تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 6%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 205836 / ڈاؤنلوڈ: 4271
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۸

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

يہاں يہ اس بات كى حكايت كرتا ہے كہ برادران يوسف اس كلام كے مضمون پر اطمينان ركھتے تھے_

احكام :۴برادران يوسف :برادران يوسف اور يعقوبعليه‌السلام ۱، ۲، ۷، ۸; برادران يوسف كا اطمينان ۸;برادران يوسف كا اقرار۵; برادران يوسف كا توجيہ كرنا ۳;برادران يوسف كا جھوٹ بولنا ۱، ۲، ۳، ۸;برادران يوسف كا دعوي ۶;برادران يوسف كا عذر لانا ۳;برادران يوسف كى تہمتيں ۷; برادران يوسف كى سازش ۱، ۲، ۵، ۸

مقابلہ :مقابلے كے احكام ۴

يعقوبعليه‌السلام :يعقوبعليه‌السلام اور برادران يوسف ۶;يعقوب(ع) پر تہمت ۷; يعقوبعليه‌السلام كے دين ميں مقابلے۴

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كا بھيڑيئے كا لقمہ بننا ۳، ۵، ۶; يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۳، ۵، ۶، ۸;يوسف(ع) كى محافظت ميں كمى كرنا۵

آیت ۱۸

( وَجَآؤُوا عَلَى قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْراً فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ )

اور يوسف كے كرتے پر جھوٹا خون لگا كرلے آئے _يعقوب نے كہا كہ يہ بات صرف تمھارے دل نہ گڑھى ہے لہذا ميرا راستہ صبر جميل كاہے اور اللہ تمھارے بيان كے مقابلہ ميں ميرا مددگار ہے (۱۸)

۱_ يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں نے اسكو كنويں ميں ركھنے سے پہلے اس كے بدن سے قميص كو اتار ليا _

و جاء و على قميصه بدم كذب

۲_ برادران يوسف(ع) نے جھوٹ كے خون ( جو اسكا خون نہيں تھا) سے اسكى قميص كو رنگين كرديا_

وجاء و على قميصه بدم كذب

۳_ برادران يوسف(ع) ، يعقوب(ع) كو خون والى قميص دكھاكر اپنےمن گھڑت دعوى كو ثابت كرنا چاہتے تھے_

وجاء و على قميصه بدم كذب

۴_ يوسفعليه‌السلام كى قميص كا خونى ہونا يہ واضح و روشن دليل تھى كہ يوسفعليه‌السلام بھيڑے كا لقمہ نہيں بنے _

وجاء و على قميصه بدم كذب

(بدم ) كا لفظ ( جاءو ) كے ليے مفعول ہے اور ( على قميصہ ) لفظ ( دم ) كے ليے حال ہے _ لہذا (جاوء ...) كا معنى يہ ہوگا كہ وہ جھوٹے خون كو لائے تھے

۴۰۱

حالانكہ وہ خون قميص كے سامنے والے حصہ پر تھا حالانكہ عموماً زخمى ہونے والے كے لباس كا اندر اور استروالا حصہ خونى ہوتا ہے _ ليكن يوسفعليه‌السلام كے لباس كا اوپر والا حصہ خونى تھا اس سے يعقوب عليہ السلام بھانپ گئے كہ انكا بيٹا بھيڑے كا لقمہ نہيں بنے ہيں _

۵_ برادران يوسف نے يوسف(ع) كى قميص كو جس خون سے رنگين كيا تھا اس خون سے بخوبى معلوم ہوتا تھا كہ يہ جناب يوسف(ع) كا خون نہيں ہے _وجاء و على قميصه بدم كذب

(كذب) مصدر ہے ليكن آيت شريفہ ميں اسم فاعل ( كاذب) كے معنى ميں آيا ہے _ جب مصدر كو اسم فاعل كے معنى ميں استعمال كيا جائے تو مبالغہ كا فائدہ ديتا ہے _ تو ( دم كذب) كا معنى يہ ہوگا كہ ايسے جھوٹ كا خون كہ اسكا جھوٹا ہونا واضح اور وشن تھا_

۶_ برادران يوسف نے ان كى قميص جو كہيں سے بھى پھٹيہوئي نہيں تھى كو دكھا ياتو ان كا جھوٹا دعوى ( كہ يوسفعليه‌السلام كوبھيڑيا كھا گيا ہے ) واضح ہوگيا _وجاء و على قميصه بدم كذب

معمولاً جو شخص درندوں كا لقمہ بنتا ہے اسكا لباس صحيح و سالم نہيں رہتا _ اور زيادہ پھٹنے كى وجہ سے وہ لباس كى ماہيت سے خارج ہوجاتا ہے لہذا (قميص) كالفظ آيت ميں ذكر ہوا جسكو برادران يوسف نے يعقوبعليه‌السلام كو دكھا يا يہ اس بات كى طرف اشارہ كرتا ہے كہ يا تو لباس مكمل طور پرصحيح و سالم تھا يا نسبتاً سالم تھا يہ دوسرى دليل ہوئي كہ برادران يوسف اپنے دعوى ميں سچے نہيں ہيں _

۷_ يعقوب عليہ السلام اپنے بيٹوں كى اس قصّہ بيانى كو قبول نہيں كيا اور اس كے جھوٹے ہونے پر مطمئن ہوگئے _

فأكله الذئب قال بل سؤلت لكم انفسكم امر

(تسويل) ''سوّلت ''كا مصدر ہے جو آسان كرنے كے معنى ميں آتا ہے نيز ناپسند شے كو زينت دينا تا كہ اچھى معلوم ہو يہاں ( امر ) سے مراد يوسفعليه‌السلام كے خلاف مكر وفريب ہے اسى وجہ سے (بل سوّلت ...) كا معنى يوں ہوگا جو بات كہہ رہے ہو وہ درست نہيں ہے _ بلكہ تمہارے نفس نے ناپسند شے كو تمہارے ليےاچھا جلوہ ديا ہے اور اسكا مرتكب ہونا تمہارے ليے آسان ہے _

۸_ يعقوب عليہ السلام كو يوسفعليه‌السلام كے خلاف اپنے بيٹوں كى طرف سے سازش كرنے پر اطمينان تھا _بل سؤلت لكم انفسكم امر

۴۰۲

كلمہ (بل) اس بات كو بتاتا ہے كہ يعقوب عليہ السلام نے اپنے بيٹوں كى بات كو قبول نہيں كيا اور (سوّلت لكم ) كا جملہ بتاتا ہے كہ و ہ يوسف عليہ السلام كے خلاف ان كى سازش كو بھانپ گئے تھے_

۹_ يعقوب عليہ السلام حضرت يوسف(ع) كے خلاف اپنے بيٹوں كى سازش كا سبب ان كے نفس كا فريب اور نفسانيمكاريوں كا جلوہ سمجھتے تھے_بل سوّلت لكم انفسكم أمر

۱۰_ انسان كا نفس، بُرے و نامناسب كاموں كو زيبا ديكھانے اور ان كے انجام دلوانے پر قدرت ركھتا ہے _

بل سوّلت لكم انفسكم امر

۱۱_ يعقوب عليہ السلام نے اس بات كا فيصلہ كرليا كہ وہ اپنے بيٹوں كى اس خيانت پر جو يوسفعليه‌السلام كے بارے ميں تھى پر سكوت اختيار كريں اور اسكى چھان بين نہ كريں _بل سوّلت لكم و الله المستعان على ما تصفون

۱۲_ يعقوبعليه‌السلام نے يوسفعليه‌السلام كى جدائي اور اپنے بيٹوں كى غلط رفتار پر صبر و بردبار رہنے كا فيصلہ كرليا _فصبر جميل

ما قبل جملات كے قرينہ كى بناء پر(صبر ) كا متعلق يوسفعليه‌السلام كى جدائي اور ان كے بيٹوں كا جھوٹے قصّوں كى مناظر كشى اور غلط كام ہيں _

۱۳_ مشكلات اور تلخ ترين واقعات ميں صبر و حوصلہ سے كام لينا اچھى اور قابل تعريف خصلت ہے _ /فصبر جميل

مذكورہ تفسير اس صورت ميں ہے كہ جب لفظ (صبر) مبتدا اور (جميل) اسكى خبر ہے _

۱۴_ يعقوب عليہ السلام كا فراق يوسفعليه‌السلام ميں صبر و حوصلہ كرنا، قابل تعريف و تحسين تھا_فصبر جميل

كيونكہ ( جميل) (صبر) كے ليے صفت ہے تو يہاں مبتدا كو محذوف ليا جائے گا ( صبرى صبر جميل) يا خبر كو محذوف ليا جائے گا ( صبر جميل احسن) مذكورہ معنى اسى احتمال كى صورت ميں ہے _

۱۵_حضرت يعقوب(ع) نے حضرت يوسف(ع) كے بارے ميں اپنے بيٹوں كے اظہار نظر كى حقيقت كو معلوم كرنے كے ليئے خداوند عالم سے مدد طلب كي_والله المستعان على ما تصفون

(وصف) ''تصفون ''كا مصدر ہے جو بيان كرنے كے معنى ميں آتا ہے _ لفظ( ما ) سے مراديوسف(ع) كے بھائيوں كى يوسفعليه‌السلام كے بارے ميں جھوٹى باتيں ہيں ان كى غلط اور غير حقيقت باتوں كے بارے ميں خداوند متعال سے مدد طلب كرنے كا معنى يہ ہے كہ ان باتوں كى حقيقت ظاہر ہوجائے _

۴۰۳

۱۶_ يعقوبعليه‌السلام بہت زيادہ صابر اور موحد شخصيت تھے جو صرف خداوند وحدہ لاشريك كو مدد دينے پر قادر سمجھتے تھے _

والله المستعان على ما تصفون

۱۷_ اپنے امور ميں ضرورى ہے كہ صرف خداوند متعال پر توكل كيا جائے اور اس سے مددحاصل كى جائے_

والله المستعان على ما تصفون

(والله المستعان ) كى مثل جملات ميں مبتداء معرفہ اور اسكى خبر الف لام كے ساتھ غير عہدى ہے اور وہ حصر پر دلالت كرتى ہے _

۱۸_ خداوند متعال پر توكل كرنے والے بہت زيادہ صبر اور مقاومت كرنے والے انسان ہيں _

فصبر جميل والله المستعان على تصفون

۱۹_'' عن ا بى عبدالله عليه‌السلام '' قال لما ا وتى بقميص يوسف الى يعقوب كان به نضح من دم (۱)

ترجمہ : امام صادق(ع) سے روايت ہے كہ جب يعقوبعليه‌السلام كے ليے يوسف(ع) كى قميص لائي گئي تو اس پر خون كے چھينٹے گرائے گئے تھے_

۲۰_'' عن ا بى جعفر عليه‌السلام فى قوله '''' و جاؤ وا على قميصه بدم كذب'' قال: انهم ذبحوا جدياً على قميصه _ (۲)

امام باقرعليه‌السلام سے الله تعالى كے اس قول (جاؤ وا ...) كے بارے ميں روايت ہے : آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ انہوں نے بكرى كے بچے كو انكى قميص پر ذبح كيا تھا_

۲۱_'' عن على بن الحسين عليه‌السلام ... قال (يعقوب لهم ) بل سوّلت لكم ا نفسكم ا مراً و ما كان الله ليطعم لحم يوسف الذئب من قبل ا ن ا رى تا ويل رؤياه الصادقة (۳)

امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے يعقوبعليه‌السلام نے برادران يوسف(ع) سے كہا '' بل سوّلت لكم انفسكم امراً'' اور ايسا نہيں ہوسكتا كہ خداوند متعال يوسف عليہ السلام كے گوشت كو بھيڑے كى خوراك بنا دےقبل اس كے كہميں اسكى خواب كى صحيح تعبير و تاويل ديكھ نہ لوں _

۲۲_ '' عن الصادق عليه‌السلام فى قوله عزّوجل فى قول يعقوب '' فصبر جميل '' قال : بلا شكوى (۴)

____________________

۱) تفسير عياشى ، ج ۲، ص۱۷۱، ح۹، نورالثقلين ، ج۲ ص۴۱۷، ج۲۸_۲) تفسير قمى ، ج۱، ص۳۴۱، نورالثقلين ، ج۲، ص۴۱۷، ح۲۷_

۳) تفسير عياشى ، ج۲، ص۱۶۹، ح۵، تفسير برهان ، ج ۲ص ۲۴۷، ح۵_۴) امالى شيخ طوسى ، ج۱، ص۳۰۰، نور الثقلين ، ج۲، ص ۴۵۲، ح۱۴۷_

۴۰۴

امام صادقعليه‌السلام سے حضرت يعقوبعليه‌السلام كے قول كے بارے ميں خداوند عالم كے اس فرمان (فصبر جميل) كے بارے ميں روايت ہے: اس سے مرادايسا صبر جسميں شكوہ نہ ہو _

الله تعالى :الله تعالى كى مختصّات ۱۶; الله تعالى كى امداد ۱۶

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسفعليه‌السلام اور يعقوبعليه‌السلام ۳;برادران يوسف(ع) اور يوسفعليه‌السلام كى قميص۱، ۳;برادران يوسف(ع) كا جھوٹ بولنا ۷; برادران يوسف كا ناپسند عمل ۱۲; برادران يوسف(ع) كى سازش ۱، ۲، ۳، ۵، ۱۵، ۲۰، ۲۱ ; برادران يوسف كى سازش كے عوامل ۹; برادران يوسف كى ہوا و ہوس ۹، ۱۲;برادران يوسف كے جھوٹ بولنے كى وجوہات ۴، ۵، ۶;

