تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 6%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 213192 / ڈاؤنلوڈ: 4480
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۸

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

عسى أن يبعثك ربّك مقاماً محمود''مقاماً محموداً''

كو مطلق ذكر كرنا شائد اس لئے ہو كہ مقام محمود ايسا مقام ہے كہ جو تمام مخلوق كے ليے قابل تعريف ہے_

۱۴_پيغمبر (ص) كو بلند معنوى مقا م كو كسب كرنے كى راہنمائي ان كے لئے الہى ربوبيت كا ايك جلوہ ہے_

فتهجّد به عسى أن يبعثك ربّك مقاماً محمودا

۱۵_پيغمبراكرم(ص) بھى اعلى معنوى مقامات كے كسب كرنے كى راہ ميں مناسب اعمال انجام دينے كے محتاج تھے_

فتهجّد به نافلة لك عسى أن يبعثك ربّك مقاماً محمودا

۱۶_مقامات معنوى كے درميان ''مقام محمود'' عظيم اور بلند مقام ہے_عسى أن يبعثك ربك مقاماً محمودا

اگر چہ پيغمبر اكرم (ص) پہلے ہى سے بہت عظےم مقام ومنزلت پر فائز تھے تو الله تعالى كا يہ فرمانا كہ نماز شب پڑھو تاكہ مقام محمود كو پالو _ مندرجہ بالانكتہ سے حكايت كر رہا ہے_

۱۷_پيغمبراكرم (ص) كا روز قيامت قابل ستائش مقام سے تجليّ كرنا _عسى أن يبعثك ربك مقاماً محمودا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ احتمال ہے كہ لفظ ''يبعثك'' سے روز قيامت ميں اٹھنے كى طرف اشارہ ہو اور''يبعثك'' كے لئے ''مقاماً '' مصدر ميمى اور مفعول مطلق ہو تو كہ اس صورت ميں آيت كى تركيب يوں ہوگي_''عسى أن يبعثك ربك بعثاً محموداً'' _ الله تعالى تمھيں پسنديدہ انداز سے روز قيامت مبعوث فرمائے گا_

۱۸_عن عمار الساباطى قال: كنا جلوساً عند أبى عبدالله (ع) بمنى فقال له رجل: ما تقول فى النوافل ؟ فقال : فريضة قال : ففزعنا و فزع الرجل ...،فقال : أبوعبدالله (ع) إنما ا عنى صلاة الليل على رسول الله (ص) إن الله يقول : ومن الليل فتهجد به نافلة لك _(۱)

عمار ساباطى روايت كرتے ہيں كہ ہم منى ميں امام صادق (ع) كے قريب بيٹھے ہوئے تھے كہ ايك شخص نے حضرت (ع) سے كہا كہ آپ (ع) نافلہ كے بارے ميں كيا فرماتے ہيں ؟ تو حضرت (ع) نے فرمايا : واجب ہيں _ راوى كہتا ہے كہ ہميں اوراس سائل كو بڑا تعجب ہوا تو حضرت (ع) نے فرمايا : ميرى مراد نماز شب ہے جو كہ رسول الله (ص) پر واجب تھى جيسا كہ پروردگار فرماتا ہے:ومن الليل فتهجد به نافلة لك

۱۹_عن أحدهما قال: فى قوله: عسى أن يبعثك ربك مقاماً محموداً : قال : هى الشفاعة _(۲)

____________________

۱) تہذيب ج ۲، ص ۲۴۲، ح ۲۸، مسلسل ۹۵۹ _ نورالثقلين ج ۳،ص ۲۰۴، ح ۳۸۲_۲) تفسير عياشى ج ۲، ص ۳۱۴، ح ۱۴۸، _ نورالثقلين ج ۳،ص۲۱۱، ح ۴۰۲_

۲۲۱

امام باقر (ع) يا امام صادق(ع) سے الله تعالى كے اس كلام''أن يبعثك ربك مقاماً محموداً'' كے بارے ميں روايت ہوئي ہے كہ انہوں نے فرمايا : يہاں مقام محمود سے مراد شفاعت ہے_

۲۰_قال على بن أبى طالب (ع) : ثم يجتمعون فى موطن آخر يكون فيه مقام محمد (ص) وهو المقام المحمود فيثنى على الله تبارك وتعالى بمالم يثن عليه احد قبله ثم يثنى على الملائكة كلّهم ثم يثنى على الرسل ثم يثنى على كلّ مؤمن ومؤمنة فذلك قوله: عسى أن يبعثك ربك مقاماً محموداً وهذا كلّه قبل الحساب (۱)

حضرت على ابن ابى طالب(ع) فرماتے ہيں : پھر اللہ تعالى (روز قيامت ) لوگوں كو اس جگہ جمع كرے گا كہ مقام محمد (ص) وہاں ہے اور وہ مقام محمود ہے پھر پيغمبر (ص) الله تعالى كى يوں ثناء كريں گے كہ كسى نے پہلے ويسى پروردگار كى ثناء نہ كى ہوگي_ پھر (ترتيب كے ساتھ) تمام ملائكہ انبياء تمام مؤمنين اور مؤمنات پر صلوة بھيجيں گے اور يہ وہى كلام ہے :''عسى أن يبعثك ربك مقاماً محموداً'' اور يہ سب چيزيں حساب لينے سے پہلے ہيں

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) قيامت ميں ۱۷ ، ۲۰;آنحضرت(ص) كا مربى ہونا ۱۴; آنحضرت (ص) كو بشارت ۷; آنحضرت (ص) كى تہجد ۱، ۷; آنحضرت(ص) كى خصوصيات ۲،۱۸; آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ۱، ۲; آنحضرت (ص) كى شفاعت ۱۹;آنحضرت (ص) كى نماز شب ۱، ۲، ۱۸; آنحضرت (ص) كى ہدايت ۴، ۱۴;آنحضرت (ص) كے مقامات اخروى ۱۷،۱۹، ۲۰; آنحضرت (ص) كے مقامات معنوى ۷، ۱۵; آنحضرت (ص) كے واجبات ۲، ۱۸

احكام :۲

الله تعالى :الله تعالى كى امداد كے آثار ۹;اللہ تعالى كى بشارتيں ۷;اللہ تعالى كى توفيقات كے آثار ۹;اللہ تعالى كى ربوبيت كى علامات ۱۴;اللہ تعالى كے ارادہ كے آثار ۱۱;اللہ تعالى كے اوامر ۱

انبياء :انبياء كى ذمہ دارى ۶;انبياء كى عبادات ۶

تہجد:تہجد كا وقت ۱۰;تہجد كى اہميت ۳;تہجد كے آثار ۷، ۸، ۱۱

دينى رہبر:دينى رہبر كى ذمہ دارى ۶;دينى رہبر كى عبادات ۶/ذمہ داري:ذمہ دارى كا پيش خےمہ ۵

روايت : ۱۸، ۱۹، ۲۰/رہبري:رہبرى كے آثار ۵

____________________

۱) توحيد صدوق ص ۲۶۱ح۵،ب ۶۳_ نورالثقلين ج ۳،ص۲۰۶، ح ۳۹۰_

۲۲۲

شب:شب كے فوائد ۱۰

عمل :پسنديدہ عمل كے آثار ۱۲;عمل كے آثار ۱۵

قرآن :قرآن كى تلاوت كى اہميت ۳، ۴

مقامات معنوى :مقامات معنوى كا پيش خيمہ ۱۱، ۱۲، ۱۵; مقامات معنوى كى اہميت ۱۳، ۱۶;مقام محمود جيسے معنوى مقام كى اہميت ۱۶;مقامات معنوى كى بنياد ۹; مقامات معنوى كے اسباب ۸، ۱۳;

نبوت:نبوت كے آثار ۵

نماز :نماز شب كے آثار ۱۳;نماز شب كے احكام ۲;نماز شب ميں قرآن ۴

آیت ۸۰

( وَقُل رَّبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّي مِن لَّدُنكَ سُلْطَاناً نَّصِيراً )

اور يہ كہئے كہ پروردگار مجھے اچھى طرح سے آبادى ميں داخل كر اور بہترين انداز سے باہر نكال اور ميرے لئے ايك طاقت قرار ديدے جو ميرى مددگار ثابت ہو (۸۰)

۱_الله تعالى كى طرف سے پيغمبر-(ص) كو مانگنے اور دعا مناجات كى تعليم كے طريقہ سكھايا جانا _

وقل ربّ أدخلنى مدخل صدق

۲_دعاء ومناجات كے آداب ميں سے پروردگار كى ربوبيت سے تمسك اور اپنے آپ كوخدا كے تحت تربيت مربوب سمجھتا_وقل رب أدخلنى مدخل صدق

۳_الله تعالى كا پيغمبر (ص) كو نماز اور نوافل كے ساتھ دعا ومناجات كا حكم _

ا قم الصلوة فتهجد به نافلة لك وقل رب أدخلنى مدخل صدق

مندرجہ بالا مطلب اس نكتہ كى بنا ء پر ہے كہ ''وقل رب''، ''فتہجد'' پر عطف تھا اور عام كے بعد خاص كا ذكر ،اعمال ميں سے ايك عمل كو بيان كر رہا ہے كہ جسے تہجد اور نماز شب ميں انجام دينا مناسب ہے _

۴_پروردگار كى بارگاہ ميں اپنى حاجات كو زبان پر لانا ،دعا اور مناجات كے آداب ميں سے ہے_

وقل رب أدخلنى مدخل صدق

۵_پيغمبر (ص) كى ذمہ دارى ہے كہ وہ الله تعالى سے ہر عمل كو آغاز سے انجام تك خالص اور سچى نيت كے ساتھ انجام

۲۲۳

دينے كى توفيق طلب كريں _وقل رب أدخلنى مدخل صدق وأخرجنى مخرج صدق

۶_كاموں كو سچائي كے ساتھ شروع كرنااور صحيح طريقہ سے ان سے عہدہ براہونا، الہى امداد كا محتاج ہے_

وقل رب أدخلنى مدخل صدق وأخرجنى مخرج صدق

۷_نوافل اور نماز شب ميں ا للہ تعالى سے كاموں ميں سچائي سے داخل ہونے اور سچائي سے خارج ہونے كى توفيق طلب كرنا ايك پسنديدہ اور مطلوب عمل ہے _ومن الليل فتهجد به نافلة لك وقل رب أدخلنى مدخل صدق وأخرجنى مخرج صدق

۸_اعمال كى قدروقيمت، سچائي' خلوص اور ريا كارى سے پرہيز كى بناء پر ہے_

أدخلنى مدخل صدق وأخرجنى مخرج صدق

۹_الله تعالى سے رات كے نوافل ميں توفيق، خلوص اور كامل صداقت كى درخواست كا ضرورى ہونا _

ومن الليل فتهجد به وقل رب أدخلنى مدخل صدق وأخرجنى مخرج صدق

يہ جو الله تعالى نے پيغمبر (ص) كو تہجد كى نصيحت كے ساتھ ہر كام ميں اپنى بارگاہ سے خلوص كى درخواست كرنے كے ليے كہا ہے_يہ مندرجہ بالا نكتہ كى طرف اشارہ ہو سكتا ہے _

۱۰_انسان كے اعمال ہميشہ اخلاص سے عارى ہونے كے خطرے ميں ہيں _

رب أدخلنى مدخل صدق وأخرجنى مخرج صدق

يہ جو الله تعالى نے اپنے پيغمبر(ص) كو حكم ديا ہے كہ اخلاص اور صداقت كو كسب كرنے كے لئے الله تعالى سے مدد مانگو _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ انسان كے اعمال ہميشہ ريا ميں مبتلا ہونے كے خطرے ميں ہيں _

۱۱_تمام انسان ،حتى كہ پيغمبراكرم (ص) عمل ميں اخلاص وصداقت ركھنے كے لئے الله تعالى كى خصوصى امداد كے محتاج ہيں _وقل رب أدخلنى مدخل صدق وأخرجنى مخرج صدق

۱۲_صداقت او راخلاص كے ساتھ كام كا آغاز اس بات كا ضامن نہيں ہے كہ كام كاانجام بھى صداقت اور اخلاص پر ہوگا_أدخلنى مدخل صدق وأخرجنى مخرج صدق

۱۳_پيغمبر اكرم(ص) كو اپنى رسالت كو كاميابى سے انجام دينے ميں طاقت وتوانائي حاصل كرنے كے لئے الله تعالى كى بارگاہ ميں دعا ومناجات كرنے كا حكم_

۲۲۴

وقل رب ...واجعل لى من لدنك سلطاناً نصيرا

مندرجہ بالا مطلب اس نكتہ كى بنياد پر ہے كہ ''سلطان'' سے مراد حس طرح بعض مفسرين نے كہا قوى اور برتر طاقت ہو_

۱۴_كاموں كے آغاز سے ا نجام تك صداقت اور سچائي ركھنے ميں الہى طاقت وتوانائي كى ضرورت _

أدخلني ...واجعل لى من لدنك سلطاناً نصيرا

۱۵_پيغمبر (ص) كو اپنى رسالت كے كاميابى سے انجام دينے اور منكرين كا مقابلہ كرنے ميں الله تعالى كى بارگاہ سے حجت اور ضرورى دليل مانگنے كا حكم _وقل ...واجعل لى من لدنك سلطاناً نصيرا

۱۶_حق وحقيقت كے منكرين كا مقابلہ كرنے كے ميدان ميں محكم دليل وحجت اور كاميابى حاصل كرنے كى طاقت الله كى امداد كى صورت ميں ہے_واجعل لى من لدنك سلطاناً نصيرا

۱۷_ خداوند عالم نے طاقت اور توانائي كو اصلاح و تعمير كے ليے طلب كرنے كے ليے كيا ہے نہ كہ فساداور تباہى پھيلانے كے ليے_واجعل لى من لدنك سلطاناً نصيرا

''لي'' ميں لام انتفاع ہے اور اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ ہر قدرت انسان كے فائدہ كے لئے نہيں ہے _ پس اس قوت كى درخواست كرناچاہئے كہ جس سے مصالح بشر پورے ہوں _

۱۸_الله تعالى كے اہداف كو عملى جامعہ پہنانے كے لئے حصول توانائي اور طلب قدرت الله كى رضا اور پسند كے مطابق ہے_واجعل لى من لدنك سلطاناً نصيرا

