تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 6%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 205942 / ڈاؤنلوڈ: 4272
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۸

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

انشا كم'' پر متفرع ہو اہے_

۲۲_ خداوند متعال، انسانوں سے بہت قريب اور ان كى دعاؤں كو قبول فرماتا ہے_ان ربّى قريب مجيب

۲۳_ خداوندعالم كا اپنے بندوں كے نزديك ہونے كى وجہ سے اس كا تقرب حاصل كرنا ايك آسانى اور سہل امر ہے_

ثم توبوا اليه ان ربّى قريب

خداوند عالم كى طرف سے اور اس كے تقرب كے حصول كے ليے نصيحت كرنے كے بعد اس سے نزديكى كو بيان كرنے كا مقصد عارف لوگوں كو يہ خوشخبرى دينا ہے كہ خداوند عزوجل آپ سے دور نہيں ہے تا كہ اس تك پہنچنے كے ليے بڑى سے بڑى سختيوں كو جھيلنا پڑے بلكہ وہ آپ سے بہت ہى نزديك ہے اور اسكا تقرب حاصل كرنا بہت آسان ہے_

۲۴_ خداوندمتعال، مغفرت طلب كرنے والوں كى دعا كو قبول اور ان كے گناہوں كو معاف فرماتا ہے_

فاستغفروا ان ربى قريب مجيب

جملہ''استغفروہ ''اور ''توبوا اليہ'' سے ربط كى خاطر(قريب)اور (مجيب) كو لف و نشر غيرمرتب كى صورت ميں بيان كيا گيا ہے_

۲۵_''جأ رجل من اهل شام الى على بن الحسين عليه‌السلام فقال : انت على بن الحسين ؟ قال : نعم ، قال : ابوك الذى قتل المؤمنين ؟ فقال : و يلك كيف قطعت على ابى انه قتل المؤمنين ؟قال : قوله : اخواننا قد بغوا علينا فقاتلنا هم على بغيهم _ فقال : و يلك أما تقرا القرآن ؟ قال : بلى ، قال : فقد قال اللّه تعالى (و الى ثمود اخاهم صالحاً) ا فكانوا اخوانهم فى دينهم او فى عشيرتهم ؟ قال له الرجل : لا بل فى عشيرتهم : قال عليه‌السلام فهولاء اخوانهم فى عشيرتهم وليسو اخوانهم فى دينهم (۱)

اہل شام كا ايك شخص حضرت امام زين العابدين على بن الحسينعليه‌السلام كے پاس آيا اور كہا : كيا تم على بن الحسينعليه‌السلام ہو ، تو حضرتعليه‌السلام نے فرمايا ہاں _ اس نے كہا كہ تم اس كے فرزند ہو جس نے مومنين كو قتل كيا حضرتعليه‌السلام نے جواب ديا :كہ افسوس ہے تم پر، تو نے كس طرح يقين كے ساتھ يہ كہہ ديا كہ ميرے والد بزرگوار نے مومنين كو قتل كيا؟ اس شخص نے جواب ديا كہ يہ اسكى بات ہے (اميرالمؤمنين) جويہ كہتا ہے كہ ہمارے بھائيوں نے ہمارے خلاف بغاوت كى اور ہم نے بھى انكى بغاوت كى وجہ سے ان سے جنگ كى ہے_

____________________

۱)تفسير عياشى ، ج ۲ ص ۲۰، ح ۵۳، بحار الانوار ج ۳۲ ، ص ۳۴۵، ح ۳۲۹_

۱۸۱

پھر حضرت نے فرمايا افسوس ہے تم نے پر كيا تم نے قرآن ميں نہيں پڑھا كہ خداوند متعال فرماتا ہے:( و الى ثمود اخاہم صالحاً) كيا حضرت صالحعليه‌السلام قوم ثمود كے دينى بھائي تھے يا ان سے رشتہ دارى تھى _ تو اس نے كہا رشتہ دارى تھي_ تو پھر حضرتعليه‌السلام نے جواب ديا كہ وہ بھى ہمارے رشتہ ميں بھائي تھے نہ كہ دينى بھائي_

استغفار :استغفار كى اہميت ۱۷; استغفار كے آثار ۱۹; استغفار كے بارے ميں تاكيد ۲۰; استغفار كے عوامل ۲۱;شرك سے استغفار ۲۰

اسماء و صفات :قريب ۲۲; مجيب ۲۲

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام سے رشتہ دارى ۳

انسان :انسان كا جھكاؤ ۹، ۱۵; انسانوں كا خالق ۱۲;انسان كى توانائيوں كا مركز ۱۵،۱۶;انسانوں كى خلقت كا عنصر ۱۴; زمين كا انسان ۱۴

ايمان :ايمان كے آثار ۲۱; خالقيت خداوند پر ايمان ۲۱; خدا پر ايمان ۷

تقرب :تقرب كا سبب ۱۹;تقرب كى اہميت ۱۸; تقرب كى سہولت ۲۳

توبہ :توبہ كرنے كى تاكيد ۲۰

توحيد :توحيد افعالى ۱۲; توحيد خالقيت۱۲;توحيد عبادى ۱۱; توحيد عبادى كى اہميت ۵;توحيد عبادى كى دعوت ۵; توحيد عملى كا پيش خيمہ۱۰;توحيد نظرى كى اہميت ۱۰

حركت ميں لانا:حركت ميں لانے كے عوامل ۲۱

حضرت صالحعليه‌السلام :حضرت صالحعليه‌السلام اور قوم ثمود ۳، ۴، ۲۰، ۲۵; حضرت صالح كى تعليمات ۵، ۲۰; حضرت صالحعليه‌السلام كى دعوت ۵;حضرت صالح(ع) كى رسالت كا علاقہ ۲; حضرت صالح كى مہربانى ۴; حضرت صالح(ع) كى نبوت ۱; حضرت صالح(ع) كے رشتہ دار ۳; حضرت صالح(ع) كے فضائل ۴; حضرت صالح(ع) كے مقامات ۱; حضرت صالحعليه‌السلام نبوت سے پہلے ۴

خدا :خدااور زمين كى آبادكاري۱۵;خالقيت خدا ۱۲; خدا شناسى كى تاريخ ۷;خداوندكى عنايات ۱۵ ،۱۶ ; خداوند متعال كى بخشش ۲۴; خداوند متعال كے خواص ۱۱،۱۲،۲۱;قرب خداوند ى ۲۲ ;قرب

۱۸۲

خداوند ى كے آثار ۲۳

خدا كى طرف لوٹنا ۱۸،۲۰:خدا كى طرف لوٹنے كى اہميت ۱۸

دعا :دعا كى اجابت ۲۲

رسل الہى : ۱

روايت : ۲۵

شرك :شرك سے اجتناب كے عوامل ۲۱;شرك كے آثار سے اجتناب ۱۹

عبادت :عبادت خدا كے آثار ۱۹; عبادت خدا كے دلائل ۱۶; عبادت خدا كے عوامل ۲۱

عقيدہ:عقيدہ كى تاريخ ۶،۷

كائنات كى شناخت:كائنات كى توحيدى شناخت ۱۱،۱۲; كائنات كى شناخت كا نظريہ۲۱

قوم ثمود :قوم ثمود كا باطل عقيدہ ۸; قوم ثمود كا شرك ۸; قوم ثمود كا عقيدہ۶;قوم ثمود كو دعوت حق دينا ۵; قوم ثمودكى خدا كى پہچان ۶;قوم ثمود كے انبياء ۲، ۶ ; قوم ثمود كے باطل خدا ۸

گناہ :ترك گناہ كے عوامل ۲۱

گناہگار :گناہگاروں كى اجابت دعا ۲۴; گناہگاروں كى بخشش ۲۴

مشركين :۸

معبود :معبود كى خالقيت ۱۳

معبوديت :معبوديت كا ملاك ۱۳

ميلان:زمين كى آبادكارى كا ميلان۱۵; عبادت كى طرف ميلان ۹; معبود كى طرف ميلان۹

۱۸۳

آیت ۶۲

( قَالُواْ يَا صَالِحُ قَدْ كُنتَ فِينَا مَرْجُوّاً قَبْلَ هَـذَا أَتَنْهَانَا أَن نَّعْبُدَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا وَإِنَّنَا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ )

ان لوگوں نے كہا كہ اے صالح اس سے پہلے تم سے بڑى اميديں وابستہ تھيں كيا تم اس بات سے روكتے ہو كہ ہم اپنے بزرگوں كے معبودوں كى پرستش كريں _ ہم يقينا تمھارى دعوت كى طرف سے شك اور شبہ ميں ہيں (۶۲)

۱_حضرت صالح(ع) ، قوم ثمود ميں اپنى نبوت سے پہلے ہى عاقل اورايك خاص استعداد كے مالك انسان تھے_

قالوا يا صالح قد كنت فينا مرجوّاً قبل هذ

مذكورہ بالا معنى دو چيزوں پر موقوف ہے ( الف) ''يہ جملہ كہ قوم ثمود كى تم پر اميديں تھيں '' جو جملہ (قد كنت ...) كے مضمون سے حاصل ہوتا ہے يہ حضرت صالحعليه‌السلام كے نابغہ اور استعداد خاص ركھنے اور نيك سيرت انسان سے حكايت كررہا ہے_

(ب) (ہذا) كے لفظ كا اشارہ، حضرت صالحعليه‌السلام كى نبوت كے دعوى اور انكے اعلان توحيد اوروحدہ لا شريك كى پرستش كے لازمى ہونے كى طرف ہے_

۲_ قوم ثمود ، حضرت صالحعليه‌السلام كى خاص استعداد اور انكى مثبت خصوصيات كى معترف تھى _قالوا يا صالح قد كنت فينا مرجوّاً قبل هذا

۳_ قوم ثمود، حضرت صالحعليه‌السلام كى خصوصيات اور مخصوص استعداد كى وجہ سے انہيں اپنى قوم كے ليے مايہ ناز اور ترقى سمجھتے تھے_قد كنت فينا مرجواّ

۴_ خداوند متعال، انبياء كو ان انسانوں ميں سے كہ جو نيك نام اور نيك سيرت مشہور ہوتے ہيں انتخاب كرتا ہے_

قد كنت فينا مرجوّاً قبل هذا

۵_ حضرت صالحعليه‌السلام كى قوم اور ان كے آباو اجداد ، مشرك اورغير الله كى پرستش كرتے تھے_

أتنهنا ان نعبد ما يعبد ء اباؤنا

۶_ حضرت صالح(ع) لوگوں كو غير الله كى عبادت سے منع فرماتے تھے اور قوم ثمود كى شرك پرستى سے نبرد آزما ہوتے تھے_اتنهنا ان نعبد ما يعبد ء اباؤنا

۱۸۴

۷_ قوم كو يكتا پرستى كى دعوت اور جھوٹے خداؤں كى تكذيب باعث بنى كہ قوم ثمود، حضرت صالح(ع) كى سرزنش اور ان پر اعتراض كرتى تھي_اتنهنا ان نعبد ما يعبد ء اباؤنا

جملہ ( اتنہنا ان نعبد ) ميں استفہام توبيخى ہے_

۸_ قوم ثمود، حضرت صالح(ع) كے شرك كے خلاف جہاد كى خاطر ان سے وابستہ اپنى اميدوں پر پانى پھر تا ہوا ديكھ رہى تھى _قد كنت فينا مرجوّاً قبل هذا اتنهنا ان نعبد ما يعبد ء اباؤنا

(قبل ہذا) اس پر دلالت كرتا ہے كہ قوم ثمود ، حضرت صالح سے اميديں لگا بيٹھے تھے اور (أتنہنا ) كا جملہ اس كے ليے دليل و علت كو بيان كررہا ہے_

۹_قوم ثمود كا اپنے اجداد كے آداب و رسوم پر كار بند ہونا، حضرت صالحعليه‌السلام اورانكى تعليمات كى مخالفت كا سبب بنا _

اتنهنا ان نعبد ما يعبدءُ اباؤنا

لفظ (ما ) سے آيت ميں مراد مشركين كے خيالى معبود ہيں اوران كوجملہ (يعبد ء اباؤنا ) سے توصيف كرنا، (نعبد)سے پہلے حكم كى علت كى طرف اشارہ ہے يعنى ہم بتوں كى عبادت كرتے ہيں كيونكہ ہمارے ا با و اجداد انكى عبادت كرتے تھے_

۱۰_ حضرت صالح(ع) كى دعوت توحيداور يكتا پرستى كے بنيادى مخاطب، قوم ثمود كے نوجوان اور در ميانى عمر كے افراد تھے_اتنهنا ان نعبد ما يعبد ء اباؤنا

فعل مضارع (يعبد )كا جملہ يہ بتاتا ہے كہ حضرت صالحعليه‌السلام كے مخاطب وہ لوگ تھے جنكے والدين زندہ تھے اور وہ اپنے خداؤں كى عبادت ميں مشغول تھے_

۱۱_ معاشروں كى قوم و قبائل كے باطل افكار ونظريات سے وفاداري، ركاوٹ بنتى ہے كہجديد و بر حق نظريات اپنا مقام پيدا كريں _اتنهنا ا ن نعبد ما يعبد ء اباؤنا

۱۲_ خاندانى تعصبات، اندھى تقليد و پيروى كا سبب ہيں _اتنهنا ان نعبد ما يعبد ء اباؤنا

۱۸۵

۱۳_حضرت صالح(ع) اپنى رسالت كى انجام دہيكے سلسلہ ميں انتھك اور مسلسلكوشش ميں مشغول تھے_مما تدعونا اليه

(تدعو) فعل مضارع ہے جو استمرار پر دلالت كرتا ہے جس سے انتھك اور مسلسل كوشش سے تعبيركى گئي ہے_

