تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 6%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 213785 / ڈاؤنلوڈ: 4489
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۸

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ائمہ اہل بیت علیہم السلام

ہم ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے روبرو حاضرہیں جنھوں نے معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دی ، وہ دنیائے عرب و اسلام میں شعور و فکر کے چراغ ہیں ،انھوں نے انسانی فکر ،اس کے ارادے ، سلوک و روش کی بنیاد ڈالی ، خالق کا ئنات اور زندگی دینے والے کے علاوہ کسی اورکی عبادت کرنے سے مخلوق خداکو نجات دی

بیشک ائمہ اہل بیت علیہم السلام شجرئہ نبوت کے روشن چراغ ہیں ،یہ اس شجرۂ طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہو ئی ہیں یہ شجرہ ہر زمانہ میںحکم پروردگار سے پھل دیتا رہتا ہے،یہ حضرات رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کا ایسا جزء ہیں جن کو کبھی بھی ان سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے وہ رسول جنھوں نے انسان کو پستی نکال کر بلندی عطا کی اوراسے نور سے منور فرمایا۔۔۔ہم اپنی گفتگو کا آغاز اس سلسلۂ جلیلہ سید و سردار یعنی امام علی کی سوانح حیات سے کرتے ہیں:

حضرت علی علیہ السلام

آپ اپنی جود و سخا ،عدالت، زہد،جہاد اور حیرت انگیز کارنامو ں میں اس امت کی سب سے عظیم شخصیت ہیں دنیائے اسلام میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے کو ئی بھی آپ کے بعض صفات کا مثل نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ وہ آپ کے بعض صفات تک کا مثل ہو ۔آپ کے فضائل و کمالات اور آپ کی شخصیت کے اثرات زمین پر بسنے والے پرتمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے زبان زد عام ہیں ، تمام مؤ رخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عرب یا غیرعرب کی تاریخ میں آپ کے بھائی اور ابن عم کے علاوہ آپ کا کو ئی ثانی نہیں ہے ہم ذیل میں آپ کے بعض صفات و خصوصیات کو قلمبند کررہے ہیں :

۲۱

کعبہ میں ولادت

تمام مؤرخین اورراویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت خانۂ کعبہ میں ہوئی۔(۱) آپ کے علاوہ کو ئی اور خانۂ کعبہ میں نہیں پیدا ہوا ،اور یہ اللہ کے نزدیک آ پ کے بلند مرتبہ اور عظیم شرف کی علامت ہے ،اسی مطلب کی طرف عبد الباقی عمری نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے :

اَنْت العلیُّ الذی فوق العُلیٰ رُفِعا

ببطن مکة عند البیت اِذْوُضِعَا

____________________

۱۔مروج الذہب ،جلد ۲ صفحہ ۳،فصول مہمہ مؤلف ابن صبّاغ، صفحہ ۲۴۔مطالب السئول، صفحہ ۲۲۔تذکرة الخواص، صفحہ ۷۔کفایة الطالب، صفحہ ۳۷۔ نور الابصار ،صفحہ ۷۶۔نزھة المجالس ،جلد۲،صفحہ ۲۰۴۔شرح الشفا ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔غایة الاختصار ،صفحہ ۹۷۔عبقریة الامام (العقاد)، صفحہ ۳۸۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۴۸۳۔اور اس میں وارد ہوا ہے کہ :''متواتر احادیث میں آیا ہے کہ امیر المو منین علی بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے کعبہ میں پیدا ہوئے ''۔

۲۲

''آپ وہ بلند و بالا شخصیت ہی ںجو تمام بلند یوں سے بلند و بالا ہیںاس لئے کہ آپ کی ولادت مکہ میں خانہ کعبہ میں ہوئی ہے ''۔

بیشک نبی کے بھائی اور ان کے باب شہر علم کی ولادت اللہ کے مقدس گھر میں ہو ئی تاکہ اس کی چوکھٹ کو جلا بخشے،اس پر پرچم توحید بلند کرے ،اس کو بت پرستی اور بتوںکی پلیدی سے پاک وصاف کرے ، اس بیت عظیم میں ابوالغرباء ،اخو الفقراء ، کمزوروں اور محروموں کے ملجأ و ماویٰ پیدا ہوئے تاکہ ان کی زندگی میں امن ،فراخدلی اور سکون و اطمینان کی روح کوفروغ دیں ، ان کی زندگی سے فقر و فاقہ کا خاتمہ کریں ،آپکے پدر بزرگوار شیخ بطحاء اور مو من قریش نے آپ کا اسم گرامی علی رکھاجو تمام اسماء میں سب سے بہترین نام ہے۔

اسی لئے آپ اپنی عظیم جود و سخا اور حیرت انگیز کارناموں میں سب سے بلند تھے اور خداوند عالم نے جو آپ کو روشن و منورعلم و فضیلت عطا فرمائی تھی اس کے لحاظ سے آپ اس عظیم بلند مرتبہ پر فائز تھے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

امیر بیان اور عدالت اسلامیہ کے قائد و رہبرنبی کی بعثت سے بارہ سال پہلے تیرہ رجب ۳۰ عام الفیل کو جمعہ کے دن پیدا ہوئے ۔(۱)

القاب

امیر حق نے آپ کو متعدد القاب سے نوازا جو آپ کے صفات حسنہ کی حکایت کرتے ہیں ،آپ کے القاب مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔صدیق(۲)

آپ کو اس لقب سے اس لئے نوازا گیا کہ آپ ہی نے سب سے پہلے رسول اللہ کی مدد کی اور اللہ کی طرف سے رسول ر نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لائے ، مولائے کائنات خود فرماتے ہیں :

''اَناالصدیق الاکبرآمنت قبل ان یومن ابوبکرواسلمتُ قبل ان یسلّم '(۳)

''میں صدیق اکبر ہوں ابوبکر سے پہلے ایمان لایاہوں اور اس سے پہلے اسلام لایاہوں ''۔

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱،صفحہ ۳۲۔منقول از مناقب آل ابوطالب ،جلد۳،صفحہ۹۰۔

۲۔تاریخ خمیس ،جلد ۲،صفحہ ۲۷۵۔

۳۔معارف ،صفحہ ۷۳۔ذخائر ،صفحہ ۵۸۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۵۷۔

۲۳

۲۔وصی

آپ کو یہ لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں اور رسول خدا نے اس لقب میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: ''اِنَّ وَصِیّ،وَمَوْضِعَ سِرِّی،وَخَیْرُمَنْ اَتْرُکَ بَعْدِیْ،وَیُنْجِزُعِدَتِیْ،وَیَقْضِیْ دَیْنِیْ،عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ'' ۔(۱)

''میرے وصی ،میرے راز داں ،میرے بعد سب سے افضل ،میرا وعدہ پورا کرنے والے اور میرے دین کی تکمیل کرنے والے ہیں ''۔

۳۔فاروق

امام کو فاروق کے لقب سے اس لئے یاد کیا گیا کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔یہ لقب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث سے اخذ کیا گیا ہے ،ابو ذر اور سلمان سے روایت کی گئی ہے کہ نبی نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :''اِنّ هٰذَااَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِیْ،وهٰذَا اَوَّلُ مَنْ یُصَافِحُنِیْ یَوْمَ القِیَامَةِ،وَهٰذَا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَرُ،وَهٰذَا فَارُوْقُ هٰذِهِ الاُمَّةِ یَفْرُقُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ'' ۔(۲)

''یہ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لائے ،یہی قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں

گے ،یہی صدیق اکبر ہیں ،یہ فاروق ہیں اور امت کے درمیان حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں ''۔

۴۔یعسوب الدین

لغت میں یعسوب الدین شہد کی مکھیوں کے نَر کو کہا جاتا ہے پھر یہ قوم کے صاحب شرف سردار کیلئے بولا جا نے لگا،یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے القاب میں سے ہے ،نبی اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو یہ لقب دیتے ہوئے فرمایا:هٰذَا ( واشارَالی الامام ) یَعْسُوْبُ المُؤمِنِیْنَ،وَالْمَالُ یَعْسُوْبُ الظَّا لِمِیْنَ'' ۔(۳)

''یہ (امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا)مو منین کے یعسوب ہیں اور مال ظالموں کا یعسوب ہے ''۔

____________________

۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔

۲۔مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۰۲،فیض القدیر،جلد ۴، صفحہ ۳۵۸۔کنز العمال ،جلد ۶ ،صفحہ ۱۵۶۔فضائل الصحابة، جلد ۱، صفحہ ۲۹۶۔

۳۔ مجمع الزوائد، جلد ۹،صفحہ ۱۰۲۔

۲۴

۵۔امیر المو منین

آپ کا سب سے مشہور لقب امیر المو منین ہے یہ لقب آپ کو رسول اللہ نے عطا کیا ہے روایت ہے کہ ابو نعیم نے انس سے اور انھوں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے :'' یاانس، ''اسْکُبْ لِیْ وَضُوء اً ''اے انس میرے وضو کرنے کے لئے پانی لائو''پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا:'' اے انس اس دروازے سے جو بھی تمہارے پاس سب سے پہلے آئے وہ امیر المو منین ہے ، مسلمانوں کا سردار ہے ،قیامت کے دن چمکتے ہوئے چہرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے '' ، انس کا کہنا ہے :میں یہ فکر کررہاتھا کہ وہ آنے والا شخص انصار میں سے ہو جس کو میں مخفی رکھوں ، اتنے میں حضرت علی تشریف لائے تو رسول اللہ نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا ؟ میں (انس) نے عرض کیا : علی ۔ آپ نے مسکراتے ہوئے کھڑے ہوکر علی سے معانقہ کیا ،پھر ان کے چہرے کا پسینہ اپنے چہرے کے پسینہ سے ملایااور علی کے چہرے پر آئے ہوئے پسینہ کو اپنے چہرے پر ملا اس وقت علی نے فرمایا: ''یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ آنحضرت نے فرمایا:''میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرے امور کے ذمہ دار،میری آواز دوسروں تک پہنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میںصحیح رہنما ئی کرنے والے ہو ''۔(۱)

۶ حجة اللہ

آپ کا ایک عظیم لقب حجة اللہ ہے، آپ خدا کے بندوں پر اللہ کی حجت تھے اور ان کومضبوط و محکم راستہ کی ہدایت دیتے تھے ،یہ لقب آپ کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عطا فرمایا تھا ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''میںاور علی اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہیں''۔(۲)

یہ آپ کے بعض القاب تھے ان کے علاوہ ہم نے آپ کے دوسرے چھ القاب امام امیر المومنین کی سوانح حیات کے پہلے حصہ میںبیان کئے ہیںجیسا کہ ہم نے آپ کی کنیت اور صفات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

