تفسير راہنما جلد ۸

تفسير راہنما 6%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 971

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 971 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 217330 / ڈاؤنلوڈ: 4559
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۸

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

صحیح بخاری کے ایک باب میں ایک عنوان ہے : "فی الرّکا ز الخمس"(دفینے میں خمس ہے)۔ مالک اور ابن ادریس کہتے ہیں کہ رکاز وہ مال ہے جو قبل از اسلام دفن کیا گیا تھا ۔ یہ تھوڑا ہو یا زیادہ اس میں خمس ہے ۔جبکہ معدنی ذاخائر رکاز یا دفینہ نہیں ہیں ۔رسول اللہ ص نے فرمایا ہے کہ رکاز میں خمس ہے ۔(1)

ابن عباس کہتے  ہیں کہ عنبر رکاز نہیں ہے ۔ وہ تو ایک چیز ہے جسے سمندر پھینکتا لیکن حسن بصری کہتے ہیں کہ عنبر اور موتی میں بھی خمس ہے ۔(2) اس بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ غنیمت کا وہ مفہوم جس پر اللہ تعالی نے خمس واجب کیا ہے دار الحرب سے مخصوص  نہیں کیونکہ رکاز یا دفینہ وہ خزانہ ہے جو زمین کے اندر سےنکالا جائے ۔ یہ خزانہ ملکیت ہوتا ہے اسی کی جو اس کو نکالے لیکن اس پر خمس کی ا دائیگی واجب ہے اس لیے کہ دفینہ بھی مال غنیمت ہے ۔ اسی طرح عنبر اور موتی جو سمندر سے نکالے جائیں ان پر بھی خمس نکالنا واجب ہے ، کیونکہ وہ بھی مال غنیمت ہیں ۔بخاری نے اپنی صحیح  میں جو روایات بیان کی ہیں ان سے اور مذکور بالا احادیث سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ اہل سنت کے اقوال اور ان کے افعال میں تضاد ہے ورنہ بخاری تو اہل سنت کے معتبر ترین محدث ہیں ، ان کی روایات پر عمل نہ کرنے کے کیا معنی ؟شیعوں کی ہمیشہ مبنی بر حقیقت ہوتی ہے ۔ اس میں نہ کوئی تضاد ہوتا ہےنہ اختلاف ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ اپنے عقائد میں بھی اور احکام میں بھی ائمہ اہلبیت ع کی طرف رجوع کرتے ہیں جن کی شان میں آیہ تطہیر  اتری ہے اورجن کو رسول اللہ  نے کتاب اللہ کے ہمدوش قراردیا ہے ۔ پس جس نے ان کا دامن پکڑ لیا وہ گمراہ نہیں ہوسکتا اور جس نے ان کی پناہ حاصل کرلی وہ محفوظ ہوگیا ۔علاوہ ازیں اسلامی حکومت کے قیام  کے لیے ہم جنگوں پر بھروسہ نہیں کرسکتے ۔یہ بات

---------------------------

(1):-صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 134 باب فی الرّکاز الخمس

(2):- صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 136 باب ما یستخرج من البحر

۲۰۱

اسلام کی وسیع النظری  اور صلح پسندی کے خلاف ہے ۔ اسلام کوئی سامراجی حکومت نہیں ہے جس کامقصد دوسری قو موں کا استحصال کرنا ، ان کے وسائل سے ناجائز فائدہ اٹھانا اور انھیں لوٹنا ہو ۔ یہ تو وہ الزام  ہےجو اہل مغرب ہم پر لگاتے ہیں ۔ جو اسلام اور پیغمبر اسلام  کا ذکر حقارت کے ساتھ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام طاقت اور تلوار کے زور سے پھیلا ہے اور اس کا مقصد غیر قوموں کے وسائل پر ناجائز قبضہ کرنا ہے ۔

مال زندگی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔خصوصا ایسی حالت میں جبکہ اسلام کا اقتصادی نظریہ یہ ہے کہ لوگوں کو معاشی تحفظ کی ضمانت دی جائے جسے آج کال کی اصطلاح میں سوشل سیکیورٹی کہا جاتا ہے اور ہر فرد  کی ماہوار یا سالانہ  کفالت کا انتظام کیاجائے نیز معذوروں اورحاجت مندوں کو باعزت روزی کی ضمانت فراہم کی جائے ۔

ایسی حالت میں اسلامی حکومت کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اس آمدنی پر انحصار کرے جو اہل سنت زکات کے نام سے نکالتے ہیں جس کی مقدار زیادہ زیادہ ڈھائی فیصد ہوتی ہے ۔یہ تناسب اتنا کم ہوتا ہے کہ حکومت کی ایسی ضروریات کے لیے ناکافی  ہے مثلا افواج کو کیل کانٹے سے لیس کرنا ، اسکول اور کالج بنانا ، ڈسپنسر یاں اور ہسپتال قائم کرنا ، سڑکیں اور پل تعمیر کرنا وغیرہ ۔ حالانکہ حکومت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہر شہر کو اتنی آمدنی کی ضمانت دے جو اس کے گزربسر کے لیے کافی ہو ۔ اسلامی حکومت کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنی اور اپنے اداروں اور افرادکی بقا اورترقی کے لیے خوں ریز جنگوں پن انحصار کرے یا ان مقتولین کی قیمت پر ترقی کرے جو اسلام میں دلچسپی نہ رکھنے کی پاداش میں قتل کر دیے گئے ہوں ۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ سب بڑی اور ترقی یافتہ حکومتیں تمام اشیائے صرف پر ٹیکس لگاتی ہیں جس کی مقدار تقریبا بیس فیصد ہوتی ہے ، خمس کی بھی اتنی ہی مقدار اسلام نے اپنے ماننے والوں پر فرض کی ہے ۔ اہل فرانس  جو T.V.A ادا کرتے ہیں اس کی مقدار 1865 فیصد ہوتی ہے ۔ اسے کے ساتھ اگر انکم ٹیکس کا اضافہ کرلیا جائے تو یہ مقدار 20 فیصد یا کچھ زیادہ ہوجاتی ہے ۔

۲۰۲

ائمہ اہل بیت ع کو قرآن کے مقاصد کا دوسروں سے زیادہ  علم  تھا اور ایسا کیوں نہ ہوتا جبکہ وہ ترجمان قرآن تھے ۔ اسلامی  حکومت کی اقتصادی  اور اجتماعی  حکمت عملی وضع کرنا ان کا کام تھا بشرطیکہ ان کی بات مانی جاتی مگر افسوس کہ اقتدار اور اختیار دوسروں کے ہاتھ میں تھا ، جنھوں نے طاقت کے بل پر زبردستی خلافت پر قبضہ کرلیا تھا اور متعدد صحابہ صالحین  کو قتل کردیا تھا اور اپنی سیاسی اور دنیوی مصلحتوں کے مطابق اللہ کے احکام میں ردّ  وبدل کردیا تھا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا ۔ نتیجۃ امت پستی کے تحت الثری میں گرگئی جس سے وہ آج تک نہیں ابھرسکی ۔

ائمہ کی تعلیمات نے ایسے افکار اور نظریات کی شکل اختیار کر لی جن پر شیعہ آج بھی یقین رکھتے ہیں لیکن عملی زندگی میں ان کی تطبیق کی کوئی صورت نہ رہی شیعوں کو مشرق ومغرب میں ہر طرف دھتکار دیا گیا ۔ اموی اور عباسی صدیوں تک ان کا پیچھا کرتے رہے ۔

جب یہ دونوں حکومتیں ختم ہوگئیں تب جاکر شیعوں کو ایسا معاشرہ قائم کرنے کا موقع ملاجس میں وہ خمس ادا کرسکتے تھے ۔ پہلے وہ خمس خفیہ طور پر ائمہ علیھم السلام  کو ادا کرتے تھے ، اب وہ اپنے مرجع تقلید کو امام مہدی علیہ السلام کے نائب کی حیثیت میں اداکرتے ہیں ۔ اور مراجع تقلید اس رقم  کو شرعی کاموں میں خرچ کرتے ہیں۔  مثلا وہ اس رقم سے دینی مدارس ،علمی مراکز ، اشاعت اسلام کے لیے اشاعتی ادارے نیز خیراتی ادارے ، پبلک لائبریاں اور یتیم خانے وغیرہ قائم کرتے  ہیں ۔دینی علوم کے طالب علموں کو ماہانہ وظائف وغیرہ بھی دیتے ہیں ۔

اس سے یہ بھی نتیجہ نکلتا ہے کہ شیعہ علماء حکومت کے دست نگر نہیں اس لیے کہ خمس کی رقم ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہوتی ہیں بلکہ وہ خود مستحقین کو ان کے حقوق پہنچاتے ہیں ۔ اس لیے وہ حکمرانوں کا تقرّب حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے ۔اس کے بر خلاف ، علمائے اہل سنت حکام وقت کے دست نگر اور ان کے ملازم ہیں ۔ حکام اپنی مصلحت کے مطابق جس کو چاہتے ہیں نوازتے ہیں اور جس کو

۲۰۳

چاہتے ہیں نظر انداز کرتے ہیں ۔ اس طرح علماء کا تعلق عوام سے کم اور ایوان اقتدار سے زیادہ ہوگیا ہے ۔

اب آپ خود دیکھیے کہ خمس کے حکم کی تاویل کا امت کے معاملات پر کیا اثر پڑا ۔ اس صورت میں ان  مسلمان نوجوانوں کو کیسے الزام دیا جاسکتا ہے جنھوں نے اسلام کو چھوڑ کر کمیونزم کا راستہ اس لیے اختیار کرلیا کہ انھیں کمیونزم کے نظریہ میں اس نظام کی نسبت جو ہمارے یہاں رائج ہے ،دولت کی تقسیم قوم کے تمام افراد میں زیادہ منصفانہ نظرآئی۔

ہمارے یہاں تو ایک  ظالم طبقہ ایسا ہے جو ملک کی ساری دولت پر قبضہ جمائے ہوئے ہے جبکہ ملگ کی غالب افلاس میں دن گزار رہی ہے ۔ جن دولت مندوں کے دل میں تھوڑا بہت اللہ کا خوف ہے ، وہ بھی سال میں ایک مرتبہ زکات نکالنے کو کافی سمجھتے ہیں جو فقط ڈھائی فیصد ہوتی ہے اور جس سے غریبوں کی سالانہ ضرورت کا دسواں حصہ بھی پورا نہیں ہوتا ۔

"صراط عليّ حقّ ٌ نمسّكه"

۲۰۴

تقلید

شیعہ کہتے ہیں کہ فروع دین شریعت کے وہ احکام ہیں جن کا تعلق ان اعمال سے ہے جو عبادت میں جیسے : نماز ، روزہ ، زکات اور حج وغیرہ ۔ ان کے بارے میں مندرجہ ذیل تین صورتوں میں سے کسی ایک پر عمل واجب ہے :-

الف:- یا تو آدمی خود اجتہاد کرے اور احکام کے دلائل پر غور کرے (بشرطیکہ اس کا اہل ہو)۔

ب:- یا احتیاط پر عمل کرے بشرطیکہ  احتیاط کی گنجائش ہو ۔

ج:- یا پھر کسی جامع الشرائط مجتھد کی تقلید کرے ۔

جس کی تقلید کی جائے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ زندہ ، عاقل ، عادل  پر ہیز گار اور دین پر عامل ہو۔ اپنی خواہشات نفسانی پر نہ چلتا ہو بلکہ احکامات الہی  کی پیروی کرتا ہو۔

فرعی احکام میں اجتہاد(1) تمام مسلمانوں پر واجب کفائی ہے ،اگر کوئی ایک بھی

--------------------

(1):-اجتہاد کی اصطلاح  شیعوں کے ہاں بھی موجود ہے لیکن اس کے اس کے وہ معنی جو سنیوں نے عملی طور پر اسے دے دیے ہیں ۔ سنیوں کے ہاں عملا اجتہاد میں "ذاتی رائےکے اظہار" کا عنصر بھی موجود ہے جبکہ  شیعوں میں اجتہاد فقط احکام الہی کو سمجھنے  کی کوشش کا نام ہے اور مجتہد کسی طور پر بھی اپنی ذاتی رائے کا اظہار نہیں کرتا۔ البتہ اصطلاح کی تعریف کرتے وقت دونوں مکاتب کی اصولی کتابوں میں ایک ہی جملہ استعمال ہوتا ہے لیکن جہاں تک عمل کا تعلق ہے سنیوں  میں فقیہ یا غیر معصوم  صحابی کی رائے   کا احکام میں دخل ہے ۔جبکہ شیعوں کا مکتب صرف خدا اور رسول کے احکامات وارشادات کو معتبر گردانتا ہے ۔مثلا امام محمد باقر ع یا امام جعفر صادق  ع یہ نہیں کہتے تھے کہ انا اقول :(میں کہتا ہوں ) کہ انا احرّم (میں حرام کرتاہوں ) بلکہ یہی کہتے تھے کہ رسول اللہ نے یوں فرمایا ہے : یا خدانے یوں فرمایا ہے ۔یہ مکتب اہل بیت ع کا امتیاز ہے ۔

مکتب اہل بیت ع کے اصول تفکر کے نمونے کے طورپر ہم آپ کے لیے ایک بزرگ عالم  

۲۰۵

مسلمان جس میں اس کا م کی علمی لیاقت اور استعداد ہے ، اس کام کو کرلے تو باقی مسلمانوں سےیہ فریضہ ساقط ہوجاتا ہے ۔

شیعہ ان علماء کا اجتہاد کافی سمجھتے ہیں جنھوں نے اپنی زندگی اجتہاد کا رتبہ حاصل کرنے میں صرف کی ہو ۔ مسلمانوں کے لیے ایسے مجتہد کی تقلید کرنا اور فروع دین میں اس کی طرف رجوع کرنا جائز ہے ۔لیکن اجتہاد کا رتبہ حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں اور نہ اس کا حصول سب کے لیے ممکن ہے ۔ اس کے لیے بہت وقت اور بہت وسیع علمی  معلومات کی ضرورت ہوتی ہے ، اوریہ سعادت صرف اسے ہی میسّر آتی ہے جو سخت محنت  اور کوشش کرتا اور اپنی عمر تحقیق وتعلم میں کھپاتا ہے ۔ ان میں بھی اجتہاد  کا رتبہ صرف خاص خاص خوش نصیبوں ہی کو حاصل ہوتا ۔

رسو ل اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے :

"من  أراد الله به خيرا يفقّهه فی الدين"

اللہ جس کے ساتھ نیکی کا ارادہ کرتا ہے اس کو دین کی سمجھ عطاکردیتا ہے ۔

اس سلسلے میں شیعوں کا  یہ قول اہل سنت کے ایسے ہی قول سے مختلف  نہیں ۔ صرف بارے میں اختلا  ہے کہ تقلید کے لیے مجتہد کا زندہ ہونا ضروری ہے یا نہیں ۔

لیکن شیعوں اور سنیوں میں واضح اختلاف اس میں  ہے کہ تقلید پر عمل کیسے

-------------------

عثمان بن سعید عمری کا قول ہے نقل کرتے ہیں جو حضرت ولی عصر ارواحنا لہ الفداء کے نائب خاص تھے جب انھوں نے ایک شیعہ کے سوال کے جواب میں ایک عمل کی حرمت کا فیصلہ دیا تو ان الفاظ کا اضافہ کیا :

"میں یہ فیصلہ اپنی طرف سے نہیں دے رہا ۔ میرے لیے کسی صورت میں روا نہیں کہ کسی چیز کو حلال یا حرام قراردوں "(یعنی میں فقط امام علیہ السلام کا قول نقل کررہا ہوں )اصول کافی جلد 1 ۔وسائل الشیعہ جلد 18 صفحہ 100)(ناشر)

۲۰۶

کیا جائے۔ شیعوں کا اعتقاد ہے کہ وہ مجتہد  جس میں مندرجہ ذیل بالا سب شرائط پائی جاتی ہوں امام علیہ السلام کا نائب ہے اور غیبت امام کے زمانے میں وہ حاکم اور سربراہ ہے اور مقدمات کا فیصلہ کرنے اور لوگوں پر حکومت کرنے کے اسے وہی اختیارات حاصل ہیں جو امام کوہیں ۔ مجتہد کے احکام کا انکار خود امام کا انکار ہے ۔

شیعوں کے نزدیک جامع الشرائط مجتہد کی طرف صرف فتوے کے لیے ہی رجوع نہیں کیا جاتا بلکہ اسے اپنے مقلدین پر ولایت عامہ بھی حاصل ہوئی ہے ۔ اس لیے مقلدین اپنے مقدمات کے تصفیہ کے لیے بھی اپنے مجتہد ہی سے رجوع کرتے ہیں ، جو خمس اور زکات میں امام زمانہ کے نائب کی حیثیت سے شریعت کے مطابق تصرف کرتا ہے ۔ لیکن اہل سنت والجماعت کے نزدیک مجتہد کا یہ مرتبہ نہیں ۔ وہ یہ نہیں مانتے کہ امام نائب رسول ہوتا ہے ۔ فقہی مسائل میں البتہ  وہ صاحب مذاہب اربعہ میں کسی ایک کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ ان ائمہ اربعہ کے نام یہ ہیں :

