تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 6%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 205912 / ڈاؤنلوڈ: 4272
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۸

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

 اب  انکے ظہور سے پہلے اگر تم اس دنیا فوت کر  جاۓ تو  یہی معرفت تمھار ی نجات اور سعادت کا باعث بنے گی تو پھر تمھارے لیۓ کیا نقصان کہ وہ ظہور کرۓ یا نہ کرۓ ،  لیکن یہ اسکے لیۓ نقصان ہے جو اپنے امام کی معرفت نہ رکھتا ہے  -

اسی طرح فضیل بن یسار  نے امام محمد باقر      سے  روایت کی ہے:يَقُولُ مَنْ مَاتَ وَ لَيْسَ لَهُ إِمَامٌ فَمِیتَتُهُ مِیتَةُ جَاهِلِيَّةٍ وَ مَنْ مَاتَ وَ هُوَ عَارِفٌ لِإِمَامِهِ لَمْ يَضُرَّهُ تَقَدَّمَ هَذَا الْأَمْرُ أَوْ تَأَخَّرَ وَ مَنْ مَاتَ وَ هُوَ عَارِفٌ لِإِمَامِهِ كَانَ كَمَنْ هُوَ مَعَ الْقَائِمِ فِی فُسْطَاطهِ  ” (1) آپ فرما تے ہیں جو شخص اس حالت میں مرۓجبکہ وہ اپنے امام کو نہیں پہچانتا ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا ہے ،اور وہ شخص جو اس دنیا سے چلے جاۓ جبکہ وہ اپنے امام زمانہ       کی صحیح معرفت رکھتا ہو تو  امام زمانہ کے ظہور  میں تاخیر اسے نقصان نہیں دے گا ،اور جو شخص مر جاۓ جبکہ اپنے امام کی معرفت کے ساتھ مر ۓ تو گویا  و ہ  اپنے امام کے ہمراہ  جہاد میں انکے خیمے میں ہے  -”

اسی طرح کسی اور حدیث میں جناب شیخ صدوق نقل فرماتے ہیں :ولا یکون الإیمان  صحیحا ً إلاّ من بعد علمه بحال من یؤمن به، كما قال اللّه تبارك وتعالی ” إلاّ من شهد بالحق وهم یعلمون (2) “  فلم یوجب لهم صحة ما یشهدون به إلاّ من بعدعلمهم ثم كذلك لن ینفع ایمان من آمن بالمهدی القآئم علیه السلام حتی یكون عارفاً بشأنه فی حال غیبته (3) کسی مؤمن کا ایمان اس وقت تک صحیح نہیں ہوتا جب تک جس چیز پر ایمان رکھتا ہے اس کے بارے میں پوری شناخت  نہیں رکھتا ہوں “جس طرح خدا وند متعال کا ارشاد ہے  الاّ من شہد بالحق وہم یعلموں  مگر ان افراد کے  جو علم و شناخت کے ساتھ حق کی گواہی دیں پس حق پر گواہی دینے والوں کی  گواہی قبول نہیں ہو گی مگر یہ کہ وہ  علم  رکھتا ہو ۔اسی طرح مہدی قائم عجل اللہ   پر ایمان رکھنے والوں کا ایمان انھیں فائدہ نہیں دے گا 

--------------

(1):- کلینی: اصول الکافی:ج۱ “ص۳۷۲ 

(2):- زخرف :۸۶ - 

(3):- صدوق :کمال الد ین اتمام النعمة :ج 1 ص 19

۴۱

(یعنی انکے ظہور اور قیام پر   اجمالی ایمان اور انکے ظہور کا انتظار انھیں فائدہ نہیں دے گا )مگر انکی غیبت کے دوران  انکے متعلق اور انکی شان ومنزلت کےبارے میں صحیح معرفت رکھتا ہو ۔

اور اما م زمانہ کی معرفت کے لیے بعض چیزون کو جاننا ضروری ہے  ان میں سے بعض اہم موارد یہاں ذکر کرتے ہیں کہ ان امور کو جانے بغیر کسی امام کی معرفت کامل اور مفید واقع نہیں ہو سکتی

ا: آپ کائنات کی پہلی مخلوق ہیں

 صحیح  روایات  سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام زمانہ   ا ورسول اکرم(ص) اور دیگر بارہ معصومینؑ کے پاکیزہ انوار کو اﷲ تعالی نے  کائنات کی تمام مخلوقات سے پہلے خلق فرمایا ہے چناچہ نبی اکرم (ص)  اس بارے  آنحضرت میں فرماتا ہے

لما اسری بی الی السماء ........  (1)   جس رات مجھے آسمان کی سیر لے جایا گیا تو عرش پر میری نظر  پڑی کہ وہاں لکھا ہوا تھا“لا إله الاّ اﷲ محمد رسول اﷲ  أیده بعلی....” اﷲ کے سواء کوئی معبود نہیں ہے محمؐد اسکے رسول ہیں اور علی ؑکے زریعے ہم نے انکی تایئد کی ہے ،اور میں نے عرش پر علی ؑوفاطمہؑ اور باقی گیارہ معصومینؑ کے  مقدس انوار کو دیکھا جنکے درمیان حضرت حجتؑ  کا نور کوکب درّی  کی مانند درخشان اور چمک رہا تھا  میں نے عرض کیا پروردگار یہ کس کا نور ہے ، اور وہ کن کے انوار ہیں ؟ آواز آئی یہ تیرے فرزندان ائمہ معصومینؑ کے انوار ہیں اور یہ نور حجت خدا ؑ کا نور ہے جو زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی ۔

--------------

(1):- سید ہاشم بحر ینی :مدینة  المعاجز ص ۱۵۳ -  

۴۲

اسی طرح امیر المومنین       فرماتے ہیں رسول خدا (ص)نے مجھ سے فرمایا :لما عرج بی إلی السماء.......   فقلت یا رب و من أوصیائی فنودیت یا محمد أن أوصیاءك المكتوبون علی ساق العرش فنظرت و أنا بین یدی ربی إلی ساق العرش فرأیت اثنی عشر نورا فی كل نور سطر أخضر مكتوب علیه اسم كل وصی من أوصیائی أولهم علی بن أبی طالب و آخرهم مهدی أمتی (1)    “ جب مجھے آسمان کی سیر پر لے جایا گیا .....تو میں نے عرض کیا پروردگارا کون ہیں میرےاوصیا ،   ندا آئی یا محمد(ص)  تمھارے اوصیا کے نام ساق عرش پر لکھے گیے  ہے میں نے  عرش کی طرف نظر کی تو گیارہ  انوار ایسیے دیکھا ہر نورمیں ایک سبز لکیر  ہے جس پر میرے ہر ایک وصی کے اسم  گرامی  لکھاگیا ہے سب سے پہلے علی ابن ابی طالبؑ  کا اسم گرامی اور آخر میں میری امت کا مہدیؑ  کا نام تھا -

ب :آ پؑ خالق ومخلوق کے درمیان واسطہ فیض ہیں

بعض روایات کے روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ امام زمانہ واسطہ فیض وبرکت ہیں ۔جناب شیخ مفیدابن عباس کے واسطے رسول خدا (ص) سے نقل کرتے ہیں :قال رسول الله ص ذكر الله عز و جل عبادة و ذكری عبادة و ذكر علی عبادة و ذكر الأئمة من ولده عبادة و الذی بعثنی بالنبوة و جعلنی خیر البریة إن وصیی لأفضل الأوصیاء و إنه لحجة الله علی عباده و خلیفته علی خلقه و من ولده الأئمة الهداة بعدی بهم یحبس الله العذاب عن أهل الأرض و بهم یمسك السماء أن تقع علی الأرض إلا بإذنه و بهم یمسك الجبال أن تمید بهم و بهم یسقی خلقه الغیث و بهم یخرج النبات أولئك أولیاء الله حقا و خلفائی صدقا عدتهم عدة الشهور و هی اثنا عشر شهرا..... (2)

--------------

(1):- صدوق :  کمال الد ین ج : 1 ص : 25 ۶   

(2):- شیخ مفید :الاختصاص ص :۴ 22 

۴۳

 آنحضرت(ص) نے فرمایا :اﷲکا  ذکر  اور میرا ذکر عبادت ہے ،اور علیؑ کا ذکر اور انکے فرزندان ائمہؑ کا ذکر بھی عبادت ہے ، قسم اس ذات کی جس نے مجھے نبوّت پر مبعوث کیا  ہے-......... اور میرے بعد علی ابن ابی طالبؑ اور انکے فرزندان ائمہ ھداء ؑ ہونگے انھیں کے واسطے ض        اﷲ تعالی اہل زمین سے عذاب کو ٹال دے گا  اور انھیں کی برکت سے آسمان  ٹوٹ کر زمین پر آنے سے بچا لے گا ،اور انھیں کی خاطر پہاڑوں کو بکھر جانے نہیں دے گا  اور انھین کے طفیل سے اپنی مخلوقات  کو باران رحمت سے سیراب کرے گا اور زمین سے سبزہ نکالے گا ،وہی لوگ ہیں جو اﷲ کے حقیقی دوست اور جانشین ہیں نیز امام علی ابن حسین  فرماتے ہین: وَ بِنَا يُمْسِكُ الْأَرْضَ أَنْ تَمِیدَ بِأَهْلِهَا وَ بِنَا يُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَ تُنْشَرُ الرَّحْمَةُ وَ تَخْرُجُ بَرَكَاتُ الْأَرْضِ وَ لَوْ لَا مَا فِی الْأَرْضِ مِنَّا لَسَاخَتْ‏ بِأَهْلِهَا (1)   ہمارے ذریعہ سے زمین اپنی  اہل کے ہمراہ پابرجا ہے اور ہمارے ذریعہ سے آسمان بارش برساتا ہے اور اسکی رحمتین پہیل جاتی ہین اور زمین سے برکات نکل آتی ہین اسی طرح دعاے عدلیہ کا فقرہ ہے جس میں آیا ہے :“ثم الحجة  الخلف القائم المنتظر المهدی المرجی .....ببقائه بقیت الدّنیا وبیمنه رُزق الوری وبوجوده ثبتت الأرض والسماء وبه یملاء اللّه الأرض قسطاً وعدلاً بعد ما ملئت ظلماً وجوراً ” میں گواہی دیتا ہوں انکے فرزند حجت خدا وجانشین واما م ؛ قائم منتظر مہدی  عجل اللہ فرجہ جن کے ساتھ عالم کی اُمید وابستہ ہے  انکے  وجود سے دنیا باقی ہے اور انکی برکت سے مخلوق روزی پارہی ہے ،اور انکے وجود سے زمین وآسمان قائم ہیں اور انھیں کے زریعے خدا  زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گا جب کہ وہ ظلم  وجور سے بھر چکی ہو گی

پس ان روایات کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ اس دور میں امام زمانہ خالق ومخلوق کے درمیاں واسطہ فیض ہیں اور انکے واسطے سےزمیں وآسمان اپنی جگہ ثابت اور حرکت میں ہیں اور انکے واسطے سے تمام مخلوقات تک رزق پہنچتی ہے ۔

--------------

(1):-  کمال الد ین و تمام النعمة / ج 1 / 207 / 21 ص : 201

۴۴

ج: آپؑ کی معرفت کے بغیر خداکی معرفت کامل نہیں ہے 

امام حسین          سے خدا کی معرفت کے بارے میں پوچھا  گیا تو حضرت نے فرمایا :“معرفة اهل كلّ زمان امامهم الذّی یجب طاعته” (1)   ہرزمانہ میں لوگوں کے اپنے امام کی معرفت مراد ہے جنکی اطاعت  کو لوگوں پر  واجب کیا ہے  -اسی طرح امام محمد باقر نے فرمایا : “انما یعرف اللّہ عزوجل ویعبدہ من عرف اللّہ وعرف امامہ منّا اہل البیت“  ؛صرف وہ شخص خدا کی معرفت حاصل کر سکتا ہے اور اسکی عبادت کر سکتا ہے جس نے اﷲ اور ہم اہل بیت ؑمیں سے اپنے اما م کو  پہچان لیا ہو  یا اہل بیت اطہار ؑکی امامت کا انکار کو کفر سے تعبیر کیا ہے (یعنی خدا کے انکار )  اگر چہ  وہ شخص کلمہ گو ہی کیوں نہ ہو  -جیسا کہ چھٹے امام  سے روایت ہے  آپ فرماتے :“من عرفنا كان مومنا ومن انكرنا كان كا فراً (2)   جس نے ہماری معرفت حاصل کرلی وہ مومن ہے اور جس نے ہمارا انکار کیا وہ کافر ہے -اسی طرح بعض روایت میں آیا ہے کہ امام خدا اور مخلوقات کے درمیان پرچم ہدایت ہے لہذا انکی معرفت کے بغیر اﷲ تعالی کی معرفت ممکن نہیں  ہے -

د: آپ تمام انبیاء ؑکے کمالات کا مظھر ہیں

متعدد روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ولی عصر عجل اﷲ فرجہ الشریف کی شخصیت جامع ترین شخصیت ہے اور آپ میں تمام انیباء کےکمالات پائے جاتے ہیں جس طرح آپکے آباواجداد کی ذوات مقدسہ تمام گذشتہ انبیاء کے کمالات کی حامل تھی سلمان فارسی نے آنحضرت(ص) سے روایت نقل کہ ہے آپ فرماتے ہیں :

--------------

(1):- مجلسی : بحار انوار، ج ۸۳ ،ص ۲۲ -

(2):- کلینی: کافی،ج 1 ، 181 - 

۴۵

 عَنْ سَلْمَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص الْأَئِمَّةُ بَعْدِی اثْنَا عَشَرَ عَدَدَ شُهُورِ الْحَوْلِ وَ مِنَّا مَهْدِيُّ هَذِهِ الْأُمَّةِ لَهُ هَيْبَةُ مُوسَی وَ بَهَاءُ عِیسَی وَ حُكْمُ دَاوُدَ وَ صَبْرُ أَيُّوبَ. (1)   میرے بعد بارہ امام  سال کے بارہ مہینوں کے برابر امام ہونگے اوراس امت کا مہدیؑ بھی ہم سے ہی ہوگا جس میں موسی کی ہیبت ،عیسی کی عزت وبہاء،داود کی قضاوت ،اور ایوب کا صبر سب موجود ہو گا

اسی طرح چھٹے اما  م        فرماتے ہیں :إنّ قائمنا اهل البیت علیهم السلام اذا قام لبس ثیاب علی وسار بسیرة علی علیه السلام   (2) ہمارے قائم جب قیام کریں گۓ  تو اپنے جد علی علیہ السلا م کے لباس زیب تن کریں گۓ  اور انکی سیرت پر چلین گے