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كا معلم ہونا ۱;آحضرت (ص) كو دعا كى تعليم ۱;آنحضرت (ص) كى دعا ۵; آنحضرت(ص) كى ذمہ دارى ۱۵; آنحضرت(ص) كى رسالت ۱۳; آنحضرت (ص) كى شرعى ذمہ داري۳، ۵، ۱۳;آنحضرت (ص) كى ضرورتيں ۱۱، ۱۵/اخلاص:اخلاص كى اہميت۵;اخلاص كى بنياد ۱۱; اخلاص كے آثار ۸;اخلاص كى درخواست ۵، ۹

الله تعالى :الله تعالى سے حجت كى درخواست ۱۵;اللہ تعالى كى امداد كے آثار ۱۶;اللہ تعالى كے اوامر ۳، ۱۷;اللہ تعالى كى تعليمات ۱;اللہ تعالى كى ربوبيت سے تمسك ۲

امداد طلب كرنا:الله تعالى سے امداد طلب كرنے كى اہميت ۶

انسان:انسان كى خطائيں ۱۰;انسان كا مربى ہونا ۲ ; انسان كى معنوى ضروريات ۱۱، ۱۴

اقدار:اقدار كا معيار ۸

۲۲۵

حق :حق كوجھٹلانے والوں پر كاميابى كى اساس ۱۶

دعا :دعا كى اہميت ۳;دعا كے آداب ۲، ۴;اللہ كے حكم پر عمل كرنے كے لئے دعا ۱۳;دعا ميں حاجت كا بيان ۴

ريا:رياكارى كا خطرہ ۱۰

صداقت :صداقت كا پيش خيمہ ۶;صدات كى اہميت ۵، ۷ ;صداقت كى بنياد۱۱;صداقت كى درخواست ۵،۷، ۹;صداقت كے آثار ۸

ضروريات :الله تعالى كى امدادوں كى ضرورت ۶، ۱۱، ۱۴

عمل:پسنديدہ عمل۷; عمل كا آغاز ۵، ۶، ۷; عمل كا انجام ۵،۶ ،۷; عمل كى قيمت كا معيار۸;عمل كے آغاز ميں اخلاص ۱۲; عمل كے اخلاص عوامل ۱۴; عمل كے انجام ميں اخلاص ۱۲;عمل كے انجام ميں صداقت۱۲; عمل ميں اخلاص ۵، ۸، ۱۱;عمل كے آغاز ميں صداقت ۱۲;عمل ميں رياكارى ۱۰; عمل ميں صداقت كے عوامل۱۴

قدرت:پسنديدہ قدرت كى درخواست ۱۷، ۱۸; قدرت كى اساس ۱۶;قدرت كى درخواست ۱۳

نماز:نافلہ نمازميں دعا ۳;نماز شب ميں دعا ۷، ۹ ; نماز شب كے آداب ۹; نماز كے آداب ۳; نماز ميں دعا ۳

آیت ۸۱

( وَقُلْ جَاء الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقاً )

اور كہہ ديجئے كہ حق آگيا اور باطل فنا ہوگيا كہ باطل بہرحال فنا ہونے والا ہے (۸۱)

۱_اللہ تعالى كا پيغمبر (ص) كو مشركين مكہ كے لئے حق كے يقينى غلبہ اور باطل كے يقينى نابود ہونے كے اعلان كا حكم دينا _

وقل جاء الحق وزهق الباطل

۲_دين اسلام اور پيغمبر (ص) كى راہ حق ہے_ اس كے علاوہ ہر راستہ باطل اور نابود ہونے والا ہے_

وقل جاء الحق وزهق الباطل

جيسا كہ مفسرين نے بھى كہا ہے كہ يہ سورہ مكى ہے تو يہاں احتمال ہے كہ حق سے مراد دين اسلام اور شريعت محمدى (ص) ہے جبكہ باطل سے مراد اس زمانہ ميں اس كے مد مقابل عقائد ہيں _

۳_باطل كا خاتمہ اور نابودى تنہا حق كے ظہور اور ميدان ميں انے سے ہى ممكن ہے_وقل جاء الحق وزهق الباطل

۲۲۶

احتمال ہے كہ''جاء الحق'' كا''زهق الباطل'' پر مقدم ہونا اس حوالے سے ہو كہ حق كو ميدان ميں لانے سے باطل كو ختم كردينا چايئےاور يہ جملہ''إن الباطل كان زهوقا'' ( كہ باطل طبيعى طور پر نابود ہونے والا ہے) اسى مندرجہ بالا مطلب كى تائيد ميں ہے_

۴_حق كا تعارف اور حقيقى اقدار پيش كرنا مخالف قوتوں اور باطل مذاہب سے اعلان جنگ ہے_

وقل جاء الحق وزهق الباطل

''جاء الحق'' كو مقدم كرنے سے معلوم ہوتا ہے كہ حق كے ظہور كرنے كى صورت ميں باطل كا رنگ پھيكا پڑجاتا ہے اور اگر درست اور حق راستہ پيش نہ كيا جائے تو باطل اسى طرح ميدان ميں ڈٹا رہے گا_

۵_نابودى اور ناپائدارى ،باطل كى حقيقت وطبيعت ميں پوشيدہ _إن الباطل كان زهوقا

۶_باطل كا پائدار نہ ہونا اور شكست كھاجانا راہ حق كے ظہور كے وقت اور ميدان جنگ ميں آنے كے بعد يقينى فتح كى دليل و علامت ہے_جاء الحق وزهق الباطل إن الباطل كان زهوقا

يہ كہ الله تعالى نے پايدار نہ ہونا اور شكست كھا جانا باطل كى ذات كا حصہ شمار كيا _''إن الباطل كان زهوقا'' اس سے معلوم ہوا كہ اسى پايدارى كا نہ ہونا حق كى فتح پر دليل ہے_

۷_حق كى باطل پر يقينى كاميابى كا اعلان مؤمنين كے لئے اميد كا سرمايہ اور مشركوں اوراہل باطل كے لئے مايوسى كا سبب ہے_وقل جاء الحق وزهق الباطل إن الباطل كان زهوقا

كفار كى پيغمبر (ص) كو مكہ سے نكالنے كى كوششوں كے بعد باطل كى يقينى شكست كا اعلان مؤمنين كى اساس كو روحانى طور پر مضبوط كرنے اور مشركين كے دل ميں مايوسى ڈالنے كا موجب بن سكتا ہے_

۸_باطل مكتب كے پائدار نہ ہونے اور شكست كھانے كا اعلان اور تبليغ لوگوں كو اس طرف بڑھنے سے روكنے اور اس كا مقابلہ كرنے كى كوشش كے لئے ايك طريقہ ہے_وقل جاء الحق وزهق الباطل إن الباطل كان زهوقا

باطل كى يقينى شكست كى وجہ يہ ہے كہ وہ ذاتى طور پر شكست كھانے والاہے' شايد مندرجہ بالا مطلب اسى حوالے سے ہو_

آنحضرت (ص) :آنحضرت(ص) كى رسالت ۱

۲۲۷

اسلام :اسلام كى حقانيت ۲

اقدار:اقدار كى شناخت كے آثار ۴;اقدار كے مخالفوں سے جنگ كا طريقہ ۴

الله :الله كے اوامر ۱

باطل :باطل سے جنگ كا طريقہ ۴، ۸;باطل كا زوال ۲، ۵;باطل كى حقيقت ۵;باطل كى شكست كا اعلان ۱، ۸;باطل كى شكست كى تبليغ ۸;باطل كى شكست كے اعلان كے آثار ۷;باطل كے زوال كا يقينى ہونا ۱;باطل كے زوال كے آثار ۶;باطل كے زوال كے اسباب۳

حق:حق كا معيار ۲;حق كى شناخت كے آثار ۴; حق كى فتح كا اعلان ۱;حق كى فتح كا يقينى ہونا ۱;حق كى فتح كے اعلان كے آثار۷;حق كى فتح كے دلائل ۶;حق كے ظہور كے آثار ۳

مشركين :مشركين كى مايوسى كے اسباب ۷

مؤمنين :مؤمنين كے اميدركھنے كے اسباب ۷

آیت ۸۲

( وَنُنَزِّلُ مِنَ القرآن مَا هُوَ شِفَاء وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ وَلاَ يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إَلاَّ خَسَاراً )

اور ہم قرآن ميں وہ سب كچھ نازل كر رہے ہيں جو صاحبان ايمان كے لئے شفا اور رحمت ہے اور ظالمين كے لئے خسارہ ميں اضافہ كے علاوہ كچھ نہ ہوگا (۸۲)

۱_الله تعالى كى طرف سے قرآنى آيات كانزول ،جلوہ حق اور باطل كى نابودى كا سبب ہے_

وقل جاء الحق وزهق الباطل وننزل من القرآن

حق كى فتح اور باطل كى شكست كے اعلان كے بعد''ننزول من القرآن'' كا ذكر ممكن ہے مندرجہ بالا نكتہ بناء پر ہو_

۲_الله تعالى كى طرف سے قرآنى آيات كا نزول انسانوں كى روحى اور فكرى بيماريوں كو شفا بخشنے كے لئے ہے_

وننزّل من القرآن ما هو شفاء ورحمة

۲۲۸

يہ كہ قرآن كتاب ہدايت ہے اور اس ميں معنويت كا عنصر غالب ہے تو اس كا شفاء ہونا فكرى اور روحى مشكلات كو رفع كرنے كا باعث ہوسكتا ہے_

۳_قرآنى آيات كے تدريجى نزول كا انسانوں كى بيماريوں كے دور كرنے ميں كردار _

وننزل من القرآن ماهو شفاء ورحمة بعض اہل لغت كا يہ نظريہ ہے كہ باب تفعيل ميں مادہ ''نزل'' سے مراد نزول تدريجى ہے_پس قران كے تدريجى نزول كا ذكر اور اس كے ہدف شفاء كا ذكر مندرجہ بالا مطلب حقيقت كو بيان كر رہاہے _

۴_قرآن، انسانوں ميں پائي جانے والى ہر بيمارى كے لئے شفاء ہے _وننزل من القرآن ما هو شفائ

۵_انسان، وحى كى ہدايت كے بغير ايك طرح كى فكري، روحى اور اخلاقى بيمارى ميں مبتلا ہے_

وننزّل من القرآن ما هو شفاء ورحمة يہ كہ قرآن مجيد كے نزول كو شفاء دينے كے عنوان سے تعارف كروايا گيا ہے يہ حكايت كررہا ہے كہ وحى كے بغير انسان روحانى لاعلاج امراض ميں مبتلاء ہے_

۶_قرآنى آيات، الله تعالى كى طرف سے اہل ايمان كے لئے بہت بڑى رحمت ہيں _وننزلّ رحمة للمو منين

۷_فقط اہل ايمان اور حق قبول كرنے والے قرآنى شفا اور رحمت كے حامل ہيں _

وننزل من القرآن ما هو شفاء ورحمة للمؤمنين

۸_روحى ، فكرى اور اخلاقى بيماريوں كے لئے قرآنى شفا، رحمت، شفقت اور مہربانى كے ساتھ ہے_

وننزل من القرآن ما هو شفاء ورحمة للمؤمنين

قرآن كے لئے دونوں صفات ''شفائ'' اور ''رحمت '' كا با ہمى ذكر ممكن ہے ' مندرجہ بالا معنى كے لئے ہو _

۹_مؤمنين ميں بعض فكرى ، روحى اور اخلاقى بيماريوں كا پيدا ہونا اور انہيں كى قرآنى علاج كى ضرورت _

وننزل من القرآن ما هو شفاء ورحمة للمؤمنين

۱۰_ظالم، نہ صرف قرآنى رحمت اور شفاء سے كچھ حاصل نہيں كرسكتے بلكہ وہ ان كے لئے محض خسارہ اور نقصان ہے_

ولا يزيد الظلمين الا خسارا

۱۱_حق كے منكر كفار ،ظالم ہيں اور قرآنى رحمت اور شفا جيسى نعمت ان كے لئے خسارت اور نقصان ميں اضافہ كا موجب ہے_شفاء ورحمة للمؤمنين ولا يزيد الظلمين الاخسارا

مندرجہ بالا نكتہ كى اساس يہ ہے كہ ''ظالمين'' سے مراد ''مؤمنين '' كے مقابلہ كے قرينہ سے كفار ہو _

۲۲۹

۱۲_قرانى ہدايت سے فائدہ لينے يا محروم ہونے ميں انسانوں كا اپنا اصلى كردار ہے_

من القرآن ما هو شفاء ورحمة للمؤمنين ولا يزيد الظالمين الاّ خسارا

''مؤمنين'' اور ''ظالمين'' كى صفت علت اور سبب بيان كرنے كے لئے ہے يعنى مؤمنين ميں حق قبول كرنے كا جذبہ قرآنى رحمت وشفاء سے فائدہ لينے كا باعث ہے جبكہ ظالموں ميں حق قبول نہ كرنے كى خصلت قرآن سے محروميت كا سبب ہے_

۱۳_عن أبى عبدالله (ع) : إنما الشفاء فى علم القرآن لقوله: ''وننزل من القرآن ما هو شفاء ورحمة للمؤمنين'' _(۱)

امام صادق (ع) سے روايت ہوئي ہے كہ بلا شبہ شفائ، علم قرآن ميں ہے _ كيونكہ الله تعالى فرماتا ہے:''وننزل من القرآن ما هو شفاء ورحمة للمؤمنين ''

۱۴_قال أبوعبدالله (ع) : ما اشتكى ا حد من المؤمنين شكاية قطّ وقال إيخلاص نية ومسح موضع العلة ويقول :''وننزل من القرآن '' الاّ عوفى من تلك العلة أيّة علة كانت (۱)

امام صادق (ع) سے روايت ہوئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا :بيمارے نہ ہونے والا مؤمن كى بيمارى والى جگہ پر ہاتھ پھيرتے ہوئے خالص نيت سے كہے: ''و ننزل من القرآن '' مگريہ كہ بيمارى سے شفاياب ہوجائے گا_

انحراف :انحراف اخلاقى كا پيش خيمہ ۵;انحراف فكرى كا پيش خيمہ ۵;انحراف فكرى كے موانع

انسان:انسانوں كا كردار ۱۲/باطل :باطل كى شكست كے اسباب ۱

بيماري:بيمارى كے علاج كے اسباب ۳، ۴، ۹;روحى بيمارى كا پيش خيمہ ۵;روحى بيمارى كا علاج ۹;روحى بيمارى كى شفا ۸