(1):-ابو حنیفہ نعمان بن ثابت بن زوطی (سنہ 80 ھ تا سنہ 150ھ)۔(2):-مالک بن انس بن مالک بن ابی عامر اصبحی (سنہ 93 ھ تا سنہ 179 ھ)۔(3):- محمد بن ادریس بن عباس بن عثمان شافع(سنہ 150 ھ تا سنہ 198ھ)۔(4):- احمد بن محمد بن جنبل بن ہلال (سنہ 164 ھ تا سنہ 241ھ)

موجودہ  دور کے بعض اہل سنت ان میں کسی ایک معین امام کی تقلید نہیں کرتے ، بلکہ اپنی مصلحت کے مطابق بعض مسائل میں کسی ایک امام کی تقلید کرتے ہیں اور کچھ دوسرے مسائل میں کسی دوسرے امام کے قول پر عمل کرتے ہیں ۔ سید سابق جنہوں نے چاروں اماموں کے فقہ سے ماخود ایک کتاب مرتب کی ہے ، ایسا ہی کیا ہے  کیونکہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ اصحاب مذاہب کا اختلاف رحمت ہے ۔ اس لیے اگر کسی مالکی کو  اپنی مشکل کا حل اپنے امام کے یہاں نہ ملے اور امام ابو حنیفہ کے یہاں مل جائے تو وہ امام ابو حنیفہ کے قول پر عمل کرلے ۔میں اس کی ایک مثال پیش کرتا ہوں تاکہ مطلب واضح ہوجائے : ہمارے یہاں تیونس میں ایک بالغ لڑکی تھی ، یہ اس زمانے کی بات ہے

۲۰۷

جب یہاں قاضی کو رٹس ہوا کرتی تھیں ۔ اس لڑکی کو ایک شخص سے محبّت ہوگئی ۔ یہ اس سے شادی کرنا چاہتی تھی مگر اس کا باپ اللہ جانے کیوں اس سے اس کے نکاح پر راضی نہیں تھا ۔ آخر باپ کے گھر سے بھاگ گئی اور اس نے اس نوجوان سے باپ  کی اجازت  کے بغیر نکاح کرلیا ۔ باپ نے شوہر کے خلاف دعوی دائر کردیا ۔ جب لڑکی اپنے شوہر  کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئی تو قاضی نے اس سے گھر سے بھاگنے اور ولی سے اجازت کے بغیر نکاح کرنے کی وجہ سے پوچھی تو اس نے کہا : "جناب عالی ! میری عمر 25 سال ہے ۔ میں  اسے شخص سے اللہ رسول  کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق شادی کرنا چاہتی تھی ، لیکن میرا باپ میرا بیاہ ایسے شخص سے کرنا چاہتا تھا جو مجھے بالکل پسند نہیں تھا ۔میں نے امام ابو حنیفہ کے مذہب کے مطابق شادی کرلی کیونکہ امام ابو حنیفہ کے قول کے مطابق مجھے بالغ ہونے کی وجہ سے حق ہے کہ میں جس سے چاہوں شادی کرلوں"۔

اللہ بخشے قاضی صاحب جنھوں نے یہ قصہ مجھے خود سنایا تھا ، کہنے لگے : جب ہم نے اس مسئلہ کی تحقیق کی تو معلوم ہواکہ لڑکی ٹھیک کہتی تھی۔ میرا خیال ہے شاید کسی جاننے والے عالم نے سکھایا تھا کہ عدالت میں جاکر کیا بیان دے ۔

قاضی صاحب کہتے تھے کہ میں باپ کادعوی خارج کردیا اور نکاح کو باقی رکھا ۔باپ غصہ میں بھرا ہوا عدالت سے باہر نکلا ۔وہ ہاتھ مل رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ کتیا حنفی ہوگئی "یعنی امام مالک کو چھوڑ کر امام ابو حنیفہ کا مذہب اختیار کرلیا ۔ بعد میں وہ شخص کہتا تھا کہ میں اس کتیا کو عاق کردوں گا ۔

یہ مسئلہ اجتہادی اختلاف کا ہے :-

امام مالک کی رائے ہے کہ کنواری باکرہ لڑکی کا نکاح سرپرست کی اجازت کے بغیر نہیں ہوسکتا ۔بلکہ اگر مطلقہ یا بیوہ ہو تب بھی ولی کی اجازت ضروری ہے  ۔ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ بالغہ چاہے باکرہ ہویا مطلقہ و بیوہ اسے خود اپنا شوہر  پسند کرنے اور عقد کرنے کااختیار ہے ۔ تو اس فقہی مسئلے نے باپ بیٹی میں جدائی ڈال دی ۔ یہاں تک کہ باپ نے بیٹی کو عاق کردیا ۔

۲۰۸

پہلے زمانے میں تیونس میں اکثر باپ مختلف وجوہ سے بیٹیوں کو عاق کردیا کرتے تھے ،جن میں سے ایک وجہ یہ ہوتی تھی کہ لڑکی جس سے شادی کرناچاہتی تھی اس کے ساتھ بھاگ گئی ۔ عاق کرنے کا انجام بڑا خراب ہوتا ہے کیونکہ جب باپ بیٹی کو میراث سے محروم کردیتا ہے تو لڑکی اپنے بھائیوں کی دشمن بن جاتی ہے اور بھائی خود  بھی بہن کوچھوڑ دیتے ہیں ، کیونکہ بہن کے بھاگنے کو بھائی اپنے لیے کلنک کا ٹیکہ سمجھتے ہیں ۔  اس طرح معاملہ ویسا نہیں ہے جیسا کہ اہل  سنت  سمجھتے ہیں کہ اصحاب مذاہب فقہاء کا اختلاف  ہمیشہ رحمت ہوتا ہے ۔ کم از کم یہ اختلاف ہر مسئلے میں رحمت  نہیں ہے ، کیونکہ ہمارے  لیے معاشرتی اور قبائلی اختلاف اور روایات کو بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے ۔

ایک ایسے معاشرے میں جس کی نشوونما مالکی افکار پر ہوئی ہو اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ عورت کو یہ حق ہو کہ گھر سے بھاگ جائے اور باپ کی اجازت  کے بغیر کسی سے نکاح کر لے ۔ جو عورت ایسا کرے گی اس کے متعلق یہی سمجھا جائے گا  کہ اس نے گویا اسلام کا انکار کرلے ۔ جو عورت ایسا کرےگی اس کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ اس نے گویا اسلام کا انکار کیا یا ایک ناقابل معافی گناہ کا ارتکاب کیا ۔ جبکہ دوسرے مذہب کی رو سے اس نے ایسا کا م کیا جو نہ صرف جائز ہے بلکہ اسے اس  کا حق بھی ہے ۔ اسی لیے مالکی معاشرے کو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے حنفی معاشرے میں نسبتا جنسی آزادی اور آوارگی ہے ۔ ان مذہبی اختلاف  کے نتیجے میں عورت اپنے بہت سے حقوق سے محروم ہے اور وہ اس صورت حال کا الزام دین اسلام کےو دیتی ہے ۔ اسی لیے ہم ان بعض نوجوان عورتوں کو الزام نہیں دے سکتے جو اپنے مذہب کا اس لیے انکار کرنے لگتی ہیں کیونکہ ان کے بڑے ان کے ساتھ خلاف شریعت ظالمانہ سلوک کرتے ہیں ۔

اس مثال کے بعد ہم پھر اصل موضوع کی طرف آتے ہیں :-

اہل سنت کے نزدیک جس امام کی تقلید  کی جائے اس تقلید سے وہ درجہ حاصل نہیں ہوجاتا جس کے شیعہ قائل ہیں یعنی نیابت رسول کا درجہ ۔ اس  کی وجہ شوری اور "خلیفہ یا امام کے انتخاب کا نظریہ ہے ۔ اہل سنت نے خود اپنے

۲۰۹

آپ کو یہ حق دے دیا ہے کہ وہ جس کو چاہیں خلیفہ یا بہتر الفاظ میں امام بنادیں ۔ اسی طرح ان کے خیال میں انھیں یہ بھی حق ہے کہ وہ چاہیں تو امام کو معزول کردیں  یا اس کے بجائے جس اپنی دانست میں بہتر سمجھیں اسے مقرر کردیں ، اس طرح درحقیقت وہ امام کے بھی امام ہوگئے ۔یہ صورت شیعہ عقیدہ کے بالکل برعکس ہے اگر ہم اہل سنت کے پہلے امام یعنی ابو بکر صدیق پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ انھوں نے امت سے اپنے پہلے خطاب میں کہا تھا :

" أيّهاالنّاس لقد ولّيت عليكم ولست بخيركم فإن أطعتُ فأعينوني وإن عصيتُ فقوّموني......."

لوگو! مجھے تمھارا والی چن لیا گیا ہے اگر چہ میں تم میں سب سے بہتر نہیں ہوں ۔چنانچہ جب تک میں صحیح راستے پر چلوں  میرے ساتھ تعاون کرو اور جب میں بھٹک جاؤں ، تو مجھے صحیح راہ پر چلادو۔۔۔۔۔"۔

اس طرح ابو بکر خود اعتراف کرتے ہیں کہ جن لوگوں نے ان کو پسند کیا ہے اور ان کی بیعت  کی  ہے انھیں یہ بھی حق ہے کہ معصیت اورخطا کی صورت میں وہ ان کے مقابلے میں ڈٹ جائیں ۔

اس کے برعکس  ، جب ہم شیعوں کے پہلے امام یعنی علی بن ابی طالب ع پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ ان کی امامت کے قائل ہیں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ ان کو امام مان کر  دراصل  حکم خداوندی کی تعمیل کرتے ہیں ۔ ان کے نزدیک امام علی ع کو ایسی ہی ولایت مطلقہ کیا ہو بھلا اس کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ کوئی خطا کرے کیس معصیت کا مرتکب ہو ؟اسی طرح امت  کے لیے بھی یہ ہرگز جائز نہیں کہ وہ اس کے کسی حکم کی  مخالفت کرے یا اس کا مقابلہ کرے کیونکہ ارشادباری تعالی ہے :

"وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْراً أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً مُبِيناً "

۲۱۰

چونکہ حضرت علی ع کو مسلمانوں کا امام اللہ اور اس کے رسول ص نے مقرر کیا تھا: اس لیے ان کی حکم عدولی نہیں کی جاسکتی  تھی نہ یہ ممکن تھا کہ حضرت علی  ع کسی معصیت کا ارتکاب کریں اسی لیے رسول اللہ  ص نے فرمایا تھا :

"عليٌّ مع الحقّ والحقّ مع عليّ ٍ ولن يفرقا حتّى يردا عليّ الحوض ."

علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے ۔ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے جب تک میرے پاس حوض پر نہ آجائیں"(1) ۔

تقلید کے بارے میں فریقین کا استدلال ان کے دو مختلف نظریوں کی بنیاد پر آسانی سے سجمھ میں آسکتا ہے ۔ مطلب ہے سنیوں کا شوری کا نظریہ  اور شیعوں کا نص کا نظریہ۔

اس کے بعد تقلید  کے متعلق شیعوں  اور سنیوں میں صرف ایک اور اختلافی مسئلہ باقی رہ جاتا ہے اور وہ ہے "تقلید میت کا مسئلہ "۔

اہل سنت جس ائمہ کی تقلید کرتے ہیں انھیں فوت ہوئے صدیاں گزرچکی ہیں ۔ اسی زمانے کے بعد سے اہل سنت کے یہاں  اجتہاد  کا دروازہ بند ہے ۔ ان ائمہ  کےبعد جو علماء ہوئے ان کی ساری توجہ صرف اگلی کتابوں کی شرحیں لکھنے اور مذاہب اربعہ کے مطابق فقہی مسائل کے نظم اور نثر میں مجموعے مرتب کرنے پر مرکوز رہی ۔ اب چونکہ بہت سے ایسے مسائل پیدا ہوگئے ہیں جن کا ائمہ کے زمانے میں وجود بھی نہیں تھا ۔ اس لیے بعض معاصرین آواز اٹھارہے ہیں کہ زمانے کی مصلحت کا

---------------------------

(1):- محمد بن عیسی ترمذی جامع ترمذی جلد 5 صفحہ 297 ۔علاء الدین شقی ہندی کنزالعمال جلد 5 صفحہ 30 ۔محمد بن عبداللہ  حاکم نیشاپوری مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 124۔ جار اللہ زمخشری ربیع الابرار ۔ ابن حجر ہیثمی مکی صواعق محرقہ  صفحہ 122 ۔ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ جلد 2 صفحہ 572۔حافظ ابو بکر خطیب بغدادی تاریخ بغداد جلد 14 صفحہ 321 ۔ حافظ ابن عساکر تاریخ دمشق جلد 3 صفحہ 119 ۔ ابن قتیبہ دینوری الامامۃ والسیاسۃ جلد 1 صفحہ 73۔

۲۱۱

 تقاضا یہ ہے کہ اجتہاد کا دروازہ پھر سے کھول دیا جائے ۔

اس کے برعکس ، شیعہ میت کی تقلید جائز نہیں سمجھتے اور اپنے تمام احکام کے بارے میں ایسے زندہ مجتہد  کی طرف رجوع کرتے ہیں جس  میں وہ سب شرائط پائی جاتی ہون جن کا ہم نے گزشتہ اوراق میں ذکر کیا ہے یہ صورت امام معصوم کی غیبت کے زمانے میں ہے ۔ جب تک امام معصوم دوبارہ ظاہر نہیں ہوتے ، شیعہ قابل اعتماد علماء ہی سے رجوع کرتے رہیں گے ۔

آج بھی ایک سنّی مالکی مثلا کہتا ہے کہ امام مالک قول کے مطابق یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے ۔ حالانکہ امام مالک  کو فوت  ہوئے چودہ صدیاں گزرچکی ہیں ۔یہی صورت امام ابو حنیفہ ، امام شافعی اور امام احمد بن جنبل کے پیرو کاروں کے ساتھ ہے  کیونکہ یہ سب مذاہب اور ائمہ ایک ہی  زمانے میں تھے اور ان کا ایک دوسرے سے  استاد شاگرد کا تعلق تھا ۔ اہل سنت اپنے ائمہ  کے معصوم ہونے کے بھی قائل نہیں ۔ نہ خود ان ائمہ نے کبھی عصمت کا دعوی کیا ۔ اہل سنت کہتے ہیں کہ یہ ائمہ جو اجتہاد کرتے ہیں اس  میں خطا اور صواب دونوں کا احتمال ہے ۔ صواب کی صورت میں انھیں دو اجر ملتے ہیں اور خطا کی صورت میں ایک اجر ۔ بہر کیف اجر ہر اجتہاد پر ملتا ہے ۔

شیعوں کے نزدیک تقلید کے دو دور ہیں :

۔ پہلا دورائمہ اثناعشر کا دور ہے ۔ یہ مرحلہ تقریبا ساڑھے تین سوسال پر محیط ہے ۔ اس دور میں ہر شیعہ امام معصوم کی تقلید کرتا تھا اور امام کوئی بات اپنی رائے یا اپنے اجتہاد  سے بیان نہیں کرتے تھے ۔ وہ جو کچھ کہتے تھے اسی علم اور ان روایات  کی بنیاد پر کہتے تھے جو انھیں ابا عن جد رسول اللہ ص سے پہنچی تھیں ۔ مثلا وہ کسی سوال کے جواب میں اس طرح کہتے تھے :"روایت بیان کی میرے والد نے ، انھوں یہ روایت سنی اپنے نانا سے ، انھوں نے جبریل سے انھوں نے اللہ عزوجل  سے "(1)

--------------------

(1):- ہشام بن سالم اورحمّاد بن عیسی سے روایت ہے  کہ انھوں نے کہا کہ ہم نے امام جعفر صادق ع کو

۲۱۲

۔ دوسرا دور زمانہ غیبت کا دور ہے جو ابھی تک چل رہا ہے ۔ اب شیعہ یہ کہتا ہے کہ یہ چیز آیت اللہ خوئی کی رائے کے مطابق  یا آیت اللہ خمینی کی رائے کے مطابق حلال یا حرام ہے ۔یہ دونوں(1) مجتہد زندہ ہیں ۔ ان کی رائے سے مراد ہے  قرآن اور ائمہ اہل بیت ع کی روایات کے مطابق سنت سے احکام کے استبناط  میں ان کا اجتہاد  ،ائمہ  اہل بیت  ع کی روایات کےبعد دوسرے درجے میں صحابہ عدول یعنی معتبر صحابہ کی روایات ہیں ۔ ائمہ اہل بیت ع کو ترجیح اس لیے ہے کہ وہ شریعت کے بارے میں اپنی رائے سے قطعی احتراز کرتے ہیں اور اس کے قائل ہیں کہ :