کسی اور روایت میں امام رضا  (ص) انکی  مثالی شخصیت کے بارے میں فرماتے ہیں :للإمام‏ علامات یكون أعلم الناس و أحكم الناس و أتقی الناس و أشجع الناس و أسخی الناس و أعبد الناس (3)   حضرت ولی عصر        لوگوں میں سب سے زیادۃ  دانا ؛حلیم ، بردبار اور پرہیزگار ہونگے وہ تمام انسانوں سے زیادہ بخشش کرنے والا؛  عابد اور عبادت گزار  ہونگے ” 

ھ: آپ تمام انبیاء اور ائمہ کی اُمیدوں کو  زند ہ کریں گے

 قرآن مجید نے مختلف مقامات پر واضح طور پر بیاں کیا ہے کہ پروردگار عالم نے تمام انبیاء کو دو بنیادی مقصد کے خاطر بیجھے ،ایک شرک و بت پرستی کو صفحہ ھستی سے مٹاکر تو حید ویکتا پرستی کو رائج دینے اور دوسرا یہ کہ سماج سے ظلم وتربریت کی ریشہ کنی کرکے اسکی جگہ عدل و  پاکدامنی کو رواج دینا تھا  -لیکن ہم دیکھتے ہیں اب تک روۓ زمین پر یہ مقصد تحقق نہیں پایا ہے

--------------

(1):- کل ین ی: کافی،ج1 ،ص 181 - 

(2):- صافیگلپائ ی گانی: منتخب الاثر فصل ۱ ص ۲۶ -    علیبن محمد خزاز قم ی: کفا یةالاثر ص : 4 

(3):- مجلسی :مرآۃ العقول ج ۴ ص ۳۶۸ - 

۴۶

جبکہ تمام علماء ،دانشور حضرات اس بات پر متفق ہیں کہ تمام انبیاء کے بعثت کا مقصد اور ہدف حضرت ولی عصر ارواحنا لہ الفداء ؑکے مبارک ہاتھوں سے انکے  آفاقی قیام کے ساۓ میں تحقق پاۓ گا،اورانھیں کے  زریعے کفر وشرک کا ریشہ خشک ہو جاۓ گا ،اور ظلم بربرییت کے اس  تاریک دورکا خاتمہ ہو کر عدل وتوحید کا سنہری دور پورے زمین پر غالب آۓ گا - چناچہ سورہ توبہ کے ۳۲ اور ۳۳ آیات کے ذیل میں تمام شیعہ مفسرین نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے اور وہ  آیہ مبارکہ یہ ہے :يُرِیدُونَ أَن يُطْفُِواْ نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَ يَأْبىَ اللَّهُ إِلَّا أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَ لَوْ كَرِهَ الْكَفِرُونَ٭ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنے منہ سے پھونک  مارکر بجھا دیں حالانکہ خدا اس کے علاوہ کچھ ماننے کے لۓ تیار نہیں ہے کہ وہ اپنے نور کو تمام کردے چاہیے کافروں کو یہ کتنا  ہی بُرا کیوں نہ لگے- هُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَی‏ وَ دِینِ الْحَقّ‏ِ لِيُظْهِرَهُ عَلىَ الدِّینِ كُلِّهِ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُون٭   خدا وہ ہے جس نے اپنے رسول(ص)  کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بناۓ چاہیے مشرکین کو کتنا ہی نا گوار  کیوں نہ ہو ۔

ان قرآنی آیات اور روایات کی روشنی میں آپکی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے ، کہ آپکی شخصیت تنہا وہ ذات ہیں جو انبیاء وائمہ ؑکی کوششوں کو نتیجہ خیز بنائیں گی اور تمام آسمانی رہبرون کی اُمیدوں کو تحقق بخشیں گے  اسی طرح پیغمبر اعظم (ص)انکے وجود اقدس کی برکت سے مؤمنین کے تشفی قلوب اور دلی تمناوں کے(جو کہ   حقیقت میں تمام  انبیاء اور ائمہ علیہ السلام کی بھی دلی آرزو تھی)  پورا ہونے وآپکے  علمی مقام  و  آپکے آنحضرت (ص)کے ساتھ نسبت اور آپ سے دشمنی رکھنے والوں اور تکلیف پہنچانے والوں کی سوء عاقبت  بیان کو  کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔قال رسول الله ص الأئمة بعدی اثنا عشر ثم قال كلهم من قریش ثم یخرج قائمنا فیشفی صدور قوم مؤمنین إلا أنهم أعلم منكم فلا تعلموهم ألا إنهم عترتی من لحمی و دمی ما بال أقوام یؤذونی فیهم لا أنالهم الله شفاعتی (1)

--------------

(1):- محقق طبرسی :الاحتجاج ج : 2 ص : 437 

۴۷

 رسول ﷲ(ص) نے فرمایا : میرے بعد بارہ امام ہونگے ؛ پھر فرمایا سب کے سب قریش سے ہونگے پھر ہمارے قائم ظہور کریں گے جسے مؤمنین کے دلوں کو تشفی ملے گی ؛ لیکن یاد رکھنا وہ (یعنی بارہ امام )تم سے بہتر اور  زیادہ علم رکھتے ہیں ؛کبھی انھیں سمجھانے کی کوشش نہ کرنا ! خبر دار !وہ لوگ میری عترت ؛میرے گوشت اور خون سے ہیں  کیا حال  گا ان قوموں کا  جومجھے اذیت دے ان کے حق میں خدا انھیں میری شفاعت نصیب نہ کرے    ۔

  اسی لیے روایت میں آیا ہے کی انکی معرفت اور اطاعت رسول اﷲ(ص) کی اطاعت اور معرفت ہے اور انکے  ظہور کا انکار نبی اکرم(ص) کی  رسالت کے   انکار کرنے کا برابر ہے اگر چہ وہ شخص مسلمان ہو نے کی بنا پر انکی نبوّت کا اعتراف ہی کیوں نہ کرے ،چنانچہ آپ(ص) فرماتے ہیں :قال رسول الله ص القائم من ولدی اسمه اسمی و كنیته كنیتی و شمائله شمائلی و سنته سنتی یقیم الناس علی ملتی و شریعتی یدعوهم إلی كتاب الله ربی من أطاعه أطاعنی و من عصاه عصانی و من أنكر غیبته فقد أنكرنی و من كذبه فقد كذبنی و من صدقه فقد صدقنی إلی الله أشكو المكذبین لی فی أمره و الجاحدین لقولی فی شأنه و المضلین لأمتی عن طریقته وَ سَيَعْلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ‏:. (1)   قائم میرا  فرزند  ہے انکا نام میرے نام پر انکی کنیت میری کنیت پر انکے شکل وشمائل میری شکل وشمائل جیسی ہوں گی اور انکی سنت میری سنت  پر ہوگی لوگوں کو میرے دین اورمیری شریعت پر پلٹا دیں گے   انھیں میرے پروردگار کی کتاب کی طرف دعوت دیں گے جو انکی اطاعت کرے اس نے میری اطاعت کی ہے اور جو انکی نافرنانی کرۓ اس نے میری نافرمانی کی ہے ،اور جو انکی غیبت کا انکار کرۓ اس نے مجھے انکار کیا ہے اور جو انھیں جھٹلائے اس نے مجھے جھٹلایا ہے اور جس نے انکی امامت اور غیبت کی تصدیق کرۓ اسنے میری رسالت کی تصدیق کی ہے....

--------------

(1):- علیبن محمد خزاز: کفا یةال اثر ص : 45  

۴۸

اس جیسے بہت سارے روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انکی معرفت اور اطاعت نہ صرف رسالت مآب(ص)  کی معرفت  اور اطاعت ہے اور  انکا  انکار نہ صرف آنحضرت (ص)کی رسالت کا انکار ہے بلکہ وعدہ  الھی کا انکار ہے ،ُمقصد خلقت بشر یت جو کہ عبادت کاملہ کے پورے انسانی معاشرے میں وجود میں لانا ہے اس مقصد کا انکار ہے

اور دوران غیبت میں ہمارا معاملہ دو مطلب سے خارج نہیں ہے یا یہ کہ ہم کلی طور پر امام زمانہ سے  بے گانہ اور اجنبی ہو جائین تو اس صورت میں کل قیامت کے دن میں ہمیں اپنی  حسرت کی انگلی مہنہ میں لیتے یہ کہنا ہو گا(یا حسرتا  !علی ما فرّطنا فیها ) اے کاش ہم نےاس بارے میں کوتا ہی نہ کیا ہو تا ! ،یا تھوڑی بہت معرفت اور آشنائی امام کی اپنی اندر پیدا کریں ۔

اورامام زمانہ کی یہ معرفت جسے ہم نے مختصر انداز میں بیاں کیا آپ کی شکل وصورت دیکھے بغیر بھی حاصل کی جاسکتی ہے ، لہذا ایک  مؤمن منتظر کی سب سے بڑی ذمہ داری اپنے وقت کی امام اور حجت خدا کی معرفت اور پہچان ہے کہ جسکے وجود کے بغیر زمین ایک لحظہ بھی اپنی جگہ ثابت نہیں رہ سکتی  ”لو خلت الأرض ساعة واحدة من حجة اللّه ،لساخت بأهلها“ (1)    اور بھی بہت سی روایات ہر زمانے  میں امام زمانہ کے موجود  ہونےکی ضرورت پر  دلالت کرتی ہیں  

۲: امام مہدی ؑ کی محبت

معرفت کا  لازمہ محبت ہے  یہ اس معنی میں کہ جب تک انسان کسی چیز کے بارے میں مکمل شناخت نہیں رکھتا اور اسکی خصوصیات کے بارے میں صحیح علم نہیں رکھتا  اور  اسکی عظمت وفضائل اسکے      مقام و منزلت سے بے خبر ہو اس وقت اسکے ساتھ اپنے لگاو کا اظہار نہیں کرسکتا اور نہ ہی اسکے اپنے دلی رابطہ اور علاقہ پیداکر سکتا  ہے لیکن اس کے بر عکس انسان جس قدر کسی چیزکی عظمت ؛ خصوصیات ؛  فضائل اور حقیقت سے واقف ہو جاۓ تو خود بخود اسکی محبت اسکے دل میں آجاتی ہے ،اور اسکی طرف توجہ بڑھتی چلی جاتی ہے 

--------------

(1):- صدوق : کمال الد ین ج : 2 ص : 4 ۱۱-: اعلام الور ی          425   -

۴۹

اور دلی رابطہ روز بروز اوردن بہ دن بڑھتا  اور مظبوط ہوتا جاتا ہے -اور خدا ورسول (ص)اور ائمہ اطہار ؑ کی محبت وہ شمع ہے جو انسان کے تاریک دلوں کو پاک  و منور کر دیتا ہے ، اور انسانوں کو گناہوں ؛برائیوں سے  نجات دیتا ہے کیونکہ معرفت محبت کا ستوں ہے اور محبت گناہوں سے بچنے کا عظیم ذریعہ اورتہذیب وتزکیہ نفس کی شاہراہ ہے لہذا وایات معصومین میں زمانہ غیبت کے دوران  امام عصر ارواحنا لہ الفدء کی محبت پر خاص  توجہ دینے پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے چناچہ رسول اکرم(ص)   فرماتے ہیں  :“خداوند متعال نے شب معراج مجھ پر وحی کیا : اےمحمدؐ ! زمین پر کس کو اپنی  امت پر اپنا جانشین بناکے آیاہے ؟ جبکہ خالق کائنات خود بہتر جانتے تھے ،میں نے کہا پروردگارا اپنے بھائی علی ابن ابی طالب       کو اچانک میں نے علی ابی طالب     .......اور حجت قائم          کو ایک درخشان ستارے کی مانند انکے درمیان دیکھا عرض کیا پروردگارا یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ تمھارے بعد ائمہؑ ہیں اور یہ قائم ہے جو میرے حلال کو حلال اور حرام کو حرام کر دے گا اورمیری دشمنون سے انتقام لے گا .اے محمد ! اسے دوستی کرو کیونکہ  میں انکو اور ان سے دوستی رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہوں  

پس اگر چہ تمام  معصومین کی محبت واجب ہے لیکن اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حجت کی محبت خاص اہمیت اور خصوصیت کے حامل ہے  اسیلۓ  آٹھویں امام ؑ اپنے آباء و اجداد کے واسطے امام علی علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا:قال لی أخی رسول اللّه ..........ومن أحبّ ان یلقی اللّه وقد كمل ایمانه وحسی اسلامه فلیتولّ الحجة صاحب الزّمان المنتظر .. (1)   ”مجھ میرے بھای رسول خدل (ص)نے فرمایا جو شخص اﷲ تعالی سے مکمل ایمان اور نیک اسلام کے ساتھ ملاقات کا خوہاں ہے تو اسے چاہے کہ حضرت حجت صاحب الزمان         کی ولایت کے پرچم تلے آجاۓ اور انھیں دوست رکھےّ لہذا منتظرین کی دوسری سب سے بڑی ذمہ داری امام عصر ارواحنا لہ فداء کی محبت کو اپنے اندر بڑھانا ہے اور ہمیشہ انکی طرف متوجہ رہنا ہے ، اور اسکے لیے مختلف ذریعے بیاں ہوۓ ہیں ،ہم یہاں پر  چند اہم موارد احادیث معصومین کی روشنی میں بیاں کرتے ہیں ۔