توكلّ:الله تعالى پر توكل كى اہميت ۱۷

روايت : ۱۹، ۲۰، ۲۱، ۲۲/شدّت :شدّت ميں صبر۱۳

صابرين :۱۶، ۱۸/صبر:صبر كى اہميت ۱۳; صبر جميل۱۳; صبر جميل سے مراد۲۲

عمل :ناپسنديدہ عمل كا سبب ، ۱۰; ناپسنديدہ عمل كو خوبصورت پيش كرنے كى وجہ ۱۰

متوكلين :متوكلين كا صبر ۱۸; متوكلين كى خصوصيات ۱۸

موحدين : ۱۶/ہوا و ہوس:ہوا و ہوس كے آثار ۹، ۱۰

يعقوبعليه‌السلام :يعقوب(ع) اور برادران يوسف ۷; يعقوب(ع) اور برادرا ن يوسف كى سازش ۸، ۱۱;يعقوبعليه‌السلام اور حقائق كا ظاہر ہونا ۱۵;يعقوبعليه‌السلام كا اطمينان ۷، ۸; يعقوبعليه‌السلام كا صبر ۱۲، ۱۶، ۲۲; يعقوبعليه‌السلام كا عقيدہ ۱۶;يعقوبعليه‌السلام كا قصّہ ۱۱، ۱۲; يعقوبعليه‌السلام كا فيصلہ ۱۱، ۱۲; يعقوبعليه‌السلام كا مدد طلب كرنا ۱۵;يعقوبعليه‌السلام كى توحيد افعالى ۱۶;يعقوبعليه‌السلام كى سوچ ۹;يعقوبعليه‌السلام كى شخصيت ۱۶;يعقوبعليه‌السلام كے صبر كى تعريف ۱۴; يعقوبعليه‌السلام كے فضائل ۱۶

يوسفعليه‌السلام :

يوسفعليه‌السلام كا بھيڑے كا لقمہ بننا ۴،۶; يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، ۶، ۷، ۸، ۹، ۱۱، ۱۹، ۲۰، ۲۱; يوسف(ع) كى جدائي ميں صبر ۱۲، ۱۴;يوسف(ع) كى قميص ۶; يوسفعليه‌السلام كى قميص كا خون ۲، ۴، ۵، ۱۹، ۲۰;يوسفعليه‌السلام خلاف سازش ۸،۹

۴۰۵

آیت ۱۹

( وَجَاءتْ سَيَّارَةٌ فَأَرْسَلُواْ وَارِدَهُمْ فَأَدْلَى دَلْوَهُ قَالَ يَا بُشْرَى هَـذَا غُلاَمٌ وَأَسَرُّوهُ بِضَاعَةً وَاللّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَعْمَلُونَ )

اور وہاں ايك قافلہ آيا جس كے پانى نكالنے والے نے اپنا ڈول كنويں ميں ڈالا تو آواز دى ارے واہ يہ تو بچہ ہے اور اسے ايك قيمتى سرمايہ سمجھ كر چھپاليا اور اللہ ان كے اعمال سے خوب باخبر ہے (۱۹)

۱_ جس كنويں ميں حضرت يوسفعليه‌السلام تھے اس كے اطراف ميں ايك قافلے نے پڑاؤ ڈالا اور جو پانى لانے پر مامور تھا انہوں نے اسے كنويں كى طرف روانہ كيا_و جاء ت سيّارة فا رسلوا واردهم

'' وارد '' اس شخص كو كہتے ہيں جو كنويں ، نہر اور اس طرح كى جگہوں سے پانيلينےآتا ہے _

۲_ قافلے كا پانى لانے والے نے جب پانى لينے كے ليے كنعان كے كنويں ميں اپنا ڈول ڈالاتو خلاف توقع اس نے ايك بچے كو باہر نكالا_فأدلى دلوه قال يا بشرى هذا غلام

( أدلا ) ا دلى كا مصدر ہے جو ڈول ڈالنے كے معنى ميں آتا ہے _اور ''غلام '' چھوٹے بچے كو كہا جاتا ہے _( مصباح الميز )

۳_ يوسفعليه‌السلام نے قافلہ كے پانى لانے والے كى رسّى و ڈول سے چمٹكراپنے آپ كو كنويں سے نجات دى _

فأرسلوا و اردهم فأدنى دلوه قال يا بشرى هذا غلام

۴_ قافلے كاپانى لانے والا، حضرت يوسفعليه‌السلام كوپاكر بہت متعجب اور خوشحال ہوا اور اپنے ساتھيوں كواسكى خوشخبرى دي_قال يا بشرى هذا غلام

۵_ يوسفعليه‌السلام كو پانے والا قافلہ حضرت يوسف(ع) كو بطور تجارتى سامان اپنے ساتھ لے گيا_و اسرّوه بضعة

(بضاعة) اس مال و اجناس كو كہتے ہيں جو تجارت

۴۰۶

كے ليے ہو تا ہے_

۶_حضرت يوسف(ع) كو پانے والے قافلہ نے ان كو تجارتى سامان قرار دہتے كى وجہ سے چھپانے كى بہرپور كوشش كي_

و اسرّوه بضعة

(اسرّوا) (پوشيدہ و مخفى ركھنا) كے معنى ميں (قرار ينے كا مضى متضمن ہے) اسى وجہ سے لفظ (بضاعة) كو مفعول دوم كے طور پر منصوب كيا گيا ہے_ تو جملے كا معنى يوں ہوگا كہ يوسفعليه‌السلام كو تجارتى سامان بنا كر انكو مخفى ركھا گيا_

۷_ يوسفعليه‌السلام كا كنويں سے نجات پانا، ان كى غلامى كا آغاز تھا_و اسّروه بضعة

انسان كو ( بضاعت) تجارتى سامان قرار دينا ،اس كے غلام ہونے يا غلام خيال كرنے كے مترادف ہے_

۸_حضرت يعقوبعليه‌السلام كے زمانے ميں انسانوں كو غلام كے طور پر خريد و فروخت كا رواج تھا_و أسرّوه بضعة

۹_ خداوند متعال، انسانوں كے اعمال و كردار سے آگاہ ہے_و اللّه عليم بما يعملون

۱۰_ اہل قافلہ، يوسفعليه‌السلام كو غلام بنانے كو غير شرعى اور غير قانونى كام سمجھتے تھے_و أسرّوه بضاعة و اللّه عليم بمايعملون

حالانكہ وہ بچہ جو لا وارث ملا ہو اسكو غلامى ميں لانا اور قابل فروخت قرار دينا جائز اور قانونى كام تھا_لہذايوسفعليه‌السلام كو مخفى ركھنا،معقول نہيں تھا _(ا سرّوه بضاعة)

۱۱_ يوسفعليه‌السلام كو پانے والا قافلہ، ان كو ( خريد و فروخت كا) سامان قرار دينے پر گنہگار اور عذاب الہى كا مستحق قرار پايا_

و أسرّوه بضاعة و اللّه عليم بما يعملون

اس چيز كى ياد آورى كہخداوند متعال، بندوں كے اعمال سے آگاہ ہے ممكن ہے اس كے عذاب دينے كى طرف اشارہ ہو_

۱۲_ يعقوبعليه‌السلام كے زمانہ ميں راستہ سے ملنے والے انسان كى خريد و فروخت، نامناسب اور غير قانونى كام تھا_

و أسرّوه بضاعة

۱۳_ كنعان كے كنويں كے اطراف ميں اہل قافلہ كا كچھ دير كے ليے پڑاؤ ڈالنا اور كنويں سے يوسفعليه‌السلام كو نجات دينا اور اپنے ساتھ لے جانا، مشيت الہى كے مطابق اور اسكى دقيق نظارت ميں انجام پايا _

و جاء ت سيّارة و اللّه عليم بما يعملون

(ما يعملون) ميں ''ما'' سے مراد ممكن ہے يوسف (ع)

۴۰۷

كو خريد و فروخت كا ساما ن قرار دينا ہو (أسرّوه بضاعة ) اور نيز يہ بھى احتمال ہے كہ قافلہ كى تمام داستان جو يوسف(ع) كے بارے ميں ہے وہ مراد ہو_ پہلے احتمال كى بناء پرالله كا علم ان كے اعمال و رفتار كے بارے ميں ( خريد و فروخت كاسامان قرار دينا) انكو سزا دينے كے بارے ميں كنايہ ہے_دوسرے معنى كى صورت ميں علم خدا، اس كى تقدير و تدبير سے كنايہ ہے _ يعنى تمام امور جو يوسفعليه‌السلام كو كنويں سے نجات دينے كاسبب ہوئے ( كنعان كے اطراف ميں قافلے كا گزرنا ، كنويں كے قريب پڑاؤ ڈالنا ...) تمام كے تمام امورالله تعالى كى نظارت و نگرانى ميں واقع ہوئے_

الله تعالى :الله تعالى كا علم غيب ۹; الله تعالى كى تقدير ۱۳; الله تعالى كى نظارت ۱۳

اسماء و صفات :عليم ۹

غلامى كا نظام :غلامى كے نظام كى تاريخ ۸; يعقوبعليه‌السلام كے زمانے ميں غلامى كا نظام ۸

گمشدہ (انسان ) كى دريافت :گمشدہ انسان كى تجارت كا ناپسنديدہ ہونا ۱۲; يعقوبعليه‌السلام زمانہ ميں گمشدہ انسان كى تجارت ۱۲

يوسفعليه‌السلام كو پانے والا قافلہ:يوسفعليه‌السلام كو پالينے والا قافلہ اور يوسفعليه‌السلام ۵، ۶، ۱۰، ۱۱;يوسفعليه‌السلام كو پانے والے قافلے كا پڑاؤ ۱۳; يوسفعليه‌السلام كو پانے والے قافلے كاساقى ۱; يوسفعليه‌السلام كو پانے والے قافلے كو بشارت۴;يوسفعليه‌السلام كو پانے والے قافلے كے ساقى كى بشارت ۴; يوسفعليه‌السلام كو پالينے والے قافلے كى سزا،۱۱;يوسف(ع) كو پالينے والے قافلے كے ساقى كى خوشى ۴; يوسفعليه‌السلام كے پانے والے قافلے كى فكر ۱۰

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام كا چھپانا ۶; يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، ۶ ، ۷، ۱۳; يوسفعليه‌السلام كى غلامى ۷، ۱۰;يوسفعليه‌السلام كى كنويں سے نجات ۲، ۳، ۷، ۱۳;يوسفعليه‌السلام كے كنويں كا قصّہ ۱

۴۰۸

آیت ۲۰

( وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُودَةٍ وَكَانُواْ فِيهِ مِنَ الزَّاهِدِينَ )

اور ان لوگوں نے يوسف كو معمولى قيمت پر بيچ ڈالا چند درہم كے عوض اور وہ لوگ تو ان سے بيزار تھے ہي(۲۰)

۱_ يوسفعليه‌السلام كو اہل قافلہ نے بہت ہى ناچيز اور كم درہموں ميں فروخت كرديا_و شروه بثمن بخس دراهم معدودة

(شرائ) (شروا) كا مصدر ہے فروخت كرنے كے معنى ميں آتا ہے_ اور (شروہ) ميں فاعل كى ضمير (سيّارة) كى طرف لوٹتى ہے (بخس ) مصدر ہے جو اسم مفعول كے معنى ميں ہے_( مبخوس _ ناقص اور ناچيز)كے معنى ميں ہے ( ثمن بخس) يعنى جس قيمت سے خريدارى كى گئي ہے وہ شے ارزش كے اعتبار سے اس سے زيادہ ہو (معدودة) كا معنى شمار كيا گيا ہےيہاں بہت كم ہونے سے كنايہ ہے_

۲_ تمام اہل قافلہ خود كو يوسفعليه‌السلام كى نسبت صاحب نفع خيال كرتے تھے اور اپنے آپ كو اسكا مالك سمجھتے تھے_

اسرّوه بضاعة و شروه بثمن

يوسفعليه‌السلام كو تجارتى سامان قرار دينے اور انہيں فروخت كرنے كى نسبت قافلہ كيطرف دى گئي ہے اس سے مذكورہ تفسير كا استفادہ ہو تاہے_

۳_ اہل قافلہ جنہوں نے يوسفعليه‌السلام كوپاياتھا ان كو اپنے پاس ركھنے ميں كوئي دلچسپى نہيں ركھتے تھے_

شروه و كانوا فيه من الزاهدين

(زہد) كسى شے كو بے فائدہ سمجھ كر اسكى طرف رغبت نہ ركھنے كو كہتے ہيں _ شايد اہل قافلہ كو خوف تھاكہ لا وارث انسان كو غلام بناناايك نامناسب رويہ ہے اور يہ لوگوں پر فاش نہ ہوجائے_ اس وجہ سے انہوں نے اس كے ليے بہت ہى كم قيمت قراردى تا كہ جلدى ہى فروخت ہوجائے_

۴_ اہل قافلہ كا يوسفعليه‌السلام كى فروخت ميں جلدى كرنا اور ان كى نگہداشت ميں بے توجہى كا اظہار كرنا، انكو كم قيمت فروخت كرنے كا سبب تھا_و شروه بثمن بخس و كانوا فيه من الزاهدين

۴۰۹

(و كانوا ) كا جملہ (شروه بثمن بخس ) كے جملے كى تعليل كے مقام پرہے _ يعنى يوسفعليه‌السلام كو اپنے پاس ركھنے ميں ان كى دلچسپى نہ لينا ، ان كو كم قيمت فروخت كرنے كا موجب تھي_

۵_ يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں نے اسكو بہت ہى كم درہم اور ناچيز سى قيمت اہل قافلہ كو فروخت كرديا_

