تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 4%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 205887 / ڈاؤنلوڈ: 4272
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۸

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

قديمى مصر :قديمى مصر كى تاريخ ۵

حضرت يعقوبعليه‌السلام :حضرت يعقوبعليه‌السلام ، حضرت يوسف(ع) كى حكومت كے دوران ۴;حضرت يعقوبعليه‌السلام كا بڑ ھا پا۴ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى بنيامين سے محبت ۸

حضرت يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام اور بنيامين ۱ ;حضرت يوسفعليه‌السلام پر احسان كے آثار ۱۱; حضرت يوسفعليه‌السلام كا احسان ۳; حضرت يوسفعليه‌السلام كا اقتدر ۳ ،۹ ، ۱۰; حضرت يوسف كاقصہ ۱ ، ۲ ، ۳ ، ۵، ۶ ،۷، ۸ ، ۹،۱۱ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا محسنين ميں سے ہونا ۹; حضرت يوسفعليه‌السلام كى شفقت كو ابھارنا ۲ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كى عزيزى ۵; حضرت يوسفعليه‌السلام كى قديمى مصر ميں قحطى كے دوران موجود گي۵;حضرت يوسف(ع) كى وزارت ۹; حضرت يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۹ ;حضرت يوسفعليه‌السلام ميں احسان كرنے كى نشانياں ۱۰

آیت ۷۹

( قَالَ مَعَاذَ اللّهِ أَن نَّأْخُذَ إِلاَّ مَن وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِندَهُ إِنَّـا إِذاً لَّظَالِمُونَ )

يوسف نے كہا كہ خدا كى پناہ كہ ہم جس كے پاس اپنا سامان پائيں اس كے علاوہ كسى دوسرے كو گرفت ميں لے ليں اور اس طرح ظالم ہوجائيں (۷۹)

۱ _ حضرت يوسفعليه‌السلام نے فرزندان يعقوبعليه‌السلام كى تجويز ( كہ بنيامين كى بجائے ا ن ميں سے كسى ايك كوگرفتار كرليں )كو قبول نہيں كيا _فخذ ا حدنا مكانه قال معاذ اللّه ا ن نا خذ الا ّ من وجدن

(معاذ) مصدر ميمى اور فعل محذوف كے ليے مفعول مطلق ہے (نعوذ باللّہ معاذاً) اور عبارت (أن نا خذ) ميں ( من ) مقدر اور''مضار اليہ'' كے متعلق ہے _ اس صورت ميں جملہ ( معاذ اللہ ان ناخذ ...) كا معنى يہ ہوگا _ كہ خدا كى پناہ چاہتے ہيں اس بات سے كہ اسكو اپنى گرفت ميں لے ليں (گرفتار كرليں ) مگروہ كہ جس كے ہاں اپنے مال كو پائيں گے _

۲ _ بے گناہ شخص كا مجرموں كى جگہ پر اپنے آپ كو پيش كرنا سبب نہيں بن سكتا كہ اسكو سزا دينا جائز ہے _

فخذ أحدنا مكانه معاذ اللّه ا ن ناخذ الا من وجدنا متاعنا عنده

۳ _ حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں مصر كے عدالتى قوانين ميں يہ جائزنہيں سمجھا جاتا تھا كہ بے گناہوں كو مجرموں كى جگہ خواہ وہ خودہى اپنے كو پيش كريں سزا دى جائے_معاذ اللّه ا ن ناخذ الا من وجدنا متاعنا عنده

۶۰۱

مذكورہ معنى ضمير متكلم مع الغير كى جگہ ضمير متكلم وحدہ كے استعمال سے حاصل كيا گيا ہے _ يعنى حضرت يوسفعليه‌السلام كا يہ جملہ كہ ( ہم گرفتار نہيں كرتے ) كى جگہ پر ( ميں گرفتار نہيں كرتاہوں ) اس معنى كى طرف اشارہ كرتاہے كہ مصر كے قوانين ميں اس چيز كى مجھے اجازت نہيں ہے كہ بے گناہ شخص كو گنہگار شخص كى جگہ پر گرفتار كروں اگر چہ وہ خود اپنے آپ كو پيش ہى كيوں نہ كردے_

۴ _ حكام كا گناہ كاروں كى جگہ پر بے گناہوں كو سزا دينے سے پرہيز كرنا ضرورى ہے _

قال معاذ اللّه ا ن نا خذ الاّ من وجدنا متاعنا عنده

۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام كا بنيامينكى طرف چورى كى نسبت دينے سے اجتناب كرنا _أن نأخذ إلاّ من وجدنا متاعنا عنده

(الا من وجدنا متاعنا عنده ) كے جملہ كو (مگر وہ شخص جس كے پاس ہم نے اپنا مال پايا) (من سرق متاعنا ) (مگر وہ شخص جس نے ہمارا مال چورى كيا ہو) كے جملے كى جگہ پر لانا گويا اس بات پر دلالت ہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام بنيامين كى طرف چورى كى نسبت دينے سے اجتناب كررہے ہيں _

۶_ جب تو ريہ كرنا ممكن ہو تو مصلحتى جھوٹ بولنے سے بھى پرہيز كرنا ضرورى ہے _

معاذ اللّه ا ن نا خذ الا من وجدنا متاعنا عنده

حضرت يوسفعليه‌السلام يہ جانتے تھے كہ بنيامين كى طرف چورى كى نسبت دينے ميں مصلحت ہے ليكن اس كے باوجود بھى جھوٹ بولنے سے پرہيز كيا اس مصلحت كو توريہ كے ذريعے پورا كرديا _

۷_حقيقت و واقعيت كو اس طرح بيان كرنا كہ مخاطب اس كے برخلاف سمجھے اسكو توريہ كہتے ہيں اور يہ كام جائز او ر مشروع ہے _أن ناخذ إلاّ من وجدنا متاعنا عنده

بنيامين كے سامان ميں شاہى پيالے كا پايا جانا واقعيت ركھتا تھا اور صحيح بات تھى ليكن حضرت يوسفعليه‌السلام نے اسكو ايسى شرائط سے بيان كيا كہ فرزندان يعقوبعليه‌السلام نے اسكو چورى خيال كيا_ اسى كو توريہ كہا جاتاہے_

۸_حضرت يوسف(ع) كا ظلم و ستم روا ركھنے پر خداوند متعال كى پناہ طلب كرنا_قال معاذ اللّه ...إنا إذا الظالمون

۹_ خداوند متعال كى پنا ميں جانا، ظلم و ستم سے دور رہنے كے ليے ضرورى ہے_قال معاذ اللّه انا إذا الظالمون

۶۰۲

۱۰_حضرت يوسفعليه‌السلام اور انكے ملازمين نے مصر ميں حكومت اور اقتدرا كے دوران ہر قسم كے ظلم و ستم سے اجتناب كيا _قال معاذ اللّه ا ن إنا إذا الظالمون

ضمير متكلم مع الغير (نا) اور (نحن) جن كو حقائق ميں انہوں نے پيش كيا ( ان ناخذ إنا إذا الظالمون) سے حضرت يوسف كا مقصود خود وہ اور انكے كے ملازمين تھے _

۱۱_ حكام كا ظلم و ستم سے پرہيز كرنا ضرورى ہے_قال معاذ اللّه إنا إذا الظالمون

۱۲_ مجرمين كى جگہ بے گناہوں كو سزا دينا، ظلم اور گناہ ہے_قال معاذ اللّه ...إنا إذا الظالمون

احكام :۷سزا كے احكام ۲

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسف اور بنيامين كى نجات ۱

بے گناہ لوگ:بے گناہ لوگوں كو سزا دينا ۲ ، ۳ ;بے گناہ لوگوں كو سزا دينے سے اجتناب كرنا ۴ ; بے گناہ لوگوں كو سزا دينے كا گناہ ۱۲;بے گناہ لوگوں كى سزا كا ظلم ہونا ۱۲

پناہ طلب كرنا :اللہ تعالى سے پناہ طلب كرنے كى اہميت ۹;ظلم سے پناہ طلب كرنا ۸ ، ۹ ; گناہ سے پناہ طلب كرنا ۹

توريہ :توريہ كا جواز ۷ ; توريہ كے احكام ۷ ; توريہ كے موارد ۶

جھوٹ :جھوٹ سے اجتناب كى اہميت ۶ ; جھوٹ مصلحتى ۶

حكّام :حكّام اور ظلم ۱۱ ; حكام كى ذمہ دارى ۴ ، ۱۱

سزا :سزاء كا شخص (مجرم ) كے ساتھ مخصوص ہونا ۲ ، ۳ ، ۴ ، ۱۲; سزا كى خصوصيات ۲ ، ۳،۴،۱۲

عدالتى نظام :۲

قديم مصر :قديم مصر ميں اقتدار حكومت ۱۰ ; قديم مصر ميں سزا كے قوانين ۳

حضرت يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام اور بنيامين پر تہمت ۵ ; حضرت يوسفعليه‌السلام اور ظلم ۸ ،۱۰; حضرت يوسفعليه‌السلام اور بھائيوں كا مشورہ ۱ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كاپناہ مانگنا ۸ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۵ ، ۱۰ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كے ملازمين اور ظلم ۱۰

۶۰۳

آیت ۸۰

( فَلَمَّا اسْتَيْأَسُواْ مِنْهُ خَلَصُواْ نَجِيّاً قَالَ كَبِيرُهُمْ أَلَمْ تَعْلَمُواْ أَنَّ أَبَاكُمْ قَدْ أَخَذَ عَلَيْكُم مَّوْثِقاً مِّنَ اللّهِ وَمِن قَبْلُ مَا فَرَّطتُمْ فِي يُوسُفَ فَلَنْ أَبْرَحَ الأَرْضَ حَتَّىَ يَأْذَنَ لِي أَبِي أَوْ يَحْكُمَ اللّهُ لِي وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ )

اب جب وہ لوگ يوسف كى طرف سے مايوس ہوگئے تو الگ جاكر مشورہ كرنے لگے تو سب سے بڑے نے كہا كہ كيا تمھيں نہيں معلوم كہ تمھارے باپ نے تم سے خدائي عہد ليا ہے اور اس سے پہلے بھى تم يوسف كے بارے ميں كوتاہى كرچكے ہوتو اب ميں تو اس سرزمين كو نہ چھوڑوں گا يہانتك كہ والد محترم اجازت دے ديں يا خدا ميرے حق ميں كوئي فيصلہ كردے كہ وہ بہترين فيصلہ كرنے والا ہے (۸۰)

۱ _ فرزندان يعقوبعليه‌السلام ،حضرت يوسفعليه‌السلام كى رضايت حاصل كرنے ميں كامياب نہيں ہوئے اور بنيامين كى آزادى سے مكمل نااميد ہوگئے _فلما استيئسوا منه

(ياس) اور (استيئاس) نااميد ہونے كے معنى ميں ہے اس فرق كے ساتھ كہ (استيئاس) ميں نااميدى ميں مبالغہ اور شدّت ہے (منہ ) كى ضمير سے مراد، بنيامين يا يوسفعليه‌السلام ہيں _ اس وجہ سے (فلما استيئسوا منہ ...) كا معنى يہ ہوگا اسوقت كہ جب فرزندان يعقوبعليه‌السلام ،حضرت يوسفعليه‌السلام كى (رضايت كو جلب كرنے) يا بنيامين كى (آزادي) سے كامل طور پر نااميد ہوگئے_

۲_فرزندان يعقوبعليه‌السلام نے بنيامين كى آزادى سے نااميد ہوكر يوسفعليه‌السلام اور ان كے ملازمين سے كچھ دور جاكر اس مشكل كى چارہ جوئي كےليے چھپ كر آپس ميں مشورہ كيا_

فلما استيئسوا منه خلصوا نجيب

(اخلاص) كے معانى ميں سے عليحدہ ہونا اور كنارہ گيرى كرناہے ( نجّي)ايك يا كئي اشخاص كو كہا جاتاہے جن سے چھپ كر گفتگوكى جائے يہ جملہ (خلّصوا) كے فاعل كے ليے حال ہے پس (خلصوا نجيئاً) كا معنى يہ ہوا كہ برادران يوسف دوسروں سے جدا ہوكر عليحدگى ميں راز كى باتيں كرنے لگے_

۳ _ فرزندان يعقوبعليه‌السلام نے بنيامين كو مصر كے سفر سے واپس لوٹانے كے ليے اپنے والد گرامى حضرت يعقوبعليه‌السلام سے وعدہ اور قسم اٹھائي تھي_أن اباكم قدأخذ عليكم موثقاً من اللّه

۶۰۴

۴ _ بنيامين كے آزاد ہونے ميں نااميد ہوجانے كے بعد اكثرفرزندان يعقوبعليه‌السلام كا نظر يہ تھا كہ وہ سب كنعان واپس چلے جائيں _قال كبيرهم ا لم تعلموا فلن أبرح الارض

(ألم تعلموا ) ميں استفہام توبيخى ہے حضرت يعقوب كے بڑے بيٹے (لاوي) كى اس بات پر كہ ( فلن أبرح الارض) ميں مصر كى سرزمين سے نہيں جاؤں گا ) سے يہ نتيجہنكلتاہے كہ اس كى اپنے بھائيوں كى توبيخ اور سرزنش كا سبب يہ تھا كہ وہ انہيں واپس لوٹنے پر مصمم ديكھ رہا تھا _

۵_حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بڑےبيٹے نے يہ ارادہ كرليا كہ وہ مصر كى سرزمين پر ٹھہر جائے اور كنعان واپس نہ جائے _

فلن أبرح الارض حتى يأذن لى أبي

''براح'' (أبرح) كا مصدر ہے جسكا معنى جدا اور دور ہونے كا ہے (الارض) ميں ''الف ولام '' عہد حضورى كا ہے اور يہ اس شہر و علاقے كى طرف اشارہ ہے جہاں بنيامين گرفتار كيا گياہے _

۶_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بڑے بيٹے كى اس بات پر پشيمانى و ناراضگى كہ وہ اپنے عہد و پيمان پر پورا نہ اترے (بنيامين كو واپس لے آنے ميں )قال كبيرهم قد أخذعليكم موثقاً فلن أبرح الارض

۷_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بڑے بيٹے كے ہاں بنيامين كے بغير قافلہ كو واپس لے جانا، اپنے اور اپنے بھائيوں كے ليے قسم كى مخالفت اور عہد شكنى تھي_قال كبيرهم ألم تعلموا أن أباكم قد أخذعليكم موثقاً من اللّه

لاوى كا (ألم تعلموا أں أباكم قد أخذ عليكم موثقا ) كے جملہ كو (فلن أبرح ...) پر تفريع اور وضاحت كرنے كا مقصد يہ تھا كہ جو عہد و پيمان ہم نے حضرت يعقوبعليه‌السلام سے كياہے اس كى وجہ سے ہمارے ليئے مناسب نہيں ہے كہ بنيامين كے بغير واپس لوٹيں ( اگر تمہارا ارادہ واپس لوٹنے كا ہے تم جانو) ليكن ميں تو واپس نہيں جاؤں گا_