--------------

(1):-  کاف ی:ج1 ،ص179 اور الغ یبة ،نعمان یص 141  اور ک فایة الاثر ص 162 - 

۵۰

الف: امام مہدی ؑکی اطاعت اور تجدید بیعت 

امام زمانہ           ہ  کی محبت کے من جملہ مظاہر اور اثار میں سے ایک ؛ حضرتؑ کی اطاعت پر ثابت قدم رہنا اور انکی بیعت کی ہمیشہ تجدید کرنا ہے ، اور یہ جا ننا چاہیے کہ امام اور رہبر اسکے ہر چھوٹے بڑے کاموں  سےمطلع اوراسکے   رفتار وگفتار کو دیکھتے ہیں،اسکے  اچھے اور نیک کاموں  کود یکھ کر انکے  دل میں سرور آجاتاہے جبکہ اسکے  برے اور ناشائستہ کاموں کو دیکھ کر  انکو دکھ ہو تاہے ،اور دل غم وغصے سے بھر جاتا ہے اور یہ بھی معلوم ہونا چاہے کہ انکی رضا خدا  او رسول(ص) کی رضا ہے اور انکی کسی پر ناراضگی خدا و رسول(ص) کی ناراضگی  ہے ،اور میرا  ہر نیک عمل ہر اچھی گفتار اور ہر مثبت قدم اطاعت کی راہ میں روز موعود کو نزدیک کرنے میں مؤثر ثابت ہو گا ،اسی طرح میرا اخلاص ،دین ومذہب اور اہل ایمان کی نسبت میرا احساس مسؤلیت؛  انکے ظہور میں تعجیل کا سبب بنے گا ۔ اور یہ بھی جاننا چاہیے کہ  اما م  زمانہ ؑ کی اطاعت صرف اور صرف پیغمبر اکرم (ص)کی اطاعت اور انکے لاۓ ہوۓ دین کی مکمل  پیروی سے  حاصل ہوتا ہے ،اور جب تک عملی میدان میں اطاعت نہ ہومحبت ومودت معنی ہی نہیں رکھتا یا اگر اجمالی محبت دل میں ہو تو اسے آخری دم تک اطاعت کے بغیر محفوظ رکھنا بہت ہی دور کی بات ہے چناچہ عربی ضرت المثل مشہور ہے(وانت عاصیُ           ُ إنّ المحبَ لمن یحبُّ مطیعُ) یہ ساری نافرمانی اور سر پیچدگی کے ساتھ تم کس طرح اپنی محبت کا اظہار کرتے ہو جبکہ جو جسے محبت کرتا ہے ہمیشہ اسی کا اطاعت گزار ہوتا ہے۔

اسیلۓ صادق آل محمد        د فرماتے ہیں: مَنْ سُرَّ أَنْ يَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ الْقَائِمِ فَلْيَنْتَظِرْ وَ لْيَعْمَلْ بِالْوَرَعِ وَ مَحَاسِنِ الْأَخْلَاقِ وَ هُوَ مُنْتَظِرٌ فَإِنْ مَاتَ وَ قَامَ الْقَائِمُ بَعْدَهُ كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ أَدْرَكَهُ فَجِدُّوا وَ انْتَظِرُوا هَنِیئاً لَكُمْ أَيَّتُهَا الْعِصَابَةُ الْمَرْحُومَةُ  (1)

--------------

(1):- الصراطالمستقیم ج : 2 ص :  14 ۹ 

۵۱

  جو شخص چاہتا ہے ،کہ امام زمانہ کے اصحاب میں سے ہو جائیں تو اسے چاہۓ کہ انتظار کرۓ اور ساتھ ساتھ تقوی وپرہیزگاری اختیار کرے اور نیک اخلاق اپناۓ اسی طرح آپ سے ہی دعاۓعہد کے یہ فقرات نقل ہوۓ ہیں :“اللہم انّی اُجدد لہ فی صبیحة یوم ہذا وما عشت فی ایامی “ خدایا ! میں تجدید (عہد ) کرتا ہوں ہے ،آج کے دن کی صبح اور جتنے دنوں مین زندہ رہوں اپنے عقد وبیعت کی جو میرے گردن میں ہے میں اس بیعت سے نہ پلٹوں گا اور ہمشہ تک اس پر ثابت قدم ہوں گا ، خدایا مجھ کو ان کے اعوان وانصار اوران سے دفاع کرنے والوں  میں سے قرار  دۓ .....

بلکہ متعدد روایات سےیہ معلوم ہوتا ہے ، کہ اہل بیت اطہارؑ کی نسبت جو عہد وپیمان اپنے ماننے والوں کی گردن پر لیا ہے، وہ چھاردہ معصومینؑ  کی اطاعت حمایت اور ان سے محبت کا وعدہ ہے

چنانچہ خود امام زمانہؑ نے جناب شیخ مفید کو لکھے ہوۓ نامے میں فرماتے ہیں :“  و لو أن أشیاعنا وفقهم الله لطاعته علی اجتماع من القلوب فی الوفاء بالعهد علیهم لما تأخر عنهم الیمن بلقائنا و لتعجلت لهم السعادة بمشاهدتنا علی حق المعرفة و صدقها منهم بنا فما یحبسنا عنهم إلا ما یتصل بنا مما نكرهه و لا نؤثره منهم و الله المستعان و هو حسبنا و نعم الوكیل و صلاته علی سیدنا البشیر النذیر محمد و آله الطاهرین و سلم ‏ (1) “اگر ہمارے شیعہ  اﷲ تعالی انھیں اپنی اطاعت کی توفیق عنایت فرماۓ ،ایک دل اور متحد ہو کر ہمارے ساتھ باندھے گۓ عہد وپیمان کو وفا کرتے تو ہمارے  احسان اور ہماری ملاقات کا شرف وفیض ان سے ہرگز مؤخر نہ ہوتے : اور بہت جلد کامل معرفت اور سچی پہچان کے ساتھ ہمارے دیدار کی سعادت انکو نصیب ہوتی ،اور ہمیں شیعوں سے صرف اور صرف انکے ایک گروہ کی کردار نے  پوشیدہ کر رکھّا ہے  جو کردار ہمیں پسند نہیں اور ہم ان سے اس کردار کی توقع نہیں رکھتے تھے ،پروردگار عالم ہمارا بہترین مددگار ہے اور وہی ہمارے لیۓ  کافی ہے ۔

--------------

(1):- مجلسیبحار انوار ،ج52 ،ص 140 - 

۵۲

پس حصرت حجت علیہ السلام کے اس کلام سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اہل بیت اطہار ؑکے چاہنے والوں سے جس چیز کا عہد وپیمان لیا ہے ،وہ انکی ولایت ؛اطاعت؛ حمایت اورمحبت ہے ۔

اور جو چیز امام زمانہ کی زیارت سے محروم ہونے اور انکے ظہور میں تاخیر کا سبب بنی ہے وہ انکے  ماننے والوں کے آنجناب کی اطاعت اور حمایت کے لیے آمادہ نہ ہونا ہے ،اور یہی اطاعت اور حمایت ظہور  کے شرائط میں سے ایک اہم شرط  ہے ۔

اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ امیر المومنین        فرماتے ہیں :“إعلموا أنّ الأرض لاتخلو من حجة لللّه عزوجل ولكنّ اللّه سیعمی خلقه عنها بظلمهم وجورهم وإسرافهم علی انفسهم (1)   جان لو زمین ہرگز حجت خدا سے خالی نہیں ہو سکتی-لیکن عنقریب پروردگار عالم لوگوں کےظلم وجور اور اپنے نفسوں پر اسراف کرنے کی وجہ سے انھیں  انکی زیارت سے  محروم کر دۓ  گا  -

پس ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ منتظرین کی ذمہ داریوں میں سے  ایک اہم ذمہ داری صاحب العصروالزمان کی اطاعت اور تجدید بیعت ہے  اوریہی  شرط ظہور اور محبت کی شاہراہ ہے کہ جسکے بغیر حقیقی اورکامل محبت حاصل نہیں ہوتی ۔

ب: امام مہدی  کی یاد

امام زمانہ عجل اﷲ فرجہ کے بلند مقام کی شناخت اور انکی مودّت ومحبت کو اپنے دل میں پیدا  کرنے اور اسے رشد دینے  کے لیۓ ضروری ہے کہ ہمیشہ آنحضرت کو یاد کریں ،اور انکی طرف متوجہ رہیں یعنی بہت زیادہ توحہ کرنا چاہیے اور یقینی طور  پر  یہ اثر رکھتا ہے ،کیونکہ مسلم طور پر اگر کوئی اپنی روح  ایک چیز کی طرف متوجہ رکھے تو ہو ہی نہیں سکتا کہ اس چیز کے ساتھ رابطہ برقرارنہ ہو ۔

--------------

(1):-  طبرسی - الاحتجاج ج : 2 ص : 499 - 

۵۳

اسی طرح اگر آپ نے اما م زمانہ کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا تو خود یہ کثرت توجہ ؛روحی کشش  ایجاد کر دیتی ہے البتہ استعداد اورظرفیت  کی حفاظت اور شرائط کے ساتھ توجہ  اپنا  اثر خود بخود  چھوڑتاہے اور روایات کے تاکید بھی اسی لحاظ سے ہے ،کہ یہ توجہ اور یاد لا محالہ متوجہ اور متوجہ الیہ کے درمیان رابطہ پیدا کر دیتی ہے اور وقت گزر نے کے ساتھ یہ رابطہ شدت اختیار کرجاتا ہے اور پہلے سے زیادہ مؤثر ہوتا جاتا ہے اور ہمیں بھی آج سے اسکی تمرین کرنا چاہیے اور کم سے کم چوبیس گنٹھوں میں دو وقت صبح اوررات کے وقت  اپنے دل کو حضرت بقیۃ اﷲ  اعظم  ارواحنا لہالفداءکی طرف متوجہ کریں چنانچہ  معصومینؑ نے بھی ایک نماز صبح کے بعد دعا عہدپڑھنے  دوسرا نماز مغربین کے بعد اس دعا کو پڑھنے کا حکم دیا ہےالسلام علیك فی الیل اذا یغشی والنهار اذا تجلی ” سلام ہو تجھ پر جب رات کی تاریکی چھا جاۓ اورجب دن کا  اُجالا پھیل جاۓ(1)   اور امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے :جو شخص اس عہد نامہ کو چالیس صبح پڑھے گا وہ حضرت قائم علیہ السلام کے مددگاروں میں سے شمار ہو گا اور اگر وہ شخص انکے طہور سے پہلے مر جاۓ تو اﷲ تعالی اسے امام ؑکی خدمت کے لیۓ مبعوث کرۓ گا اور اسے ہر کلمہ کے عوض میں ہزار نیکیان مرحمت فرمائیگا اور ہزارگناہ محوکرے  گا(2)     اسی طرح ہر روز جمعہ کو امام زمانہ کی تجدید بیعت کرنا مستحب ہے تاہم آسمانی فرشتے بھی جمعہ کے دن بیت المعمور پرجمع ہوتے ہیں اور ائمہ معصومین ؑکے تجدید بیعت کرتےہیں-

اور امام مہدی ؑکے ساتھ اس روحی اور دلی توجہ کو مستحکم کرنے اور انکی یاد کو مؤثر بنانے  کےلیۓکچھ طریقہ کاربھی ہمیں بتاۓ ہیں ہم ان میں سے بعض موارد  یہاں ذکر کرتے ہیں - 

--------------

(1):- نعمانی:الغ یبة ،باب 10 ،ص 141 -

(2):- پیام اما زمانہ ۱۸۸ ، آیۃاﷲ وحید خراسانی کے اما م زمانہکے متعلق تقر یر کا ایک حصہ-

۵۴

1 :امام مہدی ؑکی نیابت میں صدقہ دینااور نماز پڑھنا

امام زمانہ کی محبت کو بڑھانے اور انکی یادکو زندہ رکھنے اور  اپنی دلی توجہ کو متمرکز کرنے کے لیۓ ایک بہت ہی اہم ذریعہ انکی نیابت میں صدقہ دینا اور نماز پڑھنا  بلکہ ہر نیک کام جس میں خدا کی رضا ہو انجام دینا ہے-ہماری ان سے دلبستگی وتوجہ اور انکی اطاعت وپیروی ایسی ہونی چاہیے جس طرح خدا  و رسول ؐاور خود امام زمانہؑ اور انکے  اجداد طاہرینؑ ہم سے چاہتے  ہیں  ہم جب بھی نماز حاجت بجالاۓ یا صدقہ دین تو  آنجناب کی حاجتوں کو اپنے حاجتوں پر مقدم اور انکی نیابت میں  صدقہ دینے کو  اپنے اوپر اور اپنے عزیزوں کے اوپر صدقہ دینے پر مقدم کرنا چاہے ،اور اپنے لیۓ دعا کرنے سے پہلے انکے سلامتی اور تعجیل ظہور کے لیے دعا کرنی چاہیے،اسی طرح ہر نیک عمل جو انکے وفاء کا سبب بنتا ہے اپنے کاموں پر مقدم کرۓ تاکہ آنحضرت بھی ہماری طرف توجہ کرۓ اور ہم پر احسان کرۓ(1)    اور اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ سرور کائنات(ص) فرماتے ہیں : “کسی بندے کا ایمان کامل نہیں ہوتا جب تک وہ اپنی ذات سے زیادہ مجھ سے اور  اپنی خاندان سے زیادہ میری خاندان کو نہیں  چاہتا ہو ، اسی طرح اسکے نزدیک  اپنی عترت سے زیادہ میری عترت اور اپنی ذات سے زیادہ میری ذات عزیزتر نہ ہو -  اسی طرح متعدد روایات میں ائمہ معصومینؑ کو صلہ دینے کے بارے میں آیا ہے ،کہ ایک درہم امام کو صلہ میں دینا دوملین درہم دیگر کار خیر میں خرچ کرنے کے برابر ہے ؛ یا کسی اور روایت میں.آیا ہے ایک درہم جو  اپنے  امام کو دۓ اسکا ثواب اُحد کی پہاڑی سے بھی سنگین ہے يَا مَيَّاحُ دِرْهَمٌ يُوصَلُ بِهِ الْإِمَامُ أَعْظَمُ وَزْناً مِنْ أُحُدٍ (2) اسی طرح امام کے نیابت میں حج بجا لانے؛ زیارت پر جانے ،اعتکاف پر بیٹھنے ،اور صدقہ دینے کی تاکید کیا گیا ہے ۔ یقینا ان کاموں کا ایک اہم مقصد اورہدف اما م زمانہ کی یاد کو ہر وقت  اپنے دل ودماغ میں زندہ رکھنا  اوران سے اپنی قلبی و روحی توجہ کو تقویت دینا اور   ان کی محبت میں اضافۃ کرنا ہے ، دوسری عبارت میں یہ کہ ایک حقیقی منتظر کی خصوصیت یہ ہونی چاہیے کہ وہ  ہر چیز میں اپنے امام کو یاد رکھے اور انکو کبھی یاد سے جانے نہ دۓ ۔

--------------

(1):- مجلسی :ج ۱۰۲  ،ص ۱۱۱ مصباح الزائر ص ۲۳۵ - 

(2):- کشف المحجہ: فصل ۱۵۰ ،ص ۱۵۱ - 

۵۵

2: انکے  فراق کی داغ میں ہمیشہ غمگین رہنا .

