوگوں كو فراموش كرچكى تھى يوسفعليه‌السلام كے علاوہ اسے كسى كى بھى فكر نہيں تھى _

اشراف مصر:اشراف مصر كى عورتيں اور زليخا ۷،۸; اشراف مصر كى عورتيں اور زليخا كى آرزو طلبى ۲، ۳;اشراف مصر كى عورتوں كا تعجب ۹;اشراف مصر كى عورتوں كى فكر ۸

رحجانات :غلام كى طرف رحجان كرنے كى مذمت ۸

روايت : ۱۰، ۱۱

زليخا:زليخا اور عزيز مصر ۴; زليخا كا شوہر ۴;زليخا كا يوسف(ع) سے عشق ۵،۶، ۹،۱۱;زليخا كى سرزنش ۷، ۹; زليخا كے آرزو طلبى كى شہرت ۱، ۳;زليخا كے عشق كى شہرت ۱، ۳; زليخا كے عشق كى شہرت كے عوامل ۲; عزيز مصر اور يوسفعليه‌السلام ۱

عزيز مصر:عزيز مصر كى بيوى ۴;عزيز مصر كى توقعات ۱۰

غلام :غلام سے آرزوپوركرنے پر سرزنش ۷، ۸

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كا فاش كرنا ۱۰; يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۳، ۵، ۶، ۷، ۸، ۹، ۱۰، ۱۱;يوسف(ع) كى جوانى ۶

____________________

۱) علل الشرائع ، ص ۴۹ ، ح ۱ ، ب ۴۹; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۴۱۴ ، ح ۱۷_

۲) تفسير قمى ، ج ۱ ، ص۳۵۷ ; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۴۲۳ ، ح ۵۴_

۴۴۲

آیت ۳۱

( فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَيْهِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً وَآتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِّنْهُنَّ سِكِّيناً وَقَالَتِ اخْرُجْ عَلَيْهِنَّ فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلّهِ مَا هَـذَا بَشَراً إِنْ هَـذَا إِلاَّ مَلَكٌ كَرِيمٌ )

پھر جب زليخا نے ان عورتوں كى مكارى اور تشہير كا حال سنا تو بلا بھيجا اور ان كے لئے پر تكلف دعوت كا انتظام كرے مسند لگادى اور سب كو ايك ايك چھرى دے دى اور يوسف سے كہا كہ تم ان كے سامنے سے نكل جائو پھر جيسے ہى ان لوگوں نھ ديكھا تو بڑا حسين و جميل پايا اور اپنے ہاتھ كاٹ ڈالے اور كہا كہ حاشا اللہ يہ تو آدمى نہيں بلكہ كوئي محترم فرشتہ ہے (۳۱)

۱_ زليخا نے يوسفعليه‌السلام سے اپنے عشق كى داستان پر مصر كى عورتوں كى سرزنش كو سنا اوراس سے آگاہ ہوئي _

فلما سمعت بمكرهنّ

(سمع) كا فعل متعدى ہے _(بأ) كے حرف كے ساتھ متعدى كرنے كى ضرورت نہيں ہے اسى وجہ سے(سمعت بمكرہنّ) كے جملہ ميں (علمت) كا معنى پايا جاتا ہے _ اسى وجہ سے جملے كا معنى يوں ہوگا _ زليخا عورتوں كے مكر سے آگاہ ہوئي اور يہ آگاہ ہونا انخبروں كى بناء پر تھاجو اس كے ليے بيان كى گئيں _

۲_ زليخا كا يوسفعليه‌السلام سے عشق كرنے كا قصّہ، اشراف مصر كى عورتوں كے ليے اس كے خلاف سازش اور پروپيگنڈاكا ہتھيا رتھا_قال نسوة فى المدينة ...فلما سمعت بمكرهنّ

(مكر) سے مراد زليخا كے قصّے كو نقل كرنا ہے (مكر) سے قصّہ كو نقل كرنے كا معنى لينے سے مراد يہ كہ اشراف مصر كى عورتيں ، اس قصّہ كومشہور كر كے زليخا كى شخصيت پر ضرب لگانا اور اس كے خلاف سازش كرنا چاہتى تھيں _

۳_ زليخا، نے عورتوں كى سازش اور سرزنش كرنے والى باتوں سے آگاہى حاصل كرنے كے بعد انہيں اپنے گھر مدعو كيا _

فلما سمعت بمكرهنّ أرسلت اليهنّ

(أرسلت اليہنّ) كا معنى يہ ہے كہ ان كى طرف بھيجا جملہ (و أعتدت لہنّ متّكئاً و ...) كے قرينہ سے معلوم ہوتا ہے كہ اس نے ان كو كھانے كى دعوت دى تھى _

۴۴۳

۴_ زليخا نے عورتوں كى سرزنش كا جواب دينے كے ليے ايك كھانے كى دعوت كا اہتمام كيا جو ايك مخصوص دعوت تھي_

أرسلت إليهنّ و أعتدت لهنّ متّكئا

۵_ زليخا نے مدّ عو عورتوں كے تكيہ لگانے اور آرام كے ليے ايك مخصوص تكيہ گاہ كا انتظام كيا _

و أعتدت لهنّ متّكئا

''اعتاد'' (اعتدت) كا مصدر ہے جو آمادہ اور مہيا كرنے كے معنى ميں آتا ہے _'' متكئا'' اسكو كہتے ہيں جسے تكيہ كے طور پر استعمال كيا جائے _ اسكا نكرہ لانا اسكے مخصوص ہونے كو بيان كرتا ہے _

(متّكئاً) غذا وطعام كے ليے بھى استعمال ہوتا ہے _ اسكا مفرد لانا اور جملہ ( آتت ...) كے ساتھ ذكر كرنا (يعنى ہرايك كو غذا كے ليے چاقو ديا گيا ) ممكن ہے كہ يہاں (متّكئاً) سے مراد (طعام) ہو_

۶_ زليخا نے ہرمدّ عوخاتون كو كھانے كى چيزوں سے استفادہ كے ليے چاقو فراہم كيا _و ء اتت كل واحدة منهنّ سكّينا

۷_ زليخا بنفس نفيس محفل دعوت كو آراستہ كرنے والى اور اشراف كى خواتين كے لئے ميزبان تھى _

و أعتدت لهنّ متّكئاً و ء اتت كل واحدمنهنّ سكّينا

(أعتدت) اور (أتت) كى ضمير (امرأة العزيز) كى طرف لوٹتى ہے اس سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ وہ خود ان كاموں كو انجام دے رہى تھى _ و گرنہ فعل (أعتد) اور (اوتيت) كو مجہول ذكر كيا جاتا _

۸_ زليخا نے جن عورتوں كو يوسف(ع) كے ديداركى دعوت دى تھى وہ دس سے زيادہ نہيں تھيں _

