تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 4%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 213447 / ڈاؤنلوڈ: 4484
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۸

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام اور قديم مصر كى حكومت ۱۱ ; يوسف(ع) اور قديم مصر كے لوگ۸;يوسف(ع) كا معاف كرنا ۱۲ ; يوسفعليه‌السلام كو اذيت دينا ۱۱ ; يوسفعليه‌السلام كى جوانمردى ۱۱ ، ۱۲ ; يوسفعليه‌السلام كى شخصيت ۱۲ ;يوسفعليه‌السلام كى نصيحتيں ۸ ; يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۱۱ ،۱۲

آیت ۴۸

( ثُمَّ يَأْتِي مِن بَعْدِ ذَلِكَ سَبْعٌ شِدَادٌ يَأْكُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَهُنَّ إِلاَّ قَلِيلاً مِّمَّا تُحْصِنُونَ )

اس كے بعد سات سخت سال آئيں گے جو تمھارے سارے ذخيرہ كو كھا جائيں گے علاوہ اس تھوڑے مال كے جو تم نے بچا كر كرركھا ہے (۴۸)

۱_حضرت يوسفعليه‌السلام نے بادشاہ مصر كے خواب ميں سات دبلى گائيں كى تعبير سات سال سبز و شا دابى كے بعد قحطى و سختى كے سات سال واقع ہونے سے كى _ثم يأتى من بعد ذلك سبع شداد

لفظ (شداد)جمع ( شديد ) ہے اور اسكا مصدر (شدہ) يعنى سختى و دشوارى ليا گياہے _اور (سبع شداد) سے مراد سات سال خشكى اور قطحى ہيں _ اور (ذلك ) كا مشار اليہ سات سال خوشحالى اور فراوانى كے ہيں _

۲ _ بادشاہ كے خواب ميں سات سال فراوانى اور آبادى كے بعد قحطى كے سال تھے_ثم يأتى من بعد ذلك سبع شداد

معلوم ہو تا ہے كہ جو بادشاہ كے خواب ميں سات، دبلى پتلى گائيں موٹى گائيں كو كھارہى تھيں اس سے حضرت يوسفعليه‌السلام نے يہ اخذ كيا كہ قحطى كے سال فراوانى ،كے سالوں كے بعد رونما ہوں گے _

خواب كے بيان ميں موٹى گائيں كا ذكر دبلى پتلى گائيں سے پہلے كرنا ممكن ہے كہ يوسفعليه‌السلام كى اس تعبير كى دوسرى دليل ہو_

۳ _ بادشاہ مصر كے خواب ميں فراوانى كے سال ميں ذخيرہ شدہ خوراك سے خشك سالى كے سال ميں استفادہ كرنا ايك پوشيدہ پيغام تھا_ثم يأتى من بعد ذلك سبع شداد يأكلن ما قدمتم لهن

(يأكلن) اور (لہن) كى ضمير (سبع شداد) كى طرف پلٹتى ہے اور (ما قدّمتم لھن) (جو تم نے آنے والے سالوں كے ليے بھيجا ہے) شادابى كے سالوں ميں ذخيرہ شدہ ہے تو اس صورت ميں (يأكلن ) كا معنى يہ ہوگا كہ جو تم نے فراوانى كے سالوں ميں جمع كيا ہے اسكو كھائيں گے_

۴ _ حضرت يوسفعليه‌السلام نے مصر كى حكومت كے كارندوں كو يہ

۵۰۱

تاكيد فرمائي كہ ان فراوانى كے سات سالوں سے حاصل ہونے والى تمام خوراك كو استعمال نہ كريں بلكہ قحطى كے سالوں كے ليے اسكو بچا كر ركھيں _ياكلن ما قدمتم لهن الا قليلاً مما تحصنون

(احصان) ''تحصنون'' كا مصدر ہے اسكا معنى كسى شے كو امن كى جگہ پر قرار دينا ہے تو اس وجہ سے (الاّ قليلاً مما تحضون ) كا معنى يوں ہوگا جس خوراك كو تم نے انبار كركے ركھاہے ان كو قحطى كے سال ميں استعمال نہ كرنا شايد اس سے يہ احتمال ديا جاسكتاہے كہ پندرہويں سال كے بيچ كے ليے اسكو بچاكر ركھنا ہے_

۵ _ بادشاہ مصر كے خواب ميں يہ پيغام پوشيدہ تھا كہ قحطى كے سالوں ميں تمام سٹور شدہ خوراك كو مصرف نہ كرنا ضرورى ہے_يأكلن ما قدمتم لهن الا قليلاً مما تحضون

(يأكلہن)فعل مضارع كا لفظ بادشاہ كے خواب كو نقل كرنے ميں جو (آيت ۴۶) ميں استعمال ہوا ہے ، اس نكتہ كى طرف اشارہ كرتاہے كہ دبلى ، پتلى گائيں موٹى گائيں كو كھارہى ہيں ميں ان گائيں نے تمام موٹى گائيں كو نہيں كھايا وگرنہ فعل ماضى (أكلھن) كا استعمال كيا جاتاممكن ہے اس سے حضرت يوسفعليه‌السلام نے اس بات كو سمجھا كر كچھ غلات كو باقى ركھاجائے_

۶ _ خواب ميں پتلى گائيں كا ہونا دشوارى و سختى پيش آنے كى علامت تھى اور انكى تعداد سالوں كى تعداد كو بيان كررہى تھي_

يأكلهن سبع عجاف ثم يأتى من بعد ذلك سبع شداد

اعداد:سات كا عدد ۱ ، ۲ ،۳ ، ۴

بادشاہ مصر:بادشاہ مصر كا خواب ۲ ، ۳ ،۵;بادشاہ مصر كے خواب كى تعبير ۱ ، ۶

خواب :دبلى پتلى گائيں كے خواب كى تعبير ۱ ،۶

غلات:غلات كا ذخيرہ كرنا ۴;غلات كے انبار سے استفادہ كرنا ۳

قديمى مصر:قديمى مصر كى فراوانى ۲ ; قديمى مصر ميں خشكسالى ۳; قديمى مصر ميں قحطى ۱،۲

مصرف:مصرف كرنے ميں بچت كرنا ۴ ، ۵

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۴ ، ۵ ،۶;حضرت يوسفعليه‌السلام كو تعبير خواب كا علم ۱ ;حضرت يوسفعليه‌السلام كى نصيحتيں ۴

۵۰۲

آیت ۴۹

( ثُمَّ يَأْتِي مِن بَعْدِ ذَلِكَ عَامٌ فِيهِ يُغَاثُ النَّاسُ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ )

اس كے بعد ايك سال آئے گا جس ميں لوگوں كى فرياد رہى اور بارش ہوگى اور لوگ خوب انگور نچوڑيں گے(۴۹)

۱ _ حضرت يوسفعليه‌السلام نے مصر كى حكومت اور لوگوں كو يہ خوشخبرى دى كہ قحطى كے سات سال ختم ہو جانے كے بعد نعمتوں كى فراوانى اور بارش كے برسنے كا سال آئے گا_ثم يأتى من بعد ذلك عام فيه يغاث الناس

(يغاث) كا فعل ممكن ہے كہ غيث (بارش) سے مشتق ہو اور يہ بھى احتمال ہے كہ غوث (مدد كرنا ) سے ليا گيا ہوپہلے احتمال كى صورت ميں (يغاث الناس) كامعنى يہ ہوگا كہ لوگوں پر بارش نازل ہوگى _ اور دوسرے احتمال كى صورت ميں معنى يہ ہوگا كہ لوگوں كى مدد كى جائے گى _ دونوں صورتوں ميں قحطى كے ختم اور فراوانى و آبادانى كے شروع ہونے كا معنى پايا جاتاہے _

۲_بادشاہ كا خواب گويا قحطى كے سالوں كے بعد بركتوں والے سال كى آمد كو بتارہا تھا_

أفتنا ثم يأتى من بعد ذلك عام فيه يغاث الناس

بادشاہ كے خواب ميں دبلى پتلى گائيں كے سات سروں سے حضرت يوسفعليه‌السلام نے يہ اخذ كيا كہ سات سال كے بعد قحطى ختم ہوجائے گى اور قحطى كا ختم ہونا بارش كے برسنے كى خبر ديتاہے ، اس سے زراعت ميں رونق اور پھلوں ميں فراوانى ہوگي_

۳ _ قحطى كے سالوں كے بعد پہلے ہى سال اہل مصر نے پھلوں كى فراوانى كے سبب ان سے جو س لينا شروع كيا _

ثم يأتى و فيه يعصرون

(عصر) كا معنى ميوہ جات يا تر لباس سے پانى كو نچوڑنا ہے_ اور لفظ ( يعصرون) كا مفعول زراعت كى محصولات كے قرينے كى بناء پر پھل و ميوہ جات ہيں _

۴_مصر كے حكمرانوں كى يہ ذمہ دارى تھى كہ وہ چودہ سالوں ميں غلات كى زراعت اوراسكے مصرف و تقسيم كى نگرانى كريں _

ثم يأتى من بعد ذلك عام فيه يغاث الناس و

۵۰۳

فيه يعصرون

مذكورہ جملہ حضرت يوسفعليه‌السلام كى گفتگو كے سياق سے حاصل كيا گيا ہے كہ جو انہوں نے چودہ سالوں كے ليے دستورالعمل فرماياہے_اور اس كو جملہ (تزرعون) اور (فذروہ) كے فعل مخاطب سے بيان كيا ہے_ليكن پندرہويں سال كى وضعيت و حالت اور اس قحطى كے بحران كے ختم ہونے كو (يغاث) اور (يعصرون) كے فعل سے بيان كيا ہے _ ان دو جملوں كے سياق و سباق سے معلوم ہوتاہے كہ (تزرعون) كے مخاطب مصر كے حكمران تھے كہ جو زراعت اور اسكى تقسيم كے ذمہ دار تھے اور پندرہويں سال خود لوگ آزادانہ طور پر غلات كى زراعت اور مصرف كو خود ہى انجام ديں گے_

۵_خواب آئندہ كے حالات و واقعات كو بتانے اور بيان كرنے والے ہوسكتے ہيں _

يوسف أيها الصديق أفتنا قال تزرعون ثم يأتى من بعد ذلك عام

۶ _ خواب ممكن ہے كہ انسانوں كے ليے اپنے اندر الہامات اور مشكلات ميں راہنمائي كے رموز ركھتے ہوں _

يوسف ايّها الصديق أفتنا قال تزرعون ثم يأتى من بعد ذلك

۷_ خواب كى تعبير كا علم، آئندہ كے حوادث كے حلّ كا علم اور ان واقعات سے پيدا ہونے والى مشكلات سے چھٹكارہ كيلئے كار آمد ہے _قال تزرعون عام فيه يغاث الناس

بادشاہ مصر:بادشاہ مصر كا خواب۲;بادشاہ مصر كے خواب كى تعبير۱

بشارت:بشارت كى نعمت ۱

خواب:خواب اورآئندہ كے حوادث ۵ ، ۶; خواب كأنقش و كردار۵ ،۶;خواب كى تعبير ميں آئندہ كى خبر۷ ; سچا خواب ۵،۶

علم :تعبير خواب كے علم كى اہميت ۷

نيند:نيند ميں الہام ہونا ۶

قديمى مصر:قديمى مصر كى تاريخ ۱،۳،۴; قديمى مصر ميں اقتصادى بحران كى مدت۴

قديم مصر كے لوگ:قديم مصركے لوگ قحطى كے بعد ۳;قديم مصر كے لوگوں كو بشارت۱

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۴;حضرت يوسفعليه‌السلام كى خوشخبرياں ۱

۵۰۴

آیت ۵۰

( وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ فَلَمَّا جَاءهُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللاَّتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ إِنَّ رَبِّي بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ )

تو بادشاہ نے يہ سن كر كہا كہ ذرا اسے يہاں تو لے آئو پس جب نمائندہ آيا تو يوسف نے كہا كہ اپنے ۲_مالك كے پاس پلٹ كر جائو اور پوچھو كہ ان عورتوں كے بارے ميں كيا خيال ہے جنھوں نے اپنے ہاتھ كاٹ ڈالے تھے كہ ميرا پروردگار ان كے مكر سے خوب باخبر ہے (۵۰)

۱_ مصر كا بادشاہ حضرت يوسف(ع) كے پاس ساقى اور اپنے دربار كے آدمى كو بھيج كر خواب كى تعبير سے آگاہ ہوا_

و قال الملك ائتونى به

۲ _مصر كا بادشاہ اپنے تعجب خيز خواب كے بارے ميں حضرت يوسفعليه‌السلام كى صحيح او رسچى تعبيرسے مطمئن ہو گيا_

و قال الملك ائتونى به

جب مصر كے بادشاہ نے اپنے خواب كى تعبير اور تا ويل سنى تو حضرت يوسفعليه‌السلام كو حاضر كرنے كا حكم ديا ، اس سے معلوم ہوتاہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام كى عالمانہ تعبير سے وہ متاثر ہوا تھا_

۳ _ مصركے بادشاہ نے جب اپنے خواب كى تعبير سنى تو حضرت يوسفعليه‌السلام كو اپنے پاس لانے كا حكم ديا _

و قال الملك ائتونى به

۴ _ مصر كے بادشاہ نے جب اپنے خواب كى تعبير معلوم كرلى تو حضرت يوسفعليه‌السلام كو زندان سے آزاد كرنے اور دربار ميں رہنے كا حكم ديا _و قال الملك ائتونى به قال ارجع

بادشاہ كے حكم كے باوجود بھى جب حضرت يوسفعليه‌السلام زندان سے باہر اور دربارميں تشريف نہيں لائے، اس سے معلوم ہوتاہے كہ بادشاہ كا جو فرمان تھا (ائتونى بہ ) (اسكو حاضر كرو) يہ فرمان اجبارى نہيں تھا بلكہ حضرتعليه‌السلام كو زندان سے آزاد كرنے

۵۰۵

اور دربار ميں آنے كا دستور تھا_

۵ _بادشاہ كا ساقي، حضرت يوسفعليه‌السلام كو زندان سے آزاد كرانے اور دربار ميں بادشاہ كے ہاں حاضر كرنے كے ليے زندان كى طرف روانہ ہوگيا_فلما جاء ه الرسول

''الرسول '' ميں (الف و لام ) عہد ذكرى كا ہے اور آيت نمبر ۴۵ ميں جو(فأرسلون) ہے اس كے قرينہ سے معلوم ہوتاہے كہ يہ قاصد بادشاہ كا ساقى ہى تھا جو خواب كى تعبير معلوم كرنے كے ليے حضرت يوسفعليه‌السلام كى طرف روانہ كيا گيا تھا _