بعض معصومین ؑبھی  امام زمانہؑ کی غیبت کے دوران کو یاد کرتے ہوۓ انکے شوق دیدار میں آنسو بھاتے تھے اور ان سے زیارت کی تمنا کرتے تھے ہاں تک اما م زمانہ کی فراق میں مہموم وغمگین ہونا مومن کی نشانیوں میں سے شمار کیا ہے جیسا کہ امیر المؤمنین        اپنے  حقیقی چاہنے والوں کی اوصاف اور نشانیا ں یوں بیاں فرماتے ہیں

“ومن الدلائل ان يُری من شوقه          مثل السقیم  وفی الفؤاد غلائلٌ

ومن الدلآئل ان یری من اُنسه            مستوحشاَ من كل ما هو مشاغل ٌ 

ومن الدلآئل ضحكه بین الوری               والقلب مخزون كقلب الثاكل "

انکی نشانیوں، میں سے ایک یہ ہے کہ شدت شوق کی وجہ سے بیمار جیسے نظر آئیں گۓ جبکہ انکا دل درد سے پھٹ رہا ہو گا ۔

انکی دوسری نشانی یہ ہے کہ اپنے محبوب کے اُنس میں اس طرح نظر آئیں گۓ کہ ہر وہ چیزجو انہیں محبوب سے دور کر دیتی ہے اس سے  بھاگ جاتے ہونگے   ۔

اور تیسری نشانی یہ ہے کہ دیکھنے  میں خندان نظر آئیں گۓ   جبکہ  انکا دل اس شخص کی طرح محزون ومغموم ہو گا جسکا جوان بیٹا اس دنیا سے فوت کرگیا ہو ۔

لیکن خصوصیت کے ساتھ امام ولی عصرؑ کی فراق وجدائی اور انکے مقدس قلب پر جو مصیبتین گزر تی  ہیں انکو یاد کرتے ہوۓ آنسو بہانا گریہ وزاری کرنے کی بہت ساری فضیلت بیاں ہوئی ہے ،اور واقعی اور حقیقی مؤمن کی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے چنانچہ چھٹے امام        اس بارے میں فرماتے ہیں :إِيَّاكُمْ وَ التَّنْوِیهَ أَمَا وَ اللَّهِ لَيَغِیبَنَّ إِمَامُكُمْ سِنِیناً مِنْ دَهْرِكُمْ وَ لَتُمَحَّصُنَّ حَتَّی يُقَالَ مَاتَ قُتِلَ هَلَكَ بِأَيِّ وَادٍ سَلَكَ وَ لَتَدْمَعَنَّ عَلَيْهِ عُيُونُ الْمُؤْمِنِینَ  (1)

--------------

(1):- کلینی :اصول کافی،ج ۲ ،ص ۱۵۶ اور،ج   ۱ ص ۵۳۸ -  

۵۶

اے مفضل خدا کی قسم تمھارے امام ؑسالوں سال پردہ غیب میں ہونگے اور تم لوگ سخت امتحان کا شکار ہوگا یہاں تک انکے بارے میں کہا جاے گا کہ وہ فوت کر گیا ہے یا انھیں قتل کیا گیا ہے ؟ ...لیکن مؤمنین انکی فراق میں گریاں ہونگے....... 

کسی دوسرے حدیث میں جسے  جناب شیخ صدوق نے سدیر صیرفی سےروایت کی  ہے ،کہتے ہیں :قَالَ دَخَلْتُ أَنَا وَ الْمُفَضَّلُ بْنُ عُمَرَ وَ أَبُو بَصِیرٍ وَ أَبَانُ بْنُ تَغْلِبَ عَلَی مَوْلَانَا أَبِی عَبْدِ اللَّهِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع فَرَأَيْنَاهُ جَالِساً عَلَی التُّرَابِ وَ عَلَيْهِ مِسْحٌ خَيْبَرِيٌّ مُطَوَّقٌ بِلَا جَيْبٍ مُقَصَّرُ الْكُمَّيْنِ وَ هُوَ يَبْكِی بُكَاءَ الْوَالِهِ الثَّكْلَی ذَاتَ الْكَبِدِ الْحَرَّی قَدْ نَالَ الْحُزْنُ مِنْ وَجْنَتَيْهِ وَ شَاعَ التَّغَيُّرُ فِی عَارِضَيْهِ وَ أَبْلَی الدُّمُوعُ مَحْجِرَيْهِ وَ هُوَ يَقُولُ سَيِّدِی غَيْبَتُكَ نَفَتْ رُقَادِی وَ ضَيَّقَتْ عَلَيَّ مِهَادِی وَ أَسَرَتْ مِنِّی رَاحَةَ فُؤَادِی (1)   ایک دن میں؛ مفضل بن عمیر ؛ابو بصیر اور ابان بن تغلب ہم سب مولا امام صادق      کی خدمت میں شرفیاب ہوۓ  تو آپکو اس حالت میں دیکھا کہ آپ فرش کو جمع کرکے خاک پر تشریف فرما ہیں ،  جُبہ خیبری  زیب تن کیۓ  ہوۓ ہیں -جو عام طور پر مصیبت زدہ لوگ پہنتے ہیں -،چہرہ مبارک پر حزن واندوہ کی آثار نمایاں ہیں اور اس شخص کی مانندبے تابی سے  گریہ کر رہے ہیں کہ جس کا جوان بیٹا فوت کر چکا ہو  ،آنکھوں سے آنسوں جاری ہے ،اور زبان پر فرما رہے ہیں  اے میرے دل کا سرور تیری جدائی نے میرے  آنکھوں سے ننید اُڑا لی ہے اور مجھ سے چین چھین لی ہے ،اے میرے سردار تیری غیبت نے میری مصیبتوں کو بے انتہا کر دی ہے .......روایت بہت ہی طولانی ہے اور بہت ہی ظریف نکات بھی موجود ہیں جو چاہتے ہیں تو مراجعہ کریں

پس  ان روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے  کہ  ائمہ بھی امام زمان علیہ السلام کی غیبت سے نگران  اور انکے شوق دیدار میں بے تاب  وگریاں تھے۔

--------------

(1):- کلینی :اصول کافی ،ج۱ ،ص ۳۳۶  باب غیبت -  ---- کمال الد ین ج : 2 ص 35: بحارال انوار ج : 51 ص : 219     

۵۷

۳ : علوم ومعارف اہل بیتؑ کو رواج دینا

علوم ومعارف اہل بیت علیہم السلام کی نشر و اشاعت اور ترویج؛حقیقت میں اہل بیت اطہار ؑکے امر کی احیا کرنے کے مصادیق میں سے ہے جس کے بہت تاکید کیا گیا ہے“اور منتظرین کی ایک اہم ذمہ داریوں میں سے بھی ہےجس طرح روایت میں امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا گیا ہے آپ فرماتے ہیں:تَزَاوَرُوا فَإِنَّ فِی زِيَارَتِكُمْ إِحْيَاءً لِقُلُوبِكُمْ وَ ذِكْراً لِأَحَادِیثِنَا وَ أَحَادِیثُنَا تُعَطِّفُ بَعْضَكُمْ عَلَی بَعْضٍ فَإِنْ أَخَذْتُمْ بِهَا رَشَدْتُمْ وَ نَجَوْتُمْ وَ إِنْ تَرَكْتُمُوهَا ضَلَلْتُمْ وَ هَلَكْتُمْ فَخُذُوا بِهَا وَ أَنَا بِنَجَاتِكُمْ زَعِیمٌ ایک دوسرے کی ملاقات کرو، زیارت پر جاو چونکہ تمھارے ان ملاقاتوں سے تمھارے قلوب زندہ اورہماری احادیث کی یاد آوری ہوتی ہے،اور ہماری احادیث تمھارے ایک دوسرے پرمہربان ہونے کا سبب بنتی ہیں پس تم نے ان احادیث کو لے لیا اور اس پرعمل کیا تو تم کامیاب ہو جاؤ گے نجات پاؤ گۓ اور جب بھی اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہلاک ہو جاؤ گۓ  ،پس ان احادیث پر عمل کرو میں تمھاری نجات کی ضمانت دونگا ”(1) اسی طرح کسی دوسرے حدیث میں ابن شعبہ حرّانی نے چھٹے امام ؑسے نقل کیا ہے آپ منتظرین کی توصیف میں فرماتے  ہیں:وفرقة احّبونا وحفظوا قولنا ،واطاعو أمرنا ولم یخالفوا فعلنا فاولئك منّا ونحن منهم (2) اور ایک گروہ وہ ہے جو ہمیں دوست رکھتا ہے،ہمارے کلام کی حفاظت کرتا ہے،ہمارے امرکی اطاعت کرتا ہے اور ہماری سیرت اور فعل کی مخالفت نہیں کرتا ہے، وہ ہم سے ہے اور ہم ان سے ہیں عصر غیبت میں  امام زمانہ کی بہترین  خدمت جس کی امام صادق علیہ السلام تمنا کرتے تھے ، علوم اہل بیت کی نشرو اشاعت انکی فضائل ومناقب کو لوگوں تک پہنچانا  ہے ، جو حقیقت میں دین خدا کی نصرت ہے جس کے بارے میں پروردگار عالم خود  فرماتا ہےوَ لَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ  إِنَّ اللَّهَ لَقَوِىٌّ عَزِیز٭ (3) بے شک اﷲ اسکی مدد کرۓ گا جو اسکی نصرت کرۓ اور بتحقیق خداوند عالم صاحب قدرت اور ہر چیز پر غلبہ رکھنے والاہے

--------------

(1):- وسائل الش یعة ج : 16 ص : 34 ۶ بحارالانوار ج : 71 ص : 35 ۸ 

(2):- تحف العقول :ص 513 :اور بحار انوار :ج75 ،ص 38۲ -

(3):- سورہحج ۴۰ - 

۵۸

۴:فقیہ اہل بیت ؑکی اطاعت اور پیروی

امام زمانہ ؑکی غیبت سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ پروردگار عالم نے اس امت کو اپنے آپ پر چھوڑ دیا ہو یا  انکی ہدایت ورہبری کا کچھ انتظام نہیں کیا ہو ؟،یہ اسلئے کہ اگر چہ حکمت الھی کی بنا پر حجت خدا لوگوں کے عادی زندگی سے مخفی ہیں ،لیکن آپکی نشانیاں اور آثار  اہل بصیرت پر مخفی نہیں ہے(بنفسی انت من مغیب ٍِ لم یخل منّا ، بنفسی انت من نازح ِ ما نزح عنّا ) (1) “ قربان ہوجاوں آپ پر پردہ غیبت میں ہیں لیکن ہمارے درمیاں ہے ،فدا ہو جاوں  آپ پر ہماری آنکھوں سے مخفی ہیں لیکن ہم سے جدا نہیں ہے ”

اسیلئے معصومؑ  فرماتے ہیں :وإن غاب عن الناس شخصه فی حال هدنة لم یغب عنهم مثبوت علمه (2)   ”اگر چہ غیبت کے دوران انکی شخصیت لوگوں کی نظروں سے مخفی ہونگی(3)   لیکن انکے علمی آثار اہل بصیرت پر عیان ہوں گے ۔ یعنی اسکا مطلب یہ ہے کہ خود  امام لوگوں کے حالات سے آگاہ ہین  اور جو علوم علماء اور فقہاء کے نزدیک  احادیث اور سیرت کی صورت میں موجود ہیں اوہ بہی انکے ہی آثار ہین- لوگ  اگر چہ انکے نورانی چہرے کی زیارت سے محروم ہیں اور مستقیم انکی اطاعت نہیں کر سکتے لیکن انکے نائب عام ؛ ولی فقیہ اور علماء کی اطاعت کے ذریعے اپنے امام کی اطاعت کر  سکتے ہیں ،کہ جنکی اطاعت کا خود معصومین علیہم السلام نے حکم دیا ہے“ “فَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنَ الْفُقَهَاءِ صَائِناً لِنَفْسِهِ حَافِظاً لِدِینِهِ مُخَالِفاً عَلَی هَوَاهُ مُطِیعاً لِأَمْرِ مَوْلَاهُ فَلِلْعَوَامِّ أَنْ يُقَلِّدُواه (4) .  اور فقہامیں سے وہ فقیہہ جو اپنے دین کا پابند ہو، نفس پر کنڑول رکھتا ہو ، نفسانی خواہشات کے تابع نہ ہو، اور اپنے مولا کے فرمان بردار ہو تو انکی اطاعت اور پیروی(تقلید )سب  عوام پر واجب ہے ۔

--------------

(1):- دعایندب ہ کا ا یکفقرہ

(2):- صافیگلپائ ی گانی :منتخب الاثر ،ص ۲۷۲ - 

(3):- البتہواضح ر ہے یہ غیبت کےپہل ی  معنی کی بنیاد پر ہے

(4):- مجلسی:بحار الانوار،ج2 ،ص 88 - وسائل الش یعة ج : 27 ص : 13

۵۹

 یا خود امام زمانہ علیہ الصلاۃ والسلام اس بارے فرماتے ہیں :أَمَّا الْحَوَادِثُ الْوَاقِعَةُ فَارْجِعُوا فِیهَا إِلَی رُوَاةِ حَدِیثِنَا فَإِنَّهُمْ حُجَّتِی عَلَيْكُمْ وَ أَنَا حُجَّةُ اللَّهِ عَلَيْهِم‏  (1) اور درپیش مسائل میں ہمارے احادیث کے جاننے والے (فقہاء) کی طرف مراجعت کریں ،جس طرح میں ان پر حجت ہوں اسی طرح وہ تمھارے اوپر میری جانب سے حجت ہیں یعنی اگر حجت خدا غیبت میں ہیں تو لوگوں کوبغیر حجت کے رہا نہیں کیا گیا ہے ،بلکہ فقہاء ان پر حجت ہیں انکی پیروی  خدا اورسولؐ کی پیروی ہے ۔

فَإِنِّی قَدْ جَعَلْتُهُ عَلَيْكُمْ حَاكِماً فَإِذَا حَكَمَ بِحُكْمِنَا فَلَمْ يَقْبَلْهُ مِنْهُ فَإِنَّمَا اسْتَخَفَّ بِحُكْمِ اللَّهِ وَ عَلَيْنَا رَدَّ وَ الرَّادُّ عَلَيْنَا الرَّادُّ عَلَی اللَّهِ وَ هُوَ عَلَی حَدِّ الشِّرْكِ بِاللَّه‏.  ” (2) اور ہم نے انھیں  تمھارے اوپر حاکم بنایا ہے ،پس وہ(فقیہ )جو حکم دیتا ہے وہ ہمارے حکم سے دیتا ہے جو ان سے قبول نہ کرۓ تو گویا اسنے حکم خدا کی بے اعتنائی کہ ہے ،اور ہمیں رد کیا ہے اور جو ہمیں رد کرے اسنے خدا کو رد کیا ہے  جو حقیقت میں خدا سے  شرک لانے کی حد میں ہے یعنی   انکی نافرمانی ہمارے نافرمانی ہے اورہماری نافرمانی خدا کی نافرمانی اور خدا کی نافرمانی شرک ہے اور اھل بیتؑ نے اپنے مانے والے شیعوں کو ابلیس اور اسکے کارندوں کی شر سے بچا کر رکھنے اور انکے ععقیدتی و ایمانی  حدود کی نگہبانی کو علماء ،فقہاء کی سب سے بڑی ذمہ داری بتائی ہے اور فرمایا ہے  :علماء شیعتنا مرابطون فی الثغر الذی یلی إبلیس و عفاریته یمنعونهم عن الخروج علی ضعفاء شیعتنا و عن أن یتسلط علیهم إبلیس و شیعته النواصب ألا فمن انتصب لذلك من شیعتنا كان أفضل ممن جاهد الروم و الترك و الخزر ألف ألف مرة لأنه یدفع عن أدیان محبینا و ذلك یدفع عن أبدانهم   ” (3) ہمارے شیعوں کے علماء ان حدود کے محافظ اور نگہبان ہیں کہ جن حدود سے گزر کر شیطان اور اسکے کارندے اور پیروان داخل ہوتے ہیں اوریہ علماء  ہمارے کمزور شیعوں پر شیطان کے غلبہ آنے اور انھیں بے ایمانی کی طرف سوق دینے سے بچاتے ہیں ،

--------------

(1):- """"   """"ج 53 ،ص 181 - الغیبةللطوس یص : ۲۹۱ 

(2):- کلینی :اصول   الکاف یج : 1 ص : ۶۷ -   تہذ یب ال اح کام ج : 6 ص :  21 ۸  

(3):- الصراط المستقیم :ج ۳ ،ص۵۵ ،  الاحتجاج ج : 2 ص۳۸۵  :  عوالی اللئالی ج ۱ ص ۱۸ . 