حق:حق قبول كرنے والوں پر رحمت ۷;حق قبول كرنے والوں كى شفا ۷;حق قبول كرنے والوں كے فضائل ۷;حق قبول نہ كرنے والوں كا ظلم ۱۱;حق قبول نہ كرنے والوں كے نقصان كے اسباب ۱۱;حق كى علامات ۱

روايت : ۱۳، ۱۴/ظالم لوگ : ۱۱/ظالموں كے نقصان كے اسباب ۱۰

قرآن:قرآن سے محروميت كا پيش خيمہ ۱۲;قرآن كا شفا دينا۲،۳، ۴، ۷، ۹،۱۱; قرآن كا كردار ۴، ۱۰;قرآن كى رحمت ۶;قرآن كى رحمت سے محروميت ۱۰، ۱۱;قرآن كى رحمت كے شامل حال ۷;قرآن كے تدريجى نزول كے آثار ۳;

____________________

۱) نورالثقلين ج ۳، ص ۲۱۳، ح ۴۱۵ _ بحارالانوار ج ۹۲، ص ۵۴، ح ۱۸_

۲۳۰

قرآن كے شفا دينے ميں رحمت ۸; قرآن كے شفا دينے كى خصوصيات ۸; قرآن كے شفا دينے ميں مہربانى ۸; قرآن كے نزول كے آثار ۱;قرآن كے نزول كے روحى آثار ۲;قرآن كے ہدايت دينے كا پيش خيمہ ۱۲

كفار :كفار كا ظلم ۱۱;كفار كے نقصان كے اسباب ۱۱

مؤمنين :مؤمنين پر رحمت ۶، ۷;مؤمنين كى روحانى بيمارى كا علاج ۹;مؤمنين كى شفا ۷;:مؤمنين كى معنوى ضروريات ۹;مؤمنين كے فضائل ۷

وحى :وحى كا ہدايت دينا ۵

آیت ۸۳

( وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الإِنسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَى بِجَانِبِهِ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ يَؤُوساً )

اور ہم جب انسان پر كوئي نعمت نازل كرتے ہيں تو وہ پہلو بچا كر كنارہ كش ہوجاتا ہے اور جب تكليف ہوتى ہے تو مايوس ہوجاتا ہے (۸۳)

۱_انسان آسائش اور الہى نعمات كو پانے كے بعدناشكرى اور خدا سے دورى كى طرف مائل ہوجاتا ہے_

وإذا أنعمنا على الإنسان ا عرض ونا بجانبه

''نا '' سے مراد''بعد'' يعنى دور ہونا ہے اور ''أعرض ونا بجانبہ''(يعنى منہ پھيرا اور كنارے ہوگيا) ناشكرى اور الله تعالى سے دورى كا كنايہ ہے_

۲_مادى وسائل اور الله كى نعمات كو پانے كے بعد مغروررانہ احساسات كا پيدا ہونا ناقابل نفرت اوراللہ تعالى كى طرف سے مذموم ہے_وإذا أنعمنا على الإنسان ا عرض ونا بجانبه

۳_آسائش اور نعمتوں كو پانے كے بعد انسان، حق قبول نہ كرنے والى بيمارى كے خطرے ميں ہے _

وإذا أنعمنا على الإنسان ا عرض ونا بجانبه

۴_قرآن، الله تعالى كى انسان كے لئے واضح ترين نعمتوں ميں سے ہے_

وننزل من القرآن وإذا أنعمنا على الإنسان ا عرض

نعمت كے مصاديق ميں سے ايك مصداق، پچھلى آيت (وننزل من القرآن) كے قرينہ سے ، قرآن بھى ہے _

۵_نعتموں كے حصول كا تقاضا ہے كہ انسان نعمتوں كے خالق كى طرف توجہ پيدا كرے اور اس كا شكر يہ و حمد بجالے

۲۳۱

لائے نہ كہ اس سے منہ موڑ لے_وإذا أنعمنا على الإنسان ا عرض ونا بجانبه

نعمتوں كو حاصل كرنے والے انسان كے حالات كو مذمت كے انداز سے بيان كرنا، ايك حكايت نہيں ہے بلكہ انسانوں كو منعم كے حق ادا كرنے كى ترغيب ہے_

۶_انسان، معمولى سى مصيبت اور ناگوارى كا سامنا كرنے سے شديد مايوسى اور بے چارگى كا شكار ہوجاتا ہے_

وإذا مسّه الشرّ كان يو س ''مسّه الشرّ'' (يعنى مصيبت اسے چھوئے) كے ذريعے اس كے مصيبت ميں مبتلا ہونے كى تعبير معمولى سى ناگوارى كو بيان كر رہى ہے _

۷_ آسائش كے وقت خدا كى ناشكرى كرنے والے جب سختيوں كا سامنا كرتے ہيں تو ان ميں ضعف اوور ناتوانى زيادہ ہو جاتى ہے_وإذا أنعمنا على الإنسان ا عرض ونا بجانبه وإذا مسّه الشرّكان يو سا

۸_آسائش كى حالت ميں الله سے دورى اور مصيبتوں كے آنے ميں مايوس ہونا، قرآنى ہدايت سے محروم لوگوں كى بيمارى ہے_وننزّل شفاء ورحمة للمؤمنين ولا يزيد الظلمين الاّ خساراً_ وإذا أنعمنا على الإنسان كا ن يو سا

۹_الله تعالى ،انسانوں كو صرف خير ونعمت عطا كرتا ہے_إذا أنعمنا على الإنسان وإذا مسّه الشرّ

يہ كہ اس آيت ميں الله تعالى كو نعمتيں دينے والا بتايا گيا جبكہ مصيبتوں كى نسبت اس كى طرف نہيں دى گئي_ اس سے مندرجہ بالا نكتہ حاصل ہوتا ہے_

۱۰_انسان كى مذموم ' ناپسنديدہ خصلتوں كہ جن كى الله نے مذمت كى ہے ان ميں سے ايك اس كا مايوس ہونا ہے_

وإذا مسّه الشرّ كان يو سا

۱۱_انسان سے نعمت كا سلب ہونا، مصيبت اور اس كى مايوسى كا باعث ہے_وإذا أنعمنا على الإنسان وإذا مسّه الشرّ ''مسّہ الشرّ'' كا ''أنعمنا '' كے مقابل ميں آنے كے قرينہ سے احتمال پيدا ہوتا ہے كہ انسان كا سختى سے دوچار ہوناگويا اس كا نعمات كو كھو دينا ہے_

آسائش:آسائش كے آثار ۱، ۲، ۳;آسائش ميں الله سے دورى ۸

آسائش پسند لوگ :آسائش پسند لوگوں كا حق قبول نہ كرنا ۳; آسائش پسند لوگوں كى كمزورى ۷;سختى كے وقت آسائش پسند لوگ ۷

۲۳۲

الله تعالى :الله تعالى كى بخششيں ۹;اللہ تعالى كى مذمتيں ۲، ۱۰;اللہ تعالى كى نعمات ۴

انسان:انسان كى صفات ۱، ۶;انسان كى ناشكرى ۱

استكبار:استكبار كى مذمت ۲

حق :حق قبول نہ كرنے كا پيش خيمہ ۳

خير:خير كا سرچشمہ ۹

ذكر :منعم كے ذكر كا پيش خيمہ ۵

شكر:نعمت كے شكر كا پيش خيمہ ۵

قرآن:قران سے محروم لوگوں كى بيمارى ۸; قرآن كى ہدايت سے محروميت ۸

گمراہ لوگ:گمراہ لوگوں كا اعراض كرنا۸;گمراہ لوگوں كا مايوس ہونا ۸

مايوسي:مايوسى كى مذمت ۱۰;مايوسى كے اسباب ۱۱

شر :شركے موارد ۱۱

ناشكري:نعمت كى ناشكرى كا پيش خيمہ ۱

ناشكرى كرنے والے:ناشكرى كرنے والوں كى كمزورى ۷; مصيبت ميں ناشكرى ۷

نعمت :نعمت قرآن ۴;نعمت كا سرچشمہ ۹;نعمت كے آثار ۵; نعمت كے سلب كے آثار ۱۱

مشكلات :مشكلات كے آثار ۶; مشكلات ميں مايوسى ۶، ۸

آیت ۸۴

( قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِهِ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أَهْدَى سَبِيلاً )

آپ كہہ ديجئے كہ ہر ايك اپنے طريقہ پر عمل كرتا ہے تو تمھارا پروردگار بھى خوب جانتا ہے كہ كون سب سے زيادہ سيدھے راستہ پر ہے (۸۴)

۱_پيغمبر (ص) پر قرآن كے مختلف انسانوں پر دو قسم كے اثرات كے پيش خيمہ كے حوالے سے ابہام دور كرنے كى ذمہ داري_وننزل من القرآن قل كل يعمل على شاكلته

۲۳۳

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ نكتہ ہے كہ يہ آيت پچھلى آيت ميں ايك مخفى سوال كا جواب ہے اور وہ سوال يہ ہے كہ كيسے مختلف لوگ قرآن سے مختلف فائدہ حاصل كرتے ہيں ؟ تو يہ آيت جواب ديتى ہے كہ اس مختلف قسم كے فائدہ لينے كى وجہ ان كى اپنى روحى حالت اور عادات كا رد عمل ہے_

۲_انسان كے اعمال اورفيصلے، اس كى اندرونى خصلتوں ' انگيزوں اور روحى حالات كا نتيجہ ہيں _

كل يعمل على شاكلته

۳_بعض انسانوں كا قرآن سے اچھا فائدہ اٹھانااور دوسرے گروہ كا صحيح فائدہ نہ اٹھاناان كى خصلتوں اور روحى حالات كا نتيجہ ہے_وننزل من القرآن ماهو شفاء ورحمة للمؤمنين ولايزيد الظلمين الاّ خساراً قل كل يعمل على شاكلته

۴_انسان، اپنى روحانى صفات اور راسخ نفسانى عادات اور باطنى اعتقادات كے حصار ميں جكڑا ہوا ہے _

قل كل يعمل على شاكلته ''شاكلتہ'' لغت ميں نفسانى راسخ عادتوں كے معنى ميں ہے اور ايسى روش اور طريقہ كے معنى ميں بھى ہے كہ جسے انسان نے اپنا يا ہو _ (قاموس المحيط) بہرحال يہ اس حقيقت كو بتارہى ہے كہ آدمى اپنى روحى حالات اور اعتقادات ميں گھرا ہوا ہے_

۵_انسان كے روحى معاملات اور راسخ نفسانى عادات كى شكل بننے ميں اس كے انتخاب اور اختيار كا كردار ہے _

وننزل من القرآن كل يعمل على شاكلته

پچھلى آيات ميں مؤمنين كى تعريف كى گئي اور ظالموں كى مذمت كى گئي_ اس آيت ميں مؤمنين اورظالموں دونوں كے متضاد اعمال كى وجہ، ان كى نفسانى راسخ عادات كا متفاوت ہونا بيان كى گئي ہے _ اب انسان كى اس كى نفسانى راسخ عادات كى بناء پر مدح ومذمت اس صورت ميں صحيح ہے كہ وہ اپنى عادات بنانے ميں موثراور اختيار ركھتا ہو_

۶_انسان كے ليے اپنى عادات كے بنانے اور اپنے بنيادى اعتقادات ميں دقت كا كرنا ضرورى ہے_

قل كل يعمل على شاكلته

''شاكلتہ'' كے دو معانى ہيں : ايك ذاتى شخصيت اور اخلاق اور دوسرا كسب ہونے والى عادات واخلاق _ مندرجہ بالا مطلب پچھلى آيت كے قرينہ سے دوسرے معنى كى بنياد پرہے_ تو گويا يہاں انسانوں كو خبر دار كيا گيا ہے كہ اپنى شخصيت كى تشكيل ميں وقت سے كام ليں _

۷_انسانى نفوس، شكل وصورت ميں مختلف ھيں _قل كل يعمل على شاكلته

۸_انسانوں كو پالنے والا الله تعالى ، دوسروں كى نسبت انسانوں كى راسخ عادتوں اور انكے روحى حالات

۲۳۴

سے زيادہ باخبر _فربكم أعلم بمن هو أهدى سبيلا

۹_الہى ربوبيت كا تقاضا ہے كہ وہ گذشتہ ہدايت لينے والوں اور ان كے دوسروں سے امتياز سے گہرائي تك واقف ہو _

فربكم أعلم لمن هو أهدى سبيلا

دوسرى صفات يا اسم الله كى جگہ، صفت رب كا ذكر الله كى انسانى گروہوں سے آگاہ ہونے كو بيان كررہا ہے اورمندرجہ بالا مطلب كو واضح كر رہا ہے_

۱۰_ہدايت كے اسباب پانے كے لئے انسانوں ميں فرق _بمن هو اهدى سبيلا

''اہدي'' كہ افعل تفضيل ہے _ ہدايت كے مختلف درجات پر دلالت كر رہا ہے_

۱۱_ہدايت ميں كمال ونقص كے درجات ہيں _بمن هو أهدى سبيلا

۱۲_زيادہ علم وآگاہى مربى افراد كى لياقت كى پہچان اور ان كے انتخاب كا معيار ہے _فربّكم أعلم

۱۳_عن أبى عبدالله (ع) فى قول الله عزّوجلّ ''قل كل يعمل على شاكلته'' يعنى على نيته (۱)

امام صادق (ع) سے الله تعالى كے اس كلام :''قل كل يعمل على شاكلته'' كے بارے ميں روايت ہوئي ہے كہ يہاں مراديہ ہے كہ ہر كوئي اپنى نيت پر عمل كرتا ہے_

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ۱

اختيار:اختيار كے آثار ۵

الله تعالى :الله تعالى كا علم ۹;اللہ تعالى كا علم غيب ۸;اللہ تعالى كى روبوبيت كے آثار ۹

انسان :انسانوں پر تسلط۴;انسانوں كا اختيار ۵; انسان كى خصلتوں كا تسلط۴; انسان كى خصلتوں كى اہميت ۶;انسان كى خصلتوں كے آثار ۲، ۳; انسان كى خصلتيں ۵;انسان كے عمل كى محدوديت ۴; انسان كے مربى حضرات ۸; انسانوں ميں فرق ۷، ۹ ۱۰

