تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 4%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 213612 / ڈاؤنلوڈ: 4486
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۸

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

۱۸_ خداوند متعال پر توكل كرناضرورى ہے _الله ما على ما تقول وكيل

آل يعقوب :آل يعقوب ميں قسم اٹھانا ۱۰

احكام ۷ ،۸

اديان :اديان كى تعليمات ۱۱

اللہ تعالى :اللہ تعالى سے عہد و پيمان ۷ ،۱۱، ۱۳ ; اللہ تعالى كى وكالت ۱۴;اللہ تعالى كے عذاب سے ڈرانا ۱۵

برادران يوسف :برادران يوسف اور بنيامين ۱۳; برادران يوسف اور بنيامين كا سفر كرنا ۱; برادران يوسف كا عہد و پيمان ۲، ۱۳; برادران يوسف كا قسم اٹھانا ۲ ، ۱۳;برادران يوسف كو خبردار كرنا ۱۵;برادران يوسف كى ذمہ دارى كى حدود۳ ، ۵ ، ۶;برادران يوسف كى ضمانت ۲

بنيامين :بنيامين كى محافظت ۳ ، ۵ ، ۶، ۱۳;بنيامين كے سفر پر راضى ہونا ۲

توكل:اللہ تعالى پر توكل كرنے كى اہميت ۱۸

ذكر:اللہ تعالى كى گواہى كا ذكر ۱۷; اللہ تعالى كى نظارت كا ذكر ۱۷

سزا :سزا كے اسباب ۱۶

شرعى ذمہ داري:شرعى ذمہ دارى كو بجالانے كى قدرت۹

عہد :عہد كا اديان ميں ہونا ۱۱; عہد كو وفاء كرنے پر عاجز ہونا ۷ ،۸ ; عہد و پيمان سے وفاكى اہميت ۱۲ ،۱۷;عہد و پيمان كے احكام ۷ ، ۸ ، ۹ ، ۱۲ ; عہد و پيمان سے وفا كے شرائط ۹

عہدشكني:عہد شكنى كا گناہ ۱۶;عہدشكنى كى سزا ۱۵

قسم :اديان ميں قسم كا ہونا ۱۱; اللہ تعالى كى قسم اٹھانا ۱۱ ;اللہ تعالى كى قسم اٹھانے كى اہميت ۱۰ ;قسم اٹھانے كے احكام ۷ ، ۸ ،۹، ۱۱ ، ۱۲; قسم اٹھانے ميں استثناء ۷ ، ۸ ;قسم كو پورا كرنے سے عاجز ہونا ۷ ،۸ ; قسم كو پورا كرنے كى اہميت ۱۱ ، ۱۲ ، ۱۷ ; قسم كو پورا كرنے كے شرائط ۹ ;قسم كو توڑنے كا گنا ہ۱۶;قسم كو توڑنے كى سزا ء ۱۵

۵۶۱

يعقوبعليه‌السلام :حضرت يعقوبعليه‌السلام اور برادران يوسف ۳ ، ۶ ،۱۷ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام اور برادران يوسف كا عہد و پيمان ۱۴; حضرت يعقوبعليه‌السلام اور برادران يوسفعليه‌السلام كى اميديں ۱ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام اور بنيامين كا سفر ۱ ، ۲ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام اور بنيامين كى جدائي ۴; حضرت يعقوب(ع) كا خبردار كرنا ۱۵;حضرت يعقوبعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۳ ، ۵ ، ۶ ، ۱۴; حضرت يعقوبعليه‌السلام كا وكيل ۱۴; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى بنيامين سے محبت ۴;حضرت يعقوبعليه‌السلام كى توقعات ۵;حضرت يعقوبعليه‌السلام كى رضايت ۱ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى رضايت كے شرائط ۲ ; حضرت يعقوب كى نصيحتيں ۳ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كے پيش آنے كا طريقہ ۱۷; حضرت يعقوبعليه‌السلام كے تقاضے۶; حضرت يعقوبعليه‌السلام كے دين ميں قسم اٹھانا ۱۰ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كے رنج و الم كے اسباب ۴

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱۳

آیت ۶۷

( وَقَالَ يَا بَنِيَّ لاَ تَدْخُلُواْ مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُواْ مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ وَمَا أُغْنِي عَنكُم مِّنَ اللّهِ مِن شَيْءٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ )

اور پھر كہا كہ ميرے فرزند و ديكھو سب ايك دروازے سے داخل نہ ہونا اور متفرق دروازوں سے داخل ہونا كہ ميں خدا كى طرف سے آنى والى بلائوں ميں تمھارے كام نہيں آسكتا حكم صرف اللہ كے ہاتھ ميں ہے اور اسى پر ميرا اعتماد ہے اور اسى پر سارے توكل كرنے والوں كو بھروسہ كرنا چاہيئے (۶۷)

۱_ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں كو مصر كى طرف سفر كرنے كے سلسلہ ميں معارف الہى سے واقف كيا اور ان كو توحيد كے حقائق كى ياد دہانى اورتعليم فرمائي_قال يا بنى لا تدخلوا و عليه فليتوكل المتوكلون

۲_حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں مصر كے متعدد دروازے تھے_

لا تدخلوا من باب واحد و ادخلوا من أبواب

۵۶۲

متفرقه

۳ _ حضرت يوسفعليه‌السلام كے دربار ميں آنے جانے والوں كے ليے كئي دروازے تھے_

لا تدخلوا من باب واحد و ادخلوا من أبواب متفرقه

(ادخلوا) كے مفعول سے كيا مرادہے كيا مصر كا شہر ہے يا حضرت يوسفعليه‌السلام كا دربار ہے ؟ اس ميں دو نظريے ہيں مذكورہ معنى دوسرے احتمال كى صورت ميں ہے اور آيت شريفہ ۶۹ ميں ( لما تدخلوا ) كے جملے كا تكرار احتمال اول كى تائيد كرتاہے_

۴_حضرت يعقوبعليه‌السلام ، اپنے بيٹوں كے دوسرى بار مصر جانے ميں ان كيلئے ايك حادثہ محسوس كررہے تھے اور ان كے ليے ناگوار واقعہ پيش آنے سے پريشان تھے_لا تدخلوا من باب واحد ما اغنى عنكم من الله من شيء

۵_ حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹوں كے ليے مصر ميں داخل ہوتے وقت خطرہ كو محسوس كر رہے تھے_

لا تدخلوا من باب واحد ما اغنى عنكم من اللّه من شيء

۶_ حضرت يعقوبعليه‌السلام ، بنيامين كے ليے مصر كے سفر ميں ناگوار حادثہ پيش آنے كا احتمال دے رہے تھے_

لا تدخلوا من باب واحد ما اغنى عنكم من الله من شيء

حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹوں كے ليے نہ پہلے سفر ميں اور نہ ہى تيسرے سفر ميں كسى پريشانى كو محسو س نہيں كررہے تھے كيونكہ بنيامين ان كے ہمراہ نہيں تھے (اذهبوا فتحسوا من يوسف و اخيه آيت ۸۷) اور انہوں نے كوئي خاص تاكيد بھى نہيں كى اس سے معلوم ہوتاہے كہ اس سفر ميں بنيامين كے ليے كوئي خطر كو محسوس كررہے تھے_

۷_ حضرت يعقوبعليه‌السلام ،نے اپنے بيٹوں كو مصر كى طرف عازم سفر ہونے كے دوران تاكيد كى كہ جب اس شہر ميں داخل ہوں تو ايك دروزے سے داخل نہ ہونا بلكہ مختلف دروازوں سے داخل ہوں _

يا بنى لا تدخلوا من باب واحد و ادخلوا من ابواب متفرقه

۸_حضرت يعقوبعليه‌السلام جو خطرہ محسوس كررہے تھے اس سے محفوظ رہنے كے ليے وہ اپنے بيٹوں ، كى مختلف دروازوں سے داخل ہونے ميں نجات سمجھتے تھے_و ادخلوا من ابواب متفرقة و ما اغنى عنكم من اللّه من شيء

۹_ حضرت يعقوبعليه‌السلام اس بات سے پريشان تھے كہ اگر ميرے بيٹے مصر كے ايك دروازے سے داخل ہوں گے تو وہ نظر بد اور حسادت كا شكار ہوجائيں گے_لا تدخلوا من باب واحد و ما اغنى عنكم من اللّه من شيء

۵۶۳

آيت شريفہ ميں يہ بيان نہيں ہوا كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹوں يا بنيامين كے ليے كس خطرے كا احساس كررہے تھے ليكن اكثر مفسرّين نے يہ خيال ظاہر كيا ہے كہ انہوں نے ان كو مختلف دروازوں سے داخل ہونے كا حكم ديا تھا اس سے اندازہ ہوتاہے كہ وہ نظر بد يا اس كى مانند دوسرى جيسى چيزوں سے ہراساں تھے_

۱۰_ اپنے بچوں كى سلامتى كے ليے سوچنا اور اس كے ليے راستے كو اختيار كرنا ضرورى ہے_يا بنى لا تدخلوا من باب واحد

۱۱_ كوئي شخص ، كوئي شے اور كوئي منصوبہ، خداوند متعال كى تقدير و مشيت اور احكام تكوينى كے سامنے ركاوٹ نہيں بن سكتا ہے_ما اغنى عنكم من الله من شيء ان الحكم الا الله (اغناء) (مصدر اغنى ) ہے اور يہ غنا سے ہے _ جو كفايت كرنے اور منع كرنے كے معنى ميں آتاہے (لسان العرب) ( من شيء) كا جملہ ( ما اغني) كے ليے مفعول اور ( من اللہ) حال ہے (شيء) كے ليے اس صورت ميں (ما اغنى عنكم ...) كا معنى يوں ہوگا كہ ميں اپنے ذہن اور منصوبے سے اس (بلا و مصيبت ) كہ جو خداوند متعال كى طرف سے (مقدر) ہے اسے نہيں روك سكتااور، اس سے كفايت نہيں كرسكتاہوں _

۱۲ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى طرف سے اپنے بيٹوں كى تعليمات ميں سے يہ تھا كہ خداوند متعال كى كائنات ہستى پر حاكميت ہے اور خداوند متعال كى ذات پر توكل كرنا اور توكل كرنے اور اسباب و علل كے مہيا كرنے ميں كوئي منافات نہيں ہے _

و ادخلوا من ابواب متفرقه و ما اغنى عنكم من الله من شيء

۱۳_تمام كائنات ہستى اور علل و اسباب پر خداوند متعال كى حاكميت اور تمام چيزيں حكم و تقدير الہى كے سامنے تسليم خم ہيں _وادخلوا من ابواب متفرقه و ما اغنى عنكم من الله من شيء ان الحكم الا الله

۱۴_انسان كے ليے اسباب كى تلاش، خداوند عالم كى حاكميت مطلق سے غفلت كا سبب نہيں بننى چاہيے _ادخلوا من ابواب متفرقه و ما اغنى عنكم من الله من شيء الا الحكم الا الله حضرت يعقوبعليه‌السلام ، اپنے بيٹوں كيلئے ناگوار حادثے سے بچانے كى تدبير ذكركرنے كے بعد اس بات كو بيان فرماتے ہيں كہ اس كے باوجود بھى ہم مقدرات الہى سے دامن نہيں بچاسكتے كيونكہ حكم و فرمان فقط اس ذات خداوند ى كے ساتھ مخصوص ہے _البتہ اس بات كى طرف توجہ ضرورى ہے كہ تمام علل و اسباب اسكى مشيت اور حكومت كے دائرے ميں عمل كرتے ہيں _

۱۵_ خداوند متعال پر توكل اور اللہ تعالى كى حاكميت مطلق پر اعتقاد ركھنا اس بات كا سبب نہيں بننا چاہيے كہ اسباب و علل طبيعى كو ترك كرديا جائے_ادخلوا من ابواب متفرقة ان الحكم الا الله

۵۶۴

على توكلت

حضرت يعقوبعليه‌السلام كے خداوند متعال پر توكل كرنے (عليہ توكلت) انہيں اسباب كى تلاش و كوشش سے نہيں روكا (لا تدخلوا من باب واحد) يہ درس تمام لوگوں كے ليے ہے_يہ بات نہيں كہ فقط اسباب كو جمع كرنے كى كوشش توكل الہى سے منافات ركھتى ہے بلكہ اسباب و علل كو فراہم كيا جائے اور خداوند متعال پر بھى توكل كيا جائے_

۱۶_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى توحيد، خداوند متعال پر توكل كرنا تھا_عليه توكلت

(عليہ )كا لفظ (توكلت) پر مقدم ہونا، اس كا فائدہ دے رہا ہے_

۱۷_فقط خداوند متعال كى كائنات ہستى پر حاكميت توكل كا موجب اور اس كے غير پر بھروسہ نہ كرنے كا سبب ہے _

ان الحكم الا الله عليه توكلت و عليه فليتوكل المتوكلون

(إن الحكم الا اللہ) كى تفريع ( عليہ فليتوكل) فاء كے ذريعے بيان ہونا مذكورہ بالا معنى كو بتاتى ہے _

۱۸_ فقط خداوند متعال ہى اس كے لائق ہے كہ اس پر توكل اور بھروسہ كيا جائے_و عليه فليتوكل المتوكلون

(المتوكلون) توكل كا ارادہ كرنے والے سے مراد يا تو وہ لوگ ہيں جو غير خدا پر توكل كرتے ہيں پس اس صورت ميں (و عليہ فليتوكل المتوكلون) كا معنى يوں ہوگا كہ وہ جو توكل كرنا چاہتے ہيں ان كو چاہيے كہ فقط خداوند متعال پر توكل كريں يا وہ لو گ جو غير خدا پر توكل كرتے ہيں ( تو غير اللہ سے اميد كو توڑ ديں ) فقط خداوند متعال پر توكل كريں _