____________________

۱۔حلیة الاولیائ، جلد ۱،صفحہ ۶۳۔

۲۔کنوز الحقائق ''المناوی''،صفحہ ۴۳۔

۲۵

آپ کی پرورش

حضرت امیر المو منین نے بچپن میں اپنے والد بزرگوار شیخ البطحاء اورمو منِ قریش حضرت ابوطالب کے زیر سایہ پرورش پائی جو ہر فضیلت ،شرف اور کرامت میں عدیم المثال تھے ،اور آپ کی تربیت جناب فاطمہ بنت اسدنے کی جو عفت ،طہارت اور اخلاق میں اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں انھوں نے آپ کو بلند و بالا اخلاق ،اچھی عا دتیں اور آداب کریمہ سے آراستہ و پیراستہ کیا۔

پرورش امام کے لئے نبی کی آغوش

امام کے عہد طفولیت میں نبی نے آپ کی پرورش کرنے کی ذمہ داری اس وقت لے لی تھی جب آپ بالکل بچپن کے دور سے گذر رہے تھے ،جس کا ماجرا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آنحضرت کے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کچھ بہتر نہیں تھے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچاعباس اور حمزہ کے پاس گفتگو کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور ان سے اپنے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کے سلسلہ میںگفتگو کی اور ان کا ہاتھ بٹانے کا مشورہ دیاتو انھوں نے آپ کی اس فرمائش کو قبول کرلیا ، چنانچہ جناب عباس نے طالب ، حمزہ نے جعفر اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کی پرورش کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی، لہٰذا اس وقت سے آپ (علی) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آغوش تربیت میں آگئے اور آنحضرت ہی کے زیر سایہ اورانھیں کے دامن محبت و عطوفت میں پروان چڑھے ،اسی لئے آپ کی رگ و پئے اور آپ کی روح کی گہرائی میںپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کردار اور اخلاق اور تمام صفات کریمہ اسی وقت سے سرایت کر چکے تھے اسی لئے آپ نے زندگی کے آغاز سے ہی ایمان کو سینہ سے لگائے رکھا ،اسلام کو بخوبی سمجھا اور آپ ہی پیغمبر کے سب سے زیادہ نزدیک تھے ، ان کے مزاج و اخلاق نیز آنحضرت کی رسالت کو سب سے بہتر انداز میں سمجھتے تھے ۔

۲۶

مو لائے کا ئنات نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پرورش کے انداز اور آپ سے اپنی گہری قرابت داری کے بارے میں ارشاد فرمایا :''تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام اُن کے نزدیک کیا تھا ؟میں بچہ ہی تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے گود میں لے لیا تھا،آنحضرت مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کر تے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سونگھاتے تھے ،پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منھ میں دیتے تھے ،اُنھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی ۔۔۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے رہتا ہے، آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کر تے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے ''۔

آپ نے نبی اور امام کے مابین بھروسہ اور قابل اعتماد رابطہ کا مشاہدہ کیااور ملاحظہ کیاکہ کس طرح نبی اکرم حضرت علی کی مہربانی اور محبت کے ساتھ تربیت فرماتے اور آپ کو بلند اخلاق سے آراستہ کرتے تھے ؟اور نبی نے کیسے حضرت علی کی لطف و مہربانی اور بلند اخلاق کے ذریعہ تربیت پا ئی ؟

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت

جب رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے عظیم انقلاب کا آغاز فرمایاجس سے جاہلیت کے افکار ، اور رسم و رواج متزلزل ہوگئے ،تو قریش آپ کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ،انھوں نے جان بوجھ کرتحریک کو خاموش کرنے کیلئے بھرپور کو شش کی اور اس کیلئے ہرممکنہ طریقۂ کاراختیارکیا ،اپنے بچوں کو نبی پر پتھروں کی بارش کرنے کے لئے بھڑکایا، اس وقت امام ہی ایک ایسے بچے تھے جو نبی کی حمایت کر رہے تھے اور ان بچوں کو ڈانٹتے اور مارتے تھے جب وہ اپنی طرف اس بچہ کو آتے ہوئے دیکھتے تھے تو ڈر کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے تھے ۔

۲۷

اسلام کی راہ میں سبقت

تمام مو رخین اور راوی اس بات پر متفق ہیں کہ امام ہی سب سے پہلے نبی پر ایمان لائے ، آپ ہی نے نبی کی دعوت پر لبیک کہا،اور آپ ہی نے اپنے اس قول کے ذریعہ اعلا ن فرمایا کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کرنے والا میں ہو ں :''لَقَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَبْلَ اَنْ یَعْبُدَہُ اَحَدُ مِنْ ھٰذِہِ الاُمَّةِ ''۔ ''میں نے ہی اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کی ہے ''۔(۱)

اس بات پر تمام راوی متفق ہیں کہ امیر المو منین دور جا ہلیت کے بتوں کی گندگی سے پاک و پاکیزہ رہے ہیں ،اور اس کی تاریکیوں کا لباس آپ کو ڈھانک نہیں سکا،آپ ہر گز دوسروں کی طرح بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے ۔

مقریزی کا کہنا ہے :(علی بن ابی طالب ہاشمی نے ہر گز شرک نہیں کیا،اللہ نے آپ سے خیر کا ارادہ کیا تو آپ کو اپنے چچازاد بھائی سید المرسلین کی کفالت میں قرار دیدیا)۔(۲)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیدہ ام المو منین خدیجہ آپ کے ساتھ ایمان لا ئیں، حضرت علی اپنے اور خدیجہ کے اسلام پر ایمان لانے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :''وَلَم یَجْمَعْ بَیْتُ یَومَئِذٍ واحدُ فی الاسلام غیرَرسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَخَدِیْجَةَ وَاَنَا ثَالِثُهُمَا'' ۔(۳) ''اس دن رسول اللہ خدیجہ اور میرے علاوہ کو ئی بھی مسلمان نہیں ہوا تھا ''۔

ابن اسحاق کا کہنا ہے :اللہ اور محمد رسول اللہ پر سب سے پہلے علی ایمان لائے ''۔(۴)

حضرت علی کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر سات سال یا دوسرے قول کے مطابق نو سال تھی۔(۵) مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے ،جو آپ کیلئے بڑے ہی شرف اور فخر کی بات ہے ۔

آپ کی نبی سے محبت

آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ اخلاص سے پیش آتے تھے ایک شخص نے امام سے

____________________

۱۔صفوة الصفوہ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۲۔

۲۔ امتاع الاسمائ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۔

۳۔حیاةالامام امیر المومنین ،جلد ۱،صفحہ ۵۴۔

۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۴،صفحہ ۱۱۶۔

۵۔صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۳۰۱۔طبقات ابن سعد ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ۵۵۔

۲۸

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اس سے فرمایا:''کَانَ وَاللّٰہِ احبَّ الینامِن مالناواولادِناوَامَّھَاتِنَاومِن المائِ الباردِعلیَ الظّمْأ۔۔۔''۔(۱)

''خدا کی قسم وہ مجھے میرے مال ،اولاد ،ماںاور پیا س کے وقت ٹھنڈے گوارا پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے ''۔

حضرت علی کی نبی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک باغ آپ کے حوالہ کیا گیا ،باغ کے مالک نے آپ سے کہا :کیا آپ میرے باغ کی سینچا ئی کردیں گے میں آپ کو ہر ڈول کے عوض ایک مٹھی خرما دوںگا؟ آپ نے جلدی سے اس باغ کی سینچا ئی کر دی تو باغ کے مالک نے آپ کو خرمے دئے یہاں تک کہ آپ کی مٹھی بھرگئی آپ فوراً ان کو نبی کے پاس لیکر آئے اور انھیں کھلادئے ۔(۲)

نبی سے آپ کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ خود ان کی خدمت کرتے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے اور ہم اس سلسلہ کے چند نمونے اپنی کتاب'' حیاة الامام امیر المومنین ''میںذکر کرچکے ہیں ۔

یوم الدار

حضرت علی کی بھر پور جوانی تھی جب سے آپ نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قدم بہ قدم چلنا شروع کیا،یہ وہ دور تھا جب آنحضرت نے اپنی اسلامی دعوت کا اعلان کیاتھا کیونکہ جب خداوند عالم نے آپ کو اپنے خاندان میں تبلیغ کرنے کا حکم دیا تو رسول نے علی کو بلاکر ان کی دعوت کرنے کوکہا جس میںآپ کے چچا :ابوطالب ،حمزہ ،عباس اور ابو لہب شامل تھے ،جب وہ حاضر ہوئے تو امام نے ان کے سامنے دسترخوان بچھایا،ان سب کے کھانا کھانے کے بعد بھی کھانا اسی طرح باقی رہااور اس میں کوئی کمی نہ آئی ۔

جب سب کھانا کھاچکے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کھڑے ہوکر ان کو اسلام کی دعوت دی اور بتوں کی پوجاکرنے سے منع فرمایا ،ابو لہب نے آپ کا خطبہ منقطع کر دیا اور قوم سے کہنے لگا :تم نے ان کا جادو دیکھا ،

____________________

۱۔خزانة الادب، جلد ۳،صفحہ ۲۱۳۔

۲۔تاریخ طبری ،جلد ۲،صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ،صفحہ ۲۴۔مسند احمد بن حنبل، صفحہ ۲۶۳۔

۲۹

اور یہ نشست کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئی ،دوسرے دن پھر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب کو بلایا، جب سب جمع ہوگئے سب کو کھانا کھلایا اور جب سب کھانا کھا چکے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یوں خطبہ دیا :''اے بنی عبد المطلب! خدا کی قسم میں نے قوم عرب میں کسی ایسے جوان کا مشاہدہ نہیں کیا جو قوم میں مجھ سے بہتر چیزیں لیکر آیا ہو ،میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی بھلا ئی لیکر آیا ہوں ،خدا وند عالم نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اس کی دعوت دوں، تو تم میں سے جو بھی میری اس کام میں مدد کرے گا وہ میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ہوگا ؟''۔

پوری قوم پر سنّاٹا چھاگیا گو یاکہ ان کے سروں پر، پرندے بیٹھے ہوں ،اس وقت امام کی نوجوا نی تھی لہٰذا آپ نے بڑے اطمینان اور جوش کے ساتھ کہا :''اے نبی اللہ!میں اس کام میں، آپ کی مدد کروں گا ''۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا : '' بیشک یہ میرے بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ ہیں ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو ''۔

یہ سن کر مضحکہ خیز آوازیں بلند ہونے لگیںاور انھوں نے مذاق اڑاتے ہوئے ابوطالب سے کہا:''تمھیں حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ''۔(۱)

علماء کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث واضح طور پر امیر المو منین کی امامت پر دلالت کر تی ہے ،آپ ہی نبی کے وصی ،وزیر اور خلیفہ ہیں ،اور ہم نے یہ حدیث اپنی کتاب''حیاة الامام امیرالمو منین ''کے پہلے حصہ میں مفصل طور پر بیان کی ہے ۔