و قال نسوة فى المدينه فلماسمعت بمكرهنّ أرسلت اليهنّ

(مكرہنّ) اور (اليہنّ) كى ضمير'' نسوة'' كى طرف پلٹ رہى ہے جو اس سے پہلے والى آيت ميں ذكر ہے_اور (نسوة) كا لفظ جو جمع قلت كا صيغہ ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ عورتوں كى تعداد دس افراد سے كم تھي_

۹_ كھانے پينے كى چيزوں ميں چاقو كا استعمال قديمى مصر اور يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں رائجتھا_

و ء اتت كل واحدة منهنّ سكّينا

۱۰_ زليخا نے يوسفعليه‌السلام كو مدعو عورتوں سے دور ركھنے كے ليے انہيں عمارت كے اندر والے كمرے ميں رہنے كو كہا _و قالت اخرج عليهنّ

۴۴۴

(خروج) كا لفظ اندر سے باہر آنے كے معنى ميں آتا ہے _(اخرج عليہن )سے معلوم ہوتا ہے كہ جب حضرت يوسف(ع) عورتوں كے مجمع ميں آئے تو اس سے پہلے ايسى جگہتھے جو اندر كا حصہ شمار ہوتا تھا_يعنى اگر دعوت كا پروگرام باہر والے ہال ميں تھا تو زليخا نے حضرت يوسفعليه‌السلام كو اندر والے كمرے ميں ركھا تھا_

۱۱_ جب عورتيں اپنى جگہ پر تكيہ لگائے ہوئے كھانا كھانے كے ليے آمادہ ہوئيں تو زليخا نے يوسفعليه‌السلام سے كہا كہ ان كے سامنے سے گزر جائيں _وقالت اخرج عليهنّ

۱۲_ يوسف(ع) ، زليخا كے حكم كے مطابق بغير كسى وقفہ كے اشراف كى عورتوں ميں آگئے _

قالت أخرج عليهنّ فلمّا راينه

(فاء) (فلما) ميں فصيحہ ہے _ گويا كہ يہاں جملات تقدير ميں ہيں (فخرج عليہنّ فرا ينہ فلما رأينہ) ان جملات كا يہاں محذوف ہونا، بتاتا ہے كہ زليخا كا حكم اور يوسفعليه‌السلام كى بجا آورى ايكجيسى ہے _

۱۳_ زليخا، يوسفعليه‌السلام سے اپنے عشق كو لوگوں پر ظاہر ہونے سے پہلے اشراف مصر كى عورتوں سے انہيں مخفى ركھے ہوئے تھى _امرأة العزيز ترا ودفتيها ...فلما رأينه أكبرنه

۱۴_ اشراف مصر كى عورتوں نے زليخا كى دعوت ميں پہلى بار يوسفعليه‌السلام كا جلوہ ديكھا تھا_

فلما رأينه أكبرنه ...و قلن حاشالله ما هذا بشرّ

۱۵_ اشراف مصر كى عورتيں ، يوسفعليه‌السلام كو ديكھنے كے بعد حيرت زرّہ اور مدہوش ہو گئي_

فلما رأينه أكبرنه و قطّعن ا يديهنّ

''أكبر'' ''أكبران'' كا مصدر ہے جس كا معنى عظمت اور بزرگى والا پانا ہے _

۱۶_ اشراف مصر كى عورتيں ، يوسفعليه‌السلام كو ديكھنے كے بعد بے حال ہوگئيں اور ان كے حسن و جمال كے ديكھنے كے علاوہ كسى چيز كے ادراك پر قادر نہيں تھيں _فلما رأينه أكبر نه و قطعن ايديهن

۱۷_ اشراف مصر كى عورتوں نے يوسفعليه‌السلام كے (حيرت انگيز ) حسن و جمال كے مشاہدہ سے كھانے پر چاقو چلانے كى بجائے اپنے ہاتھوں كو كاٹ ڈالا _فلّما رأينه أكبرنه وقطّعن أيديهن

(قطع ) كامعنى جدا كرنا اور كاٹنے كا ہے _ زخمى اور مجروحكر نے ميں اس لفظ كا استعمال بتا تا ہے كہ زخم اور كاٹنا بہت شديد تھا _ (قطعن ) كے لفظ كا باب تفعيل سے لانا يہ بيان كرتا ہے كہ اشراف مصر كى عورتوں نے اپنے ہاتھوں كومختلف جگہسے

۴۴۵

كاٹ ديا اور (قطيع) كا معنى ٹكڑے ٹكرے كرنے كا ہے_

۱۸_ زليخا، ہوشيار و چالاك اور مكاّر عورت تھى _فلما سمعت بمكرهنّ أرسلت اليهن _و ء اتت كل واحدة منهن سكّيناً فلمّا رأينه أكبرنه

۱۹_ اشرف كى عورتوں نے ايك زبان ہو كر يوسفعليه‌السلام كى عظمت اور انكے پر كشش حسن و جمال كا اعتراف كيا _

فلمّا رأينه و قلن حاشاالله ماهذا البشر _

۲۰_ يوسفعليه‌السلام كا حسن و جمال بے نظير اور دلربا ہونے كے ساتھ زيبائي اورخوبصورتى كى بلنديوں كو چھور ہاتھا_

فلمّا رأينه اكبر نه و قطّعن أيديهن و قلن حاشا الله ماهذا البشر

(فلما راينہ ...) كے جملہ ميں يوسفعليه‌السلام كے حسن و زيبائي اور دلبرا ہو نے كا بيان ہے _ اس كے علاوہ يہ احتمال بھى ديا جاسكتا ہے كہ زليخا، حضرت يوسفعليه‌السلام سے عشق و محبت كرنے پر مجبور تھى _اس احتمال كا مؤيديہ ہے قرآن مجيد نے اسكى مذمت نہيں كى اور يوسف(ع) نے بھى اسكو عشق و معشوقى كے مراحل ميں عذاب الہى سے نہيں ڈراياہے _

۲۱_ انسان كے درك كرنے كى قوت، حسن و جمال كى بلندى كو ديكھ كر كام كرنے سے ہاتھ دھو بيٹھى ہے _

و قطّعن أيديهن

۲۲_ مصر كى عورتوں كے نزديك يوسفعليه‌السلام كا بے مثال حسن انكے انسان ہونے ميں شك و ترديد كا موجب بنا _

حاشالله ماهذا البشر

۲۳_ اشراف كى عورتوں نے يوسفعليه‌السلام كو بلندمرتبہ اور باعظمت فرشتہ پايا _ان هذا الّا ملك كريم