۸_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كا بڑا بيٹا، دوسرے بھائيوں كى نسبت اپنے عہد و پيمان پر زيادہ كاربند تھا_

۶۰۵

قال كبيرهم ألم تعلموا أن ا باكم قد ا خذ عليكم موثقاً من اللّه فلن أبرح الأرض

۹_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بڑے بيٹے نے بھائيوں كے حضرت يوسفعليه‌السلام پر ظلم و ستم كو ياد كركے باپ كے پاس بغيربنيامين كے جانے كو نامناسب سمجھا_ألم تعلموا من قبل ما فرطتم فى يوسف

(ما) (مافرّطتم ) ميں مصدريہ ہے اور (من قبل ما فرطتم ) كى عبارت كا عطف ( أن أباكم ...) پر ہے _ يعنى (ألم تعلموا تفريطكم فى يوسف من قبل ) تفريط كا معنى كسى شى كے نابود ہونے تك كوتاہى كرنا يا چھوڑ دينا ہے (لسان العرب)

۱۰_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بڑے بيٹے نے اپنے بھائيوں كے حضرت يوسفعليه‌السلام كے ساتھ برتاؤكى مذمت كى _

قال كبيرہم و من قبل ما فرطتم فى يوسف

۱۱_حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بڑے بيٹے نے بنيامين كے بغير مصر واپس لوٹنے كے ليے يہ شرط لگائي كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى طرف سے اجازت كا پيغام آئے يا خداوند متعال كى طرف سے كوئي حكم آئے_

فلن أبرح الا رض حتى يأذن لى أبى او يحكم اللّه لي

لاوى كى يہ بات كہنا كہ (حتى يأذن لى أبي ) اس معنى كو بتاتاہے كہ ان كے باپ حضرت يعقوبعليه‌السلام اس بات پر اطمينان كريں كہ ہم نے بنيامين كى حفاظت ميں كوتاہى نہيں كى بلكہ جو كچھ كہہ كر آئے تھے (الاّ ان يحاط بكم ) اس پر عمل پيرا ہوئے ہيں _ يا اگر ان كو ہمارى اس بات پر اطمينان نہ آئے اور اپنے وعدہ سے چشم پوشى كرلے تو اس صورت ميں ہميں اجازت ديں كہ ہم واپس لوٹ آئيں _ اور ممكن ہے كہ (يحكم اللّہ ) كا معنى يہ ہو كہ خدا كوئي سبب پيدا كرے كہ ميں بنيامين كو عزيز مصر كے ہاتھوں سے آزاد كركے واپس لوٹا سكوں _

۱۲_ خداوند متعال، بہترين فيصلہ اور حكم كرنے والا ہے_وهو خير ا لحاكمين

۱۳_ لاوي، خداوند متعال كے بہترين قضاوت و حكم كرنے پر اعتقاد ركھتا تھا_قال او يحكم اللّه لى و هو خير الحاكمين

۱۴ _ ''عن أبى الحسن الهادى عليه‌السلام : قال (لاوى ) : لن أبرح الا رض حتى يا ذن لى أبى (۱) امام ہادىعليه‌السلام سے روايت ہے: كہ (لاوي) نے كہا :ميں اس سرزمين سے دور نہيں جاؤں گا جب تك مجھے ميرا باپ اجازت نہ دے _

____________________

۱)تفسير قمى ج۱ ص ۳۵۶; نورالثقلين ج۲ ص ۴۶۸ح ۲۰۹_

۶۰۶

اسماو صفات:خير الحاكمين ۱۲

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى خصوصيات ۱۲ ; اللہ تعالى كى قضاوت ۱۲

برادران يوسف :برادران يوسفعليه‌السلام اور بنيامين ۳ ; برادران يوسفعليه‌السلام اور بنيامين كى نجات ۱ ، ۲ ;برادران يوسف اور يعقوبعليه‌السلام ۳ ;برادران يوسفعليه‌السلام اور يوسفعليه‌السلام كى رضايت ۱۰ ; برادران يوسفعليه‌السلام كا عہد ۳;برادران يوسفعليه‌السلام كا قسم ياد كرنا ۳ ;برادران يوسفعليه‌السلام كا كنعان كى طرف لوٹنا ۴;برادران يوسفعليه‌السلام كى سرزنش ۱۰ ;برادران يوسف(ع) كى سرگوشياں ۲;برادران يوسف كى مشورت۲ ; برادران يوسف(ع) كى نااميد ۲ ، ۴ ; برادران يوسفعليه‌السلام كے ملنے كا طريقہ ۱۰

روايت : ۱۴

عقيدہ :اللہ تعالى كى قضاوت پر عقيدہ ۱۳

قاضى :بہترين قاضى ۱۲

لاوى :لاوى اور اللہ تعالى كى تقديرات ۱۱ ; لاوى اور برادران يوسفعليه‌السلام كا ظلم ۹ ; لاوى اور بنيامين كى نجات ۶ ;لاوى اور حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اجازت ۱۱ ، ۱۴ ;لاوى اور كنعان كى طرف لوٹنا ۹ ، ۱۱ ;لاوى كا ارادہ كرنا ۵ ; لاوى كا بنيامين كو واپس لوٹانے كى كوشش كرنا ۷ ; لاوى كا سرزمين مصر ميں ہونا ۵ ; لاوى كا عقيدہ ۱۳ ;لاوى كا غمگين ہونا ۶ ;لاوى كا قسم كو پورا كرنے كى كوشش كرنا ۷; لاوى كاو عدہ كرنا پورا كرنے كى كوشش كرنا۷ ،۸; لاوى كى سرزنش كرنا ۱۰ ;لاوى كى فكر ۷،۹،۱۱

حضرت يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۳ ، ۴ ،۵ ، ۶ ، ۷ ، ۹ ،۱۰ ، ۱۱

۶۰۷

آیت ۸۱

( ارْجِعُواْ إِلَى أَبِيكُمْ فَقُولُواْ يَا أَبَانَا إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ وَمَا شَهِدْنَا إِلاَّ بِمَا عَلِمْنَا وَمَا كُنَّا لِلْغَيْبِ حَافِظِينَ )

ہاں تم لوگ باپ كى خدمت ميں جائو اور عرض كرو كہ آپ كے فرزند نے چورى كى ہے اور ہم اسى بات كى گواہى دے رہے ہيں جس كا ہميں علم ہيں اور ہم غيب كى حفاظت كرنے والے نہيں ہيں (۸۱)

۱_ لاوى نے اپنے بھائيوں كے كنعان واپس جانے پر رضايت كا اظہار كرتے ہوئے انہيں بنيامين كى چورى كى رپورٹ بيان كرنے كا طريقہ تعليم ديا_قال كبيرهم ارجعوا الى إبيكم فقولوا ى ابانا إن ابنك سرق

۲_ لاوى نے اپنے بھائيوں كو تاكيد كى كہ وہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے سامنے بنيامين كے چورى كرنے كى گواہى پر تاكيد كريں _إن ابنك سرق

۳_ لاوى نے اپنے بھائيوں سے كہا كہ اپنے بابا كو يہ يقين دلوائيں كہ بنيامين نے چورى كى ہے اسكى رپوٹ اور گواہى ہم يقين كے ساتھ دے رہے ہيں _إن ابنك سرق و ما شهد نا إلاّ بما علمن

( ما شہدنا) ميں شہادت سے مرادكيا ہے اس ميں كئي احتمال ديئے گئے ہيں : ان ميں سے ايك يہ ہے كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے سامنے برادران يوسف كى يہ گواہى كہ آپكے بيٹے بنيامين نے چورى كى ہے (إن ابنك سرق) كى اساس جملہ ( ما شہدنا ...) ہے جس كا معنى يہ ہوگا كہ ابھى جو ہم آپ كے سامنے كہہ رہے ہيں كہ ( ان ابنك سرق) يہ ايسى گواہى ہے كہ علم و يقين كے ساتھ ہم مطمئن ہوكر دے رہے ہيں _

۴_ لاوى نے اپنے بھائيوں سے درخواست كى كہ اكٹھے ہوكر باپ كى خدمت ميں حاضر ہوں اور بنيامين كے چورى كرنے پر گواہى ديں

_ارجعوا إلى ابيكم فقولوا ما ش هدنا الابم علمن

لاوى كا جمع كے صيغوں كو لانا ( قولوا) و (ما شہدنا) و (علمنا) مذكورہ معنى كو بتاتاہے_

۵_ لاوى نے اپنے بھائيوں سے يہ چاہا كہ بنيامين كا چورى كرنا اور سفر كى رپورٹ كو محبت آميز لہجہ ميں باپ كے سامنے بيان كريں _يأ بان

لاوى كا يہ وضاحت كرنا كہ باپ سے گفتگو شروع كرتے وقت جملہ ( يأبانا ) سے مخاطب ہونا اس بات كو بتاتاہے كہ ايسے لہجے ميں بات كرےں كہجس سے انكى شفقت كو جلب كرسكو_

۶۰۸

۶_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كو بنيامين كے چورى كرنے كى رپورٹ ديتے وقت بھائيوں كا اپنے دل ميں موجود كينہ كا اظہار كرنا _

إن ابنك سرق

جملہ (إن ابنك سرق) (يقيناً آپ كے بيٹے نے چورى كى ہے )كو جس انداز ميں ذكر كيا گيا ہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ بنيامين كے بھائي اپنے بغض و كينہ كا اظہار كررہے تھے_

۷_لاوى نے اپنے بھائيوں سے يہ درخواست كى كہ اپنے والد گرامى كو يہ بتائيں كہ بنيامين نے ہمارى آنكھوں سے پنہاں ہو كر چورى كى ہے _و ما كناّ للغيب حافظين

( و ما كنا ...) كے جملے ميں كئي احتمال ديئے گئے ہيں اس پر توجہ كرتے ہوئے كہ برادران يوسفعليه‌السلام بنيامين كے چور ہونے پر اطمينان ركھتے تھے (إن ابنك سرق) يہ اس بات كو بتاتاہے كہ جو كام ہمارى نظروں سے غيب ہوكر انجام ديا جائے اس كى ذمہ دارى ہم نہيں لے سكتے يعنى بنيامين نے چھپ كر چورى كى ہے اسى وجہ سے اسكو ہم نہيں روك سكتے تھے_

۸_بنيامين كا چھپ كر چورى كرنا اور ان كے بھائيوں كے ليے يہ عذر و بہانہبنانا كہ وہ اسكو روك نہيں سكتے تھے جس كى وجہ سے وہ اس كو حضرت يعقوبعليه‌السلام كے پاس واپس نہيں لا سكے_ارجعوا إلى إبيكم فقولوا و ما كنا للغيب حافظين

( و ما كنّا ...) كا جملہ اصل ميں ايك سوال كا جواب ہے كہ لاوي، حضرت يعقوبعليه‌السلام سے جسكا منتظر تھا_ يہ صحيح ہے كہ بنيامين نے چورى كى ہے ليكن تم نے اسے كيوں نہيں روكا تا كہ كام يہاں تك نہ پہنچ جاتا_

۹_ اگر فرزندان يعقوبعليه‌السلام يہ جانتے كہ شاہى پيالہ بنيامين كے سامان ميں ہے تو اپنے دين كے مطابق چور كى سزا كوبيان نہ كرتے_ما شهدنا الا بما علمنا و ما كنا للغيب حافظين

مذكورہ بالا معنى اس صورت ميں ہے كہ(ما شهدنا ) ميں شہادت و گواہى سے مراد ،آيت شريفہ (۷۵) (جزاؤه من وجد فى رحله ) چورى كرنے والے كا جو حكم بيان ہوا وہ ہو اس بناء پر (ما شهدنا الا بما علمنا و ما كن

۶۰۹

للغيب حافظين) كا معنى يوں ہو گا وہ جو كچھ ہم جانتے تھے ( كہ چور كى سزا اسكا غلامى ميں آنا ہے) ( اسكى گواہى دى ہے ليكن ہم يہ نہيں جانتے تھے كہ شاہى پيالہ بنيامين كے پاس ہے تا كہ اس حكم كو بيان نہ كرتے تو اس صورت ميں (حافظين) سے مراد (عالمين ) ہوگا_

۱۰_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے سامنے چور كى سزا بيان كرنے كے ليے (بنيامين) كے بھائيوں نے يہ عذر پيش كيا كہ وہ پنہانى امورسے بے خبر ہيں _ما شهدنا الا بما علمنا و ما كنا للغيب حافظين

برادران يوسف(ع) :برادران يوسف اور بنيامين كى چورى ۳ ، ۴ ، ۵ ،۹; برادران يوسف اور يعقوبعليه‌السلام ۸ ، ۱۰ ;برادران يوسفعليه‌السلام كا اطمينان ۳ ;برادران يوسفعليه‌السلام كا بہانہ تلاش كرنا ۸ ، ۱۰ ;برادران يوسفعليه‌السلام كى حضرت يعقوبعليه‌السلام كو رپورٹ دينا ۱ ، ۴ ،۵ ، ۶ ، ۷ ،۸ ; برادران يوسفعليه‌السلام كا كنعان كى طرف لوٹنا ۱ ; برادران يوسف كى تہمتيں ۸ ; برادران يوسف كى گواہى دينا ۲ ، ۳ ، ۴ ; برادران يوسف كے علم كا محدود ہونا ۱۰;برادران يوسفعليه‌السلام كے كينہ كا اظہار ۶

بنيامين :بنيامين پر چورى كى تہمت ۸ ;بنيامين پر چورى كى تہمت كے آثار ۶;بنيامين پر چورى كى گواہى ۲ ، ۳ ، ۴; بنيامين كى چورى كے گواہ ۶; بنيامين كے دشمن ۶

لاوى :لاوى اور برادران يوسف ۲ ، ۳ ،۵ ، ۷ ; لاوى اور بنيامين پر چورى كى تہمت ۷ ; لاوى اور بنيامين كا چورى كرنا ۱;لاوى كا تعليم دينا ۱ ، ۲ ; لاوى كى خواہشات و اميديں ۳ ، ۴ ، ۵ ، ۷ ; لاوى كى نصيحتيں ۲

جناب يوسفعليه‌السلام :جناب يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۳ ، ۴ ، ۵ ،۶، ۷ ، ۹ ،۱۰

آیت ۸۲

( وَاسْأَلِ الْقَرْيَةَ الَّتِي كُنَّا فِيهَا وَالْعِيْرَ الَّتِي أَقْبَلْنَا فِيهَا وَإِنَّا لَصَادِقُونَ )

آپ اس سستى سے دريافت كرليں جس ميں ہم تھے اور اس قافلے سے پوچھ ليں جس ميں ہم آئے ہيں اور ہم بالكل سچے ہيں (۸۲)