شعب ابی طالب

قریش کے سر کردہ لیڈروں نے یہ طے کیا کہ نبی کو شِعب ابو طالب میں قید کردیاجائے، اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

کو وہاں رہنے پر مجبور کیاجائے تا کہ آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا بند ہو جائے اور ان کے عقائدمیں کو ئی تبدیلی نہ ہو سکے ، اور وہ آپ کے اذہان کو جا ہلیت کے چنگل سے نہ چھڑاسکیں،لہٰذا انھوں نے بنی ہاشم کے خلاف مندرجہ ذیل معاہدے پر دستخط کئے :

____________________

۱۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،صفحہ ۲۴۔مسند احمد، صفحہ ۲۶۳۔

۳۰

۱۔وہ ہاشمیوںسے شادی بیاہ نہیں کریں گے ۔

۲۔ان میں سے کو ئی ایک بھی ہاشمی عورت سے شادی نہیں کر ے گا ۔

۳۔وہ ہاشمیوں سے خرید و فروخت نہیں کریں گے ۔انھوں نے یہ سب لکھ کر اور اس پر مہر لگا کرکعبہ کے اندر لٹکادیا ۔

پیغمبر کے ساتھ آپ پر ایمان لانے والے ہاشمی جن میں سر فہرست حضرت علی تھے سب نے اس شعب میں قیام کیا ، اور وہ مسلسل وہیں رہے اور اس سے باہر نہیں نکلے وہ بد ترین حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے اور ام المومنین خدیجہ نے ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا یہاں تک کہ اسی راستہ میں ان کی عظیم دولت کام آگئی ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شعب میں اپنے اہل بیت کے ساتھ دو یا دو سال سے زیادہ رہے ، یہاں تک کہ خدا نے دیمک کو قریش کے معاہدہ پر مسلط کیا جس سے وہ اس کو کھا گئیں ،اُدھر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کے ذریعہ یہ خبر پہنچا ئی کہ عہد نامہ کو دیمک نے کھا لیا ہے وہ جلدی سے عہد نامہ کے پاس آئے توانھوں نے اس کو ویسا ہی پایا جیسا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی خبر دی تھی تو ان کے ہوش اڑگئے ، قریش کی ایک جماعت نے ان کے خلاف آواز اٹھا ئی اور ان سے نبی کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا جس سے انھوں نے نبی کو چھوڑ دیا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اہل بیت کے ساتھ قید سے نکلے جبکہ ان پر قید کی سختیوں کے آثار نمایاں تھے۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شعب سے باہر نکل کر قریش کی دھمکیوں کی پروا نہیں کی اور پھر سے دعوت توحید کا اعلان کیا ،ان کا مقابلہ کرنے میں آپ کے چچا ابو طالب ،حضرت علی اور بقیہ دوسرے افراد نے بڑی مدد کی،یہی لوگ آپ کی مضبوط و محکم قوت بن گئے ،اور ابو طالب رسالت کا حق ادا کرنے کے متعلق یہ کہہ کر آپ کی ہمت افزائی کر رہے تھے :

اذهب بنّى فماعلیک غضاضةُ

اذهب وقرّ بذاک منک عیونا

واللّٰه لَنْ یَصِلُوا الیک بِجَمْعِهِمْ

حتی اُوسد فی التراب دفینا

وَدعوتن وعلِمتُ انکّ ناصِحِ

ولقد صدقتَ وکنتَ قَبْلُ اَمِیْنا

۳۱

وَلقد علِمتُ بِاَنَّ دِینَ محمدٍ

مِنْ خیرِ اَدیانِ البریة دِیْنا

فَاصدَعْ بِاَمْرِکَ مَاعَلَیْکَ غضَاضَةُ

وَابْشِرْ بِذَاکَ وَقُرَّ عُیُوْنَا(۱)

''بیٹے جائو تمھیں کو ئی پریشانی نہیں ہے ،جائو اور اس طرح اپنی آنکھیں روشن کر و۔

خدا کی قسم وہ اپنی جماعت کے ساتھ اس وقت تک تم تک نہیں پہنچ سکتے جب تک میں دنیا سے نہ اٹھ جائوں ۔

تم نے مجھے دعوت دی اور مجھے یقین ہو گیا کہ تم میرے خیر خواہ ہو ،تم نے سچ کہا اور پہلے بھی تم امانتدار تھے ۔

مجھے یقین ہو گیا ہے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین دنیا کا سب سے بہترین دین ہے۔

لہٰذا اپنی دعوت کا اعلان کرو اور تمھیںذرہ برابر ملال نہ ہو ،تم خوش رہواپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو ''۔

یہ اشعار ابوطالب کے صاحب ایمان ،اسلام کے حا می اور مسلمانوں میں پہلے مجاہد ہونے پر دلالت کر تے ہیں ،اور ان کے ہاتھ ٹوٹ جا ئیںجو ابو طالب کو صاحب ایمان نہیں سمجھتے ،اس طرح کی فکر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے ،حالانکہ ان کو یہ علم ہے کہ ابوطالب کا بیٹا جنت و جہنم کی تقسیم کرنے والا ہے ۔

بیشک ابو طالب اسلامی عقائد کے ایک رکن ہیں ،اگر آپ ابتدا میں پیغمبر کے موافق نہ ہوتے تو اسلام کا نام اور دستور و قواعد کچھ بھی باقی نہ رہتے اور قریش ابتدا ہی میں اس کا کام تمام کردیتے ۔

امام کا نبی کے بستر پر آرام کرنا (شب ہجرت)

یہ امام کی ایسی خو بی ہے جس کا شمارآپ کے نمایاں فضائل میں ہوتا ہے یعنی آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر نبی کی حفاظت کی ہے اور نبی کی محبت میںموت کا بخو شی استقبال کیاہے اسی لئے عالم اسلام میں آپ سب سے پہلے فدا ئی تھے۔

جب قریش نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے اور ان کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے آپ کے

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱، صفحہ ۱۳۷۔

۳۲

بیت الشرف کا اپنی ننگی تلواروں سے محاصرہ کیاتو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو بلا بھیجا اور ان کو قوم کے ارادہ سے آگاہ کیا ، ان کو اپنے بستر پرسبزچادر اوڑھ کر سونے کا حکم دیا تاکہ کفار آپ کو نبی سمجھتے رہیں ،امام نے نبی کے حکم کا خنداں پیشانی کے ساتھ استقبال کیاگویا آپ کو ایسی قابل رشک چیزمل گئی جس کا کبھی خواب تک نہیں دیکھا تھا، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُن کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر بھی نہ ہو ئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن کے منحوس چہروں کی طرف ایک مٹھی خاک یہ کہتے ہوئے پھینکی:''شاھت الوجوہ ذُلّاً'' ، ''رسوائی کی بنا پر چہرے بگڑ جا ئیں ' '، اس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( وَجَعَلْنَامِنْ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدّاً وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدّاً فَاَغْشَیْنَاهُمْ فَهُمْ لَایُبْصِرُوْنَ ) ۔(۱)

'' اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنا دی ہے پھر انھیں عذاب سے ڈھانک دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں ''۔

حضرت علی کا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر رات گذارنا آپ کے جہاد کی درخشاں تصویر اور ایسی بے مثال منقبت ہے جس کا جواب نہیں لایا جا سکتا اور خداوند عالم نے آپ کی شان میںیہ آیت نازل فرما ئی :

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ) ۔(۲)

''لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کوبیچ کر مرضی الٰہی خرید لیتے ہیں ''۔

____________________

۱۔سورئہ یس، آیت ۹۔

۲۔سورئہ بقرہ ،آیت ۲۰۷۔

۳۳

اس عزت و شرف کی اسلامی پیغام میںبڑی اہمیت ہے جس تک کو ئی بھی مسلمان نہیں پہنچ سکا ، شاعر کبیر شیخ ہاشم کعبی امام کی یوں مدح سرا ئی کرتے ہیں :

وَمَوَاقِفُ لَکَ دُوْنَ اَحْمَدَ جَاوَزَتْ

بِمَقَامِکَ التَّعْرِیْفَ وَالتَّحْدِیْدا

فَعَلیٰ الْفِرَاشِ مَبِیْتُ لَیْلِکَ وَالْعِدْ

تُهْدِیْ اِلَیْکَ بَوَارِقا ًوَرُعُوْداً

فَرْقَدْتَ مَثْلُوْ جَ الْفُؤَادِ کَاَنَّمَا

یُهْدِ الْقَرَاعُ لِسَمْعِکَ التَّغْرِیْداً

فَکَفَیْتَ لَیْلَتَهُ وَقُمْتَ مُعَارِضا

جَبَلاً اَشَمَّ وَفَارِساً صِنْدِیْدا

رَصَدُواالصَبَاحَ لِیُنْفِقُواکَنْزَالهُدیٰ

أَوَمَا دَرَوْاکَنْزَالهُدیٰ مَرْصُوداً؟

''(اے علی)حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر آپ کے درجات اور مقامات تعریف و ثنا کی حد سے بالا ہیں ۔

چنانچہ آپ شب ہجرت اس عالم میں بستر رسول پر سوئے کہ دشمن شمشیروں کے ذریعہ آپ کو گھیرے ہوئے تھے ۔

پھر بھی آپ نہایت سکون کے ساتھ سوئے گویا،آپ کے گوش مبارک میں نغمہ ٔ معنویت گونج رہا تھا ۔

آپ نے اس شب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی اور صبح کے وقت مضبوط پہاڑاور بے مثال شہسوار کی مانند بیدار ہوئے ۔

انھوں نے مخزن ہدایت کوخرچ کرنے کے لئے صبح کا انتظار کیا جبکہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ خود خزانہ ٔ ہدایت ان کے انتظار میں تھا''۔

۳۴

امام نے پوری رات خدا سے اس دعا میں گذاردی کہ خدا ان کی اس محنت و مشقت کے ذریعہ ان کے بھا ئی کو بچائے اور ان کو دشمنوں کے شر سے دور رکھے ۔

جب صبح نمودار ہو ئی تو سرکشوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ نبی کے بستر پر دھاوا بول دیا تو حضرت علی ان کی طرف اپنی ننگی تلوار لئے ہوئے شیر کی مانند بڑھے جب انھوں نے علی کو دیکھا تو ان کے ہوش اُڑگئے وہ سب ڈر کر اما م سے کہنے لگے :محمد کہا ں ہیں ؟

امام نے ان کے جواب میں فرمایا:''جَعَلْتُمُوْنِیْ حَارِساًعَلَیْهِ؟''