۲۴_ زليخا كو سرزنش اور ملامت كرنے والى عورتوں نے حضرت يوسفعليه‌السلام كا مشاہدہ كرنے كے بعد زليخا كا ان سے عشق و محبت كو باحق قرارديا _فلمّا رأينه أكبرنه إن هذا إلا ملك كريم

۲۵_ يوسفعليه‌السلام كے خدو خال انكى عظمت اور بزرگى كے بيانگر تھے _إن هذا إلا ملك كريم

۲۶_ يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں مصري، خداوند متعال اور اسكے پاك و پاكيزہ ہو نے كے معتقد تھے _حاشالله

۲۷_ عصر يوسفعليه‌السلام كے مصرى لوگ، فرشتوں كے وجود اور انكى زيبائي كے قائل تھے_إن هذا إلا ملك كريم

۴۴۶

۲۸_ فرشتوں كے وجود پر اعتقاد كى بنياد ،تاريخ بشر ميں بہت ہى قديم ہے _إن هذا إلا ملك كريم

۲۹_عن على بن الحسين عليه‌السلام : ...فا رسلت اليهن و هيا ت لهنّ طعاما و مجلساً ثم ا تتهنّ با ترج و (آتت كل واحدة منهن سكينا (۱)

امام سجاد(ع) سے روايت ہے: عزيز مصر كى بيوى نے عورتوں كے ليے ايك (قاصد ) روانہ كيا اور ان كو كھا نے كى دعوت دى او ر ايك محفل ترتيب دى _ اسوقت ان عورتوں كے ہاتھوں ميں ايك چاقو اور ايك سنگترہ ديا _

اشراف مصر :اشراف مصر كى عورتيں اور زليخا ،۲،۲۴; اشراف مصر كى عورتيں اور يوسفعليه‌السلام ۱۴،۱۵ ،۱۶، ۱۷،۱۹، ۲۲، ۲۳ ،۲۴;اشراف مصر كى سوچ ،۲۳، ۲۴;اشراف مصر كى عورتوں كا اقرار ۱۹;اشراف مصر كى عورتوں كا ہاتھ كاٹنا ،۱۷; اشراف مصر كى عورتوں كا تعجب ،۱۵،۱۷;اشراف مصر كى عورتوں كا عجز ،۱۶، اشراف مصر كى عورتوں كا مكر و فريب ،۲;اشراف مصر كى عورتوں كو بلانا ،۲۹;اشراف مصر كى عورتوں كى خدمت و تواضع ،۶،۷; اشراف مصر كى عورتوں كى خدمت وتواضع ،۵،۸،۱۰

چاقو :يوسفعليه‌السلام كے زمانہ ميں چاقو كا استعمال ،۹

خوبصورتى :خوبصورتى كا فائدہ ،۲۱

در ك كرنا :درك كرنے كى قوت كا اثر انداز ہونا ،۲۱

ديكھنے كى طاقت :ديكھنے كى طاقت كا عمل دخل،۲۱

روايت ،۲۹

زليخا :زليخا اور اشراف مصر كى عورتيں ۱۱،۲۹; زليخا اور مصر كى عورتوں كا ملامت كرنا ۱،۳; زليخا اور يوسفعليه‌السلام ۱۰،۱۳; زليخا كا دعوت كرنا ۴; زليخا كا يوسفعليه‌السلام سے عشق ۲،۱۳; زليخا كى چالاكى ۱۸; زليخا كى خواہشات ۱۰;زليخا كى دعوت كا پروگرام ۴،۵ ،۶، ۷، ۱۰ ،۲۹;زليخا كى دعوت ميں چاقو كا استعمال ۶;زليخا كى مصر كى عورتوں كو دعوت ،۳،۴; زليخا كى ہوشيار ى ۱۸;زليخا كے خلاف سازش ۲;زليخا كے صفات ۱۸; زليخا كے مہمانوں كى تعداد ۸

عقيدہ :الله تعالى كے پاك و پاكيزہ ہونے كا عقيدہ۲۶; عقيدہ كى تاريخ ۲۷،۲۸; ملائكہ كے وجود پر عقيدہ ۲۷،۲۸

قديمى اھل مصر :

____________________

۱)علل الشرايع ،ص ۴۹;ح ۱;ب ۴۱; نور الثقلين ،ج۲ ح۴۱۴;ح۱۷_

۴۴۷

قديمى اہل مصر اور ملائكہ ۲۷; قديمى اہل مصر كا عقيدہ ۲۶، ۲۷; قديمى اہل مصر كى الله تعالى كے بارے ميں شناخت۲۶

ملائكہ :ملائكہ كا خوبصورت ہو نا ۲۷

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام اور ملائكہ ;۲۳; يوسفعليه‌السلام زليخا كى دعوت ميں ۱۱،۱۲، ۱۴;يوسف(ع) كا چھپا نا ۱۳;يوسف(ع) كا قصہ ۱،۲ ،۳ ،۴ ، ۵،۶، ۷ ، ۸ ،۱۰، ۱۱،۱۲،۳ ۱،۱۴،۱۵، ۱۶ ،۱۷ ، ۱۹، ۲۲ ،۲۳، ۴ ۲ ، ۲۹;يوسفعليه‌السلام كى بزرگى ۲۵ ; يوسفعليه‌السلام كى خوبصورتى ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۱۹،۲۰،۲; يوسف(ع) كى خصوصيات ۲۰;يوسفعليه‌السلام كى عظمت ۱۹، ۲۳،۲۵;يوسف(ع) كے بشر ہونے ميں شك ۲۲ ; يوسفعليه‌السلام كے خدوخال ۲۵

آیت ۳۲

( قَالَتْ فَذَلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ وَلَقَدْ رَاوَدتُّهُ عَن نَّفْسِهِ فَاسَتَعْصَمَ وَلَئِن لَّمْ يَفْعَلْ مَا آمُرُهُ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُوناً مِّنَ الصَّاغِرِينَ )

زليخا نے كہا كہ يہى _ وہ ہے جس كے بارے ميں تم لوگوں نے ميرى ملامت كى ہے اور ميں نے اسے كھينچنا چاہا تھا كہ يہ بچ كر نكل گيا اور جب ميرى بات نہيں مانى تو اب قيد كيا جائے گا اور ذليل بھى ہوگا (۳۲)

۱_ زليخا نے اشراف مصر كى عورتوں كو يوسفعليه‌السلام كا جلوہ دكھا كر يہ سمجھا يا كہ وہ يوسف(ع) سے عشق كرنے ميں مجھے ملامت نہ كريں _قالت فذلكن الذى لمثننى فيه

۲_ زليخا نے اشراف كى عورتوں كے سامنے يوسف(ع) سے اپنى آرزو كو پورا كرنے كے تقاضاكا اعتراف كيا _

