تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 8%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 206494 / ڈاؤنلوڈ: 4276
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۸

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

جواب:

پورے قرآن میں بعض عمومات کی تخصیص اور بعض مطلقات کی تقیید کے اجمالی علم سے ظواہر قرآن پر عمل کرنا تب جائز نہ ہوتا جب ہم مخصص و مقید کی تلاش کے بغیر ہی قرآن کے ظاہری معنی کاارادہ کرنا چاہیں لیکن اگر مکلف کو تحقیق و تلاش کے نتیجے میں وہ مخصصات اور مقیدات مل جائیں جن کا اسے اجمالی علم تھاتو لامحالہ اس کا اجمالی علم تفصیلی علم میں تبدیل ہو جائےگایعنی وہ غیر معین اور پورے قرآن میں گم گشتہ مخصصات اور مقیدات معین اور محدود ہو جائیں گے اجمالی علم بے اثرہو جائے گا اور باقی آیات میں ظاہر قرآن پر عمل کرنا جائز ہو گا۔

یہ قاعدہ ، سنت (روایات) میں بھی جاری ہو گا کیونکہ روایات کے بارے میں بھی ہم اجمالی طور پر یہ جانتے ہیں کہ بعض کی تخصیص وتقیید ہوئی ہے جب تحقیق کے بعد بعض مخصصات اور مقیدات دستیاب ہو جائیں تو یہ اجمالی علم تفصیلی علم میں تبدیل ہو جائےگا اور باقی روایات کے ظاہری معنی پر عمل کرنا جائز ہوگ ا اگر اجمالی علم کے تفصیلی علم میں تبدیل ہو جانے کے بعد بھی ظواہر قرآن پر عمل کرنا نہ ہوتا تو سنت (روایات) پر عمل کرنا بھی جائز نہ ہوتا بلکہ شبہات(۱) حکمیہ (وجوبیہ ہوں یا تحریمیہ) میں اصالتہ البراتہ کا جاری کرنا جائز نہ ہوتا کیونکہ ہر مکالف یقینی طور پر یہ جانتا ہے کہ شریعت مقدسہ میں الزامی احکام (واجب و حرام افعال) موجود ہیںاس علم اجمالی کا لازمہ یہ ہے کہ ہر شبہہ وجوبیہ اور تحریمیہ میں احتیاط برتی جائے ، حالانکہ ان مقامات میں احتیاط کوئی بھی واجب نہیں سمجھتا۔

____________________

(۱) اگر کسی علم کے بارے میں شروع میں یہ شک ہو کہ یہ واجب ہے یا نہیں یا یہ حرام ہے یا نہیں تو اسے شبہہ حکمیہ کہتے ہیں ایسے مسائل میں اصالۃ البراتہ جاری کرنے کا مطلب یہ ہے کہ احتیاطاً عمل کو انجام دینا اور دوسری صورت میں احتیاطاً عمل کو ترک کرنا ضروری نہیں بلکہ پہلے عمل کوترک اور دوسرے عمل کو انجام دے سکتے ہیں اور اس احتمال کو نظر انداز کیا جاتا ہے کہ شریعت اسلام میں کچھ واجبات تو یقیناً موجود ہیں ہو سکتا ہے یہ مشکوک عمل ان واجبات یا محرمات میں سے ہو۔ (مترجم)

۳۴۱

ہاں ! محدثین کی ایک جماعت نے شبہہ تحریمہ میں احتیاط کو واجب قرار دیا ہے لیکن اس قول کا مدرک و منبع یہ نہیں کہ شریعت مقدسہ میں کچھ تکالیف (فرائض) الزامی موجود ہیں جن کا اجمالی علم ہے اس لئے وہ شبہہ تحریمیہ میں احتیاط کو واجب سمجھتے ہوں بلکہ اس قول کا مدرک یہ ہے کہ یہ حضرت ان روایات سے وجوب کو سمجھتے ہیں جن میں اس قسم کے شبہات احتیاط یا توقف کا حکم دیا گیا ہے اگر اس شبہہ تحریمیہ میں احتیاط کرنے کی وجہ وہ اجمالی علم ہوتا جو احکام الزامی کے بارے میں موجود ہے تو ان حضرات کو شبہہ وجوبیہ میں بھی احتیاط کرنی چاہئے تھی حالانکہ جہاں تک ہم جانتے ہیں شبہہ و جوبیہ میں احتیاط کو کوئی بھی واجب نہیں سمجھتا ان تمام مسائل میں احتیاط واجب نہ ہونے کی ایک ہی وجہ ہے وہ یہ کہ وہ اجمالی علم جو بعض واجبات اور محرمات کے بارے میں رکھتے تھے ، بعض معین و مشخص و اجبات اور محرمات کی وجہ سے تفصیلی علم میںتبدیل ہو گیا اور اجمالی علم بے اثرہو کر رہ گیاہے۔

اس مسئلے کی مزید وضاحت کیلئے ہماری کتاب ''اجود التقریرات،، کی طرف رجوع فرمائیں۔

۵۔ متشابہ پر عمل کی ممانعت

قرآن کی متعدد آیات میں متشابہ آیات پر عمل کرنے سے منع کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ) ۳:۷

'' اس میں کی بعض آیتیں تو محکم (بہت صریح) ہیں وہی (عمل کرنے کیلئے) اصل (وبنیاد) کتاب ہیں اور کچھ (آیتیں) متشابہ (گول مول جس کے معنی میں سے پہلو نکل سکتے ہیں) پس جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ انہی آیتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں جو متشابہ ہیں۔

متشابہ آیات میں ظواہر قرآن بھی شامل ہیں اگر ظواہر قرآن یقینی طورپر متشابہ نہ ہوں تو کم از کم یہ احتمال ضرور موجود ہے کہ یہ متشابہ کے ذیل میں آتے ہوں گے جس کے بعد وہ حجت اور قابل عمل نہیں رہتے کیونکہ آیہ کریمہ میں متشابہات پر عمل کرنے سے روکا گیا ہے۔

۳۴۲

جواب

متشابہ ایسا الفاظ ہے جس کا معنی سب کو معلوم ہے اورا س میں کسی قسم کا اجمال اور مشابہت نہیں اور وہ (متشابہ) یہ ہے کہ ایک ہی لفظ کے دو یا دو سے زیادہ معانی کا احتمال ہو بایں معنی کہ ان تمام معانی کی نسبت لفظ کی طرف یکساں ہو جتنے فیصد ایک معنی کا احتمال ہوا اتنے فیصد دوسرے معنی کااحمتال بھی ہو یعنی جب لفظ بولا جائے توہر معنی کے بارے میں یہ احتمال برابر کا دیا جائے کہ یہی مراد ہو گا اس لئے جب تک کوئی دوسرا قرینہ کسی ایک معنی کی تعیین پر دلالت نہ کرے لفظ سے کسی معنی کا ارادہ نہیں کیا جائے گا بلکہ توقف کیا جائے گا متشابہ کے اس معنی کی روشنی میں لفظ ''ظاہر،، متشابہ کے مصادیق میں سے نہ ہو گا جس پر عمل کرنے سے روکا گیا ہے۔

بفرض تسلیم ، اگر لفظ متشابہ ہو اور یہ احتمال باقی ہو کر معنی ''ظاہر،، بھی متشابہ ہے پھر بھی ظاہر پر عمل کرنے سے نہیں روکا جا سکتا اس لئے کہ عقلاء کی یہ سیرت و روش رہی ہے کہ کلام سے جو معنی ظاہر ہو اس پر عمل کرتے ہیں اور صرف یہ احتمال کہ شاید ظاہر بھی متشابہ کے مصادیق میں سے ہو اس سیرت عقلاء کو ترک کرنے کا باعث نیں بن سکتا بلکہ اس عمل کے جائز نہ ہونے پر ایک مستقل اور قطعی دلیل درکار ہو گی اور جب تک ایسی مستقل اور قطعی دلیل نہ ملے بلا شبہ ظاہری معنی پر عمل کرنا جائز ہو گا ۔

یہی وجہ ہے کہ اگر غلام مالک کے ظاہر کلام پر عمل نہ کرے اور اس کی مخالفت کرے تو مالک احتجاج کا حق رکھتا ہے اور اپنے غلام کا مواخذہ کر سکتا ہے اسی طرح اگر غلام مالک کے ظاہر کلام پر عمل کرے مگر بعد میں معلوم ہو کہ مالک کا مقصد ظاہر کلام کیخلاف تھا تو غلام ، مالک کیخلاف احتجاج کر سکتا ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ جب تک کوئی قطعی دلیل ممانعت نہ کرے ظاہر کلام پر عمل کرنے کی سیرت پر عمل ہوتا رہیگا۔

۳۴۳

۶۔قرآن میں تحریف

قرآن میں تحریف ہونا ظواہر قرآن پر عمل کرنے سے مانع اور اہم رکاوٹ ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ انہی ظواہر قرآن کے ساتھبعض قرائن ملے ہوئے ہوں جو معنی مراد پر دلالت کرتے تھے مگر اب تحریف کے نتیجے میں ساقط اور مفقود ہو گئے ہوں (جس کے نتیجے میں لفظ ایسے معنی میں ظہور رکھتا ہے جو معنی مراد کیخلاف ہے)

جواب:

اولاً : ہم اس بات کو نہیں مانتے کہ قرآن میں تحریف ہوئی ہے چنانچہ اس سلسلے میں سیر حاصل بحث اس سے قبل کر چکے ہیں وہ روایات جو قرآن کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیتی ہیں ، خود اس بات کی دلیل ہیں کہ قرآن میں تحریف واقع نہیں ہوئی۔

ثانیاً : بفرض تسلیم اگر قرآن میں تحریف ہوئی ہے پھر بھی ان روایات کا تقاضا یہ ہے کہ قرآن پر عمل کیا جائے گزشتہ مباحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ ظاہر قرآن پر عمل ضروری ہے اوریہ کہ ظاہر قرآن پر عمل کرنا ہی شریعت کی اساس اور بنیاد ہے اگر سنت (احادیث نبوی (ص) اور روایات (آئمہ(ع) ) مخالف قرآن ہو تو اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔

۳۴۴

قرآن میں نسخ

٭نسخ کا لغوی معنی

٭نسخ کا اصطلاحی معنی

٭ نسخ کا امکان

٭ تورات میں نسخ

٭ شریعت اسلام میں نسخ

٭ تلاوت نسخ ہو ۔ حکم باقی رہے

٭تلاوت اور نسخ دونوں منسوخ ہوں

٭ حکم منسوخ ہو ۔ تلاوت باقی رہے

٭ان آیات کا تنقیدی جائزہ جن کے نسخ کا دعویٰ کیا گیا

٭مسئلے کی وضاحت

٭ متعہ کی سزا ۔ سنگساری

٭متعہ کے بارے میں چند بے بنیاد شبہات

٭مسلمانوں سے برسر پیکار کفار کے احکام

٭آیت کے بارے میں بعض دیگر عقائد

٭آیت نجومی پر عمل کی احادیث

٭ مسئلے کی تحقیق

٭ اس صدقے کے نسخ ہونے کے اسباب

٭ حکم صدقہ کی حکمت

٭ کھلم کھلا تعصب

۳۴۵

کتب تفسیر وغیرہ میں عموماً کچھ ایسی آیات ذکر کی جاتی ہیں جن کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ منسوخ ہو گئی ہیں چنانچہ ابوبکر نحاس نے اپنی کتاب ''الناسخ و المنسوخ،، میں ان آیات کو جمع کیا ہے اور ان کی تعداد ۱۳۸ ہے ہم نے اپنی اس کتاب میں اس بحث کو بھی شامل کیا ہے تاکہ ان آیات جن کے نسخ کا دعویٰ کیا گیا ہے کے بارے میں تحقیقی بحث کریں اور یہ ثابت کریں کہ جن آیات میں نسخ کا دعویٰ کیا گیا ہے ان میںسے ایک آیت بھی منسوخ نہیں ہوئی چہ جائیکہ سب منسوخ ہوئی ہوں۔

البتہ ہم نے ان آیات میں سے صرف ۳۶ آیات کا انتخاب کیا ہے اور یہی آیات بحث و تمحیص اور وضاحت کی محتاج ہیں اور انہی پر بحث سے حق آشکار ہو جائےگا باقی آیات کا نسخ نہ ہونا اتنا واضح ہے کہ محتاج بیان و قابل استدلال نہیں۔

نسخ کا لغوی معنی

لغت میں نسخ ایک جگہ لکھی ہوئی بات کو نقل کر کے دوسری جگہ لکھنے اور اتارنے کو کہا جاتا ہے چنانچہ ''استنساخ،، اور ''انتساخ،، بھی اس معنی میں استعمال ہوتے ہیں اس کے علاوہ یہ نقل و انتقال اور تبدیلی کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ''تناسخ المواریث و الدھور،، (یعنی) ''ثروت و دولت اور زمانہ تبدیل ہوئے،،۔