۱۴_قوم ثمود ، خدا كى وحدانيت اور يكتا پرستيكى ضرورت كو شك كى نگاہ سے ديكھتے تھے _و انّنا لفى شك مما تدعونا اليه مريب

۱۵_ حضرت صالحعليه‌السلام كى توحيد اور يكتا پرستى كى طرف دعوت،اس چيز كا باعث بنى كہ قوم ثمود ،حضرت صالح(ع) كى ہوشيارى اور عقل مندى ميں شك و ترديد كرنے لگے_و انّنا لفى شك مما تدعونا اليه مريب

لفظ ( مريب)(ترديد ميں ڈالنا) (شك) كے ليے صفت واقع ہوا ہے اور اسكا متعلق ،حضرت صالحعليه‌السلام كى ہوشيارى اور عقلمندى ہے جيسا كہجملہ (قد كنت فينا مرجواً) كے قرينے سے ظاہر ہوتا ہے لہذا جملہ ( انّنا لفى ...) كا معنى يہ ہے كہ ہميں تمہارى ان تعليمات كے صحيح ہونے ميں شكہے اور يہ شك سبب بنا ہے كہ ہم تمہارى ہوشيارى اور عقلمندى ميں بھى شك كريں _

۱۶_عن ابى جعفر عليه‌السلام قال: ان رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سأل جبرئيل : كيف كان مهلك قوم صالح عليه‌السلام ؟ فقال: يا محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان صالحاً بعث الى قومه و هو ابن ستة عشر سنة و كان لهم سبعون صنماً يعبدونها من دون اللّه (۱)

امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہآپ(ع) نے فرمايا : جناب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جبرئيل(ع) سے سوال كيا كہ قوم صالحكى ہلاكت كيسے ہوئي تو حضرت جبرئيل نے جواب ديا : اے رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب حضرت صالحعليه‌السلام اپنى قوم ميں معبوث ہوئے تو ۱۶ سال كے تھے اور انكى قوم كے ستر ۷۰ بت تھے كہ خدا كے علاوہ جنكى وہ پوجا كرتے تھے_

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام كا انتخاب ۴; انبياءعليه‌السلام كا خوشنام ہونا ۴; انبياءعليه‌السلام كى خصوصيات ۴; گذشتہ انبياء

تقليد :اندھى تقليد كا زمينہ ۱۲;نيك افراد كى تقليد ۹

توحيد :توحيد عبادى كى طرف دعوت ۷،۱۰،۱۵

حق :حق كو قبول كرنے كے موانع ۱۱

____________________

۱) كافى ، ج ۸ ; ص ۱۸۵، ح ۲۱۳; بحار الانوار ج ۱۱ ، ص ۳۷۷، ح ۳_

۱۸۶

رشد :فكرى رشد كے موانع ۱۱

روايت : ۱۶

صالحعليه‌السلام :حضرت صالحعليه‌السلام كا اپنى ذمہ دارى پر عمل پيدا ہونا ۱۳; حضرت صالح(ع) كا شرك كے خلاف جہاد ۶،۷ ، ۸ ;حضرت صالحعليه‌السلام كا قصہ ۶، ۱۳; حضرت صالحعليه‌السلام كا نابغہ ہونا ۱;حضرت صالح(ع) كى تبليغ ۶; حضرت صالح(ع) كى دعوت۷، ۱۰، ۱۳، ۱۵; حضرت صالحعليه‌السلام كى رسالت ۱۳; حضرت صالحعليه‌السلام كى سرزنش ۱۷; حضرت صالحعليه‌السلام كى صلاحتيں ۲; حضرت صالح(ع) كى كوشش ۱۳;حضرت صالح(ع) كى ہوشيارى ۱۵ ; حضرت صالح(ع) كے انذاز ۶; حضرت صالح(ع) كے فضائل ۱، ۲; حضرت صالح(ع) كے مخاطبين ۱۰; حضرت صالح(ع) كے نابغہ ہونے كے آثار ۳; حضرت صالحعليه‌السلام نبوت سے پہلے ۱

قومى تعصب :قومى تعصب كے آثار ۱۱، ۱۲

قوم ثمود :قوم ثمود اورتوحيد عبادى ۱۴; قوم ثمود اور حضرت صالحعليه‌السلام ۱، ۲، ۳، ۷، ۸، ۹، ۱۵; قوم ثمود اور درميانى عمر كے لوگ ۱۰; قوم ثمود اور نيك لوگ ۵; قوم ثمود كا اقرار ۲; قوم ثمود كا شرك ۵،۶;قوم ثمود كا شك ۱۴، ۱۵; قوم ثمود كا عقيدہ ۱۴;قوم ثمود كو حق كى دعوت ۷; قوم ثمود كى اميديں ۸;قوم ثمود كى بت پرستى ۱۶;قوم ثمود كى تاريخ ۳،۵، ۷، ۹، ۱۴، ۱۵; قوم ثمود كى ترقى كے عوامل ۳;قوم ثمود كى فكر ۳;قوم ثمود كى مخالفت كاسبب ۹;قوم ثمود كى مخالفتيں ۷;قوم ثمود كى نااميدى ۸; قوم ثمود كى ہلاكت ۱۶;قوم ثمود كے جوان ۱۰

متحرك كرنا:متحرك كرنے كے اسباب۹

مشركين : ۵

۱۸۷

آیت ۶۳

( قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَى بَيِّنَةً مِّن رَّبِّي وَآتَانِي مِنْهُ رَحْمَةً فَمَن يَنصُرُنِي مِنَ اللّهِ إِنْ عَصَيْتُهُ فَمَا تَزِيدُونَنِي غَيْرَ تَخْسِيرٍ )

انھوں نے كہا كہ اے قوم تمھارا كيا خيال ہے كہ اگر ميں اپنے پروردگار كى طرف سے دليل ركھتا ہوں اور اس نے مجھے رحمت عطا كى ہے تو اگر ميں اس كى نافرمانى كروں گا تو اس كے مقابلہ ميں كون ميرى مدد كرسكے گا تم تو گھاٹے ميں اضافہ كے علاوہ كچھ نہيں كرسكتے ہو(۶۳)

۱_ حضرت صالح(ع) ، كے پاس اپنى رسالت كے ليے معجزہ اورواضح دليل تھي_قال يا قوم ارأيتم ان كنت على بيّنة

۲_ خداوند متعال، پيغمبروں كو معجزہ اور روشن دليليں عطا كرتا ہے_ان كنت على بينة من ربّي

۳_ خداوند متعال، پيغمبروں كى تربيت اور ان كے امور كى تدبير كرنے والا ہے_ان كنت على بينة من ربّي

مذكورہ بالا معني، لفظ (ربّ) سے استفادہ كيا گيا ہے جو مربى اور مدّبر كا معنى ديتا ہے_

۴_ پيغمبروں كو معجزہ اور روشن دليليں عطا كرنے كا مقصد ، نبوت كے امور كى تدبير اور رسالت كے مقاصد ميں پيش قدمى ہے_ان كنت على بيّنة من ربّي

۵_ حضرت صالح(ع) ،ہمدرداور كفار سے شفقت اور رحم دلّى سے پيش آتے تھے_يا قوم ارايتم

''يا قوم'' (انے ميرى قوم) كى تعبير حضرت صالح(ع) كى شفقت اور رحم دلّى سے حكايت ہے_

۶_ خداوند عالم نے حضرت صالح(ع) كو اپنى خصوصى رحمت

۱۸۸

سے بہرہ مند فرمايا اور انہيں نبوت عطا فرمائي و آتانى منہ رحمةً مقام كى مناسبت سے يہاں ''رحمة'' سے مر اد مقام نبوت و رسالت ہے_

۷_ خداوند متعال كى نبوت اور رحمت خاص اس كے پيغمبروں كے ليے ہے_و اتانى منه رحمة

لفظ (رحمة) كا نكرہ لانا ، اسكى عظمت كى دليل ہے جسے يہاں رحمت خاص سے تعبير كيا گيا ہے_

۸_ حضرت صالحعليه‌السلام كى ذمہ داري، توحيد كى تبليغ اور شرك و بت پرستى سے مقابلہ تھا_ان كنت على بيّنة من ربّى فمن ينصرنى من اللّه ان عصيته

جملہ ( ان عصيتہ ) جسكا معنى يہ ہے كہ ( اگر ميں خداوند متعال كى نافرمانى كروں )يہ بتا تا ہے (و ا مرنى بابلاغ رسالاتہ) جيسا جملہ (فمن ينصرنى ) سے پہلے تقدير ميں ہے_ اسى بناء پر حاصل معنييہ ہوگا ( ان كنت ...) تم خود اسكا فيصلہ كرو كہ اگر ميں خدا كا رسول ہوں اور وہ مجھے رسالت كے پہنچا نے كا حكم فرمائے_اور اگر اسميں ميں كوشش نہ كروں تو كون ہے جو مجھے خدا كے عذاب سے بچالے گا _

۹_ حضرت صالحعليه‌السلام نے اپنى قوم ميں اعلان كيا: اگرميں نے تمھارى بات كو قبول كرليا ( يعنى توحيد پرستى كى دعوت كوترك كردوں ) توگنہگار اور مستحق عذاب ٹھہرايا جاؤں گا_فمن ينصرنى من الله ان عصيته

۱۰_ پيغمبر بھى اگر رسالت اور توحيد كى تبليغ كے سلسلہ ميں سہل انگارى كريں تو گنہگار ہيں _

فمن ينصرنى من الله ان عصيته

۱۱_ فرمان الہى سے سرپيچى كرنے والے اگر چہ انبياء ہى كيوں نہ ہوں خدائي عذاب و سزا سے دوچار ہونے كے خطر ے ميں ہيں _فمن ينصرنى من اللّه ان عصيته

(من اللّہ ) كا معنى (من عذاب اللّہ ) ہے_

۱۲_ تمام مخلوق، خداوند متعال كے عذاب كو دور كرنے اور عذاب الہى ميں گرفتار لوگوں كو بچانے ميں ناتواں ہے_

فمن ينصرنى من اللّه ان عصيته

(ينصر ) كا فعل چونكہ(من) سے متعدى ہوا ہے لہذا (ينجي) (نجات دے گا) كا معنى اس ميں متضمن ہے _

۱۳_ خداوند متعال كى قدرت، تمام طاقتوں سے بالاتر ہے_فمن ينصرنى من اللّه

۱۴_ قوم ثمود كے كفار، حضرت صالح(ع) سے يہ چاہتے تھے كہ وہ اپنے مدعى سے دستبرد ار ہو جائيں اور توحيد

۱۸۹

پرستى كى طرف لوگوں كو دعوت دينے سے گريز كريں _فمن ينصرنى من اللّه ان عصيته فما تزيدوننى غير تخسير

(فماتزيدونى )ميں حرف فأ، فأ فصيحہ ہے اور ايك مقدر جملے سے حكايت كررہى ہے جس پر اور گذشتہ آيت ميں (اتنھنا ...) كے قرينے كى بناء پر آيت كا معنى يوں ہوگا _ اگر ميں تمہارے كہنے ميں آكر ( توحيد كى تبليغ سے) ہاتھ بھى اٹھالوں توتم مجھے گھا ٹے اور نقصان كے كچھ نہيں دے سكتے_

۱۵_ حضرت صالح(ع) اپنى قوم كے كفار كى درخواست (جو توحيد كى تبليغ كو ترك كرنا تھا) كيطرف توجہ كرنے كو بھى اپنے ليے تباہى اور خسارت كا موجب سمجھتے تھے_فما تزيدوننى غير تخسير

(تخسير) خسارت ڈالنے كےمعنى ميں ہے _ اور اسكا فاعل قوم ثمود ہے_

۱۶_ اپنے كافر رشتہ داروں كى خاطر خدائي ذمہ داريوں كو ترك كردينا ،خسارت اور تباہى كا موجب ہے_

فما تزيدوننى غير تخسير

۱۷_حضرت صالح(ع) كى قوم كا آپ(ع) كو دعوت توحيد سے دسبتردار ہونے پر اصرارسبب بنا كہ انہيں اپنى قوم كى خسارت و بتاہى كا بہت زيادہ يقين ہوگيا_فما تزيدوننى غير تخسير

مذكورہ بالا معنى اس صورت ميں حاصل ہوگا جب (تخسير ) كا معنى خسارت اور تباہى كى طرف نسبت دينا ہو جسطرح ( تكفير و تفسيق ) كا معنى كفر و فسق كى طرف نسبت دينا ہے _ اس بناء پر فعل تخسير كا فاعل حضرت صالحعليه‌السلام ہيں _اور جملہ (فما تزيدوننى ) كا معنى يوں ہوگا كہ تم مجھے توحيد پرستى كى دعوت سے منع كرنے پر جو اصرار كر رہے ہو اسكا نتيجہ فقط يہ ہے كہ ميں تمھيں تباہى و بر بادى ميں ديكھوں _

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام اور عذاب ۱۱; انبياءعليه‌السلام اور گناہ ۱۰; انبياء ء اور معصيت ۱۱;ابنياءعليه‌السلام پر رحمت الہى ۷;انبياءعليه‌السلام كا مدبر ہونا ۳;انبياءعليه‌السلام كا مربى ۳;انبياءعليه‌السلام كى رسالت كى اہميت ۴;انبياءعليه‌السلام كى نبوت كى اہميت ۴; انبياءعليه‌السلام كے اہداف كى تكميل كا زمينہ ۴;انبياءعليه‌السلام كے روشن دلائل ۲; انبياءعليه‌السلام كے ليے روشن دلائل كا فلسفہ ۴; انبياءعليه‌السلام كے معجزہ كا فلسفہ ۴;انبياءعليه‌السلام كے مقامات ۷

