تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 6%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 205810 / ڈاؤنلوڈ: 4271
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۸

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

آیت ۵

( وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ اذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ أَنجَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَيُذَبِّحُونَ أَبْنَاءكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءكُمْ وَفِي ذَلِكُم بَلاء مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ )

اور اس وقت كو ياد كرو جب موسى نے اپنى قوم سے كہا كہ تم لوگ اللہ كى اس نعمت كو ياد كرو كہ اس نے تمھيں فرعون والوں سے نجات دلائي جب كہ وہ بدترين عذاب ميں مبتلا كررہے تھے كہ تمھارے لڑكوں كو ذبح كررہے تھے اور تمھارى لڑكيوں كو(كنيزي)كے لئے زندہ ركھتے تھے اور اس ميں تمھارے پروردگار كى طرف سے بڑا سخت امتحان تھا_

۱_موسىعليه‌السلام اوران كى قوم كے واقعات كى ياداورى كرانا اوراسے ذہن نشين كرنا پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى تھي_

واذ قال موسى لقومه

مذكورہ مطلب اس بات پر موقوف ہے كہ ''اذ''سے پہلے فعل ''اذكر''مقدر ہو اس بناء پر ايت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مخاطب ہوكر انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى بيان كررہى ہے_

۲_موسىعليه‌السلام اوران كى قوم كے واقعات كا سبق اموز اورياد ركھنے كے قابل ہونا_واذ قال موسى لقومه

خداوند متعال نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو حضرت موسىعليه‌السلام كے قصے كو ياد كرنے كا حكم ديا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ قصہ بہت ہى اہميت اورفوائد كاحامل ہے اور انسانوں كے لئے بہتر ہے كہ وہ اسے ياد ركھيں _

۳_حضرت موسىعليه‌السلام كا اپنى قوم سے ان نعمتوں كو ياد ركھنے كا تقاضا كرنا كہ جو خداوند متعال نے انھيں عطا كى ہيں _

واذ قال موسى لقومه اذكروانعمة الله عليكم

۴_بنى اسرائيل ،عظيم نعمت سے بہرہ مند تھے_واذ قال موسى لقومه اذكروانعمة الله عليكم

ياد اورى كا حكم دينا ،اس بات كا قرينہ ہے كہ ''نعمة الله ''سے مراد ايك خاص اوراہم نعمت ہے_

۵_حضرت موسىعليه‌السلام كا اپنى قوم سے ہميشہ اس با ت كو ذہن نشين كرنے كى تاكيد كرنا كہ ال فرعون كى قتل و غارت اوراذيت سے ان كى نجات كا سب سے بڑا سبب خداوند متعال ہے_

واذ قال موسى لقومه اذكروانعمة الله عليكم اذ ا نجكم من آل فرعون

۲۱

۶_ال فرعون كے قتل وغارت اوراذيت سے بنى اسرائيل كا نجات پانا، خداوند متعال كى طرف سے ان پر ايك واضح نعمت تھى كہ جو ہميشہ ياد ركھنے كے قابل ہے_واذ قال موسى لقومه اذكروانعمة الله عليكم اذ ا نجكم من آل فرعون

۷_ظالمانہ اجتماعى نظام سے نجات حاصل كرنا ،ايك ايسى الہى نعمت ہے كہ جسے ہميشہ ياد ركھنا چاہئے_

اذكروانعمة الله عليكم اذ ا نجكم من آل فرعون يسومونكم

۸_ال فرعون كے ظالمانہ نظام سے بنى اسرائيل كى نجات كادن ''ايام الله '' ميں سے ہے_

و ذكّرهم با يّام الله ...واذ قال موسى لقومه اذكروانعمة الله عليكم اذ ا نجكم من آل فرعون يسومونكم سوء العذاب

اس ايت ميں '' اذكروا ''كا كلمہ ہو سكتا ہے ''ايام الله '' كى ياد دہانى كرانے كے مصاديق ميں سے ہو كہ جسے بيان كرنے كا حضرت موسىعليه‌السلام كو حكم ديا گيا تھا_

۹_فرعون كا خاندان اور اسكے ساتھى سب كے سب ظالم اور اذيت وازار پہنچانے والے لوگ تھے_

اذ ا نجكم من آل فرعون يسومونكم سوء العذاب

۱۰_لوگوں كو ظلم وستم سے نجات دلانے اور انسانى تاريخ كے انقلاب ميں خداوند متعال كا اہم ترين كردار _

اذ ا نجكم من آل فرعون

۱۱_حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم (بنى اسرائيل ) پر بدترين اذيت وازار مسلط كرنا، ال فرعون كا ہميشہ كا وتيرہ تھا_

يسومونكم سوء عذابكم

''يسومون ''، '' سوم '' سے ہے جس كا معنى اذيت اور عذاب مسلط كرنا ہے اسے فعل مضارع كے ساتھ لانااسكے دوام اور استمرار پر دلالت كرتا ہے_

۱۲_ال فرعون ،قوم موسىعليه‌السلام (بنى اسرائيل ) كے بيٹوں كا تو وسيع پيمانے پر قتل عام كرتے تھے ليكن ان كى عورتوں كو زندہ چھوڑ ديتے تھے_ويذبّحون ا بناء كم ويستحيون نساء كم

باب تفعيل سے '' يذبّحون'' كا استعمال كہ جس كا معنى تكثير بھى ہے شايد مذكورہ بالا مطلب كو بيان كررہا ہو_

۲۲

۱۳_بنى اسرائيل كے لڑكوں كو قتل كرنا اوران كى عورتوں كو زندہ ركھنا ان پر ال فرعون كى طرف سے اذيت وازار كو مسلط كرنے كى بدترين مثال ہے_يسومونكم سوء العذاب ويذبّحون ا بناء كم ويستحيون نساء كم

'' يسومونكم ''كے بعد''يذبّحون ا بناء كم ويستحيون نساء كم ''كو لانا ہوسكتا ہے اس كے لئے تفسيرى جملہ ہو اس صورت ميں يہى دو مورد ال فرعون كى ظالمانہ اذيتوں كى تفسير اورتوضيح ہيں _

۱۴_معاشرے ميں مردوں كى نسبت عورتوں كى تعداد ميں اضافے اورابادى كے غيرمعتدل ہوجانے كى وجہ سے عورتوں كے لئے تكليف دہ اجتماعى مشكلات كا پيدا ہوجانا_يستحيون نساء كم

خداوندمتعال نے ال فرعون كى طرف سے اذيت وازار كى وضاحت كے لئے لڑكوں كو قتل كرنے اورعورتوں كو زندہ ركھنے كى مثال دى ہے ممكن ہے يہ مثال اس لئے دى گئي ہو كہ اس طرح كے كام ابادى كو غيرمعتدل بنا ديتے ہيں جس كے نتيجے ميں عورتوں كى ابادى بڑھ جاتى ہے جو لوگوں كے لئے اذيت و ازار كا باعث بنتى ہے_

۱۵_فرعون كے استبدادى نظام جيسا اجتماعى ظالمانہ نظام تاريكيوں ميں سے ايك تاريكى شمار ہوتا ہے_

ا خرج قومك من الظلمت الى النور ...اذ ا نجكم من آل فرعون يسومونكم سوء العذاب

۱۶_ال فرعون كى طرف سے لڑكوں كو قتل كرنے اورعورتوں كو زندہ ركھنے جيسے بدترين اذيت وازار كا مسلط كيا جانا، بنى اسرائيل كے لئے خداوند متعال كى جانب سے ايك بڑا امتحان تھا_

يسومونكم سوء العذاب وفى ذلكم بلاء من ربّكم عظيم

مذكورہ بالا مطلب اس بات پر موقوف ہے كہ جب ''ذلكم '' كا مشارٌ اليہ ال فرعون كى طرف سے ديئے جانے والا اذيت وازار ہو_

۱۷_بنى اسرائيل كا ال فرعون كے اذيت وازار اور قتل سے نجات حاصل كرنا، ان كے لئے خداوند متعال كا عظيم امتحان تھا_اذ ا نجكم من آل فرعون ...وفى ذلكم بلاء من ربّكم عظيم

مذكورہ بالا مطلب اس بات پر موقوف ہے كہ جب

۲۳

''ذلكم ''كا مشاراليہ بنى اسرائيل كا خداوند متعال كے ذريعے ال فرعون كے ظالمانہ رويئے سے نجات پانا ہو_

۱۸_بندوں كى ازمائش، ان پر ربوبيت الہى كا جلوہ ہے_وفى ذلكم بلاء من ربّكم عظيم

۱۹_ظالمانہ اجتماعى نظاموں سے نجات كى نعمت كا الہى ازمائش كے وسيلوں ميں سے ہونا_

اذكروانعمة الله عليكم اذ ا نجكم من آل فرعون ...وفى ذلكم بلاء من ربّكم عظيم

۲۰_خداوند كى طرف سے بندوں كى ازمائش كا مراتب و درجات كے مطابق ہونا_وفى ذلكم بلاء من ربّكم عظيم

ال فرعون:ال فرعون كى تكاليف اوراذيتيں ،۹;ال فرعون كے ظلم،۹

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اوربنى اسرائيل كى تاريخ،۱; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورحضرت موسىعليه‌السلام كا قصہ،۱; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ داري،۱

الله تعالى :الله تعالى كے امتحانات ۱۶،۱۹،۲۰;الله تعالى كا نجات دينا ۱۰;الله تعالى كى ربوبيت كى نشانياں ۱۸;الله تعالى كى نعمتيں ۶،۷;الله تعالى كا كردار۱۰

امتحان -:امتحان كے وسائل ۱۹;اذيت كے ذريعے امتحان ۱۶ ; قتل كے ذريعے امتحان ۱۶;نجات كے ذريعے امتحان۱۷،۱۹;عظيم امتحانات۱۶،۱۷ ; امتحان كے مراتب ۲۰

انسان :انسانوں كا امتحان ۱۸

ايام الله : ۸

بنى اسرائيل :بنى اسرائيل كا امتحان ۱۶; بنى اسرائيل كى اذيت ۱۱ ; بنى اسرائيل كى عورتوں كا زندہ رہنا۱۲، ۱۳، ۱۶ ; بنى اسرائيل كا امتحان۱۷، بنى اسرائيل كى تاريخ ۱۲، ۱۳، ۱۶، ۱۷; بنى اسرائيل كا اذيت و ازار ۱۱،۱۳;بنى اسرائيل كى نجات كے اسباب ۵; بنى اسرائيل كے بيٹوں كا قتل۱۲، ۱۳، ۱۶; بنى اسرائيل كى نجات۶،۸، ۱۷; بنى اسرائيل كى نعمتيں ۳، ۴، ۶

تاريخ:تاريخى تحولات كا سرچشمہ۱۰

۲۴

حكومت:ظالمانہ حكومت۱۵، ۱۹

ذكر:ذكر نعمت كے اثرات۱۵; ذكر نعمت كى اہميت۳; بنى اسرائيل كى تاريخ كا ذكر۱،۲; حضرت موسىعليه‌السلام كے قصے كا ذكر ۱،۲; بنى اسرائيل كى نجات كا ذكر۵;نعمت كا ذكر۶، ۷

ظالمين:۹ظلم:ظلم سے نجات كاسبب ۱۰

عورت:عورتوں كے زيادہ ہونے كے اثرات ۱۴; عورتوں كى اذيت كا پيش خيمہ۱۴

فرعون:فرعون كى استبدادى حكومت ۱۵; فرعون كاظلم ۱۵; فرعون كا سياسى نظام۱۵

فرعونى گروہ:فرعونى گروہ كى اذيتيں ۱۱; فرعونى گروہ كا بدترين ظلم وستم ۱۳; فرعونى گروہ كا اذيت وازار دينا ۹; فرعونى گروہ كے اذيت و ازار ۱۱، ۱۳، ۱۶;فرعونى گروہ كا ظلم ۹، ۱۱; فرعونى گروہ كے قتل ۱۲، ۱۳; فرعونى گروہ كے اذيت وازار سے نجات ۸، ۱۷; فرعونى گروہ كى خصوصيات ۱۱

گمراہي:گمراہى كے موارد ۱۵

مشكلات:اجتماعى مشكلات كا پيش خيمہ ۱۴

موسىعليه‌السلام :حضرت موسىعليه‌السلام كے تقاضے ۳،۵; قصہ موسىعليه‌السلام سے عبرت ۲; حضرت موسىعليه‌السلام اوربنى اسرائيل ۵

نعمت:ظالموں سے نجات كى نعمت ۷، ۱۹

ياددہاني:تاريخ بنى اسرائيل كى ياددہانى ۱; قصہ موسىعليه‌السلام كى ياددہانى ۱

۲۵

آیت ۷

( وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ )

اور جب تمھارے پروردگار نے ا علان كيا كہ اگر تم ہمارا شكريہ ادا كرو گے تو ہم نعمتوں ميں اضافہ كر ديں گے اور اگر كفران نعمت كروگے تو ہمارا عذاب بھى بہت سخت ہے_

۱_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں كو اس بات كى ياد دہانى كرانے كے پابند تھے كہ جو بھى شخص شكرگذار ہوگا يقينا اس كى نعمت ميں اضافہ ہو گا اورجو بھى كفران نعمت كرے گا وہ شديد عذاب سے دوچار ہوگا_

و اذ تا ذّن ربّكم لئن شكرتم لا زيدنّكم ولئن كفرتم ان عذابى لشديد

''و اذ تا ذّن '' ،''اذ قال'' پر عطف ہے كہ جس ميں '' اذكر''مقدر ہے جس كے مخاطب پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہيں _

۲_حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنى قوم كو خداوند متعال كے فرمان اورہدايات كو ياد ركھنے كى تاكيد كى كہ جو بھى شكرگذار رہے گا خداوند عالم اس كى نعمتوں ميں اضافہ فرمائے گا اورجو بھى كفران نعمت كرے گا وہ شديد عذاب ميں گرفتار ہوجائے گا_

اذكروانعمة الله عليكم ...و اذ تا ذّن ربّكم لئن شكرتم لا زيدنّكم ولئن كفرتم ان عذابى لشديد

يہ مطلب اس نكتہ پر موقوف ہے كہ جب'' اذ تا ذّن''قول موسىعليه‌السلام ہو اور'' اذكروانعمة الله ''پر'' عطف ہو_

۳_ربوبيت الہى كا تقاضا يہ ہے كہ شكر كرنے كى صورت ميں نعمت ميں اضافہ كيا جائے اوركفران نعمت كى صورت ميں عذاب سے ڈرايا جائے_و اذ تا ذّن ربّكم لئن شكرتم لا زيدنّكم ولئن كفرتم ان عذابى لشديد

۴_خداوند متعال كى نعمتوں كا شكر بجالانا ايك ضرورى امر اورخاص اہميت ومنزلت كا حامل ہے_

و اذ تا ذّن ربّكم لئن شكرتم

شكر بجالانے كے بارے ميں خداوندمتعال نے خاص فرمان صادر كيا ہے جس سے شكر كى اہميت اورمنزلت كا پتہ چلتا ہے_

۵_ظالمانہ نظام سے نجات پانے كى نعمت پر شكر بجالانا اس نعمت ميں اضافے اوراس كے دوام كا باعث بنتا ہے اوراس كا كفران اس نعمت كے زائل ہوجانے كاانديشہ ہوتا ہے_

اذ ا نجكم من آل فرعون ...و اذ تا ذّن ربّكم لئن شكرتم لا زيدنّكم ولئن كفرتم ان عذابى لشديد

۲۶

۶_نعمت ميں اضافہ كرنا ،خداوند متعال كا كام ہے_لئن شكرتم لا زيدنّكم

۷_فرعونى گروہ كے ظلم وستم سے بنى اسرائيل كا نجات پانا ان كے لئے ايك بڑى نعمت تھى جس پر انھيں شكر بجالانا چاہئے تھا_اذ ا نجكم من آل فرعون ...و اذ تا ذّن ربّكم لئن شكرتم لا زيدنّكم

''اذ تا ذّن ربّكم '' كاجملہ كلام موسىعليه‌السلام كا دوام ہے كہ جس كے ذريعے وہ بنى اسرائيل كو فرعونى گروہ كے چنگل سے نجات پانے كى ياددہانى كرا رہے ہيں حضرت موسىعليه‌السلام نے اس كلام كے ذريعے اشارتاً بنى اسرائيل كو ياد دہانى كرائي ہے كہ ان كا نجات پانا، نعمت خداوندى ہے جس پر انھيں شكر بجالانا چاہئے_

۸_قران كے تربيتى طريقوں ميں سے ايك نيك اورپسنديدہ عمل پراجرو ثواب عطا كرنے كى بشارت دينا اوربرے اعمال پر سزا وعذاب سے ڈراناہے_لئن شكرتم لا زيدنّكم ولئن كفرتم ان عذابى لشديد

۹_نعمتوں كے كم يا زيادہ ہونے ميں انسان خود بنيادى كردار ادا كرتے ہيں _

لئن شكرتم لا زيدنّكم ولئن كفرتم ان عذابى لشديد

۱۰_خداوند متعال كا عذاب بہت ہى شديد ہے_ان عذابى لشديد

۱۱_''قال ا بو عبدالله عليه‌السلام :ا يّما عبد ا نعم الله عليه بنعمة فعرفها بقلبه وحمدالله عليها بلسانه لم تنفد حتى يا مرالله له بالزيادة وهوقوله:'' لئن شكرتم لا زيدنّكم'' ;(۱) حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام سے منقول ہے كہ جس بندے كو بھى خداوند عالم كوئي نعمت عطا كرے تو اگر وہ اسے اپنے دل سے پہچانے اوراس نعمت پر خدا كى زبان سے ستائش كرے تو ابھى اس كى حمدو ستائش ختم بھى نہيں ہوگى كہ خداوند اس كى نعمت ميں اضافہ كرنے كاحكم فرمائے گا اوريہ قول خداوند ہے كہ :'' لئن شكرتم لا زيدنّكم'' _

____________________

۱)تفسيرقمى ،ج۱،ص۳۶۸_ نورالثقلين، ج۲،ص۶ ۵۲، ح۱۲، ۱۵_

۲۷

۱۲_''عن ا بى عبدالله عليه‌السلام قال:فيماا وحى الله عزّوجلّ الى موسى عليه‌السلام يا موسى اشكرنى حق شكرى فقال: ياربّ وكيف ا شكرك حق شكرك وليس من شكر: ا شكرك به الّا وا نت ا نعمت به عليّ؟ قال:يا موسى الان شكرتنى حين علمت ا ن ذلك منّي ;(۱) حضرت امام جعفرصادق عليہ السلام سے منقول ہے كہ خداوند متعال نے حضرت موسىعليه‌السلام كو وحى كى كہ اے موسىعليه‌السلام جس طرح شكر ادا كرنے كا حق ہے اس طرح ميرا شكر بجا لاو _ حضرت موسىعليه‌السلام نے عرض كي:ميں تيرا شكر كس طرح بجا لاو ں كہ حق شكر ادا ہوجائے اوركوئي بھى ايسا شكر نہيں كہ جس كے ساتھ ميں تيرا شكر كروں سوائے اس كے كہ وہ شكر خود ايك نعمت ہے جو تونے مجھے عطا فرمائي ہے_ خداوند متعال نے فرمايا:اب جبكہ تم نے جان ليا ہے كہ (شكر گذارى كي) يہ نعمت ميرى طرف سے ہے تو پھر ميرا شكر بجا لاو _

۱۳_'' عن ا بى عبدالله عليه‌السلام قال:شكرالنعمة اجتناب المحارم وتمام الشكر قول الرجل الحمدلله ربّ العالمين ;(۲) اما م جعفر صادقعليه‌السلام نے فرمايا:گناہوں سے پرہيز كرنا نعمت كا شكر ہے اورشكر كامل انسان كا ''الحمدلله ربّ العالمين''كہنا ہے_

۱۴_''عن الصادق عليه‌السلام : ...ان الكبائر كفران النعمة ''ولئن كفرتم ان عذابى لشديد'' ...;(۳) حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے منقول ہے كہ اپعليه‌السلام نے گناہان كبيرہ كے بارے ميں فرمايا ...بتحقيق كفران نعمت گناہان كبيرہ ميں سے ہے(جيسا كہ خداوند كا فرمان ہے) :''ولئن كفرتم ان عذابى لشديد'' _

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى ۱

الله تعالى :الله تعالى كا كردار ۶; الله تعالى كى ربوبيت كے اثرات ۳; الله تعالى كے عذاب كى خصوصيات ۱۰

انذار:انذار سزا كى ايم قسم ہے۸

انسان:انسان كا كردار ۹

بشارت:

____________________

۱) كافي،ج۲،ص۹۸،ح۲۷_بحارا لانوار، ج۶۸ ،ص۳۶، ح۲۲ _

۲)اصول كافي،ج۲،ص۹۵،ح۱۰_نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۵۲۹ ،ح۲۴_

۳)مناقب ابن شھراشوب،ج۴،ص۲۵۱، بحار الانوار ج۴۷ ، ص ۲۱۷ ،ح۴_

۲۸

بشارت كا اجروثواب ہونا ۸

بنى اسرائيل:بنى اسرائيل كو نصيحت ۲; بنى اسرائيل كى نجات ۷; بنى اسرائيل كى نعمتيں ۷

تربيت:تربيت كا طريقہ ۸

حكومت:ظالمانہ حكومت ۵

حمد:حمد خدا كے اثرات ۱۱

ذكر:خدا كى نصيحتوں كا ذكر۲

روايت: ۱۱،۱۲، ۱۳، ۱۴

شاكرين:شاكرين كى نعمت كا زيادہ ہونا ۲۱

شكر:شكر نعمت كے اثرات۱،۲،۳،۵; شكر نعمت كى اہميت ۴; شكر كى حقيقت ۱۲; نعمت كا شكر ۱۲; شكر نعمت كى ضرورت ۴; شكر نعمت كا مطلب ۱۳

عذاب:اھل عذاب۱،۲; شديد عذاب ۱،۲، ۱۰; عذاب كے مراتب ۱، ۲، ۱۰; عذاب كے اسباب۱،۲،۳

عمل:پسنديدہ عمل كااجر ۸; ناپسنديدہ عمل كى سزا ۸

فرعونى گروہ:فرعونى گروہ سے نجات ۷

كفران:كفران نعمت كے اثرات ۱،۲،۳، ۵; كفران نعمت كے موارد ۱۴

گناھان كبيرہ:گناہان كبيرہ كے اثرات ۱۴

موسىعليه‌السلام :حضرت موسىعليه‌السلام كى ارزوئيں ۲

نعمت:نعمت كے زيادہ ہونے كے اسباب ۱، ۲، ۵، ۹، ۱۱; سلب نعمت كے اسباب ۵; نعمت كے كم ہونے كے اسباب ۹; مراتب نعمت ۷; نعمت كا شكر بجا لانا ۱۲;

ظالموں سے نجات كى نعمت ۵; عظيم نعمتيں

۲۹

آیت ۸

( وَقَالَ مُوسَى إِن تَكْفُرُواْ أَنتُمْ وَمَن فِي الأَرْضِ جَمِيعاً فَإِنَّ اللّهَ لَغَنِيٌّ حَمِيدٌ )

اور موسىعليه‌السلام نے يہ بھى كہہ ديا كہ اگر تم سب اور روئے زمين كے تمام بسنے والے بھى كافر ہوجائيں تو ہمارا اللہ سب سے بے نياز ہے اور وہ قابل حمدو ستايش ہے _

۱_ حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنى رسالت كافريضہ ادا كرتے ہوئے بنى اسرائيل سے كہا كہ ان كا اورپورى زمين پر بسنے والے انسانوں كا كفرخداوند متعال كو كسى قسم كا نقصان نہيں پہنچا سكتا_

وقال موسى ان تكفروا ا نتم ومن فى الا رض جميعاً فان الله لغنى حميد

'' ان تكفروا'' ميں '' ان''شرطيہ ہے اوراس كا جواب''لم يتضررھو''ہے كہ جو محذوف ہے اورجملہ'' فانَّ الله يَغَني'' محذوف جزائے شرط كى علت بيان كررہا ہے_

۲_بنى اسرائيل كا خيال تھا كہ خداوند متعال كو ان كے ايمان لانے يا كفر اختيار كرنے سے فائدہ ياضرر حاصل ہوتا ہے_

وقال موسى ان تكفروا ا نتم ومن فى الا رض جميعاً فان الله لغنى حميد

۳_خداوند متعال كى نعمتوں كا كفران، اس كى ذات كو كسى قسم كاضرر ونقصان نہيں پہنچاتا_

ان تكفروا ا نتم ومن فى الا رض جميعا

''ولئن كفرتم''كہ جس كا مطلب كفران (نعمت) تھا ،كے قرينے سے ''ان تكفروا '' سے مراد نعمات خدا كے مقابلے ميں ناشكرى ہوسكتى ہے_

۴_حضرت موسىعليه‌السلام نے بنى اسرائيل كو نعمات الہى كے كفران سے منع كيا_

واذ قال موسى لقومه اذكروانعمة الله عليكم ...وقال موسى ان تكفروا ا نتم ومن فى الا رض جميعا

۵_نعمت كے شكر بجالانے كا فائدہ اوراس كے كفران كا نقصان ،خود انسان كو پہنچتاہے_

۳۰

لئن شكرتم لا زيدنّكم و ...ان تكفروا ا نتم ومن فى الا رض جميعاً فان الله لغنى حميد

۶_خداوندعالم غني(بے نياز)اورحميد(قابل ستائش) ہے_فان الله لغنى حميد

۷_خداوندمتعال كا بے نياز اورقابل ستائش ہونا اس بات كى دليل ہے كہ لوگوں كے كفر اختيار كرنے سے اس كا كوئي نقصان اورضرر نہيں ہوتا_ان تكفروا ا نتم ومن فى الا رض جميعاً فان الله لغنى حميد

''فان الله لغنى حميد ''محذوف جزائے شرط كى تعليل ہے اس صورت ميں اس كا معنى يہ ہوجاتا ہے:خداوند عالم كے بے نياز ہونے كى وجہ سے تمہاراكفر اسے كوئي نقصان نہيں پہنچا سكتا_

اسماء وصفات:حميد ۶; غنى ۶

الله تعالى :الله تعالى كى بے نيازى كے اثرات ۷; الله تعالى اورانسانوں كا ايمان ۲; الله تعالى اورانسانوں كا كفر ۲،۷; الله تعالى كونقصان نہ پہنچنے كے دلائل ۷;الله تعالى ضرر سے محفوظ ہونا۱، ۳

بنى اسرائيل:بنى اسرائيل كى غلط سوچ ۲; بنى اسرائيل كا كفر ۱; بنى اسرائيل كونہى ۴

حمد :الله تعالى كى حمد ۷

خود:خود كو ضرر پہنچانا ۵

شكر:شكر نعمت كے فوائد ۵

عمل:عمل كے اثرات ۵

كفر:كفر كے اثرات ۱

كفران:كفران نعمت كے اثرات ۳; كفران نعمت كا نقصان ۵; كفران نعمت سے نہى ۴

موسىعليه‌السلام :حضرت موسىعليه‌السلام كى رسالت ۱; حضرت موسىعليه‌السلام كے نواہى ۴