نسخ کاایک معنی ازالہ اور برطرف کرنابھی ہے ''نسخت الشمس اظل ،، ''(یعنی،، سورج نے سائے کو زائل کر دیا،، میں ''نسخت،، اسی معنی میں استعمال ہوا ہے صحابہ کرام اور تابعین نے نسخ کو اس معنی میں کثرت سے ا ستعمال کیا ہے چنانچہ صحابہ اور تابعین مخصص و مقید کوناسخ ہی کہتے تھے(۱)

____________________

(۱) ابن عباس کی طرف منسوب تفسیر میں تحصیص پر کثرت سے نسخ کا اطلاق ہوا ہے۔

۳۴۶

نسخ کا اصطلاحی معنی

اصطلاح میں نسخ کسی ثابت امرشرعی کو اس کی مدت ختم ہونے کی وجہ سے اٹھانے کو کہتے ہیںچاہے وہ برطرف حکم کوئی حکم تکلیفی ہو جیسے وجوب ، حرمت وغیرہ میں یا حکم وضعی ہو جیسے صحیح ہوناباطل ہونا وغیرہ ہے اور چاہے وہ برطرف شدہ امر ، الٰہی منصب اور عہدوں میںسے ہو یا کوئی اور چیز ہو ، جس کی بازگشت بہ حیثیت شارع اللہ تعالیٰ کی طرف ہو ، جس کی مثال نسخ فی التلاوۃ ہے۔

ہم نے نسخ کی تعریف میں امر کے ساتھ ثابت کی قید کا اضافہ اس لئے کیا ہے تاکہ نسخ کی یہ تعریف اس حکم کے برطرف ہونے کو شامل نہ ہو جو خارج میں اپنے موضوع کے ختم ہو جانے کے باعث زائل ہو جائے جیسے ماہ رمضان ختم ہونے کے ساتھ ہی روزے کاوجوب بھی ختم ہو جاتا ہے اسی طرح نماز کا وقت نکلنے کے بعد نماز کاوجوب بھی ختم ہو جاتاہے اور کسی مال کامالک مر جانے سے اس کی مالکیت (مال کا مالک ہونا) بھی ختم ہو جاتی ہے ان تمام مثالوں میں حکم زائل تو ہو جاتا ہے مگر نسخ نہیں کہلاتا کیونکہ ان تمام مثالوں میں حکم نہیں بلکہ موضوع حکم برطرف ہو گیاہے موضوع کے ختم ہو جانے کی وجہ سے حکم برطرف ہوناممکن ہے ایسا ع ملی طورپر بھی ہوا ہے اور اس میں کسی کو کوئی اعتراض و اشکال نہیں ہے۔

ہم ذیل میں نسخ واقعی کی وضاحت کرتے ہیں:

(۱) پہلا مرحلہ تشریع اور قانون سازی کا ہوتا ہے اس مرحلے میں حکم بطور قضیہ حقیقیہ ثابت ہوتا ہے یعنی اس مرحلہ میں حکم ثابت ہو جاتا ہے چاہے خارج میں فی الحال کوئی موضوع (جس کیلئے حکم ثابت ہو) موجودہو یا نہ ہو اس مرحلے میں حکم کا دار و مدار ایک فرضی موضوع ہوا کرتا ہے۔

۳۴۷

مثلاً جب شارع مقدس فرمائے : ''شرب الخمر حرام،، (یعنی) مے نوشی حرام ہے،، اس حکم کا مطلب یہ نہیں کہ ابھی اسی وقت خارج میں (ہمارے سامنے) کوئی شراب موجود ہے جس پر حرمت کا حکم لگایا گیا ہے بلکہ اس حکم کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی خارج (دنیا) میں کوئی شراب ہو گی شریعت میں اس کیلئے حکم ، حرام ہونے کا ہے چاہے فی الحال خارج میں کوئی شراب موجود ہو یا نہ ہو اس مرحلے میں حکم کو صرف نسخ کے ذریعے برطرف کیا جا سکتا ہے۔

(۲) دوسرا مرحلہ اس حکم کا خارج میں موجود ہوتا ہے بایں معنی کہ موضوع حکم فی الحال خارج میں موجود ہے اور حکم بھی متحقق ہے۔

مثال کے طورپر خارج میں (سامن) شراب موجود ہے اور شریعت میں مقرر شدہ حکم حرمت اس شراب کیلئے ثابت ہے جب تک موضوع موجود رہں گا حکم بھی رہے گا اگر کسی وقت شراب سرکہ میں تبدیل ہو جائے تو بلا شک شراب ہونے کی حالت میں موجود حکم اب برطرف ہو جائے گا مگر یہ نسخ نہیں کہلائے گا اس کے جواز بلکہ خارج میں واقع ہونے میں بھی کسی کو کوئی اختلاف نہیں اختلاف صرف پہلے مرحلے کے بارے میں ہے کہ آیا عالم تشریع (قانون سازی کے مرحلے) میں کسی حکم کو برطرف کیا جا سکتا ہے کہ نہیں؟

نسخ کاامکان

عقلاء مسلمین میں مشہور یہی ہے کہ زیر بحث نسخ (عالم تشریع میں کسی حکم کو برطرف کرنا) جائز ہے یہود و نصاریٰ نے اس کی مخالفت کی ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ نسخ محال ہے ان کا مسند و مدرک ایک شبہ (غلط فہمی) ہے جو تارعنکبوت سے بھی زیادہ کمزور اور ضعیف ہے۔

۳۴۸

خلاصہ شبہ:

احکام کو نسخ کرنے سے یا یہ لازم آتا ہے کہ خدا کے کام حکمت و مصلحت پر مبنی نہ ہوں یا یہ لازم آتا ہے کہ خدا کسی بھی حکم کی حکمت اور مصلحت سے آگاہ نہ ہو یہ دونوں امور محال ہیں۔

توضیح : اللہ تعالیٰ جو حکیم مطلق ہے ، جو حکم بھی مقرر فرمائے کسی نہ کسی مصلحت کی بناء پر مقرر ہوتا ہے جو اس حکم کی متقاضی ہوتی ہے کیونکہ بے مصلحت حکم اس کے بنانے والے کی حکمت سے سازگار نہیں۔

ایسے فرض میں حکم کو اٹھاتے وقت یا تو اس حکم کی مصلحت و حکمت باقی ہو گی اور نسخ کرنے والا اس کا علم رکھتا ہو گا تو یہ حکم بنانے والے ، جو حکیم مطلق ہے، کی حکمت کیخلاف ہے ، یا بعد میں انکشاف ہوا ہوگا کہ یہ حکم شروع سے مصلحت پر مبنی نہ تھا ، جیسے عام عرفی قوانین کے بارے میں بعد میں پتہ چلتا ہے کہ اس میں مصلحت نہیںتھی اس سے جہل خدالازم آتا ہے ، جو محال ہے معلوم ہوا نسخ محال ہے اس لئے کہ اس سے محال لازم آتا ہے (مستلزم المحال محال،، (یعنی) ''جس چیز سے محال لازم آئے وہ چیز محال ہوتی ہے،،۔

جواب:

بعض اوقات اللہ تعالیٰ کچھ کاموں کا حکم دیتا ہے اور بعض کاموں سے منع فرماتا ہے لیکن خالق کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ جس کا حکم دیا ہے وہ ضرور انجام پائے اور جس کام سے منع کیا ہے وہ ضرور ترک ہو جائے بلکہ اس امرونہی کا مقصد بندوں کا امتحان ہوتا ہے اس قسم کے اوامرو نواہی شریعت میں موجود ہیںایسے احکامات صادر کئے جانے کے بعد دوبارہ برطرف کئے جا سکتے ہیں اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔

۳۴۹

اس قسم کے احکام صادر ہونے میں بھی مصلحت ہوتی ہے اور پھر انہیں واپس لینے میں بھی مصلحت ہوتی ہے اس قسم کے نسخ اور ازالہ حکم سے نہ کوئی خلاف حکمت بات لازم آتی ہے اور نہ اس کا منشاء بداء (پہلے معلوم نہ ہو اور بعد میں انکشاف ہو ) ہے جو خدا کے لئے محال ہے۔

اور کبھی شارع کی طرف سے مقرر کردہ حکم حقیقی ہوتا ہے (بایں معنی کہ جس کام کو حکم دیا جائے اس کا بجا لانا اور جس کام سے روکا جائے اس کا ترک کرنا ضروری ہوتا ہے) اس کے باوجود ایک مدت کے بعد اس حقیقی حکم کو برطرف کیا جاتا ہے لیکن اس معنی میں نہیں کہ ایک حکم ، واقع اور علم خدا میں دائمی طور پر ثابت ہو مگر کسی خاص مصلحت یا اس حکم میں کسی خامی کے انکشاف کی بناء پر اسے نسخ اور برطرف کیا گیا ہو جس سے حکیم اور واقعیات و حقائق کی عالم ذات کے حق میں محال لازم آئے۔

بلکہ نسخ کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ یہ مقرر کردہ حکم ، عنداللہ کسی خاص مدت اور زمانے تک محدود ہوتا ہے اور عام لوگوں کو اس محدود وقت کا علم نہیں ہوتا اور جب یہ مدت ختم ہو جاتی ہے تو حکم بھی خود بخود زائل ہو جاتا ہے۔

اس معنی میں نسخ یقیناً ممکن ہے اور اس پر کسی قسم کا اشکال لازم نہیں آتا کیونکہ زمانہ اور وقت کی خصوصیات ، جن پر حکم کا دار و مدار ہو ، احکام میں دخیل ہوا کرتی ہیں جس میں کسی عاقل کوشک نہیں۔

مثلاً حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت میں ہفتہ کا دن خصوصیت رکھتا تھا جس کی وجہ سے روز ہفتہ اس شریعت کے ماننے والوں کیلئے عید قرار پایا اور باقی ایمام ہفتہ میں کسی یوم میں ایسی خصوصیت نہیں تھی یہی حیثیت اسلام میں جمعتہ المبارک کو حاصل ہے اسی طرح نماز ، روزے اور حج کے مخصوص اوقات کی بھی کچھ خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے مقررہ اوقات میں یہ فرض قرار دیئے گئے ہیں۔

۳۵۰

جب شریعت کے کسی حکم (قانون) کے بنانے اور نہ بنانے میں زمانہ اور وقت کا دخل قابل تصور ہے تو کسی حکم کے دائمی رہنے اور نہ رہنے میں بھی وقت کا دخل قابل تصور ہونا چاہئے ! بنا برایں عین ممکن ہے کہ ایک حکم ، ایک معین مدت کیلئے مصلحت پر مشتمل ہو لیکن اس مدت کے گزر جانے کے بعد وہ مصلحت ختم ہو جائے اسی طرح اسی کے برعکس بھی ممکن ہے یعنی ممکن ہے کہ ایک محدود زمانے میں مصلحت نہ ہو اس محدود مدت کے گزرنے کے بعد مصلحت پیدا ہو جائے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب کوئی مخصوص گھڑی ، دن ہفتہ اور مہینہ کسی فعل کے بامصلحت اور نقصان دہ ہونے میں اثر انداز ہو سکتا ہے تو سال اور برس بھی اثر انداز اور دخیل ہو سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک حکم چند محدود برس تک باصلحت رہے گا اور ان برسوں کے گزر جانے کے بعد اس فعل اور حکم میں وہ مصلحت نہ رہے گی جس طرح کسی حکم کے اطلاق کو زمانہ کے علاوہ کسی دوسری جداگانہ دلیل کے ذریعے مقید کیا جا سکتا ہے اسی طرح عین ممکن ہے کہ کسی جداگانہ دلیل کے ذریعے زمانے کے اعتبار سے بھی کسی مطلق حکم کو مقید کیا جائے کیونکہ بعض اوقات مصلحت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ حکم کو ظاہری طور پر عام اور مطلق چھوڑا جائے (ظاہراً کسی لفظ کے ذریعے عام کی تخصیص اور مطلق کی تقیید نہ کی جائے) جبکہ درحقیقت خاص اور مقید ہی مراد ہوتے ہیں اور مخصص و مقید کو کسی جداگانہ دلیل کی صورت میں بعد میں بیان کیا جاتا ہے۔

معلوم ہوا اور حقیقت نسخ ، کسی حکم کے اطلاق کو زمانہ کے اعتبار سے مقید کرنے کا نام ہے جس سے حکمت کی مخالفت لازم آتی ہے اور نہ بداء لازم آتا ہے جو خدا کیلئے محال ہیں۔