انگيزہ :انگيزہ كا كردار ۲//اہميتيں :اہميتوں كا كردار ۲

روايت : ۱۳//شخصيت :شخصيت كى تشكيل ميں اسباب ۵

____________________

۱) كافى ج ۲، ص ۱۶،ح ۴_ نورالثقلين ج ۳، ص ۲۱۴، ح۴۱۷_

۲۳۵

عقيدہ :عقيدہ ميں دقت كرنے كى اہميت ۶

علم :علم كى اہميت ۱۲

قرآن :قرآن سے درست فائدہ اٹھانے كے اسباب ۳;قرآن سے غلط فائدہ اٹھانے كے اسباب ۳; قرآن كا ابہامات كو دور كرنا ۱قرآن كى تاثير ميں اختلاف ۱

كردار :كردار كى جڑيں ۲، ۴، ۱۳

مربي:مربى كے انتخاب كا معيار ۱۲

موقعيت لينا :موقعيت لينے ميں موثر اسباب ۲

نيت :نيت كے آثار ۱۳

ہدايت:ہدايت كے درجات ۱۰، ۱۱

ہدايت لينے والے:ہدايت لينے والوں كو مشخص كرنا ۹

آیت ۸۵

( وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّن الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاً )

اور پيغمبر يہ آپ سے روح كے بارے ميں دريافت كرتے ہيں تو كہہ ديجئے كہ يہ ميرے پروردگار كا ايك امر ہے اور تمھيں بہت تھوڑا سا علم ديا گيا ہے (۸۵)

۱_لوگوں كا پيغمبر (ص) سے روح كى حقيقت كے بارے ميں سوال كرنا _ويسئلونك عن الروح

۲_روح كى حقيقت ،ايك مبہم چيز ہے اور پيغمبر (ص) كے زمانے كے لوگوں كے لئے مورد سوال تھي_

ويسئلونك عن الروح

۳_انسانى روح كى حقيقت'، ايك مجہول اور مورد سوال چيز ہے_

ويسئلونك عن الروح

يہ كہ ''الروح'' سے مراد فقط روح انسانى ہو جيسا كہ ذہن ميں تبادر بھى اس كا ہى ہے_تومندرجہ بالا مطلب سامنے آتا ہے_

۴_بشر ، پورى علمى تاريخ ميں روح كى حقيقت كے حوالے سے تمام جہات سے يقينى شناخت تك نہ پہنچ سكا _

ويسئلونك عن الروح _

۲۳۶

يہ كہ الله تعالى نے حقيقت روح كے بارے ميں سوال كے جواب ميں اس كى وضاحت كى بجائے يہ فرمايا: روح ميراامر ہے_ يہ ممكن ہے اس لئے ہو كہ بشر كے لئے روح كى حقيقت كبھى واضح ہونے والى نہيں ہے_

۵_بعثت كے زمانے كے لوگ روح كى مانند مجہولات اور پر اسرار مسائل ميں جواب دينے كے حوالے سے پيغمبر (ص) كى علمى قدرت پر اعتماد ركھتے تھے_يسئلونك عن الروح

۶_روح، ايك ايسى حقيقت ہے كہ اس كا علم الله تعالى كے ساتھ خاص ہے اور وہ اس كى ربوبيت كا ايك جلوہ ہے _

قل الروح من أمر ربّي

''امر'' كى ''رب'' كى طرف نسبت لام اختصاص كے معنى ميں ہے اور سوال كرنے والوں كے قرينہ كے مطابق يہاں علم ميں اختصاص مراد ہے_

۷_پيغمبر،(ص) لوگوں كے سوالوں كے جواب ميں جو كچھ ان پر وحى ہوئي ہے اسى كے مطابق جواب دينے كے ذمہ دار ہيں _يسئلونك عن الروح قل الروح من أمر ربّي

۸_روح، خلقت اور وجود ميں آنے ميں خلقت كے اسباب اور وسيلے سے بے نيازہے_قل الروح من أمر ربي

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ نكتہ ہے كہ ''امر'' سے مراد كلمہ ''ايجاد ہے كہ ''كن'' كا معنى دے رہا ہے_ لہذااسے خلقت كے وسيلے كى ضرورت نہيں ہے_

۹_روح، ايك نفيس حقيقت اور بلند وبالا مقام ركھتى ہے_قل الروح من أمر ربي

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''امر'' كى ''ربي'' كى طرف نسبت ، اضافہ تشريف ہو_

۱۰_پيغمبر (ص) ،اللہ تعالى كى خاص ربوبيت اور مخصوص عنايت كے تحت ہيں _من أمر ربي

۱۱_روح، كى حقيقت كے حوالے سے بشر كى علمى تحقيقات ہميشہ كم اور ناچيز رھيں گى _وما أوتيتم من العلم إلاّ قليلا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''اوتيتم'' كے مخاطب تمام انسان ہو_

۱۲_كائنات ميں روح كى مانند پوشيدہ اسرار اور حقائق كے بارے ميں بشر كا علم ،بہت كم اور ناچيز ہے_

يسئلونك قل ومإوتيتم من العلم إلّا قليلا

يہ كہ ''العلم''سے مراد مطلق علم ہو _نہ بالخصوص روح كى حقيقت كے بارے ميں شناخت ہو تو مندرجہ بالا مطلب سامنے آتا ہے_

۲۳۷

۱۳_بشر ميں پائے جانے والے تمام علوم كا سرچشمہ، الله تعالى ہے_ومإوتيتم من العلم إلّا قليلا

''اوتيتم'' (ديا گيا ) كى تعبير اور علم كے طور پر كشف نہ دينے كى انسان كى طرف نسبت اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ انسان، برتر ارادہ كے مد مقابل مجبور ہے_

۱۴_جہان كى فراوان معلومات كے مد مقابل انسان كى معلومات نہايت كم ہيں _وما أوتيتم من العلم الاّ قليلا

يہ كہ ''العلم'' سے مراد مطلق علم ہو تو مندرجہ بالا نكتہ واضح ہوتا ہے_

۱۵_روح كى حقيقت كے حوالے سے زمانہ بعثت پيغمبر (ص) ميں لوگوں كى علمى معلومات بہت كم اور معمولى تھيں _

قل الروح من أمر ربى وما أوتيتم من العلم الاّ قليلا

يہ كہ آيت كے مخاطب زمانہ بعثت كے لوگ ہوں نہ كہ تمام زمانوں ميں تمام لوگ تومندرجہ بالا مطلب سامنے آتا ہے_

۱۶_زمانہ بعثت پيغمبر (ص) ميں لوگوں كى معلومات نہايت كم اور محدود تھيں _وما أوتيتم من العلم الاّ قليلا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ احتمال ہے كہ''و ما أوتيتم من العلم'' كے مخاطب زمانہ پيغمبر(ص) كے لوگ ہوں اور ''العلم'' سے مراد مطلق علم ہو_

۱۷_عن أبى بصير قال : سمعت أبا عبدالله(ع) يقول:''يسئلونك عن الروح قل الروح من أمر ربّي'' قال : خلق أعظم من جبرائيل وميكائيل' لم يكن مع أحد ممن مضى غير محمد(ص) وهو مع الآئمة يسدّدهم ..(۱)

ابى بصير كہتے ہيں كہ امام صادق (ع) سے سنا كہ وہ الله تعالى كے اس كلام:''يسئلونك عن الروح قل الروح من أمر ربي'' كے بارے ميں فرما رہے تھے: روح جبرائيل اور ميكائيل سے برتر مخلوق ہے وہ گذشتہ كسى بھى انبياء كے ساتھ نہ تھى _ ليكن حضرت محمد (ص) اور تمام آئمہ كے ساتھ ہے اور ان كى مدد كرتى ہے_

۱۸_عن أبى بصير عن أحمدهما قال : سا لته عن قوله: ''ويسئلونك عن الروح قل الروح من أمر ربّي'' ما الروح؟ قال: ''التى فى الدواب والناس ...'' _(۱)

ابى بصير كہتے ہے كہ نے امام باقر(ع) يا امام صادق(ع) سے الله تعالى كے كلام :'' و يسئلونك عن الروح قل الروح من أمر ربّي'' كے بارے ميں سوال كيا اور عرض كى كہ يہ روح كس قسم كى روح ہے؟ تو انہوں (ع) نے جواب ميں فرمايا: يہ وہ چيز ہے كہ جو جانوروں اور انسانوں ميں موجود ہوتى ہے_

____________________

۱) كافى ج ۱ ص ۲۷۳، ح ۴_نورالثقلين ج۳، ص ۲۱۵، ح۴۲۴_

۲۳۸

۱۹_عن أبى جعفر (ع) فى قوله اللّه :''وما اوتيتم من العلم الاّ قليلاً'' قال : تفسيرهافى الباطن انه ::لم يؤت العلم إاّ ا ناس يسير فقال: وما أوتيتم من العلم إلّا قليلاً منكم _(۲)

امام باقر(ع) سے الله تعالى كے كلام''وما أوتيتم من العلم الاّ قليلاً'' كے بارے ميں روايت ہوئي ہے كہ انہوں (ع) نے فرمايا : كہ اس آيت كى تفسير يوں ہے كہ لوگوں ميں سے صرف كم تعداد والوں كو علم ديا گيا ہے پس الله تعالى نے فرمايا :'' وما أوتيتم من العلم الاّ قليلاً'' يعنى تم ميں سے كم لوگوں كو علم ديا گيا ہے_

آنحضرت(ص) :آنحضرت (ص) اور روح كى حقيقت ۵; آنحضرت (ص) سے سوال ۱;آنحضرت (ص) كا علمى احاطہ ۵; آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى كا دائرہ كار۷; آنحضرت (ص) كے فضايل ۱۷;آنحضرت (ص) مربى ۱۰

الله تعالى :الله تعالى كا كردار۱۳;اللہ تعالى كى ربوبيت ۱۰; الله تعالى كى ربوبيت كى علامات ۶;اللہ تعالى كے مختصّات۶

امام على (ع) :امام على (ع) كے فضائل ۱۷

انسان:انسان كے علم كا سرچشمہ ۱۳;انسان كے علم كى محدوديت ۴، ۱۱، ۱۲، ۱۴

روايت : ۱۷، ۱۸، ۱۹

خلقت :خلقت كے رازوں كاعلم ۱۲

روح:روح سے مراد ۱۷، ۸;روح كى تخليق كى خصوصيات ۸;روح كى اہميت ۹;روح كى حقيقت ۲،۳، ۶،۱۱ ;روح كے بارے ميں ابہام ۲، ۳، ۴، ۱۱،۱۵;روح كے بارے ميں سوال ۱، ۲، ۳

علمائ:علماء كا كم ہونا ۱۹

لطف الہى :لطف الہى كے شامل حال ۱۰

لوگ:زمانہ بعثت كے لوگ اور روح ۱۵;زمانہ بعثت كے لوگوں كے سوال ۲;زمانہ بعثت كے لوگوں كے عقائد ۵;زمانہ بعثت كے لوگوں كے علم كا محدود ہونا۱۵،۱۶;لوگوں كے شبھات كا جواب ۷

وحي:وحى كا كردار ۷

____________________

۱) تفسير عياشى ج ۲، ص ۳۱۷، ح ۱۶۳_ نورالثقلين ج ۳، ص ۲۱۶، ح ۴۲۸_

۲) تفسير عياشى ج۲، ص ۳۱۷، ح ۱۶۴_ نورالثقلين ج۳، ص ۲۱۹، ح ۴۳۸_

۲۳۹

آیت ۸۶

( وَلَئِن شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ ثُمَّ لاَ تَجِدُ لَكَ بِهِ عَلَيْنَا وَكِيلاً )

اور اگر ہم چاہيں تو جو كچھ آپ كو وحى كے ذريعہ ديا گيا ہے اسے اٹھاليں اور اس كے بعد ہمارے مقابلہ ميں كوئي سازگار اور ذمہ دار نہ ملے (۸۶)

۱_الله تعالى ،جو معارف اور حقائق پيغمبر (ص) پر وحى كئے ان تمام كو محو اور زائل كرنے پر قادر ہے_

ولئن شئنا لنذهبنّ بالذى أوحينا إليك

۲_پيغمبر اسلام (ص) وہ شخصيت ہيں كہ جنہيں الله تعالى كى طرف سے وحى ہوتى ہے _ولئن شئنا لنذهبنّ بالذى أوحينا إليك

۳_الله تعالى كا ارادہ اور مشيت حتمى ہے اور اس ميں كوئي تبديلى پيدا نہيں ہوسكتي_ولئن شئنا لنذهبنّ بالذى أوحينا إليك

۴_انسان كو عطا ہونے والے الہى علوم كى بقاء اور زوال حتّى كہ پيغمبر (ص) كے ذريعے آنے والى وحى بھى الله تعالى كى مشيت سے مربوط ہے_وما أوتيتم من العلم الا قليلاً_ ولئن شئنا لنذهبنّ بالذى أوحينا إليك

۵_وہ تمام علوم ا ور معارف الہى كہ جو پيغمبر (ص) پر وحى ہوئے كائنات ميں پوشيدہ اسرار' حقائق اور علم الہى كے مد مقابل نہايت كم ہيں _وما أوتيتم من العلم الاّ قليلاً و لئن شئنا لنذهبن بالذى أوحينا اليك

۶_انسان پر ضرورى ہے كہ وہ اپنے وسائل اور ذرائع كو الہى سمجھنے اور ان كو جاودان شمار نہ كرنے پر توجہ كرے_

ولئن شئنا لنذهبن بالذى أوحينا اليك

مندرجہ بالا مطلب كو آيت كے مفہوم اولويت سے ليا گيا ہے _ چونكہ اگر وحى پيغمبر (ص) سے سلب ہوسكتى ہے تو بدرجہ اولى تمام نعمات دوسرے لوگوں سے سلب ہوسكتى ہيں _

۷_انسانوں كے لئے وحى اور معارف الہى (قرآن) كا نزول نعمت الہى ہے اور اس كا شكر ادا كرنا چاہئے_لنذهبن بالذى اوحينا اليك

آيت وحى اور آسمان معارف كے حوالے سے خبردار كر رہى ہے_ تو اس سے معلوم ہوا كہ يہ الہى عطيات ہيں ان كا شكر يہ ادا كرنا چاہئے _

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

۴_ بادشاہ اور حضرت يوسفعليه‌السلام كى پہلى ملاقات، بادشاہ كے خواب اور حضرت يوسفعليه‌السلام كى تعبير اور ان كا بادشاہ كے مشيرانہ عہدے پر فائز ہونےكے سلسلہ ميں گفتگو ہوئي_و قال الملك ائتونى به استخلصه لنفسى فلما كلمه