۱_ جہاں حضرت يوسفعليه‌السلام رہائش پذير (مصر)تھے وہاں لوگوں كے درميان بنيامين كى چورى كى خبر مشہور

۶۱۰

ہوگئي تھي_و سئل القرية التى كنا فيه

(قرية) زندگى گذارنے اور انسانوں كے اجتماع (شہر و ديہات )كى جگہ كو كہا جاتاہے اسى وجہ سے مذكورہ تفسير ميں اسكوآبادى سے تعبير كيا گيا ہے _ (آبادى سے سوال كرنا جبكہ سوال سے مقصود آبادى كے لوگ ہيں )_ يہ اس بات كو بتاتا ہے كہ بنيامين كى چورى كى خبر پورے شہر ميں پھيل گئي تھى اور تمام لوگ اس سے مطلع ہوگئے تھے_

۲_ فرزندان يعقوبعليه‌السلام كے ہمراہ قافلے والے بنيامين كى چورى كے واقعہ سے واقف تھے_و سئل العير التى ا قبلنا فيه

۳ _ فرزندان يعقوبعليه‌السلام كا يہ گمان تھاكہ ان كے والد گرامى بنيامين كى چورى كے واقعہ كى تصديق نہيں كريں گے _

و سئل القرية و العير التى ا قبلنا فيه

۴ _ لاوى نے اپنے بھائيوں سے استدعا كى كہ حضرت يعقوب(ع) سے اس بات كا تقاضا كريں كہ وہ اہل مصر اور ان كے ہمسفر قافلے والوں سے بھى بنيامين كى چورى كے بارے ميں پوچھ گچھ كريں _

فقولوا ىأ بانا و سئل القرية والعير التى ا قبلنا فيه

(اقبال ) (أقبلنا) كا مصدر ہے جو سامنے آناكے معنى ميں آتاہے اور اس كا متعلق (اليك) اور اسكى مثل ہے جو وضاحت كى وجہ سے كلام ميں ذكر نہيں ہوا اور( فيہا)(أقبلنا ) كى ضمير كے ليے حال ہے _ اس صورت ميں جملہ ( و سئل العير التي ...) كا مطلب يہ ہے اس قافلے والوں سے پوچھيں كہ جس كے ساتھ ہم آپكے پاس پہنچے ہيں _ يہ بات قابل ذكر ہے كہ يہ آيت گذشتہ آيت كى طرح لاوى كى ان نصيحتوں كے بارے ميں ہے جو اس نے اپنے بھائيوں كو كى تھيں _

۵_ فرزندان يعقوبعليه‌السلام ،مصر سے كنعانى قافلے كے ساتھ اپنے ديار كى طرف روانہ ہوئے_والعير التى ا قبلنا فيه

۶_ لاوى نے اپنے بھائيوں سے چاہا كہ والد گرامى كے سامنے اپنى اس سچائي پر كہ بنيامين نے چورى كى ہے تاكيد كريں _

و إنا لصادقون

۷_ عينى گواہوں كى گواہى دينا، مدّعى كو ثابت كرنے كا معتبر طريقہ ہے _و سئل القرية و العير التى اقبلنا فيه

احكام : ۷

برادران يوسف :برادران يوسف اوريعقوبعليه‌السلام ۳،۴ ; برادران يوسفعليه‌السلام كا كنعان كى طرف لوٹنا ۵ ; برادران

۶۱۱

يوسفعليه‌السلام كا گمان ۳;برادران يوسفعليه‌السلام كى اميديں ۴; برادران يوسفعليه‌السلام كى صداقت ۶

بنيامين :بنيامين پر چورى كى تہمت ۶ ; بنيامين كى چورى اور تجارتى قافلہ ۲; بنيامين كى چورى كى شہرت ۱ ،۲; بنيامين كى چورى كے بارے ميں چھان بين كرنا ۴

دعوى :دعوى كو ثابت كرنے كى دليليں ۷

گواہى :گواہى كے آثار ۷ ; گواہى كے احكام ۷

لاوى :لاوى اور برادران يوسفعليه‌السلام ۶ ;لاوى كى خواہشات ۶;لاوى كى نصيحتيں ۴

جناب يوسفعليه‌السلام :جناب يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۳،۴ ، ۵ ، ۶

آیت ۸۳

( قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْراً فَصَبْرٌ جَمِيلٌ عَسَى اللّهُ أَن يَأْتِيَنِي بِهِمْ جَمِيعاً إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ )

يعقوب نے كہا كہ يہ تمھارے۱_دل نے ايك نئي بات گڑھ لى ہے ميں پھر بھى صبر جميل اختيار ركروں گا كہ شاہد خدا ان سب كو لے آئے كہ وہ ہر شى كے جاننے والا اور صاحب حكمت ہے (۸۳)

۱ _ فرزندان يعقوب(ع) ، كنعان واپس لوٹ آئے اور اپنے سفرنامہ كا حال اپنے والد گرامى كے سامنے اس طرح بيان كيا كہ جس طرح لاوى نے تاكيد كى تھي_ارجعوا إلى ابيكم فقولوا ى ابانا قال بل سولت لكم ا نفسكم امر

آيت ۸۱ ، اور ۸۲ كے مطالب كہ جسميں لاوى كى مصر ميں ہونے والى باتيں ہيں اور (بل سوّلت ...) كا جملہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى طرف سے ان كى باتوں كا جواب ہے _ اس سے معلوم ہوتاہے كہ پہلى بات تو يہ ہے كہ واقعہ كا كچھ حصہ اختصار كے طور پر بيان نہيں كيا گيا اوروہ يہ ہے(فرجعوا إلى ابيهم و قالوا كذا و كذا ...) دوسرى بات يہ ہے كہ جسطرح لاوى نے فرزندان يعقوبعليه‌السلام كو داستان بيان كرنے كى تاكيد تھى اسى طرح انہوں نے والد گرامى كے سامنے بيان كى _

۲ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے بنيامين كى چورى كے واقعہ كوخود ساختہ داستانسمجھا اور اپنے بيٹوں كى بات پر يقين نہيں كيا _

قال بل سولت لكم أنفسكم أمر

كلمہ ( بل) اس بات پر دلالت كرتاہے كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنى بيٹوں كى بات كو قبول نہيں كيا _

۶۱۲

۳_ حضرت يعقوبعليه‌السلام ،بنيامين كى گرفتارى اور اسكے واپس نہ لوٹنے ميں اپنے بيٹوں كو قصور وار سمجھتے تھے_

قال بل سولت لكم انفسكم امر

۴ _ حضرت يعقوب(ع) ، گہرى فكر كے مالك اور حوادث كا تجزيہ كے سلسلہ ميں خاص ذہانت سے بہرہ مند نيز جلد يقين كرنے والے نہ تھے_قال بل سولت لكم أنفسكم امر

۵ _ حضرت يعقوب(ع) نے بنيامين كى گرفتار ى كو اپنے بيٹوں كى نفسانى خواہشات كے سبب سازش كا ايك نتيجہ قرار ديا _

قال بل سؤلت لكم انفسكم امر

جملہ ( سولت لكم ...) يعنى تمہارے نفس نے تمہارے غلط كام كو خوبصورت بناكر پيش كيا ہے اور اس كے مرتكب ہونے پر تمہيں آمادہ كيا اس جملے سے يہ ظاہر ہوتاہے كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹوں كى سازش پر اطمينان ركھتے تھے_

۶_حضرت يعقوبعليه‌السلام يہ سمجھتے تھے كہ بنيامين كى گرفتارى كى بنياد ان كے بيٹوں ( يوسف ،بنيامين يا دوسرے بھائي ) كى سازش و مكر ہے_قال بل سوّلت لكم ا نفسكم ا مر

حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں كى بات پر كيوں يقين نہيں كيا حالانكہ وہ تو عينى گواہ ركھتے تھے جسميں شك كى گنجائش بھى نہيں تھى اس كے باوجود بھى ان پر سازش كا الزام لگايا _ اس بارے ميں جوابات دہيے گئے ہيں ۱ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنى خاص ذہانت و فراست كے سبب بنيامين كے صحيح ہونے پر اطمينان ركھتے تھے جس كى وجہ سے ان باتوں كو حقيقت سے دور سمجھتے تھے_۲ _ بنيامين كو گرفتار كرنے كے ليے كوئي سازش بنائي گئي تھى _ فارسى ميں مثل مشہور ہے كہ كاسہ زير نيم كاسہ بودہ_۳ _ يا يہ ايسى سازش تھى جوان كے بيٹوں نےتيار كى تھى اور يہ ايسى حقيقت تھى كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنى ذہانت اور فراست سے جسے جان چكے تھے ليكن يہ بات انكے ليے مخفى تھى اور جس پر وہ متوجہ نہ ہوئے كہ اس سازش كے بنانے والے خود بنيامين اور حضرت يوسفعليه‌السلام تھے_

۷_ انسان كا نفس برے اور ناروا كاموں كو خوبصورت جلوہ دينے اور ا سكے ارتكاب پر آمادہ كرنے پر قدرت ركھتاہے _

قال بل سولت لكم انفسكم امر

۸_ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں (يوسفعليه‌السلام ،بنيامين اور لاوي) كے فراق ميں ہر قسم كى جزع و فزع اور شكوہ كرنے سے پرہيز اور صبر كرنے كو بہتر سمجھا_فصبر جميل

۶۱۳

( صبر جميل ) ايسا صبر ہے كہ جسميں جزع نہ ہو اور آنے والى مصيبت كا ذكر لوگوں سے نہ كرے (مجمع البيان)

۹_حضرت يعقوبعليه‌السلام ، صبر و بردبارى ركھنے والے بنى تھے_فصبر جميل

۱۰_ مشكلات اور تلخ ترين حوادث كے مقابلے ميں صبر و شكيبائي اختيار كرنا اچھى خصلت ہے _

مذكورہ معنى اس صورت ميں ہے كہ (صبر) مبتداء ہے اور (جميل) اسكى خبر ہے اور (فصبر جميل ) كى تركيب ميں دوسرا احتمال يہ ہے كہ (صبر) مبتداء محذوف كے ليے اور (جميل) (صبر) كے ليے خبر ہواگر صفت ہو تو معنى يوں ہوگا (امري) صبرجميل يا (صبر) صبر جميل و غيرہ

۱۱ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام ،حضرت يوسفعليه‌السلام ، بنيامين اور لاوى كے زندہ ہونے پر يقين ركھتے تھے_

عسى اللّه أن يا تينى بهم جميع

(بہم ) كى جمع والى ضمير سے مراد حضرت يوسفعليه‌السلام بنيامين اور لاوى ہيں _

۱۲ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام ،اپنے تينوں بيٹوں يوسف(ع) ، بنيامين اور لاوى كے واپس آنے اور ان كى ملاقات پر اميد ركھتے تھے_عسى اللّه ا ن يا تينى بهم جميع

۱۳ _حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹوں كے واپس لوٹنے ميں خداوند متعال كى مدد پر دل لگائے ہوئے اور اس كى امداد پراميد ركھتے تھے_عسى اللّه أن يأتينى بهم جميع

۱۴ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے بنيامين پر چورى كى تہمت لگانے والے قصہسے صبركے ساتھ چشم پوشى كرلى اور اللہ تعالى كى مددسے دل لگاليا_فصبر جميل عسى اللّه أن يا تينى بهم جميع

۱۵_حضرت يعقو ب(ع) صبر و بردبارى كو مشكلات كے حل كرنے ميں خداوند متعال كى مدد كا پيش خيمہ سمجھتے تھے_

فصبر جميل عسى اللّه أن يا تينى بهم جميع

۱۶_ امداد الہى پر اميد ركھنے والے صابر اور ثابت قدم انسان ہيں _فصبر جميل عسى اللّه أن يا تينى بهم جميع

۱۷_ انسانوں كے امور كى تدبير، خداوند متعال كے اختيار ميں ہے _عسى اللّه أن يا تينى بهم جميع

۱۸_مشكلات و پريشانيوں سے نجات حاصل كرنے اور

۶۱۴

اپنى تمناؤں كو پانے كے ليے خداوند متعال پر توكل اور اس پر اميد ركھنا ضرورى ہے _عسى اللّه أن يأتينى بهم جميع

۱۹_ فقط خداوند متعال عليم اور حكيم ہے _إنه هو العليم الحكيم

ضمير فعل (ہو) اور اسكى خبر كا معرفہ ہونا، حصر پر دلالت كرتاہے _

۲۰_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كا خداوند متعال كے علم و حكمت پريقين و اعتقاد سبب تھا كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام خداوند متعال كى مدد اور سہارے پر اطمينان ركھتے تھے_عسى اللّه أن يأتينى بهم جميعاً إنه هو العليم الحكيم

(إنہ ہو ...) كا جملہ ( عسى اللّہ ...)كے جملے كے ليے علت واقع ہوا ہے _

۲۱ _ علم خداوند ى اور اسكے حكيمانہ افعال پر يقين ركھنا اس پر بھروسہ كرنے اور اميد ركھنے كا پيش خيمہ ہے _

عسى اللّه أن يأتينى بهم جميعاً إنه هو العليم الحكيم

۲۲_ علم و حكمت كو خداوند متعال كى ذات ميں منحصر سمجھنے پر يقين ركھنا ،غير اللہ سے قطع اميد كا پيش خيمہ ہے _

عسى اللّه أن يا تينى بهم جميعاً انه هو العليم الحكيم

اگرچہ ( عسى اللّہ ...) كا جملہ حصر كا معنى نہيں ديتا ليكن يہ كہہ سكتے ہيں كہ (إنہ ہو ...) جو علت واقع ہوا ہے اس جملہ كى حصر اسميں سرايت كررہى ہے_ اس صورت ميں (عسى اللّہ ...) كا معنى يوں ہوگا كہ ميں فقط خداوند متعال پر اميد ركھتاہوں اس كے غير پر اميد نہيں ركھتا كيونكہ فقط وہ ذات دانا اور حكيم مطلق ہے _

۲۳ _ خداوند متعال كى مدد و حمايت پر اميد كا اظہار كرنے كے بعد اسكى حمد و ثناء كرنا، نيك اور پسنديدہ طريقوں ميں سے ہے _عسى اللّه أن يا تينى بهم جميعا ً

۲۴ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام كا خداوند متعال كے علم و حكمت پر يقين ركھنا ان كے صبر و شكيبائي سے بہرہ مند ہونے كاسبب تھا_فصبر جميل إنه هو العليم الحكيم

جملہ (إنہ ہو ...) علاوہ اس كے كہ ( عسى اللّہ ...) كے ليے تعليل واقع ہوا ہے ممكن ہے (فصبر جميل) كے ليے بھى علت كو بيان كررہا ہو مذكورہ بالا معنى اسى احتمال كو بيان كرتاہے _