لقد راودته عن نفسه

۳_ زليخا نے اشراف كى عورتوں كے سامنے يوسف(ع) كى پاكدامنى و عفت اور انكا اسكے وصال كى خواہش كو قبول نہ كرنے كى گواہى دي_لقد راودته عن نفسه فا ستعصم

عصمت اور استعصام كا معنى منع كرنا اور قبول نہ كرنے كا ہے ليكن استعصام ميں مبالغہ ہے (فاستعصم )يعنى يوسف(ع) نے بڑى سختى سے ميرى خواہش كو رد كر ديا اور اپنى عفت كو برقرار ركھا_

۴_ زليخا نے اشراف كى عورتوں كے سامنے اس بات كى تاكيد كى وہ وصال يوسف(ع) پراصرار كرے گئي

و لئن لم يفعل ماء امره

۴۴۸

۵_ زليخا نے قسم اٹھائي كہ يوسفعليه‌السلام نے اگر مجھ سے وصال كرنے سے انكار كيا تو وہ اس كو زندان ميں پھينك دے گى اور اسكو ذليل و خوار كرے گئي _و لئن لم يفعل ما ء امره ليسجنن و ليكونا من الصاغرين _

(لئن) ميں ''لام'' ''لام'' تاكيد ہے اور'' يكونا يا يكونن '' ميں فعل مضارع اور نون تاكيد خفيفہ كے ساتھ ہے

۶_ حضرت يوسف(ع) ، عزيز مصر كے دربار ميں قابل احترام اور عظيم شحصيت كے مالك تھے _

و ليكوناً من الصاغرين

۷_ قديمى مصر ميں قيد خانہ كا وجود _ليسجنن

۸_ يوسفعليه‌السلام كو جس زندان ميں قيدكرنے كى دھمكى دى گئي اسميں انہيں ذليل و خواركرنے كے لئے ركھا گيا_

ليسجنن و ليكونا من الصاغرين

(ليكوناً من الصاغرين ) كا جملہ يعنى حقير اور خوار كيا جائے گايہ جملہ (ليسجنن ) يعنى قيدى بنے گا ) كے لئے نتيجہ كے قائم مقام ہے _ كيونكہ يوسف(ع) نے عورتوں كى خواہش كو پورا كرنے كى جگہ قيد خانہ كو ترجيح دى ليكن بعد والى آيت ميں حقير و ذليل ہونے كو ترجيحدينے كے بارے ميں بات نہيں كى ہے_

۹_ زليخا، مصر كى عدالت اور حكومت ميں بہت زيادہ نفوذ ركھتى تھى _و لئن لم يفعل ما ء امر ه ليسجنن وليكوناً من الصاغرين

(ليسجنن ) كے فاعل كو محذوف ركھنا اور اسكو فعل مجہول ذكر كرنا اس بات كو متضمن ہے كہ يوسف(ع) كا زندان ميں جانا اسكے انكار كى وجہ سے ہے _ يعنى زليخا حكومت ميں اتنا اثر ركھتى تھى كہ كسى اور كو اسے حكم دينے كى ضرورت نھيں تھى بلكہ جو بھى اسكا كہنا نہيں مانتا تھا اسكو قيد خانہ ميں ڈال ديتى تھى _

۱۰_عزيز مصر كے زمانہ ميں حكومتى نظام ايك ظالمانہ نظام اور مستقل قضاوت كے شعبہ سے محروم تھا_

ولئن لم يفعل ماء امره ليسجنن وليكوناً من الصاغرين

۱۱_عن على بن الحسين: ...فقالت لهن (فذلكن الذى لمتننى فيه ) يعنى فى

۴۴۹

حبه (۱)

امام سجاد(ع) سے روايت نقل ہوئي ہے: ...عزيز مصر كى بيوى نے (حضرت يوسف(ع) كى طرف اشارہ) كركے خواتين كو خطاب كركے كہا: يہ ہے وہ شخص جس كے بارے ميں تم مجھے ملامت كرتى تھيں : يعنى اس كے عشق كے بارے ميں ميرى سرزنش كرتى تھيں _

روايت:۱۱

زليخا;زليخا اور اشراف مصر كى عورتيں ۱،۲; زليخا اور حضرت يوسفعليه‌السلام ۲; زليخا اور حضرت يوسفعليه‌السلام كا انكار ۵;زليخا اور حضرت يوسفعليه‌السلام كى ذلّت۵;زليخا كا اقرار ۲،۴;زليخا كا حضرت يوسفعليه‌السلام سے وصال كا تقاضا ۲،۴;زليخا كا حضرت يوسفعليه‌السلام كے ساتھ عشق ۱، ۱۱;زليخا كى سرزنش ۱،۱۱;زليخا كى قسم ۵;زليخا كي واہى ۳; زليخا مضر كے دربار ميں ۹

زندان:زندان كى تاريخ _۷

عزيز مصر:عزير مصراور حضرت يوسفعليه‌السلام ۶

قديمى مصر:حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں قديمى مصر كى حكومت ۱۰; قديمى مصر كا نظام حكومت ۱۰; قديمى مصر كى استبدادى حكومت ۱۰; قديمى مصر ميں زندان۷

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱،۲،۳ ،۴، ۵،۶ ،۸، ۱۱; حضرت يوسفعليه‌السلام كى پاكدامنى كى گواہى ۳; حضرت يوسفعليه‌السلام مصر كے دربار ميں ۶

____________________

۱) علل الشرائع ،ص۴۹،ح۱،ب،۴۱;تفسير برہان ،ج۲ ص۲۴۵،ح۱_

۴۵۰

آیت ۳۳

( قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ وَإِلاَّ تَصْرِفْ عَنِّي كَيْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُن مِّنَ الْجَاهِلِينَ )

يوسف نے كہا كہ پروردگار يہ قيد مجھے اس كام سے زيادہ محبوب ہے جس كى طرف يہ لوگ دعوت دے رہى ہيں اور اگر تو ان كے مكر كو ميرى طرف سے موڑ نہ دے گا تو ميں ان كى طرف مائل ہوسكتاہوں اور ميرا شمار بھى جاہلوں ميں ہوسكتاہے (۳۳)

۱_حضرتعليه‌السلام يوسف اپنى عفت و پاكدامنى كى حفاظت اور زليخا كى دھمكيوں كى پرواہ نہ كرنے والے تھے_

قال رب السجن احبّ اليّ مما يدعوننى اليه

۲ _ حضرت يوسفعليه‌السلام اور خداوند عالم كے مخلص بندوں كے نزديك، گناہ اور معصيت ميں پڑنے سے يہ بہتر ہے كہ وہ زندان ميں چلے جائيں اور مصائب اٹھائيں _قال رب السجن احبّ الى ممّا يدعوننى اليه