------------------------

یہ فرماتے ہوئے سنا کہ :

"میرے حدیث میرے والد کی حدیث ہے اور میرے والد کی حدیث میرے دادا کی حدیث ہے اور میرے داداکی حدیث  حسین کی حدیث ہے اور  حسین  کی حدیث حسن کی حدیث ہے اور حسن  کی حدیث امیر المومنین علیھم السلام کی حدیث ہے اور امیر المومنین کی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے اور رسول اللہ ص کی حدیث ارشاد الہی ہے "۔(اصول کافی جلد 1 صفحہ 35)

عنبسہ روایت کرتے ہیں کہ

"ایک شخص امام جعفر صادق علیہ السلام سے کوئی مسئلہ پوچھا تو آپ نے جواب دیا ۔ اس  پر اس شخص نے کہا کہ اگر ایسا اور ایسا ہوتا تو اس میں دوسرا قول نہ ہوتا ۔ آپ نے فرمایا ۔" جب کبھی ہم کسی مسئلے کاجواب دیں تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے  اورہم کوئی جاوب اپنی رائے سے نہیں دیتے "۔(بصائر الدرجات صفحہ 300-301)

(1):- جن دنوں مصنف نے یہ کتاب لکھی تھی ، آیت اللہ خمینی حیات تھے ۔

۲۱۳

"مامن شئ ٍإلّا ولله فيه حكمٌ"

   یعنی کوئی ایسی چیز نہیں جس کے بارےمیں اللہ کا حکم نہ ہو ۔

اگر کسی مسئلہ کے بارے میں ہمیں یہ حکم دستیاب نہ ہو تو اس کے یہ معنی نہیں کہ اللہ تعالی نے اس مسئلہ کو نظر انداز کردیا ہے ۔ بلکہ یہ  ہمارا قصور ناواقفیت ہے جس کی وجہ سے ہمیں اس حکم کا علم نہیں ہوسکا ۔کسی چیز کا علم نہ ہونا اس کی دلیل نہیں کہ اس کا وجود ہی نہیں ۔ اللہ سبحانہ کا قول ہے :

"مَّا فَرَّطْنَا فِي الكِتَابِ مِن شَيْءٍ"

اس کتاب میں ہم نے کوئی چیز نظر انداز نہیں کی۔(سورہ انعام ۔آیت 38)

وہ عقائد  جن پر سنت شیعوں کو الزام دیتے ہیں

شیعوں کے کچھ عقائد ایسے ہیں جن پر اہل سنت محض اس تعصب کی وجہ سے اعتراض کرتے ہیں جو امویوں اور عباسیوں نے اس لیے پھیلایا تھا  کیونکہ وہ امام علی ع سے بغض اور کینہ رکھتے تھے یہاں تک کہ امویوں نے علی الاعلان 80 برس تک  منبروں سے افتخار ہر نبی وہر ولی حضرت علی ع پر لعنت کی(1) اس لیے اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ یہ لوگ ہر اس شخص کو گالیاں دیتے تھے اور اس پر ہر طرح کے بہتان  باندھتے تھے جس کا ذرا بھی علی ع کی جماعت سے تعلق ہو ۔ نوبت یہاں  تک پہنچ گئی تھی مگر کسی کو یہ کہا جاتا تھا کہ تو یہودی ہے تو وہ اس کا اتنا برا نہیں مانتا تھا جتنا اگر اس کو یہ کہہ دیا جاتا تھا کہ تو شیعہ ہے ۔ ان کے حامیوں اور پیروکاروں کا بھی ہر زمانے میں اور ہرملک میں یہی طریقہ رہا۔یہاں تک کہ اہل سنت کے لیے لفظ شیعہ ایک گالی بن گیا ۔ کیونکہ شیعوں کے عقائد مختلف تھے اور سنیوں کی  جماعت سے باہر تھے ، اس لیے سنی ان پر جو چاہتے الزام لگادیتے تھے ، جس طرح چاہتے نام دھرتے تھے اور ہر بات میں ان کے طریقے کے

----------------------

(1):- تفصیلات کے لیے دیکھیے تاریخ عاشورا ،مطبوعہ تعلیمات اسلامی ۔کراچی پاکستان

۲۱۴

خلاف کرتے تھے ۔(1)

آپ کو شاید علم ہو کہ علمائے اہل سنت میں سے ایک مشہور عالم(2) کا کہنا ہے تھا کہ "اگر چہ دائیں ہاتھ میں انگھوٹھی پہننا سنت رسول ہے ، لیکن چونکہ یہ شیعوں کا شعار بن گیا ہے اس لیے اس کا تر ک واجب ہے"۔

اور سنئے حجۃ الاسلام  ابو حامد غزالی کہتے ہیں کہ " قبر کی سطح کو ہموار کرنا اسلام میں مشروع ہے مگر رافضیوں نے اسے اپنا شعار بنالیا ہے ،اس لیے ہم اسے چھوڑ کے قبروں کو اونٹ کے کوہان کی شکل دے دی "۔

---------------------

(1):- آج بھی بعض اتنہا پسند حلقے یہ پروپیگنڈے کرتےہیں کہ " شیعہ کافر ہیں ، سبائی ہیں اور ان کی جان اور ان کا مال  محترم نہیں ہے ، ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے "۔اس طرح انھوں نے نفرت اور افتراق کا پنڈورا بکس کھول دیا ہے ۔ لیکن ہمارے علماء ہمیشہ ملت کی وحدت ویگانگت  کے داعی رہے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ جو کوئی " لا الہ الا اللہ محمد رسو ل اللہ "کہہ دے وہ مسلمان ہے اور اس کی جان اور املاک محترم ہیں ۔

تاریخ گواہ ہے کہ جمال الدین افغانی سے لے کر آیت اللہ خمینی تک ہمارے علماء نے اتحاد  اسلامی کیلئے بھر پور کوشش کی ہیں ۔ہمارے ان ہی علماء میں سے ایک آیت اللہ کاشف الغطاء ہیں جنھوں نے قابل قدر سیاسی وسماجی خدمات انجام دی نہیں ۔ سنہ 1350 ھ میں جب آیت اللہ کاشف الغطاء موتمر اسلامی میں شرکت کے لیے القدس الشریف پہنچے تو موتمر کے بیشتر مندوبین نے آپ ہی کی اقتدا میں مسجد اقصی میں نماز پڑھی تھی ۔(ناشر)

(2):-یہ الھدایہ کے مولف شیخ الاسلام براہانن الدین علی بن ابی بکر المرغینانی (593ھ)ہیں ۔

زمخشری نے اپنی کتاب ربیع الابراء میں لکھا ہے کہ

" معاویہ بن ابی سفیان نے سب سے پہلے بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا شروع کی جو خلاف سنت ہے "۔

لہذا ہم معاویہ کے طرفدار سے اتنا ہی عرض کریں گے کہ

اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت

دامن کو ذرا دیکھ ،ذرا بند قبادیکھ

۲۱۵

اور ابن تیمیہ(1) کہتے ہیں :

بعض فقہاء کیا خیال یہ ہے کہ اگر کوئی مستحب شیعوں کا شعار بن جائے تو اس مستحب کو ترک کردینا بہتر ہے گو ترک کرنا واجب نہیں ۔کیونکہ اس مستحب پر عمل میں بہ ظاہر شیعوں سے مشابہت ہے ۔ سنیوں اور رافضیوں میں فرق کی مصلحت  مستحب پر عمل کی مصلحت سے زیادہ قوی ہے ۔(2)

حافظ عراقی سے جب یہ پوچھ گیا کہ تحت الحنک کس طرف کیاجائے ؟ تو انھوں نے کہا کہ

مجھے کوئی ایسی دلیل نہیں ملی جس سے داہنی طرف کی تعیین  ہوتی ہو ، سوائے اس کے طبرانی کے یہاں ایک ضعیف حدیث ضرور ہے ، لیکن اگر یہ ثابت بھی ہو تو شاید آپ داہنی طرف لٹکا کر بائیں طرف لپیٹ لیتے ہیں جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں مگر چونکہ یہ شیعوں کا شعار بن گیا ہے ، اس لیے تشبہ سے بچنے کے لیے اس سے احتراز ہی مناسب ہے(3)

سبحان اللہ ! یہ اندھا تعصب ملاحظہ ہو ۔یہ علماء کیسے سنت رسول ص کی مخالفت کی اجازت صرف اس بنا پر دیتے ہیں کہ اس  پر شیعوں نے پابندی سے عمل کرنا شروع کردیا ہے اور وہ ان کا شعار بن گئی ہے  ۔ پھر دیدہ دلیری دیکھیے

-------------------------

(1):-کہا جاتا ہے کہ برطانوی سامراج نے جب سرزمین حجاز میں "وہابی تحریک "کا آغاز کیا تو انھوں نے ۔مستشرقین کی تجویز کے بموجب جو اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ اس تحریک کے ذریعہ ابو العباس تقی الدین احمد بن عبدالحلیم المعروف بہ اب تیمیہ حرّانی  کے افکار ونظریات کو فروغ دیا کہ کیونکہ وہ اپنے افکار ونظریات کی بنا پر مطعون تھالیکن بیسویں صدی کے لوگوں نے اسے "مجدد "اور" مصلح" کاخطاب دے دیا ۔(ناشر)

(2):- منہاج السنۃ النبویہ ، ابن تیمیہ

(3):-شرح المواہب ،زرقانی ۔

۲۱۶

کہ اس بات کا علانیہ اعتراف کرتے ہوئے بھی ذرا نہیں شرماتے ،میں تو کہتاہوں کہ شکر خدا کہ ہر صاحب بصیرت اور جویائے حقیقت پر حق واضح ہوگیا ۔ سنت کا نام لینے والو ! دیکھ سنت کا دامن کسے نے تھاما ہوا ہے ۔

الحمداللہ کہ ظاہر ہوگیا کہ یہ شیعہ ہی ہیں جو سنت رسول ص کااتباع کرتے ہیں جس کی گواہی تم خود دے رہے ہو ۔ اور تم خود ہی اس کے بھی اقراری مجرم ہو کہ تم نے سنت رسول ص کو عمدا اور دیدہ ودانستہ محض اس لیے  چھوڑدیا تاکہ تم اہل بیت ع اور ان کے شیعیان  با اخلاص  کی روش کی مخالفت کرسکو ۔ تم نے معاویہ بن ابی سفیان کی سنت اختیار کرلی جن کے شاہد عادل امام زمخشری ہیں جو کہتے ہیں کہ سنت رسول ص کے برخلاف سب سے پہلے بائیں ہاتھ  میں انگوٹھی  معاویہ  ابن ابی سفیان  نے پہنی تھی ۔ تم نے  باجماعت تراویح کی بدعت میں سنت عمر کی پیروی کی ۔حالانکہ جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے مسلمانوں کو نافلہ نمازیں گھر میں فرادی پڑھنے کا حکم دیا گیا تھا(1) ۔ حضرت عمر نے خود اعتراف کیا تھا کہ یہ نماز بدعت ہے :

بخاری میں عبدالرحمان بن عبدالقاری سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ ماہ رمضان میں ایک دن رات کے وقت ،میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد کی طرف گیا تو وہاں دیکھا کہ لوگ متفرق طور پر نماز پڑھ رہے ہیں ۔ کہیں کوئی اکیلا ہی نماز پڑھ رہا تھا اور کہیں چند لوگ مل کر ۔ عمر نے کہا کہ میرے خیال میں یہ بہتر ہوگا کہ میں ایسا انتظام کردوں کہ یہ سب ایک قاری کے پیچھے نماز  پڑھیں ۔چنانچہ عمر نے ایسا ہی کیا اور ابی بن کعب کوامام مقرر کردیا ایک رات پھر مین عمر کے ساتھ گیا ۔ اس وقت سب لوگ جماعت سے نماز پڑھ رہے تھے ۔ انھیں دیکھ کر  عمر نے کہا : کتنی اچھی بدعت ہے یہ(2) ۔عمر ، جب آپ نے یہ بدعت شروع کی تھی تو آپ خود کیوں اس میں شریک نہیں ہوئے ؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب آپ ان کے امیر تھے تو آپ بھی ان کے

---------------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 7 صفحہ 99 باب مایجوز من الغضب والشدۃ لامراللہ عزوجل ۔

(2):- صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 252 کتاب صلاۃ التراویح

۲۱۷

ساتھ نماز پڑھتے ۔ یہ کیا کہ آپ ان کا تماشا دیکھنے نکل کھڑے ہوئے ؟ آپ کہتے ہیں کہ یہ اچھی بدعت ہے ۔یہ اچھی کیسے ہوسکتی ہے جب رسول اللہ ص نے اس سے اس وقت منع کردیا تھا جب لوگوں نے آپ کے دروازے  پر جمع ہوکر شور مچایا تھا کہ آپ آکر نافلہ رمضان پڑھادیں ۔ اس پر رسول اللہ ص غصّے میں بھرے ہوئے نکلے اورآپ نے فرمایا ۔

"مجھے اندیشہ تھا کہ یہ نماز تم پر فرض ہوجائے گی ۔ جاؤ اپنے گھروں میں جاکر نماز  پڑھو۔ فرض نمازوں کے علاوہ ہر نماز آدمی کے لیے گھر میں پڑھنا ہی بہتر ہے "۔ تم نے سفر کی حالت میں پوری نماز پرھنے کی بدعت میں عثمان بن عفان کی سنت کی پیروی کی ہے ۔ تمھارا یہ عمل سنت رسول کے خلاف ہے ۔کیونکہ رسول اللہ ص تو سفر میں قصر نماز پڑھا کرتے تھے(1) ۔ اگر میں وہ سب مثالیں گنانے  لگوں جہاں تم نے سنت رسول کے خلاف طریقہ اختیار کیا ہے  تو اس کے لیے ایک پوری کتاب کی ضرورت ہوگی ۔ لیکن تمھارے خلاف تو تمھاری اپنی شہادت ہی کافی ہے جو تمھارے اپنے اقرار پر مبنی ہے ۔تم نے یہ بھی اقرارکیا ہے کہ یہ شیعہ رافضی ہیں جو سنت رسول کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں !

کیا اس کے بعد بھی ان جاہلوں کی تردید کرے لیے کسی دلیل کی ضرورت ہے جو یہ کہتے ہیں کہ شیعہ علی بن ابی طالب ع کا اتباع کرتے ہیں اور اہل سنت رسول اکرم ص کا ؟ کیا یہ لوگ یہ ثابت کرناچاہتے ہیں کہ علی ع رسول اللہ ص کے مخالف تھے اور انھوں نے کوئی نیا دین ایجاد کیا تھا ؟ کیسی سخت بات ان کے منہ سے نکلتی ہے ۔ علی ع تو سرتاپا سنت رسول ص تھے ۔ وہ سنت رسول ص کے شارح تھے اور سنت پر سختی سے قائم تھے ۔ ان کےمتعلق رسول اللہ ص نے فرمایا تھا کہ

"عليٌّ مّنّي بمنزلتي من رّبي."(2)

--------------------

(1):-صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 35  "وکذالک تاوّلت عائشۃ فصلّت اربعا صفحہ 36

(2):- ابن حجر عسقلانی ، لسان المیزان جلد 5 صفحہ 161 ۔ محب طبری ،ذخائر العقبی صفحہ 64 نور اللہ حسینی مرعشی ۔ احقاق الحق جلد 7 صفحہ 217

۲۱۸

"علی ص کا مجھ سے وہی تعلق ہے جو میرا میرے پروردگار سے ہے " یمنی جس طرح کہ تنہا محمد ص ہی وہ شخص تھے جو اللہ تعالی  کا پیغام پہنچاتے تھے ایسے ہی تنہا علی ص وہ شخص تھے جو رسول اللہ ص کا پیغام پہنچاتے تھے ۔ علی ع کا قصور یہ تھا کہ انھوں نے اپنے سے سابق خلفاء کی خلافت تسلیم نہیں  کی اور شیعوں کا قصور یہ ہے کہ انھوں نے اس معاملے  میں علی ع کی پیروی کی اور ابوبکر ، عمر اور عثمان کے جھنڈے تلے جمع ہونے سے انکار کردیا ۔ اسی لیے اہل سنت انھیں "رافضی م"یعنی منکر کہنے لگے ۔

اگر اہل سنت شیعہ عقائد اور شیعہ اقوال کا انکار کرتے ہیں تو اس کے دو سبب ہیں :

پہلا سبب تو وہ دشمنی ہےجس کی آگ اموی حکمرانوں نے جھوٹے پروپیگنڈے اور منگھڑت روایات کے ذریعے سے بھڑکائی تھی ۔

دوسرا سبب یہ ہے کہ اہل سنت جو خلفاء کی تائید کرتے ہیں اور ان کی غلطیوں اور ان کے اجتھادات کو صحیح ٹھہراتے ہیں ، خصوصا اموی حکمرانوں کی غلطیوں کو جن میں معاویہ کا نام سر فہرست ہے ۔شیعہ عقائد ان کے اس طرز عمل کے منافی ہیں ۔جو شخص واقعات کا متتبع کرے گا ۔ اس  پر واضح ہوجائے گا کہ شیعہ  ،سنی اختلافات کی داغ بیل تو سقیفہ کے دن ہی پڑگئی تھی ۔ اس کے بعد اختلافات کی خلیج برابر وسیع ہوتی چلی گئی ۔ بعد میں جو بھی اختلاف پیدا ہوا اس کی اصل سقیفہ کا واقعہ ہی تھا ۔اس کی سب سے بڑی دلیل یہ کہ شیعوں کے وہ سب عقائد جن پر اہل سنت اعتراض کرتے ہیں ، ان کا خلافت کے معاملے سے گہرا تعلق ہے اور ان سب کی جڑ خلافت ہے ۔مثلا ۔ ائمہ کی تعداد ، امام کا منصوص ہونا ، ائمہ کی عصمت ، ا ن کا علم ،بدا ، تقیہ ، مہدی منتظر وغیرہ ۔

اگر ہم طرفین کے اقوال پر غیر جذباتی ہو کر غور کریں تو ہمیں طرفین کے عقائد میں بہت زیادہ بعدنظر نہیں آئے گا اور نہ ایک دوسرے پر طعن وتشنیع کا کوئی جواز ملیگا کیونکہ  جب آپ اہل سنت کی وہ کتابیں پڑھتے ہیں جن میں شیعوں کو گالیاں دی گئی ہیں تو آپ کو ذرا دیر کے لیے ایسا معلوم ہوتا ہے گویا شیعہ اسلامی اصولوں  اور اسلامی احکام

۲۱۹

کے مخالف ہیں اور انھوں نے کوئی نیا دین گھڑا ہوا ہے ۔ حالانکہ جو بھی منصف مزاج شخص شیعہ عقائد پر غور کرےگا وہ ان کی اصل قرآن وسنت میں پائیگا حتی کہ جو مخالفین ان عقائد پر اعتراض کرتے ہیں خود ان کی کتابوں سے بھی ان ہی عقائد کی تایید ہوتی ہے ۔ پھر ان عقائد میں کوئی بات خلاف عقل ونقل اورمنافی اخلاق نہیں ہے!

آیئے  ان عقائد پر ایک نظر ڈالیں  تاکہ میرے دعوے کی صحت ظاہر ہوجاتے اور آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ مخالفین کے اعتراضات دھوکے کی ٹٹی کے سواکچھ  نہیں !

ائمہ کی عصمت

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ نبی کی طرحی امام کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ تمام ظاہری اور باطنی برائیوں سے بچپن سے لے کر موت تک محفوظ رہے ۔ اس سے عمدا یا سہوا کوئی گناہ سرزد نہ ہو اور بھول چوک اور خطا سے محفوظ ہو ۔ کیونکہ ائمہ شریعت کے نگراں اور محافظ ہیں اور اس لحاظ سے ان کی حیثیت وہی ہے جو نبی کی ہے ۔جس کی دلیل کی رو سے ہمارے لیے ائمہ کے معصوم ہونے کا عقیدہ بھی ضروری ہے ۔ اس معاملے میں دونوں میں کوئی فرق نہیں (1)

یہ عصمت کے باے  میں شیعوں کی رائے ہے ۔لیکن کیا اس میں کوئی ایسی بات ہے جو قرآن وسنت کے منافی ہو یا عقلا محال ہو یا جس سے اسلام پر حرف آتا ہو اور اس کے شایان شان نہ ہو یا جس سے کسی نبی  یا امام کی قدرومنزلت میں فرق آتا ہو؟ ہر گز نہیں !

بلکہ اس عقیدے سے تو کتاب وسنت کی تائید ہوتی ہے ۔ یہ عقیدہ عقل سلیم کے عین مطابق ہے اور اس سے نبی اور امام کی شان میں اضافہ ہوتا ہے

-----------------------

(1):- شیخ محمد رضا مظفر  ،عقائد الامامیہ صفحہ 67 ۔یہ کتاب جامعہ تعلمیات اسلامی نے مکتب تشیع کرے نام سے شایع کردی ہے ۔

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

اشاريے (۴)

'' ع ''

عبادت :خدا ۱۱/۵۰،۹۰;اس كو ترك كرنے كے آثا ر۱۱/۲۶;اس كے آثار۱۱/۳،۵۲،۶۱،۱۲۳;اس ميں استقامت ۱۱/۱۱۲;اس كى اہميّت ۱۱/۲، ۵۲، ۱۲۳،۱۲/۴۰،۱۳/۳۶;اس كى پاداش ۱۱/۱۲۳ ; _ اس كے دلائل ۱۱/۶۱;ا س كا زمينہ ۱۱/۱۲۳ ، ۱۳/۳۰;اس كے اسباب ۱۱/۶۱،۱۲۳;اس كا واضع وآشكار ہونا ۱۱/۵۱;غير خدا كى :ا س كے آثار ۱۱/۳،۲۶،۱۱۲،۱۱۳;اس كوترك كرنا ۱۱/۲۶; اس كاظلم ہونا ۱۱/۳۷،۱۱۳;_اس كا انجام ۱۱/۲; باطل معبودوں كى _:اس كا رد ہونا ۱۲/۴۰;نيز ر،ك استغفار اور ميلانات

عبرت :كازمينہ ۱۲/۱۱۱;_كے اسباب _۱۱/۸۳، ۸۹، ۱۰۳، ۱۲۰،۱۲/۶۴،۱۰۹،۱۱۱،۱۳/۶;_اس كا بيان ۱۱/۸۹;نيز ر،ك گذشتہ اقوام ،امتيں ،انبياء ، اولوالالباب ،تاريخ ،اللہ تعالى ،ظالم ،عذاب ،قصّہ ،كفّاراور حضرت يوسف (ع)

عدالت :ر،ك اقتصاد،پاداش ،مصر كا بادشاہ ،تجارت ،حقوق،اللہ تعالى ،عزيز مصر ،قضاوت ،سزا ،مجازات،حضرت يوسفعليه‌السلام اور مزدوري

عداوت :ر،ك دشمني

عذاب:كے وسائل ۱۱/۶۷، ۸۱،۸۲، ۹۴،۱۰۲،۱۳/۵;_كا مذاق _۱۲/۶;_سے ڈرانا ۱۱/۸، ۲۶، ۳۲، ۶۴، ۱۰۲ ،۱۲۲ ،/۶،۷،۴۰;اہل _۱۱/۸،۲۰، ۲۶،۳۷ ،۴۴، ۴۸، ۵۷،۵۸،۵۹، ۶۰،۶۷،۸۱،۸۹، ۹۴،۱۰۲ ،۱۲/۱۰۷،۱۰۹،۱۱۰،۱۳/۶،۳۴;ان كو امداد پہنچانا ۱۱/۲۰،۳۰،۶۳;ان كانابود ہونا ۱۱/۱۰۰ ; ان كا بے يار ومددگارہونا ۱۱/۲۰;ان كے فديہ كو ردكرنا ۱۳/۱۸;ان كى نجات ۱۳/۳۷;ان كى نسل ۱۱/۱۰۰;ان كى نسل كا باقى رہنا ۱۱/۱۰۰;_كے آنے ميں تاخير ۱۳/۳۲;_كے آنے ميں عجلت :ا س كى درخواست ۱۳/۶;_كو جھٹلانا :اس كے اسباب ۱۲/۱۱۰;_كى دھمكى ۱۱/۸۳، ۹۳، ۱۰۱، ۱۳/۶،۱۳;_كى درخواست ۱۱/۳۲،۳۳،۳۴;_كو دفع كرنا:اس سے عاجزى ۱۱/۳۰;_كى زنجير

۹۲۱

_۱۳/۵; _شہر شير :ان كے بقاياجات ۱۱/۱۰۰;ان كى نابودى ۱۱/۱۰۰;آخرت كا عذاب :ا س سے ڈرانا ۱۱/۲۶;اس ميں جاودانگى ۱۱/۳۹;اس كا حتمى ہونا ۱۱/۸۴;اس كے دلائل ۱۱/۱۰۳;اس ميں سختى ۱۳/۳۴;اس ميں شدت ۱۱/۱۰۳، ۱۰۶، ۱۳/۳۴; اس كا آخرت ميں درد ناك ہونا۱۱/۲۶ ;اس كى عموميت۱۱/۸۴;اس كے مراتب ۱۱/۵۸; اس كے اسباب ۱۱/۳ ،۲۶ ،۵۹، ۸۴ ; اس سے نجات ۱۱/۴۴،۵۸،۱۳/۱۸;اس كى خوصيات ۱۱/۳،۳۹،۸۴،۱۰۳;سخت اوركاٹ دار ۱۱/۶۶، ۸۲،۱۰۲،۱۱۷،۱۲/۱۰۷;اس كى دھمكى ۱۲/۱۰۹ ،اس كے شرائط ۱۱/۳۶;اس سے عبرت ۱۱/۱۰۳; اس كے اسباب ۱۱/۶۸;بارش كے ساتھ۱۱/۱۰۲; كنكريوں كے ساتھ ۱۱/۸۱،۸۲، ۸۳، ۱۰۲;_ شہروں كى ويرانى كے ساتھ۱۱/۱۰۲ ; رات كے وقت _۱۱/۶۷،۹۴;صبح كے وقت ۱۱/۸۱; دردناك ۱۱/۴۸، ۱۰۲; دنياوى _۱۳/۳۴; اس كے آثار ۱۱/۱۰۳;اس سے ڈرانا ۱۱/۸،۱۰۲; اس كى شدت ۱۳/۳۴;اس كا دردناك دنياوى ہونا ۱۱/۲۶;اس كے اسباب ۱۱/۸۸، ۸۹، ۱۳/۳۱ ;اس سے نجات ۱۱/۹۴،۱۲/۱۱۰;ذلّت بار ۱۱/۳۹، ۹۳;اس كى دھمكى _۱۱/۶;سخت ۱۱/۵۸، ۶۶، ۱۳/۱۳; شديد ۱۱/۱۰۲، ۱۳/۶; _كے مراتب ۱۱/۲۶، ۳۹،۴۸،۵۸،۵۹، ۶۶، ۸۲، ۹۳،۹۴، ۱۰۲،۱۰۳، ۱۰۶، ۱۳/۶،۱۳ ،۳۴; _سے محفوظ ہونا ۱۱/۴۸، ۱۱۷ ،۱۲/۱۰۷; _كا سرچشمہ ۱۱/۳۳; _كے اسباب _۱۱/۲۶، ۳۰، ۵۷، ۵۸، ۶۳، ۶۵، ۶۶،۹۴، ۱۰۲،۱۱۳ ،۱۱۶ ،۱۲۲ ، ۱۲/۱۰۷ ;_ اس كا ادراك ۱۱/۳۰;_ميں مہلت ۱۲/۱۱۰;سے نجات ۱۱/۵۸ ،۶۳، ۶۶، ۸۱، ۹۴، ۱۰۱، ۱۰۷ ، ۱۲/۱۰۱; اس كے اسباب ۱۱/۴۰، ۱۱۶; _كانزول : اس كى شرائط ۱۲/۱۱۰;_يہ حضرت محمّدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد۱۳/۴۰;وعدہ _۱۱/۳۹

عربي:كى زبان سيكھنا :اس كى اہميّت ۱۲/۲;_كى زبان ميں فصاحت ۱۲/۲;_زبان كى خصوصيا ت ۱۲/۲

عرش :حاكم _۱۳/۲;خلقت _۱۱/۷;_كى حركت ۱۳/۲; خداوندعالم كا _اور پانى _۱۱/۷;_كافلسفہ ۱۳/۲; _ سے مراد۱۱/۷

عرفاء:_ كا مذاق اڑانا ۱۱/۳۸; _ كا تقرب ۱۱/۹۰گگعزت وآبرو:ر،ك آبروگگعزّت :كاسرچشمہ ۱۲/۹۰;_نيز ر،ك اہل مدين ،بنيامين ،اللہ تعالى ،صابر،متقين ،محسن اور حضرت يوسف (ع)

عزيز مصر:كى آگاہى ۱۲/۲۸;_كى تحريك ۱۲/۲۵;_كا تفحص وجستجو_۱۲/۲۸;_كے تقاضے ۱۲/۲۱،۲۹،۳۰;_كى عدالت _۱۲/۲۸;_قحط كے زمانہ ميں ۱۲/۷۸; _اورزليخا ۱۲/۲۸،۲۹;_اور حضرت يوسفعليه‌السلام كى صداقت ۱۲/۲۸;_اورحضرت يوسفعليه‌السلام كاقصّہ ۱۲/۲۶،۲۸;_اورحضرت يوسفعليه‌السلام كى مجازات

۹۲۲

۱۲/۲۵;_اور حضرت يوسفعليه‌السلام كے مقامات ۱۲/۲۱ ;_اور عورتوں كا مكروفريب ۱۲/۲۸;_اشراف مصر كى عورتوں كے مقدمہ كے وقت ۱۲/۵۱;_اور حضرت يوسفعليه‌السلام ۱۲/۲۱، ۲۸، ۲۹، ۳۲، ۳۵، ۵۲; حضرت يوسفعليه‌السلام كو خريد ے جانے كے وقت ۱۲/۲۱; _كا بانجھ ہونا ۱۲/۲۱;_كى قضاوت ۱۲/۲۸;_كے كارندے :ان كى تصميم ۱۲/۳۵;_كى ملّيت ۱۲/۲۱;_كى زوجہ ۱۲/۳۰;نيز ،ر،ك زليخا اور حضرت يوسف (ع)

عشق :ر،ك اشراف مصر اور زليخ

عصيان :كے آثار ۱۱/۵۹;_كاانبياءعليه‌السلام سے سرزدہونا ۱۱/۵۹، ۱۲/۱۱۰;اس كے آثار ۱۱/۶۰;اس كا انجام ۱۱/۹۸;_خدا كى طرف سے ۱۱/۶۰، ۶۸، ۱۱۲; اس كے آثار۱۱/۶۸;حضرت نوحعليه‌السلام كى طرف سے _۱۱/۴۳;_كى سزا۱۱/۱۱۲نيز ر،ك اكثريت ،انبياءعليه‌السلام ،قوم ثمود ،قوم عاد اور حضرت نوح (ع)

عطيہ جات :شرم آور _۱۱/۹۹;_نيز ر،ك اللہ تعالى اورحضرت محمّدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

عفّت :كى اہميّت ۱۲/۳۳،۵۲،۵۶;بے عفتى :اس كاظلم ہونا ۱۲/۲۳;نيز ر،ك زليخا ،مخلصين اورحضرت يوسف (ع)

عفو :طاقت كے وقت _۱۲/۶۹،۹۲;نيزر،ك برادران يوسفعليه‌السلام ،توبہ كرنے والے ،خطا كار ،ظالمين ،گناہ ،مظلوم ،حضرت يعقوبعليه‌السلام اور حضرت يوسف (ع)

عقاب :ر،ك سز

عقل:بے عقلى :ا س كى علامات ۱۱/۲۹، ۵۱، ۱۲/۱۰۹ ،۱۳/۶; _كاكردار _۱۳/۴;

عقلاء :توحيد _۱۳/۴;_كى خدا شناسى ۱۳/۴;_كے فضائل ۱۳/۴;_كى قدرت ۱۳/۴;نيزر،ك اولوالالباب

عقود:كے احكام ۱۲/۷۲;حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانہ ميں _۱۲/۷۲;قانوني_۱۲/۷۲;نيزر،ك جعالہ ، ضمانت اوركفالت

عقيدہ:كے آثار ۱۱/۱۵،۵۲،۱۲۲;_كى آزادى ۱۱/۲۸; _ ميں استقامت۱۱/۳۵;_ميں برہان :اس كى اہميّت ۱۱/۸۸،۱۲/۴۰،۱۰۸;_كى تاريخ ۱۱/۲۶، ۵۰، ۶۱،۸۲،۱۲/۳۱،۵۱;_كى تصحيح:اس كى برہان ۱۱/۸۸; اس كى درخواست ۱۲/۳۹;_ميں صراحت ۱۲/۱۰۸;باطل _۱۲/۳۹، ۴۰;اس كے خلاف جہاد كرنے كى روش ۱۱/۸۸;اس كا سرچشمہ ۱۲/۴۰;_بتوں كا _۱۱/۵۴;خداوند عالم كے منزّہ ہونے كا_۱۲/۳۱;توحيد كا _۱۲/۳۹ ،۱۳/۲۰،۳۰;توحيد افعالى كا _۱۲/۱۰۰;حاكميت خدا كا _۱۲/۶۷;خداوند عالم