۳۱

آیت ۹

( أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَالَّذِينَ مِن بَعْدِهِمْ لاَ يَعْلَمُهُمْ إِلاَّ اللّهُ جَاءتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَرَدُّواْ أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ وَقَالُواْ إِنَّا كَفَرْنَا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ وَإِنَّا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَنَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ )

كيا تمھارے پاس اپنے سے پہلے والوں قوم نوح اور قوم عاد و ثمود اور جوان كے بعد گذرے ہيں اور جنھيں خدا كے علاوہ كوئي نہيں جانتاہے كى خبر نہيں آئي ہے كہ ان كے پاس اللہ كے رسول معجزات لے كر آئے اور انھوں نے ان كے ہاتھوں كو انھيں كے منھ كى طرف پلٹاديا اور صاف كہہ ديا كہ ہم تمھارے لائے ہوئے پيغام كے منكر ہيں اور ہميں اس بات كے بارے ميں واضح شك ہے جس كى طرف تم ہميں دعوت دے رہے ہو_

۱_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں كو نوحعليه‌السلام ،عاد اورثمود كى قوموں اوران كے بعد انے والى اقوام كے واقعات سے اگاہ كيا_الم يا تكم نبو ا الذين من قبلكم قوم نوح وعاد وثمود والذين من بعدهم

مذكورہ بالا مطلب اس بات پرموقوف ہے كہ جب''ا لم يا تكم''كلام پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہى كا دوام ہوجس ميں خداوند متعال نے انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے فرمايا:''ا نزلناه اليك ...واذ قال موسى ''

۳۲

۲_زمانہ بعثت كے لوگوں كاحضرت نوحعليه‌السلام ، عاد اورثمود كى قوم اوران كے بعد انے والى اقوام كى سرگذشت سے اگاہ ہونا_ا لم يا تكم نبو ا الذين من قبلكم قوم نوح وعاد وثمود والذين من بعدهم

''ا لم يا تكم '' ميں استفھام ،استفھام تقريرى ہے بنابرايں اس جملے ''كيا ان لوگوں كى خبر اپ تك نہيں پہنچي''كا معنى يہ ہوگا:يقينا ان كى خبراپ تك پہنچى ہے_

۳_نوحعليه‌السلام ،عاد اورثمود كى قوم كے بارے ميں خبر ايك انتہائي اہم اورسبق اموز خبر تھي_

ا لم يا تكم نبو ا الذين من قبلكم قوم نوح وعاد وثمود والذين من بعدهم

''نبا ''لغت ميں قابل اعتنا، مفيد اوراہم خبر كو كہا جاتا ہے مذكورہ بالا مطلب اس لئے اخذ كيا گيا ہے چونكہ گذشتہ اقوام كے عمومى ذكر''الذين من قبلكم'' كے بعد مذكورہ(تين)اقوام كو ذكر (ياددہاني)سے مختص كيا گيا ہے اوران كے بارے ميں كلمہ'' نبا '' كى تعبير اختيار كى گئي ہے_

۴_حضرت موسى نے اپنى قوم كو حضرت نوحعليه‌السلام ، عاد و ثمود كى قوم اوران كے بعد والى اقوام كى سرگذشت كى طرف متوجہ كيا_ا لم يا تكم نبو ا الذين من قبلكم قوم نوح وعاد وثمود والذين من بعدهم

مذكورہ مطلب اس احتمال كى بناء پرہے كہ جب ''ا لم يا تكم ''اس كلام موسىعليه‌السلام كے بعد ہوكہ جس ميں انھوں نے فرماياتھا:'' وقال موسى ان تكفروا ...''

۵_بنى اسرائيل قوم نوحعليه‌السلام ،عاد وثمود كے واقعات سے اگاہ تھے_ا لم يا تكم نبو ا الذين من قبلكم قوم نوح وعاد وثمود والذين من بعدهم

۶_حضرت موسىعليه‌السلام نے گذشتہ اقوام كى سرگذشت سے عبرت حاصل نہ كرنے پر اپنى قوم كى سرزنش كي_

ا لم يا تكم نبو ا الذين من قبلكم قوم نوح وعاد وثمود

۷_اہم تاريخى واقعات سے استفادہ كرنا، لوگوں كى تربيت كرنے كاايك طريقہ اورانھيں تاريكيوں سے نجات دلانے كاايك وسيلہ شمار ہوتا ہے_ا خرج قومك من الظلمت الى النور ...ا لم يا تكم نبو ا الذين من قبلكم قوم نوح وعاد وثمود

۸_گذشتہ اقوام كى تاريخى جزئيات سے مكمل اگاہى ركھنا فقط خداوند متعال ہى كا كام ہے_

ا لم يا تكم نبو ا الذين من قبلكم ...لا يعلمهم الّا الله

۹_سابقہ اقوام اورملل كى تاريخ كاكچھ حصہ ابہام كا شكار ہوچكا ہے جس تك رسائي فقط وحى كے ذريعے ہى ممكن ہے_

۳۳

والذين من بعدهم لا يعلمهم الّا الله

۱۰_حضرت نوحعليه‌السلام ،عاد اورثمود كى قوموں كے بعد كچھ ايسى اورملتيں بھى موجود تھيں كہ جن كے بارے ميں كسى قسم كى اطلاعات نہيں ملتيں _قوم نوح وعاد وثمود والذين من بعدهم لا يعلمهم الّا الله

۱۱_انبياءے الہى مختلف قوموں منجملہ قوم نوح وعاد وثمود كے درميان روشن اورواضح دلائل و براھين لے كر مبعوث ہوئے تھے_جاء تهم رسلهم بالبيّنات

۱۲_قوم حضرت نوحعليه‌السلام ،عاد اورثمود اوران كے بعد انے والى اقوام كے لئے اپنے مخصوص نبى تھے_

ا لم يا تكم نبو ا الذين من قبلكم قوم نوح ...جاء تهم رسلهم

۱۳_كافر اقوام ،انبياءے كرام كى طرف سے روشن دلائل ديكھنے كے بعد ان كا استہزا اوران كے سامنے واضح طور پراپنے كفر كا اظہار كرتى تھيں _جاء تهم رسلهم بالبيّنات فردّوا ا يديهم فى ا فوههم وقالوا انا كفرنا بما ا رسلتم به

'' ا يديھم فى ا فوھھم''ميں موجودضمير كا مرجع ايت ميں مذكورہ ''اقوام ''ہے اوريہ عبارت كنايہ كے طور پر اس مطلب كى طرف اشارہ كررہى ہے كہ كافر قوميں اپنے منہ پر ہاتھ ركھ كر يا سيٹياں بجا كر اپنے انبياء كا استہزا كرتى تھيں _

۱۴_كافر قوميں جب انبياءے كرام كى طرف سے روشن دلائل ديكھتيں تو شدت سے غضبناك اورناراض ہو كراپنے كفراميز مو قف كا اظہار كرنے لگتيں _جاء تهم رسلهم بالبيّنات فردّوا ا يديهم فى ا فوههم وقالوا انا كفرنا بما ا رسلتم به

'' ردّوا ا يديھم فى ا فوھھم ''سے مراد ،ان كے غضب وخشم كى طرف اشارہ ہے كہ جس كا دوسرى ايات ميں بھى ذكر كيا گيا ہے:(عضّوا عليكم الا نامل من الغيظ )_

۱۵_كافر قوموں نے انبياءے كرامعليه‌السلام كے روشن دلائل ديكھنے كے بعد انھيں خاموش ركھنے اوران كى تبليغ كو روكنے كے لئے وسيع پيمانے پر كوششيں شروع كرديں _جاء تهم رسلهم بالبيّنات فردّوا ا يديهم فى ا فوههم وقالوا انا كفرنا بما ا رسلتم به

يہ مفہوم اس احتمال پر مبنى ہے كہ ''ردّوا ''كا فاعل مذكورہ اقوام ہوں اور'' ا يديھم '' كا مرجع ضمير انبياء يا اقوام ہوں اور''ا فوھھم '' كى ضمير كا مرجع انبياءعليه‌السلام ہوں اس صورت ميں اس كا مطلب يہ ہوگا كہ ان اقوام نے انبياء كے ہاتھوں يا اپنے ہاتھوں كو انبياءے كرامعليه‌السلام كے منہ پر ركھ ديا_

۱۶_كافر قوموں نے نہ فقط انبياءے كرامعليه‌السلام كى دعوت كا مثبت جواب نہيں ديا اوراس پر خاموش نہيں رہے بلكہ ان كے پيغام كے بارے ميں واضح طور پر اپنے كفر كا اعلان بھى كرديا_جاء تهم رسلهم بالبيّنات فردّوا ا يديهم

۳۴

فى ا فوههم وقالوا انا كفرنا بما ا رسلتم به

روح المعاني(ج۱۳،ص۱۹۴) ميں منقول ابوعبيدہ اوراخفش كے قول كے مطابق ''فردّوا ا يديھم فى ا فوھھم ''كى عبارت ان لوگوں كے لئے ضرب المثل كے طور پر استعمال ہوتى ہے جو كسى تقاضاكامثبت جواب نہيں ديتے اورخاموشى اختيار كرليتے ہيں _

۱۷_حضرت نوحعليه‌السلام ،عاد وثمود كى قوموں اوران كے بعد انے والى اقوام نے اپنے اپنے انبياءعليه‌السلام كى دعوت كے جواب ميں اعلان كيا كہ وہ ان كى تعليمات كے بارے ميں شك وترديد ركھتى ہيں _قوم نوح وعاد وثمود والذين من بعدهم ...جاء تهم رسلهم بالبيّنات ...وقالوا انا كفرنا بما ا رسلتم به و انا لفى شكّ ممّا تدعوننااليه مريب

۱۸_قوم حضرت نوحعليه‌السلام ، عاد اورثمود كى اپنے انبياء كى دعوت كے بارے ميں ترديد ، بدبينى پر مبنى تھي_

انا لفى شكّ ممّا تدعوننااليه مريب

'' شك'' كے بعد '' مريب'' كا ذكر كرنا اگرچہ تاكيد كے لئے ہے ليكن ان دونوں كے درميان ايك قسم كا فرق بھى موجود ہے وہ يہ كہ ''ريب'' ميں شك بدبينى پرمشتمل ہوتا ہے_

۱۹_انبياءے كرامعليه‌السلام كى تعليمات كے بارے ميں كفر پيشہ اقوام كے شك وترديد كاسرچشمہ ان كا كفر(ہي) تھا_

قالوا انا كفرنا بما ا رسلتم به و انا لفى شكّ ممّا تدعوننااليه مريب

۲۰_حضرت نوحعليه‌السلام ، عاد اورثمود كے زمانے كى كافر اقوام كے پاس اپنے انبياءعليه‌السلام كے روشن دلائل كے مقابلے ميں كوئي بھى دليل اوربرھان موجود نہيں تھي_قوم نوح وعاد وثمود والذين من بعدهم ...جاء تهم رسلهم بالبيّنات ...وقالوا انا كفرنا ...انا لفى شكّ ممّا تدعوننااليه مريب

۲۱_لوگوں كو ظلمت وتاريكى سے نور كى طرف لے جانے كے لئے قرانى تربيت وہدايت ايك طريقہ گذشتہ انبياءعليه‌السلام اوران كى قوموں كى سرگذشت و تاريخ بيان كرنا ہے_اخرج قومك من الظلمت الى النور ...ا لم يا تكم نبو ا الذين من قبلكم قوم نوح وعاد وثمودوالذين من بعدهم ...جاء تهم رسلهم

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ياد دہانياں ۱

الله تعالى :الله تعالى اورتاريخ ۸;الله تعالى كے اختصاصات ۸; الله تعالى كا علم ۸

۳۵

الله تعالى كے رسول: ۱۲

انبياء :انبياء كى تعليمات كے بارے ميں بدبينى كے برے اثرات ۱۹; تعليمات انبياء كے بارے ميں شك كے اثرات ۱۹; انبياء كا استہزاء ۱۳; تاريخ انبياء كى اہميت ۲۱;انبياء كى بعثت ۱۱; انبياء كى روشن دليليں ۱۱، ۱۳، ۱۴، ۲۰; انبياء كى تاريخ ۱۱; انبياء كے دشمن ۱۵; انبياء كى دعوتيں ۱۶; تعليمات انبياء كے بارے ميں بدبينى ۱۸;تعليمات انبياء ميں شك ۱۷، ۱۸; انبياء سے كفر اختيار كرنے والے ۱۳، ۱۴، ۱۶; انبياء كى تبليغ كو روكنا ۱۵

بنى اسرائيل:تاريخ بنى اسرائيل سے اشنائي ۵; بنى اسرائيل اورقوم ثمود كى تاريخ۵; بنى اسرائيل اورقوم عاد ۵; بنى اسرائيل اورقوم نوح ۵; بنى اسرائيل كو ياددہانى ۴;بنى اسرائيل كى سرزنش ۶; بنى اسرائيل كا عبرت قبول نہ كرنا ۶

تاريخ:تاريخ كے فوائد ۷; تاريخ كے نامعلوم ادوار ۹، ۱۰

تربيت:تربيت كا طريقہ۷،۲۱

دين:دينى افات سے اگاہى ۱۹

صالحعليه‌السلام :حضرت صالحعليه‌السلام كى روشن دليليں ۱۱

عبرت:عبرت كے عوامل ۳

قران:قران كا ہدايت كرنا ۲۱

قوم ثمود:قوم ثمود كا بے منطق ہونا ۲۰; قوم ثمود كا پيغمبر۱۲; قوم ثمود كى بدبينى ۱۸; قوم ثمود كا شك ۱۷، ۱۸; قوم ثمود كى تاريخ سے عبرت ۳; قوم ثمود كا كفر ۲۰