۳_ حضرت يوسفعليه‌السلام اور الله كے خالص بندوں كے

نزديك، الله كى اطاعت ميں دكھ وتكليف برداشت كرنا، اور اپنى عفت كى پاسبانى و حفاظت كرنا ،قابل قدر اور پسنديدہ بات ہے _رب السجن احب الى ممايدعوننى اليه

۴_دكھ و تكليف ميں مبتلا ہونا، گناہ كے ارتكاب كا جواز نہيں بن سكتا ہے _رب السجن ا حب إلّى مما يدعوننى إليه

۵_ شوہر دار عورتوں سے جنسى روابط كا حرام ہونا _قال رب السّجن أحب إلّى مما يدعوننى إليه

۶_ اشراف مصر كى عورتيں (جو زليخا كى مہمان تھيں ) تمام كى تمام يوسفعليه‌السلام سے نزديكى كى خواہش مندتھيں _ممّا يدعوننى إليه

(يدعون ) مذكورہ آيت شريفہ ميں جمع مؤنث كا صيغہ ہے اس كا فاعل وہ عورتيں ہيں جو زليخا كى مہمان تھيں اور (اصب إليھنَّ ) كے جملہ كے قرينے سے يہ معلوم ہوتا ہے كہ وہ يوسف(ع) كو اپنے وصال كے ليئے چاہتى تھيں اور (يدعوننى ) كا جملہ جو مضارع ہے يہ دلالت كرتا ہے كہ وہ اس پر اصراربھى كرتى تھيں _

۴۵۱

۷_ يوسفعليه‌السلام ، زليخا اور اشراف كى عورتوں كے اس مكر و فريب سے پر يشان تھے جو ان كو گناہ و معصيت پر آمادہ كرنا چاہتى تھيں _و إلاّ تصرف عنى كيدهنّ أصب إليهن

۸_ يوسفعليه‌السلام ، عورتوں كى جنسى خواہشات اور ان كى آرزو كو پورا كرنے كى پورى طرح قدرت ركھتے تھے _

وإلّا تصرف عنى كيدهنَّ أصب إليهنَّ

۹_جنسى خواہشات اور اسكى طرف جھكاؤ كسى وقت بھى انسان كے ليے خطرناك ثابت ہوتا ہے _

وإلّاتصرف عنى كيدهنَّ اصب إليهنَّ

۱۰_ يوسفعليه‌السلام نے زليخا اور اسكى ہم خيال عورتوں كے ناجائز مطالبہ كے مقابلہ ميں اپنى استقامت كے سلسلہ ميں اللہ تعالى كى مدد كے بغير اپنے آپ كو نا تواں پايا_و إلا تصرف عنى كيدهن أصب إليهن

۱۱_ يوسف(ع) نے زليخا اور اشراف كى عورتوں كے مكر اور شہوت كے جال سے نجات پانے كے ليے خدا سے التجا اور اسكى ذات سے مدد چاہى _ربّ و الا تصرف عنى كيدهنَّ أصب إليهن

(صبّو) (أصب)كا مصدر ہے جو ميلان و رغبت اور جھكاؤ پيدا كرنے كے معنى ميں آتا ہے _ جملہ (إلا تصرف ...) يعنى اگر تو مجھے ان عورتوں كے مكر و فريب سے دور نہيں ركھے گا تو ميں اسكى طرف جھك جاؤں گا بعد والى آيت كريمہ ميں (فاستجاب) خبر ہے جو دعا اور التجا كے ليے استعمالى ہوئي ہے _

۱۲_ يوسفعليه‌السلام كا گناہ ترك كرنے ميں خدائي مدد كا ضرورى سمجھنا ،انكا ربوبيت خداوندى پر اعتقاد كا جلوہ تھا _

ربّ ...و إلّا تصرف عنّى كيدهنّ أصب إليهنّ

۱۳_ عورتوں كے مكر اور جنسى خواہشات سے الہى امداد كے بغير بچنا انبياء عليہم السلام اور خدا كے خالص و نيك بندوں كے ليے بھى ممكن نہيں ہے_وإلّا تصرف عنى كيدهنّ أصب و إليهنّ

۱۴_ انبياء عليہم السلام گناہ سے بچنے اور عصمت پر قائم رہنے كے ليے ہميشہ امداد الہى اور اسكى توفيق كے محتاج ہيں _

و الّا تصرف عنى كيدهنّ أصب اليهنّ

۱۵_ خداوند متعال كے حضور دعاو التجا اور اس سے مدد طلب كرنا ، گناہ اور جنسى انحرافات سے بچنے كا طريقہ ہے _

ربّ وإلّا تصرف عنى كيدهنّ أصب اليهنّ

۴۵۲

۱۶_ خداوند متعال كى طرف توجہ اور اسكى ربوبيت پر اعتقاد ركھنا خصوصاً گناہ كے ارتكاب كے خطرہ كے موقع پر ضرورى ہے _ربّ الّا تصرف عنى كيدهنّ أصب اليهنّ

۱۷_ ربوبيت الہى كى طرف توجہ كرنا، دعا كے آداب ميں سے ہے _قال ربّ و إلّا تصرف عنى كيدهنّ أصب إليهنّ

۱۸_ يوسف(ع) ، زليخا اور اسكى ہم فكر عورتوں كى ناجائز خواہشات كو پورا كرنے كو بے عقلى اور بے وقوفى كے گرداب ميں گرنا سمجھتے تھے_والّا تصرف أصب اليهنّ و أكن من الجاهلين

جہل كا معنى عقل كے مقابلہ ميں بے وقوفى ہے نيز اس كا معنى علم كے مقابلہ ميں نادانى بھى ہے مذكورہ بالا تفسير ميں پہلا معنى كيا گيا ہے _

۱۹_ يوسفعليه‌السلام ،گناہ كے ارتكاب اور زليخا و اسكى ہم فكر عورتوں كى خواہش پورا كرنے كو خدادادى علم و حكمت سے محروميت كا موجب سمجھتے تھے _أتيناه حكماً و علماً و إلّا تصرف عنى كيدهنّ أصب إليهنّ و أكن من الجاهلين

مذكورہ معنى اس صورت ميں ہے كہ جہل كا معنى بےوقوفى كريں تو يہاں كہہ سكتے ہيں كہ يوسفعليه‌السلام كا جاہل ہوجانے سے مراد علم اور حكمت سے خالى ہوجانا تھا جو خداوند متعال نے ان كو عطا فرمائي تھى ( أتيناہ حكماً و علماً )'' آيت ۲۲''

۲۰_ گناہ، الله تعالى كے عطا كيے ہوئے علوم سے محروميت كاموجب ہے _

و أتيناه حكماً و علماً ...و الّا تصرف عنى كيدهنّ أصب اليهنّ و أكن من الجاهلين

۲۱_ ہوس پرستى اور ناجائز جنسى كاموں كے جال ميں پھنسے ہوئے لوگ بے عقل اور بے سمجھ ہوتے ہيں _