۶ _حضرت يوسفعليه‌السلام نے دربار كى طرف سے بھيجے ہوئے قاصدين كو واپس لوٹا ديا تا كہ وہ بادشاہ كو كہيں كہ وہ زليخا كے مہمانوں كے واقعہ كے بارے ميں تحقيق كريں _قال ارجع الى ربك فسئله ما بال النسوة

(بال) كے لفظ سے مراد شان اور مہم كام ہے ليكن آيت شريفہ ميں اس سے مراد ماجرا اور داستان ہے_

۷_حضرت يوسفعليه‌السلام كى زندان سے باہرآنے اور بادشاہ كے ہاں جانے كے ليے يہ شرط تھى كہ ان عورتوں كى تفتيش كى جائے جنہوں نے زليخا كى دعوت ميں اپنے ہاتھوں كو كاٹ ديا تھا_

قال ارجع الى ربك فسئله ما بال النسوة التى قطعن أيديهن

۸_ حضرت يوسفعليه‌السلام كأن عورتوں كے بارے ميں جنہوں نے يوسفعليه‌السلام كے جلوے كو ديكھ كر اپنے ہاتھ كاٹ ڈالے تحقيق كرانے كا مقصد يہ تھا كہ وہ اپنى بے گناہى كو ثابت اور تہمتكو دور كريں _

قال ارجع الى ربك فسئله ما بال النسوة التى قطعن أيديهن

۹_ اپنى حيثيت و مقام كو واپس لانا اور نامناسب تہمتوں كو دور كرنا ضرورى ہے_

فلما جاء ه الرسول قال ارجع الى ربك فسئله ما بال النسوة

۱۰_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى نگاہ ميں زندان سے رہائي اور مشكلات و پريشانيوں سے نجات كى نسبت اپنى شخصيت و مقام كو لوٹأنا ،زياہ اہميت كا حامل ہے_فلمّا جاء ه الرسول قال ارجع إلى ربك فسئله ما بال النسوة

۱۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى پاكدامنى و عفت كے اثبات كے ليے زليخا كى دعوت اور اشراف كى عورتوں كا اپنے ہاتھوں كو كاٹنا، بہت ہى واضح اور گويا ثبوت تھا_فسئله ما بال النسوة الّتى قطعن ايديهن

حضرت يوسفعليه‌السلام اپنے مقدمے كى چھان بين كے ليے (التى قطعن ايديھن) كے جملےبيان كرتے ہيں يعنى زليخا كى دعوت اور اشراف كى عورتوں كا ہاتھ كاٹنا ،اسكو بيان كركے اپنى بے گناہى كو ثابت كرناچاہتے ہيں _ اس سے يہ كہ

۵۰۶

جاسكتاہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام مذكورہ قصہ كو اپنى عفت ، و پاكدامنى اور بے گناہى كو ثابت كرنے كے ليے بہترين گواہ كے طور پر پيش كرنا چاہتے ہيں _

۱۲_حضرت يوسفعليه‌السلام نے زليخا كى خدمات كا لحاظ كرتے ہوئے بادشاہسے اس كے بارے ميں كوئي شكايت نہيں كي_

فسئله ما بال النسوة التى قطعن ايديهن

حالانكہ زليخأنے اشراف كى دوسرى عورتوں كى طرح حضرت يوسفعليه‌السلام پر تہمت لگانے اور انكى پريشانيوں كو زيادہ كرنے ميں كوئي كمى نہيں كى تھى ليكن حضرت يوسف(ع) نے اسكا ذكر نہيں كيا اور اس كے خلاف بادشاہ كو كوئي شكايت نہيں كى _ اس سے يہ ظاہر ہوتاہے كہ زليخأنے حضرت يوسفعليه‌السلام كے لئے بچپن اور نوجوانى ميں ان كے ليے جو خدمات انجام ديں تھيں اسكو مد نظر ركھتے ہوئے حضرت يوسفعليه‌السلام نے ان كے بارے ميں كوئي شكايت نہيں كي_

۱۳_حضرت يوسفعليه‌السلام باعظمت اور بزرگوار شخصيت ہونے كے ساتھ ساتھ آزاد اور كريم انسان تھے_

قال الملك ائتونى به فسئله ما بال النسوة التى قطعن ايديهن

۱۴ _ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بادشاہ كو اپنى بے گناہى بتانے كے ساتھ ساتھ اس بات كى تاكيد كى كہ ان كے قيدخانے ميں جانے كا سبب ،اشراف كى عورتوں كا مكر و حيلہ تھا_إن ربّى بكيدهنّ عليم

۱۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام اس بات پر تاكيد كرتے تھے كہ ان كے خلاف دربار كے اشراف كى عورتوں كے مكر سے خداوند متعال اچھى طرح واقف ہے_إن ربّى بكيدهن عليم

۱۶_حضرت يوسفعليه‌السلام نے بادشاہ كو ديئے گئے اپنے پيغام ميں خداوند متعال كو انسانوں كے امور كى حقيقت سے واقف و آگاہ بيان كيا_إن ربى بكيدهنّ عليم

۱۷_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بادشاہ مصركو اپنے پيغام ميں خداوند متعال كو اپنا ربّ اور مدبّر كے عنوان سے تعارف كرايا_فسئله ما بال النسوة انى ربّى بكيدهن عليم

۱۸_حضرت يوسف(ع) نے اپنے پيغام ميں بادشاہ كو يہبتاديا وہ اسے اپنا رب و مالك نہيں سمجھتا اور نہ ہى اپنے آپ كو اس كا غلام سمجھتا ہے_إن ربّى بكيدهن عليم

اسماء و صفات:عليم ۱۵

۵۰۷

اشراف مصر :اشراف مصر كى عورتوں كا زليخا كى دعوت ميں ہونا۱۱ ; اشراف مصر كى عورتوں كا مكر ۱۵;اشراف مصر كى عورتوں كے مكر كرنے كے آثار ۱۴

بادشاہ مصر:بادشاہ مصر اورحضرت يوسف ۳;بادشاہ مصر كا اطمينان ۲;بادشاہ مصر كا ساقى اور حضرت يوسفعليه‌السلام ۵ ; بادشاہ مصر كى خواہشات ۳;بادشاہ مصر كے اوامر ۴; بادشاہ مصر كے خواب كى تعبير ۱;بادشاہ مصر كے ساقى كا كردار۱

تہمت :تہمت كو دور كرنے كى اہميت ۹

دورى اختيار كرنا :شرك الہى سے دورى اختيار كرنا ۱۸

زليخا:زليخا كے مہمانوں سے تفتيش ۷

زندان:زندان سے نجات كى قدر و منزلت ۱۰

عزت و آبرو:عزت و آبرو كے واپس لوٹنے كى اہميت ۹;عزت و آبرو كے واپس لوٹنے كى قدر و قيمت ۱۰

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام اور ان كى قدر منزلتيں ۱۰ ; حضرت يوسف اور بادشاہ مصر۱،۷،۱۴،۱۶،۱۷،۱۸; حضرت يوسفعليه‌السلام اور بادشاہ مصر كا ساقى ۶ ; حضرت يوسفعليه‌السلام اور تحقيق كرنے كى درخواست ۶ ،۷،۸; حضرت يوسفعليه‌السلام اور ربوبيت خداوندى ۱۷; حضرت يوسف(ع) اور زليخا كى خدمات۱۲; حضرت يوسفعليه‌السلام اور زليخا كے مہمانوں كا قصہ ۶;حضرت يوسفعليه‌السلام اور علم الہى ۱۵ ،۱۶;حضرت يوسفعليه‌السلام سے تہمت كو دور كرنا ۸ ;حضرت يوسفعليه‌السلام كا دورى اختيار كرنا۱۸ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۲ ، ۳ ، ۴ ،۵،۶ ، ۷ ، ۸ ، ۱۱ ،۲ ۱،۱۴ ، ۱۷ ، ۱۸; حضرت يوسفعليه‌السلام كا مدبر ہونا ۱۷; حضرت يوسفعليه‌السلام كا مربى ہونا ۱۷ ;حضرت يوسفعليه‌السلام كو تعبير خواب كا علم ۱;حضرت يوسفعليه‌السلام كى بے گناہى ۸،۱۴; حضرت يوسفعليه‌السلام كى تعبير خواب كا صحيح ہونا ۲ ;حضرت يوسفعليه‌السلام كى جوانمردى ۱۳; حضرت يوسف(ع) كى خواہشات ۶ ، ۷،۸; حضرت يوسفعليه‌السلام كى زندان سے نجات ۳ ، ۴ ،۵;حضرت يوسفعليه‌السلام كى شخصيت ۱۳;حضرت يوسفعليه‌السلام كے عفت كے دلائل ۱۱;حضرت يوسفعليه‌السلام كے افكار۱۰;حضرت يوسفعليه‌السلام كے كرامات ۱۳; حضرت يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۱۳; حضرت يوسفعليه‌السلام كے زندان كا فلسفہ ۱۴

۵۰۸

آیت ۵۱

( قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ إِذْ رَاوَدتُّنَّ يُوسُفَ عَن نَّفْسِهِ قُلْنَ حَاشَ لِلّهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ مِن سُوءٍ قَالَتِ امْرَأَةُ الْعَزِيزِ الآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَاْ رَاوَدتُّهُ عَن نَّفْسِهِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ )

بادشاہ نے ان عورتوں سے دريافت كيا كأخر تمھارا كيا معاملہ تھا جب تم نے يوسف سے اظہار تعلق كيا تھأن لوگوں نے كہا كہ حاشا للہ ہم نے ہرگز ان ميں كوئي برائي نہيں ديكھى _ تو عزيز مصر كى بيوى نے كہا كہ اب حق بالكل واضح ہوگياہے كہ ميں نے خود انھيں اپنى طرف مائل كرنے كى كوشش كى تھى اور وہ صادقين ميں سے ہيں (۵۱)

۱_بادشاہ مصر نے اشراف كى عورتوں كو حضرت يوسفعليه‌السلام كے ساتھ پيش آنے والے واقعہ كى تحقيق كے ليے حاضر كيا_قال ما خطبكن

۲_ بادشاہ مصر نے حضرت يوسفعليه‌السلام كا اشراف كى عورتوں كے ساتھ جو واقعہ ہوا تھا، اسكو عظيم اور اہم سمجھا اور بذات خود اشراف كى عورتوں سے تفتيش و تحقيق كي_قال ما خطبكنّ اذا راودتنّ يوسف عن نفسه

(خطب) كا معنى كام اور عظيم مسئلہ ہے يہاں اس سے مراد، داستان و قصہ ہے _

۳ _ بادشاہ كا اشراف كى عورتوں سے تفتيش كرنا، حقيقت ميں حضرت يوسفعليه‌السلام كے تقاضے اور پيغام كا جواب تھا_

فسئله ما بال النسوة قال ما خطبكنّ

۴_ بادشاہ مصر، اشراف كى عورتوں سے تفتيش كرنے سے پہلے ہى انكى جو حضرت يوسفعليه‌السلام سے خواہش (مقصود و مطلوب تك پہنچنے كى درخواست)تھى اور خود حضرت يوسفعليه‌السلام كى بے گناہى سے آگاہ و واقف ہو چكا تھا_قال ما خطبكنّ اذرودتنّ يوسف عن نفسه

(إذ) كا لفظ(خطبكنّ) سے بدل اشتمال ہے اور بادشاہ كے اس مقصود كو بيان كرتاہے جو اس واقعہ كے بارے ميں تفتيش و تحقيق كررہا تھا_ تو اس صورت ميں (ما خطبكنّ ...) سے مراد يہ ہوا كہ تمہارا كيا مسئلہ و واقعہ تھا؟ظاہراً ميرى نظر ميں مقصد يہ تھاكہ جو اپنے مقصود و مطلوب تك پہنچنے كے ليے حضرت يوسفعليه‌السلام سے خواہش كررہى تھيں وہ كيا واقعہ تھا_ شاہ نے يہ تصريح كى كہ تم عورتوں نے يوسفعليه‌السلام سے اپنى آرزو كو پورا كرنے كى خواہش كى تھى اس سے ظاہر ہوا ہے كہ وہ حضرت يوسف(ع) كى بے گناہى سے آگاہ ہو چكاتھا_

۵۰۹

۵_اشراف كى عورتوں نے حضرت يوسفعليه‌السلام سے اپنى آرزو كو پورا كرنے كى خواہش كرنے سے انكار نہيں كيا _

ما خطبكن اذ راودتنّ يوسف(ع) عن نفسه قلن حش ا للّه ما علمنا عليه من سوء

۶_اشراف كى عورتوں نے بادشاہ مصر كے حضور حضرت يوسفعليه‌السلام كى پاكدامنى اور ان كأن چيزوں سے آلودہ ہونے سے مبرّا و پاك ہونے كى گواہى دي_قلن حاشا للّه ما علمنا عليه من سوء

(بدى و آلودگي)كے كلمے سے پہلےنفى واقع ہوئي ہے_ اس سے اطلاق ظاہر ہوتاہے يعنى ہر شے كى برائي اور بدى سے پاك و منزہ تھے لفظ ( من) زائدہ بھى اس معنى كى تاكيد كرتاہے_

۷_اشراف مصر كى عورتوں كے نزديك حضرت يوسفعليه‌السلام اپنى پاكدامنى كى وجہ سے خداوند متعال كى مخلوقات ميں سے بے نظير اورحيرت انگيز مخلوق تھے_قلن حش للّه

۸_حضرت يوسفعليه‌السلام حيرت انگيز عفت كے مالك اور بہت ہى زيادہ قابل تعريف ہيں _قلن حش للّه

(حش للّہ) كا جملہ اسوقت استعمال ہوتاہے جب تعجب و شگفتى ميں شدت ہو_

۹_ بادشاہ مصراور قديمى مصر كے درباري، حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں خداوند متعال كے وجود اور اسكے پاك و پاكيزہ ہونے پر اعتقاد ركھتے تھے_قلن حش للّه

۱۰_ زليخا بھى حضرت يوسفعليه‌السلام كے عورتوں والے واقعہ كے سلسلہ ميں ہونے والى تفتيش و تحقيق والى عدالت ميں حاضر تھي_قالت امرأت العزيز الان حصحص الحق

۱۱_ زليخا كا شوہر، اشراف كى عورتوں والى عدالت و انصاف كے وقت زندہ تھا اور وہ حكومت مصر كے عزيزمصر والے عہدے پر فائز تھا_قالت امرأت العزيز