قوم عاد:قوم عاد كى بے منطقى ۲۰; قوم عاد كا نبى ۱۲; قوم عاد كى بدبينى ۱۸; قوم عاد كا شك ۱۷، ۱۸; قوم عاد كى تاريخ سے عبرت ۳; قوم عاد كا كفر ۲۰

قوم نوح:قوم نوح كى بے منطقي۲۰; قوم نوح كا نبى ۱۲; قوم نوح كا بدبين ہونا ۱۸; قوم نوح كا شك ۱۷،۱۸; قوم نوح كى تاريخ سے عبرت ۳; قوم نوح كا كفر ۲۰

۳۶

كفر:كفر پر اصرار ۱۶

گذشتہ اقوام:گذشتہ اقوام كى بدبينى ۱۹;گذشتہ اقوام كے اثرات ۱۹; گذشتہ اقوام كا استہزاء كرنا ۱۳; گذشتہ اقوام كى تاريخ كى اہميت ۳، ۲۱; گذشتہ اقوام كى تاريخ ۱۰; گذشتہ اقوام كى سازش ۱۰; گذشتہ اقوام كى دشمنى ۱۵; گذشتہ اقوام كو دعوت ۱۶; گذشتہ اقوام كا شك ۱۷; گذشتہ اقوام كا غضب ۱۴; گذشتہ اقوام كا كفر ۱۳; گذشتہ اقوام كى ہٹ دھرمى ۱۳، ۱۴، ۱۶; گذشتہ اقوام كے كفر كا سرچشمہ ۱۹

گمراہي:گمراہى سے نجات كا طريقہ ۲۱; گمراہى سے نجات كا پيش خيمہ ۷

لوگ:زمانہ بعثت كے لوگوں كا تاريخ سے اگاہ ہونا ۲; زمانہ بعثت كے لوگوں كا گذشتہ اقوام كى تاريخ سے اگاہ ہونا ۲; زمانہ بعثت كے لوگوں كا قوم ثمود كى تاريخ سے اگاہ ہونا۲;زمانہ بعثت كے لوگوں

كا قوم عاد كى تاريخ سے اگاہ ہونا ۲; زمانہ بعثت كے لوگوں كا قوم نوح كى تاريخ سے اگاہ ہونا ۲

موسىعليه‌السلام :موسىعليه‌السلام كى ياددہانياں ۴; موسىعليه‌السلام كى سرزنشيں ۶

نوحعليه‌السلام :نوحعليه‌السلام كى واضح دليليں ۱۱

وحى :وحى كا كردار ۹

ہدايت:ہدايت كا طريقہ ۲۱

ھودعليه‌السلام :ھودعليه‌السلام كى واضح دليليں ۱۱

ياد دہاني:گذشتہ اقوام كى تاريخ كى ياددہانى ۱،۴; قوم ثمود كى تاريخ كى ياد دہانى ۱،۴; قوم عاد كى تاريخ كى ياد دہانى ۱،۴; قوم نوح كى تاريخ كى ياد دہانى ۱،۴

۳۷

آیت ۱۰

( قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِي اللّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَكُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَـمًّى قَالُواْ إِنْ أَنتُمْ إِلاَّ بَشَرٌ مِّثْلُنَا تُرِيدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَآؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ )

تو رسولوں نے كہا كہ كيا تمھيں اللہ كے بارے ميں بھى شك ہے جو زمين و آسمان كا پيدا كرنے والا ہے اور تمھيں اس لئے بلاتا ہے كہ تمھارے گناہوں كو معاف كردے اور ايك معينّہ مدّت تك زمين ميں چين سے رہنے دے تو ان لوگوں نے جواب ديا كہ تم سب بھى ہمارے ہى جيسے بشر ہواور چاہتے ہو كہ ہميں ان چيزوں سے روك دوجنكى ہمارے باپ دادا عبادت كيا كرتے تھے تو اب كوئي كھلى ہوئي دليل لے آئو_

۱_جب انبياءے الہى كو اپنى دعوت كے بارے ميں اپنى قوموں كى طرف سے شك وترديد كا سامنا كرنا پڑا تو وہ انھيں ايك ناقابل ترديد برھان سے قانع كرنے لگے_انا لّفى شكّ ممّا تدعوننااليه مريب _قالت رسلهم ا فى الله شكّ فاطرالسموت والا رض

۲_ گذ_شتہ اقوام كے انبياءعليه‌السلام نے، خداوند متعال كے بارے ميں اپنى اقوام كے شك وترديد كا جواب دينے كے لئے ايك منفرد طريقہ اپنايا_انا لفى شكّ ممّا تدعوننا ...قالت رسلهم ا فى الله شكّ فاطرالسموت والا رض

۳_روش سؤال قرآن كريم كے تعليمى طريقوں ميں سے ايك طريقہ ہے_ا فى الله شكّ فاطرالسموت والا رض

۴_موجودات كائنات كے مخلوق ہونے كى طرف توجہ كرنے سے ، وجود خداوند كے بارے ميں كسى قوم كا شك وشبہ باقى نہيں رہتا_ا فى الله شكّ فاطرالسموت والا رض

ايت ميں استفہام، انكار كے لئے ہے لہذا ايت كا معنى اس طرح ہوگا:''خداوند عالم كے اسمانوں اورزمين كے خالق ہونے كے بارے ميں كسى قسم كا شك نہيں چونكہ يہ مخلوق ہيں لہذا كسى خالق كے محتاج ہيں پس عقلى طور پر خداوند متعال كے وجود كے بارے ميں كوئي شك وشبہ باقى نہيں رہتا_

۳۸

۵_مخلوقات كا اپنى علت اورخالق كا محتاج ہوناايك بديہى اورناقابل ترديد چيز ہے_ا فى الله شكّ فاطرالسموت والا رض

خداوند متعال كا آسمان و زمين كے موجودات كى نسبت اپنى خالقيت سے ہر قسم كے شك كى نفى كرنا ايك (منطقي)قضيے پر مشتمل ہے كہ جس كے كبرى كو واضح اوربديہى ہونے كى وجہ سے (يہاں ) ذكر كرنے كى ضرورت نہيں ہے اور وہ يہ كہ ہر مخلوق (معلول)كو خالق(علت)كى ضرورت ہوتى ہے يہ ايك ايسى بات ہے كہ جس ميں كوئي بھى عاقل خواہ وہ كافر ہى كيوں نہ ہو،شك وترديد نہيں كرسكتا_

۶_ مخلوقات (معلول)كے ذريعے خالق(علت) كا پتہ چلانا(برہان انّ)انبياءے الہىعليه‌السلام كے ان براہين ميں سے ايك ہے كہ جس سے وہ خداوند متعال كے وجود كو ثابت كرتے تھے_ا فى الله شكّ فاطرالسموت والا رض

اسمانوں اورزمين كى نسبت خداوند كى خالقيت ميں شك وترديد كى نفى درحقيقت اس لئے كى جاتى ہے تاكہ لوگوں كو اسمانوں اورزمين كے مخلوق ہونے كى طرف متوجہ كيا جائے اوراس طرح وہ خالق كى طرف اپنے محتاج ہونے سے اگاہ ہوجائيں گے اوريہى '' برہان انّ'' سے استفادہ ہے_

۷_خداوند متعال اسمانوں اور زمين( كائنات) كاخالق ہے_ا فى الله شكّ فاطرالسموت والا رض

۸_ زمين كا پھٹنا اوراس ميں سے زمينى موجودات كا نكلنا اوراسمان كا پھٹنا اوراس ميں سے اسمانى موجودات كا ظاہر ہونا، ايات خداوندى ميں شمار ہوتا ہے_ا فى الله شكّ فاطرالسموت والا رض

لغت ميں ''فاطر'' كا معنى پھاڑنے والے كے ہيں لہذا احتمال ہے كہ '' ّ فاطرالسموت والا رض'' سے مراد اس كا لغوى معنى ہو يعنى اسمان وزمين كا پھاڑنا اور ان ميں سے اسمانى وزمينى موجودات كو ظاہر كرناہے _

۹_ كائنات ميں متعدد اسمانوں كا موجود ہونا_فاطرالسموت

۱۰_خداوند متعال كا لوگوں كے بعض گناہوں كو بخشنے

۳۹

اوران كى اجل (موت) كو ايك معين مدت تك ٹالنے كى خاطر انھيں ايمان كى طرف دعوت دينا_

يدعوكم ليغفرلكم من ذنوبكم ويو خّركم الى ا جل مسمًّي

۱۱_ ايمان كا فائدہ خود انسان كو ہوتا ہے_يدعوكم ليغفرلكم من ذنوبكم ويو خّركم الى ا جل مسمًّي

۱۲_ انبياءے الہى كى دعوت، خداوند عالم ہى كى دعوت ہے_ممّا تدعوننااليه يدعوكم ليغفرلكم

۱۳_ خداوند عالم پرايمان، بعض گناہوں كى مغفرت اورطبيعى موت تك زندگى كے جارى رہنے كا سبب بنتا ہے_

يدعوكم ليغفرلكم ...ويو خّركم الى ا جل مسمًّي

۱۴_ انسانوں كى دنيوى زندگى كے دوام ميں معنويات كا مو ثر كردار ادا كرنا_يدعوكم ليغفرلكم ...ويو خّركم الى ا جل مسمًّي

'' يدعوكم '' سے مراد ايمان كى طرف دعوت بھى ہوسكتى ہے كہ جومعنويات ميں سے ہے اور اس كے نتائج ميں سے ايك ا جل (موت) كا اجل مسمّى تك ٹلنا ہے اس سے دنيوى زندگى پر معنويت كے مو ثر ہونے كا پتہ چلتا ہے_

۱۵_ انسان كى طبيعى موت سے پہلے اس كى موت كے واقع ہونے كاامكان_يدعوكم ليغفرلكم ...ويو خّركم الى ا جل مسمًّي

خداوند متعال كا يہ فرمانا كہ وہ تمہيں دعوت ديتا ہے تاكہ تمہارى زندگى '' اجل مسمّى '' تك باقى رہے اس كا مطلب يہ ہے كہ طبيعى موت سے پہلے بھى موت اسكتى ہے_

۱۶_ ھدايت كرنے كے سلسلے ميں انبياءے الہى كے طريقوں ميں سے ايك مادى و معنوى اجر كے وعدے كے ذريعےلوگوں كى تشويق كرنا تها_يدعوكم ليغفرلكم ...ويو خّركم الى ا جل مسمًّي

طولانى عمر سے مادى اورمغفرت سے معنوى اجر مراد ہے_

۱۷_ گذشتہ اقوام كے كفار اپنے انبياءعليه‌السلام كى منطقى دعوت كا مثبت جواب دينے كى بجائے ان كے بشر ہونے كے بہانے ،ان كى دعوت كو ردّ كر ديتى تھيں _قالت رسلهم ا فى الله شكّ فاطرالسموت والا رض ...قالو ان ا نتم الّا بشر مثلنا

۱۸_كفار كا اعتقاد تھا كہ انسان مقام رسالت پر فائز نہيں ہوسكتاہے_قالو ان ا نتم الّا بشر مثلنا

كفار، انبياء كى طرف سے ايمان كى دعوت كے جواب ميں كہتے تھے:' 'ان ا نتم الّا بشر

مثلنا'' اس جواب سے پتہ چلتا ہے كہ ان كے اعتقاد كے مطابق بشر، نبى نہيں ہوسكتا_

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

۱۸_ خداوند متعال پر توكل كرناضرورى ہے _الله ما على ما تقول وكيل

آل يعقوب :آل يعقوب ميں قسم اٹھانا ۱۰

احكام ۷ ،۸

اديان :اديان كى تعليمات ۱۱

اللہ تعالى :اللہ تعالى سے عہد و پيمان ۷ ،۱۱، ۱۳ ; اللہ تعالى كى وكالت ۱۴;اللہ تعالى كے عذاب سے ڈرانا ۱۵

برادران يوسف :برادران يوسف اور بنيامين ۱۳; برادران يوسف اور بنيامين كا سفر كرنا ۱; برادران يوسف كا عہد و پيمان ۲، ۱۳; برادران يوسف كا قسم اٹھانا ۲ ، ۱۳;برادران يوسف كو خبردار كرنا ۱۵;برادران يوسف كى ذمہ دارى كى حدود۳ ، ۵ ، ۶;برادران يوسف كى ضمانت ۲

بنيامين :بنيامين كى محافظت ۳ ، ۵ ، ۶، ۱۳;بنيامين كے سفر پر راضى ہونا ۲

توكل:اللہ تعالى پر توكل كرنے كى اہميت ۱۸

ذكر:اللہ تعالى كى گواہى كا ذكر ۱۷; اللہ تعالى كى نظارت كا ذكر ۱۷

سزا :سزا كے اسباب ۱۶

شرعى ذمہ داري:شرعى ذمہ دارى كو بجالانے كى قدرت۹

عہد :عہد كا اديان ميں ہونا ۱۱; عہد كو وفاء كرنے پر عاجز ہونا ۷ ،۸ ; عہد و پيمان سے وفاكى اہميت ۱۲ ،۱۷;عہد و پيمان كے احكام ۷ ، ۸ ، ۹ ، ۱۲ ; عہد و پيمان سے وفا كے شرائط ۹