۱۹_تمام امور ميں خداوند متعال پر توكل كرنے كى ضرورت ہے _عليه فليتوكل المتوكلون

(فليتوكل) كے متعلق كو حذف كرنا اور اس بات كو بيان نہ كرنا كہ كس ميں يا كن چيزوں پر توكل كيا جائے اس بات كو بتاتاہے كہ اسكا متعلق عام ہے جو (تمام امور) كو شامل ہے _

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى تقدير كا حتمى ہونا ۱۱ ، ۱۳; اللہ تعالى كى حاكميت ۱۲ ، ۱۳; اللہ تعالى كى حاكميت كى اہميت ۱۴; اللہ تعالى كى خصوصيات ۱۳،۱۷،۱۸; اللہ تعالى كے اوامر كا حتمى ہونا ۱۱; اللہ تعالى كى قدرت ۱۱; اللہ تعالى كى مشيت كا حتمى ہونا ۱۱

انسان :انسانوں كا عجز۱۱

ايمان :ايمان كے آثار ۱۷; اللہ تعالى كى حاكميت پر ايمان ۱۷

۵۶۵

برادران يوسف :برادران يوسف كو تاكيد و نصيحت كرنا ۷; برادران يوسف كا دوسرى بار مصر كى طرف سفر كرنا۴ ،۷; برادران يوسف كا مصر ميں داخل ہونا ۵ ، ۸ ; برادران يوسف كے ساتھ حسد كرنا ۹; برادران يوسف كے ليے نظربد كا ہونا ۹

توحيد :توحيد افعالى ۱۳ ،۱۷; توحيد كى تعليم ۱۰

توكل:اللہ تعالى اور مادى اسباب ۱۲ ، ۱۵; اللہ تعالى پر توكل ۱۲ ، ۱۵، ۱۶،۱۸; اللہ تعالى پر توكل كى اہميت ۱۹; اللہ تعالى پر توكل كے اسباب ۱۷ ; غير اللہ پر توكل كرنے كا ممنوع ہونا ۱۷

دين :دين كى تبليغ ۱

عقيدہ :اللہ تعالى كى حاكميت كا عقيدہ۱۵

عواطف:پدرى عواطف ۴

غفلت :اللہ تعالى سے غفلت كے اسباب ۱۴

فرزند:فرزند كى سلامتى كى اہميت ۱۰

مادى اسباب :مادى اسباب اور غفلت ۱۴; مادى اسباب كے كردار كى اہميت ۱۵;مادى اسباب كا خدا كى قدرت ميں ہونا ۱۳

مصر قديم :مصر قديم كى تاريخ ۲; مصر قديم كے متعدد دروازے ۲; مصرد قديم ميں شہر كى تعمير و ترقى ۲

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات۱۳،۱۸; نظريہ كائنات اور ايڈيالوجي۱۷

يعقوبعليه‌السلام :حضرت يعقوب اور برادران يوسف ۱ ، ۱۲; حضرت يعقوبعليه‌السلام اور بنيامين كا فر كرنا۶ ; حضرت يعقو بعليه‌السلام كا توكل ۱۶ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۴ ، ۵ ، ۶ ،۷; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى پريشانى ۴ ، ۵ ،۶ ، ۸; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى پريشانى كا فلسفہ ۹ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى دور انديشى ۴ ، ۵ ، ۶،۸ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى تبليغ ۱; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى تعليمات ۱ ، ۱۲ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى توحيد ۱۶; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى نصيحتيں ۷

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۴ ، ۵ ، ۶ ،۷،۸; حضرت يوسفعليه‌السلام كے محل كى خصوصيات ۳; حضرت يوسفعليه‌السلام كے محل كے متعدد دروازے ۳

۵۶۶

آیت ۶۸

( وَلَمَّا دَخَلُواْ مِنْ حَيْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُم مَّا كَانَ يُغْنِي عَنْهُم مِّنَ اللّهِ مِن شَيْءٍ إِلاَّ حَاجَةً فِي نَفْسِ يَعْقُوبَ قَضَاهَا وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ )

اور جب وہ لوگ اسى طرح داخل ہوئے جس طرح ان كے والد نے كہا تھا اگر چہ وہ خدائي بلا كو ٹال نہيں سكتے تھے ليكن يہ ايك خواہش ٹہى جو يعقوب كے دل ميں پيدا ہوئي جسے انھوں نے پورا كرليا اور وہ ہمارے دئے ہوئے علم كى بنا پر صاحب علم بھى تھے اگر چہ اكثر لوگ اس حقيقت سے بھى نا واقف ہيں (۶۸)

۱ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے دوسرى بار مصر ميں داخل ہوئے_

و جاء اخوة يوسف و لما دخلوا من حيث امرهم ابوهم

۲ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے حضرتعليه‌السلام كے فرمان كے مطابق مصر ميں داخل ہونے سے پہلے متفرق اور اس شہر كے مختلف دروازوں سے داخل ہوئے_و ادخلوا من أبواب متفرقة و لما دخلوا من حيث امرهم ابوهم

(حيث ) اسم مكان ہے جو جگہ اور مكان كے معنى ميں آياہے_

۳_حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے اپنے باپ كى اطاعت كي_و لما دخلوا من حيث امرهم ابوهم

۴_ والدين كے فرمان پر كان دھرنا، اولاد كى ذمہ داريوں اور معاشرت و زندگى كے آداب ميں سے ہے _

و لما دخلوا من حيث امرهم ابوهم

۵_ خداوند متعال، فرزندان يعقوبعليه‌السلام كے ليے مصر ميں ناگوار و اقعہ كو مقدر بناچكا تھا_

ما كان يغنى عنهم من اللّه من شيء

اس سے پہلى آيت كے شمارہ ۱۱ كے ذيل ( ما كان يغني ...) ميں جو ذكر ہوا ہے _ اس سے مذكورہ بات معلوم ہوتى ہے _

۶_حضرت يعقوبعليه‌السلام كيتدبير ( كہ ان كے بيٹے مختلف دروازوں سے مصر ميں داخل ہوں ) خداوند متعال نے ان كے ليے جو كچھ مقدر ميں لكھا تھا اس كو نہ روك سكي_ما كان يغنى عنهم من اللّه من شيء

(يغني) ميں ضمير حضرت يعقوبعليه‌السلام كى طرف يا ان كے منصوبے كى طرف جو جملہ (ادخلوا من ابواب متفرقہ) سے معلوم ہوتاہے لوٹتى ہے بہرحال دو احتمال ايك ہى معنى ميں ہيں _

۵۶۷

۷_تقدير و مشيت الہي، بندگان الہى كى تدبير پر حاكم ہے _و لما دخلوا من حيث امرهم ابوهم ما كان يغنى عنهم من الله من شيء

۸_حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اپنے بيٹوں كو يہ نصيحت ( كہ مصر ميں داخل ہونے كے ليے مختلف دروازوں كو اختيار كرنا ) سوائے اپنے بيٹوں كى سلامتى كے كوئي اور اثر نہيں ركھتى تھي_ما كان يغنى عنهم من الله من شيء الا حاجة فى نفس يعقوب قضيه

(الا حاجة ...) عبارت ميں يہ استثناء منقطع ہے ليكن ظاہر يہ ہے كہ (قضاہا) ميں جو فاعل كى ضمير ہے وہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى طرف لوٹتى ہے _ اس صورت ميں ( ما كان يغني الا حاجة فى نفسى يعقوب قضاہا) اس آيت كا معنى يہ ہوگا كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كا منصوبہ، خداوند متعال كى تقدير ميں كوئي اثر نہ كرسكا ، ليكن حضرت يعقوبعليه‌السلام جو كچھ چاہتے تھے انہوں نے اپنے دستور ( ادخلوا من ابواب متفرقہ ) سے اس كو عملى جامہ پہنايا_ پس انكى خواہش (حاجة) اپنى ذمہ دارى كو بجالانا تھا اور وہ اپنے بيٹوں كى راہنمائي تھى كہ احتمالى خطرہ سے ان كو نجات دلوانا تھي_

۹_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كا اپنے بيٹوں كو يہ فرمان دينا كہ وہ مختلف دروازوں سے داخل ہوں سوائے اپنى ذمہ دارى (خطرے سے بچنے كا منصوبہ ) كے انجام دينے كے سواء اور كچھ نہيں تھا_

ما كا ن يغنى عنهم من الله من شيء الا حاجة فى نفس يعقوب قضيه

حضرت يعقوبعليه‌السلام اس اعتقاد كے ساتھ كہ ميرے بيٹوں كى سلامتى پر خداوند متعال كا ارادہ حاكم ہے اور يہ سب اسى كے ہاتھ ميں اور اس كے اختيار سے خارج نہيں ہے ليكن انكى يہ توجہ كہ مشيت الہى كے ساتھ اسباب و علل كى تلاش و كوشش كرنا بھى ضرورى ہے اس چارہ انديشى يہ اسے آمادہ كيا ليكن نتيجہ خدا پرچھوڑ ديا تھا_ اسى وجہ سے حضرت (ع)

۵۶۸

كى خواہش اور حاجت اپنى ذمہ دارى كو جو بيٹوں كى راہنما ئي تھى انجام دينے كے علاوہ اور كچھ نہيں تھي_

۱۰_ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں كى سلامتى برقرار ركھنےكے سلسلہ ميں ذمہ دارى كو انجام ديا _

الا حاجة فى نفس يعقوب قضيه

۱۱ _ والدين كو چاہيے كہ اپنى اولاد كى سلامتى كے ليے كوشش كريں _الا حاجة فى نفس يعقوب قضيه

۱۲ _ خداوند متعال نے حضرت يعقوبعليه‌السلام كى خواہش (كہ ان كے بيٹے) متعدد دروازوں سے داخل ہوں )كو پورا كيا _

الا حاجة فى نفس يعقوب قضيه

مذكورہ معنى اس صورت ميں ہے كہ (قضاہا) كے فاعل كى ضمير اللہ تعالى كى طرف لوٹے اس صورت ميں ( و لما دخلوا) سے (قضاہا) تك كا معنى يہ ہوگا اگر چہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى نصيحتيں مؤثر نہيں ہوئيں ليكن خداوند متعال نے ان كى خواہش و آرزو كو پورا كيا _

۱۳ _ فرزندان يعقوبعليه‌السلام كا اپنے باپ كى اطاعت كرتے ہوئے متعدد دروازوں سے داخل ہونا، توفيق الہى تھا_

و لمادخلوا من حيث امرهم ابوهم الا حاجة فى نفس يعقوب قضيه

ايك لحاظ سے حضرت يعقوبعليه‌السلام كى آرزو كا پورا ہونا ( كہ بيٹے مختلف دروازوں سے داخل ہوں ) (و لما دخلوا من حيث امرہم) كو ان طرف نسبت دى گئي ہے اور دوسرى طرف يہ بيان ہوا ہے كہ خداوند عالم نے ان كى خواہش كو پورا كيا_

ان دو بيانات سے ظاہر ہوتاہے كہ ارادہ الہى اور اسكى توفيق سبب بنى كہ فرزندان يعقوبعليه‌السلام اس كے انجام دينے ميں كامياب ہوئے جو ان كے والد گرامى چاہتے تھے_

۱۴ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام خاص علم كے حامل تھے_و إنه لذو علم لما علمناه

( علم ) كے لفظ كا نكرہ لانا، اسكى خصوصيت كو بتاتاہے_

۱۵_ خداوند متعال، حضرت يعقوبعليه‌السلام كو علم خاص سكھانے والا اور عطا كرنے والا ہے _و انه لذو علم علمناه

(لام ) كا حرف (لما علمناہ) ميں تعليل كے ليے ہے اور اسميں (ما) مصدريہ ہے _

۱۶_ اسباب و علل پر اللہ تعالى كے ارادہ كا حاكم ہونا،خداوند تعالى كى حضرت يعقوبعليه‌السلام كو تعليمات تھيں _

ادخلوا من أبواب متفرقة و ما اغنى عنكم من الله من شيء و انه ذو علم لما علمناه

۵۶۹

۱۷_ زندگى كے امور ميں تدبير اور منصوبہ بندى سے كام لينا، ارادہ الہى كے حاكم ہونے كے ساتھ منافات نہيں ركھتا يہ ايك ايسى بات تھى جو خداوند عالم نے حضرت يعقوب(ع) كو تعليم دى تھي_

و ادخلوا من ابواب متفرقة و ما اغنى عنكم من الله من شيء انه لذو علم علمناه

۱۸_حضرت يعقوبعليه‌السلام كا اپنے بيٹوں كو يہ نصيحتيں (خداوندن متعال پر توكل كرنا اور اسكو اسباب و علل ميں بروكار لانا) اس كے خاص علم كا جلوہ تھيں _ادخلوا من ابواب متفرقه و عليه فليتوكل المتوكلون إنه لذو علم لما علمناه

۱۹_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كا بيٹوں كے مصر ميں دوسرى بار جانے پر پيش بينى اور خطرے كا احساس كرنا اس خصوصى علم كا جلوہ تھا جو حضرتعليه‌السلام كے پاس تھا_لاتدخلوا من باب واحد انه لذو علم لما علمناه

۲۰_ اللہ كے ارادہ كى حاكميت اور نظام علل و اسباب كے درميان ارتباط كو كشف كرنے كے ليے خصوصى علم جو بلند مرتبے والا ہو تو بس اسى كا كام ہے _ادخلوا من ابواب متفرقة و ما أغنى عنكم من الله من شيء و إنه ذو علم لما علمناه

۲۱_ اكثر لوگ اسباب و علل پر آنكھ جمائے ہوئے ہيں اور ارادہ الہى كى حاكميت اور توكل الہى كے ضرورى ہونے سے ناواقف ہيں _و لكن اكثر الناس لا يعلمون

اسباب و علل كا نظام:اسباب و علل كا نظام اور حاكميت الہى ۲۰

اطاعت:حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اطاعت ۲ ، ۳ ، ۱۳;والد كى اطاعت ۴

