تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 8%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 206728 / ڈاؤنلوڈ: 4276
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۸

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

ہوشیار: سفیانی کی احادیث کو عامہ و خاصہ دونوں نے نقل کیا ہے بعید نہیں ہے کہ متواتر ہوں _ صرف احتمال اور ایک مدعی کے وجود سے باطل نہیں قرار دیا جا سکتا ہے اور جعلی نہیں کہا جا سکتا ہے _ بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ لوگوں کے درمیان حدیث سفیانی شہرت یافتہ تھی اور لوگ اس کے منتظر تھے بعض لوگوں نے اس سے غلط فائدہ اٹھایا اور خروج کرکے کہنے لگے : ہم ہی سفیانی منتظر ہیں اور اس طرح ایک گروہ کو فریفتہ کرلیا _

۲۸۱

دجال کا واقعہ

جلالی: دجال کے خروج کو بھی ظہور کی علامتوں میں شمار کیا جاتا تھا اور اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کافر ہے ، ایک چشم ہے ، وہ بھی پیشانی کے بیچ میں سے ، ستارہ کی مانند چمکتی ہے _ اس کی پیشانی پر لکھا ہے ''یہ کافر ہے '' اس طرح کہ پڑھا لکھا اور ان پڑھ سب اسے پڑھ سکیں گے _ کھانے کے ( پہاڑ) ہوٹل اور پانی کی نہر ہمیشہ اس کے ساتھ ہوگی ، سفید خچر پر سوار ہوگا _ ہر ایک قدم میں ایک میل کا راستہ طے کرے گا _ اس کے حکم سے آسمان بارش برسائے گا ، زمین گلہ اگائے گی _ زمین کے خزانے اس کے اختیار میں ہوں گے _ مردوں کو زندہ کرے گا _'' میں تمہارا بڑا خدا ہوں ، میں ہی نے تمہیں پیدا کیا ہے اور میں ہی روزی دیتا ہوں ، میری طرف دوڑو '' یہ جملہ اتنی بلند آوازمیں کہے گا کہ سارا جہان سنے گا _

کہتے ہیں رسول کے زمانہ میں بھی تھا ، اس کا نام عبداللہ یا صائدبن صید ہے ، رسول اکرم (ص) اور آپ(ص) کے اصحاب اسے دیکھنے اس کے گھر گئے تھے _ وہ اپنی خدائی کا دعوی کرتا تھا _ عمر اسے قتل کرنا چاہتے تھے لیکن پیغمبر (ص) نے منع کردیا تھا _ ابھی تک زندہ ہے _ اور آخری زمانہ میں اصفہان کے مضافات میں سے یہودیوں کے گاؤں سے خروج کریگا _(۱)

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۹۳ ، صحیح مسلم ج ۸ ، ص ۴۶ تا ص ۸۷ ، سنن ابی داؤد ج ۲ ص ۲۱۲_

۲۸۲

علما نے تمیم الدا می سے ، جو کہ پہلے نصرانی تھا اورسنہ ۹ ھ میں مسلمان ہوا تھا ، سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا : میں نے مغرب کے ایک جز یرہ میں دجال کو دیکھا ہے کہ زنجیر و در غل میں تھا(۱)

ھوشیار : انگریزی میں دجال کو انٹی کرایسٹ ( antlchrlst ) کہتے ہیں یعنی مسیح کا دشمن یا مخالف _ دجال کسی مخصوص و معین شخص کا نام نہیں ہے بلکہ لغت عرب میںہر دروغ گو اور حیلہ باز کو دجال کہتے ہیں _ انجیل میں بھی لفظ دجال بہت استعمال ہوا ہے _

یو حنا کے پہلے رسالہ میں لکھا ہے : جو عیسی کے مسیح ہوتے کا انکار کرتا ہے ، دروغگو اور دجال ہے کہ با پ بیٹے کا انکار کرتا ہے(۲)

اسی رسالہ میں لکھا ہے : تم تھ سنا ہے کہ دجال آئے گا ، آج بہت سے دجال پیدا ہوگئے ہیں مذکورہ رسالہ میں پھر لکھتے میں ، وہ ہراس روج کا انکار کرتے ہیں جو عیسی میں مجسم ہوئی تھی اور کہتے ہیں وہ روح خدانہیں تھی _ یہ و ہی روح دجال ہے جس کے بارے میں تم نے سنا ہے کہ وہ آئے گا وہ اب بھی دنیا میں موجود ہے(۳)

یوحنا کے دوسرے رسالہ میں لکھا ہے چونکہ گمراہ کرنے والے دنیا میں بہت زیادہ ہوگئے ہیں کہ جسم میں ظاہر ہوتے والے عیسی مسیح کا اقرار نہیں کرتے ہیں

____________________

۱_ صحیح مسلم ج ۱۸ ص ۷۹ ، سنن ابی داؤدج ۳ ص ۳۱۴

۲_ رسالہ یوحنا باب ۲ آیت ۲۲

۳ _ رسالہ اول باب ۲ آیت ۱۸

۲۸۳

یہ ہیں گمراہ کرنے والے دجال_(۱)

انجیل کی آتیوں سے سمجھ میں آتا ہے کہ دجال کے معنی گمراہ کرنے والے اور دروغگو ہیں _ نیز عیاں ہوتا ہے کہ دجال کا خروج ، اس کا زندہ رہنا اس زمانہ میں بھی نصاری کے در میان مشہور تھا اور وہ اس کے خروج کے منتظر تھے _

ظاہرا حضرت عیسی نے بھی لوگوں کو دجال کے خروج کی خبردی تھی اور اس کے فتنہ سے ڈرایا تھا _ اسی لئے نصاری اس کے منتظر تھے اور قوی احتمال ہے کہ حضرت عیسی نے جس دجال کے بارے میں خبردی تھی ، وہ دجال ودروغگو حضرت عیسی کے پانچ سو سال بعد ظاہر ہواتھا اور اپنی پیغمبر ی کا جھوٹا دعوی کیا تھا _ اسی کو دار پرچڑ ھا یا گیا تھانہ عیسی نبی کو _(۲)

دجال کے وجود سے متعلق مسلمانوں کی احادیث کی کتابوں میں احادیث موجود ہیں پیغمبر اسلام (ع) لوگوں کو دجال سے ڈراتے تھے اور اس کے فتنہ کو گوش گزار کرتے تھے اور فرماتے تھے :

حضرت نوح کے بعد مبعوث ہونے والے تمام پیغمبر اپنی قوم کو دجال کے فتنہ سے ڈرا تے تھے(۳)

رسول (ع) کا ارشاد ہے : اسی وقت تک قیامت نہیں آئے گی جب تک

____________________

۱ _صحیح مسلم ج ۱۸ ص ۷۹ ، سنن ابی داؤد ج ۳

۲ _رسالہ دوم یوحنا آیت ۷

۳ _ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۹۷

۲۸۴

تیس دجال ، جو کہ خود کو پیغمبر سمجھتے ہیں ، ظاہر نہیں ہوں گے _(۱)

حضرت علی(ع) کا ارشاد ہے :

اولاد فاطمہ سے پیدا ہونے والے دو دجالوں سے بچتے رہنا ، ایک دجال وہ جو دجلہ بصرہ سے خروج کرے گاوہ مجھ سے نہیں ہے وہ دجال(۲) کا مقدمہ ہے _

رسول(ع) کا ارشاد ہے :

اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی جب تک تیس دروغگو دجال ظاہر نہ ہوں گے اور وہ خدا اور اس کے رسول پر جھوٹ باند ھیں گے(۳)

آپ (ع) ہی کا ارشاد ہے :

دجال کے خروج سے قبل ستر سے زیادہ و دجال ظاہر ہوں گے(۴)

مذکورہ احادیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دجال کسی معین و مخصوص شخص کا نام نہیں ہے بلکہ ہر دروغگو اور گمراہ کرنے والے کو دجال کہا جا تا ہے _

مختصر یہ کہ دجال کے قصہ کو کتاب مقدس اور نصاری کے در میان تلاش کیا جا سکتا ہے اس کے علاوہ اس کی تفصیل اور احادیث اہل سنت کی کتابوں میں ان ہی طریق سے نقل ہوئی ہیں _

____________________

۱ _ سنن ابی داؤد ج ۲

۲ _ ترجمہ الحلاحم والفتن ص ۱۱۳

۳_ سنن ابی داؤد ج ۲

۴_ مجمع الزواید ج ۷ ص ۳۳۳

۲۸۵

بہرحال اجمالی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کا صحیح ہونا بعید نہیں ہے لیکن اس کی جو تعریف و توصیف کی گئی ہے _ ان کا کوئی قابل اعتماد مدرک نہیں ہے(۱)

دجال کا اصلی قضیہ اگر چہ صحیح ہے لیکن یہ بات بلا خوف و تردید کہی جا سکتی ہے افسانوں کی آمیزش سے اس کس حقیقی صورت مسخ ہوگئی ہے _ یہ کہا جاسکتا ہے کہ امام زمانہ کے ظہور کے وقت آخری زمانہ میں ایک شخص پیدا ہوگا جو فریب کار او ر حیلہ سازی میں سب سے آگے ہوگا اور دورغگوئی میں گزشتہ دجالوں سے بازی لے جائے گا ، اپنے جھوٹے اور رکیک دعوؤں سے غافل رہیں گے اور یہ سمجھیں گے کہ زمیں و آسمان اس کے ہا تھ میںہیں ، اتنا جھوٹ بولے گا کہ اچھائی کو برائی اور برائی کو اچھائی و نیکی ثابت کرے گا بہشت کو جہنّم اور جہنم کو جنت بنا کرپیش کرے گا لیکن اس کا کفر تعلیم یافتہ اوران پڑ ھہ لوگوں پرواضح ہے _

اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ صائد بن صید دجال ، رسول (ص) کے زمانہ سے آج تک زندہ ہے _ کیونکہ حدیث کی سند ضعیف ہے اس کے علاوہ پیغمبر اسلام کا قول ہے کہ دجال مکہ اور مدینہ میں داخل نہیں ہوگا جبکہ صائد بن صید ان دونوں میں داخل ہوا اور مدینہ میں مرا چنانچہ ایک جماعت اس کی موت کی گواہ ہے _ بالفرض پیغمبر (ص) اکرم نے صائد بن صید کو اگر دجال کہا تھا تو وہ دروغگو کے معنی میں کہا تھا نہ کہ علائم ظہور والا دجال کہا تھا _ بعبارت دیگر پیغمبر اسلام نے صائد بن صید سے ملاقات کی اور اپنے

____________________

۱_ کیونکہ اس کا مدرک وہ حدیث ہے جو بحار الانوار میں نقل ہوی اور اس کی سند میں محمد بن عمر بن عثمان ہے جو کہ مجہول الحال ہے _

۲۸۶

اصحاب میں سے اسے دجال کا مصداق قرار دیا اور چونکہ بعد والے زمانہ میں دجال کے خروج کی خبر دی تھی اس لئے دونوں موضوعات میں اشتباہ ہوگیا اور لوگ یہ سمجھ بیٹھے کہ پیغمبر (ص) نے صائد کو دجال کہا ہے لہذا یہی آخری زمانہ میں خروج کرے گا اور اسی سے انہوں نے اس کی طول حیات کا نتیجہ بھی اخذ کرلیا ہے _

۲۸۷

دنیا والوں کے افکار

مقررہ وقت پر جلسہ شروع ہو ا ڈاکٹر صاحب نے اس طرح سوال اٹھایا:

ڈاکٹر : انسانوں کے درمیان ان تما م رایوں اور عقائد کے اختلاف اور دیگر اختلافی مسائل کے باوجود یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے پور دنیا کا نظم و نسق ایک حکومت کے اختیار میں ہوگا اور روئے زمین پر صرف مہدی کی حکومت ہوگی ؟