زليخا كو (زوجہ عزيز) سے ذكر كرنے كا معنى يہ ہے كہ اس عدالت كى كاروائي كے وقت اسكا شوہر زندہ تھا اور عزيزمصر كے منصب پر فائز تھا_

۵۱۰

۱۲ _عزيزمصر كا منصب و عہدہ قديمى مصر كى بادشاہت ميں حكومتى عہدوں ميں سے تھا_

و قالت الملك قالت أمرأت العزيز

حضرت يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں كا آيت ۸۸ ميں اسكو (عزيز) مصر سے ياد كرنا يہ بتاتا ہے كہ (امرأت العزيز) مصر كى حكومت كا كوئي عہد ہ تھأنہ كہ بادشاہ كى بيوى زليخا كأنام__

۱۳_ زليخأنے اشراف مصر كى عورتوں كى حضرت يوسف(ع) كے پاك دامن ہونے پر گواہى كى تصديق كى اور ان كى گفتگو كو حق كے واضح ہونے سے تعبير كيا_قالت امرأت العزيز الان حصحص الحق

''حصحصہ '' (حصحص) كا مصدر ہے جسكا معنى چھپى ہوئي چيز كا روشن و واضح ہونا ہے بعض نے كہا ہے كہ ثبوت و استقرار كے معنى ميں آتاہے _

۱۴_ بالآخر حق ہى روشن اور واضح ہوتا ہے_الآن حصحص الحق

۱۵_ باطل ہميشہ كے ليے حق كو چھپأنہيں سكتاہے_الآن حصحص الحق انا راودته عن نفسه

۱۶_ زليخأنے بادشاہ مصر كے سامنے يہ گواہى دى كہ اس نے حضرت يوسفعليه‌السلام سے اپنے مقصود كى درخواست كى تھى اور اس نے اس بات كو قبول كرنے سے انكار كيا تھا_انا راودته عن نفسه و انه لمن الصادقين

(انا راودتہ عن نفسہ) كى آيت شريفہ اسكو بيان كررہى ہے جو آيت شريفہ ۲۶ كے ذيل نمبر۲ ميں بيان ہوا ہے جو كہ حصر پر دلالت كررہا ہے_ يعنى ميں نے ہى اس سے خواہش كى تھى وہ اس طرح كى خواہش و آرزو نہيں ركھتا تھا_

۱۷_اس عدالت كى كاروائي سے پہلے زليخا، حضرت يوسفعليه‌السلام كو مجرم قرار ديتى تھى اور ان پر اپنى آرزو تك پہنچنے كى تہمت لگاتى تھي_قالت امرأت العزيز الآن حصحص الحق انا راودته عن نفسه و انه لمن الصادقين

مذكورہ بالا معنى (الآن) كى صفت سے استفادہ كيا گيا ہے _

۱۸_زليخأنے بادشاہ مصر كے سامنے حضرت يوسفعليه‌السلام كى صداقت اور سچ بولنے كى تاكيد كى _و انه لمن الصادقين

۱۹_زليخأنے حضرت يوسفعليه‌السلام كو اپنى آرزو پورا كرنے كى خواہش كى تہمت ميں اپنے جھوٹ بولنے كا اعتراف كيا_

أنا راودته عن نفسه و انه لمن الصادقين

۵۱۱

اشراف مصر:ا شراف مصر كا عقيدہ ۹; اشراف مصر كى عورتوں سے تفتيش كرنا ۱ ،۲،۳;اشراف مصر كى عورتوں كا اپنى آرزو كو پورا كرنے كى كوشش ۴،۵; اشراف مصر كى عورتوں كى سوچ۷;اشراف مصر كى عورتوں كى گواہى ۶;اشراف مصر كى عورتيں اور حضرت يوسفعليه‌السلام ۵،۶،۷

اقرار:جھوٹ بولنے كا اقرار ۱۹//باطل :باطل كى شكست ۱۵

بادشاہ مصر:بادشاہ مصر اور اشراف مصر كى عورتيں ۱ ، ۲ ، ۴; بادشاہ مصر اور حضرت يوسفعليه‌السلام ۳ ، ۴;بادشاہ مصر اور حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۲ ;بادشاہ مصر كا تفتيش كرنا ۱ ، ۲ ، ۳;بادشاہ مصر كا عقيدہ ۹;بادشاہ مصر كى آگاہى ۴ ;بادشاہ مصر كى فكر ۲

حق :حق كأنجام و نتيجہ ۱۴; حق كا روشن و واضح ہونا ۱۴;حق و باطل ۱۵

خود :خود اپنے خلاف اقرار كرنا ۱۹

زليخا:زليخا اور اشراف مصر كى عورتوں كا عدالت ميں پيش ہونا ۱۰ ; زليخا اور اشراف كى عورتوں كى گواہى ۱۳ ; زليخا اور بادشاہ مصر ۱۸;زليخا اور حضرت يوسفعليه‌السلام ۱۶ ; زليخا اور حضرت يوسف كى عفت ۱۳;زليخا اور حقانيت حضرت يوسف(ع) ۱۳;زليخا عدالت كى روائي و تفتيش سے پہلے ۱۷; زليخا كا اپنى آرزو كو پانے كى كوشش كرنا ۱۶ ; زليخا كا اقرار ۱۳،۱۶،۱۸، ۱۹; زليخا كا جھوٹ بولنا ۱۹;زليخا كى تہمتيں ۱۷ ، ۱۹;زليخا كى فكر ۱۳ ;زليخا كى گواہى ۱۶

عزيز مصر:اشراف مصر كى عورتوں سے عدالت كى تفتيش كے وقت عزيزمصر كا ہونا ۱۱

عقيدہ :خداوند متعال پر عقيدہ ركھنا ۹ ; عقيدہ كى تاريخ ۹

قديمى مصر:قديمى مصر كى حكومت كے عہدے ۱۲;قديمى مصر كى حكومت ميں عزيزى كا عہدہ ۱۲;قديمى مصر ميں اشراف كا عقيدہ ۹

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام پر تہمت ۱۷ ، ۱۹ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا بے مثل ہونا ۷ ;حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۳ ، ۴،۵، ۶،۷،۱۰ ،۱۱، ۱۳ ،۱۶، ۱۷،۱۸،۱۹;حضرت يوسفعليه‌السلام كى بے گناہي۴; حضرت يوسفعليه‌السلام كى تعريف ۸;حضرت يوسفعليه‌السلام كى خواہشات ۳;حضرت يوسفعليه‌السلام كى عفت ۶ ،۷، ۸،۱۶ ;حضرت يوسفعليه‌السلام كى صداقت ۱۸; حضرت يوسفعليه‌السلام كے خلاف جھوٹى سازش۵; حضرت يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۸

۵۱۲

آیت ۵۲

( ذَلِكَ لِيَعْلَمَ أَنِّي لَمْ أَخُنْهُ بِالْغَيْبِ وَأَنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي كَيْدَ الْخَائِنِينَ )

يوسف نے كہا كہ يہ سارى بات اس لئے ہے كہ ۳_بادشاہ كو يہ معلوم ہوجائے كہ ميں نے اس كى عدم موجودگى ميں كوئي خيانت نہيں كى ہے اور خدا خيانت كاروں كے مكر كو كامياب نہيں ہونے ديتا(۵۲)

۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے مصر كے زندان ميں بادشاہ كى دعوت كو قبول نہ كرنے اور اس كے پاس حاضر نہ ہونے اور ان سے انصاف كے تقاضوں كو پورا كرنے كے دلائل كو ذكر كيا _قال ارجع الى ربك ذلك ليعلم

(ذلك ليعلم ...) سے آخر تك كى آيت شريفہ كے الفاظ زليخا كے ہيں يا حضرت يوسفعليه‌السلام كا قول ہے مفسرين نے اس ميں دو نظريات كو بيان كيا ہے _ اس بات پر كافى دلائل موجود ہيں كہ يہ حضرت يوسفعليه‌السلام كا كلام ہے ہم ان ميں سے بعض كو بيان كرتے ہيں ظاہر يہ ہے كہ (أن الله ...) كا عطف (أنى لم أخنه ) پر ہو اور جملہ (ذلك ليعلم أن الله يهدي ..) اس سے احتمال نہيں ديا جاسكتا كہ يہ زليخا كا كلام ہو _ كيونكہ بعد والى آيت شريفہ ميں جو اعتقاد اور بلند

معارف و حقائق اوران پر يقين ذكر ہواہے وہ زليخا جيسى عورت سے بعيد ہے جو مشركين جيسے عقائد ركھتى ہے _

۲ _ حضرت يوسفعليه‌السلام كے انصاف طلب كرنے اور اشراف كى عورتوں كى تفتيش كرانے ميں يہ مقصد پوشيدہ تھا تا كہ عزيز مصر جان لے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام اسكى زوجہ سے نامشروع رابطہ كرنے سے مبرّا و منزہ تھے_

ذلك ليعلم أنى لم أخنه بالغيب

اگر (ذلك ليعلم ...) كے جملے كو حضرت يوسفعليه‌السلام كا قول سمجھيں تو (ذلك) كا مشاراليہ زندان سے خارج نہ ہونا اور اشراف كى عورتوں كے خلاف مقدمہ كرنا ہوگا، (يعلم ) اور (لم أخنه ) ميں جو ضمير ہے وہ ممكن ہے (عزيز) كى طرف پلٹ رہى ہو_ اور يہ بھى احتمال ہے كہ اس سے مراد ( ملك) ہو_ مذكورہ بالا تفسير پہلے احتمال كى صورت ميں ہے تو اس صورت ميں معنى يوں ہوگا(ذلك ليعلم ...) يعنى ميرا قيد خانے سے باہر نہ جانا اور انصاف كا تقاضا كرنے كا مقصد يہ ہے كہ عزيز مصر اس بات كو جان لے كہ ميں نے اس كى عدم موجود گيميں اس سے خيانت نہيں كى ہے_

۵۱۳

۳ _ حضرت يوسفعليه‌السلام كا عورتوں سے تفتيش اور انصاف كرنے كے تقاضے كا مقصد يہ تھا كہ بادشاہ كو ثابت كرے كہ وہ اسكى زوجہ سے كوئي نامشروع رابطہ نہيں ركھتا تھا اور نہ ہى اس نے كوئي خيانت كى ہے _

ذلك ليعلم أنى لم اخنه بالغيب

مذكورہ بالا تفسير اس صورت ميں ہے كہ (يعلم)اور (لم أخنہ) ميں جوضمير ہے وہ (ملك) كى طرف پلٹ رہى ہے_

۴_ بادشاہ مصر كى زوجہ اور زليخا كے كھانے كى دعوت كى مہمان عورتيں ، حضرت يوسفعليه‌السلام پر دلباختہ ہوگئيں تھيں _

ذلك ليعلم انى لم اخنه بالغيب

يہ اس صورت ميں ہے كہ(يعلم) اور( لم اخنہ) كى ضمير (ملك) كى طرف پلٹے_ اور جملہ (ذلك ليعلم ...) سے معلوم ہوتاہے كہ بادشاہ كى زوجہ بھى ان ہى ميں سے تھى جنہوں نے اپنے ہاتھوں كو كاٹ ڈالا تھا_

۵_ اپنے اوپر ناروا تہمت دور كرنے كى كوشش كرنا ضرورى ہے_ذلك ليعلم انى لم اخنه بالغيب

۶ _ لوگوں كى نظروں سے پوشيدہ ہونے كى صورت ميں اپنى عفت كو بچانا اور خلوت ميں خيانت سے پرہيز كرنا، قابل ستائش اور نيك خصلت ہے_ذلك ليعلم انى لم اخنه بالغيب

(بالغيب)(خلوت ميں ) يہ كلمہ ممكن ہے (لم اخنہ) ميں فاعل كى ضمير يا اسكى مفعول كى ضمير كےلئے حال ہو تو اس صورت ميں (لم أخنہ بالغيب ) كا معنى يہ ہوگا جب وہ ميرى آنكھوں سے پوشيدہ تھا يا ميں اسكى آنكھوں سے پوشيدہ تھا تو ميں نے اس سے كوئي خيانت نہيں كي_

۷_ لو گوں كى ناموس پر تجاوز كرنا، ان كے ساتھ خيانت ہے _ذلك ليعلم انى لم اخنه بالغيب

۸_ لوگوں سے خيانت كرنا، گناہ اور برى عادت ہے _ذلك ليعلم انى لم اخنه بالغيب

۹_ خداوندمتعال، خيانت كرنے والوں كے مكرو حيلہ كو پر ثمر اور نتيجہ خيز نہيں ہونے ديتا_

و أن الله لا يهدى كيد الخائنين

۱۰_ اشراف مصر كى عورتيں اور حضرت يوسفعليه‌السلام پر خيانت كى تہمت لگانے والي، خيانت كاروں ميں سے تھيں _

ان الله لا يهدى كيد الخائنين

(الخائنين ) كا مصداق زليخا اور اشراف كى عورتيں نيز دربار كے وہ لوگ تھے جنہوں نے حضرت يوسفعليه‌السلام كو زندان ميں ڈالنے كا ارادہ كيا تھا_(ثم بدا لهم من بعد ما رأوا الآيات ليسجنه ) آيت ۳۵

۵۱۴

۱۱_ خداوند متعال، اشراف كى عورتوں كے مكر وفريب كو دور اور حضرت يوسفعليه‌السلام كو قيد خانے سے نجات دينے والا ہے _إن الله لا يهدى كيدالخائنين

۱۲_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے انصاف كا تقاضا كرنے كا مقصد يہ تھا وہ بادشاہ مصر كے سامنے يہ ثابت كرے كہ خيانت كار كبھى بھى اپنے مقصد ميں كامياب نہيں ہوں گے اور ان كا مكر، انجام تك نہيں پہنچے گا_

ذلك ليعلم ان الله لا يهدى كيد الخائنين

جيسا كہ گذر چكاہے كہ (ان الله لا يهدى .) كے جملے كا عطف (أنى ...) پر ہے ، يعنى جملہ (ذلك ليعلم ان الله ..) كا معنى يہ ہوگاكہ عزيز مصر اور بادشاہ مصر اس بات كو جان ليں كہ خداوند متعال خيانت كاروں كے مكر و حيلہ كو انجام تك نہيں پہنچنےديتا_