۲۵_حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹوں (يوسف(ع) ، بنيامين اور لاوى ) كے فراق و جدائي ميں گرفتار ہونے كو حكمت و مصلحت الہى سمجھتے تھے_فصبر جميل إنه هو العليم الحكيم

۲۶_ انسان كا افعال الہى كو حكيمانہ اور عالمانہ سمجھنا اسے دشوار حوادث اور مشكلات ميں صبر و شكيبائي اختيار

۶۱۵

كرنے پر اكساتاہے_فصبر جميل إنه هو العليم الحكيم

۲۷_'' عن الصادق عليه‌السلام فى قوله عزوجل فى قول يعقوب عليه‌السلام '' فصبر جميل'' قال : بلا شكوى (۱) امام جعفر صادقعليه‌السلام اس قول كے بارے ميں جو خداوند متعال حضرت يعقوبعليه‌السلام سے نقل فرمارہاہے (فصبر جميل) روايت ہے كہ اس صبر سے مراد ايسا صبر ہے جو بغير كسى گلہ و شكوہ كے ہو_

آداب:پسنديدہ آداب ۲۳

اسماء و صفات :حكيم ۱۹ ; عليم ۱۹

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى حكمت ۲۵ ; اللہ تعالى كى خصوصيات ۱۹ ; اللہ تعالى كے اختيارات ۱۷ ;امداد الہى كا پيش خيمہ ۱۵

امداد الہى :امداد الہى پر اميد ركھنے والے ۱۶

اميد ركھنا :اللہ تعالى پر اميد ركھنا ۲۱ ; اللہ تعالى پر اميد ركھنے كى اہميت ۱۸; امداد الہى پر اميد ركھنا ۱۳ ، ۱۴ ، ۲۰ ، ۲۳ ; اميد ركھنے كے اسباب ۲۰ ، ۲۱

انسان :انسان كے اختيار ۷ ; انسان كے نفس كى قدرت ۷ ; انسانوں كا مدبر ہونا ۱۷

ايمان :اللہ تعالى كى حكمت پر ايمان ۲۰ ، ۲۱ ، ۲۲ ، ۲۴ ، ۲۶ ; اللہ تعالى كى خصوصيات پر ايمان ركھنا ۲۲ ; اللہ تعالى كے علم پر ايمان ۲۰ ، ۲۱ ، ۲۲ ، ۲۴ ، ۲۶;ايمان كے آثار ۲۰ ، ۲۱ ، ۲۲ ، ۲۴ ، ۲۶

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسفعليه‌السلام كا قصور ۳;برادران يوسفعليه‌السلام كا كنعان كى طرف لوٹنا ۱ ; برادران يوسفعليه‌السلام كا مكر ۶ ; برادران يوسفعليه‌السلام كى حضرت يعقوب(ع) كو رپورٹ ۱ ; برادران يوسفعليه‌السلام كى سازش كے آثار ۵ ;برادران يوسفعليه‌السلام كى نفس پرستى ۵

بنيامين :بنيامين كے فراق و جدائي كى حكمت ۲۵ ; بنيامين كے گرفتار ہونے كا سبب ۵ ،۶

توسل :اللہ تعالى پر توسل كرنے كى اہميت ۱۸

توكل: اللہ تعالى پر توكل كا پيش خيمہ ۲۱ ; اللہ تعالى پر توكل كرنے كے اسباب ۲۰ ;اللہ تعالى پر توكل كى اہميت ۱۸

____________________

۱) ا مالى شيخ طوسى ج۱ ص ۳۰ ; نورالثقلين ج۲ ص ۴۵۲، ح ۱۴۷_

۶۱۶

تمنائيں :تمناؤوں كے حصول كا پيش خيمہ ۱۸

حمد:اللہ تعالى كى حمد ۲۳

ذكر:ذكر الہى كى حكمت ۲۶ ; علم الہى كا ذكر ۲۶

روايت: ۲۷

سختى :سختى سے نجات كا پيش خيمہ ۱۸ ; سختى ميں صبر ۱۰ ، ۲۶;صبر ميں سختى كے آثار ۱۵

صابرين : ۱۶

صبر:صبر جميل سے مراد ۲۷;صبر كے عوامل ۲۴ ، ۲۶

صفات:پسنديدہ صفات ۱۰

عمل :ناپسنديدہ عمل كو زينت دينا ۷

لاوى :لاوى كے فراق ميں حكمت ۲۵

نااميدى :غير اللہ سے نااميدى كا پيش خيمہ ۲۲

يعقوبعليه‌السلام :يعقوب اور برا دان يوسف ۳۲;يعقوبعليه‌السلام اور بنيامين پر چورى كى تہمت ۲ ، ۱۴ ;يعقوبعليه‌السلام اور بنيامين سے ملاقات ۱۲ ;يعقوبعليه‌السلام اور بنيامين كا زندہ ہونا ۱۱ ;يعقوبعليه‌السلام اور بنيامين كا لوٹنا ۱۲;يعقوب اور بنيامين كى گرفتارى ۱۲; يعقوبعليه‌السلام اور لاوى سے ملاقات ۱۲ ; يعقوبعليه‌السلام اور يوسفعليه‌السلام سے ملاقات ۲ ۱ ; يعقوبعليه‌السلام اور لاوى كا زندہ ہونا ۱۱ ; يعقوبعليه‌السلام اور يوسفعليه‌السلام كا زندہ ہونا ۱۱;يعقوبعليه‌السلام كا آگاہ ہونا ۶ ; يعقوبعليه‌السلام كا ارادہ ۸ ;يعقوب(ع) كا اطمينان ۱۱ ; يعقوبعليه‌السلام كا اميد ركھنا ۱۲ ، ۱۳ ، ۱۴،۲۰;يعقوبعليه‌السلام كا ايمان ۲۰ ، ۲۴;يعقوبعليه‌السلام كا بنيامين كے فراق ميں ہونا ۸ ;يعقوبعليه‌السلام كا توكل ۲۰ ;يعقوبعليه‌السلام كا صبر ۸ ، ۹ ، ۱۴ ، ۲۴ ;يعقوبعليه‌السلام كا صبر كرنے كا اہتمام كرنا ۱۵ ; يعقوبعليه‌السلام كا قصہ ۱۱ ، ۱۲ ، ۱۴ ;يعقوبعليه‌السلام كا لاوى كے فراق ميں ہونا ۸ ; يعقوبعليه‌السلام كا يوسفعليه‌السلام كے فراق ميں ہونا ۸ ;يعقوبعليه‌السلام كو حوادث كى تحليل كرنے كا علم ۴;يعقوبعليه‌السلام كى فكر ۵، ۱۵،۲۵;يعقوبعليه‌السلام كى ہوشيارى ۴ ;يعقوبعليه‌السلام كے فضائل ۴ ، ۹

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۳ ، ۵ ، ۶;يوسفعليه‌السلام كے فراق و جدائي كى حكمت ۲۵

۶۱۷

آیت ۸۴

( وَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ يَا أَسَفَى عَلَى يُوسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌ )

يہ كہہ كر انھوں نے سب سے منھ پھير ليا اور كہا كہ افسوس ہے يوسف كے حال پر اور اتنا روئے كہ آنكھيں سفيد ہوگئيں اور غم كے گھونٹ پيتے رہے (۸۴)

۱ _ حضرت يعقوب(ع) نے بنيامين كى گرفتارى كى خبر سن كر اپنے بيٹوں كو قصور وار سمجھ كر غصّہ سے ان سے منہ پھير ليا_و تولى عنهم

(تولى ) كا معنى منہ پھيرنا ہے_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كا اپنےبيٹوں سے منہ پھيرنا (فہو كظيم ) كے قرينے كى وجہ سے پتا چلتاہے كہ ايساكرنا غضب و غصہ كى وجہ سے تھے_

۲_ بنيامين كے واقعہ نے حضرت يعقوبعليه‌السلام كے ليے حضرت يوسف كى ياد كو تازہ كرديا اور يوسفعليه‌السلام كى جدائي پر ان كے شديد افسوس كے اظہار كا سبب بنا_و قال ىا سفى على يوسف

(اسفى ) كے آخر ميں ''الف'' ياء متكلم سے تبديل ہوكر الف بناہے اس صورت ميں (ياسفى ) يعنى اے ميرى حسرت و اميد_

۳_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى حضرت يوسفعليه‌السلام سے شديداور لافانيمحبت تھي_

قال ياسفى على يوسف و ابيضت عيناه من الحزن

۴_حضرت يعقوبعليه‌السلام كا حضرت يوسفعليه‌السلام كے ساتھ دلى لگاؤ بنيامين اور اس كے دوسرے بھائيوں كى نسبت بہت زيادہ تھا_عسى اللّه أن يأتينى بهم جميعاً و قال يا سفى على يوسف

۵_ حضر ت يعقوبعليه‌السلام كا حضرت يوسفعليه‌السلام كے فراق ميں بہت زيادہ گريہ و زارى كرنا ،ان كى دونوں آنكھوں كى نا بينائي كا موجب بنا_و ابيضت عيناه من الحزن

(ابيضاض) مادہ ''بيض'' باب افعلال كا مصدر

۶۱۸

ہےجو سفيد ہونے كے معنى ميں ہے چشم كا سفيد ہونا نابيناہونے كے معنى سے كنايہ ہے _

۶_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى بينائي كا چلاجانا ان كے بڑھاپے اور بنيامين كے گرفتار ہونے كے زمانے ميں تھا_

عسى اللّه ان يأتينى بهم جميعاً و ابيضت عيناه من الحزن

۷_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كا حضرت يوسف(ع) كے فراق ميں بہت زيادہ گريہ كرنا_و ابيضت عيناه من الحزن

(من الحزن) ميں (من ) تعليلى ہے اور اس بات كو بتاتاہے كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كا غم و حزن بينائي كے جانے كا سببتھا ليكن حزن و غم نے حضرت يعقوب(ع) كى آنكھوں پر اثر كيا نہ كہ دوسرے حواس پر اس سے معلوم ہوتاہے كہ حضرتعليه‌السلام كا بہت زيادہ رونا اور آنكھوں سے بہت زيادہ پانى كا چلا جانا ان كى بينائي كے جانے كا سبب تھا _

۸_ دوستوں كے فراق اور افسوس ميں غمگين ہونا اور رونا مقام نبوت كے منافى نہيں ہے _

قال يا سفى على يوسف و ابيضت عيناه من الحزن

۹_دوستوں كے فراق و جدائي ميں غم و اندوہ ميں مبتلا ہونا اور آنسو بہانا جائز ہے _

و قال يأسفى على يوسف و ابيضت عيناه من الحزن

۱۰_ غمگين ہونا اور آنسو بہانا، بردبارى اور صبر و شكيبائي كے ساتھ منافات نہيں ركھتا_

فصبر جميل و قال ياسفى على يوسف و ابيضت عيناه من الحزن

۱۱_ بہت زيادہ غم و اندوہ اوررونا،آنكھ كى سياہى كو سفيد كرنے اور نابينائي كا سبب ہے _و ابيضت عيناه من الحزن

۱۲_ حضرت يعقوب(ع) ، حضرت يوسفعليه‌السلام كے فراق ميں اندرونى طور پر بہت غم زدہ تھے اور حزن و اندوہ سے انكا دل لبريز تھا_و ابيضت عيناه من الحزن فهو كظيم

(كظيم) يہاں اسم مفعول (مكظوم) كے معنى ميں ہے يعنى جو اندرونى طور پر غم زدہ يا غيض و غضب سے بھرا ہوا ہو_

۱۳_حضرت يوسف(ع) و بنيامين كے بارے ميں اپنے بيٹوں كے سلوك سے حضرت يعقوب(ع) بہت غضبناك تھے اور ہميشہ اپنے غصہ كو كنڑول ميں ركھتے اور اس كا اظہار نہيں كرتے تھے _و تولّى عنهم فهو كظيم

(كظيم) اسم فاعل ( كاظم) كے معنى ميں بھى ہو سكتاہے يعنى وہ شخص جو اپنے غم و اندوہ يا غيض و غضب كو پى جائے اور اسكو ظاہر كرنے سے گريز كرے_

۱۴_حضرت يعقوبعليه‌السلام كا اپنے بيٹوں كو فراق يوسفعليه‌السلام اور بنيامين ميں قصور وار ٹھہرانے كے باوجود بھى پورے طور

۶۱۹

پر خاموش رہ جانا اس بات كو بتاتاہے كہ وہ اپنے غيض وغضب كو چھپانے پر قادر تھے _و تولى عنهم فهو كظيم

مذكورہ بالا معنى كااستفادہ ( ہو كظيم) كو حرف فاء كے ذريعہ جملہ (تولّى عنہم ) پر تفريح كى بناء پر ہے _

۱۵_ انسان كا اپنے غم و غصّے كو چھپانا اوراسكا اظہار نہ كرنا اس كے جسم و جان پر منفى اثرات مرتب كرتاہے _

و ابيضت عيناه من الحزن فهو كظيم

مذكورہ بالا معنى ( ہو كظيم ) كى تفريع و وضاحت جو حرف فاء كے ذريعے ( ابيضت عيناہ من الحزن) پر ہوئي ہے سے حاصل ہوتاہے_ يعنى حضرت يعقوب(ع) كى آنكھيں غم و اندوہ كے سبب بے آب ہوگئيں اور ان كا غم و الم ان كے دل ميں چھپا رہ گيا اور وہ اس كے اظہار كرنے سے پرہيز كرتے تھے_

۱۶_''عن أبى عبداللّه عليه‌السلام : قيل له كيف يحزن يعقوب عليه‌السلام على يوسف عليه‌السلام و قد اخبره جبرئيل أنه لم يمت و أنه سيرجع اليه فقال : إنه نسى ذلك (۱)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپ سے كہا گيا كہ كس طرح حضرت يعقوب(ع) ، حضرت يوسفعليه‌السلام كے ليے غمگين ہوتے تھے حالانكہ جبرئيلعليه‌السلام نے ان كو خبر دى تھى كہ حضرت يوسفعليه‌السلام زندہ ہيں اور جلد ہى آپ كى طرف پلٹ كر آئيں گے ؟امامعليه‌السلام نے فرمايا: حضرت يعقوبعليه‌السلام جبرائيل كى بات كو بھول گئے تھے_

۱۷_''سئل أبوعبداللّه عليه‌السلام ما بلغ من حزن يعقوب عليه‌السلام على يوسف عليه‌السلام ؟ قال : حزن سبعين ثكلى بأولادها (۲)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے پوچھا گيا كہ حضرت يعقوب(ع) ، حضرت يوسفعليه‌السلام كے بارے ميں كس قدر غمزدہ تھے تو حضرتعليه‌السلام نے جواب ديا كہ جس طرح ستر عورتيں اپنے جوان بيٹوں كى موت پر غم زدہ ہوں تو( ان ستر بيٹوں ) جتنا غم تھا_

احكام : ۹

انسان :انسان كى ضعيفى كے اسباب ۱۵

حزن و الم :