عہدشكني:عہد شكنى كا گناہ ۱۶;عہدشكنى كى سزا ۱۵

قسم :اديان ميں قسم كا ہونا ۱۱; اللہ تعالى كى قسم اٹھانا ۱۱ ;اللہ تعالى كى قسم اٹھانے كى اہميت ۱۰ ;قسم اٹھانے كے احكام ۷ ، ۸ ،۹، ۱۱ ، ۱۲; قسم اٹھانے ميں استثناء ۷ ، ۸ ;قسم كو پورا كرنے سے عاجز ہونا ۷ ،۸ ; قسم كو پورا كرنے كى اہميت ۱۱ ، ۱۲ ، ۱۷ ; قسم كو پورا كرنے كے شرائط ۹ ;قسم كو توڑنے كا گنا ہ۱۶;قسم كو توڑنے كى سزا ء ۱۵

۵۶۱

يعقوبعليه‌السلام :حضرت يعقوبعليه‌السلام اور برادران يوسف ۳ ، ۶ ،۱۷ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام اور برادران يوسف كا عہد و پيمان ۱۴; حضرت يعقوبعليه‌السلام اور برادران يوسفعليه‌السلام كى اميديں ۱ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام اور بنيامين كا سفر ۱ ، ۲ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام اور بنيامين كى جدائي ۴; حضرت يعقوب(ع) كا خبردار كرنا ۱۵;حضرت يعقوبعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۳ ، ۵ ، ۶ ، ۱۴; حضرت يعقوبعليه‌السلام كا وكيل ۱۴; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى بنيامين سے محبت ۴;حضرت يعقوبعليه‌السلام كى توقعات ۵;حضرت يعقوبعليه‌السلام كى رضايت ۱ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى رضايت كے شرائط ۲ ; حضرت يعقوب كى نصيحتيں ۳ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كے پيش آنے كا طريقہ ۱۷; حضرت يعقوبعليه‌السلام كے تقاضے۶; حضرت يعقوبعليه‌السلام كے دين ميں قسم اٹھانا ۱۰ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كے رنج و الم كے اسباب ۴

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱۳

آیت ۶۷

( وَقَالَ يَا بَنِيَّ لاَ تَدْخُلُواْ مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُواْ مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ وَمَا أُغْنِي عَنكُم مِّنَ اللّهِ مِن شَيْءٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ )

اور پھر كہا كہ ميرے فرزند و ديكھو سب ايك دروازے سے داخل نہ ہونا اور متفرق دروازوں سے داخل ہونا كہ ميں خدا كى طرف سے آنى والى بلائوں ميں تمھارے كام نہيں آسكتا حكم صرف اللہ كے ہاتھ ميں ہے اور اسى پر ميرا اعتماد ہے اور اسى پر سارے توكل كرنے والوں كو بھروسہ كرنا چاہيئے (۶۷)

۱_ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں كو مصر كى طرف سفر كرنے كے سلسلہ ميں معارف الہى سے واقف كيا اور ان كو توحيد كے حقائق كى ياد دہانى اورتعليم فرمائي_قال يا بنى لا تدخلوا و عليه فليتوكل المتوكلون

۲_حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں مصر كے متعدد دروازے تھے_

لا تدخلوا من باب واحد و ادخلوا من أبواب

۵۶۲

متفرقه

۳ _ حضرت يوسفعليه‌السلام كے دربار ميں آنے جانے والوں كے ليے كئي دروازے تھے_

لا تدخلوا من باب واحد و ادخلوا من أبواب متفرقه

(ادخلوا) كے مفعول سے كيا مرادہے كيا مصر كا شہر ہے يا حضرت يوسفعليه‌السلام كا دربار ہے ؟ اس ميں دو نظريے ہيں مذكورہ معنى دوسرے احتمال كى صورت ميں ہے اور آيت شريفہ ۶۹ ميں ( لما تدخلوا ) كے جملے كا تكرار احتمال اول كى تائيد كرتاہے_

۴_حضرت يعقوبعليه‌السلام ، اپنے بيٹوں كے دوسرى بار مصر جانے ميں ان كيلئے ايك حادثہ محسوس كررہے تھے اور ان كے ليے ناگوار واقعہ پيش آنے سے پريشان تھے_لا تدخلوا من باب واحد ما اغنى عنكم من الله من شيء

۵_ حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹوں كے ليے مصر ميں داخل ہوتے وقت خطرہ كو محسوس كر رہے تھے_

لا تدخلوا من باب واحد ما اغنى عنكم من اللّه من شيء

۶_ حضرت يعقوبعليه‌السلام ، بنيامين كے ليے مصر كے سفر ميں ناگوار حادثہ پيش آنے كا احتمال دے رہے تھے_

لا تدخلوا من باب واحد ما اغنى عنكم من الله من شيء

حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹوں كے ليے نہ پہلے سفر ميں اور نہ ہى تيسرے سفر ميں كسى پريشانى كو محسو س نہيں كررہے تھے كيونكہ بنيامين ان كے ہمراہ نہيں تھے (اذهبوا فتحسوا من يوسف و اخيه آيت ۸۷) اور انہوں نے كوئي خاص تاكيد بھى نہيں كى اس سے معلوم ہوتاہے كہ اس سفر ميں بنيامين كے ليے كوئي خطر كو محسوس كررہے تھے_

۷_ حضرت يعقوبعليه‌السلام ،نے اپنے بيٹوں كو مصر كى طرف عازم سفر ہونے كے دوران تاكيد كى كہ جب اس شہر ميں داخل ہوں تو ايك دروزے سے داخل نہ ہونا بلكہ مختلف دروازوں سے داخل ہوں _

يا بنى لا تدخلوا من باب واحد و ادخلوا من ابواب متفرقه

۸_حضرت يعقوبعليه‌السلام جو خطرہ محسوس كررہے تھے اس سے محفوظ رہنے كے ليے وہ اپنے بيٹوں ، كى مختلف دروازوں سے داخل ہونے ميں نجات سمجھتے تھے_و ادخلوا من ابواب متفرقة و ما اغنى عنكم من اللّه من شيء

۹_ حضرت يعقوبعليه‌السلام اس بات سے پريشان تھے كہ اگر ميرے بيٹے مصر كے ايك دروازے سے داخل ہوں گے تو وہ نظر بد اور حسادت كا شكار ہوجائيں گے_لا تدخلوا من باب واحد و ما اغنى عنكم من اللّه من شيء

۵۶۳

آيت شريفہ ميں يہ بيان نہيں ہوا كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹوں يا بنيامين كے ليے كس خطرے كا احساس كررہے تھے ليكن اكثر مفسرّين نے يہ خيال ظاہر كيا ہے كہ انہوں نے ان كو مختلف دروازوں سے داخل ہونے كا حكم ديا تھا اس سے اندازہ ہوتاہے كہ وہ نظر بد يا اس كى مانند دوسرى جيسى چيزوں سے ہراساں تھے_

۱۰_ اپنے بچوں كى سلامتى كے ليے سوچنا اور اس كے ليے راستے كو اختيار كرنا ضرورى ہے_يا بنى لا تدخلوا من باب واحد

۱۱_ كوئي شخص ، كوئي شے اور كوئي منصوبہ، خداوند متعال كى تقدير و مشيت اور احكام تكوينى كے سامنے ركاوٹ نہيں بن سكتا ہے_ما اغنى عنكم من الله من شيء ان الحكم الا الله (اغناء) (مصدر اغنى ) ہے اور يہ غنا سے ہے _ جو كفايت كرنے اور منع كرنے كے معنى ميں آتاہے (لسان العرب) ( من شيء) كا جملہ ( ما اغني) كے ليے مفعول اور ( من اللہ) حال ہے (شيء) كے ليے اس صورت ميں (ما اغنى عنكم ...) كا معنى يوں ہوگا كہ ميں اپنے ذہن اور منصوبے سے اس (بلا و مصيبت ) كہ جو خداوند متعال كى طرف سے (مقدر) ہے اسے نہيں روك سكتااور، اس سے كفايت نہيں كرسكتاہوں _

۱۲ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى طرف سے اپنے بيٹوں كى تعليمات ميں سے يہ تھا كہ خداوند متعال كى كائنات ہستى پر حاكميت ہے اور خداوند متعال كى ذات پر توكل كرنا اور توكل كرنے اور اسباب و علل كے مہيا كرنے ميں كوئي منافات نہيں ہے _

و ادخلوا من ابواب متفرقه و ما اغنى عنكم من الله من شيء

۱۳_تمام كائنات ہستى اور علل و اسباب پر خداوند متعال كى حاكميت اور تمام چيزيں حكم و تقدير الہى كے سامنے تسليم خم ہيں _وادخلوا من ابواب متفرقه و ما اغنى عنكم من الله من شيء ان الحكم الا الله

۱۴_انسان كے ليے اسباب كى تلاش، خداوند عالم كى حاكميت مطلق سے غفلت كا سبب نہيں بننى چاہيے _ادخلوا من ابواب متفرقه و ما اغنى عنكم من الله من شيء الا الحكم الا الله حضرت يعقوبعليه‌السلام ، اپنے بيٹوں كيلئے ناگوار حادثے سے بچانے كى تدبير ذكركرنے كے بعد اس بات كو بيان فرماتے ہيں كہ اس كے باوجود بھى ہم مقدرات الہى سے دامن نہيں بچاسكتے كيونكہ حكم و فرمان فقط اس ذات خداوند ى كے ساتھ مخصوص ہے _البتہ اس بات كى طرف توجہ ضرورى ہے كہ تمام علل و اسباب اسكى مشيت اور حكومت كے دائرے ميں عمل كرتے ہيں _

۱۵_ خداوند متعال پر توكل اور اللہ تعالى كى حاكميت مطلق پر اعتقاد ركھنا اس بات كا سبب نہيں بننا چاہيے كہ اسباب و علل طبيعى كو ترك كرديا جائے_ادخلوا من ابواب متفرقة ان الحكم الا الله

۵۶۴

على توكلت

حضرت يعقوبعليه‌السلام كے خداوند متعال پر توكل كرنے (عليہ توكلت) انہيں اسباب كى تلاش و كوشش سے نہيں روكا (لا تدخلوا من باب واحد) يہ درس تمام لوگوں كے ليے ہے_يہ بات نہيں كہ فقط اسباب كو جمع كرنے كى كوشش توكل الہى سے منافات ركھتى ہے بلكہ اسباب و علل كو فراہم كيا جائے اور خداوند متعال پر بھى توكل كيا جائے_

۱۶_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى توحيد، خداوند متعال پر توكل كرنا تھا_عليه توكلت

(عليہ )كا لفظ (توكلت) پر مقدم ہونا، اس كا فائدہ دے رہا ہے_

۱۷_فقط خداوند متعال كى كائنات ہستى پر حاكميت توكل كا موجب اور اس كے غير پر بھروسہ نہ كرنے كا سبب ہے _

ان الحكم الا الله عليه توكلت و عليه فليتوكل المتوكلون

(إن الحكم الا اللہ) كى تفريع ( عليہ فليتوكل) فاء كے ذريعے بيان ہونا مذكورہ بالا معنى كو بتاتى ہے _

۱۸_ فقط خداوند متعال ہى اس كے لائق ہے كہ اس پر توكل اور بھروسہ كيا جائے_و عليه فليتوكل المتوكلون

(المتوكلون) توكل كا ارادہ كرنے والے سے مراد يا تو وہ لوگ ہيں جو غير خدا پر توكل كرتے ہيں پس اس صورت ميں (و عليہ فليتوكل المتوكلون) كا معنى يوں ہوگا كہ وہ جو توكل كرنا چاہتے ہيں ان كو چاہيے كہ فقط خداوند متعال پر توكل كريں يا وہ لو گ جو غير خدا پر توكل كرتے ہيں ( تو غير اللہ سے اميد كو توڑ ديں ) فقط خداوند متعال پر توكل كريں _

۱۹_تمام امور ميں خداوند متعال پر توكل كرنے كى ضرورت ہے _عليه فليتوكل المتوكلون

(فليتوكل) كے متعلق كو حذف كرنا اور اس بات كو بيان نہ كرنا كہ كس ميں يا كن چيزوں پر توكل كيا جائے اس بات كو بتاتاہے كہ اسكا متعلق عام ہے جو (تمام امور) كو شامل ہے _

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى تقدير كا حتمى ہونا ۱۱ ، ۱۳; اللہ تعالى كى حاكميت ۱۲ ، ۱۳; اللہ تعالى كى حاكميت كى اہميت ۱۴; اللہ تعالى كى خصوصيات ۱۳،۱۷،۱۸; اللہ تعالى كے اوامر كا حتمى ہونا ۱۱; اللہ تعالى كى قدرت ۱۱; اللہ تعالى كى مشيت كا حتمى ہونا ۱۱

انسان :انسانوں كا عجز۱۱

ايمان :ايمان كے آثار ۱۷; اللہ تعالى كى حاكميت پر ايمان ۱۷

۵۶۵

برادران يوسف :برادران يوسف كو تاكيد و نصيحت كرنا ۷; برادران يوسف كا دوسرى بار مصر كى طرف سفر كرنا۴ ،۷; برادران يوسف كا مصر ميں داخل ہونا ۵ ، ۸ ; برادران يوسف كے ساتھ حسد كرنا ۹; برادران يوسف كے ليے نظربد كا ہونا ۹

توحيد :توحيد افعالى ۱۳ ،۱۷; توحيد كى تعليم ۱۰

توكل:اللہ تعالى اور مادى اسباب ۱۲ ، ۱۵; اللہ تعالى پر توكل ۱۲ ، ۱۵، ۱۶،۱۸; اللہ تعالى پر توكل كى اہميت ۱۹; اللہ تعالى پر توكل كے اسباب ۱۷ ; غير اللہ پر توكل كرنے كا ممنوع ہونا ۱۷

دين :دين كى تبليغ ۱

عقيدہ :اللہ تعالى كى حاكميت كا عقيدہ۱۵

عواطف:پدرى عواطف ۴

غفلت :اللہ تعالى سے غفلت كے اسباب ۱۴

فرزند:فرزند كى سلامتى كى اہميت ۱۰

مادى اسباب :مادى اسباب اور غفلت ۱۴; مادى اسباب كے كردار كى اہميت ۱۵;مادى اسباب كا خدا كى قدرت ميں ہونا ۱۳