یہ تمام بحث اس مذہب کی بنیادپر ہوئی جس کے مطابق قانون سازی ، اعمال میں مصلحت و مفسدہ کے تابع ہوتی ہے لیکن اگر اس مذہب کی رو سے دیکھا جائے جس کے مطابق احکام ، اپنے اندر موجود مصلحت و مفسدہ کے تابع ہوتے ہیں تو پھر تمام احکام ان احکام کی مانند ہوں گے جو درحقیقت امر حقیقی (جن کا امتشال مطلوب ہو) نہیں ہوتے بلکہ صرف امتحان کیلئے صادر ہوتے ہیں ان کا صادر ہونا مصلحت سے خالی نہیں اور ان کا نسخ ہونابھی مصلحت سے خالی نہیں۔

۳۵۱

تورات میں نسخ

یہود و نصاریٰ شریعت میں نسخ کو محال قرار دے کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ شریعت موسیٰ (علیہ السلام) کے تمام احکام آج تک باقی اور ثابت ہیں اور منسوخ نہیں ہوئے لیکن گزشتہ مباحث سے یہ ثابت ہو گیا کہ نسخ محال نہیں ہے نیز تورات اور انجیل میں بھی کئی مقامات پر نسخ واقع ہوا ہے ہم ذیل میں نمونہ کے طورپر عہد نامہ قدیم و جدیدسے نسخ کے چند اقتباسات پیش کرتے ہیں جن سے اندازہ ہو جائے گا کہ یہود و نصاریٰ نے اپنے مذہب کی حقانیت پر جو دلیل پیش کی ہے وہ کتنی کمزور ہے۔

۱۔ کتاب مقدس ، عہد نامہ قدیم و جدید ، سفر گنتی کے باب : ۴ شمارہ ۲۔۳ میں ہے:

''اور خداوند نے موسیٰ اور ہارون سے کہا : بنی لاوی میں سے قہانیوں کو ان کے گھرانوں اور آبائی خاندانوں کے مطابق تیس برس سے لے کرپچاس برس تک جتنے خیمہ اجتماع میں کام کرنے کیلئے مقدس کی خدمت میں شامل ہیں ان سب کو گنو،،

یہ حکم نسخ کر دیا گیا اور قبول خدمت کی عمر پچیس سال قرار دی گئی چنانچہ اسی سفر کے باب: ۸ ، شمارہ :۲۳ اور ۲۴ میں ہے:

''پھر خدا نے موسیٰ سے کہا : لاویوں کے متعلق جو بات ہے وہ یہ ہے کہ پچیس برس سے لے کر اس سے اوپر اوپر کی عمر میں وہ خیمہ اجتماع کی خدمت کے کام کیلئے اندر حاضر ہوا کریں،،۔

اس کے بعد یہ حکم بھی نسخ ہو گیا اور قبول خدمت کی عمر گھٹا کر بیس سال کر دی گئی چنانچہ تاب مقدس کے (عنوان) تواریخ ایک کے شمار ۲۳۔۲۴ میں ہے:

''لاوی کے بیٹے یہی تھے جو اپنے اپنے آبائی خاندان کے مطابق تھے ان کے آبائی خاندان کے سردار جیسا وہ نام بنام ایک ایک کر کے گنے گئے یہی ہیں وہ بیس برس اور اس سے اوپر کی عمر سے خداوند کے گھر کی خدمت کا کام کرتے تھے اور خدا کے گھر کی خدمت کو انجام دینے کیلئے خیمہ اجتماع کی حفاظت اور مقدس کی نگرانی اور اپنے بھائی نبی ہارون کی اطاعت کریں،،

۳۵۲

۲۔ سفر گنتی کے باب: ۲۸ شمارہ : ۳ اور ۷ میں ہے:

''تو ان سے کہہ دے جو آتشین قربانی تم کو خدا کے حضور پیش کرنا ہے کہ دو بے عیب یکسالہ برے (بھیڑیں) ہر روز دائمی سوختی قربانی کیلئے چڑھایا کرو۔ ایک برہ (بھیڑ) صبح اور دوسرا برہ (بھیڑ) شام کو چڑھانا اور ساتھ ہی ایک ایفہ کے دسویں حصہ کے برابر میدہ جس میں کوٹ کر نکالا ہوا تیل چوتھائی ھین کے برابر ملا ہو ، نذر کی قربانی کے طور پر گزراننا اور ھین کی چوتھائی کے برابر مے فی برہ تپاون کیلئے لانا،،

یہ حکم منسوخ ہو گیا اور ہر صبح کی آتشین قربانی روزانہ ایک سالہ بھیڑ قرار دی گئی اور ایفہ کے چھٹے حصہ کے برابر میدہ اور ایک تہائی ھین کے برابر تیل پیش کرنا ضروری قرار دیا گیا چنانچہ حزقیل کے باب ۴۶ شمارہ ۱۳۔۵ۃ میں ہے:

''تو ہر روز خداوند کے حضور پہلے سال کاا یک بے عیب برہ (بھیڑ)سوختنی قربانی کیلئے ہر صبح کو چڑھائے گا اور تو اس کے ساتھ ہر صبح نذر کی ربانی گزرانے گا یعنی ایفہ کا چھٹہ حصہ اور میدہ کے ساتھ ملانے کو تیل کے ھین کی ایک تہائی دائمی حکم کے مطابق ہمیشہ کیلئے خداوند کے حضور یہ نذر کی قربانی ہو گی اسی طرح وہ برے (بھیڑیں) اور نذر کی قربانی اور تیل ہر صبح ہمیشہ کی سوختنی قربانی کیلئے چڑھائیں گے،،۔

۳۔ سفر گنتی کے باب ۲۸: شمارہ :۹ اور ۱۰ میں ہے:

''اور شنبہ کے روز دو بے عیب نر بھیڑ اور نذر کی قربانی کے طورپر ایفہ کے پانچویں حصے کے برابر میدہ جس میں تیل ملا ہوا ہو تپاون کے ساتھ گزراننا دائمی سوختنی قربانی اور اس کے تپاون کے علاوہ یہ ہر شنبہ کی سوختنی قربانی ہے،،۔

یہ حکم نسوخ ہو گیا چنانچہ حزقیل باب : ۴۶ شمارہ : ۴۔۵ میں نسخ کے بعد کا حکم یوں مذکور ہے: ''اور سوختنی قربانی جو فرمانروا شنبہ کے دن گزراننے گا یہ ہے : چھ بے عیب بھیڑ اور ایک بے عیب مینڈھا اور نذر کی قربانی مینڈھے کیلئے ایک ایفہ اور بھیڑوں کیلئے نذر کی قربانی اس کی توفیق کے مطابق اور ایک ایفہ کیلئے ایک ھین تیل،،

۳۵۳

۴۔ کتاب مقدس سفر گنتی کے باب : ۳۰ شمارہ ۲ میں ہے:

''جب کوئی مرد خدا کی منت مانے یا قسم کھا کر اپنے اوپر کوئی خاص فرض ٹھہرا دے تو وہ اپنے عہد کو نہ توڑے بلکہ جو کچھ اس کے منہ سے نکلا ہے اسے پورا کرے،،۔

تورات میں ثابت یہی حکم (قسم کا جواز) منسوخ ہو گیا چنانچہ متیٰ کی انجیل باب : ۵ شمارہ : ۳۳۔۳۴ میں ہے: ''نیز تم نے یہ سنا ہے کہ گزشتوں سے کہا گیا تھا قسم کی مخالفت نہ کرو بلکہ اپنے رب کی قسم پورا کرو۔ لیکن میں یہ کہوں گا قسم ہرگز نہ کھاؤ،،۔

۵۔ کتاب مقدس کے سفر خروج باب : ۲۱ شمارہ : ۲۳۔۲۵ میں ہے:

''لیکن اگر نقصان ہو جائے تو جان کے بدلے جان لے او رآنکھ کے بدلے آنکھ دانت کے بدلے دانت اور ہاتھ کے بدلے ہاتھ پاؤں کے بدلے پاؤں جلانے کے بدلے جلانا زخم کے بدلے زخم اور چوٹ کے بدلے چوٹ،،

یہ حکم قصاص شریعت حضرت عیسیٰ (ع) میں منسوخ ہو گیا چنانچہ انجیل متیٰ کے باب : ۵ شمارہ ۳۸ میں ہے:

''تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے میں آنکھ دانت کے بدلے میں دانت لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جوتیرے دائیں رخسارپر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے،،۔

۶۔ کتاب مقدس سفر پیدائش باب : ۱۷ شمارہ ۱۰ میں حضرت ابراہیم (ع) سے خدا کا خطاب ہے: '' اور میرا عہد جو میرے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے اور جسے تم مانو گے سو یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک فرزمذ نرینہ ختنہ کیا جائے،،

حضرت موسیٰ (ع) کی شریعت نے بھی اس حکم کی تائید کر دی۔ چنانچہ سفر خروج کے باب ۱۲ کے شمارہ : ۴۸۔۴۹ میں ہے:

۳۵۴

''اور اگر کوئی اجنبی تیرے ساتھ مقیم ہو اورخداوند کی فسح کو ماننا چاہتا ہو تو اس کے ہاں کے سب مرد اپنا ختنہ کرائیں تب وہ پاس آ کر فسح کرے یوں وہ ایسا سمجھا جائے گا گویا اسی ملک کی اس کی پیدائش ہے پر کوئی نامختون آدمی اسے کھانے نہ پائے وطنی اور اس اجنبی کیلئے جو تمہارے درمیان موجود ہو ایک ہی شریعت ہو گی،،۔

نیز کتاب مقدس کے سفر اخبار کے باب : ۱۲ شمارہ ۲ اور ۳ میں موجود ہے:

''خداوند نے موسیٰ سے کہا: بنی اسرائیل سے کہو اگر کوئی عورت حاملہ ہو اور اس کے ہاں لڑکا پیدا ہو تو وہ سات دن ناپاک رہے گی جیسے حیض کے ایام میں رہتی ہے آٹھویں دن لڑکے کا ختنہ کیا جائے،،۔

یہ حکم بھی منسوخ ہو گیا اور حضرت موسیٰ (ع) اور حضرت عیسیٰ (ع) کی امت سے ختنہ کا فریضہ اٹھا لیا گیا چنانچہ کتاب مقدس ، عہد نامہ جدید کے عنوان ''رسولوں کے اعمال،، کے باب : ۱۵ شمارہ : ۲۴۔۳۰ اور پولس کے بعض خطوط میں نسخ کا یہ حکم موجود ہے۔

۷۔ کتاب مقدس کے سفر استثنا باب : ۲۴ شمارہ:۱۔۳ میں ہے:

''اگر کوئی مرد کسی عورت سے بیاہ کرے اور بعد میں اس میں کوئی ایسی بیہودہ بات پائے جس سے اس عورت کی طرف اس کی التفات نہ رہے تو وہ اس کا طلاق نامہ لکھ کراس کے حوالے کرے اور اسے اپنے گھر سے نکال دے اور جب اس کے گھر سے نکل جائے تو وہ دوسرے مرد کی ہو سکتی ہے لیکن اگر دوسراشوہر بھی اس سے ناخوش رہے اور اس کا طلاق نامہ لکھ کر اس کے حوالے کرے اور اسے اپنے گھر سے نکال دے یا وہ دوسرا شوہر جس نے اس سے بیاہ کیا ہو مر جائے تو اس کا پہلا شوہر جس نے اسے نکال دیا تھا اس عورت کے ناپاک ہونے کے بعد یہ مرد اس سے بیاہ نہ کرنے پائے،،۔

۳۵۵

انجیل نے اس حکم کو منسوخ کر دیا اور طلاق کو حرام قرار دیا ہے چنانچہ انجیل متیٰ کے باب: ۵۰ شمارہ : ۳۱۔۳۲ میں لکھا ہے:

''یہ بھی کہاگیا تھا کہ جو کوئی بیوی کو چھوڑے اسے طلاق نامہ لکھ دے لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنی بیوی کو حرام کاری کے سوا کسی اور سبب سے چھوڑ دے وہ اس سے زنا کراتا ہے اور جو کوئی اس چھوڑی ہوئی سے بیاہ کرے وہ زنا کرتا ہے،،(۱)

مرقس کے باب : ۱۰ شمارہ : ۱۱۔۱۲ اور لوقا کے باب : ۱۶ شمارہ :۱۸ میں بھی اس قسم کا حکم موجود ہے۔ عہد نامہ قدیم و جدید سے نسخ کے جو موارد بیان کئے گئے وہ اہل انصاف اور حقیقت بین حضرات کیلئے کافی ہیں ۔ جو حضرات نسخ کے مزید مقامات سے آگاہ ہونا چاہیں وہ کتاب ''اظہار الحق،، (۲) اور ''الہدیٰ الیٰ دین المصطفےٰ (۳)،، کی طرف رجوع فرمائیں۔