و شروه بثمن بخس

مذكورہ تفسير اس صورت ميں ہوسكتى ہے كہ(شروہ) كے فاعل كى ضمير سے مراد برادران يوسف ہوں اس بناء پر يوسفعليه‌السلام كے بھائي فروخت كرنے والے اور اہل قافلہ اس كے خريدارتھے_ عبارت(الذى اشتراہ من مصر)بعد والى آيت ميں ممكن ہے اس بات كى تائيد كرتى ہوچونكہ مصر ميں يوسفعليه‌السلام كى خريد و فروخت سے پہلے بھى ان كى ايك مرتبہ خريد و فروخت ہوچكى ہے_

۶_ يوسف(ع) ، اپنے بھائيوں كى نظر ميں بے قيمت اور كم ارزش تھے_و كانوا فيه من الزاهدين

(كانوا) كى ضمير مذكورہ معنى كى صورت ميں برادران يوسفعليه‌السلام كى طرف لوٹ رہى ہے _

۷_ يعقوبعليه‌السلام كے زمانے ميں انسانوں كى غلامى كا اور انكى خريد و فروخت كا كام رائج تھا_و شروه بثمن بخس

۸_ يعقوبعليه‌السلام كے زمانے ميں درہم ( چاندى كا سكہ) رائج كرنسى تھي_دراهم معدودة

۹_'' عن على ابن الحسين عليه‌السلام : فلما ا خرجوه ا قبل إليهم إخوة يوسف فقالوا هذا عبدنا ا منكم من يشترى هذا العبد؟ فاشتراه رجل منهم بعشرين درهماً و كان اخوته فيه من الزاهدين (۱)

امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے كہ جب قافلے والوں نے يوسفعليه‌السلام كوكنويں سے باہر نكالا تو اس كے بھائي ان كے قريب گئے اور ان سے كہا : كہ يہ ہمارا غلام ہے كيا كوئي تم ميں سے ايسا ہے جو اسكو خريدے؟ تو اس وقت ايك شخص نے ان سے بيس درہم ميں خريد ليا اور حضرتعليه‌السلام كے بھائي ان ميں كوئي دلچسپى نہيں لے رہے تھے_

برادران يوسف(ع) :برادران يوسف(ع) اور يوسفعليه‌السلام ۵، ۶; برادران يوسف(ع) كى فكر ۶

درہم :يعقوبعليه‌السلام كے زمانے ميں درہم كا ہونا ۸

____________________

۱)علل الشرائع ، ص ۴۸، ح ۱ ، ب ۴۱; نور الثقلين ، ج ۲، ص ۴۱۳، ح ۱۷_

۴۱۰

روايت : ۹

غلام ركھنا :غلام ركھنے كى تاريخ ۷; يعقوبعليه‌السلام كے زمانے ميں غلام كا ركھنا ۷

كرنسى :كرنسى كى تاريخ ۸; يعقوبعليه‌السلام كے زمانے ميں رائج كرنسى ۸

يوسفعليه‌السلام كو پانے والا قافلہ :يوسفعليه‌السلام كو پانے والا قافلہ اور يوسفعليه‌السلام ۱، ۲، ۳، ۴; يوسفعليه‌السلام كو پانے والے قافلہ كا دعوى ۲

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام سے بے توجہى ۳، ۴، ۹; يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، ۶، ۹;يوسفعليه‌السلام كى فروخت ۱، ۴، ۵، ۹; يوسفعليه‌السلام كى ملكيت كا دعوى ۲

آیت ۲۱

( وَقَالَ الَّذِي اشْتَرَاهُ مِن مِّصْرَ لاِمْرَأَتِهِ أَكْرِمِي مَثْوَاهُ عَسَى أَن يَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَداً وَكَذَلِكَ مَكَّنِّا لِيُوسُفَ فِي الأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُ مِن تَأْوِيلِ الأَحَادِيثِ وَاللّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ )

اور مصر كے جس شخص نے انھيں ۱_خريد اتھا اس نے اپنى بيوى سے كہا كہ اسے عزت و احترام كے ساتھ ركھو شايد يہ ہميں كوئي فائدہ پہنچائے يا ہم اسے اپنا فرزند بناليں اور اس طرح ہم نے يوسف كو زمين ميں اقتدار ديا اور تا كہ اس طرح انھيں خوابوں كى تعبير كا علم سكھائيں اور اللہ اپنے كام پر غلبہ ركھنے والا ہے يہ اور بات ہے كہ اكثر لوگوں كو اس كا علم نہيں ہے (۲۱)

۱_ يوسفعليه‌السلام كو پانے والا قافلہ مصر ميں داخل ہوا اور اسى ہى ديار ميں اسكو فروخت كرديا_

و شروه بثمن و قال الذى اشترىه من مصر

۲_ عزيز مصر نے مصر ميں قافلے والوں سے يوسفعليه‌السلام كو خريدليا _و قال الذى اشترىه من مصر

(من مصر)كے بارے ميں احتمال ہے كہ(اشتراہ ) كے متعلق ہو اور يہ بھى احتمال ہے كہ ( الذى اشتراہ ) كے ليے حال ہو _ ليكن مذكورہ بالا تفسير احتمال اول كى صورت ميں ممكن ہے اور بعد ميں آنے والى آيات اس بات كو بيان كر رہى ہيں كہ (الذى اشتراہ ) سے مراد عزيز مصر ہے_

۴۱۱

۳_ يوسفعليه‌السلام كا خريدار (زليخا كا شوہر) مصرى شہرى تھا_و قال الذى اشترى ه من مصر

مذكورہ تفسير اس صورت ميں ہے كہ جب (من مصر) كا متعلق محذوف ہواورجملہ ( الذى اشتراہ ) كے ليے صفت ہو يعنى جملہ يوں ہو گا _ (قال الذى اشتراہ و ہو من اہل مصر ) اس نے كہا جس نے اسكو خريدا درحالا نكہ وہ اہل مصر ميں سے تھا_

۴_ زليخا كا شوہر، يوسفعليه‌السلام كو خريدتے وقت ( عزيزى ) كے مرتبے پر نہيں تھا_و قال الذى اشترىه من مصر

خريدار يوسفعليه‌السلام كو عزيز مصر كے( قرآن مجيد) عنوان سے ياد نہ كرنا،ممكن ہے مذكورہ تفسير كى طرف اشارہ ہو_

۵_ عزيز مصر ،نے يوسفعليه‌السلام كو خريدتے وقت ان كى بلند شخصيت اور مقام والاسے اطمينان حاصل كرليا _

لا مرأته أكرمى مثوىه عسى أن ينفعن

۶_ عزيز مصر چاہتا تھا كہ يوسفعليه‌السلام سے اپنے كاموں كے ليے استفادہ كرے يا اسكو اپنے اور اپنى بيوى كى فرزندى ميں لے آئے_قال الذى أكرمى مثوى ه عسى أن ينفعنا أو نتخذه ولد

۷_ عزيز مصر نے يوسفعليه‌السلام كى مدد اور اسكو اپنى فرزندى ميں لانے كا سبب اپنى اور اپنى بيوى زليخا كى اس سے محبت كو قرارديا_أكرمى مثوى ه عسى أن ينفعنا أو نتخذه ولد

جملہ ( عسى ) جملہ ( اكرمى مثواہ) كے ليے علت ہے _ تو جملے كا معنى يوں ہوگا _ كہ ميں تم سے يہ چاہتا ہوں كہ تم اسكا احترام كرو تا كہ وہ ہم سے محبت كرنے لگے تا كہ اسكى مدد سے ہم اپنے دل كو بہلائيں يا يہ كہ اسكو منہ بولا بيٹا بنا نے ميں كامياب ہوجائيں _

۸_ عزيز مصر نے يوسفعليه‌السلام كے كاموں كو اپنى بيوى زليخا كے سپرد كيا اور اس سے كہا كہ انكا احترام كرے اور ان كے مقام و مرتبے كا خيال ركھے_لا مرأته أكرمى مثوىه

(مثوى ) اسم مكان ہے جو گھر يا رہائش گاہ كے معنى ميں آتا ہے _( اكرمى مثواہ ) يعنى اس كى منزل ومقام كا احترام كرو_ گھر اور رہائش گاہ كے مناسب و اچھے ہونے پر تاكيد بتاتى ہے كہ اصل ميں اس شخص كى تعظيم ہے جو اس جگہ رہائش پذير ہے_

۹_ عزيز مصر اور اسكى بيوى زليخااولاد كى نعمت سے محروم تھے_أو نتخذه ولد

معمولاً وہ لوگ جو اولاد نہيں ركھتے، وہى كسى كو اپنى اولاد قرار ديتے ہيں اوراسوجہ سے جملہ ( نتخذہ ولداً) مذكورہ بالا معنى كى

۴۱۲

طرف ممكن ہے اشارہ ہو اور يوسفعليه‌السلام كو اپنى فرزندى ميں لانے كا بيان كلمہ (عسى ) سے ظاہر ہوتا ہے جو اس احتمال پر تاكيد كررہا ہے_

۱۰_ كسى شخص كو فرزند (منہ بولا بيٹے) كے طور پر انتخاب كرنا، يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں متداول امر تھا اور قديم مصر ميں اسكى قانونى حيثيت تھى _أو نتخذه ولد

۱۱_ خداوند متعال نے يوسفعليه‌السلام كو عزيز مصر كے گھرانے ميں داخل كر كے يوسفعليه‌السلام كے ليے اس سرزمين مصر ميں بانفوذ اور قدرتمند ہونے كے راستہ كو ہموار كيا_و كذلك مكّنا ليوسف فى الأرض

(الأرض) سے مراد مصر كى سرزمين ہے_ ''تمكين '' ''مكنّا ''كا مصدر ہے جو مكان و جگہ دينے كے معنى ميں آتا ہے _ نيز قدرت اور سلطنت عطا كرنے كے معنى ميں آتا ہے (فى الأرض)كى قيد اس بات كو بتاتى ہے كہ آيت شريفہ ميں (مكنّا) سے دوسرا معنى مراد ہے_

۱۲_ عزيز مصر كے گھر، يوسفعليه‌السلام آرام و آسائش ميں تھے_كذّلك مكنّا ليوسف فى الأرض

۱۴_ يوسفعليه‌السلام كا عزيز مصر كے گھر ميں داخل ہونا، خداوند متعال كے انكے بارے ميں وعدوں كے پورا ہونے كا پيش خيمہ تھا_و كذلك مكّنا ليوسف فى الا رض و لنعلّمه من تا ويل الاحاديث

(لنعلّمہ) كا ايك مقدر كلام پر عطف ہے يعنى''مكنّاليوسف لنفعل كذا و لنعلّمه '' لنفعل كذا سے مراد وہ امور تھے جنكو حضرت يوسفعليه‌السلام كے قصے كے شروع ميں خداوند عالم نے بيان فرمايا تھا مثلا (رأيتهم لى ساجدين ) و(كذلك يجتبيك ربك ...)

۱۵_ خداوند متعال، يوسفعليه‌السلام كو خوابوں كى تعبير اور واقعات كى تفسير و تحليل كا سكھانے والا ہے_

و لنعلّمه من تأويل الاحاديث

۱۶_ خوابوں كيتعبير اور واقعات كى تفسير وتحليل كى تعليم ، يوسفعليه‌السلام كو عزيز مصر كے گھر ميں لے جانے كى تقدير الہى كى خاطر تھا_كذلك مكنا ليوسف فى الا رض و لنعلّمه من تا ويل الأحاديث

(لام)'' لنعلمہ'' ميں غايت كے ليے ہے اور متعلق كى غرض و ہدف كو بيان كرتا تھا_

۱۷_ تعبير خواب كا علم اور آنے والے واقعات كى تحليل كرنے پرقدرت، خداوند متعال كى نعمتوں ميں سے ہے_

۴۱۳

كذلك و لنعلّمه من تأويل الاحاديث

۱۸_آنے والے واقعات كى تاريخ اور انكا انجام پذير ہونا ، تقدير الہى اور اس كے قدرت اور اختيار ميں ہے_

و قال الذى اشترىه و كذلك مكّنا ليوسف فى الأرض

۱۹_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى تعبير و تا ويل خواب اور آنے والے حالات كى تحليل كا علم ،مطلق و لا محدود علم تھا_و لنعلّمه من تأويل الاحاديث/ مذكورہ بالا تفسير كا حرف (من) جو كہ تبعيض كے ليے ہے سے استفادہ ہوتا ہے _ لہذا( ولنعلّمہ ...) كا معنى يوں ہوگا _ كچھ آنے والے حوادث و واقعات كى تحليل اور تاويل يا كچھ خوابوں كى تعبير كو ان كو سكھا ئيں _

۲۰_ آنے والے حالات اور آئندہ كے ماجروں كى تحليل و تاويل اور خوابوں كى تعبير كا علم ،بہت اہميت والا اور قيمتى ہے_و كذلك مكنا ليوسف فى الارض و لنعلّمه من تأويل الاحاديث

۲۱_ خداوند متعال اپنى مشيت اور ارادوں كو انجام دينے پر قادر ہے _والله غالب على ا مره

(أمرہ ) كى ضمير ( الله ) كى طرف لوٹنى ہے _ امر الہى سے مراد وہ كام ہيں كہ جن سے ارادہ الہى اور مشيت خداوند ى اس كے تحقق اور انجام دينے كے ساتھ تعلق ركھتى ہے _

۲۲_ كوئي شے اور كوئي ذات،ارادہ الہى كو روكنے كى طاقت نہيں ركھتى _والله غالب على أمره