ہوشیار: اگر دنیا کے عمومی حالات اور انسان کی عقل و ادراکات کی یہی حالت رہی تو ایک عالمی حکومت کی تشکیل بہت مشکل ہے _ لیکن جیسا کہ گزشتہ زمانہ میں انسان کا تمدن و تعقل اور سطح معلومات وہ نہیں تھی جو آج ہے بلکہ اس منزل پر وہ مرور زمانہ اور حوادث و انقلاب زمانہ کے بعد پہنچا ہے _ لہذا وہ اس سطح پر بھی نہیں رکے گا _

بلکہ یقین کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ انسان کی معلومات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور مستقبل میں تعلق و تمدن اور اجتماعی مصالح کے درک میں وہ اور زیادہ ترقی کرے گا _ اپنے مدعا کے اثبات کے لئے ہم گزشتہ زمانے کے انسان کے حالات کا تجزیہ کرتے ہیں تا کہ مستقبل کے بارے میں فیصلہ کر سکیں _

یہ بات اپنی جگہ ثابت ہو چکی ہے کہ خودخواہی اور منفعت طلبی طبیعی چیز ہے اور اسی کسب کمال سعادت طلبی اور حصول منفعت کے جذبہ نے انسان کو کوشش

۲۸۸

و جانفشانی پر ابھارا ہے _ منفعت حاصل کرنے کے لئے ہر انسان اپنی طاقت کے طاقت کو شش کرتا ہے اور اس راہ کے موانفع کو برطرف کرتا ہے لیکن دوسروں کے فائد کے بارے میں غور نہیں کرتا _ ہاں جب دوسروں کے منافع سے اپنے مفادات وابستہ دیکھتا ہے تو ان کا بھی لحاظ کرتا ہے اور اپنے کچھ فوائد بھی ان پر قربان کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے _ شاید اولین بار انسان خودخواہی کے زینہ سے اتر کر دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے شادی کے وقت تیار ہوتا ہے کیونکہ مرد و عورت یہ احساس کرتے ہیں کہ دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے اور اسی احتیاج کے احساس نے مرد و عورت کے درمیان ازدواجی رشتہ قائم کیا ہے _ چنانچہ دونوں اس کو مستحکم بنانے کے سلسلہ میں خودخواہی کو اعتدال پر لانے اور دوسرں کے فوائد کو ملحوظ رکھنے کے لئے مجبور ہوتے _ مردو عورت کے یک جا ہونے سے خاندان کی تشکیل ہوئی _ حقیقت ہے کہ خاندان کے ہر فرد کا مقصد اپنی سعادت و کمال کی تحصیل ہے لیکن چونکہ ان میں سے ہر ایک نے اس بات کو محسوس کرلیا ہے کہ اس کی سعادت خاندان کے تمام افراد سے مربوط ہے اس لئے وہ ان کی سعادت کا بھی متمنی ہوتا ہے اور اس کے اندر تعاون کا جذبہ قوی ہوتا ہے _

انسان نے مدتوں خانوادگی اور خانہ بدوشی کی زندگی بسر کی اور رونما ہونے والے حوادث و جنگ سے مختلف خاندانوں کے انکار نے ترقی کی اور انہوں نے اس بات کا احساس کیا کہ سعادت مندی اور دشمنوں سے نمٹنے کے لئے اس سے بڑے معاشرہ کی تشکیل ضروری ہے _ اس فکر کی ترقی اور ضرورت کے احساس سے طائفے اور قبیلے وجود میں آئے اور قبیلے کے افراد تمام افراد کے منافع کو ملحوظ رکھنے کے لئے تیار ہوگئے

۲۸۹

اور اپنے ذاتی و خاندانی بعض منافع کو قربان کرنے کیلئے بھی آمادہ ہوگئے _ اسی فکر ارتقاء اور ضرورت کے احساس نے انسان کو طول تاریخ میں ایک ساتھ زندگی بسر کرنے پر ابھار جس سے انہوں نے اپنی سکونت کیلئے شہر و دیہات آباد کئے تا کہ اپنے شہر والوں کے منافع کا لحاظ رکھیں اور ان کے حقوق سے دفاع کریں _

انسان مدتوں اسی ، نہج سے زندگی گزارتا رہا ، یہاں تک کہ حوادث زمانہ اور خاندانی جھگڑے اور طاقتوروں کے تسلط نے انسان کو چھوٹے سے دیہات کو چھوڑ کر شہر بنانے پر ابھارا کہ وہ اپنے رفاہ اور آسائشے اور اپنے ہمسایہ دیہات و شہروں سے ارتباط رکھنے کے لئے بھی ہے تا کہ خطرے اور طاقتور دشمن کے حملہ کے وقت ایک دوسرے سے مدد حاصل کرسکیں _ اس مقصد کے تحت ایک بڑا معاشرہ وجود میں آیا او راس کے وسیع علاقہ کو ملک و سلطنت کے نام سے یاد کیا جانے لگا _

ملک میں زندگی بسر کرنے والے انسانوں کی فکر نے اتنی ترقی کی کہ وہ اپنے ملک کی محدود سرزمین کو اپنا گھر سمجھتے ہیں اور اس ملک کے باشندوں کو ایک خاندان کے افراد شمار کرتے ہیں اور اس ملک کے اموال و ذخائر کو اس کے باشندوں کا حق سمجھتے ہیں _ اس ملکہ کے ہر گوشہ کی ترقی سے لذت اندوز ہوتے ہیں _ لسانی ، نسلی ، شہری اور دیہاتی اختلافات سے چشم پوشی کرتے ہیں اور ملک کے تمام باشندوں کی سعادت کو اپنی سعادت و کامیابی تصور کرتے ہیں _ واضح ہے کہ اس ملک کے افراد میں جس قدر فکری ہم آہنگی و ارتباط قوی ہوگا اور اختلاف کم ہوگا اسی کے مطابق اس ملک کی ترقیاں زیادہ ہوں گی _ انسان کا موجودہ تمدن و ارتقاء آسانی سے حاصل نہیں ہوا ہے بلکہ وہ صدیوں اور ہزاروں حوادث

۲۹۰

اور گوناگون تجربات کے بعد ترقی کے اس بلند مقام پر پہنچا ہے _

ہزاروں سال کی طویل مدتوں اور حوادث زمانہ کے بعد انسان کی فکر نے ترقی کی اور کسی حد تک خودخواہی و کوتاہ نظری سے نجات حاصل کی لیکن اب بھی خاصی ترقی نہیں کی ہے اس پر اکتفا نہیں کر سکتا _ آج بھی علمی و صنعتی ترقی کے سلسلہ میں دنیا کے ممالک کے درمیان خاص روابط برقرار ہوتے ہیں _ اس سے پہلے جو سفر انہوں نے چند ماہ کے دوران طے کیا ہے اسے آج بھی گھنٹوں اور منٹوں میں طے کررہے ہیں _ دور دراز سے ایک دوسرے کی آواز کو سنتے ہیں ، دیکھتے ہیں _ ملک کے حوادث و اوضا ع ایک دوسرے سے مربوط ہوگئے ہیں ایک دوسرے میں سرایت کرتے ہیں _ آج انسان اس بات کا احساس کررہا ہے کہ وہ اپنے ملک کی سرحدوں کو محکم طریقہ سے بند نہیں کرسکتا اور تمام ممالک سے قطع تعلق کرکے عزلت گزینی کی زندگی نہیں گزارسکتا _ عالمی حوادث اور انقلابات زمانہ سے وہ اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ ایک ملک کے معاشرہ اور اجتماع میں یہ طاقت نہیں ہے کہ لوگوں کی سعادت و ترقی کی راہ فراہم کرسکے اور انھیں حوادث و خطرات سے بچا سکے _ اس لئے ہر ملک اپنے معاشرہ کو مضبوط بنانے کی کوشش کررہا ہے _

بشر کی یہ درونی خواہش کبھی جمہوریت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے کبھی مشرق و مغرب کے بلاؤں کی صورت میں نمایاں ہوتی ہے کبھی اسلامی ممالک کے اتحادیہ کی شکل میں وجود پذیر ہوتی ہے کبھی سرمایہ داری اور کمیونسٹ نظام کے پیکر میں سامنے آتی ہے _ اس اتحاد کی اور سیکڑوں مثالیں ہیں /و کہ روح انسان کے رشد اور اس وسعت طلبی کی حکایت کرتی ہیں _

آج انسان کی کوشش یہ ہے کہ عمومی معاہدوں اور اتحاد کو وسعت دی جائے

۲۹۱

ممکن ہے اس کے ذریعہ خطرات کا سد باب ہوسکے اور عالمی مشکلات و بحران کو حل کیا جا سکے اور روئے زمین پر بسنے والے انسانوں کیلئے آسائشے و رفاہ کے وسائل فراہم ہو سکیں _

دانشوروں کا خیال ہے کہ انسان کی یہ کوشش و فعالیت اور وسعت طلبی ایک عالمی انقلاب کا مقدمہ ہے ، عنقریب دنیائے انسانیت پر یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ یہ اتحاد بھی محدود ہے لہذا عالمی خطرات و مشکلات کو حل نہیں کرسکتے یہ اتحاد صرف کسی درد کی دوا ہی نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے کے مقابل میں صف آرا ہو کہ مزید مشکلات کھڑی کردیتے ہیں _

انسان ابھی تجربہ کی راہ سے گزرہاہے تا کہ ان اتحادات کے ذریعہ جہاں تک ہوسکے خودخواہی کے احساس کو بھی ختم کرے اور عالمی خطرات و مشکلات کو بھی ختم کرے _ وہ ایک روز اس حقیقت سے ضرور آگاہ ہوگا کہ خودخواہی اور کوتاہ نظری انسان کو سعادت مند نہیں بنا سکتی _ اور لا محالہ اس بات کا اعتراف کرے گا کہ روئے زمیں کا ما حول ایک گھر کے ماحول سے مختلف نہیں ہے _ روئے زمین پر بسنے والے ایک خاندان کے افراد کی مانند ہیں _ جب انسان اس بات کو سمجھ جائے گا کہ غیر خواہی میں خود خواہی ہے تو اس وقت دنیا والوں کے افکار و خیالات سعدی شیرازی کے ہم آواز ہو کر اس بات کا اعتراف کریں گے _

بنی آدم اعضائے ایک دیگرند کہ در آفرینش زیک گوہرند

'' انسان آپس میں ایک دوسرے کے اعضاء ہیں کیونکہ انکی خلقت کا سرچشمہ ایک ہی ہے ''

لوگ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ جو قوانین و احکام اختلافات انگیز محدود نظام کے مطابق بنائے گئے ہیں وہ دنیا کی اصلاح کیلئے کافی نہیں ہیں _ عالمی اور اقوامی اتحاد کی

۲۹۲

انجمنوں کی تشکیل ، حقوق بشر کی تنظیم کی تاسیس کو اس عظیم فکر کا مقدمہ اور انسانیت کی بیداری اور اس کی عقل کے کمال کا پیش خیمہ کہا جا سکتا ہے _ اگر چہ انجمنوں نے بڑی طاقتوں کے دباؤں سے ابھی تک کوئی اہم کام انجام نہیں دیا ہے اور ابھی تک اختلاف انگیز نظاموں پر کامیابی حاصل نہیں کر سکی ہیں لیکن ایسے افکار کے وجود سے انسان کے تابناک مستقبل کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے _

دنیا کی عام حالت و حوادث کے پیش نظر اس بات کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں انسان ایک حساس ترین دورا ہے پر کھڑا ہوگا _ وہ دو راہ عبارت ہے محض مادی گری یا خالص توحید سے _ یعنی انسان یا تو آنکھیں بند کرکے مادیت کو قبول کرلے اور خدا کے احکام کو ٹھکرادے یا خدا کو تخلیق کی مشنری کا حاکم تسلیم کرے اور خدائی احکام کو ٹھکرا دے یا خدا کو تخلیق کی مشنری کا حاکم تسلیم کرے اور خدائی احکام کا قلادہ اپنی گردن میں ڈال لے اور عالمی مشکللات اور بشری کی اصلاح آسمانی قوانین کے ذریعہ کرے اور غیر خد ا قوانین کو ٹھکرادے _ لیکن یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ انسان کا خداپرستی اور دین جوئی کا جذبہ ہر گز ٹھنڈا نہیں پڑتا ہے اور جیسا کہ آسمانی ادیان خصوصاً اسلام نے پیشین گوئی کی ہے کہ آخر کار خدا پرستوں ہی کاگروہ کامیاب ہوگا اور دنیا کی حکومت کی زمام و اقتدا صالح لوگوں کے اختیار میں ہوگا اور انسانوں کا بڑا معاشرہ انسانیت کے فضائل ، نیک اخلاق اور صحیح عقائد پر استوار ہوگا _ تمام تعصبات اور جھوٹے خدا نابود ہوجائیں گے اور سارے انسان ایک خدا اور اس کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کردیں گے _ خداپرستوں کا گروہ اور حزب توحید ایمان کے محکم و وسیع حصار میں جاگزین ہوگا اور رسول اسلام اور قرآن مجید کی دعوت کو قبول کرے گا

۲۹۳

قرآن مجید نے دنیا والوں کے سامنے یہ تجویز پیش کی ہے کہ :

'' آؤ ہم سب ایک مشترک پروگرام کو قبول کرلیں اور یہ طے کرلیں کہ خدائے واحد کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھرائیں گے اور انسانوں میں سے کسی کو واجب الاطاعت نہ سمجھیں گے _''(۱)

قرآن مجید اس عالمی انقلاب کے پروگرام کے بارے میں کہتا ہے کہ اسے نافذ کرنے کی صلاحیت صرف مسلمانوں میں ہے _ رسول اکرم نے خبر دی ہے کہ جو شائستہ اور غیر معمولی افراد انسان کے گوناگون افکار و عقائد اور متفرق رایوں کو یک جا اور ایک مرکز پر جمع کریں گے اور انسانوں کی عقل کو کامل و بیدار کریں گے اور دشمنی کے اسباب و عوامل کا قلع و قمع کریں گے _ صلح و صفائی برقرار کریں گے _ وہ مہدی موعود اور اولاد رسول (ص) ہوگی _ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :

''جب ہمارا قائم ظہور کرے گا تو بندوں کے سرپرہاتھ رکھ کر ان کے پراگندہ عقل و فکر کو ایک جگہ کرے گا اور ایک مقصد کی طرف متوجہ کرے گا اور ان کے

اخلاق کو کمال تک پہنچادے گا '' _(۲)

حضرت علی (ع) بن ابیطالب فرماتے ہیں :'' جب ہمارا قائم قیام کرے گا تو لوگوں کے دلوں سے عداوت و دشمنی کی جڑیں کٹ جائیں گی اور عالمی امن کا دور ہوگا ''(۳)

امام محمد باقر (ع) فرماتے ہیں :'' ہمارے قائم کے ظہور کے بعد عمومی اموال اور زمین کے معاون و ذخائر آپ(ص) اختیار میں آئیں گے _(۴)

____________________

۱_ آل عمران /۹۴_

۲_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۳۶_

۳_ بحارالانوار جلد ۵۲ ص ۳۱۶_

۴_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۵۱_

۲۹۴

مستضعفین کی کامیابی

جلالی : آپ دنیا کی حالت کو جانتے ہیں کہ زمین کے ہر گوشہ میں مستضعفین و کمزورلوگوں پر ظالم و ستمگر و مستکبرین حکومت کررہے ہیں ، ان کی تمام چیزوں پر مسلط ہوگئے ہیں اور انھیں اپنی طاقت سے مرعوب کررکھا ہے _ ان حالات کے پیش نظر حضرت مہدی کیسے انقلاب لائیں گے اور کیونکر کامیاب ہوں گے ؟

ہوشیار: مستکبرین پر امام مہدی (ع) کی کامیابی دنیا کے مستضعفین کی کامیابی ہے _ جو کہ اکثریت میں ہیں اور ساری قدرت انھیں کی ہے _ مستکبرین کی تعدا د بہت ہی کم ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے _ اسی لئے امام مہدی کی کامیابی کا امکان ہے یہاں میں ایک بات کی تشریح کردوں تا کہ مدعا روشن ہوجائے _

قرآن و احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ دنیا بھر کے مستضعفین آخر کار اس عالمی انقلاب میں مستکبرین پر کامیاب ہوں گے کہ جس کے قائد امام مہدی ہونگے اور طاغوتی نظام کو ہمیشہ کیلئے نابود کرکے دنیا کی حکومت کی زمام سنبھالیں گے _ قرآن مجید میں خداوند عالم کا ارشاد ہے :

'' ہم نے ارادہ کرلیا ہے کہ دنیا کے مستضعفین پر احسان کریں اور انہیں امام بنائیں اور زمین کا وارث قراردیں اور زمین کی قدرت و تمکن

۲۹۵

ان کے دست اختیار میں دیدیں ''_(۱)

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مذکورہ آیت اس بات کی حتمی نوید دے رہی ہے کہ دنیا کی طاقت اور جہان کا نظام مستضعفین کے ہاتھوں میں آئے گا _ اس بناپر امام مہدی کی کامیابی مستکبرین پر مستضعفین کی کامیابی ہوگی موضوع کی وضاحت کیلئے درج ذیل نکات پر توجہ فرمائیں :

استضعاف کے کیا معنی ہیں اور مستضعفین کون لوگ ہیں ؟

مستکبرین کی کیا علامتیں ہیں؟

مستضعفین مستکبرین پر کیسے کامیاب ہوں گے ؟

اس عالمی انقلاب کی قیادت کوں کرے گا ؟

قرآن مجید میں مستضعفین کو مستکبرین و طاغوت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اس لئے ان دونوں کی ایک ساتھ تحقیق کرنا چاہئے _ قرآن مجید میں مستکبرین کی کچھ علامتیں اورخصوصیات ذکر ہوئے ہیں ایک جگہ فرعون جیسے مستکبرین کے لئے فرماتا ہے :

'' بے شک فرعون نے زمین میں بہت سر اٹھا یا تھا اور لوگوں میں اختلاف و تفرقہ پیدا کیا تھا ایک گروہ کو کمزور بنادیا تھا ان کے لڑکوں کو قتل کرتا تھا اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا کیونکہ وہ مفسدوں میں سے تھا _(۲)

____________________

۱_ قصص/۵

۲_ قصص /۴

۲۹۶

مذکورہ آیت میں فرعوں کیلئے جو کہ مستکبرین میں سے ہے ، تین علامتیں بیان ہوئی ہیں : اول بڑا بننا اور برتری چاہنا _ دوسرے لوگوں میں اختلاف و تفرقہ پیدا کرنا تیسرے فساد پھیلانا _ دوسری آیت میں فرماتا ہے کہ :

'' فرعون نے زمین میں بہت سر اٹھایا تھا کہ وہ اسراف کرنے والوں میں سے تھا''_(۱)

اس آیت میں اسراف اور سر اٹھانے کو بھی مستکبرین کی صفات قرار دیا گیا ہے دوسری آیت میں ارشاد ہے:

'' فرعون نے موسی کی تحقیر کی اور لوگوں نے اس کی اطاعت کی کیونکہ لوگ فاسق تھے''(۲)

اس آیت میں لوگوں کی تو ہین کرنے کو مستکبرین کی صفات میں شمار کیا گیا ہے اور یہی معنا لوگوں کی اطاعت کے ہیں _

دوسری آیت میں ارشاد ہے :

''موسی نے قارون ، فرعون اور ہامان کے سامنے واضح دلیلیں پیش کیں لیکن انہوں نے روئے زمین پر سر اٹھایا اور تکبّر کیا ''( ۲)

مذکورہ آیت میں حق قبول نہ کرنے کو استکبار و سرکشی کی علامت قرار دیا

____________________

۱_ یونس /۸۳

۲_ زخرف /۵۴

۳_ عنکبوت/۳۹

۲۹۷

گیا ہے _ دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے :

''قوم صالح کے مستکبرین مومن مستضعفین سے کہتے تھے: کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ صالح خدا کے رسول ہیں ؟ مومنین جواب دیتے تھے ہم صالح کی لائی ہوئی چیزوں پر ایمان رکھتے ہیں _ مستکبرین کہتے تھے جس چیز پر تمہارا ایمان ہے ہم اس کے منکر ہیں ''(۱)

دوسری آیت میں کفر و شرک کی ترویج کو مستکبرین کی علامت شمار کیا گیا ہے : ''مستضعفین مستکبرین سے کہتے ہیں تمہاری رات ، دن کی فریب کاریاں تھیں کہ تم ہمیں خدا سے کفر اختیار کرنے اور اس کا شریک ٹھرانے کا حکم دیتے تھے''(۲)

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا مذکورہ آیت میں مستکبرین کی چند علامتیں بیان ہوئی ہیں :

۱_ بڑا بننا اور برتری چاہنا

۲_ تفرقہ و اختلاف پیدا کرنا_

۳_ اسراف

۴_ لوگوں کو کمزور بنانا_

۵_ فساد پھیلانا

۶_ حق قبول کرنے سے منع کرنا _

۷_ کفر و شرک کی ترویج و اشاعت_

مذکورہ تمام آیتوں سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مستکبرین ان لوگوں کا

____________________

۱_ اعراف/۷۶

۲_ سبا/۳۳

۲۹۸

گروہ ہے جو خواہ مخواہ خود کو دوسرں سے برتر بناکر پیش کرتے ہیں _ لوگوں سے کہتے ہیں : ہم سیاست داںں ، عاقل اور ماہرہیں _ ہم تمہارے مصالح کو تم سے بہتر سمجھتے ہیں تمہاری عقل تمہارے مصالح کے ادراک کیلئے کافی نہیں ہے _ تمہیں ہماری اطاعت کرنا چاہئے تا کہ کامیاب ہوجاؤ استکبار کا اہم کام اختلاف و تفرقہ پیدا کرنا ہے _ کالے گئے مذہبی ، نسلی ، لسانی ، قومی ، ملی ، ملکی ، شہری ، صوبائی اور دوسرے سیکڑوں اختلاف انگیز عوامل کے ذریعہ لوگوں میں تفرقہ اندازی کرتے ہیں _ صرف اس لئے تاکہ لوگوں پر حکومت کریں ، کفر و شرک کی ترویج کرتے ہیں اور اس طرح لوگوں کو فریب دیتے ہیں اور ان کے سارے منافع ہڑپ کر لیتے ہیں _ ان کے سارے امور کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں _ عمومی اموال پر قابض ہوجاتے ہیں _ اپنی مرض سے جہاں چاہتے ہیں خرچ کرتے ہیں _ ملک سے دفاع کے نام پر اسلحہ اور ایٹمی توانائی خریدتے ہیں عمومی ضرورتوں کو پورا کرنے او رامن و امان برقرار رکھنے کے نام پر قضاوت اور دیگر دفاتر کی تشکیل سے ذاتی فائدہ اٹھاتے ہیں ، بیت المال کو اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرتے ہیں ، اپنے ہمنواؤں کے دریچے بھرتے ہیں _ ان کا مقصد صرف حکمرانی اور خودہواہی ہے _ مستکبرین بڑے نہیں ہیں ان کی اپنی کوئی طاقت نہیں ہے بلکہ فریب کاری سے لوگوں کی عظیم طاقت'' کو اپنی بتاتے ہیں اور انھیں حقیر سمجھتے ہیں _