مصر قديم :مصر قديم كى تاريخ ۲; مصر قديم كے متعدد دروازے ۲; مصرد قديم ميں شہر كى تعمير و ترقى ۲

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات۱۳،۱۸; نظريہ كائنات اور ايڈيالوجي۱۷

يعقوبعليه‌السلام :حضرت يعقوب اور برادران يوسف ۱ ، ۱۲; حضرت يعقوبعليه‌السلام اور بنيامين كا فر كرنا۶ ; حضرت يعقو بعليه‌السلام كا توكل ۱۶ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۴ ، ۵ ، ۶ ،۷; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى پريشانى ۴ ، ۵ ،۶ ، ۸; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى پريشانى كا فلسفہ ۹ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى دور انديشى ۴ ، ۵ ، ۶،۸ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى تبليغ ۱; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى تعليمات ۱ ، ۱۲ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى توحيد ۱۶; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى نصيحتيں ۷

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۴ ، ۵ ، ۶ ،۷،۸; حضرت يوسفعليه‌السلام كے محل كى خصوصيات ۳; حضرت يوسفعليه‌السلام كے محل كے متعدد دروازے ۳

۵۶۶

آیت ۶۸

( وَلَمَّا دَخَلُواْ مِنْ حَيْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُم مَّا كَانَ يُغْنِي عَنْهُم مِّنَ اللّهِ مِن شَيْءٍ إِلاَّ حَاجَةً فِي نَفْسِ يَعْقُوبَ قَضَاهَا وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ )

اور جب وہ لوگ اسى طرح داخل ہوئے جس طرح ان كے والد نے كہا تھا اگر چہ وہ خدائي بلا كو ٹال نہيں سكتے تھے ليكن يہ ايك خواہش ٹہى جو يعقوب كے دل ميں پيدا ہوئي جسے انھوں نے پورا كرليا اور وہ ہمارے دئے ہوئے علم كى بنا پر صاحب علم بھى تھے اگر چہ اكثر لوگ اس حقيقت سے بھى نا واقف ہيں (۶۸)

۱ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے دوسرى بار مصر ميں داخل ہوئے_

و جاء اخوة يوسف و لما دخلوا من حيث امرهم ابوهم

۲ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے حضرتعليه‌السلام كے فرمان كے مطابق مصر ميں داخل ہونے سے پہلے متفرق اور اس شہر كے مختلف دروازوں سے داخل ہوئے_و ادخلوا من أبواب متفرقة و لما دخلوا من حيث امرهم ابوهم

(حيث ) اسم مكان ہے جو جگہ اور مكان كے معنى ميں آياہے_

۳_حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے اپنے باپ كى اطاعت كي_و لما دخلوا من حيث امرهم ابوهم

۴_ والدين كے فرمان پر كان دھرنا، اولاد كى ذمہ داريوں اور معاشرت و زندگى كے آداب ميں سے ہے _

و لما دخلوا من حيث امرهم ابوهم

۵_ خداوند متعال، فرزندان يعقوبعليه‌السلام كے ليے مصر ميں ناگوار و اقعہ كو مقدر بناچكا تھا_

ما كان يغنى عنهم من اللّه من شيء

اس سے پہلى آيت كے شمارہ ۱۱ كے ذيل ( ما كان يغني ...) ميں جو ذكر ہوا ہے _ اس سے مذكورہ بات معلوم ہوتى ہے _

۶_حضرت يعقوبعليه‌السلام كيتدبير ( كہ ان كے بيٹے مختلف دروازوں سے مصر ميں داخل ہوں ) خداوند متعال نے ان كے ليے جو كچھ مقدر ميں لكھا تھا اس كو نہ روك سكي_ما كان يغنى عنهم من اللّه من شيء

(يغني) ميں ضمير حضرت يعقوبعليه‌السلام كى طرف يا ان كے منصوبے كى طرف جو جملہ (ادخلوا من ابواب متفرقہ) سے معلوم ہوتاہے لوٹتى ہے بہرحال دو احتمال ايك ہى معنى ميں ہيں _

۵۶۷

۷_تقدير و مشيت الہي، بندگان الہى كى تدبير پر حاكم ہے _و لما دخلوا من حيث امرهم ابوهم ما كان يغنى عنهم من الله من شيء

۸_حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اپنے بيٹوں كو يہ نصيحت ( كہ مصر ميں داخل ہونے كے ليے مختلف دروازوں كو اختيار كرنا ) سوائے اپنے بيٹوں كى سلامتى كے كوئي اور اثر نہيں ركھتى تھي_ما كان يغنى عنهم من الله من شيء الا حاجة فى نفس يعقوب قضيه

(الا حاجة ...) عبارت ميں يہ استثناء منقطع ہے ليكن ظاہر يہ ہے كہ (قضاہا) ميں جو فاعل كى ضمير ہے وہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى طرف لوٹتى ہے _ اس صورت ميں ( ما كان يغني الا حاجة فى نفسى يعقوب قضاہا) اس آيت كا معنى يہ ہوگا كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كا منصوبہ، خداوند متعال كى تقدير ميں كوئي اثر نہ كرسكا ، ليكن حضرت يعقوبعليه‌السلام جو كچھ چاہتے تھے انہوں نے اپنے دستور ( ادخلوا من ابواب متفرقہ ) سے اس كو عملى جامہ پہنايا_ پس انكى خواہش (حاجة) اپنى ذمہ دارى كو بجالانا تھا اور وہ اپنے بيٹوں كى راہنمائي تھى كہ احتمالى خطرہ سے ان كو نجات دلوانا تھي_

۹_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كا اپنے بيٹوں كو يہ فرمان دينا كہ وہ مختلف دروازوں سے داخل ہوں سوائے اپنى ذمہ دارى (خطرے سے بچنے كا منصوبہ ) كے انجام دينے كے سواء اور كچھ نہيں تھا_

ما كا ن يغنى عنهم من الله من شيء الا حاجة فى نفس يعقوب قضيه

حضرت يعقوبعليه‌السلام اس اعتقاد كے ساتھ كہ ميرے بيٹوں كى سلامتى پر خداوند متعال كا ارادہ حاكم ہے اور يہ سب اسى كے ہاتھ ميں اور اس كے اختيار سے خارج نہيں ہے ليكن انكى يہ توجہ كہ مشيت الہى كے ساتھ اسباب و علل كى تلاش و كوشش كرنا بھى ضرورى ہے اس چارہ انديشى يہ اسے آمادہ كيا ليكن نتيجہ خدا پرچھوڑ ديا تھا_ اسى وجہ سے حضرت (ع)

۵۶۸

كى خواہش اور حاجت اپنى ذمہ دارى كو جو بيٹوں كى راہنما ئي تھى انجام دينے كے علاوہ اور كچھ نہيں تھي_

۱۰_ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں كى سلامتى برقرار ركھنےكے سلسلہ ميں ذمہ دارى كو انجام ديا _

الا حاجة فى نفس يعقوب قضيه

۱۱ _ والدين كو چاہيے كہ اپنى اولاد كى سلامتى كے ليے كوشش كريں _الا حاجة فى نفس يعقوب قضيه

۱۲ _ خداوند متعال نے حضرت يعقوبعليه‌السلام كى خواہش (كہ ان كے بيٹے) متعدد دروازوں سے داخل ہوں )كو پورا كيا _

الا حاجة فى نفس يعقوب قضيه

مذكورہ معنى اس صورت ميں ہے كہ (قضاہا) كے فاعل كى ضمير اللہ تعالى كى طرف لوٹے اس صورت ميں ( و لما دخلوا) سے (قضاہا) تك كا معنى يہ ہوگا اگر چہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى نصيحتيں مؤثر نہيں ہوئيں ليكن خداوند متعال نے ان كى خواہش و آرزو كو پورا كيا _

۱۳ _ فرزندان يعقوبعليه‌السلام كا اپنے باپ كى اطاعت كرتے ہوئے متعدد دروازوں سے داخل ہونا، توفيق الہى تھا_

و لمادخلوا من حيث امرهم ابوهم الا حاجة فى نفس يعقوب قضيه

ايك لحاظ سے حضرت يعقوبعليه‌السلام كى آرزو كا پورا ہونا ( كہ بيٹے مختلف دروازوں سے داخل ہوں ) (و لما دخلوا من حيث امرہم) كو ان طرف نسبت دى گئي ہے اور دوسرى طرف يہ بيان ہوا ہے كہ خداوند عالم نے ان كى خواہش كو پورا كيا_

ان دو بيانات سے ظاہر ہوتاہے كہ ارادہ الہى اور اسكى توفيق سبب بنى كہ فرزندان يعقوبعليه‌السلام اس كے انجام دينے ميں كامياب ہوئے جو ان كے والد گرامى چاہتے تھے_

۱۴ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام خاص علم كے حامل تھے_و إنه لذو علم لما علمناه

( علم ) كے لفظ كا نكرہ لانا، اسكى خصوصيت كو بتاتاہے_

۱۵_ خداوند متعال، حضرت يعقوبعليه‌السلام كو علم خاص سكھانے والا اور عطا كرنے والا ہے _و انه لذو علم علمناه

(لام ) كا حرف (لما علمناہ) ميں تعليل كے ليے ہے اور اسميں (ما) مصدريہ ہے _

۱۶_ اسباب و علل پر اللہ تعالى كے ارادہ كا حاكم ہونا،خداوند تعالى كى حضرت يعقوبعليه‌السلام كو تعليمات تھيں _

ادخلوا من أبواب متفرقة و ما اغنى عنكم من الله من شيء و انه ذو علم لما علمناه

۵۶۹

۱۷_ زندگى كے امور ميں تدبير اور منصوبہ بندى سے كام لينا، ارادہ الہى كے حاكم ہونے كے ساتھ منافات نہيں ركھتا يہ ايك ايسى بات تھى جو خداوند عالم نے حضرت يعقوب(ع) كو تعليم دى تھي_

و ادخلوا من ابواب متفرقة و ما اغنى عنكم من الله من شيء انه لذو علم علمناه

۱۸_حضرت يعقوبعليه‌السلام كا اپنے بيٹوں كو يہ نصيحتيں (خداوندن متعال پر توكل كرنا اور اسكو اسباب و علل ميں بروكار لانا) اس كے خاص علم كا جلوہ تھيں _ادخلوا من ابواب متفرقه و عليه فليتوكل المتوكلون إنه لذو علم لما علمناه

۱۹_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كا بيٹوں كے مصر ميں دوسرى بار جانے پر پيش بينى اور خطرے كا احساس كرنا اس خصوصى علم كا جلوہ تھا جو حضرتعليه‌السلام كے پاس تھا_لاتدخلوا من باب واحد انه لذو علم لما علمناه

۲۰_ اللہ كے ارادہ كى حاكميت اور نظام علل و اسباب كے درميان ارتباط كو كشف كرنے كے ليے خصوصى علم جو بلند مرتبے والا ہو تو بس اسى كا كام ہے _ادخلوا من ابواب متفرقة و ما أغنى عنكم من الله من شيء و إنه ذو علم لما علمناه

۲۱_ اكثر لوگ اسباب و علل پر آنكھ جمائے ہوئے ہيں اور ارادہ الہى كى حاكميت اور توكل الہى كے ضرورى ہونے سے ناواقف ہيں _و لكن اكثر الناس لا يعلمون

اسباب و علل كا نظام:اسباب و علل كا نظام اور حاكميت الہى ۲۰

اطاعت:حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اطاعت ۲ ، ۳ ، ۱۳;والد كى اطاعت ۴

اكثريت:اكثريت كى جہالت ۲۱

اللہ تعالى :ارادہ الہى اور امور ميں نظم و ترتيب ۱۷; ارادہ الہى اور مادى اسباب ۱۶;ارادہ الہى كى حاكميت ۱۶ ، ۲۱ ; اللہ تعالى كى تعليمات ۱۵،۱۶،۱۷; اللہ تعالى كى توفيقات ۱۳; اللہ تعالى كى عطايا ۱۵; مشيت الہى كى حاكميت ۷;مقدرات الہى ۵; مقدرات الہى كى حاكميت ۷ ; مقدرات الہى كا حتمى ہونا ۶

انسان :انسانوں كا عاجز ہونا ۷

برادران يوسف :برادران يوسف اور يعقوبعليه‌السلام ۲ ، ۳ ، ۱۳; برادران يوسف كا دو سرا سفر ۱ ، ۱۹ ; برادران يوسف كا مصر

۵۷۰

ميں داخل ہونا ۱ ، ۲ ، ۶ ، ۱۲ ، ۱۳; برادران يوسف كو نصيحتيں كرنا ۷ ، ۸ ،۱۸ ; برادران يوسف كى اطاعت ۲ ، ۳ ، ۱۳; برادران يوسف كى توفيق ۱۳; برادران يوسف كى سلامتى ۸ ; برادران يوسف كے ليے ناگوار حادثہ ۵ ،۶