۲۳_ يوسفعليه‌السلام كى زندگى كے حوادث و واقعات فرمان و تدبر الہى سے وجود ميں آئے ہيں _

و كذلك مكنّا ليوسف فى الا رض والله غالب على ا مره

(أمرہ ) كے مصاديق ( كذلك مكنّا ليوسف) كے جملے كے قرينے سے يوسفعليه‌السلام كے امور كى تدبير ہے _ بعض مفسّرين نے (أمرہ ) كى ضمير كو يوسفعليه‌السلام كى طرف پلٹايا ہے اس صورت ميں جملہ ( والله غالب على امرہ) كا معنى يہ ہوگا ( كہ خداوند متعال يوسفعليه‌السلام كے امور پر غالب ہے اور اس كے امور كے نظم و ترتيب ميں اسى كا اختيار ہے ) _ مذكورہ بالاتفسير ميں كچھ زيادہ ہى وضاحت ہے_

۲۴_ لوگوں كى اكثريت اس بات سے ناگاہ ہے كہ تمام امور، خداوند عالم كى تدبير كے مطابق انجام پاتے ہيں اور وہ اپنى مشيت كے تحقق پر قادر ہے نيز تمام افراد اس كے مقابلہ ميں عاجز و ناتواں ہيں _

والله غالب على ا مره و لكنّ ا كثر النّاس لا يعلمون

۴۱۴

اكثريت:اكثريت كا جہل ۲۴

الله تعالى :الله تعالى كا ارادہ حتمى ہونا ۲۲;الله تعالى كى تعليمات ۱۵، ۱۶;الله تعالى كى تقدير و مقدرات ۱۶ ، ۱۸; الله تعالى كى ربوبيت ۲۳، ۲۴;الله تعالى كى ربوبيت كے آثار ۱۸;الله تعالى كى قدرت ۲۱، ۲۴ ; الله تعالى كى مشيت ۲۱، ۲۴;الله تعالى كى مشيت كا حتمى ہونا ۲۲;الله تعالى كى نعمتيں ۱۳، ۱۷ ; الله تعالى كے ارادے كے تحقق كا پيش خيمہ ۱۴;الله تعالى كے افعال ۱۱، الله تعالى كے اوامر ۲۳

انسان :انسانوں كا عجز ۲۴//تاريخ :تاريخ ميں تبديلى كا سبب ۱۸//زليخا:زليخا اور يوسفعليه‌السلام ۷، ۸ ; زليخا كالاولد ہونا ۹

عزيز مصر :عزيز مصر اور يوسفعليه‌السلام ۲، ۶،۸;عزيز مصر اور يوسفعليه‌السلام كے درجات ۵; عزيز مصر كا بے اولاد ہونا ۹;عزيز مصر كى خواہشات ۸;عزيز مصركى قوميت ۳;عزيز مصر يوسفعليه‌السلام كى خريدارى كے وقت ۴

علم و دانش :آئندہ واقعات كى تحليل كے علم و دانش كى اہميت ۲۰;خوابوں كى تعبيركے علم و دانش كى اہميت ۲۰; علم و دانش كى قيمتى ہونا۲۰

قديمى و تاريخى مصر :قديمى و تاريخى مصر ميں منہ بولا بيٹا۱۰

منہ بولا بيٹا:منہ بولا بيٹا بنانے كى تاريخ ۱۰; منہ بولا بيٹا يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں ۱۰

موجودات:موجودات كا عاجز ہونا ۲۲

نعمت :آسائش كى نعمت ۱۳;آئندہ كے واقعات كى تحليل كے علم كى نعمت ۱۷; تعبير خواب كے علم كى نعمت ۱۷; قدرت كى نعمت ۱۳

يوسفعليه‌السلام :يوسف(ع) ، عزيز مصر كے گھر ميں ۱۲، ۱۴، ۱۶; يوسفعليه‌السلام كا احترام ۸;يوسفعليه‌السلام كا خريدار ۲; يوسفعليه‌السلام كا علم محدود ہونا ۱۹;يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۳، ۶، ۷، ۸، ۱۱، ۱۲، ۱۴ ;يوسفعليه‌السلام كا مدبّر ۲۳; يوسفعليه‌السلام كا معلّم ۱۵، ۱۶; يوسفعليه‌السلام كو آئندہ كے واقعات كى تحليل كا علم ۱۵، ۱۶ ، ۱۹;يوسفعليه‌السلام كو خوابوں كى تعبير كا علم ۱۵، ۱۶، ۱۹; يوسفعليه‌السلام كو منہ بولابيٹا بنانا ۶،۷;يوسفعليه‌السلام كى آسائش ۱۲; يوسفعليه‌السلام كى حكومت كا پيش خيمہ ۱۱; يوسفعليه‌السلام كى فروخت ۱;يوسفعليه‌السلام كے اقتدار كا پيش خيمہ ۱۱; يوسفعليه‌السلام كے چناؤ كا سبب ۱۴;يوسف(ع) كے خريدار كى قوميت ۳;يوسفعليه‌السلام مصر ميں ۱، ۲، ۱۱

۴۱۵

آیت ۲۲

( وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَيْنَاهُ حُكْماً وَعِلْماً وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ )

اور جب يوسف اپنى جوانى كى عمر كو پہنچے تو ہم نے انھيں حكم اور علم عطا كرديا كہ ہم اسى طرح نيك عمل كرنے والوں كو جزا ديا كرتے ہيں (۲۲)

۱_ يوسفعليه‌السلام نے اپنے بچپن اور نوجوانى كے ايّام، عزيز مصر كے گھر ميں گذارے يہاں تك كہ جوان ہوئے اور جسمانى اور عقلى بلوغ تك پہنچے_

كلمہ (اشدّ) جسطرح لسان العرب نے سبويہ سے نقلكيا ہے (شدّة)كى جمع ہے جو (طاقت و قدرت ) كے معنى ميں ہےلہذا (أشدّ) سے مراد مختلف طاقتيں ہيں جو مقام كى مناسبت سے جسمانى و عقلى طاقت كو شامل ہيں _

۲_ يوسفعليه‌السلام جب جوانى كى عمر ميں پہنچے تو جسمانى و ذہنى ترقى كے ساتھ ساتھ بلند حكمت اور وسيع علم كے حامل ہوگئے_

ولّما بلغ أشدّه اتيناه حكماً و علما

(حكماً) اور (علماً ) كے الفاظ كا نكرہ استعمال كرنا، اس حكمت و علم كى عظمت كو بتاتا ہے جو خداوند عالم نے حضرت يوسفعليه‌السلام كو عطاكى تھي_ اور (اتي) فعلكو (نا ) كى ضمير متكلم كى طرف اسناد دينا، اس حقيقت كى تائيد كرتى ہے اور يہ جو خداوند متعال نے زليخا كى يوسف(ع) كے ساتھ مكارى كى داستان كو بيان كرنے سے پہلے ان كے علم و حكمت كو بيان كياہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ يوسفعليه‌السلام زمانہ جوانى ميں علم و حكمت كے مالك تھے_اسى وجہ سے يہ احتمال نہيں ديا جاسكتا كہ زليخا كى يوسف(ع) سے داستان جوانى كے گزرنے كے بعد ہوئي ہو يعنى حضرت اسوقت مثلا تئيس يا چاليس سال كے ہوں _

۳_ خداوند متعال ہى يوسفعليه‌السلام كوحكمت و علم كا عطا كرنے والا ہے _أتيناه حكماً و علما

۴_ حضرت يوسفعليه‌السلام جوانى ہى ميں لوگوں كے درميان فيصلہ اور قضاوت كرنے كى قدرت ركھتے تھے _

ولّما بلغ أشدّه أتيناه حكماً و علم

۴۱۶

بعض مفسرين نے (حكم ) سے مراد معارف الہى كا علم، احكام شريعت،حكمت،اور لوگوں كے درميان قضاوت كا معنى بيان كيا ہے اور (علم ) سے مراد تعبير خواب سے آگاہى ، آئندہ حوادث و واقعات كى تحليل اورمصالح و مفاسد كى شناخت قرار دياہے _

۵_ يوسفعليه‌السلام كا سن رشد ميں پہنچنا، علم و حكمت كے حامل ہونے كا سبب تھا_ولّما بلغ أشدّه اتيناه حكماً و علما

۶_ يوسفعليه‌السلام جوانى كى عمراور رشدكے مقام پر پہنچنے كے بعد مقام نبوت پر فائز ہوئے_ولّما بلغ أشدّه اتيناه حكماً و علما

مذكورہ معنى اس صورت ميں ہے كہ بعض مفسرين نے (حكم ) سے مراد مقام نبوت اور (علم ) سے مراد شريعت كا علم بيانكيا ہے _

۷_ مقام نبوت تك پہنچنے كے ليے اسكى صلاحيت اور سبب كى ضرورت ہوتى ہے _ولّما بلغ أشدّه اتيناه حكماً و علم

۸_ يوسفعليه‌السلام نيك لوگوں كا واضح و روشن نمونہ تھے _و كذلك نجزى المحسنين

۹_ يوسف(ع) كا حكمت اور علم سے بہرہ مند ہونا، خداوند متعال كى طرف سے انكے نيك كاموں كى جزاء تھي_

(جزاء) (نجزى ) كا مصدر ہے _ جسكا معنى جزاء و سزا ہے _

۱۰_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے نيك كام، ان كے مقام نبوت پر فائز ہونے كا سبب بنے _

أتيناه حكماً و علماً و كذلك نجزى المحسنين

۱۱_ احسان او ر نيكى كرنا، علم و حكمت سے بہرمند ہونے كاسبب ہے_أتيناه حكماً و علماً و كذلك نجزى المحسنين

۱۲_ نيك لوگوں كوجزاء عطا كرنا اور ان كو علم و حكمت سے بہرہ مند كرنا، سنت الہى ہے _

أتيناه حكماً و علماً و كذلك نجزى المحسنين

( كذلك نجزى المحسنين) ميں (نجزي)فعل مضارع ہے جواستمرار سے حكايت كرتا ہے _ اور تفسير ميں اس سے سنت كا معنى كيا گيا ہے _

۱۳_ نيك لوگوں كو الله تعالى دنيا ميں بھى جزاء ديتا ہے _أتيناه حكماً و علماً و كذلك نجزى المحسنين

احسان :احسان كے آثار ۱۱; احسان كى اہميت ۱۰، ۱۱، ۱۲

الله تعالى :الله تعالى كى جزاء ۹، ۱۳; الله تعالى كى سنت ۱۲; الله تعالى كى عطا ۳

۴۱۷

الله تعالى كى سنتيں :جزاء دينے كى سنت ۱۲; سزا دينے كى سنت ۱۲

حكمت :حكمت كا سبب ۱۱//صلاحيتيں :صلاحيتوكا فائدہ ۷//علم :علم كا سبب۱۱

محسنين :محسنين كا علم ۱۲; محسنين كى جزاء ۹، ۱۲; محسنين كى حكمت ۱۲;محسنين كى دنيا ميں جزاء ۱۳

نبوت :نبوت كا جوانى ميں عطا ہونا ۶;نبوت كے شرائط ۷

يوسفعليه‌السلام :يوسفعليه‌السلام پر احسان كے آثار ۱۰; يوسفعليه‌السلام كا بچپنا ۱;يوسفعليه‌السلام كا رشد ۱، ۲، ۶; يوسفعليه‌السلام كا عزيز مصر كے گھر ميں ہونا ۱;يوسفعليه‌السلام كا علم ۲،۹ ; يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۴;يوسفعليه‌السلام كا محسنين سے ہونا ۸;يوسفعليه‌السلام كواحسان كى جزاء ۹;يوسفعليه‌السلام كى جوانى ۲، ۴، ۶; يوسفعليه‌السلام كى حكمت ۲، ۹;يوسفعليه‌السلام كى حكمت كا سبب ۵ ; يوسفعليه‌السلام كى حكمت كا سبب ۳;يوسفعليه‌السلام كى زندگى كے مراحل ۱;يوسفعليه‌السلام كى قضاوت ۴;يوسفعليه‌السلام كى نبوت ۶;يوسفعليه‌السلام كى نبوت كے اسباب ۱۰;يوسفعليه‌السلام كى نوجوانى ۱;يوسفعليه‌السلام كے علم كا سبب ۱ ;يوسفعليه‌السلام كے فضائل ۲، ۴ ;يوسفعليه‌السلام كے مقامات ۶; يوسفعليه‌السلام ميں رشد كے آثار ۵; يوسفعليه‌السلام ميں علم كا سبب ۵

آیت ۲۳

( وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَن نَّفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ قَالَ مَعَاذَ اللّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ إِنَّهُ لاَ يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ )

اور اس نے ان سے اظہار محبت كيا جس كے گھر ميں يوسف رہتے تھے اور دروازے بند كردئے ۱_اور كہنے لگى لوآئو يوسف نے كہا كہ معاذ اللہ وہ ميرا مالك ہے اس نے مجھے اچھى طرح ركھا ہے اور ظلم كرنے والے كبھى كامياب نہيں ہوتے (۲۳)

۱_ زليخا ،حضرت يوسف(ع) كى عاشق ہوگئي _و راودته التى هو فى بيتها و غلّقت الابواب

۲_ زليخا، حضرت يوسفعليه‌السلام سے اپنے عشق و محبت كا اظہار كر كے انہيں اپنے ساتھ وصال كى دعوت ديتى تھي_و راودته التى هو فى بيتهاعن نفسه