____________________

(۱) کتاب مقدس کے اقتباسات کا اردوترجمہ ، پاکستان بائیبل سوسائٹی انار کلی لاہور کے شائع کردہ اردو ترجمہ سے لیا گیا ہے (مترجم)

(۲) مولف کتاب: شیخ رحمتہ اللہ ابن خلیل الرحمن الہندی ، یہ انتہائی مفید اور جلیل کتاب ہے۔

(۳) مولف : امام البلاغی ۔

۳۵۶

شریعت اسلام میں نسخ

نسخ کے واقع ہونے میں مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں کیونکہ گزشتہ شریعتوں کے بہت سے احکام ، شریعت اسلام کے احکام کے ذریعے نسخ ہو گئے اور شریعت اسلام ہی کے کچھ احکام شریعت اسلام کے چند دوسرے احکام کے ذریعے نسخ ہو گئے ہیں چنانچہ قرآن مجید اس بات کی تصریح کر رہا ہے کہ نماز میں قبلہ اول (بیت المقدس) کی طرف رخ کرنے کا حکم منسوخ ہو گیا ہے اور اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔

اختلاف اس بات میں ہے کہ آیا قربان کے کچھ احکام ، قرآن یا سنت قطعیہ (خبر متواترہ وغیرہ)یا اجماع یا عقل کی وجہ سے نسخ ہو سکتے ہیں؟

بہتر ہے اس پہلو سے نسخ کی بحث شروع کرنے سے پہلے ہم نسخ کی قسمیں بیان کر دیں۔ علماء کرام نے نسخ قرآن کی تین قسمیں بیان کی ہیں:

۱۔ تلاوت نسخ ہو حکم باقی رہے(۱)

علمائے کرام نے اس ضمن میں مثال کے لئے آیت رحم کو پیش کیا ہے اور فرمایا ہے کہ آیت رحم فی الحال قرآن میں موجود نہیں (نسخ ہو گئی ہے) لیکن اس آیت میں موجود حکم باقی ہے۔

ہم تحریف کی بحث میں ثابت کر چکے ہیں کہ نسخ تلاوت کا قائل ہونا بعینہ تحریف کا قائل ہونے کے مترادف ہے اور جو روایات نسخ تلاوت پر دلالت کرتی ہیں وہ سب کی سب احادہیں اس قسم کی مباحث میں خبر واحد کے ذریعے مدعا ثابت نہیں ہو سکتا۔

____________________

(۱) یعنی حکم باقی رہے اور صرف تلاوت منسوخ ہو۔

۳۵۷

تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ جس طرح خبر واحد سے قرآن ثابت نہیں ہو سکتا اسی طرح خبر واحد سے نسخ بھی ثابت نہیں ہو سکتا۔ اجتماع کے ساتھ ساتھ ایک عہدہ اور اہم دلیل یہ ہے کہ کوئی بھی اہم واقعہ جو رونما ہونے کے بعد (اگر درحقیقت ثابت ہو) عام طور پر لوگوں میں شائع اور مشہور ہو جاتا ہے وہ خبر واحد کے ذریعے ثابت نہیں ہوتا اس قسم کے واقعہ کو بعض راویوں کا نقل کرنا اور بعض راویوں کا نقل نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ جس نے نقل کیا ہے اس نے یا تو جھوٹ بولا ہے یا اسے غلط فہمی ہوئی ہے بنا برایں خبر واحد کے ذریعے یہ کیسے ثابت ہو سکتا ہے کہ آیت رجم قرآن کا حصہ ہو اور پھر منسوخ ہو گئی ہو اور یہ کہ اس کی صرف تلاوت نسخ ہوئی ہو اور اس کا حکم باقی رہے۔

ہاں! گزشتہ مباحث میں یہ بات ضرور نقل کی گئی ہے کہ جمع قرآن کے موقع پر حضرت عمرآیت رجم لے کر آئے اور انہوںنے یہ دعویٰ کیا کہ یہ بھی قرآن کا حصہ ہے لیکن مسلمانوں نے ان کے اس دعویٰ کو تسلیم نہیں کیا کیونکہ اس آیت کو نقل کرنے والے صرف حضرت عمر تھے چنانچہ مسلمانوں نے آیت رجم کو قرآن میں شامل نہیں کیا یہاں سے متاخرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ آیہ رجم کی تلاوت منسوخ ہو گئی ہے لیکن اس کا حکم باقی ہے۔

۲۔ تلاوت اور حکم دونوں منسوخ ہوں

تلاوت اور حکم دونوں میں نسخ کی مثال کیلئے تحریف کی بحث میں مذکور دسویں روایت کو پیش کیا گیا ہے جس کو حضرت عائشہ نے نقل کیا ہے:

اس دلیل کا جواب وہی ہے جو نسخ تلاوت کی دلیل کا تھا۔

۳۵۸

۳۔ حکم منسوخ ہو۔ تلاوت باقی رہے۔

نسخ کی یہی قسم علماء اور مفسرین میں مشہور ہے اس کے بارے میں ئی علمائے کرام نے مستقل کتب لکھی ہیں اور ان میں ناسخ اور منسوخ کو ذکر کیا ہے ان علماء میں ممتاز عالم ابو جعفر نحاس اورحافظ المظفر الفارسی قابل ذکر ہیں۔

بعض محققین اس رائے کے مخالف ہیں اور انہوں نے قرآن میں کسی منسوخ آیت کے موجود ہونے کا انکار کیا ہے البتہ اس نسخ کے امکان پر سب کا اتفاق ہے اس بات پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ قرآن میں کچھ آیات ایسی ہیں جو گزشتہ شریعتوں کے احکام کی ناسخ ہیں اور بعض آیات کے ذریعے صدر اسلام کے کچھ احکام منسوخ ہو گئے ہیں ہم ذیل میں اس مسئلے میں صحیح رائے کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔

قرآن میں موجود حکم تین طریقوں سے نسخ ہو سکتا ہے۔

۱۔ قرآن میں موجود حکم سنت متواترہ یا اس اجماع قطعی کے ذریعے نسخ کیا جائے جو اس بات کا انکشاف کرے کہ نسخ معصوم (ع) کی طرف سے ہوا ہے نسخ کی اس قسم پر عقلاً اور نقلاً کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ اگر کسی آیت کے بارے میں یہ ثابت ہو جائے کہ اجماع یا سنت متواترہ کے ذریعے یہ نسخ ہو گئی ہے تو اس پر عمل کیا جائے گا ورنہ نسخ کا التزام نہیں کیا جائے گاکیونکہ یہ مسلم ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ ثابت نہیں ہوتا۔

۲۔ قرآن میں کوئی ثابت حکم قرآن ہی کی دوسری آیت کے ذریعے نسخ ہو جس کی نظر اس آیہ منسوخہ پر نہ ہو اور اس کے حکم کے برطرف ہونے کو بیان نہ کرتی ہو بلکہ صرف اس بنیدپر نسخ سمجھا جائے کہ ان دونوں آئتوں میں حکم کے اعتبار سے منافات پائی جاتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ اخذ کیا جائے کہ بعد والی آیت پہلی آیت کی ناسخ ہے۔

۳۵۹

تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن میں یہ نسخ و اقع نہیں ہوا اور کیسے اس قسم کے نسخ کو مانا جا سکتا ہے جبکہ قرآن پکار پکار کر کہہ رہا ہے:

( أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ) ۴:۸۲

''تو کیا یہ لوگ قرآن میں بھی غور نہیں کرتے اور (یہ نہیں خیال کرتے کہ) اگر خدا کے سوا کسی اور کی طرف سے (آیا) ہوتا تو ضرور اس میں بڑا اختلاف پاتے،،۔

مگر بہت سے مفسرین نے آیات قرآنی کے مفاہیم میں کما حقہ ، غور و خوض نہیں کیا اور یہ خیال کیا کہ قرآن کی بہت سی آیات میں منافات پائی جاتی ہے اور اسی سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان دونوں (باہم منافی) آیات میں سے پہلی منسوخ اور دوسری ناسخ ہے بلکہ بعض حضرات نے ان دونوں آئتوں کو بھی ایک دوسرے کے منافی قرار دیا ہے جہاں دوسری آیت پہلی آیت کیلئے قرینہ عرفیہ بن رہی ہو(۱) جس طرح خاص عام کا اور مقید مطلق کا مقصد و مراد بیان کرتا ہے اس قسم کے شبہات یا نظریات کا منشا و سرچشمہ ، فکر و تدبر کا فقدان ہے یا نسخ کے لغوی معنی کی مناسبت سے اس قسم کے موارد مقامات کو نسخ کہنے میں تسامح اور چشم پوشی سے کام لیا جانا ہے اگرچہ نسخ کے اصطلاحی معنی کی مناسبت سے اس قسم کے موارد و مقامات کو نسخ کہنے میں تسامح اور چشم پوشی سے کام لیا جانا ہے اگرچہ نسخ کے اصطلاحی معنی کے متحقق ہونے سے پہلے ایسے معانی کو عام طور پر نسخ کہا جاتا ہے لیکن اصطلاحی معنی کے متحقق ہونے کے بعداس کو نسخ کہنا یقیناً مجاز ہو گا جو چشم پوشی پر مبنی ہے۔

____________________

(۱) دوسری آیت پہلی آیت کا صحیح مقصد بیان کر رہی ہو(مترجم)

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

سے لازم نہيں ہے كہ ضامن يہ جانے كہ (مضمون لہ ) يعنى جسكو ضمان دينا ہے وہ كون ہے _

۱۸_ طلبگار كى رضايت، ضمانت كے صحيح ہونے ميں شرط نہيں ہے _و أنا به زعيم

جب ضامن نے وعدہ كيا تھايعني(انا بہ زعيم)كہا تھا اسوقت تك كسى نے شاہى پيالے كو نہيں پايا تھا اسى وجہ سے ضمانت ميں پيالے كو پانے والے كى رضايت شرط نہيں ہے _

۱۹_حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں جعالہ ،ضمان، وكالت كى قرار داديں رائج تھيں _

و لمن جاء به حمل بعير و انا به زعيم

۲۰_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قوله : '' صواع الملك'' قال : كان قدحاً من ذهب و قال: كان صواع يوسف إذكيل به قال: لعن الله الخوان لا تخونوا به بصوت حسن (۱)

امام جعفر صادقعليه‌السلام ،خداوند متعال كے اس قول (صواع الملك ) كے بارے ميں فرماتے ہيں كہ يہ پيالہ سونے كا تھا اور پھر فرمايا جب اس سے كسى چيز كووزن كيا جاتا تو اچھى آواز ميں يہ جملہ كہتے كہ خداوند متعال خيانت كرنے والوں پر لعنت بھيجے اس ناپ وتول ميں خيانت نہ كرنا _

احكام : ۸،۹،۱۰،۱۱،۱۲،۱۳،۱۴،۱۵

انعام:انعام دينے كے احكام ۹

بادشاہ مصر :بادشاہ مصر كے پانى پينے والے برتن كى قيمت ۶; بادشاہ مصر كے پيالے كو پانے والے كا انعام ۵ ، ۷ ; بادشاہ كے پيالے كى بناوٹ ۲۰;بادشاہ مصر كے پانے پينے والے پيالے كے فوائد ۳; بادشاہ مصر كے پيالے كا گم ہونا ۱ ۱ ; بادشاہ مصر كے پيالے كى خصوصيات ۲۰

برادران يوسف :برادران يوسف سے تفتيش كرنے كے دلائل۱

تفتيش كرنا :تفتيش كرنے كے احكام ۲ ; تفشيش كرنے كے جواز كے موارد ۲

جرم :جرم كے كشف كرنے كے انعام كا جواز ۹

جعالہ :

____________________

۱)تفسير عياشى ج۲ ص ۱۸۵ ح ۵۲ ; بحارالانوار ج۱۲ ص ۳۰۸ ح ۱۲۰_

۵۸۱

حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں جعالہ ۱۹ ;جعالہ كا شريعت ميں جواز ۱۰ ; جعالہ كا عقد۱۰; جعالہ كى تاريخ ۱۹ ; جعالہ كے احكام ۱۰ ، ۱۱ ، ۱۲ ، ۱۳; جعالہ كے صحيح ہونے كے شرائط ۱۱ ، ۱۲ ،۱۳ ;جعالہ كے عامل كى تعيين ۱۱ ; جعالہ ميں زمان ۱۲ ; جعالہ ميں كام كى مقدار ۱۳; جعالہ ميں ضمانت كا جواز ۱۵

روايت : ۲۰

ضمان:حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانہ ميں ضمان ۱۹ ; ضمان كا شريعت ميں جواز ۱۴; ضمان كا عقد۱۴; ضمان كى تاريخ ۱۹;ضمان كے احكام ۱۴ ،۱۵،۱۶ ، ۱۷ ، ۱۸; ضمان ك-ے صحيح ہونے كے شرائط ۱۶ ، ۱۷ ، ۱۸ ;ضمان ميں طلبگار كا معين كرنا ۱۷ ; ضمان ميں طلبگار كى رضايت ۱۸