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

گئے ہيں اسى بنياد پر (اكثر) سے مراد مشركين ہوں گے (لا يعلمون) كا مفعول ما قبل جملات كے قرينہ كى بناء پر توحيد كا محكم اور با دليل ہونا اور شرك كا دليل و برہان سے عارى ہونا ہے _

۲۰ _ لوگ جب توحيد كے دلائل و برہان كى طرف توجہ كريں گے تو خودبخود وہ وحدہ لا شريك كى عبادت كى طرف ميلان پيدا كريں گئے_و لكن أكثر الناس لا يعلمون

۲۱ _ وہ لوگ جو صحيح و حقيقى عقائد كو فاسد اورخيالى عقائد سے جدا كرسكتے ہيں وہ عالم ہيں _

ما تعبدون من دونها إلّا أسماء سميتموها و لكن أكثر الناس لا يعلمون

۲۲_ لوگوں كى نادانى اور جہالت، غير اللہ كى عبادت اور شرك كا موجب بنتى ہے _

ما أنزل اللّه بها من سلطان و لكن أكثر الناس لا يعلمون

۲۳ _ اكثر مشركين، توحيد كے محكم و استدلالى ہونے اور شرك كے ضعيف و غلط ہونے سے ناواقف ہيں _

ما تعبدون من دونه و لكنّ أكثر الناس لا يعلمون

مذكورہ معنى اس صورت ميں ہے كہ (الناس) سے مراد مشركين ہوں اس بناء پر جملہ (و لكن اكثر الناس لا يعلمون ) اس نكتہ كى طرف اشارہ ہے كہ اكثر مشركين (حقيقت) سے ناواقف ہيں اور بعض ان ميں سے اس بات سے واقف ہيں ليكن بغض اور اپنے مقام و منصب كو كھودينے كے خوف سے توحيد پرستى كى طرف مائل نہيں ہوتے ہيں _

احكام :احكام كى تشريع كا حق۱۳ ; احكام كى تشريع كا سبب۱۳

اكثريت:اكثريت كا جاہل ہونا ۱۹ ; اكثريت كا شرك ۱۹

اللہ تعالي:اللہ تعالى كى حاكميت ۱۲ ;اللہ تعالى كى خصوصيات ۱۲ ، ۱۳ ; اللہ تعالى كے اوامر ۱۴ ، ۱۵; ; اللہ تعالى كى نعمتيں ۸ ، ۹;اللہ تعالى كے حقوق ۱۳

باطل معبود :باطل معبودوں كا بيہودہ ہونا ۲ ; باطل معبودوں كا عجز ۷ ; باطل معبودوں كى عبادت كا ردّ ۵

برہان :برہان و دليل كا فائدہ ۱۱

توحيد :توحيد افعالى ۲ ، ۸ ، ۱۲ ; توحيد عبادى ۱۶ ;توحيد عبادى كا متقن ہونا ۱۸ ، ۱۹ ،۲۳; ; توحيد عبادى ميں برہان و دليل ہونا ۱۸ ;توحيد كى حقيقت ۱۶

۴۸۱

جہل:جہل كے آثار۲۲

خيال بافى :خيال بافى كے آثار ۴

دين :دين سے انحراف كے موانع ۱۷ ;دين كے مضرّات كى شناخت ۱۷ ، ۲۲ ; دين ميں برہان كى اہميت ۱۷

شرك:شرك عبادى كا بے منطق و دليل ہونا ۶ ;شرك عبادى كاپيش خيمہ ۱۵; شرك عبادى كا سبب ۲۲ ; شرك كا باطل ہونا۱۶ ،۲۳ ; شرك كا بيہودہ ہونا ۱۸ ،۲۳ ; شرك كا ردّ ۵ ; شرك كا سبب۴ ; شرك كى حقيقت ۱۶ ، ۱۸; شرك كى گمراہى ۱۶

عبادت:اللہ كى عبادت كى اہميت ۱۴ ; باطل معبودوں كى عبادت كا ردكرنا۵

عقيدہ :عقيدہ باطل ۶ ،۱۵ ، ۱۶ ; عقيدہ باطل كا سبب ۴; عقيدہ صحيح كى تشخيص ۲۱ ; عقيدہ ميں دليل كى اہميت۱۰

علم :علم كے آثار۲۰

علماء :۲۱

قانون بنانا :قانون بنانے كا حق ۱۳

قديمى مصرى لوگ :قديمى مصرى لوگوں كا شرك ۱ ، قديمى مصرى لوگوں كا عقيدہ ۱

كائنات :كائنات كا حاكم۱۲

مشركين :مشركين اور باطل معبود ۱۵; مشركين اور توحيد ۲۳; مشركين كى اكثريت كا جاہل ہونا۲۳ ; مشركين كى جہالت ۱۹ ;مشركين كى فكر ۱۵

موجودات :موجودات كى شناخت كا طريقہ ۱۱ ، موجودات كى قدرت كا سبب۸

نعمت :استدلال كى نعمت ۹

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام اور باطل معبود ۳ ; يوسفعليه‌السلام اور توحيد عبادى ۳;يوسفعليه‌السلام اور ساتھى قيدى ۳;يوسفعليه‌السلام كا استدلال ۳; يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۳

۴۸۲

آیت ۴۱

( ا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْراً وَأَمَّا الآخَرُ فَيُصْلَبُ فَتَأْكُلُ الطَّيْرُ مِن رَّأْسِهِ قُضِيَ الأَمْرُ الَّذِي فِيهِ تَسْتَفْتِيَانِ )

ميرے قيد خانے كے ساتھيو تم سے ايك اپنے مالك كو شراب پلائے گا اور دوسرا مولى پر لٹكا ديا جائے گا اور پرندے اس كے سرسے نوچ نوچ كر كھائيں گے يہ اس بات كے بارے ميں فيصلہ ہوچكاہے جس كے بارے ميں تم سوال كررہے ہو(۴۱)

۱_ يوسفعليه‌السلام نے اپنے ساتھى قيديوں كو توحيد اور يكتاپرستى كى دعوت دينے كے بعد ان كے خوابوں كى تعبير بيان فرمائي_

يا صاحبى السجن أما احد كما فيسقى ربّه خمرا

۲_ يوسفعليه‌السلام نے (انگوروں سے شراب بنانے كے لئے پانى لينے )كے خواب كى تعبير اسكى رہائي اور اپنے مالك كے ليے ساقى بننا قرار ديا _أ ما أحد كما فيسقى ربّه خمرا

''سقى ''(مصدر يسقى ) ہے جوپينا يا مشروب دينے كے معنى ميں ہے تو اس صورت ميں (اما احد كما فيسقي ...) يعنى تم ميں سے ايك اپنے مالك و ارباب كو مشروب پلائے گا اور اسكا ساقى بنے گا_

۳_ يوسفعليه‌السلام نے روٹى اٹھانے اور پرندوں كا اسكو كھانے والے خواب كو اسے پھانسى پر لٹكانے اور اس كے سر سے پرندوں كے كھانے كى تعبير كي_و أما الآخر فيصلب فتأكل الطير من رأسه

(صلب) (يصلب) كا مصدر ہے ، پھانسى كے ذريعہ مارنے كو كہتے ہيں _

۴ _ قديم مصر ميں سزادينے كا يہ رواج تھا كہ مجرمين كو پھانسى پر لٹكاكر وہيں چھوڑ ديا جاتا تا كہ وہ پرندوں كى خوراك بن جائيں _و أما الآخر فيصلب فتأكل الطير من رأسه

۵_ يوسف(ع) نے اپنے ساتھى دو قيديوں ميں سے ايك كى آزادى اور دوسرے كے تختہ دار پر جانے كو حتمى اور ناقابل تغير كہا اور اس بات كو انہيں بتاديا_قضى الامر الذى فيه تستفتيان

۴۸۳

(افتاء) كا معنى حكم بيا ن كرنے كا ہے اور (استفتاء) (تستفتيان) كا مصدر ہے جسكا معنى حكم بيان كرنے كى درخواست كرنا ہے (الامر) سے مراد خواب كى تعبير ہے (يعنى وہ حادثہ جسكو خواب بتارہاہے)اس بناء پر ''قضى امر ...''كا معنى وہ حادثہ و واقعہ ہے جنكو تمہارے خواب نے بيان كيا اور تم نے اس كے بارے ميں سوال كيا يہ حتمى اور غير قابل تغير ہے اور رونما ہوكررہے گا_

۶_ بعض حوادث پہلے سے معين اور نا قابل تغير و تحول ہيں _قَضى الا مر الذى فيه تستفتيان

۷_ يوسفعليه‌السلام كے ساتھى قيديوں نے اپنے خوابوں كى تعبير كے ليے ان سے مكرر اصرار كيا كہ ان كى تعبير بيان كريں _

قضى الامر الذين فيه تستنقيان

فعل ماضى (استفتيا) (تم نے سوال كيا ) كى جگہ پر (تستفيتان) يعنى سوال كررہے ہو) لانا استمرار پر دلالت كرتاہے يعنى يوسفعليه‌السلام كے ساتھى قيديوں نے ان سے مكرر تعبير كرنے پر اصرار كيا _

۸_ ممكن ہے خواب آئندہ آنے والے حالات كے ليے آئينہ اور اس سے آگاہى كا دريچہ ہو_

فيسقى ربه خمراً فيصلب فتا كل الطير من رأسه

۹_ يوسفعليه‌السلام آئندہ كے حالات اور غيب پر مطلع اور آگاہ تھے_قضى الامر الذى فيه تستفتيان

(قضى الامر ...) كا معنى يوسفعليه‌السلام كے ساتھى قيديوں كے خواب كى تعبير نہيں بلكہ وہ ايك حقيقت كا ذكر تھا جوآپ(ع) نے تعبير كے خواب كے حاشيہ ميں اسكو ذكر كيا _اس سے معلوم ہوتاہے كہ حضرتعليه‌السلام تعبير خواب كے علاوہ آئندہ آنے والے حالات سے بھى آگاہ تھے_

تاريخ :جبركى تاريخ ۶

توحيد :توحيد عبادى كى تبليغ ۱

خواب:انگور كے پانى والے خواب كى تعبير ۲ ; پرندوں كے كھانے والے خواب كى تعبير ۳ ; خواب اور آئندہ كے حوادث ۸ ; خواب كا كردار ۸; روٹى اٹھانے والے خواب كى تعبير ۳ ; سچے خواب ۸

سزا:سزا كى تاريخ ۴

علم :

۴۸۴

آئندہ كے علم كا سبب ۸

قضا و قدر :۶قديمى مصر:

قديمى مصر ميں تختہ دار پر لٹكانا ۴ ; قديمى مصر ميں سزا ۴

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام اور ان كے ساتھى قيدى ۵;يوسفعليه‌السلام كا ساتھى قيديوں كى ہدايت كرنا ۱۰ ;يوسفعليه‌السلام كا علم غيب ۹ ; يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۳ ، ۵ ، ۷ ;يوسفعليه‌السلام كو تعبير خواب كا علم ۱ ، ۲،۳ ، ۵ ;يوسف(ع) كى پيشگوئي ۹ ; يوسفعليه‌السلام كى تبليغ ۱ ، يوسفعليه‌السلام كے ساتھى قيدى كا تختہ دار پر جانا ۵ ;يوسفعليه‌السلام كے ساتھى قيديوں كا انجام ۵;يوسفعليه‌السلام كے ساتھى قيديوں كى خواہشات ۷ ;يوسفعليه‌السلام كے ساتھى قيديوں كے خوابوں كى تعبير ۱ ، ۷ ;يوسفعليه‌السلام كے ساتھى قيدى كى نجات ۵ ;يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۹

آیت ۴۲

( وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ )

اور پھر جس كے بارے ميں خيال تھا كہ وہ نجات پانے والا ہے اس سے كہا كہ ذرا اپنے مالك سے ميرا بھى ذكر كردينا ليكن شيطان نے اسے مالك سے ذكر كرنے كو بھلاديا اور يوسف چند سال تك قيد خانے ہى ميں پڑے رہے (۴۲)

۱_يوسفعليه‌السلام نے اپنے ساتھى قيدى جو بادشاہ كا ساقى بننے والا تھا اس سے كہا كہ تم رہا ہونے كے بعد ميرى داستان كو بادشاہ سے بيان كرنا _و قال للذى ظنّ أنه ناج منهما اذكرنى عند ربك

۲ _ يوسفعليه‌السلام كى نظر ميں مصر كا بادشاہ كوئي ظالم انسان نہيں تھا كہ اس سے عدل و انصاف كى اميد نہ ركھى جائے_