انسان :انسانوں كا عاجز ہونا ۱۲/بت پرستى :بت پرستى سے مقابلے كى اہميت ۸

توحيد :توحيد كى تبليغ كى اہميت ۸; توحيد كى دعوت كو ترك كرنا ۱۴، ۱۷; توحيد كى دعوت كو ترك كرنے كا گناہ

۱۹۰

ہے ۹، ۱۰

خدا :افعال خداوندى ۳; خداوند متعال كى ربوبيت ۳; خداوند متعال كى رحمت خاصہ۶، ۷; خداوند متعال كے خصائص ۱۳ ;خدا وند متعال كے عذاب سے مقابلہ ۱۲;خداوند متعال كے عطايا ۲; قدرت الہى كى خصوصيات ۱۳ ;قدرت خداوند كى بالادستى ۱۳; خدا كے عذابوں كاحتمى ہونا ۱۲

رحمت :رحمت كے شامل حال افراد۶، ۷

شرعى ذمہ داري:شرعى ذمہ دارى كو ترك كرنے كے آثار ۱۶; شرعى ذمہ دارى ميں سہل انگارى كے آثار ۱۰

شرك:شرك سے مقابلہ كى اہميت ۸

صالحعليه‌السلام :حضرت صالحعليه‌السلام اور قوم ثمود ۵; حضرت صالحعليه‌السلام اور قوم ثمود كى خواہشات ۹، ۱۵; حضرت صالحعليه‌السلام اور كفّار ۵; حضرت صالحعليه‌السلام اور گناہ ۹; حضرت صالحعليه‌السلام اور مشركين ۵; حضرت صالحعليه‌السلام پر رحمت ۶; حضرت صالحعليه‌السلام كا اطمينان ۱۷; حضرت صالحعليه‌السلام كا قصہ ۹، ۱۴، ۱۵; حضرت صالحعليه‌السلام كا معجزہ ۱;حضرت صالحعليه‌السلام كى رسالت ۸; حضرت صالحعليه‌السلام سوچ ۹، ۱۵ ; حضرت صالحعليه‌السلام كى گفتگو كا طريقہ ۵; حضرت صالح(ع) كى نبوت ۶;حضرت صالحعليه‌السلام كى مہرباني۵; حضرت صالحعليه‌السلام كى نبوت كے دلائل ۱; حضرت صالحعليه‌السلام كے درجات ۶;حضرت صالح(ع) كے روشن دلائل ۱

عذاب :اہل عذاب كى امداد ۱۲;عذاب سے نجات ۱۲; عذاب كے اسباب ۹

قوم ثمود :اصرار قوم ثمود كے آثار ۱۷; قوم ثمود اور حضرت صالحعليه‌السلام ۱۴;قوم ثمود كا نقصان و خسارت ۱۴

كفار :كفار كو خوش كرنے كا بے اہميت ہونا ۱۶

گنہگار :۱۰///معجزہ :معجزہ كا سبب ۲

معصيت كار :معصيت كاروں كى سزا ۱۱

نبوت :مقام نبوت ۷

نقصان :نقصان كے اسباب ۱۵، ۱۶

۱۹۱

آیت ۶۴

( وَيَا قَوْمِ هَـذِهِ نَاقَةُ اللّهِ لَكُمْ آيَةً فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللّهِ وَلاَ تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِيبٌ )

اے قوم يہ ناقہ اللہ كى طرف سے ايك نشانى ہے اسے آزاد چھوڑدوتا كہ زمين خدا ميں چين سے كھائے اور اسے كسى طرح كى تكليف نہ دينا كہ تمھيں جلد ہى كوئي عذاب اپنى گرفت ميں لے لے (۶۴)

۱_ اونٹى كا ارادہ الہى سے عادى اسباب و علل كے بغير پيدا ہونا، حضرت صالح(ع) كى اپنى رسالت كو ثابت كرنے كے ليے معجزہ تھا_و يا قوم هَذه نَاقَةُ الله لكم آية

۲_ حضرت صالحعليه‌السلام كى ناقہ ، بڑا معجزہ و نشانى اور ايك خاص اہميت كى حامل تھى _و يَا قوم هَذه نَاقَةُ الله لكم آية

لفظ (ناقة ) كا (الله ) كيطرف مضاف ہونا ، جہاں ناقہ صالح(ع) كى عادى اسباب كے بغير خلقت كى طرف اشارہ كررہا ہے وہاں اس اونٹى كى بزرگى و عظمت كو بھى بيان كررہا ہے _

۳_ حضرت صالحعليه‌السلام ،اپنى قوم كو گفتگو كى لطافت سے معجزہ كى خصوصيات سے روشناس كروايا _و يا قوم هذه ناقة الله

تعبير ( يا قوم ) يعنى اے ميرى قوم عطوفت اور مہربانى كو بتاتى ہے _

۴_ حضرت صالحعليه‌السلام نے اپنى قوم سے درخواست كى كہ اس اونٹنى كو چرنے كيلئے آزاد چھوڑ ديں _

فذروها تأكل فى ارض الله

۵_ حضرت صالحعليه‌السلام نے قوم ثمود كو خبردار كيا كہ اس اونٹنى كو كسى قسم كى تكليف اور اذيت نہ ديں _ولاتمسوها بسوء

۶_ حضرت صالح(ع) نے اپنى قوم كو متنبہ كيا كہ اگر انہوں نے اونٹنى كو چرنے سے منع كيا اوراسے اذيت دى تو جلدہى عذاب نازل ہوجائے گا _

ولا تمسوها بسوء فيأخذكم عذاب قريب

۷_ زمين اور جو اس پر اگتا ہے وہ خداوند متعال كى ملكيت ہے _فذروها تأكل فى ارض الله

مذكورہ بالا معنى لفظ ( ارض) كو (الله ) كى طرف اضافت دينے سے حاصل ہوا ہے _

۸_ چراگاہوں كا خدا كى ملكيت ہونا،يہ حضرت صالحعليه‌السلام كى دليل تھى كہ ناقہ كو زمين پر كہيں بھى چرنے سے منع نہ كيا جائے _هذه ناقة الله ...فذروها تأكل فى ارض الله

۱۹۲

''ناقہ خدا'' اور'' زمين خدا'' كى تعبيرات كا استعمال يہ حقيقت ميں حضرت صالحعليه‌السلام كا اپنى قوم كے ليے استدلال تھا كہ اس ناقہ كو كہيں بھى چرنے سے منع نہ كيا جائے كيونكہ يہ ناقة الله ہے اور زمين بھى الله تعالى كى ہے اور يہ مناسب نہيں ہے كہ اسكو چرنے سے روكا جائے _

۹_ حضرت صالحعليه‌السلام كى ناقہ كو چرنے ميں آزاد ركھنا، قوم ثمود كے منافع كے خلاف تھا_

فذروها تأكل فى ارض الله و لا تمسوها بسوء

قوم ثمود كو خبردار كيا جاناكہ اگر انہوں نے ناقہ كو چرنے سے منع كيا تو عذاب ميں گرفتار ہوجائيں گے _ اس سے معلوم ہوتاہے كہ اونٹنى كى سلامتى ان كى طرف سے خطرے ميں تھى اور وہ لوگ اونٹنى كے آزاد چرنے كو اپنے فائدے ميں نہيں ديكھ رہے تھے _

۱۰_عن ابى جعفر عليه‌السلام : قال : ان رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سأل جبرئيل عليه‌السلام ... فقال : يا محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان صالحاً بعث الى قومه قالوا : يا صالح(ع) ادع لنا ربك يخرج لنا من هذا الجبل الساعة ناقة حمراء شقراء و براء عشراء بين جنبيها مبل فسا ل الله تعالى صالح عليه‌السلام ذلك فانصدع الجبل صدعاً ، ثم اضطرب ذلك الجبل ثم لم يفجأهم الَّا را سها ثم خرج سائر جسدها ثم استوت قائمة على الأرض (۱)

ترجمہ : امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قوم صالح كے بارے ميں جبرائيلعليه‌السلام سے سوال كيا_ جبرائيل(ع) نے عرض كي: صالحعليه‌السلام اپنى قوم كى طرف مبعوث ہوئے تو ان سے انہوں نے كہا كہ اے صالحعليه‌السلام اپنے خدا سے درخواست كرو كہ ابھى اس پہاڑسے اونٹى پيدا كرے _ جو گہرے سرخ رنگ كى ہو اور اسكو حمل سے آزاد ہوئے دس مہينے گذر چكے ہوں اور اس كے دونوں پہلووں كے درميان ايك ميل ( چار ہزار ہاتھ) فاصلہ ہو اس وقت حضرت صالحعليه‌السلام نے خدا سے دعا كى ، تو پہاڑ ميں بہت بڑا شگاف ہوا پھر ايك لرزہ آيا اچانك ايك ناقہ كا سر پہاڑ سے باہر آيا ...پھر باقى جسم باہر نكلا اور وہ زمين پر كھڑى ہوگئي_

____________________

۱)كافى ، ج۸ ، ص ۱۸۵ج ۲۱۳ ; تفسير برہان ج۲ ص ۲۲۵; ح ۳_

۱۹۳

جڑى بوٹياں :جڑى بوٹيوں كا مالك ۷

خدا :ارادہ خداوندى ۱; خدا كى مالكيت ۷، ۸

روايت : ۱۰

زمين :زمين كا مالك ۷

صالحعليه‌السلام :حضرت صالح(ع) ا ور قوم ثمود۳،۴،۵،۸; حضرت صالح(ع) كا استدلال۸; حضرت صالح(ع) كا اونٹنى كو اذيت دينے سے منع كرنا۵; حضرت صالح(ع) كا ڈرانا ۶; حضرت صالحعليه‌السلام كا قصّہ ۴، ۵، ۶، ۸; حضرت صالحعليه‌السلام كا معجزہ ۱، ۱۰;حضرت صالحعليه‌السلام كي اونٹى كو اذيت دينے كے آثار ۶; حضرت صالحعليه‌السلام كى اونٹى كى آزادى ۹ ; حضرت صالح(ع) كى اونٹى كى آزادى پر دلائل ۸; حضرت صالح(ع) كى اونٹى كى چراگاہ ۴، ۸ ;حضرت صالح(ع) كى تبليغ كا طريقہ ۳;حضرت صالح(ع) كى خواہشات ۴; حضرت صالح(ع) كى عطوفت ۳; حضرت صالح(ع) كى نبوت پر دلائل ۱; حضرت صالح(ع) كے معجزے كى اہميت ۲; حضرت صالحعليه‌السلام كے نواہي۵

عذاب :عذاب سے خبردار كرنا ۶

قوم ثمود :قوم ثمود سے احتجاج ۸; قوم ثمود كو ڈرانا ۶; قوم ثمود كے منافع ۹

معجزہ :حضرت صالحعليه‌السلام كى اونٹى كا معجزہ ۱، ۲

آیت ۶۵

( فَعَقَرُوهَا فَقَالَ تَمَتَّعُواْ فِي دَارِكُمْ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ ذَلِكَ وَعْدٌ غَيْرُ مَكْذُوبٍ )

اس كے بعد بھى ان لوگوں نے اس كى كونچيں كاٹ ديں تو صالح نے كہا كہ اب اپنے گھروں ميں تين دن تك اور آرام كرو كہ يہ وعدہ الہى ہے جو غلط نہيں ہوسكتا ہے (۶۵)

۱_ قوم ثمود كے كافروں نے حضرت صالحعليه‌السلام كے خوف دلانے كى پروا نہ كرتے ہوئے ناقہ كا پيچھا كركے

۱۹۴

اسكو ہلاك كرديا _فعقروه

''عقرٌ'' (عقروا) كا مصدر ہے_ عربى زبان ميں اسكا معنى اونٹ كا پيچھا كرنا اور اس كے پاؤں كو تلوار سے قلم كرنے كو كہتے ہيں اور اونٹ كو نحر اور ذبح كرنے كو بھى ( عقر ٌ ) كہتے ہيں _

۲_ قوم ثمود، نے حضرت صالحعليه‌السلام كى اونٹنى كا پيچھا كركے ان كى رسالت كى نشانى كو مٹا كراپنے ليے عذاب الہى كو يقينى قرار ديا _فعقرواها فقال تمتعوا فى داركم ثلاثة ايام _

۳_ قوم ثمود، كوحضرت صالحعليه‌السلام كى ناقہ كے قتل كے بعد دنيا ميں تين دن سے زيادہ رہنے اور اس كے مال و متاع سے استفادہ كرنے كى مہلت نہ مل سكي_فقال تمتعوا فى داركم ثلاثة ايّام

۴_ قوم ثمود كے لوگ دنيا اور اسكى لذّات سے بہت دل لگائے ہوئے تھے _فقال تمتعوا فى داركم ثلاثة ايّام

حضرت صالح كے فرمان (تمتعوا ) سے مراد يہ نہيں تھى كہ وہ انہيں دنيا كى لذتوں سے بہرہ مند ہونے كيلئے كہہ رہے تھے بلكہ بعد والے جملہ كے قرينہ كى بناء پر تين دن كى مہلت كا اعلان كررہے تھے تين دن دنيا كے مال و متاع سے استفادہ كرنے كيلئے مہلت دينا قوم ثمود كى طرز فكر كى طرف اشارہ ہے يعنى تم جس دنيا سے دل لگائے ہوئے ہو اور اسے چاہتے ہو اور اس كى خاطر تم نے آئين الہى كو پس پشت ڈال ديا ہے اب فقط تمھيں اس دنيا سے لذت وفائدہ اٹھانے كى تين دن كى مہلت ہے_