____________________

۱) تفسير عياشى ج۲ ص ۱۸۸، ح ۵۹ ; نورالثقلين ج۲ ص ۴۵۲ ; ح ۱۵۱_

۲) تفسير قمى ج۱ ص ۳۵۰ ; نورالثقلين ج۲ ص ۴۵۲_

۶۲۰

حزن و الم كو چھپانے كے جسمانى آثار ۱۵; حزن والم اور صبر ۱۰;حزن و الم كے آثار ۱۱

حضرت يعقوبعليه‌السلام :يعقوبعليه‌السلام اور برادران يوسف ۱ ،۱۳،۱۴;يعقوبعليه‌السلام كے غم و الم كے عوامل ۲ ، ۱۲ ; يعقوبعليه‌السلام او ر بنيامين كى گرفتارى ۱; يعقوبعليه‌السلام اور بنيامين كى جدائي۱۴; يعقوب(ع) اور يوسفعليه‌السلام كى جدائي ۱۴ ;يعقوبعليه‌السلام كا بنيامين كى گرفتارى كا اثر ۲; يعقوبعليه‌السلام پر غم و غصے كى شدت ۱۷;يعقوبعليه‌السلام پر فراق يوسفعليه‌السلام كا اثر ۵; يعقوبعليه‌السلام سے بنيامين كا فراق ۶;يعقوبعليه‌السلام سے بنيامين كا فراق ۶; يوسف(ع) كا فراق ۲ ، ۶،۷، ۱۲ ، ۱۶ ، ۱۷;يعقوبعليه‌السلام كا برادران يوسفعليه‌السلام سے لگاؤ ۴ ; يعقوبعليه‌السلام كا بنيامين كے ساتھ لگاؤ ۴ ;يعقوبعليه‌السلام كا بڑھاپا ۶;يعقوبعليه‌السلام كا غضب ۱ ;يعقوبعليه‌السلام كا غضب كو پى جانے كى نشانياں ۱۴; يعقوب(ع) كا غصہّ پى جانا ۱۳;حضرت يعقوبعليه‌السلام كا غم و الم ۱۶ ;يعقوبعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲،۵، ۶، ۷ ، ۱۲ ، ۱۳ ; يعقوبعليه‌السلام كا گريہ ۷ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كامنہ پھيرنا ۱ ;يعقوبعليه‌السلام كا يوسفعليه‌السلام كے ساتھ لگاؤ ۳ ، ۴ ;يعقوبعليه‌السلام كى قدرت و طاقت كى علامتيں ۱۴;يعقوبعليه‌السلام كى نابينائي كا زمانہ ۶; يعقوبعليه‌السلام كى نابينائي كے عوامل ۵ ; يعقوبعليه‌السلام كےغضب كے عوامل ۱۳ ;حضرت يعقوبعليه‌السلام كے غم زدہ ہونے كے آثار ۵

حضرت يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۷ ، ۱۲ ، ۱۳;يوسفعليه‌السلام كى جدائي كے آثار ۱۲

روايت: ۱۶،۱۷

شفقت :شفقت پدرى ۱

گريہ :گريہ اور صبر ۱۰; گريہ كا جائز ہونا ۹;گريہ كے احكام ۹

نابينائي :نابينائي كے عوامل ۱۱

نبوت :نبوت اور محبوب لوگوں كے فراق ميں غم زدہ ہونا ۸ ; نبوت اور محبوب لوگوں كے فراق ميں گريہ كرنا ۸

۶۲۱

آیت ۸۵

( قَالُواْ تَالله تَفْتَأُ تَذْكُرُ يُوسُفَ حَتَّى تَكُونَ حَرَضاً أَوْ تَكُونَ مِنَ الْهَالِكِينَ )

ان لوگوں نے كہا كہ آپ اسى طرح يوسف كو ياد كرتے رہيں گے يہانتك كہ بيمار ہوجائيں يا ہلاك ہونے والوں ميں شامل ہوجائيں (۸۵)

۱_ حضرت يعقوبعليه‌السلام ہميشہ اپنے بيٹے يوسفعليه‌السلام كى يادو جدائي ميں غم زدہ رہتے تھے_قالوا تاللّه تفتئوا تذكر يوسف

(تفتئوا)افعال ناقصہ ميں سے ہے اور اس كے ساتھ (لا) نافيہ مقدر ہے _ تو اصل ميں جملہ يوں ہوگا (تفتئوا تذكر يوسف)تم يوسفعليه‌السلام كى ياد ميں ہوتے ہو _

۲_حضرت يعقوبعليه‌السلام ، حضرت يوسفعليه‌السلام كى جدائي كو برادشت نہ كرنے والے غم كى وجہ سے نڈھال يا مرنے كے خطرہ سے دوچار تھے _قالوا تاللّه تفتئوا تذكر يوسف حتى تكون حرضاً او تكون الهكين

(حرض) ايك ايسى بيمارى كو كہاجاتاہے جس ميں مبتلا شخص تباہى يا ہلاكت كے قريب ہو _

۳_ فرزندان يعقوبعليه‌السلام اپنے باپ كى اس بيمارى كى وجہ سے جس ميں وہ ہلاكت يا قريب المرگ سے دوچار تھے بڑے ناراحت اور پريشان تھے_قالوا تاللّه تفتئوا تذكر يوسف حتى تكون حرضاً أو تكون من الهالكين

۴_ فرزندان يعقوبعليه‌السلام ، حضرت يعقوب(ع) كو فراق يوسف(ع) ميں اس جان ليوا غم كى وجہ سے ملامت كرتے تھے_

قالوا تاللّه تفتئوا تذكر يوسف

(قالوا تاللہ ...) كا سياق اور گفتگو كا انداز ايسا ہے كہ حضرت يعقو ب(ع) كو ملامت كرنے كے ساتھ يہ درخواست بھى كى گئي كہ حضرت يوسفعليه‌السلام كو بھول جائيں _

۵_فرزندان يعقوبعليه‌السلام نے ان سے يہ چاہا كہ يوسفعليه‌السلام كو بھول جائيں اور اسكو ذہن سے نكال ديں _

۶۲۲

قالوا تاللّه تفتئوا تذكر يوسف

۶_ فرزندان يعقوبعليه‌السلام نے خدا كى قسم اٹھا كر حضرت يعقوبعليه‌السلام كو بڑھاپے ہونے اور اس دنيا سے چلے جانے سے خبردار كيا _قالوا تا للّه تفتئوا تذكر يوسف حتى تكون حرضاً او تكون من الهالكين

حرف (تاء) قسم كے ليے ہے اور (تفتؤا تذكر يوسف ) كا جملہ جواب قسم ہے اس لحاظ سے كہ (حتى تكون حرضاً ...) كا جملہ اس كے ليے غايت واقع ہواہے _ اصل ميں جواب قسم جملہ (تكون حرضاً) ہے _

۷_رنج و الم اور شديد غصہ انسان كى جسمى طاقت كو ختم كركے مرنے كے قريب بنا ديتاہے_

قالوا تاللّه تفتئوا تذكر يوسف حتى تكون حرضاً أو تكون من الهالكين

انسان:انسان ميں ضعف كے عوامل ۷

برادران يوسف :برادران يوسف(ع) اور يعقوب(ع) ۴ ،۵،۶;برادران يوسفعليه‌السلام اور يعقوبعليه‌السلام كى بيمارى ۳;برادران يوسفعليه‌السلام كا خطرے سے آگاہ كرنا۶;برادران يوسفعليه‌السلام كا ملامت كرنا ۴;برادران يوسفعليه‌السلام كى اميديں ۵ ; برادران يوسفعليه‌السلام كى پريشانى ۳

دكھ:دكھ كے آثار۷

روحانى علم :روحانى علم كى عطوفت و لذت ۷

شفقت :خاندان ميں شفقت و محبت كے آثار۱

غم:غم كے آثار ۷

موت :موت كے اسباب ۷

يعقوبعليه‌السلام :يعقوبعليه‌السلام كا غم ۴; يعقوبعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۳،۴; يعقوبعليه‌السلام كو خبردار كرنا ۶;يعقوبعليه‌السلام كو موت كا خطرہ ۶; يعقوب كى ملامت ۴; يعقوبعليه‌السلام كى بيمارى كا سبب ۲ ; يعقوبعليه‌السلام كى موت كا سبب ۲;يعقوب(ع) ، يوسفعليه‌السلام كے فراق ميں ۱ ،۲،۳

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ،۳،۴،۶;يوسفعليه‌السلام كو فراموش كرنے كى درخواست ۵; يوسفعليه‌السلام كى جدائي كا سخت ہونا ۲

۶۲۳

آیت ۸۶

( قَالَ إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللّهِ وَأَعْلَمُ مِنَ اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ )

يعقوب نے كہا كہ ميں اپنے حزن و غم اور اپنى بيقرارى كى فرياد اللہ كى بارگاہ ميں كررہاہوں اور اس كى طرف سے وہ سب جانتا ہوں جو تم نہيں جانتے ہو(۸۶)

۱_ حضرت يعقوبعليه‌السلام ، حضرت يوسفعليه‌السلام كے فراق ميں شديداور ناقابل تحمل غم ميں گرفتار تھے_

قال إنما أشكو ابثى و حزنى الى الله

(بث) لغت ميں شديدحزن كے معنى ميں ہے_ گويا اسكى شدت موجب بنتى ہے كہ اس غم كا مالك شخص اس كو تحمل نہيں كر سكتا ہے اس وجہ سے لوگوں كوبتاتا ہے اور اسے عام كرتا ہے_

۲_حضرت يعقوب(ع) ، فراق يوسفعليه‌السلام كے جان ليوا غم و اندوہ كى شكايت صرف خداوند متعال سے كرتے تھے _

قال إنما أشكو ابثى و حرنى الى اللّه

كسى شخص كے سامنے شكايت لے جانے كا معنى يہ ہے كہ اس شخص كواس شے كى برائي يا اس كے بارے ميں گلہ كرنا ہے پس اس صورت ميں (انما أشكوا بثى و حزنى إلى اللّہ ) يعنى فقط خداوند متعال كى ذات كو اسكى شكايت كروں گا كہ اس كے غم نے مجھ پر كتنا اثر كيا ہے اور ان كے بارے ميں فقط خداوند متعال كى ذات سے شكايت اور اس سے فيصلے كى دعا كروں گا_

۳ _ حضرت يعقوب(ع) ، نے كبھى بھى اپنے رنج و الم اور دكھ كى شكايت غير اللہ ( فرزندان اور اپنے اصحاب) سے نہيں كي_قال انما أشكو ابثى و حرنى الى اللّه

۴_حضرت يعقوبعليه‌السلام صرف خدا ند عالم كى ذات كو اپنے غم و دكھ كو دور كرنے پر قادر سمجھتے تھے_

قال إنما اشكو ابثى و حزنى إلى الله

حضرت يعقوبعليه‌السلام كا اپنے حزن و الم كى شكايت خداوند متعال كى ذات سے كرنے كا مقصد اپنے سے اس غم كو دور كرنے كى درخواست كرنا تھا_

۵_ حضرت يعقوب(ع) ، توحيدى فكر سے بہرہ مند تھے_قال إنما اشكو ابثى و حزنى الى اللّه

۶_ حضرت يعقوبعليه‌السلام ،جب اپنے بيٹوں اورساتھيوں كو اپنے غم واندوہ كى شكايت نہيں كرتے تھے تو انہيں اپنے اوپر

۶۲۴

ملامت كرنے كا سزاوار بھى نہيں سمجھتے تھے_قالوا تالله تفتئوا تذكر يوسف قال إنما أشكوا ابثى و حزنى الى اللّه

۷_ دكھ و درد اور مصيبتيں خواہ زيادہ ہوں يا كم صرف ذات اقدسسے انكى شكايت كرنا چاہيے اورفقط اس سے مدد طلب كرنى چاہيے_قال إنما اشكو ابثى و حزنى الى الله

(بث) كا معنى شديد حزن ہے اس بناء پر قرينہ مقابلہ كى وجہ كہا جا سكتا ہے كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى كلام ميں '' حزن''سے مراد، كم و آسان غم و اندوہ ہے _

۸_ خداوند متعال كى بارگاہ ميں شكوہ كرنا ،صبر كے ساتھ منافات نہيں ركھتا ہے _فصبر جميل إنما اشكو ابثى و حزنى الى اللّه

حضرت يعقوبعليه‌السلام كا يہ اظہار كرنا كہ صبر جميل زيبا اور اچھا ہے اور دوسرى طرف خداوند متعال سے اس كے بارے ميں شكوہ بھى كيا ہے تو معلوم ہوتاہے كہ ان دونوں كے درميان كو ئي منافات نہيں ہے _

۹_حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹوں اور ساتھيوں كے عقيدہ كے برخلاف حضرت يوسفعليه‌السلام كے زندہ ہونے پر اطمينان ركھتے تھے_و أعلم من اللّه ما لا تعلمو

(من اللّہ ) كا معنى ممكن ہے (اللہ كى طرف سے) ہو اور ممكن ہے اسكا معنى (اللہ تعالى كے بارے ميں ) ہو پس پہلے احتمال كى صورت ميں مقام كى مناسب سے (ما لايعلمون) سے مراد يہ ہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام زندہ ہيں اور حضرت يعقوبعليه‌السلام اسكے ديدار كے مشتاق ہيں و غيرہ _

۱۰_ حضرت يعقوبعليه‌السلام ،يوسفعليه‌السلام كے ديدار اور اس كى جدائي كے ختم ہونے پر مطمئن تھے_

و أعلم من اللّه ما لا تعلمون

۱۱_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كا حضرت يوسفعليه‌السلام كے زندہ ہونے پر اطمينان، اس علم و دانش كى وجہ سے تھا جو خداوند متعال كى ذات نے ان كو عطا فرمايا تھا_و أعلم من اللّه ما لا تعلمون

۱۲_ حضرت يعقوب(ع) ، اللہ تعالى كى ذات اور صفات كے متعلق ايسے حقائق كا علم ركھتے تھے جو دوسروں پر مخفى تھا_

و أعلم من اللّه ما لا تعلمون

مذكورہ بالا معنى اس صورت ميں ہے كہ (من اللّہ) كا معنى (اللہ تعالى كے بارے ميں )ہو_ اس صورت ميں (ما لا تعلمون) سے مراد، خداوند متعال كى صفات و خصوصيات ہيں _

۶۲۵

۱۳_ فرزندان يعقوبعليه‌السلام خداوند متعال كے بارے ميں حقائقسے جاہل اور ناواقف تھے _و أعلم من اللّه ما لا تعلمون