۹۲۳

كا _۱۱/۲۶، ۵۰، ۸۴، ۱۲/۵۱،۱۳/۱۶;ربوبيت خدا كا ۱۲/۳۳، ۱۳/۳۰; شرك كا _۱۳/۳۹;قضاوت خدا كا _۱۲/۸۰; باطل معبودوں كا _۱۱/۵۴;باطل معبودوں كى تدبير كا _۱۳/۱۶;نيز ر،ك اشراف مصر،انبياءعليه‌السلام ،انسان ،اہل مدين ،بادشاہ مصر ،تبرّي، اپنى ذات ،حضرت شعيبعليه‌السلام ،قوم ثمود،قوم عاد ،قوم نوحعليه‌السلام ;_كفّار،لاوى ،مومنين ،مسيحى ،مشركين ،قديمى مصر،حضرت نوحعليه‌السلام ،حضرت ہودعليه‌السلام ،حضرت يعقوبعليه‌السلام ،حضرت يوسفعليه‌السلام اور يہود

علم :كے آثار ۱۲/۴۰،۷۶;_كااظہار :اس كى اہميّت ۱۲/۵۶;بہترين _۱۲/۶۸;_كازمينہ ۱۲/۲۲; _ كازوال :اس كے اسباب ۱۲/۳۳;آيندہ كا _:اس كا زمينہ ۱۲/۵،۴۱،۱۰۰;_غيب :اس كى اہميّت ۱۲/۳۷;اس كا زمينہ ۱۲/۶;اس كا سرچشمہ ۱۲/۳۷،۹۶;_لدنى _۱۲/۳۳;اس كے موانع ۱۲/۳۸;_كا ملاك ۱۱/۲۹;_كى علاما ت ۱۱/۲۹; _نيزر،ك حضرت ابراہيمعليه‌السلام ،انبياءعليه‌السلام ،انسان، برادران يوسفعليه‌السلام ،معاشرہ،جنين ،اللہ تعالى ،علوم ،راز ،رحم ،سخن ،حضرت لوطعليه‌السلام ،احسان كرنے والے ،حضرت محمّدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،مديريت ،نبوت ،حضرت نوحعليه‌السلام ،حضرت يعقوبعليه‌السلام اورحضرت يوسف (ع)//علم سيكھنا:ر،ك عربى ،قرآن اور حضرت يوسف (ع)

علماء:كے رنج :اس كے موارد ۱۲/۹۴;جہلا ء كے درميان _۱۲/۹۴;_كے فضائل ۱۳/۴۱;احسان كرنے والے _ان كى قدرت ۱۲/۵۶;نيزر،ك بادشا ہ مصر

علماء اہل كتاب :اورحقانيت حضرت محمّدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم _۱۳/۴۳

علوم :حوادث كوحل كرنے كا علم :اس كى اہميّت ۱۲/۲۱، ۱۰۱; خواب كى تعبير كاعلم :اس كى اہميّت ۱۲/۲۱ ،۴۹، ۱۰۱;باارزش علوم ۱۲/۲۱نيز ر،ك علم ،قديمى مصر ،نعمت ،حضرت يعقوب(ع) اور حضرت يوسف (ع)

عمر:كى تباہى كے اسباب_۱۱/۲۱

عمل:كے آثار ۱۱/۱۵،۳۵،۵۲،۱۱۹،۱۲۲;_كى اخروى اہميّت ۱۱/۱۶;_كا مجسّم ہونا ۱۱/۱۵،۱۱۱;_كاضبط ہوجانا:اس كے اسباب ۱۱/۱۶;_كاحساب و كتاب ۱۳/۲۱،۴۱;اس كى شرائط _۱۱/۱۱۱; _ پسنديدہ _۱۱/۶۹، ۷۳، ۱۲/۳۶، ۳۸، ۴۷، ۵۹،۸۷،۹۸;اس كے آثار_۱۱/۱۵،۱۱۴، ۱۳/ ۲۲ ; اس كى پاداش ۱۱/۱۱۱;اس كى دنياوى پاداش ۱۱/۱۵;اس كا اچھا ہونا۱۱/۷۳;اس كے موارد ۱۱/۱۱۴،۱۱۵;نيك _:اس كو ترك كرنے كے آثار ۱۳/۱۱; ان ميں موفقيت ۱۱/۸۸ ; شيطانى

۹۲۴

_۱۲/۱۰۰; ناپسنديدہ _۱۱/۴۷، ۱۲/۵۲، ۹۲، ۱۳/۱۴ ،۲۵;اس كے آثار ۱۱/۴۶، ۱۳/۱۱; اس سے اجتناب ۱۱/۴۶;اس سے اجتناب كا زمينہ ۱۱/۱۱۲;اس كو مذيّن كرنا ۱۲/۸۳; _ كاسرچشمہ ۱۲/۱۸;اس كا زمينہ ۱۲/۱۸;اس كى سزا۱۱/۱۱۱; اس كا انجام :ا س كا بيان ۱۲/۸۷ ;_كے گواہ ۱۱/۱۸; _وہ اور ظالمين ۱۱/۱۸;ان كا اخروى كردار ۱۱/۱۸; _كے ذمہ دار۱۱/۵۷

عمومى مصالح :_كى اہميت ۱۲/۵۶

عظمت :رك انبياء، انسان، حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، حضرت نوح(ع) ،حضرت يعقوب(ع) اور حضرت يوسف (ع)

عمل صالح :كے آثار ۱۱/۳،۱۱،۲۳،۴۶،۱۳/۲۹;_كى اہميّت ۱۱/۱۱،۱۳/۲۹;بے ايمان كا _۱۱/۲۳;_آسائش ميں _۱۱/۱۱;آسودگى ميں _۱۱/۱۱;_سختى ميں _ ۱۱/۱۱; _اورايمان ۱۳/۲۹;_كے اسباب ۱۱/۲۴; _ نيزر،ك ايمان ،صبر اور حضرت نوح (ع)

عوام :_كى آبرو:اس كى ہتك ۱۱/۷۸;_پر اعتماداور توكل۱۲/۶۴;_پر اعتماد اور شرك ۱۲/۶۴; _ كومفت ميں سامان مہيّا كرنا _۱۲/۶۲;_كا نمونہ وآئيڈيل ۱۱/۱۱۴;_كاسابقہ :اس كى اہميت ۱۲/۶۴ ;_كو دعوت ۱۱/۲۴،۱۲/۱۰۸;_كاانكار ۱۲/۳۸; صدر اسلام كے _:ان كى فكر ۱۳/۳۸;ان كى جہالت ۱۳/۳۰;ان كاكفر ۱۳/۳۰;_كى گواہى ۱۳/۴۳;_اور انجيل ۱۳/۴۳;_اور توريت ۱۳/۴۳; _اور خداوندعالم كى رحمانيت ۱۳/۳۰ ;_اور نبوت ۱۳/۳۸;_اور انسان كى نبوت ۱۳/۳۸;_اور قرآن ۱۱/۱۷;_كى مشكلات :ان پر غم واندوہ ۱۱/۷۵;_كى ہدايت ۱۳/۷

نيزر،ك تبليغ ،حكام ،دينى رہبر ،قوم نوحعليه‌السلام ،قيامت اور مبلغين ر،ك انبياء//عہدوپيمان:ر،ك پيمان

عورت :كے اجتماعى احكام ۱۱/۷۱;_كااستقلال ۱۱/۸۱; عورتوں كوفاسد كرنا ۱۲/۲۸;اديان ميں _۱۱/۸۱ ; _اور مردوں كى محفل ۱۱/۷۱;_كى ذمہ دارى ۱۱/۸۱ ;عورتوں كا فريب ۱۲/۲۸;اس سے نجات پانا ۱۲/۳۳;ان سے ہوشيار رھنا ۱۲/۲۸;نيز ر،ك زن//عہد:كے احكام ۱۲/۶۶،۱۳/۲۰،۲۵;اديان ميں _ ۱۲/۶۶ ;_كوپوراكرنے والے :ان كا نيك انجام ۱۳/۲۲;_كو پوراكرنا ۱۳/۲۰;اس كے آثار ۱۳/۲۲;اس كى اہميّت ۱۲/۶۶،۱۳/۲۴،۲۵;اس كى پاداش ۱۳/۲۳;اس كى شرائط۱۲/۶۶;اس ميں عاجز آنا ۱۲/۶۶;اس كا وجوب ۱۳/۲۰، ۲۵; _نيز ر،ك برادران يوسفعليه‌السلام ،خدا ،عہدكوتوڑنے والے ،عہدشكنى ،لاوى ،حضرت يوسف (ع)

۹۲۵

عہد جديد :ر،ك انجيل

عہد كوتوڑنے والے :_كااخروى حساب وكتاب ۱۳/۱۲;اس ميں سختى ۱۳/۲۱;_جہنّم ميں ۱۳/۲۵;قيامت كے دن _۱۳/۲۱;_كابراانجام ۱۳/۲۵;_پرنعمت ۱۳/۲۵; نيز ر،ك عہد شكني

عہدشكنى :كى حرمت ۱۳/۲۰،۲۵;اللہ كے ساتھ_ ۱۳/۲۰ ،۲۵; اس كے آثار ۱۳/۲۵;_كى سزا_ ۱۲/۶۶; _ كاگناہ ہونا _۱۲/۶۶، ۱۳/۲۵; _كاناپسنديدہ ہونا۱۳/۲۵;نيز ر،ك عہد كوتوڑنے والے عہدعتيق:ر،ك توريت

''غ ''

غافل لوگ:اللہ تعالى سے _۱۱/۹۲;ان كا اضطراب ۱۳/۲۸ ; ان كى صفات ۱۳/۲۸;ان كى پريشانى ۱۳/۲۸

غذا:حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے زمانہ ميں _۱۱/۶۹;نيز ر،ك جڑى بوٹياں

غرور:ر،ك تكبّر

غريزہ جنسي:كى تسكين :اس كى روش ۱۱/۷۸;_كاخطرہ ۱۲/۳۳;_كى قدرت ۱۲/۳۳;نيزر،ك حضرت يوسف (ع)

غصّہ كو پينا :ر،ك حضرت يعقوب (ع)

غضب :ر،ك حضرت يعقوب (ع)

غفلت :آخرت سے _۱۳/۲۶;_اللہ تعالى سے_:اس كے آثار ۱۳/۲۸;اس سے اسباب ۱۲/۶۷; عظمت خدا سے ۱۱/۹۲;اس كا ناپسنديدہ ہونا ۱۱/۹۲; نيز ر،ك انسان ،اہل مدين،برادران يوسفعليه‌السلام ،اللہ تعالى ،طبيعى اسباب اورحضرت محمّدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

غلہ جات :كى توليد :اس كى اہميّت ۱۲/۴۷;_كى ذخيرہ اندوزي۱۲/۴۷،۴۸;اس كى اہميّت ۱۲/۴۷،۴۸ ; اس كا طريقہ كار۱۲/۴۷;_كى روشن بندى :اس كا حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانہ ميں ہونا ۱۲/۶۵، ۸۸; _كوبيچنا:اس كا حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانہ ميں ہونا۱۲/۸۸;_كاذخيرہ :اس سے استفادہ كرنا ۱۲/۴۸; _كاخوشہ :اس كے فوائد ۱۲/۴۷; نيز ر، ك برادران يوسفعليه‌السلام اورقديمى مصر

غلام:كے ذريعہ اپنى تسكين جنسي: اس كى سرزنش۱۲/۳۰

۹۲۶

نيز رك رجحانات

غلام ركھنا:حضرت يعقوب كے زمانے ميں _۱۲/۱۹،۲۰; _كى تاريخ ۱۲/ ۱۹،۲۰

غلامى :_كے احكام۱۲/۷۶نيز رك بنى اسرائيل ،چور، قديمى مصر ، حضرت يعقوبعليه‌السلام اور حضرت يوسف (ع)

غم اندوہ:_كے آثار ۱۲/۸۴،۸۵;_كاچھپانا اس كے روانى اثرات ۱۲/۸۴; _ كاناپسندہونا ۱۱/۳۶; _ اور صبر ۱۲/۸۴

نيز ر،ك حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، انسان، بنيامين، لاوي، حضرت لوطعليه‌السلام ،حضرت محمّدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،لوگ،نبوت،حضرت نوحعليه‌السلام ،حضرت يعقوبعليه‌السلام اور يوسف (ع)

غيب :سے مراد۱۳/۹;نيزر،ك آسمان،پيدائش ، برادران يوسفعليه‌السلام اورزمين

'' ف ''

فاش كرنا:كے احكام ۱۲/۲۶;_كا جائز ہونا۱۲/۲۶;_ر،ك حضرت يوسف (ع)

فحشاء:كے آثار ۱۲/۲۳

فديہ :ر،ك عذاب اورقيامت

فراموشي:كاسرچشمہ ۱۲/۴۲;نيزر،ك بادشاہ مصر اورحضرت يوسف (ع)

فرشتے :ر،ك ملائكہ

فرصت :سے استفادہ۱۲/۹۰;نيزر،ك تبليغ

فرعون:كاگمراہ كرنا۱۱/۹۷;_كے اوامر ۱۱/۹۷; _ كا جلدى كرنا ۱۱/۹۸;_كاجہنّم ميں ہونا ۱۱/۹۸; _كاروز قيامت ميں آنا۱۱/۹۸;_اور فرعونى ۱۱/۹۸;_اور حضرت موسىعليه‌السلام ۱۱/۹۷;_كى گمراہى : اس كى علامت ۱۱/۹۸;_پر نعمت ۱۱/۹۹;_كى محروميت ۱۱/۹۹;_كاكردار ۱۱/۹۸;_كى ہدايت ۱۱/۹۷;نيزر،ك اطاعت اورحضرت موسي(ع)

فرعونى لوگ :كى تاريخ ۱۱/۱۰۰;_كى شكست ۱۱/۹۶;_كاظلم ۱۱/۱۰۱;_كا عذاب ۱۱/۱۰۱;_كاجہنّم ميں ہونا ۱۱/۹۸;_كا قيامت كے دن آنا ۱۱/۹۸;_اور حضرت موسىعليه‌السلام ۱۱/۹۷;_كافساد۱۱/۱۱۷;_كى سز۱۱/۱۰۱;ان كى اخروى سزا۱۱/۹۹;ان كى دنيا وى سزا۱۱/۹۹;_پر نعمت ۱۱/۹۹;_كى محروميت ۱۱/۹۹;_نيز ر،ك فرعون اور حضرت موسى (ع)

۹۲۷

فساد :كے آثار ۱۱/۴۶،۱۱۶;_كے وسائل ۱۲/۲۸; _كے اسباب ۱۱/۱۱۶;_كے خلاف جہاد ۱۱/۸۰; اس كى اہميّت ۱۱/۱۲۱;_كى ترغيب ہونا ۱۲/۱۰۰; _سے روكنا :اس كے آثار ۱۱/۱۱۶; _ سے نہى ۱۱/۱۱۶ ;نيزر،ك گذشتہ اقوام ،اہل مدين ، معاشرة،چوري،حضرت شعيب(ع) ،فرعونى لوگ ،قوم ثمود ،قوم عاد ،قوم لوطعليه‌السلام اور قوم نوح (ع)

فساد بپاكرنے والے:۱۱/۴۶

كى شناسائي :اس كى اہميت ۱۲/۷۳;_كاعذاب اس كا سرچشمہ ۱۱/۷۶;_كابرا انجام ۱۳/۲۵;_پر نعمت۱۳/۲۵;_كے خلاف جہاد ۱۱/۸۰;اس كى اہميت ۱۱/۸۰;_جہنّم ميں ۱۳/۲۵

فسادپھيلانا:_كے احكام ۱۱/۸۵،۱۳/۲۵;_كى حرمت۱ ۱/۸۵ ،۱۳/۲۵ ;_كى سزا۱۳/۲۵;_كے خلاف جہا د۱۱/۸۵;_ كے موارد ۱۱/۸۵، ۱۲/۷۳_ كا ناپسند ہونا ۱۱/۸۵ ; _ سے نہى _۱۱/۸۵;نيز _ر، ك اہل مدين _تبرّى ،رشتہ دار ،عورت ، شيطان اور قوم لوط (ع)

فضاسازى :ر،ك كفّار اورحضرت محمّدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