۱۳ _ حضرت يوسفعليه‌السلام كى يہ كوشش تھى كہ بادشاہ مصر كو اس بات پر متوجہ كريں كہ مستقبل كے واقعات و حالات ميں ارادہ الہى اور سنت پروردگار ہى حتمى و آخرى امر ہوتاہے _ذلك ليعلم ان الله يهدى كيد الخائنين

اللہ تعالي:اللہ تعالى اور خيانت كاروں كا مكر ۹; اللہ تعالى كأنجات عطا كرنا ۱۱ اللہ تعالى كى سنتوں اور طريقوں كاكردار ۱۳ ;; اللہ تعالى كے ارادے كا كردار ۱۳

اشراف مصر :اشراف مصر كى عورتوں سے تفتيش ۳ ; اشراف مصر كى عورتوں كى خيانت ۱۰ ; اشراف مصر كى عورتوں كے مكر كا دور ہونا ۱۱

جنسى تجاوز :جنسى تجاوز كا خيانت ہونا ۷

حوادث :حوادث ميں مؤثر اسباب۱۳

خيانت كار :خيانت كاروں كے مكر كا شكست پذير ہونا ۹ ،۱۲

خود:اپنے نفس كے دفاع كى اہميت ۵ ; خود سے تہمت كو دور كرنا ۵

خيانت :خيانت سے اجتنا ب۶ ; خيانت كا گناہ ہونا ۸ ; خيانت كے موارد ۷

صفات:

۵۱۵

پسنديدہ صفات ۶

عزيز مصر:عزيز مصر اور حضرت يوسفعليه‌السلام ۲

عفت :عفت كى اہميت ۶

عمل:ناپسند عمل ۸

گناہ :گناہ كے موارد ۸

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام اور بادشاہ مصر ۳ ، ۱۲ ، ۱۳; يوسفعليه‌السلام اور بادشاہ مصر كى دعوت كا ردّ كرنا ۱ ; يوسفعليه‌السلام اور بادشاہ مصر كى زوجہ ۳;يوسفعليه‌السلام سے خيانت كرنے والے ۱۰; يوسفعليه‌السلام كا اپنے حق كو اثبات كرنے كا طريقہ ۳; يوسفعليه‌السلام كأنصاف طلب كرنے كا فلسفہ ۲ ، ۳ ،۱۲;يوسفعليه‌السلام كأنصاف طلب كرنا ۱ ;يوسفعليه‌السلام كا زندان ميں ہونا ۱ ;يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۳ ، ۴ ، ۱۰ ، ۱۲ ،۱۳; يوسفعليه‌السلام كو نجات دينے والا ۱۱;يوسفعليه‌السلام كى تعليمات ۱۳ ;يوسفعليه‌السلام كى زندان سے نجات ۱۱ ; يوسفعليه‌السلام كى عفت ۲ ، ۳ ;يوسفعليه‌السلام كى كوشش۱۳

آیت ۵۳

( وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّيَ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ )

اور ميں اپنے نفس كو بھى برى نہيں قرار ديتا كہ نفس بہر حال برائيوں كا حكم دينے والا ہے مگر يہ كہ ميرا پرودرگار رحم كرے كہ وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے (۵۳)

۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے آپ كو گناہوں سے بچانے اور برائيوں كے ارتكاب سے محفوظ رہنے كو امداد الہى كا مرہون منت سمجھأنہ كہ توفيق الہى كے بغير اپنے ارادہ كو دخيل سمجھا_

أنى لم اخنه و ما ابرّ ء نفسى إن النفس لامارة بالسوء الاّما رحم ربي

جملہ( ما أبرہ نفسي) (ميں اپنے نفس كو برائيوں كے ارتكاب سے برى قرار نہيں ديتاہوں ) كوجب جملہ (لم اخنہ بالغيب ) سے ارتباط ديں گےنيز عورتوں كى حضرت يوسفعليه‌السلام كى پاكدامنى پر گواہى دينا(حاش لله ما علمنا عليه من سوء ) اس سے يہ بات معلوم ہوتى ہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام كا اس جملے (ما ابرء نفسي ) كو بيان كرنے كا مقصد يہ نہيں ہے كہ ميں

۵۱۶

گناہ كا مرتكب ہو اہوں بلكہ (الآما رحم ربي ) كى عبارت سے يہ معلوم ہوتاہے كہ اس بات كو بتانا چاہتے ہيں كہ ميں جو ابھى تك گناہ كا مرتكب نہيں ہوا اس ميں در حقيقت ميرى كوئي ذاتى طاقت نہيں ہے كيونكہ ہر انسان كأنفس بلكہ ميرأنفس بھى ذاتى طور پر گناہ و بدى كى طرف ترغيب دينے والا ہے پس ميں جو گناہ ميں آلودہ نہيں ہوا ہوں اسكى وجہ يہ ہے كہ توفيق الہى اور اسكى رحمت ميرے شامل حال تھي_

۲ _ حضرت يوسفعليه‌السلام اس بات سے مبرا و منزہ تھے كہ اپنے كاموں كوخود ہى بغير لطف الہى كے منظم و مرتب كريں _

و ما أُبَرِّئُ نفسي

۳_ امداد الہى كے بغير، انسانوں كأنفس ان كو گناہوں كے ارتكاب اور برائيوں كى طرف توجہ دلاتاہے_

ان النفس لامارة بالسوء الا ما رحم ربي

(امّارہ) كا لفظ مبالغہ كا صيغہ ہے جسكا معنى بہت زيادہ امر كرنے والا اور ترغيب دينے والا ہے (الا ما رحم) ميں (ما) كالفظ ممكن ہے موصول اسمى اور (التي) كے معنى ميں ہو تو اس صورت ميں (ان النفس ...) كا معنى يہ ہوگا كہ انسانوں كانفس ان كو برائيوں كا حكم ديتاہے مگر يہ كہ اس نفس پر خداوند متعال رحم فرمائے_اور يہ احتمال بھى ديا جاسكتاہے كہ (ما) ظرفيہہو اس صورت ميں مستثنى منہ ( فى كل زمان) ہوگا اور جملے كا معنى يوں ہوگا (انسانوں كأنفس ہميشہ اسكو برائيوں كا حكم ديتاہے مگر اسوقت كہ اس صاحب نفس پر خداوند متعال رحم فرمائے_

۴ _ انبياءعليه‌السلام بھى دوسروں كى طرح نفسانى كشش ركھتے ہيں _و ما أُبَرِّئُ نفسى ان النفس لامارة بالسوء

۵ _ گناہ كا ترك، اور برائيوں اور ان كى آلودگى سے پرہيز كرنا فقط خداوند متعال كى امداد اور توفيق سے ميسّر ہے _

إن النفس لامارة بالسوء الا ما رحم ربي

۶ _ جب رحمت الہى انسان كے شامل حال ہو تو نفس انسان كو گناہوں كے ارتكاب اور برائيوں كى طرف ترغيب نہيں ديتاہے_ان النفس لامارة بالسوء الا ما رحم ربي

۷_ حضرت يوسف اپنے سےگناہوں اور خيانت سے بچنے كا سبب، رحمت الہى كے جلوہ كو سمجھتے تھے_

ما ابرء ُ نفسى الا ما رحم ربي

۸_ حضرت يوسف(ع) ،ربوبيت اور تدبير الہى پر يقين اور اسكى رحمت كو گناہوں اور برائيوں كے ترك كا سبب سمجھتے تھے اور اس ميں اپنى ذات كى ستائش نہيں

۵۱۷

كرتے تھے_و ما أُبَرِّئُ نفسى ان النفس لامارة بالسوء الا ما رحم ربي

۹_ انبياءعليه‌السلام ، توفيق الہى اور ان پر جو رحمت الہى ہوتى ہے اس كے سبب سے گناہوں كے ارتكاب سے محفوظ اور نفس امارہ كے خطر سے نجات حاصل كرتے تھے_إن النفس لامارة بالسوء الا ما رحم ربي

۱۰_خواہشات نفسانى كے مقابلے ميں ہوشيار رہنا اور ان كے خطرات سے محفوظ رہنے كے ليے رحمت الہى كو جلب كرنے كے اسباب مہيا كرنے كى ضرورت ہے _ان النفس لامارة بالسوء الا ما رحم ربي

۱۱_ خداوند متعال غفور (بہت بخشنے والا) اور رحيم (مہربان) ہے _ان ربى غفور رحيم

۱۲_ خداوند متعال كى اپنى بندوں پر مغفرت و رحمت كا سبب، اسكى ربوبيت كأن پر جلوہ ہے _

الا ما رحم ربى ان ربى غفور رحيم

۱۳_ خداوند متعال، انسانوں كے امور كو اپنى رحمت اور ان كے گناہوں كى بخشش كى بنياد پر منظم كرتاہے_

ان ربى غفور رحيم

۱۴_خداوند متعال كا بعض انسانوں پر رحم كرنا اور نفس امارہ كے سلطہ سے ان كو نجات دينا، اسكى رحمت اور غفران كى وجہ سے ہے _ان النفس الا ما رحم ربى ان ربى غفور رحيم

۱۵_ گناہوں كى بخشش اور انسانوں كى غلطيوں كا معاف ہونا، ان پر رحمت الہى كے شامل ہونے كى وجہ سے ہے _

ان ربى غفور رحيم

مذكورہ بالا تفسير (غفور) كے لفظ كا (رحيم ) كے لفظ پر مقدم ہونے سے حاصل ہوئي ہے _

اسماء و صفات:رحيم۱۱ ; غفور ۱۱

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام اور نفس امارہ ۹ ;انبياءعليه‌السلام اور نفسانى ميلانات۴ ; انبياء كا بشر ہونا ۴ ; انبياءعليه‌السلام كى عصمت كا سبب۹

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى امداد ۱; اللہ تعالى كى بخشش ۱۲ ; اللہ تعالى كى بخشش كے آثار ۱۳ ، ۱۴ ;اللہ تعالى كى توفيقات ۱ ، ۹ ;اللہ تعالى كى توفيقات كے آثار ۵ ;اللہ تعالى كى رحمت ۱۲ ;اللہ تعالى كى رحمت كے آثار ۶ ، ۸ ، ۱۳ ، ۱۴ ;اللہ تعالى كى رحمت كے اسباب ۱۰ ; اللہ تعالى كى رحمت كے شرائط ۱۵ ;اللہ تعالى كى مدد كرنے

۵۱۸

كے آثار ۳ ، ۵;اللہ تعالى كى نجات دينے كا سبب ۱۴; ربوبيت الہي۱۳ ; ربوبيت الہى كى نشانياں ۱۲

ايمان :ايمان كے آثار۸ ; ربوبيت الہى پر ايمان ۸

پليدي:پليدى و برائي كو ترك كرنے كا سبب۵

تمايلات نفساني:تمايلات نفسانى كے مقابلے ميں ہوشيار رہنا۱۰

رحمت :وہ لوگ جنہيں رحمت الہى شامل حال ہے ۷ ، ۹ ، ۴ ۱

گناہ :گناہ سے محفوظ رہنے كے اسباب۱۰ ; گناہ كى بخشش كے اسباب ۳ ;گناہ كى بخشش كے آثار ۱۳، ۱۵; گناہ كى بخشش كا سبب ۵ ، ۸ ;گناہ كے موانع و ركاوٹيں ۶

معصومين(ع) : ۹

نفس امارہ :نفس امارہ اور گناہ ۶ ;نفس امارہ سے نجات ۱۴; نفس امارہ كا كردار ۳

ہوشيارى :ہوشيارى كى اہميت ۱۰

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام پر ايمان ۸ ; يوسفعليه‌السلام پر رحمت ۷ ; يوسفعليه‌السلام كا پاك و پاكيزہ ہونا ۲ ;يوسفعليه‌السلام كا عقيدہ ۱ ، ۷ ، ۸ ;يوسفعليه‌السلام كى تواضع ۸; يوسفعليه‌السلام كى توحيد افعالى ۱ ، ۲ ; يوسفعليه‌السلام كى توفيق۱ ; يوسفعليه‌السلام كى فكر۲;يوسفعليه‌السلام كى عصمت كا سبب ۱ ، ۷ ، ۸;يوسفعليه‌السلام كى مدد۱

۵۱۹

آیت ۵۴

( وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ أَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِي فَلَمَّا كَلَّمَهُ قَالَ إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مِكِينٌ أَمِينٌ )

اور بادشاہ ۱_نے كہا كہ انھيں لے آئوئيں اپنے ذاتى امور ميں ساتھ ركھوں گا اس كے بعد جب ان سے بات كے تو كہا كہ تم آج سے ہمارے دربار ميں باوقار امين كى حيثيت سے رہوگے (۵۴)

۱_جب بادشاہ مصر كے سامنے حضرت يوسفعليه‌السلام كى پاكدامنى ، كمال عفت اور بے گناہى ثابت ہوگئي تو اس كے ديدار كے ليے اسكا دل چاھا اور اس نے دوبارہ حضرت يوسف(ع) كو در بار ميں لانے كا حكم ديا_

ذلك ليعلم أنى لم أخنه و قال الملك ائتونى به أستخلصه لنفسي

۲_جب بادشاہ مصر نے دوبارہ حضرت يوسفعليه‌السلام كو دربار ميں لانے كو كہا توانہيں اپنا مشير خاص بنانے كا ارادہ كرليا_

قال الملك ائتونى به أستخلصه لنفسي

جب انسان كسى كو اپنے اندرونى حالات اور اپنے اسرار سے آگاہ كرے اور امور ميں دخالت دينے كى اجازت دے تو اسكو (أستخلصه ) سے تعبير

كيا جاتاہے(لسان العرب سے اس معنى كو ليا گيا ہے ) لہذا(أستخلصہ نفسي) تا كہ حضرت يوسفعليه‌السلام كو اپنا محرم اسرار قرار دوں اور مملكت كے امور ميں مداخلت دوں اسى وجہ ہم اسكو خصوصى مشير سے تعبير كرسكتے ہيں _

۳ _ جب حضرت يوسفعليه‌السلام پر يہ بات عياں ہوگى كہ بادشاہ اور اس كے درباريوں كے ہاں اسكيبےگناہى ثابت ہوگئي ہے تب انكى زندان سے دربار ميں جانے كى دعوت كو بغير كسى چون و چرا كے قبول كرليا_قال الملك ائتونى به فلمّا كلّمه

(فلما كلمّہ ) كا جملہ (ائتونى بہ ) كے جملے كے ساتھ متصل ذكر كرنا اور درميان ميں بادشاہ كا حضرت يوسفعليه‌السلام كو فرمان اور عورتوں كى عدالتى تفتيش اور دوسرے مطالب كو ذكر نہ كرنا _ يہ اس بات كو بتاتاہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام اور بادشاہ كے فرمان كے درميان كوئي فاصلہ نہيں تھا_