اكثريت:اكثريت كى جہالت ۲۱

اللہ تعالى :ارادہ الہى اور امور ميں نظم و ترتيب ۱۷; ارادہ الہى اور مادى اسباب ۱۶;ارادہ الہى كى حاكميت ۱۶ ، ۲۱ ; اللہ تعالى كى تعليمات ۱۵،۱۶،۱۷; اللہ تعالى كى توفيقات ۱۳; اللہ تعالى كى عطايا ۱۵; مشيت الہى كى حاكميت ۷;مقدرات الہى ۵; مقدرات الہى كى حاكميت ۷ ; مقدرات الہى كا حتمى ہونا ۶

انسان :انسانوں كا عاجز ہونا ۷

برادران يوسف :برادران يوسف اور يعقوبعليه‌السلام ۲ ، ۳ ، ۱۳; برادران يوسف كا دو سرا سفر ۱ ، ۱۹ ; برادران يوسف كا مصر

۵۷۰

ميں داخل ہونا ۱ ، ۲ ، ۶ ، ۱۲ ، ۱۳; برادران يوسف كو نصيحتيں كرنا ۷ ، ۸ ،۱۸ ; برادران يوسف كى اطاعت ۲ ، ۳ ، ۱۳; برادران يوسف كى توفيق ۱۳; برادران يوسف كى سلامتى ۸ ; برادران يوسف كے ليے ناگوار حادثہ ۵ ،۶

توكل:اللہ تعالى پر توكل اور مادى وسائل ۱۸; اللہ تعالى پر توكل كرنے كى اہميت ۲۱

شفقت:پدرى شفقت ۸ ، ۱۰

علم :بہترين علم

فرزند:فرزند كى ذمہ دارى ۴; فرزند كى سلامتى كى ذمہ دارى ۱۱

قديم مصر:قديم مصر كے دروازے ۲ ، ۱۲ ، ۱۳

مادى اسباب:مادى اسباب كا كردار ۲۱

معاشرت :معاشرت كے آداب ۴

يعقوبعليه‌السلام :حضرت يعقوب(ع) اور اولاد ۱۹; حضرت يعقوبعليه‌السلام اور اولاد كى سلامتى ۱۰; حضرت يعقوبعليه‌السلام كا توكل پر اعتماد ۱۸; حضرت يعقوبعليه‌السلام كا دينى ذمہ دارى پر عمل كرنا ۹; حضرت يعقوبعليه‌السلام كا علم لدنى ۱۵ ، ۱۷; حضرت يعقوبعليه‌السلام كا قصہ ۱۰; حضرت يعقوبعليه‌السلام كا معلم ۱۵ ، ۱۶; حضرت يعقوبعليه‌السلام كا منصوبہ ۶ ، ۱۰ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى دعا كا قبول ہونا ۱۲; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى دور انديشى ۱۹ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى نصيحتوں كا فلسفہ ۹ ;حضرت يعقوبعليه‌السلام كى نصيحتوں كے آثار ۸ ; حضرت يعقوب(ع) كى نصيحتيں ۱۸ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كے فضائل ۱۴ ، ۱۹

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۶ ، ۸

۵۷۱

آیت ۶۹

( وَلَمَّا دَخَلُواْ عَلَى يُوسُفَ آوَى إِلَيْهِ أَخَاهُ قَالَ إِنِّي أَنَاْ أَخُوكَ فَلاَ تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ )

اور جب وہ لوگ يوسف كے سامنے حاضر ہوئے تو انھوں نے اپنے بھائي كو اپنے پاس پناہ دى اور كہا كہ ميں تمھارا بھائي ''يوسف''ہوں لہذا جو برتائو يہ لوگ كرتے رہے ہيں اب اس كى طرف سے رنج نہ كرنا(۶۹)

۱ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اولاد، بنيامين كے ہمراہ حضرت يوسفعليه‌السلام كے مكان پر آئے اور حضرتعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوئے_و لما دخلوا على يوسف ء اوى اليه اخاه

۲ _ حضرت يوسف(ع) نے اپنے بھائيوں كى ملاقات ميں بنيامين كو نزديك بلاكر اپنے پاس بٹھايا _

و لما دخلوا اؤى اليه اخاه

۳ _ حضرت يوسفعليه‌السلام جب بھائيوں سے دورہوكر بنيامين كےساتھ اكيلے بيٹھے ہوئے تھے تو انہوں نے اپنى كى شناخت كرائي _قال إنى انا اخوك

مذكورہ اور بعد والى آيات سے معلوم ہوتاہے كہ يوسفعليه‌السلام اس سے پرہيز كرتے تھے كہ ميرے بھائي مجھے پہچان ليں اسى وجہ سے اپنے بھائيوں سے چھپ كر بنيامين كو اپنى شناخت كروائي _ جملہ (قال ...) كا پہلے والے جملے سے فاصلہ اس بات كى طرف اشارہ كرتاہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام كى (بنيامين ) سے گفتگو اس جگہ پر تھى جہاں ان كے بھائي موجود نہيں تھے_

۴_ بنيامين كو يہ يقين نہيں تھا كہ وہ بھائي ( يوسف)جو گم ہوگيا ہے وہ عزيز مصر ہو_إنى أنا أخوك

جملہ (إنّى أنا اخوك) كو اسميہ لانے كے ساتھ حرف تاكيد (إن) كے ساتھ ذكر كرنا اور (أنا) مميز كا لانا س بات كو بتاتاہے كہ بنيامين اس ميں شك و ترديد ركھتے تھے كہ اسكا بھائي عزيز مصر ہوسكتاہے_

۵۷۲

۵ _ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں كے ساتھ جو واقعات (كنعان كے كنويں ميں انہيں ركھنے و غيرہ ...) گزرے تھے بنيامين كو بتائے_قال إنى أنا اخوك فلا قبتئس بما كانوا يعملون

(كانوا ) اور (يعملون ) كى ضمير برادران يوسف كى طرف لوٹتى ہے جملہ (إنى أنا اخوك) كے بعد ( لا تبتئش) (غمگين نہ ہو افسوس نہ كرو) ذكر كرنا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ اپنى شناخت كروانے كے بعد كنعان كے كنويں كا واقعہ بنيامين كے ليے بيان كيا وگرنہ صرف اپنى شناخت كرانے سے تو بنيامين كا غم زدہ ہونا اور پريشان ہونا معنى نہيں ركھتا_

۶_بنيامين ، حضرت يوسفعليه‌السلام كے گم ہونے والے واقعہ كے سلسلہ ميں اپنے بھائيوں كے كردار سے غم زدہ اور متأسف ہوئے_فلا تبتش بما كانوا يعملون

۷_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائي بنيامين سے درخواست كى كہ بھائيوں كے گذشتہ برے سلوك كو بھول جائيں اور فراموش كرديں تا كہ اس غم كو دوبارہ دل ميں نہ لائيں _فلاتبتئش بما كانوا يعملون

۸_ حضرت يوسفعليه‌السلام ،بنيامين كى راز دارى پر اطمينان ركھتے تھے_إنى أنا اخوك

۹_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى نيك خصلتوں ميں سے بزرگوارى كرنا ، كينہ ركھنے سے دورى كرنا اور قدرت ركھتے ہوئے انتقام نہ لينا تھيں _

۱۰_ عزيز مصر كے مقام پر فائز حضرت يوسفعليه‌السلام كى اپنے بھائي بنيامين كے ساتھ ملاقاتسبب تھى كہ اپنے بھائيوں كى گذشتہ بدرفتارى كى وجہ سے جو ان كے درميان تلخياں آگئيں تھيں ان كو دل سے نكال ديا جائے_

إنى انا اخوك فلا تبتش بما كانوا يعملون

(فلا تبتش ...) كے جملہ ميں فاتفريع جو (انى أنا اخوك ) كى وضاحت كرتى ہے _ اس دليل كو بيان كرتى ہے كہ اپنے بھائيوں كى گذشتہ بدرفتارى كے غم و غصے كو دل سے نكال ديا ہے _ يعنى حضرت يوسف(ع) اس فاتفريع كے ذريعے اس بات كو بيان كر رہے ہيں كہ اگر چہ ان كى بدرفتارى كى وجہ سے جتنى مشكلات ميں نے اٹھائي ہيں اسى كے صدقے ميں اس مقام و مرتبے تك پہنچا ہوں پس اسى وجہ سے نہ ميں اور نہ ہى تم ان كے برے كاموں سے محزون و غمگين نہ ہوں _

برادران يوسف:برادران يوسف كى حضرت يوسف(ع)سے ملاقات ۱; برادران يوسف كى گذشتہ بدرفتارى كا فراموش كرنا ۷//بنيامين :بنيامين اور برادران يوسف كے پيش آنے كا

۵۷۳

طريقہ ۶; بنيامين اور حضرت يوسفعليه‌السلام ۴; بنيامين اور حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۶ ; بنيامين اور غم زدہ ہونا ۷ ; بنيامين كا شك ۴; بنيامين كا غم زدہ ہونا ۶; بنيامين كو دعوت دينا ۲ ; بنيامين كى حضرت يوسفعليه‌السلام سے ملاقات ۱ ، ۳ ۵; بنيامين كى رازدارى ۴ ; بنيامين كے دكھ درد كے دور ہونے كے اسباب ۱۰

عفو:قدرت ركھتے وقت معافى دينا ۹//محبت :بھائي كى محبت ۲

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام اور بنيامين ۲ ، ۷ ; حضرت يوسفعليه‌السلام اور كينہ ركھنا ۹ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا اطمينان ۸ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا بنيامين كو اپنى شناخت كروانا ۳ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا سزا و بدرى سے دور ركھنا ۹ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا عزيز مصر ہونا ۱۰ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۳ ، ۴ ، ۵ ، ۶،۷ ، ۱۰ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كى بنيامين سے ملاقات كے آثار ۱۰ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كى تمنائيں ۷ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كى جوانمردى ۹ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كى دعوت ۲ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كے دكھ و درد كے دور ہونے كے اسباب ۱۰ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۹

آیت ۷۰

( فَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ )

اس كے بعد جب يوسف نے ان كا سامان تيار كراديا تو پيالہ كو اپنے بھائي كے سامان ميں ركھو اديا ۱_اس كے بعد منادى نے آواز دى كہ قافلے والو تم سب چور ہو(۷۰)

۱ _ حضرت يوسفعليه‌السلام كا بنيامين كو اپنے پاس ركھنے كا منصوبہ_فلما جهزهم بجهازهم جعل السقاية فى رحل أخيه

۲ _حضرت يوسفعليه‌السلام نے بذات خود اپنے بھائيوں كے سامان كو مہيا و آمادہ كيا _فلما جهزهم بجهازهم

۳ _ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں كے سامان كو تيار كرتے وقت اپنے پانى پينے كے مخصوص برتن كو بنيامين كے سامان ميں چھپاديا_فلما جهزهم بحهازهم جعل السقاية فى رحل اخيه

(سقاية) اس برتن كو كہا جاتاہے جو پانى پينے كے ليے استعمال ہوتاہے ( ال ) معرفہ كا جو اس پر داخل ہوا ہے _ اس سے معلوم ہوتاہے كہ وہ مخصوص برتن تھا_

۴_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين بنيامين كو واپس جانے سے روكنے كے منصوبے ( بنيامين كے سامان ميں برتن كو چھپا دينا ) سے ناواقف تھے_جعل السقاية فى رحل اخيه ثم أذن مؤذن

۵۷۴

كيونكہ اگر حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين اس منصوبے سے آگاہ ہوتے تو وہ فرزندان يعقوب كو واضح طور پر اورتاكيد كركے چور نہ كہتے ( إنكم لسارقون) اس سے معلوم ہوا كہ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بذات خود بنيامين كے سامان ميں پيالہ ركھ ديا تھا_اور وہ چاہتے تھے كہ دوسروں كو اس منصوبے كا علم نہ ہو _

۵ _ حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين جب پانى پينے كے مخصوص پيالے كو تلاش نہ كرسكے تو فرزندان يعقوب پر چورى كى تہمت لگائي_جعل السقاية فى رحل اخيه ثم اذّن مؤذن ايتها العير إنكم لسارقون

۶_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين ميں سے ايك نے فرزندان يعقوب كے قافلے كو مخاطب ہوكر ان چورى كى تہمت لگائي_ثم اذّن مؤذن ايتها العيرء انكم لسارقون

(مير) قافلے كے تمام افراد اور ان اونٹوں كو كہا جاتاہے جو ان كے سامان كو اٹھاتے ہيں يہ بھى كہا گيا ہے كہ فارسى زبان ميں يہ كلمہ كاروان اور قافلے كے مترادف ہے اور (تاذين) (اذن) كامصدر ہے_ اذان كا معنى اعلان كرنے كا ہے جسكا معنى كثرت سے اعلان كرنا ہے اور پس (أذن مؤذن ...) يعنى اعلان كرنے والے نے كئي بار اعلان كيا _

۷_ فرزندان يعقوب پر چورى كا الزام اس وقت لگا جب وہ سامان باندھنے كى جگہ سے چلے گئے اور سفر كے ليے آمادہ ہوگئے تھے_ثم إذن مؤذن ايتها العير إنكم لسارقون

(ثم )كا حرف اور جملہ (اقبلوا عليم ) جو بعد والى آيت ميں ذكر ہوا ہے ممكن ہے مذكورہ معنى كا مفہوم ادا كرے_

۸_ بنيامين كے سامان ميں جو پيالہ چھپا ديا گيا وہ قيمتى تھا_جعل السقاية اذن مؤذن ايتها العير إنكم لسارقون

يہ بات كہ فرزندان يعقوب كو چور كہا گيا نہ يہ كہ تم نے چورى كى ہے اور يہ كہ اعلان كرنے والے نے علانيہ طور پر اعلان اور اسكا تكرار كيا اور جس كى وجہ سے جناب يوسفعليه‌السلام پيالے كے چور كو اپنا غلام بنا سكتے تھے ان سب باتوں سے معلوم ہوتاہے وہ كوئي قيمتى پيالہ تھا_