۵_ قوم ثمود پر نزول عذاب الہى كا وعدہ، سچا اور تخلف ناپذير تھا _ذلك وعد غير مكذوب

۶_ قوم ثمود پر عذاب الہى كے نزول كا وعدہ، خداوند متعال كى طرف سے حضرت صالحعليه‌السلام كو تھا _

ذلك وعد غير مكذوب

۷_(عن ابى عبدالله عليه‌السلام (فى حديث قوم صالح ) قالوا اعقروا هذه الناقة ثم قالوا : من الذى يلى قتلها و نجعل له جعلاً ما احب ، فجائهم رجل شقى من الأشقياء فجعلوا له جعلاً فقعد لها فى طريقها فضربهابالسيف ضربة فلم تعمل شيئا فضربها ضربةٌ اخرى فقتلها و اقبل قوم صالح فلم يبق احد منهم الَّا شركه فى ضربته فأوحى الله تبارك و تعالى الى صالح عليه‌السلام ... قل لهم: انى مرسل عليكم عذابى الى ثلاثة ايام فان هم تابوا و رجعوا قبلت

۱۹۵

توبتهم وصددت عنهم فا تاهم صالح عليه‌السلام فقال لهم يا قوم انكم تصبحون غداً و وجوهكم مصفرّة و اليوم الثانى وجوهكم محمّرة و اليوم الثالث وجوهكم مسودّة (۱)

امام جعفر صادق عليہ سے ( حضرت صالحعليه‌السلام كے قصے ميں ) روايت ہے كہ انكى قوم نے كہا : اس ناقہكو راستے سے ہٹا دو پھر اس كے بعد انہوں نے كہا : كون ہے جو اسكو ہلاك كرنے كا كام انجام دے گا ہم اس كے ليے اسكى مرضى كى اجرت مقرر كريں گے تو اسوقت ايك شقى شخص آگے بڑھا اس كے اس كام كى اجرت مقرر ہوئي _ پھراس شخص نے ناقہ كے راستے ميں كمين لگائي اور جب اونٹنى آئي تو اس نے پہلا وار كيا جو كارساز نہ ہوا پھر دوسرے وار ميں اس نے اونٹى كو قتل كرديا پھر حضرت صالح(ع) كى قوم آئي اور اسكو اجرت ادا كرنے ميں سب شريك ہوئے پھر حضرت صالحعليه‌السلام كو وحى ہوئي كہ ان كو كہہ دو كہ ميں تين دن تك تم پر عذاب نازل كروں گا اگر وہ ان تين دنوں ميں توبہ كرليں اور ( خدا كى طرف) لوٹ آئيں تو ميں انكى توبہ قبول كرلوں گا اور ان سے عذاب كوٹال دوں گا پھر حضرت صالح(ع) اپنى قوم كے پاس تشريف لائے اور فرمايا كل كے دن تمہارى صورتيں زرد اور اس كے بعد والے دن سرخ پھر تيسرے دن سياہ ہوجائيں گى

اعداد :تين كا عدد ۳، ۷

خدا :خداوند متعال كے وعدے ۶

روايت :روايت ۷

صالحعليه‌السلام :حضرت صالحعليه‌السلام كا ڈرانا ۱; حضرت صالحعليه‌السلام كا قصہ ۲، ۳، ۷; حضرت صالحعليه‌السلام كو وعدہ دينا ۶; حضرت صالحعليه‌السلام كى اونٹى كا قتل ۱، ۷;حضرت صالحعليه‌السلام كى اونٹى كو قتل كرنے كے آثار ۲، ۳

عذاب :عذاب كے اسباب ۲

قوم ثمود :قوم ثمود اور حضرت صالحعليه‌السلام كى اونٹى ۱، ۲;قوم ثمود سے توبہ كى درخواست ۷; قوم ثمود كو خوف دلوانا ۵، ۶; قوم ثمود كو مہلت ۳;قوم ثمود كى دنيا طلبى ۴;قوم ثمود كى صفات ۴;قوم ثمود كى تاريخ ۳،۵،۶;قوم ثمود كے عذاب كا حتمى ہونا ۲، ۵

____________________

۱) كافى ،ج ۸، ص ۱۸۷، ح ۲۱۴; بحارالانوار ، ج ۱۱; ص ۳۸۸ح ۱۴_

۱۹۶

آیت ۶۶

( فَلَمَّا جَاء أَمْرُنَا نَجَّيْنَا صَالِحاً وَالَّذِينَ آمَنُواْ مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَمِنْ خِزْيِ يَوْمِئِذٍ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ )

اس كے بعد جب ہمارا حكم عذاب آپہنچا تو ہم نے صالح اور ان كے ساتھ كے صاحبان ايمان كو اپنى رحمت سے اپنے عذاب اور اس دن كى رسوائي سے بچاليا كہ تمھارا پروردگار صاحب قوت اور سب پر غالب ہے (۶۶)

۱_ قوم ثمود نے تين دن كى مہلت سے كچھ فائدہ نہ اٹھايا اور ناقہ كے قتل پر پشيمان نہ ہوئے نيزاپنے شرك اور حضرت صالحعليه‌السلام كى رسالت كے انكار پر مصّر رہے _فلما جاء امرنا

۲_ خداوند متعال نے قوم ثمود كے شرك اختيار كرنے پر اصرار اور حضرت صالحعليه‌السلام كى رسالت كے انكار كى وجہ سے ان پر سخت عذاب نازل كيا _فلما جاء امرنا

(امر) سے مراد قوم ثمود پرنازل ہونے والا عذاب ہے (نا) ضمير كى طرف مضاف ہونا، عذاب كے عظيم ہونے سے حكايت ہے_

۳_ قوم ثمود پر نازل شدہ عذاب، ذليل اور خوار كرنے والا عذاب تھا_نجّينا صالحاً و من خزى يؤمئذ

۴_ كائنات ميں خداوند متعال كا حكم بغير كسى كمى وزيادتى كے متحقق ہوتا ہے_فلمّا جاء امرنا

عذاب كو لفظ ( امر ) كہ جس كا معنى فرمان ہے سے تعبير كرنے كا مقصد اس نكتہ كى طرف اشارہ كرنا ہے كہ خداوند متعال جس چيز كا حكم ديتا ہے وہ بغير كسى كمى و زيادتى كے متحقق ہوتا ہے اس طرح كہ گويا موردحكم فقط وہى حكم ہے _

۵_ قوم ثمودكے كچھ لوگوں نے توحيد كو قبول كيا اور

۱۹۷

حضرت صالحعليه‌السلام كى رسالت پر ايمان لائےنجّينا صالحاً و الذين ء امنوا معه

۶_ خداوند متعال نے حضرت صالحعليه‌السلام اور ان پر ايمان لانے والوں كو قوم ثمود پر نازل شدہ عذاب سے بچاليا اور ان كو انجام كى ذلت سے محفوظ ركھا_نجّينا صالحاً و الذين ء امنوا ومن خزى يومئذ:

۷_ حضرت صالحعليه‌السلام اور انكے پيرو كاروں كونازل شدہ عذاب سے نجات دينا، خداوند متعال كى ان پر رحمت كا جلوہ تھا _

معه برحمة منّا

۸_اہل ايمان اس كے لائق ہيں كہ رحمت الہى ان كے شامل حال رہے _نجّينا صالحاً و الذين ء امنو معه برحمة منّ

۹_ خداوند متعال نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين كو ذليل و خوار كرنے والے عذاب سے ڈرايا _

و من خزى يومئذ ان ربّك هوالقويُّ العزيز

قوم ثمود كے كفار پر نزول عذاب كے بيان كے بعد( ان ربّك ...) كے جملے ميں پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو مخاطب قرار دے كر يہ بتايا جارہا ہے كہ قوم ثمود كے كفار پر جس طرح عذاب الہى نازل ہوسكتا ہے اسى طرح رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين بھى عذاب الہى ميں گرفتار ہونے كے خطرہ سے دوچارہيں _

۱۰_ كفر اختيار كرنے اور معارف دين كى مخالفت كرنے والے الہى عذاب سے دو چار ہونے كے خطرہ ميں ہيں _

فلمّا جاء امرنا نجّينا صالحاً و من خزى يومئذ انّ ربك هوالقوى العزيز

۱۱_ خداوند متعال ،قوى ( طاقتور ) اور عزيز ( ناقابل شكست ) ہے _انّ ربّك هوالقوى العزيز

۱۲_ خداوند متعال كے عذاب و عقوبت كو كوئي نہيں ٹال سكتا _ان ربّك هوالقوى العزيز

حصرپرمشتمل جملہ كے ذريعہ خداوند متعال كى حكومت اور ناقابل شكست ہونے كو بيان كرنا او ر دوسروں سے قدرت و طاقت كى نفى كرنا، اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ ارادہ خداوندى كے مقابلے ميں كسى ميں استقامت كى طاقت نہيں ہے_

۱۳_ خداوند متعال، پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا مربيّ اور ان كے امور كا مدبرّ ہے_ان ربّك

۱۴_ خداوندعالم كى قدرت كا ناقابل شكست ہونا، اہداف رسالت كى پيش قدمى اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت كے امور كى تدبير كے سلسلہ ميں معاون و مددگار ہے_ان ربك هوالقوى العزيز

۱۹۸

اسما و صفات :عزيز ۱۱; قوى ،۱۱

اعداد :تين كا عدد ۱

انسان :انسانوں كا عجز ۱۲

خدا :اوامرالہى كى خصوصيات ۸;خدا كا عذاب سے ڈرانا۹; خدا كى ربوبيت ۱،۱۴; خدا كى قدرت كے آثار۱۴; خدا كے احكام كا حتمى ہونا ۴; خدا كے عذاب۲،۱۰; خدا كے عذابوں كا حتمى ہونا۱۲; رحمت الہى كى نشانياں ۷

دين :دشمنان دين كا عذاب ۱۰;دين كى مخالفت كے آثار ۱۰

رحمت :رحمت الہى كے حق دار ۸

صالح(ع) :حضرت صالحعليه‌السلام پر ايمان لانے والے ۵; حضرت صالحعليه‌السلام كا قصّہ ۲، ۳، ۵، ۶;حضرت صالحعليه‌السلام كى اونٹى كا قتل ۱;حضرت صالحعليه‌السلام كى نجات ۶، ۷;حضرت صالحعليه‌السلام كے پيروكاروں كى نجات ۶،۷; حضرت صالحعليه‌السلام كے جھٹلائے جانے كے آثار ۲

عذاب :ذلت بار عذاب سے ڈرانا ۹;سخت عذاب ۲;عذاب سے نجات ۶، ۷; طلب كيا ہوا عذاب ۷; عذاب كے اسباب ۱۰; عذاب كے مراتب ۲، ۳، ۹

قوم ثمود :قوم ثمود اور حضرت صالح(ع) كى اونٹى ۱;قوم ثمود اور حضرت صالح(ع) كى تكذيب۱;قوم ثمود اور ذلّت بار عذاب ۳; قوم ثمود اور معاشرتى گروہ ۵; قوم ثمود كا شرك پراصرار ۱; قوم ثمود كى تاريخ ۱،۲،۵،۶;قوم ثمود كى لجاجت ۱; قوم ثمود كى لجاجت كے آثار ۲;قوم ثمود كى مہلت ۱;قوم ثمود كے آثار شرك ۲;قوم ثمود كے عذاب كے اسباب ۲; قوم ثمود كے موحدين ۵;قوم ثمود كے مومنين ۵

كفار:كافروں كا عذاب ۱۰

كفر :كفر كے آثار ۱۰

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا مدبر ۱۳، ۱۴; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، كا مربى ۱۳ ، ۱۴ ; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كينبوت كى اہميت : ۱۴; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حامى ۱۴;۱۳، ۱۴;حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين كو ڈرانا ۹

مؤمنين :مؤمنين كے فضائل ۸

۱۹۹

آیت ۶۷

( وَأَخَذَ الَّذِينَ ظَلَمُواْ الصَّيْحَةُ فَأَصْبَحُواْ فِي دِيَارِهِمْ جَاثِمِينَ )

اور ظلم كرنے والوں كو ايك چنگھاڑنے اپنى لپيٹ ميں لے ليا تو وہ اپنے ديار ميں ادندھے پڑے رہ گئے (۶۷)

۱_ قوم ثمود كے كفار ،چيخ اور ڈرؤنى آواز كے ذريعہ ہلاكت كوپہنچ گئے_و أخذ الذين ظلموا الصيحة

۲_ قوم ثمود كے لوگ ستم كرنے والے تھے _و اخذ الذين ظلموا الصيحة

۳_ قوم ثمود كى ستمكاري، ان كے عذاب الہى ميں گرفتار ہونے كا سبب بني_و اخذ الذين ظلموا الصيحة

۴_ قوم ثمود كا حضرت صالحعليه‌السلام كى اونٹنى كو قتل كرنا، ان كى ستم ظريفيوں ميں سے ايك تھى _و اخذ الذين ظلموا الصيحة

اس وجہ سے كہ حضرت صالحعليه‌السلام كى ناقہ كو قتل كرنا بھى عذاب الہى كے نزول ميں دخيل تھا _اس سے معلوم ہوتا ہے كہ جملہ (الذين ظلموا ...)ميں ظلم سے ناقہ كے قتل كى طرف اشارہ ہے_

۵_ شرك ،اور پيغمبروں كى رسالت سے انكار كرنا ستمگرى ہے _و اخذ الذين ظلموا الصيحة

( الذين ظلموا ) سے مراد، مشركين اور حضرت صالحعليه‌السلام كى رسالت كے منكرين ہيں ان كو سمتگروں سے ياد كرنا ،مذكورہ بالا تفسير كى طرف اشارہ ہے_

