تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 8%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 205931 / ڈاؤنلوڈ: 4272
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۸

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

آیت ۲۹

( وَيَا قَوْمِ لا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مَالاً إِنْ أَجْرِيَ إِلاَّ عَلَى اللّهِ وَمَا أَنَاْ بِطَارِدِ الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّهُم مُّلاَقُو رَبِّهِمْ وَلَـكِنِّيَ أَرَاكُمْ قَوْماً تَجْهَلُونَ )

اے قوم ميں تم سے كوئي مال تو نہيں چاہتا ہوں _ ميرا اجر تو اللہ كے ذمہ ہے اور ميں صاحبان ايمان كو نكال بھى نہيں سكتا ہوں كہ وہ لوگ اپنے پروردگار سے ملاقات كرنے والے ہيں البتہ ميں تم كو ايك جاہل قوم تصور كررہا ہوں (۲۹)

۱_حضرت نوحعليه‌السلام نے لوگوں كو بتايا كہ ميں تبليغ رسالت كے بدلے ميں تم سے تھوڑے سے مال كا بھى مطالبہ نہيں كروں گا_يا قوم لا اسئلكم عليه مال

(عليہ) كى ضمير سے مراد پيغمبرى اور تبليغ رسالت ہے _ اور (مالاً) كا لفظ نكرہ ہے جو دلالت كرتاہے كہ اجر رسالت ميں ذرہ برابر مال بھى نہيں لوں گا_ كيونكہ نكرہ نفى (لاا سئلكم) كے بعد ذكر ہوا ہو_

۲_ انبياء كرام، لوگوں كو تبليغ رسالت اور معارف دين كى تبليغ كے بدلے ميں كم ترين مال كى درخواست كرنے سے منزہ ہيں _و يا قوم لا اسئلكم عليه مال

۳_ قوم نوحعليه‌السلام كے رؤسا اور سردار بے جا خيال كرتے تھے كہ حضرت نوحعليه‌السلام كا نبوت و رسالت كا دعوى اس وجہ سے ہے كہ وہ ہمارے مال و متاع كے حصول كا بہانہ بنائيں _و يا قوم لا اسئلكم عليه مال

حضرت نوحعليه‌السلام كا اپنى قوم كے جواب ميں اس بات كو بيان كرنا كہ ميں تم سے كم ترين مال كا بھى مطالبہ نہيں كرتاہوں _ يہ بتاتاہے كہ كافر لوگ ايسى تہمت حضرت نوحعليه‌السلام پر لگاتے تھے_

۴ _ حضرت نوحعليه‌السلام نے اپنى قوم ميں اعلان كيا كہ اجر رسالت فقط خداوند متعال كے ذمہ ہے_

ان اجرى الا على الله

۵_ انبياءعليه‌السلام دنيا كے مال و متاع اور مادى چيزوں پر فريفتہ ہونے سے منزہ ہيں _لا اسئلكم عليه مالاً أن اجرى الا على الله

(مال) كے مقابلے ميں ( ا جر) كا لفظ استعمال كرنا، يہ بتاتاہے كہ خداوند عالم سے حضرت نوح(ع) كا اجر رسالت كى درخواست دنياوى مال و متاع كے ليے نہيں تھى اور نہ ہى وہ اس پر فريفتہ تھے_

۸۱

۶_ لوگوں كے مال و متاع اور اموال پر نظر نہ ركھنا ، معاشرہ كو نجات دينے والوں اور دين حق كے مبلغين كى صداقت كى نشانى ہے_و يا قوم لا ا سئلكم عليه مالاً ان اجرى الا على الله

۷_ معارف دين كى تبليغ كرنے والے اجر كے مستحق ہيں اور ان كو يہ پاداش فقط ذات خدا دے سكتى ہے_

ان اجرى الا على الله

۸_قوم نوح كے سرداروں اور رؤسا كے ايمان لانے كى شرائط ميں ايك يہ تھا كہ حضرت نوح فقراء مؤمنين كو چھوڑ ديں _

و ما ا نا بطارد الذين آمنو

۹_ حضرت نوحعليه‌السلام نے سرداروں اور رؤسا كى اس شرط (كہ فقراء مؤمنين كو چھوڑ دے) كى شديد مخالفت كى _

و ما أنا بطارد: الذين آمنو

جملہ اسميہ كو (با) زائدہ سے ذكر كرنا ، بہت زيادہ تاكيد پر دلالت كرتاہے_

۱۰_رؤسا كو توحيد اور معارف الہى كى طرف ترغيب دلانے كا ہرگز يہ مطلب نہيں كہ فقير و غريب مؤمنين كو چھوڑ ديا جائے _و ما أنا بطارد: الذين آمنو

۱۱ _ قوم نوحعليه‌السلام كے مؤمنين ،خداوند متعال كى بارگاہ ميں مقرب اور مقام لقاء پروردگار كے حامل ہيں _انهم ملاقوا ربهم

ممكن ہے جملہ(انہم ملاقوا ربہم) حضرت نوح(ع) كے پيروكاروں كى موجودہ حالت كو بيان كررہا ہو يعنى وہ (اسى دنيا) ميں لقاء الله كى منزل پر فائز ہوچكے ہيں اور يہ بھى ممكن ہے كہ ان كى اخروى عاقبت كے بارے ميں خبر دى جارہى ہو مذكورہ مطلب پہلے احتمال كى بناء پر ہے_

۱۲ _ا نبياء اور ان كے پيروكاروں كے باہمى ارتباط كا سبب ،خدا پر ايمان اور تقرب الہى ہے_

و ما أنا بطارد الذين امنوأنهم ملاقوا ربهم

۱۳ _ دنيا ميں لقاء الله كى منزل پر فائز ہونا ممكن ہے_انهم ملاقوا ربهم

۱۴_ لوگوں كے صحيح اور سچے ايمان كى تشخيص اور ايمان كے دعوى داروں كو پركھنا خدا كى شان ہے_

بل نظنكم كاذبين _ ما ا نا بطارد الذين ء امنوأنهم ملاقوا ربهم

۸۲

كفار حضرت نوحعليه‌السلام كے پيروكاروں كے ايمان كو نہ صرف معمولى بلكہ ان كے دعوى ايمان كو جھوٹا قرار ديتے تھے ( بل نظنكنم كازبين) حضرت نوح(ع) ن كے جواب ميں يہ جملہ فرماتے ہيں (انہم ملاقوا ربہم) يعنى انسانوں كے ليے آخرت كا دن ہے _ اس دن خداوند سچے اور جھوٹے ايمان كو مشخص كرے گا_

۱۵_ قيامت كا دن، انسانوں كى خداوند عزوجل سے ملاقات كا دن ہے_انهم ملاقوا ربهم

۱۶_ قيامت، جھوٹے دعوى داروں اور سچے مؤمنين كے درميان تفريق كا دن ہے_بل نظنكم كاذبين _ انّهم ملاقوا ربهم

۱۷_انبياء كرام كا وظيفہ ہے كہ وہ اظہار ايمان كرنے والوں كو قبول كريں ليكن سچے اور جھوٹے مومنين كے در ميان تفريق ان كى ذمہ دارى نہيں ہے_ما انا بطارد الذين ا منوأنهم ملاقوا ربهم

۱۸_ قوم نوحعليه‌السلام كے سردار اوررؤسا، مومنين اور حضرت نوحعليه‌السلام كے پيروكاروں كے بلند درجات سے بے خبر تھے_

و لكن ارى كم قوماً تجهلون

جملہ''انّهم ملاقوا ربّهم '' كے قرينہ كى بناء پر يہ كہا جا سكتا ہے كہ'' تجہلون'' كا مفعول حضرت نوح(ع) كے مومنين كا بلند و با عظمت مقام ہے اس پر(ا راكم ...) يعنى ميں جانتا ہوں كہ تم مومنين كے بلند درجات ( جو خداوند متعال كى لقاء ہے ) سے آگاہ نہيں ہو_

۱۹_قوم نوحعليه‌السلام كے رؤسا كى بلند مرتبہ (جو لقاء الله ہے ) اور تقرب الہيسے نا واقفيت_

انهم ملاقوا ربهم و لكنى ارى كم قوماً تجهلون

۲۰_ وحدہ لا شريك كى عبادت اورانبياء پر ايمان، قدر و قيمت كا معيار اور علم و آگاہى كى نشانى ہے_

و ما أنا بطارد الذين آمنوا و لكنّى ارى كم قوماً تجهلون

مذكورہ بالا تفسير اس احتمال كى بناء پر ہے جب (تجھلون) كو فعل لازم مانيں اور اس كے ليے مفعول كسى كو نہ بنايا جائے_ تو اس صورت ميں (ا راكم ...) كا معنى يہ ہوگا كہ تم كافر نادان اور ناواقف لوگ ہو_

۲۱_ شرك و كفر، نادانى اور بے عقلى كى نشانى ہے_و لكنّى ارى كم قوماً تجهلون

۲۲_طبقہ رؤسا سے ہونا، دانائي اور بااہميت ہونے كا معيار نہيں ہے اور نہ ہى محتاج و فقير ہونا، جہالت اور بے اہميت ہونے كى نشانى ہے_و ما انا بطارد الذين امنوا و لكن ارى كم قوماً تجهلون

۸۳

اقدار:اقداركا معيار ۲۰ ،۲۲

انبياءعليه‌السلام :انبياء اوراجر تبليغ ۲ ; انبياء اواجر رسالت ۲ ; انبياءعليه‌السلام اور دنيا كى طلب ۵ ; انبياء اور ماديات ۵ ;انبياء اور مؤمنين ۱۷ ;انبياء سے دوستى كے اسباب ۱۲ ; انبياء كامنزہ ہونا ۲ ، ۵ ; انبياء كى مسؤليت كا دائرہ كار ۱۷

ايمان:انبياء اور ايمان ۲۰ ;ايمان كے آثار ۱۲ ، ۲۰ ;ايمان ميں صداقت كى تعيين كا سبب۱۴ ; خدا پر ايمان ۱۲ ; قبول ايمان كے شرائط ۱۷ ;

تبليغ:بغير اجرت كے تبليغ ۱

تقرب:تقرب كے آثار ۱۲

توحيد:توحيد كى دعوت ۱۰;توحيد عبادى كے آثار ۲۰

جزاء:جزاء كے مستحقين۷ ; جزاكا سرچشمہ۷

جہالت:جہالت كا معيار ۲۲ ; جہالت كى نشانياں ۲۱

جھوٹ بولنے والے:قيامت كے دن جھوٹ بولنے ۱۶

خدا:خداوند عالم كا اجر ۷ ; خداوند متعال كاحساب و كتاب۱۴ ; خداوند متعال كى خصوصيات۱۴

دين:دين كى دعوت ۱۰

رؤسا:رؤسا كو دعوت دين

شرك :شرك كے آثار ۲۱

عقل:بے عقلى كى نشانياں ۲۱

علم :علم كا معيار۲۲ ; علم كى نشانياں ۲۰

قوم نوح :رؤسا قوم نوح(ع) اور لقا الله ۱۹ ;رؤسا قوم نوح(ع) اور مؤمنين ۸ ; رؤسا قوم نوح(ع) كى تہمتيں ۳ ; رؤسا قوم نوح(ع) كى جہالت ۱۸ ،۱۹ ; رؤسا قوم نوحعليه‌السلام كے ايمان لانے كے شرائط ۸ ; قوم نوح(ع) كے رؤسا اور تقرب ۱۹ ; قوم نوح(ع) كے ر ؤسا اور حضرت نوحعليه‌السلام كے پيروكار ۱۸ ; قوم نوح(ع) كے رؤسا اور فقراء ۹ ; قوم نوح(ع) كے رؤسا كى سوچ ۳ ; قوم نوح(ع) كے رؤسا كے

۸۴

مطالبات ۸ ; قوم نوح(ع) كے معاشرہ كا طبقاتى نظام۸; قوم نوح(ع) كے مؤمنين كا تقرب ۱۱ ; كفار قوم نوح(ع) ۱۸

مؤمنين قوم نوح(ع) كے درجات ۱۱ ، ۱۸

قيامت :قيامت كى خصوصيات ۱۵ ، ۱۶;قيامت ميں حقائق كا ظاہر ہونا ۱۶

كفر:كفر كے آثار ۲۱

لقاء الله :دنيا ميں لقاء الله ۱۳ ; قيامت ميں لقاء الله ۱۵ ; لقاء الله كا مقام ۱ ۱، ۱۹ ;لقاء الله كا وقت ۱۵