(مراودة ) (راودت) كا مصدر ہے _ جسكا معنى نرم لہجے ميں درخواست كرنا ہے (عن نفسہ) درخواست كے موردكو بتاتا ہےاسى وجہ سے (راودتہ ...) كا معنى يوں ہوا كہ زليخا نے بہت ہى نرم لہجے ميں يوسفعليه‌السلام سے اپنى محبت و عشق كا اظہار كركے اس سے خواہش كى كہ اپنے آپ كو ميرے اختيار ميں دے دے_ يہ ملنے اور وصال كرنے كے تقاضا سے كنايہ ہے

۴۱۸

۳_ زليخا اپنے مقصد كے حصول كے ليے حضرت يوسف(ع) كو ہميشہ اپنا ہم فكربنانےكے ليے مسلسل كوشش و سعيكرتى رہى _وراودته التى هو فى بيتها عن نفسه

مذكورہ بالا معنى اس صورت ميں ہے كہ جب (راد يرود) ( كہ مراود بھى اسى سے ہے) كے ساتھ جيسا كہ بعض اہل لضت نے كہا ہے اپنے مطلوب تك پہنچے كے ليے مسلسل كوشش و سعى كرنے كى قيد بھى ہو_

۴_ حضر ت يوسف(ع) مسلسل زليخا كى اس خواہش (وصال اور ہمبسترى كرنے) سے اجتناب كرتے رہے _

وراودته التى هو فى بيتها عن نفسه

بعض اہل لغت نے (مراودة) كے معنى ميں دو طرف كى كشمكش اور جھگڑے كو قيد قرارد ديا ہے_ اور انہوں نے كہا ہے كہ ( مراودة) كا معنى يہ ہے كہ دوميں سے ايك كسى شے كو چاہتا ہو اوردوسرا كسى اور شے كو چاہتا ہو _مذكورہ معنى بھى اسى صورت ميں كيا گيا ہے _

۵_ زليخا ،حضرت يوسفعليه‌السلام پر ظاہرى تسلط كواپنى خواہشات پورے كرنے كے ليے انہيں آمادہ كرنے كے ليے كارآمد سمجھتى تھى _

قرآن مجيد نے زليخا كو اس طرح بيان كيا ہے (التى ہو فى بيتہا ) وہ عورت كہ جس كے گھر ميں يوسفعليه‌السلام رہتے تھے) اس طرح سے زليخا كى صفت بيان كرنا يوسفعليه‌السلام پر زليخا كے تسلط كو بتا رہا ہے_

۶_ زليخا، نے حضرت يوسف(ع) سے كام لينے اور اس كے ساتھ وصال كرنے كے ليے اپنے محل كے دروازوں كو تالہ لگاديا اور انہيں اپنے پاس بلايا _راودته وغلّقت الا بواب و قالت هيت لك

(تغليق) ''غلّقت'' كا مصدر ہے _ تالہ لگانے كے معنى ميں آتا ہے (ہيت لك ) اسم فعل امر ہے _ جو (تم آؤ) كے معنى ميں آتا ہے _

۷_ زليخا كا محل ، مجلل اور شأن والا تھا اور اسميں بہت زيادہ دروازے تھے_و غلّقت الا بواب

(غلّقت الابواب ) باب تفعيل ہے دروازوں كے بند كرنے كے لئے بات تفعيل كو ذكر كرنا ممكن ہے شدّت مبالغہ كو بتاتا ہو _ يعنى دروازوں كو تالہ لگايا ور ان كے اندر والے حصوں كو محكم طريقے

۴۱۹

سے بند كيا اور يہ بات ممكن ہے دروازوں كى كثرت پر دلالت كرے_ مذكورہ بالا تفسير اسى دوسرے معنى كى صورت ميں ہے _

۸_ زليخا، نے حضرت يوسفعليه‌السلام سے اپنا كام حاصل كرنے كے ليے سہولتيں اور تمام شرائط كوفراہم كيا تھا_

روادته و غلّقت الابواب وقالت هيت لك

۹_ حضرت يوسف(ع) ، نے زليخا كے ظاہرى تسلط اور تمام شرائط مہيا ہونے كے باوجود بھى اسكى خواہش كو قبول نہيں كيا اور اس كے سامنے تسليم نہيں ہوئے_راودته وقالت هيت لك قال معاذ الله

(معاذ) مصدر اور مفعول مطلق ہے فعلمقدر كے ليے جو ''اعوذ'' ہے يعنى (أعوذ بالله معاذ)_

۱۰_ يوسف عليہ السلام شہوت رانى كے تمام وسائل فراہم ہونے كے باوجود ( يعنى زليخا كى خواہش اور اسكا اپنى مرضى كا اظہار كرنا ،محل كا خالى اوردروازوں كا بند ہونا ) بھى خدا كى پناہ مانگى _قال معاذا لله

۱۱_ خداوند متعال كى طرف توجہ اور اسكى پناہ طلب كرنا ، شہوت رانى كے برے انجام سے محفوظ رہنے كا راستہ ہے _

قال معاذا لله

۱۲_ گناہ كے گرداب اور لغزش سے نجات كے ليے ضرورى ہے كہ خداوند متعال كى پناہ لى جائے_قال معاذا لله

۱۳_ شادى شدہ عورتوں سے دوستى اور جنسى روابط ركھنا حرام ہے _قالت هيت لك قال معاذالله

( استعاذہ) اور خدا كى پناہ ميں جانا، گناہ اور شر پھيلانے والے مسئلہ ميں ہوتا ہے _

۱۴_ يوسفعليه‌السلام كى پاكدامنى تعجب آوراور انكى عصمت شگفت انگيز تھي_

و روادته التى و غلّقت الا بواب و قالت هيت لك قال معاذالله

۱۵_ يوسفعليه‌السلام جوانى كى اوج ميں ہى انسان موحد اور خداوند متعال كا فرمانبرداراور پرہيزو تقوى كى معراج پر تھے_

معاذا لله انه ربّى احسن مثواي

۱۶_ يوسفعليه‌السلام كا حقيقى توحيد پرست، اطاعت الہى ميں مخلص ہونا اور ان كا تقوى و پرہيزگارى ،اس علم و حكمت كا جلوہ تھا جو خداوند متعال ان كو عطا فرما ئي تھي_أتيناه حكاً و علماً قال معاذالله انه ربّى أحسن مثواي

۱۷_ خداوند متعال كى طرف توجہ ، انسان كو گناہ سے روكتى ہے _قال معاذا لله

۴۲۰

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

آیت ۲۵

( وَالَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللّهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الأَرْضِ أُوْلَئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ )

اور جو لوگ عہد خدا كو توڑ ديتے ہيں اور جن سے تعلقات كا حكم ديا گيا ہے ان سے قطع تعلقات كرليتے ہيں اور زمين ميں فساد بر پا كرتے ہيں ان كے لئے لعنت اور بدترين گھر ہے (۲۵)

۱_ خداوند متعال نے انسانوں كو اپنے عہد و پيمان پر پا بند رہنے كو لازمى قرار دياہے_والذين ينقضون عهد اللّه

(عہداللہ) سے مراد جس طرح آيت شريفہ (۲۰) ميں گذرچكاہے وہ عہد و پيمان ہيں جو خداوند متعال نے انسانوں سے ليے ہيں ياوہ عہد و پيمان ميں جو انسانوں نے خداوند متعال كے ساتھ باندھے ہوئے ہيں _

۲_ وہ عہد و پيمان جو خداوند متعال نے انسانوں كے ساتھ باندھے ہوئے ہيں انہيں توڑنے كو حرام قرار ديا ہے_

والذين ينقضون عهد الله اولئك لهم اللعنة ولهم سوء الدار

۳ _ وہ عہد و پيمان جو انسان نے خداوند متعال كے ساتھ ركھے ہوئے ہيں ان كا توڑنا بھى حرام ہے _

و الذين ينقضون عهد الله

۴ _ عہد و پيمان كو توڑناخصوصاً اس وقت جب اسكى تاكيد بھى كى گئي ہو، نامناسب اور قابل مذمت كام ہے _

و الذين ينقضون عهد الله من بعد ميثاقه اولئك لهم العنة و لهم سوء الدار

(من بعد ميثاقہ ) ميں ''ميثاق'' مصدر ہے اور استحكام دينے كے معنى ميں آياہے اور (ميثاقہ) كى ضمير (عہد) كى طرف لوٹ رہى ہے _اس وجہ

۸۰۱

سے (من بعد ميثاقہ) كے معنى ميں عہد و پيمان كو مستحكم كرنے كے بعد اسكى پابندى كرنے پر تاكيد كى گئي ہے_

۵ _خداوند متعال نے وہ رابطے كہ جس كے بارے ميں حكم ديا ہے كہ ان كو برقرار ركھاجائے كے سلسلہ ميں انسانوں كو اس پر كاربند رہنے كو بھى واجب قرار ديا ہے _والذين ...يقطعون ما أمر الله به أن يوصل

( ما أمر اللہ ) كى وضاحت كے ليے آيت شريفہ ۲۱ كے حاشيہ (۱) كوملاحظہ فرمائيں _

۶_ زمين پر فساد كرنا، محرمات الہى ميں سے ہے _والذين يفسدون فى الارض اولئك لهم اللنعة ولهم سوء الدار

۷_وہ لوگ جو خداوند متعال كے عہد و پيمان كے پابند نہ ہوں ان پر لعنت خدا ہے اوروہ رحمت الہى سے دورى ميں مبتلا ہوجائيں گے _والذين ينقضون عهد الله اولئك لهم اللنعة

۸_ وہ لوگ جن كو حكم ديا گيا ہے كہ خداوند متعال سے رابطہ كو محكم ركھيں _ اگر وہ اس پر كاربند نہ رہيں تو وہ لعنت اور رحمت الہى سے دورى ميں مبتلا ہوجائيں گے_والذين ...يقطعون ما امر الله به أن يوصل ...اولئك لهم اللنعة

۹_زمين پر فساد كرنے والوں پر لعنت الہى اور رحمت الہى سے دورى ميں مبتلا ہونا ہے _

والذين يفسدون فى الارض اولئك لهم اللعنة

۱۰_ دوزخ، دوزخيوں كے ليے سخت اور برے انجام كى جگہ ہے _ولهم سؤ الدار

آيت ۲۲ و ۲۳ ميں موجود دنيا كا برا مقام (سؤالدار) اس كے مقابلہ ميں موجود قرينہ عقبى الدار كى وجہ سے دوزخ ہے_

۱۱_ برا مقام (دوزخ) ان كے ليے ہے جو عہد و پيمان الہى كو توڑتے ہيں اور وہ ارتباط جنكو برقرار ركھنے كا خداوند عالم نے حكم ديا ہے _ ان كى پابندى نہيں كرتے _والذين ينقضون عهد الله ...و يقطعون ما امر الله لهم سوء الدار

۱۲ _ وہ لوگ جو زمين پر فساد كرتے ہيں وہ برے مقام (دوزخ) ميں گرائے جائيں گے _

والذين ...يفسدون فى الاض لهم سوء الدار

۱۳ _'' دخل عمرو بن عبيد على ابى عبدالله عليه‌السلام فلما سلّم و جلس ...قال : احبّ أن اعرف الكبائر من كتاب الله عزوجل،

۸۰۲

فقال منها نقض العهد و قطيعة الرحم لان الله عزوجل يقول : (اولئك لهم اللعنه و لهم سوء الدار (۱)

عمرو ابن عبيد امام جعفر صادقعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوئے ا اور سلام كركے ان كے ہاں بيٹھ گے اور كہا ميں چاہتاہوں كہ گناہان كبيرہ كو كتاب الہى سے جانوں پھر حضرتعليه‌السلام نے فرمايا ان گناہوں ميں سے ايك عہد شكنى اور قطع رحم ہے چونكہ خداوند عزوجل ارشاد فرماتاہے( اولئك لهم اللنعة ولهم سوء الدار ...)