۶_ ستم كرنے والے مشركين اور كفار، دنياوى عذاب (عذاب استيصال) ميں گرفتار ہونے والے ہيں _

واخذ الذين ظلموا الصيحة

۷_ قوم ثمود كے كفار، عذاب الہى كے سبب زمين پر اوندھے گر كرہلاك ہوگئے _فأصبحوا فى ديارهم جاثمين

( جثوم ) جاثمين كا مصدر ہے جو زمين سے چمٹ جانے اور حركت نہ كرنے كے معنى ميں آتا ہے _ ليكن بعض افراد نے زمين پر سينے كے بل گرنے كا معنى كيا ہے _(لسان العرب)

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

آیت ۷

( وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَوْلا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ إِنَّمَا أَنتَ مُنذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ )

اور يہ كافر كہتے ہيں كہ ان كے اوپر كوئي نشانى ۱_(ہمارى مطلوبہ)كيوں نہيں نازل ہوتى تو آپ كہہ ديجئے كہ ميں صرف ڈرانے والا ہوں اور ہر قوم كے لئے ايك ہادى اور رہبر ہے (۷)

۱_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بعثت كے زمانہ كے كفار انكى رسالت كى حقانيت پر معجزہ اور آيت و نشانى نہ ہونے كا دعوى كرتے تھے _و يقول الذين كفروا لو لا انزل عليه آية من ربّه

۲_كفارہميشہ قرآن مجيد كے علاوہ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ان كى رسالت كى حقانيت پر معجزہ كے طلب گار تھے _

يقول الذين كفروا لو لا انزل عليه آية من ربّه

فعل ماضى ( قال ) كى جگہ پر ( يقول) كا استعمال، اس معنى كى طرف اشارہ كرتا ہے كہ كفار اپنى اس مذكورہ بات پر فقط پہلے ہى مدعى نہيں تھے بلكہ آيندہ بھى مدعى رہيں گے اور اس پر اصرار و تاكيد كرتے رہيں گے_

۳_ كفار كا غلط پرو پيگنڈہ اور پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف فضا سازى كرنا_لو لا انزل عليه ء ية من ربّه

۴_ خداوند متعال، پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كے كام كو سر و سامان دينے والا اور ان كے امور كو منظم كرنے والا ہے_لو لا انزل عليه آية من ربّه

چونكہ كفار نے معجزہ كے نزول كى درخواست، ( من ربّہ) كى قيد سے ذكر كى ہے اس سے يہ اشارہ ملتا ہے كہ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان كو بتا چكے تھے كہ خداوند متعال اسكا پروردگار ہے اور اس كے كاموں كو وہى منظم و مرتب فرماتا ہے اوروہى اسكى رسالت كے كام كو سر و سامان عطا كرتا ہے _۵

_ معجزہ كا دكھانا، خداوند متعال كا كام ہے اور اس ميں اسكى مرضى شرط ہے _لو لا انزل عليه آية من ربّه

كفار كى كلام ميں ( من ربّہ) كى قيد سے مذكورہ معنى كا احتمال بھى ہوسكتا ہے گويا وہ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے معجزے كو طلب كرتے تھے اور حضرت اس كام كو خداوند متعال كے سپر كرتے تھے _ اسى وجہ سے وہ كہتے تھے كہ كيوں خداوند عالم كى طرف سے ( جس كا يہ دعوى كرتا ہے ) اس كى طرف سے معجزہ نہيں آتا ہے _

۷۴۱

۶_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى يہ ذمہ دارى ہے كہ لوگوں كو عذاب الہى سے ڈرائيں اور صحيح راستے كى طرف راہنمائي كريں _

انّما انت منذر

۷_ كفار كى يہ درخواست كرنا كہ معجزہ دكھايا جائے يہ بات پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى سے خارج تھى _

لو لا انزل عليه آية من ربّه انّما انت منذر

(انّما انت منذر ) ميں حصر ہے اور وہ حصر اضافى ہے _ يہ معجزہ دكھانے كے مقابلے ميں ہے اسى وجہ سے جملے كے دو معنى ہيں :

۱_ تم ڈرانے والے ہو _

۲_ معجزہ دكھانا تمہارا كام نہيں ہے_

۸_ تمام امتيں ايك ہدايت كرنے والے كو ركھتى تھيں جو انہيں صحيح راستے كى راہنمائي كرتا تھا_و لكل قوم هاد َ

۹_اُمتوں كو ہادى عطا كرنا، خداوند متعال كى صفات ميں سے ہے _لكل قوم هاد

۱۰_'' عن ابى جعفر عليه‌السلام فى قول الله عزوجل : ''انّما انت منذر و لكل قوم هاد'' فقال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم المنذر و لكل زمان منّا هاد يهديهم الى ما جاء به نبى الله ثم الهداة من بعده عليّ ثم الاوصياء واحد بعد واحد :(۱)

امام باقرعليه‌السلام سے قول خدا (انّما انت منذر و لكل قوم ہاد:) كے بارے ميں روايت نقل ہوئي ہے كہ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا (منذر ) رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہيں اور ہر زمانے ميں ہم ميں سے ايك نہ ايك ہادى ہے جو لوگوں كو اسكى طرف ہدايت كرتا ہے جو پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لے كر آئے ہيں _ اور رسالت مآب كے بعد ہدايت كرنے والے حضرت علىعليه‌السلام ہيں پھر ان كے بعد ان كے وصى ہيں جو ايك دوسرے كے بعد ائيں گے_

ائمہ :ائمہعليه‌السلام كا ہدايت كرنا ۱۰

امام علىعليه‌السلام :امام علىعليه‌السلام كا ہدايت كرنا ۱۰

____________________

۱) كافى ،ج ۱ ص ۱۹۱، ح ۲; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۴۸۳، ح ۲۱_

۷۴۲

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى تدبير ۴; اللہ تعالى كى روش و طريقے ۹; اللہ تعالى كى مشيت ۵;اللہ تعالى كے افعال ۵

آنحضرت :آنحضرت كا ڈرانا ۶،۱۰; آنحضرت كا مدبّر اور منظم كرنے والا ہونا ۴; آنحضرت كا ہدايت كرنا ۶ ;آنحضرت كى حقانيت كو جھٹلانے والے ۱; آنحضرت كى ذمہ دارى كى حدود ۶، ۷; آنحضرت كے خلاف فضا سازى ۳

اللہ تعالى كى روش و طريقے:ہدايت كى روش و طريقہ ۹

امتيں :امتوں كو ہدايت كرنے والے ۸، ۹، ۱۰

روايت : ۱۰

عذاب :عذاب سے ڈرانا ۶

صدر اسلام :صدر اسلام كے كافروں كا دعوى ۱; صدر اسلام كے كفار اور آنحضرت ۱، ۲، ۳; صدر اسلام كے كفار اور معجزہ ۱; صدر اسلام كے كفار كى خواہشات ۲، ۷;كفار كى فضا سازى ۳

لوگ :لوگوں كى ہدايت ۶

معجزہ :معجزہ اقتراى ۲، ۷; معجزے كا سبب ۵

آیت ۸

( اللّهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ أُنثَى وَمَا تَغِيضُ الأَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ وَكُلُّ شَيْءٍ عِندَهُ بِمِقْدَارٍ )

اللہ بہتر جانتا ہے ۲_كہ ہر عورت كے شكم ميں كيا ہے اور اس كے رحم ميں كيا كمى اور زيادتى ہوتى رہتى ہے اور ہر شے كى اس كے نزديك ايك مقدار معين ہے (۸)

۱_ خداوند متعال ہر عورت اور مادہ كے شكم ميں بچے كى خصوصيات سے واقف ہے _الله يعلم ما تحمل كل انثى

(ما) سے ( تحمل كل اثنى ) كے قرينے كى وجہ سے شكم ،مراد ہے _'' انثي'' ہرمادہ جنس مادہ كو كہا جاتا ہے _ خواہ وہ انسان ( عورت ) كى ہو ي

۷۴۳

حيوان (مادہ ) كى ہو _

۲_ خداوند متعال، عورتوں كے رحم و شكم اور ہر مادہ كے رحم و شكم سے واقف ہے جو وہ بچے كے ليے جذب كرتا ہے _

الله يعلم ما تغيض الارحام

(غيض) كم كرنا اور اپنے اندر لينے كو كہتے ہيں _ موقع و محل كى مناسبت سے جذب كرنے سے تعبير ہوا ہے اور كيونكہ پہلے والا جملہ جنين كے متعلق ہے پس جو كچھ رحم جذب كرتا ہے وہ جنين كے متعلق ہوگا خواہ اس كا تعلق جنين كى پيدائش سے ہو يا جنين كے رشد كے ساتھ ہو_

۳_ خداوند متعال ان چيزوں سے آگاہ و واقف ہے جسكو عورتوں اور مادہ حيوانوں كا رحم بچے كے ليے جذب نہيں كرتا بلكہ اسكو دور كرتا ہے _الله يعلم ما تحمل كل انثى و ما تزداد

(ازدياد) (تزداد) كا مصدر ہے جو زيادہ ہونے كے معنى ميں آتا ہے اور اسميں جو ضمير ہے وہ (ارحام) كى طرف لوٹتى ہے يعنى وہ چيز جسكو رحم كے اندر بچے ميں زيادہ كيا جاتا ہے _(ماتزداد) كى عبارت كا معنى يہ ہوا كہ رحم كى جو چيزيں ضرورت سے زيادہ ہوتى ہيں وہ خود بخود اس سے خارج ہوتى ہيں ياممكن ہے وہ چيزيں ہوں جو جنين كے ليے زيادہ كى جائيں تا كہ اس كى نشو و نما اور رشد كے كام آئيں _

۴_ خداوند متعال ان نطفوں سے آگاہ ہے جو عورتوں اورمادہ حيوانوں كے رحم جذب كرتے ہيں تا كہ وہ بچہ كى صورت ميں آسكيں _الله يعلم ما تحمل كال انثى و ما تغيض الارحام

۵_ خداوند متعال عورتوں اور مادہ حيوانوں كے رحم ميں نطفہ كو جذب كرنے كے بعد اس ميں جو اضافہ كيا جاتا ہے اس سے آگاہ ہے _الله يعلم ما تحمل كل انثى و ما تزداد

۶_ كائنات اور عالم وجود كى ہر شيء اپنى مخصوص حدود اور اندازے ميں ہے_و كل شيء عنده بمقدار

۷_ خداوند متعال، ہر شيء كى مقدار اور اندازہ كو معين كرنے والا ہے _و كل شيء عنده بمقدار

۸_ وہ چيزيں جن كو رحم جذب كرتا ہے يااسميں اضافہ كرتا ہے يا وہ اپنے سے خارج كرتا ہے اسكى مقدار اور اسكا اندازہ مشخص و معين ہے_الله يعلم و كل شيء عنده بمقدار

۹_عن احدهما عليهما السلام_ فى قول الله عزوجل : '' يعلم ما تحمل كلّ انثى و ما تغيض الارحام و ما تزداد '' قال : الغيض كل حمل دون تسعة اشهر '' و م

۷۴۴

تزداد '' كل شيء يزداد على تسعة اشهر (۱)

امام محمد باقر يا امام صادق سے اللہ تعالى كے اس قول (يعلم ما تحمل كل انثى و ما تغيض الارحام و ما تزداد ) كے بارے ميں رايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا: ( غيض) سے مراد وہ حمل ہے جو (۹) ماہ سے كم تر ہو ، اور (و ما تزداد) سے مراد وہ حمل ہے جو (۹) ما ہ سے زيادہ ہوجائے_

۱۰_'' عن محمد بن مسلم قال : سألت ابا عبدالله عليه‌السلام عن قول الله : '' يعلم ما تحمل كل انثى و ما تغيض الارحام ؟ قال : ما لم يكن حملاً ، '' و ما تزداد '' قال : الذكر و الانثى جميعاً (۲)

محمد ابن مسلم كہتے ہيں كہ ميں نے امام جعفر صادقعليه‌السلام سے خداوند متعال كے اس قول (يعلم ما تحمل كل انثى و ما تغيض الارحام ) كے بارے ميں سوال كيا تو حضرتعليه‌السلام نے فرمايا (ما تغيض الارحام ) سے مراد وہ شيء ہے جو حمل نہ ہو اور ( ما تزداد) كے بارے ميں فرمايا لڑكى اور لڑكا دونوں مراد ہيں _

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا علم غيب ، ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، ۱۰

رحم ميں بچہ ہونا

حاملہ ہونا :نو ماہ حاملہ ہونے كى مدت

جنين:جنين كا علم ۲، ۴، ۱۰; جنين كى خصوصيات كا علم ۱

رحم (بچہ دانى ):رحم كى خصوصيات كاعلم ۲، ۳، ۴، ۵;رحم كے جذب كرنے والى چيزوں كى مقدار ۸; رحم كے جذب كرنے والى چيزيں ۲، ۴;رحم كے دفع كرنے والى چيزوں كى مقدار ۸; رحم كے دفع كرنے والى چيزيں ۳

روايت : ۹،۱۰

موجودات :موجودات كى تقدير۷

مخلوقات :مخلوقات كا قانون كے دائرے ميں ہونا ۶; مخلوقات كى تقدير ۶

____________________

۱) كافى ، ج ۶; ص ۱۲; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۴۸۵، ح ۳۱_

۲) تفسير عياشى ، ج ۲ ، ص ۲۰۵، ح ۱۳; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۴۸۵، ح ۳۴_

۷۴۵

آیت ۹

( عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْكَبِيرُ الْمُتَعَالِ )

وہ غائب و حاضر سب كا جاننے والا بزرگ و بالاتر ہے (۹)