مؤمنين :قيامت ميں مؤمنين ۱۶; مؤمن فقير كو چھوڑنا ۸،۹ ; مؤمن فقير كوچھوڑنے كى مذمت ۱۶ ;مؤمنين كي شخصيت كى اہميت ۱۰

مبلغين:مبلغين كا اجر ۷ ; مبلغين كا زہد۶ ; مبلغين كى صداقت كى علامتيں ۶

مصلحين :نجات دينے والوں كا زہد ۶ ; نجات دينے والوں كى صداقت كى نشانياں ۶

مقربين :۱۱

نوح : (ع)اجر رسالت۱ ، ۴ ; حضرت نوح(ع) اور اشراف قوم كے مطالبات ۹ ; حضرت نوحعليه‌السلام اور فقير مؤمنين ۹; حضرت نوح(ع) پر دنياطلبى كى تہمت ۳ ; حضرت نوح(ع) كا عقيدہ ۴ ; حضرت نوحعليه‌السلام كا قصہ ۹ ; حضرت نوح(ع) كى تبليغ ۱ ، ۴ نوحعليه‌السلام اور قوم نوح(ع) ۴

آیت ۳۰

( وَيَا قَوْمِ مَن يَنصُرُنِي مِنَ اللّهِ إِن طَرَدتُّهُمْ أَفَلاَ تَذَكَّرُونَ )

اے قوم ميں ان لوگوں كو نكال باہر كردوں تو اللہ كى طرف سے ميرا مددگار كون ہوگا كيا تمھيں ہوش نہيں آتا ہے (۳۰)

۱_ خداوند متعال موحدين اور پيغمبروں كى رسالت پر ايمان لانے والوں كا حامى و مددگار ہے _

من ينصر نى من الله ان طردتهم

۲_ مومنين كو چھوڑ دينا ( اہل ايمان كے مجمع سے نكال دينا) گناہ اور عذاب الہى كا موجب ہے_

من ينصر نى من الله ان طردتهم

يہاں (من الله ) كا معنى ( من عذاب الله ) ہے_

۸۵

۳_ تمام لوگ حتى انبياء بھى اگر مؤمنين كو چھوڑ ديں اور گناہ كا ارتكاب كريں تو الہى سزا و مجازات كے مستحق ٹھريں گئے_من ينصر فى من الله ان طردهم

۴_ خداوند متعال كے عذاب كو ٹالنا اور عذاب الہى ميں گرفتارافراد كى مدد كسى كے بس كى بات نہيں ہے_

من ينصر نى من الله

جملہ ( من ينصرني ...) ميں استفہام ، استفہام انكارى ہے _ (نصر) كا معنى مدد كرنا ہے _ كيونكہ آيت ميں يہ (من) سے متعدى ہوا ہے لہذا نجات اورچھٹكارا كا معنى اس ميں متضمن ہے اس بنا ء پر ( من ينصرني ...) كا معنى كچھ يوں ہوگا_ كوئي بھى مجھے عذاب الہى سے نجات نہيں دلواسكتا اگر ميں انہيں باہر نكال دوں _

۵_حضرت نوحعليه‌السلام نے مؤمنين كو ترك كرنے كے نتائج و مشكلات كى طرف توجہ نہ كرنے پر اپنى قوم كے رؤسا و اشراف كى سرزنش كي_أفلا تذكرون

(أفلا تذكرون) ميں استفہام توبيخى ہے_

۶_ مومنين كو چھوڑنے كى خاطر عذاب الہى كا استحقاق، ايك ايسى حقيقت ہے جو سب كے ليے قابل در ك و فہم ہے_

من ينصرنى من الله ان طردتهم أفلا تذكرون

۷_ تمام موجودات كا عذاب الہى كو ٹالنے سے عاجز ہونا، ايك ايسى حقيقت ہے جو سب كے ليے قابل درك و فہم ہے_

من ينصرنى من الله أفلا تذكرون

انبياعليه‌السلام :انبيا(ع) ء اور سزا ۳ ; انبياصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ء كے پيروكاروں كے حامى ۱

انسان:انسانوں كا عجز ۴

خدا:خداوند عزّوجل متعال كى حمايتيں ۱;خداوند عزوجل كى سزائيں ۴; خداوند عزوجل كے عذاب ۷

سزا:سزا كے اسباب ۳

عذاب:اہل عذاب كى مدد۴ ; دفع عذاب سے عاجز ہونا ۴،

۸۶

۷ ;عذاب كے اسباب ۲;عذاب كے اسباب كو درك كرنا ۶

قوم نوحعليه‌السلام :قوم نوحعليه‌السلام كے اشراف كى سرزنش ۵

گناہ:گناہ كى سزا ۳ ; گناہ كے موارد ۲

مؤمنين:مؤمنين كو چھوڑنے كا گناہ ۲;مؤمنين كو چھوڑ نے كے آثار ۲ ،۵; مؤمنين كو نكالنے كى سزا ۳ ، ۶ ; مؤمنين كى شخصيت كى اہميت ۲ ، ۳

موجودات:تمام موجودات كا عاجز ہونا ۷

موحدين:موحدين كا حامى ۱

نوحعليه‌السلام :حضرت نوحعليه‌السلام كا ڈانٹنا۵

آیت ۳۱

( وَلاَ أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَآئِنُ اللّهِ وَلاَ أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلاَ أَقُولُ إِنِّي مَلَكٌ وَلاَ أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ لَن يُؤْتِيَهُمُ اللّهُ خَيْراً اللّهُ أَعْلَمُ بِمَا فِي أَنفُسِهِمْ إِنِّي إِذاً لَّمِنَ الظَّالِمِينَ )

اور ميں تم سے يہ بھى نہيں كہتا ہوں كہ ميرے پاس تمام خدائي خزانے موجود ہيں اور نہ ہر غيب كے جاننے كا دعوى كرتا ہوں اور نہ يہ كہتا ہوں كہ ميں فرشتہ ہوں اور نہ جو لوگ تمھارى نگاہوں ميں ذليل ہيں ان كے بارے ميں يہ كہتا ہوں كہ خدا انھيں خير نہ دے گا _ اللہ ان كے دلوں سے خوب باخبر ہے _ ميں ايسا كہہ دوں گا تو ظالموں ميں شمار ہوجائوں گا (۳۱)

۱_ حضرت نوحعليه‌السلام نہ توكائنات كے خزانوں كے مالك اور نہہى غيب علم جانتے تھے اور نہ وہ فرشتوں ميں سے

۸۷

تھے_لا أقول لكم عندى خزائن الله و لا أقول انى ملك

۲_ قوم نوح كے رؤسااور سردار حضرت نوحعليه‌السلام كو فرشتہ ،كائنات كے خزانوں پر اختيار اورعلم غيب نہ جاننے كى وجہ سے مقام پيغمبرى كے لائق نہيں سمجھتے تھے_ولا أقول لكم عندى خزائن الله و لا أقول انّى ملك

(لا أقول لكم .) كا جملہ ممكن ہے _'' ما نرى لكم علينا من فضل :'' پر ناظر ہو_ لہذا يہ اسكى طرف اشارہ ہے جو قوم نوحعليه‌السلام مدعيان نبوت سے بے جا خواہشات ركھتى تھي_

۳_ تمام نعمات الہى اور كائنات كے خزانوں پر تسلط اور علم غيب كا جاننا پيغمبرى كے شرائط اور خصائص ميں سے نہيں ہے_و لا أقول لكم عندى خزائن الله و لا ا علم الغيب

۴_ فرشتہ ہونا ، مقام نبوت اورپيغمبرى كو ثابت كرنے كے شرائط ميں سے نہيں ہے_لا أقول انى ملك

۵_ بشر، مقام رسالت اور پيغمبرى كى صلاحيت ركھتاہے_و لا أقول انّى ملك

۶_ كائنات ہستى ميں خداوند متعال كى ہر نعمت اور عطا اپنے ليے ايك مخصوص خزانہ و مخزن ركھتى ہے _

(خزائن الله )

مذكورہ بالا تفسير كلمہ ( خزائن) كے جمع لانے كى بناء پرہے _

۷_كائنات كى تمام نعمتيں اور اس كےخزانے، خدا كى طرف سے اور اس كے اختيار ميں ہيں _خزائن الله

۸_ كائنات ہستى ميں خدا كى نعمتيں قيمتى اورقابل قدرہيں _خزائن الله

( خزائن ) جمع خزانہ اور مخازن كے معنى ميں ہے كائنات كى نعمتوں اورعطا كى جگہ كے ليے خزانہ كا لفظ استعمال كرنا، اس مطلب كو سمجھا رہا ہے كہ كائنات كى نعمتيں اور عطيّات قابل قدر اور قيمتى ہيں كيونكہ عموماً قيمتى اشياء كى حفاظت كسى خزانے ميں كى جاتى ہے_

۹_قوم نوح(ع) كے رؤساء كى نظر ميں معاشرہ كے مستضعف اور غريب لوگوں كى ظاہرى پستى اور حقارت_

ولا أقول للذين تزدرى أعينكم يؤتيهم الله خير

از دراء ( تزدرى كا مصدر ہے ) جو حقير ، ناقص اور معيوب سمجھنے كے معنى ميں ہے ( لسان العرب)

(تزدري) كامفعول ضميرمحذوف ہے جو الذين كى طرف لوٹتى ہے اور اس سے مراد حضرت نوحعليه‌السلام كے

۸۸

پيروكار ہيں _ يعنى (الذين تزدريهم أعينكم ) يعنى وہ لوگ جنہيں تمھار ى آنكھيں حقير ، ناقص اور معيوب ديكھ رہى ہيں ( تزدري) كا (أعينكم) كى طرف اسناد، رؤساء اور سردار وں كى ظاہرى نگاہ كى طرف اشارہ ہے_

۱۰_ قوم نوحعليه‌السلام كے سردار اوررؤسائ، غريبوں اور محتاجوں كو خير و نيكى تك پہنچنے سے قاصر سمجھتے تھے_

لا أقول للذين تزدرى أعينكم لن يؤتيهم الله خير

جملہ (لن يؤتيهم الله خيراً ) قوم نوحعليه‌السلام كے سرداروں اوررؤساء كى معاشرہ كے غريبوں اور فقراء كے بارے ميں سوچ كو بيان كر رہا ہے_اور كلمہ ''لن'' كو مد نظر ركھے ہوئے يہ جملہ اس بات كى حكايت كررہا ہے كہ رؤسائ، محروم و غريب افراد كے خير و نيكى تك پہنچے كو ناقابل تحمل خيال كرتے تھے_

۱۱_انسان كا دنيا كے مال و متاع سے محروم ہونا اسكى علامت ہے كہ وہ معنوى و الہى خيرات كو حاصل كرنے كے لائق نہيں ہے _لا أقول للذين تزدرى أعينكم لن يؤتيهم الله خير

۱۲_مكتب انبياء ميں انسانوں كى كسوٹى كامحور، اسكا باطنى اور نفسانى پہلوہے _ نہ كہ ظاہرى و مادى خصوصيات

و لا أقول للذين تزدرى أعينكم ...الله ا علم بما فى أنفسهم

حضرت نوحعليه‌السلام نے كفاركى انسانوں كے بارے ميں فكر كو ( أعينكم) كے لفظ سے تعبير كيا ہے _ ليكن اپنى فكر كے ليے لفظ ( أنفسہم ) كو محور قرار دينا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ جو انسان خدا كو مدنظر نہيں ركھتااس كے نزديك قدر و قيمت كا معيارانسان كے ظاہرى و مادى حالات ہوتے ہيں جبكہ پيغمبر وں كا مطمع نظران كى روح و نفسيات ہے_

۱۳_خداوند متعال، انسانوں كو خير و نيكى عطا كرنے اور ان كو روحانى و معنوى مقامات تك پہنچانے والا ہے_

لا أقول ...لن يؤتيهم الله خير

۱۴_ خداوندمتعال، انسان كے روحانى اور نفسانى امور سے آگاہ ہے _الله ا علم بما فى ا نفسم

۱۵_ قوم نوح كے رؤساء اور سرداروں كا غريب اور محتاج لوگوں پر ظلم كرنا_

لا أقول للذين تزدرى أعينكم انّى إذاً لمن الظالمين

جملہ (انّى اذاً لمن الظالمين ...) تعريضى جملہ ہے _ يعنى رؤساء قوم اور سرداروں كى سرزنش كى جارہى ہے كہ تم اپنى اس خام خيالى ميں كہ غريب اور نادار لوگ خير ونيكى كے مستحق نہيں ہيں ان كے حق ميں ظلم كرتے ہو_