احكام:۲،۳،۵،۶

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا انسانوں كے ساتھ عہد ۲ ; اللہ تعالى كے اوامر ۱ ۵۸

انسان :انسانوں كى ذمہ دارياں ۱

اہل جہنم :۱۱ ، ۱۲

جہنم :جہنم كا برا ہونا ۱۰ ، جہنم ميں جانے كے اسباب ۱۲

رحمت :آخرت ميں رحمت سے محرم لوگ ۷ ، ۸،۹

روابط واجب : ۵

واجب روابط كے قطع كرنے كے آثار ۱۱

روايت : ۱۳

شرك:شرك كا گناہ ۱۳/صلہ رحم:قطع رحم كا گناہ ۱۳

عمل:ناپسنديدہ عمل ۴

عہد :عہد سے وفاء كا وجوب ۱;عہد سے وفا كى اہميت ۷ عہد كے احكام ۲ ، ۳

عہد شكنى كرنے والے :عہدشكنى كرنے والوں پر لعنت ۷; عہد شكنى كرنے والوں كا برا انجام ۱۱;عہدشكنى كرنے والوں كا جہنم ميں ہونا ۱۱

عہدشكنى :خداوند متعال سے عہد شكنى كرنا ۳،۷; خداوند متعال سے عہدشكنى كے آثار ۱۱ ;عہدشكنى كا گناہ ۱۳ ; عہدشكنى كا ناپسند ہونا ۴ ;عہد شكنى كى حرمت ۲ ، ۳

____________________

۱) كافى ج۲ ص ۲۸۷ ح ۲۴ ; نورالثقلين ج۲ ص ۵۰۲ ح ۱۱۷_

۸۰۳

فساد پھيلانا :فساد پھيلانے كى حرمت۶; فساد پھيلانے كى سزا ۹ ،۱۲;فساد پھيلانے كے احكام ۶;فساد پھيلانے كے موارد ۶ ، ۹ ، ۱۲

گناہان كبيرہ :۱۳

لعنت :لعنت كے مستحقين ۷ ، ۸ ،۹

محرمات: ۲ ، ۳،۶

مفسدين :مفسدين پر لعنت ۹ ; مفسدين كا برا انجام ۱۲; مفسدين كا جہنم ميں ہونا ۱۲

واجبات ۱ ، ۵

آیت ۲۶

( اللّهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقَدِرُ وَفَرِحُواْ بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فِي الآخِرَةِ إِلاَّ مَتَاعٌ )

اللہ جس كے لئے چاہتاہے رزق كو وسيع۲_يا تنگ كرديتا ہے اور يہ لوگ صرف زندگانى دنيا پر خوش ہوگئے ہيں حالانكہ آخرت كے مقابلہ ميں زندگانى دنيا صرف ايك وقتى لذت كا درجہ ركھتى ہے اور بس(۲۶)

۱_خداوند متعال، انسانوں كو روزى دينے والا ہے _الله يبسط الرزق لمن يشاء و يقدر

۲ _ خداوند متعال بعض انسانوں كو فراوان اوركثرت سے روزى عطا كرتاہے اور بعض كے نصيب ميں بہت كم روزى ركھتاہے_الله يبسط الرزق لمن يشاء و يقدر

(بسط) كا معنى و سعت دينا ہے اور (قدر) كا معنى تنگ و كم كردينے كے ہيں روزى كا تنگ ہونا ، بہت ہى كم اور ناچيز كے ليے كنايہ ہے _

۳_ بعض انسان دنياكى زندگى سے اپنا دل خوش كرتے ہيں اور آخرت كے حالات سے غافل رہ جاتے ہيں _

فرحوا بالحيوة الدنيا و ما الحيوة الدنيا فى الآخرة الا متاع

۸۰۴

دنيا كو آخرت كے مقابلے ميں ناچيز بيان كرنا اس گروہ كى مذمت كرنے بعد جو دنيا سے اپنے دل كو خوش ركھے ہوئے ہيں _ (فرحوا بالحيوة الدنيا ) يہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ اس گروہ سے مراد وہ لوگ ہيں جنہوں نے يا تو آخرت كو قبول نہيں كيا اور يا اس سے غافل ہيں _

۴ _ دنيا كى زندگي، آخرت كى زندگى كے مقابلے ميں ناچيز سے توشہ كے علاوہ كچھ نہيں ہے_و ما الحيوة الدنيا فى الآخرة الا متاع

(فى الآخرة) ميں حرف'' في'' مقائسہ و مقابلہ كے ليے ہے (متاع) اس مال كو كہتے ہيں جس سے زندگى ميں بہرہ مند ہوتے ہيں _ اسكونكرہ لانے كا مقصد يہ ہے كہ قلت كا اظہار كيا جائے_

۵ _ آخرت كى زندگي، قابل قدر اور قدر و قيمت والى ہے_وما الحيوة الدنيا فى الآخرة الا متاع

۶ _خداوند متعال اپنى مشيت كے مطابق انسانوں كى روزى كو معين و مشخص فرماتاہے_اللّه يبسط الرزق لمن يشاء و يقدر

(لمن يشاء) (يبسط)اور (يقدر) دونوں كے ليے قيد ہے دوسرے لفظوں ميں (يقدر) كے بعد جملہ (لمن يشاء) مقدر ہے _

۷_ دنيا كى زندگى سے دل خوش كرنااور اسكى قدر و قيمت كى طرف توجہ نہ دينا كفر اختيار كرنے كا ذريعہ ہے _

و فرحوا بالحى وة الدنيا و ما الحيوة الدنيافى الآخرة الا متاع

چونكہ (فرحوا) كى ضمير سے مراد، كفر اختيار كرنے والے اور پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين ہيں پس جملہ (فرحوا بالحى وة الدنيا و ...) در حققت ان كے كفر اختيار كرنے كے عوامل و اسباب اور بنياد كى طرف اشارہ ہے_يعنى دنيا كى زندگى سے دل خوش كرنا ان كو كفر اختيار كرنے كى طرف لے جاتاہے_

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا رازق ہونا ۱ ، ۲ ; اللہ تعالى كى مشيت ۲ ، ۶

انسان :انسانوں كى روزى ۲ ; انسانوں كى غفلت ۳; انسانوں ميں اقتصادى تفاوت ۲ ; انسانوں ميں دنيا طلبى ۳

جہالت :جہالت و جہل كے آثار ۷

حيات :اخروى زندگى كى قدر و قيمت ۴ ، ۵ ; دنياوى زندگى كى قدر و قيمت نہ ہونا ۴ ،۷

دنيا :دنيا و آخرت ۴

۸۰۵

دنيا طلبى :دنيا طلبى كے آثار ۷

روزى :روزى كا سبب ۱ ، ۲;روزى كا مقدر ہونا ۶

غفلت :آخرت سے غفلت ۳

كفر :كفر كا سبب ۷

آیت ۲۷

( وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَوْلاَ أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ قُلْ إِنَّ اللّهَ يُضِلُّ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ أَنَابَ )

اور يہ كافر كہتے ہيں كہ ان كے اوپر ہمارے پسند كى نشانى كيوں نہيں نازل ہوتى تو يہ پيغمبر كہہ ديجئے كہ اللہ جس كو چاہتاہے گمراہى ۳_ميں چھوڑ ديتاہے اور جو اس كى طرف متوجہ ہوجاتے ہيں انھيں ہدايت ديديتاہے (۲۷)

۱_ عصر بعثت كے كفار نے رسالت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حقانيت پر كسى معجزہ يا نشانى كا دعوى نہيں كيا _

و يقول الذين كفروا لو لا انزل عليه آية من ربه

۲ _ كفار، توحيد اور رسالت پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حقانيت پر يقين كرنے كے ليے قرآن مجيد كے علاوہ كوئي دوسرا معجزہ چاہتے تھے_و يقول الذين كفروا لو لا انزل عليه آية من ربه

(إن اللہ يضل من يشاء و يھدي ...)كا جملہ اس بات كا قرينہ ہے كہ كفار اپنى ہدايت اور رسالت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو قبول كرنے كے ليے جسكا اصل مقصد توحيد تھا معجزہ چاہتے تھےيعنى يہ كہتے تھے اگر معجزہ دكھاؤ گے تو تيرى رسالت كو قبول كريں گے اور توحيد والے ہوجائيں گے _

۳ _ عصر بعثت كے كفار كا پروپيگنڈہ، پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف ماحول كو آمادہ كرنا تھا _

و يقول الذين كفروا لو لا انزل عليه آية من ربه

۴ _انسانوں كى ہدايت اور ان كى گمراہي، خداوند متعال كے دست قدرت اوراسكى مشيت كے ساتھ مربوط ہے _

قل إن الله يضل من يشاء و يهدى اليه من اناب

(يضل ) اور (يهدي ) دونوں افعال كى صفات و خصوصيات اس بات كا قرينہ ہيں كہ وہ ايك دوسرے كے ليے ہيں _تو

۸۰۶

مذكورہ بالا جملہ كا معنى يہ ہوگا (إن الله يضل عنه من يشاء و يشاء اضلال من لم ينب و يهدى اليه من يشاء و يشاء هداية من أناب ) خداوند متعال اسكو گمراہ كرتاہے جو خود گمراہى كو چاہتاہو اور اس كى دربار ميں تو بہ نہ كرے اور اسكى طرف نہ جھكے اور اسكى ہدايت كرتاہے جو خود ہدايت كو چاہے اور وہ اسكى ہدايت كرتاہے جو اس كے حضور توبہ كرے اور اسكى طرف ميلان و جھكاؤ ركھتا ہو_

۵ _ انسان، خود اپنى ہدايت اورگمراہى ميں بہت بڑا كردار ادا كرتاہے _ان الله يضل من يشاء و يهدى اليه من اناب

۶_ خداوند متعال كى طرف جھكاؤ، مشيت الہى كى طرف سے اسكى ہدايت كا پيش خيمہ ہے اورا سكا توحيد و رسالت پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو قبول كرنے كے ليے راہنمائي ہے_إن الله يضل من يشاء و يهدى اليه من أناب

(إنابة) (أناب) كا مصدر ہے جسكا معنى لوٹنا اور توجہ كرنا ہے (إليہ) كے قرينے كى وجہ سے اس سے مراد، خداوند متعال كى طرف توجہ كرنا اور لوٹنا ہے اور اس وجہ سے كہ يہ وصف ہدايت پانے سے پہلے واقع ہواہے تو اس سے مراد، خداوند متعال كى طرف جھكاؤ اور اس سے دورى اختيار نہ كرنا ہے _

۷_ انسان كا خداوند متعال كى طرف نہ جھكنا يہ مشيت الہى كا اسكو گمراہ كرنے اور توحيد و رسالت پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى طرف ہدايت نہ كرنے كا پيش خيمہ ہے _إن الله يضل من يشاء و يهدى اليه من اناب

۸_ وہ لوگ جو ہدايت كے ليے زمينہ نہيں ركھتے وہ معجزات كے ديكھنے سے بھى ہدايت حاصل نہيں كرسكيں گے اور توحيد الہى اور رسالت پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى طرف نہيں آئيں گے _لو لا انزل عليه آية من ربه قل إن الله يضل من يشاء

خداوند متعال ان كے جواب ميں جو اپنى ہدايت كو معجزے لانے كے ساتھ مشروط كرتے ہيں فرماتا ہے كہ ہدايت اور گمراہى كا مسئلہ خداوند متعال كے ہاتھ ميں ہے_ يہ جواب ان كے مذكورہ دعوى كى حقيقت كو اس طرح بيان كرتاہے كہ معجزات ہدايت كا سبب نہيں بن سكتے _ بلكہ يہ مشيت الہى ہے جو اس ميں كردار ادا كرتى ہے _

۹_ كفار نے اپنى ہدايت پانے ميں جو مشورہ ديا اس كا اور خاص معجزات كا بے اثر ہونا، يہ دليل ہے كہ وہ پيغمبر

۸۰۷

اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى طرف راہنمائي نہيں پاسكيں گے _لو لا انزل عليه اية من ربه قل ان الله يضل من يشاء ويهدى اليه من اناب

۱۰_ اللہ تعالى كى مشيتيں قانو ن و ضوابط كے ساتھ ہيں اور فضول اور بے دليل ہونے سے پاك و پاكيزہ ہيں _

يضل من يشاء و يهدى اليه من اناب

(من يشاء ) كى جگہ ( من أناب) كا جملہ لانا يہ اس حقيقت كى طرف اشارہ كرتاہے كہ اگر چہ تمام امور مشيت الہى كے تابع ہيں ليكن اسكى مشيت بے معنى نہيں بلكہ ہدايت اور گمراہي، اعمال كى قابليت و لياقت كى بنياد پر ہے _ ہدايت اور گمراہ كرنے كے سلسلہ ميں اس كى ہدايت اس كو شامل حال ہوتى ہے جو خدا كى طرف جھكتا ہے او ر گمراہى اس كا مقدر بنتى ہے جو اس سے منہ موڑ لے _

استعداد:استعدادوں كى اہميت ۸

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۳

اللہ تعالى :اللہ تعالى سے منہ موڑ نے كے آثار ۷; اللہ تعالى كا پاك و پاكيزہ ہونا ۱۰;اللہ تعالى كا گمراہ كرنا ۴ ; اللہ تعالى كى مشيت ۴ ;اللہ تعالى كى مشيت كا قانون كے ساتھ ہونا ۱۰ ;اللہ تعالى كى مشيت كا پيش خيمہ ۶،۷; اللہ تعالى كى ہدايت كرنا ۴

انسان :انسان كا كردار۵

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :آنحضرت كو جھٹلانے والے۱ ;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف فضا سازى ۳

توحيد :توحيد كا پيش خيمہ ۶ ; توحيد كے موانع ۷

جھكاؤ:خداوند متعال كى طرف جھكنے كے آثار۶

كفار:صدر اسلام كے كافروں كى خواہشات ۲;صدر اسلام كے كافروں كى فضا سازى ۳;صدر اسلام كے كفار اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۱ ، ۲، ۳ ; صدر اسلام كے كفار اور توحيد ۲ ; صدر اسلام كے كفار اور معجزہ ۲; صدر اسلام كے كفار كا ہدايت كو قبول نہ كرنا ۹ ; كافروں پر معجزے كا بے اثر ہونا ۹

كفر:آنحضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كفر ۷ ; كفر كا سبب ۷

گمراہى :گمراہى كا پيش خيمہ ۷;گمراہى كا سبب ۴ ،۵

۸۰۸

معجزہ :معجزہ اقتراحى ۲ ;معجزہ اقتراحى كا رد ۹ ; معجزے كو جھٹلانے والے ۱

ہدايت :ہدايت كا پيش خيمہ ۶ ; ہدايت كا سبب ۴ ، ۵ ، ۶

ہدايت كو قبول نہ كرنے والے :ہدايت كو قبول نہ كرنے والوں كى گمراہى ۸ ; ہدايت كو قبول نہ كرنے والے اور آنحضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۸ ; ہدايت كوقبول نہ كرنے والے اور توحيد ۸ ; ہدايت كو قبول نہ كرنے والے اور معجزہ ۸

آیت ۲۸

( الَّذِينَ آمَنُواْ وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللّهِ أَلاَ بِذِكْرِ اللّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ )

يہ وہ لوگ ہيں جو ايمان لائے ہيں اور ان كے دلوں كو ياد خداسے اطمينان حاصل ہوتاہے اور آگاہ ہوجائو كہ اطمينان ياد خدا سے ہى حاصل ہوتاہے (۲۸)