فطرت :كو تنبيہ كرنا ۱۲/۳۹

فقر:پر صبر كرنا ۱۳/۲۴;نيزر،ك آل يعقوب(ع) ،اميدوارى ،برادران يوسفعليه‌السلام ،شكر ،صابر لوگ ،صلحاء ،فقراء اورحضرت يعقوب (ع)

فقراء :كوانفاق ۱۳/۲۲;_كو فراہمى كرنا ۱۳/۲۲;_كو صدقہ ۱۲/۸۸;_اورخير ۱۱/۳۱;_اور مقامات معنوى ۱۱/۳۱;نيز ر،ك فقر،قوم نوح اور حضرت يوسف (ع)

فكر:غلط_۱۱/۳۱،۳۲،۱۳/۴

فخر كرنا:كى سرزنش ۱۱/۶۹;نيز ر،ك صابر لوگ

فقہاء :كے فضائل ۱۳/۴۱

'' ق ''

قارعہ :سے مراد ۱۳/۳۱

قاضى :بہترين_۱۲/۸۰;نيزر،ك حضرت يوسف (ع)

۹۲۸

قانون :كا احترام :اس كى اہميّت ۱۲/۷۶;_كى عظمت : اس كامعيار ۱۱/۹۸;_كى پيروى :اس كى شرائط ۱۳/۳۷;_كى مراعات كرنا :اس كى اہميّت ۱۲/۷۶ ;نيزر،ك اطاعت ،بنى اسرائيل ،قانون گذار،قديمى مصر اور قانون گذاري

قائدين :كا گمراہ كرنا ۱۱/۹۷;قيامت كے دن _۱۱/۹۸ ; دنيا ميں _۱۱/۹۸;_گمراہ :ان كا كردار ۱۱/۹۷;نيز ر،ك معاشرہ،اسلامى معاشرہ ،دينى رہبر اور رہبري

قتل :كازمينہ ۱۲/۹;_كے اسباب ۱۲/۹;_نيزر،ك برادر،حضرت صالحعليه‌السلام ،حضرت ہود(ع) اور حضرت يوسف (ع)

قحطى :كى روك تھام ۱۲/۴۷;اس كى اہميّت ۱۲/۴۷ ; _ ميں طعام كو ذخيرہ كرنا ۱۲/۶۵ ; نيز ر،ك سرزمين ، قديمى مصراور حضرت يوسف (ع)

قدرت :كى قدروقيمت ۱۲/۵۷;_كاسرچشمہ ۱۲/۹۰ ; نيزر،ك آرزو،الوہيت،برادران يوسفعليه‌السلام ، بشارت ،ذمہ دارى ،حكومت ،خدا، عقلائ، بخشش، علماء، قوم عاد ،انتظام ،ملائكہ اور موجودات

قديمى مصر :كى آبادكارى ۱۲/۴۷،۴۸;_كى صلاحتيں ۱۲/۴۷; _كے اشراف :ان كا عقيدہ ۱۲/۵۱; _ ميں امن وسكون۱۲/۹۹;اس كى بشارت ۱۲/۹۹; _ميں اقتصادى امن وسكون ۱۲/۹۹; _ ميں اقتصادى بحران :اس كى مدت ۱۲/۴۹; _ ميں پيمانہ ۱۲/۷۲; _ميں قحطى كے دوران پيمانہ ۱۲/۷۲;_كى تاريخ _ ۱۲/۴۷، ۴۹، ۵۸، ۶۷،۷۸،۹۹;_ميں صليب ۱۲/۴۱ ;_ ميں وزن گيرى كرنا ۱۲/۷۲; _ كے حكام :ان كى اذيتيں ۱۲/۴۷;وہ اورحضرت يوسفعليه‌السلام ۱۲/۳۵، ۳۶; ان كا دين ۱۲/۷۵;ان كا شراب پينا ۱۲/۳۶ ;ان كا مكروفريب ۱۲/۱۰۲;_كى حكومت: اس كا اقتدار۱۲/۷۹;_كى استبدادى حكومت ۱۲/۳۲، ۳۵;_ميں بادشاہى حكومت ۱۲/۷۶; حكومت حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانہ ميں _ ۱۲/۳۲، ۵۸، ۷۶;اس ميں عزيزى كاعہدہ ۱۲/۵۱;اس ميں بحران كے اسباب ۱۲/۳۵ ;اس كى حدود ۱۲/۵۸; اس كے عہدے ۱۲/۵۱;اس كا حكومتى نظام ۱۲/۳۲، ۳۵، ۷۶، ۸۸; _ميں حمل ونقل : اس كے ذرائع ۱۲/۶۵; _ ميں خشكسالى ۱۲/۴۸;_ ميں خواب كے علم كاجاننا۱۲/۴۳ ;_كے دروازے ۱۲/۶۸;ان كا متعدد ہونا ۱۲/۶۷; _ ميں چور :ان كو غلام بنايا جانا ۱۲/۷۶;_ ميں زندان ۱۲/۲۵،۳۲; _ ميں زندانى ۱۲/۲۵;_ ميں اونٹ ۱۲/۶۵;_ميں شكنجہ ۱۲/۲۵ ;_ ميں شہرسازى ۱۲/ ۶۷ ;_ميں غلاّت :ان كى پيداوار ۱۲/۴۷;ان كو ذخيرہ كرنا ۱۲/۵۸; _كے قانون گذار ۱۲/۷۶ ;_ ميں قانون گذاري: اس كا سرچشمہ ۱۲/۷۶; _ميں قحطى ۱۲/۴۸، ۵۸; _ ميں جزاوسزا كے قوانين ۱۲/۷۴ ،۷۶; _ميں سزا كے

۹۲۹

قوانين ۱۲/۷۴،۷۶،۷۹;_ميں كھيتى باڑى ۱۲/۴۷ ،۵۸; _ميں مجازات ۱۲/۴۱;_كى مركزى حيثيت ۱۲/۵۸;_كاجغرافيائي محل وقوع ۱۲/۵۸; _كا سياسى نظام ۱۲/۳۵;_كاعدالتى نظام ۱۲/۳۵ ، ۷۶; _ميں اشراف كى بيوياں :ان كااحترام ۱۲/۲۵نيزر،ك آل يعقوبعليه‌السلام ،اشراف مصر،برادران يوسفعليه‌السلام ،بشارت ،بنيامين ،مصر كا بادشاہ ،زليخا، سرزمين ،عزيز مصر ،لاوى ،قديمى مصرى اور حضرت يوسف (ع)//قرآن :آيات :۱۱/۱،۱۲/۱;ان كايقينى ہونا۱۱/۱;ان كى حقانيت ۱۱/۱;ان كى عظمت ۱۳/۱;ان كا كردار ۱۱/۱_ان كا آشكا رہونا _۱۱/۱;_ان كى خصوصيات ۱۱/۱; اعجاز _۱۱/۱۴;_كے اہداف ومقاصد ۱۱/۳، ۱۳/۲;_كى اہميّت _۱۱/۱۷ ،۱۲/۱۰۴، ۱۳/ ۳۷ ; _كابے نظير ہونا ۱۱/۱۴;اس كے آثار۱۱/۱۴; اس كے دلائل ۱۱/۱۴;_كى پيروى ۱۳/۳۷;_كى پيشگوئي ۱۱/۱۱۹،۱۳/۳۱;_كى تاريخ ۱۱/۱۳ ، ۱۲/۱ ، ۱۳/۱ ;_كى تبليغ _۱۲/۱۰۸;اس كى اجرت ۱۲/۱۰۴ ; _كاچيلنج ۱۱/۱۳;اس كا مطلقا چيلنج ۱۱/۱۳;_كى تشبيہات ۱۳/۱۴،۱۶ ،۱۷، ۳۰; _كى تشويقات ۱۱/۴۹ _كى تعليمات ۱۲/۷، ۱۱۱،۱۳/۱، ۲،۳۷ ، ۳۸;_اس كى حقانيت ۱۱/۱، اس كى روش ۱۳/۱۶،۱۷;اس كى مہم ترين تعليمات ۱۱/۲، ۳; ان كاواضح ہونا ۱۲/۱;ان كى خصوصيات ۱۳/۳۷; _ميں غور وفكر :اس كى قدروقيمت ۱۲/۲;_كو سيكھنا :اس كى اہميّت ۱۲/۱۰۴;_كو جھٹلانا۱۳/۳۰;اس كے آثار ۱۱/۲۴;_بعض قرآن كى تكذيب _ ۱۳/۳۰;اس كے اسباب ۱۱/۱۵ ;تلاوت _۱۲/۲; اس كے آثار۱۳/۳۱;اس كى اہميّت ۱۳/۳۰; _كاپاك ومنزّہ ہونا ۱۱/۱،۷ ۱، ۱۲/۱۱۱، ۱۳/۱۹;جمع _۱۳/۱;_كاعالمگير ہونا ۱۲/۱۰۴; اس كے آثار ۱۲/۱۰۴;_كى حقانيت ۱۱/۱۷، ۱۲/۱۰۳ ،۱۳/۱، ۱۹;اس كے آثار ۱۱/۱۷ ;_ اس كے دلائل ۱۱/۱، اس سے شبہہ كو دور كرنا ۱۱/۱۷;اس كى شناخت ۱۱/۱۷; اس كے گواہ ۱۱/۱۷;اس پرگواہى ۱۱/۱۷; اس كا واضع وآشكار ہونا ۱۲/۱۰۷ ، ۱۳/۱۹ ; _كے ساتھ دشمنى :اس كے آثار _۱۳/۳۱;_كى طرف رجوع ۱۲/۷ ; _ كا رحمت ہونا ۱۲/۱۱۱;رموز _۱۲/۱ ، ۱۳/۱;_كى روش بيانى ۱۲/۱،۳;_كى بناوٹ ۱۱/۱;_كاسورة سورة ہونا ۱۲/۱۳; _ ميں شك :اس كے بطلان كے دلائل ۱۱/۱۷;اس كى سزا ۱۱/۱۷;_كى صداقت ۱۲/۱۱۱; _كے علماء ۱۳/۴۳ ;ان كى گواہى ۱۳/۴۳ ; _كاعربى ميں ہونا۱۲/۲ ،۱۳/۳۷;اس كا فلسفہ ۱۲/۲;_كى عظمت _۱۱/۱،۱۳/۱;_كاعلم :اس كے آثار ۱۳/۴۳;_كى فضيلت ۱۲/۱۱۱،۱۳/۱۹;فہم _۱۲/۲;اس كا آسان ہونا ۱۲/۲،۱۳/۳۷;اس كى شرائط ۱۲/۲; _ كامقدس ہونا ۱۲/۱۰۴;_كاآيات الہى سے ہونا ۱۲/۱، ۱۳/۱;_كاآسمانى كتب سے ہونا ۱۲/۳; صدر اسلام ميں _۱۱/۱۳;_نازل ہونے سے قبل _۱۲/۲; _اورحضرت يوسفعليه‌السلام كا قصّہ ۱/۱۰۲;_ اورآسمانى كتابيں ۱۲/۱۱۱;_او ر مشركين ۱۱/۱۳;

۹۳۰

_اور پسنديدہ كام كاج ۱۱/۳; _ كے قصص ۱۲/۳;ان كى تعليمات ۱۱/۱۲۰;ان كا فلسفہ ۱۱/۴۹،۱۲/۱۰۳;ان كاانكار كرنے والے ۱۱/۸ ،۱۷;_كى كتابت ۱۱/۱،۱۳/۱;اس كا صدر اسلام ميں ہونا۱۲/۱;_كى گواہى ۱۱/۱۷; _ پر ايمان لانے والے ۱۱/۷، ۱۳/۱۹; ان كى بصيرت ۱۳/۱۹;_كى متشابہات ۱۱/۱;_كى مثاليں ۱ ۱/۲۴ ،۱۳/۱۷ ;اس كا فلسفہ ۱۳/۱۷;_كى محكمات ۱۱/۱;_ كے مخالفين ۱۳/۳۶;_كے رحمت كے شامل حال ۱۲/۱۱۱;_كوجھٹلانے والے۱۳/۳۶;ان كا منہ موڑنا ۱۳/۱۸;ان كى بے عقلى ۱۳/۱۹;ان كى جہالت ۱۳/۱۹;ان كااخروى عذاب۱۲/۱۰۷;ان كا دنياوى عذاب۱۲/۱۰۷;ان كے دلوں كا اندھا ہونا ۱۳/۱۹;_كاسرچشمہ _۱۱/۱۴، ۱۷_ ،۱۲/۲; _ كے اسماء گرامى ۱۲/۱;_كانزول ۱۱/۱، ۱۲/۲، ۱۳/۱، ۳۶; اس كے آثار ۱۳/۳۶;اس كا سرچشمہ ۱۳/۳۷ ;_ا س كا واسطہ ۱۳/۱،كاكردار ۱۱/۱۷، ۴۹ ،۱۰۰،۱۲/۳،۱۰۲،۱۱۱،۱۳/۳۱،۳۷;_كاوحى الہى ہونا ۱۱/۱۲،۱۴،۱۷ ،۱۲/۳، ۱۱۱، ۱۳/۱ ،۱۹ ،۳۰;

اس كے آثار ۱۱/۱۴،۱۷;اس كے دلائل ۱۱/۱، ۱۴، ۱۲/۱۰۲ ;_كا واضع وآشكار ہونا۱۲/۲، ۱۳/۳۷; _كى خوصيات _۱۱/۱،۱۴، ۱۷، ۱۲/۱، ۲،۳ ،۱۰۴، ۱۱۱، ۱۳/۱،۱۹،۳۷;_كاہدايت ہونا :اس كى خصوصيات _۱۲/۱۱۱;_كا ہدايت كرنا ۱۲/۱،۱۱۱ ; _كى مثل بنانا۱۱/۱۳/۱۴;نيز ر،ك اولوالالبات ،اہل كتاب ،ايمان ،بصيرت ،توريت ،حروف مقطعات ،ذكر،كفّار ،كفر،حضرت محمّدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،لوگ ،مسيحى ،مشركين ،معجزہ اور يہود//قرآنى تشبيہات :باطل تشبيہ۱۳/۱۷;بارش كے ساتھ تشبيہ ۱۳/۱۷ ; تاريكى كے ساتھ تشبيہ ۱۳/۱۶;پياسوں كے ساتھ تشبيہ ۱۳/۱۴;روشنائي كى ساتھ تشبيہ ۱۳/۱۶ ; سيلاب كے ساتھ تشبيہ ۱۳/۱۷;پگھلى ہوئي دھاتوں كے ساتھ تشبيہ ۱۳/۱۷;سمندرى جھاگ كے ساتھ تشبيہ۱۳/۱۷;پگھلى ہوئي دھاتوں كى جھاگ كے ساتھ تشبيہ ۱۳/۱۷;محسوسات كے ساتھ تشبيہ ۱۳/۱۷;حق كے ساتھ تشبيہ ۱۳/۱۷; باطل معبودوں سے درخواست كى تشبيہ ۱۳/۱۴ ; حضرت محمّدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كى تشبيہ ۱۳/۳۰; مشركين كى تشبيہ۱۳/۱۶;موحدين كى تشبيہ۱۳/۱۶///قرآنى مثاليں :بصيرت انسانى كے ساتھ مثال ۱۱/۲۴;سننے والے انسان كے ساتھ مثال دينا ۱۱/۲۴;بہر ے پن كے ساتھ تشبيہ دينا ۱۱/۲۴;_اندھے كے ساتھ تشبيہ دينا ۱۱/۲۴;كفار كى مثل ۱۱/۲۴;مومنين كى مثل ۱۱/۲۴;مشركين كى مثل ۱۱/۲۴;موحدين كى مثل ۱۱/۲۴

قسم :_كے احكام ۱۲/۶۶،۷۳،۹۱;_ميں استثنا ء ۱۲/۶۶;_كوتوڑنا :اس كى سزا _۱۲/۶۶;اس كا گناہ ۱۲/۶۶;_كى تاريخ ۱۲/۹۵;بے گناہى پر _۱۲/۷۳،۷۴;خدا كى _۱۲/۶۶، ۷۳، ۹۱، ۹۵; اس كى اہميّت ۱۲/۶۶;اس كى تاريخ ۱۲/۹۱;جائز _۱۲/۷۳،۹۱;اديان ميں _۱۲/۶۶، ۹۱; _ كو پورا كرنا :اس كى اہميت ۱۲/۶۶;_اس كى شرائط

۹۳۱

۱۲/۶۶;_اس ميں عاجزى _۱۲/۶۶;_نيز ر،ك آل يعقوبعليه‌السلام ،برادران يوسفعليه‌السلام ،اپنى ذات ،زليخا ،لاوى اور متہم

قضاوت كا نظام :حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانہ ميں _۱۲/۷۶;نيزر،ك قديمى مصر//قسم :ر،ك قسم