۹_'' عن ابى عبدالله عليه‌السلام ... قال: انهم سرقوا يوسف من أبيه ألا ترى أنه قال لهم حين قالوا: ماذا تفقدون؟ قالوا نفقد صواع الملك و لم يقولوا: سرقتم صواع الملك، انّما عنى أنكم سرقتم يوسف من أبيه (۱)

حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے( ايك شخص كے سوال كے جواب ميں كہ اس نے سوال كيا''انكم لسارقون'' سے كيا مراد ہے) : فرمايا ان لوگوں نے جناب يوسفعليه‌السلام كو اپنے باپ سے چورى كيا تھا پھر فرمايااس بات پر كيوں توجہ نہيں كرتے ہو كہ جب برادران يوسف نے كہا كہ تم نے كيا چيز گم كى ہے _

۵۷۵

تو حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ملازمين نے ان سے كہا ( بادشاہ كا پيالہ گم ہوگيا ہے ) يہ نہيں كہا كہ تم نے بادشاہ كے پيالے كو چورى كيا ہے پس اس كے علاوہ اور كوئي بات نہيں تھى كہ تم نے جناب يوسف(ع) كو ان كے والد گرامى سے چورى كيا ہے _

۱۰_عن ابى جعفر عليه‌السلام ... و ارتحل القوم (إخوة يوسف ) مع الرفقة فمضوا، فلحقهم يوسف وفتيته فنادوا فيهم قال : '' ايتها العير إنكم لسارقون (۲)

امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ برادران يوسف قافلے والوں كے ساتھ نكلے اور چلے گئے اس كے بعد جناب يوسفعليه‌السلام اور ان كے ملازمين ان سے جاكر ملے اسوقت ان كے درميان آواز لگاكر منادى نے اس طرح كہا'' ايتها العيرء انّكم لسارقون''

۱۱ _عن أبى عبداللّه عليه‌السلام قال: التقية من دين الله لقد قال يوسف '' ايتّها العير إنكم لسارقون'' و الله ما كانوا سرقوا شيئاً (۳) امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ تقيہ، دين الہى ميں سے ہے بے شك جناب يوسفعليه‌السلام نے فرمايا : ايتھا العير إنكم لسارقون(ليكن) خدا كى قسم انہوں نے كسى چيز كى چورى انہيں كى تھي_

۱۲ _(عن ابى عبدالله عليه‌السلام ; قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : لا كذب على مصلح ثم تلا: ايتّها العير إنكم لسارقون) ثم قال: والله ما سرقوا و ما كذب (۴)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ رسالت مآب نے فرمايا: جھوٹا وہ ہے جو اصلا ح كرنے كا قصد نہ ركھتا ہو_ اسوقت ان آيات كى تلاوت فرمائي'' ايتها العير إنكم لسارقون'' اس كے بعد فرمايا: خدا كى قسم قافلے والوں نے چورى نہيں كى تھي( اعلان كرنے والے) نے بھى جھوٹ نہيں بولا_

برادران يوسف :برادران يوسف پر چورى كى تہميت ۵ ، ۶،۱۰ ; برادران يوسف اور جناب يوسفعليه‌السلام ۹; برادران يوسف كى چورى كرنا ۹ ; برادران يوسف پر چوري

____________________

۱) ملل الشرائع، ص ۵۲ ب ۴۳، ح۴، نورالثقلين، ج۲، ص۴۴۴، ح ۱۳۴_

۲) تفسير عياشي، ج۲، ص ۱۸۲، ح۴۳، نورالثقلين، ج۲ ص ۴۳۹، ح۱۱۲_

۳)كافى ج۲ص ۲۱۷، ح۳ ; نورالثقلين ج۲، ص ۴۴۳; ح ۱۲۷_

۴)كافى ج۲ ص ۳۴۳ ح ۲۲ ;نورالثلين ج/۲ ص ۴۴۴ ح ۱۲۹_

۵۷۶

كے الزام كا وقت ۷ ; برادران يوسف كا تجارتى كاروان ۶; برادران يوسف كا تجارتى مال ۲،۳

بنيامين:بنيامين كى حفاظت ۱

بادشاہ مصر:بادشاہ مصر كے پانى پينے كا برتن ۳; بادشاہ مصر كے پانى پينے كے برتن كى قيمت ۸; بادشاہ مصر كے پانى پينے كے برتن كا گم ہونا ۹

تقيہ :تقيہ كے احكام۱۱

جھوٹ:جھوٹ كا جائز ہونا ۱۲ ; جھوٹ كے احكام ۱۲ ; مصلحتى جھوٹ ۱۲

دين :دين كى تعليمات۱۱

روايت: ۹ ، ۱۰،۱۱ ،۱۲

حضرت يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام اور برادران يوسف۲ ، ۱۰ ;حضرت يوسفعليه‌السلام اور بنيامين ۱; حضرت يوسفعليه‌السلام كا تقيہ ۱۱ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۳، ۴ ، ۵ ، ۶ ، ۷،۹،۱۰; حضرت يوسفعليه‌السلام كى تدبير ۱ ، ۳;حضرت يوسفعليه‌السلام كى تدبير اور ان كے ملازمين ۴; حضرت يوسفعليه‌السلام كے قصے كى تعليمات ۱۱ ، ۱۲ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين كى تہمتيں ۵ ، ۶

آیت ۷۱

( قَالُواْ وَأَقْبَلُواْ عَلَيْهِم مَّاذَا تَفْقِدُونَ )

ان لوگوں نے مڑ كر ديكھا اور كہا كہ آخر تمھارى كيا چيز گم ہوگئي ہے(۷۱)

۱_ فرزندان يعقوب، حضرت يوسفعليه‌السلام اور ان كے ملازمين كى طرف سے چورى كى تہمت كو سن كر واپس آگئے_

قالوا و اقبلوا عليهم

(قالوا) اور (أقبلوا) ميں جو ضمير ہے وہ ( العير) كى طرف لوٹ رہى ہے جو اس سے پہلى والى آيت ہے _ اور جملہ (و أقبلوا عليہم) (قالوا) كى ضمير كے ليے حال ہے_

۵۷۷

۲_ فرزندان يعقوب نے جناب يوسفعليه‌السلام كے ملازمين سے پوچھا : تمہارى كونسى چيز گم ہوگئي ہے _

قالوا ماذا تفقدون

۳ _ فرزندان يعقوب نے چورى كى تہمت سن كر تعجب كيا_قالوا ماذا تفقدون

آيت كے الفاظ اور فرزندان يعقوب كا سوال يہ نہيں تھا( ماذا سرقنا) اس بات سے معلوم ہوتاہے كہ ان كو يقين نہيں تھا اور حيرت زدہ تھے_

برادران يوسف :برادران يوسف اور يوسفعليه‌السلام ۱; برادران يوسف پر چورى كا الزام ۱ ،۳ ; برادران يوسف كا پوچھنا ۲ ; برادران يوسف كا تعجب ۳ ; برادران يوسف كا لوٹنا ۱

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كے ملازمين كا پوچھنا ، يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱،۲،۳

آیت ۷۲

( قَالُواْ نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ وَلِمَن جَاء بِهِ حِمْلُ بَعِيرٍ وَأَنَاْ بِهِ زَعِيمٌ )

ملا زمين نے كہا كہ بادشاہ كا پيالہ نہيں مل رہاہے اور جو اسے لے كر آئے گا اسے ايك دونٹ كا بار غلہ انعام ملے گا اور ميں اس كا ذمہ دار ہوں (۷۲)

۱_ بادشاہ كے پانى پينے والے پيالے كے گم ہونے كى وجہ فرزندان يعقوب كو ٹھہرانا اور انكى تلاشى لينا تھا _ماذا تفقدون _ قالوا نفقد صواع الملك (صواع) كا معنى ناپ تول كا برتن هے _

۲_ان تہمت زدہ افراد كو روكنا اور ان كى تلاش لينا جائز ہے جن كے درميان مجرم موجود ہو_

إنكم لسارقون قالوا نفقد صواع الملك و لمن جاء به حمل بعير

۳ _ مصر ميں سات سال كى قحطى كے دوران سے افراد كے سہم كو معين كرنے كا پيمانہ شاہى پيالہ تھا_حبل السقاية فى رحل أخيه نفقد صواع الملك گمشدہ پيالے كو (سقايہ) پيالے (صواع) ناپ تول كا پيمانہ سے تعبير كرنے كا مقصد يہ تھا كہ

اس سے افراد كےمعين شدہ حصّہ كو ناپاجاتا تھأ اور اس ظرف كو حضرت يوسفعليه‌السلام كے پاس آنے سے پہلے بادشاہ پانى پينے كے ليےاستعمال كيا كرتا تھا_

۴ _ حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں مصر ميں وزن اور ناپ تول كا رسمى نظام اور قانونى طريقہ رائج تھا_

قالوا نفقد صواع الملك

۵۷۸

(صواع) كا لفظ(الملك) كى طرف اضافہ (بادشاہ كا پيمانہ) يہ بتاتاہے كہ اس پيمانے كو بادشاہ نے معين و مشخص كيا تھا_ خواہ تجارت ميں وہ تمام چيزيں جو ناپ كے ذريعے سے ہوں يا قطحى كے زمانے ميں افراد كے حصوں كو معين و مشخص كرنے كے ليے ہوں _

۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى طرف سے شاہى پيالہ لانے والے كو غلہ سے لدا ہوا ايك اونٹ انعام دينے كا اعلان كيا گيا _

و لمن جاء به حمل بعير

۶_گم ہونے والا پيمانہ، حضرت يوسفعليه‌السلام كے نزديك بہت زيادہ ارزش و قيمت ركھتا تھا_

نفقد صواع الملك و لمن جاء به حمل بعير

اس پيمانے كو پانے والے كے ليے قحطى اور راشن بندى كے زمانہ ميں غلہ سے لدا ہوا ايك اونٹ انعام قرار دينا سے معلوم ہوتاہے كہ وہ پيمانہ قيمتى اور ارزشمند برتن تھا_

۷_حضرت يوسفعليه‌السلام بذات خود اس گم شدہ پيالے كو لانے والے كے ليے انعام دينے كے پابند ہوئے_

و لمن جاء حمل بعير و انا به زعيم

(انا بہ زعيم) ميں (أنا) سے مراد يا تو خود جناب يوسفعليه‌السلام ہيں يا ملازمين كا سربراہ مراد ہے ليكن پہلے والے احتمال كى بناء پر مذكورہ معنى كيا گيا ہے _

۸_ انعام كو مقرر كركے رقابت اور مقابلے كو ايجاد كرنا جائز ہے _و لمن جاء به حمل بعير

۹_ جرم كو كشف اور پہچان كرنے اور مجرم كو گرفتار كرنے كے ليے انعام كا معين كرنا جائز ہے _

نفقد صواع الملك و لمن جاء به حمل بعير

۱۰_ جعالہ ( گم شدہ شيء كى تلاش كے ليے انعام مقرر كرنا) مشروع اور قانونى ہے _و لمن جاء به حمل بعير و أنا به زعيم

(جعالہ ) اصطلاح ميں كام كو انجام دينے پر اس كے مقابلے عوض ادا كرنے كے ليے اپنے آپ كو متعہد و ملزم كرنا اسى وجہ سے يہ جملہ ( لمن جاء ...) جعالہ كى قرار داد ہے _ اسمين قرار داد ذمہ دار كو (جاعل) انجام دينے والے كو (عامل) اور اجرت كو (جعل) كياجاتاہے_

۱۱_جعالہ كا صحيح ہونا عامل كے مشخص و معين ہونے كے ساتھ مشروط نہيں ہے _

۱۲ _ كام كو انجام دينے كے ليے جعالہ كے صحيح ہونے ميں

۵۷۹

مدت كا معين كرنا ضرورى نہيں ہے _و لمن جاء به حمل بعير

كيونكہ حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين نے جعالہ كى قرار داد ميں (شاہى پيالے كو پانے ميں )مدت كو معين نہيں كيا كے يہ كام (خاص مدت يا مخصوص زمانے ميں ) انجام پذير ہو اسى سے مذكورہ معنى حاصل ہوتاہے _

۱۳ _ جعالہ كے صحيح ہونے ميں كام انجام دينے كى مقدار جو جعالہ ميں ضرورى ہے وہ شرط نہيں ہے _و لمن جاء به حمل بعير يہ معلوم نہيں تھا گمشدہ پيالے كو تلاش كرنے ميں كتنا كام انجام دينا ہوگا اس وجہ سے ہم كہہ سكتے ہيں كہ (جعالہ) كى قرار داد ميں كام كى مقدار كا مجہول ہونا اس كے صحيح ہونے ميں كوئي ضرر نہيں پہنچاتا_

۱۴ _ ضمان و كفالت جائز قرار داديں اور قانونى اعتبار سے معتبر ہيں _و أنا به زعيم

(ضمان) اصطلاح ميں طلبگار كا ادا كرنے والے شخص سے مطالبہ كرنے كى صورت ميں مال كو ادا كرنے پر ملزم ہونے كو كہتے ہيں _ ضمانت كو قبول كرنے والے كو (ضامن) جس سے مال لينا ہے اسكو (مضمون عليہ ) جس نے مال وصول كرنا ہے اسكو( مضمون لہ ) كہا جاتاہے_(كفالت ) اصطلاح ميں اس شخص كے حاضر كرنے كو كہتے ہيں جو كسى شخص كى گردن پر حق ركھتاہے_ اس كفالت كو قبول كرنے والے كو كفيل كہتے ہيں _ كيونكہ(أنا بہ زعيم ) ميں جو غائب كى ضمير ہے وہ (حمل بعير) كى طرف لوٹتى ہے (زعيم ) سے مراد ضامن ہے اور اگر (بہ ) كى ضمير ( لمن جاء ...) كے جملے كو ادا كرنے والے كى طرف لوٹائيں (يعنى جاعل) تو اس صورت ميں زعيم سے مراد كفيل ہوگا_