۵۲۰

۴_ بادشاہ اور حضرت يوسفعليه‌السلام كى پہلى ملاقات، بادشاہ كے خواب اور حضرت يوسفعليه‌السلام كى تعبير اور ان كا بادشاہ كے مشيرانہ عہدے پر فائز ہونےكے سلسلہ ميں گفتگو ہوئي_و قال الملك ائتونى به استخلصه لنفسى فلما كلمه

اگر چہ آيت شريفہ ميں اس بات كى وضاحت نہيں ہوئي كہ بادشاہ اور حضرت يوسفعليه‌السلام كے مابين كس موضوع پر گفتگو ہوئي ليكن قرائن حاليہ و مقاليہ اس بات كى طرف اشارہ كرتے ہيں كہ بادشاہ كے خواب اور حضرت يوسفعليه‌السلام كى تعبير اور ان كو اپنے مشير كے عہدے پر فائز كرنے كے سلسلہ ميں گفتگو تھي_

۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى بادشاہ سے پہلى ملاقات نے بادشاہ كے ان پر اعتماداور توجہ كو زيادہ كرديا_

فلما كلّمه قال انك اليوم لدينا مكين امين

ظاہر يہ ہے كہ (كلمہ ) ميں فاعل كى ضمير، حضرت يوسفعليه‌السلام اور مفعول كى ضمير بادشاہ كى طرف لوٹ رہى ہے _(قال انك ...) كا جملہ اس بات كا مؤيد ہے اور كيونكہ بادشاہ نے حضرت يوسفعليه‌السلام سے گفتگو كرنے كے بعد اس بات (إنك اليوم ...) كا اظہار كيا تو اس سے معلوم ہوتا ہے كہ بادشاہ كى حضرت يوسفعليه‌السلام كى طرف توجہ ،پہلے سے زيادہ ہوگئي_

۶_انسان كى كلام، اسكى شخصيت اور منزلتكو بيان كرنے والى ہوتى ہے_فلما كلمه قال انك اليوم لدينا مكين امين

۷_ حضرت يوسف(ع) ، مقتدرو امين اور قابل اعتماد انسان تھے_إنك اليوم لدينا مكين أمين

۸_ بادشاہ مصر نے حضرت يوسفعليه‌السلام سے ملاقات كے دوران جب اس پران كى شخصيت اور ان كا علم و دانش عياں ہوگيا تو اس نے اس بات كا اظہار كيا كہ اپنى حكومت كے معاملے ميں انكے مشورے كو نافذ اور اس كے فرمان كى بجا آورى كرے گا_فلما كلمه قال انك اليوم لدينا مكين آمين

جسكا مقام و منزلت بلند و رفيع ہو اسكو(مكين) كہا جاتاہے نيز (أمين) اس كوكہا جاتاہے جو خيانت سے پرہيز كرے اوراسكى بات ميں صداقت اور كردار و عمل ميں سچائي كے ہونے كااطمينان ہو_بادشاہ كى يہ بات كہ تم ہمارے ہاں بلند مرتبہ ركھنے والے ہو يہ اس بات كى طرف كنايہ ہے _ كہ آپ كے مشوروں كو نافذ العمل ٹھہرائيں گے اور حكومت كے معاملے ميں آپ جو بھى مشورہ ديں گے ہم اسكو قبول كريں گے _

۹_ يوسف كے زمانے ميں بادشاہ مصر ايك صاحب

۵۲۱

حكمت و فراست اور مدبر شخص تھا _و قال الملك ائتونى به استخلصه لنفسى فلما كلمه قال انك اليوم لدينا مكين آمين

۱۰_حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں مصر كا بادشاہ ، پاكدامن ، دانشمند اور صحيح لوگوں كو دوست ركھنے والا انسان تھا_

فلما كلّمه قال انك اليوم لدينا مكين امين

۱۱_ جو شخص كسى كو منصب و مقام دے رہاہے اسے چاہيئے كہ اس منصب كو لينے والے شخص كى طاقت اور اسكى امانت دارى كا يقين حاصل كرے_قال الملك ائتونى به استخلصه لنفسى مكين آمين

۱۲ _ بادشاہ مصر كے ہاتھوں حضرت يوسفعليه‌السلام كى غلامى كے حكم كو ختم كيا جانا_

ائتونى به استخلصه قال انك اليوم لدينا مكين امين

(استخلصه لنفسي ) كا جملہ نيز حضرت يوسفعليه‌السلام كى غلامى كے قصے كا دوبارہ اس داستان ميں ذكر نہ ہونا مذكورہ بالا تفسير كوبتاتا ہے_

بادشاہ مصر :بادشاہ مصر اور امين لوگ ۱۰; بادشاہ مصر اور علماء ۱۰ ; بادشاہ مصراور عفيف و پاكدامن لوگ۱۰;بادشاہ مصر اور يوسفعليه‌السلام ۱ ، ۲ ;بادشاہ مصر اور يوسفعليه‌السلام كى غلامى ۱۲ ;بادشاہ مصر كا حضرت يوسفعليه‌السلام پر اعتماد ۵ ; بادشاہ مصر كا خواب ۴ ; بادشاہ مصر كا مخصوص مشير ۲، ۴ ;بادشاہ مصر كى حكمت ۹ ;بادشاہ مصركى مديريت ۹ ; بادشاہ مصر كى يوسفعليه‌السلام سے ملاقات ۸ ; بادشاہ مصر كے فضائل ۹ ، ۱۰

حكومت:حكومت كے حكام كى امانتدارى ۱۱ ; حكومت كے حكام كى تعيناتى كے شرائط ۱۱ ; حكومت كے حكام كى قدرت و طاقت ۱۱

شخصيت :شخصيت كى پہچان كا سبب ۶كلام :كلام كا كردار۶

نفسيات كا علم ۶

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام دربار مصر ميں ۳ ، ۵ ، ۸;يوسفعليه‌السلام زندان كے بعد ۳ ، ۴ ;يوسفعليه‌السلام سے لگاؤ ۱ ; يوسفعليه‌السلام كا اقتدار۷ ; يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۳ ،۴ ، ۵ ، ۸،۱۲;يوسفعليه‌السلام كو دعوت دينا ۱ ، ۲ ۴; يوسفعليه‌السلام كى امانتدارى ۷ ; يوسفعليه‌السلام كى بادشاہ مصر سے گفتگو ۴ ، ۵;يوسفعليه‌السلام كى بےگناہى ۳;يوسفعليه‌السلام كى بے گناہى كے آثار ۱ ; يوسف كى شخصيت ۸ ;يوسفعليه‌السلام كى عفت كے آثار ۱; يوسفعليه‌السلام كے علم كے آثار ۸ ;يوسف كے فضائل ۷

۵۲۲

آیت ۵۵

( قَالَ اجْعَلْنِي عَلَى خَزَآئِنِ الأَرْضِ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ )

يوسف نے كہا كہ مجھے زمين كے خزانوں پر مقرر كردوں كہ ميں محافظ بھى ہوں اور صاحب علم بھى (۵۵)

۱ _ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بادشاہ سے كہا كہ مجھے مصر كى زراعت كا وزير اور غلات كے سٹور كا ناظر مقرر كردے_

قال اجعلنى على خزائن الارض

حضرت يوسفعليه‌السلام نے بادشاہ كے خواب كى جو تعبير بتائي كہ سات سال زراعت كے كام ميں بہت محنت كرنى چاہيے اور اسكى پيداوار كو ذخيرہ كرنا چاہيے اس بات سے يہ معلوم ہوتاہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام نے ان سے خواہش كى ( كہ مجھے زمين كے خزانے پر مامور كرديں ) يعنى مذكورہ امور كو ميرے سپرد كردے يعنى زراعت كى كاشت اور آمدنى ( وزارت زراعت) اور غلات كے انبار ميرے سپرد كرديئے جائيں _

۲ _ حضرت يوسفعليه‌السلام كا حكومتى منصب كى خواہش كرنے كا مقصد يہ تھا كہ مصر كے لوگوں كے ليئے قحطى و خشكسالى كى وجہ سے جو حادثہ رونما ہونے والا ہے اس سے ان كو بچايا جائے_اجعلنى على خزائن الارض

۳ _ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بادشاہ كو مصر كے لوگوں كى خوراك كے امور كو سنبھالنے كى دليل سے آگاہ كيا_

اجعلنى على خزائن الارض انى حفيظ عليم

(انى حفيظ عليم ) كا جملہ (اجعلني ...) كے جملے كے ليے علت ہے_

۴ _ حضرت يوسفعليه‌السلام اس بات كى قدرت ركھتے تھے كہ خوراك كے ذخيرے كو تلف ہونے سے بچا سكيں _

اجعلنى على خزائن الارض انى حفيظ عليم

۵ _ حضرت يوسفعليه‌السلام غلات كى كاشت و كٹائي اور اس كو ذخيرہ اور صحيح تقسيم كرنے سے كامل طور پر واقف تھے_

اجعلنى على خزائن الارض انى حفيظ عليم

۶_حضرت يوسف(ع) اپنى صلاحتيوں كے مطابق كا شت وكٹائي اور غلات كو ذخيرہ اور تقسيم كرنے كى تاكيد كرتے تھے_(انّى حفيظ عليم ) كا جملہ نہ صرف اس پر دلالت كرتاہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام مذكورہ مسائل و امور كا علم ركھتےہيں بلكہ اس كے علاوہ عملى طور پر اسكى انجام دہى كى بھى طاقت ركھتے ہيں اور اس كو كامل طور پر انجام دينے كا وعدہ بھى كرتے ہيں _

۵۲۳

۷_كفر و شرك كى حكومت ميں ، حكومتى كاموں كى ملازمت كا تقاضا كرنے كا جواز _قال اجعلنى على خزائن الأرض

۸_ حكومتى عہدوں پر فائز ہوناحتى كفر و شرك والى حكومتوں ميں ملازمت كرنا جائز رہا ہے _

قال اجعلنى على خزائن الأرض

۹_ كسى دينى اور انسانى ذمہ دارى كو سنبھالنے كيلئے اپنے مثبت خصوصيات كو بيان كرنا جائز اور مناسب ہے _

قال اجعلنى على خزائن الأرض انى حفيظ عليم

۱۰_ ماہر، لائق اور كام كوسمجھنے والے اشخاص كے ليے ضرورى ہے كہ كسى ذمہ دارى سے انكار نہ كريں بلكہ ان امور كے چلانے ميں ذمہ دارى كو قبول كريں _قال اجعلنى على خزائن الأرض انى حفيظ عليم

۱۱_ حكومت كو چاہيے كہ بحرانى حالات ميں اقتصادى امور(پيداوار اور اس كى تقسيم )كينگرانى كرے _

قال اجعلنى على حزائن الأرض انى حفيظ عليم

۱۲_مہتمم ہونے اوروزارت كو چلانے كے ليے ،علم اور قدرت دو بنيادى شرطيں ہيں _اجعلنى انى حفيظ عليم

۱۳_ معاشرے كے مالياتى امور كى سرپرستى كے ليے اسكا صاحب علم اور امين ہونا، شرط ہے _اجعلنى انى حفيظ عليم

۱۴_ مہارت اور علم كے بغير كسى كام كى ذمہ دارى لينا نيز مہارت بغيرذمہ دارى كے كارساز نہيں ہے_

اجعلنى على خزائن الأرض انى حفيظ عليم

۱۵_عن رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : رحم الله اخى يوسف لو لم يقل : اجعلنى على خزائن الأرض لو لّاه من ساعته ولكنّه آخّر ذلك سنة (۱)

رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روايت ہے كہ خداوند متعال ميرے بھائي حضرت يوسفعليه‌السلام پر رحمت نازل كرے اگروہ زمين كے خزانوں كى سرپرستى كا تقاضا نہ كرتے تو يہ منصب اسى وقت ان كو مل جاتا (ليكن انكا تقاضا كرنا كہ مجھے سرپرستى دى جائے يہ تقاضا كرنا سبب بنا كہ انہيں ايك سال كى تأخير سے يہ منصب عطا ہو ا_

____________________

۱) مجمع البيان ، ج ۵، ص ۳۷۲; نورالثقلين ج۲، ص ۴۳۲حديث ۹۸_

۵۲۴

۱۶_عن على بن موسى الرضا عليه‌السلام ... انّ يوسف عليه‌السلام ... لما دفعته الضرورة الى تولى خزائن العزيز قال : اجعلنى على خزائن الأرض (۱)

امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے كہ جب يہ ضرورت محسوس ہوئي كہ حضرت يوسفعليه‌السلام عزيز مصر كے خزانوں كى سرپرستى كو قبول كرے تو فرمايا:اجعلنى على خزائن الأض

۱۷_قال سفيان : قلت لأبى عبدالله عليه‌السلام يجوز ان يزكّى الرجل نفسه ؟ قال : نعم اذا اضطرّ اليه اما سمعت قول يوسف : '' ...انى حفيظ عليم ...'' (۲) سفيان كہتا ہے كہ ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے عرض كى كہ كيا جائز ہے انسان اپنى تعريف كرے ؟ تو حضرتعليه‌السلام نے فرمايا ہاں جب ضرورت ہو تو، كيا تونے نہيں سنا كہ حضرت يوسفعليه‌السلام نے فرمايا'' ...انّى حفيظ عليم ...''