قديمى مصر:قديمى مصر ميں قحطى كے دوران وزن كرنے كا برتن ۳; قديمى مصر ميں وزن كرنے كا برتن ۴;قديمى مصر ميں وزن كرنا ۴

كفالت:حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں كفالت۱۹ ; كفالت كا شريعت ميں جواز ۱۴; كفالت كا عقد ۱۴;كفالت كے احكام ۱۴ ; كفالت كى تاريخ ۱۹

گرفتار كرنا :گرفتار كرنے كے احكام ۲ ; گرفتار كرنے كے جواز كے موارد ۴

لين دين كے معاملات:لين دين كے معاملات كا حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں ہونا ۱۹ ; لين دين كے معاملات كے احكام ۱۰ ،۱۴;لين دين كى قانونى حيثيت ۱۰ ، ۱۴

متہمين :متہمين كى تفتيش كا جواز ۲ ; متہمين كى گرفتارى كا جواز ۲

مجرمين :مجرمين كى گرفتارى پر انعام ۹; مجرمين كى تفتيش كا جواز ۲ ; مجرمين كى گرفتارى كا جواز ۲

مقابلہ :مقابلے كے احكام ۸ ; مقابلے ميں انعام ركھنا ۸

وزن كرنے كا برتن :تاريخ ميں وزن كرنے كا برتن ۴

وزن :وزن كرنے كى تاريخ ۴

حضرت يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام كا جعالہ ۷; حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۵، ۷ ، ۲۰; حضرت يوسفعليه‌السلام كا وعدہ ۷

۵۸۲

آیت ۷۳

( قَالُواْ تَاللّهِ لَقَدْ عَلِمْتُم مَّا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِي الأَرْضِ وَمَا كُنَّا سَارِقِينَ )

ان لوگوں نے كہا كہ خداكى قسم تمھيں تو معلوم ہے كہ ہم زمين ميں فساد كرنے كے لئے نہيں آئے ہيں اور نہ ہم چور ہيں (۷۳)

۱ _ فرزندان يعقوب نے حضرت يوسفعليه‌السلام اور ان كے ملازمين كے سامنے قسم اٹھائي كہ انہوں نے چورى نہيں كى اور مصر ميں خرابى اور فساد كے قصد سے نہيں آئے ہيں _تالله لقد علمتم ما لنفسد فى الارض و ما كن

اگر چہ (مقسم عليہ ) (يعنى جو كام انجام ہوا اس پر قسم اٹھانا ) يہ آيت شريفہ ( لقد علمتم) ہے ليكن حقيقت ميں ( ما جئنا ...) مقسم عليہ ہے اسى وجہ سے جملے كا معنى يوں ہوگا كہ خدا كى قسم ہم فساد و بربادى كرنے كے ليے مصر ميں نہيں آئے ہيں اور ہرگز چور بھى نہيں ہيں اور تم ان حقيقتوں سے بخوبى واقف ہو_

۲_ خدا كى قسم اٹھانا ،گناہ كے ارتكاب اور فساد پھيلانے سے چھٹكارا حاصل كرنے كے ليے جائز ہے_

تالله لقد علمتم ما جئنا لنفسد فى الارض

۳_ فرزندان يعقوبعليه‌السلام ، حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين كے ہاں نيك كردار اور فساد اور چورى سے منزہ و مبرہ جانے جاتے تھے_تالله لقد علمتم ما جئنا لنفسد فى الارض و ما كنا سارقين

۴ _ حضرت يوسفعليه‌السلام كى حكومت كے آدمى ان كاروانوں كى تفتيش و تحقيق كرتے تھے جو مصر ميں وارد ہوتے تھے تا كہ اطمينان ہوجائے كہ وہ چور اور فساد كرنے والے نہيں ہيں _لقد علمتم ما جئنا لنفسد فى الارض و ما كنا سارقين

(لقد علمتم) كا جملہ ( كہ يقينا تم نے جان ليا كہ ہم ايسے ويسے نہيں ہيں ) اس بات كو بتاتاہے كہ مصر ميں آنے والے كاروان كى تفتيش كى جاتى تھى تا كہ مصر ميں آنے كا مقصد معلوم ہوسكے ايسا نہ ہو كہ جاسوسي، خراب كام كرنے، چورى و غيرہ كے ليے تو مصر ميں داخل نہيں ہوئے _

۵۸۳

۵_معاشرے كے رہبر و سياستدان كے ليے يہ حتمى طور پر ثابت ہو ناچاہيے كہ جو غير ملكى ان كى حكومتى حدود ميں داخل ہوئے ہيں خرابى كرنے اور فساد كرنے والے نہيں ہيں _تالله لقد علمتم ما جئنا لنفسد فى الارض و ما كنا سارقين

۶_فرزندان يعقوبعليه‌السلام نے اپنےسابقہ نيك كردار اور چورى كے سابقہ سے پاك و مبرہ ہونے كى وجہ سے شاہى پيالے كى چورى كى تہمت كو اچھى بات نہيں سمجھي_لقد علمتم ما كنا سارقين

۷_افراد كے ماضى كا اچھا ہونا ان كى بے گناہى كى علامت ہے _لقد علمتم و ما كنا سارقين

۸_ افراد كا برا سابقہ، ان پر صرف برا گماہ ہونا اسكى تفتيش اور گرفتارى كا جواز ہے _

تالله لقد علمتم ما جئنا لنفسد فى الارض و ما كنا سارقين

۹_ چوري، زمين پر فساد پھيلانے كے مترادف ہے_ما جئنا بنفسد فى الارض و ما كنا سارقين

حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين نے فرزندان يعقوب ہر فساد پھيلانے كى تہمت نہيں لگائي كيوں كہ وہ چور ہونے اور مفسد ہونے كى نفى پہلے كرچكے تھے كيونكہ چورى كا واضح و روشن مصداق، فساد پھيلاناہے_

برادران يوسف :برادران يوسف اور حضرت يوسفعليه‌السلام ۱; برادران يوسف اور چورى ۱; برادران يوسفعليه‌السلام اور ملازمين يوسفعليه‌السلام ; برادران يوسف پر چورى كا الزام ۶; برادران يوسف كا انكار كرنا ۱ ; برادران يوسف كا حسن سابقہ ۳ ،۶ ; برادران يوسف كا قسم اٹھانا ۱

تفتيش كرنا :تفتيش كرنے كے احكام ۸ ; تفتيش كرنے كے عوامل ۸

چورى :چورى كا فساد ۹

خود:اپنے كے چھٹكارے كے ليے قسم اٹھانا ۱ ، ۲

سابقہ :حسن سابقہ كے آثار ۷; برے سابقہ كے آثار ۸

غير ملكي:غير ملكيوں كى شناخت كى اہميت ۵ ; غير ملكيوں سے پيش آنے كا طريقہ ۵

قسم اٹھانا:اپنى بے گناہى پر قسم اٹھانا قسم اٹھانے كے احكام ۲; خداوند متعال كى قسم ۲ ; قسم اٹھانے كا جواز ۲

۵۸۴

گرفتار كرنا :گرفتار كرنے كے احكام ۸ ; گرفتار كرنے كے اسباب ۸

گناہ :بے گناہى كى نشانياں ۷

معاشرہ :معاشرے كے رہبروں كى ذمہ دارى ۵; معاشرے ميں امن قائم كرنے كے اقدامات ۵

مفسدين :مفسدين كى شناخت كرنے كى اہميت ۵

نفى كرنا :فساد پھيلانے كى نفى كرنا

حضرت يوسفعليه‌السلام :جناب يوسفعليه‌السلام كى حكومت ميں امن عامہ قائم كرنے كے اقدامات ۴; جناب يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۴ ،۶ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين اور برادران يوسف ۳

آیت ۷۴

( قَالُواْ فَمَا جَزَآؤُهُ إِن كُنتُمْ كَاذِبِينَ )

ملازموں نے كہا كہ اگر تم چھوٹے ثابت ہوئے تو اس كى سزا كيا ہے (۷۴)

۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين نے فرزندان يعقوبعليه‌السلام كو بتاديا كہ چور كے ملنے پر اسكو سزا دى جائے گي_

قالوا فما جزاؤه ان كنتم كاذبين

۲_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين نے ملزمان (فرزندان يعقوب) سے كہا كہ بادشاہ كے پيالے كے چور كى سزا تم خود مقرر كرو_قالوا فما جزاؤة ان كنتم كاذبين

(جزاؤہ) كى ضمير شاہى پيالے كے چور كى طرف پلٹتى ہے جو مذكورہ جملات سے سمجھا جاتاہے _

۳_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں مصر كى عدالت كے قوانين ميں سے يہ تھا كہ غير ملكى مجرموں كو ملكى قوانين كے مطابق سزا دى جاتى تھي_قالوا فما جزاؤه ان كنتم كاذبين

( فما جزاؤہ) كا جملہ چور كى سزا كو معين كرنے كے بارے ميں سوال ہے_ يہ ممكن ہے كہ اس معنى ميں ہو كہ تہمت زدہ خود ہى اپنى سزا كو مقرر كريں _ اسى طرح يہ معنى بھى مراد ہوسكتاہے كہ معلوم كريں كہ ان كى شريعت ميں چور كى سزا كيا ہے مذكورہ معنى دوسرے احتمال كى صورت ميں ہوسكتاہے_

۵۸۵

۴_غيرملكى مجرمين كى سزا ان كے اپنےقانون كے مطابق ہونے كا جواز_فما جزاء ه ان كنتم كاذبين

۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام كو مصر ميں اپنى وزارت كے دوران مجرمين پر مقدمہ چلانے اور ان كے بارے ميں فيصلہ دينے كے بھى اختيارات تھے_قالوا فما جزاؤه ان كنتم كاذبين

۶_ متہمين كے ماضى كا بے داغ ہونا اور ان كا اپنى بے گناہى پر قسم اٹھانا ان كے اتہام كے بارے ميں تحقق كرنے اور تفتيش كرنے ميں مانع نہيں ہوسكتا_قالوا تالله لقد علمتم فماجزؤه ان كنتم كاذبين

اسوجہ سے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين نے فرزندان يعقوب كے حسن سابقہ كى پروا نہيں كى اسى طرح انكى اپنى بے گناہى پر قسم اٹھانے پر بھى كان نہيں دھرے ، اس سے مذكورہ بالا معنى كو حاصل كيا جاسكتاہے_

احكام :سزا دينے كے احكام ۴

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسف پر چورى كى تہميت ۲۰

بادشاہ مصر :بادشاہ مصر كے پانى پينے والے پيالے كے چور كى سزا ۱ ، ۲

تفتيش كرنا :تفتيش كرنے كے احكام ۶

چور:چور كى سزا كو معين كرنے كى درخواست كرنا ۲ ; چور كى سزا ۱

عدالت كا نظام :۴

غيرملكي:غير ملكيوں كى سزا ۴; غير ملكيوں كى سزا كا معيار۳

قسم اٹھانا :بے گناہى پر قسم اٹھان

قديمى مصر :قديمى مصر ميں سزا كے قوانين ۳; قديمى مصر كے عدالتى قوانين ۳

متہمين :متہمين سے تفتيش كرنا ۶; متہمين كا حسن سابقہ ۶ ; متہمين كا قسم اٹھانا ۶

حضرت يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۵;حضرت يوسفعليه‌السلام كى قضاوت ۵; حضرت يوسفعليه‌السلام كے اختيارات كى حدود ۵;حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين اور برادران يوسفعليه‌السلام ۱،۲; حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين كى اميديں ۲۰

۵۸۶

آیت ۷۵

( قَالُواْ جَزَآؤُهُ مَن وُجِدَ فِي رَحْلِهِ فَهُوَ جَزَاؤُهُ كَذَلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ )

ان لوگوں نے كہا كہ اس كى سزا خود وہ شخص ہے جس كے سامان ميں سے پيالہ برآمد ہو ہم اسى طرح ظلم كرنے والوں كو سزاد ديتے ہيں (۷۵)

۱_ فرزندان يعقوبعليه‌السلام نے بادشاہ كے پيالے كے چور كى سزا اسكے غلام بننے كو قرار ديا_

قالوا فما جزاؤه قالوا جزاؤه من وجد فى رحله فهو جزاؤه

(فہو جزاؤہ) كے جملے كا معنى يہ ہے كہ چور اس كى ملكيت ميں چلا جائے گا جس كے مال سے چورى ہوئي ہے_ (مجمع البيان ) ميں ہے كہ اس غلامى كى مدت ايك سال ہوتى تھي_

۲_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى شريعت ميں چوروں كى سزا ان كا غلام ہونا تھا_فهو جزائوه كذلك نجزى الظالمين