۱_ خداوند متعال، تمام ظاہر و باطن چيزوں سے واقف ہے _عالم الغيب و الشهادة

۲_ خداوند متعال، حقيقت ميں عظيم اور بلند مرتبہ و الا ہے _الكبير المتعال

۳_ قرآن مجيد ميں كائنات كى موجودات كو غيب اور حاضر ميں تقسيم كيا گيا ہے_الغيب و الشهادة

۴_ كافروں كى درخواست پر پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو معجزات كا عطا نہ كرنے كى دليل يہ تھى كہ خداوند متعال اس بات كو جانتا تھا كہ ان معجزات كا ان پر كوتى اثر نہ ہوگا_و يقول الذين كفروا لو لا انزل عليه آية الله يعلم ما تحمل عالم الغيب و الشهادة

رحم ميں بچے كے بارے ميں خداوند متعال كے علم اور اسكى خصوصيات اور ظاہر و باطن چيزوں كا علم كے بعد اس چيز كى طرف اشارہ كرنا كہ خداوند عالم كفار كے تقاضے كے باوجود ان كو معجزہ نہيں دكھاتا اس نكتہ كو بيان كررہا ہے كہ خداوند عالم جانتا ہے كہ معجزہ كے دكھانے سے كفار ہدايت نہيں پائيں گے اسى وجہ سے ان كى درخواست پر عمل نہيں كيا جاتا _

۵_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قوله عزوجل : '' عالم الغيب و الشهادة'' فقال: '' الغيب مالم يكن و الشهادة ما قد كان '' (۱)

امام جعفر صادقعليه‌السلام نے اللہ تعالى كے اس قول (عالم الغيب و الشهادة ) كے بارے ميں ارشاد فرمايا غيب وہ شيء جو وجود ميں نہيں آئي ہو اور شہادت وہ شيء ہے جو وجود ميں آئي ہو _

____________________

۱)معانى الاخبار ، ص ۱۴۶، ح ۱ ; تفسير برہان ، ج ۲ ، ص ۲۸۳، ح ۶_

۷۴۶

اسما و صفات :كبير ۲; متعال ۲

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا علم ۴; اللہ تعالى كا علم غيب ۱;اللہ تعالى كى صفات ۲; اللہ تعالى كى عظمت ۲

روايت :۵

شہود :شہود سے مراد ۵

غيب :غيب سے مراد۵

كفار :كفار پر معجزے كا اثر نہ ہونا ۴

مخلوقات :مخلوقات كا ظاہر ہونا ۳; مخلوقات كا غيب ہونا ۳ مخلوقات كى طبقہ بندى ۳

معجزہ :معجزہ اقتراحى كے ردّ كے كا دلائل ۴

آیت ۱۰

( سَوَاء مِّنكُم مَّنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَن جَهَرَ بِهِ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّيْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّهَارِ )

اس كے نزديك تم ميں كے سب برابر ہيں جو بات آہستہ كہے اور جو بلند آواز سے كہے اور جو رات ميں چھپار ہے اور دن ميں چلتار ہے (۱۰)

۱_ خداوند متعال ظاہري، ڈھكى چھپى سب باتوں سے واقف ہے _سوائٌمنكم من اسرّ القول و من جهربه

اس سے پہلے والى آيت اس بارے ميں ہے كہ يہ مذكورہ بالا آيت علم خداوندى كے بارے ميں بحث

كر رہى ہے لہذا جملہ (سواء منكم ) كا معنى (سواءٌ منكم فى علمه ) ہوگا _

۲_ خداوند متعال، دلوں كے راز اور وہ باتيں جو زبان پر نہيں لائي گئيں ان سب سے واقف ہے _سواء منكم من اسرّ القول

(اسرار) پنہان اور پوشيدہ ركھنے كے معنى ميں آتا ہے _ گفتگو كو چھپانے كا معني، ظاہر نہ كرنا يا زبان پر جارى نہ كرنا ہوسكتا ہے _ اور ممكن ہے اس معنى ميں بھى ہو كہ لوگوں كے سامنے'' على الاعلان'' نہ كہا جائے اور چھپ كر بيان كيا جائے_مذكورہ بالا معنى احتمال اول كى صورت ميں ہے_

۷۴۷

۳_خداوند عالم كے ہاں دلوں كے راز كا علم اور پنہانى و ظاہر ى گفتگو كا علم مساوى ہے _

سواءٌ منكم من اسرّ القول و من جهربه

(سواءٌ) مصدر ہے اور اسم فاعل (متساوى ) كےمعنى ميں ہے _ يہ لفظ خبر مقدم ہے اور اسكا مبتداء '' من اسرّ ...'' ہے يعنى جملہ يوں ہوگا''من اسرّ منكم القول و من جهر به متساويان فى علمه ''

۴_ خداوند متعال سب سے واقف ہے خواہ وہ رات كى كامل تاريكى ميں چھپے ہوئے ہيں يا وہ روشن دن ميں ظاہر بظاہر ہيں _

و من هو مستخف بالليل و سارب بالنهار

(استخفاء) (مستخف)كا مصدر ہے اور (خفاء)يہ دونوں چھپے ہوئے كے معنى ميں آتے ہيں ليكن ايك فرق ہے كہ (استخفاء) ميں تاكيد ہے (سَرَبَ) راستے كے معنى ميں ہے اور (سارب) اسكو كہتے ہيں كہ جو راستے كو طے كرتا ہے _ اور اس وجہ سے كہ راستہ اور راستے كو طے كرنے والا عموما ًانسانوں پر مخفى نہيں ہوتا خصوصاً دن كے اجالے ميں لہذا يہ كہا جاسكتا ہے كہ (سارب) آيت شريفہ ميں جو (مستخف) كے مقابلے ميں ذكر ہوا ہے يہآشكار سے كنايہ ہے _

۵_خداوند متعال كاعلم رات كى تاريكوں ميں چھپے ہوئے اور دن كى روشنوں ميں ظاہر بظاہر ہو نے والوں كے ليے مساوى ہے _و من هو مستخف بالليل و سارب بالنهار

(من هو ) كا (من اسرّ ) پر عطفہوا ہے اسى وجہ سے ( سواءٌ) (من ہو ) كے ليے خبر بھى ہے تو جملہ يوں ہوگا (من هو مستخف و من هو سارب سواءٌ فى علمه )_

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا علم غيب ۱، ۲، ۴; اللہ تعالى كے علم غيب كى خصوصيات ۳، ۵

اسرار :اسرار كا علم ۲

شب :شب كى تاريكى ۴

دن :دن كى روشنائي ۴

گفتگو:چھپى ہوئي گفتگو ۲; گفتگو كا علم ۸

۷۴۸

آیت ۱۱

( لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللّهِ إِنَّ اللّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللّهُ بِقَوْمٍ سُوءاً فَلاَ مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَالٍ )

اس كے لئے سامنے اور پيچھے سے محافظ طاقتيں ہيں جو حكم خدا سے اس كى حفاظت كرتے ہيں اور خدا كسى قوم كى حالات ۳_ كو اس وقت تك نہيں بدلتا جب تك وہ خود اپنے كو تبديل نہ كرلے اور جب خدا كسى قوم پر عذاب كا ارادہ كرليتا ہے تو كوئي ٹال نہيں سكتاہے اور نہ اس كے علاوہ كوئي كسى والى و سرپرست ہے (۱۱)

۱_ فرشتے، انسانوں كو نابود كرنے والے حوادث اور خطرات سے حفاظت اور مراقبت كرنے پر مامور ہيں _

له معقّبات يحفظونه من امر الله

(معقبات) كا مصدر (تعقيب) ہے جوكسى كے پيچھے كسى كام كى خاطر جانے كو كہتے ہيں _ اس صورت ميں ( معقبات ) سے مراد ( يحفظونہ ) كے قرينے كى وجہ سے وہ طاقتيں ہيں جو انسان كى حفاظت كرتى ہيں اور اس كے پيچھے پيچھے ہوتى ہيں _ مفسرين قائل ہيں كہ ( معقّبات ) طاقتوں سے مراد، فرشتے ہيں _

۲_ انسانوں ميں سے ہر ايك كئي فرشتوں كى حفاظت اور نگرانى سے بہرہ مند ہے_له معقّبات يحفظونه

مذكورہ بالا معنى لفظ ( معقّبات) كو جمع لانے كى وجہ سے حاصل ہوا ہے اور يہ بات قابل ذكر ہے كہ (لہ) كى ضمير اور (يحفظونہ) ميں مفعول كى ضمير (من اسرّ القول ) كى طرف پلٹ رہى ہے اور اس سے مراد انسان ہے كيونكہ جملہ ( سواءٌ منكم ) ميں ، انسانوں كو خطاب ہے _

۳_ انسانوں كے محافظ اور نگہبان فرشتے، تمام اطراف اور جوانب سے ان كى حفاظت كرتے ہيں _له معقّبات من بين يديه و من خلفه يحفظونه

(من بين يديہ) يعنى سامنے سے ( من خلفہ) يعنى پيچھے سے يہ دونوں تمام اطراف سے كنايہ ہيں _

۴_خطرہ اور مشكل پيدا كرنے والے حوادث خداوند متعال كى طرف سے ہوتے ہيں اور اس كے حكم سے جارى ہوتے ہيں _يحفظونه من امر الله

۷۴۹

(من امر الله ) ميں حرف'' من'' ممكن ہے سببيہ ہو تو اس صورت ميں جملہ (يحفظونه من امر الله ) كايہ معنى ہوگا كہ اسكى حفاظت كرتے ہيں يہ فرشتوں كو خداوند متعال كى طرف سے حكم ہے اور يہ بھى ممكن ہے (اسكے مساوى ہونے) كے معنى ميں ہو اس صورت ميں (امر اللہ ) سے مراد حوادث اور خطرات ہوں گے كيونكہ يہ خداوند متعال كے حكم كى وجہ سے تحقق پزيرہوئے ہيں اسى وجہ سے ان كہ (امر اللہ ) كہا گيا ہے اس صورت ميں جملہ (يحفظونه من امر الله ) كا معنى يہ ہوگا كہ اسكى خطرات سے حفاظت كرتے ہيں _

۵_ فرشتے، خداوند متعال كے فرمان كى وجہ سے انسانوں كى حوادث اور خطرات سے حفاظت كرتے ہيں _

يحفظونه من امر الله

مذكورہ بالا معنى اس صورت ميں ہے كہ جب (من) كو سببيہ فرض كريں _

۶_ خداوند متعال انسانى معاشرے كے ميلان اور اعمال ميں تغير اور تبدل كى وجہ سے ان كى حالت اور انجام ميں تغيير لاتا ہے_ان الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بانفسهم

۷_بشر كى معيشت اور معاشرتى مسائل ميں تبديلى ، خداوند متعال كے اختيار اور اس كے ہاتھ ميں ہے_

ان الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بأنفسهم

۸_ انسان اپنى اجتماعى اور اقتصادى سرنوشت ميں بھر پور كردا كا حامل ہے _ان الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بأنفسهم

۹_انسانى معاشروں كے ميلان و كردار اس كے نعمت كے حصول يا مصيبتوں اور سختيوں ميں گرفتار ہونے ميں بہت مؤثر ہيں _ان الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بأنفسهم

۱۰_انسانى معاشرے اپنى سرنوشت اورانجام كو رقم كرنے ميں نہ تو ارادہ الہى كے مقابلے ميں مستقل ہيں اور نہ ہى اسكى طرف سے مجبور ہيں _ان الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا م بأنفسهم (ان الله لا يغير ما بقوم ) كا جملہ خداوند متعال كو ہى تغيير دينے والا اور درميان سے اٹھا لينے والا سمجھتا ہے اور (حتى يغيروا ما بأنفسهم ) كا جملہ انسانوں كو اپنى سرنوشت اور انجام كو رقم كرنے ميں دخيل اور مؤثر سمجھتا ہے _

۷۵۰

۱۱_ خداوند متعال، انسان اور اس كے انجام اور تمام كائنات پر حاكميت ركھتا ہے_

ان الله لا يغير و اذا اراد الله بقوم سواء ً فلا مرّد له

۱۲_ خداوند متعال كا ارادہ نافذ ہونے والا اور تخلف ناپذير ہے _و اذا اراد الله بقوم سواءً فلا مرّد له

۱۳_ خداوند متعال كى طرف سے نعمتوں كا زوال ہے اور انسانوں كا كردار ہى اس كا سبب بنتا ہے _

ان الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بأنفسهم و اذا اراد الله بقوم سواءً

۱۴_ گمراہ لوگوں اورتباہ كاروں سے عذاب كا ٹل جانا تقدير الہى ميں نہيں ہے_و اذا اراد الله بقوم سواء ًفلا مرّد له

آيت شريفہ ميں (قوم) سے مراد حكم اور موضوع كى مناسبت ہے گنہگار قوم ہے _(مرّد) مصدر ميمى ہے جو لوٹانے كے معنى ميں ہے_

۱۵_خداوند متعال نے گمراہ لوگوں اور گنہگاروں كے مقدّر ميں جو عذاب اور سختياں لكھى ہيں كوئي چيز اور كوئي شخص حتى كہ حفاظت والے فرشتے بھى اس ميں نہ تو كوئي مدد كرسكتے ہيں اور نہ ہى بچاسكتے ہيں _و ما لهم من دونه من وال

(فلا مرّد لہ ) كا جملہ يہ بتاتا ہے كہ خداوند متعال كى تقدير ميں جو مشكل اور عذاب لكھا ہوا ہے اسكوپلٹا يا نہيں جا سكتا اور جملہ ( و ما لہم ) اس بات كو بتاتا ہے كہ اس عذاب كے آجانے كے بعد كوئي بھى عذاب والوں كو نہيں بچاسكتا اور نہ ہى ان كى مدد كرسكتا ہے _