۱۸_عن ابى عبدالله انه قال لقوم مّمن يظهرون الزّهد و يدعون الناس ان يكونوا معهم على مثل الذى هم عليه من التقشّف ...ا خبرونى اين انتم عن يوسف النبى عليه‌السلام حيث قال لملك مصر: ''اجعلنى على خزائن الأرض ...'' فكان من امره الذى كان ان اختار مملكة الملك و ما حولها الى اليمن فلم نجد احداً عاب ذلك عليه (۳) امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپ(ع) نے ان لوگوں كو مخاطب ہو كر فرمايا جو اپنے زہد كا اظہار كرتے تھے اور لوگوں كو اسكى دعوت ديتے تھے كہ ان كى طرح دنيا كى زندگى كو سختى و مشكلات كے ساتھ گزارو ، تو حضرتعليه‌السلام نے انہيں مخاطب ہوكر فرمايا كہ مجھے بتاؤ كہ حضرت يوسف(ع) كے بارے ميں تمھارى كيا رائے ہے يہ كہ انہوں نے بادشاہ مصر سے فرمايا: (اجعلنى على خزائن الارض ...) پس حضرت يوسف(ع) نے اتنى ترقى كى كہ پورے ملك كا يمن تك بادشاہ بن گئے ليكن كسى ايك نے بھى ان ميں يہ عيب نہيں نكالا كہ وہ بادشاہ كيوں بناہے_

۱۹_عن الرضا عليه‌السلام ...فى قوله تعالى : '' ...انّى حفيظ عليم '' قال: حافظ لما فى يدّى عالم بكلّ لسان (۴) امام رضاعليه‌السلام سے خداوند متعال كے اس قول ...انّى حفيظ عليم كے بارے ميں روايت ہوئي ہے كہ اس سے مراد يہ ہے كہ ميں تمام چيزوں كى حفاظت كرنے والا ہوں جو ميرے كنٹرول ميں ہيں اور تمام زبانوں سے واقف ہوں _

____________________

۱) عيون الاخبار الرضا ، ج ۲،ص ۱۳۹، ح ۲، ب ۴۰ ; نورالثقلين ، ج۲ ص ۴۳۲، ح۹۹_۲) تفسير عياشى ، ج۲، ص ۱۸۱، ح۴۰; نورالثقلين ، ج ۲ ص ۴۳۳، ح۱۰۳_

۳) كافى ج ۵، ص ۷۰، ح ۱ ; نورالثقلين ج ۲، ص ۴۳۴، ح ۱۰۴_۴) علل الشرائع ص ۲۳۸، ح۲) ب۱۷۳; نورالثقلين ج۲، ص ۴۳۲، ح۱۰۰_

۵۲۵

احكام : ۷، ۸، ۹

اقتصاد :اقتصادى امور ميں سرپرستى كے شرائط ۱۳; اقتصادى بحران ميں پيداوار پر نظارت ركھنے كى اہميت ۱۱ ;اقتصادى بحران ميں تقسيم پر نظارت ركھنے كى اہميت ۱۱; اقتصادى بحران ميں سياست ۱۱

انسان :لائق انسانوں كى ذمہ داري۱۰

حكومت :حكومت شرك سے ملازمت كى درخواست ۷; حكومت كفر سے ملازمت كى درخواست۷; حكومت كفر ميں ذمہ دارى كا قبول كرنا ۷، ۸; حكومت كى ذمہ دارى ۱۱

خوداپنى تعريف :اپنى تعريف كا جائز ہونا ۹، ۱۷;اپنى تعريف كے احكام ۹، ۱۷

ذمہ دارى :ذمہ دراى كو قبول كرنے كى اہميت ۱۰

روايت : ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۱۸، ۱۹

سرپرستى :سرپرستى كرنے كا علم ۱۲; سرپرستى كرنے كى قدرت ۱۲; سرپرستى كے شرائط ۱۲

ملازمت :ملازمت كا جائز ہونا ۷، ۸;ملازمت كے احكام ۷، ۸

معاشرہ :معاشرے ميں اقتصادى امور كى اہميت ۱۳

وزارت :وزارت سنبھلانے كے شرائط ۱۲

وعدہ:وعدہ اور مہارت۱۴

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام اور غذائي امور كى سرپرستى ۳، ۴; يوسفعليه‌السلام اور غلّات كا ذخيرہ كرنا ۶; يوسفعليه‌السلام اور قحطى كى مشكلات كا كنٹرول ۲; يوسفعليه‌السلام اور وزارت زراعت ۱; يوسفعليه‌السلام كا اپنى تعريف كرنا ۱۷; يوسفعليه‌السلام كا علم ۱۹; يوسفعليه‌السلام كا علم اقتصاد ۵;يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۳ ، ۴، ۶، ۱۵، ۱۶، ۱۸، ۱۹;يوسفعليه‌السلام كو زراعت كا علم ۵، ۶; يوسفعليه‌السلام كى اقتصادى سياست ۴; يوسفعليه‌السلام كى امانت دارى ۱۹;يوسفعليه‌السلام كى بادشاہ مصر سے گفتگو ۱، ۳، ۱۶، ۱۸; يوسفعليه‌السلام كى خزانہ دارى ۱، ۴، ۵، ۱۶;يوسفعليه‌السلام كى خواہش كے پورا ہونے ميں دير ۱۵;يوسفعليه‌السلام كى خواہشات۱، ۱۶، ۱۸; يوسفعليه‌السلام كى خواہشات كا فلسفہ ۲;يوسفعليه‌السلام كى دور انديشى ۲;يوسفعليه‌السلام كى صلاحيت ۳، ۴، ۶;يوسف(ع) كى مجبورى ۱۶

۵۲۶

آیت ۵۶

( وَكَذَلِكَ مَكَّنِّا لِيُوسُفَ فِي الأَرْضِ يَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاءُ نُصِيبُ بِرَحْمَتِنَا مَن نَّشَاء وَلاَ نُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ )

اور اس طرح ہم نے يوسف كو زمين ميں اختيار دے ديا كہ وہ جہاں چاہيں رہيں _ہم اپنى رحمت سے جس كو بھى چاہتے ہيں مرتبہ ديے ديتے ہيں اور كسى نيك كردار كے اجرا كو ۲_ ضائع نہيں كرتے (۵۶)

۱_ مصر كے بادشاہ نے حضرت يوسفعليه‌السلام كے مشورہ كو قبول كرتے ہوئے كھتى باڑى و زراعت اور اسكى نگہدارى اور تقسيم كو ان كے سپرد كرديا _اجعلنى على خزائن الأرض و كذلك مكّنّا ليوسف فى الأرض

۲_ حضرت يوسفعليه‌السلام مصر كى سرزمين پر بغير كسى متنازع ہونے كے، قدرت اور مقام منزلت كے مالك ہوگئے _

مكّنا ليوسف فى الأرض يتبّوا منها حيث يشاء

''تمكين'' ''مكنّنا'' كا مصدر ہے جو كہ مكان دينے نيز قدرت عطا كرنے كے معنى ميں بھى آتا ہے _ يہاں حكم اور موضوع كى مناسبت اور (فى الأرض) كى قيدلگانے سے ظاہر ہوتا ہے كہ دوسرا معنى مراد ہے _ اسى وجہ سے ''مكنّا ليوسف فى الأرض'' كا معنى يہ ہوا كہ ہم نے مصر كى پورى سرزمين پر حضرت يوسفعليه‌السلام كو قدرت و سلطنت عطا كى اور (حيث يشاء) كا جملہ بتاتا ہے كہ اس كے مقابلے ميں كوئي قدرت و طاقت نہيں تھي_

۳_ حضرت يوسفعليه‌السلام ،مصر كى پورى سرزمين ميں تصرف اور مستقر ہونے كے حوالے سے آزاد اور اختيار ركھتے تھے _

مكنّا ليوسف فى الأرض يتبّوا منها حيث يشاء

(يتبّوا ) كا معنى ٹھہرنا اور رہائش پذير ہونےكے ہيں پس جملہ '' يتبّوا منہا حيث يشاء'' كا معنى يہ ہوا كہ (مصر ميں جس جگہ وہ چاہيں ٹھہر سكتے اور رہائش پذير ہوسكتے تھے) يہ جملہ لفظ (مكنّا) كى تفسير كے مقام پر ہے_يہ جملہ اصل ميں كنايہ

۵۲۷

ہے كہ وہ مصر كى پورى سرزمين ميں تصرف كرنے اور اس پر اقتدار كرنے كى طاقت و قدرت ركھتے تھے _

۴_ حضرت يوسفعليه‌السلام ، خداوند متعال كى طرف سے مصر كى تمام سرزمين ميں تصرف كرنے كى ولايت ركھتے تھے _

و كذلك مكنّا ليوسف فى الأرض يتبّوا منها حيث يشاء

(مكنّا ليوسف ...) كا جملہ اقتدار تكوينى كے ساتھ ساتھ اقتدار تشريعى كوبھى شامل ہے_ يعنى خداوند متعال نے ان كو مصر كى تمام سرزمين پر دخل اندازى اور تصرّف كرنے كى اجازت عطا فرمائي ہے _

۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى داستان ( كنعان كے كنويں سے نجات پاكر وزارت اور قدرت تك پہنچنا) يہ ارادہ خداوندى اور اس كى تدبير كے مطابق تھي_و كذلك مكنّا ليوسف فى الأرض

۶_ اسباب اور علل كو پيدا اور جارى كرنا، خداوند متعال كے اختيار اور ہاتھ ميں ہے _و كذلك مكنّا ليوسف فى الأرض

۷_ تاريخ كے حوادث اور اس كے جريان ميں ارادہ الہى حاكم ہے _و كذلك مكنّا ليوسف فى الأرض

۸_ مملكت كى بحرانى صورت ميں حكومتوں كو اختيار ہے كہ لوگوں كو ان كے اپنے اموال و املاك ميں تصرّف كى آزادى محدود كرديں اور انہيں عمومى مصالح كى طرف لے جائيں _

اجعلنى على خزائن الأرض كذلك مكنّا ليوسف فى الأرض يتبّوا منها حيث يشاء

۹_ خداوند متعال، جسكو بھى چاہے اپنى رحمت خاصّہ عطا كرتا ہے _نصيب برحمتنا من نشاء

۱۰_ مصر ميں حضرت يوسفعليه‌السلام كا بلامنازع اور مطلق اقتدار ،خداوند متعال كى ان پر رحمت خاصّہ كا ايك جلوہ تھا _

كذلك مكنّا ليوسف ...نصيب برحمتنا من نشاء

۱۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام كا غلامى اور زندان ميں اسارت كے بعد قدرت و حكومت حاصل كرنا ، تمام علل و اسباب پر خداوند عالم كى مشيّت كى حاكميت كى محكم دليل ہے_كذلك مكنّا ليوسف فى الأرض يتبّوا منها حيث يشاء نصيب برحمتنا من نشاء

(خداوند متعال ) كا يہ جملہ ( كہ جسكو چاہيں ہم اپنى رحمت ميں شامل كر ليتے ہيں اور اسكو قدرت عطا كرتے ہيں ) جو (نصيب برحمتنا) كے جملے سے سمجھا جاتا ہے يہ جملہ دعوى كے مقام پر

۵۲۸

ہے جسكو (كذلك مكنّا) سے استدلال كيا گيا ہے _

يعنى خداوند متعال نے ايك غلام كو جس كے پاس اپنا اختيار بھى نہيں تھا تمام لوگوں كے اختيار كو اسكے ہاتھ ميں دے ديا اور يہ روشن و واضح دليل ہے كہ الله تعالى ، مطلق حاكم ہے _

۱۲_ مشيت الہى كى حاكميت اور اس كے ارادے كا نافذ ہونا _نصيب برحمتنا من نشاء

۱۳_ نيك كام كرنے والے دانشورحضرات كى قدرت و اختيار، ان پر خداوند متعال كى نعمت و رحمت ہے _

انّى حفيظ عليم وكذلك مكنّا يوسفعليه‌السلام نصيبٌ رحمتنا من نش

رحمت الہى كے مصداق ''رحمتنا'' (مكنّا ليوسف فى ا لأرض) كے قرينے كى وجہ سے حضرت يوسفعليه‌السلام جيسے كا انسانوں كاقدرت و اختيار تك پہنچانا ہے_

۱۴_ خداوند متعال، نيك كام كرنے والوں كو دنيا ميں اپنى جزاء و عطا سے نوازتا ہے _ولا نضيع اجر المحسنين

بعد والى آيت كے قرينے سے معلوم ہوتا ہے كہ يہاں (اجر ) سے مراد ، دنيا ميں اجر دينا ہے _

۱۵_ خداوند متعال نيك لوگوں كو اجر كى نوازش كرنے ميں ذرہ برابر بھى ان سےكم نہيں كرتا_ولا نضيع اجر المحسنين

۱۶_ حضرت يوسفعليه‌السلام ان لوگوں ميں سے تھے جن پر احسان كيا گيا تھا_ولا نضيع اجر المحسنين

۱۷_ حضرت يوسفعليه‌السلام كا مصر كى سرزمين پر قدرت حاصل كرنا اور الہى رحمت خاصّہ سے بہرہ مند ہونا، ان كے نيك كاموں كى جزا تھى _كذلك مكنّا ...نصيب برحمتنا ...ولا نضيع اجر المحسنين

۱۸_ حضرت يوسفعليه‌السلام كا مصر كى سرزمين پر قدرت حاصل كرنا، يہ واضح و روشن دليلہے كہ خداوند متعال كى طرف سے نيك كام كرنے والوں كا اجر ضائع نہيں ہوتا ہے_

۱۹_ عفت ، پاكدامنى ، امانت، صداقت ،وحدہ لاشريك كى پرستش كرنا ، اپنے علم كو نہ چھپانا اورذمہ دارى كو قبول كرنا، نيك كاموں كے مصاديق شمار ہوتے ہيں _ولا نضيع اجر المحسنين

(المحسنين ) كے مورد نظر مصاديق ميں سے حضرت يوسفعليه‌السلام ہيں اسى وجہ سے جن اوصاف اور خصوصيات كو ان كے ليے ذكر كيا گيا ہے وہ قرآن مجيد كى نظر ميں احسان كرنے اور نيك كاموں كے موارد ہيں _

۵۲۹

۲۰_ محسنين لوگوں كا دنيا ميں الہى رحمت خاصّہ كا حامل ہونا مشيت اور تقاضائے الہى ہے _

نصيب برحمتنا من نشاء و لانضيع اجر المحسنين

۲۱_ مشيت الہي، منظم اور قانون كے ساتھ ہے _نصيب برحمتنا من نشاء و لانضيع اجر المحسنين

(لا نضيع ...) كا جملہ اور (لأجر الأخرة ...) كا جملہ جو(من نشاء ...) كے بعد بيان ہوا ہے بہ بتاتا ہے كہ خداوند متعا ل يہ چاہتا ہے كہ اپنى رحمت كو مؤمن اور باتقوى محسنين كو عطا فرمائے _ يعنى رحمت كا عطاء كرنا بغير دليل اور قابليت كے نہيں ہے_

آزادى :آزادى ميں محدو ديت كے شرائط ۸

احسان :احسان كى اہميت ۲۰، احسان كے موارد ۱۹

احكام :حكومت كے احكام ۸

الله تعالى :الله تعالى كا ارادہ ۵; الله تعالى كا دنيا ميں عطا كرنا ۱۴; الله تعالى كى بخشش ۱۵; الله تعالى كى جزاء ۱۵، ۱۸;الله تعالى كى رحمت كى نشانياں ۱۰;الله تعالى كى عدالت ۱۵، ۱۸;الله تعالى كى عدالت كے دلائل ۱۸;الله تعالى كى مشيت ۹، ۲۰; الله تعالى كى مشيت كى حاكميت ۱۱، ۱۲;الله تعالى كى مشيت ميں قانون كا ہونا ۲۱;الله تعالى كے اختيارات ۶; الله تعالى كے ارادے كى حاكميت ۷، ۱۲