۱۴_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كا خداوند متعال كى ذات و صفات كے بارے ميں خصوصى علم و معرفت ركھنا اس بات كى دليل ہے كہ وہ اسكى ذات كے سامنے خاضع و خاشع اور غير اللہ كے سامنے اپنى مشكلات كو بيان نہيں كرتے تھے _انما أشكو ابثى و حزنى إلّى اللّه وأعلم من الله ما لا تعلمون //(أعلم من اللّه ) كا جملہ(انما أشكوا ...) كے ليے علت كى حيثيت ركھتا ہے يعنى ميرافقط خداوند متعال كى ذات سے شكايتكرنا جبكہ ( تم ايسے نہيں ہو)اس ليے ہے كہ جو ميں جانتاہوں يعنى خداوند متعال كى صفات و خصوصيات كا جو مجھے علم ہے تم اس سے ناواقف ہو_

۱۵_معرفت الہى كا زيادہ ہونا، توحيدى فكر سے زيادہ بہرہ مند ہونے كا سبب ہے _إنماأشكوا و أعلم من اللّه ما لا تعلمون

۱۶_عن أبى عبداللّه عليه‌السلام قال: قدم أعرابى على يوسف قال له يوسف : ...فإذا مررت بوادى كذا و كذا فقف فناد: يا يعقوب(ع) ، يا يعقوب فإنه سيخرج اليك رجل فقل له : لقيت رجلاً بمصر و هو يقرئك السلام و يقول لك:إن و ديعتك عند اللّه عزوجل لن تضيع، قال: فمضى الا عرابّى فا بلغه ما قال له يوسف فكان يعقوب عليه‌السلام يعلم أن يوسف(ع) حيّ لم يميت و أن اللّه تعالى ذكره سيظهره له بعد غيبته و كان يقول لبنيه : '' إنى أعلم من اللّه ما لاتعلمون ...'' (۱)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ ايك باديہ نشين حضرت يوسفعليه‌السلام كے پاس آيا _ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اس سے كہا: ...جب تم فلاں وادى سے گذر كرو تو وہاں كھڑے ہوكر آواز دينا اے يعقوبعليه‌السلام اے يعقوبعليه‌السلام اسوقت ايك شخص تيرى طرف آئے گا تو تم اس سے كہنا كہ ميں نے مصر ميں ايك شخص سے ملاقات كى ہے جو آپ كو سلام عرض كررہا تھا اور كہہ رہاتھا كہ تمہارى امانت خدا كے نزديك ہميشہ باقى رہے گئي_تب امامعليه‌السلام نے فرمايا:وہ باديہ نشين گيا اور حضرت يوسفعليه‌السلام كا پيغام حضرت يعقوبعليه‌السلام كو ابلاغ كيا اس سے حضرت يعقوبعليه‌السلام كو معلوم ہوگيا كہ حضرت يوسفعليه‌السلام زندہ ہيں اور اس دنيا سے نہيں گئے ہيں اور خداوند متعال جلد ہى اسكو غيبت كے بعد ضرور ظاہر كرے گا_ اسى وجہ سے ہميشہ اپنے بيٹوں سے يہ كہا كرتے تھے (إنى أعلم من اللّه ما لا تعلمون )

۱۷_عن أبى عبداللّه عليه‌السلام : هبط عليه جبرئيل فقال له : يا يعقوب ربك يقرؤك

____________________

۱)كمال الدين صدوق ص ۱۴۱ح ۹ ; ب ۵;نورالثقلين ج۲ ص ۴۶۵، ح ۱۹۵_

۶۲۶

السلام و يقول لك: شكوتنى إلى الناس فلا تعود تشكونى إلى خلقي فقال: '' انما أاشكوا بثّى و حزنى إلى اللّه (۱)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ ايك مرتبہ حضرت جبرائيلعليه‌السلام حضرت يعقوبعليه‌السلام كے پاس آئے _ اور كہا: كہ تيرا پروردگار تم پر سلا م بھيجتاہے اور كہہ رہاہے كہ تو نے لوگوں سے ميرا گلہ و شكوہ كيا ہے_ پھر ايسا نہ كرنا پس حضرتعليه‌السلام نے يہ جملہ كہا:'' انّما اشكوابثى و حزنى إلى الله ...''

اللہ تعالى :اللہ تعالى سے شكوہ كرنا ۲،۳، ۷، ۱۴، ۱۷; اللہ تعالى كى خصوصيات ۷ ; اللہ تعالى كى شناخت كے آثار ۱۵ ; اللہ تعالى كے عطايا ۱۱

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسفعليه‌السلام كا جہل ۱۳; برادران يوسفعليه‌السلام كو اللہ تعالى كى شناخت ۱۳

توحيد:توحيد كے اسباب ۱۵

جبرئيل:جبرئيلعليه‌السلام اور يعقوبعليه‌السلام ۱۷

روايت: ۱۶ ، ۱۷

صبر:صبر اور اللہ تعالى سے شكوہ كرنا ۸

مدد طلب كرنا :اللہ تعالى سے مدد طلب كرنا ۷

يعقوبعليه‌السلام :يعقوبعليه‌السلام اور اللہ تعالى كى قدرت ۴; يعقوبعليه‌السلام اور برادران يوسف(ع) كى سرزنش ۶ ; يعقوبعليه‌السلام اور حضرت يوسفعليه‌السلام كى زندگى ۹ ، ۱۱ ، ۱۳ ، ۱۶;يعقوبعليه‌السلام اور يوسفعليه‌السلام سے ملاقات ۱۰; يعقوبعليه‌السلام پر وحى ۱۷; يعقوبعليه‌السلام حضرت يوسفعليه‌السلام كے فراق ميں ۱ ،۲ ; يعقوبعليه‌السلام كا اطمينان ۹ ، ۱۰ ; يعقوبعليه‌السلام كا شكوہ ۲ ، ۳،۶ ، ۱۴،۱۷ ; يعقوبعليه‌السلام كا علم ۱۶ ;يعقوبعليه‌السلام كا علم غيب ۱۲ ; يعقوبعليه‌السلام كا علم لدنى ۱۱; يعقوبعليه‌السلام كا غمزدہ ہونا ۶ ;يعقوبعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۳ ،۹،۱۰ ;يعقوبعليه‌السلام كو اللہ تعالى كى شناخت ۱۲ ; يعقوبعليه‌السلام كى توحيد ۴ ،۵; يعقوبعليه‌السلام كى فكر ۴ ،۶; يعقوبعليه‌السلام كے علم كا سبب ۱۱; يعقوبعليه‌السلام كے فضائل ۵ ، ۱۲;يعقوبعليه‌السلام ميں اللہ تعالى كى شناخت كے آثار ۱۴; يعقوبعليه‌السلام ميں تضرع كے دلائل ۱۲; يعقوبعليه‌السلام ميں غم كے اسباب ۱

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۹ ، ۱۰ ، ۱۶

۶۲۷

آیت ۸۷

( يَا بَنِيَّ اذْهَبُواْ فَتَحَسَّسُواْ مِن يُوسُفَ وَأَخِيهِ وَلاَ تَيْأَسُواْ مِن رَّوْحِ اللّهِ إِنَّهُ لاَ يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللّهِ إِلاَّ الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ )

ميرے فرزند و جائو يوسف اور ان كے بھائي كو خوب تلاش كرو اور رحمت خداسے مايوس ۱_ نہ ہونا كہ اس كى رحمت سے كافر قوم كے علاوہ كوئي مايوس نہيں ہوتاہے (۸۷)

۱_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كو يہ يقين تھا كہ حضرت يوسفعليه‌السلام اور بنيامين زندہ ہيں اور وہ تلاش كرنے سے مل جائيں گے _

يا بنى اذهبوا فتحسسوا من يوسف و أخيه

۲_ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں كو حكم ديا كہ حضرت يوسفعليه‌السلام اور بنيامين كى تلاش ميں نكليں اور اسكو پانے كى كوشش كريں _يا يبتى اذهبوا فتحسسوا من يوسف و أخيه

(تحسسوا) كا مصدر (تحسس) ہے جو طلب كرنے اور تلاش كرنے كے معنى ميں آتا ہے _

۳ _ حضرت يعقو ب(ع) نے بنيامين كے فراق و جدائي كو اپنى مصيبتوں اور مشكلات كے ختم ہونے كى علامت سمجھا اور حضرت يوسفعليه‌السلام اور بنيامين كے مل جانے پر اميد ركھنے لگے_يا يبتى اذهبوا فتحسسوا من يوسف و أخيه و لا تأيئسوا من روح اللّه

جب حضرت يعقوبعليه‌السلام بنيامين كى داستان كے بعد حضرت يوسف(ع) كى تلاش كرنے كى بات كرتے ہيں اور اپنے بيٹوں كو انہيں تلاش كرنے كا حكم ديا ہے اس سے يہ ظاہر ہوتاہے كہ انہوں نے بنيامين كے واقعہ كو خدا كى رحمت كے نزول كا سبب سمجھا اور يوسفعليه‌السلام كے مل جانے پر اميد ركھنے لگے_ بنيامين كے واقعہ سے پہلے حضرت يوسفعليه‌السلام كى تلاش نہ كرنا اس حقيقت پر دليل ہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام كا مسئلہ بنيامين كى گرفتارى كے ساتھ مربوط تھا_

۴_حضرت يعقوب(ع) نے اپنے بيٹو ں سے چاہا كہ وہ حضرت يوسفعليه‌السلام اور بنيامين كى تلاش جارى ركھيں اور انكے ملنے سے ہرگز مايوس نہ ہوں _و لا تأيئسوا من روح اللّه

۵_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اپنے بيٹوں كو يہ نصيحت تھى كہ خداوند متعال كى رحمت سے نااميد نہ ہونا بلكہ اسكى مدد پر اميد ركھنا _و لا تايئسوا من روح اللّه

يہاں (روح) كا معنى سرور، خوش آرام و رحمت كاہے اوراس كلمہ كا (اللّہ ) كى طرف مضاف كرنا اور (من روح اللّہ )كا (لا تايئسوا) كے متعلق ہونا بتاتاہے اسكا معنى (رحمت) ہے_

۶۲۸

۶_حضرت يعقو ب(ع) ، حضرت يوسف اور بنيامين كو پالينے كے سلسلہ ميں رحمت و مدد الہى پر مطمئن تھے_

فتحسسوا من يوسف و أخيه و لا تايئسوامن روح اللّه

آيت شريفہ ميں رحمت الہى كا جلوہ، يوسف(ع) كو پانے اور بنيامين تك پہنچنے تك اسكى مدد ہے _

۷_ اپنے مقصود تك پہنچنے اور مشكلات كو رفع كرنے كى خاطر اللہ تعالى پر ايمان اوراسكى مدد كے ساتھ ساتھ انسان كو كوشش و تلاش ضرور كرنى چاہيے_اذهبوا فتحسسوا من يوسف و أخيه ولا تايئسوا من روح الله

حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹوں كو يوسفعليه‌السلام اور بنيامين كى تلاش كے سلسلہ ميں اللہ تعالى كى مدد اور رحمت كى طرف توجہ دلا تے ہيں اور ان سے يہ بھى چاہتے ہيں كہ انكى تلاش ميں سفر كريں لہذا مذكورہ بالا معنى اس سے حاصل كيا جاسكتاہے_

۸_ اپنے مقصودكے حصول اور مشكلات كو دور كرنے ميں مدد اور رحمت الہى سے دل لگانا ضرورى ہے _

و لا تايئسوا من روح اللّه انه لا يأئيس من روح اللّه الا القوم الكافرون

۹_ انسان كى زندگى كى مشكلات دور كرنا اور اس كے ليے آسانى پيدا كرنا، خداوند متعال كے ہاتھ و اختيار ميں ہے _

و لا تايئسوا من روح اللّه

۱۰_ ذات اور صفات الہى كى معرفت اسكى رحمت و مدد سے اميد ركھنا ہے _

و أعلم من اللّه ما تعلمون ولا يايئسوا من روح اللّه الا القوم الكافرون

۱۱_ فقط كفار ہى اسكى مدد پر اميد نہيں ركھتے اور اسكى رحمت سے مايوس ہيں _لا يايئسوا من روح الله الا القوم الكافرون

آيت شريفہ ميں (كافرون) سے مراد وہ لوگ ہيں جو قدرت الہى اور اسكى رحمت كى عطا نيز اسكا اپنے بندوں كى ضروريات سے آگاہ و عالم ہونے سے منكر ہيں _

۱۲ _تجاويزاور نصيحتوں كى توجيہ كے ساتھ ساتھ اس كے نتيجہ اور انجام كو بھى بيان كرنا، ايك اچھى اور مناسب بات ہے _لا تايئسوا من روح اللّه إنه لا يأئيس من روح

۶۲۹

اللّه الا القوم الكافرون

(انه لا يايئسوا ) كا جملہ (لا تايئسوا ...) كے ليے علت واقع ہوا ہے _ حضرت يعقو بعليه‌السلام نے اپنى نصيحت ( رحمت الہى سے مايوس نہ ہونا ) كو بيان كرنے كے ساتھ اسكا انجام ( كفر كے گرداب ميں گرنے) كو بھى بيان كيا_ يہ تمام لوگوں كے ليے مناسب بات ہے كہ اپنى نصيحت و تاكيد يا فرمان كو اس كے انجام كى دليل كے ساتھ بيان كريں _

۱ _عن أبى جعفر(ع) : (يعقوب ) دعا ربه فى السحر أن يهبط عليه ملك الموت فهبط عليه قال يعقوب هل عرض عليك فى الارواح روح يوسف ؟ فقال: لا فعند ذلك علم انه حيّ فقال لولده : '' اذهبوا افتحسسوا من يوسف ...؟'' (۱)

امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے سحر كے وقت دعا كى كہ خدايا ملك الموت كو ميرے پاس بھيج تو وہ زمين پر نازل ہوا تو حضرت يعقوبعليه‌السلام نے سوال كيا كہ ارواح ميں سے حضرت يوسفعليه‌السلام كى روح كو تيرے پاس لايا گيا ہے ؟ اس نے جواب ديا نہيں اس سے حضرت كو معلوم ہوگيا كہ حضرت يوسفعليه‌السلام زندہ ہيں تو اسوقت اپنے بيٹوں كو كہا (اذهبوا فتحسسوا من يوسف .)_

۱۴_عن أبى عبداللّه عليه‌السلام : ( من الكبائر) الاس من روح اللّه ، لان اللّه عزوجل يقول: '' إنه لا ييأس من روح اللّه الاّ القوم الكافرون (۱) امام جعفر صادق سے روايت ہے كہ (گناہ كبيرہ ) ميں سے ايك خداوند متعال سے نااميد ہونا ہے كيونكہ خداوند متعال فرماتاہے (إنه لا ييأس من روح اللّه الا القوم الكافرين )

اللہ تعالي:اللہ تعالى كى رحمت پر اطمينان ۶;اللہ تعالى كى شناخت كے آثار ۱۰ ; اللہ تعالى كى صفات كى شناخت كے آثار ۱۰ ;اللہ تعالى كى مدد پر اطمينان ۶ ; اللہ تعالى كے اختيارات ۹