۱۶_ فقط خداوند متعال ہى انسانوں كا سرپرست اور ولى ہے _ما لهم من دونه من وال

۱۷_ فقط خداوند متعال ہى مقّدر ميں لكھے ہوئے عذاب كو ٹال سكتا ہے_فلا مرّد و ما لهم من دونه من وال

۱۸_'' عن ابى عبدالله عليه‌السلام قال فى هذه الاية :''له معقّبات من بين يديه '' الاية قال : من المعقّبات ، الباقيات الصالحات'' (۱)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے(له مقّبات من بين يديه ) كى آيت شريفہ كے بارے ميں ارشاد ہوا ہے كہ باقيات الصالحات بھى معقّبات ( جو انسانوں كے محافظ ہيں ) سے ہيں _

____________________

۱) تفسير عياشى ، ج ۲ ، ص ۲۰۵، ح ۱۷; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۴۸۶،ح ۳۸_

۷۵۱

۱۹_عن ابى جعفر فى قوله : '' له مقعبات من بين يديه ومن خلفه يحفظونه من امر الله '' يقول : بامر الله من ان يقع فى ركى ، او يقع عليه حائط ، او يصيبه شى حتى اذا جاء القدر يدفعونه الى المقادير و هما ملكان يحفظانه بالليل و ملكان بالنهار يتعاقبانه (۱)

امام باقر(ع) سے خداوند متعال كے اس جملے (له معقّبات ...) كے بارے ميں روايت ہے كہ حضرتعليه‌السلام ارشاد فرماتے ہيں ( خداوند متعال كے حكم سے اسكى اس سے حفاظت كرتے ہيں ) كہ كنويں ميں نہ گرجائے اس پر ديوار نہ گرے يا اسكو كوئي نقصان نہ ہو يہ اس وقت تك ہے كہ جب خداوند متعال كى تقدير نہ آجائے ...پھر اسكو تقدير كے حوالے كرديا جاتا ہے _ اور وہ محافظ دو فرشتے ہيں جو رات ميں اور دو فرشتے دنميں اپنى اپنى بارى سے اسكى حفاظت كرتے ہيں _

۲۰_دخل عثمان على رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فقال اخبرنى عن العبد كم معه من ملك ؟ قال و ملكان بين يديك و من خلفك يقول الله سبحانه : (له معقبات من بين يديه و من خلفه ...(۲)

عثمان رسالت ماب كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور عرض كى مجھے بتائيں كہ ہر انسان كے ساتھ كتنے فرشتے ہوتے ہيں ؟ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا دو فرشتے تيرے آگے اور دو تيرے پيچھے ہيں اس كے بارے ميں خداوند متعال فرماتا ہے (له معقبات .)

۲۱_عن ابى عبدالله عليه‌السلام قال : ان ابى كان يقول : ان الله قضى قضاء حتما لا ينعم على عبده بنعم فسلبها اياه قبل ان يحدث العبد ذنبا يستوجب بذلك الذنب سلب تلك النعمة و ذلك قول الله :''ان الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما با نفسهم _(۳)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ ميرے والد گرامى نے فرمايا ہے كہ خداوند متعال نے اپنى تقدير ميں اسكو حتمى طور پر مقرر كيا ہے كہ انسان كو ہر نعمت عطا كرے اور اس سے واپس نہ لے مگريہ كہ انسان كوئي گناہ كرے جو اس نعمت كے جانے كا سبب بنے يہى وہ بات ہے كہ خداوند متعال فرماتا ہے ''ان الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بانفسهم ''

۲۲_عن على بن الحسين عليه‌السلام يقول : الذنوب التى تغير النعم ، البغى على الناس و الزوال عن العادةفى الخير و اصطناع المعروف ، و كفران النعم ، و ترك الشكر ، قال الله عز و جل : ''ان الله لا

____________________

۱) تفسير قمى ، ج ۱ ; ص ۳۶۰ ; نورالثقلين ، ج ۲ ، ص ۴۸۷ ; ج ۴۲_۲) بحارالانوار ، ج ۵ : ص ۳۲۴ ; ح ۱۲_

۳) تفسير عياشى ، ج ۲ ; ص ۲۰۶ ;ح ۱۹; نورالثقلين ،ج ۲ ;ص ۴۸۸ ; ح ۵۰;

۷۵۲

يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بانفسهم:'' (۱)

امام زين العابدينعليه‌السلام سے روايت ہے كہ وہ گناہ جو نعمت كے ختم ہونے كا سبب بنتے ہيں وہ يہ ہيں _ لوگوں پر ظلم وستم كرنا _ نيك كاموں كى عادت اور نيك خصلت كوانتخاب كرنے سے پرہيز كرنا _ نعمتوں كا انكار كرنا ، شكر گزارى كو ترك كرنا يہ قول ہے كہ خداوند متعال فرماتا ہے _ان الله لا يغير مابقوم حتى يغيرواما بانفسهم

الله تعالى :الله تعالى كا عمل و دخل ۱۳;الله تعالى كى حاكميت ۱۱;الله تعالى كى قدرت ۱۷; الله تعالى كى ولايت ۱۶; الله تعالى كے ارادہ كا كردار۱۰; الله تعالى كے ارادے كاحتمى ہونا ۱۲; الله تعالى كے اوامر ۴;۵;الله تعالى كے مختصات ۱۶،۱۷ ;الله تعالى كے مقدرات كا حتمى ہونا ۱۷; الله تعالى كے مقدرات ميں تغير ۱۷;الله تعالى كے مقدرات ۲۱; كے اختيارات كى حدود ہونا ۷

اقتصاد:اقتصادى تبديليوں كا سبب ۷; اقتصادى تبديليوں كے عوامل ۸

انسان :انسان كا انجام ۶; انسان كا كردار ۸;انسان كى حفاظت ۱; ۲;۳; ۵ ; ۱۹ ; انسانوں كا حاكم ہونا ۱۱; انسانوں كا ولى و سر پرست ۱۶

انجام :انجام و سرنوشت ميں موثر عوامل ۶;۸;۱۰

باقيات و صالحات :باقيات و صالحات كى اہميت ۱۸

توحيد:توحيد افعالى ۱۷

جبر و اختيار : ۱۰

حوادث :حوادث كا سبب ۴

روايت : ۱۸;۱۹;۲۰;۲۱;۲۲

سختى :سختى كا سبب ۹

شكر :شكر كو ترك كرنے كے آثار ۲۲

ظلم :ظلم كے آثار ۲۲

عمل:عمل خير كے ترك كرنے كے آثار ۲۲;ناپسند عمل كے آثار۱۳

____________________

۱) معافى الاخبار ، ص ۲۷۰ ;ح ۲ ; نورالثقلين ،ج ۲ ;ص ۴۸۷;ح ۴۵_

۷۵۳

كفران:كفران نعمت كے آثار ۲۲

گمراہ:گمراہوں كا نقصان ۱۴;۱۵; گمراہوں كے عذاب كا حتمى ہونا۱۵

گناہ :گناہ كے آثار ۲۱;۲۲

گنہكار :گنہكاروں كا نقصان ۱۴; ۱۵

مخلوقات :مخلوقات كا حاكم ۱۱

ملائكہ :محافظ ملائكہ كا تسليم ہونا ۱۹; محافظ ملائكہ كا متعدد ہونا ۲،۲۰; محافظ ملائكہ كى ذمہ دارى ۱;۳;۵محافظ ملائكہ كى ذمہ دارى كى حدود ۱۹; محافظ ملائكہ كى قدرت كى حدود۱۵

موجودات :موجودات كا عاجز ہونا۱۵

نعمت :نعمت كا سبب ۹; نعمت كے سلب ہونے كے عوامل ۲۱; نعمت كے سلب ہونے كا سبب ۱۳ ; نعمت ميں تبديلى كے عوامل ۲۲

آیت ۱۲

( هُوَ الَّذِي يُرِيكُمُ الْبَرْقَ خَوْفاً وَطَمَعاً وَيُنْشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَ )

وہى خدا ہے جو تمھيں ڈرانے اور لالچ دلانے كے لئے بجلياں دكھاتاہے اور پانى ہے لدے ہوئے بوجھل بادل ايجاد كرتاہے (۱۲)

۱_ خداوند متعال آسمانى بجليوں كو ظاہر كرنے والا اور انسانوں كے درميان ان كو روشن كرنے والا ہے

هو الذى يريكم البرق

۲_ خشكسالى سے لوگوں كو ڈرانا اور نزول بارش كى اميد ركھنا، ان كے ليے آسمانى بجلى كے آنے اور اس كو ظاہر كرنے كا پيش خيمہ ہے _هو الذى يريكم البرق خوفا و طمع

(خوفاً ) اور (طمعا ) دونوں الفاظ ممكن ہے مفعول لہ حصولى ہوں اورممكن ہے مفعول لہ تحصيلى ہوں _ پہلى صورت ميں (هو الذى ) كا معنى يوں ہوگا (چونكہ تم خوف مند تھے اور اميد بھى ركھتے تھے پس آسمانى بجلى كو تمہارے يے ظاہر كريں گے، دوسرے احتمال كى صورت ہيں (ہو الذى ...) كى عبارت كا معنى

۷۵۴

يہ ہوگا اس ليے كہ تم خوف زدہ ہوجاؤ اور اميدبھى ركھنے لگو تو آسمانى بجليوں كو تمہارے ليے روشن كرديں گے مذكورہ بالا معنى پہلے احتمال كى صورت ميں ہے _

۳_ آسمانى بجلياں ، لوگوں كے ليے خوف و ہراس كا سبب ہونے كے ساتھ ساتھ انكى اميد كا بھى سبب ہيں _

هو الذى يريكم البرق خوفا و طمع

مذكورہ بالا معنى اس صورت ميں ہے كہ (خوفا) اور (طمعا) مفعول لہ تحصيلى ہوں _

۴_ خداوند متعال سخت و سنگين بادلوں كو وجود ميں لانے والا ہےونيشيء السحاب الثقال

(ينشيء ) كا مصدر (انشاء ) ہے جو خلق كرنے اور ظاہر كرنے كے معنى ميں آتا ہے (سحابہ ) كى جمع'' سحاب ''ہے جو بارش برسانے والے بادلوں كو كہا جاتا ہے اور (ثقال ) ثقيل كى جمع ہے _

۵_ طبيعى اسباب و عوامل فقط خداوند متعال كے اختيار ميں ہيں اور فقط وہ ان پر حاكم ہے _

هو الذى يريكم البرق و ينشيء السحاب الثقال

۶_قال الرضا عليه‌السلام فى قول الله عزوجل :''هو الذى يريكم البرق خوفا و طمعا '' قال : خوفا للمسافر وطمعا للمقيم (۱)

امام رضاعليه‌السلام سے قول خداوندى (هوالذى يريكم البرق خوفاو طمعا ) كے بارے ميں روايت ہے كہ حضرتعليه‌السلام نے فرمايا(يہ بجلى ) مسافر كے ليے خوف وہراس كا موجب ہوتى ہے اور وطن ميں رہنے والے كے ليے اميد افزا ہے _

۷_سأل ابوبصير ابا عبدالله عليه‌السلام ... ماحال البرق فقال : تلك مخاريق الملائكة تضرب السحاب فتسوقه الى الموضع الذى قضى الله عزوجل فيه المطر (۲) ابوبصير نے امام جعفر صادقعليه‌السلام سے بجلى كى كيفيت كے بارے ميں سوال كيا تو حضرت(ع) نے فرمايا يہ فرشتوں كے تازيانے اور كوڑے ہيں جو بادلوں كو مارتے ہيں يہ ان كو اس جگہ پر لے جاتے ہيں جہاں خداوند عزّوجل نے ان كے ليے بارش برسانے كى جگہ مقرر كى ہے _

آسمانى بجلي:آسمانى بجلى كا سرچشمہ ۲; آسمانى بجلى كا كردار ۳، ۶; آسمانى بجلى كو روشن كرنے والا ۱;آسمانى بجلى كى حقيقت ۷

____________________

۱) معانى الاخبار ، ص ۳۷۴ ، ح ۱ ; نورالثقلين ، ج ۲ ; ص ۴۸۹ ; ح ۵۲_

۲) من لايحضرہ الفقيہ ج ۱، ص۳۳۴، ح۹; نورالثقلين ج ۲، ص۴۸۹، ح۵۵_

۷۵۵

اميد ركھنا :اميد ركھنے كے آثار ۲; بارش كى اميد ركھنا ۲; بارش كے اسباب ۳، ۶

الله تعالى :الله تعالى اور طبيعى عوامل ۵;الله تعالى كى حاكميت ۵; الله تعالى كى خالقيت ۴; الله تعالى كے اختيارات كى حدود ۵;الله تعالى كے افعال ۱

بادل :بادلوں كو حركت ميں لانے والے عوامل۷;بارش برسانے والے بادلوں كا خالق ۴

توحيد :توحيد افعالى ۵

خوف :خشكسالى كا خوف ۲; خشكسالى كے اسباب عوالم ۳، ۶;خوف كے آثار ۲

طبيعى اسباب :طبيعياسباب كا حاكم ۵

ملائكہ :ملائكہ كا كردار ۷

نظريہ كائنات :توحيدى نظريہ كائنات ۵

آیت ۱۳

( وَيُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلاَئِكَةُ مِنْ خِيفَتِهِ وَيُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَيُصِيبُ بِهَا مَن يَشَاءُ وَهُمْ يُجَادِلُونَ فِي اللّهِ وَهُوَ شَدِيدُ الْمِحَالِ )