الله تعالى كا اجر :اجر الہى كے شامل حال افراد۱۴

امانتداري:امانتدارى كى اہميت ۱۹

تاريخ:تاريخ ميں تحولات كا سبب ۷، ۱۱

توحيد :توحيد عبادى كى اہميت ۱۹

حكومت :بحرانى حالات ميں حكومت ۸;حكومت كے اختيارات ۸

رحمت :رحمت خاصّہ كے مستحقين ۲۰;رحمت كے مستحقين ۹، ۱۰،۱۳، ۱۷

صداقت :صداقت كى اہميت ۱۹

۵۳۰

ظاہرى اسباب و عوامل :ظاہرى اسباب و عوامل كا كردار ۶

عفت:عفت كى اہميت ۱۹

علم :علم كے اظہار كى اہميت ۱۹

علماء:محسن علماء كى قدرت ۱۳

عمومى مصلحتيں :عمومى مصلحتوں كى اہميت ۸

مال :اموال ميں تصرّف كرنے كى محدوديت ۸

محسنين :محسنين پر رحمت ۲۰;محسنين كا دنيا ميں اجر ۱۴; محسنين كى جزاء ۱۵

مصر كا بادشاہ :مصر كا بادشاہ اور حضرت يوسفعليه‌السلام كى فرمائشات ۱

نعمت :نعمت كے مستحقين ۱۳

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسف(ع) اور وزير زراعت ۱;حضرت يوسف(ع) پر رحمت ۱۷;حضرت يوسف(ع) كا اجر ۱۷ ; حضرت يوسف(ع) كا احسان ۱۷; حضرت يوسف(ع) كا اقتدار ۲، ۳، ۱۰;حضرت يوسف(ع) كا خزانہ دار ہونا ۱; حضرت يوسف(ع) كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۵، ۱۱; حضرت يوسف(ع) كا محسنين ميں سے ہونا ۱۶;حضرت يوسف(ع) كى تشريعى ولايت ۴; حضرت يوسف(ع) كى تكوينى ولايت ۴; حضرت يوسف(ع) كى قدرت كا سبب ۵، ۱۱ ، ۱۷، ۱۸; حضرت يوسف(ع) كى نجات كا سبب ۵; حضرت يوسف(ع) كے فضائل ۱۰;حضرت يوسف(ع) كے مقامات ۲;حضرت يوسف(ع) مصر ميں ۲، ۳، ۴

آیت ۵۷

( وَلَأَجْرُ الآخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ آمَنُواْ وَكَانُواْ يَتَّقُونَ )

اور آخرت كا اجر تو ان لوگوں كے لئے بہترين ہے جو صاحبان ايمان ہيں اور خدا سے ڈرنے والے ہيں (۵۷)

۱_ آخرت كا اجر، دنيا كے اجر سے بہتر اور برتر ہے _لا نضيع اجر المحسنين و لاجر الاخرة خير

۲_ نيك كام انجام دينے والے، دنيا كى زندگى ميں اجر سے بہرہ مند ہونے كے علاوہ آخرت ميں بھى بہترين اور برتر اجر پائيں گے_

۵۳۱

لا نضيع اجر المحسنين و لاجر الاخره خيرٌ

۳_ دنيا كى زندگى كا محدود ہونا اوراس ميں گنجائش كى محدويت، نيك لوگوں كے اجرو پاداش كے ليے مناسب نہيں ہے_

لا نضيع اجر المحسنين و لاجر الاخرة خير للذين و كانوا يتّقون

۴_ آخرت كا اجر ، رحمت الہى كا ايك نمونہ ہے _نصيب برحمتنا من نشاء و لاجر الاخرة خير

۵_ زمين پر سلطنت اور اقتدار كا ہاتھ ميں آنا، آخرت كى جزاء كے مقابلے ميں نا چيز ہے _

كذلك مكّنّا ليوسف فى الارض و لاجر الاخرة خير

۶_ اخروى اجر سے بہرہ مندى كى شرط، ايمان اور تقوى سے ملتزم ہونا ہے _

و لاجر الاخرة خير للذين ء امنوا و كانوا يتقون

(كان) كا لفظ اور اس طرح كے دوسرے الفاظ اگر فعل مضارع كے ساتھ استعمال ہوں تو گذرے ہوئے زمانہ ميں استمرار كو بتاتے ہيں _ اسى وجہ سے تقوى كے ساتھ ملتزم رہنا مذكورہ عبارت سے استفادہ كيا گيا ہے _

۷_ ايمان تقوى كے بغير اور تقوى بغير ايمان كے آخرت كى نعمتوں سے بہرمند ہونے كے ليے كام نہيں آسكتا _

للذين ء امنوا و كانوا يتّقون

۸_ اخروى نعمتوں تك رسائي كے ليے قيامت اور ميدان محشر پر ايمان اور گناہوں سے پرہيز كرنا ضرورى ہے _

و لاجر الاخرة خير للذين ء امنوا و كانوا يتقون

آيت شريفہ ميں يہ بيان نہيں ہوا كہ ايمان (آمنوا )تقوى (يتقون ) كا متعلّقكياہے _ (لاجرالاخرة ) كے قرينے سے يہ معلوم ہوتا ہے كہ يہاں ايمان سے مراد آخرت پر ايمان ہے اور تقوى سے مراد ان امور سے پرہيز كرنا ہے جو آخرت كى نعمتوں سے محروم كر ديتے ہيں _

۹_ حضرت يوسف(ع) ، متقى مومنين اور آخرت پر يقين ركھنے والوں كا واضح اور روشن نمونہ تھے_

و لاجر الاخرة خير للذين ء امنوا و كانوا يتقون

(الذين آمنوا ) كا مصداق، مذكورہ آيا ت كے قرينہ سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام تھے_

۱۰_ حضرت يوسفعليه‌السلام دنيا كے اجر سے بہتر، قيامت و آخرت ميں اجر پائيں گے_

و كذلك مكّنّا ليوسف فى الارض و لا نضيع اجر المحسنين و لاجر الاخرة خير

۵۳۲

.. و كانوا يتقون

۱۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام كا دنيا و آ۱خرت ميں اجر پانے كا سبب، ايمان اور تقوى و پرہيزگارى كو برقرار ركھنا تھا_

و كذلك مكّنا ليوسف و لاجر الاخرة خير للذين ء امنوا و كانوا يتقون

آخرت :آخرت پر ايمان لانے والے : ۹

احسان :احسان كى اہميت ۲

ايمان :آخرت پر ايمان كے آثار ۸;ايمان كا اجر ۱۱; ايمان بغير تقوى كے ۷; ايمان كى اہميت ۶

اجر :آخرت كا اجر ۴;آخرت كے اجر كى اہميت ۱، ۵; آخرت كے اجر كے شرائط ۶; دنيا كے اجر كى ارزش ۱

اللہ تعالى كا اجر :اللہ تعالى كے اجر كے شامل حال لوگ۲

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى رحمت كى نشانياں ۴

تقوى :بغير ايمان كے تقو ى ۷;تقوى كى اہميت ۶; تقوى كى جزاء ۱۱

حكومت :حكومت كى اہميت ۵

زندگى :دنياوى زندگى كى محدوديت ۳

قدرت :قدرت كى اہميت ۵

گناہ :گناہ كو ترك كرنے كے آثار ۸

مؤمنين : ۹

متقين : ۹

محسنين:محسنين اور دنياوى پاداش ۳;محسنين كا اجر آخرت ۲; محسنين كا دنيا ميں اجر ۲; محسنين كى جزاء ۳; محسنين كى دنيا ميں زندگى ۲

نعمت :آخرت كى نعمت كے اسباب ۷،۸

يوسف(ع) :حضرت يوسفعليه‌السلام كا ايمان ۹، ۱۱; حضرت يوسفعليه‌السلام كا تقوى ۹،۱۱; حضرت يوسف(ع) كا دنيا ميں اجر ۱۰، ۱۱; حضرت يوسف(ع) كى آخرت كى جزاء ۱۰، ۱۱; حضرت يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۹

۵۳۳

آیت ۵۸

( وَجَاء إِخْوَةُ يُوسُفَ فَدَخَلُواْ عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنكِرُونَ )

اور جب يوسف كے بھائي مصر آئے اور يوسف كے پاس پہنچنے تو انھوں نے سب كو پہچان ليا اور وہ لوگ نہيں پہچان سكے(۵۸)

۱_ حضرت يوسف كى پيشگوئي جو بادشاہ كے خواب كى بنا ء پر بتائي تھى اس نے حقيقت كا روپ دھارليا اور قحط و خشكسالى نے مصر اور اطراف مصر ( كنعان و غيرہ ) كو اپنى لپيٹ ميں لے ليا _و جاء اخوة يوسف قد خلوا عليه

آيت ۶۳ميں (منع منا الكيل ) كا جملہ اس بات كى حكايت كرتا ہے كہ مصر اور اطراف و نواح مصر ميں قحط پڑگيا اور كنعان سے برادران يوسف كا آنا اور خوراك كے بارے ميں سوال كرنا اس چيز كو بتاتا ہے كہ وہاں خوراك نہيں تھى _

۲_ حضرت يوسفعليه‌السلام پيداوار و زراعت كے سات سال كے دوران قحط كے زمانے كے ليے غلات كى پيداوار ذخيرہ كرنے ميں مكمل طور پر كا مياب رہے_و جاء اخوة يوسف

۳_ حضرت يوسف(ع) كے زمانے ميں كنعان كى سرزمين، مصر كى حكومت ميں نہيں تھى _و جاء اخوة يوسف

يہ بات بعيد نظر آتى ہے كہ حضرت يوسف نے مصر كے تمام مقامات سے غلات كو جمع كر كے مركز ميں اكھٹا كيا ہو _ كيونكہ ہر علاقے كے غلات كو منتقل كرنا خصوصاً اس زمانے ميں جب حمل و نقل ايك دشوار امر تھا_ لہذا طبيعى چيز يہى تھى كہ غلات كواسى مقام پر جمع كيا جاتا اور اگر كنعان كا علاقہ مصر كى حكومت كے قلمرو ميں ہوتا تو لازمى طور پر وہاں پر بھى ايك انبار بنايا جاتا تا كہ وہاں غلات كو جمع كيا جائے تو اس صورت ميں كنعان كے لوگوں كو مصر آنے كى ضرورت نہيں تھى _

۴_ غلات كى لگا تار كاشتكارى اور اسكى قحطى كے سالوں كے ليے ذخيرہ اندوزى كا منصوبہ صرف مصر كى حكومت كى حدود ميں انجام پايا_و جاء اخوة يوسف

۵_ مصر كى سرزمين حضرت يوسف كى مدبرانہ اور عالمانہ فكر اور دور انديشى سے قحط كے برے انجام سے نجات پاگئي _

و جاء اخوة يوسف

۶_ مصر ميں غلات و خوراك كے انبار و ذخيرہ كرنے كى خبر مصر اور اس كے اطراف كے شہروں تك پھيل گئي_

و جاء اخوة يوسف

۵۳۴

۷_ مصر و كنعان جغرافيائي اعتبار سے ايك ہى علاقے ميں تھے اورايك جيسى آب و ہوا ركھتےتھے_و جاء اخوة يوسف

۸_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانہ ميں قحط كے سات سالوں ميں مصر كے اطراف كے لوگ اپنے نان و نفقہ كے ليے مركز، مصر كى طرف رجوع كرتے تھے_و جاء اخوة يوسف و لما جهزهم بجهازهم

۹_ سوائے بنيامين كے حضرت يوسفعليه‌السلام كے بھائي كنعان سے مصر خورا ك مہيّا كرنے كى خاطر حضرت يوسفعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوئے_و جاء اخوة يوسف فدخلوا عليه

بعد والى آيت (ائتونى باخ لكم ) اپنے پدرى بھائي كو ميرے پاس لاؤ) يہ بتانا چاہتى ہے كہ يہاں ( اخوة ) سے مراد ،برادران يوسف ہيں اور بنيامين ان ميں نہيں تھا_ اوربعد والى آيت ( و لما جہزہم ...) كا جملہ يہ بتانا چاہتا ہے كہ ان كا مصر ميں آنے كا كيا مقصد تھا_

۱۰_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں كو ديكھتے ہى پہچان ليا حالانكہ كئي سال گذر چكے تھے_فدخلوا عليه فعرفهم

(فاء) جو ( فعرفہم ) ميں ہے اس بات كى حكايت كرتى ہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بغير كسى سوال و جواب اور چھان بين كے جونہى بھائيوں كو ديكھا تو انہيں پہچان ليا_

۱۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام سے لوگوں كى ملاقات حتى ان كيلئے جو مصر كے نہيں تھے بہت سہل و آسان تھي_

و جاء اخوة يوسف فدخلوا عليه

(فاء) جو (فدخلوا عليہ) ميں ہے اس بات كو بيان كرتى ہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام اور ان كے بھائيوں كے آنے كے بعد ان كى ملاقات ميں كوئي فاصلہ نہيں تھا اور (عرفہم ) كا جملہ بھى اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ كوئي نگہبان بھى نہيں تھا جو ملاقات كرنے والوں كے حسب و نسب كے بارے ميں سوال كرے اور حضرت يوسفعليه‌السلام كو اس كے بارے ميں خبر دے اور ان سے ملاقات كرنے كى اجازت طلب كرے اس سے يہ واضح ہوتا ہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام سے ملاقات كرنا آسان تھى حتى كہ ان لوگوں كے ليے بھى جو مصر كے رہنے والے نہيں تھے_

۱۲_ حكومت كے عہدہ داروں كو ايسا قانون بنانا چاہيے كہ لوگوں كى ان سے ملاقات آسانى سے ہو سكے_

و جاء اخوة يوسف فدخلوا عليه فعرفهم

۱۳_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى بھائيوں سے ملاقات كرنے كے دوران كسى نے بھى انہيں نہيں پہچانا_

فدخلوا عليه فعرفهم و هم له منكرون

۵۳۵

۱۴_ مصر كے عام لوگ، حضرت يوسفعليه‌السلام كا حسب و نسب نہيں جانتے تھے _فعرفهم و هم له منكرون