۸۹

۱۶_ غريب و نادار لوگوں كو خير اور مقام معنوى سے دور خيال كرنا، گناہ اور ايسا تصو ّر ہے جس كا حقيقت سے كوتى تعلق نہيں ہے _لا أقول للذين تزدرى أعينكم إنى اذاً لمن الظالمين

۱۷_ كسى دليل و برہان كے بغير لوگوں كے بارے ميں حق بات كہنا اور ان كونا اہل سمجھنا، ان پر ظلم ہے_

لا أقول الله ا علم بما فى أنفسهم إنى إذاً لمن الظالمين

اقدار:اقدار كا ملاك ۱۱،۱۲

افتراء:بہتان باندھنأظلم ہے۱۷

امكانات مادى :مادى و سائلكا كردار ۱۱،۱۲

انبياء:انبياء كا بشرہونا۴

انسان :انسان كى استعداد ۵

برہان:برہان كى اہميت۱۷

تحقيق :اديان ميں تحقيق ۱۲،تحقيق كا ملاك ۱۱،۱۲

خدا :خدا كا علم غيب ۱۴ ; خداوند متعال كى نعمتوں كى اہميت ۸;خداوند متعال كى نعمتيں ۶،۷;خداوند متعال كے اختيارات ۷;خداوند متعال كے مختصات ۷; عطاياى خداوندى ۱۳

خير :خير كاسرچشمہ۱۳

ظالمين :۱۵

ظلم :ظلم كے موارد ۱۷

فقراء:فقراء اور خير۱۰،۱۱،۱۶; فقراء اور معنوى درجات ۱۶

فكر :غلط فكر ۹،۱۶

قوم نوح(ع) :اشراف قوم نوح(ع) اور حضرت نوحعليه‌السلام ۲;اشراف قوم نوح(ع) كأظلم ۱۵; اشراف قوم نوح(ع) كى فكر ۲،۹،۱۰;قوم نوح(ع) كے اشراف اور فقراء ۹،۱۰;قوم نوح(ع) كى تاريخ ۱۵; قوم نوحعليه‌السلام كے فقراء پر ظلم۱۵; قوم نوح(ع) كے معاشرتى طبقات ۹،۱۰،۱۵

۹۰

گناہ :گناہ كے موارد ۱۶

معنويات:معنويات پائي جانے كى علامات۱۱

معنوى درجات :معنوى درجات كا سرچشمہ ۱۱

ملائكہ :ملائكہ اور نبوت ۴/نبوت :بشر اور مادى امكانات ۳;شرائط نبوت ۳،۴; مقام نبوت ۵;نبوت اور علم غيب ۳

نعمت :نعمت كا سبب ۶،۷;نعمت كے خزائن كا مالك ۷;نعمت كے ذخيرے۶

نوحعليه‌السلام :حضرت نوح(ع) اور عقائد كے اختيارات كا دائرہ كار ۱; حضرت نوح(ع) كا بشر ہونا۱; حضرت نوح(ع) كے علم كا دائرہ ۱

آیت ۳۲

( قَالُواْ يَا نُوحُ قَدْ جَادَلْتَنَا فَأَكْثَرْتَ جِدَالَنَا فَأْتَنِا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ )

ان لوگوں نے كہا كہ نوح آپ نے ہم سے جھگڑا كيا اور بہت جھگڑا كيا تو اب جس چيز كا وعدہ كررہے تھے اسے لے آئو اگر تم اپنے دعوا ميں سچے ہو(۳۲)

۱_حضرت نوح(ع) ، اپنى قوم كى ہدايت كے سلسلہ ميں ہميشہ كوشاں رہے_قالوا يا نوح قد جادلنا فا كثرت جدالن

إكثار (أكثرت ) كا مصدر ہے_ اسكا معنى كام كو كثرت سے انجام دينا ہے_ پس( ا كثرت جدالنا ) كا معنى يہ ہوا كہ تونے بہت مناظرہ اور كثرت سے ادّلة كو ذكر كيا ہے _ يہ اس معنى كو بتاتا ہے كہ حضرت نوحعليه‌السلام نے تبليغ رسالت كے سلسلہ ميں انتھك كوشش كى ہے _

۲_لوگوں كو شرك سے روكنے اور توحيد كى طرف ترغيب دلانے كے ليے حضرت نوح(ع) نے گفتگو و بحث اور دليل و برہان پيش كرنے كى روش اختيار كي_قالوا يا نوح قد جادلنا فا كثرت جدالن

(جدال ) كا معنى مناظرہ كرنا اور مدّ مقابل كے دعوى فكر اور عقائد كے خلاف دليل و برہان كو لانا ہے_

۳_حضرت نوحعليه‌السلام ، ہميشہ كافروں كو عذاب الہى كے نزول سے ڈراتے تھے_فأتنا بما تعدن

فعل مضارع( تعد) كو فعل ماضى (وعدت) كى جگہ پرلانا، عذاب سے ڈرانے اور حضرت نوح(ع) كى توبيخ كے تكرار كى طرف اشارہ ہے

۹۱

۴_كفارنے حضرت نوحعليه‌السلام سے يہ خواہش كى كہ وہ ان كے ساتھ اپنے مناظرے اور گفتگو كو ختم كركے وعدہ عذاب كو عملى شكل دے_قالوا يا نوح قد جادلنا فا كثرت جادلنا فأتنا بما تعدن

جملہ (فا كثرت جدالنا)(كہ تم نے ہمارے ساتھ بہت زيادہ مناظرہ كيا ) پر جملہ ''فائتنابما تعدنا''كا متفرع ہونا اس بات سے كنايہ ہے كہ دليل و برہان لانا كا فى ہے لہذا اس بات كو ختم كيا جائے_

۵_ قوم نوح كے كفار، حضرت نوحعليه‌السلام كے عذاب كو غير يقينى اور ان كے وعدہ عذاب اورخوف دلانے كو قابل عمل نہيں سمجھتے تھے_فأتنا بما تعدنا ان كنت من الصادقين

۶_حضرت نوح(ع) كى كوشش اور براہين و دلائل، رؤسا كفار پر بے اثر ثابت ہوئے_قد جادلنا فا كثرت جادلنا فأتنا بما تعدن

۷_قوم نوح(ع) كے رؤساء اور سرداروں كى ہميشہ يہ كوشش رہى كہ وہ حضرت نوح(ع) كو توحيدى دعوت قبول كرنے كے سلسلہ ميں مايوس كريں _قد جادلتنا فا كثرت جادلنا فأتنا بما تعدن

۸_ كا فر قوم كے خام خيال ميں حضرت نوح(ع) ايك جھوٹے اور ناروا مطالب پيش كرنے والے شخص تھے_

ان كنت من الصادقين

عذاب:عذاب كى درخواست كرنا۴;نزول عذاب سے ڈرانا ۳

فكر :غلط فكر ۸

قوم نوحعليه‌السلام :اشراف قوم اور نوحعليه‌السلام ۷;اشراف قوم نوح(ع) كا ہدايت كو قبول نہ كرنا ۶; اشراف قوم نوح(ع) كى سازش ۷; قوم نوح(ع) اور حضرت نوحعليه‌السلام ۴; قوم نوح(ع) اور حضرت نوحعليه‌السلام كے عذاب كے وعدے ۵; قوم نوح(ع) كا كفر ۵;قوم نوح(ع) كو ڈرانا ۳; قوم نوح(ع) كى فكر ۸; قوم نوح(ع) كى ہدايت ۱; قوم نوح(ع) كے تقاضے ۴

نوحعليه‌السلام :

حضرت نوحعليه‌السلام پر جھوٹ بولنے كى تہمت ۸; حضرت نوحعليه‌السلام كا شرك كے خلاف جہاد ۲; حضرت نوح(ع) كا قصہ ۱،۲،۳،۴،۷; حضرت نوحعليه‌السلام كا ہدايت كرنا۱ ; نوحعليه‌السلام كا احتجاج۲،۶; حضرت نوحعليه‌السلام كا ڈرانا ۳; حضرت نوحعليه‌السلام كى تبليغ كا طريقہ ۲،۳; حضرت نوحعليه‌السلام كى نااميدى كا سبب ۷

۹۲

آیت ۳۳

( قَالَ إِنَّمَا يَأْتِيكُم بِهِ اللّهُ إِن شَاء وَمَا أَنتُم بِمُعْجِزِينَ )

نوح نے كہا كہ وہ تو خدا لے آئے گا اگر چاہے گا اور تم اسے عاجز بھى نہيں كرسكتے ہو(۳۳)

۱_اہل كفر پر عذاب كا نزول خدا كے اختيار اور اسكى مشيت سے ہے_انما ياتيكم به الله

۲_ كافروں پر عذاب نازل كرنا، پيغمبروں كے اختيار ميں نہيں ہے_فأتنا بما تعدنا ...قال انما ياتيكم به الله ان شائ

كافروں نے حضرت نوحعليه‌السلام كو مخاطب كركے كہا كہ جس عذاب كے بارے ميں ڈراتے ہووہ لے آؤ پھر حضرت نوحعليه‌السلام كا اپنى كلام ميں ( انما ) كا لفظ لے آناجو كے حصر كے ليے ہے اس بات كى دليل ہے كہ عذاب نازل كرنا، خداوند متعال كا كام ہے اور يہ انسان كے اختيار كى بات نہيں ہے_

۳_ حضرت نوح كفار كے عذاب طلب كرنے كے جواب ميں فرماتے ہيں كہ عذاب كا نازل كرنا، خدا كى مشيت كے ساتھ ہے اور اس عذاب سے بچنا ممكن نہيں ہے_قال انما ياتيكم به الله ان شاء و ما انتم بمعجزين

۴_ خداوند متعال كى مشيت ناقابل تخلّف ہے_قال انما ياتيكم به الله ان شائ

۵_ مشيت الہى كے مقابلے ميں استقامت كسى كے بس كاروگ نہيں ہے_انما ياتيكم به الله ان شاء وما انتم بمعجزين

۶_ كوئي شخص اور كوئي شے خداوند متعال پر حاكميت نہيں ركھتى ہے_فأتنا بما تعدنا قال انما ياتيكم به الله ان شاء

۷_ خداوند عالم كا وعدہ عذاب اور اس سے خوف دلانا اگر چہ لوگوں پر اس كا ابلاغ ہى كيوں نہ كرديا گيا ہو خدا كو مجبورنہيں كرسكتاكہ وہ اس كو عملى جامہ پہنائے_

۹۳

فأتنا بما تعدنا قال انما ياتيكم به الله ان شاء

حضرت نوحعليه‌السلام ( انشا الله ) كے جملے سے يہ بتانا چاہتے ہيں كہ عذاب الہي، مشيت خداوندى كے ساتھ مختص ہے_ يہ عذاب كاوعدہ اور خوف دلوانا بھى اگر چہ خدا كى طرف سے ہے ليكن اسكو عملى جامہ پہننانے پراسے مجبور نہيں كيا جاسكتا، خداوند عالم مختار ہے اگر وہ چاہے گا تو ان عذاب كے وعدوں كو پورا اور اگر نہيں چاہے گا تو پورا نہيں كرے گا_

۸_كفار، عذاب الہى كے نزول كو نہيں روك سكتے اورنہ ہى خود كو اس ميں گرفتار ہونے سے بچاسكتے ہيں _

انماياتيكم به الله و ما انتم بمعجزين

اعجاز (معجزين) كا مصدر جو فرار كرنے اور دسترس سے خارج ہونے كے معنى ميں ہے اس بناء پر ''وما انتم بمعجزين''كا معنى ہوں ہوگا (عذاب كے نازل ہونے كے بعد) تم عذاب سے فرار اور اس سے چھٹكارا نہيں پا سكتے ہو_

۹_ كفار كے عذاب طلب كرنے كے سلسلہ ميں حضرت نوحعليه‌السلام كا جو جواب تھا وہ درس توحيد اور شناخت خدا پر مبنى تھا_فأتنا بما تعدنا قال انما ياتيكم به الله ان شاء و ما انتم بمعجزين

انبياء:انبياء كے دائرہ اختيارات ۲

انسان :انسانوں كا عجز ۵

خدا :اختيار خداوندى ۷; خدا پر حاكميت ۶; خداوند متعال كى خصوصيات ۶;خداوند متعال كے عذاب كے وعدوں كا پورا ہونا۷;خدا كى حاكميت ۶; خدا كى مشيت كا حتمى ہونا ۴،۵;خدا كے عذاب سے نجات ۸;مشيت الہى ۱،۳