''کیا تم نے مجھے نبی کی حفاظت کے لئے مقرر کیا تھا ؟''۔

وہ بہت ہی مایوسی ا ور ناراضگی کی حالت میں الٹے پیر پھر گئے، چونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے وہ نبی جو ان کو آزاد ی دلانے اور اُن کے لئے عزم و ہمت کا محل تعمیر کرنے کیلئے آئے تھے ،قریش جل بھُن گئے اور آپ کو بہت ہی تیز نگاہوں سے دیکھنے لگے لیکن امام نے کو ئی پروا نہیں کی اور صبح وشام ان کا مذاق اڑاتے ہوئے رفت و آمد کرنے لگے ۔

امام کی مدینہ کی طرف ہجرت

جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے تو علی نے نبی کے پاس مو جودہ امانتوں کو صاحبان امانت کے حوالہ کیا، نبی جن کے مقروض تھے ان کا قرض اداکیا ،چونکہ آپ ان کے متعلق نبی سے وعدہ کر چکے تھے، آپ وہاں کچھ دیر ٹھہر کر اپنے چچازاد بھا ئی سے ملحق ہونے کیلئے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے، آپ کے ساتھ عورتیں اور بچے تھے ، راستہ میں سات سرکشوں نے آپ کا راستہ روکنا چاہا ،لیکن آپ نے بڑے عزم وہمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک کو قتل کیا اور اس کے باقی ساتھی بھاگ نکلے ۔

امام بغیر کسی چیز کے مقام بیداء پر پہنچے ،آپ صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کرنے کا شوق رکھتے تھے لہٰذا آپ مدینہ پہنچ گئے ،ایک قول یہ ہے :آپ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے مسجدقبا میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی ، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی آمد سے بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ کی ہر مشکل میں کام آنے والے مددگار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچ گئے تھے ۔

۳۵

امام ، قرآن کی نظرمیں

حضرت علی کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ہو ئی ہیں ، قرآن نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ہے ،اللہ کی نگاہ میں آپ کی بڑی فضیلت اوربہت اہمیت ہے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ کی شان میں تین سو آیات نازل ہو ئی ہیں(۱) جو آپ کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ہے۔

یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نہیں ہوئیںآپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :

۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔

۲۔وہ آیات جو آپ اور آپ کے اہل بیت کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۳۔وہ آیات جو آپ اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۴۔وہ آیات جو آپ کی شان اور آپ کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں ۔

ہم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رہے ہیں :

____________________

۱۔تاریخ بغداد، جلد ۶،صفحہ ۲۲۱۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۲۷۶۔نورالابصار ،صفحہ ۷۶،وغیرہ ۔

۳۶

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

آیت ۱۰۸

( قُلْ هَـذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَاْ وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللّهِ وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ )

آپ كہہ ديجئے كہ يہى ميرا راستہ ہے كہ ميں بصيرت كے ساتھ خدا كى طرف دعوت ديتاہوں اور ميرے ساتھ ميرا اتباع كرنے ۱_ والا بھى ہے اور خدا پاك و بے نياز ہے اور ميں مشركين ميں سے نہيں ہوں (۱۰۸)

۱_ توحيد كا پر چار، قرآن مجيد كى تبليغ اور شرك كے خلاف جہاد كرنا پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى اور راہ و رسم تھي_

قل هذه سبيلي

(ہذہ ) كا اشارہ ان مطالب كى طرف ہے جو گذشتہ آيت ميں ذكر ہوئے ہيں _ان ميں سے توحيد كا پرچار، شرك كى نفى ، قرآن مجيد كى تبليغ اور وحى كى تعليمات ہيں _

۲_ لوگوں كو خداوند متعال كى طرف بلانا اور اسكى طرف توجہ دلانا، پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى اور راہ و رسم تھي_

ادعوا الى الله

۳_ہر قسم كے شرك سے پاكيزہ خالص توحيد ، قرآن و وحى پر ايمان اور خداتك پہنچنے كے راستہ ہيں _

و ما اكثر الناس و لو حرصت بمؤمنين و ما يؤمن اكثرهم بالله الّا و هم مشركون قل هذه سبيلى ادعوا الى الله

۴_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس بات پر مامور تھے كہ اپنى رسالت كے عقائدى پروگرام كا صريح طور پر اعلان كريں _

قل هذه سبيلى ادعوا الى الله ...و ما أنا من المشركين مذكورہ بالا معنى لفظ (قل) سے استفادہ ہوا ہے _

۵_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے توحيدى عقيدہ اور شرك كى نفى اور اس كے علاوہ لوگوں كو توحيد كى طرف بلانے اور شرك كے خلافجہاد كرنے كے ليے روشن دليل و

۷۰۱

حجّت ركھتے تھے _قل هذه سبيلى أدعوا الى الله على بصيرة انا و من اتبعني

(بصيرة ) كا معنى روشن دليل اور حجت ہے (لسان العرب) مذكورہ آيات اور مورد بحث آيت شريفہ ميں جن بعض چيزوں كو ذكر كيا گيا ہے وہ لفظ( بصيرة ) كے متعلق ہيں _

يہ بات قابل ذكر ہے كہ اسكى تركيب ميں چند احتمالات ديئےئے ہيں _ مثلاً ( على بصيرة ) لفظ (أنا ) كے ليے خبر واقع ہوا ہے _ اور جملہ (من اتبعنى ) لفظ (أنا) پر عطف ہے _ يعنى اصل ميں جملہ يوں ہوگا ( انا و من اتبعنى على بصيرة )_

۶_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پيرو كار، موّحد اور اپنے توحيدى عقيدے پر دليل و حجّت ركھتے تھے _على بصيرة انا و من اتبعني

۷_ امّتوں اور لوگوں كى بصيرت ان رہبر و رہنما كى بصيرت كى وجہ سے ہے _على بصيرة انا و من اتبعني

(من اتبعنى ) كے جملے ميں ( على بصيرة ) كا تكرار نہ كرنا جب كہ مقصود يہى ہے اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ پيروكاروں كى بصيرت پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (رہبر و رہنما) كى بصيرت كى وجہ سے ہے _

۸_ اسلامى معاشرے كے رہبر و رہنما اور دينى مبلغين كے ليے ضرورى ہے كہ روشن فكر اور با بصيرت ہونے كے ساتھ اپنے نظريے اور روش پر روشن و واضح دليل و حجت ركھتے ہوں _قل هذه سبيلى ادعوا الى الله على بصيرة ان

۹_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پيروكار، لوگوں كو توحيد كى طرف بلانے اور شرك كے خلاف جہاد كرنے پر مامور ہيں _

ادعوا الى الله على بصيرة انا و من اتبعني

مذكورہ معنى اس صورت ميں ہے كہ ( على بصيرة ) (أدعوا) كے متعلق ہو تب اس صورت ميں لفظ (أنا) (أدعوا ) كى ضمير كے ليے تاكيد ہے _ اور ( من اتبعنى ) كا جملہ ( أدعوا ) كے فاعل پر عطف ہے توجملہ يوں ہوگا (أنا أدعوا الى الله على بصيرة و من اتبعنى يدعوا الى الله على بصيرة )

۱۰_ دينى عقائد كو حجت اور روشن دليل كى بنياد پر ركھنا ضرورى ہے _على بصيرة انا و من اتبعني

۱۱_ لوگوں كو توحيد كى طرف بلانا اور شرك كے خلاف جہاد كرنا، پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى صداقت كے ساتھ پيروى كرنے كى نشانى ہے _ادعوا الى الله على بصيرة ا نا ومن اتبعني

۱۲_ خداوند عالم ہر قسم كے عيب ونقص اور شريك ركھنے سے منزہ و مبرّہ ہے _

۷۰۲

(سبحان)كا معنى تسبيح (ہر عيب و نقص سے پاك و پاكيزہ ہونا ) ہے اور يہ لفظ ايك محذوف فعل ( اسبح نسبح) كے ليے مفعول مطلق ہے يعنى ( اسبح يا نسبح الله تسبيحاً )مورد نظر بحث ميں يہ عيب و نقص اور شريك ركھنے كے مصاديق ميں سے ہے_ يہ بات بھى قابل ذكر ہے كہ جملہ ( سبحان الله ) (ہذہ سبيلى ) كے جملے پر عطف ہے اور اصل ميں جملہ يوں ہے ( قل سبحان الله ) _

۱۳_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كبھى بھى مشركين ميں سے نہيں تھے _و ما انا من المشركين

۱۴_ توحيد اور شرك كى نفى كرنا، دين اسلام كى بنياد ہے _قل هذه سبيلى و ما انا من المشركين

اسماء وصفات :صفات جلال ۱۲

اسلامى معاشرہ :اسلامى معاشرے كے رہبروں كا دليل كے ساتھ ہونا ۸; اسلامى معاشرے كے رہبروں كى بصيرت ۸

الله تعالى :الله تعالى اور عيب ۱۲;الله تعالى كا پاك و پاكيزہ ہونا ۱۲

امتيں :امتوں كى بصيرت كا پيش خيمہ ۷

ايمان :ايمان كے آثار ۳; قرآن مجيد پر ايمان ۳; وحى الہى پر ايمان ۳

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مشركين ۱۳;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا اخلاص ۵;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا بلانا ۲;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا پاك و پاكيزہ ہونا۱۳;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا شرك كے خلاف جہاد۱;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پيروى ميں صداقت ۱۱; آنحضرت كى تبليغ ۴; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى توحيد پرستى ۱۳ ;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى توحيد پرستى كے دلائل ۵; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى ۱، ۲، ۳;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى سيرت ۱، ۲; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وضاحت ۴ ; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پيروكا ر و ں كا بلا نا ۹;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پيروكاروں كى توحيد پرستى ۶;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پيروكاروں كى ذمہ دارى ۹; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے شرك كے خلاف جہاد پر دلائل ۵

بصيرت :بصيرت كى اہميت ۸

تبليغ :

۷۰۳

تبليغ ميں صراحت و وضاحت كرنا ۴

تقرب :تقرب كا طريقہ ۳

توحيد :توحيد ذاتى ۱۲;توحيد كى اہميت ۹، ۱۴; توحيد كى تبليغ ۱; توحيد كى دعوت دينا ۲، ۵، ۹;توحيد كى دعوت كے آثار ۱۱;توحيد كے آثار ۳; توحيد ميں اخلاص ۳

دين :اصول دين ۱۴

رہبرى :رہبرى كا كردار ۷;رہبرى كى اہميت ۱۷; رہبرى كے شرائط ۸

شرك :شرك كى نفى كرنے كى اہميت ۱۴;شرك كے خلاف بلانے كے آثار ۱۱; شرك كے خلاف جہاد كے ليے بلانا ۵، ۹