قصّہ:بہترين _۱۲/۳;اچھا_:اس كى شرائط ۱۲/۱۱۱; _كاعبر ت آموز ہونا ۱۲/۱۱۱;باارزش _۱۱/۱۲۰; نيز ر،ك تاريخ اور قرآن//قضاوت :كى فرمانروائي :دعوى كے اثبات ميں _۱۲/۲۶ ،۲۷ ;اس كاكردار ۱۲/۲۶،۲۷;_ميں عدالت ۱۲/۲۶;حق وباطل كے مابين _۱۱/۱۱۰; مومنين اور كفار كے مابين _۱۱/۱۱۰،۱۱۱;عادلانہ ترين _۱۱/۴۵;نيز ر،ك اللہ تعالى ،زليخا ،عزيز مصر ،قديمى مصر اورحضرت يوسف (ع)//قضاوقدر:۱۲/۴۱

قوم ثمود:كى خواہشات ۱۱/۶۲;_كااصرار:اس كے آثار ۱۱/۶۳;_كے ساتھ دليل _۱۱/۶۴;_كااقرار ۱۱/۶۲;_كے ڈراوے۱۱/۶۴;_كى بت پرستى ۱۱/۶۲;_كى فكر ۱۱/۶۲;_كے نبي_۱۱/۶۱;_كى تاريخ ۱۱/۶۲،۶۵ ،۶۶ ،۶۷، ۶۸، ۹۵، ۱۰۰ ;_ كاتكامل :اس كے اسباب ۱۱/۶۲;_كے جوان ۱۱/۶۲; _كى خداشناسي۱۱/۶۱;_كے تقاضے _۱۱/۶۳;_ سے توبہ كى درخواست ۱۱/۶۵; _ كودعوت _۱۱/۶۱،۶۲;_كى دنيا طلبى ۱۱/۶۵;_كا نقصان ۱۱/۶۳;_كى سرزنش ۱۱/۶۲;_كاشرك ۱۱/۶۱،۶۲:اس كے آثار۱۱/۶۶;اس پر اصرار ۱۱/۶۶; _كاشك ۱۱/۶۲;_كاعاجز آنا ۱۱/۶۷ ;_كاعذاب ۱۱/۶۷،۹۵،۱۰۱;اس كے آثار ۱۱/۶۸;اس كاحتمى ہونا۱۱/۶۵;ان پر دنياوى عذاب ۱۱/۸۹;ذلّت بار عذاب ۱۱/۶۶;اس كى كيفيت ۱۱/۶۷;اس كے اسباب ۱۱/۶۶، ۶۷، ۶۸; اس كاوقت ۱۱/۶۷;اس كى خصوصيات ۱۱/۶۷;_كاگناہ كرنا۱۱/۶۸; _كا عقيدہ ۱۱/۶۱ ،۶۲، ان كا باطل عقيدہ۱۱/۶۱;_كاانجام _۱۱/۹۵ ;_كافساد۱۱/۱۱۶،۱۱۷;_اور حضرت صالح كو جھٹلانا۱۱/۶۶;_اورتوحيد عبادى ۱۱/۶۲; _ اور حضرت صالح كى ناقہ _۱۱/۶۵، ۶۶; _ اور حضرت صالحعليه‌السلام ۱۱/۶۲، ۶۳; _كاكفر ۱۱/۶۸ ;_ كى سزا ۱۱/۱۰۱;_كى سزا _۱۱/۱۰۱;_كے اجتماعى گروہ۱۱/۶۶;_كى لجاجت ۱۱/۶۶;اس كے آثار ۱۱/۶۶;_كے مومنين ۱۱/۶۶;_كى محروميت ۱۱/۹۵;_ا س كے اسباب ۱۱/۶۸;_كى مخالفت :اس كاانگيزہ ۱۱/۶۲;_كے موحدين ۱۱/۶۶;_كو مہلت دينا ۱۱/۶۵،۶۶;_كے درميانى عمركے لوگ ۱۱/۶۲;_كے باطل خدا ۱۱/۶۱;_كے منافع _۱۱/۶۴;_كے مقدس افراد ۱۱/۶۲;_كوعذاب سے ڈرانا ۱۱/۶۵;_كى ہلاكت ۱۱/۶۲، ۶۷، ۶۸،

۹۳۲

۹۵ ;اس كے اسباب ۱۱/۶۸; اس كاوقت ۱۱/۶۷ ; _كى مايوسي۱۱/۶۲;_نيزر،ك حضرت صالح (ع)

قوم عاد:كاامتحان ۱۱/۵۲;_پراتمام حجت ۱۱/۵۷;_كى اذيتيں ۱۱/۵۶;_كى اكثريت ۱۱/۵۹;_كے انذار اور ڈراوے۱۱/۵۷;_كى بت پرستى ۱۱/۵۰،۵۳،۵۴;_كوبشارت ۱۱/۵۲;_كى فكر ۱۱/۵۴; _كانبي۱۱/۵۰،۵۹;_كى تاريخ ۱۱/۵۲، ۵۳، ۵۴، ۵۵، ۵۶، ۵۷، ۵۸، ۵۹، ۶۰ ،۱۰۰; _كا تعصّب ۱۱/۵۳;_كو نصيحت ۱۱/۵۲;_كى سازش ۱۱/۵۵،۵۶;_كى تہمتيں ۱۱/۵۳ ،۵۴; _كى جانشينى ۱۱/۵۷;_كے حكّام :ان كاتكبّر ۱۱/۵۹;ان كى معصيت ۱۱/۵۹;_كى استبدادى حكومت۱۱/۵۹;_كى خداشناسى ۱۱/۵۰;_كى كذب بيانى :اس كے دلائل ۱۱/۵۵;_كودعوت دينا ۱۱/۵۰،۵۱،۵۲،۵۵;_كى بناوٹ ۱۱/۵۹، ان كى سياسى بناوٹ۱۱/۵۹;_كاشرك ۱۱/۵۰، ۵۲، ۵۳،۵۴;اس پر اصرار ۱۱/۵۳،۵۸;_كى صفات ۱۱/۵۲;_كے سماجى طبقات ۱۱/۵۹;_ كاظلم ۱۱/۱۰۱;_كاعجز _۱۱/۵۵;_كا عذاب ۱۱/۵۸ ،۶۰،۱۰۱;ان كا اخروى عذاب ۱۱/۸ ۵ ;ان كا دنياوى عذاب ۱۱/۵۸، ۸۹;_كامعصيت كرنا ۱۱/۵۹،۶۰;_كى عصيان گرى كرنے والے ۱۱/۵۹;_كاعقيدہ ۱۱/۵۰، ۵۳، ۵۴;_كاعمل ۱۱/۵۷;_كافساد ۱۱/۱۱۶،۱۱۷ ;_ كى قدرت ۱۱/۵۲;_اورآيات الہى ۱۱/۵۹ ;_اورتوحيد ربوبى ۱۱/۵۹;_اورربوبيت خدا_ ۱۱/۵۹; _ بارش كى كمى _۱۱/۵۲;_اوربتوں كا كردار ۱۱/۵۴;_اورحضرت ہودعليه‌السلام _۱۱/۵۳; _ اور كفّار _۱۱/۵۷،۵۸;_اوركفر ۱۱/۵۳، ۵۹، ۶۰; اس پر اصرا ر۱۱/۵۸;_كى سزا ۱۱/۵۷، ۱۰۱; _كاگناہ _۱۱/۵۲;_كى لجالت _۱۱/۵۳ ،۵۸; _پر نعمت ۱۱/۶۰;_كے مومنين ۱۱/۵۸;_كے متكبرين ۱۱/۵۹;_كے محروم ۱۱/۶۰;_كى محروميت :ان كے باطل معبود ۱۱/۵۰، ۵۴، ۵۵; _كامكر ۱۱/۵۵;_كے موحدين _۱۱/۵۸;اس كے اسباب ۱۱/۶۰;نيزر،ك حضرت ہود (ع)

قوم لوط:كى اذيتيں ۱۱/۷۸;_ميں ازدواج ۱۱/۷۹; _كافساد بپاكرنا ۱۱/۷۸;اس كے آثار ۱۱/۷۸ ; _پر پتھروں كى بارش ۱۱/۸۲;_كا بخل ۱۱/۷۷، ۸۸; _كابے تقوى ہونا ۱۱/۷۸;_كى تاريخ ۱۱/۷۶، ۷۸،۸۲،۸۹،۱۰۰;_كى بے عقلى ۱۱/۷۸; _كى بے غيرتى ۱۱/۷۸;_كى خساست ۱۱/۷۷;_ كے رذائل وبرے اخلاق۱۱/۷۷ ،۷۸; _كى رسومات ۱۱/۷۹;_كى شفاعت ۱۱/۷۴، ۷۵،۷۶;اس كارد ۱۱/۷۶;_رد كرنے كے دلائل _۱۱/۷۶;_كاظلم ۱۱/۸۳، ۱۰۱; _ كاعذاب ۱۱/۷۷، ۸۱، ۸۲، ۱۰۱ ;اس كے آنے ميں عجلت ۱۱/۸۱;اس ميں پتھروں كى اہميّت ۱۱/۸۳;اس كا حتمى ہونا ۱۱/۷۶;اس كا دوركرنا ۱۱/۷۴;اس كازمانہ ۱۱/۷۶;اس كى سختى ۱۱/۸۲; ان كادنيا وى عذاب ۱۱/۸۹;اس كى كيفيت ۱۱/۸۲; اس كا سرچشمہ ۱۱/۸۲;اس كے پتھروں كى علامات ۱۱/۸۳; اس كا وقت۱۱/۸۱; اس كے پتھروں كى خصوصيات ۱۱/۸۲;_

۹۳۳

كافساد ۱۱/۱۱۶;_اورحضرت لوطعليه‌السلام كے مہمان ۷۸، ۷۹;_اور مہمان ۱۱/۷۸;_كى سزا۱۱/۱۰۱; _ كے ميلانات ۱۱/۷۹;_كے گناہ۱۱/۷۸; _كے گناہ گار ۱۱/۸۱;_ميں لواط ۱۱/۷۸، ۷۹، ۸۳; اس كے آثار۱۱/۷۸;_كے خلاف جہاد۱۱/۸۰;_كى خصوصيات ۱۱/۷۸ ; _كا اك_ ۱۱/۷۸ ;_كى ہلاكت ۱۱/۷۰ ،۷۱،۸۲ ; _ميں ہم جنس بازي۱۱/۷۸، ۷۰; نيزر،ك حضرت ابراہيمعليه‌السلام ،سارہ ،سرزمين ،حضرت لوطعليه‌السلام اور ملائكہ

قوم نوحعليه‌السلام :كے مذاق ۱۱/۳۸;_كے اشراف :وہ اور حضرت نوح(ع) كے پيروكار۱۱/۲۸،۲۹;وہ اورتقرب ۱۱/۲۹; وہ اور دين ۱۱/۲۸;وہ اور فقراء ۱۱/۲۹،۳۱;وہ اور قيامت ۱۱/۲۷;وہ اور لقاء اللہ ۱۱/۲۹;وہ اور مومنين ۱۱/۲۹;وہ اور لوگ ۱۱/۲۷;وہ او ر مستضعفين ۱۱/۲۷;وہ اور نبوت ۱۱/۲۸;وہ اور انسان كا نبى بننا۱۱/۲۷;وہ اور حضرت نوح(ع) ۱۱/۲۷،۳۱،۳۲;وہ اور بہانہ بنانا۱۱/۲۷;ان كى بے ايمانى ۱۱/۲۸;ان كى فكر ۱۱/۲۷، ۲۸، ۲۹، ۳۱; ان كا تكبّر۱۱/۲۷،۲۸;ان كى سازش ۱۱/۳۲;ان كى تہمتيں ۱۱/۲۷،۲۹;ان كى جہالت ۱۱/۲۹;ان كے تقاضے ۱۱/۲۹;ان كے برے اخلاق ۱۱/۲۷; ان كى آرام طلبى ۱۱/۲۸;ان كى سرزنش ۱۱/۳۰;ان كے ايمان لانے كى شرائط ۱۱/۲۹;ان كاشرك ۱۱/۲۷;ان كا ظلم ۱۱/۳۱;ان كا عاجز آنا ۱۱/۲۸;ان كے كفر كے اسباب ۱۱/۲۷;ان كا كفر ۱۱/۲۷;ان كے دلوں كا اندھا ہونا ۱۱/۲۸;ان كى گمراہى ۱۱/۳۴;ان كا ہدايت كوقبول نہ كرنا ۱۱/۳۲;_ كو انذار ۱۱/۲۶ ، ۳۲;_كاايمان:اس كى علامات ۱۱/۴۲; اس سے مايوسى ۱۱/۳۴،۳۶;_كى بہانہ جوئي ۱۱/ ۲۷;_كى بے لياقتى ۱۱/۳۶;_كى فكر ۱۱/۳۲، ۳۴، ۳۶; _كى تاريخ ۱۱/۳۱، ۳۶، ۱۰۰ ;_كى جہالت ۱۱/۲۹;_ كى خداشناسى ۱۱/۲۶; _ كے تقاضے ۱۱/۳۲، ۳۳ ،۳۴;_كاشرك ۱۱/۲۶ ; _كى شفاعت :اس سے نہى ۱۱/۳۷ ;_ كے سماجى طبقات ۱۱/۲۷، ۲۸، ۲۹، ۳۱; _كے ظالم افراد: ان كا آخرت ميں محروم ہونا ۱۱/۴۴; _كاظلم ۱۱/۱۰۱;_كاعذاب ۱۱/۴۰،۴۳ ،۱۰۱ ;اس كا حتمى ہونا ۱۱/۳۳;ان كااخروى عذاب ۱۱/۳۹ ;ان كا دنياوى عذاب۱۱/۳۹،۸۹;اس كى خصوصيات ۱۱/۳۹ ;_كاعقيدہ ۱۱/۲۶; _كا ناپسنديدہ عمل ۱۱/۳۵;_كاغرق ہونا ۱۱/۳۷، ۴۳،۴۴ ;اس كا حتمى ہونا ۱۱/۳۷;_كاانجام ۱۱/۳۸ ;_ كا فساد ۱۱ /۱۱۶،۱۱۷;_كے فقراء :ان پر ظلم ہونا ۱۱/۳۱; _ اور حضرت نوحعليه‌السلام كى كشتى ۱۱/۳۹; _ اور بشر كا نبى ہونا۱۱/۲۷;_اورحضر ت نوحعليه‌السلام ۱۱/۳۲، ۳۴; _ اور حضرت نوحعليه‌السلام كے ڈراوے ۱۱/۳۲; _كے كفّار ۱۱/ ۲۷،۳۶;_كاكفر ۱۱/۳۲: اس كے آثار ۱۱/۳۶;_ اس كى علامات ۱۱/۴۲; _كى سزا۱۱/۱۰۱;_كے سماجى گروہ ۱۱/۲۷ ،۳۶; _كے مومنين _ ۱۱/۲۷ ، ۳۶; ان