توكل:اللہ تعالى پر توكل اور مادى وسائل ۱۸; اللہ تعالى پر توكل كرنے كى اہميت ۲۱

شفقت:پدرى شفقت ۸ ، ۱۰

علم :بہترين علم

فرزند:فرزند كى ذمہ دارى ۴; فرزند كى سلامتى كى ذمہ دارى ۱۱

قديم مصر:قديم مصر كے دروازے ۲ ، ۱۲ ، ۱۳

مادى اسباب:مادى اسباب كا كردار ۲۱

معاشرت :معاشرت كے آداب ۴

يعقوبعليه‌السلام :حضرت يعقوب(ع) اور اولاد ۱۹; حضرت يعقوبعليه‌السلام اور اولاد كى سلامتى ۱۰; حضرت يعقوبعليه‌السلام كا توكل پر اعتماد ۱۸; حضرت يعقوبعليه‌السلام كا دينى ذمہ دارى پر عمل كرنا ۹; حضرت يعقوبعليه‌السلام كا علم لدنى ۱۵ ، ۱۷; حضرت يعقوبعليه‌السلام كا قصہ ۱۰; حضرت يعقوبعليه‌السلام كا معلم ۱۵ ، ۱۶; حضرت يعقوبعليه‌السلام كا منصوبہ ۶ ، ۱۰ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى دعا كا قبول ہونا ۱۲; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى دور انديشى ۱۹ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى نصيحتوں كا فلسفہ ۹ ;حضرت يعقوبعليه‌السلام كى نصيحتوں كے آثار ۸ ; حضرت يعقوب(ع) كى نصيحتيں ۱۸ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كے فضائل ۱۴ ، ۱۹

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۶ ، ۸

۵۷۱

آیت ۶۹

( وَلَمَّا دَخَلُواْ عَلَى يُوسُفَ آوَى إِلَيْهِ أَخَاهُ قَالَ إِنِّي أَنَاْ أَخُوكَ فَلاَ تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ )

اور جب وہ لوگ يوسف كے سامنے حاضر ہوئے تو انھوں نے اپنے بھائي كو اپنے پاس پناہ دى اور كہا كہ ميں تمھارا بھائي ''يوسف''ہوں لہذا جو برتائو يہ لوگ كرتے رہے ہيں اب اس كى طرف سے رنج نہ كرنا(۶۹)

۱ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اولاد، بنيامين كے ہمراہ حضرت يوسفعليه‌السلام كے مكان پر آئے اور حضرتعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوئے_و لما دخلوا على يوسف ء اوى اليه اخاه

۲ _ حضرت يوسف(ع) نے اپنے بھائيوں كى ملاقات ميں بنيامين كو نزديك بلاكر اپنے پاس بٹھايا _

و لما دخلوا اؤى اليه اخاه

۳ _ حضرت يوسفعليه‌السلام جب بھائيوں سے دورہوكر بنيامين كےساتھ اكيلے بيٹھے ہوئے تھے تو انہوں نے اپنى كى شناخت كرائي _قال إنى انا اخوك

مذكورہ اور بعد والى آيات سے معلوم ہوتاہے كہ يوسفعليه‌السلام اس سے پرہيز كرتے تھے كہ ميرے بھائي مجھے پہچان ليں اسى وجہ سے اپنے بھائيوں سے چھپ كر بنيامين كو اپنى شناخت كروائي _ جملہ (قال ...) كا پہلے والے جملے سے فاصلہ اس بات كى طرف اشارہ كرتاہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام كى (بنيامين ) سے گفتگو اس جگہ پر تھى جہاں ان كے بھائي موجود نہيں تھے_

۴_ بنيامين كو يہ يقين نہيں تھا كہ وہ بھائي ( يوسف)جو گم ہوگيا ہے وہ عزيز مصر ہو_إنى أنا أخوك

جملہ (إنّى أنا اخوك) كو اسميہ لانے كے ساتھ حرف تاكيد (إن) كے ساتھ ذكر كرنا اور (أنا) مميز كا لانا س بات كو بتاتاہے كہ بنيامين اس ميں شك و ترديد ركھتے تھے كہ اسكا بھائي عزيز مصر ہوسكتاہے_

۵۷۲

۵ _ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں كے ساتھ جو واقعات (كنعان كے كنويں ميں انہيں ركھنے و غيرہ ...) گزرے تھے بنيامين كو بتائے_قال إنى أنا اخوك فلا قبتئس بما كانوا يعملون

(كانوا ) اور (يعملون ) كى ضمير برادران يوسف كى طرف لوٹتى ہے جملہ (إنى أنا اخوك) كے بعد ( لا تبتئش) (غمگين نہ ہو افسوس نہ كرو) ذكر كرنا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ اپنى شناخت كروانے كے بعد كنعان كے كنويں كا واقعہ بنيامين كے ليے بيان كيا وگرنہ صرف اپنى شناخت كرانے سے تو بنيامين كا غم زدہ ہونا اور پريشان ہونا معنى نہيں ركھتا_

۶_بنيامين ، حضرت يوسفعليه‌السلام كے گم ہونے والے واقعہ كے سلسلہ ميں اپنے بھائيوں كے كردار سے غم زدہ اور متأسف ہوئے_فلا تبتش بما كانوا يعملون

۷_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائي بنيامين سے درخواست كى كہ بھائيوں كے گذشتہ برے سلوك كو بھول جائيں اور فراموش كرديں تا كہ اس غم كو دوبارہ دل ميں نہ لائيں _فلاتبتئش بما كانوا يعملون

۸_ حضرت يوسفعليه‌السلام ،بنيامين كى راز دارى پر اطمينان ركھتے تھے_إنى أنا اخوك

۹_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى نيك خصلتوں ميں سے بزرگوارى كرنا ، كينہ ركھنے سے دورى كرنا اور قدرت ركھتے ہوئے انتقام نہ لينا تھيں _

۱۰_ عزيز مصر كے مقام پر فائز حضرت يوسفعليه‌السلام كى اپنے بھائي بنيامين كے ساتھ ملاقاتسبب تھى كہ اپنے بھائيوں كى گذشتہ بدرفتارى كى وجہ سے جو ان كے درميان تلخياں آگئيں تھيں ان كو دل سے نكال ديا جائے_

إنى انا اخوك فلا تبتش بما كانوا يعملون

(فلا تبتش ...) كے جملہ ميں فاتفريع جو (انى أنا اخوك ) كى وضاحت كرتى ہے _ اس دليل كو بيان كرتى ہے كہ اپنے بھائيوں كى گذشتہ بدرفتارى كے غم و غصے كو دل سے نكال ديا ہے _ يعنى حضرت يوسف(ع) اس فاتفريع كے ذريعے اس بات كو بيان كر رہے ہيں كہ اگر چہ ان كى بدرفتارى كى وجہ سے جتنى مشكلات ميں نے اٹھائي ہيں اسى كے صدقے ميں اس مقام و مرتبے تك پہنچا ہوں پس اسى وجہ سے نہ ميں اور نہ ہى تم ان كے برے كاموں سے محزون و غمگين نہ ہوں _

برادران يوسف:برادران يوسف كى حضرت يوسف(ع)سے ملاقات ۱; برادران يوسف كى گذشتہ بدرفتارى كا فراموش كرنا ۷//بنيامين :بنيامين اور برادران يوسف كے پيش آنے كا

۵۷۳

طريقہ ۶; بنيامين اور حضرت يوسفعليه‌السلام ۴; بنيامين اور حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۶ ; بنيامين اور غم زدہ ہونا ۷ ; بنيامين كا شك ۴; بنيامين كا غم زدہ ہونا ۶; بنيامين كو دعوت دينا ۲ ; بنيامين كى حضرت يوسفعليه‌السلام سے ملاقات ۱ ، ۳ ۵; بنيامين كى رازدارى ۴ ; بنيامين كے دكھ درد كے دور ہونے كے اسباب ۱۰

عفو:قدرت ركھتے وقت معافى دينا ۹//محبت :بھائي كى محبت ۲

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام اور بنيامين ۲ ، ۷ ; حضرت يوسفعليه‌السلام اور كينہ ركھنا ۹ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا اطمينان ۸ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا بنيامين كو اپنى شناخت كروانا ۳ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا سزا و بدرى سے دور ركھنا ۹ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا عزيز مصر ہونا ۱۰ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۳ ، ۴ ، ۵ ، ۶،۷ ، ۱۰ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كى بنيامين سے ملاقات كے آثار ۱۰ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كى تمنائيں ۷ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كى جوانمردى ۹ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كى دعوت ۲ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كے دكھ و درد كے دور ہونے كے اسباب ۱۰ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۹

آیت ۷۰

( فَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ )

اس كے بعد جب يوسف نے ان كا سامان تيار كراديا تو پيالہ كو اپنے بھائي كے سامان ميں ركھو اديا ۱_اس كے بعد منادى نے آواز دى كہ قافلے والو تم سب چور ہو(۷۰)

۱ _ حضرت يوسفعليه‌السلام كا بنيامين كو اپنے پاس ركھنے كا منصوبہ_فلما جهزهم بجهازهم جعل السقاية فى رحل أخيه

۲ _حضرت يوسفعليه‌السلام نے بذات خود اپنے بھائيوں كے سامان كو مہيا و آمادہ كيا _فلما جهزهم بجهازهم

۳ _ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں كے سامان كو تيار كرتے وقت اپنے پانى پينے كے مخصوص برتن كو بنيامين كے سامان ميں چھپاديا_فلما جهزهم بحهازهم جعل السقاية فى رحل اخيه

(سقاية) اس برتن كو كہا جاتاہے جو پانى پينے كے ليے استعمال ہوتاہے ( ال ) معرفہ كا جو اس پر داخل ہوا ہے _ اس سے معلوم ہوتاہے كہ وہ مخصوص برتن تھا_

۴_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين بنيامين كو واپس جانے سے روكنے كے منصوبے ( بنيامين كے سامان ميں برتن كو چھپا دينا ) سے ناواقف تھے_جعل السقاية فى رحل اخيه ثم أذن مؤذن

۵۷۴

كيونكہ اگر حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين اس منصوبے سے آگاہ ہوتے تو وہ فرزندان يعقوب كو واضح طور پر اورتاكيد كركے چور نہ كہتے ( إنكم لسارقون) اس سے معلوم ہوا كہ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بذات خود بنيامين كے سامان ميں پيالہ ركھ ديا تھا_اور وہ چاہتے تھے كہ دوسروں كو اس منصوبے كا علم نہ ہو _

۵ _ حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين جب پانى پينے كے مخصوص پيالے كو تلاش نہ كرسكے تو فرزندان يعقوب پر چورى كى تہمت لگائي_جعل السقاية فى رحل اخيه ثم اذّن مؤذن ايتها العير إنكم لسارقون

۶_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين ميں سے ايك نے فرزندان يعقوب كے قافلے كو مخاطب ہوكر ان چورى كى تہمت لگائي_ثم اذّن مؤذن ايتها العيرء انكم لسارقون

(مير) قافلے كے تمام افراد اور ان اونٹوں كو كہا جاتاہے جو ان كے سامان كو اٹھاتے ہيں يہ بھى كہا گيا ہے كہ فارسى زبان ميں يہ كلمہ كاروان اور قافلے كے مترادف ہے اور (تاذين) (اذن) كامصدر ہے_ اذان كا معنى اعلان كرنے كا ہے جسكا معنى كثرت سے اعلان كرنا ہے اور پس (أذن مؤذن ...) يعنى اعلان كرنے والے نے كئي بار اعلان كيا _

۷_ فرزندان يعقوب پر چورى كا الزام اس وقت لگا جب وہ سامان باندھنے كى جگہ سے چلے گئے اور سفر كے ليے آمادہ ہوگئے تھے_ثم إذن مؤذن ايتها العير إنكم لسارقون

(ثم )كا حرف اور جملہ (اقبلوا عليم ) جو بعد والى آيت ميں ذكر ہوا ہے ممكن ہے مذكورہ معنى كا مفہوم ادا كرے_

۸_ بنيامين كے سامان ميں جو پيالہ چھپا ديا گيا وہ قيمتى تھا_جعل السقاية اذن مؤذن ايتها العير إنكم لسارقون

يہ بات كہ فرزندان يعقوب كو چور كہا گيا نہ يہ كہ تم نے چورى كى ہے اور يہ كہ اعلان كرنے والے نے علانيہ طور پر اعلان اور اسكا تكرار كيا اور جس كى وجہ سے جناب يوسفعليه‌السلام پيالے كے چور كو اپنا غلام بنا سكتے تھے ان سب باتوں سے معلوم ہوتاہے وہ كوئي قيمتى پيالہ تھا_

۹_'' عن ابى عبدالله عليه‌السلام ... قال: انهم سرقوا يوسف من أبيه ألا ترى أنه قال لهم حين قالوا: ماذا تفقدون؟ قالوا نفقد صواع الملك و لم يقولوا: سرقتم صواع الملك، انّما عنى أنكم سرقتم يوسف من أبيه (۱)

حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے( ايك شخص كے سوال كے جواب ميں كہ اس نے سوال كيا''انكم لسارقون'' سے كيا مراد ہے) : فرمايا ان لوگوں نے جناب يوسفعليه‌السلام كو اپنے باپ سے چورى كيا تھا پھر فرمايااس بات پر كيوں توجہ نہيں كرتے ہو كہ جب برادران يوسف نے كہا كہ تم نے كيا چيز گم كى ہے _

۵۷۵

تو حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ملازمين نے ان سے كہا ( بادشاہ كا پيالہ گم ہوگيا ہے ) يہ نہيں كہا كہ تم نے بادشاہ كے پيالے كو چورى كيا ہے پس اس كے علاوہ اور كوئي بات نہيں تھى كہ تم نے جناب يوسف(ع) كو ان كے والد گرامى سے چورى كيا ہے _

۱۰_عن ابى جعفر عليه‌السلام ... و ارتحل القوم (إخوة يوسف ) مع الرفقة فمضوا، فلحقهم يوسف وفتيته فنادوا فيهم قال : '' ايتها العير إنكم لسارقون (۲)

امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ برادران يوسف قافلے والوں كے ساتھ نكلے اور چلے گئے اس كے بعد جناب يوسفعليه‌السلام اور ان كے ملازمين ان سے جاكر ملے اسوقت ان كے درميان آواز لگاكر منادى نے اس طرح كہا'' ايتها العيرء انّكم لسارقون''