۲۲_ گناہ كا ارتكاب ،بے عقلى و بے وقوفى ہے _أصب إليهنّ و أكن من الجاهلين

۲۳_'' عن على بن الحسين عليه‌السلام ... و خرجن النسوة من عندها ( إمرا ة العزيز ) فأرسلت كل واحدة منهنّ الى يوسف سرّاً من صاحبتها تسأله الزيارةفأبى عليهنّ و قال : '' إلّا تصرف عنّى كيدهنّ أصب إليهنّ و أكن من الجاهلين '' (۱)

امام سجاد(ع) سے روايت ہے كہ مصر كى عورتيں عزيز مصر كى بيوى كے ہال سے جب باہر چلى گئيں تو اپنى سہيلى (زليخا) سے چھپ كر يوسفعليه‌السلام كو پيغام

____________________

۱)علل الشرائع ص۴۹ ، ح ۱ ،ب ۴۱، نور الثقلين ، ج ۲ ص ۴۱۵، ح۱۷_

۴۵۳

بھيجا كہ ہم تم سے ملنے كى خواہشمند ہيں يوسفعليه‌السلام نے اسكو قبول نہيں كيا اور كہا بارالہا اگر ان عورتوں كے مكر و حيلے كو مجھ سےتو نے دور نہ كيا تو ميں انكى طرف رغبت پيدا كرلوں گا اور جاہلين ميں سے ہوجاؤں گا

احكام : ۵

اشراف مصر:اشراف مصر كى عورتيں اور يوسفعليه‌السلام ۶; اشراف مصر كى عورتوں كا مكر ۲۳ا;شراف مصر كى عورتوں كى دعوتيں ۶

اطاعت :الله تعالى كى اطاعت گذارى ميں مشكلات ۳

الله تعالى :الله تعالى كى مدد كى اہميت ۱۳، ۱۴; توفيقات الہى كى اہميت ۱۴

انبياء :انبياء كا بشر ہونا ۸; انبياء كى عصمت كا سبب ۱۴; انبياء كى معنوى و روحانى ضروريات ۱۴

انسان :انسان كے گمراہ ہونے كے مقامات ۹

بے وقوف لوگ : ۲۱بے وقوفى :بے وقوفى كے اسباب ۲۲

جاہل لوگ:۲۱

جنسى بے راہ روى :جنسى بے راہ روى سے نجات ۱۵

جنسى شہوت :جنسى شہوت پر قدرت ۱۳;جنسى شہوت كا خطرہ ۹

حكمت:حكمت كے زوال كے عوامل ۱۹، ۲۰

دعا:دعا كے آثار ۱۵; دعا كے آداب ۱۷

ذكر :ربوبيت الہى كا ذكر ۱۷;ذكر الہى كى اہميت ۱۶; ربوبيت الہى كے ذكر كى اہميت ۱۶; گناہ كے وقت ذكر الہى كرنا ۱۶

ذلت:ذلت كو گناہ پر ترجيح دينا ۲

روايت : ۲۳

زنا:

۴۵۴

زنا كے احكام ۵; شوہر والى بيوى سے زنا ۵

ضرورتيں :الله تعالى كى مدد كى ضرورت ۱۴

عفت :عفت كى اہميت ۳

عقيدہ :ربوبيت الہى كا عقيدہ ۱۲

علم :علم كے زوال كے اسباب ۱۹، ۲۰قدر و قيمت ۳ ; علم لدنى ۱۹، ۲۰

عورتيں :عورتوں كے مكر سے نجات ۱۳

گناہ :گناہ سے نجات كا طريقہ ۱۵;گناہ كا جواز ۴;گناہ كے آثار ۱۹، ۲۰، ۲۲;گناہ كے ترك كا سبب ۱۴

محرمات :۵

مخلصين :مخلص لوگ اور ذلت ۲; مخلص لوگ اور گناہ ۲;مخلص لوگوں كا عقيدہ ۲، ۳;مخلص لوگوں كا عفت كو برقرار ركھنا ۳

مدد طلب كرنا :الله تعالى سے مدد طلب كرنا ۱۱;الله تعالى سے مدد طلب كرنے كے آثار ۱۵

مشكلات :مشكلات اور گناہ ۴;مشكلات كے آثار ۴

ناجائز روابط:۵

ہوا و ہوس كے پجارى :ہوا و ہوس كے پجاريوں كى بے وقوفى ۲۱

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام اور اشراف مصر كى عورتوں كا مكر و حيلہ ۷،۱۱; يوسفعليه‌السلام اور بے قوفى و جہالت كے اسباب ۱۸; يوسفعليه‌السلام اور ترك گناہ ۱۲; يوسفعليه‌السلام اور ذلّت ۲; يوسفعليه‌السلام اور زليخا كى خواہشات ۱۸، ۱۹;يوسف(ع) اور زليخا كى دھمكياں ۱;يوسفعليه‌السلام اور گمراہى كے اسباب ۱۸; يوسفعليه‌السلام اور زليخا كامكر ۷،۱۱; يوسفعليه‌السلام اور گناہ ۲، ۸;يوسفعليه‌السلام كا اقرار ۱۰، ۱۲;يوسف(ع) كا الله تعالى كى مدد طلب كرنا ۱۰، ۱۲;يوسفعليه‌السلام كا عجز ۱۰، ۱۲;يوسفعليه‌السلام كاعفت كو بچانا ۳;يوسفعليه‌السلام كا عقيدہ ۱۲; يوسف(ع) كا مدد طلب كرنا ۱۱;يوسفعليه‌السلام كو دعوت دينا ۶;يوسفعليه‌السلام كى پريشانى ۷;يوسفعليه‌السلام كى دعا ۱۱، ۲۳; يوسفعليه‌السلام كى سوچ ۲، ۳، ۱۰، ۱۸، ۱۹; يوسفعليه‌السلام كى عفت ۱

۴۵۵

آیت ۳۴

( فَاسْتَجَابَ لَهُ رَبُّهُ فَصَرَفَ عَنْهُ كَيْدَهُنَّ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ )

تو ان كے پروردگار نے ان كى بات قبول كرلے اور ان عورتوں كے مكر كو پھير ديا كہ وہ سب كس سننے والا اور سب كا جاننے والا ہے (۳۴)

۱_ خداوند متعال نے يوسفعليه‌السلام كى دعا( زليخا اور اسكى ہم جوليوں كے مكر و فريب سے نجات كى در خواست ) كو قبول كيا اور اس كو ان كے مكر و فريب سے محفوظ ركھا _فاستجاب له ربّه فصرف عنه كيدهنّ