عقيدہ :عقيدہ ميں دليل كى اہميت ۱۰; عقيدہ ميں صراحت ۴

قرآن مجيد :قرآن مجيد كى تبليغ ۱

لوگ :لوگوں كو دعوت دينا ۲

مبلّغين :مبلّغين كا استدلال ۸; مبلغين كى بصيرت ۸; مبلغين كے شرائط ۸

مسلمين:مسلمين كا استدلال ۶;مسلمين كى توحيد كے دلائل ۶

معاشرہ :معاشرے كے رہبروں كى بصيرت كے آثار ۷

موحدين :۶

نظريہ كائنات :توحيدى نظريہ كائنات :۱۲

۷۰۴

آیت ۱۰۹

( وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلاَّ رِجَالاً نُّوحِي إِلَيْهِم مِّنْ أَهْلِ الْقُرَى أَفَلَمْ يَسِيرُواْ فِي الأَرْضِ فَيَنظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَدَارُ الآخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ اتَّقَواْ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ )

اور ہم نے آپ سے پہلے انھيں مردوں كو رسول بنايا ہے جو آباديوں ميں رہنے والے تھے اور ہم نے ان كى طرف وحى بھى كى ہے تو كيا يہ لوگ زمين ميں سير نہيں كرتے كہ ديكھيں كہ ان سے پہلے والوں كا انجام كيا ہوا ہے اور دار آخرت صرف صاحبان تقوى كے لئے بہترين منزل ہے _كيا تم لوگ عقل سے كام نہيں ليتے ہو(۱۰۹)

۱_رسالتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مآب سے پہلے كئي انبياء عليہم السلام رسالت كے ساتھ مبعوث ہوئے_و ما أرسلنا من قبلك ا لّارجال

۲_ خداوند متعال، پيغمبروں كو مبعوث كرنے والا اور رسولوں كو بھيجنے والا ہےوما أرسلنا من قبلك الّا رجال

۳_ تمام انبياء عليہم السلام جنس بشريت او رمردوں كى صنف ميں سے تھے _و ما أرسلنا من قبلك الّا رجال

آيت شريفہ اس تو ہم كو دور كرنے كے درپے ہے كہ پيغمبروں كا فرشتوں سے ہونا ضرورى ہے _

اسى وجہ سے (رجال ) (مرد ) كا لفظ(فرشتوں ) كے مقابلے ميں ذكرہوا ہےليكن لفظ (انا ساً ) وغيرہ كى جگہ پر (رجالاً) كا ذكر كرنا اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ انبيا عليہم السلام عورتوں كى صنف سے نہيں تھے _

۴_انبيا عليہم السلام اپنے لوگوں اور اپنے معاشرے سے نبوت كے ليے منتخب ہوئے _و ما أرسلنا من قبلك الّا رجالاً من أ هل القرى

(قرى ) (قرية)كى جمع ہے جو وادى (صحرا وں اور بيابانوں ) كے مقابلے ميں ہے _اس كا شہروں اوربستيوں پراطلاق ہوتا ہے _ (القرى ) ميں الف لام ممكن ہے مضاف اليہ كےمقام پر ہو يعنى جملہ يوں ہوگا (من اہل قرى ہم ) اور يہ بھى احتمال ديا جاسكتا ہے (ال) اسميں عہد حضورى كا ہو يعنى ( ہذہ القرى )ليكن مذكورہ بالا معنى احتمال اول كى صورت ميں ہے _

۷۰۵

۵_ پيغمبروں كو خود انسانوں سے انتخاب كرنا، خداوند متعال كى روش اور سنّتوں ميں سے ہے _

و ما ارسلنا من قبلك الّا رجالاً ...من اهل القرى

۶_ خداوندمتعال كا اپنے پيغمبروں سے ارتباط،وحى كے ذريعے سے تھا_الّا رجالاً نوحى اليهم

۷_ پيغمبروں كو آبادى ميں رہنے والوں ( شہر و بستيوں ) سے چناگيا نہ كہ جنگل، صحرا و بيابانوں ميں رہنے والوں ميں سے _

الّا رجالاً نوحى اليهم من اهل القرى

۸_ گذشتہ انبياءعليه‌السلام كو جھٹلانے والے دنياوى عذابوں ميں گرفتار ہوئے _

أفلميسيروا فى الأرض فينظروا كيف كان عاقبة الذين من قبلهم

(أفلم يسيروا ) كى ضمير سے مراد مشركين اور مخالفين پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہيں اور (الذين من قبلہم) سے مراد، ان سے پہلے والى امتيں ہيں _

۹_ خداوند متعال، لوگوں كو اس بات كى دعوت دے رہا ہے كہ زمين كے مختلف مقامات پر سير كرو تا كہ ان لوگوں كى عاقبت اور برے انجام كا مشاہدہ كرو جنہوں نے گذشتہ انبيا ء كو جھٹلايا تھا _

افلم يسيروا فى الأرض فينظروا كيف كان عاقبة الذين من قبلهم

۱۰_ انبياءعليه‌السلام كوجھٹلانے والوں كے باقى ماندہ آثار كا مطالعہ كرنا گويا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ وہ برى عاقبت اور عذاب الہى ميں گرفتار ہوئے _افلم يسيروا فى الأرض فينظروا كيف كان عاقبة الذين من قبلهم

۱۱_ خداوند متعال نے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كا انكار كرنے والوں كو برے انجام اور عذاب استيصال (دنياوى عذاب ) ميں گرفتار ہونے كى دھمكى دى _أفلم يسيروا فى الأرض فينظروا كيف كان عاقبة الذين من قبلهم

۱۲_ گذشتہ لوگوں كى تاريخ كا مطالعہ كرنا اور ان كے انجام سے عبرت حاصل كرنا ضرورى ہے _

أفلم يسيروا فى الأرض فينظروا كيف كان عاقبة الذين من قبلهم

۱۳_ آخرت كامقام، تقوى اختيار كرنے والوں اور

۷۰۶

شرك اور رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى مخالفت سے پرہيز كرنے والوں كے ليے اچھامقام ہے _ولدار الأخرة خير للذين اتقو

(اتقوا) كا متعلق، گذشتہ آيات كے قرينے كى وجہ سے شرك اور انبياءعليه‌السلام كى مخالفت ہے _

۱۴_ تقوى پر عمل كرنا نيز شرك اور انبياءعليه‌السلام كى مخالفت سے پرہيز كرنا سعادت آخروى كو حاصل كرنے كا وسيلہ ہيں _

ولدار الأخيره للذين اتقوا

۱۵_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور دوسرے انبياءعليه‌السلام ،لوگوں كو تقوى اختيار كرنے كى دعوت ديتے تھے _

و ما ارسلنا من قبلك الّا رجالاً ...ولدار الأخيره للذين اتقوا

۱۶_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو بشر ہونے كى حيثيت سے جھٹلانا ان كى بے عقلى ، تاريخ بشر اور گذشتہ انبياءعليه‌السلام اور سنّت و روش الہى سے نا واقفيت كى دليل ہے _و ما ارسلنا من قبلك الّا رجالاً نوحى اليهم من اهل القرى ...أفلا تعقلون

(و ما ارسلنا ...) كے جملے كا لحن و انداز يہ بتاتا ہے كہ يہ جملہ اس وہم واحتمال كا جواب ہے جو يہ خيال كرتے تھے كہ خداوند متعال كى طرف سے بھيجا ہوا نمايندہ انسانوں سے نہيں ہوسكتا بلكہ فرشتوں يا ان جيسوں سے ہوسكتا ہے _

۱۷_ وہ لوگ جو انبياءعليه‌السلام كوجھٹلانے كے انجام كى فكر نہيں كرتے اور تقوى اختيار كرنے والوں كے آخرت كے پاكيزہ مقام كو نہيں سمجھتے وہ اس لائق ہيں كہ ان كى ملامت اور سرزنش كى جائے _أفلم يسيروا أفلا تعقلون

۱۸_ وہ لوگ جو پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت كو ان كے بشر ہونے كى بناء پر انكار كرتے ہيں وہ لائق ملامت ہيں _

و ما ارسلنا من قبلك الّا رجالاً ...افلا تعقلون

۱۹_دينى معارف كو سمجھنے كے ليے اپنى فكر و انديشہ سے كام لينے كى ضرورت ہے_

و ما ارسلنا من قبلك الّا رجالاً ...أفلا تعقلون

آخرت :آخرت كا اچھا ہونا ۱۳

الله تعالى :الله تعالى كا انبياءعليه‌السلام سے ارتباط كا طريقہ ۶; الله تعالى كا ڈرانا ۱۱;الله تعالى كا كردار۹ دخل ۲;الله تعالى كى دعوت دينا ۹; الله تعالى كى سنتوں اور روش سے جہالت كے دلائل ۱۶;الله تعالى كى سنتيں اور روش ۵

انبياء :

۷۰۷

انبياءعليه‌السلام كا اپنے لوگوں سے ہونا ۴; انبياء پر وحى ہونا ۶; انبياء سے مخالفت كو ترك كرنے كے آثار ۱۴; انبياءعليه‌السلام كا بشر ہونا ۳، ۵; انبياءعليه‌السلام كا شہر نشين ہونا ۷; انبياءعليه‌السلام كا مرد ہونا ۳;انبياءعليه‌السلام كو جھٹلانے والوں كا برا انجام ۱۰، ۱۱;انبياءعليه‌السلام كو جھٹلانے والوں كا عذاب ۸، ۱۰، ۱۱; انبياءعليه‌السلام كو جھٹلانے والوں كو دھمكى دينا ۱۱;انبياءعليه‌السلام كى بعثت كا سبب ۳;انبياءعليه‌السلام كى تاريخ ۱;انبياءعليه‌السلام كى تبليغ ۱۵;انبياءعليه‌السلام كى خصوصيات ۳;انبياءعليه‌السلام كے انتخاب كا مقام ۴، ۵ ، ۷ ;انبياءعليه‌السلام كے جھٹلانے والوں كے برے انجام كا مطالعہ كرنا ۹، ۱۰، ۱۷;انبياءعليه‌السلام ميں انسجام و يك سوئي ۱۵ ;كا حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے والے انبياءعليه‌السلام ۱;

انجام :برے انجام سے ڈرانا ۱۱

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا بشرہونا ۱۶، ۱۸; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانے كے آثار ۱۶;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانے والوں كى سرزنش ۱۸;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تبليغ ۱۵

تاريخ :تاريخ سے جہالت كے دلائل ۱۶;تاريخ كے مطالعہ كى اہميت ۱۲; تاريخ سے عبرت ۱۲

تقوى :تقوى كى اہميت ۱۵; تقوى كى دعوت دينا ۱۵ ; تقوى كے آثار ۱۴

دين :دين كو سمجھنے كا طريقہ ۱۹;دين ميں فكر و غور كرنے كى اہميت ۱۹

سرزنش :سرزنش كے مستحق ۱۷، ۱۸

سعادت :اخروى سعادت كا پيش خيمہ ۱۴

سياحت :سير و سياحت كرنے كا فلسفہ ۹ ;سير و سياحت كرنے كى تشويق ۹

شرك :شرك سے اجتناب كے آثار ۱۴

عبرت :عبرت حاصل كرنے كے اسباب و عوامل ۱۲

عذاب:اہل عذاب ۸، ۱۰; عذاب استيصال سے ڈرانا ۱۱

عقل :بے عقلى كى نشانياں ۱۶

متقين :آخرت ميں متقين ۱۳

وحى :وحى كا كردار۶

۷۰۸

آیت ۱۱۰

( حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّواْ أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُواْ جَاءهُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّيَ مَن نَّشَاء وَلاَ يُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ )

يہاں تك كہ جب ان كے انكار سے مرسلين مايوس ہونے ۲_ لگے اور ان لوگوں نے سمجھ ليا كہ ان سے جھوٹا وعدہ كيا گيا ہے تو ہمارے مدد مرسلين كے پاس آگئي اور ہم نے جن لوگوں كو چاہا انھيں نجات دے دى اور ہمار اعذاب مجرم قوم سے پلٹا يا نہيں جاسكتاہے (۱۱۰)

۱_ گذشتہ انبياءعليه‌السلام لوگوں كو توحيد پرستى كى طرف مائل كرنے ميں بہت كوشش كرتے تھے اور ان كى ہدايت كرنے ميں كافى مدت صرف كرتے تھے _حتّى اذا استيئس الرسل و ظنوا انهم قد كذبوا

(حتي) كا لفظ جملہ محذوف كے ليے غايت ہے _ اس آيت شريفہ اور اس سے پہلے والى آيت كو ديكھتے ہوئے ممكن ہے وہ محذوف جملہ يہ ہو_ وہ انبياءعليه‌السلام كہ جن كو گذشتہ امتوں كى طرف بھيجا گيا انہوں نے اپنے لوگوں كو توحيد كى دعوت دى ليكن انہوں نے قبول نہيں كيا _ ان كو عذاب كے آنے سے ڈرايا اور اس تبليغ سے وہ منصرف نہيں ہوئے كہ يہاں تك ...يہ بات واضح ہے كہ انبياءعليه‌السلام تھوڑى مدت ميں اگر كام پورا نہ ہو تو نااميد ہوجائيں ايسى بات نہيں ہے اور بغير كسى كوشش و محنت كے نا اميد ہونا بھى معقول بات نہيں ہے اسى وجہ سے يہ جملہ (حتّى اذا استيئس الرسل ) اس بات كى حكايت كرتا ہے كہ بہت طولانى مدت ميں اس كام كے ليے انہوں مسلسل كوشش و محنت كي_

۲_ عام لوگ پيغمبروں كى مخالفت كرتے تھے اور ان كى بات كو قبول كرنے سے انكار كرتے تھے _

حتّى إذا استيئس الرسل

اگر اكثر لوگ ايمان لے آتے تو انبياءعليه‌السلام مايوس نہ ہوتے پس ( استيئس الرسل ) كا جملہ اس بات كى حكايت كرتا ہے كہ اكثر يا تمام لوگ انبياءعليه‌السلام كى دعوت حق كو قبول نہيں كرتے تھے اور جملہ(فنجى من نشاء ) اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ بعض لوگ ايمان لائے تھے _

۳_ كفار لوگوں كا انبياء كے جھٹلانے پر اصرار كرنا اور ان سے دشمنى اور لجاجت وھٹ دھرمى سے پيش آنا ، انبياء كى كاميابى اور اپنى قوم كے ايمان لانے پرنا اميدى كا باعث بنا_حتى اذا استئيس الرسل

(استئيس)كا متعلق لوگوں كا ايمان لانا اور انبياء كا كامياب ہو نا ہے _

۷۰۹

۴_ انبياءعليه‌السلام اپنى امت كے كفار كو عذاب الہى كے نازل ہونے سے خبردار كرتے تھے _و ظنوا انهم قد كذبوا

(ظنوا ) ميں جمع كى ضمائر (الذين) جو كہ سابقہ آيت كى طرف پلٹ رہى ہے _

۵_ كفار اور جھٹلانے والى امتوں كو مہلت دينا اور ان پر عذاب كے نازل كرنے ميں تا خير سے كام لينا خداوند متعال كى سنتوں اور روش ميں سے ہے _حتى اذا استئيس الرسل و ظنوا انهم قد كذبوا

جسطرح عذاب ميں تا خير تمام امتوں كے ليے تھى اسى طرح جھٹلانے والے بھى تمام انبياءعليه‌السلام كو جھٹلانے والے تھے كيونكہ (رسل ) جمع بھى ہے اور اس پر جو''الف لام'' تمام انبياء كو شامل ہے_ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ جھٹلانے والوں كو مہلت دينا اور ان كے عذاب ميں جلدى نہ كرنا خداوند متعال كى دائمى روش اور سنت ہے _

۶_جھٹلانے والے كفار كے عذاب ميں تاخير اس كے جھوٹے ہونے پر اطمينان كا موجب ہوتى تھيو ظنوا أنهم قد كذبوا

(كذب) جھوٹ بولنے كے معنى ميں ہے (كذبوا) يعنى ان پر جھوٹ بولا گيا _ اب جملہ (فنجّى عن نشاء ) اور جملہ (لا يردّ بأسنا ) اس بات كو بتا تے ہيں كہ كفار جس كے بارے ميں جھوٹ خيال كرتے تھے وہ عذاب الہى كا نزول تھا يہ بات قابل ذكر ہے كہ (قد كذبوا) ميں جو (قد) ہے وہ تاكيد اور تحقيق كے ليے ہے _ جو يہ بتارہا ہے كہ (ظنوا ) كا لفظ اطمينان پيداكرنے كےليے ہے_

۷_ خداوند متعال اپنے پيغمبروں كى مدد كرنے والا اور ان كے مخالفين كى سركوبى كرنے والا ہے _

حتى اذا استيئس الرسل جاء هم نصرنا

۸_ انبياء كو جھٹلانے والوں پر عذاب كا نزول، خداوند متعال كى طرف سے اپنے انبياء و رسل كى مدد كرنے كى ايك جھلك ہے _جاء هم نصرنا فنجى من نشا

(جاء هم نصرنا ) خداوند متعال كى مدد سے مراد (فنجى من نشأ )كے قرينہ كے سبب، نزول عذاب ہے _ اسى وجہ سے نزول عذاب سے الله تعالى كى امداد كامراد لينا، مذكورہ بالا معنى كى تفسير ہے_

۹_ انبياء كا لوگوں كے ہدايت حاصل كرنے سے نا اميد

۷۱۰

ہوجانا اپنى امتوں پر نزول عذاب كے ليے شرط تھي_حتى اذا استيئس الرسل جاء هم نصرنا فنجى من نشاء

۱۰_ لوگوں سے ہدايت پانے كى قابليت و صلاحيت كا ختم ہو جانا ان پر عذاب الہى كے نزول كى شرائط ميں سے ہے_

حتى اذا إستيئس الرسل جاء هم نصرنا

۱۱_ خداوند متعال نے پيغمبروں اور ان كے پيرو كاروں كو استصيال كے عذابوں سے نجات عطا فرما ئي _

جاء هم نصرنا فنجى من نشاء

(نجى ) ماضى مجہول اور (من ) اس كا نائب فاعل ہے (نشاء) كا مفعول (نجاتہ) لفظ كى طرح ہے جس كا (نجى ) كے لفظ سے استفادہ كيا جارہا ہے _ اسى وجہ سے(فنجى من نشاء) كا معنى يہ ہوا كہ جسكى نجات كو ہم چاہتے تھے پس اسكى نجات ہوگئي اور (من نشاء) كے مصاديق جو مورد نظر ہيں وہ انبياءعليه‌السلام اور ان كے پيرو كار ہيں _

۱۲_ خداوند متعال، تقوى اختيار كرنے والوں اور نيك كام كرنے والوں كو استيصال كے عذابوں سے نجات عطا فرماتا ہے _فنجى من نشاء

( من نشاء) كے مصاديق ميں پيغمبروں كے علاوہ تقوى اختيار كرنے والے اور نيك لوگ بھى ہيں _ اس بات پر پہلے والى آيات (أفلم يسيروا و لدار الاخرة خير للذين اتقوا ) اور مورد بحث آيت كے آخرى الفاظ (ولا يردّ بأسنا عن القوم المجرمين ) قرينہ ہيں _

۱۳_ عذاب كے نازل ہونے كے بعد گنہكار مجرم لوگ اپنى نجات كا كوئي راستہنہ پاسكيں گے _و لا يردّ بأسنا عن القوم المجرمين

(بأس ) عذاب كے معنى ميں ہے_ (ردّ) (لايردّ) كا مصدر ہے جو واپس لوٹا نے كے معنى ميں ہے_

۱۴_ الله تعالى كى مشيتيں نافذ ہونے والى اورتخلّف ناپذير ہيں _فنجى من نشاء

۱۵_ الله تعالى كى مشيتيں قانون كے ساتھ ہوتى ہيں _فنجى من نشاء ولا يردّ باسنا عن القوم المجرمين

جب خداوند متعال نے بعض لوگوں كى نجات كو اپنى مشيت كے ساتھ وابستہ كرديا تو جملہ(فنجى من نشاء) اور جملہ ( و لا يرّد بأسنا) اس بات كو بتاتے ہيں كہ مجرم لوگ عذاب ميں گرفتار ہوں گے _يہ حقيقت ميں اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ مشيّت الہى بغير قانون اور دليل كے نہيں ہوتى _

۱۶_انبياءعليه‌السلام الہى كى تكذيب، جرم اور گناہ ہے اور ان كو

۷۱۱

جھٹلانے والے مجرم اور گنہگار ہيں _و لا يرّد بأسنا عن القوم المجرمين

۱۷_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانے والے اور گنہگار لوگ دنيا كے عذابوں ميں گرفتار ہونے كے خطرے سے دوچار ہيں _

و لا يرّد بأسنا عن القوم المجرمين

۱۸_قال المأمون يا ابا الحسن عليه‌السلام فاخبرنى عن قول الله عزوجل : '' حتى اذا استيأس الرسل و ظنّوا انّهم قد كذبوا جائهم نصرنا '' قال الرضا عليه‌السلام يقول الله عزوجل '' حتى اذا استيأس الرسل'' من قومهم و ظنّ قومهم ان الرسل قد كذبوا جاء الرسل نصرنا (۱)

مامون نے امام رضاعليه‌السلام سے اس آيت كريمہ''حتى اذا استيأس الرسل و ظنّوا انهم قد كذبوا جائهم نصرنا '' كے بارے ميں پو چھاتوامام رضاعليه‌السلام نے فرمايا كہ خداوند متعال فرماتا ہے: جب انبياءعليه‌السلام اپنى قوموں سے نااميد ہوگئے اور ان كى قوموں نے يہ گمان كيا كہ انبياءعليه‌السلام جھوٹ بولتے ہيں تو ہمارى مدد پيغمبروں كے ليے پہنچ گئي_