۱۵_جعل كے ليے ضمانت (جعالہ كى اجرت ) جعالہ كے كام كو انجام دينے سے پہلے دنيا بھى جائز ہے اور قانونى اعتبار سے بھى صحيح ہے _و أنا به زعيم

(و انا به زعيم ) كا جملہ كہنے والا جو (حمل بعير) كى اجرت كا ضامن ہوا ہے _ يہ عامل كے كام يعنى پيالے كو پانے سے پہلے اسكى اجرت كا ضامن ہوا ہے _

۱۶_ اگر چہ مال كى ضمانت، ادا كرنے والے شخص كے اوپر لازم نہيں ہوئي پھر بھى ضمانت دينا جائز ہے اور قانونى ہے _

و أنا به زعيم

۱۷_ ضمان كے صحيح ہونے ميں طلب كرنے والے كى شناخت و پہچان كرنا معتبر اور شرط نہيں ہے _و انا به زعيم

اگر چہ يہ بات پہلے گذرچكى ہے كہ جملہ (انا بہ زعيم ) قرار داد اور ضمانت كو بتاتاہے اور اس قرار داد ميں (مضمون لہ ) (يعنى وہ جو شاہى پيالے كو پائے گا ) معلوم نہيں كون ہوگا اسى وجہ

۵۸۰

سے لازم نہيں ہے كہ ضامن يہ جانے كہ (مضمون لہ ) يعنى جسكو ضمان دينا ہے وہ كون ہے _

۱۸_ طلبگار كى رضايت، ضمانت كے صحيح ہونے ميں شرط نہيں ہے _و أنا به زعيم

جب ضامن نے وعدہ كيا تھايعني(انا بہ زعيم)كہا تھا اسوقت تك كسى نے شاہى پيالے كو نہيں پايا تھا اسى وجہ سے ضمانت ميں پيالے كو پانے والے كى رضايت شرط نہيں ہے _

۱۹_حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں جعالہ ،ضمان، وكالت كى قرار داديں رائج تھيں _

و لمن جاء به حمل بعير و انا به زعيم

۲۰_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قوله : '' صواع الملك'' قال : كان قدحاً من ذهب و قال: كان صواع يوسف إذكيل به قال: لعن الله الخوان لا تخونوا به بصوت حسن (۱)

امام جعفر صادقعليه‌السلام ،خداوند متعال كے اس قول (صواع الملك ) كے بارے ميں فرماتے ہيں كہ يہ پيالہ سونے كا تھا اور پھر فرمايا جب اس سے كسى چيز كووزن كيا جاتا تو اچھى آواز ميں يہ جملہ كہتے كہ خداوند متعال خيانت كرنے والوں پر لعنت بھيجے اس ناپ وتول ميں خيانت نہ كرنا _

احكام : ۸،۹،۱۰،۱۱،۱۲،۱۳،۱۴،۱۵

انعام:انعام دينے كے احكام ۹

بادشاہ مصر :بادشاہ مصر كے پانى پينے والے برتن كى قيمت ۶; بادشاہ مصر كے پيالے كو پانے والے كا انعام ۵ ، ۷ ; بادشاہ كے پيالے كى بناوٹ ۲۰;بادشاہ مصر كے پانے پينے والے پيالے كے فوائد ۳; بادشاہ مصر كے پيالے كا گم ہونا ۱ ۱ ; بادشاہ مصر كے پيالے كى خصوصيات ۲۰

برادران يوسف :برادران يوسف سے تفتيش كرنے كے دلائل۱

تفتيش كرنا :تفتيش كرنے كے احكام ۲ ; تفشيش كرنے كے جواز كے موارد ۲

جرم :جرم كے كشف كرنے كے انعام كا جواز ۹

جعالہ :

____________________

۱)تفسير عياشى ج۲ ص ۱۸۵ ح ۵۲ ; بحارالانوار ج۱۲ ص ۳۰۸ ح ۱۲۰_

۵۸۱

حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں جعالہ ۱۹ ;جعالہ كا شريعت ميں جواز ۱۰ ; جعالہ كا عقد۱۰; جعالہ كى تاريخ ۱۹ ; جعالہ كے احكام ۱۰ ، ۱۱ ، ۱۲ ، ۱۳; جعالہ كے صحيح ہونے كے شرائط ۱۱ ، ۱۲ ،۱۳ ;جعالہ كے عامل كى تعيين ۱۱ ; جعالہ ميں زمان ۱۲ ; جعالہ ميں كام كى مقدار ۱۳; جعالہ ميں ضمانت كا جواز ۱۵

روايت : ۲۰

ضمان:حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانہ ميں ضمان ۱۹ ; ضمان كا شريعت ميں جواز ۱۴; ضمان كا عقد۱۴; ضمان كى تاريخ ۱۹;ضمان كے احكام ۱۴ ،۱۵،۱۶ ، ۱۷ ، ۱۸; ضمان ك-ے صحيح ہونے كے شرائط ۱۶ ، ۱۷ ، ۱۸ ;ضمان ميں طلبگار كا معين كرنا ۱۷ ; ضمان ميں طلبگار كى رضايت ۱۸

قديمى مصر:قديمى مصر ميں قحطى كے دوران وزن كرنے كا برتن ۳; قديمى مصر ميں وزن كرنے كا برتن ۴;قديمى مصر ميں وزن كرنا ۴

كفالت:حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں كفالت۱۹ ; كفالت كا شريعت ميں جواز ۱۴; كفالت كا عقد ۱۴;كفالت كے احكام ۱۴ ; كفالت كى تاريخ ۱۹

گرفتار كرنا :گرفتار كرنے كے احكام ۲ ; گرفتار كرنے كے جواز كے موارد ۴

لين دين كے معاملات:لين دين كے معاملات كا حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں ہونا ۱۹ ; لين دين كے معاملات كے احكام ۱۰ ،۱۴;لين دين كى قانونى حيثيت ۱۰ ، ۱۴

متہمين :متہمين كى تفتيش كا جواز ۲ ; متہمين كى گرفتارى كا جواز ۲

مجرمين :مجرمين كى گرفتارى پر انعام ۹; مجرمين كى تفتيش كا جواز ۲ ; مجرمين كى گرفتارى كا جواز ۲

مقابلہ :مقابلے كے احكام ۸ ; مقابلے ميں انعام ركھنا ۸

وزن كرنے كا برتن :تاريخ ميں وزن كرنے كا برتن ۴

وزن :وزن كرنے كى تاريخ ۴

حضرت يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام كا جعالہ ۷; حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۵، ۷ ، ۲۰; حضرت يوسفعليه‌السلام كا وعدہ ۷

۵۸۲

آیت ۷۳

( قَالُواْ تَاللّهِ لَقَدْ عَلِمْتُم مَّا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِي الأَرْضِ وَمَا كُنَّا سَارِقِينَ )

ان لوگوں نے كہا كہ خداكى قسم تمھيں تو معلوم ہے كہ ہم زمين ميں فساد كرنے كے لئے نہيں آئے ہيں اور نہ ہم چور ہيں (۷۳)

۱ _ فرزندان يعقوب نے حضرت يوسفعليه‌السلام اور ان كے ملازمين كے سامنے قسم اٹھائي كہ انہوں نے چورى نہيں كى اور مصر ميں خرابى اور فساد كے قصد سے نہيں آئے ہيں _تالله لقد علمتم ما لنفسد فى الارض و ما كن

اگر چہ (مقسم عليہ ) (يعنى جو كام انجام ہوا اس پر قسم اٹھانا ) يہ آيت شريفہ ( لقد علمتم) ہے ليكن حقيقت ميں ( ما جئنا ...) مقسم عليہ ہے اسى وجہ سے جملے كا معنى يوں ہوگا كہ خدا كى قسم ہم فساد و بربادى كرنے كے ليے مصر ميں نہيں آئے ہيں اور ہرگز چور بھى نہيں ہيں اور تم ان حقيقتوں سے بخوبى واقف ہو_

۲_ خدا كى قسم اٹھانا ،گناہ كے ارتكاب اور فساد پھيلانے سے چھٹكارا حاصل كرنے كے ليے جائز ہے_

تالله لقد علمتم ما جئنا لنفسد فى الارض

۳_ فرزندان يعقوبعليه‌السلام ، حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين كے ہاں نيك كردار اور فساد اور چورى سے منزہ و مبرہ جانے جاتے تھے_تالله لقد علمتم ما جئنا لنفسد فى الارض و ما كنا سارقين

۴ _ حضرت يوسفعليه‌السلام كى حكومت كے آدمى ان كاروانوں كى تفتيش و تحقيق كرتے تھے جو مصر ميں وارد ہوتے تھے تا كہ اطمينان ہوجائے كہ وہ چور اور فساد كرنے والے نہيں ہيں _لقد علمتم ما جئنا لنفسد فى الارض و ما كنا سارقين

(لقد علمتم) كا جملہ ( كہ يقينا تم نے جان ليا كہ ہم ايسے ويسے نہيں ہيں ) اس بات كو بتاتاہے كہ مصر ميں آنے والے كاروان كى تفتيش كى جاتى تھى تا كہ مصر ميں آنے كا مقصد معلوم ہوسكے ايسا نہ ہو كہ جاسوسي، خراب كام كرنے، چورى و غيرہ كے ليے تو مصر ميں داخل نہيں ہوئے _

۵۸۳

۵_معاشرے كے رہبر و سياستدان كے ليے يہ حتمى طور پر ثابت ہو ناچاہيے كہ جو غير ملكى ان كى حكومتى حدود ميں داخل ہوئے ہيں خرابى كرنے اور فساد كرنے والے نہيں ہيں _تالله لقد علمتم ما جئنا لنفسد فى الارض و ما كنا سارقين

۶_فرزندان يعقوبعليه‌السلام نے اپنےسابقہ نيك كردار اور چورى كے سابقہ سے پاك و مبرہ ہونے كى وجہ سے شاہى پيالے كى چورى كى تہمت كو اچھى بات نہيں سمجھي_لقد علمتم ما كنا سارقين

۷_افراد كے ماضى كا اچھا ہونا ان كى بے گناہى كى علامت ہے _لقد علمتم و ما كنا سارقين

۸_ افراد كا برا سابقہ، ان پر صرف برا گماہ ہونا اسكى تفتيش اور گرفتارى كا جواز ہے _

تالله لقد علمتم ما جئنا لنفسد فى الارض و ما كنا سارقين

۹_ چوري، زمين پر فساد پھيلانے كے مترادف ہے_ما جئنا بنفسد فى الارض و ما كنا سارقين

حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين نے فرزندان يعقوب ہر فساد پھيلانے كى تہمت نہيں لگائي كيوں كہ وہ چور ہونے اور مفسد ہونے كى نفى پہلے كرچكے تھے كيونكہ چورى كا واضح و روشن مصداق، فساد پھيلاناہے_

برادران يوسف :برادران يوسف اور حضرت يوسفعليه‌السلام ۱; برادران يوسف اور چورى ۱; برادران يوسفعليه‌السلام اور ملازمين يوسفعليه‌السلام ; برادران يوسف پر چورى كا الزام ۶; برادران يوسف كا انكار كرنا ۱ ; برادران يوسف كا حسن سابقہ ۳ ،۶ ; برادران يوسف كا قسم اٹھانا ۱

تفتيش كرنا :تفتيش كرنے كے احكام ۸ ; تفتيش كرنے كے عوامل ۸

چورى :چورى كا فساد ۹

خود:اپنے كے چھٹكارے كے ليے قسم اٹھانا ۱ ، ۲

سابقہ :حسن سابقہ كے آثار ۷; برے سابقہ كے آثار ۸

غير ملكي:غير ملكيوں كى شناخت كى اہميت ۵ ; غير ملكيوں سے پيش آنے كا طريقہ ۵

قسم اٹھانا:اپنى بے گناہى پر قسم اٹھانا قسم اٹھانے كے احكام ۲; خداوند متعال كى قسم ۲ ; قسم اٹھانے كا جواز ۲

۵۸۴

گرفتار كرنا :گرفتار كرنے كے احكام ۸ ; گرفتار كرنے كے اسباب ۸

گناہ :بے گناہى كى نشانياں ۷

معاشرہ :معاشرے كے رہبروں كى ذمہ دارى ۵; معاشرے ميں امن قائم كرنے كے اقدامات ۵

مفسدين :مفسدين كى شناخت كرنے كى اہميت ۵

نفى كرنا :فساد پھيلانے كى نفى كرنا

حضرت يوسفعليه‌السلام :جناب يوسفعليه‌السلام كى حكومت ميں امن عامہ قائم كرنے كے اقدامات ۴; جناب يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۴ ،۶ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين اور برادران يوسف ۳

آیت ۷۴

( قَالُواْ فَمَا جَزَآؤُهُ إِن كُنتُمْ كَاذِبِينَ )

ملازموں نے كہا كہ اگر تم چھوٹے ثابت ہوئے تو اس كى سزا كيا ہے (۷۴)

۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين نے فرزندان يعقوبعليه‌السلام كو بتاديا كہ چور كے ملنے پر اسكو سزا دى جائے گي_

قالوا فما جزاؤه ان كنتم كاذبين

۲_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين نے ملزمان (فرزندان يعقوب) سے كہا كہ بادشاہ كے پيالے كے چور كى سزا تم خود مقرر كرو_قالوا فما جزاؤة ان كنتم كاذبين

(جزاؤہ) كى ضمير شاہى پيالے كے چور كى طرف پلٹتى ہے جو مذكورہ جملات سے سمجھا جاتاہے _

۳_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں مصر كى عدالت كے قوانين ميں سے يہ تھا كہ غير ملكى مجرموں كو ملكى قوانين كے مطابق سزا دى جاتى تھي_قالوا فما جزاؤه ان كنتم كاذبين

( فما جزاؤہ) كا جملہ چور كى سزا كو معين كرنے كے بارے ميں سوال ہے_ يہ ممكن ہے كہ اس معنى ميں ہو كہ تہمت زدہ خود ہى اپنى سزا كو مقرر كريں _ اسى طرح يہ معنى بھى مراد ہوسكتاہے كہ معلوم كريں كہ ان كى شريعت ميں چور كى سزا كيا ہے مذكورہ معنى دوسرے احتمال كى صورت ميں ہوسكتاہے_