یہاں سے مستضعفین کے معنی بھی روشن ہوجاتے ہیں _ مستضعف کے معنی ضعیف و ناتوان نہیں ہیں بلکہ مستضعف وہ لوگ ہیں جنہوں نے مستکبرین کے غلط پروپیگنڈے اور حیلہ بازیوں سے اپنی طاقت کو گنوا دیا ہے اور غلامی و ذلت میں مبتلا ہوگئے ہیں ،حقیقی طاقت عام لوگوں کی ہے _ زمین ، پانی ، قدرتی خزانے ، پبلک

۲۹۹

دالشور اور موجد سب ہی تو عام لوگ ہیں ، مزدور ، موجد ، پولیس و فوج ، انتظامیہ ، عدلیہ اور ادارے سب ہی ملّت کے افراد سے تشکیل پاتے ہیں _ صاحبان علم و اختراع اور صنعت بھی ملت ہی کے افراد ہوتے ہیں _ اس بناپر قدرتی خزانے پوری قوم کے ہوتے ہیں نہ کہ مستکبرین کے _ اگر لو گ مدد و تعاون نہ کریں تو مستکبرین کی کوئی طاقت بن سکتی ہے؟ لیکن مستکبرین نے حیلے و فریب او رغلط پروپیگنڈے سے لوگوں کو اپنے سے بیگانہ اور مستضعف بنادیا ہے وہ خود ہی اپنے کو کچلتے ہیں اور استعماری طاقتوں کی بھینٹ چڑھتے ہیں _ مستکبرین اقلیت میں ہیں جنہوں نے ہمیشہ لوگوں کو اندھیرے میں رکھنے کی کوشش کی ہے اور انھیں کمزور بناکر ان پر حکومت کی ہے _

لیکن خدا کے پیغمبر اس بات پر مامور تھے کہ ان لوگوں کو بیدار کریں جنھیں کمزور و مستضعف بنادیا گیا ہے تا کہ وہ اپنی عظیم طاقت و توانائی سے آگاہ ہوجائیں اور مستکبرین کے چنگل سے نجات حاصل کریں پیغمبروں نے ہمیشہ مستکبرین کے حقیقت کا پردہ چاک کرنے اور ان کی جھوٹی طاقت اور جلال کو پاش پاش کرنے کی کوشش کی ہے اور مستضعفین کو مستکبرین کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور ان کے استعماری پھندوں سے نجات حاصل کرنے کی جرات دلائی ہے _

حضرت ابراہیم (ع) نے نمرود کی طاغوتی حکومت کے خلاف قیام کیا _ حضرت موسی (ع) نے فرعون کی حکومت کے خلاف قیام کیا اور حضرت عیسی (ع) اپنے زمانہ کے ظلم و سمتگروں کے خلاف اٹھے اور محروموں کونجات دلانے کے لئے قیام کیا _ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے ابو جہل ، ابولہب ، ابوسفیان اور قیصر و کسری کے خلاف قیام کیا او ردنیا کے مستضعف و محروم لوگوں کی نجات کے لئے اٹھے _ پیغمبر

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

۳ _ حضرت يوسف(ع) نے اپنے بھائيوں كى حيرت اور عدم يقينى سى كيفيت كے نتيجہ ميں ان كے سوال كا جواب ديتے ہوئے فرمايا ميں ہى يوسفعليه‌السلام ہوں _أءنك لا نت قال أنا يوسف

۴ _ بنيامين، فرزندان يعقوب كى عزيز مصر كے ساتھ تيسرى ملاقات ميں تشريف ركھتے تھے_و هذا أخي

۵ _ عزيز مصرنے اپنے بھائي بنيامين كو اپنے دعوى كى سچائي( كہ ميں يوسفعليه‌السلام ہوں )پر گواہ قرار ديا_

قال أنا يوسف و هذا أخي

ممكن ہے جملہ ( ہذا أخي) اس كے علاوہ كہ جملہ (قد منّ اللّہ) كے ليے تمہيد ہو كہ عزيز مصر كے اس دعوى پر كہ ميں وہى يوسفعليه‌السلام ہوں پر گواہ اور شاہدبھى ہو در اصل وہ اپنے بھائيوں سے يہ كہتے ہيں :اگر تم اسميں متردد ہو كہ ميں يوسفعليه‌السلام نہيں ہوں تو ميرے اور بنيامين كے چہرے پر نگاہ كرو توتم ہمارے درميان اخوت و برادرى كو پا لو گے _

۶_خداوند متعال نے يوسفعليه‌السلام اور نبيامين كو اپنيعظيم نعمت سے نوازا_قد منّ اللّه علين

(منّ) كا معنى احسان كرنے اور نعمت عطا كرنے كا ہے_ ( مفردات راغب ) ميں ہے كہ (منّة) بہت قيمتى نعمت كے معنى ميں ہے_(علينا) ميں جو ضمير ہے بعد والے جملے ( إنہ من يتق ...) كے قرينے كى وجہ سے جو (قد منّ اللّہ علينا) كے ليے تعليل ہے _ اس سے مراد يوسفعليه‌السلام اور بنيامين ہيں نہ كہ تمام بھائي_

۷_حضرت يوسفعليه‌السلام و بنيامين، تقوى اختيار كرنے والے ، صابر اور احسان كرنے والوں ميں سے تھے_

قد مَنّ علينا إنه من يتق و يصبر فان اللّه لا يضيع أجرا لمحسنين

۸_ مصر ميں حضرت يوسفعليه‌السلام كا عزيزى مصر ، اقتدار اورحكومت تك پہنچنا ، نيك عمل ، صبر اور تقوى اختيار كرنے كى جزاء تھي_قد مَنَّ اللّه علينا إنه من يتق و يصبر فان الله لا يضيع أجر المحسنين

۹_ بنيامين كى عزت كى حفاظت ،اور دوسرے بھائيوں كى طرح ذليل و خوار نہ ہونا،نيك كام اور تقوى و صبر اختيار كرنے والوں كى جزاء كے ضائع نہ ہونے كى علامت ہے _قد منّ اللّه علينا إنه من يتّق و يصبر فإن اللّه لا يضيع أجر المحسنين

۱۰_ حضرت يوسفعليه‌السلام كا اقتدار اور عزت، نيك كام اور صبر و تقوى اختيار كرنے والوں كے اجركے ضائع نہ ہونے كى روشن اور واضح دليل ہے _قد مَنّ اللّه علينا إنه من يتّق و يصبر فان اللّه لا يضيع أجر المحسنين

۱۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام اور بنيامين كى ملاقات اور ان كى

۶۴۱

جدائي كا ختم ہونا، خداوند متعال كى ان پر عظيم نعمت تھى _قال أنا يوسف و هذا أخى قد من اللّه علين

۱۲_ نيك كام اور صبر و تقوى اختيار كرنے والوں كے ليے اقتدار اور عزت، خداوند متعال كى عظيم نعمتوں ميں سے ہے _

قالوا يأيها العزيز قد من اللّه علين

نعمت الہى كامورد نظر مصداق، حضرت يوسفعليه‌السلام كو سرزمين مصر ميں عزت و اقتدار كا ملنا ہے_

۱۳_صبر اور تقوي، اجر الہى سے بہرہ مند ہونے كا موجب ہيں _إنه من يتّق و يصبر فإن اللّه لا يضيع أجر المحسنين

(من يتقّ ...) كى شرط كا جواب محذوف ہے اور جملہ (فإن اللّه ..) اس محذوف كا قائم مقام اور اس كو بيان كررہا ہےيعني_ من يتّق ويصبر فهو من المحسنين و لا يضيع اللّه اجره لان اللّه لا يضع أجر المحسنين

۱۴_ خداوند متعال نيك كام كرنے والوں كو مكمل جزا ء عطا كرتا ہے اور اس سے كسى چيز كو كم نہيں كرتا_

فإن اللّه لا يضيع أجر المحسنين

۱۵_ تقوى اختيار كرنا اور تقوى كے راستے پربردبار رہنا ، احسان اورنيك عمل كے واضح اور روشن مصداق ہيں _

إنه من يتّق و يصبر فإن اللّه لا يضيع اجر المحسنين

۱۶_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں كو تقوى صبر اور محسنين كے زمرے ميں شامل ہو نے كى دعوت دي_

إنه من يتّق و يصبر فإن اللّه لا يضع أجر المحسنين

۱۷_دينى مبلغين كے ليے ضرورى ہے كہ ارشاد و ہدايت كے ليے مناسب موقع سے فائدہ اٹھائيں _

أءنك لا نت يوسف قال أنا يوسف من يتقّ و يصبر

۱۸_ خداوند متعال كا اجر دينا ،نظام اور قانون كے ساتھ ہے_من يتق و يصبر فإن اللّه لا يضيع أجر المحسنين

۱۹_نعمت ، مال و دولت اور عزت ركھنے والے لوگوں كو چاہيے كہ وہ اس طرف توجہ اور اقرار كريں كہ يہ سب قدرت كى عطا ہيں _قد منّ اللّه علينا إنه من يتق و يصبر فان اللّه لا يضيع أجر المحسنين

۲۰_'' عن سدير قال: سمعت ابا عبداللّه عليه‌السلام يقول : إن فى القائم سنّة من يوسف عليه‌السلام ... فما تنكر هذه الا مة أن يكون اللّه ان يفعل

۶۴۲

بحجته ما فعل بيوسف هم لا يعرفونه حتى يا ذن الله عزوجل أن يعرّفهم نفسه كما أذن ليوسف حين قال: أنا يوسف و هذا أخى (۱)

سدير كہتے ہيں كہ ميں نے امام جعفر صادقعليه‌السلام سے سنا كہ انہوں نے فرمايا:بے شك حضرت امام زمانہ عليہ السلام كے اندرايك صفت حضرت يوسفعليه‌السلام كى پائي جاتى ہے كہ يہ امت كسى شے كا انكار كررہى ہے ؟ ( كيا )خداوندمتعال آخرى حجت كے ليے ايك كام كو انجام دے جو حضرت يوسفعليه‌السلام كے ليے انجام ديا_وہ لوگ حجت خدا كو نہيں پہچانيں گے يہاں تك كہ خداوند متعال حكم دے گا كہ اپنا تعارف كرائيں جسطرح حضرت يوسفعليه‌السلام كو (اپنى شناخت كرانے كا ) حكم ديا تھا اور اس وقت انہوں نے كہا (أنا يوسف و هذا أخي ...)