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا نجات عطا كرنا ۱۱، ۱۲; اللہ تعالى كى امداد ۷;اللہ تعالى كى سنتيں اور طريقے ۵;اللہ تعالى كى مدد كى علامتيں ۸;اللہ تعالى كى مشيت كا حتمى ہونا ۱۴;اللہ تعالى كى مشيت كا قانون كے ساتھ ہونا ۱۵

اللہ تعالى كى سنتيں اور روش :مہلت دينے كى سنّت ۵

اكثريت :اكثريت كى نافرمانى ۲

امم:امم پر عذاب كے شرائط ۹; كافر امم كو مہلت دينا ۵

انبياء :انبياء سے دشمنى كے آثار ۳;نبياء كا اقوام كے ايمان سے نااميد ہونا ۱۸;انبياء كا خبردار كرنا ۴; انبياء كا نااميد ہونا ۱۸;انبياء كا ہم آہنگ ہونا ۴;انبياء كا ہدايت كرنا ۱;انبياء كا ياور و مددگار ۷;انبياء كو جھٹلانے كا گناہ ۱۶;انبياء كو جھٹلانے والوں سے نااميد ہونا ۳;انبياء كو جھٹلانے والوں كا اصرار ۳; انبياءعليه‌السلام كو جھٹلانے والوں كى دشمنى ۳;انبياءعليه‌السلام كو جھٹلانے انبياءعليه‌السلام كى امداد ۸; انبياءعليه‌السلام كى تبليغ ۱ ;انبياءعليه‌السلام كى دعوتيں ۱ ;انبياءعليه‌السلام كى نااميدى كے آثار ۹ ; انبياء كى نااميدى كے اسباب ۳;انبياء كي نجات ۱۱;انبياء كے پيروكاروں كى نجات ۱۱; انبياء كے جھٹلانے والوں كا عذاب ۸; انبياء كے جھٹلانے والوں كى لجاجت ۳; انبياء كے مخالفين ۲; انبياءعليه‌السلام كے مخالفين كى سركوبى ۷

____________________

۱) عيون اخبار الرضا ، ج ۱ ، ص ۲۰۲ ، ح ۱; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۴۷۹، ح ۲۵۱_

۷۱۲

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانے والوں پر دنيا كا عذاب ۱۷

توحيد :توحيد پرستى كى دعوت كى اہميت ۱

جرائم :موارد جرم ۱۶

روايت : ۱۸

صالحين :صالحين كى نجات ۱۲

عذاب :اہل عذاب ۱۷;عذاب استيصال سے نجات ۱۱، ۱۲; عذاب سے نجات ۱۳; عذاب كو جھٹلانے كے اسباب ۶; عذاب ميں مہلت ۵; نزول عذاب كے شرائط ۱۰

كفار :كفار پر عذاب ۴; كفار پر عذاب ميں تاخير ۶;

كفار كو ڈرانا ۴; كفار كى فكر۶; كفار كے ايمان لانے سے نااميدى ۹

كفر :كفر پر اصرار كے آثار ۳

گناہ :گناہ كے موارد ۱۶

گنہگار : ۱۶

گنہگاروں پر دنياوى عذاب ۱۷;گنہگاروں پر عذاب كا حتمى ہونا ۱۳

متقين :متقين كى نجات ۱۲

مجرمين : ۱۶

نافرمانى :انبياءعليه‌السلام سے نافرمانى ۲

ہدايت :ہدايت كو قبول نہ كرنے كے آثار ۱۰

۷۱۳

آیت ۱۱۱

( لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّأُوْلِي الأَلْبَابِ مَا كَانَ حَدِيثاً يُفْتَرَى وَلَـكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ )

يقينا ان كے واقعات ميں صاحبان عقل كے لئے سامان عبرت۳_ہے اور يہ كوئي ايسى بات نہيں ہے جسے گڑھ ليا جائے يہ قرآن پہلے كى تمام كتابوں كى تصديق كرنے والا ہے اور اس ميں ہر شے كى تفصيل ہے اور يہ صاحب ايمان قوم كے لئے ہدايت اور رحمت بھى ہے (۱۱۱)

۱_ پيغمبروں اور ان كى امتوں كے واقعات مايہ عبرت اور وعظ و نصيحت پر مشتمل ہيں _لقد كان فى قصصهم عبرة

''قصص'' داستان كے معنى ميں ہے اور ''قصصہم '' كى ضمير'' رسل'' اور ''امم '' جو كہ گذشتہ آيت '' من نشاء'' '' القوم المجرمين'' سے سمجھے جا ر ہے ہيں كى طرف لوٹ رہى ہے _

۲_ فقط عقل مند انسان ہى انبياءعليه‌السلام كے واقعات سے وعظ و نصيحت اور عبرت كا سبق ليتے ہيں _

لقد كان فى قصصهم عبرة لاولى الالباب

يہ بات واضح ہے كہ انبياءعليه‌السلام كے واقعات تمام لوگوں كے ليے باعث عبرت ہيں _ ليكن ان كو عقل مندوں كے ساتھ مختص كرنے كا مقصد يہى ہے كہ يہ لوگ انبياءعليه‌السلام كى داستانوں سے درس حاصل كرتے ہيں اور دوسرے لوگ اس سے محروم ہيں _

۳_ حضرت يوسفعليه‌السلام اور ان كے بھائيوں كى داستان، مايہ عبرت اور سبق حاصل كرنے كى داستا ن ہے_

لقد كان فى قصصهم عبرة

يہ احتمال بھى ديا جاسكتا ہے كہ ( قصصہم ) ميں ضمير، جناب يوسفعليه‌السلام اور ان كے بھائيوں اور وہ سب لوگ جو حضرت يوسفعليه‌السلام كى داستان ميں ذكر ہوئے ہيں _ مثلاً زليخا كا كردار و غيرہ ان سب كى طرف پلٹ رہى ہے _ اس صورت ميں جملہ(لقد كان ) كى دلالت مذكورہ بالا معنى پر صريح اور واضح تر ہے _

۴_ داستان كا عبرت انگيز ہونا اس كے شرائط حسن ميں سے ہے _نحن نقص عليك احسن القصص لقد كان فى قصصهم عبرة

۷۱۴

خداوند متعال نے جناب يوسفعليه‌السلام كى داستان كے ابتداء ميں اس بات كو بيان كياہے كہ يہ داستان بہت اچھى داستان ہے _ اور اس كے آخر ميں اسكا ہدف و مقصد، عبرت او وعظ و نصيحت كو بتايا پس قرآن مجيد ميں اچھى داستان و واقعہ وہ ہو تا ہے جس ميں عبرت و نصيحت ہو_

۵_قرآن مجيد كى كلام جھوٹى اور گھڑى ہوئي نہيں تھى بلكہ سچى اور صحيح كلام تھى _ما كان حديثاً يفترى

(كان ) كى ضمير سے مراد، قرآن مجيد ہے _ آيت كريمہ ( و لكن تصديق ...) ميں جو اوصاف بيان ہوئے ہيں اسى معنى كو بتاتے ہيں _

۶_ قرآن مجيد اس سے بالاتر ہے كہ بشركا بنايا اور گھڑا ہوا ہو _ما كان حديثاً يفترى

۷_ فقط وہ كلام جو سچى اور صحيح ہو اور جھوٹ پر مبنى نہ ہو وہى مايہ عبرت اور سبق سيكھنے كے قابل ہے_

لقد كان فى قصصهم عبرة ما كان حديثاً يفترى

(ماكان ) كا جملہ (لقد كان ) كے جملے كے ليے علت كے مقام پر ہے _ يعنى كيونكہ قرآن مجيد سچا اور صحيح كلام ہے اسى وجہ سے اس كے واقعات سے عبرت حاصلكى جاسكتى ہے _

۸_ قرآن مجيد، گذشتہ آسمانى كتابوں كى تائيد و تصديق كرنے والا ہے _و لكن تصديق الذى بين يديه

(تصديق) مصدر ہے اور اسم فاعل ( تصديق كرنے والا ) كے معنى ميں ہے اور يہ لفظ (لكن) كے ذريعے لفظ ( حديثاً) پر عطف ہوا ہے _

۹_ آسمانى كتابيں آپس ميں ارتباط ركھنے والى اور ايك دوسرے كے ساتھ منسلك ہيں _و لكن تصديق الذى بين يديه

۱۰_ قرآن مجيد، گذشتہ آسمانى كتابوں كے ليے سچى اور صحيح دليل ہے _و لكن تصديق الذى بين يديه

قرآن مجيد كا گذشتہ آسمانى كتابوں كى تصديق كرنے كا معنى ممكن ہے يہ ہوسكتا ہے كہ قرآن مجيد كا نزول سبب بنا ہے كہ ان گذشتہ آسمانى كتابوں كى پيشگوئياں كہ قرآن آنے والا ہے سچ ثابت ہوں _ اسى وجہ سے خود قرآن مجيد كا نزول اس بات كو ثابت كرنے كے دليل ہوسكتا ہے كہ وہ كتابيں سچى اور حقيقت پر مبنى تھيں _

۱۱_ قرآن مجيد نے ہر اس شيء كو واضح طور پر بيان كيا ہے

۷۱۵

جس كے ليے لوگ دنيا و آخرت كى سعادت كو حاصل كرنے كے ليے محتاج ہيں _و لكن تفصيل كل شيء

قرآن مجيد كو ( رحمت ) اور ( ہدايت) سے ياد كرنا خصوصا ( لكن تفصيل كل شيء ...) كے بيان كے بعد اس بات كو بتاتا ہے كہ ( ہر شيء) سے مراد تمام ہدايت كے طريقے اورہر وہ چيز جو رحمت كا سبب بنے اور بشر كے ليے سعادت اور خوشبختى كا موجب ہو اس كتاب ميں اسكا ذكر موجود ہے_

۱۲_ قرآن مجيد، ہدايت دينے والى كتاب ہے_لكن هدى

۱۳_ قرآن مجيد كى ہدايات ہرقسم كى گمراہى سے منزّہ اور ذرّہ برابر گمراہى كے پيغام سے پاكيزہ ہيں _ولكن هديً

(ہدى ) مصدر ہے ليكن يہاں اسم فاعل كے معنى ميں ذكر ہوا ہے ( ہدايت كرنے والا) اسم فاعل كى جگہ پر مصدر كا استعمال كرنا اس حقيقت كو بتاتا ہے_ كہ اسكا موصوف ( قرآن مجيد ) محض ہدايت ہے _ يعنى اسكى راہنمائيوں ميں كسى قسم كى گمراہى و ضلالت نہيں ہے _

۱۴_ قرآن مجيد، لوگوں كے ليے رحمت برسانے والا ہے_و لكن هديً و رحمة

۱۵_ فقط مؤمنين ہى قرآن مجيد سے ہدايت و راہنمائي اور اسكى رحمت كى بارش سے فيض ياب ہوسكتے ہيں _