عذاب:عذاب كا سبب۱،۲،۳; عذاب كى درخواست ۳،۹

قوم نوح:قوم نوح پر عذاب كا حتمى ہونا ۳; قوم نوح كى خواہشات ۳،۹

كائنات كى شناخت :كائنات كى توحيدى شناخت ۶

كفار :كفار كا عجز ۸; كفار كا عذاب ۱،۲;كفار كے عذاب حتمى ہونا ۳

موجودات :موجودات كا عاجز ہونا ۶

حضرت نوحعليه‌السلام :حضرت نوحعليه‌السلام اور قوم نوح كى خواہشات ۹; حضرت نوحعليه‌السلام كا قصہ ۹;حضرت نوحعليه‌السلام كا خدا كى معرفت ركھنا ۹; حضرت نوح(ع) كى تعليمات ۹; حضرت نوحعليه‌السلام كى توحيد ۹

۹۴

آیت ۳۴

( وَلاَ يَنفَعُكُمْ نُصْحِي إِنْ أَرَدتُّ أَنْ أَنصَحَ لَكُمْ إِن كَانَ اللّهُ يُرِيدُ أَن يُغْوِيَكُمْ هُوَ رَبُّكُمْ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ )

اور ميں تمھيں نصيحت بھى كرنا چاہوں تو ميرى نصيحت تمھارے كام نہيں آئے گى اگر خدا ہى تم كو گمراہى ميں چھوڑ دينا چاہے _ وہى تمھارا پروردگار ہے اور اسى كى طرف تم پلٹ كرجانے والے ہو(۳۴)

۱_ حضرت نوحعليه‌السلام اپنى قوم كے ايمان لانے ميں متردد ہوگئے جب انہوں نے عذاب موعود كے متحقق ہونے كے بارے ميں درخواست كى _فأتنا بما تعدنا قال لا ينفعكم نصحى ان ادرت ان انصح لكم

۲_حضرت نوح(ع) كى كوششيں جب ثمر آورنہ ہوئيں تو انہوں نے يہ احتمال ديا كہ خدا كى مشيت يہ ہے كہ ان كے قوم كے رؤساء و سردار ورطہ گمراہى و ضلالت ميں پڑے رہيں _ولاينفعكم نصحي ...ان كان الله يريد ان يغويكم

(ان )ان كان الله ميں شرطيہ ہے اور جملہ (لا ينفعكم ...) اس شرط كے جواب كے قائم مقام ہے_ يہ احتمال بھى بعيد نہيں ہے كہ يہ (ان) مثقلہ سے مخففہ ہو گيا ہو_اس بناء پر جملہ ''و ان كان الله '' يہ بتاتاہے كہ حضرت نوحعليه‌السلام نے اپنى قوم پر يقين كرليا تھا كہ وہ ايمان نہيں لائيں گے_ اور يہ بات بھى قابل ذكر ہے كہ يہ (ان) كى خبر ميں لام كو نہ لانا اس وجہ سے ہے كہ يہ(ان نافيہ ) كے ساتھ مشتبہ نہ ہوجائے_

۳_ خدا كى طرف سے اہل كفر كى ضلالت و گمراہى ان كى ہٹ دھرمى اور حق قبول نہ كرنے كى سزا ہے_

يا نوح قد جادلتنا فأتنا بما تعدنا ان كان الله يريد ان يغويكم

اہل كفر كى ہٹ دھرمى اور حق قبول نہ كرنے (قد جادلتنا)كے بيان كے بعد جملہ ''ان كان الله '' كا واقع ہونا اس بات كى حكايت كررہا ہے كہ اہل كفار كو گمراہ كرنے كا خدائي ارادہ خود ان كى ہٹ دھرمى اور عناد كا نتيجہ ہے_

۴_جن كى گمراہى اور ضلالت كا خدا وند عالم نے ارادہ كر ليا ہے تو انہيں انبياء كى تعليمات اور نصيحتيں كچھ فائدہ نہيں ديتى ہيں _و لا ينفعكم نصحى ان كان الله يريد ان يغويكم

''ان كان اللّه ...'' جملہ'' لا ينفعكم نصحي'' كےليے بہ منزلہ علت ہے _يعنى خداوند متعال نے تمہارى گمراہى كا ارادہ كيا ہے تو ميرى نصيحت تم پر كچھ اثر انداز نہيں ہو گئي_

۵_انبياء اور مبلغين دين كے ليئے ضرورى نہيں ہے كہ جو لوگ ہدايت كو قبول نہيں كرتے وہ انہيں معارف الہى كى تبليغ كريں _ان اردت ان انصح لكم

۹۵

حضرت نوح(ع) پرجب يہ حقيقت ظاہر ہوگى كہ خداوند متعال قوم نوح كى لجاجت كى وجہ سے ان كو گمراہ ديكھنا چاہتا ہے تو نصيحت اور دين كى تبليغ كرنے كو جملہ شرطيہ ''ان اردت ...''كے ذريعہ بيان كيا تا كہ اس مطلب كى طرف اشارہ كيا جائے كہ دين كى تبليغ اس مرحلہ كے بعد مجھ پر لازم و ضرورى نہيں ہے_

۶_ جب يہ احتمال ہوكہ امر بالمعروف اور نہى عن المنكر مؤثر نہيں تو تبليغ كرنا واجب نہيں ہے_

و لا ينفعكم نصحى ان اردت ان انصح لكم ان كان الله يريد ان يغويكم

۷_ انسانوں كى ہدايت اور گمراہي، ارادہ خداوند اور اسكى مرضى سے خارج نہيں ہے_

و لا ينفعكم نصحي ان كان الله يريد ان يغويكم

۸_ حضرت نوحعليه‌السلام لوگوں كے ہمدرد اور دلسوز پيغمبر تھے_لا ينفعكم نصحى ان اردت ان انصح لكم

۹_ كفارقوم نوح حضرت نوحعليه‌السلام كواپنا خير خواہ اور ان كى تعليمات كو اپنے ليے فائدہ مند نہيں سمجھتے تھے_

يا نوح قد جادلتنا ان اردت ان انصح لكم

قوم نوح(ع) كے رؤساء حضرت نوحعليه‌السلام كى مسلسل جدوجہد كو مناظرہ كا نام ديتے تھے ليكن حضرت نوح(ع) ان كى فكرى خطا كو خطا قرار دينے كے ليے ان كے مقابلہ ميں لفظ نصيحت سے تعبير كرتے تھے_

۱۰_ انسان پر نصيحت كا مؤثر ہونا، خداوند متعال كى توفيق اور اسكى مشيّتكا مرہون منت ہے_

و لا ينفعكم نصحى ان كان الله يريد ان يغويكم

۱۱_خداوند متعال، انسانوں كا پروردگار اور انكے امور كا مدبّر ہے_هو ربكم

۱۲_اتمام حجت اور ان كى كينہ توزى كے بعد اہل كفار كو گمراہ كرنا، خداوند عالم كى ربوبيت كا ايك جلوہ ہے_

ان كان الله يريد ان يغويكم هو ربكم

۱۳_ انسانوں كى بازگشت ،خداوند متعال كى طرف ہے_و اليه ترجعون

۱۴_ انسانوں كى خدا كى طرف بازگشت، اسكى ربوبيت كى ايك جھلك ہے_هو ربكم و اليه ترجعون

۱۵_انسانوں كا خداوند متعال كى طرف لوٹنا حتمى اور اس سے راہ فرار ممكن نہيں ہے_و اليه ترجعون

مذكورہ بالا تفسير كا سبب فعل '' ترجعون'' كا مجہول ہونا ہے_

۹۶

۱۶_پيغمبروں كى نصيحتوں كو قبول نہ كرنا، آخرت كے عذاب ميں گرفتار ہونے كا سبب ہے_

و لا ينفعكم نصحى ان اردت ان انصح لكم هو ربكم و اليه ترجعون

نصيحت كو قبول نہ كرنے والوں كى خدا كى طرف بازگشت كى حقيقت كو بيان كرنے كا مقصد انہيں اخروى عذاب سے خبردار كرنا ہے_

۱۷_عن ابى الحسن الرضا عليه‌السلام قال: قال الله فى قوم نوح ''ولا ينفعكم نصحى ان اردت ان انصح لكم ان كان الله يريد ان يغويكم ، قال : الامر الى الله يهدى و يضل (۱) امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے كہ خداوند عالم نے حضرت نوح(ع) كا ان كى قوم كے بارے ميں قول نقل كرتے ہوئے فرمايا كہ اگر خداوند عالم تمھيں گمراہ كرنا چاہے اور ميں تمھيں نصيحت كرنا چاہوں تو ميرى نصيحت تمھارے ليے سودمند ثابت نہيں ہو سكتى _ امام(ع) نے فرمايا كہ ہدايت و گمراہى كا اختيار خدا كے ہاتھ ميں ہے_

انسان :انسانوں كى تدبير كرنے والا :۱۱;انسانوں كى تربيت كرنے والا ۱۱; انسانوں كى عاقبت ۱۳،۱۵

احكام :۶//امر بالمعروف:امر بالمعروف كے احكام ۶; امر بالمعروف كے شرائط۶

انبياء:انبياء كى ذمہ دارى كا دائرہ ۵; انبياء كے موعظہ كے شرائط كى تاثير ۴; موعظہ انبياء كے رد كرنے كے آثار ۱۶

حق :حق قبول نہ كرنے كا انجام ۳

خدا :توفيقات خدا كا اثر ۱۰; ربوبيت خدا ۱۱; خدا كا اتمام حجت كرنا ۱۲; خدا كا ارادہ۲،۴،۷; خدا كى ربوبيت كى نشانياں ۱۲،۱۴; خدا كى گمراہى ۲،۳، ۴، ۱۲ ، ۱۷; خدا كى مشيت كا اثر ۷; خداوند متعال كى ہدايتيں ۱۷; خدا كے ارادہ كا اثر۱۰; خدا كے افعال ۱۱; مشيت خدا ۷

خدا كى طرف لوٹنا:۱۳،۱۴خدا كى طرف حتماً لوٹنا ۱۵

روايت :۱۷سزا:آخرت كى سزا كا سبب۱۶

عذاب :عذاب كى درخواست ۱

قوم نوح:اشراف قوم نوح كى گمراہى ۲; قوم نوح اور حضرت نوحعليه‌السلام ۹;قوم نوح كى خواہشات ۱; قوم نوح كى فكر ۹;قوم نوح كے ايمان كى نااميدى ۱

____________________

۱)تفسير عياشى ج۲،ص۱۴۳،ح۱۶; نور الثقلين ج۲ص۳۴۹،ح۶۲_

۹۷

گمراہ لوگ:گمراہوں كا حق قبول نہ كرنا۳; گمراہوں كا ہدايت قبول نہ كرنا۴;گمراہوں كى دشمنى ۱۲; گمراہوں كى لجاجت ۳;گمراہوں كے ليے اتمام حجت ۱۲

گمراہى :گمراہى كا سبب۳; گمراہى كى ابتداء ۷

لجاجت :لجاجت كى جزاء ۳

مبلغين :مبلغين كى ذمہ دارى كا دائرہ ۵

موعظہ :موعظہ كى شرائط كا اثر ۱۰

نوحعليه‌السلام :حضرت نوحعليه‌السلام كا عقيدہ ۲; حضرت نوحعليه‌السلام كا قصہ ۱; حضرت نوحعليه‌السلام كى خيرخواہى ۸; حضرت نوحعليه‌السلام كى مہربانى ۸;حضرت نوحعليه‌السلام كى نااميدى كا سبب۱ ; حضرت نوحعليه‌السلام كے فضائل ۸

نہى عن المنكر :نہى عن المنكر كے احكام ۶; نہى عن المنكر كے شرائط۶

ہدايت :ہدايت كا سبب ۷

ہدايت قبول نہ كرنے والے:معارف الہى كا ہدايت قبول نہ كرنے والوں كو ابلاغ ۵

آیت ۳۵

( أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ فَعَلَيَّ إِجْرَامِي وَأَنَاْ بَرِيءٌ مِّمَّا تُجْرَمُونَ )

كيا يہ لوگ يہ كہتے ہيں كہ انھوں نے اپنے پاس سے گڑھ ليا ہے تو آپ كہہ ديجئے كہ اگر ميں نے گڑھاہے تو اس كا جرم ميرے ذمہ ہے اور ميں تمھارے جرائم سے برى اور بيزار ہوں (۳۵)

۱_ عصر بعثت كے مشركين، قرآن كو پيغمبر اسلام كا منگھڑت كلام سمجھتے تھے_ام يقولون افتراه