۵۸۵

۴_غيرملكى مجرمين كى سزا ان كے اپنےقانون كے مطابق ہونے كا جواز_فما جزاء ه ان كنتم كاذبين

۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام كو مصر ميں اپنى وزارت كے دوران مجرمين پر مقدمہ چلانے اور ان كے بارے ميں فيصلہ دينے كے بھى اختيارات تھے_قالوا فما جزاؤه ان كنتم كاذبين

۶_ متہمين كے ماضى كا بے داغ ہونا اور ان كا اپنى بے گناہى پر قسم اٹھانا ان كے اتہام كے بارے ميں تحقق كرنے اور تفتيش كرنے ميں مانع نہيں ہوسكتا_قالوا تالله لقد علمتم فماجزؤه ان كنتم كاذبين

اسوجہ سے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين نے فرزندان يعقوب كے حسن سابقہ كى پروا نہيں كى اسى طرح انكى اپنى بے گناہى پر قسم اٹھانے پر بھى كان نہيں دھرے ، اس سے مذكورہ بالا معنى كو حاصل كيا جاسكتاہے_

احكام :سزا دينے كے احكام ۴

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسف پر چورى كى تہميت ۲۰

بادشاہ مصر :بادشاہ مصر كے پانى پينے والے پيالے كے چور كى سزا ۱ ، ۲

تفتيش كرنا :تفتيش كرنے كے احكام ۶

چور:چور كى سزا كو معين كرنے كى درخواست كرنا ۲ ; چور كى سزا ۱

عدالت كا نظام :۴

غيرملكي:غير ملكيوں كى سزا ۴; غير ملكيوں كى سزا كا معيار۳

قسم اٹھانا :بے گناہى پر قسم اٹھان

قديمى مصر :قديمى مصر ميں سزا كے قوانين ۳; قديمى مصر كے عدالتى قوانين ۳

متہمين :متہمين سے تفتيش كرنا ۶; متہمين كا حسن سابقہ ۶ ; متہمين كا قسم اٹھانا ۶

حضرت يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۵;حضرت يوسفعليه‌السلام كى قضاوت ۵; حضرت يوسفعليه‌السلام كے اختيارات كى حدود ۵;حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين اور برادران يوسفعليه‌السلام ۱،۲; حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين كى اميديں ۲۰

۵۸۶

آیت ۷۵

( قَالُواْ جَزَآؤُهُ مَن وُجِدَ فِي رَحْلِهِ فَهُوَ جَزَاؤُهُ كَذَلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ )

ان لوگوں نے كہا كہ اس كى سزا خود وہ شخص ہے جس كے سامان ميں سے پيالہ برآمد ہو ہم اسى طرح ظلم كرنے والوں كو سزاد ديتے ہيں (۷۵)

۱_ فرزندان يعقوبعليه‌السلام نے بادشاہ كے پيالے كے چور كى سزا اسكے غلام بننے كو قرار ديا_

قالوا فما جزاؤه قالوا جزاؤه من وجد فى رحله فهو جزاؤه

(فہو جزاؤہ) كے جملے كا معنى يہ ہے كہ چور اس كى ملكيت ميں چلا جائے گا جس كے مال سے چورى ہوئي ہے_ (مجمع البيان ) ميں ہے كہ اس غلامى كى مدت ايك سال ہوتى تھي_

۲_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى شريعت ميں چوروں كى سزا ان كا غلام ہونا تھا_فهو جزائوه كذلك نجزى الظالمين

(كذلك نجزى الظالمين ) كے جملے كا اشارہ اس مطلب كى طرف ہے كہ جو كچھ ہم نے چور كے بارے ميں كہا ہے و ہى ہمارے قانون ميں ہے _

۳_ چورى ظلم و ستم كرنے كا روشن ترين نمونہ ہے_من وجد فى رحله فهو جزاء ه كذلك نجزى الظالمين

(ظالمين ) سے مراد مخصوصاً چورى كرنے والے ہيں _ كيونكہ مذكورہ سزا ظلم كے ليے نہيں تھي_ چور كى جگہ پر (ظالم) كا نام ليا جانا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ چورى ظلم و ستم كا واضح و روشن نمونہ ہے_

۴_ فرزندان يعقوبعليه‌السلام نے چوركى سزا كو معين كرنے كے ساتھ ساتھ اسكى وضاحت كى كہ ( شاہى پيالہ جس كے سامان ميں پايا گيا) وہ چور ہوگا نہ كہ تمام قافلے والے اس كے ذمہ دار ہوں گے _قالوا جزاء ه من وجد فى رحله فهو جزاء ه

حالانكہ فرزندان يعقوبعليه‌السلام ( فما جزائہ ) كے بدلے ميں ان كا يہ جواب دينا كا فى تھا( ہو جزاء ہ) ليكن جب تمام قافلے والوں كو چورى كى نسبت دى گئي (ايتها العير إنكم لسارقون )

۵۸۷

تو اس وجہ سے انہوں نے ضرورى سمجھا كہ مفصل جواب (جزاءه من وجد فى رحله فهو جزاءه ) ديا كہ تمام قافلے والے اس كے ذمہ دار نہيں ہيں بلكہ وہ ذمہ دار ہے كہ جس كے سامان ميں شاہى پيالہ پايا گيا_

۵ _ مصر كى حكومت حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں حضرت يعقوبعليه‌السلام كى شريعت كى پيروى نہيں كرتى تھي_

قالوا فما جزاء ه من وجد فى رحله فهو جزاء ه

۶_عن على بن موسى الرضا عليه‌السلام : كانت الحكومة فى بنى اسرائيل إذا سرق إحد شيءناً استرق به فقال لهم يوسف : ما جزاء من وجد فى رحله ؟ قالوا : هو جزاؤه (۱)

امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے كہ بنى اسرائيل كى قوم ميں قانون يہ تھا كہ جو كسى كى چورى كرتا تھا اسكى غلامى ميں چلا جاتاہے _ اسى وجہ سے حضرت يوسفعليه‌السلام نے قافلے والوں كو كہا : جس كے سامان ميں وہ پيالہ ملا تو اسكى سزا كيا ہے ؟ انہوں نے جواب ديا اسكى سزا وہ خود ہى ہے (يعنى غلامى ميں چلا جائے)

۷_'' عن أبى عبدالله عليه‌السلام ( فى قوله تعالي) '' جزاء ه من وجد فى رحله فهو جزاء ه'': يعنون السنة التى تجرى فيهم أنيحسبه (۲)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے اس قول (جزاء ه من وجد فى رحله فهو جزاء ه ) كے بارے ميں كہ اس سے مراد وہ رسم و رواج ہے جو ان كے درميان رائج تھا كہ اسكو زندانى كرتے تھے_

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسفعليه‌السلام اور چور كى سزا ۱ ، ۴; برادران يوسفعليه‌السلام كى سوچ ۱ ،۴

بنى اسرائيل:بنى اسرائيل كى تاريخ ۶ ; بنى اسرائيل كے رسم و رواج ۷; بنى اسرائيل ميں چورى كى سزا ۶ ، ۷; بنى اسرائيل ميں سزا كے قوانين ۷; بنى اسرائيل ميں عدالتى نظام ۶; بنى اسرائيل ميں غلامى كا ہونا ۶

بادشاہ مصر :بادشاہ مصر كے پانى پينے والے پيالے كے چور كى سزا ۱ ، ۶

چور:چور كا غلامى ميں آنا ۱ ، ۲; چور كى سزا ۱

____________________

۱)عيون الاخبار الرضا ج۲ص۷۷،ح۶; نورالثقلين ج/ ۲ ص ۴۴۶، ح ۱۳۸_

۲)تفسير عياشى ج۲ ص ۱۸۳ ح ۴۴ ; نورالثقلين ج/۲ ص ۴۴۲;ح ۱۲۴_

۵۸۸

چورى :چورى ظلم ہونا ۳

روايت : ۶ ،۷

ظلم :ظلم كے موارد ۳

سزا :سزا كا ذاتى و شخصى ہونا ۴; سزا كى خصوصيات ۴

قديمى مصر :قديمى مصر كى تاريخ ۵ ; قديمى مصر كے حكام كا دين ۵

يعقوبعليه‌السلام :يعقوبعليه‌السلام كے دين ميں غلامى كا ہونا ۲ ; يعقوبعليه‌السلام كے دين ميں چور كى سزا ۲

يوسفعليه‌السلام :جناب يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱

آیت ۷۶

( فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاء أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِن وِعَاء أَخِيهِ كَذَلِكَ كِدْنَا لِيُوسُفَ مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ إِلاَّ أَن يَشَاءَ اللّهُ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مِّن نَّشَاء وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ )

اس كے بعد بھائي كے سامان سے پہلے دوسرے بھائيوں كے سامان كے تلاش لى اور آخر ميں بھائي كے سامان ميں سے پيالہ نكال ليا_اور اس طرح ہم نے يوسف كے حق ميں تدبير كى كہ وہ بادشاہ كے قانون سے اپنے بھائي كو نہيں لے سكتے تھے مگر يہ كہ خدا خود چاہے ہم جس كو چاہتے ہيں اس كى درجات كو بلندكرديتے ہيں اور ہر صاحب علم سے برتر ايك صاحب ۲_علم ہوتاہے (۷۶)

۱ _ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بذات خود فرزندان يعقوبعليه‌السلام كے قافلے كے سامان كى تلاشى لي_

فبداء بأوعيتهم قبل وعاء اخيه

(بدأ) اور (استخرج) كى ضمير ( أخيہ) كے

۵۸۹

قرينے كى وجہ سے حضرت يوسفعليه‌السلام كى طرف پلٹتى ہے ان دو فعلوں كا اسناد حضرت يوسفعليه‌السلام كى طرف حقيقى ہے مجازى نہيں (يعنى اس طرح نہيں كہ اس نے فقط حكم ديا ہو كہ اس سامان كى تلاشى لى جائے اور بنفس نفيس شركت نہ كى ہو) سياق كلام كا تغير دينا يعنى جمع كے فعل كو تبديل كرنا(قالوا فما جزاء ه ) مفرد ( بدأ) كے فعل ميں يہ قرينہ ہے جس كى وجہ سے مذكورہ معنى ليا گيا ہے _(وعاء) ظرف كے معنى ميں ہے جسكى جمع (اوعية) ہے_

۲_حضرت يوسفعليه‌السلام نے بنيامين كے سامان كى تلاشى لينے سے پہلے فرزندان يعقوبعليه‌السلام كى دقت سے تلاش لي_

فبداء بأوعيتهم قبل و عاء أخيه ثم استخرجها من وعاء اخيه

(ثم ) كا لفظ اس بات پر دلالت كرتاہے كہ بنيامين كے سامان كى تلاشى كى نوبت ميں كافى وقت لگ گيا اس بات سے معلوم ہوتاہے كہ دوسرے بھائيوں كے سامان كى تلاش بہت ہى دقت سے انجام پائي جسكى وجہ سے كافى وقت صرف ہوگيا_

۳_ حضرت يوسفعليه‌السلام بنيامين كے سامان كى تلاش كرتے وقت اس كے سامان سے شاہى پيالے كو باہر نكالا_

ثم استخرجها من وعاء اخيه

(استخرجہا) كے مفعول كى ضمير (صواع) يا (سقايہ) كى طرف پلٹتى ہے يہ بات قابل ذكر ہے كہ فعل (وجد) كى جگہ پر (استخرج) كا فعل ذكر كرنے كا مقصد يہ ہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام كو علم تھا كہ شاہى پيالہ بنيامين كے سامان ميں ہے _

۴ _ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بنيامين كو اپنے پاس روكنے كے ليے تدبير نكالى تھى وہ خداوند متعال كى طرف سے وحى تھي_

كذلك كدنا ليوسف

۵_بنيامين كے سامان ميں شاہى پيالے كو چھپانا، فرزندان يعقو ب(ع) كے دين ميں چور كى سزا كا پوچھنا اور بنيامين كے سامان كى تلاشى اس كے بھائيوں كے سامان كى تلاشى كے بعد لينا يہ سب حضرت يوسفعليه‌السلام كو خداوند متعال كى طرف الہامات تھے تا كہ بنيامين كو اپنے پاس ٹھہرايا جائے _كذلك كدنا ليوسف

(كذلك) كا اس سوچى سمجھى اسكيم و منصوبے كى طرف اشارہ ہے جو آيت ۷۰ سے ۷۵ ميں ذكر كيا گياہے_

۶_ بنيامين كا حضرت يوسفعليه‌السلام كے پاس ٹھہرجانا جناب يوسفعليه‌السلام كے ليے فائدہ مند تھا_كذلك كدنا ليوسف

(ليوسف) ميں جو لام ہے وہ منفعت كا ہے اسى وجہ سے (بنيامين كو اپنے پاس روكنے) جو منصوبہ تھا يہ حضرت يوسفعليه‌السلام كے ليے فائدہ مند تھا_

۷_بادشاہ مصر كے عدالتى قوانين كے مطابق جناب

۵۹۰

يوسفعليه‌السلام كے ليے اسكى اجازت نہيں تھى كہ بنيامين كو روكے حتى چورى كے جرم ميں ہى كيوں نہ ہو_

ما كان لياخذ اخاه فى دين الملك

يہاں دين سے مراد آئين و طريقہ ہے جب اس كے ساتھ(الملك) كا اضافہ ہوا ہے تو اس سے مراد وہ قوانين اور ضوابط ہيں جو مصر ميں رائج تھے (فما جزاء ہ ...) جو آيت ۷۴ ميں ہے يہ قرينے اس وجہ سے اگر چور يہ چاہيے كہ مجھے اپنے قانون كے مطابق سزا دى جائے تو قاضى اورحاكم مصر اسى بنياد پر حكم صادر كرسكتے تھے_