و لكن هديً و رحمة لقوم يؤمنون

مذكورہ معنى كى دليل وہ كلام ہے جس كى اسى آيت كے نمبر ۲ ميں وضاحت بيان كى گئي ہے_

آسمانى كتابيں :آسمانى كتابوں كى تصديق ۸; آسمانى كتابوں كى صداقت كے دلائل ۱۰; آسمانى كتابوں كى آپس ميں ہم آہنگى ۹

امتيں :امتوں كى سرنوشت سے عبرت لينا ۱

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام كے قصے سے عبرت حاصل كرنا ۱،۲

انسان :انسان كى معنوى و روحانى ضروريات ۱۱

تاريخ :تاريخ سے عبرت حاصل كرنا ۱، ۲

سچ بولنا :سچے بولنے كے آثار ۷

سعادت :سعادت اخروى كے اسباب ۱۱; سعادت دنياوى

۷۱۶

كے اسباب ۱۱

صاحبان عقل و دانش :صاحبان عقل و دانش كا عبرت حاصل كرنا ۲; صاحبان عقل و دانش كى خصوصيات ۲

صداقت :صداقت كے آثار ۷

عبرت :عبرت كا پيش خيمہ ۷; عبرت كے اسباب ۱، ۲، ۳

قرآن مجيد :قرآن مجيد اور آسمانى كتابيں ۸; قرآن مجيد كا رحمت ہونا ۱۴; قرآن مجيد كا كردار ۸، ۱۰; قرآن مجيد كامنزّہ ہونا۵، ۱۳; قرآن مجيدكا وحى ہونا ۶; قرآن مجيد كا ہدايت كرنا ۱۲، ۱۵;قرآن مجيد كى تعليمات ۱۱;قرآن مجيد كى خصوصيات ۵، ۶، ۱۲، ۱۴;۱;قرآن مجيد كى رحمت كے شامل حال ۱۵; قرآن مجيد كى صداقت ۵; قرآن مجيد كى فضيلت ۶;قرآن مجيد كے ہدايت كرنے كى خصوصيات ۱۳

قصہ :اچھے قصے كے شرائط ۴; قصّہ سے عبرت حاصل كرنا ۴

مؤمنين :مؤمنين كا ہدايت كو قبول كرنا ۱۵;مؤمنين كى خصوصيات ۱۵; مؤمنين كے فضائل ۱۵

حضرت يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسفعليه‌السلام كے قصے سے عبرت حاصل كرنا ۳

۷۱۷

۱ ۳ ۔ سورہ رعد

آیت ۱

( بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِِ )

( المر تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ وَالَّذِيَ أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ الْحَقُّ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يُؤْمِنُونَ )

المر_يہ كتاب خدا كى آيتيں ہيں اور جو كچھ بھى آپ كے پروردگار كى طرف سے نازل كيا گيا ہے وہ سب برحق ہے ليكن لوگوں كى اكثريت ايمان لانے والى نہيں ہے(۱)

۱_'' الف ، لام ،ميم،ر'' قرآن مجيد كے رموز ميں سے ہيں _المر

۲_ سورہ رعد كى آيات، قرآن مجيد كا جزء ہيں _تلك آيات الكتاب

(تلك ) اشارہ سے مراد، سورہ رعد كى آيات ہيں پس (تلك آيات ) سے مراد وہ آيات ہيں جو تمہارے سامنے ہيں وہ اس كتاب ( قرآن مجيد) كى آيات ہيں _

۳_ سورہ رعد كى آيات بلند مرتبہ اور عظمت والى ہيں _تلك آيات الكتاب

(تلك ) دور كے ليے اشارہ ہے اگر اسكو نزديك كے مشارٌ اليہ كے ليے استعمال كيا جائے تو يہ بتاتا ہے كہ متكلم كے نزديك اسكى عظمت ہے_

۴_ پيغمبر گرامىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانے ہى ميں قرآن مجيد كى كتابت ہوئي _تلك آيات الكتاب

كتاب يعنى ( لكھى ہوئي ، مرتب شدہ ) كا قرآن مجيد پر اطلاق كرنا اس وجہ سے ہے كہ قرآن مجيد كے نازل ہونے كے بعد اس كو لكھا جاتا تھا يا يہ احتمال ديا جاسكتا ہے كہ خداوند متعال كى طرف سے يہ تاكيد ہو كہ اسكو كتاب اور لكھائي كى صورت ميں لايا جائے جو بھى احتمال ديا جائے دونوں صورت ميں مذكورہ معنى حاصل ہوسكتا ہے _

۵_ قرآن مجيد اور اسكى آيات، خداوند متعال كى نشانياں ہيں _تلك آيات الكتاب

(آيات ) كے لفظ سے مراد، نشانياں و علامات ہيں اور قرآن مجيد كى آيات كو اس وجہ سے آيات كہا جاتا ہے كہ نازل كرنے والے كى خصوصيات كو بيان كرتى ہيں _

۷۱۸

۶_قرآن مجيد ايسى كتاب ہے جو شروع سے آخر تك حق ہے اور ہر نقص و عيب سے خالى ہےنيز ہر قسم كے باطل و نامناسب شيء سےمنزّہ ہے _والذى أنزل اليك من ربك الحق

(الحق ) ميں ''الف لام'' استغراق كا ہے جو تمام خصائق كو شامل ہے پس اس صورت ميں (الحق) سے مراد، حق كامل ہے كہ جسميں كم ترين باطل كى بھى جگہ نہيں _

۷_ قرآن مجيد، خداوند متعال كى طرف سے كتاب ہے اور پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہوئي ہے_

و الذى انزل اليك من ربك الحق

۸_ قرآن مجيد، ربوبيت خداوندى كا جلوہ ہے _و الذى انزل اليك من ربك

۹_ قرآن مجيد كى آيات عظيم الشان آيات ہيں كہ جن ميں تعليمات كا مواد عظيم اور بلند مرتبہ والا ہے _

تلك آيات الكتاب

۱۰_ قرآن مجيد كا پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نزول خداوند متعال اور ان كے درميان واسطہ و رابطہ كا ذريعہ ہے _

و الذى انزل اليك من ربك الحق

(انزل ) كا فاعل عبارت ميں خداوند متعال نہيں ہوسكتا كيونكہ اگر ايسا ہو تو عبارت يوں ہوگى '' و الذى انزل ربك اليك الحق '' يا يوں ہونى چايئے (الذى انزل اليك الحق ) يعنى جہاں فاعل كو حذف كر كے فعل مجہول ذكر كيا جائے تو عبارت ميں فاعل كى طرف اشارہ نہيں كيا جاسكتا _ اسى وجہ سے انزل كا فاعل''جبريلعليه‌السلام يا ...'' كوئي اور ہوگا_

۱۱_ قرآن مجيد پر ايمان ، اس كا الہى ہونا اور اس كو ہر قسم كے باطل سے منزّہ جاننا ضرورى ہے _

و الذى أنزل اليك من ربك الحقّ و لكنّ اكثر الناس لا يؤمنون

۱۲_ اكثر لوگ، قرآن مجيد پر ايمان نہيں لاتے اور اسكى پورى حقانيت پر يقين نہيں ركھتے _

و الذى انزل اليك من ربك الحق و لكن اكثر الناس لا يؤمنون

(لايؤمنون ...) كے متعلق ميں مطالب ہيں جو (و الذى انزل ) سے معلوم ہوتے ہيں ان ميں سے قرآن مجيد اور اس كا حق ميں كامل درجے پر ہونا ہے_

۱۳_ اكثر لوگ قرآن مجيد كے الہيہونے اور اس كے خداوند متعال كى طرف سے نازل ہونے پر ايمان

۷۱۹

نہيں ركھتے _الذى من ربك الحق و لكن اكثر الناس لا يؤمنون

جملہ ( الذى انزل ) ميں جو حقائق ہيں ان ميں سے قرآن مجيد كا خداوند متعال كى طرف سے ہونا ہے_ اسى وجہ سے ( من ربك )كى حقيقت بھى ( لا يؤمنون) كے متعلق ہے يعنى جملہ يوں ہے ( لا يومنون بأن القر۱ن من ربك)_

۱۴_ اكثر يا سب لوگوں كا قرآن مجيد پر ايمان نہ لے آنا خلاف توقعہے _و الذى انزل اليك من ربك الحق و لكن اكثر الناس لا يؤمنون

مذكورہ بالا معنى حرف ( لكن ) جو استدراك كے معنى ميں ہے سے حاصل ہوتا ہے _ كيونكہ جب مخاطب اس حقيقت كو سن لے كہ قرآن مجيد سراپا حق ہے تو اس سے يہ توقع كرتا ہے كہ تمام لوگ ايمان لے آئے ہيں ليكن لفظ (لكن ) اس فكر كو ختم كرتے ہوئے كہہ رہا ہے كہ ايسے نہيں ہوا بلكہ اكثر لوگ ايمان نہيں لائے _

۱۵_ اكثر لوگوں كا كسى طرفجھكاؤ ہونا يا نہ ہونا اسكى حقانيت اور عدم حقانيت كى دليل نہيں ہے_و لكنّ اكثر الناس لا يؤمنون

۱۶_'' عن سفيان الثورى ، قال : قلت لجعفر بن محمد يا بن رسول الله ما معنى قول الله عزوجل '' المر'' قال(ع) فمعناة: انا الله المحى المميت الرازق '' (۱)

سفيان ثورى سے روايت ہے كہ ميں نے جعفر ابن محمد ( اما م صادقعليه‌السلام ) سے عرض كى اے فرزند رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ تعالى كے اس قول (المر) سے كيا مراد ہے _ حضرت نے فرمايا ...اس سے مراد يہ ہے ( ميں اللہ زندہ كرنے والا اور مارنے والا،روزى دينے والا ہوں ) روايت سے يہ مراد ہے كہ ( الف ) (انا) كا رمز ہے (ل) سے اللہ تعالى مراد ہے _ (م ) رمز ہے ''محيى اور مميت '' كا اور ( ر ) رمز ہے'' رزّاق ''كا _

آيات الہى : ۵

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا زندگى عطا كرنا ۱۶; اللہ تعالى كا رازق ہونا ۱۶; اللہ تعالى كى ربوبيت كى نشانياں ۸

اكثريت :اكثريت كا بے ايمان ہونا ۱۲، ۱۳، ۱۴; اكثريت كا كردار ۱۵

امور :تعجب آور امور ۱۴

____________________

۱) معانى الاخبار ، ص ۲۲، ح ۱ ; نور الثقلين ،ج ۲ ، ص ۴۸۰ ، ح ۳ _

۷۲۰

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945

946

947

948

949

950

951

952

953

954

955

956

957

958

959

960

961

962

963

964

965

966

967

968

969

970

971