'' يقولون'' كى ضمير سے كون افراد مراد ہيں ؟ اس بارے ميں دو نظريے ہيں بعض نے عصر پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مشركين مراد ليے ہيں اور بعض مفسرين نے قوم نوح(ع) كے كفار قرار ديے ہيں مذكورہ بالا تفسير پہلے نظر يے كى بناء پر ہے_ قابل ذكر ہے كہ اس بناء پر كلمة ''قل '' كا مخاطب پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ''اقترئہ'' ميں ضمير مفعول قرآن كى طرف يا حضرت نوح(ع) كے مخصوص واقعہ كى طرف لوٹ رہى ہے_

۹۸

۲_ مكہ كے مشركين ،حضرت نوحعليه‌السلام اور انكى قوم كے واقعہ كو خودپيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام كى طرف سے بنايا ہوا قصہ خيال كرتے تھے_و لقد ارسلنا نوحاً ام يقولون افترىه

مذكورہ بالا تفسير اس صورت ميں ہے كہ جب ''افتراہْ'' كے مفعول كى ضمير،ما قبل آيات ميں ذكر حضرت نوح(ع) اور ان كى قوم كے واقعہ كى طرف لوٹے_

۳_خود ساختہ مطالب كو خداوند متعال كى طرف نسبت دينا جرم اور گناہ ہے_قل ان افتريته فعلّى اجرامي

'' افتراء'' كا معنى جھوٹ باندھنا ہے_ اگر چہ اسكى كسى دوسرے كى طرف نسبت دينا اسميں ذكر نہيں ہوا ہے_ ليكن آيت كريمہ ميں جو قرائن و اشارات ملتے ہيں _ مثلاً '' افتراہ '' اور ''افتريتہ'' يہ بتاتے ہيں كہ معنى يوں ہے اگر اسكو ميں نے بنايا ہوا اور اسكى نسبت خدا كى طرف دى ہوتي

۴_ خداوند متعال نے پيغمبر اسلام كو مشركين كا جواب دينے، اور ان سے پيش آنے كا طريقہ تعليم ديا ہے_

ام يقولون افترىه قل ان افتريته فعلى اجرامى و انا بريّ مما تجرمون

مذكورہ بالا تفسير كا (قل) كے لفظ سے استفادہ كيا گيا ہے_

۵_ ہركوئي اپنے اعمال كا ذمہ دارہے اور اپنے گناہوں كى سزا بھى خود ہى بھگتے گا_ان افتريته فعلى اجرامي

''اجرام'' كا معنى ارتكاب اور گناہ كرنا ہے'' فعليّ'' كے لفظ كا '' اجرامي'' پر مقدم ہونا حصر پر دليل ہے يعنى افتراء كا گناہ (اگر افتراء ہو) مجھ پرہے نہ كہ كسى اور پر_

۶_ شرك اور غير خدا كى عبادت جرم اور گناہ ہے_و انا بريئٌ مما تجرمون

كيونكہ ''تجرمون'' كے مخاطب مشركين اور غير خدا كى عبادت كرنے والے ہيں _ لہذاجملہ ''تجرمون'' ميں گناہ سے مرادممكن ہے شرك كرنا اور غير خدا كى عبادت كرنا ہو ،يہ بات قابل ذكر ہے كہ (لفظ مما ) ميں ''ما'' مصدريہ ہے يعنى معنى يہ ہوگا'' انا بريئٌ من اجرامكم'' _

۷_ پيغمبر اسلام كا مشركين مكہ كى شرك پرستى اور ان كے

۹۹

گناہوں سے بيزارى كا اعلان _و انا بريئٌ مما تجرمون

۸_ اپنے نظريے كى حفاظت اور عقائد كى پابندى كو ملحوظ خاطر ركھتے ہوئے مخالفين دين سے نبردآزما ہونا چاہيے_

ان افتريته فعلى اجرامى و انا بريئٌ مما تجرمون

افتراء:خدا پرافتراء كا گناہ ۳;قرآن مجيد پر افتراء۱; محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر افتراء ۱

انسان :انسانوں كى ذمہ دارياں ۵

تبري:شرك سے تبرى كرنا ۷; گناہ سے تبرى كرنا ۷

جرم :جرم كے موارد۶

خدا :تعليمات خداوندى ۴

دين :دشمنان دين سے برتاؤ كا طريقہ ۸

ديندارى :ديندارى كى اہميت ۸; دين دارى ميں استقامت ۸

شرك :شرك عبادى گناہ ہے۶

عقيدہ :عقيدہ ميں استقامت ۸

عمل :عمل كے آثار ۵

گناہ :گناہ كيسزا۵; گناہ كے موارد ۳،۶

مجازات:سزاؤں كا شخصى ہونا۵; سزاؤں كى خصوصيات ۵

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مشركين ۴;رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جھوٹ كى تہمت۲; رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا اعلان تبرى كرنا ۷;معلم حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۴

مشركين :صدراسلام كے مشركين اور قرآن مجيد ۱; صدر اسلام كے مشركين كى فكر ۱; مشركين سے برتاؤ كرنے كى روش۴

مشركين مكہ :مشركين مكہ اورحضرت نوحعليه‌السلام كا قصہ ۲; مشركين مكہ كى تہمتيں ۲;مشركين مكہ كى فكر ۲

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

ما اشبه ذلك او لايكلم امه'' (١) كوئي شخص يہ قسم كھائے كہ اپنے بھائي سے كلام نہيں كرے گا يا اسى طرح كچھ اوركہے يا پھر يہ كہ اپنى والدہ سے كلام نہيں كرے گا_

احكام: ١، ٤، ١٢

اسماء و صفات: سميع ٧، ٨ ; عليم ٧، ٨

اصلاح: آپس ميں اصلاح ٢، ٥; اصلاح كى اہميت ٥

تقوي: تقوي كے موانع ٢

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا متنبہ كرنا ١٠ ; اللہ تعالى كا نام ٣

روايت: ١١ ،١٢

زمانہ جاہليت: زمانہ جاہليت كى رسميں ٩; زمانہ جاہليت ميں قسم ٩

عمل: نيك عمل ٢، ١٢

قسم: بيہودہ قسم ٤;جھوٹى قسم ١١; خدا كى قسم ٢،١٠،١١; قسم كے احكام ١،٤،١٢

كفر: عملى كفر ١١

گناہ: ناہ كے موارد ١١

محرمات: ١، ١٢

مومنين: مومنين كى ذمہ دارى ٦

____________________

١) تفسير_ عياشى ص١١٢ح٣٣٩، نورالثقلين ج١ص ٢١٨ ، ح ٨٣٦_

۱۲۱

لاَّ يُؤَاخِذُكُمُ اللّهُ بِاللَّغْوِ فِيَ أَيْمَانِكُمْ وَلَكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ (٢٢٥)

خدا تمھارى لغو اور غير ارادى قسموں كا مواخذہ نہيں كرتا ہے ليكن جس كو تمھارے دلوں نے حاصل كيا ہے اس كا ضرور مواخذہ كرے گا_ وہ بخشنے والا بھى ہے اور برداشت كرنے والا بھى ہے _

١_ خدا تعالى كسى كو اس كى بيہودہ قسم پرمواخذہ نہيں كرتا_لايؤاخذكم الله باللغو فى ايمانكم و لكن

لغو قسم سے وہ قسميں مراد ہيں جو عموما عادت كى وجہ سے منہ سے نكل جاتى ہيں بغير اس كے كہ قسم كھانے والے نے دلى طور پر اس كا قصد كيا ہو،''باللغو'' كا يہ معنى اس كے''بما كسبت قلوبكم''كے ساتھ تقابل كو ديكھ كر سمجھ ميں آتا ہے_

٢_ بيہودہ اور لغو قسموں سے انسان پر كوئي ذمہ دارى عائد نہيں ہوتى _لايؤاخذكم الله باللغو فى ايمانكم

٣_ جو قسميں سنجيدگى اور دلى قصد كے ساتھ ہوں خداوند عالم ان پر مواخذہ كرے گا_و لكن يؤاخذكم بما كسبت قلوبكم

٤_ جو قسميں دلى قصد و ارادہ كے ساتھ اٹھائي جائيں ان كى پابندى اور وفادارى ضرورى ہے_و لكن يؤاخذكم بما كسبت قلوبكم

٥_ لغو اور فضول قسميں ناپسنديدہ ہيں _*لايؤاخذكم الله باللغو فى ايمانكم و الله غفور حليم

مذكورہ بالا آيت سے استفادہ ہوتا ہے كہ لغو اور فضول قسميں كھانے والا عذاب كا استحقاق ركھتا ہے ليكن خداوند عالم اپنے فضل و كرم سے اس كو عذاب نہيں كرتا، يہ استفادہ بالخصوص آيت كے ذيل ميں ''غفور''كى صفت كے

۱۲۲

ذكرسے ہوتاہے_

٦_ كسى عمل پر ثواب و عقاب كا معيار نيت ہے_لايؤاخذكم الله باللغو فى ايمانكم و لكن يؤاخذكم بما كسبت قلوبكم

٧_لغو اور بيہودہ كام كرنے سے انسان كى روحانى اور معنوى شخصيت پر برُے اثرات مرتب ہوتے ہيں _*

لايؤاخذكم الله باللغو فى ايمانكم و لكن يؤاخذكم بما كسبت قلوبكم شايد مذكورہ بالا آيت قسم كو دو قسموں ميں تقسيم كرنے كے بارے ميں نہيں ہے جيسے لغو و بيہودہ قسم اور سنجيدہ قسم اور نہ ہى يہ بيان كررہى ہے كہ ان ميں سے ايك قسم پر كفارہ ہے اور دوسرى پر كفارہ نہيں _ بلكہ آيت اس حقيقت كو بيان كرناچاہتى ہے كہ اگرچہ خداوند عالم نے لغو قسم پر كوئي سزا تجويز نہيں كى ليكن يہ عمل ايك قلبى بيمارى كى حكايت كرتا ہے يا يہ حقيقت بيان كرتا ہے كہ اس عمل سے بتدريج دل بيمارى كى طرف بڑھتا ہے اور خدا تعالى اس بيمارى كى صورت ميں عقاب فرماتا ہے_

٨_ لغو قسميں كھانے پر خدا وند عالم كا عذاب نہ كرنا پروردگار كى مغفرت اور حلم كا ايك جلوہ ہے_لايؤاخذكم الله باللغو فى ايمانكم و الله غفور حليم ظاہراً خدا كى مغفرت اور حلم''لايواخذ''كے ساتھ مربوط ہے نہ''يؤاخذكم''كے ساتھ كيونكہ مغفرت عدم مواخذہ كے ساتھ مناسبت ركھتى ہے نہ مؤاخذہ كے ساتھ _

٩_ خدا غفور اور حليم ہے_و الله غفور حليم

١٠_ خدا ايسا غفور ہے جو حليم ہے _و الله غفور حليم يہ اس صورت ميں ہے كہ''حليم''، ''غفور'' كى صفت ہو _

اجر: اجر كا معيار ٦

احكام: ٢، ٤

اسماء و صفات: حليم ٩، ١٠ ;غفور ٩، ١٠

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا حلم ٨; اللہ تعالى كى جانب سے حساب لينا ١، ٣; اللہ تعالى كى جانب سے مغفرت٨

۱۲۳

انحطاط: انحطاط كے عوامل ٧

انسان: انسان كى شخصيت ٧

سزا: سزاكا معيار ٦

عمل: عمل كا اجر; ناپسنديدہ عمل كے اثرات ٧ ٦; ناپسنديدہ عمل ٥

قسم: قسم كے احكام ٢، ٤;لغو قسم ١، ٢، ٥، ٨

گناہ: گناہ كے اثرات ٧

نيت: نيت كى اہميت ٣، ٤، ٦

لِّلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِن نِّسَآئِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِنْ فَآؤُوا فَإِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (٢٢٦)

جو لوگ اپنى بيويوں سے ترك جماع كى قسم كھا ليتے ہيں انھيں چار مہينے كى مہلت ہے _ اس كے بعد واپس آگئے تو خدا غفور رحيم ہے _

١_ مرد چار مہينے تك اپنى بيوى كے ساتھ ہمبسترى ترك كرنے كى قسم (ايلاء) پر باقى رہ سكتا ہے_للذين يؤلون من نسائهم تربص اربعة اشهر ''يؤلون''كا مصدر''ايلائ''ہے جو لغت ميں قسم كے معنى ميں ہے ليكن اصطلاح ميں ايلاء كا مطلب يہ ہے كہ شوہر اپنى بيوى كے ساتھ چار مہينے سے زيادہ مدت تك ہمبسترى چھوڑنے كى قسم كھائے_ آيت ميں بھى يہى اصطلاحى معنى مراد ہے_