اگر چہ آيت شريفہ ميں اس بات كى وضاحت نہيں ہوئي كہ بادشاہ اور حضرت يوسفعليه‌السلام كے مابين كس موضوع پر گفتگو ہوئي ليكن قرائن حاليہ و مقاليہ اس بات كى طرف اشارہ كرتے ہيں كہ بادشاہ كے خواب اور حضرت يوسفعليه‌السلام كى تعبير اور ان كو اپنے مشير كے عہدے پر فائز كرنے كے سلسلہ ميں گفتگو تھي_

۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى بادشاہ سے پہلى ملاقات نے بادشاہ كے ان پر اعتماداور توجہ كو زيادہ كرديا_

فلما كلّمه قال انك اليوم لدينا مكين امين

ظاہر يہ ہے كہ (كلمہ ) ميں فاعل كى ضمير، حضرت يوسفعليه‌السلام اور مفعول كى ضمير بادشاہ كى طرف لوٹ رہى ہے _(قال انك ...) كا جملہ اس بات كا مؤيد ہے اور كيونكہ بادشاہ نے حضرت يوسفعليه‌السلام سے گفتگو كرنے كے بعد اس بات (إنك اليوم ...) كا اظہار كيا تو اس سے معلوم ہوتا ہے كہ بادشاہ كى حضرت يوسفعليه‌السلام كى طرف توجہ ،پہلے سے زيادہ ہوگئي_

۶_انسان كى كلام، اسكى شخصيت اور منزلتكو بيان كرنے والى ہوتى ہے_فلما كلمه قال انك اليوم لدينا مكين امين

۷_ حضرت يوسف(ع) ، مقتدرو امين اور قابل اعتماد انسان تھے_إنك اليوم لدينا مكين أمين

۸_ بادشاہ مصر نے حضرت يوسفعليه‌السلام سے ملاقات كے دوران جب اس پران كى شخصيت اور ان كا علم و دانش عياں ہوگيا تو اس نے اس بات كا اظہار كيا كہ اپنى حكومت كے معاملے ميں انكے مشورے كو نافذ اور اس كے فرمان كى بجا آورى كرے گا_فلما كلمه قال انك اليوم لدينا مكين آمين

جسكا مقام و منزلت بلند و رفيع ہو اسكو(مكين) كہا جاتاہے نيز (أمين) اس كوكہا جاتاہے جو خيانت سے پرہيز كرے اوراسكى بات ميں صداقت اور كردار و عمل ميں سچائي كے ہونے كااطمينان ہو_بادشاہ كى يہ بات كہ تم ہمارے ہاں بلند مرتبہ ركھنے والے ہو يہ اس بات كى طرف كنايہ ہے _ كہ آپ كے مشوروں كو نافذ العمل ٹھہرائيں گے اور حكومت كے معاملے ميں آپ جو بھى مشورہ ديں گے ہم اسكو قبول كريں گے _

۹_ يوسف كے زمانے ميں بادشاہ مصر ايك صاحب

۵۲۱

حكمت و فراست اور مدبر شخص تھا _و قال الملك ائتونى به استخلصه لنفسى فلما كلمه قال انك اليوم لدينا مكين آمين

۱۰_حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں مصر كا بادشاہ ، پاكدامن ، دانشمند اور صحيح لوگوں كو دوست ركھنے والا انسان تھا_

فلما كلّمه قال انك اليوم لدينا مكين امين

۱۱_ جو شخص كسى كو منصب و مقام دے رہاہے اسے چاہيئے كہ اس منصب كو لينے والے شخص كى طاقت اور اسكى امانت دارى كا يقين حاصل كرے_قال الملك ائتونى به استخلصه لنفسى مكين آمين

۱۲ _ بادشاہ مصر كے ہاتھوں حضرت يوسفعليه‌السلام كى غلامى كے حكم كو ختم كيا جانا_

ائتونى به استخلصه قال انك اليوم لدينا مكين امين

(استخلصه لنفسي ) كا جملہ نيز حضرت يوسفعليه‌السلام كى غلامى كے قصے كا دوبارہ اس داستان ميں ذكر نہ ہونا مذكورہ بالا تفسير كوبتاتا ہے_

بادشاہ مصر :بادشاہ مصر اور امين لوگ ۱۰; بادشاہ مصر اور علماء ۱۰ ; بادشاہ مصراور عفيف و پاكدامن لوگ۱۰;بادشاہ مصر اور يوسفعليه‌السلام ۱ ، ۲ ;بادشاہ مصر اور يوسفعليه‌السلام كى غلامى ۱۲ ;بادشاہ مصر كا حضرت يوسفعليه‌السلام پر اعتماد ۵ ; بادشاہ مصر كا خواب ۴ ; بادشاہ مصر كا مخصوص مشير ۲، ۴ ;بادشاہ مصر كى حكمت ۹ ;بادشاہ مصركى مديريت ۹ ; بادشاہ مصر كى يوسفعليه‌السلام سے ملاقات ۸ ; بادشاہ مصر كے فضائل ۹ ، ۱۰

حكومت:حكومت كے حكام كى امانتدارى ۱۱ ; حكومت كے حكام كى تعيناتى كے شرائط ۱۱ ; حكومت كے حكام كى قدرت و طاقت ۱۱

شخصيت :شخصيت كى پہچان كا سبب ۶كلام :كلام كا كردار۶

نفسيات كا علم ۶

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام دربار مصر ميں ۳ ، ۵ ، ۸;يوسفعليه‌السلام زندان كے بعد ۳ ، ۴ ;يوسفعليه‌السلام سے لگاؤ ۱ ; يوسفعليه‌السلام كا اقتدار۷ ; يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۳ ،۴ ، ۵ ، ۸،۱۲;يوسفعليه‌السلام كو دعوت دينا ۱ ، ۲ ۴; يوسفعليه‌السلام كى امانتدارى ۷ ; يوسفعليه‌السلام كى بادشاہ مصر سے گفتگو ۴ ، ۵;يوسفعليه‌السلام كى بےگناہى ۳;يوسفعليه‌السلام كى بے گناہى كے آثار ۱ ; يوسف كى شخصيت ۸ ;يوسفعليه‌السلام كى عفت كے آثار ۱; يوسفعليه‌السلام كے علم كے آثار ۸ ;يوسف كے فضائل ۷

۵۲۲

آیت ۵۵

( قَالَ اجْعَلْنِي عَلَى خَزَآئِنِ الأَرْضِ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ )

يوسف نے كہا كہ مجھے زمين كے خزانوں پر مقرر كردوں كہ ميں محافظ بھى ہوں اور صاحب علم بھى (۵۵)

۱ _ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بادشاہ سے كہا كہ مجھے مصر كى زراعت كا وزير اور غلات كے سٹور كا ناظر مقرر كردے_

قال اجعلنى على خزائن الارض

حضرت يوسفعليه‌السلام نے بادشاہ كے خواب كى جو تعبير بتائي كہ سات سال زراعت كے كام ميں بہت محنت كرنى چاہيے اور اسكى پيداوار كو ذخيرہ كرنا چاہيے اس بات سے يہ معلوم ہوتاہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام نے ان سے خواہش كى ( كہ مجھے زمين كے خزانے پر مامور كرديں ) يعنى مذكورہ امور كو ميرے سپرد كردے يعنى زراعت كى كاشت اور آمدنى ( وزارت زراعت) اور غلات كے انبار ميرے سپرد كرديئے جائيں _

۲ _ حضرت يوسفعليه‌السلام كا حكومتى منصب كى خواہش كرنے كا مقصد يہ تھا كہ مصر كے لوگوں كے ليئے قحطى و خشكسالى كى وجہ سے جو حادثہ رونما ہونے والا ہے اس سے ان كو بچايا جائے_اجعلنى على خزائن الارض

۳ _ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بادشاہ كو مصر كے لوگوں كى خوراك كے امور كو سنبھالنے كى دليل سے آگاہ كيا_

اجعلنى على خزائن الارض انى حفيظ عليم

(انى حفيظ عليم ) كا جملہ (اجعلني ...) كے جملے كے ليے علت ہے_

۴ _ حضرت يوسفعليه‌السلام اس بات كى قدرت ركھتے تھے كہ خوراك كے ذخيرے كو تلف ہونے سے بچا سكيں _

اجعلنى على خزائن الارض انى حفيظ عليم

۵ _ حضرت يوسفعليه‌السلام غلات كى كاشت و كٹائي اور اس كو ذخيرہ اور صحيح تقسيم كرنے سے كامل طور پر واقف تھے_

اجعلنى على خزائن الارض انى حفيظ عليم

۶_حضرت يوسف(ع) اپنى صلاحتيوں كے مطابق كا شت وكٹائي اور غلات كو ذخيرہ اور تقسيم كرنے كى تاكيد كرتے تھے_(انّى حفيظ عليم ) كا جملہ نہ صرف اس پر دلالت كرتاہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام مذكورہ مسائل و امور كا علم ركھتےہيں بلكہ اس كے علاوہ عملى طور پر اسكى انجام دہى كى بھى طاقت ركھتے ہيں اور اس كو كامل طور پر انجام دينے كا وعدہ بھى كرتے ہيں _

۵۲۳

۷_كفر و شرك كى حكومت ميں ، حكومتى كاموں كى ملازمت كا تقاضا كرنے كا جواز _قال اجعلنى على خزائن الأرض

۸_ حكومتى عہدوں پر فائز ہوناحتى كفر و شرك والى حكومتوں ميں ملازمت كرنا جائز رہا ہے _

قال اجعلنى على خزائن الأرض

۹_ كسى دينى اور انسانى ذمہ دارى كو سنبھالنے كيلئے اپنے مثبت خصوصيات كو بيان كرنا جائز اور مناسب ہے _

قال اجعلنى على خزائن الأرض انى حفيظ عليم

۱۰_ ماہر، لائق اور كام كوسمجھنے والے اشخاص كے ليے ضرورى ہے كہ كسى ذمہ دارى سے انكار نہ كريں بلكہ ان امور كے چلانے ميں ذمہ دارى كو قبول كريں _قال اجعلنى على خزائن الأرض انى حفيظ عليم

۱۱_ حكومت كو چاہيے كہ بحرانى حالات ميں اقتصادى امور(پيداوار اور اس كى تقسيم )كينگرانى كرے _

قال اجعلنى على حزائن الأرض انى حفيظ عليم

۱۲_مہتمم ہونے اوروزارت كو چلانے كے ليے ،علم اور قدرت دو بنيادى شرطيں ہيں _اجعلنى انى حفيظ عليم

۱۳_ معاشرے كے مالياتى امور كى سرپرستى كے ليے اسكا صاحب علم اور امين ہونا، شرط ہے _اجعلنى انى حفيظ عليم

۱۴_ مہارت اور علم كے بغير كسى كام كى ذمہ دارى لينا نيز مہارت بغيرذمہ دارى كے كارساز نہيں ہے_

اجعلنى على خزائن الأرض انى حفيظ عليم

۱۵_عن رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : رحم الله اخى يوسف لو لم يقل : اجعلنى على خزائن الأرض لو لّاه من ساعته ولكنّه آخّر ذلك سنة (۱)

رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روايت ہے كہ خداوند متعال ميرے بھائي حضرت يوسفعليه‌السلام پر رحمت نازل كرے اگروہ زمين كے خزانوں كى سرپرستى كا تقاضا نہ كرتے تو يہ منصب اسى وقت ان كو مل جاتا (ليكن انكا تقاضا كرنا كہ مجھے سرپرستى دى جائے يہ تقاضا كرنا سبب بنا كہ انہيں ايك سال كى تأخير سے يہ منصب عطا ہو ا_

____________________

۱) مجمع البيان ، ج ۵، ص ۳۷۲; نورالثقلين ج۲، ص ۴۳۲حديث ۹۸_

۵۲۴

۱۶_عن على بن موسى الرضا عليه‌السلام ... انّ يوسف عليه‌السلام ... لما دفعته الضرورة الى تولى خزائن العزيز قال : اجعلنى على خزائن الأرض (۱)

امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے كہ جب يہ ضرورت محسوس ہوئي كہ حضرت يوسفعليه‌السلام عزيز مصر كے خزانوں كى سرپرستى كو قبول كرے تو فرمايا:اجعلنى على خزائن الأض

۱۷_قال سفيان : قلت لأبى عبدالله عليه‌السلام يجوز ان يزكّى الرجل نفسه ؟ قال : نعم اذا اضطرّ اليه اما سمعت قول يوسف : '' ...انى حفيظ عليم ...'' (۲) سفيان كہتا ہے كہ ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے عرض كى كہ كيا جائز ہے انسان اپنى تعريف كرے ؟ تو حضرتعليه‌السلام نے فرمايا ہاں جب ضرورت ہو تو، كيا تونے نہيں سنا كہ حضرت يوسفعليه‌السلام نے فرمايا'' ...انّى حفيظ عليم ...''