اذكرنى عند ربك

يوسفعليه‌السلام نے بادشاہ كے ساقى سے يہ خواہش كى كہ بادشاہ كے سامنے ميرى مظلوميت كى داستان بيان كرنا اس سے معلوم ہوتاہے كہ يوسفعليه‌السلام اس كى دادرسى پر اميد ركھتے تھے_

۳ _ توحيدى اعتقاد ميں اسباب سے استفادہ كرنے ميں كوئي تضاد نہيں ہے _قال للذى ظنّ انه ناج منها اذكر نى عند ربك

۴ _ مشكلات اور سختيوں سے نجات حاصل كرنے ميں كفار سے مدد حاصل كرنا جائز ہے _اذكرنى عند ربك

۴۸۵

ظاہر ہوتاہے كہ يوسفعليه‌السلام كا ساتھى قيد ى آزاد ہونے كے وقت موحد نہيں ہوا تھا اور اس نے ايمان كا اظہار نہيں كيا تھا و گرنہ قرآن مجيد ميں اس بات كا ذكر ہوتا، پس جب يوسفعليه‌السلام نے اس سے خواہش كى تھى وہ كافر تھا_

۵_ بادشاہ كے ساقى نے يوسفعليه‌السلام كى بيان كردہ خواب كى تعبير پر اعتماد كيا اور اپنى نجات كے بارے ميں اميدوار ہوگيا_

و قال للذى ظنّ انه ناج منهم ممكن ہے (ظنّ ) كى ضمير(الذي) كى طرف لوٹے اور يہ بھى احتمال ہے كہ (يوسفعليه‌السلام ) كى طرف لوٹے ، ليكن مذكورہ معني، احتمال اول كى صورت ميں ہے تو اس صورت ميں (قال للذي ...) كے جملے كا معنى يوں ہوگا كہ يوسف(ع) نے اس ساقى بادشاہ سے جو اپنى نجات پر اميد ركھتا تھا كہا كہ مجھے بھى اپنے مالك كے پاس ياد كرنا ، اس بات سے معلوم ہوتاہے كہ خود يوسفعليه‌السلام بھى اس كى نجات پر يقين كامل ركھتے تھے نہ كہ انہيں گمان تھامذكورہ احتمال مناسب و قوى لگتاہے _

۶_ يوسف(ع) كے ساتھى قيدى كے خواب كى تعبير نے عملى جامہ پہنا اور اس نے زندان سے رہائي پاكر بادشاہ كى ملازمت اختيار كرلي_فانسىه الشيطان ذكر ربه

اس پر توجہ كرتے ہوئے كہ (فانساہ) كى ضمير ''الذى'' كى طرف لوٹتى ہے كہ جس سے مراد بادشاہ كا ساقى ہے_ تو جملہ (فانساہ الشيطان ذكر ربہ) اس بات پر دلالت كرتاہے كہ وہ زندان سے آزاد ہوا اور بادشاہ كے دربار ميں ملازم ہوگيا_

۷_ يوسفعليه‌السلام كا ساتھى قيدى جس نے نجات حاصل كى وہ بادشاہ مصر كا غلام تھا_

اذكرنى عند ربك فأنساه الشيطان ذكر ربه

ربّ (عند ربك) كے جملے ميں مالك كے معنى ميں ہے اور آيات ۴۳ اور ۴۵ كى دليل كى وجہ سے اس سے مراد مصر كا بادشاہ ہے_

۸_ بادشاہ كے ساقى نے زندان سے رہائي حاصل كرنے كے بعد يوسفعليه‌السلام كى درخواست ( كہ ميرى داستان كو ياد دلوانا) كو بھول گيا_فأنساه الشيطان ذكر ربه

(أنساہ) كا مصدر (انساء) ہے يعنى بھلا دينا كے معنى ميں ہے _ اور (أنساہ) اور (ربّہ) كى ضمير(الذّي) كى طرف لوٹتى ہے جس سے مرادبادشاہ كا ساقى ہے تو جملہ (فأنساہ ...) كا معنى يہ ہوگا كہ شيطان نے ساقى كے ذہن سے يہ بات نكال دى كہ وہ بادشاہ كے سامنے يوسفعليه‌السلام كے قصے كو بيان كرے _

۴۸۶

۹ _ شيطان ہى ساقى كے ذہن سے بادشاہ كے سامنے يوسفعليه‌السلام كے قصے كو ذكركرنے كو بھلادينے كا سبب بنا_

فأنساه الشيطان ذكرربّه

۱۰_شيطان كا انسان كى بھول و چوك ميں مؤثر كردار ہے_فأنساه الشيطان ذكر ربه

۱۱_شيطان نے يوسفعليه‌السلام كو زندان ميں باقى ركھنے كے ليے اپنى شيطانيت اور خباثت كا اظہار كيا _

فأنساه الشيطان ذكر ربه فلبث فى السجن

۱۲ _ يوسفعليه‌السلام كا زندان سے باہر آنا اور مورد اتہام سے بچ جانا، شيطان كے مقاصدسے سازگار نہيں تھا_

فأنساه الشيطان ذكر ربّه فلبث فى السجن بضع سنين

۱۳ _ يوسف(ع) ، بادشاہ كے ساقى كے آزاد ہونے كے بعد كئي سال تك زندان ميں رہے_فلبث فى السجن بضع سنين

(بضع) كا معنى ( چند) ہے اوريہ۳ سے ۱۰تك مبہم عدد كيلئے كنا يہ ہے_

۱۴ _مصر كا بادشاہ اگريوسفعليه‌السلام كى حقيقت سے آگاہ ہوجاتا تو ان كو زندان سے آزاد كرديتا_

فأنساه الشيطان ذكر ربه فلبث فى السجن بضع سنين

(لبث) كا معنى ( ٹھہرنا) اور (باقى رہ جانا) ہے مذكورہ بالا معنى جملہ ( لبث ...) كا پہلے والے جملے پر متفرع ہونے سے حاصل ہواہے يعنى شيطان نے بادشاہ كے ساقى كو فراموشى ميں ڈال ديا _ جس كے نتيجے ميں يوسفعليه‌السلام كئي سالوں تك زندان ميں پڑے رہے _

۱۵_'' عن أبى عبداللّه'' (فى قول اللّه ) قال للّذى ظنّ أنه ناج منهما اذكرنى عند ربك'' قال: و لم يفزع يوسف فى حاله الى اللّه فيدعوه فلذالك قال اللّه (فأنساه الشيطان ذكر ربه فلبث فى السجن بضع سنينّ '' (۱)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے اس قول خدا ( قال للذى اذكرنى عند ربك) كے بارے ميں روايت ہے كہ حضرتعليه‌السلام نے فرمايا : يوسف(ع) نے اس حالت ميں خداكى پناہ نہيں مانگى جسكى وجہ سے خداوند متعال نے فرمايا : (فأنساه الشيطان ذكر ربه )

____________________

۱)تفسير عياشى ج۲ ص ۱۷۶، ح ۲۳; نورالثقلين ج۲ ص ۴۲۶; ح ۷۳_

۴۸۷

۱۶_عن أبى عبداللّه عليه‌السلام فى قول اللّه تعالى : '' فلبث فى السجن بضع سنين'' قال: سبع سنين (۱)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے قول خدا ( فلبث فى السجن بضع سنين ) كے بارے ميں روايت ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا: (بضع سنين ) سے مراد سات سال ہيں _

احكام : ۴

توحيد :توحيد اور مادى اسباب سے مدد حاصل كرنا ۳

روايت : ۱۵،۱۶

سختى :سختى سے نجات كى اہميت ۴

شيطان :شيطان اور مصر كے بادشاہ كا ساقى ۹;شيطان اور يوسفعليه‌السلام كا برائت كرنا ۱۲ ;شيطان اور يوسفعليه‌السلام كى نجات ۱۲;شيطان كاكردار ۹، ۱۰; شيطان كى شيطنت ۱۱

فراموشي:فراموشى كا سبب ۱۰

مدد طلب كرنا :كافروں سے مدد طلب كرنا ۴; مدد كے طلب ہونے كا جواز ۴

مصر كابادشاہ :مصر كابادشاہ اور يوسفعليه‌السلام كى بے گناہى ۱۴ ; مصر كے بادشاہ كى عدالت ۲ ; مصر كے بادشاہ كے ساقى كا فراموش كرنا ۸ ; مصر كے بادشاہ كے ساقى كى فراموشى كا سبب ۹

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام اور مصر كا بادشاہ ۲ ; يوسفعليه‌السلام اور مصر كے بادشاہ كا ساقى ۱ ;يوسفعليه‌السلام زندان ميں ۱۱ ;يوسفعليه‌السلام كا زندان ميں باقى رہنے كا فلسفہ ۱۵;يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲،۵،۶، ۸ ، ۹ ، ۱۱ ، ۱۳ ، ۱۴ ، ۱۵،۱۶; يوسف(ع) كى اميد واري۲;يوسفعليه‌السلام كى تعبير خواب كا پورا ہونا۵، ۶ ; يوسفعليه‌السلام كى خواہشات ۱ ، ۸;يوسفعليه‌السلام كى زندان سے نجات ۱۲ ، ۱۴ ;يوسفعليه‌السلام كے زندان كى مدت ۱۳ ، ۱۶;يوسفعليه‌السلام كے ساتھى قيدى كا غلام ہونا ۷;يوسفعليه‌السلام كے ساتھى قيدى كا اميدوار ہونا۵ ;يوسفعليه‌السلام كے ساتھى قيدى كى ملازمت حاصل كرنا ۶ ;يوسفعليه‌السلام كے ساتھى قيدى كى نجات ۵ ، ۶

____________________

۱)تفسير عياشى ج۲ ص ۱۷۸ ح ۳۰; نورالثقلين ج/ ۲ ص ۴۲۷ ح ۷۶_

۴۸۸

آیت ۴۳

( وَقَالَ الْمَلِكُ إِنِّي أَرَى سَبْعَ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعَ سُنبُلاَتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَاتٍ يَا أَيُّهَا الْمَلأُ أَفْتُونِي فِي رُؤْيَايَ إِن كُنتُمْ لِلرُّؤْيَا تَعْبُرُونَ )

اور پھر ايك دن بادشاہ نے لوگوں سے كہا كہ ميں نے خواب ميں سات موٹى گائيں ديكھيں ہيں جنھيں سات پتلى گائيں كھائے جارہى ہيں اور سات ہر ہى تازى بالياں ديكھى ہيں اور سات خشك بالياں ديكھى ہيں تم سب ميرے خواب كے بارے ميں رائے دو اگر تمھيں خواب كى تعبير دينا آتا ہوتو(۴۳)

۱_ بادشاہ مصر نے يوسفعليه‌السلام كے زندان ميں كئي سال گذرنے كے بعد عجيب سا خواب ديكھا_

و قال الملك إنى أرى سبع بقرات سمان إن كنتم للرء يا تعبرون

۲_سات پتلى گائيں سات موٹى گائيں كو كھارہى تھيں اور سات بڑى تازى بالياں اور سات خشك بالياں ديكھنا ،بادشاہ كا تعجب آور خواب تھا_إنى أرى سبع بقرات سمان و اخر يا بست

(سمين)اور (سمينة) (سمان) كا مفرد ہيں جو موٹاپے كے معنى ميں آتاہے (اعجف) اور عجفاء) (عجاف) كا مفرد ہے ، جو بہت ہى لاغر اور نحيف كے معنى ميں آتاہے اور لفظ (سبع)كى تميز اس سے پہلے والے جملے كے قرينہ كى وجہ سے (بقرات) ہے تو عبارت يوں ہوگي_يا كلهنّ سبع بقرات عجاف

۳ _ مصر كے بادشاہ نے اس تعجب آور خواب كو كئي بار ديكھا_إنى أرى سبع بقرات سمان

بادشاہ، خواب كے ذكر كو فعل ماضى كے صيغے سے نقل كرسكتا تھا (رأيت) ميں نے خواب كو ديكھا_ ليكن اس نے فعل مضارع كے صيغے كو استعمال كيا (أرى ) ميں خواب ديكھ رہا ہوں _ ممكن ہے خواب كے استمرار كو بيان كررہا ہو_ ميں كئي راتوں سے ديكھ رہاہوں اور ممكن ہے كہ دوبارہ بھى اسكو ديكھوں _

۴۸۹

۴ _مصر كے بادشاہ نے (پتلى اورموٹى گائے اور سرسبز و خشك بالياں كے ) خواب كو تعجب آور خواب سے ياد كيا _

يأيها لملاء أفتونى فى رء ياى إن كنتم للرء يا تعبرون

خوابوں كى تعبير كرنے والوں كے سامنے اس خواب كو بيان كرنا اور ان كا اسكى تعبير ميں اپنى ناتوانى كو ظاہر كرنا اس بات كى طرف اشارہ ہوسكتاہے كہ بادشاہ نے اس خواب كو تعجب آور خيال كيا تھا_

۵_ موٹى و پتلى گائيں اور سرسبز و خشك بالياں بادشاہ نے ايك ہى خواب ميں ديكھى تھيں نہ كہ ہر ايك كو عليحدہ عليحدہ خواب ميں ديكھا تھا_إنى أرى سبع بقرات و سبع سنبلت خضر

كيونكہ لفظ (ارى ) كو خشك و سرسبز باليوں كے ديكھنے ميں دوبارہ ذكر نہيں كيا گيا كيونكہ اگر بادشاہ ان كو دوسرے خواب ميں ديكھتا تو فعل ( أري) كو جملہ ( سبع سنبلات) ميں دوبارہ ذكر كرتا اور جملہ (أفتونى فى رؤيا) ميں لفظ خواب (رؤياي) كا مفرد ذكر كرنا بھى اس مطلب سے حكايت كررہا ہے _

۶_مصر كے بادشاہ نے بزرگ دربارى لوگوں اور خواب كى تعبير كرنے والوں سے چاہا كہ اس شگفت آور خواب كى تعبير كريں _و قال الملك إنى أري ىا يها الملأ أفتوني

(ملا ) كا معنى بزرگان ہے _مقام كى مناسبت سے يہ كہہ سكتے ہيں كہ اس سے مراد دربار ميں خوابوں كى تعبير كرنے والے مراد ہيں جو ايك خاص منصب پر فائز تھے اور وہ بزرگ اور دانشمند سمجھے جاتے تھے_

۷_مصر كا بادشاہ دربارى خواب كى تعبير كرنے والوں كى صحيح تعبير كرنے ميں متردد تھا_أفتونى فى رء يائي إن كنتم للرء يا تعبرون