٢_ بيوى كے ساتھ مباشرت چھوڑنے پر قسم كھانا جائز ہے اور قسم منعقد بھى ہوجاتى ہے_للذين يؤلون من نسائهم تربص اربعة اشهر

٣_ ايلاء كے وقوع پذير ہونے اور اس كے خاص

۱۲۴

احكام كے جارى ہونے كى شرط يہ ہے كہ چار مہينے سے زيادہ مدت كيلئے ہمبسترى چھوڑنے پرقسم كھائي گئي ہ_

للذين يؤلون من نسائهم تربص اربعة اشهر يہ جو خدا وند عالم فرما رہاہے كہ ايلاء كرنے والا چار مہينے تك انتظار كرسكتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ ايلاء اور اس كے خاص احكام اس صورت ميں جارى ہوں گے جب ہمبسترى چھوڑنے پر قسم يا ہميشہ كيلئے ہو يا چار مہينے سے زيادہ مدت كيلئے ہو_

٤_ ايلاء كرنے والا چار مہينے سے زيادہ اپنى بيوى كو دودلى كى كيفيت ميں يوں ہى نہيں چھوڑ سكتا_للذين يؤلون من نسائهم تربص اربعة اشهر

٥_ ايلاء كے بعد عورت چار مہينے تك اپنے شوہر سے ہمبسترى كرنے كى درخواست كا حق نہيں ركھتي_للذين يؤلون من نسائهم تربص اربعة اشهر ''للذين''كے لفظ سے معلوم ہوتا ہے كہ چار مہينے كى مدت تك مرد ہمبسترى ترك كرنے كا حق ركھتا ہے لہذا عورت كو اس مدت ميں ہمبسترى كرنے كى درخواست كا حق حاصل نہيں ہوگا_

٦_ شوہروں كا اپنى بيويوں كے ساتھ چار مہينے ميں ايك بار مباشرت كرنا ضرورى ہے_*للذين يؤلون من نسائهم تربص اربعة اشهر ايسا معلوم ہوتا ہے كہ اگر چار مہينے سے زيادہ مدت كيلئے بيوى سے دورى جائز ہوتى تو ايلاء كے حكم ميں بھى اس مدت كے مطابق وقت كے لحاظ سے اضافہ ہوجاتا_

٧_ ايلاء سے، چار مہينے گزرنے كے بعد ايلاء كرنے والے پر يا بيوى كے ساتھ ہمبسترى كرنا يا اسے طلاق دينا واجب ہے_للذين يؤلون فان فاؤ ..._ و ان عزموا الطلاق يہ كہ''تربص'' (انتظار كرنا) چار مہينے تك ہے معلوم ہوتا ہے اس مدت كے بعد شخص پر مذكورہ بالا ان دو كاموں ميں سے ايك ضرورى ہے_

٨_ ايلاء ميں چار مہينے گذرنے سے پہلے قسم توڑنا جائز ہے _للذين يؤلون من نسائهم تربص اربعة اشهر

''للذين''كا لام جو كہ جواز كے لئے ہے اس سے استفادہ ہوتا ہے كہ چاہے تو چار مہينے تك مباشرت ترك كرے اور چاہے تو چار مہينے گذرنے سے پہلے ہمبسترى كرے_

٩_ جو لوگ ہمبسترى چھوڑنے كى قسم توڑ كر شادى شدہ

۱۲۵

زندگى كى طرف لوٹ آتے ہيں رحمت اور مغفرت الہى ان كے شامل حال ہوجاتى ہے_

للذين يؤلون فان فاؤ فان الله غفور رحيم

١٠_ ايلاء كے بعد شادى شدہ زندگى كى طرف لوٹنا طلاق سے بہتر ہے_فان فاؤ فان الله غفور رحيم _ و ان عزموا الطلاق فان الله سميع عليم ازدواجى زندگى كى طرف لوٹنے (فان فاؤ) كو ذكر ميں مقدم كرنا اس كے رتبہ كے لحاظ سے مقدم ہونے كى علامت ہے، نيز ازدواجى زندگى كى طرف لوٹنے اور بيوى كے حقوق كى رعايت كى صورت ميں رحمت اور مغفرت كا وعدہ دينے سے بھى اس كى اولويت و رجحان كا پتہ چلتا ہے_

١١_ خداوند عالم غفور اور رحيم ہےفان الله غفور رحيم

١٢_ خداوند عالم ايسا غفور ہے جو رحيم بھى ہے_فان الله غفور رحيم

١٣_ اسلام عورتوں كے حقوق كا دفاع كرتاہے_للذين يؤلون من نسائهم تربص اربعة اشهر فان فاؤ فان الله غفور رحيم

احكام: ١، ٢، ٣، ٤، ٥، ٦، ٧، ٨، ٩

اسماء و صفات: رحيم ١١،١٢; غفور ١١، ١٢

ايلاء: ايلاء كے احكام ١، ٢، ٣، ٤، ٥، ٦، ٧، ٨، ٩، ١٠

خدا تعالى: خدا تعالى كى رحمت ٩; خدا تعالى كى مغفرت٩

رحمت: رحمت جن كے شامل حال ہے ٩

شريك حيات: شريك حيات كے حقوق٤، ٦

طلاق: احكام طلاق ٧; طلاق كى ناپسنديدگى ١٠

عورت: عورت كے حقوق١٣

قسم: قسم كے احكام ١، ٢، ٣، ٨، ٩; قسم توڑنا ٨، ٩

مرد:

۱۲۶

مرد كى ذمہ دارى ٦

واجبات :٦، ٧

ہمبستري: ہمبسترى كے احكام ١، ٢، ٣، ٥، ٦، ٧

وَإِنْ عَزَمُواْ الطَّلاَقَ فَإِنَّ اللّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (٢٢٧)

اور طلاق كا ارادہ كريں تو خدا سن بھى رہا ہے اور ديكھ بھى رہا ہے_

١_ طلاق كا فيصلہ كرنا مرد كے اختيار ميں ہے _و ان عزموا الطلاق

٢_ طلاق ميں ارادہ اور لفظ معتبر ہے _و ان عزموا الطلاق فان الله سميع عليم

ايسالگتا ہے كہ دو صفات يعني''سميع''(سننے والا) اور''عليم''(جاننے والا) كا لانا طلاق ميں قصد اور لفظ كے معتبر ہونے كى طرف اشارہ ہے_

٣_ اگر عقد دائمى ہو تو ا يلاء ہوسكتا ہے_للذين يؤلون من نسائهم تربص اربعة اشهر و ان عزموا الطلاق

ايك تو يہ كہ مرد كو چار مہينے كى مہلت دى گئي ہے

(جو كہ دائمى نكاح ميں معتبر ہے) اور دوسرا طلاق كا ذكر ہوا ہے جو كہ نكاح دائمى ميں ہوتى ہے لہذا ان دو امور كے پيش نظر كہا جاسكتا ہے كہ ايلاء كا حكم غير دائمى نكاح ميں جارى نہيں ہے_

٤_ مياں بيوى كے درميان نا اتفاقى كى صورت ميں ،طلاق آخرى راہ حل ہے_للذين يؤلون ...و ان عزموا الطلاق فان الله سميع عليم طلاق كو آخر ميں ذكر كرنے سے اس بات كى طرف اشارہ كرنا مقصود ہوسكتا ہے كہ مشكل كے حل كيلئے طلاق سب سے آخرى مرحلہ ہے_

٥_ خدا سننے والا اور جاننے والا ہے _فان الله سميع عليم

۱۲۷

٦_ خداوند عالم ايسا سننے والا ہے جو عليم ہے_فان الله سميع عليم

٧_ خداوند متعال كے نزديك طلاق ناپسنديدہ ہے_*و ان عزموا الطلاق فان الله سميع عليم

يہ اس بات كے پيش نظر ہے كہ ازدواجى زندگى كى طرف پلٹنے كى صورت ميں مغفرت اور رحمت كا وعدہ ديا گيا ہے جبكہ طلاق كى صورت ميں دو صفات ''سميع'' اور ''عليم''پر اكتفاكيا گيا ہے جو كسى حد تك ڈرانے دھمكانے اور توجہ دلانے پر دلالت كرتى ہيں _

احكام: ١، ٢، ٣ فلسفہ احكام ٤

اختلاف: گھريلو اختلاف ٤

اسماء و صفات: سميع ٥، ٦; عليم ٥، ٦

ايلاء: ايلاء كے احكام ٣

طلاق: احكام طلاق١، ٢; طلاق كى ناپسنديدگى ٧; طلاق ميں نيت٢; فلسفہ طلاق٤

مرد: مرد كے حقوق ١

۱۲۸

وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوءٍ وَلاَ يَحِلُّ لَهُنَّ أَن يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِن كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُواْ إِصْلاَحًا وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكُيمٌ (٢٢٨)

مطلقہ عورتيں تين حيض تك انتظار كريں گى اور انھيں حق نہيں ہے كہ جو كچھ خدا نے ان كے رحم ميں پيدا كيا ہے اس كى پردہ پوشى كريں اگر ان كا ايمان الله او رآخرت پر ہے _ اور پھر ان كے شوہر اس مدت ميں انھيں واپس كرلينے كے زيادہ حقدار ہيں اگر اصلاح چاہتے ہيں _ اور عورتوں كے لئے ويسے ہى حقوق بھى ہيں جيسى ذمہ دارياں ہيں اور مردوں كو ان پرايك امتياز حاصل ہے او رخدا صاحب عزت و حكمت ہے _

١_ طلاق يافتہ عورت سے تين طُھر (عدت) مكمل ہونے سے پہلے نكاح كرنا حرام ہے_و المطلقات يتربصن بانفسهن ثلثة قروء اس صورت ميں كہ''قرئ''كے معنى طہر ہوں _

٢_ تين طُہر يا تين حيض صرف اس عورت كى عدت ہے جسے حيض آتا ہو _و المطلقات يتربصن بانفسهن ثلثة قروء

ظاہراً آيت ميں وہ عورتيں فرض كى گئي ہيں جنہيں حيض آتا ہو كيونكہ عدت كى مدت تين طہر يا تين حيض قرار دى گئي ہے لہذا يہ حكم چھوٹى عمر كي، يائسہ يا ان جيسى عورتوں كو شامل نہيں ہوگا_

۱۲۹

٣_ مطلقہ عورت كى عدت تين حيض ہے _و المطلقات يتربصن بانفسهن ثلثة قروء يہ اس صورت ميں ہے كہ''قرئ''كے معنى حيض ہوں _

٤_ مطلقہ عورتيں اپنى عدت كى مدت كم يا زيادہ كرنے كى خاطر اپنے حمل ياحيض كو نہ چھپائيں _و لايحل لهن ان يكتمن ما خلق الله فى ارحامهن ''ما خلق''كا معنى وسيع ہے يہ ہر اس مخلوق كو شامل ہے جو عدت كى مدت ميں مؤثر واقع ہوسكے جيسے حمل، طہر اور حيض _

٥_ خدا تعالى اور روز قيامت پر ايمان احكام الہى كے انجام دينے كا ضامن ہے_و لايحل لهن ان كن يؤمن بالله و اليوم الآخر

٦_ خداوند متعال اور روز قيامت پر ايمان كا لازمہ فرائض الہى پر عمل ہے_و لايحل لهن ان كن يؤمن بالله و اليوم الآخر

٧_ اپنے حمل، طہر يا حيض كے بارے ميں عورتوں كا قول قبول كيا جائے گا_و لايحل لهن ان يكتمن ما خلق الله فى ارحامهن اگر عورتوں كى بات اپنے طہر، حيض، حمل يا ہر اس چيز كے بارے ميں كہ جو عدت كى مدت ميں دخالت ركھتى ہے، قابل قبول نہ ہو تو ان پر چھپانے كى حرمت لغو ہوگي_

٨_ہر اس چيز كاخالق خدا ہے جو رحم ميں موجود ہے (خون، جنين ...)ما خلق الله فى ارحامهن يہ لفظ''ما''كو مدنظر ركھتے ہوئے ہے جو خون، جنين ...كو شامل ہوجاتا ہے _

٩_ عدت كے اندر شوہر كو اپنى مطلقہ بيوى كى طرف رجوع كا حق حاصل ہے_و بعولتهن احق بردهن فى ذلك

''ذلك''، ''تربص''كى طرف اشارہ ہے يعنى ان تين طہر ميں جو كہ عورت كى عدت كا زمانہ ہے _

١٠_ شوہر كا اپنى مطلقہ بيوى كى طرف حق رجوع اس بات سے مشروط ہے كہ وہ گھريلو زندگى ميں اصلاح چاہتا ہو_