احسان :احسان كى اہميت ۱۴; احسان كى جزاء ۸ ; احسان كى دعوت دينا ۱۶ ; احسان كے موارد ۱۵

اقرار :اللہ تعالى كى نعمتوں كا اقرار ۱۹

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا اجر ۱۳ ، ۱۴ ;اللہ تعالى كى نعمتيں ۶ ، ۱۱ ، ۱۲; اللہ تعالى كے اجر كا نظام اور قانون كے مطابق ہونا ۱۸

امام المہدى (عج)

امام مہدى (عج) كى پہچان ۲۰

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسفعليه‌السلام اور يوسف ۱ ، ۲ ، ۳ ; برادران يوسفعليه‌السلام كا تعجب ۲ ;برادران يوسف كا سوال كرنا ۳ ; برادران يوسف كى دعوت ۱۶ ; برادران حضرت يوسف(ع) كى ملاقات ۴

بنيامين :بنيامين پر نعمتوں كا نزول ۶ ،۱۱;بنيامين سے يوسفعليه‌السلام كى ملاقات ۴ ، ۱۱ ;بنيامين كا صبر ۷ ;بنيامين كا متقين ميں سے ہونا ۷ ;بنيامين كا محسنين ميں سے ہونا ۷ ;بنيامين كى عزت ۹ ; بنيامين كى گواہى ۵ ;بنيامين كے فضائل ۷

تبليغ :تبليغ كا طريقہ ۱۷ ; تبليغ كا موقع ۱۷ ; تبليغ ميں مناسب وقت كى شناخت ۱۷

تقوا :تقوى كى اہميت ۱۵ ; تقوى كى جزاء ۸ ; تقوى كى دعوت ۱۶;تقوى كے آثار ۱۳

جزاء :جزاء كے اسباب ۱۳

____________________

۱)علل الشرائع ص ۲۴۴ ; ب ۱۷۹ ; بحار الانوار ج ۱۲ ص ۲۸۳ ح ۶۱_

۶۴۳

ذكر :ذكر كى نعمت ۱۹

روايت : ۲۰

صابرين : ۷صابرين پر نعمتيں ۱۲;صابرين كا اقتدار ۱۲ ; صابرين كى جزاء كا حتمى ہونا ۹،۱۰ ; صابرين كى عزت ۱۲

صبر:صبر كى اہميت ۱۵; صبر كى جزاء ۸ ; صبر كى دعوت ۱۶ ;صبر كے آثار ۱۳

عزت :عزت كا سبب ۱۹

فرصت :فرصت سے استفادہ حاصل كرنا ۱۷

قدرت:قدرت كا سبب ۱۹

مبلغين :مبلغين كى ذمہ دارى ۱۷

متقين : ۷متقين كا اقتدارا ۱۲ ; متقين كى عزت ۱۲ ; متقين كى نعمتيں ۱۲; متقين كے اجر كا حتمى ہونا ۹ ، ۱۰

محسنين :۷

محسنين كا اقتدار ۱۲ ;محسنين كى جزا كا حتمى ہونا ۹ ،۱۰ ; محسنين كى عزت ۱۲; محسنين كى كامل جزاء كا ہونا ۱۴

نعمت :نعمت پانے والے ۶;نعمت پانے والوں كى ذمہ دارى ۱۹ ; نعمت كا سبب۱۹;نعمت كے مراتب ۶

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام اور برادران ۳ ، ۱۶;يوسفعليه‌السلام پر احسان ۸ ; يوسفعليه‌السلام پر نعمتوں كا آنا ۶ ، ۱۱ ; يوسفعليه‌السلام كا تقوى ۸; يوسفعليه‌السلام كا دعوى ۵ ;يوسفعليه‌السلام كا صبر ۷ ، ۸ ; يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۳ ، ۴ ، ۵ ،۱۶;يوسفعليه‌السلام كا متقين ميں سے ہونا ۷ ;يوسفعليه‌السلام كا محسنين سے ہونا ۷ ;يوسفعليه‌السلام كى بنيامين سے ملاقات ۱۱ ;يوسفعليه‌السلام كى پہچان ۱ ، ۳ ، ۲۰ ;يوسفعليه‌السلام كى تبليغ ۱۶ ;يوسفعليه‌السلام كى جزاء ۸ ;يوسفعليه‌السلام كى حاكميت ۸; يوسفعليه‌السلام كى عزت ۱۰ ;يوسفعليه‌السلام كى عزيزى ۸;يوسف(ع) كى صداقت كے گواہ ۵;يوسفعليه‌السلام كى قدرت ۱۰ ;يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۷

۶۴۴

آیت ۹۱

( قَالُواْ تَاللّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللّهُ عَلَيْنَا وَإِن كُنَّا لَخَاطِئِينَ )

ان لوگوں نے كہا كہ خدا كى قسم خدا نے آپ كو فضيلت اور امتياز عطا كيا ہے اور ہم سب خطاكار تھے (۹۱)

۱_ حضرت يوسف(ع) ، اپنے بھائيوں سے صاحب فضيلت اور افضل تھے_لقد ء اثرك اللّه علين

ايثار (آثر) كا مصدر ہے جو فضيلت دينے اور اختيار كرنے كے معنى ميں آتاہے_

۲_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى فضيلت اور بزرگي، خداوند متعال كى طرف سے ان پر عنايت تھي_لقد ء اثرك الله علين

۳_حضرت يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں نے خداوند متعال كى قسم اٹھاكر حضرتعليه‌السلام كى بزرگى و فضيلت كا اعتراف اور يقين كيا _تاللّه لقد اثرك اللّه علين حرف تاء (تاللّہ ) ميں حرف قسم ہے_

۴_ خداوند متعال كى قسم اٹھانا، جائز اور شريعت كے دائرے ميں ہے _تاللّه لقد ء اثرك اللّه علين

۵_ خداوند متعال كے نام كى قسم اٹھانا، تاريخى حيثيت ركھنے كے علاوہ گذشتہ اديان ميں جائز تھا_تاللّه لقد ء اثرك اللّه علين

۶_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں كو يقين و اعتقاد حاصل ہوگيا كہ ان كا مقام و منزلت خدا كى عطا ہے _

لقد ء اثرك اللّه علين

۷_ حضرت يوسفعليه‌السلام اور ان كے بھائي، انسان كى زندگى اور تاريخ كو بنانے ميں خداوند متعال كے مؤثر ہونے پر اعتقاد اور يقين ركھتے تھے_قدمن اللّه علينا لقد إثرك اللّه علين

۸_ برادران يوسف نے حضرت يوسفعليه‌السلام كے حق ميں خطا كے مرتكب ہونے كى تاكيد اور اقرار كيا_و إن كنّا لخاطئين

۶۴۵

(ان) مذكورہ عبارت ميں مثقلہ (إنّ) سے مخففہ ميں تبديل ہوا ہے اس پر دليل (لخاطئين ) كا لام ہے _

۹_ برادران يوسفعليه‌السلام نے حضرتعليه‌السلام كے سامنے اپنے گناہ و غلطى كا اعتراف اور اپنے گذشتہ كاموں پرپشيمانى كا اظہار كيا _و َ إن كنّا لخاطئين

احكام ۴

اقرار :حضرت يوسفعليه‌السلام كے فضائل كا اقرا ر ۳ ;خطا كا اقرار ۷ ،۹ ; گناہ كا اقرا ر۹

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى بخشش ۲

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسفعليه‌السلام اور يوسف ۳ ، ۶ ، ۸،۹ ; برادران يوسفعليه‌السلام پر ايمان ۷ ; برادران يوسفعليه‌السلام كا اقرار ۳ ، ۸،۹ ;برادران يوسفعليه‌السلام كوخدا كى شناخت ۷ ; برادران يوسف كا گناہ ۹;برادران يوسفعليه‌السلام كي پشيمانى ۹ ; برادران يوسفعليه‌السلام كى غلطياں ۸ ،۹ برادران يوسفعليه‌السلام كى فكر ۶

تاريخ :تاريخ ميں تبديلى كا سبب ۷

خطا :خطا سے پشيمانى ۹

خود :اپنے خلاف اقرار كرنا ۸ ، ۹

قسم اٹھانا :خدا كى قسم اٹھانا ۴ ; خدا كى قسم اٹھانے كى تاريخ ۵ ; قسم اٹھانے كا اديان الہى ميں ہونا ۵;قسم اٹھانے كا جائز ہونا ۴ ;قسم اٹھانے كے احكام ۴

گناہ :گناہ سے پشيماني۹

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام اور بھائي ۱;حضرت يوسفعليه‌السلام پر ايمان ۷ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا اللہ تعالى كى معرفت ركھنا ۷ ;حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۸،۹ ;حضرت يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۱ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كے فضائل كا سبب ۲ ، ۶

۶۴۶

آیت ۹۲

َالَ لاَ تَثْرَيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللّهُ لَكُمْ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ )

يوسف نے كہا كہ آج تمھارے اوپر كوئي الزام نہيں ہے _خدا تمھيں معاف كردے گا كہ وہ بڑا رحم كرنے والا ہے (۹۲)

۱ _ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں كے ظلم و ستمسے چشم پوسى كرتے ہوئے انہيں معاف كرديا _

قال لا تثريب عليكم

بھائيوں كوسرزنش نہ كرنے كو مناسب نہ سمجھنا كے جملہ ( لا تثريب ...) اسكو بيان كرتا ہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام نے ان كو معاف فرماديا_

۲_ حضرت يوسفعليه‌السلام معاف كرنے والے اور انتقام لينے كى عادت سے دور تھے_قال لاتثريب عليكم

۳ _ حضرت يوسفعليه‌السلام نے نہ صرف بھائيوں كو سزا نہيں دى بلكہ ان كى ملامت كرنےسے بھى پرہيز كيا_لا تثريب عليكم

(تثريب) ملامت كرنے اور گناہ پر سرزنش كرنے كو كہا جاتاہے(لسان العرب) سے يہ معنى ليا گيا ہے _

۴ _ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں كے اعتراف خطاء كرنے كے بعد انكو اپنى اور دوسروں كى طرف سے سرزنش كرنے كو نا مناسب سمجھا_لاتثريب عليكم اليوم

كلمہ (تثريب) نكرہ ہے _حرف نفى اور ( لام) كے بعد واقع ہواہے اسى وجہ سے ہر ملامت و سرزنش كو شامل ہے _ اور فاعل (سرزنش كرنے والے) كا ذكر نہ كرنا عموم پر دلالت كرتاہے يعنى نہ ميں اور نہ كوئي اور جملہ ( لا تثريب عليكم اليوم) جملہ خبر ى اور مقام انشاء اور دستور ميں واقع ہواہے يعنى ضرورى ہے كہ تمھارى ملامت نہيں ہونى چاہيے اور كسى كو بھى نہيں چاہيے كہ تمہيں ملامت و سرزنش كرے_

۵ _ انقام لينے كى قدرت كے باوجود معاف كردينا محسنين كى خصوصيات ہے _

فإن اللّه لا يضيع أجر المحسنين قال لا تثريب عليكم اليوم

۶۴۷

۶_ حضرت يوسف(ع) نے خداوند متعال سے دعا كى كہ ميرے بھائيوں كى غلطيوں اور گناہوں كو معاف فرمادے_

يغفر اللّه لكم

(يغفر ...) كا جملہ دعا بھى ہوسكتاہے اور خبر بھى ہوسكتاہے_ ليكن مذكورہ بالا معنى پہلے احتمال كى صورت ميں ہے _

۷_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں كا عمل، گناہ تھا اور خداوند متعال كى بخشش كے بغير وہ سزا كے مستحق تھے_

يغفر اللّه لكم

۸_وہ لوگ جنہوں نے كسى پر ظلم و ستم كيا ہو پھر اس كے بعد اپنے گناہ كا اعتراف كركے توبہ كرليں تو ان كو ملامت كرنا اور سزا دينا نيك لوگوں سے دور ہے _لا تثريب عليكم اليوم

(اليوم) ظرف اور (تثريب ) كے متعلق ہے _ ايسے وقت كو بيان كررہا ہے كہ جب برادران يوسف نے اپنى غلطى كا اعتراف كيا اور اپنے گناہوں سے توبہ كى (وإن كنّا لخاطئين )

۹_ غلطى كرنے والوں سے درگذراور ان كى بخشش كے ليے دعا كرنا، نيك خصلت اور محسنين كى صفات ميں سے ہے _

فإن اللّه لا يضيع أجر المحسنين لا تثريب عليكم اليوم يغفر اللّه لكم

۱۰_ خداوند متعال( أرحم الراحمين) ( تمام مہربانوں سے مہربان ترين) ہے _و هو أرحم الراحمين

۱۱_ گناہوں كى مغفرت اور بحشش خداوند متعال كى صفات ميں سے ہے _يغفر اللّه لكم

۱۲_ خداوند متعال كا اپنے بندوں كے گناہوں كو بخش دينا اور معاف كردينا اسكى رحمت و مہربانى كا جلوہ ہے _