اللہ تعالى كى مدد :اللہ تعالى كى مدد سے مايوس ہونے والے ۱۱

اميد ركھنا :اللہ تعالى پر اميد ركھنے كے اسباب ۱۰; اللہ تعالى كى رحمت پر اميد ركھنا ۵ ، ۸، ۱۰ ; اللہ تعالى كى مدد پر اميد ركھنا ۵ ، ۸ ، ۱۰

ايمان :ايمان اور عمل ۷;اللہ تعالى كى مدد پر ايمان ۷ ; اللہ تعالى پر ايمان ۷ ; ايمان كے آثار ۸

____________________

۱)تفسير قمى ج۱ ص ۳۵۰ ; تفسير برہان ج۲ ص ۲۶۴ ح ۸_

۶۳۰

بنيامين :بنيامين كى تلاش ۲ ، ۴ ، ۶

رحمت :رحمت سے نااميد ہونا گناہ ہے ۱۴; رحمت سے نااميد لوگ ۱۱

روايت : ۱۳ ، ۱۴

عمل :پسنديدہ عمل ۱۲;عمل كے انجام كا بيان ۱۲

كافرين :كافروں كى خصوصيات ۱۱; كافروں كى نااميدى ۱۱

گناہان كبيرہ : ۱۴

مشكلات :مشكلات كو دور كرنے كا پيش خيمہ ۸ ; مشكلات كو دور كرنے كا سبب ۹

مشورہ :مشورہ بيان كرنے كا طريقہ ۱۲

نصيحت :نصيحت كرنے كا طريقہ ۱۲

نااميدى :نااميدى سے منع كرنا ۴ ، ۵

يعقوب(ع) :يعقوبعليه‌السلام اوربرادران يوسف(ع) ۴ ، ۵ ; يعقوبعليه‌السلام اور بنيامين كا زندہ ہونا ۱ ; يعقوبعليه‌السلام اور بنيامين كى جدائي ۳;يعقوب(ع) اور حضرت يوسفعليه‌السلام كا زندہ ہونا ۱; يعقوبعليه‌السلام كا اطمينان ۶ ;يعقوبعليه‌السلام كا اميد ركھنا ۳ ; يعقوبعليه‌السلام كا قصہ ۲ ، ۳ ، ۴ ; يعقوبعليه‌السلام كا يوسف كے فراق ميں ہونا ۱۳ ;يعقوبعليه‌السلام كى اميديں ۴ ;يعقوبعليه‌السلام كى فكر ۱ ; يعقوبعليه‌السلام كى نصيحتيں ۵ ; يعقوبعليه‌السلام كے اوامر ۲ ; يعقوبعليه‌السلام كے غم كا ختم ہونا ۳

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كى تلاش ۲ ، ۳ ، ۴،۶ ،۱۳; يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۲ ، ۴ ، ۱۳

۶۳۱

آیت ۸۸

( فَلَمَّا دَخَلُواْ عَلَيْهِ قَالُواْ يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُّزْجَاةٍ فَأَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَا إِنَّ اللّهَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِينَ )

اب وہ جو لوگ دوبارہ يوسف كے پاس گئے تو كہنے لگے كہ اے عزيز ہم كو اور ہمارے گھر والوں كو بڑى تكليف ہے اور ہم ايك حقير ہى پونچى لے كر آئے ہيں آپ ہميں پور اپورا غلہ دنے ديں اور ہم پر احسان كريں كہ خدا كار خير كرنے ۲_ والوں كو جزائے خير ديتاہے (۸۸)

۱_ فرزندان يعقوب(ع) ، قحطى كے دوران تيسرى بار مصر آئے اور حضرت يوسفعليه‌السلام كى خدمت ميں پہنچے_

فلما دخلوا عليه

۲ _ خاندان يعقوبعليه‌السلام ، قحطى كے دوران بہت ہى تنگدستى اور رنج الم ميں گرفتار ہوا_قالوا مسّنا و أهلنا انصر

(مس) لمس كرنے اورارتباط كرنے كے معنى ميں ہے _(ضرّ) بہت زيادہ فقر اور سختى كے معنى ميں استعمال ہوتاہے _

۳_ فرزندان يعقوب(ع) نے (حضرت يوسفعليه‌السلام كو) خاندان يعقوب(ع) كى مادى حالت كى خرابى اور معيشت كى سختى كے بارے ميں بتايا_قال ىا أيها العزيز مسّنا و أهلنا الضر و جئنا ببضاعة مزجية

۴_ حضرت يوسف(ع) ، قحطى مصر كے دوران اس علاقے ميں عزيزى كے عہدے پر فائز تھے_قالوا يا أيها العزيز

۵ _ حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں حكومتى عہدوں ميں سے ''عزيزي'' ايك عہدہ تھا_قالوا يا أيها العزيز

۶_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اولاد، اہل و عيال ( بيوي، بچے و غيرہ) ركھتے تھے_مسّنا و أهلنا الضر

(أہل الرجل) بيوى ، بچے اور دوسرے رشتہ داروں كوكہا جاتاہے _

۷_ فرزندان يعقوبعليه‌السلام ، مصركى طرف تيسرے سفر كے دوران اپنى خوراك كے حصے كو خريدنے كے ليے پورى قيمت نہيں ركھتے تھے_و جئنا ببضاعة مزجية فأوف لنا الكيل

(مزجاة) ناچيز اورحقير كے معنى ميں آتاہے _

۶۳۲

۸_فرزندان يعقوب(ع) نے اپنى تنگدستى اوراپنے حصے كو خريدنے كے ليے مناسب مال نہ ركھنے كو بيان كرنے كے ذريعہ حضرت يوسفعليه‌السلام سے عرض كى كہ انكا حصہ كامل طور پر دياجائے_مسّنا و أهلنا الضر و جئنا بيضاعة مزجية فأوف لنا الكيل

۹_ مصر ميں قحطى كے دوران غّلات كے معين حصے كو فروخت كرنااور اس كے مقابلے ميں اسكى قيمت دريافت كرنا ،حضرت يوسفعليه‌السلام كى دائمى سياست تھي_و جئنا ببضاعة مزجية فأوف لنا الكيل

چنانچہ اس سورة كى مذكورہ آيات ۵۹ ، ۶۰ ، ۶۲ اس پر دلالت كرتى ہيں كہ حضرت يوسف(ع) نے خوراك كے ذخيرہ كو حصوں ميں تقسيم كيا ہوا تھا اور لوگوں كو ان كے حصّے دينے كے ساتھ ساتھ ان سے اسكى قيمت بھى وصول كرتے تھے_ اس مورد بحث آيت شريفہ ميں بھى لفظ(كيل) اور جملہ (جئنا ببضاعة مزجاة ) اس بات كى حكايت كرتاہے كہ خوراك كى حصہ بندى اور اس كے مقابلے ميں قيمت وصول كرنے كا پروگرام طولانى مدت گزرنے تك بھى جارى و سارى رہا_

۱۰_حضرت يوسفعليه‌السلام تنگدست اور فقراء لوگوں سے خوراك كے حصے كى قيمت وصول نہيں كرتے تھے_

مسّنا و أهلنا و جئنا ببضاعة مزجاة فأوف لنا الكيل

اس جملہ (أوف لنا الكيل ) ميں فاء تفريع ہے جو جملہ (مسّنا و أهلنا الضر ...) كى تفريع ہے اس سے مذكورہ بالا معنى حاصل كيا گيا ہے _

۱۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام ،بيت المال كے تصرّ ف كرنے اور ذخيرہ شدہ خوراك بخشش و عطا كرنے ميں خصوصى اختيارات كے حامل تھے_و جئنا ببضاعة مزجاة لنا الكيل و تصدق علين

۱۲_ فرزندان يعقوبعليه‌السلام نے حضرت يوسفعليه‌السلام سے درخواست كى كہ انكے بھائي بنيامين كو انہيں واپس لوٹا ديں _

و تصدق علين

فرزندان يعقوبعليه‌السلام كى عطيہ مانگنے كى جو درخواست تھى وہ كس شے كے بارے ميں تھى اسميں تين احتمالات ہيں _

۶۳۳

۱_بنيامين مراد ہيں جو ظاہراً حضرت يوسفعليه‌السلام كى ملكيت ميں تھے_۲_ ممكن ہے خوراك كے حصے ميں اضافہ كى درخواست ہو_۳_ خوراك كا وہى مخصوص حصہ ليكن بغيركسى عوض و قيمت كے _ مذكورہ تفسير پہلے احتمال كو ملحوظ خاطر ركھتے ہوئے ہے _

۱۳_ فرزندان يعقوبعليه‌السلام كے نزديك خوراك كو دريافت كرنا حضرت يوسفعليه‌السلام كى تلاش و دريافت اور بنيامين كى واپسى سے زيادہ اہميت كا حامل تھا_يا أيها العزيز مسّنا و أهلنا الضر فأوف لنا الكيل و تصدق علين

فرزندان يعقوبعليه‌السلام حضرت يعقوب(ع) كے حكم پر مصر ميں آئے تا كہ حضرت يوسفعليه‌السلام كے بارے ميں كوئي اطلاع حاصل كريں اور بنيامين كو واپس لائيں ليكن انہوں نے اس سے پہلے اپنے فقر و تنگدستى كا ذكر كيا اور خوراك كے حصے كا مطالبہ كيا_ مذكورہ بالا معنى ہم اس سے سمجھ سكتے ہيں _

۱۴_ برادران يوسفعليه‌السلام نے خاندان يعقوب(ع) كى معاشى زندگى كى سختى كى وجہ سے ان سے درخواست كى كہ ہمارے سال كے خوراكى حصے كو زيادہ كركے غلات سے ہميں ديا جائے_مسنا و أهلنا الضر فأوف لنا الكيل و تصدق علين

۱۵_انبياء كى اولاد اور خاندان كو صدقہ ديناجائز اور نيك كام ہے _و تصدق علينا إن اللّه يجزى المتصدقين

(تصدق) صدقہ دينے كے معنى ميں ہے (صدقہ ) كا معنى جس طرح كشاف ميں ذكر ہوا ہے ايسا عطيہ اور بخشش ہے جس سے ثواب حاصل كرنا مقصود ہوتاہے_

۱۶_مستحقين اور حاجتمندوں كو صدقہ دينا مستحب ہے _مسّنا و أهلنا الضر إن اللّه يجزى المتصدقين

۱۷_ خداوند متعال صدقہ دينے والوں كو اجر عطا كرے گا_إن الله يجزى المتصدقين

۱۸_ فرزندان يعقوبعليه‌السلام كى نظر ميں عزيز مصر (يوسف(ع) ) خدا كى معرفت ، خير خواہ، اور جو د و كرم ركھنے والا حاكم تھا_

فأوف لنا الكيل و تصدق علينا إن اللّه يجزى المتصدقين

۱۹_ برادران يوسف(ع) نے مصركى طرف اپنے تيسرے سفر كے دوران حضرت يوسفعليه‌السلام كے سامنے اپنے فقر اور تنگدستى كى شكايت كرنے كے ساتھ ساتھ اپنى ذلت و ضعف كا اظہار كيا _

مسّنا و أهلنا الضر و تصدق علينا إن اللّه يجزى المتصدقين

۲۰_''عن ابى الحسن الهادى عليه‌السلام ... لما مات العزيز إفتقرت إمرأة العزيز و احتاجت حتى سألت الناس فقالوا: ما يضرّك لو قعدت للعزيز و كان يوسف يسمى

۶۳۴

العزيز(خ _ ل_ و كل ملك كان لهم سمى بهذا الاسم) فقامت اليه و قالت : سبحان من جعل العبيد بالطاعة ملوكاً (۱)

امام ہادىعليه‌السلام سے روايت ہے عزيز مصر كے مرنے كے بعد اسكى بيوى ( زليخا) فقير اور محتاج ہوگئي يہاں تك كہ لوگوں سے مدد كى درخواست كرتى تھى پھر لوگوں نے اسے كہا تيرے ليے كيا پريشانى ہے كہ عزيز مصر كے راستے ميں بيٹھ جاؤ (اور اس سے مدد طلب كرو)حضرت يوسفعليه‌السلام كو اس زمانے ميں عزيز مصر كے نام سے ياد كيا جاتا تھا ( ہر بادشاہ جو مصر كے لوگوں پر حكومت كرتا تھا اسكو عزيز كے نام سے ياد كيا جاتا تھا)

پس سابق عزيز مصر كى بيوى حضرت يوسفعليه‌السلام كے راستے پركھڑى ہوگئي اوراس نے كہا: پاك ہے وہ خدا جو غلاموں كو اپنى اطاعت كے سبب بادشاہى عطا كرتاہے_

۲۱ _عن احمد بن محمد عن أبى الحسن الرضا عليه‌السلام قال: سئلته عن قوله '' و جئنا ببضاعة مزجاة '' قال: المقل (۲)

احمد بن محمد كہتاہے: ميں نے امام رضاعليه‌السلام سے اس قول خدا كے بارے سوال كيا كہ جسميں (فرزندان يعقوب نے كہا تھا )'' و جئنا ببضاعة مزجاة'' تو حضرتعليه‌السلام نے جواب فرمايا: اس سرمايہ) سے مراد (مقل )(۳) تھا_

آل يعقوبعليه‌السلام :آل يعقوب قحطى كے دوران ۲ ; آل يعقوبعليه‌السلام كا فقر ۲ ، ۳; آل يعقوبعليه‌السلام كا مبتلا ہونا ۲ ; آل يعقوب كى تاريخ ۲ ; آل يعقوب كے دكھ ۲

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى جزائيں ۱۷

احكام : ۱۵ ، ۱۶

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام كے رشتہ داروں كو صدقہ دينا ۱۵; ابنياءعليه‌السلام كى اولاد كو صدقہ دينا ۱۵

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسفعليه‌السلام اور بنيامين كى واپسى ۱۳ ;برادران يوسفعليه‌السلام اور غلّہ كا دريافت كرنا ۱۳; برادران يوسفعليه‌السلام اور يوسف ۳ ، ۸ ، ۱۲ ، ۱۴ ، ۱۸ ، ۱۹;برادران يوسفعليه‌السلام اور يوسفعليه‌السلام كى تلاش ۱۳ ;برادران يوسف(ع) كا حصہ ۸ ،۱۴ ;برادران يوسف(ع)

____________________

۱)تفسيرقمى ج۱ ص ۳۵۷; نورالثقلين ج/ ۲ ص ۴۷۲ ح ۲۱۸_۲)تفسير عياشى ج۲ ص ۱۹۲ ، ح ۶۷ ; نورالثقلين ج۲ ص ۴۵۸ ح ۱۵۷_

۳)مقل لغت ميں پھل يا درخت كے شيرہ كو كہا جاتاہے جو دوا و غيرہ ميں استعمال ہوتاہے اگر چہ اس كے اور بھى مختلف معانى ذكر كيئےئے ہيں _