و بعولتهن احق بردهن فى ذلك ان ارادوا اصلاحا يعنى اگر شوہر عدت كے اندر رجوع كرنے سے يہ ارادہ ركھتا ہے كہ رجوع كرنے كے

بعد عورت كو دوبارہ طلاق دے كر تكليف پہنچائے گا_ تو آيت كے ظاہرى حكم كے لحاظ سے اس قصد كے ساتھ رجوع جائز نہيں ہے_

۱۳۰

١١_ عدت گھر كى تعمير نو كيلئے ايك مہلت ہے _*و المطلقات يتربصن و بعولتهن احق بردهن فى ذلك ان ارادوا اصلاحا اس بات كے پيش نظر كہ عدت كے ايام كے تذكرہ كے بعد ان ايام ميں اصلاح كى خاطر رجوع كرنے كا ذكركيا گيا ہے_

١٢_ مرد اور مطلقہ عورت كو عدت كے زمانہ ميں پہلى زندگى كى طرف پلٹنے كيلئے تو دوبارہ نكاح كى ضرورت نہيں ہے _*

و بعولتهن احق بردهن كيونكہ لفظ ''بعولة''(شوہر) اور اس كا ''ھن'' كى ضمير كى طرف مضاف ہونا اس معني كو بيان كررہاہے كہ عدت طلاق كے زمانہ ميں زوجيت والا تعلق اور رشتہ باقى ہے لہذا رجوع كيلئے نكاح كى ضرورت نہيں ہے_

١٣_ مرد كيلئے اپنى مطلقہ بيوى كى طرف رجوع كا حق عدت كے ختم ہوتے ہى ختم ہوجاتا ہے_و بعولتهن احق بردهن فى ذلك كلمہ''فى ذلك''كے مفہوم سے يہ مطلب سمجھا جاسكتا ہے _

١٤_ اگر شوہر كا رجوع مطلقہ بيوى كو تكليف اور اذيت پہنچانے كى خاطر ہو تو بے اثر اور غير معتبر ہے _

و بعولتهن احق بردهن فى ذلك ان ارادوا اصلاحا آيت ميں حق رجوع كو اصلاح كے ساتھ مشروط كيا گيا ہے_ پس اس جملہ شرطيہ كا مفہوم يہ نكلے گا كہ اگر رجوع اصلاح كيلئے نہ ہو بلكہ اذيت پہنچانے كى خاطر ہو تو ايسے رجوع كا اعتبار و حقانيت مسلوب ہے_

١٥_عورت اور مرد دونوں ايك دوسرے كے مقابلے ميں ( عقلى اور شرعى بنياد پر) برابر كے حقوق ركھتے ہيں _

و لهن مثل الذى عليهن بالمعروف

١٦_ عورت اور مرد دونوں پر لازم ہے ايك دوسرے كے برابر كے حقوق كى رعايت كا مظاہرہ كريں _

و لهن مثل الذى عليهن بالمعروف

١٧_ اسلام عورتوں كے حقوق كا دفاع كرتاہے_

و بعولتھن احق بردھن فى ذلك ان ارادوا اصلاحا و لھن مثل الذى عليہن بالمعروف

زندگى كى اصلاح كى غرض كے بغير مرد كا رجوع غير معتبر ہے نيز عورتوں كے حقوق كو مردوں كے حقوق جيسا سمجھنا خصوصاً زمانہ جاہليت كے ماحول كو مدنظر ركھتے ہوئے، يہ اسلام ميں

۱۳۱

عورتوں كے حقوق كے دفاع كى دليل ہے_

١٨_ مرد اپنى بيويوں سے افضل ہيں _و للرجال عليهن درجة

١٩_ شوہر اپنى بيويوں پر حقوق كے اعتبار سے امتيازى حيثيت ركھتے ہيں _*و للرجال عليهن درجة

'' للرجال ...'' كا جملہ'' لصہُنّ ...'' كے لئے قيد ہے اور اس كے معنى كو مشخص كررہاہے

٢٠_ ازدواجى زندگى كے قوانين بنانے ميں عدل و انصاف كو بنياد قرار ديا گياہے_و لهن مثل الذى عليهن بالمعروف و للرجال عليهن درجة

'' للرجال ...''كا جملہ''لہن ...'' كيلئے قيد ہے اور اسكے معنى كو مشخص كررہاہے_يعنى شوہر اور بيوى كے ايك جيسے حقوق كا مطلب يہ نہيں ہے كہ وہ بطور مطلق مساوى ہيں كيونكہ مرد خلقت كے لحاظ سے كچھ خصوصيات كے حامل ہيں كہ جن كى وجہ سے انہيں مخصوص حقوق بھى حاصل ہوں گے_ اس بنياد پر دونوں كے درميان عدل و انصاف كى رعايت كى گئي ہے_

٢١_ شوہر كو تب مطلقہ بيوى كى طرف رجوع كا حق حاصل ہے جب وہ عورت كے حسب معمول حقوق پورے كرنے كا ارادہ ركھتا ہو_ان ارادوا اصلاحا و لهن مثل الذى عليهن بالمعروف

حق رجوع كو اصلاح كے ساتھ مقيد كرنے كے بعد عورتوں كے مردوں پر حقوق بيان كرنے كا نتيجہ يہ نكلتا ہے كہ مرد كا اپنى مطلقہ بيوى كے حقوق كى رعايت كا قصد ارادہ اصلاح (ان ارادوا اصلاحا) كے مصاديق ميں سے ہے_

٢٢_ زمانہ بعثت كا جاہل معاشرہ عورتوں كيلئے كسى قسم كے حقوق كا قائل نہيں تھا_و لهن مثل الذى عليهن بالمعروف

اس لحاظ سے كہ اس آيت ميں مردوں كے عورتوں پر حقوق كو ( عليہن) مسلّم ليا گيا ہے جبكہ عورتوں كے مردوں پر حقوق كے اثبات كو (لھن) سے بيان كيا گيا ہے يعنى عورتوں كے حقوق ثابت كرنے كے در پے ہے_

٢٣_ مياں بيوى كا باہمى حقوق كى رعايت نہ كرنا طلاق كے عوامل و اسباب ميں سے ہے _

و المطلقات يتربصن بانفسهن ثلثة قروء و لهن مثل الذى عليهن

٢٤_ خداوند متعال كے جملہ احكام و قوانين كہ جن ميں ازدواجى زندگى كے قوانين بھى ہيں سب

۱۳۲

كے سب حكيمانہ اور حكمت الہى كى بنياد پر ہيں _و المطلقات يتربصن و الله عزيز حكيم

٢٥_ خدا تعالى كى ناقابل شكست قدرت اور عزت احكام و قوانين الہى كى مخالفت كرنے والوں كو سزا دينے كے لئے كافى ہے_و المطلقات يتربصن و لايحل لهن و الله عزيز حكيم

٢٦_ خداوند عالم عزيز اور حكيم ہے _و الله عزيز حكيم

٢٧_ خدا ايسا عزيز ہے جو حكيم ہے _و الله عزيز حكيم

يہ اس صورت ميں ہے كہ''حكيم''''عزيز'' كى صفت ہو _

٢٨_ مردوں كا اپنى مطلقہ بيويوں كى طرف رجوع كرنا پسنديدہ امر ہے اور خداوند متعال نے اس كى ترغيب دلائي ہے_

و بعولتهن احق بردهن فى ذلك

٢٩_خدا تعالى نے ايسے مياں بيوى كو ڈرايا دھمكاياہے جو ايك دوسرے كے حقوق كا خيال نہيں ركھتے_

و المطلقات و لهن مثل الذى و الله عزيز حكيم

احكام كے بيان كرنے كے بعد خدا كے ''عزيز'' (غلبے والا) ہونے كى يادآورى اس كے احكام كى مخالفت كرنے والوں كيلئے ڈرانے دھمكانے كى غرض سے ہوسكتى ہے_

احكام: ١، ٢، ٣، ٤، ٧، ٩، ١٠، ١٢، ١٣، ١٤، ٢١ احكام كا فلسفہ ١١،٢٤ ; احكام كا معيار ٢٠ ; احكام كى تشريع ٢٤

اختلاف: گھريلو اختلاف٢٣

اسماء و صفات: حكيم ٢٦، ٢٧; عزيز٢٦، ٢٧

انسان: انسان كى خلقت ٨

ايمان: ايمان اور عمل كا رابطہ ٦; ايمان كے اثرات ٦; خدا پر ايمان ٥، ٦، قيامت پر ايمان ٥، ٦

حقوق: حقوق كى بنياديں ١٥، ٢٠

حمل: حمل ميں گواہى ٧

حيض: حيض ميں گواہى ٤، ٧

۱۳۳

خداوند متعال: خداوند متعال كا تشويق دلانا ٢٨; خداوند متعال كا ڈرانا دھمكانا ٢٩; خداوند متعال كى تنبيہات ٢٩: خداوند متعال كى حكمت ٢٤; خداوند متعال كى خالقيت ٨; خداوند متعال كى عزت (غلبہ) ٢٥; خداوند متعال كى قدرت ٢٥ زمانہ بعثت كى تاريخ: ٢٢

زمانہ جاہليت: زمانہ جاہليت كى رسميں ٢٢; زمانہ جاہليت ميں عورت ٢٢

شادي: حرام شادى ١; شادى كے احكام ١

شريك حيات: شريك حيات كے باہمى حقوق١٥، ١٦، ٢٠، ٢٣، ٢٩

طلاق: احكام طلاق ٢، ٣، ٩، ١٠،١٢، ١٣، ١٤; طلاق رجعى ٩، ١٠، ١٢، ١٣،١٤، ٢١، ٢٨; طلاق كے عوامل ٢٣

عدت: طلاق كى عدت ٢، ٣، ٤; عدت كا فلسفہ ١١ ;عدت كے احكام ١، ٢، ٣، ٤، ٧، ٩، ١٣

عدل: عدل كى اہميت ٢٠

عرفى معيار: ١٥

عورت: عورت زمانہ جاہليت ميں ٢٢;عورت كے حقوق ١٤، ١٧، ٢١; عورت كے فضائل ١٨، ١٩

گناہ: گناہ كى سزا ٢٥

گواہي: گواہى چھپانا ٤

گھرانہ: گھرانہ ميں اصلاح ١٠، ١١،٢١

مرد: مرد كے حقوق ٩، ١٠،١٣، ١٨، ١٩; مرد كے فضائل ١٨، ١٩

محرمات: ١

مطلقہ: مطلقہ كے ساتھ ازدواج ١

نبرد : آزار و اذيت كے خلاف نبرد١٤

۱۳۴

الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ وَلاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُواْ مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلاَّ أَن يَخَافَا أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ فَلاَ تَعْتَدُوهَا وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (٢٢٩)

طلاق دو مرتبہ دى جائے گى _ اس كے بعد يا نيكى كے ساتھ روك ليا جائے گا يا حسن سلوك كے ساتھ آزاد كرديا جائے گااور تمھارے لئے جائز نہيں ہے كہ جو كچھ انھيں دے ديا ہے اس ميں سے كچھ واپس لو مگر يہ كہ يہ انديشہ ہو كہ دونوں حدود الہى كو قائم نہ ركھ سكيں گے تو جب تمھيں يہ خوف پيدا ہو جائے كہ وہ دونوں حدود الہى كو قائم نہ ركھ سكيں گے تو دونوں كے لئے آزادى ہے اس فديہ كے بارے ميں جو عورت مرد كو دے _ ليكن يہ حدود الہيہ ہيں ان سے تجاوز نہ كرنا اور جو حدود الہى سے تجاوز كرے گا وہ ظالمين ميں شمار ہوگا _

١_ مردوں كو صرف پہلى اور دوسرى طلاق ميں رجوع كرنے كا حق حاصل ہے _الطلاق مرتان فامساك بمعروف

''الطلاق''ميں الف و لام عہد ذكرى ہے يعنى وہ طلاق كہ جس ميں شوہر كو حق رجوع تھا_''و بعولتھن احق ...'' دو مرتبہ سے زيادہ نہيں ہے_

٢_ زمانہ جاہليت ميں طلاق رجعى غيرمحدود تھى ليكن اسلام نے اس كى تعداد كو محدود كرديا _الطلاق مرتان

اس آيت كا شان نزول يوں بيان ہوا ہے كہ زمانہ جاہليت ميں شوہر بيوى كو طلاق ديتا اور دوبارہ عدت مكمل ہونے سے پہلے اس كى

۱۳۵

طرف رجوع كر ليتا تھا اسى طرح رجوع كرسكتا تھا اگرچہ ہزار مرتبہ طلاق ديدے اور جب طلاق كى اس نوعيت كا تذكرہ نبى اكرم(ص) كے سامنے ہوا تو يہ آيت نازل ہوئي''الطلاق مرتان ...'' (مجمع البيان ، اس آيت كے ذيل ميں )