اگر مصر كے عام لوگوں كے درميان حضرت يوسفعليه‌السلام كا حسب و نسب اورقبيلہ و قوم واضح ہوتى تو يہ فطرى بات ہے كہ حضرت كے بھائيوں كے كانوں تك يہ بات پہنچ جاتى اور حضرت يوسف(ع) ان كے ليے ناشناختہ نہ رہ جاتے_

۱۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى اپنے بھائيوں كے ساتھ آخرى ملاقات اور بھائيوں كى اس ملاقات كے ما بين كم از كم بيس سال كا فاصلہ تھا_يرتع و يلعب و لمّا بلغ اشدّه فلبث فى السجن بضع سنين تزرعون سبع و جاء اخوة يوسف

اگر حضرت يوسفعليه‌السلام كى مصر ميں زندگى كى تحقيق جائے تو تقريباً ۲۰ بيس سال كاعرصہ معلوم ہوتا ہے كيونكہ بچپن كا زمانہ دس سال كا تھاجب قافلے والوں كے ہاتھ لگے_ اور جملہ ( يرتع و يلعب ...) اور ( اخاف ان ياكلہ الذئب) بھى اس بات پر دلالت كرتا ہے اور زليخا ہى كے گھرميں جوانى اور بلوغ كى عمر ميں پہنچے تھے ( لما بلغ اشدّة) اوريہ فاصلہ آٹھ سے دس سال كا ہوتا ہے اور (بضع سنين ) كا جملہ بتاتا ہے كہ تين سال سے كچھ زيادہ زندان ميں رہے اور زندان سے رہائي كے بعد سات سال تك وزارت كے عہدہ پر فائز رہے اور يہ فطرى و طبيعى بات ہے كہ قحط كے ايك سال بعد ہى حضرت سے بھائيوں كى ملاقات ہوئي تقريبا يہ فاصلہ بيس سال كا عرصہ بنتا ہے_

۱۶_عن ابى جعفر(عليه السلام) '' فعرفهم يوسف و لم يعرفه اخوته لهيبة الملك و عزّتة ...'' (۱)

امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپ(ع) فرماتے ہيں حضرت نے اپنے بھائيوں كو پہچان ليا ليكن ان كے بھائيوں نے ان كى شاہى ھيبت و عظمت و جلال كى وجہ سے انہيں نہيں پہچانا_

برادران يوسف :برادران يوسف اور حضرت يوسفعليه‌السلام ۹، ۱۶; برادران يوسف كى حضرت يوسفعليه‌السلام سے ملاقات ۱۰، ۱۳;برادران يوسف كے سفركرنے كا مقصد ۹

حكام :حكام سے لوگوں كى ملاقات ۱۲;حكام سے ملاقات كى سہولت ۱۲; حكام كى ذمہ دارى ۱۲

روايت: ۱۶

____________________

۱ )تفسير عياشى ، ج ۲ ، ص ۱۸۱، ح ۴۲; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۲۳۸، ح ۱۱۲_

۵۳۶

سرزمين :سرزمين كنعان حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں ۳; سرزمين كنعان كى آب و ہوا ۷;سرزمين كنعان كى جغرافيائي موقعيت ۷; سرزمين كنعان ميں قحط ۱

قديمى مصر :قديمى مصر حضرت يوسف كے زمانہ ميں ۸; قديمى مصر كى آب و ہوا ۷;قديمى مصر كى تاريخ ۴، ۵، ۶، ۸;قديمى مصر كى جغرافيائي حالت ۷; قديمى مصر كى حكومت كى حدود ۳;قديمى مصر كى قحط سے نجات ۵;قديمى مصر كى مركزيت ۸;قديمى مصر ميں زراعت ۴; قديمى مصر ميں غلات كو انبار كرنا ۴، ۶; قديمى مصر ميں قحط ۱، ۴

قديم مصر كے لوگ:قديم مصر كے لوگ اور حضرت يوسفعليه‌السلام كے اسلاف ۱۴

مصر كا بادشاہ :بادشاہ مصر كے خواب كى تعبير ۱

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام اور ان كے بھائي ۱۶; حضرت يوسفعليه‌السلام اور غلات كو انبار كرنا ۲;حضرت يوسف سے ملاقات كى سہولت ۱۱;حضرت يوسفعليه‌السلام كا شناخت كرنا ۱۶;حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۲، ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۳، ۱۵، ۱۶;حضرت يوسف كا كامياب ہونا ۲;حضرت يوسفعليه‌السلام كى پيشگوئي ۱;حضرت يوسف كى جدائي كى مدت ۱۵;حضرت يوسفعليه‌السلام كى دور انديشى كے آثار ۵; حضرت يوسفعليه‌السلام كے خوابوں كى تعبير كا صحيح ہونا ۱;حضرت يوسفعليه‌السلام كے عظمت و جلالت ۱۶

آیت ۵۹

( وَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ قَالَ ائْتُونِي بِأَخٍ لَّكُم مِّنْ أَبِيكُمْ أَلاَ تَرَوْنَ أَنِّي أُوفِي الْكَيْلَ وَأَنَاْ خَيْرُ الْمُنزِلِينَ )

پھر جب ان كا سامان كرديا تو ان سے كہا كہ تمھارا ايك ۳_ بھائي اور بھى ہے اسے بھى لے آئو كيا تم نہيں ديكھتے ہو كہ ميں سامان كى ناپ تول بھى برابر ركھتا ہوں اور مہمان نوازى بھى كرنے والا ہوں (۵۹)

۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام ،مصر ميں جمع كئے ہوئے غلات كي تقسيم پر خود نظارت كرتے تھے_

و جاء اخوة يوسف و لما جهزهم بجهازهم

۲_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں كى خوراك كے سامان اور غذائي مواد كو خود مرتب كيا_و لما جهزهم بجهازهم

(تجہيز) (جہز)كا مصدر ہے جومہيا كرنے اور آمادہ كرنے كے معنى ميں آتا ہے_ (جہاز) زاد و توشہ ہے(جہز) ميں فاعل كى ضمير حضرت يوسفعليه‌السلام كى طرف لوٹتى ہے

۵۳۷

پس جملہ(لما جہزہم ) كا معنى يہ ہوا كہ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں كے ساز و سامان اور زاد و توشہ كو آمادہ كيا _ البتہ يہ بھى احتمال ديا جاسكتا ہے كہ (جہز) كى ضمير حضرت يوسفعليه‌السلام كى طرف مجازاہو اس ليے كہ اكثر اوقات ايسا ہى ہوتا ہے كہ كام كرنے والوں كے كام كو كام كرانے اور حكم دينے والے كى طرف نسبت دى جاتى ہے_

۳_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے جب حضرت يوسفعليه‌السلام كے سامنے اپنى شناخت كرا رہے تھے اور اپنى تعداد كا بھى ذكر كيا تو ان كے سامنے انہوں نے اس بات كا بھى ذكر كيا كہ ايك ہمارا پدرى بھائي بھى ہے_

قال ائتونى بأخ لكم من ابيكم

۴_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے بھائي جب پہلى بار خورد و خوراك كے ليے حضرت يوسف(ع) كى خدمت ميں حاضر ہوئے تو ان كے ساتھ بنيامين نہيں تھے_قال ائتونى بأخ لكم من ابيكم

۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں نے اس حكم كى پابندى كرنے پر خود كو آمادہ كيا كہ اگلے سفر ميں بنيامين كو اپنے ہمراہ لائيں گے_قال ائتونى بأخ لكم من ابيكم

۶_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے افراد كى معين شدہ خوراك كو عادلانہ طور پر بغير كسى كمى كے دے ديا_الا ترون انى اوفى الكيل

(كيل) (تولنا) يہ مصدر ہے ليكن آيت شريفہ ميں اسم مفعول (مكيل) كے معنى ميں آيا ہے اور اس سے مراد،خوراك اور غلات ہيں _(ايفاء) ''اوفي'' كا مصدر ہے جسكا معنى كامل طور پر بغير كسى كمى و زيادى كے ادا كرنے كے ہے _(اوفى ) فعل مضارع كا فعل ماضى (وفيت) كى جگہ پر لانے كا مقصد يہ ہے كہحضرت يوسف(ع) ہميشہ تولنے ميں عادلانہ روش ركھتے تھے_

۷_ حضرت يوسفعليه‌السلام مہمانوں اور ان لوگوں كو جو خورد و خوراك اور اپنى معين شدہ خوراك حاصل كرنے كے ليے ان كى خدمت ميں حاضر ہوتے ان كى اچھى طرح سے مہمان نوازى كرتے تھے_الا ترون انا خير المنزلين

(نزول) طعام يا اس طرح كى چيزيں جو مہمانوں كے ليے مہيا كى جاتى ہيں كو كہا جاتا ہے اور (نزيل) مہمان كے معنى ميں ہے _(منزلين) اس آيت شريفہ ميں اسى سے ليا گيا ہے _ جو ميزبانوں اور مہمان نوازوں كے معنى ميں استعمال ہوا ہے _

۵۳۸

۸_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بھائيوں سے نيكى كى اور ان كے خورد و خوراك كے حصے كو كامل طور پر ادا كيا _

الا ترون انّى اوفى الكيل و انا خير المنزلين

۹_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں كو اپنى عدالت اور مہمانوں سے نيك سلوك كى طرف توجہ مبذول كرا كر انہيں بنيامين كو لانے كى ترغيب دلائي _ائتونى بأخ لكم من ابيكم الا ترون انى اوفى الكيل و انا خير المنزلين

(الا ترون ) كا جملہ ( كيا تم اس بات كى طرف متوجہ نہيں ہوتے ) جو ( ائتونى بأخ لكم ) كے بعد ذكر ہوا ہے حضرت يوسفعليه‌السلام كے مقصد كو بيان كرتا ہے جو بنيامين كو لانے كى ترغيب كى طرف اشارہ كرتا ہےكہ انہوں نے اپنے بھائيوں كو اپنى مہمان نوازى اور معاملہ ميں عادلانہ رويہ كو ذكركركے بيان كيا ہے_

۱۰_ بحرانى حالات اور اشياء كى كمى كى صورت ميں عدالت كرنا ،ايك نيك اور قابل قدر بات ہے _الا ترون انى اوفى الكيل

آيت شريفہ ۶۲ (اجعلوا بضاعتہم ) سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت يوسف ،(ع) افراد كے حصے كو اسكى قيمت كے مقابلے ميں ادا كرتے تھے اسى وجہ سے اسكو معاملے اور كا ر و بار سے ياد كيا گيا ہے _

۱۱_ مہمان نوازى ،اچھى اور قابل قدرخصلت اورعادت ہے_الا ترون انا خير المنزلين

۱۲_ حضرت يوسف(ع) نے اپنے بھائيوں كو يہ وعدہ ديا كہ اگر وہ بعد والے سفر ميں بنيامين كو ساتھ لائيں گے تو پھربھى انكى اچھى خدمت كى جائے گى _الا ترون اناخير المنزلين

اقتصاد :اقتصادى بحران ميں عدالت كرنا ۱۰

برادران يوسف(ع) :برادران يوسفعليه‌السلام اور حضرت يوسفعليه‌السلام ۳;برادران يوسفعليه‌السلام كا پہلا سفر ۴; برادران يوسف(ع) كا مال تجارت ۲;برادران يوسف(ع) كو وعدہ ۱۲; برادران يوسف(ع) كى تشويق كرنا ۹; برادران يوسف(ع) كى حضرت يوسفعليه‌السلام سے ملاقات ۵

بنيامين :بنيامين كا مصر سفر كرنا ۵;بنيامين كو لانے كى تشويق ۹

تجارت :تجارت ميں عدالت ۱۰

صفات :پسنديدہ صفات ۱۱

عمل:

۵۳۹

پسنديدہ عمل ۱۰

قابل قدر چيزيں :۱۱

مہمان نوازى :مہمان نوازى كى قدر و منزلت ۱۱

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسف(ع) اور ان كے بھائي ۲، ۸; حضرت يوسف(ع) اور بنيامين سے ملاقات ۹، ۱۲; حضرت يوسف(ع) اور غلات كى تقسيم ۱;حضرت يوسف(ع) كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، ۶، ۸، ۹، ۱۲; حضرت يوسف(ع) كى تشويقات ۹; حضرت يوسف(ع) كى عدالت ۶، ۸، ۹;حضرت يوسف(ع) كى مہمان نوازى ۷، ۸، ۹، ۱۲; حضرت يوسف(ع) كى نظارت ۱;حضرت يوسف(ع) كے فضائل ۶،۷،۸;حضرت يوسف(ع) كے وعدے ۱۲

آیت ۶۰

( فَإِن لَّمْ تَأْتُونِي بِهِ فَلاَ كَيْلَ لَكُمْ عِندِي وَلاَ تَقْرَبُونِ )

اب اگر اسے نے لے آئے تو آئندہ تمھيں بھى غلہ نہ دوں گا اور نہ ميرے پاس آنے پائو گے (۶۰)

۱_ حضرت يوسف(ع) نے قحط كے سالوں ميں لوگوں كى معين شدہ خوراك كو وقت معين ميں متعدد مرتبہ تحويل ميں ديا_

و لما جهزهم بجهازهم فان لم تاتونى به فلا كيل لكم

(كيل) يہاں اسم مفعول (مكيل) كے معنى ہے_ جو طعام اور غلات كے معنى ميں ہے_ غلّہ كو كيل سے اس وجہ سے تعبير كيا گيا ہے كيونكہ اس كو تحويل ديتے وقت پيمانہ كركے ديتے تھے_اور يہى چيز ان كى راشن بندى پر دلالت كرتى ہے _ اور يہ جملہ ( فان لم تأتونى بہ ...) (يعنى اگر تم بعد والے سفر ميں بنيامين كو ميرے پاس ساتھ نہ لائے) اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ غلّہ كو متعدد بار اور مخصوص زمان بندى ميں تحويل ديا گيا_

۲_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بھائيوں كے ذہن ميں يہ بات ڈال دى كہ خوراك كے بعد والے حصے كو صرف اس صورت ميں دريافت كرسكتے ہو جب تم بنيامين كو ساتھ لاؤ گے_فان لم تأتونى به فلاكيل لكم عندي

۳_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں كو يہ بتاديا كہ اگر دوسرى بار وہ بنيامين كو ساتھ نہ لائے تو ميرے ہاں نہ آئيں _

۵۴۰

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945

946

947

948

949

950

951

952

953

954

955

956

957

958

959

960

961

962

963

964

965

966

967

968

969

970

971