۱۸_عن ابى عبدالله انه قال لقوم مّمن يظهرون الزّهد و يدعون الناس ان يكونوا معهم على مثل الذى هم عليه من التقشّف ...ا خبرونى اين انتم عن يوسف النبى عليه‌السلام حيث قال لملك مصر: ''اجعلنى على خزائن الأرض ...'' فكان من امره الذى كان ان اختار مملكة الملك و ما حولها الى اليمن فلم نجد احداً عاب ذلك عليه (۳) امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپ(ع) نے ان لوگوں كو مخاطب ہو كر فرمايا جو اپنے زہد كا اظہار كرتے تھے اور لوگوں كو اسكى دعوت ديتے تھے كہ ان كى طرح دنيا كى زندگى كو سختى و مشكلات كے ساتھ گزارو ، تو حضرتعليه‌السلام نے انہيں مخاطب ہوكر فرمايا كہ مجھے بتاؤ كہ حضرت يوسف(ع) كے بارے ميں تمھارى كيا رائے ہے يہ كہ انہوں نے بادشاہ مصر سے فرمايا: (اجعلنى على خزائن الارض ...) پس حضرت يوسف(ع) نے اتنى ترقى كى كہ پورے ملك كا يمن تك بادشاہ بن گئے ليكن كسى ايك نے بھى ان ميں يہ عيب نہيں نكالا كہ وہ بادشاہ كيوں بناہے_

۱۹_عن الرضا عليه‌السلام ...فى قوله تعالى : '' ...انّى حفيظ عليم '' قال: حافظ لما فى يدّى عالم بكلّ لسان (۴) امام رضاعليه‌السلام سے خداوند متعال كے اس قول ...انّى حفيظ عليم كے بارے ميں روايت ہوئي ہے كہ اس سے مراد يہ ہے كہ ميں تمام چيزوں كى حفاظت كرنے والا ہوں جو ميرے كنٹرول ميں ہيں اور تمام زبانوں سے واقف ہوں _

____________________

۱) عيون الاخبار الرضا ، ج ۲،ص ۱۳۹، ح ۲، ب ۴۰ ; نورالثقلين ، ج۲ ص ۴۳۲، ح۹۹_۲) تفسير عياشى ، ج۲، ص ۱۸۱، ح۴۰; نورالثقلين ، ج ۲ ص ۴۳۳، ح۱۰۳_

۳) كافى ج ۵، ص ۷۰، ح ۱ ; نورالثقلين ج ۲، ص ۴۳۴، ح ۱۰۴_۴) علل الشرائع ص ۲۳۸، ح۲) ب۱۷۳; نورالثقلين ج۲، ص ۴۳۲، ح۱۰۰_

۵۲۵

احكام : ۷، ۸، ۹

اقتصاد :اقتصادى امور ميں سرپرستى كے شرائط ۱۳; اقتصادى بحران ميں پيداوار پر نظارت ركھنے كى اہميت ۱۱ ;اقتصادى بحران ميں تقسيم پر نظارت ركھنے كى اہميت ۱۱; اقتصادى بحران ميں سياست ۱۱

انسان :لائق انسانوں كى ذمہ داري۱۰

حكومت :حكومت شرك سے ملازمت كى درخواست ۷; حكومت كفر سے ملازمت كى درخواست۷; حكومت كفر ميں ذمہ دارى كا قبول كرنا ۷، ۸; حكومت كى ذمہ دارى ۱۱

خوداپنى تعريف :اپنى تعريف كا جائز ہونا ۹، ۱۷;اپنى تعريف كے احكام ۹، ۱۷

ذمہ دارى :ذمہ دراى كو قبول كرنے كى اہميت ۱۰

روايت : ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۱۸، ۱۹

سرپرستى :سرپرستى كرنے كا علم ۱۲; سرپرستى كرنے كى قدرت ۱۲; سرپرستى كے شرائط ۱۲

ملازمت :ملازمت كا جائز ہونا ۷، ۸;ملازمت كے احكام ۷، ۸

معاشرہ :معاشرے ميں اقتصادى امور كى اہميت ۱۳

وزارت :وزارت سنبھلانے كے شرائط ۱۲

وعدہ:وعدہ اور مہارت۱۴

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام اور غذائي امور كى سرپرستى ۳، ۴; يوسفعليه‌السلام اور غلّات كا ذخيرہ كرنا ۶; يوسفعليه‌السلام اور قحطى كى مشكلات كا كنٹرول ۲; يوسفعليه‌السلام اور وزارت زراعت ۱; يوسفعليه‌السلام كا اپنى تعريف كرنا ۱۷; يوسفعليه‌السلام كا علم ۱۹; يوسفعليه‌السلام كا علم اقتصاد ۵;يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۳ ، ۴، ۶، ۱۵، ۱۶، ۱۸، ۱۹;يوسفعليه‌السلام كو زراعت كا علم ۵، ۶; يوسفعليه‌السلام كى اقتصادى سياست ۴; يوسفعليه‌السلام كى امانت دارى ۱۹;يوسفعليه‌السلام كى بادشاہ مصر سے گفتگو ۱، ۳، ۱۶، ۱۸; يوسفعليه‌السلام كى خزانہ دارى ۱، ۴، ۵، ۱۶;يوسفعليه‌السلام كى خواہش كے پورا ہونے ميں دير ۱۵;يوسفعليه‌السلام كى خواہشات۱، ۱۶، ۱۸; يوسفعليه‌السلام كى خواہشات كا فلسفہ ۲;يوسفعليه‌السلام كى دور انديشى ۲;يوسفعليه‌السلام كى صلاحيت ۳، ۴، ۶;يوسف(ع) كى مجبورى ۱۶

۵۲۶

آیت ۵۶

( وَكَذَلِكَ مَكَّنِّا لِيُوسُفَ فِي الأَرْضِ يَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاءُ نُصِيبُ بِرَحْمَتِنَا مَن نَّشَاء وَلاَ نُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ )

اور اس طرح ہم نے يوسف كو زمين ميں اختيار دے ديا كہ وہ جہاں چاہيں رہيں _ہم اپنى رحمت سے جس كو بھى چاہتے ہيں مرتبہ ديے ديتے ہيں اور كسى نيك كردار كے اجرا كو ۲_ ضائع نہيں كرتے (۵۶)

۱_ مصر كے بادشاہ نے حضرت يوسفعليه‌السلام كے مشورہ كو قبول كرتے ہوئے كھتى باڑى و زراعت اور اسكى نگہدارى اور تقسيم كو ان كے سپرد كرديا _اجعلنى على خزائن الأرض و كذلك مكّنّا ليوسف فى الأرض

۲_ حضرت يوسفعليه‌السلام مصر كى سرزمين پر بغير كسى متنازع ہونے كے، قدرت اور مقام منزلت كے مالك ہوگئے _

مكّنا ليوسف فى الأرض يتبّوا منها حيث يشاء

''تمكين'' ''مكنّنا'' كا مصدر ہے جو كہ مكان دينے نيز قدرت عطا كرنے كے معنى ميں بھى آتا ہے _ يہاں حكم اور موضوع كى مناسبت اور (فى الأرض) كى قيدلگانے سے ظاہر ہوتا ہے كہ دوسرا معنى مراد ہے _ اسى وجہ سے ''مكنّا ليوسف فى الأرض'' كا معنى يہ ہوا كہ ہم نے مصر كى پورى سرزمين پر حضرت يوسفعليه‌السلام كو قدرت و سلطنت عطا كى اور (حيث يشاء) كا جملہ بتاتا ہے كہ اس كے مقابلے ميں كوئي قدرت و طاقت نہيں تھي_

۳_ حضرت يوسفعليه‌السلام ،مصر كى پورى سرزمين ميں تصرف اور مستقر ہونے كے حوالے سے آزاد اور اختيار ركھتے تھے _

مكنّا ليوسف فى الأرض يتبّوا منها حيث يشاء

(يتبّوا ) كا معنى ٹھہرنا اور رہائش پذير ہونےكے ہيں پس جملہ '' يتبّوا منہا حيث يشاء'' كا معنى يہ ہوا كہ (مصر ميں جس جگہ وہ چاہيں ٹھہر سكتے اور رہائش پذير ہوسكتے تھے) يہ جملہ لفظ (مكنّا) كى تفسير كے مقام پر ہے_يہ جملہ اصل ميں كنايہ

۵۲۷

ہے كہ وہ مصر كى پورى سرزمين ميں تصرف كرنے اور اس پر اقتدار كرنے كى طاقت و قدرت ركھتے تھے _

۴_ حضرت يوسفعليه‌السلام ، خداوند متعال كى طرف سے مصر كى تمام سرزمين ميں تصرف كرنے كى ولايت ركھتے تھے _

و كذلك مكنّا ليوسف فى الأرض يتبّوا منها حيث يشاء

(مكنّا ليوسف ...) كا جملہ اقتدار تكوينى كے ساتھ ساتھ اقتدار تشريعى كوبھى شامل ہے_ يعنى خداوند متعال نے ان كو مصر كى تمام سرزمين پر دخل اندازى اور تصرّف كرنے كى اجازت عطا فرمائي ہے _

۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى داستان ( كنعان كے كنويں سے نجات پاكر وزارت اور قدرت تك پہنچنا) يہ ارادہ خداوندى اور اس كى تدبير كے مطابق تھي_و كذلك مكنّا ليوسف فى الأرض

۶_ اسباب اور علل كو پيدا اور جارى كرنا، خداوند متعال كے اختيار اور ہاتھ ميں ہے _و كذلك مكنّا ليوسف فى الأرض

۷_ تاريخ كے حوادث اور اس كے جريان ميں ارادہ الہى حاكم ہے _و كذلك مكنّا ليوسف فى الأرض

۸_ مملكت كى بحرانى صورت ميں حكومتوں كو اختيار ہے كہ لوگوں كو ان كے اپنے اموال و املاك ميں تصرّف كى آزادى محدود كرديں اور انہيں عمومى مصالح كى طرف لے جائيں _

اجعلنى على خزائن الأرض كذلك مكنّا ليوسف فى الأرض يتبّوا منها حيث يشاء

۹_ خداوند متعال، جسكو بھى چاہے اپنى رحمت خاصّہ عطا كرتا ہے _نصيب برحمتنا من نشاء

۱۰_ مصر ميں حضرت يوسفعليه‌السلام كا بلامنازع اور مطلق اقتدار ،خداوند متعال كى ان پر رحمت خاصّہ كا ايك جلوہ تھا _

كذلك مكنّا ليوسف ...نصيب برحمتنا من نشاء

۱۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام كا غلامى اور زندان ميں اسارت كے بعد قدرت و حكومت حاصل كرنا ، تمام علل و اسباب پر خداوند عالم كى مشيّت كى حاكميت كى محكم دليل ہے_كذلك مكنّا ليوسف فى الأرض يتبّوا منها حيث يشاء نصيب برحمتنا من نشاء

(خداوند متعال ) كا يہ جملہ ( كہ جسكو چاہيں ہم اپنى رحمت ميں شامل كر ليتے ہيں اور اسكو قدرت عطا كرتے ہيں ) جو (نصيب برحمتنا) كے جملے سے سمجھا جاتا ہے يہ جملہ دعوى كے مقام پر

۵۲۸

ہے جسكو (كذلك مكنّا) سے استدلال كيا گيا ہے _

يعنى خداوند متعال نے ايك غلام كو جس كے پاس اپنا اختيار بھى نہيں تھا تمام لوگوں كے اختيار كو اسكے ہاتھ ميں دے ديا اور يہ روشن و واضح دليل ہے كہ الله تعالى ، مطلق حاكم ہے _

۱۲_ مشيت الہى كى حاكميت اور اس كے ارادے كا نافذ ہونا _نصيب برحمتنا من نشاء

۱۳_ نيك كام كرنے والے دانشورحضرات كى قدرت و اختيار، ان پر خداوند متعال كى نعمت و رحمت ہے _

انّى حفيظ عليم وكذلك مكنّا يوسفعليه‌السلام نصيبٌ رحمتنا من نش

رحمت الہى كے مصداق ''رحمتنا'' (مكنّا ليوسف فى ا لأرض) كے قرينے كى وجہ سے حضرت يوسفعليه‌السلام جيسے كا انسانوں كاقدرت و اختيار تك پہنچانا ہے_

۱۴_ خداوند متعال، نيك كام كرنے والوں كو دنيا ميں اپنى جزاء و عطا سے نوازتا ہے _ولا نضيع اجر المحسنين

بعد والى آيت كے قرينے سے معلوم ہوتا ہے كہ يہاں (اجر ) سے مراد ، دنيا ميں اجر دينا ہے _

۱۵_ خداوند متعال نيك لوگوں كو اجر كى نوازش كرنے ميں ذرہ برابر بھى ان سےكم نہيں كرتا_ولا نضيع اجر المحسنين

۱۶_ حضرت يوسفعليه‌السلام ان لوگوں ميں سے تھے جن پر احسان كيا گيا تھا_ولا نضيع اجر المحسنين

۱۷_ حضرت يوسفعليه‌السلام كا مصر كى سرزمين پر قدرت حاصل كرنا اور الہى رحمت خاصّہ سے بہرہ مند ہونا، ان كے نيك كاموں كى جزا تھى _كذلك مكنّا ...نصيب برحمتنا ...ولا نضيع اجر المحسنين

۱۸_ حضرت يوسفعليه‌السلام كا مصر كى سرزمين پر قدرت حاصل كرنا، يہ واضح و روشن دليلہے كہ خداوند متعال كى طرف سے نيك كام كرنے والوں كا اجر ضائع نہيں ہوتا ہے_

۱۹_ عفت ، پاكدامنى ، امانت، صداقت ،وحدہ لاشريك كى پرستش كرنا ، اپنے علم كو نہ چھپانا اورذمہ دارى كو قبول كرنا، نيك كاموں كے مصاديق شمار ہوتے ہيں _ولا نضيع اجر المحسنين

(المحسنين ) كے مورد نظر مصاديق ميں سے حضرت يوسفعليه‌السلام ہيں اسى وجہ سے جن اوصاف اور خصوصيات كو ان كے ليے ذكر كيا گيا ہے وہ قرآن مجيد كى نظر ميں احسان كرنے اور نيك كاموں كے موارد ہيں _

۵۲۹

۲۰_ محسنين لوگوں كا دنيا ميں الہى رحمت خاصّہ كا حامل ہونا مشيت اور تقاضائے الہى ہے _

نصيب برحمتنا من نشاء و لانضيع اجر المحسنين

۲۱_ مشيت الہي، منظم اور قانون كے ساتھ ہے _نصيب برحمتنا من نشاء و لانضيع اجر المحسنين

(لا نضيع ...) كا جملہ اور (لأجر الأخرة ...) كا جملہ جو(من نشاء ...) كے بعد بيان ہوا ہے بہ بتاتا ہے كہ خداوند متعا ل يہ چاہتا ہے كہ اپنى رحمت كو مؤمن اور باتقوى محسنين كو عطا فرمائے _ يعنى رحمت كا عطاء كرنا بغير دليل اور قابليت كے نہيں ہے_

آزادى :آزادى ميں محدو ديت كے شرائط ۸

احسان :احسان كى اہميت ۲۰، احسان كے موارد ۱۹

احكام :حكومت كے احكام ۸

الله تعالى :الله تعالى كا ارادہ ۵; الله تعالى كا دنيا ميں عطا كرنا ۱۴; الله تعالى كى بخشش ۱۵; الله تعالى كى جزاء ۱۵، ۱۸;الله تعالى كى رحمت كى نشانياں ۱۰;الله تعالى كى عدالت ۱۵، ۱۸;الله تعالى كى عدالت كے دلائل ۱۸;الله تعالى كى مشيت ۹، ۲۰; الله تعالى كى مشيت كى حاكميت ۱۱، ۱۲;الله تعالى كى مشيت ميں قانون كا ہونا ۲۱;الله تعالى كے اختيارات ۶; الله تعالى كے ارادے كى حاكميت ۷، ۱۲