'' استجابة '' استجاب كا مصدر ہے جس كا معنى در خواست قبول كرنا ہے_

۲_ خداوند متعال كى غيبى امداد، يوسفعليه‌السلام كے ليے زليخا اور اشراف كى عورتوں كے مكرو فريب اور گناہ سے نجات كا موجب بني_فاستجاب له ربّه فصرف عنه كيدهن ّ

۳_ زليخا اور اشراف كى عورتيں ، يوسفعليه‌السلام كے خداوند متعال سے توسّل كرنے كى وجہ سے اس سے مايوس و نااميد اور اس كے خلاف مكر و فريب كرنے سے رك گئيں _فصرف عنه كيدهنّ

عورتوں كے مكر ( كيد ) سے مراد يہاں انكا مكرر فريفتہ ہونا اور اظہار محبت كرنا ہے _ (صرف عنہ كيدہنّ) كى عبارت سے يہ مراد ہوگا كہ يوسفعليه‌السلام كى دعا كے بعد انہوں نے يوسفعليه‌السلام سے عشق بازى اورخواہشات كرنا ترك كرديں _ (ثم) كا لفظ جو بعد والى آيت كريمہ ميں ہے _ اس بات پر نويد ہے كہ يوسفعليه‌السلام كے قيد خانہ ميں جانے سے پہلے ہى وہ اپنى آرزو كى تكميل ميں نااميد ہوگئيں تھيں اور ان سے دور ہوگئيں نہ يہ كہ ان كا زندان ميں جانا ،انكے عشق كى خواہش كے قطع كا سبب بنا _

۴_ خداوند متعال كے حضور عجز و انكسارى كا اظہار اس ذات كى حمايت حاصل كرنے اور انسان كيلئے اپنى حاجات كى برآورى ميں بہت مؤثر ہے _فاستجاب له ربّه إنه هو السميع العليم

۵_ انسان كى عاقبت ميں دعا كا كردار _الّا تصرف عنى كيدهنّ فاستجاب له ربّه فصرف عنه كيدهنّ

۶_ زليخا اور دوسرى عورتوں كے مكر و فريب سے نجات ، ربوبيت الہى كا ان پر جلوہ تھا _

فاستجاب له ربّه ...إ نه هو السميع العليم

۴۵۶

۷_بندوں كى دعاؤں كو مستجاب كرنا، ربوبيت الہى كا جلوہ ہے_فاستجاب له ربّه

۸_انسان كى سرنوشت و رفتار اور سير و سلوك ميں خداوند عالم كا كردار ہوتاہے_الاّ تصرف فصرف عنه كيدهنّ

۹_اپنى تقدير اور سرنوشت بنانے ميں انسان كا خود خداوندعالم سے تقاضا كرنا، بہت كردار كا حامل ہوتاہے_

قال ربّ السجن احبّ الى فصرف عنه كيدهن

۱۰_خداوند عالم كے ارادے اور مشيّت كے مقابلے ميں انسان كى چاہت اور كوشش، بے ثمر اور شكست سے دوچار ہوتى ہے_فصرف عنه كيدهنّ

۱۱_صرف ذات الہى ہى سميع (مطلق سننے والا) اور عليم (مطلق جاننے والا) ہے_انّه هو السميع العليم

''ہو''كى ضمير ، ضمير فصل ہے جو حصر سے حكايت كررہى ہے اور''السميع'' اور ''العليم'' پر جو '' الف لام'' داخل ہے وہ استغراق صفات كے ليے ہے اسى وجہ سے ان دونوں صفات سے مطلق سننے والا اور مطلق جاننے والا كا معنى ليا گيا ہے_

۱۲_خداوند عالم بندوں كى دعاؤں كو سننے والا اور انہيں مستجاب كرنے والا ہے_

فاستحاب له ربّه انّه هو السميع

''سميع'' خداوند عالم كے سننے پر دلالت كرنے كے علاوہ ''فاستجاب لہ ربّہ'' كے قرينہ كى وجہ سے اس بات كى بھى حكايت كررہاہے كہ خداوند عالم لوگوں كى دعاؤں كو مستجاب بھى كرنے والا ہے_

۱۳_ خداوند عالم بندوں كے حالات اور ان كى ضرورتوں سے مكمل طور پر آگاہ ہے_

فاستجاب له ربّه انّه هو السميع العليم

۱۴_خداوند عالم بندوں كى سازشوں اور ان كے مكر و فريب سے آگاہ ہے اور ان كو ناكام بنانے اور ختم كرنے سے بھى مكمل واقفيت ركھتاہے_فصرف عنه كيدهن انّه هو السميع العليم

''كيدہنّ'' كے قرينے كى وجہ سے ''سميع'' اور '' عليم'' كے متعلق كے جو مصاديق مورد نظر ہيں وہ اشرف مصر كى عورتوں كے مكر و فريب ہيں اور

۴۵۷

''صرف عنہ'' كے قرينہ كى وجہ سے اس كا معنى يہ ليا گيا ہے كہ خداوند عالم نے ان مكر و فريب كو ختم كيا ہے _

۱۵_ خداوند عالم بندوں كى حاجات پر آگاہى كے ليے اس بات كا محتاج نہيں ہے كہ وہ زبان سے اپنا مدعى بيان كريں _

انه هو السميع العليم

خداوند عالم كے سننے كے بعد اس كے علم كا ذكر كرنا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ بندوں كى حاجات سے آگاہى كے ليے يہ ضرورى نہيں ہے كہ انسان خدا كے سامنے درخواست پيش كرے اور اپنى حاجات كو زبان پر جارى كرے اگر چہ حاجات كے مستجاب ہونے ميں يہ چيز مؤثر ہے كہ حاجت كو زبان پر جارى كيا جائے_

اسماء و صفات:سميع ۱۱،عليم۱۱، مجيب۱۲

اشراف مصر:اشراف مصر كى عورتيں اور حضرت يوسفعليه‌السلام كى دعا۴ ; اشراف مصر كى عورتوں كى مايوسي۳; اشراف مصر كى عورتوں كے فريب سے نجات ۲،۶

اللہ تعالي:اللہ تعالى كا سننا ۱۲; اللہ تعالى كا علم غيب ۱۳، ۱۴،۱۵;اللہ تعالى كا كردار ۸;اللہ تعالى كى امداد كے آثار ۲; اللہ تعالى كى حمايت كا زمينہ ۴; اللہ تعالى كى ربوبيت كى علامات ۶،۷; اللہ تعالى كے ارادہ كى اہميت ۱۰; اللہ تعالى كے علم كى خصوصيات۱۰ ; اللہ تعالى كے مختصّات ۱۱