يغفر اللّه لكم و هو أرحم الراحمين

مذكورہ معنى اس صورت ميں ہے كہ (يغفر اللہ ...) جملہ خبر يہ ہے _

۱۳_ حضرت يوسف(ع) نے اپنے بھائيوں كو خدائي مغفرت اوراسكى رحمت انكے شامل حال ہونے كى بشارت دي_

۱۴ _حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں كو رحمت الہى كے وسيع ہونے كى طرف توجہ مبذول كرواكر انہيں انكے گناہوں كى مغفرت پر اميد دلائي_يغفر اللّه لكم و هو أرحم الراحمين

(وہو ...) كا جملہ حاليہ ہے اور (يغفر اللّہ ) كے جملے كے ليے بمنزلہ تعليل واقع ہوا ہے يعنى كيونكہ وہ ذات ( ارحم الراحمين) ہے اسى وجہ سے تمہارے گناہوں كو بخش دے گا _

يہ بات قابل ذكر ہے كہ خداوند متعال كى اس

۶۴۸

صفت كو حضرت يوسف كا ذكر كرنا جبكہ وہ اپنے اوپر بھائيوں كے ظلم و ستم كو معاف كرچكے تھے اس بات كى طرف اشارہ كرتاہے كہ مجھ جيسے نے تمھيں معاف كرديا ہے ليكن وہ ذات ميرے اور ميرے علاوہ سب سے زيادہ مہربان ہے اسى وجہ سے شك ہى نہيں كہ آپ كو معاف فرما دے گا _

۵ ۱_مظلوم كا ظالم كو صرف معاف كردينا كافى نہيں ہے بلكہ اسكى مغفرت، رحمت الہى سے بھى مشروط ہے_

لا تثريب عليكم اليوم يغفر اللّه لكم و هو أرحم الراحمين

مذكورہ بالا معنى اس بات سے ہم حاصل كرسكتے ہيں كہ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بھائيوں كے بارے ميں اپنے حق كو معاف كرنے كے بعد خداوند متعال سے بھى دعا كى كہ ان كے گناہوں كو معاف فرمادے_

۱۶_ ظلم و ستم برداشت كرنے والوں كا ظالم اور ستمگروں كو معاف كردينا، ظالم و ستمگروں پر رحمت و مغفرت الہى كا پيش خيمہ ہے _لا تثريب عليكم اليوم يغفر اللّه عليكم

۱۷_ خداوند عالم كو (ارحم الراحمين )جس صفت رحمت كى بخشش كرنے سے توصيف استغفار كے اداب اور مغفرت كيلئے دعا ہے _يغفر الله لكم و هو أرحم الراحمين

استغفار:استغفار كے آداب ۱۷

اسماء و صفات :ارحم الراحمين ۱۰ ، ۱۷

اقرار :گناہ كے اقرار كے آثار ۸ ; غلطى كا اقرار كرنا ۴

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى بخشش كا سبب۱۶;اللہ تعالى كى بخشش كى اہميت ۷ ،۱۴; اللہ تعالى كى بخشش كے آثار ۱۵;اللہ تعالى كى خصلتيں ۱۱ ; اللہ تعالى كى رحمت كى نشانياں ۱۲;اللہ تعالى كى رحمت كے آثار ۱۵; اللہ تعالى كى مہربانى كى نشانياں ۱۲

اميد لگانا :بخشش پر اميد لگانا ۱۴

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسفعليه‌السلام اور يوسفعليه‌السلام ۷ ;برادران يوسفعليه‌السلام سے درگذر كرنا ۱ ; برادران يوسفعليه‌السلام كا اقرار ۴ ; برادران يوسفعليه‌السلام كا گناہ ۷ ;برادران يوسفعليه‌السلام كو بشارت ۱۳ ; برادران يوسفعليه‌السلام كى بخشش ۷; برادران يوسفعليه‌السلام كے ليے استغفار ۶ ; برادران يوسفعليه‌السلام كى خطا ۴; برادران يوسفعليه‌السلام كى سزا ۷

۶۴۹

بشارت :اللہ تعالى كى بخشش كى بشارت ۱۳ ; اللہ تعالى كى رحمت كى بشارت ۱۳

توبہ :توبہ كے آثار ۸

خطا كرنے والے :خطا كرنے والوں كو معاف كرنا ۹;خطا كرنے والوں كى بخشش ۱۲; خطا كرنے والوں كے ليے استغفار ۹ ; خطا كرنے والوں كے ليے دعا ۹

دعا :دعا كے آداب ۱۷

ذكر:اللہ تعالى كى رحمت كا ذكر ۱۴

صفات :پسنديدہ صفات ۹

ظالمين :ظالموں سے درگذ كرنا ۱۶ ;ظالموں كا اقرار ۸ ; ظالموں كى بخشش ۱۶ ; ظالموں كى بخشش كے شرائط ۱۵ ; ظالموں كى توبہ ۸ ;ظالموں كى سزا ۸ ; ظالموں كى سرزنش ۸

عفو:قدرت كے وقت عفو و بخشش كرنا ۵

عمل :ناپسند عمل ۴

گناہ :گناہ كى بخشش ۱۱ ، ۱۴; گناہ كے موارد ۷

گناہ كرنے والے :گناہ كرنے والوں كى بخشش ۱۲

محسنين :محسنين كى خصوصيات ۵;محسنين كى صفات ۹ ; محسنين كے فضائل ۸

مظلوم :مظلوم كا بخش دينا ۱۵ ،۱۶

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام اور ان كے بھائي ۶ ، ۱۳ ، ۱۴ ; حضرت يوسفعليه‌السلام او ربھائيوں كا ظلم ۱;حضرت يوسفعليه‌السلام اور بھائيوں كى ملامت ۳ ، ۴ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا حوصلہ و جرا ت ۲ ، ۳ ;حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۳ ، ۴،۶، ۱۳ ، ۱۴ ;حضرت يوسفعليه‌السلام كا معاف كرنا ۱ ، ۲ ، ۳ ;حضرت يوسفعليه‌السلام كى بشارتيں ۱۳; حضرت يوسفعليه‌السلام كى تعليمات ۱۴ ;حضرت يوسفعليه‌السلام كى خيرخواہى ۶ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كى دعا ۶ ;حضرت يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۲

۶۵۰

آیت ۹۳

( اذْهَبُواْ بِقَمِيصِي هَـذَا فَأَلْقُوهُ عَلَى وَجْهِ أَبِي يَأْتِ بَصِيراً وَأْتُونِي بِأَهْلِكُمْ أَجْمَعِينَ )

جائو ميرى قميص لے كر جائو اور بابا كے چہرہ پر ڈال دو كہ ان كى بصارت پلٹ آئے گى اور اس مرتبہ اپنے تمام گھر والوں كو ساتھ لے كر آنا (۹۳)

۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں كو اپنى خصوصى قميض كے ساتھ كنعان كى طرف روانہ كيا _اذهبوا بقميصى هذ

(ہذا ) كا لفظ اس پر دلالت كرتاہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام نے ايك مخصوص قميض دے كر اپنے بھائيوں كو كنعان كى طرف روانہ كيا _

۲ _ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں سے چاہا كہ اس قميض كو والد گرامى كے چہرہ پر ڈال دينا تو ان كى بصارت پلٹ آئے گى _فألقوه على وجه أبى يأت بصير

(يأت ) كا لفظ آيت شريفہ ميں (يصير) كے معنى ميں ہے ( يعنى لوٹ آئے گى اور تبديل ہوجائے گي) اور جملہ ( فارتد بصيراً) آيت ۹۶ ميں اس بات كى تائيد كرتاہے_ يہ بات قابل ذكر ہے كہ بعض مفسرين كا يہ عقيدہ ہے كہ (يأت) كا معنى (آئے گا ) ہے _ اور (بصيراً) كا لفظ حال ہے يعنى جب وہ مصر كى طرف تشريف لائيں گے تو اس وقت صاحب بصيرت ہوں گے_

۳_ حضرت يعقوبعليه‌السلام ،حضرت يوسفعليه‌السلام كى جدائي ميں نابينا ہوگئے تھے _يأت بصيرا

۴_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے بھائيوں سے چاہا كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے چہرہ پر انكى قميض ڈالنے ميں جلدى كرنا اور اس ميں تاخير نہ كرنا _اذهبوا فألقوه على وجه أبي

مذكورہ تعبير كا ''فألقوہ '' ميں حرف فاء سے استفادہ كيا گياہے ''فألقوہ'' يعنى كنعان پہنچتے ہى سب سے پہلے اس قميض كو ان كے چہرہ پر ڈالنا_

۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے والد گرامى كے نابين ہوجانے پر آگاہ تھے_يأت بصيرا

۶_ حضرت يوسفعليه‌السلام ، غيب اور آئندہ كے واقعات پر مطلع تھے_فألقوه على وجه أبى يأت بصيرا

۶۵۱

حضرت يوسف كى قميض كا حضرت يعقو ب(ع) كى آنكھوں پر ڈالنےكا يہ اثر كہ وہ بابصيرت ہوجائيں گے يہ غيبى امور ميں سے تھا اور حضرت يوسفعليه‌السلام اس پر اطلاع ركھتے تھے_

۷_حضرت يعقوبعليه‌السلام كا حضرت يوسفعليه‌السلام كى قميض سے بابصيرت ہونا حضرت يوسفعليه‌السلام كى كرامت تھي_

فالقوه على وجه أبى يأت بصيرا

(يأت) كا فعل ( فألقوہ) امر كا جواب ہے اسى وجہ سے حرف شرط مقدر كى وجہ سے مجزوم ہوگيا ہے اصل ميں كلام يوں ہے'' إن تلقوه على وجه أبى يأت بصيراً'' يہ جملہ اس معنى ميں ہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام كى قميض كى تاثيرحضرت يعقوبعليه‌السلام كا بابصيرت ہوناہے _

۸_خارق العادة چيزوں كا انبياء سے ظاہر ہونا اور ان سے متعلقہ چيزوں سے مريضوں كى شفا يابى ممكن ہے _

اذهبوا بقميصى هذا فالقوه على وجه أبى يأت بصيرا

۹_ حضرت يوسف(ع) نے اپنے بھائيوں سے چاہا كہ اپنے تمام اہل و عيال (خاندان يعقوبعليه‌السلام ) كو مصر ميں لے آئيں _و أتونى بأهلكم أجمعين

۱۰_ حضرت يوسفعليه‌السلام اپنى حكومت كے زمانے ميں حضرت يعقوبعليه‌السلام اور انكے خاندان كو اس ملك ميں جگہ دينے ميں كوئي مشكل و پريشانى نہيں ركھتے تھے_و أتوتى بأهلكم اجمعين

۱۱_ اپنے رشتہ داروں اور تعلق ركھنے والوں كى مدد كرنا نيك صفت اور نيك لوگوں كى خصوصيات ميں سے ہے _

و أتونى بأهلكم اجمعين

۱۲_ ''عن أبى جعفر عليه‌السلام '' فى قوله تعالى قال ...(اذهبوا بقميصى هذا) الّذى بلّته دموع عيني (۱) امام باقرعليه‌السلام سے اللہ تعالى كے اس قول (اذھبوا بقميصى ہذا) كے بارے ميں روايت ہے كہ اس قميض كو لے جائيں جو ميرى آنكھوں كے آنسوں سے بھرى ہوئي ہے (اسكو اپنے ہمراہ لے جائيں ) _

آل يعقوبعليه‌السلام :

____________________

۱) تفسير عياشى ج۲ ص ۱۹۶ ، ح ۷۹ ;نورالثقلين ج/۲ ص ۴۶۲ ح ۱۸۵_

۶۵۲

آل يعقوب سے كوچ كرنے كى درخواست كرنا ۹آل يعقوبعليه‌السلام كا مصر ميں رہنا ۱۰;