گرج اس كى حمد كى تسبيح كرتى ہے اور فرشتے اس كے خوف سے حمد و ثنا كرتے رہتے ہيں اور وہ بجليوں كو بھيجتا ہے تو جس تك چاہتا ہے پہنچا ديتاہے اور يہ لوگ اللہ كے بارے ميں كج بحثى كررہے ہيں جب كہ وہ بہت مضبوط قوت اور عظيم طاقت والاہے (۱۳)

۱_ آسمانى بادلوں كى گرج خداوند متعال كى تسبيح اور اسكي حمد و ثنا كرنے والى ہے _

و يسبّح الرعد بحمده

(رعد) ايسى آواز كو كہتے ہيں جو بادلوں سے سنى جاتى ہے _ فارسى ميں اسكو (تندر و غرش آسمان ) (گرج و چمك آسمان) كہا جاتا ہے _

۲_ فرشتے ،خداوند متعال كى تسبيح اور اسكى حمد و ثناء كرنے والے ہيں _و يسبّح ...ملائكة

(الملائكہ ) كا (الرعد) پر عطف ہے يعنى جملہ يوں ہوگا ( يسبّح الملائكہ بحمدہ من خيفتة )

۷۵۶

۳_ آسمان بجلياں ايك قسم كا ادراك و شعور ركھتى ہيں _و يسبّح الرعد بحمده

۴_ فرشتوں كا خداوند متعال سے خوف و ہراس ركھنا _الملائكة من خيفتة

۵_ آسمانى بجلى كا خداوند متعال سے خوف و ہراس ركھنا _يسبح الرعد من خيفته

مذكورہ بالا معنى اس صورت ميں ہے كہ (من خيفتہ) كا جملہ جسطرح ملائكہ كى تسبيح كے ليے علت ہے اسى طرح رعد كى تسبيح كے ليے بھى علت ہو _

۶_ خداوند متعال ہرعيب و نقص سے پاك و پاكيزہ اور حمد و ثناء كے لائق ہے _و يسبّح الرعد بحمده والملائكه من خيفته

(تسيبح) (يسبح) كا مصدر ہے جوہر عيب و نقص سے پاك و پاكيزہ سمجھنے كے معنى ميں ہے _

۷_ فرشتے اور آسمانى بجلياں ، حمد و ثناء كے ذريعے خدا وند متعال كى تسبيح كرتى ہيں _و يسبّح الرعد بحمده

(باء)'' بحمدہ ''ميں ممكن ہے مصاحبت كے ليے ہو اور يہ بھى امكان ہے كہ استعانت كے ليے ہو مذكورہ بالا معنى احتمال دوم كى صورت ميں ہے _

۸_ خداوند متعال كى حمد و ثناء كے ساتھ تسبيح كرنا، تسبيح الہى كرنے كا بہترين طريقہ ہے _

و يسبّح الرعد بحمده و الملائكة من خيفته

۹_ خداوند متعال كى حمد و ثناء كرنے ميں ايسے جملات ادا كيے جائيں كہ ان كے معانى ايسے ہوں كہ جن ميں ذرہ برابر بھى عيب و نقص ذات اقدس كے ليے لازم نہ آئے _و يسبّح الرعد بحمده و الملائكة من خيفته

مذكورہ معنى اس صورت ميں ہے كہ (بحمدہ) ميں با استعانت كے ليے فرض كى جائے _ پس اس صورت ميں''يسبّح الرعد بحمده والملائكه'' كا معنى يوں ہوگا يعنى فرشتے اور آسمانى بجلى حمد و ثناء كے ذريعے خداوند متعال كى تسبيح كرتے ہيں _ يہ بات واضح ہے كہ حمد و ثناء اس وقت تسبيح اور پاكى كو اپنے اندر سموئے ہوئے ہوگى جب حمد و ثناء كے ليے ايسے الفاظ منتخب كيے جائيں جن سے ايسے معانى قصد كيے جائيں جن ميں خداوند عالم كے ليے كوئي نقص و عيب لازم نہ آئے _

۱۰_ خداوند متعال كا خوف، فرشتوں كو خداوند عزّوجل كى تسبيح اور حمد و ثناء كى طرف متوجہ و آمادہ كرتا ہے _

و يسبّح والملائكة من خيفته (من خيفته ) ميں '' من'' تعليل كا ہے _

۷۵۷

۱۱_ خداوند متعال كى ہيبت اور جلال كى طرف توجہ كرنا، موجودات كو اسكى تسبيح اور حمد و ثناء پر آمادہ كرتا ہے _

و يسبّح الرعد بحمده و الملائكة من خيفته

۱۲_ خداوند متعال ،آسمانى بجلياں بھيجنے والا ہے _هو الذى يريكم ...و يرسل الصواعق

(صواعق) صاعقہ كى جمع ہے _ اہل لغت نے صاعقہ كا معنى وہ آگ كيا ہے جو بجلى كى كڑك سے وجود ميں آتى ہے _بعض نے كہا ہے وہ سخت آواز ہے جو فضا سے سنائي ديتى ہے اور بعض دوسرے مفسرين نے اسكا معنى يہ كيا ہے كہ وہ ايسى بجلى كى گرج ہے جو اپنے ساتھ آگ كو بھى گراتى ہے _

۱۳_ بجليوں كى زد مين آنا، مشيت الہى كے سبب سے ہے _يرسل الصواعق فيصيب بها من يشاء

(اصابة ) (يصيب) كا مصدر ہے جور ''پہنچنے'' اور اندر ڈالنے كے معنى ميں آتا ہے نيز مصيبت ميں ڈالنے كے معنى ميں بھى آتا ہے لہذا پہلے اور دوسرے معنى كى صورت ميں (بہا) ميں با كا حرف تعدى كے ليے آيا ہے ليكن تيسرے معنى كى صورت ميں حرف (با) آلة اور وسيلہ كے معنى ميں آئي ہے تو جملہ (يصيب بها من يشاء ) كا معنى مذكورہ معانى كى بنياد پر يوں ہوگا _ خداوند متعال جس پر چاہے اپنى صاعقہ ( بجليوں ) كو گرا تا ہے _ اور خداوند متعال ان بجليوں (صاعقہ) كو جہاں چاہے نازل كرتاہے اور خداوند عالم اس صاعقہ كے ذريعہ جس كو چاہيے مصيبت ميں ڈال ديتا ہے _

۱۴_ مشيت الہى نافذ ہونے والى اور تخلف ناپذير ہے_فيصيب بها من يشاء

۱۵_ كفر اختيار كرنے والے لوگ باوجود اس كے كہ پورى كائنات ميں ربوبيت الہى كى نشانياں ديكھتے ہيں پھر بھى موحدين كے ساتھ خداوند متعال اور اسكى ربوبيت كے بارے ميں بحث و تكرار اور مناظرہ كرتے ہيں _

هو الذى يريكم البرق و هم يجادلون فى اللّه

جملہ حاليہ (و هم يجادلون فى الله ) تمام جملوں كے ليے قيد و صفت واقع ہوا ہے جو اس سے پہلے والى آيات ميں ذكر ہوئے ہيں يعنى يہ كہ خداوند متعال كے وجود كے آثار اور اسكى ربوبيت جو نماياں اور واضح ہے اور وہى ذات ہے جو كہ بجلى ، گرج ، بادل اور صاعقہ كو وجود ميں لاتى ہے اور تمام امور كو وجود بخشتيہے اور وہ لوگ اس كے بارے ميں بحث و تكرار كرتے ہيں _

۱۶_ خداوند متعال كے عذاب اور عقوبتيں بہت ہى سخت اور مٹا دينے والى ہيں _و هو شديد المحال (محال ) (محل) كے مادہ سے لغت ميں كئي معنوں ميں آيا ہے :

۷۵۸

۱_ عذاب و عقوبت _

۲_ مكر كرنا اور كسى كام كو مخفى پروگرام كے ذريعے چلانا _

۳_ قدرت اور توانائي _

۱۷_ خداوند متعال كے مخفى پروگرام اور اس كے حيلے بہت ہى پيچيدہ ہيں اور ان پر مطّلع ہونا نا ممكن ہے _

و هو شديد المحال

اس بناء پر كہ ( محال) مكر و حيلہ كے معنى ميں ہو _ گفتگو كا مزاج و تناسب اس بات كا تقاضا كرتا ہے كہ ( شدّت) سے مراد، مكر و حيلہ كے پنہاں اور پوشيدہ ہونے ميں شدت ہو _

۱۸_ خداوند متعال نے ان كفر اختيار كرنے والوں كو جو آيات الہى كا مشاہدہ كرتے ہوئے بھى اسكى ربوبيت كا انكار كرتے ہيں عذاب شديد اور سخت مكر و حيلے سے ڈرايا ہے_و هم يجادلون فى الله و هو شديد المحال

۱۹_ خداوند متعال بہت قدرت ركھنے والا اور توانا ہے _و هو شديد المحال

۲۰_قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : انما الرعد وعيد من الله ... (۱)

رسالت مآب سے روايت ہے كہ بے شك رعد ( بجلى كا چمكنا) خداوند متعال كى طرف سے ڈرانا اور تہديد ہے _

۲۱_'' عن النبي صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان ربّكم سبحانه يقول : لو ا ن عبادى اطاعونى لم اسمعهم صوت الرعد (۲)

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روايت ہے كہ آپكا پروردگار فرماتا ہے اگر ميرے بندے ميرى اطاعت كرتے تو بجلى كى گرج كى آواز ان كے كانوں تك نہ پہنچاتا_

۲۲_'' عن ابى جعفر الباقر عليه‌السلام : ان الصواعق تصيب المسلم و غير المسلم و لا تصيب ذاكراً (۳)

امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ ( صاعقہ) آسمانى بجلياں ممكن ہے مسلمان يا غير مسلم دونوں تك پہنچيں مگر وہ لوگ جو ذكر الہى ميں مشغول ہيں ان پر نہيں گرتيں _

۲۳_''عن ابى عبدالله عليه‌السلام انه قال : لا تملّوا من قراء ة اذا زلزلت الارض زالزالها فانه من كانت قرائته بها فى نوافله لم يصيبه الله

____________________

۱)الدر المنثور ، ج ۴ ، ص ۶۲۴_۲) مجمع البيان ، ج ۵، ص ۴۳۴; نور الثقلين ، ج ۲ ص ۴۸۹، ح ۵۷_۳) مجمع البيان ، ج ۵، ص ۴۳۵_

۷۵۹

عزوجل بزلزلة ابداً و لم يمت بها و لا بصاعقه (۱)

امام جعفر صادق(ع) سے روايت ہے كہ حضرتعليه‌السلام فرماتے ہيں سورہ (اذا زلزلت الارض زلزالها )كو پڑھنے سے تھكاوٹ محسوس نہ كريں ، كيونكہ جو شخص اس سورہ كو اپنى نافلہ نمازوں ميں پڑھتا ہے ، تو خداوند متعال كبھى بھى اسكو زلزلے سے دوچار نہيں كرتا اور زلزلہ اور صاعقہ سے اسكو ہلاك و موت نہيں ديتے _

۲۴_'' عن على عليه‌السلام ... قوله : '' و هو شديد المحال '' قال : يريد المكر (۲)

مولائے كائنات امير المؤمنين على ابن ابى طالبعليه‌السلام سے خداوند عالم ( و ہو شديد المحال ) كے بارے ميں روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ ( المحال ) سے خداوند عالم نے مكر و حيلے كا ارادہ كيا ہے_

۲۵_'' فى مجمع البيان فى قوله : '' شديد المحال '' اى شديد الاخذ ، عن علي(ع) (۳)

مجمع البيان ميں اللہ تعالى كے اس قول (شديد المحال ) كے بارے ميں امير المؤمنين علىعليه‌السلام سے روايت ہے كہ اس سے مراد، بہت سخت عقوبت كرنا ہے _

اسماء و صفات :شديد المحال ۱۶، ۱۹; شديد المحال سے مراد ۲۴، ۲۵; صفات جلال۶

اطاعت :اطاعت الہى كے آثار ۲۱//اللہ تعالى كى تسبيح كرنے والے: ۱، ۲، ۷

آسمانى بجلى :آسمانى بجلى سے محفوظ رہنے كے اسباب ۲۳; آسمانى بجلى كا سبب ۱۲;آسمانى بجلى كى حدود ۲۲

اللہ تعالى :اللہ تعالى اورعيب ۱۶;اللہ تعالى اور نقص ۶;اللہ تعالى كا پاك و پاكيزہ ہونا ۶، ۹;اللہ تعالى كا خوف دلوانا ۲۰;اللہ تعالى كا مكر ۲۴;اللہ تعالى كا مكر و حيلے سے ڈرانا ۱۸;اللہ تعالى كى ربوبيت ۱۵; اللہ تعالى كى قدرت ۱۹; اللہ تعالى كى مشيت ۱۳; اللہ تعالى كى مشيت كا حتمى ہونا ۱۴; اللہ تعالى كے افعال ۱۲; اللہ تعالى كے عذاب ۱۶، ۱۸; اللہ تعالى كے مكر كى خصوصيات ۱۷

تحريك :تحريك كے عوامل ۱۱

____________________

۱)كافى ، ج ۲ ص ۶۲۶، ح ۲۴; نور الثقلين ، ج ۲ ، ص ۴۹۱، ح ۶۶_

۲)غيب نعمانى ، ص ۱۴۸; بحار الانوار ، ج ۵۲، ص ۲۴۵، ح ۱۲۴_

۳) مجمع البيان ج۵، ص ۴۳۵; الدر المنثور ، ج ۴ ، ص ۶۲۷_

۷۶۰

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945

946

947

948

949

950

951

952

953

954

955

956

957

958

959

960

961

962

963

964

965

966

967

968

969

970

971