انسان:انسانوں كا عجز۱۰;انسانوں كا مكر و فريب ۱۴; انسانوں كى خواہشات اور اللہ تعالى كے ارادے ۱۰; انسانوں كى ضرورتيں ۱۳; انسانوں كے تقاضوں كا كردار ۹;انسانوں كے حالات ۱۳

دعا:دعا كا مستجات ہونا ۷; دعا كو قبول كرنے والا۱۲; دعا كى قبوليت كا زمينہ ۴; دعا كے آثار ۴،۵

رفتار:رفتار كے موثر اسباب ۸

زليخا:زليخا اور حضرت يوسفعليه‌السلام كى دعا ۳; زليخا كى مايوسى ۳; زليخا كے مكرو فريب سے نجات ۱،۲،۶

سرنوشت:سرنوشت ميں موثر اسباب ۵،۸،۹

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱،۲،۳; حضرت يوسفعليه‌السلام كى دعا كا مستجاب ہونا ۱;حضرت يوسفعليه‌السلام كى دعا كے آثار ۳; حضرت يوسفعليه‌السلام كى نجات ۶; حضرت يوسفعليه‌السلام كى نجات كے اسباب ۲

۴۵۸

آیت ۳۵

( ثُمَّ بَدَا لَهُم مِّن بَعْدِ مَا رَأَوُاْ الآيَاتِ لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ )

اس كے بعد ان لوگوں كو تمام نشانياں ديكھنے كے بعد بھى يہ خيال آگيا كہ كچھ مدت كے لئے يوسف كو قيدى بنا ديں (۳۵)

۱_اشراف مصر كى عورتوں كى حضرت يوسفعليه‌السلام كے ساتھ عشق كى داستان، حكومت اور ان كے گھروں ميں بحران پيدا كرنے كا سبب بني_ثم بدالهم من بعد ما رأوا الآيات

۲_ بحران اور دربارى حيثيت كو بحال كرنے كى خاطر مصر كى حكومت نے يہ قطعى ارادہ كرليا كہ حضرت يوسف(ع) كو زندان ميں ڈال ديا جائے_ثم بدالهم يسجننه

۳_ حضرت يوسفعليه‌السلام كو زندان ميں ڈالنے كا مقصد يہ تھا كہ انہيں گناہ گار ثابت كيا جائے_

ثم بدالهم من بعد ما رأوا الآيات يسجننه

۴_حضرت يوسف(ع) كے زندان ميں جانے كى درخواست اور محرك زليخا نہ تھي_

لئن لم يفعل ما ا مره ليسجنن ثم بدالهم ليسجننه

''ثم بَدالہم '' (يعنى كچھ مدت كے بعد يہ بات ان كے ذہن ميں خطور كرگئي كہ حضرت يوسف(ع) كو زندان ميں ڈال ديا جائے) يہ اس بات سے حكايت كرتاہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام كو زندان ميں مقيد كرنے كى رائے اور درخواست زليخا نے نہ كى تھى اس كے علاوہ پہلى والى آيت واضح طور پر بتاتى ہے كہ خداوند عالم نے حضرت يوسف(ع) سے زليخا اور دوسرى عورتوں كو دور كرديا تھا اور عشقيہ داستان ختم ہوگئي تھى پس زليخا اب اس بات كى منتظر نہ تھى كہ حضرت يوسف(ع) كو زندان ميں ڈال كر انہيں اپنے مقصد كے ليے استعمال كرسكے_

۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى پاكدامنى پر متعدد علامات موجود تھيں _ثم بدالهم من بعد ما رأوا الآيات

۶_ متعدد دلائل اور علامات ديكھنے كے بعد عزيز مصر اور حكام، حضرت يوسف(ع) كى پاك دامنى سے مكمل طور پرآگاہ تھے_

۴۵۹

ثم بدالهم من بعد ما راو الآيات

۷_ مصر كے حكام نے حضرت يوسفعليه‌السلام كى بے گناہى كو جاننے كے باوجود انہيں زندان ميں ڈال ديا_

ثم بدالهم من بعد ما راوالآيات يسجننه

۸_مصر كى استبدادى حكومت ميں سياسى اور عدليہ كے نظام ميں يكجہتى تھي_ثم بدالهم من بعد ما راوا الآيات ليسجننه

۹_ حضرت يوسف(ع) كو محدود و نامعلوم عرصے تك زندان ميں قيد ركھنے كا فيصلہ سنايا گيا_ليسجننه حتى حين

۱۰_حضرت يوسف(ع) كى زندان ميں قيد اس وقت تھى جب تك زليخا اور دوسرے اشراف مصر كى عورتوں كے فتنہ كى آگ ٹھنڈى نہ ہوجائے_ليسجننه حتى حين

۱۱_''عن ابى جعفر عليه‌السلام فى قوله: ( ثم بدالهم من بعد ما رأوا الآيات يسجننه حتى حين'' فالآيات شهادة الصبى و القميص المخرق من دبر و استباقهما الباب حتى سمع مجاذبتها اياه على الباب فلما عصاها فلم تزل ملحة بزوجها حتى حسبه ...؟ (۱)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے خداوند عالم كے اس قول ''ثم بدالہم''كے بارے ميں روايت نقل ہوئي ہے كہ يہاں علامت سے مراد ، بچے كى گواہى دينا، پشت سے پيراہن كا پارہ ہونا اور دونوں كا دروازے كى طرف بھاگنا وہ بھى اس انداز سے كہ سناگياتھا كہ وہ عورت پيچھے سے حضرت يوسف(ع) كو اپنى طرف كھينچ رہى تھى پس جب حضرت يوسفعليه‌السلام نے اس عورت كى بات كو قبول نہ كيا تو اس نے سزا كے طور پر اپنے شوہر سے كہا كہ حضرت يوسفعليه‌السلام كو قيد كرديا جائے''_

۱۲_''عن الصادق(ع) انّه قال دخل يوسف السجن و هو ابن إثنى عشر سنة و مكث فيه ثمان عشر سنة ..(۲)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت نقل ہوئي ہے كہ حضرت يوسف(ع) بارہ سال كى عمر ميں زندان ميں قيد ہوئے اور اٹھارہ سال تك اس ميں قيد رہے ...''

اشراف مصر:حضرت يوسف(ع) كے ساتھ اشراف مصر كى عورتوں كے عشق كى داستان۱

روايت: ۱۱،۱۲

____________________

۱)تفسير قمى ج۱، ص۳۴۴;نورالثقلين ج۲ ص۴۲۴ ، ح۶۰_

۲) ا مالى صدوق، ص ۲۰۸، ح۷مجلس ۳۴; بحار الانوار ج ۱۲ص ۲۶۱ح ۲۳

۴۶۰

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945

946

947

948

949

950

951

952

953

954

955

956

957

958

959

960

961

962

963

964

965

966

967

968

969

970

971