۸_حضرت يوسفعليه‌السلام كى وزارت كے زمانے ميں حكومت مصر ميں عدالت اور سزا دينے كے قوانين رائج تھے_

ما كان ليأخذ أخاه فى دين الملك

۹_ مصر كے عدالتى قوانين ميں چوروں كى سزا غلامى نہيں تھي_ما كان ليأخذ أخاهفى دين الملك

۱۰_ حضرت يوسفعليه‌السلام اپنى وزارت كے دوران بھى حكومت مصر كے قوانين و دستورات كى مخالفت نہيں كرسكتے تھے_ما كان ليأخذ اخاه فى دين الملك

۱۱ _ حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں مصر ميں بادشاہى كا نظام تھا_ما كان لياخذ أخاه فى دين الملك

۱۲_ حضرت يوسفعليه‌السلام مصر ميں قحطى كے دوران اس علاقے كے بادشاہ نہيں تھے_ما كان ليا خذ اخاه فى دين الملك

۱۴_ مشيت الہى نے يہ چاہا كہ بنيامين، حضرت يوسفعليه‌السلام كے پاس ہى ٹھہرجائے_ما كان الاّ ان يشاء الله

۱۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام مشيت الہى كے بغير اور اگر اس كى مدد نہ ہوتى تو كسى بھى وسيلہ و ذريعہ سے بنيامين كو اپنے پاس نہيں ركھ سكتے تھے_ما كان لياخذ اخاه فى دين الملك الاّ ان يشاء الله

۱۶_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى وزرات كے زمانہ ميں غير ملكى مجرمين كو ان كے قوانين كے مطابق سزا دينا مصر كے قوانين و دستور كے خلاف نہيں تھا_ما كان ليأخذ اخاه فى دين الملك الاّ ان يشاء الله

۱۷_قوانين كا احترام اور پاس كرنا حتى غير الہى نظام ميں بھى ضرورى ہے_ما كان لياخذ اخاه فى دين الملك الاّ ان يشاء الله

۱۸_مادى وسائل اور اسباب مشيت الہى كى تدبير كے تابع ہيں _ما كان لياخذ اخاه فى دين الملك الاّ ان يش الله

۱۹_مشيت الہى بھى اسباب و علل مادى كے ساتھ ساتھ چلتى ہےما كان لياخذ اخاه فى دين الملك الاّ ان يشاء الله

۵۹۱

۲۰_ حضرت يوسفعليه‌السلام معنويت كے بلند مقامات كے حامل اور كمال كے درجات و مراحل پر فائز تھے_

نرفع درجات من نشاء

۲۱_حضرت يوسفعليه‌السلام نے بنيامين كو اپنے پاس روكنے كا جو منصوبہ بنايا تھا اس سے يہ معلوم ہوتاہے كہ حضرتعليه‌السلام علم و دانش كے اعتبار سے اپنے بھائيوں سے بالاتر تھے_كذلك كدنا ليوسف نرفع درجات من نشاء و فوق كل ذى علم عليم// (من نشاء) كا مصداق حضرت يوسفعليه‌السلام ہيں _

۲۲_ معنوى مقامات اور درجات ميں مختلف مراحل ہوتے ہيں _نرفع درجات من نشاء

مذكورہ بالا معنى كو لفظ (درجات) كے جمع ہونے كى وجہ سے استفادہ كيا گياہے _

۲۳ _ خداوند متعال كى بارگاہ ميں انسانوں كى منزلت اور رتبہ مختلف ہے _نرفع درجات من نشاء

۲۴ _ خداوند متعال اپنى مشيت كى بنياد پر بعض انسانوں كو بعض پر فضيلت اور كمال عطا كرتاہے _نرفع درجات من نشاء

۲۵_ انسانوں ميں دانش و علم كے اعتبار سے مختلف مراتب ہيں _نرفع درجات من نشاء و فوق كل ذى علم عليم

مفسرين نے اس مذكورہ آيت كريمہ ميں (عليم ) كے معنى ميں دو احتمال ديئے ہيں _ ۱: اس سے مراد ہر عالم اور دانشمند ہے _۲ : اس سے مراد خداوند متعال كى ذات ہے _

اگرپہلا احتمال ديں تو معنى يوں ہوگا ہر دانشمند كے اوپر بھى ايك دانشمند ہوتاہے _ليكن دوسرے احتمال كى صورت ميں جملہ كا معنى يوں ہوگا خداوند متعال كا علم ہر دانشمند كے علم سے بالاتر ہے _ ليكن مذكورہ بالامعنى جو متن ميں كيا ہے وہ پہلے احتمال كى صورت ميں ہے _

۲۶_برادران يوسفعليه‌السلام علم و دانش ركھنے والے اشخاص ميں تھے ليكن حضرت يوسفعليه‌السلام ان سے سب زيادہ عالم اور آگاہ تھے_و فوق كل ذى علم عليم

اس جملے سے پہلے جو معنى ذكر ہوا ہے اسميں (عليم) سے مراد حضرت يوسفعليه‌السلام ہيں اور (كل ذى علم ) سے مراد، ان كے بھائي ہيں _

۲۷_خداوند متعال ہر عالم اور دانشمند سے زيادہ عالم اور

۵۹۲

آگاہ ہے_فوق كل ذى علم عليم

مذكورہ بالا معنى اس صورت ميں ہے كہ (عليم) سے مراد، خداوند متعال ليا جائے_و فوق كل ذى علم عليم

۲۸_ انسان كا علم محدود ہے _

'' و فوق كل ...'' كے جملے ميں جو عموميت پائي جاتى ہے _ اس سے معلوم ہوتاہے كہ انسانوں ميں كوئي ايسا انسان نہيں ہے جو تمام سے علم كے اعتبار سے افضل و بالاہو_

۲۹_ علم ركھنا اور آگاہ ہونا بلند ى و برترى كا سرچشمہ ہے_نرفع درجات من نشاء و فوق كل ذى علم عليم

مذكورہ بالا معنى دو جملوں كے ارتباط سے حاصل ہوا ہے _ جملہ (نرفع ...) اور جملہ (فوق كل ذى علم عليم) سے_

اسماء و صفات:عليم ۲۷

انسان:انسانوں كے علم كا محدود ہونا ۲۸ ; انسانوں كے علم كے مراتب ۲۵ ; انسانوں كے مراتب ۲۳ ; انسانوں ميں تفاوت ۲۵ ; انسانوں ميں تفاوت كا سبب ۲۴ ; انسانوں ميں معنوى درجات كا سبب۲۴

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا علم ۲۷ ; اللہ تعالى كى بخششيں ۲۴; اللہ تعالى كى تعليمات ۴ ; اللہ تعالى كى خصوصيات۲۷ ; اللہ تعالى كى مشيت كے آثار ۱۴،۱۵،۱۸ ،۲۴;اللہ تعالى كى سنتيں ۱۹ ;امدا د الہى كے آثار ۱۵; اللہ تعالى كى مشيت كے جارى ہونے كے مقامات ۱۹اسباب و علل كا نظام ۱۹

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسف كا علم ۲۶;برادران يوسف كے تجارتى سامان كى تلاشى ۱،۲; برادران يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۲۶

بادشاہ مصر :بادشاہ مصر كے اختيارات كى حدود ۱۲; بادشاہ مصر كے پانى پينے كا برتن ۵; بادشاہ مصر كے پانى پينے والے پيالے كے كشف ہونے كا مكان ۳

بنيامين :بنيامين كو روكنے كا فلسفہ ۶ ;بنيامين كى جزا ۴; بنيامين كى حفاظت ۴ ،۵ ،۱۴ ، ۱۵ ، ۲۱; بنيامين كى سزا ۴; بنيامين كى گرفتارى كا غير قانونى ہونا ۷; بنيامين كے تجارتى سامان كى تلاش ۲ ، ۳

چور:چور كو غلام بنانے كى ممنوعيت۹; چور كى سزا ۵ ،۷

سزا :

۵۹۳

حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں سزا كے قوانين ۸

سزا دينے كا نظام :حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں سزا دينے كا نظام ۱۶

علم :علم كے آثار ۲۹

غلامى :غلامى كے احكام۹

غير ملكى :غير ملكيوں كى سزا ۱۶

فضيلتيں :فضيلتوں كى وجہ ۲۹

قانون:قانون كو پاس كرنے كى اہميت ۱۷; قانون كے احترام كى اہميت ۱۷

قديمى مصر :حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں قديمى مصر كى حكومت ۱۱; قديمى مصر كى بادشاہى حكومت ۱۱ ; قديمى مصر كے عدالتى قوانين ۸ ، ۹ ،۱۶; قديمى مصر كے قانون بنانے والے۱۲; قديمى مصر ميں چور كى غلامى ۹; قديمى مصر ميں حكومتى نظام ۱۱ ; قديمى مصر ميں سزا كے قوانين ۷ ، ۸ ; قديمى مصر ميں عدالت كا نظام ۸ ; قديمى مصر ميں قانون سازى كا سبب ۲

مادى اسباب :مادى اسباب كا كردار ۱۸ ،۱۹

معنوى مقامات:معنوى مقامات كے مراتب ۲۲ ، ۲۳

حضرت يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام اور بنيامين كى گرفتارى ۷ ;حضرت يوسفعليه‌السلام اور بنيامين ۴ ، ۵ ، ۲۱; حضرت يوسفعليه‌السلام اور قديمى مصر كے قوانين ۱۰; حضرت يوسفعليه‌السلام اور مشيت الہى ۱۵; حضرت يوسفعليه‌السلام قديمى مصركى قحطى كے دوران ۱۳; حضرت يوسفعليه‌السلام كا تلاشى لينا ۱ ، ۲ ، ۳ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا علم ۲۱ ، ۲۶; حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ،۳،۴،۵،۷ ،۱۴;حضرت يوسفعليه‌السلام كو الہام ہونا ۵; حضرت يوسفعليه‌السلام كى تدبير ۴ ، ۲۱; حضرت يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۲۱ ، ۲۶; حضرت يوسفعليه‌السلام كى تدبير كا فلسفہ ۵; حضرت يوسفعليه‌السلام كے كمالات ۲۰ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كے اختيارات كا احاطہ ۷ ، ۱۰; حضرت يوسفعليه‌السلام كے معنوى مقامات ۲۰ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كے منافع ۶; حضرت يوسفعليه‌السلام كى تدبير كرنے كا سبب ۵ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كى موفقيت ۲۱ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كو وحى كا ہونا ۴ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كو امداد الہى كا ہونا ۱۵

۵۹۴

آیت ۷۷

( قَالُواْ إِن يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَّهُ مِن قَبْلُ فَأَسَرَّهَا يُوسُفُ فِي نَفْسِهِ وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ قَالَ أَنتُمْ شَرٌّ مَّكَاناً وَاللّهُ أَعْلَمْ بِمَا تَصِفُونَ )

ان لوگوں نے كہا كہ اگر اس نے چورى كى ہے تو كيا تعجب ہے اس كا بھائي اس سے پہلے چورى كرچكاہے _يوسف نے اس بات كو اپنے دل ميں چھپاليا اور ان پر اظہار نہيں كيا_كہا كہ تم بڑے برے لوگ ہو اور اللہ تمھارے بيانات كے بارے ميں زيادہ بہتر جاننے والا ہے (۷۷)

۱_برادران يوسفعليه‌السلام نے جب بنيامين كے سامان ميں شاہى پيالے كو ديكھا تو اسكو پيالے كا چور جانتے ہوئے اس بات كا اعتراف كيا _قالوا إن يسرق فقد سرق أخ له من قبل

۲_ برادران يوسفعليه‌السلام نے حضرت يوسفعليه‌السلام كے سامنے بنيامين پر چورى والى عادت كى تہمت لگائي_

قالوا إن يسرق

كيونكہ بنيامين كو بطور چور كے پہچانا گيا تو موقع كا تقاضا يہ تھا كہ برادران يوسفعليه‌السلام يہاں ہر فعل ماضى (سرق ) كو لاتے ليكن انہوں نے فعل مضارع (يسرق)كو ذكركركے استمرار اور ہميشہ عادت ہونے كو ثابت كيا _پس فعل ماضى كى جگہ فعل مضارع كے استعمال سے يہ بتانا چاہتے تھے كہ بنيامين كے اندر چورى كى عادت ہے _

۳_ برادران يوسفعليه‌السلام نے حضرتعليه‌السلام كے حضور ميں بنيامين كے بھائي ( يوسفعليه‌السلام ) كے بارے ميں بات كى اور ان كے ليے بھى ماضى ميں چورى كو مسلم امر ثابت كيا_إن يسرق فقد سرق أخ له من قبل

۴_ حضرت يوسفعليه‌السلام پر بچپن ميں ناحق چورى كا الزام لگاياگيا تھا_

فقد سرق أخ من قبل قال الله اعلم بما تصفون

۵_ برادران يوسفعليه‌السلام كو يقين تھا كہ حضرت يوسفعليه‌السلام اس دنيا ميں نہيں ہيں _فقد سرق أخ له من قبل

(من قبل) كا جملہ (سرق) كے متعلق ہے _ اس صورت ميں (فقد سرق ...) كے جملے كا يہ معنى ہوگا كہ اسكا ايك بھائي تھا اس نے اس سے پہلے چورى كى تھي_

اور يہ بھى ممكن ہے ( من قبل) متعلق (أخ لہ ) كے ہو تو اس صورت ميں يوں معنى ہوگا وہ اس سے پہلے ايك بھائي ركھتا

۵۹۵

تھا جس نے چورى كى تھى اسى وجہ سے ( منقبل) كى تقيد سے يہ ظاہر ہوتاہے_ كہ برادران يوسف يہ خيال كرتے تھے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام اس دنيا سے چلے گئے ہيں _

۶_ بنيامين اور حضرت يوسفعليه‌السلام يہ دونوں ايك ماں سے تھے _إن يسرق فقد سرق أخ له من قبل