مذكورہ بالا تفسير جملہ ( إن كنتم ...) ميں ان شرطيہ سے استفادہ ہوتى ہے _

۸_مصر كا بادشاہ اپنے اس خواب سے يہ بھانپ گياكہ غير متوقعّ حادثہ و واقعہ كے رونما ہونے كے علاوہ يہ خواب ايك نئے دستور العمل اور نصيحت كا بيانگر ہے_أفتونى فى رء ياى ان كنتم للرء يا تعبرون

''أفتاء'' (أفتوني) كا مصدر ہے جو حكم بيان كرنے كے معنى ميں آتاہے_

۹_ قديم مصر ميں خواب بيان كرنا اور خوابوں كى تعبير ايك

۴۹۰

رائج علم تھا_أفتونى فى رء ياى ان كنتم للرء يا تعبرون

۱۰_ قديم مصر كے لوگ، خوابوں كو آنے والے حوادث سے مطلع ہونے كا راستہ سمجھتے تھے_أفتونى فى رء يائي

اعداد:سات كا عدد ۲

خواب:پتلى گائيں كا خواب ۲ ، ۵; خشك باليوں كا خواب ۲ ،۵ ; خواب كى تعبير كى تاريخ ۹; سرسبز اور تازہ باليوں كا خواب ۲ ، ۵ ; موٹى گائيں كا خواب ۲ ،۵

قديم مصر:قديم مصر ميں خوابوں كى تعبير كا علم ۹

قديم مصر كے لوگ:قديم مصر كے لوگ اور تعبير خواب ۱۰;قديم مصر كے لوگوں كى سوچ۱۰

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۷ ، ۸

آیت ۴۴

( قَالُواْ أَضْغَاثُ أَحْلاَمٍ وَمَا نَحْنُ بِتَأْوِيلِ الأَحْلاَمِ بِعَالِمِينَ )

ان لوگوں نے كہا كہ يہ تو ايك خواب پريشان ہے اور ہم ايسے خوابوں كى تاويل سے باخبر نہيں ہيں (۴۴)

۱ _ دربار كى طرف سے خواب كى تعبير كرنے والوں نے بادشاہ مصر كے خواب كو پريشان اور مختلف پہلوركھنے والا اور نامشخص خواب قلمداد كيا _قالوا أضعث أحلام

(ضغث) ، (أضغاث)كا مفرد ہے جو گھاس كے گھٹے كو كہا جاتاہے _ خواب كى تعبيركرنے والوں كى بناء پر اس كے خواب كو متعدد پہلوؤں اور چند نے بادشاہ كے خواب ميں گھاس كى مختلف گھٹيوں كے اجزاء پر مشتملقرار ديا_ اس طرح كہ ان كا آپس ميں ارتباط اور اس مجموعہ كى تاويل ان كے ليے دشوار بلكہ ناممكن مسئلہ تھي_

۲_دربارميں خواب كى تعبير كرنے والوں نے اس مختلف اور متعدد اجزاء پر مشتمل خواب كو پريشان اور اپنے علم كے دائرہ كا رسے خارج قرار ديا _

و ما نحن بتأويل الاحلام بعالمين

(الف و لام) (الأحلام) ميں عہد ذكرى ہے _ جو (أضغاث أحلام) كى طرف اشارہ كرتاہے پس اس صورت ميں جملہ (ما نحن ...) كا معنى يہ ہوگا _ اس طرح كے خواب جو چند جمع كئے ہوئے پہلووں پر مشتمل ہے كى تعبير ہم نہيں جانتے ہيں _

۴۹۱

۳ _ دربارى تعبير خواب كرنے والے، بادشاہ كے خواب كى تعبير پر قدرت نہ ركھنے كے باوجود اس خواب كو قابل تعبير و تا ويل سمجھتے تھے_قالوا ما نحن بتأويل الا حلام بعالمين

( وما نحن ...) كا جملہ اس بات پر دلالت كرتاہے كہ اس طرح كے خواب تاويل و تعبير ركھتے ہيں ليكن ہم اس سے ناواقف ہيں _

۴_خواب كى تعبير كے علم و دانش ميں پريشان و منظم خوابوں كى تقسيم_قالوا أضغاث أحلام

(أحلام) جمع حلم ہے جوخوابوں كے معنى ميں ہے_

۵ _چند پہلو ؤں پر درھم برھم خوابوں كى تعبير ايك مشكل كام اور خاص علم كى حامل ہے_

و ما نحن بتاويل الاحلام بعالمين

خواب:خواب پريشان ۱ ، ۴ ; خواب پريشان كى تعبير كا مشكل ہونا ۵;خواب كى تعبير كا علم ۵ ;خواب كے اقسام ۴;خواب منظم ۴

مصر كا بادشاہ :بادشاہ مصر كے تعبير خواب كرنے والوں كا اقرار ۲ ، ۳ ; بادشاہ مصر كے تعبير خواب كرنے والوں كا عجز ۲ ، ۳ ; بادشاہ مصر كے تعبير خواب كرنے والے ۱

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲

آیت ۴۵

( وَقَالَ الَّذِي نَجَا مِنْهُمَا وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ أَنَاْ أُنَبِّئُكُم بِتَأْوِيلِهِ فَأَرْسِلُونِ )

اور پھر دونوں قيدويوں ميں سے چو بچ گيا تھا اور جسے ايك مدت كے بعد يوسف كا پيغام ياد آيا اس نے كہا كہ ميں تمھيں اس كى تعبير سے باخبر كرتاہوں ليكن ذرا مجھے بھيج تو دو (۴۵)

۱ _ يوسفعليه‌السلام كے دو ساتھى قيديوں ميں سے ايك نے موت سے نجات پاكر دربارميں ملازمت پائي اور دوسرے كو پھانسى پر لٹكا ديا گيا_و قال الذين نجامنهم

۲_ بادشاہ كا ساقى (جو يوسفعليه‌السلام كے قيدخانے كا ساتھى تھا) كافى مدت تك يوسفعليه‌السلام كو بھول گيا اور ان كى زندان ميں گرفتارى سے غافل ہو چكا تھا_و قال الذى نجامنهما و ادكر بعد أمة

۴۹۲

(أمة) كے لفظ كا نكرہ ذكر كرنا ممكن ہے اس مدت كے طولانى ہونے پر دلالت كررہا ہو آيت ۴۲ ميں جملہ '' فلبث فى السجن بضع سنين'' اس بات كا مؤيد ہے _

۳ _ جب خواب كى تعبير كرنے والے دربارى ،بادشاہ كے خواب كى تعبير سے بے بس ہوگئے توبادشاہ كا ساقى (جو يوسفعليه‌السلام كے ساتھ قيد ميں تھا) حضرت يوسفعليه‌السلام كے تعبير خواب كے علم كو ذہن ميں لايا _

و قال الذين نجامنهما و ادّكر بعد امة

(ادّكر) يعنى ذہن ميں لايا ( ذكر ) سے ہے اور اصل ميں (اذّتكر) تھا _ قواعد صرفى كى بناء پر (ادّكر) ہوگيا_ (امة) آيت شريفہ ميں مدت و زمان كے معنى ميں ہے _

۴ _دربار كے ساقى نے يوسفعليه‌السلام كو بادشاہ كے خواب كى تعبيربيان كرنے كے ليے پيش كيا _أنا أنبئكم بتا ويله فأرسلون

۵ _ بادشاہ كا ساقى بادشاہ كے عجيب و غريب خواب كى تعبير كرنے پر حضرت يوسف(ع) سے مطمئن تھا_

أنا أنبئكم بتا ويله فارسلون

(أنا أنبئكم ) كے جملے كى تركيب مضمون جملہ كى تاكيد پر دلالت كرتى ہے _ اور يہ اس بات كى حكايت كرتى ہے كہ ساقى دربار حضرت يوسفعليه‌السلام كى تعبير خواب كى خصوصيات سے آگاہ ہى پر مطمئن تھا_

۶_بادشاہ مصر كے ساقى نے حضرت يوسفعليه‌السلام كے علم كو بيان كرنے كے ساتھ ساتھ اس بات كى طرف بھى اشارہ كيا كہ وہ قيد خانہ ميں ہيں _أنا انبئكم بتا ويله فأرسلون

(أرسلون) كے جملہ كو (فاء) كےذريعہ جملہ (أنا أنبئكم بتاويله ) كے ليے نتيجہ قرار دينے سے معلوم ہوتا ہے كہ ساقى دربار نے يوسفعليه‌السلام كے قصہ اور ان كے زندان ميں ہونے كو بمقدار ضرورت بيان كيا تھا_

۷ _ ساقى دربار نے بادشاہ اور بزرگان دربار سے چاہا كہ اسكو حضرت يوسفعليه‌السلام كے پاس قيدخانہ ميں جانے ديں تا كہ ان سے خواب كى تعبير پوچھ سكوں _أنا اُنبئكم بتا ويله فأرسلون

(فأرسلون) ميں حرف (ن)نون وقاية ہے اور اس پر جو كسرہ ہے وہ يا ء متكلم محذوف پر دلالت كرتاہے اسكا متعلق ( إلى يوسف فى السجن) ہے _ كيونكہ يہ بات واضح تھى اسى وجہ سے اسكو كلام ميں ذكر نہيں كياگيا _ تو اس صورت ميں (فارسلون) كا معنى يہ ہوا كہ مجھے حضرت يوسفعليه‌السلام كے پاس زندان ميں جانے دو _

۴۹۳

بادشاہ مصر:بادشاہ مصر كا ساقى اور تعبير خواب كرنے والوں كا عجز ۳ ; بادشاہ مصر كا ساقى اور يوسفعليه‌السلام ۲ ، ۳ ، ۴ ، ۶ ، ۷ ; بادشاہ مصر كے ساقى كى خواہشات ۷ ; بادشاہ مصر كے ساقى كا بھول جانا ۲ ;بادشاہ مصر كے ساقي كا اطمينان ۵ ; بادشاہ مصر كے ساقى كى نجات ۱

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كا زندان ميں ہونا ۶;يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۳،۴، ۵ ، ۶ ، ۷ ; يوسفعليه‌السلام كو تعبير خواب كا علم ۳ ، ۴ ، ۵ ، ۶ ; يوسفعليه‌السلام كے ساتھى قيدى كى نجات ۱ ; يوسفعليه‌السلام كے ساتھى كا پھانسى پر لٹك جانا ۱

آیت ۴۶

( يُوسُفُ أَيُّهَا الصِّدِّيقُ أَفْتِنَا فِي سَبْعِ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعِ سُنبُلاَتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَاتٍ لَّعَلِّي أَرْجِعُ إِلَى النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَعْلَمُونَ )

يوسف اے مرد صديقذرا ان سات موٹى گايوں كے بارے ميں جنھيں سات دبلى گائيں كھارہى ہيں اور سات ہرى باليوں اور سات خشك باليوں كے بارے ميں اپنى رائے تو بتائو شايد ميں لوگوں كے پاس باخير واپس جائوں تو شايد انھيں بھى علم ہوجائے (۴۶)

۱ _ ساقى دربار، بادشاہ كى اجازت سے جلدى سے زندان كى طرف گيا اور حضرت يوسفعليه‌السلام سے ملاقات كى _

فأرسلون يوسف أيّها الصديق أفتن

۲ _ ساقى دربار نے حضرت يوسفعليه‌السلام كو بہت ہى سچا انسان كہا اور (صديق) كے لقب سے انكو مخاطب قرار ديا_

يوسف ايّها الصديق

۳ _ بادشاہ كے ساقى نے يوسفعليه‌السلام سے ملاقات كے وقت انكو سچا اور اپنى صحيح خواب كى تعبير كرنے والے سے ياد كيا _

يوسف ايّها الصديق

۴ _ ساقى دربار نے بادشاہ كے خواب كو كامل اور دقيق طور پر يوسفعليه‌السلام كے ليے بيان كيا _

إنى أرى سبع بقرات أفتنا فى سبع

۴۹۴

بقرات و أخر يابسات

۵ _ ساقى دربار نے حضرت يوسفعليه‌السلام سے چاہا كہ خواب ميں سات دبلى گائيں جو سات موٹى گائيوں كو كھارہى ہيں اور سات سرسبز اور سات خشك باليوں كو جو ديكھا گيا ہے اسكى تعبير و تا ويل كرے_

أفتنا فى سبع بقرات سمان يا كلهن سبع عجاف سبع سنبلات خضر و أخر يابسات

۶ _ ساقى كا تعبير خواب كے ليے حضرت يوسفعليه‌السلام كى طرف رجوع كرنے كا مقصد يہ تھا كہ بادشاہ كے خواب كى تعبير لوگوں تك پہنچائي جائے_أفتنا فى سبع بقرات لعلّى أرجع إلى الناس

۷ _ ساقى كا تعبير خواب كے ليے يوسفعليه‌السلام كى طرف رجوع كرنے كا مقصد يہ تھا كہ حضرت يوسفعليه‌السلام كے مقام و منزلت لوگوں كو بتائي جائے_لعلّى أرجع الى الناس

۸ _ ساقى ، يہ خيال كرتا تھا كہ لوگوں تك بادشاہ كے خواب كى تعبير پہنچانے ميں دربار مانع ہوگا_

لعلى أرجع الى الناس لعلّهم يعلمون

بادشاہ مصر:بادشاہ مصر كا خواب ۴; بادشاہ مصر كا ساقى اور حضرت يوسفعليه‌السلام ۱ ، ۲ ، ۳ ، ۴ ، ۵ ، ۶، ۷;بادشاہ مصر كے خواب كى تعبير كا لوگوں تك پہنچانا ۶ ;بادشاہ مصر كے خواب كى تعبير كى درخواست كرنا ۵ ; بادشاہ مصر كے ساقى كا اجازت لينا ۱ ; بادشاہ مصر كے ساقى كى فكر۸; بادشاہ مصر كے ساقى كے مقاصد ۶ ، ۷ ; بادشاہ مصر كے ساقى كى خواہشات و اميديں ۵

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام سے ملاقات ۱ ; يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۳ ، ۴ ، ۵ ، ۶،۷ ; يوسفعليه‌السلام كى صداقت ۲ ;يوسفعليه‌السلام كے القاب ۲ ; يوسفعليه‌السلام كے خواب كى تعبير كا صحيح ہونا ۳ ; يوسف كے مقامات ۷

۴۹۵

آیت ۴۷

( قَالَ تَزْرَعُونَ سَبْعَ سِنِينَ دَأَباً فَمَا حَصَدتُّمْ فَذَرُوهُ فِي سُنبُلِهِ إِلاَّ قَلِيلاً مِّمَّا تَأْكُلُونَ )