٣_ ايك دفعہ يا چند مرتبہ صيغہ طلاق پڑھنے سے متعدد طلاقيں متحقق نہيں ہوتيں اگر ان كے درميان رجوع ( امساك)نہ كيا جائے_الطلاق مرتان پہلى بات تو يہ ہے كہ ايك دفعہ ''طلقتك ثلاثا''(ميں نے تجھے تين طلاقيں ديں ) كہنے پر دو مرتبہ يا تين مرتبہ صدق نہيں كرتا_ دوسرى بات يہ كہ دوسرى طلاق اس وقت تك صدق نہيں كرسكتى جب تك رجوع نہ كرے_ تيسرى بات يہ ہے كہ زندگى كى طرف رجوع اور بازگشت نيكى كے ساتھ ٹھہرانے كے ذريعہ ہونى چاہيئے_ اور ايك ہى محفل و مجلس ميں پہلے اور دوسرے صيغہ كے درميان مثلاً ''راجعت ''(ميں نے رجوع كيا) كہنا نيكى كے ساتھ امساك (روكنا) نہيں ہے_

٤_ شوہر كے لئے ضرورى ہے كہ بيوى كے مسلّم حقوق ادا كرنے كى ذمہ دارى لے_فامساك بمعروف

''معروف''(پہچانا ہوا) سے مراد وہ حقوق ہيں جو عقل، فطرت اور شريعت كى بنيادوں پر دين دار اور صحيح و سالم فطرت لوگوں كے درميان مشہورو معروف ہيں _ اگرچہ آيت اس مطلقہ عورت كے بارے ميں ہے جس كے شوہر نے اس كى طرف رجوع كر ليا ہے ليكن آيت حقوق كو عمومى طور پر سب عورتوں كيلئے بيان كر رہى ہے_

٥_ طلاق اور رجوع كا حق شوہر كو حاصل ہے_فامساك بمعروف

٦_ ضرورى ہے كہ رجوع كے بعد شوہر كا بيوى كے ساتھ رويہ اور سلوك ،عقل اور شريعت كے مسلم معيار كے مطابق ہو _الطلاق مرتان فامساك بمعروف

٧_ مرد كا عدت كے دنوں ميں رجوع كرنا، عورت كو نقصان پہنچانے كى خاطر نہ ہو_الطلاق مرتان فامساك بمعروف او تسريح باحسان

٨_ دوسرى طلاق كے بعد رجوع كى صورت ميں يا تو ''معروف'' (مسلم حقوق) كى بنياد پر زندگى گزارے يا پھر طلاق ديدے جس كے بعد حق رجوع نہيں ركھتا_فامساك بمعروف او تسريح باحسان

۱۳۶

يہ اس صورت ميں ہے كہ''تسريح باحسان'' سے مراد تيسرى طلاق ہو كيونكہ صرف پہلى اور دوسرى طلاق ميں رجوع كا حق حاصل ہے ''الطلاق مرتان''اور تيسرى طلاق ميں حق رجوع نہيں ہوگا_

٩_عورت كو چھوڑنا ( طلاق )، نيكى اور احسان كے ساتھ اس كے حقوق كى رعايت كرتے ہوئے انجام پائے نہ كہ اسے ضررو نقصان پہنچانے كى غرض سے _او تسريح باحسان گويا لفظ ''احسان''كے معنى ''معروف'' سے بڑھ كر ہيں يعنى عورتوں كے مسلّم حقوق سے بڑھ كر ان كے ساتھ نيكى كى جائے_

١٠_ طلاق رجعى كے باوجود عدت كے ايام ميں رشتہ ازدواج باقى رہتا ہے _الطلاق مرتان فامساك بمعروف

''امساك'' كے لفظ سے يہ معلوم ہوتا ہے كہ شوہر عورت كو اسى سابقہ نكاح كے ساتھ ركھ سكتا ہے اس كا مطلب يہ ہوا كہ زوجيت كا رشتہ باقى ہے_

١١_ اسلام كے فقہى احكام اور اخلاقى مسائل كے درميان گہرا تعلق و ارتباط ہے_فامساك بمعروف او تسريح باحسان

١٢_ طلاق كے وقت شوہر پر حرام ہے كہ عورت سے وہ مال ( حق مہر اور ...) واپس لے جو اس نے اسے ديا ہو _

و لايحل لكم ان تاخذوا مما اتيتموهن شيئا

١٣_ اگر انسان كو خوف ہو كہ اپنى زندگى ميں احكام الہى كو عملى جامہ نہيں پہنا سكتا تو مرد عورت كو ديا ہوا مال واپس لے كر اسے طلاق دے سكتا ہے_و لايحل لكم ان تاخذوا الا ان يخافا الا يقيما حدود الله

اگر حق مہر واپس كرنے كى حرمت ان دونوں كے درميان طلاق كے لئے ركاوٹ ہوجائے اور ان كا ايك ساتھ زندگى بسر كرنا حدود الہى كے پامال ہونے كا موجب ہو تو اس صورت ميں حق مہر واپس لينا جائز كيا گيا ہے تاكہ طلاق واقع ہوسكے_

١٤_ عورت كا اپنے مال (حق مہر) سے چشم پوشى كر كے طلاق لے لينا اس ازدواجى زندگى سے بہتر ہے كہ جس ميں حدود الہى كى رعايت نہ ہوسكے_و لايحل لكم ان تاخذوا مما اتيتموهن شيئا الا ان يخافا الا يقيما حدود الله

۱۳۷

١٥_ زندگى ميں حدود الہى كى مخالفت كا ڈر اس بات كا جواز فراہم كرتاہے كہ عورت اپنا كچھ مال شوہر كو بخش دے اور دونوں طلاق پر باہمى موافقت كرليں _فان خفتم الا يقيما حدود الله فلاجناح عليهما فيما افتدت به

١٦_ گھريلو زندگى ميں حدود الہى كى عدم رعايت كا احتمال اور معقول و متعارف خوف طلاق خلع كے جواز كا موجب بنتا ہے_*فان خفتم الا يقيما حدود الله ''فان خفتم''كا خطاب چونكہ سب لوگوں كيلئےہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ عورت اور شوہر كى پريشانى اس طرح كى ہو كہ اگر عام لوگ بھى اس سے باخبر ہوں تو وہ بھى اس پريشانى اور مشكل كو محسوس كريں _

١٧_ خاندان كو محفوظ كرنے كى قدر و قيمت اس وقت تك ہے كہ جب تك حدود الہى كى مخالفت كا خطرہ لاحق نہ ہو_

الا ان يخافا الا يقيما حدود الله

١٨_ ازدواجى زندگى ميں حدود الہى كى مراعات اہم اور لازمى امر ہے_فان خفتم الا يقيماحدود الله فلاجناح تلك حدود الله فلاتعتدوها

١٩_ عورت كا طلاق كيلئے شوہر كو مال دينا طلاق خلع كے علاوہ ديگر طلاقوں ميں جائز نہيں ہے_

و لايحل لكم ان تاخذوا مما اتيتموهن فان خفتم فلاجناح عليهما اگرچہ ابتداء ميں مردوں پر ( حق مہر ) واپس لينے كى حرمت ذكر ہوئي ہے ليكن خوف كى صورت ميں ''فلا جناح عليہما'' كى تعبير كے ذريعے دونوں (مياں بيوي) سے حرمت كو اٹھا ليا گيا ہے پس اس سے معلوم ہوتا ہے كہ پہلے عورت كے لئے بھى حرمت ثابت تھي_

٢٠_ طلاق خلع كے قوانين كے اجرا پر حاكم شرع (قاضي) كى نظارت ضرورى ہے_*فان خفتم الا يقيما حدود الله فلاجناح عليهما اس صورت ميں كہ''فان خفتم''كا خطاب حكّام (قاضيوں ) كو ہو جيساكہ آلوسى كى يہى نظر ہے_

٢١_ طلاق كے احكام حدود الہى ميں سے ہيں اور ان سے تجاوز حرام ہے_المطلقات يتربصن الطلاق مرتان تلك حدود الله فلاتعتدوها

٢٢_ خدا وند متعال كے احكام و حدود سے تجاوز ظلم

۱۳۸

ہے_و من يتعد حدود الله فاولئك هم الظالمون

٢٣_ ظالم فقط وہ لوگ ہيں جو الہى حدود سے تجاوز كرتے ہيں _و من يتعد حدود الله فاولئك هم الظالمون

''ھم''ضمير فصل، حصر كو بيان كر رہى ہے_

٢٤_ اسلام عورتوں كے حقوق كا دفاع اور انكى حمايت كرتا ہے_الطلاق مرتان فامساك بمعروف او تسريح باحسان ولايحل لكم ...فاولئك هم الظالمون

٢٥_ گھريلو زندگى اور اسكى حفاظت كى اہميت _المطلقات يتربصن بانفسهن الطلاق مرتان فاولئك هم الظالمون

٢٦_ گھر كى سرپرستى اورانتظامى ذمہ دارى مرد كے ہاتھ ميں ہے_ *الطلاق مرتان فامساك بمعروف او تسريح باحسان و لايحل لكم فاولئك هم الظالمون كيونكہ گھريلو زندگى كى بنيادى طور پر حفاظت يا گھريلو زندگى كو ختم كردينا مرد كے ہاتھ ميں ہے لہذا گھرانے كى سرپرستى اور ذمہ دارى بھى مرد كے ہاتھ ميں ہوگي_

احكام: ١، ٣، ٥، ٦، ٧، ٨، ٩، ١٠، ١٢، ١٣، ١٥، ١٦، ١٩، ٢٠ احكام اور اخلاق ١١، احكام كا فلسفہ٢، احكام كى خصوصيت ١١

اللہ تعالى: اللہ تعالى كى حدود ١٣، ١٤، ١٥، ١٦، ١٧، ١٨ ; اللہ تعالى كى حدود سے تجاوز ٢١، ٢٢، ٢٣ اہم و مہم١٧

حق مہر: حق مہر كے احكام ١٢، ١٣

خوف: پسنديدہ خوف١٦; خوف كے اثرات١٣، ١٥

دينى نظام تعليم: ١١

زمانہ بعثت كى تاريخ: ٢

زمانہ جاہليت: زمانہ جاہليت كى رسميں ٢; زمانہ جاہليت ميں طلاق ٢

شريك حيات: شريك حيات كے حقوق ٤، ٦

طلاق: طلاق خلع ١٤، ١٥، ١٦، ١٩، ٢٠; طلاق رجعى ١، ٢، ٥، ٦، ٧، ٨، ١٠ ; طلاق كے احكام ١،٣، ٥، ٧، ٨، ٩، ١٠، ١٢، ١٣، ١٥، ١٦، ١٩، ٢٠، ٢١

۱۳۹

ظالم لوگ: ٢٣

ظلم: ظلم كے موارد٢٢

عرفى معيارات: ٤، ٦، ٨

عورت: عورت كو ضرر پہچانا ٧، ٩; عورت كے حقوق ٢، ٤، ٦، ٧، ٩، ١٢، ١٤، ٢٤; عورت كے ساتھ نيكي كرنا ٩

قاضي: قاضى كى ذمہ دارى ٢٠ گھرانہ: ١٥ گھرانے كى ذمہ دارى اور سرپرستى ٢٦; گھرانے كى قدر و قيمت ١٧، ٢٥; گھرانے كے حقوق ١٦; گھريلو روابط ١٨

محرمات: ١٢، ٢١

مرد: مردكى ذمہ دارى ٢٦;مرد كے حقوق ٥

فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىَ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (٢٣٠)

پھر اگر تيسرى مرتبہ طلاق دے دى تو عورت مرد كے لئے حلال نہ ہو گى يہاں تك كہ دوسرا شوہر كرے پھر اگر وہ طلاق ديدے تو دونوں كے لئے كوئي حرج نہيں ہے كہ آپس ميں ميل كرليں اگر يہ خيال ہے كہ حدود الہيہ كو قائم ركھ سكيں گے _ يہ حدود الہيہ ہيں جنھيں خدا صاحبان علم و اطلاع كے لئے واضح طور سے بيان كررہا ہے _

١_ تيسرى طلاق كے بعد شوہر كا اپنى بيوى كے ساتھ دوبارہ ازدواجى زندگى برقرار كرنا ممكن نہيں ہے

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945

946

947

948

949

950

951

952

953

954

955

956

957

958

959

960

961

962

963

964

965

966

967

968

969

970

971