(كذلك نجزى الظالمين ) كے جملے كا اشارہ اس مطلب كى طرف ہے كہ جو كچھ ہم نے چور كے بارے ميں كہا ہے و ہى ہمارے قانون ميں ہے _

۳_ چورى ظلم و ستم كرنے كا روشن ترين نمونہ ہے_من وجد فى رحله فهو جزاء ه كذلك نجزى الظالمين

(ظالمين ) سے مراد مخصوصاً چورى كرنے والے ہيں _ كيونكہ مذكورہ سزا ظلم كے ليے نہيں تھي_ چور كى جگہ پر (ظالم) كا نام ليا جانا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ چورى ظلم و ستم كا واضح و روشن نمونہ ہے_

۴_ فرزندان يعقوبعليه‌السلام نے چوركى سزا كو معين كرنے كے ساتھ ساتھ اسكى وضاحت كى كہ ( شاہى پيالہ جس كے سامان ميں پايا گيا) وہ چور ہوگا نہ كہ تمام قافلے والے اس كے ذمہ دار ہوں گے _قالوا جزاء ه من وجد فى رحله فهو جزاء ه

حالانكہ فرزندان يعقوبعليه‌السلام ( فما جزائہ ) كے بدلے ميں ان كا يہ جواب دينا كا فى تھا( ہو جزاء ہ) ليكن جب تمام قافلے والوں كو چورى كى نسبت دى گئي (ايتها العير إنكم لسارقون )

۵۸۷

تو اس وجہ سے انہوں نے ضرورى سمجھا كہ مفصل جواب (جزاءه من وجد فى رحله فهو جزاءه ) ديا كہ تمام قافلے والے اس كے ذمہ دار نہيں ہيں بلكہ وہ ذمہ دار ہے كہ جس كے سامان ميں شاہى پيالہ پايا گيا_

۵ _ مصر كى حكومت حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں حضرت يعقوبعليه‌السلام كى شريعت كى پيروى نہيں كرتى تھي_

قالوا فما جزاء ه من وجد فى رحله فهو جزاء ه

۶_عن على بن موسى الرضا عليه‌السلام : كانت الحكومة فى بنى اسرائيل إذا سرق إحد شيءناً استرق به فقال لهم يوسف : ما جزاء من وجد فى رحله ؟ قالوا : هو جزاؤه (۱)

امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے كہ بنى اسرائيل كى قوم ميں قانون يہ تھا كہ جو كسى كى چورى كرتا تھا اسكى غلامى ميں چلا جاتاہے _ اسى وجہ سے حضرت يوسفعليه‌السلام نے قافلے والوں كو كہا : جس كے سامان ميں وہ پيالہ ملا تو اسكى سزا كيا ہے ؟ انہوں نے جواب ديا اسكى سزا وہ خود ہى ہے (يعنى غلامى ميں چلا جائے)

۷_'' عن أبى عبدالله عليه‌السلام ( فى قوله تعالي) '' جزاء ه من وجد فى رحله فهو جزاء ه'': يعنون السنة التى تجرى فيهم أنيحسبه (۲)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے اس قول (جزاء ه من وجد فى رحله فهو جزاء ه ) كے بارے ميں كہ اس سے مراد وہ رسم و رواج ہے جو ان كے درميان رائج تھا كہ اسكو زندانى كرتے تھے_

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسفعليه‌السلام اور چور كى سزا ۱ ، ۴; برادران يوسفعليه‌السلام كى سوچ ۱ ،۴

بنى اسرائيل:بنى اسرائيل كى تاريخ ۶ ; بنى اسرائيل كے رسم و رواج ۷; بنى اسرائيل ميں چورى كى سزا ۶ ، ۷; بنى اسرائيل ميں سزا كے قوانين ۷; بنى اسرائيل ميں عدالتى نظام ۶; بنى اسرائيل ميں غلامى كا ہونا ۶

بادشاہ مصر :بادشاہ مصر كے پانى پينے والے پيالے كے چور كى سزا ۱ ، ۶

چور:چور كا غلامى ميں آنا ۱ ، ۲; چور كى سزا ۱

____________________

۱)عيون الاخبار الرضا ج۲ص۷۷،ح۶; نورالثقلين ج/ ۲ ص ۴۴۶، ح ۱۳۸_

۲)تفسير عياشى ج۲ ص ۱۸۳ ح ۴۴ ; نورالثقلين ج/۲ ص ۴۴۲;ح ۱۲۴_

۵۸۸

چورى :چورى ظلم ہونا ۳

روايت : ۶ ،۷

ظلم :ظلم كے موارد ۳

سزا :سزا كا ذاتى و شخصى ہونا ۴; سزا كى خصوصيات ۴

قديمى مصر :قديمى مصر كى تاريخ ۵ ; قديمى مصر كے حكام كا دين ۵

يعقوبعليه‌السلام :يعقوبعليه‌السلام كے دين ميں غلامى كا ہونا ۲ ; يعقوبعليه‌السلام كے دين ميں چور كى سزا ۲

يوسفعليه‌السلام :جناب يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱

آیت ۷۶

( فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاء أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِن وِعَاء أَخِيهِ كَذَلِكَ كِدْنَا لِيُوسُفَ مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ إِلاَّ أَن يَشَاءَ اللّهُ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مِّن نَّشَاء وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ )

اس كے بعد بھائي كے سامان سے پہلے دوسرے بھائيوں كے سامان كے تلاش لى اور آخر ميں بھائي كے سامان ميں سے پيالہ نكال ليا_اور اس طرح ہم نے يوسف كے حق ميں تدبير كى كہ وہ بادشاہ كے قانون سے اپنے بھائي كو نہيں لے سكتے تھے مگر يہ كہ خدا خود چاہے ہم جس كو چاہتے ہيں اس كى درجات كو بلندكرديتے ہيں اور ہر صاحب علم سے برتر ايك صاحب ۲_علم ہوتاہے (۷۶)

۱ _ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بذات خود فرزندان يعقوبعليه‌السلام كے قافلے كے سامان كى تلاشى لي_

فبداء بأوعيتهم قبل وعاء اخيه

(بدأ) اور (استخرج) كى ضمير ( أخيہ) كے

۵۸۹

قرينے كى وجہ سے حضرت يوسفعليه‌السلام كى طرف پلٹتى ہے ان دو فعلوں كا اسناد حضرت يوسفعليه‌السلام كى طرف حقيقى ہے مجازى نہيں (يعنى اس طرح نہيں كہ اس نے فقط حكم ديا ہو كہ اس سامان كى تلاشى لى جائے اور بنفس نفيس شركت نہ كى ہو) سياق كلام كا تغير دينا يعنى جمع كے فعل كو تبديل كرنا(قالوا فما جزاء ه ) مفرد ( بدأ) كے فعل ميں يہ قرينہ ہے جس كى وجہ سے مذكورہ معنى ليا گيا ہے _(وعاء) ظرف كے معنى ميں ہے جسكى جمع (اوعية) ہے_

۲_حضرت يوسفعليه‌السلام نے بنيامين كے سامان كى تلاشى لينے سے پہلے فرزندان يعقوبعليه‌السلام كى دقت سے تلاش لي_

فبداء بأوعيتهم قبل و عاء أخيه ثم استخرجها من وعاء اخيه

(ثم ) كا لفظ اس بات پر دلالت كرتاہے كہ بنيامين كے سامان كى تلاشى كى نوبت ميں كافى وقت لگ گيا اس بات سے معلوم ہوتاہے كہ دوسرے بھائيوں كے سامان كى تلاش بہت ہى دقت سے انجام پائي جسكى وجہ سے كافى وقت صرف ہوگيا_

۳_ حضرت يوسفعليه‌السلام بنيامين كے سامان كى تلاش كرتے وقت اس كے سامان سے شاہى پيالے كو باہر نكالا_

ثم استخرجها من وعاء اخيه

(استخرجہا) كے مفعول كى ضمير (صواع) يا (سقايہ) كى طرف پلٹتى ہے يہ بات قابل ذكر ہے كہ فعل (وجد) كى جگہ پر (استخرج) كا فعل ذكر كرنے كا مقصد يہ ہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام كو علم تھا كہ شاہى پيالہ بنيامين كے سامان ميں ہے _

۴ _ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بنيامين كو اپنے پاس روكنے كے ليے تدبير نكالى تھى وہ خداوند متعال كى طرف سے وحى تھي_

كذلك كدنا ليوسف

۵_بنيامين كے سامان ميں شاہى پيالے كو چھپانا، فرزندان يعقو ب(ع) كے دين ميں چور كى سزا كا پوچھنا اور بنيامين كے سامان كى تلاشى اس كے بھائيوں كے سامان كى تلاشى كے بعد لينا يہ سب حضرت يوسفعليه‌السلام كو خداوند متعال كى طرف الہامات تھے تا كہ بنيامين كو اپنے پاس ٹھہرايا جائے _كذلك كدنا ليوسف

(كذلك) كا اس سوچى سمجھى اسكيم و منصوبے كى طرف اشارہ ہے جو آيت ۷۰ سے ۷۵ ميں ذكر كيا گياہے_

۶_ بنيامين كا حضرت يوسفعليه‌السلام كے پاس ٹھہرجانا جناب يوسفعليه‌السلام كے ليے فائدہ مند تھا_كذلك كدنا ليوسف

(ليوسف) ميں جو لام ہے وہ منفعت كا ہے اسى وجہ سے (بنيامين كو اپنے پاس روكنے) جو منصوبہ تھا يہ حضرت يوسفعليه‌السلام كے ليے فائدہ مند تھا_

۷_بادشاہ مصر كے عدالتى قوانين كے مطابق جناب

۵۹۰

يوسفعليه‌السلام كے ليے اسكى اجازت نہيں تھى كہ بنيامين كو روكے حتى چورى كے جرم ميں ہى كيوں نہ ہو_

ما كان لياخذ اخاه فى دين الملك

يہاں دين سے مراد آئين و طريقہ ہے جب اس كے ساتھ(الملك) كا اضافہ ہوا ہے تو اس سے مراد وہ قوانين اور ضوابط ہيں جو مصر ميں رائج تھے (فما جزاء ہ ...) جو آيت ۷۴ ميں ہے يہ قرينے اس وجہ سے اگر چور يہ چاہيے كہ مجھے اپنے قانون كے مطابق سزا دى جائے تو قاضى اورحاكم مصر اسى بنياد پر حكم صادر كرسكتے تھے_

۸_حضرت يوسفعليه‌السلام كى وزارت كے زمانے ميں حكومت مصر ميں عدالت اور سزا دينے كے قوانين رائج تھے_

ما كان ليأخذ أخاه فى دين الملك

۹_ مصر كے عدالتى قوانين ميں چوروں كى سزا غلامى نہيں تھي_ما كان ليأخذ أخاهفى دين الملك

۱۰_ حضرت يوسفعليه‌السلام اپنى وزارت كے دوران بھى حكومت مصر كے قوانين و دستورات كى مخالفت نہيں كرسكتے تھے_ما كان ليأخذ اخاه فى دين الملك

۱۱ _ حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں مصر ميں بادشاہى كا نظام تھا_ما كان لياخذ أخاه فى دين الملك

۱۲_ حضرت يوسفعليه‌السلام مصر ميں قحطى كے دوران اس علاقے كے بادشاہ نہيں تھے_ما كان ليا خذ اخاه فى دين الملك

۱۴_ مشيت الہى نے يہ چاہا كہ بنيامين، حضرت يوسفعليه‌السلام كے پاس ہى ٹھہرجائے_ما كان الاّ ان يشاء الله

۱۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام مشيت الہى كے بغير اور اگر اس كى مدد نہ ہوتى تو كسى بھى وسيلہ و ذريعہ سے بنيامين كو اپنے پاس نہيں ركھ سكتے تھے_ما كان لياخذ اخاه فى دين الملك الاّ ان يشاء الله

۱۶_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى وزرات كے زمانہ ميں غير ملكى مجرمين كو ان كے قوانين كے مطابق سزا دينا مصر كے قوانين و دستور كے خلاف نہيں تھا_ما كان ليأخذ اخاه فى دين الملك الاّ ان يشاء الله

۱۷_قوانين كا احترام اور پاس كرنا حتى غير الہى نظام ميں بھى ضرورى ہے_ما كان لياخذ اخاه فى دين الملك الاّ ان يشاء الله

۱۸_مادى وسائل اور اسباب مشيت الہى كى تدبير كے تابع ہيں _ما كان لياخذ اخاه فى دين الملك الاّ ان يش الله

۱۹_مشيت الہى بھى اسباب و علل مادى كے ساتھ ساتھ چلتى ہےما كان لياخذ اخاه فى دين الملك الاّ ان يشاء الله