۶۳۵

كا فقر ۷ ، ۸ ، ۱۴ ، ۱۹ ; برادران يوسف(ع) كا گلا شكوہ ۱۹ ; برادران يوسفعليه‌السلام كا مال تجارت ۲۱; برادران يوسفعليه‌السلام كا مصر ميں تيسرا سفر ۱ ،۷،۱۹ ;برادران يوسفعليه‌السلام كى خواہشات ۸ ، ۱۲ ، ۱۴; برادران يوسفعليه‌السلام كى دنيا طلبى ۱۳ ; برادران يوسف(ع) كى ذلت ۱۹;برادران يوسف كى فكر ۱۸ ;برادران يوسفعليه‌السلام كى يوسفعليه‌السلام كو رپورٹ دينا ۳ ; برادران يوسف(ع) كے اہل و عيال ۶; برادران يوسفعليه‌السلام كے تجارتى مال كا بے قيمتى ہونا ۷

بضاعة مزجات:بضاعة مزجات سے مراد ۲۱

روايت : ۲۰ ، ۲۱

زليخا :زليخا كا انجام ۲۰

صدقہ :صدقہ دينے والوں كى جزا ء ۱۷ ;صدقہ كے احكام ۱۵ ، ۱۶; صدقہ كے مصارف ۱۵

غلاّت :حضرت يوسفعليه‌السلام (ع) كے زمانہ ميں غلات كى راشن بندى ۹ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں غلات كى فروخت ۹

فقراء :فقراء كو صدقہ دينا ۱۶

قديمى مصر :قديمى مصر ميں حكومت كا نظام ۵

مستحبات ۱۶

ہبہ :ہبہ و بخشش كى درخواست كرنا ۱۴

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام اور بيت المال ۱ ۱; حضرت يوسفعليه‌السلام اور فقراء ۱۰;حضرت يوسفعليه‌السلام عزيزى كے دوران ۵; حضرت يوسفعليه‌السلام قحطى كے دوران ۴ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۳،۴ ، ۷، ۸ ، ۹ ، ۱۰ ، ۱۱ ، ۱۲ ، ۱۳ ، ۱۴ ، ۱۸ ، ۱۹ ، ۲۰;حضرت يوسفعليه‌السلام كى خير خواہى ۱۸ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كى سخاوت ۱۱ ، ۱۸ ;حضرت يوسفعليه‌السلام كى عزيز ي۴ ، ۲۰ ;حضرت يوسفعليه‌السلام كے اختيارات كى حدود ۱۱ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كے اقتصادى پروگرام ۹ ،۱۰

۶۳۶

آیت ۸۹

( قَالَ هَلْ عَلِمْتُم مَّا فَعَلْتُم بِيُوسُفَ وَأَخِيهِ إِذْ أَنتُمْ جَاهِلُونَ )

اس نے كہا كہ تمھيں معلوم ہے كہ تم نے يوسف اور ان كے بھائي كے ساتھ كيا برتائو كيا ہے جب كہ تم بالكل جاہل تھے (۸۹)

۱ _ عزيز مصر نے جب فرزندان يعقوبعليه‌السلام كى ذلت و خوارى كا مشاہدہ كيا توانہيں كنعان كے كنويں ميں حضرت يوسفعليه‌السلام كو چھوڑنے كے قصے كو ياد دلوايا _قال هل علمتم ما فعلتم بيوسف و أخيه

( ما فعلتم بيوسف ) كے جملے سے مراد يا اس كا مصداق حضرت يوسف(ع) كو كنعان كے كنويں ميں چھوڑنا ہے گويا اس سے مراد وہى ہے جسكو خالق كائنات نے اسى سورة كى آيت ۱۵ ميں ذكر كيا ہے اور اس طرح فرمايا: بے شك اس واقعہ ( كنويں كا قصہ ) كو آئندہ ان كو تم بيا ن كرو گئے (حالانكہ وہ آپ كو نہيں پہچانتے ہوں گئے)_

۲ _ بنيامين ، حضرت يوسفعليه‌السلام كا پدرى و مادرى بھائي حضرت يوسفعليه‌السلام كى طرح اپنے بھائيوں كى اذيت و آزارسے دوچار تھا_قال هل علمتم ما فعلتم بيوسف و اخيه

۳ _ بنيامين نے اپنے بھائيوں كے نامناسب رويہ اور اذيت رسانى كى حضرت يوسفعليه‌السلام كے سامنے وضاحت كى تھى _

هل علمتم ما فعلتم بيوسف و أخيه إذ أنتم جاهلون

(ما فعلتم بيوسف و أخيه ) كے جملہ سے يہ معلوم ہوتاہے كہ فرزندان يعقوب(ع) نے بنيامين كو بھى اذيت دى تھى اور حضرت يوسف(ع) كو اس كى اطلاع تھى ظاہراً حضرت يوسفعليه‌السلام بنيامين كے ذريعہ اس سے مطلع ہوئے تھے_

۴_ حضرت يوسفعليه‌السلام اور بنيامين كى آپس ميں جدائي كى داستان دونوں بھائيوں كے ليے بہت سخت اور غمگين داستان تھي_هل علمتم ما فعلتم بيوسف و اخيه

(ما) عبارت( ما فعلتم بيوسف و أخيہ ) ميں ممكن ہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام اور بنيامين كى جدائيكے رنج و الم كى طرف اشارہ ہو_

۵ _ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں كى جہالت اور

۶۳۷

نادانى كو اپنے اور نبيامين پر ظلم و ستم كرنے كا سبب سمجھا _هل علمتم ما فعلتم بيوسف و أخيه إذ أنتم جاهلون

۶_برادران يوسفعليه‌السلام حضرت يوسفعليه‌السلام كو كنعان كے كنويں ميں ڈالتے وقت بے عقلى اور جہالت ميں گرفتار تھے_

هل علمتم ما فعلتم بيوسف و أخيه اذا انتم جاهلون

۷_گناہوں كے ارتكاب اور ستمگرى كا سرچشمہ، جہالت ہے _هل علمتم ما فعلتم بيوسف و أخيه إذأنتم جاهلون

۸_برادران يوسف(ع) نے اپنى زندگى كا ايك حصّہ گزارنے كے بعد بنيامين كو آزار و اذيت دينے سے ہاتھ كھينچ ليا تھا_

هل علتم ما فعلتم بيوسف و أخيه إذ انتم جاهلون

(إذ أنتم جاہلون) كا جملہ چونكہ (فعلتم ) كے ليے ظرف ہے تو اس فعل كے زمانہ كو برادران يوسفعليه‌السلام كى جاہليت اور نادانى كے زمانہ كے ساتھ مقيد كررہا ہے اور يہ بات اس مفہوم كو بتاتى ہے كہ اس زمانے كے بعد بنيامين كے ساتھ انكا برتاؤ نامناسب نہيں تھا_حكم و موضوع اور طبيعت حال كى مناسبت، اس احتمال كو ذہن ميں لاتى ہے كہ وہ زمانہ ان كى جدائي كا زمانہ تھا_

۹_حضرت يوسف(ع) نے اپنے بھائيوں كے غلط رويہ پر اعتراض كرنے كے ساتھ ساتھ ان كى غلطى كى وجہ (جہالت و نادانى ) بھى انہيں آگاہ كرديا_اذ أنتم جاهلون

حضرت يوسفعليه‌السلام كا اپنے بھائيوں كے غلط رويہ كو ان كى جہالت كے زمانے(إذ أنتم جاہلون) كے ساتھ منسوب كرنا اس معنى كى طرف اشارہ كر رہا ہے كہ ميں تم كو بے قصور سمجھتا ہوں كيونكہ تم اس زمانے ميں اس غلطى كے مرتكب ہوئے ہو جب تم نادان و بے وقوف تھے_

۱۰_حضرت يوسف عفو ودرگذر ، مرد مجاہد اورانتقام نہ لينے والے انسان تھے_هل علمتم ما فعلتم بيوسف و أخيه إذ انتم جاهلون

۱۱_ برادران يوسفعليه‌السلام كى ان كے سامنے ذلت و خوارى ان كے ظلم و ستم كا نتيجہ تھا_تصدق علينا هل علمتم ما فعلتم بيوسف و أخيه

حضرت يوسفعليه‌السلام كا اپنے بھائيوں كے ذلت و خوارى كے اظہاركے جواب ميں ان كے ظلم و ستم كو ياد دلوانے كا مقصد يہ تھا كہ حضرت يوسفعليه‌السلام يہ بتانا چاہتے تھے كہ آج ميرے بھائيوں كا ميرے سامنے ذليل و خوار ہوكر آنا اس ظلم و ستم كا نتيجہ ہے جو كل انہوں نے مجھ پر روا ركھا تھا_

۶۳۸

۱۲_عن أبى عبداللّه عليه‌السلام ... كل ذنب عمله العبد وإن كان به عالماً فهو جاهل حين خاطر بنفسه فى معصيته ربه، و قد قال فى ذلك تبارك و تعالى يحكى قول يوسف لإخوته '' هل علمتم ما فعلتم بيوسف و اخيه إذ إنتم جاهلون'' فنسبهم إلى الجهل لمخاطرتهم با نفسهم فى معصيته اللّه (۱) حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے : جو شخص كسى گناہ كو انجام ديتا ہے اگر چہ وہ اس كے گناہ ہونے كو جانتا ہووہ نادانہے كيونكہ اس نے خود كو معصيت الہى كے ذريعہ خطرہ سے دوچار كياہے اسى وجہ سے خداوند تبارك و تعالى اسى مورد كو بيان كرتے ہوئے يوسف(ع) كے اس قول كو جو انكے بھائيوں كے ليے تھا يوں بيان فرمايا ہے'' هل علمتم ما فعلتم بيوسف و أخيه إذ أنتم جاهلون'' امامعليه‌السلام نے فرمايا: حضرت يوسفعليه‌السلام نے ان كى طرف بے وقوفى و نادانى كى نسبت دى كيونكہ انہوں نے اپنے آپ كو معصيت الہى كےذريعہ خطرہ ميں ڈال ديا تھا_

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسف اور بنيامين ۲ ، ۱۸ ; برادران يوسفعليه‌السلام اور يوسفعليه‌السلام ۲ ; برادران يوسفعليه‌السلام پر اعتراض ۹ ;برادران يوسف(ع) كا ناپسنديدہ عمل ۹;برادران يوسفعليه‌السلام كى اذيتيں ۲ ، ۳ ،۸ ;برداران يوسف كى ذلّت ۱۱;برادران يوسف(ع) كى جہالت كے آثار ۵; برادران يوسف(ع) كى جہالت ۶،۱۲۹;برادران يوسفعليه‌السلام كے ظلم كا سبب ۵;برادران يوسفعليه‌السلام كے ظلم كے آثار ۱۱

بنيامين :بنيامين اور يوسفعليه‌السلام ۳ ; بنيامين پر ظلم ۵;بنيامين كو اذيت دينا ۲ ، ۳ ، ۱۸ ; بنيامين كى يوسفعليه‌السلام سے جدائي ۴; بنيامين كے دكھ و درد ۴

جہل:جہالت كے آثار۷

روايت : ۱۲//ظلم :ظلم كاسبب ۷

گناہ :گناہ كا سبب ۷

گناہگار :گناہگاروں كى جہالت ۱۲

ياددہاني:برادران يوسفعليه‌السلام كو ياد دہاني۱; يوسفعليه‌السلام كو كنويں ميں ڈالنے كى ياد دہانى ۱

يوسفعليه‌السلام :

____________________

۱)تفسير عياشى ج۱ ص ۲۲۸ ; ح ۶۲ ; نفسير برہان ج۱ ص ۳۵۴ ح ۶_

۶۳۹

حضرت يوسفعليه‌السلام اور انكے بھائي ۱ ، ۹،۱۲; حضرت يوسفعليه‌السلام بنيامين كے فراق ميں ۴ ; حضرت يوسفعليه‌السلام پر اعتراض ۹ ;حضرت يوسفعليه‌السلام پر ظلم ۵ ،۱۱; حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۳ ، ۴ ، ۶،۸ ، ۹ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا معاف كرنا ۱ ;يوسفعليه‌السلام كو اذيت ۲;حضرت يوسفعليه‌السلام كى جرات ۱۰ ;حضرت يوسفعليه‌السلام كى فكر ۵; حضرت يوسف كے دكھ ۴ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۱۰ ; يوسفعليه‌السلام كے مادرى و پدريبھائي ۲

آیت ۹۰

( قَالُواْ أَإِنَّكَ لَأَنتَ يُوسُفُ قَالَ أَنَاْ يُوسُفُ وَهَـذَا أَخِي قَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَيْنَا إِنَّهُ مَن يَتَّقِ وَيِصْبِرْ فَإِنَّ اللّهَ لاَ يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ )

ان لوگوں نے كہا كيا آپ ہى يوسف ہيں ؟انھوں نے كہا كہ بيشك ميں يوسف ہوں اور يہ ميرا بھائي ہے _اللہ نے ہمارے اوپر احسان كيا ہے اور جو كوئي بھى تقوى اور صبر اختيار كرتاہے اللہ نيك عمل كرنے والوں كے اجر كو ضائع نہيں كرتاہے (۹۰)

۱ _ فرزندان يعقوبعليه‌السلام نے عزيز مصر كى اس بات سے (كہ تم نے يوسفعليه‌السلام اور اس كے بھائي كے ساتھ كيا سلوك رواركھا) پہچان ليا كہ وہ انكابھائي يوسفعليه‌السلام ہے _هل علمتم ما فعلتم بيوسف قالوا إنك لا نت يوسف

(أنك ...) كے جملے ميں چار تاكيديں موجود ہيں _ جملہ اسميہ ہے ، حرف تاكيد ''ان'' اور لام تاكيد اور ضميرفصل (أنت) ہے _ يہ تمام تاكيدات اس بات سے حكايت ہيں كہ برداران يوسف(ع) كويہ اطمينان حاصل ہو گيا تھا كہ ان كا مخاطب حضرت يوسف(ع) ہى ہيں _

۲ _ فرزندان يعقوبعليه‌السلام كا اس بات پر تعجب اور حيرت زدہ ہوناكہ عزيز مصر ،ان كا بھائي يوسفعليه‌السلام ہے_

قالوا أونك لانت يوسف

باوجود اس كے كہ برادران يوسفعليه‌السلام اس بات پر مطمئن تھے كہ عزيز مصر وہى يوسف ہے انہوں نے اپنے جملے كو استفہام تقريرى كے ساتھ بيان كيا اور حضرتعليه‌السلام سے چاہا كہ وہ اقرار كريں كہ (ميں يوسف ہوں ) اس سے معلوم ہوتاہے كہ وہ حيرت زدہ اور تعجب ميں تھے يعنى مطمئن ہونے كے باوجود نا يقينى سى كيفيت تھي_

۶۴۰

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945

946

947

948

949

950

951

952

953

954

955

956

957

958

959

960

961

962

963

964

965

966

967

968

969

970

971