الله تعالى كا اجر :اجر الہى كے شامل حال افراد۱۴

امانتداري:امانتدارى كى اہميت ۱۹

تاريخ:تاريخ ميں تحولات كا سبب ۷، ۱۱

توحيد :توحيد عبادى كى اہميت ۱۹

حكومت :بحرانى حالات ميں حكومت ۸;حكومت كے اختيارات ۸

رحمت :رحمت خاصّہ كے مستحقين ۲۰;رحمت كے مستحقين ۹، ۱۰،۱۳، ۱۷

صداقت :صداقت كى اہميت ۱۹

۵۳۰

ظاہرى اسباب و عوامل :ظاہرى اسباب و عوامل كا كردار ۶

عفت:عفت كى اہميت ۱۹

علم :علم كے اظہار كى اہميت ۱۹

علماء:محسن علماء كى قدرت ۱۳

عمومى مصلحتيں :عمومى مصلحتوں كى اہميت ۸

مال :اموال ميں تصرّف كرنے كى محدوديت ۸

محسنين :محسنين پر رحمت ۲۰;محسنين كا دنيا ميں اجر ۱۴; محسنين كى جزاء ۱۵

مصر كا بادشاہ :مصر كا بادشاہ اور حضرت يوسفعليه‌السلام كى فرمائشات ۱

نعمت :نعمت كے مستحقين ۱۳

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسف(ع) اور وزير زراعت ۱;حضرت يوسف(ع) پر رحمت ۱۷;حضرت يوسف(ع) كا اجر ۱۷ ; حضرت يوسف(ع) كا احسان ۱۷; حضرت يوسف(ع) كا اقتدار ۲، ۳، ۱۰;حضرت يوسف(ع) كا خزانہ دار ہونا ۱; حضرت يوسف(ع) كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۵، ۱۱; حضرت يوسف(ع) كا محسنين ميں سے ہونا ۱۶;حضرت يوسف(ع) كى تشريعى ولايت ۴; حضرت يوسف(ع) كى تكوينى ولايت ۴; حضرت يوسف(ع) كى قدرت كا سبب ۵، ۱۱ ، ۱۷، ۱۸; حضرت يوسف(ع) كى نجات كا سبب ۵; حضرت يوسف(ع) كے فضائل ۱۰;حضرت يوسف(ع) كے مقامات ۲;حضرت يوسف(ع) مصر ميں ۲، ۳، ۴

آیت ۵۷

( وَلَأَجْرُ الآخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ آمَنُواْ وَكَانُواْ يَتَّقُونَ )

اور آخرت كا اجر تو ان لوگوں كے لئے بہترين ہے جو صاحبان ايمان ہيں اور خدا سے ڈرنے والے ہيں (۵۷)

۱_ آخرت كا اجر، دنيا كے اجر سے بہتر اور برتر ہے _لا نضيع اجر المحسنين و لاجر الاخرة خير

۲_ نيك كام انجام دينے والے، دنيا كى زندگى ميں اجر سے بہرہ مند ہونے كے علاوہ آخرت ميں بھى بہترين اور برتر اجر پائيں گے_

۵۳۱

لا نضيع اجر المحسنين و لاجر الاخره خيرٌ

۳_ دنيا كى زندگى كا محدود ہونا اوراس ميں گنجائش كى محدويت، نيك لوگوں كے اجرو پاداش كے ليے مناسب نہيں ہے_

لا نضيع اجر المحسنين و لاجر الاخرة خير للذين و كانوا يتّقون

۴_ آخرت كا اجر ، رحمت الہى كا ايك نمونہ ہے _نصيب برحمتنا من نشاء و لاجر الاخرة خير

۵_ زمين پر سلطنت اور اقتدار كا ہاتھ ميں آنا، آخرت كى جزاء كے مقابلے ميں نا چيز ہے _

كذلك مكّنّا ليوسف فى الارض و لاجر الاخرة خير

۶_ اخروى اجر سے بہرہ مندى كى شرط، ايمان اور تقوى سے ملتزم ہونا ہے _

و لاجر الاخرة خير للذين ء امنوا و كانوا يتقون

(كان) كا لفظ اور اس طرح كے دوسرے الفاظ اگر فعل مضارع كے ساتھ استعمال ہوں تو گذرے ہوئے زمانہ ميں استمرار كو بتاتے ہيں _ اسى وجہ سے تقوى كے ساتھ ملتزم رہنا مذكورہ عبارت سے استفادہ كيا گيا ہے _

۷_ ايمان تقوى كے بغير اور تقوى بغير ايمان كے آخرت كى نعمتوں سے بہرمند ہونے كے ليے كام نہيں آسكتا _

للذين ء امنوا و كانوا يتّقون

۸_ اخروى نعمتوں تك رسائي كے ليے قيامت اور ميدان محشر پر ايمان اور گناہوں سے پرہيز كرنا ضرورى ہے _

و لاجر الاخرة خير للذين ء امنوا و كانوا يتقون

آيت شريفہ ميں يہ بيان نہيں ہوا كہ ايمان (آمنوا )تقوى (يتقون ) كا متعلّقكياہے _ (لاجرالاخرة ) كے قرينے سے يہ معلوم ہوتا ہے كہ يہاں ايمان سے مراد آخرت پر ايمان ہے اور تقوى سے مراد ان امور سے پرہيز كرنا ہے جو آخرت كى نعمتوں سے محروم كر ديتے ہيں _

۹_ حضرت يوسف(ع) ، متقى مومنين اور آخرت پر يقين ركھنے والوں كا واضح اور روشن نمونہ تھے_

و لاجر الاخرة خير للذين ء امنوا و كانوا يتقون

(الذين آمنوا ) كا مصداق، مذكورہ آيا ت كے قرينہ سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام تھے_

۱۰_ حضرت يوسفعليه‌السلام دنيا كے اجر سے بہتر، قيامت و آخرت ميں اجر پائيں گے_

و كذلك مكّنّا ليوسف فى الارض و لا نضيع اجر المحسنين و لاجر الاخرة خير

۵۳۲

.. و كانوا يتقون

۱۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام كا دنيا و آ۱خرت ميں اجر پانے كا سبب، ايمان اور تقوى و پرہيزگارى كو برقرار ركھنا تھا_

و كذلك مكّنا ليوسف و لاجر الاخرة خير للذين ء امنوا و كانوا يتقون

آخرت :آخرت پر ايمان لانے والے : ۹

احسان :احسان كى اہميت ۲

ايمان :آخرت پر ايمان كے آثار ۸;ايمان كا اجر ۱۱; ايمان بغير تقوى كے ۷; ايمان كى اہميت ۶

اجر :آخرت كا اجر ۴;آخرت كے اجر كى اہميت ۱، ۵; آخرت كے اجر كے شرائط ۶; دنيا كے اجر كى ارزش ۱

اللہ تعالى كا اجر :اللہ تعالى كے اجر كے شامل حال لوگ۲

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى رحمت كى نشانياں ۴

تقوى :بغير ايمان كے تقو ى ۷;تقوى كى اہميت ۶; تقوى كى جزاء ۱۱

حكومت :حكومت كى اہميت ۵

زندگى :دنياوى زندگى كى محدوديت ۳

قدرت :قدرت كى اہميت ۵

گناہ :گناہ كو ترك كرنے كے آثار ۸

مؤمنين : ۹

متقين : ۹

محسنين:محسنين اور دنياوى پاداش ۳;محسنين كا اجر آخرت ۲; محسنين كا دنيا ميں اجر ۲; محسنين كى جزاء ۳; محسنين كى دنيا ميں زندگى ۲

نعمت :آخرت كى نعمت كے اسباب ۷،۸

يوسف(ع) :حضرت يوسفعليه‌السلام كا ايمان ۹، ۱۱; حضرت يوسفعليه‌السلام كا تقوى ۹،۱۱; حضرت يوسف(ع) كا دنيا ميں اجر ۱۰، ۱۱; حضرت يوسف(ع) كى آخرت كى جزاء ۱۰، ۱۱; حضرت يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۹

۵۳۳

آیت ۵۸

( وَجَاء إِخْوَةُ يُوسُفَ فَدَخَلُواْ عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنكِرُونَ )

اور جب يوسف كے بھائي مصر آئے اور يوسف كے پاس پہنچنے تو انھوں نے سب كو پہچان ليا اور وہ لوگ نہيں پہچان سكے(۵۸)

۱_ حضرت يوسف كى پيشگوئي جو بادشاہ كے خواب كى بنا ء پر بتائي تھى اس نے حقيقت كا روپ دھارليا اور قحط و خشكسالى نے مصر اور اطراف مصر ( كنعان و غيرہ ) كو اپنى لپيٹ ميں لے ليا _و جاء اخوة يوسف قد خلوا عليه

آيت ۶۳ميں (منع منا الكيل ) كا جملہ اس بات كى حكايت كرتا ہے كہ مصر اور اطراف و نواح مصر ميں قحط پڑگيا اور كنعان سے برادران يوسف كا آنا اور خوراك كے بارے ميں سوال كرنا اس چيز كو بتاتا ہے كہ وہاں خوراك نہيں تھى _

۲_ حضرت يوسفعليه‌السلام پيداوار و زراعت كے سات سال كے دوران قحط كے زمانے كے ليے غلات كى پيداوار ذخيرہ كرنے ميں مكمل طور پر كا مياب رہے_و جاء اخوة يوسف

۳_ حضرت يوسف(ع) كے زمانے ميں كنعان كى سرزمين، مصر كى حكومت ميں نہيں تھى _و جاء اخوة يوسف

يہ بات بعيد نظر آتى ہے كہ حضرت يوسف نے مصر كے تمام مقامات سے غلات كو جمع كر كے مركز ميں اكھٹا كيا ہو _ كيونكہ ہر علاقے كے غلات كو منتقل كرنا خصوصاً اس زمانے ميں جب حمل و نقل ايك دشوار امر تھا_ لہذا طبيعى چيز يہى تھى كہ غلات كواسى مقام پر جمع كيا جاتا اور اگر كنعان كا علاقہ مصر كى حكومت كے قلمرو ميں ہوتا تو لازمى طور پر وہاں پر بھى ايك انبار بنايا جاتا تا كہ وہاں غلات كو جمع كيا جائے تو اس صورت ميں كنعان كے لوگوں كو مصر آنے كى ضرورت نہيں تھى _

۴_ غلات كى لگا تار كاشتكارى اور اسكى قحطى كے سالوں كے ليے ذخيرہ اندوزى كا منصوبہ صرف مصر كى حكومت كى حدود ميں انجام پايا_و جاء اخوة يوسف

۵_ مصر كى سرزمين حضرت يوسف كى مدبرانہ اور عالمانہ فكر اور دور انديشى سے قحط كے برے انجام سے نجات پاگئي _

و جاء اخوة يوسف

۶_ مصر ميں غلات و خوراك كے انبار و ذخيرہ كرنے كى خبر مصر اور اس كے اطراف كے شہروں تك پھيل گئي_

و جاء اخوة يوسف

۵۳۴

۷_ مصر و كنعان جغرافيائي اعتبار سے ايك ہى علاقے ميں تھے اورايك جيسى آب و ہوا ركھتےتھے_و جاء اخوة يوسف

۸_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانہ ميں قحط كے سات سالوں ميں مصر كے اطراف كے لوگ اپنے نان و نفقہ كے ليے مركز، مصر كى طرف رجوع كرتے تھے_و جاء اخوة يوسف و لما جهزهم بجهازهم

۹_ سوائے بنيامين كے حضرت يوسفعليه‌السلام كے بھائي كنعان سے مصر خورا ك مہيّا كرنے كى خاطر حضرت يوسفعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوئے_و جاء اخوة يوسف فدخلوا عليه

بعد والى آيت (ائتونى باخ لكم ) اپنے پدرى بھائي كو ميرے پاس لاؤ) يہ بتانا چاہتى ہے كہ يہاں ( اخوة ) سے مراد ،برادران يوسف ہيں اور بنيامين ان ميں نہيں تھا_ اوربعد والى آيت ( و لما جہزہم ...) كا جملہ يہ بتانا چاہتا ہے كہ ان كا مصر ميں آنے كا كيا مقصد تھا_

۱۰_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں كو ديكھتے ہى پہچان ليا حالانكہ كئي سال گذر چكے تھے_فدخلوا عليه فعرفهم

(فاء) جو ( فعرفہم ) ميں ہے اس بات كى حكايت كرتى ہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بغير كسى سوال و جواب اور چھان بين كے جونہى بھائيوں كو ديكھا تو انہيں پہچان ليا_

۱۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام سے لوگوں كى ملاقات حتى ان كيلئے جو مصر كے نہيں تھے بہت سہل و آسان تھي_

و جاء اخوة يوسف فدخلوا عليه

(فاء) جو (فدخلوا عليہ) ميں ہے اس بات كو بيان كرتى ہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام اور ان كے بھائيوں كے آنے كے بعد ان كى ملاقات ميں كوئي فاصلہ نہيں تھا اور (عرفہم ) كا جملہ بھى اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ كوئي نگہبان بھى نہيں تھا جو ملاقات كرنے والوں كے حسب و نسب كے بارے ميں سوال كرے اور حضرت يوسفعليه‌السلام كو اس كے بارے ميں خبر دے اور ان سے ملاقات كرنے كى اجازت طلب كرے اس سے يہ واضح ہوتا ہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام سے ملاقات كرنا آسان تھى حتى كہ ان لوگوں كے ليے بھى جو مصر كے رہنے والے نہيں تھے_

۱۲_ حكومت كے عہدہ داروں كو ايسا قانون بنانا چاہيے كہ لوگوں كى ان سے ملاقات آسانى سے ہو سكے_

و جاء اخوة يوسف فدخلوا عليه فعرفهم

۱۳_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى بھائيوں سے ملاقات كرنے كے دوران كسى نے بھى انہيں نہيں پہچانا_

فدخلوا عليه فعرفهم و هم له منكرون

۵۳۵

۱۴_ مصر كے عام لوگ، حضرت يوسفعليه‌السلام كا حسب و نسب نہيں جانتے تھے _فعرفهم و هم له منكرون