انبياءعليه‌السلام :ابنياءعليه‌السلام اور خارق العادہ كام ۸; انبياء اور مريضوں كى شفا۸

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسفعليه‌السلام كا كنعان كى طرف لوٹ جانا ۱

رشتہ دار:رشتہ داروں كى امداد كرنا ۱۱

روايت: ۱۲

صفات:پسنديدہ صفات۱۱

محسنين :محسنين كى خصوصيات ۱۱

حضرت يعقوبعليه‌السلام :حضرت يعقو ب(ع) كا حضرت يوسفعليه‌السلام سے جدا ہونا ۳;حضرت يعقوبعليه‌السلام كا مصر ميں ٹھہرنا ۱۰ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى بصارت ۲ ، ۷ ; حضرت يعقو ب(ع) كى شفاء ۲ ، ۷ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كى نابينائي كے اسباب ۳

حضرت يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام اور بھائي ۱ ، ۴ ، ۹ ; حضرت يوسفعليه‌السلام اور يعقوبعليه‌السلام كى نابينائي ۵;حضرت يوسفعليه‌السلام كا علم غيب ۶ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۳ ، ۴ ،۵ ، ۷ ، ۱۲ ;حضرت يوسفعليه‌السلام كى جدائي كے آثار ۳ ;حضرت يوسفعليه‌السلام كى حكومت كى خصوصيات ۱۰ ;حضرت يوسفعليه‌السلام كى خواہشات ۲ ، ۴ ،۹ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كى قميض ۱ ، ۲، ۴،۱۲;حضرت يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۶ ،۷ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كے كرامات ۷

آیت ۹۴

( وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ قَالَ أَبُوهُمْ إِنِّي لَأَجِدُ رِيحَ يُوسُفَ لَوْلاَ أَن تُفَنِّدُونِ )

اب جو قافلہ مصر سے روانہ ہوا تو ان كے پدر بزرگوار نے كہا كہ ميں يوسف كى خوشبو محسوس كررہاہوں اگر تم لوگ مجھے سٹھيا يا ہوا نہ كہوا(۹۴)

۱_ فرزندان يعقوبعليه‌السلام كا قافلہ قيمتى ہديہ اور واضح دليل كے ساتھ كہ حضرت يوسفعليه‌السلام صحيح و سالم ہيں مصر سے كنعان كى طرف چلا_اذهبوا بقميصى هذا و لما فصلت العير

(فصلت) كو (فصول ) كے مصدر سے ليا گيا ہے اور (فصول) كا معنى خارج ہونا اور جدا ہونے كا ہے _

۶۵۳

۲_حضرت يعقوبعليه‌السلام ، نے دور كے فاصلے سے (كنعان سے مصر تك ) حضرت يوسفعليه‌السلام كى قميض سے ان كى خوشبواستشمام كرلى _و لما فصلت العير قال أبوهم إنى لاجد ريح يوسف

(قال أبوہم ...) كا جملہ ( لما فصلت ...) كے ليے جواب شرط ہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام كى خوشبو كا سونگھنا اور قافلے كے ہمراہ حضرتعليه‌السلام كى قميض كے ہونے كے ساتھ مربوط ہے _حالانكہ وہ قافلہ ابھى مصر كے قريب تھا _ اس سے معلوم ہوا كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے بہت دور سے حضرت يوسفعليه‌السلام كى خوشبو كو ان كى قميض سے محسوس كيا _

۳ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں كے مصر سے نكلتےاپنى دريافت كردہ چيز (حضرت يوسف(ع) كى خوشبو كا احساس) كو اپنے نزديك بيٹھے ہوئے لوگوں كے سامنے بيان فرمايا _و لما فصلت الصير قال أبوهم إنى لاجد ريح يوسف

۴ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى معجزانہ قوة شامہ ( سونگھنے كى طاقت ) اور بہت دور فاصلہ سے حضرت يوسفعليه‌السلام كى خوشبو كو استشمام كرنے كى كرامت _و لما فصلت العير قال أبوهم إنى لاجد ريح يوسف

۵_ہر انسان كى ايك مخصوص خوشبو ہوتيہے_إنى لاجد ريح يوسف

۶_ خوشبو كا پھيلنا محدود نہيں ہے وہ اپنے مقام و منبع سے بہت دور تك كے فاصلے تك پھيل سكتى ہے _

و لما فصلت العير قال أبوهم إنى ل اجد ريح يوسف

۷_ حضرت يعقو ب(ع) كا خاندان ،حضرت يوسفعليه‌السلام كے زندہ ہونے كے بارے ميں حضرتعليه‌السلام كى باتوں كا انكار كرتے تھے_قال أبوهم لو لا ا ن تفندون

يہ بات واضح ہے كہ جملہ (إنى لا جد ...) (لولا ...) كے جملے كا جواب نہيں ہوسكتا_ كيونكہ خواہ وہ لوگ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى فكر كو درست خيال كرتے يا نہ انہوں نے حضرت يوسفعليه‌السلام كى خوشبو كو محسوس كيا تھا اس وجہ سے شرط كا جواب محذوف ہے اور حاليہ و مقاميہ قرائن اس بات كا مؤيد ہوسكتے ہيں كہ اس جواب شرط كا جملہ مثل اس كے ہے (لما كذبتمونى ) ( تم مجھے نہ جھٹلاتے اور حضرت يوسفعليه‌السلام كے وصال كے نزديك ہونے پر يقين كرليتے)

۸_ حضرت يعقوبعليه‌السلام پران كے خاندان والے يہ تہمت لگاتے كہ بڑھاپے اور زيادہ عمر نے حضرتعليه‌السلام كے عقل و خرد پر اثر كيا ہوا ہے_لو لا أن تفنّدون// (فنّد) كا معنى بڑھاپے كى وجہ سے عقل پر اثر ہون

۶۵۴

ہے _ اور (تفندون كا مصدر ) تفنيد ہے يعنى كسى كے فكرو انديشہ كو بڑھا پے كى وجہ سےضعيف قرار دينا ( كشاف ) _

۹_حضرت يعقوبعليه‌السلام كے رشتہ دار،ان سے جسارت اور بے ادبى كا سلوك كرتے تھے_لو لا أن تفنّدون

۱۰_حضرت يعقوبعليه‌السلام كے رشتہ داروں اور اقرباء كى طرف سے انكى شخصيت كا پامال ہونا_لو لا أن تفنّدون

۱۱_ علماء كاجہلاكے درميان زندگى بسركرنا رنج اور مشكلات كا باعث ہے _إنى لا جد ريح يوسف لو لا ان تفنّدون

۱۲_مصر كى طرف تيسرے سفر كےليے حضرت يوسفعليه‌السلام اور بنيامين كى تلاش كے ليے فرزندان يعقوب(ع) ميں سے كچھ لوگ گئے تھے_يا بنى اذهبوا و لما فصلت العير قال أبوهم لو لا ان تفنّدون

(قال أبوهم ...) كے جملہ سے يہ ظاہر ہوتاہے كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام جن سے مخاطب ہيں وہ حضرت كے بيٹے ہيں اس بناء پر (لو لا ان تفنّدون )كے جملے ميں مخاطبين ان كے بيٹے ہيں اس سے ظاہر ہوتاہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام اور بنيامين كى تلاش كے ليے حضرت كے كچھ بيٹے مصر كى طرف گئے تھے( يا بنى اذھبوا ...) اور ان ميں سے بعض اپنے بابا كے پاس رہ گئے تھے_

۱۳_عن أبى عبداللّه عليه‌السلام قال: ان ابراهيم لما أوقدت له النار أثاه جبرئيل عليه‌السلام بثوت من ثياب الجنة فلما حضر إبراهيم الموت جعله فى تميمه و علّقه إسحاق على يعقوب ، فلما ولد يوسف(ع) علّقه عليه فكان فى عضده فلمأخرجه يوسف بمصر من التميمة و جد يعقوب ريحه و هو قوله : ''إنى لا جد ريح يوسف ...'' فهو ذلك القميص الذى أنزل اللّه من الجنه (۱)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا: جب حضرت ابراہيمعليه‌السلام كو جلانے كے ليے آگ كو روشن كيا گيا تو حضرت جبريلعليه‌السلام جنت كى قميضوں ميں سے ايك قميض ان كے ليے لائے ...جب حضرت ابراہيمعليه‌السلام اس دنيا سے جانے لگے تو اسكو ايك جلد ميں ركھ كر حضرت اسحاقعليه‌السلام كے ليے تعويذ بناكر ديا حضرت اسحاقعليه‌السلام نے حضرت يعقوبعليه‌السلام كے گلے ميں ڈال ديا جب حضرت يوسفعليه‌السلام اس دنيا ميں تشريف لائے توحضرت يعقوبعليه‌السلام نے (اسكو) حضرت يوسفعليه‌السلام كو باندھ ديا وہ حضرت يوسفعليه‌السلام كے بازو پر بندھا ہوا تھا پس جب حضرت يوسف(ع) نے مصر ميں اسے جلد سے نكالا تو حضرت يعقو ب(ع) كو اسكى خوشبو آئي

____________________

۱) كافى ج۱ ص ۲۳۲ ح ۵ ; نورالثقلين ج۲ ص ۴۶۳ح ۱۸۷_

۶۵۵

يہى وجہ تھى كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے يہ جملہ فرمايا (إنى لاجد ريح يوسف ...) پس يہ وہ قميض تھى كہ جسكو خداوند متعال نے جنت سے بھيجا تھا

آل يعقوبعليه‌السلام :آل يعقو ب(ع) اور حضرت يوسفعليه‌السلام كى زندگى ۷; آل يعقوب اور يعقوبعليه‌السلام ۹،۱۰; آل يعقوبعليه‌السلام كى اہانتيں ۹ ، ۱۰ ; آل يعقوب(ع) كى تہمتيں ۸

انسان :انسانوں كى خوشبو ۵ ; انسانوں كى خصوصيات ۵

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسف اور حضرت يوسفعليه‌السلام كى سلامتي۱; برادران يوسفعليه‌السلام كا تحفہ ۱ ;برادران يوسف(ع) كاكنعان كى طرف لوٹنا ۱; برادران يوسفعليه‌السلام كا مصر كى طرف تيسرا سفر ۱۲

خوشبو :خوشبو كى حدود كا وسيع ہونا ۶

روايت : ۱۳

زندگى :زندگى كا دكھ و دردوالا ہونا ۱۱

علماء:علما، جہلاء كے درمين ۱۱; علماء كے دكھى ہونے كے موارد ۱۱

حضرت يعقوبعليه‌السلام :حضرت يعقوبعليه‌السلام اور حضرت يوسفعليه‌السلام كا پيراہن ۲;حضرت يعقوبعليه‌السلام اور حضرت يوسفعليه‌السلام كى خوشبو ۲ ، ۳ ، ۴ ، ۱۳;حضرت يعقوبعليه‌السلام پر بے عقلى كى تہمت ۸ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كا قصہ ۲ ، ۳، ۴، ۸ ، ۹ ، ۱۰ ;حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اہانت ۹ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى پيشگوئي ۳ ;حضرت يعقوبعليه‌السلام كى شخصيت كى توہين ۱۰; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى كرامات ۳،۴

حضرت يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام كا پيراہن ۳،۱ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۳ ، ۴ ، ۷، ۱۲ ، ۱۳;حضرت يوسفعليه‌السلام كى خوشبو كا سونگھنا ۲ ، ۳ ، ۴ ; حضرت يوسفعليه‌السلام كے زندہ ہونے كو جھٹلانے والے۷

۶۵۶

آیت ۹۵

( قَالُواْ تَاللّهِ إِنَّكَ لَفِي ضَلاَلِكَ الْقَدِيمِ )