۱ _جو افراد ايمان لائے ان كے دلوں كو ياد الہى سے اطمينان حاصل ہوتاہے وہ ان لوگوں ميں سے ہيں جنكو خداوند متعال نے اپنى طرف ہدايت فرمائي ہے_و يهدى اليه من أناب _ الذين ء امنوا و تطمئن قلوبهم بذكر الله

۲_ صدر اسلام كے مسلمان ان لوگوں ميں سے تھے جو ہدايت حاصل كرنے سے پہلے خدا كى طرف جھكاؤ ركھتے تھے اور اس سے منہ موڑنے والے نہيں تھے_و يهدى إليه من أناب _ الذين ء امنوا و تطمئن قلوبهم بذكر الله

(الذين آمنوا ) (من آناب) پر عطف بيان ہے اور اس كو مصادق كے ذريعہ بيان كرنے والا ہے يعنى جو لوگ ايمان لائے ہيں يہ وہى ہيں جو خدا كى طرف جھكا ؤ ركھتے تھے اس وجہ سے ان كى ہدايت كے ليے مشيت الہى شامل حال ہوئي ہے_

۳ _ فقط ذكر الہى اور اسكى ياد سے دلوں كو اطمينان اور سكون ملتاہے_ألا بذكر الله تطمئن القلوب

(بذكر اللہ) كا اس كے متعلق ( تطمئن) پر مقدم كرنے كا مقصد، حصر كا معنى حاصل كرنا ہے _

۴ _ ياد الہى اور اس كے ذكر سے غافل انسان، مضطرب و پريشان ہوتے ہيں _ألا بذكر الله تطمئن القلوب

۸۰۹

۵_عن جعفر بن محمد عليه‌السلام فى قوله : '' ألا بذكر الله تطمئن القلوب'' فقال : بمحمد عليه و آله السلام تطمئن القلوب و هو ذكر الله ...'' (۱)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے اللہ تعالى كے اس قول (ألا بذكر الله تطمئن القلوب ) كے بارے ميں روايت ہے كہ حضرتعليه‌السلام نے فرمايا حضرت محمد مصطفيصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان پر اور انكى آل پر درود و سلام ہوں جن كے ذريعے دلوں كو اطمينان نصيب ہوتاہے_ اور وہ ذكر الہى ہے _

۶_(عن أبى عبدالله عليه‌السلام فى قوله تعالى '' الذين آمنوا و تطمئن قلوبهم بذكر الله الا بذكر الله تطمئن القلوب'' قال: قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لعلى بن ابى طالب عليه‌السلام : تدرى فى من نزلت ؟ فى من صدّق لى و آمن بى و احبّك و عترتك من بعدك و سلّم الامر لك و للائمة من بعدك (۲)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے خداوند كے اس قول (الذين آمنوا و تطمئن قلوبهم ...) كے بارے ميں روايت ہے كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مولا امير المؤمنين سے فرمايا كيا آپ جانتے ہيں كہ يہ آيت شريفہ كس كے بارے ميں نازل ہوئي ہے؟ _ جو ميرى تصديق كرے اور مجھ پر ايمان لائے اور تجھے اور تيرى عترت و آل كو جو تيرے بعد ميں آئے گى اس سے دوستى ركھتاہو اور تيرى اور تيرے بعد والے ائمہ كى ولايت كو قبول كرتاہو_

'' عن ابى عبدالله عليه‌السلام قال: فاما ما فرض على القلب من الايمان فالاقرار و المعرفة و العقد و الرضا و التسليم بان لا اله الا الله وحده لا شريك له و ان محمداً عبده و رسوله و هو عمله و هو قول الله عزوجل : '' الا بذكر الله تطمئن القلوب .(۳)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ ايمان كى وہ قسم جو دل ميں ركھنا واجب ہے _وہ اقرار ، شناخت ، عہد و ايمان ، رضايت اور اس معبود كى طرف تسليم

____________________

۱)تفسير عياشى ج۲ ص ۲۱۱ ح ۴۴ ; نورالثقلين ج۲ ص۵۰۲ ح ۱۱۷_

۲) تفسير فرات كوفى ص ۲۰۷ ; بحارالانوار ج ۲۳ ص ۳۶۷ ح ۳۶_

۳) كافى ج۲ ص ۳۴ ; ح۷ ، بحارالانوار ج۶۶ ص ۲۴ ; ح ۶_

۸۱۰

خم ہوناہے كہ وہ يكتا ہے اور اس كا كوئي شريك نہيں خداوند متعال كے علاوہ كوئي معبود نہيں _اور يہ كہ

حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس كے بندے اور اس كے رسول ہيں _ يہ سب (اقرار و غيرہ) كا تعلق دل سے ہے يہى اللہ تعالى كا فرمان ہے (...الا بذكر الله تطمئن القلوب ...)

اطمينان :اطمينان كے اسباب ۳

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فضائل ۵

ايمان :ائمہعليه‌السلام پر ايمان ۶ ; امير المؤمنين علىعليه‌السلام پر ايمان ۶ ; آنحضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان ۶ ; ايمان كى حقيقت ۷

تسليم :تسليم كى حقيقت۷

جھكاؤ:اللہ تعالى كى طرف جھكاؤ۲

ذاكرين :ذاكرين كے فضائل ۱

ذكر :ذكر الہى سے مراد۵;ذكر الہى كے آثار ۳

روايت : ۵ ، ۶ ،۷

سكون :سكون كے اسباب ۳

علم نفسيات : ۳ ، ۴

غافلين :غافلين كا مضطرب اور پريشان ہونا ۴;غافلين كى پريشانى ۴; غافلين كے صفات ۳

غفلت :اللہ تعالى سے غافل ہونے كے آثار ۴

مؤمنين :مؤمنين كا دلى اطمينان ۱ ; مؤمنين كى ہدايت ۱; مؤمنين كے فضائل ۱ ، ۶

مسلمين :صدر اسلام كے مسلمين كا جھكاؤ ۲;صدر اسلام كے مسلمين كے فضائل ۲

ہدايت پانے والے : ۱

۸۱۱

آیت ۲۹

( الَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ طُوبَى لَهُمْ وَحُسْنُ مَآبٍ )

جو لوگ ايمان لائے اور انھوں نے نيك اعمال كئے ان كے لئے بہترين جگہ (بہشت) اور بہترين بازگشت ہے (۲۹)

۱_خداوند وحدہ لا شريك ، پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قرآن مجيد پر ايمان لانے والے ہى نيك عمل كو بجالانے والے ہيں وہ دنيا كى زندگيوں ميں سے بہترين اور پاكيزہ ترين زندگى كے حامل ہيں _الذين ء امنوا و عملوا الصالحات طوبى لهم

(ءامنوا) كے متعلق مذكورہ آيات كى روشنى ميں توحيد ، پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قرآن مجيد ہے (طوبى ) اطيب كا اسم تفضيل مؤنث ہے جسكا معنى بہترين اور پاك ترين ہے _ اور اس سے مراد لفظ (مئاب) كے قرينہ مقابل ہونے كى وجہ سے دنيا كى پاك اور بہترين زندگى ہے _

۲_ ان مؤمنين كا انجام نيك ( سعادت آخروي) ہے جو عمل صالح بجا لانے والے ہيں _

الذين آمنوا و عملوا للصالحات طوبى لهم و حسن مئاب

(مئاب) مصدر ميمى اور لوٹنے كے معنى ميں ہے _

اس سے مراد آخرت كا ميدان ہے_ يہ بات قابل ذكر ہے كہ (طوبى ) مبتدا ہے (حسن مئاب) اس پر عطف ہے اور (لہم ) ان دونوں كے ليے خبر ہے_

۳ _ انسان كى دنيا اور آخرت كى سعادت ميں ايمان اس وقت مؤثر ہے كہ جب اسكے ساتھ اعمال صالح ہوں _

الذين ء امنوا وعملوا الصالحات طوبى لهم و حسن مئاب

۴ _ نيك اعمال، ايمان كے بغير،دنيا و آخرت كى سعادت كى ضمانت نہيں ديتے _

الذين ء امنوا و عملوا الصالحات طوبى لهم و حسن مئاب

۵_'' سئل رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عن طوبى قال: شجرة

۸۱۲

أصلها فى دارى و فرعها على أهل الجنة ثم سئل عنها مرة اخرى فقال: فى دار على عليه‌السلام ان دارى و دار على عليه‌السلام فى الجنة بمكان واحد (۱)

رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے طوبى كے بارے ميں پوچھا گيا تو حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا: ايسا درخت ہے جسكى جڑ ميرے گھر ميں ہے اور اسكى شاخيں بہشتيوں كے سروں پر ہيں پھر جب دوسرى مرتبہ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال ہوا تو حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا (اسكى جڑ) علىعليه‌السلام كے گھر ميں ہے بے شك علىعليه‌السلام اور ميراصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر بہشت ميں ايك جگہ پر ہے _

امير المؤمنين علىعليه‌السلام :امير المؤمنينعليه‌السلام كے فضائل ۵

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فضائل ۵

ايمان :ايما ن اور عمل صالح ۳;ايمان كى اہميت ۴ ; ايمان كے آثار ۳

درخت طوبى :درخت طوبى كى جگہ ۵

روايت : ۵

سعادت:اخرت كى سعادت كے اسباب ۳ ; دنيا كى سعادت كے اسباب ۳

سعادت مند:۲

صالحين :صالحين كا اچھا انجام ۲ ; صالحين كى دنياوى زندگى ۱ ; صالحين كى سعادت اخروى ۲

عمل صالح:عمل صالح اور ايمان ۴; عمل صالح كى اہميت ۳ ; عمل صالح كے آثار ۱ ، ۴

مؤمنين :مؤمنين كا اچھا انجام ۲; مؤمنين كى آخرت كى سعادت ۲ ; مؤمنين كى دنيا وى زندگى ۱; مؤمنين كے فضائل

____________________

۱) مجمع البيان ج۵ ص ۴۴۸ ; نورالثقلين ج۲ ص ۵۰۶ ح ۱۳۷_

۸۱۳

آیت ۳۰

( كَذَلِكَ أَرْسَلْنَاكَ فِي أُمَّةٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهَا أُمَمٌ لِّتَتْلُوَ عَلَيْهِمُ الَّذِيَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَهُمْ يَكْفُرُونَ بِالرَّحْمَـنِ قُلْ هُوَ رَبِّي لا إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتَابِ )

اسى طرح ہم نے آپ كو ايك ايسى قوم كے درميان بھيجا ہے جس سے پہلے بہت سى قوميں گذر چكى ہيں تا كہ آپ ان چيزوں كى تلاوت كريں جنھيں ہم نے آپ كى طرف بذريعہ وحى نازل كياہے حالانكہ وہ لوگ رحمان كے انكار كرنے والے ہيں _آپ ان سے كہئے كہ وہ ميرا رب ہے اور اس كے علاوہ كوئي خدا نہيں ہے اسى پر ميرا اعتماد ہے اور اسى كى طرف بازگشت ہے (۳۰)

۱_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، لوگوں كے درميان خداوند متعال كے بھيجے ہوئے رسول تھے_أرسلناك فى امة

۲_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رسالت ميں اور وحى كو حاصل كرنے ميں گذشتہ امتوں كے انبياءعليه‌السلام كى طرح تھے اور ان كى امت كا ان سے برتاؤ ايسےہى تھا جيسے گذشتہ امتوں كا اپنے انبياءعليه‌السلام كے ساتھ تھا_

كذلك ارسلناك فى امة قدخلت من قبلها امم لتتلوا عليهم الذى اوحينا اليك

(كذلك أرسلناك ...) كے جملے ميں جو تشبيہ ہے اسكا تقاضا يہ ہے كہ مشبہ ، مشبہ بہ اور وجہ شبہہ موجود ہو_ كہا گيا ہے كہ (مشبّہ)'' پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اپنى امت كى طرف بھيجنا ہے ''''مشبہ بہ'' گذشتہ امتوں ميں انبيائ(ع) كو بھيجنا ہے اور (وجہ شبہہ) ايسے حقائق ہيں جنكوگذشتہ آيات يا اسى

۸۱۴

مورد بحث آيت سے استفادہ كيا جاسكتاہے _ ان حقائق ميں سے خود ذات رسالت، وحى كا آنا، رسالت كى ذمہ دارى ، اور رسول كو بھيجنے كا ہدف و مقصد (لتتلوا عليهم ...) امتوں كا برتاؤ، ان كا انجام ، لوگوں كى ہدايت اور گمراہى ميں انبياءعليه‌السلام كو بھيجنے كے بعد خداوند متعال كى روش و طريقہ (قل إن اللہ يضل من يشاء و يھدى اليہ من أناب) و ...وغيرہ ہيں _

۳_ پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بعثت اور امت سے پہلے متعدد امتوں كا مٹ جانا اور ظاہر ہونا او ر انبياء (عليہم السلام) سے ان كا بہرہ مندہونا_أرسلناك فى امة قد خلت من قبلها امم

(خلّوا)'' خلت '' كا مصدر ہے اس كے معانى ميں سے ايك معنى گذر جانا ہے اور امتوں كا گذرنا اورچلے جانا سے مراد، ان كى نابودى ہے (أرسلناك فى امة) يعنى امت كا رسول سے بہرہ مند ہونے سے مراد يہ ہے كہ ان سے پہلے بھى امتيں تھيں اس سے يہ بات ظاہر ہوتى ہے كہ ہر امت خداوند متعال كى طرف سے ايك رسول ركھتى تھي_