۷_فرزندان يعقوبعليه‌السلام بنيامين كا چورى كى طرف رجحان كو ماں كى طرف سے خيال كرتے ہوئے ان كے بيٹوں ميں اس برائي كا سبب سمجھا_إن يسرق فقد سرق أخ له من قبل

(إن يسرق ) شرط كا جواب، ايك جملہ ہے جو محذوف ہے پس (فقد يسرق) كا جملہ سبب كى جگہ پر مسبب كا ذكر كيا گيا ہے _

اس وجہ سے جملہ (إن يسرق ...) كا معنى يوں ہوگا_ اگر اس نے چورى بھى كى ہے تو يہ اس سے بعيد نہيں ہے _ كيونكہ اس كے مادرى بھائي نے بھى چورى كى تھى پس ان ميں چورى كى عادت ماں كى وجہ سے ہے _

۸_فرزندان يعقوبعليه‌السلام اس تجزيے كے تحت كہ بنيامين ميں ماں كے اثر كى وجہ سے چورى كى عادت آئي ہے _ اس سے وہ يہ ثابت كرنا چاہتے تھے كہ جو چورى كى وجہ سے شرمندگى كا سبب بنے ہيں يہ سب اس كى وجہ سے ہے _

إن يسرق فقد سرق اخ له من قبل

برادران يوسفعليه‌السلام نے بنيامين كو چورى ( إن يسرق) كى عادت ہونے كو ثابت كرتے ہوئے يہ بات بتاتاچاہتے تھے كہ دونوں مادرى بھائيوں كويہ برى عادت پيدائش كے وقت ماں كى طرف سے ان كو ملى ہے _ كيونكہ دوسرے بھائي ان كى ماں سے نہيں ہيں اس وجہ سے اس برى صفت كو نہيں ركھتے _

۹_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں كى ناحق بات (چورى كى جھوٹى نسبت ) پر اپنا دفاع نہيں كيا _

فاسرّها يوسف فى نفسه و لم يبدها لهم (أسرّہا ) اور ( لم يبدھا ) ميں جو ''ہا'' كى ضمير ہے وہ اس جملے كى طرف لوٹتى ہے جسميں برادران يوسفعليه‌السلام نے حقيقت و واقعيت كو اپنے خيال ميں يوں بيانكيا ( فقد سرق أخ) اس و جہ سے جملہ ( فاسرّہا ...) كا معنى يوں ہوگا كہ حضرت يوسفعليه‌السلام نے واقعہ كى حقيقت اور واقعيت اپنے دل ميں چھپا ديا اسكو ظاہر كرنے سے پرہيز كيا _

۵۹۶

۱۰_ حضرت يوسفعليه‌السلام اپنے نفس پر كنٹرول كرنے والے اور حليم و بردبار تھے_فاسرّها يوسف فى نفسه و لم يبدها لهم

۱۱ _ برادران يوسفعليه‌السلام سوائے بنيامين كے بدمزاجى ركھنے والے اور اچھى سيرت كے حامل نہيں تھے_قال أنتم شرّ مكان// (مكان) آيت شريفہ ميں مقام و مرتبہ كے معنى ميں ہے _ يہ تميزہے جو مبتداء ميں تبديل ہوگئي ہے اصل ميں جملہ اس طرح ہے _ ''مكانكم شرّ''

۱۲_ حضرت يوسفعليه‌السلام كا يہ وضاحت كرنا كہ ميرے بھائي سيرت اور مقام و منزلت كے اعتبار سے پست ہيں _

قال أنتم شر مكان

۱۳ _ خداوند متعال ہر بات پر خواہ وہ صحيح ہو يا نہ ہو كامل طور پر آگاہ ہے_والله اعلم بما تصفون

۱۴_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے فرزندان يعقوبعليه‌السلام كو يہ بات گوش گذار كردى كہ ان كى يہ بات (تمہارى پدرى بھائي بنيامين نے چورى كى ہے ) مجھے اس پر يقين نہيں ہے _إن يسرق فقد سرق أخ له من قبل والله اعلم بما تصفون

(واللہ اعلم ...) كا جملہ (انتم ...) پر عطف ہے دونوں جملے (قال) كے ليے مقول واقع ہوئے ہيں _ اور يہ كہ (قال ) كا لفظ (استر) اور (لم يبد) كے مقابلے ميں واقع ہوا ہے تويہاں ہم يہ كہہ سكتے ہيں كہ (قول) سے مراد ظاہركرنا اور كلام كو واضح و روش كرنا ہے نہ يہ كہ زير لب اور اپنے دل ميں يہ بات كہى ہو_

۱۵_'' عن الرضا(ع) '' فى قول الله : '' إن يسرق فقد سرق أخ له من قبل ...'' قال: كانت لاسحاق النبى عليه‌السلام منطقة و كانت عند عمه يوسف و كان يوسف عندها فربطتها فى حقوه و قالت سرقت المنطقة فوجدت عليه (۱) حضرت امام رضاعليه‌السلام نے خداوند متعال كے اس قول (إن يسرق فقد سرق اخ لہ من قبل ...) كے بارے ميں فرمايا كہ حضرت اسحاقعليه‌السلام ايك كمربند ركھتے تھے_ جو حضرت يوسفعليه‌السلام كى پھوپھى كے پاس تھا اور حضرت يوسفعليه‌السلام بھى اپنے پھوپھى كے ہاں زندگى كرتے تھے پس ان كى پھوپھى نے اس كمر بند كو ان كى كمر ميں باندھ ديا _ اور كہا كہ كمربند چورى ہوگيا ہے پھر وہ كمربند حضرت يوسفعليه‌السلام كى كمر سے مل گيا _

۱۶_'' عن النبى فى قوله : '' ان يسرق فقد سرق آخ له من قبل'' قال : سرق يوسف عليه‌السلام ضمناً لجدّه أبى امه من ذهب و فضة،

____________________

۱)تفسير عياشى ج۲ ص ۱۸۵ ح ۵۳ ; نورالثقلين ۴۴۵ح ۱۳۷_

۵۹۷

فكسره و ألقاه فى الطريقه وقيره بذلك إخوته (۱)

اس آيت (إن يسرق فقد سرق آخ لہ من قبل) كے بارے ميں رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حديث ہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے نانا كے گھر سے ايك بت كو أٹھايا تھا جو سونے اور چاندى كا بنا ہوا تھأ اسكو توڑ كر راستے ميں ڈال ديا تھا، برادران يوسف اس بات پر ان كو برا بھلاكہتے تھے_

اللہ تعالي:اللہ تعالى كا غلم غيب ۱۳

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسف اور يوسفعليه‌السلام ۲ ، ۳ ، ۵; برادران يوسفعليه‌السلام كى سوچ ۵ ،۷ ; برادران يوسفعليه‌السلام كا اپنے آپ كى صفائي پيش كرنا ۸ ;برادران يوسفعليه‌السلام كا اقرار ۱; برادران يوسف كى تہمتيں ۲ ، ۳ ،۷،۸; برادران يوسفعليه‌السلام كى برى سيرت ۱۱ ، ۱۲; برادران يوسف كى رذالت ۱۱ ، ۱۲

بنيامين:بنيامين اور حضرت يوسفعليه‌السلام ۶ ;بنيامين پر چورى كى تہمت ۱ ، ۲ ، ۷۶،۸ ; بنيامين كى ماں پر تہمت ۷ ; بنيامين كى ماں پر تہمت لگانے كا فلسفہ ۸

بادشاہ مصر :بادشاہ مصر كے پانى پينے كا پيالہ ۱

روايت : ۱۵،۱۶

حضرت يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام اور بت ۱۶ ; حضرت يوسفعليه‌السلام اور برادران ۱۴، ۱۶ ; حضرت يوسف(ع) اور چورى ۱۵ ،۱۶; حضرت يوسفعليه‌السلام اور حضرت اسحاقعليه‌السلام كا كمربند۱۵; حضرت يوسفعليه‌السلام اور بھائيوں كى تہمتيں ۹ ، ۱۴; حضرت يوسفعليه‌السلام پر چورى كى تہمت ۳ ، ۴ ، ۹،۱۴; حضرت يوسفعليه‌السلام كا اقرار ۱۲ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا بچپن ۴ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا صبر ۹،۱۰ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا علم ۹ ،۱۰ ;حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۳ ، ۴ ، ۵ ، ۷،۸،۹،۱۴،۱۶;حضرت يوسفعليه‌السلام كو سرزنش كرنا ۱۶ ; حضرت يوسف كى موت ۵; حضرت يوسفعليه‌السلام كے پدرى بھائي ۶ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۱۰

____________________

۱)الدرالمنثور ج۲ ص ۵۶۴_

۵۹۸

آیت ۷۸

( قَالُواْ يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ إِنَّ لَهُ أَباً شَيْخاً كَبِيراً فَخُذْ أَحَدَنَا مَكَانَهُ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ )

ان لوگوں نے كہا كہ اے عزيز مصر اس كے والد بہت ضعيف العمر ہيں لہذا ہم ميں سے كسى ايك كو اس كى جگہ پر لے ليجئے اور اسے چھوڑ ديجئے كہ ہم آپ كو احسان كرنے والا سمجھتے ہيں (۷۸)

۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بنيامين كو گرفتار كرليا اور اسكو اپنے بھائيوں كے ساتھ نہيں جانے ديا _

فهو جزاء ه قالوا يأيها العزيز إن له اباً شيخاً كبير

۲_ فرزندان يعقوب شفقت اور محبت كا اظہار كركے حضرت يوسفعليه‌السلام كى رضايت كو حاصل كرنے لگے تھے كہ بنيامين كو آزاد كراليں _قالوا يا ايها العزيز إن له اباً شيخاً كبير

۳_ فرزندان يعقوبعليه‌السلام نے بنيامين كو آزاد كرانے كے ليے دليليں بيان كيں تم (حضرت يوسفعليه‌السلام ) صاحب اقتدار ہو جو چاہو كرسكتے ہواور تم نيك كام كرنے والے ہو _ اور حضرت يعقوبعليه‌السلام اس لائق ہيں كہ ان پر رحم كيا جائے_

قالوا يا ايها العزيز إن له اباً شيخاً كبيراً انا نرى ك من المحسنين

برادران يوسفعليه‌السلام كا حضرت يوسفعليه‌السلام كو (عزيز) سے خطاب كرنے كا مقصد يہ تھا كہ تم صاحب اقتدار ہو اپنى مرضى كے مطابق جو چاہو كرسكتے ہو اور حضرت يعقوبعليه‌السلام كو بوڑھے بزرگ انسان اور ضعيف العمرسے تعبير كرنے كا مقصد يہ تھا كہ وہ اس لائق ہيں كہ ان پر رحم و مہربانى كى جائے اور حضرت يوسفعليه‌السلام كى اس طرح تعريف كرنا كہ وہ نيك كام كرنے والے ہيں ان كو احسان اور مہربانى كرنے پر رغبت دلانا تھا_

۴_ حضرت يعقوبعليه‌السلام ،حضرت يوسفعليه‌السلام كى وزارت اور

۵۹۹

بنيامين پر چورى كے قصے كے وقت بوڑھے اور بہت ضعيف ہو چكے تھے_إن له اباً شيخاً كبير

( شيخ ) بوڑھے انسان كے معنى ميں ہے اور (كبير) بزرگ كے معنى ميں ہے اس سے مراد سن و سال ميں بزرگى كا ظاہر ہونا ہے _

۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام اس علاقے كى قطحى كے سالوں ميں عزيز مصر تھے_قالوا يا ايها العزيز

۶_ برادران يوسفعليه‌السلام كى ايك رائے تھى كہ بنيامين كى آزادى كے مقابلے ہم ميں سے كسى كو گرفتار كرليں _

فخذ أخذنا مكانه

۷_ برادران بنيامين كا بنيامين كو اپنے والد گرامى حضرت يعقوبعليه‌السلام كے پاس واپس لوٹا نے ميں فداكارى اور ايثار كرنا _

فخذ اخذنا مكانه

۹_ حضرت يوسفعليه‌السلام اپنى وزارت اور اقتدار كے زمانے ميں نيك كام كرنے والے انسان تھے_

انا نرى ك من المحسنين

۱۰_ حضرت يوسفعليه‌السلام كا اپنے اقتدار كے دوران نيك كام كرنا ان كے كردار اور عادات سے جلوہ گرى تھي_

إنا نرى ك من المحسنين

(نرى ) كا لفظ آيت شريفہ ميں ( ہم اطمينان ركھتے ہيں ) كے معنى ميں ہے اس لفظ سے ديكھ رہے ہيں (ہم ) كا معنى لينا اسوجہ سے ہے كہ برادران يوسف حضرتعليه‌السلام كى شخصيت پر اطمينان ركھتے تھے جو ان كے ليے ان كى رفتار و كردار كو مشاہدہ كرنے سے حاصل ہوا تھا_

۱۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام كو نيك كام كرنے والا ديكھ كر فرزندان يعقوبعليه‌السلام نے بنيامين كى آزادى كاتقاضا كيا اور كہا ان ميں سے كسى ايك كو اس كى جگہ گرفتار كر ليا جائے_فخد احدنا مكانه انا نرى ك من المحسنين

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسف اور بنيامين ۸ ; برادران يوسف اور بنيامين كى نجات ۲ ، ۳ ،۶،۷ ، ۱۱; برادران يوسف اور حضرت يوسف ۴ ، ۲ ; برادران يوسفعليه‌السلام كا ايثار كرنا ۶ ، ۷ ;برادران يوسف كا مشورہ ۶ ; برادران يوسفعليه‌السلام كى خواہشات ۱۱ ;برادران يوسف(ع) كى كوشش ۲ ;برادران يوسف كے پيش آنے كا طريقہ ۳

بنيامين :بنيامين كى گرفتارى ۱

عزيز مصر :قحطى كے دوران عزيز مصر ۵

۶۰۰

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945

946

947

948

949

950

951

952

953

954

955

956

957

958

959

960

961

962

963

964

965

966

967

968

969

970

971