۵۹۱

۲۰_ حضرت يوسفعليه‌السلام معنويت كے بلند مقامات كے حامل اور كمال كے درجات و مراحل پر فائز تھے_

نرفع درجات من نشاء

۲۱_حضرت يوسفعليه‌السلام نے بنيامين كو اپنے پاس روكنے كا جو منصوبہ بنايا تھا اس سے يہ معلوم ہوتاہے كہ حضرتعليه‌السلام علم و دانش كے اعتبار سے اپنے بھائيوں سے بالاتر تھے_كذلك كدنا ليوسف نرفع درجات من نشاء و فوق كل ذى علم عليم// (من نشاء) كا مصداق حضرت يوسفعليه‌السلام ہيں _

۲۲_ معنوى مقامات اور درجات ميں مختلف مراحل ہوتے ہيں _نرفع درجات من نشاء

مذكورہ بالا معنى كو لفظ (درجات) كے جمع ہونے كى وجہ سے استفادہ كيا گياہے _

۲۳ _ خداوند متعال كى بارگاہ ميں انسانوں كى منزلت اور رتبہ مختلف ہے _نرفع درجات من نشاء

۲۴ _ خداوند متعال اپنى مشيت كى بنياد پر بعض انسانوں كو بعض پر فضيلت اور كمال عطا كرتاہے _نرفع درجات من نشاء

۲۵_ انسانوں ميں دانش و علم كے اعتبار سے مختلف مراتب ہيں _نرفع درجات من نشاء و فوق كل ذى علم عليم

مفسرين نے اس مذكورہ آيت كريمہ ميں (عليم ) كے معنى ميں دو احتمال ديئے ہيں _ ۱: اس سے مراد ہر عالم اور دانشمند ہے _۲ : اس سے مراد خداوند متعال كى ذات ہے _

اگرپہلا احتمال ديں تو معنى يوں ہوگا ہر دانشمند كے اوپر بھى ايك دانشمند ہوتاہے _ليكن دوسرے احتمال كى صورت ميں جملہ كا معنى يوں ہوگا خداوند متعال كا علم ہر دانشمند كے علم سے بالاتر ہے _ ليكن مذكورہ بالامعنى جو متن ميں كيا ہے وہ پہلے احتمال كى صورت ميں ہے _

۲۶_برادران يوسفعليه‌السلام علم و دانش ركھنے والے اشخاص ميں تھے ليكن حضرت يوسفعليه‌السلام ان سے سب زيادہ عالم اور آگاہ تھے_و فوق كل ذى علم عليم

اس جملے سے پہلے جو معنى ذكر ہوا ہے اسميں (عليم) سے مراد حضرت يوسفعليه‌السلام ہيں اور (كل ذى علم ) سے مراد، ان كے بھائي ہيں _

۲۷_خداوند متعال ہر عالم اور دانشمند سے زيادہ عالم اور

۵۹۲

آگاہ ہے_فوق كل ذى علم عليم

مذكورہ بالا معنى اس صورت ميں ہے كہ (عليم) سے مراد، خداوند متعال ليا جائے_و فوق كل ذى علم عليم

۲۸_ انسان كا علم محدود ہے _

'' و فوق كل ...'' كے جملے ميں جو عموميت پائي جاتى ہے _ اس سے معلوم ہوتاہے كہ انسانوں ميں كوئي ايسا انسان نہيں ہے جو تمام سے علم كے اعتبار سے افضل و بالاہو_

۲۹_ علم ركھنا اور آگاہ ہونا بلند ى و برترى كا سرچشمہ ہے_نرفع درجات من نشاء و فوق كل ذى علم عليم

مذكورہ بالا معنى دو جملوں كے ارتباط سے حاصل ہوا ہے _ جملہ (نرفع ...) اور جملہ (فوق كل ذى علم عليم) سے_

اسماء و صفات:عليم ۲۷

انسان:انسانوں كے علم كا محدود ہونا ۲۸ ; انسانوں كے علم كے مراتب ۲۵ ; انسانوں كے مراتب ۲۳ ; انسانوں ميں تفاوت ۲۵ ; انسانوں ميں تفاوت كا سبب ۲۴ ; انسانوں ميں معنوى درجات كا سبب۲۴

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا علم ۲۷ ; اللہ تعالى كى بخششيں ۲۴; اللہ تعالى كى تعليمات ۴ ; اللہ تعالى كى خصوصيات۲۷ ; اللہ تعالى كى مشيت كے آثار ۱۴،۱۵،۱۸ ،۲۴;اللہ تعالى كى سنتيں ۱۹ ;امدا د الہى كے آثار ۱۵; اللہ تعالى كى مشيت كے جارى ہونے كے مقامات ۱۹اسباب و علل كا نظام ۱۹

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسف كا علم ۲۶;برادران يوسف كے تجارتى سامان كى تلاشى ۱،۲; برادران يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۲۶

بادشاہ مصر :بادشاہ مصر كے اختيارات كى حدود ۱۲; بادشاہ مصر كے پانى پينے كا برتن ۵; بادشاہ مصر كے پانى پينے والے پيالے كے كشف ہونے كا مكان ۳

بنيامين :بنيامين كو روكنے كا فلسفہ ۶ ;بنيامين كى جزا ۴; بنيامين كى حفاظت ۴ ،۵ ،۱۴ ، ۱۵ ، ۲۱; بنيامين كى سزا ۴; بنيامين كى گرفتارى كا غير قانونى ہونا ۷; بنيامين كے تجارتى سامان كى تلاش ۲ ، ۳

چور:چور كو غلام بنانے كى ممنوعيت۹; چور كى سزا ۵ ،۷

سزا :

۵۹۳

حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں سزا كے قوانين ۸

سزا دينے كا نظام :حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں سزا دينے كا نظام ۱۶

علم :علم كے آثار ۲۹

غلامى :غلامى كے احكام۹

غير ملكى :غير ملكيوں كى سزا ۱۶

فضيلتيں :فضيلتوں كى وجہ ۲۹

قانون:قانون كو پاس كرنے كى اہميت ۱۷; قانون كے احترام كى اہميت ۱۷

قديمى مصر :حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں قديمى مصر كى حكومت ۱۱; قديمى مصر كى بادشاہى حكومت ۱۱ ; قديمى مصر كے عدالتى قوانين ۸ ، ۹ ،۱۶; قديمى مصر كے قانون بنانے والے۱۲; قديمى مصر ميں چور كى غلامى ۹; قديمى مصر ميں حكومتى نظام ۱۱ ; قديمى مصر ميں سزا كے قوانين ۷ ، ۸ ; قديمى مصر ميں عدالت كا نظام ۸ ; قديمى مصر ميں قانون سازى كا سبب ۲

مادى اسباب :مادى اسباب كا كردار ۱۸ ،۱۹

معنوى مقامات:معنوى مقامات كے مراتب ۲۲ ، ۲۳

حضرت يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام اور بنيامين كى گرفتارى ۷ ;حضرت يوسفعليه‌السلام اور بنيامين ۴ ، ۵ ، ۲۱; حضرت يوسفعليه‌السلام اور قديمى مصر كے قوانين ۱۰; حضرت يوسفعليه‌السلام اور مشيت الہى ۱۵; حضرت يوسفعليه‌السلام قديمى مصركى قحطى كے دوران ۱۳; حضرت يوسفعليه‌السلام كا تلاشى لينا ۱ ، ۲ ، ۳ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا علم ۲۱ ، ۲۶; حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ،۳،۴،۵،۷ ،۱۴;حضرت يوسفعليه‌السلام كو الہام ہونا ۵; حضرت يوسفعليه‌السلام كى تدبير ۴ ، ۲۱; حضرت يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۲۱ ، ۲۶; حضرت يوسفعليه‌السلام كى تدبير كا فلسفہ ۵; حضرت يوسفعليه‌السلام كے كمالات ۲۰ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كے اختيارات كا احاطہ ۷ ، ۱۰; حضرت يوسفعليه‌السلام كے معنوى مقامات ۲۰ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كے منافع ۶; حضرت يوسفعليه‌السلام كى تدبير كرنے كا سبب ۵ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كى موفقيت ۲۱ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كو وحى كا ہونا ۴ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كو امداد الہى كا ہونا ۱۵

۵۹۴

آیت ۷۷

( قَالُواْ إِن يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَّهُ مِن قَبْلُ فَأَسَرَّهَا يُوسُفُ فِي نَفْسِهِ وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ قَالَ أَنتُمْ شَرٌّ مَّكَاناً وَاللّهُ أَعْلَمْ بِمَا تَصِفُونَ )

ان لوگوں نے كہا كہ اگر اس نے چورى كى ہے تو كيا تعجب ہے اس كا بھائي اس سے پہلے چورى كرچكاہے _يوسف نے اس بات كو اپنے دل ميں چھپاليا اور ان پر اظہار نہيں كيا_كہا كہ تم بڑے برے لوگ ہو اور اللہ تمھارے بيانات كے بارے ميں زيادہ بہتر جاننے والا ہے (۷۷)

۱_برادران يوسفعليه‌السلام نے جب بنيامين كے سامان ميں شاہى پيالے كو ديكھا تو اسكو پيالے كا چور جانتے ہوئے اس بات كا اعتراف كيا _قالوا إن يسرق فقد سرق أخ له من قبل

۲_ برادران يوسفعليه‌السلام نے حضرت يوسفعليه‌السلام كے سامنے بنيامين پر چورى والى عادت كى تہمت لگائي_

قالوا إن يسرق

كيونكہ بنيامين كو بطور چور كے پہچانا گيا تو موقع كا تقاضا يہ تھا كہ برادران يوسفعليه‌السلام يہاں ہر فعل ماضى (سرق ) كو لاتے ليكن انہوں نے فعل مضارع (يسرق)كو ذكركركے استمرار اور ہميشہ عادت ہونے كو ثابت كيا _پس فعل ماضى كى جگہ فعل مضارع كے استعمال سے يہ بتانا چاہتے تھے كہ بنيامين كے اندر چورى كى عادت ہے _

۳_ برادران يوسفعليه‌السلام نے حضرتعليه‌السلام كے حضور ميں بنيامين كے بھائي ( يوسفعليه‌السلام ) كے بارے ميں بات كى اور ان كے ليے بھى ماضى ميں چورى كو مسلم امر ثابت كيا_إن يسرق فقد سرق أخ له من قبل

۴_ حضرت يوسفعليه‌السلام پر بچپن ميں ناحق چورى كا الزام لگاياگيا تھا_

فقد سرق أخ من قبل قال الله اعلم بما تصفون

۵_ برادران يوسفعليه‌السلام كو يقين تھا كہ حضرت يوسفعليه‌السلام اس دنيا ميں نہيں ہيں _فقد سرق أخ له من قبل

(من قبل) كا جملہ (سرق) كے متعلق ہے _ اس صورت ميں (فقد سرق ...) كے جملے كا يہ معنى ہوگا كہ اسكا ايك بھائي تھا اس نے اس سے پہلے چورى كى تھي_

اور يہ بھى ممكن ہے ( من قبل) متعلق (أخ لہ ) كے ہو تو اس صورت ميں يوں معنى ہوگا وہ اس سے پہلے ايك بھائي ركھتا

۵۹۵

تھا جس نے چورى كى تھى اسى وجہ سے ( منقبل) كى تقيد سے يہ ظاہر ہوتاہے_ كہ برادران يوسف يہ خيال كرتے تھے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام اس دنيا سے چلے گئے ہيں _

۶_ بنيامين اور حضرت يوسفعليه‌السلام يہ دونوں ايك ماں سے تھے _إن يسرق فقد سرق أخ له من قبل

۷_فرزندان يعقوبعليه‌السلام بنيامين كا چورى كى طرف رجحان كو ماں كى طرف سے خيال كرتے ہوئے ان كے بيٹوں ميں اس برائي كا سبب سمجھا_إن يسرق فقد سرق أخ له من قبل

(إن يسرق ) شرط كا جواب، ايك جملہ ہے جو محذوف ہے پس (فقد يسرق) كا جملہ سبب كى جگہ پر مسبب كا ذكر كيا گيا ہے _

اس وجہ سے جملہ (إن يسرق ...) كا معنى يوں ہوگا_ اگر اس نے چورى بھى كى ہے تو يہ اس سے بعيد نہيں ہے _ كيونكہ اس كے مادرى بھائي نے بھى چورى كى تھى پس ان ميں چورى كى عادت ماں كى وجہ سے ہے _

۸_فرزندان يعقوبعليه‌السلام اس تجزيے كے تحت كہ بنيامين ميں ماں كے اثر كى وجہ سے چورى كى عادت آئي ہے _ اس سے وہ يہ ثابت كرنا چاہتے تھے كہ جو چورى كى وجہ سے شرمندگى كا سبب بنے ہيں يہ سب اس كى وجہ سے ہے _