۱۱ _عن أبى عبداللّه عليه‌السلام قال: التقية من دين الله لقد قال يوسف '' ايتّها العير إنكم لسارقون'' و الله ما كانوا سرقوا شيئاً (۳) امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ تقيہ، دين الہى ميں سے ہے بے شك جناب يوسفعليه‌السلام نے فرمايا : ايتھا العير إنكم لسارقون(ليكن) خدا كى قسم انہوں نے كسى چيز كى چورى انہيں كى تھي_

۱۲ _(عن ابى عبدالله عليه‌السلام ; قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : لا كذب على مصلح ثم تلا: ايتّها العير إنكم لسارقون) ثم قال: والله ما سرقوا و ما كذب (۴)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ رسالت مآب نے فرمايا: جھوٹا وہ ہے جو اصلا ح كرنے كا قصد نہ ركھتا ہو_ اسوقت ان آيات كى تلاوت فرمائي'' ايتها العير إنكم لسارقون'' اس كے بعد فرمايا: خدا كى قسم قافلے والوں نے چورى نہيں كى تھي( اعلان كرنے والے) نے بھى جھوٹ نہيں بولا_

برادران يوسف :برادران يوسف پر چورى كى تہميت ۵ ، ۶،۱۰ ; برادران يوسف اور جناب يوسفعليه‌السلام ۹; برادران يوسف كى چورى كرنا ۹ ; برادران يوسف پر چوري

____________________

۱) ملل الشرائع، ص ۵۲ ب ۴۳، ح۴، نورالثقلين، ج۲، ص۴۴۴، ح ۱۳۴_

۲) تفسير عياشي، ج۲، ص ۱۸۲، ح۴۳، نورالثقلين، ج۲ ص ۴۳۹، ح۱۱۲_

۳)كافى ج۲ص ۲۱۷، ح۳ ; نورالثقلين ج۲، ص ۴۴۳; ح ۱۲۷_

۴)كافى ج۲ ص ۳۴۳ ح ۲۲ ;نورالثلين ج/۲ ص ۴۴۴ ح ۱۲۹_

۵۷۶

كے الزام كا وقت ۷ ; برادران يوسف كا تجارتى كاروان ۶; برادران يوسف كا تجارتى مال ۲،۳

بنيامين:بنيامين كى حفاظت ۱

بادشاہ مصر:بادشاہ مصر كے پانى پينے كا برتن ۳; بادشاہ مصر كے پانى پينے كے برتن كى قيمت ۸; بادشاہ مصر كے پانى پينے كے برتن كا گم ہونا ۹

تقيہ :تقيہ كے احكام۱۱

جھوٹ:جھوٹ كا جائز ہونا ۱۲ ; جھوٹ كے احكام ۱۲ ; مصلحتى جھوٹ ۱۲

دين :دين كى تعليمات۱۱

روايت: ۹ ، ۱۰،۱۱ ،۱۲

حضرت يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام اور برادران يوسف۲ ، ۱۰ ;حضرت يوسفعليه‌السلام اور بنيامين ۱; حضرت يوسفعليه‌السلام كا تقيہ ۱۱ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۳، ۴ ، ۵ ، ۶ ، ۷،۹،۱۰; حضرت يوسفعليه‌السلام كى تدبير ۱ ، ۳;حضرت يوسفعليه‌السلام كى تدبير اور ان كے ملازمين ۴; حضرت يوسفعليه‌السلام كے قصے كى تعليمات ۱۱ ، ۱۲ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين كى تہمتيں ۵ ، ۶

آیت ۷۱

( قَالُواْ وَأَقْبَلُواْ عَلَيْهِم مَّاذَا تَفْقِدُونَ )

ان لوگوں نے مڑ كر ديكھا اور كہا كہ آخر تمھارى كيا چيز گم ہوگئي ہے(۷۱)

۱_ فرزندان يعقوب، حضرت يوسفعليه‌السلام اور ان كے ملازمين كى طرف سے چورى كى تہمت كو سن كر واپس آگئے_

قالوا و اقبلوا عليهم

(قالوا) اور (أقبلوا) ميں جو ضمير ہے وہ ( العير) كى طرف لوٹ رہى ہے جو اس سے پہلى والى آيت ہے _ اور جملہ (و أقبلوا عليہم) (قالوا) كى ضمير كے ليے حال ہے_

۵۷۷

۲_ فرزندان يعقوب نے جناب يوسفعليه‌السلام كے ملازمين سے پوچھا : تمہارى كونسى چيز گم ہوگئي ہے _

قالوا ماذا تفقدون

۳ _ فرزندان يعقوب نے چورى كى تہمت سن كر تعجب كيا_قالوا ماذا تفقدون

آيت كے الفاظ اور فرزندان يعقوب كا سوال يہ نہيں تھا( ماذا سرقنا) اس بات سے معلوم ہوتاہے كہ ان كو يقين نہيں تھا اور حيرت زدہ تھے_

برادران يوسف :برادران يوسف اور يوسفعليه‌السلام ۱; برادران يوسف پر چورى كا الزام ۱ ،۳ ; برادران يوسف كا پوچھنا ۲ ; برادران يوسف كا تعجب ۳ ; برادران يوسف كا لوٹنا ۱

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كے ملازمين كا پوچھنا ، يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱،۲،۳

آیت ۷۲

( قَالُواْ نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ وَلِمَن جَاء بِهِ حِمْلُ بَعِيرٍ وَأَنَاْ بِهِ زَعِيمٌ )

ملا زمين نے كہا كہ بادشاہ كا پيالہ نہيں مل رہاہے اور جو اسے لے كر آئے گا اسے ايك دونٹ كا بار غلہ انعام ملے گا اور ميں اس كا ذمہ دار ہوں (۷۲)

۱_ بادشاہ كے پانى پينے والے پيالے كے گم ہونے كى وجہ فرزندان يعقوب كو ٹھہرانا اور انكى تلاشى لينا تھا _ماذا تفقدون _ قالوا نفقد صواع الملك (صواع) كا معنى ناپ تول كا برتن هے _

۲_ان تہمت زدہ افراد كو روكنا اور ان كى تلاش لينا جائز ہے جن كے درميان مجرم موجود ہو_

إنكم لسارقون قالوا نفقد صواع الملك و لمن جاء به حمل بعير

۳ _ مصر ميں سات سال كى قحطى كے دوران سے افراد كے سہم كو معين كرنے كا پيمانہ شاہى پيالہ تھا_حبل السقاية فى رحل أخيه نفقد صواع الملك گمشدہ پيالے كو (سقايہ) پيالے (صواع) ناپ تول كا پيمانہ سے تعبير كرنے كا مقصد يہ تھا كہ

اس سے افراد كےمعين شدہ حصّہ كو ناپاجاتا تھأ اور اس ظرف كو حضرت يوسفعليه‌السلام كے پاس آنے سے پہلے بادشاہ پانى پينے كے ليےاستعمال كيا كرتا تھا_

۴ _ حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں مصر ميں وزن اور ناپ تول كا رسمى نظام اور قانونى طريقہ رائج تھا_

قالوا نفقد صواع الملك

۵۷۸

(صواع) كا لفظ(الملك) كى طرف اضافہ (بادشاہ كا پيمانہ) يہ بتاتاہے كہ اس پيمانے كو بادشاہ نے معين و مشخص كيا تھا_ خواہ تجارت ميں وہ تمام چيزيں جو ناپ كے ذريعے سے ہوں يا قطحى كے زمانے ميں افراد كے حصوں كو معين و مشخص كرنے كے ليے ہوں _

۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى طرف سے شاہى پيالہ لانے والے كو غلہ سے لدا ہوا ايك اونٹ انعام دينے كا اعلان كيا گيا _

و لمن جاء به حمل بعير

۶_گم ہونے والا پيمانہ، حضرت يوسفعليه‌السلام كے نزديك بہت زيادہ ارزش و قيمت ركھتا تھا_

نفقد صواع الملك و لمن جاء به حمل بعير

اس پيمانے كو پانے والے كے ليے قحطى اور راشن بندى كے زمانہ ميں غلہ سے لدا ہوا ايك اونٹ انعام قرار دينا سے معلوم ہوتاہے كہ وہ پيمانہ قيمتى اور ارزشمند برتن تھا_

۷_حضرت يوسفعليه‌السلام بذات خود اس گم شدہ پيالے كو لانے والے كے ليے انعام دينے كے پابند ہوئے_

و لمن جاء حمل بعير و انا به زعيم

(انا بہ زعيم) ميں (أنا) سے مراد يا تو خود جناب يوسفعليه‌السلام ہيں يا ملازمين كا سربراہ مراد ہے ليكن پہلے والے احتمال كى بناء پر مذكورہ معنى كيا گيا ہے _

۸_ انعام كو مقرر كركے رقابت اور مقابلے كو ايجاد كرنا جائز ہے _و لمن جاء به حمل بعير

۹_ جرم كو كشف اور پہچان كرنے اور مجرم كو گرفتار كرنے كے ليے انعام كا معين كرنا جائز ہے _

نفقد صواع الملك و لمن جاء به حمل بعير

۱۰_ جعالہ ( گم شدہ شيء كى تلاش كے ليے انعام مقرر كرنا) مشروع اور قانونى ہے _و لمن جاء به حمل بعير و أنا به زعيم

(جعالہ ) اصطلاح ميں كام كو انجام دينے پر اس كے مقابلے عوض ادا كرنے كے ليے اپنے آپ كو متعہد و ملزم كرنا اسى وجہ سے يہ جملہ ( لمن جاء ...) جعالہ كى قرار داد ہے _ اسمين قرار داد ذمہ دار كو (جاعل) انجام دينے والے كو (عامل) اور اجرت كو (جعل) كياجاتاہے_

۱۱_جعالہ كا صحيح ہونا عامل كے مشخص و معين ہونے كے ساتھ مشروط نہيں ہے _

۱۲ _ كام كو انجام دينے كے ليے جعالہ كے صحيح ہونے ميں

۵۷۹

مدت كا معين كرنا ضرورى نہيں ہے _و لمن جاء به حمل بعير

كيونكہ حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين نے جعالہ كى قرار داد ميں (شاہى پيالے كو پانے ميں )مدت كو معين نہيں كيا كے يہ كام (خاص مدت يا مخصوص زمانے ميں ) انجام پذير ہو اسى سے مذكورہ معنى حاصل ہوتاہے _

۱۳ _ جعالہ كے صحيح ہونے ميں كام انجام دينے كى مقدار جو جعالہ ميں ضرورى ہے وہ شرط نہيں ہے _و لمن جاء به حمل بعير يہ معلوم نہيں تھا گمشدہ پيالے كو تلاش كرنے ميں كتنا كام انجام دينا ہوگا اس وجہ سے ہم كہہ سكتے ہيں كہ (جعالہ) كى قرار داد ميں كام كى مقدار كا مجہول ہونا اس كے صحيح ہونے ميں كوئي ضرر نہيں پہنچاتا_

۱۴ _ ضمان و كفالت جائز قرار داديں اور قانونى اعتبار سے معتبر ہيں _و أنا به زعيم

(ضمان) اصطلاح ميں طلبگار كا ادا كرنے والے شخص سے مطالبہ كرنے كى صورت ميں مال كو ادا كرنے پر ملزم ہونے كو كہتے ہيں _ ضمانت كو قبول كرنے والے كو (ضامن) جس سے مال لينا ہے اسكو (مضمون عليہ ) جس نے مال وصول كرنا ہے اسكو( مضمون لہ ) كہا جاتاہے_(كفالت ) اصطلاح ميں اس شخص كے حاضر كرنے كو كہتے ہيں جو كسى شخص كى گردن پر حق ركھتاہے_ اس كفالت كو قبول كرنے والے كو كفيل كہتے ہيں _ كيونكہ(أنا بہ زعيم ) ميں جو غائب كى ضمير ہے وہ (حمل بعير) كى طرف لوٹتى ہے (زعيم ) سے مراد ضامن ہے اور اگر (بہ ) كى ضمير ( لمن جاء ...) كے جملے كو ادا كرنے والے كى طرف لوٹائيں (يعنى جاعل) تو اس صورت ميں زعيم سے مراد كفيل ہوگا_

۱۵_جعل كے ليے ضمانت (جعالہ كى اجرت ) جعالہ كے كام كو انجام دينے سے پہلے دنيا بھى جائز ہے اور قانونى اعتبار سے بھى صحيح ہے _و أنا به زعيم

(و انا به زعيم ) كا جملہ كہنے والا جو (حمل بعير) كى اجرت كا ضامن ہوا ہے _ يہ عامل كے كام يعنى پيالے كو پانے سے پہلے اسكى اجرت كا ضامن ہوا ہے _

۱۶_ اگر چہ مال كى ضمانت، ادا كرنے والے شخص كے اوپر لازم نہيں ہوئي پھر بھى ضمانت دينا جائز ہے اور قانونى ہے _

و أنا به زعيم

۱۷_ ضمان كے صحيح ہونے ميں طلب كرنے والے كى شناخت و پہچان كرنا معتبر اور شرط نہيں ہے _و انا به زعيم

اگر چہ يہ بات پہلے گذرچكى ہے كہ جملہ (انا بہ زعيم ) قرار داد اور ضمانت كو بتاتاہے اور اس قرار داد ميں (مضمون لہ ) (يعنى وہ جو شاہى پيالے كو پائے گا ) معلوم نہيں كون ہوگا اسى وجہ

۵۸۰

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945

946

947

948

949

950

951

952

953

954

955

956

957

958

959

960

961

962

963

964

965

966

967

968

969

970

971