يوسف نے كہا كہ تم لوگ سات برس تك مسلسل زراعت كروگے تو جو غلہ پيدا ہوا اسے باليوں سميت ركھ دينا علاوہ تھوڑى مقدار كے جو تمھارے كھانے كے كام ميں آئے(۴۷)

۱_بادشاہ كے خواب ميں سات موٹى گائيں مصر ميں كھيتى باڑى ميں رونق اور فراوانى كى علامت تھيں _

قال تزرعون سبع سنين دأب

(سات سال محنت كے ساتھ كھيتى باڑى كريں ) يعنى سات سال آبادانى كے ہيں ظاہريہ ہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام اس معنى كو (سبع بقرات سمان) كے جملے سے سمجھے تھے_

۲_ بادشاہ مصر كا خواب آنے والے پندرہ سالوں كے اچھے و برے حالات كے رموز كو بيان كررہا تھا_

قال تزرعون سبع سنين دأب

جملہ ''تزرعون سبع سنين دأباً'' سات سال محنت سے كھيتى باڑى كريں يعنى سات سال آبادانى كے ہيں اور جملہ '' ثم يأتى من بعد ذلك سبع شداد'' جو بعد والى آيت ہے وہ اسكو بتاتى ہے كہ سات سال قحطى اور خشك سالى كے ہيں '' ثم يأتى من بعد ذلك عام ...'' خشك سالى كے سات سال بعدفراواں بارش كاسال ہوگا_ پس بادشاہ كا خواب آنے والے پندرہ سالوں كے حالات كا بيان گر تھا_

۳_ بادشاہ مصر كا خواب اصل ميں آنے والے سخت و دشوار حالات سے نمٹنے كے ليے ايك دستور العمل اور پروگرام تھا_

قال تزرعون سبع سنين دأباً فما حصدتم فذروه فى سنبله

اس سے معلوم ہوتاہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بادشاہ كے خواب كى تعبير ميں ان حقائق اور دستورالعمل كہ جن كى ياد دہانى كرائي گى تھى اس خواب سے استفادہ كيا _ اسى وجہ سے وہ خواب پندرہ سال دور حكومت كى حكايت كرنے كے ساتھ ساتھ دستور العمل بھى تھا_

۴ _بادشاہ كے خواب ميں سرسبز اور خشك بالياں ، كھيتى باڑى كے محصولات كو سات سال آبادانى ميں ہونے كو بتاتى تھيں _فما حصد تم فذروه فى سنبله

(تزرعون) كا جملہ اگر چہ جملہ خبرى ہے ليكن (فذروہ ...) كے قرينے سے مقام انشاء كےميں ہے_اس معنى سے مراد دستور و

۴۹۶

پروگرام ہے پس (تزرعون ...) كا معنى يہ ہوا كہ سات سال تك بڑى كوشش اور محنت سے زراعت كرو_حضرت يوسفعليه‌السلام كى زراعت سے مراد ( فذروہ فى سنبلہ) (كے قرينے سے) دانے دار باليوں والے پودوں كى زراعت تھي_حضرت يوسف(ع) نے كھيتى باڑى كے معنى كو (سبع سنبلات خضر ...) سے استفادہ كيا تھا_

۵ _ بادشاہ مصر كے خواب ميں پہلے سات سالوں ميں بہت محنت اوركوشش كے ساتھ كھيتى باڑى كا ضرورى ہونے كا پيغام پوشيدہ تھا_سبع بقرات سمان قال تزرعون سبع سنين داب

(دأب) مصدر ہے جو كوشش كرنے كے معنى ميں آتاہے _ اور (دأباً) آيت شريفہ ميں اسم فاعل (دائبين)كى جگہ پر ذكر كيا گيا ہے ، اور (تزرعون) كے فاعل كے ليے حال واقع ہوا ہے اسى وجہ سے بہت زيادہ محنت و كوشش كرنے پر دلالت كرتاہے _ ظاہراً معلوم ہوتاہے كہ حضرت يوسف(ع) نے گائيں كے موٹے ہونے سے اس معنى كو اخذ كيا ہے_ يعنى بہت زيادہ كوشش سے زرعى محصولات كو حاصل كركے غذائي مواد اور غلاّت كو سٹور كيا جائے_

۶_بادشاہ كے خواب ميں خشك بالياں ، محصولات غذائي كو سٹوركرنے كا پيغام اور ان كے ساتھ ان كے كٹے ہوئے خشك تنے بھى ہمراہ ہوں ، پر دلالت كرتى تھيں _و أخر يابسات فما حصد تم فذروه فى سنبله

(فذروہ فى سنبلہ) كا جملہ مذكورہ دستور العمل كے ساتھ اس وجہ سے مناسبت ركھتاہے كہ بادشاہ نے اپنے خواب ميں خشك باليوں كو ديكھا تھا، كيونكہ خشك بالياں ذخيرہ اور سٹور كرنے كو بتاتى ہيں _يہ بھى كہا جاسكتاہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام نے ( اخر يابسات) كے جملے سے مذكورہ بالا دستورالعمل كو اخذ كيا ہو_

۷_بادشاہ كے خواب ميں سات سال كھيتى باڑى كى فراوانى ميں بچت كرنے كا پيغام پوشيدہ تھا_

فما حصد تم فذروه فى سنبله إلّا قليلاً مما تا كلون

(حصاد) حصد تم كا مصدر ہے _ كھيتى كاٹنے كے معنى ميں آتاہے اور (ذروا) فعل امر ہے _ رہا كرنے كے معنى ميں آتاہے _ (ممّا) ميں من بيانيہ ہے _ اور (الاّ قليلاً ) استثناء ہے لفظ ماسے جو جملہ (فما حصد تم ...) ميں ذكر ہے تو معنى يوں ہوگا_جس كھيتى كو پكنے كے بعد كاٹ رہے ہو ان كوانہيں كے سٹوں كے ساتھ ركھ دو (يعنى ان كے دانوں كو ان كے تنے سے جدأنہ كريں فقط اتنى تھوڑى مقدار جو كہ غذا كا مصرف ہے اس كو سٹوں سے جدا كرو _

۸ _ غلاّت كى پيداوار ميں سات سال تك كوشش اور ان غلات كو انكى باليوں كے ساتھ سٹور كرنا اور مصرف و استعمال

۴۹۷

ميں بچت سے كام لينا ، يہ حضرت يوسفعليه‌السلام كى مصر كے لوگوں كو نصيحتيں تھيں تا كہ وہ قحطى و خشكسالى كے سات سال ميں مشكلات كا مقابلہ كرسكيں _قال تزرعون سبع سنين دأب

بعض حضرات اس كے قائل ہيں كہ بادشاہ كے خواب ميں دستور العمل اور آئندہ كى چارہ جوئي و مشكلات كے سدّ باب كے ليے اشارہ نہيں تھا_ بلكہ جو طريقے حضرت يوسفعليه‌السلام نے بيان فرمائے وہ ان كا خدادادى علم تھا اور ان كا بادشاہ كے خواب كے ساتھ كوئي تعلق نہيں تھا_ مذكورہ بالا معنى بھى اسى بات كو بيان كرتاہے_

۹_اگر غلات كو انكى باليوں اور تنے و چھلكے كے ساتھ سٹور كرليں تو خراب ہونے اور بيماريوں سے محفوظ رہنے كے ليے زيادہ مناسب طريقہ ہے _فما حصد تم فذروه فى سنبله

۱۰_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں مصر كى سرزمين كھيتى باڑى اور غلات كے محصولات كے عنوان سے اپنے مصرف سے زيادہ آمدنى دينے والى تھي_قال تزرعون سبع سنين دأباً فما حصد تم فذروه فى سنبله

۱۱_ حضرت يوسف(ع) نے مصر كى حكومت سے اذيت اٹھانے كے باوجود بھى اپنے علم و دانش كو عطا كرنے ميں دريغ نہيں كيا _قال تزرعون إلّا قليلاً مما تا كلون

۱۲_ حضرت يوسفعليه‌السلام بزرگوار مرد مجاہداور درگذر كرنے والى شخصيت تھے_أفتنا قال تزرعون

حضرت يوسفعليه‌السلام اگر چہ حكومت كى مشينرى سے بے جرم و خطاء ستم اور قيد و بندميں دوچارہ ہوئے تھے ليكن پھر بھى اپنے علم و دانش كو بغير كسى چون و چرا كے ان كے اختيار ميں ركھ ديا _ يہ كام حضرت يوسفعليه‌السلام كى بلند و بالا شخصيت كى علامت ہے اور انكى بزرگوارى اور جوانمردى كو بتا تا ہے _

۱۳ _ علم و دانش كو پوشيدہ ركھنا بالخصوص جب معاشرہ اسكا محتاج ہو نيك اور پاك دل انسانوں كى شأن سے دور رہے _

قال تزرعون إلاّ قليلاً مما تا كلون

۱۴ _ خواب كى تعبير ميں نامناسب اظہار نظر كرنا، اسكى صحيح تعبير و تفسير كو ختم نہيں كرسكتا ہے_قالوا أضغاث أحلام قال تزرعون سبع سنين دأب //دربار ميں خواب كى تعبير كرنے والوں نے اگر چہ بادشاہ كو خواب تو در ہم بر ہم اور چرندو پرند قرار ديا ليكن پھر بھى حضر ت يوسفعليه‌السلام نے بادشاہ كے خواب كى جو تعبير پيش كى وہ حقيقى طور پر پورى ہوئي يعنى ان كا اظہار خيال اس تعبير پر اثر انداز نہ ہوا_

۴۹۸

۱۵ _ كافرں كا خواب بھى حقيقت كا بيان گر اور معاشرہ كو مشكلات و پريشانيوں سے بچانے كے ليے دستور العمل ہوسكتاہے_قال الملك إنى ا رى قال تزرعون سبع سنين دأب

۱۶_ حكومتوں كو اقتصادى پروگرام دينا اور كافروں كو بھوك و قحطى ا ور مشكلات سے نجات دينا جائز اور پسنديدہ كام ہے _قال تزرعون سبع سنين الاّ قليلاً مما تا كلون

۱۷_ اقتصادى بحران اور پريشانيوں سے بچنے كيلئے بچت سے كام لينا اور بحرانى حالات سے نمٹنے كيلئے تيارى ضرورى ہے _

فذروه فى سنبله الاّ قليلاً مما تا كلون

۱۸_ اقتصادى مشكلات اور بحران ميں معاشرتى اقتصاد كى ترقى كے شرائط سے استفادہ كرنا ضرورى ہے _

تزرعون سبع سنين دأباً الاّ قليلاً مما تأكلون

۱۹_ حكومت كے ليے بحرانى اور قحطى صورتحال ميں غذائي مواد كى توليداور تقسيم ميں كنٹرول كرنا ضرورى ہے _

تزرعون سبع سنين الاّ قليلاً مما تاكلون

آيت ۴۹ ميں مخاطب سے غائب كى طرف عدول يعنى (تغاثون) اور (تعصرون) كى جگہ پر (يغاث الناس) اور (يعصرون) كا ذكر گويا اس بات كو بتاتاہے كہ (تزرعون) اور (ذروہ) كے مخاطب حكومت كے رؤسا ہيں _

۲۰_ معاشرہ كے حكمرانوں كے ليے ضرورى ہے كہ اقتصادى مسائل كى پيش بينياور حساب و كتاب پر مشتمل پروگرام مرتب كريں _تزرعون سبع سنين مما يأكلون

احكام : ۱۶

اعداد:سات كا عدد ۱ ، ۴ ، ۵ ، ۷ ، ۸

اقتصاد:اقتصادى بحران كى پيش بينى كرنے كى اہميت ۲۰; اقتصادى بحران ميں پيداوار بڑھانا ۱۹;اقتصادى بحران ميں تقسيم ۱۹ ;اقتصادى بحران ميں دستور العمل و پروگرام بنانا ۱۷،۱۸ ;اقتصادى پروگرام بنانے كى اہميت ۲۰;اقتصادى ترقى سے استفادہ كرنا ۱۸

بادشاہ مصر:

۴۹۹

بادشاہ مصر كا خواب ۲ ، ۳ ، ۵ ، ۶ ،۷;بادشاہ مصر كے خواب كى تعبير ۱ ، ۴

حكمران:حكمرانوں كى ذمہ دارى ۲۰

حكومت :بحرانى صورت ميں حكومت كرنا ۱۹; حكومت كى ذمہ دارى ۱۹

خواب:تعبير خواب كى كيفيت ۱۴; خشك باليوں كے خواب كى تعبير ۴ ، ۶ ; سرسبز و تازہ باليوں كے خواب كى تعبير ۴ ; موٹى گائيں كے خواب كى تعبير۱

خوراك كى راشن بندي:خوراك كى راشن بندى كى اہميت ۱۹

سرزمين:يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں مصر كى سرزمين ۱۰

عمل:پسنديدہ عمل ۱۶

غلات:غلات كا سٹور كرنا ۶ ;غلات كى باليوں كے فوائد ۹;غلات كے پيداوار كى اہميت۸ ; غلات كے سٹور كرنے كا طريقہ ۹ ;غلاّت كے سٹور كرنے كى اہميت ۸

قديم مصر :قديم مصر غلات كى پيداوار ميں ۱۰ ; قديم مصر كى تاريخ ۲; قديم مصر كى توانياں ۱۰ ; قديم مصر كے حكمرانوں كى اذيتيں ۱۱ ; قديم مصر ميں زراعت ۱۰ ;قديم مصر ميں سرسبز و شادابى ۱

قحطى :قطحى سے سدّ باب ۸;قحطى كے سدّ باب كى اہميت ۱۶

كفار:كفار كى مدد كرنے كے احكام ۱۶ ; كفار كے خوابوں كا سچا ہونا ۱۵

كھيتى باڑى :كھيتى باڑى كى اہميت ۵ ; كھيتى باڑى ميں نقصانات سے بچنے كا طريقہ ۹

محسنين :محسنين كى خصوصيات۱۳

مصرف:مصرف كرنے كے طريقے ۷ ، ۱۷; مصرف كرنے ميں بچت كى اہميت ۷ ،۱۷

معاشرہ :معاشرے كى ضرورت كے وقت علم كو چھپانا ۱۳; معاشرے كى ضروريات كو پورا كرنے كى اہميت ۱۳; معاشرے كے حكمرانوں كى ذمہ دارى ۲۰

نيك لوگ:نيك لوگوں كى خصوصيات ۱۳

۵۰۰

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945

946

947

948

949

950

951

952

953

954

955

956

957

958

959

960

961

962

963

964

965

966

967

968

969

970

971