إن يسرق فقد سرق اخ له من قبل

برادران يوسفعليه‌السلام نے بنيامين كو چورى ( إن يسرق) كى عادت ہونے كو ثابت كرتے ہوئے يہ بات بتاتاچاہتے تھے كہ دونوں مادرى بھائيوں كويہ برى عادت پيدائش كے وقت ماں كى طرف سے ان كو ملى ہے _ كيونكہ دوسرے بھائي ان كى ماں سے نہيں ہيں اس وجہ سے اس برى صفت كو نہيں ركھتے _

۹_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں كى ناحق بات (چورى كى جھوٹى نسبت ) پر اپنا دفاع نہيں كيا _

فاسرّها يوسف فى نفسه و لم يبدها لهم (أسرّہا ) اور ( لم يبدھا ) ميں جو ''ہا'' كى ضمير ہے وہ اس جملے كى طرف لوٹتى ہے جسميں برادران يوسفعليه‌السلام نے حقيقت و واقعيت كو اپنے خيال ميں يوں بيانكيا ( فقد سرق أخ) اس و جہ سے جملہ ( فاسرّہا ...) كا معنى يوں ہوگا كہ حضرت يوسفعليه‌السلام نے واقعہ كى حقيقت اور واقعيت اپنے دل ميں چھپا ديا اسكو ظاہر كرنے سے پرہيز كيا _

۵۹۶

۱۰_ حضرت يوسفعليه‌السلام اپنے نفس پر كنٹرول كرنے والے اور حليم و بردبار تھے_فاسرّها يوسف فى نفسه و لم يبدها لهم

۱۱ _ برادران يوسفعليه‌السلام سوائے بنيامين كے بدمزاجى ركھنے والے اور اچھى سيرت كے حامل نہيں تھے_قال أنتم شرّ مكان// (مكان) آيت شريفہ ميں مقام و مرتبہ كے معنى ميں ہے _ يہ تميزہے جو مبتداء ميں تبديل ہوگئي ہے اصل ميں جملہ اس طرح ہے _ ''مكانكم شرّ''

۱۲_ حضرت يوسفعليه‌السلام كا يہ وضاحت كرنا كہ ميرے بھائي سيرت اور مقام و منزلت كے اعتبار سے پست ہيں _

قال أنتم شر مكان

۱۳ _ خداوند متعال ہر بات پر خواہ وہ صحيح ہو يا نہ ہو كامل طور پر آگاہ ہے_والله اعلم بما تصفون

۱۴_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے فرزندان يعقوبعليه‌السلام كو يہ بات گوش گذار كردى كہ ان كى يہ بات (تمہارى پدرى بھائي بنيامين نے چورى كى ہے ) مجھے اس پر يقين نہيں ہے _إن يسرق فقد سرق أخ له من قبل والله اعلم بما تصفون

(واللہ اعلم ...) كا جملہ (انتم ...) پر عطف ہے دونوں جملے (قال) كے ليے مقول واقع ہوئے ہيں _ اور يہ كہ (قال ) كا لفظ (استر) اور (لم يبد) كے مقابلے ميں واقع ہوا ہے تويہاں ہم يہ كہہ سكتے ہيں كہ (قول) سے مراد ظاہركرنا اور كلام كو واضح و روش كرنا ہے نہ يہ كہ زير لب اور اپنے دل ميں يہ بات كہى ہو_

۱۵_'' عن الرضا(ع) '' فى قول الله : '' إن يسرق فقد سرق أخ له من قبل ...'' قال: كانت لاسحاق النبى عليه‌السلام منطقة و كانت عند عمه يوسف و كان يوسف عندها فربطتها فى حقوه و قالت سرقت المنطقة فوجدت عليه (۱) حضرت امام رضاعليه‌السلام نے خداوند متعال كے اس قول (إن يسرق فقد سرق اخ لہ من قبل ...) كے بارے ميں فرمايا كہ حضرت اسحاقعليه‌السلام ايك كمربند ركھتے تھے_ جو حضرت يوسفعليه‌السلام كى پھوپھى كے پاس تھا اور حضرت يوسفعليه‌السلام بھى اپنے پھوپھى كے ہاں زندگى كرتے تھے پس ان كى پھوپھى نے اس كمر بند كو ان كى كمر ميں باندھ ديا _ اور كہا كہ كمربند چورى ہوگيا ہے پھر وہ كمربند حضرت يوسفعليه‌السلام كى كمر سے مل گيا _

۱۶_'' عن النبى فى قوله : '' ان يسرق فقد سرق آخ له من قبل'' قال : سرق يوسف عليه‌السلام ضمناً لجدّه أبى امه من ذهب و فضة،

____________________

۱)تفسير عياشى ج۲ ص ۱۸۵ ح ۵۳ ; نورالثقلين ۴۴۵ح ۱۳۷_

۵۹۷

فكسره و ألقاه فى الطريقه وقيره بذلك إخوته (۱)

اس آيت (إن يسرق فقد سرق آخ لہ من قبل) كے بارے ميں رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حديث ہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے نانا كے گھر سے ايك بت كو أٹھايا تھا جو سونے اور چاندى كا بنا ہوا تھأ اسكو توڑ كر راستے ميں ڈال ديا تھا، برادران يوسف اس بات پر ان كو برا بھلاكہتے تھے_

اللہ تعالي:اللہ تعالى كا غلم غيب ۱۳

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسف اور يوسفعليه‌السلام ۲ ، ۳ ، ۵; برادران يوسفعليه‌السلام كى سوچ ۵ ،۷ ; برادران يوسفعليه‌السلام كا اپنے آپ كى صفائي پيش كرنا ۸ ;برادران يوسفعليه‌السلام كا اقرار ۱; برادران يوسف كى تہمتيں ۲ ، ۳ ،۷،۸; برادران يوسفعليه‌السلام كى برى سيرت ۱۱ ، ۱۲; برادران يوسف كى رذالت ۱۱ ، ۱۲

بنيامين:بنيامين اور حضرت يوسفعليه‌السلام ۶ ;بنيامين پر چورى كى تہمت ۱ ، ۲ ، ۷۶،۸ ; بنيامين كى ماں پر تہمت ۷ ; بنيامين كى ماں پر تہمت لگانے كا فلسفہ ۸

بادشاہ مصر :بادشاہ مصر كے پانى پينے كا پيالہ ۱

روايت : ۱۵،۱۶

حضرت يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام اور بت ۱۶ ; حضرت يوسفعليه‌السلام اور برادران ۱۴، ۱۶ ; حضرت يوسف(ع) اور چورى ۱۵ ،۱۶; حضرت يوسفعليه‌السلام اور حضرت اسحاقعليه‌السلام كا كمربند۱۵; حضرت يوسفعليه‌السلام اور بھائيوں كى تہمتيں ۹ ، ۱۴; حضرت يوسفعليه‌السلام پر چورى كى تہمت ۳ ، ۴ ، ۹،۱۴; حضرت يوسفعليه‌السلام كا اقرار ۱۲ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا بچپن ۴ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا صبر ۹،۱۰ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا علم ۹ ،۱۰ ;حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۳ ، ۴ ، ۵ ، ۷،۸،۹،۱۴،۱۶;حضرت يوسفعليه‌السلام كو سرزنش كرنا ۱۶ ; حضرت يوسف كى موت ۵; حضرت يوسفعليه‌السلام كے پدرى بھائي ۶ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۱۰

____________________

۱)الدرالمنثور ج۲ ص ۵۶۴_

۵۹۸

آیت ۷۸

( قَالُواْ يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ إِنَّ لَهُ أَباً شَيْخاً كَبِيراً فَخُذْ أَحَدَنَا مَكَانَهُ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ )

ان لوگوں نے كہا كہ اے عزيز مصر اس كے والد بہت ضعيف العمر ہيں لہذا ہم ميں سے كسى ايك كو اس كى جگہ پر لے ليجئے اور اسے چھوڑ ديجئے كہ ہم آپ كو احسان كرنے والا سمجھتے ہيں (۷۸)

۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بنيامين كو گرفتار كرليا اور اسكو اپنے بھائيوں كے ساتھ نہيں جانے ديا _

فهو جزاء ه قالوا يأيها العزيز إن له اباً شيخاً كبير

۲_ فرزندان يعقوب شفقت اور محبت كا اظہار كركے حضرت يوسفعليه‌السلام كى رضايت كو حاصل كرنے لگے تھے كہ بنيامين كو آزاد كراليں _قالوا يا ايها العزيز إن له اباً شيخاً كبير

۳_ فرزندان يعقوبعليه‌السلام نے بنيامين كو آزاد كرانے كے ليے دليليں بيان كيں تم (حضرت يوسفعليه‌السلام ) صاحب اقتدار ہو جو چاہو كرسكتے ہواور تم نيك كام كرنے والے ہو _ اور حضرت يعقوبعليه‌السلام اس لائق ہيں كہ ان پر رحم كيا جائے_

قالوا يا ايها العزيز إن له اباً شيخاً كبيراً انا نرى ك من المحسنين

برادران يوسفعليه‌السلام كا حضرت يوسفعليه‌السلام كو (عزيز) سے خطاب كرنے كا مقصد يہ تھا كہ تم صاحب اقتدار ہو اپنى مرضى كے مطابق جو چاہو كرسكتے ہو اور حضرت يعقوبعليه‌السلام كو بوڑھے بزرگ انسان اور ضعيف العمرسے تعبير كرنے كا مقصد يہ تھا كہ وہ اس لائق ہيں كہ ان پر رحم و مہربانى كى جائے اور حضرت يوسفعليه‌السلام كى اس طرح تعريف كرنا كہ وہ نيك كام كرنے والے ہيں ان كو احسان اور مہربانى كرنے پر رغبت دلانا تھا_

۴_ حضرت يعقوبعليه‌السلام ،حضرت يوسفعليه‌السلام كى وزارت اور

۵۹۹

بنيامين پر چورى كے قصے كے وقت بوڑھے اور بہت ضعيف ہو چكے تھے_إن له اباً شيخاً كبير

( شيخ ) بوڑھے انسان كے معنى ميں ہے اور (كبير) بزرگ كے معنى ميں ہے اس سے مراد سن و سال ميں بزرگى كا ظاہر ہونا ہے _

۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام اس علاقے كى قطحى كے سالوں ميں عزيز مصر تھے_قالوا يا ايها العزيز

۶_ برادران يوسفعليه‌السلام كى ايك رائے تھى كہ بنيامين كى آزادى كے مقابلے ہم ميں سے كسى كو گرفتار كرليں _

فخذ أخذنا مكانه

۷_ برادران بنيامين كا بنيامين كو اپنے والد گرامى حضرت يعقوبعليه‌السلام كے پاس واپس لوٹا نے ميں فداكارى اور ايثار كرنا _

فخذ اخذنا مكانه

۹_ حضرت يوسفعليه‌السلام اپنى وزارت اور اقتدار كے زمانے ميں نيك كام كرنے والے انسان تھے_

انا نرى ك من المحسنين

۱۰_ حضرت يوسفعليه‌السلام كا اپنے اقتدار كے دوران نيك كام كرنا ان كے كردار اور عادات سے جلوہ گرى تھي_

إنا نرى ك من المحسنين

(نرى ) كا لفظ آيت شريفہ ميں ( ہم اطمينان ركھتے ہيں ) كے معنى ميں ہے اس لفظ سے ديكھ رہے ہيں (ہم ) كا معنى لينا اسوجہ سے ہے كہ برادران يوسف حضرتعليه‌السلام كى شخصيت پر اطمينان ركھتے تھے جو ان كے ليے ان كى رفتار و كردار كو مشاہدہ كرنے سے حاصل ہوا تھا_

۱۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام كو نيك كام كرنے والا ديكھ كر فرزندان يعقوبعليه‌السلام نے بنيامين كى آزادى كاتقاضا كيا اور كہا ان ميں سے كسى ايك كو اس كى جگہ گرفتار كر ليا جائے_فخد احدنا مكانه انا نرى ك من المحسنين

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسف اور بنيامين ۸ ; برادران يوسف اور بنيامين كى نجات ۲ ، ۳ ،۶،۷ ، ۱۱; برادران يوسف اور حضرت يوسف ۴ ، ۲ ; برادران يوسفعليه‌السلام كا ايثار كرنا ۶ ، ۷ ;برادران يوسف كا مشورہ ۶ ; برادران يوسفعليه‌السلام كى خواہشات ۱۱ ;برادران يوسف(ع) كى كوشش ۲ ;برادران يوسف كے پيش آنے كا طريقہ ۳

بنيامين :بنيامين كى گرفتارى ۱

عزيز مصر :قحطى كے دوران عزيز مصر ۵

۶۰۰

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945

946

947

948

949

950

951

952

953

954

955

956

957

958

959

960

961

962

963

964

965

966

967

968

969

970

971