اگر مصر كے عام لوگوں كے درميان حضرت يوسفعليه‌السلام كا حسب و نسب اورقبيلہ و قوم واضح ہوتى تو يہ فطرى بات ہے كہ حضرت كے بھائيوں كے كانوں تك يہ بات پہنچ جاتى اور حضرت يوسف(ع) ان كے ليے ناشناختہ نہ رہ جاتے_

۱۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى اپنے بھائيوں كے ساتھ آخرى ملاقات اور بھائيوں كى اس ملاقات كے ما بين كم از كم بيس سال كا فاصلہ تھا_يرتع و يلعب و لمّا بلغ اشدّه فلبث فى السجن بضع سنين تزرعون سبع و جاء اخوة يوسف

اگر حضرت يوسفعليه‌السلام كى مصر ميں زندگى كى تحقيق جائے تو تقريباً ۲۰ بيس سال كاعرصہ معلوم ہوتا ہے كيونكہ بچپن كا زمانہ دس سال كا تھاجب قافلے والوں كے ہاتھ لگے_ اور جملہ ( يرتع و يلعب ...) اور ( اخاف ان ياكلہ الذئب) بھى اس بات پر دلالت كرتا ہے اور زليخا ہى كے گھرميں جوانى اور بلوغ كى عمر ميں پہنچے تھے ( لما بلغ اشدّة) اوريہ فاصلہ آٹھ سے دس سال كا ہوتا ہے اور (بضع سنين ) كا جملہ بتاتا ہے كہ تين سال سے كچھ زيادہ زندان ميں رہے اور زندان سے رہائي كے بعد سات سال تك وزارت كے عہدہ پر فائز رہے اور يہ فطرى و طبيعى بات ہے كہ قحط كے ايك سال بعد ہى حضرت سے بھائيوں كى ملاقات ہوئي تقريبا يہ فاصلہ بيس سال كا عرصہ بنتا ہے_

۱۶_عن ابى جعفر(عليه السلام) '' فعرفهم يوسف و لم يعرفه اخوته لهيبة الملك و عزّتة ...'' (۱)

امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپ(ع) فرماتے ہيں حضرت نے اپنے بھائيوں كو پہچان ليا ليكن ان كے بھائيوں نے ان كى شاہى ھيبت و عظمت و جلال كى وجہ سے انہيں نہيں پہچانا_

برادران يوسف :برادران يوسف اور حضرت يوسفعليه‌السلام ۹، ۱۶; برادران يوسف كى حضرت يوسفعليه‌السلام سے ملاقات ۱۰، ۱۳;برادران يوسف كے سفركرنے كا مقصد ۹

حكام :حكام سے لوگوں كى ملاقات ۱۲;حكام سے ملاقات كى سہولت ۱۲; حكام كى ذمہ دارى ۱۲

روايت: ۱۶

____________________

۱ )تفسير عياشى ، ج ۲ ، ص ۱۸۱، ح ۴۲; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۲۳۸، ح ۱۱۲_

۵۳۶

سرزمين :سرزمين كنعان حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں ۳; سرزمين كنعان كى آب و ہوا ۷;سرزمين كنعان كى جغرافيائي موقعيت ۷; سرزمين كنعان ميں قحط ۱

قديمى مصر :قديمى مصر حضرت يوسف كے زمانہ ميں ۸; قديمى مصر كى آب و ہوا ۷;قديمى مصر كى تاريخ ۴، ۵، ۶، ۸;قديمى مصر كى جغرافيائي حالت ۷; قديمى مصر كى حكومت كى حدود ۳;قديمى مصر كى قحط سے نجات ۵;قديمى مصر كى مركزيت ۸;قديمى مصر ميں زراعت ۴; قديمى مصر ميں غلات كو انبار كرنا ۴، ۶; قديمى مصر ميں قحط ۱، ۴

قديم مصر كے لوگ:قديم مصر كے لوگ اور حضرت يوسفعليه‌السلام كے اسلاف ۱۴

مصر كا بادشاہ :بادشاہ مصر كے خواب كى تعبير ۱

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام اور ان كے بھائي ۱۶; حضرت يوسفعليه‌السلام اور غلات كو انبار كرنا ۲;حضرت يوسف سے ملاقات كى سہولت ۱۱;حضرت يوسفعليه‌السلام كا شناخت كرنا ۱۶;حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۲، ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۳، ۱۵، ۱۶;حضرت يوسف كا كامياب ہونا ۲;حضرت يوسفعليه‌السلام كى پيشگوئي ۱;حضرت يوسف كى جدائي كى مدت ۱۵;حضرت يوسفعليه‌السلام كى دور انديشى كے آثار ۵; حضرت يوسفعليه‌السلام كے خوابوں كى تعبير كا صحيح ہونا ۱;حضرت يوسفعليه‌السلام كے عظمت و جلالت ۱۶

آیت ۵۹

( وَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ قَالَ ائْتُونِي بِأَخٍ لَّكُم مِّنْ أَبِيكُمْ أَلاَ تَرَوْنَ أَنِّي أُوفِي الْكَيْلَ وَأَنَاْ خَيْرُ الْمُنزِلِينَ )

پھر جب ان كا سامان كرديا تو ان سے كہا كہ تمھارا ايك ۳_ بھائي اور بھى ہے اسے بھى لے آئو كيا تم نہيں ديكھتے ہو كہ ميں سامان كى ناپ تول بھى برابر ركھتا ہوں اور مہمان نوازى بھى كرنے والا ہوں (۵۹)

۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام ،مصر ميں جمع كئے ہوئے غلات كي تقسيم پر خود نظارت كرتے تھے_

و جاء اخوة يوسف و لما جهزهم بجهازهم

۲_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں كى خوراك كے سامان اور غذائي مواد كو خود مرتب كيا_و لما جهزهم بجهازهم

(تجہيز) (جہز)كا مصدر ہے جومہيا كرنے اور آمادہ كرنے كے معنى ميں آتا ہے_ (جہاز) زاد و توشہ ہے(جہز) ميں فاعل كى ضمير حضرت يوسفعليه‌السلام كى طرف لوٹتى ہے

۵۳۷

پس جملہ(لما جہزہم ) كا معنى يہ ہوا كہ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں كے ساز و سامان اور زاد و توشہ كو آمادہ كيا _ البتہ يہ بھى احتمال ديا جاسكتا ہے كہ (جہز) كى ضمير حضرت يوسفعليه‌السلام كى طرف مجازاہو اس ليے كہ اكثر اوقات ايسا ہى ہوتا ہے كہ كام كرنے والوں كے كام كو كام كرانے اور حكم دينے والے كى طرف نسبت دى جاتى ہے_

۳_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے جب حضرت يوسفعليه‌السلام كے سامنے اپنى شناخت كرا رہے تھے اور اپنى تعداد كا بھى ذكر كيا تو ان كے سامنے انہوں نے اس بات كا بھى ذكر كيا كہ ايك ہمارا پدرى بھائي بھى ہے_

قال ائتونى بأخ لكم من ابيكم

۴_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے بھائي جب پہلى بار خورد و خوراك كے ليے حضرت يوسف(ع) كى خدمت ميں حاضر ہوئے تو ان كے ساتھ بنيامين نہيں تھے_قال ائتونى بأخ لكم من ابيكم

۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں نے اس حكم كى پابندى كرنے پر خود كو آمادہ كيا كہ اگلے سفر ميں بنيامين كو اپنے ہمراہ لائيں گے_قال ائتونى بأخ لكم من ابيكم

۶_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے افراد كى معين شدہ خوراك كو عادلانہ طور پر بغير كسى كمى كے دے ديا_الا ترون انى اوفى الكيل

(كيل) (تولنا) يہ مصدر ہے ليكن آيت شريفہ ميں اسم مفعول (مكيل) كے معنى ميں آيا ہے اور اس سے مراد،خوراك اور غلات ہيں _(ايفاء) ''اوفي'' كا مصدر ہے جسكا معنى كامل طور پر بغير كسى كمى و زيادى كے ادا كرنے كے ہے _(اوفى ) فعل مضارع كا فعل ماضى (وفيت) كى جگہ پر لانے كا مقصد يہ ہے كہحضرت يوسف(ع) ہميشہ تولنے ميں عادلانہ روش ركھتے تھے_

۷_ حضرت يوسفعليه‌السلام مہمانوں اور ان لوگوں كو جو خورد و خوراك اور اپنى معين شدہ خوراك حاصل كرنے كے ليے ان كى خدمت ميں حاضر ہوتے ان كى اچھى طرح سے مہمان نوازى كرتے تھے_الا ترون انا خير المنزلين

(نزول) طعام يا اس طرح كى چيزيں جو مہمانوں كے ليے مہيا كى جاتى ہيں كو كہا جاتا ہے اور (نزيل) مہمان كے معنى ميں ہے _(منزلين) اس آيت شريفہ ميں اسى سے ليا گيا ہے _ جو ميزبانوں اور مہمان نوازوں كے معنى ميں استعمال ہوا ہے _

۵۳۸

۸_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بھائيوں سے نيكى كى اور ان كے خورد و خوراك كے حصے كو كامل طور پر ادا كيا _

الا ترون انّى اوفى الكيل و انا خير المنزلين

۹_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں كو اپنى عدالت اور مہمانوں سے نيك سلوك كى طرف توجہ مبذول كرا كر انہيں بنيامين كو لانے كى ترغيب دلائي _ائتونى بأخ لكم من ابيكم الا ترون انى اوفى الكيل و انا خير المنزلين

(الا ترون ) كا جملہ ( كيا تم اس بات كى طرف متوجہ نہيں ہوتے ) جو ( ائتونى بأخ لكم ) كے بعد ذكر ہوا ہے حضرت يوسفعليه‌السلام كے مقصد كو بيان كرتا ہے جو بنيامين كو لانے كى ترغيب كى طرف اشارہ كرتا ہےكہ انہوں نے اپنے بھائيوں كو اپنى مہمان نوازى اور معاملہ ميں عادلانہ رويہ كو ذكركركے بيان كيا ہے_

۱۰_ بحرانى حالات اور اشياء كى كمى كى صورت ميں عدالت كرنا ،ايك نيك اور قابل قدر بات ہے _الا ترون انى اوفى الكيل

آيت شريفہ ۶۲ (اجعلوا بضاعتہم ) سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت يوسف ،(ع) افراد كے حصے كو اسكى قيمت كے مقابلے ميں ادا كرتے تھے اسى وجہ سے اسكو معاملے اور كا ر و بار سے ياد كيا گيا ہے _

۱۱_ مہمان نوازى ،اچھى اور قابل قدرخصلت اورعادت ہے_الا ترون انا خير المنزلين

۱۲_ حضرت يوسف(ع) نے اپنے بھائيوں كو يہ وعدہ ديا كہ اگر وہ بعد والے سفر ميں بنيامين كو ساتھ لائيں گے تو پھربھى انكى اچھى خدمت كى جائے گى _الا ترون اناخير المنزلين

اقتصاد :اقتصادى بحران ميں عدالت كرنا ۱۰

برادران يوسف(ع) :برادران يوسفعليه‌السلام اور حضرت يوسفعليه‌السلام ۳;برادران يوسفعليه‌السلام كا پہلا سفر ۴; برادران يوسف(ع) كا مال تجارت ۲;برادران يوسف(ع) كو وعدہ ۱۲; برادران يوسف(ع) كى تشويق كرنا ۹; برادران يوسف(ع) كى حضرت يوسفعليه‌السلام سے ملاقات ۵

بنيامين :بنيامين كا مصر سفر كرنا ۵;بنيامين كو لانے كى تشويق ۹

تجارت :تجارت ميں عدالت ۱۰

صفات :پسنديدہ صفات ۱۱

عمل:

۵۳۹

پسنديدہ عمل ۱۰

قابل قدر چيزيں :۱۱

مہمان نوازى :مہمان نوازى كى قدر و منزلت ۱۱

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسف(ع) اور ان كے بھائي ۲، ۸; حضرت يوسف(ع) اور بنيامين سے ملاقات ۹، ۱۲; حضرت يوسف(ع) اور غلات كى تقسيم ۱;حضرت يوسف(ع) كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، ۶، ۸، ۹، ۱۲; حضرت يوسف(ع) كى تشويقات ۹; حضرت يوسف(ع) كى عدالت ۶، ۸، ۹;حضرت يوسف(ع) كى مہمان نوازى ۷، ۸، ۹، ۱۲; حضرت يوسف(ع) كى نظارت ۱;حضرت يوسف(ع) كے فضائل ۶،۷،۸;حضرت يوسف(ع) كے وعدے ۱۲

آیت ۶۰

( فَإِن لَّمْ تَأْتُونِي بِهِ فَلاَ كَيْلَ لَكُمْ عِندِي وَلاَ تَقْرَبُونِ )

اب اگر اسے نے لے آئے تو آئندہ تمھيں بھى غلہ نہ دوں گا اور نہ ميرے پاس آنے پائو گے (۶۰)

۱_ حضرت يوسف(ع) نے قحط كے سالوں ميں لوگوں كى معين شدہ خوراك كو وقت معين ميں متعدد مرتبہ تحويل ميں ديا_

و لما جهزهم بجهازهم فان لم تاتونى به فلا كيل لكم

(كيل) يہاں اسم مفعول (مكيل) كے معنى ہے_ جو طعام اور غلات كے معنى ميں ہے_ غلّہ كو كيل سے اس وجہ سے تعبير كيا گيا ہے كيونكہ اس كو تحويل ديتے وقت پيمانہ كركے ديتے تھے_اور يہى چيز ان كى راشن بندى پر دلالت كرتى ہے _ اور يہ جملہ ( فان لم تأتونى بہ ...) (يعنى اگر تم بعد والے سفر ميں بنيامين كو ميرے پاس ساتھ نہ لائے) اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ غلّہ كو متعدد بار اور مخصوص زمان بندى ميں تحويل ديا گيا_

۲_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بھائيوں كے ذہن ميں يہ بات ڈال دى كہ خوراك كے بعد والے حصے كو صرف اس صورت ميں دريافت كرسكتے ہو جب تم بنيامين كو ساتھ لاؤ گے_فان لم تأتونى به فلاكيل لكم عندي

۳_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں كو يہ بتاديا كہ اگر دوسرى بار وہ بنيامين كو ساتھ نہ لائے تو ميرے ہاں نہ آئيں _

۵۴۰

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945

946

947

948

949

950

951

952

953

954

955

956

957

958

959

960

961

962

963

964

965

966

967

968

969

970

971