۴_ لوگوں كے ليے قرآن مجيد كى تلاوت كرنا پيغمبر اسلام كى ذمہ دراى اور انہيں پيغمبر ى عطاكرنے كے مقاصدميں سے تھا _

أرسلناك لتتلوا عليهم الذى اوحينا اليك

(تلاوت) '' تتلوا '' كا مصدر ہے جسكا معنى پڑھنا ہے (لتتلوا) (أرسلناك) كے متعلق ہے جو پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى اور ان كو پيغمبر بناكر بھيجنے كے مقصد كو بيان كرتاہے_

۵_ قرآن مجيد ايك ايسى حقيقت ہے كہ جسكو خداوند متعال نے وحى كے ذريعہ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل فرمايا_

لتتلوا عليهم الذى اوحينا اليك

۶ _پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جس امت كى طرف مبعوث ہوئے انہوں نے خداوند رحمن سے كفر اختيار كيا_

وهم يكفرون بالرحمن

۷_ قرآن مجيد اور پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جو وحى نازل ہوئي ہے اسكو قبول نہ كرنا، خداوند متعال اور اسكى رحمانيت سے كفر اختيار كرنے كے مترادف ہے _لتتلوا عليهم الذين اوحينا اليك وهم يكفرون بالحرحمن

كيونكہ عصر بعثت كے لوگ خصوصاً اہل مكہ اور اس كے اطراف كے لوگ خداوند متعال كے معتقد تھے پس (يكفرون بالرحمن ) سے مراد (لتتلوا عليهم ) كے قرينے كى وجہ سے قرآن مجيد كا انكار ہے اور قرآن مجيد كے انكار كو كفر الہى سے تعبير كرنا گويا اس نكتہ كى طرف اشارہ كرتاہے كہ قرآن مجيد كو قبول نہ كرنا اور اس سے انكارى ہونا ايسے ہى ہے جيسے خداوند متعال سے

۸۱۵

كفر كيا گيا ہو_

۸_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قرآن مجيد اور وحى كا نازل ہونا، خداوند متعال كى وسيع رحمت كا جلوہ ہے _

وهم يكفرون بالرحمن

۹_ عصر بعثت كے لوگ خداوند متعال كو رحمن كے نام و صفت سے نہيں پہچانتے تھے اور اسى وجہ اس سے كفر كرتے تھے_و هم يكفرون بالرحمن

اكثر مفسرين كا نظريہ يہ ہے كہ عصر بعثت كے لوگوں كے كفر سے مراد، خداوند كے (الرحمان) كے اسم وصفت سے ناآگاہى ہے يعنى خداوند متعال كو اس اسم و صفت سے نہيں جانتے تھے اور جب قرآن مجيد ميں خداوند متعال كو اس نام (الرحمان) سے جب ياد كيا گيا تو اس سے انكارى ہوئے_ اور انہوں نے كہا ( رحمان) كون ہے اور كونسا خدا ہے _

۱۰_ فقط خداوند رحمن ہى پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا مربى اور مدبر ہے_قل هو ربى لا اله الا هو

۱۱_ فقط خداوند متعال ہى لائق عبادت ہے _لا اله الا هو

۱۲_ ربوبيت الہى كا يقين ،انسان كو اسكى عبادت پر آمادہ كرتاہے_لا اله الا هو

۱۳_ فقط خداوند متعال كى ذات پر توكل كرنا چاہيئے_عليك توكلت

(عليہ) كو (توكلت) پر مقدم كرنا حصر كا فائدہ كے ليے ہے _

۱۴_پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى توحيد، خداوند متعال پر توكل ميں ہے_عليه توكلت

۱۵_ ربوبيت الہى اور اسكى وحدانيت پر يقين ركھنا ، انسان كو توكل ميں توحيد اختيار كرنے كى طرف لے جاتاہے _

هو ربى لا اله الا هو عليه توكلت

(عليہ توكلت) كا جملہ ربوبيت الہى اور اسكى وحدانيت جو (ہو ربي) ا ور (لا الہ الا اللہ) سے حاصل ہوتى ہے كے نتيجے كے مقام پر ہے_

۱۶_ انسانوں نے، صرف خداوند متعال كى طرف لوٹنا ہے_و إليه متاب

(متاب) (تاب)كا مصدر ميمى ہے جو لوٹ كرآنے كے معنى ميں ہے _ باء پر كسرہ ياء متكلم كے حذف پر دلالت كرتاہے اور (إليہ) كا اس پر مقدم ہونا حصر پر دلالت كرتاہے_

۸۱۶

۱۷_ ربوبيت الہى اور اسكى وحدانيت پر اعتقاد ركھنا انسان كے اس يقين كا پيش خيمہ ہے كہ وہ خداوند متعال كى طرف حركت كررہاہے اور اسكى طرف لوٹ كرجانا ہے _هو ربى إليه متاب

(إليہ متاب) كا جملہ (عليہ توكلت ) كى طرح ربوبيت الہى اور اسكى وحدانيت كے نتيجے كى طرح ہے _

۱۸_ خداوند متعال ،پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو كافروں كے ساتھ برتاؤ كرنے اور ان كو جواب دينے كى تعليم دينے والا ہے _

قل هو ربى و إليه متاب

اسماء وصفات :رحمن ۶ ، ۱۰

اللہ تعالى كى طرف لوٹنا ۱۶

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى تعليمات ۱۸ ;اللہ تعالى كى خصوصيات ۱۰ ،۱۱، ۱۳،۱۶; اللہ تعالى كى رحمت كى نشانياں ۸

اللہ كے رسول :۱

امتيں :امتوں ميں شباہت ۳

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور تلاوت قرآن مجيد ۴ ;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور كفار ۱۸ ;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا توكل ۱۴ ;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا مدبر ۱۰ ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا مربى ۱۰ ; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا معلم ۱۸ ; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى توحيد ۱۴; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى ۴ ;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت ۱;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت كا فلسفہ ۴ ; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو وحى ہونا ۵ ، ۸

انبياء :انبياء كى تاريخ ۳ ; رسالت انبياء سے شباہت ۲

انسان :انسانوں كا انجام ۱۶

ايمان :ايمان كا پيش خيمہ ۱۷ ; ايمان كے آثار ۱۲،۱۵; توحيد پر ايمان ۱۵; خداوند متعال كى ربوبيت پر ايمان ۱۲ ،۱۵; خداوند متعال كى طرف لوٹ جانے پر ايمان ۱۷

تشبيہات قرآن :حضرت محمد مصطفىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كى تشبيہہ ۲۰

توحيد :توحيد ربوبى ۱۰ ; توحيد عبادى ۱۱ ;

۸۱۷

توكل :توكل كا سبب ۱۵;خداوند متعال پر توكل ۱۳ ، ۱۴

ذكر :ربوبيت الہى كا ذكر ۱۲

عبادت:عبادت الہى كا پيش خيمہ ۱۲

عقيدہ :توحيد پر عقيدہ ۱۷ ; ربوبيت الہى پر عقيدہ۱۷

قرآن مجيد :قرآن مجيد كا وحى ہونا ۵ ،۸;قرآن مجيد كى تشبيہات ۲ ; قرآن مجيد كى تكذيب۷ ;قرآن مجيد كى تلاوت كى اہميت ۴

كفار :خداوند متعال سے كفر كرنے والے ۶;كفار سے برتاؤ كا طريقہ ۱۸

كفر :اللہ تعالى سے كفر ۱۷ ; اللہ تعالى كى رحمانيت سے كفر ۷ ،۹; كفر كے موارد ۷

گذشتہ امتيں :گذشتہ امتوں كا نابودى ہوجانا ۳ ; گذشتہ امتوں كى تاريخ ۳; گذشتہ امتيں اور انبياءعليه‌السلام ۲

لوگ :صدر اسلام كے لوگ اور رحمانيت الہى ۹ ;صدر اسلام كے لوگوں كا كفر ۶،۹ ; صدر اسلام كے لوگوں كى جہالت ۹

مسلمين :مسلمين اور حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۲

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۱۱; نظريہ كائنات اور ايڈيالوجى ۱۲ ، ۱۵ ، ۱۷

وحى :وحى كا جھٹلانا ۷

۸۱۸

آیت ۳۱

( وَلَوْ أَنَّ قُرْآناً سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ أَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الأَرْضُ أَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتَى بَل لِّلّهِ الأَمْرُ جَمِيعاً أَفَلَمْ يَيْأَسِ الَّذِينَ آمَنُواْ أَن لَّوْ يَشَاءُ اللّهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيعاً وَلاَ يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُواْ تُصِيبُهُم بِمَا صَنَعُواْ قَارِعَةٌ أَوْ تَحُلُّ قَرِيباً مِّن دَارِهِمْ حَتَّى يَأْتِيَ وَعْدُ اللّهِ إِنَّ اللّهَ لاَ يُخْلِفُ الْمِيعَادَ )

اور اگر كوئي قرآن ايسا۱_ ہو جس سے پہاڑوں كو اپنى جگہ سے چلايا جا سكے يا زمين طے كى جاسكے يا مردوں سے كلام كيا جا سكے (تو وہ يہى قرآن ہے )بلكہ تمام امور اللہ كے لئے ہيں تو كيا ايمان والوں پر واضح نہيں ہوا كہ اگر خدا جبراً چاہتا تو سارے انسانوں كو ہدايت دے ديتا اور ان كا فروں ۲_پر ان كے كرتوت كى بنا پر ہميشہ كوئي نہ كوئي مصيبت پڑتى رہے گى يا ان كے ديار كے آس پاس مصيبت آتى رہے گى يہاں تك كہ وعدہ الہى كا وقت آجائے كہ اللہ اپنے وعدہ كے خلاف نہيں كرتاہے (۳۱)

۱_ نزول قرآن جو پہاڑوں كو حركت ميں لاتاہے، زمين كو ٹكڑے ٹكڑے كرديتاہے ، مردوں كو زندہ كرتاہے وہ ان لوگوں كے ليے ہدايت كا چراغ نہيں بن سكتا جن كو خداوند متعال ہدايت نہ دينا چاہتاہو_

و لو أن قرء اناً سيرت به الجبال او قطعت به الارض او كلم به الموتى

(تسيير) ''سيرت '' كامصدر ہے جو حركت دينے كے معنى ميں آتاہے اور (تقطيع) ''قطعت '' كا مصدر ہے جو بہت گہرا سوراخ

۸۱۹

كرنے كے معنى ميں آتاہے يا ٹكڑے ٹكڑے كرنے كے معنى ميں آتاہے حرف باء تينوں مذكورہ جملات ميں استعانت كے معنى ميں ہے (بل الله الامر ) كا جملہ اور (ان لو يشاء الله لهدى الناس ) كا جملہ يہ بتاتاہے كہ'' لو انّ ''كا جواب شرط'' لم تهيدوا إن لم يشاء الله'' جيسا جملہ ہے_

۲ _ وہ لوگ جو تلاوت قرآن مجيد سے ہدايت حاصل نہيں كرتے اور آخرت پر ايمان نہيں لاتے حتى ان كے ليےمردے بھى زندہ ہوجائيں اور وہ آخرت كے حقائق كو ان كے ليے بيان كريں تب بھى وہ ہدايت نہيں پائيں گے _

و لو انّ قرء اناً كلم به الموتي

جملات (سيرت به الجبال ) اور (قطعت به الارض ) اور (كلم به الموتي ) يہ ان معجزات كى حكايت كرتے ہيں جن كى كفار نے درخواست كى تھى مثلا ً يہ كہا جاسكتاہے كہ جملہ (كلم بہ الموتي) اس بات كى طرف اشارہ كرتاہے كہ انہوں نے آخرت كے بارے ميں يقين پيدا كرنے كے ليے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے درخواست كى كہ مردوں كو زندہ كرے تاكہ مرنے كے بعد والى دنيا اورآخرت كے بارے ميں انہيں خبر ديں _

۳_ وہ لوگ جو مشاہدہ كرنے اور قرآن مجيد جو پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہوا ہے كى تلاوت كرنے سے ہدايت نہيں پاتے وہ كسى نشانى و معجزے سے ہدايت حاصل نہيں كرسكيں گے _و لو انّ قرء اناً سيّرت به الجبال بل للّه الامر جميعا

۴ _ انسانوں كى ہدايت، خداوند متعال كے ہاتھ اور اسى كے اختيار ميں ہے _و لو أنّ قرء انا ً بل للّه الامر جميعا

(الامر) كا مصداق جو قرينہ'' أفلم يأيئس أن لو يشاء الله لهدى الناس'' اور ''قل إن الله يضل من يشاء و يهدي ...) كى وجہ سے جو آيت ۲۷ ميں ہے ، انسانوں كى ہدايت اور ضلالت ہے _

۵_خداوند متعال تمام امور كا منشا و سبب ہے اور تمام چيزيں اس كے ہاتھ سے جارى و سارى ہيں _لله الامر جميعا

۶_ مشيت الہى نافذ ہونے والى اور تخلف ناپذير ہے _أن لو يشاء الله لهدى الناس جميعا

۷_ تمام لوگوں كا ہدايت يافتہ ہونا، مشيت اور تقاضا الہى نہيں ہے _أن لو يشاء الله لهدى الناس جميعا

يہ بات قابل ذكر ہے كہ يہاں مشيت سے مراد مشيت تكوينى ہے و گرنہ خداوند متعال مشيت تشريعى ميں تمام لوگوں كى ہدايت كو چاہتاہے_

۸_عصر بعثت كے مؤمنين، ظہور معجزہ كے خواہاں تھے تا

۸۲۰

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945

946

947

948

949

950

951

952

953

954

955

956

957

958

959

960

961

962

963

964

965

966

967

968

969

970

971