ان لوگوں نے كہا كہ خدا كى قسم آپ ابھى تك اپنى پرانى گمراہى ميں مبتلا ہيں (۹۵)

۱_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے رشتہ دار،حضرت يوسف(ع) كے زندہ ہونے پر حضرت يعقوب(ع) كے يقين كو ديرينہ خطاء اور انكے اس پر اصرار كوا نكى ضعف عقلى كا سبب قرار ديتے تھے _إنك لفى ضلالك القديم

فرزندان يعقوبعليه‌السلام اور حضرت كے رشتہ داروں كا اس جملہ (ضلالك القديم ) (پرانى غلطي) سے مراد ممكن ہے يہ ہو كہ وہ حضرت يوسفعليه‌السلام كو زندہ سمجھتے يا يہ كہ اسكو دوسرے بيٹوں پر افضل جانتے تھے اور يہ بھى بعيد نہيں ہے كہ دونوں معنى مراد ہوں _

۲ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے رشتہ دار، قسم اٹھاكر حضرتعليه‌السلام يعقوب(ع) كو يوسفعليه‌السلام سے بے حدمحبت اور دوسروں سے افضل سمجھنے ميں فكرى خطا و كج روى سے متہم كرتے تھے _إنك لفى ضلالك القديم

۳ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام ، حضرت يوسفعليه‌السلام كى جدائي كےپورے عرصہ ميں ہميشہ ان كے زندہ ہونے پر يقين ركھتے تھے اور اپنے ساتھيوں كے سامنے اسكا اظہار كرتے تھے_قال أبوهم إنى لأجد ريح يوسف قالوا تاللّه إنك لفى ضلالك القديم

۴ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے رشتہ داروں نے يوسفعليه‌السلام كى خوشبو استشمام كى خبر كو جھٹلايا اور اس احساس كو انكى ضعف فكرى كا سبب قرار ديا _قالوا أبوهم إنى لاجد ريح يوسف قالوا تاللّه إنك لفى ضلالك القديم

۵_حضرت يعقوبعليه‌السلام كے رشتہ داروں نے حضرتعليه‌السلام كے بلند منزلت و مرتبہ كے ساتھ بے ادبى و جسارت كي_

إنك لفى ضلالك المبين

۶_ خداوند متعال كے نام كى قسم اٹھانا، تاريخ بشر ميں

۶۵۷

بہت قديمى ہے_قالوا تالله إنك لفى ضلالك المبين

۷_'' نشيط قال: قلت لا بى عبداللّه(ع) :اكان إخوة يوسف صلوات اللّه عليه أنبياء قال: لا و لا بررة أتقياء و كيف و هم يقولون لابيهم يعقوب : '' تاللّه إنك لفى ضلالك القديم'' (۱) نشيط نے كہا : كہ ميں نے امام جعفر صادقعليه‌السلام سے سوال كيا كہ مولا برادران يوسفعليه‌السلام پيغمبر تھے؟آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا نہيں بلكہ نيك اور پرہيزگار لوگوں ميں سے بھى نہيں تھے_يہ كيسے پيغمبر ہوسكتے ہيں جو اپنے باپ يعقوبعليه‌السلام كو يہ كہيں : (تالله إنك لفى ضلالك القديم )_

آل يعقوبعليه‌السلام :آل يعقوبعليه‌السلام اور يعقوبعليه‌السلام ۱ ،۲،۴،۵ ;آل يعقو ب(ع) اور يوسفعليه‌السلام كا زندہ ہونا۱;آل يعقوبعليه‌السلام كا قسم اٹھانا ۲ ; آل يعقوبعليه‌السلام كى اہانتيں ۵; آل يعقوبعليه‌السلام كى تہمتيں ۱،۲ ;آل يعقوبعليه‌السلام كى فكر ۱

برادران يوسف :برادران يوسفعليه‌السلام اور نبوت ۷ ; برادران يوسف اور يعقوبعليه‌السلام ۷ ; برادران يوسفعليه‌السلام كى تہمتيں ۷

روايت :۷

قسم اٹھانا :قسم اٹھانے كى تاريخ ۶ ; اللہ تعالى كى قسم اٹھانا ۶

يعقوبعليه‌السلام :حضرت يعقوبعليه‌السلام اور حضرت يوسفعليه‌السلام كا زندہ ہونا ۳; حضرت يعقوبعليه‌السلام اور حضرت يوسفعليه‌السلام كى خوشبو ۴; حضرت يعقوبعليه‌السلام پر خطا كى تہمت ۱ ، ۲;حضرت يعقوب(ع) پر اكج فكر كى تہمت ۱ ، ۴ ;حضرت يعقوبعليه‌السلام كا علم غيب ۳ ; حضرت يعقوبعليه‌السلام كا قصہ ۱ ، ۲ ، ۳،۴، ۵ ;حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اہانت كرنا ۵ ;حضرت يعقوبعليه‌السلام كى پيش گوئي ۳ ;حضرت يعقوبعليه‌السلام كى حضرت يوسفعليه‌السلام سے محبت ۲;حضرت يعقوبعليه‌السلام يوسفعليه‌السلام كى جدائي ميں ۳

حضرت يوسفعليه‌السلام :

يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۳

____________________

۱) تفسير عياشى ج۲ ص ۱۹۴ ح ۷۴ ; نورالثقلين ج۲ ص ۴۶۴ ح ۱۹۲_

۶۵۸

آیت ۹۶

( فَلَمَّا أَن جَاء الْبَشِيرُ أَلْقَاهُ عَلَى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيراً قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ مِنَ اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ )

اس كے بعد جب بشير نے آكر قميص كو يعقوب كے چہرہ پر ڈال ديا تو دوبارہ صاحب بصارت ہوگئے اور انھوں نے كہا كہ ميں نے تم سے نہ كہا تھا كہ ميں خدا كى طرف سے وہ جانتا ہوں جو تم نہيں جانتے ہو(۹۶)

۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام كا پيراہن لے آنے والا بشارت دينے كے عنوان سے قافلہ كے دوسرے افرادكى نسبت جلدى سے حضرت يعقوبعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوا _فلما أن جاء البشير

(بشير) بمعنى اسم فاعل (مبشر) اس كو كہا جاتاہے جو خوشى كے پيغام كو پہنچائے_ قابل ذكر ہے كہ اگر (بشير) بھى فرزندان يعقوبعليه‌السلام كے ہمراہ حضرتعليه‌السلام كى خدمت ميں پہنچاہوتا تو سب سے مناسب يہ تھا كہ جملے كو اس طرح ذكر كيا جاتا (فلماّ أن جاء القاه البشير على وجهه ) ليكن كہا گيا (فلما أن جاء البشير ) اس معنى كو ظاہر كرتا ہے كہ خوشى كى خبر دينے والا دوسرے افراد كى نسبت پہلے پہنچ گيا تھا_

۲_ فرزندان يعقوبعليه‌السلام كے قاصد نے اپنے ہمراہ يوسفعليه‌السلام كے پيراہن كولا كر حضرت يوسفعليه‌السلام كے زندہ ہونے كى يعقوبعليه‌السلام كوبشارت دى _فلما أن جاء البشير

بشارت اور مسرت بخش خبر كا مصداق، حضرت يوسفعليه‌السلام كے زندہ ہونے اور انكى حكومت كى خبر نيز ان كا اپنے ہمراہ معجزہ نما پيراہن كا ہوناہے_ يہ بات قابل ذكر ہے كہ آيت نمبر ۹۳ ميں ذكر جملہ (اذھبوا بقميض) يہ بتاتا ہے كہ بشير وہ برادران يوسف ميں سے ايك تھا نہ كہ ان كے علاوہ كوئي دوسرا شخص

۳_بشارت دينے والے كا پہلا كام،حضرت يعقوبعليه‌السلام كى ملاقات كے وقت پيراہن يوسفعليه‌السلام كوحضرت يعقوبعليه‌السلام پر ڈالنا تھا_فلما أن جاء البشير ألقاه على وجهه

جملہ(ألقاه ...) ( فلما أن جا البشير) كا جواب ہے_ لہذا پيراہن كا ان پر ڈلنا فقط اسكے آنے اور بشارت دينے سے متحقق ہوگيا _ اسميں (أن) كا حرف زائدہ ہے اور تاكيد كرتا ہے كہ اس كے آنے اور پيراہن كے ڈالنے كے درميان كوئي فاصلہ نہيں ہے _

۶۵۹

۴ _ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے چہرے پر قميض يوسفعليه‌السلام كى قميض ڈالنے سے فوراً ان كى آنكھوں ميں روشنى آگئي اور انكى بصارت لوٹ آئي_ألقاه على وجهه فارتد بصيرا

(ارتداد) (ارتد) كا مصدر ہے جسكا معنى كسى شے كااپنى پرانى صورت يا حالت پر لوٹ آنا ہے _(فارتد ...) ميں فاء كے دو معنى ہيں ۱_پيراہن ڈالنے اورحضرت يعقوب(ع) ميں بصارت آنے كے درميان ترتب اور سببيت كو بتاتاہے۲_ ان دونوں كے درميان كوئي فاصلہ اور وقفہ نہيں ہے_

۵_حضرت يوسفعليه‌السلام كى يہ پيشگوئي پورى ہوگئي كہ ان كے پيراہن كے وسيلہ سے حضرت يعقوبعليه‌السلام كى بينائي واپس لوٹ آئے گي_اذهبوا بقميض هذا فألقوه على وجه أبى يأت بصيراً ألقاه على وجهه فارتد بصيرا

(ألقاہ) ميں (ہ) كى ضمير قميض كى طرف لوٹتى ہے اور (وجہہ) و (ارتد) كى ضميريں حضرت يعقوبعليه‌السلام كى طرف لوٹتى ہيں ليكن (ألقي) كے فاعل كى ضمير ميں دو نظريے ہيں _ ۱_بعض كے نزديك (بشير)كى طرف لوٹتى ہے_ ۲_ بعض كے نزديك يعقوبعليه‌السلام كى طرف لوٹتى ہے _

۶_ پيغمبران الہى كى چيزوں كے متبرّك ہونے كا جواز _ألقاه على وجهه فارتد بصيرا

۷_ پيغمبروں كى چيزوں سے تبرك كے ذريعہ شفاء پانا ممكن ہے _ألقاه على وجهه فارتد بصيرا

۸_ حضرت يوسفعليه‌السلام كا معجزہ اور كرامت كا ظہور يہى تھا كہ حضرتعليه‌السلام كے پيراہن سے يعقوبعليه‌السلام كى نابينا آنكھوں كو شفا حاصل ہوئي _ألقاه على وجهه فارتد بصيرا

۹_حضرت يعقو ب(ع) ،حضرت يوسفعليه‌السلام كى بشارت حيات سے پہلے ہى ان كے زندہ ہونے پر مطمئن تھے_

ألم أقل لكم إنى أعلم من اللّه ما لا تعلمون

(من اللّہ) كا معنى ممكن ہے '' خدا كى طرف سے''ہو اور يہ بھى احتمال ہے''خدا كے بارے ميں ہو''_ اگر پہلے والا معنى ليں تومقام كى مناسب سے جملہ (ما لا تعلمون) كا معنى حضرت يوسفعليه‌السلام كا زندہ ہونا اور انكا ديدارو غيرہ ہے _

۱۰_حضرت يعقوب(ع) اپنے بيٹوں كے برعكس حضرت يوسفعليه‌السلام كى جدائي كے دن ختم ہونے پر اطمينان ركھتے تھے_

ألم أقل لكم إنى أعلم من اللّه ما لا تعلمون

۶۶۰

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945

946

947

948

949

950

951

952

953

954

955

956

957

958

959

960

961

962

963

964

965

966

967

968

969

970

971