۹۳۴

كى تحقير ۱۱/۲۷; ان كا تقرب ۱۱/۲۹;ان كے مقامات ۱۱/۲۹;ان كى نجات ۱۱/۴۰;_كے ساتھ مجادلہ _۱۱/۴۰;_كى اخروى محروميت ۱۱/۴۴;_كے مستضعفين اور حضرت نوحعليه‌السلام ۱۱/۲۷ ; _ كے موحدين :ان كى كمى ۱۱/۴۰;_كى ہدايت ۱۱/۳۲;اس سے مايوسى ۱۱/۳۶;_ہدايت كو قبول كرنا۱۱/۳۶;_كى ہلاكت ۱۱/۳۹، ۴۳; _ نيزر،ك حضرت نوح (ع)//قيامت:ميں اختيار :اس كا سلب ہونا۱۱/۱۰۵;_كى ہولنا كياں ۱۱/۳;_كى تاخير۱۱/۱۰۴;_كے دن تباہ كاركرين انسان ۱۱/۲۲;_كابرپاہونا۱۱/۲۶;اس كا زمينہ ۱۳/۵;اس كى خصوصيات ۱۲/۱۰۷;_ميں اكٹھا ہونا ۱۱/۱۰۳;_كى تكذيب :اس كے آثار۱۳/۵;اس كابے منطق ہونا۱۳/۵;اس كا شگفت آور ہونا ۱۳/۵;اس كے اسباب ۱۳/۵; _ ميں كلام كرنا ۱۱/۱۰۵;_كے روزاعمال كاضبط ہوجانا ۱۱/۱۶;_كاحتمى ہونا۱۱/۴،۱۰۴،۱۳/۲;اس كے دلائل۱۳/۲;_كے روز حساب وكتاب ۱۳/۱۸ ; _كے روز حشرونشر :اس كافلسفہ ۱۱/۱۰۳; _كى حقانيت :اس كے دلائل ۱۱/۱۰۳;_كے دلائل ۱۳/۳;اس كا ادراك ۱۱/۱۰۳; روز_ ۱۱/۱۰۳;_ كے دن سب سے زيادہ نقصان اٹھانے والے انسان ۱۱/۲۲;_كے دن حقائق كا ظہور پذير ہونا۱۱/۲۹،۱۰۵;_كى عظمت ۱۱/۳;_كے دن فديہ ۱۳/۱۸;_كاجمعہ كے دن وقوع پذير ہونا ۱۱/۱۰۳;_كوبرپا كرنے والے ۱۱/۱۸;_كا انكار كرنے والے ۱۱/۸;_كے گواہ ۱۱/۱۸; _ پرا يمان لانے والے ۱۳/۱۸;_كو جٹھلانے والے ۱۱/۷، ۲۷;_ان كا مذاق كرنا ۱۳/۶;ان سے منہ موڑنے والے ۱۳/۱۸;ان كى فكر۱۳/۵;ان كے تقاضے ۱۳/۶;ان كے دلائل ۱۳/۵;ان كاعجز ۱۱/۱۰۳ ;وہ اور مردوں كوزندہ كرنا ۱۳/۵;_كے مواقف اور ركنے كے مقام ۱۱/۱۰۳، ۱۳/۱۸، ۲۱; ان كو ديكھنا۱۱/۱۰۲;_كاناگہانى ہونا۱۲/ ۱۰۷; _ كا نزديك ہونا _۱۱/۱۰۴;_كى علامات ۱۳/۳; _ كا كردار ۱۱/۷;_كاوقت ۱۱/۱۰۴،۱۲/۱۰۷;اس كو معين كرنا ۱۱/۱۰۴;اس سے علمى ۱۱/۱۰۴;_كى خصوصيات ۱۱/۳، ۴، ۲۹، ۱۰۳، ۱۰۵ ; نيز ر،ك آخرت ،خداوند عالم كى اطاعت كرنے والے ،ا نسان ،ايمان،تذكر ،جھوٹ افراد،رحمت،رہبر ، سعادت مند لوگ ،اہل شقاوت ،عہد كو توڑنے والے ،فرعون ،فرعونى ،قوم نو حعليه‌السلام ،كفّار ،لقاء اللہ ،مومنين ،مشركين،خدا اور يقين پر افتراء باندھنے والے

'' ك ''

كام :_كى اجرت :اس كى اہميّت ۱۱/۱۵;نيز ر،ك جعالہ//كارى گر ومزدور:كى اجرت :اس كو ادا كرنا _۱۱/۱۵

كاميابي:كى شرائط۱۱/۴۹;نيزر،ك اسلام،ايمان، بشارت ،ذكر،مومنين،حضرت موسىعليه‌السلام اور حضرت نوح (ع)

كاميابى و كامرانى :_سے محروم لوگ۱۲/۱۳;_كے موانع۱۲/۲۳

۹۳۵

كاميابى ونجات :ر،ك كاميابي

كائنات ;ميں غور وفكر ۱۳/۴;_كا كردار ۱۳/۴

كتاب :كااستوار ہونا۱۱/۱;_كاواضح ہونا۱۱/۱;_كى خصو صيات _۱۱/۱

كتاب خدا:كاعالم ۱۳/۴۳

كتاب مبين :كى خصوصيات ۱۱/۶;نيزر،ك چوپائے

كشتى سازى :كى تاريخ ۱۱/۳۷;نيزر،ك حضرت نوح (ع)

كعبہ :طوفان نوحعليه‌السلام كے دوران _۱۱/۴۳

كفالت :كے احكام ۱۲/۷۲;_كى تاريخ ۱۲/۷۲; عقد_ ۱۲/۷۲; حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانہ ميں _۱۲/۷۲; _ كاشرعى ہونا ۱۲/۷۲

كفر:كے آثار ۱۱/۲۹،۳۶، ۶۰، ۶۶، ۱۰۲، ۱۲۲ ، ۱۲/۳۸، ۱۳/۳۱;_سے اجتناب :اس كے آثار ۱۲/۳۷،۱۳/۶،۳۵;اس كى طرف دعوت ۱۳/۶ ;_ پر اصرار:اس كے آثار ۱۱/۳۶، ۵۸، ۱۲/۱۱۰ ;_كابے منطق ہونا ۱۱/۲۱،۱۲/۱۰۴;_كا بے ارزش ہونا۱۱/۲۱;_كى طرف پہل كرنے والے ۱۱/۲۷; _ كى حقيقت ۱۱/۴۴;_كازمينہ ۱۱/۲۰، ۱۳/۲۶; آخرت كا _كرنے والے :اس كى علامات ۱۱/۱۹; خداوند عالم كا _۱۲/۳۷، ۱۳/۳۰; رحمانيت خدا كا _۱۳/۳۰; قرآن كا _۱۱/۱۷،۱۳/۳۱;اس كى سزا۱۱/۱۷;اس سے مراد ۱۱/۱۷;حضرت محمّدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا _۱۳/۲۷،۳۱;اس كا سرچشمہ ۱۲/۱۰۳;_كى سزا ۱۱/۱۱۱ ;_كے مراتب ۱۱/۲۲;_كاسرچشمہ ۱۳/۲۷ ; _ كے موارد ۱۲/۳۷،۱۳/۱۴،۳۰،۴۳

كفران :نعمت ۱۲/۳۸;اس كے آثار ۱۲/۲۳،۱۳/۱۱;اس كا ظلم ہونا ۱۲/۲۳;اس كے موارد ۱۲/۲۳، ۳۸; نيز ر،ك زليخا اور حضرت يوسف (ع)

كم تولنے والے :كو عذاب ۱۱/۹۴;نيزر،ك كم فروشي

كھيل كود:چمن زار ميں _۱۲/۱۲نيز رّك حضرت يوسف اور ضر ورتيں

كھيتى باڑى :كى آفات :ان سے نمٹنے كاطريقہ كار ۱۲/۴۷;_ كى اہميّت ۱۲/۴۷;نيزر،ك قديمى مصر اور حضرت يوسف (ع)

كھجور:كے باغات ۱۳/۴;_كے درخت ۱۳/۴;اس كى

۹۳۶

خصوصيات ۱۳/۴

كم فروشى :كے آثار ۱۱/۹۵;_كى حرمت ۱۱/۸۵;_سے نہى ۱۱/۸۴،۸۵;نيزر،ك اہل مدين اور كم تولنے والے

كنعان:ر،ك برادران يوسفعليه‌السلام ،لاوى اور سرزمين

كنعان بن نوح :اور حضرت نوحعليه‌السلام ۱۱/۴۶

كوشش :ر،ك تلاش

كوہ جودى :۱۱/۴۴،۴۸

كينہ :كے اسباب۱۲/۱۰۰;نيزر،ك برادران يوسف اور حضرت يوسف (ع)

'' گ ''

گائے :ر،ك حضرت ابراہيمعليه‌السلام اورخواب

گذشتہ :ر،ك گذشتہ اقوام//گذشتہ اقوام:كا ختم ہونا۱۱/۱۱۰;_كى دنيا طلبى ۱۱/۱۱۶;_كى سرنوشت :اس كى اہميّت ۱۲/۳;اس كا مطالعہ ۱۱/۸۹،۱۲/۱۰۹;_كا عذاب _۱۱/۱۰۰،۱۱۶;_كا براانجام ۱۱/۸۹;اس سے عبرت حاصل كرنا ۱۲/۸۹، ۱۰۹;_كا فساد_۱۱/۱۱۶،۱۱۷;_كا گناہ ۱۱/۱۱۶;_ ميں نہى عن المنكر كرنے والے۱۱/۱۱۶ ; ان كى كمي۱۱/۱۱۶;ان كى ہلاكت۱۱/۱۱۶;_نيز ر،ك تذكر او رنہى عن المنكر//گذشتہ امتيں :كى استہزاء گرى اور مذاق:اس كى سزا ۱۳/۳۲; _اور انبياء ۱۳/۳۰،۴۲;_اور دين ۱۳/۴۲;_كا ختم ہوجانا۱۳/۳۰;_كى تاريخ ۱۳/۳۰ ،۳۲;_كى سازش ۱۳/۴۲;_كا برا انجام ۱۳/۶;_كے كافر ۱۳/۶،۳۲;ان كے مذاق ۱۳/۳۲;ان كى سزا ۱۳/۳۲;_كا حيلہ ومكر ۱۳/۴۲ ;اس كا بے تاثير ہونا۱۳/۴۲

گرج وچمك :كا حمد كرنا ۱۳/۱۳;_كا تسبيح كرنا ۱۳/۱۳;_كاشعور ۱۳/۱۳;_كى آواز ۱۳/۱۳;_كا كردار ۱۳/۱۳

گرفتاري:_ كے احكام۱۲/۷۲، ۷۳; _ كا جواز ; اس كے موارد۱۲/۷۲; _ كے اسباب۱۲/۷۳نيز رك بنيامين، متہم اور مجرمين

گريہ :كے آثار ۱۲/۱۶،۸۴،_كے احكام ۱۲/۱۶، ۸۴;جائز _۱۲/۱۶،۸۴;_اور صبر ۱۲/۸۴; نيز ر،ك برادر ،يوسفعليه‌السلام ،حضرت شعيبعليه‌السلام ،نبوت اور حضرت يعقوب (ع)

۹۳۷

گواہ:سے مراد ۱۳/۹;_نيز ر،ك پيدائش

گمراہ كرنا:ر،ك اللہ تعالى ،رہبر،شيطان اور فرعون

گفتگو:پنہانى _۱۳/۱۰;_كاعلم ۱۳/۱۰;_كا كردار ۱۲/۵۴; نيزر،ك بچے

گمراہ لوگ :پراتمام حجت ۱۱/۳۴;_كاحق كو قبول نہ كرنا ۱۱/۳۴; _كى دشمنى ۱۱/۳۴;_كو نقصان ۱۳/۱۱;_كو عذاب ۱۳/۳۴;اس كا حتمى ہونا ۱۳/۱۱;_كى لجاجت ۱۱/۳۴;_كاہدايت كوقبول نہ كرنا ۱۱/۳۴ ، ۱۳/۳۳; _نيزر،ك گمراہي

گمراہى :كے وسائل ۱۲/۲۸;_كازمينہ ۱۱/۳۴، ۱۳/۲۷ ،۳۳; _كے اسباب ۱۱/۹۷;_كاسرچشمہ ۱۱/۳۴، ۱۳/۲۷،۳۳;نيزر،ك انسان ،شرك ،ظالمين ، فرعون ،قوم نوحعليه‌السلام ،گمراہ لوگ ،گناہ گار لوگ ،مشركين اور ہدايت كوقبول نہ كرنے والے

گناہ گارلوگ :۱۱/۵۲،۶۳،۱۱۶،۱۲/۱۱۰

كى بخشش۱۱/۶۱،۱۲/۹۲،۱۳/۶;_كى اخروى تباہى ۱۱/۲۲;_كى جہالت ۱۲/۸۹;_كااخروى حساب وكتاب ۱۳/۲۱;اس كى سختى ۱۳/۲۱;_كى دعا:اس كا قبول ہونا۱۱/۶۱;_كانقصان ۱۳/۱۱;_كاعذاب ۱۱/۱۰۱،۱۳/۶;اس كا حتمى ہونا۱۲/۱۱۰;ان كا اخروى عذاب ۱۱/۸۴;ان كا دنياوى عذاب ۱۲/۱۱۰ ;اس كے اسباب ۱۱/۱۰۱;_كى سزا ۱۱/۸۳;_كى گمراہى ۱۲/۲۴;نيزر،ك حضرت شعيبعليه‌السلام ،قوم لوطعليه‌السلام اورحضرت محمّدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

گناہ:كے آثار ۱۱/۵۲،۸۸،۱۲/۲۳،۳۳،۱۳/۱۱;_كى بخشش ۱۱/۳،۴۱،۹۰،۱۲/۹۲،۹۸;اس كے آثار ۱۲/۵۳;اس كاسرچشمہ ۱۳/۶;بے گناہى :اس كى علامات ۱۲/۷۳;_سے پشيمانى ۱۲/۹۱;_كو ترك كرنا:اس كے آثار ۱۲/۵۷;اس كى اہميّت ۱۲/۲۳;اس كا زمينہ ۱۲/۳۳،۳۳،۵۳;اس كے اسباب۱۱/۱۱۴،۱۳/۲۲;_كاكفّارہ:اسكے اسباب ۱۱/۱۱۴،۱۳/۲۲;_كاجبران ۱۳/۲۲;_كى پليدگى كو درك كرنا :اس كے آثار ۱۲/۲۴;_كازمينہ ۱۱/۱۱۶، ۱۲/۵۳;_كاظلم ہونا۱۱/۱۰۱، ۱۲/۲۳; _ سے معصوم ہونا ۱۲/۲۴;_كے اسباب ۱۲/۹ ،۱۱، ۵۳; _ كى سزا۱۱/۳۰،۳۵;_كبيرہ _۱۱/۷۸، ۱۱۳، ۱۲/۲۴،۸۷،۱۳/۲۵;اس كى بخشش ۱۳/۶; قابل معافى _۱۲/۹۸;_كاجائز ہونا ۱۲/۳۳; _كامقام وجگہ :اس سے اجتناب كرنے كى اہميّت ۱۲/۲۵; _سے محفوظ رھنا ۱۲/۲۳;اس كے اسباب ۱۲/۵۳ ; _كاسرچشمہ ۱۲/۸۹;_كے موارد ۱۱/۳۰ ،۳۱، ۳۵

۹۳۸

،۱۱۶،۱۲/۵۲،۷۹،۹۲،۱۱۰;_كے موانع ۱۲/۲۳، ۲۴، ۵۳;_سے نجات :اس كا طريقہ كار ۱۲/۲۳، ۳۳; _سے نہى ۱۱/۱۱۶

گنج :ر،ك حضرت محمّدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

گواہى :كے آثار ۱۲/۸۲;_كے احكام ۱۲/۸۲;خدا كے حضور _۱۱/۱۸;نيزر،ك اشراف مصر ،انجيل ،برادران يوسفعليه‌السلام ،بنيامين،توريت ،اللہ تعالى ،ذكر ،زليخا ،ظالمين،قرآن ،كفّار ،حضرت محمّدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،اللہ تعالى پر افتراء باند ھنے والے اورحضرت يوسف (ع)

گوسالہ :بھنّا ہوا_۱۱/۶۹;نيزر،ك حضرت ابراہيم (ع)

گوشت :ر،ك حضرت ابراہيم (ع)

'' ل ''

لاوى :كاغم ۱۲/۸۰;_كابنيامين كے لوٹنے كا بندوبست كرنا۱۲/۸۰;_كا قسم اٹھانے كا بندوبست كرنا ۱۲/۸۰;_كاعہد كابندوبست كرنا ۱۲/۸۰;_كى فكر ۱۲/۱۰،۸۰;_كى تجويز ۱۲/۱۰;اس كا فلسفہ ۱۲/۱۰; اس كاقبول كياجانا ۱۲/۱۱;_كى تصميم ۱۲/۸۰ ;_كى تعليمات۱۲/۸۱;_كى وصيتيں ۱۲/ ۸۱، ۸۲;_كے تقاضے۱۲/۸۱،۸۲;_كى سرزنش ۱۲/۸۰;_كا عقيدہ ۱۲/۸۰;_كافراق :اس ميں حكمت ۱۲/ ۸۳ ;_سرزمين مصر پر ۱۲/۸۰;_او ربنيامين پر چورى كاالزام ۱۲/۸۱;_اور حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اجازت ۱۲/۸۰;_كاكنعان كى طرف لوٹنا۱۲/۸۰;_او ربرادران يوسفعليه‌السلام ۱۲/۸۱،۸۲;_اور حضرت يوسفعليه‌السلام كى جلاوطنى ۱۲/۱۰;_اوربنيامين كا چورى كرنا ۱۲/۸۱;_اوربرادران يوسفعليه‌السلام كاظلم كرنا ۱۲/۸۰; _ اورحضرت يوسف كاقتل كياجانا۱۲/۱۰;_اور مقدرات خدا ۱۲/۸۰;_اور بنيامين كى نجات ۱۲/۸۰;_اورحضرت يوسفعليه‌السلام كى نجات ۱۲/۱۰; _ اورحضرت يوسفعليه‌السلام ۱۲/۱۰;نيزر،ك برادران يوسفعليه‌السلام اورحضرت يعقوب (ع)

لجاجت :كى سزا ۱۱/۳۴;نيز ر،ك انبياءعليه‌السلام ،اہل مدين ،قوم ثمود،قوم عاد،كفّار ،گمراہ لوگ اور مشركين

لگاو :كے آثار ۱۲/۹;_كااظہار :اس كى اہميّت ۱۲/۵; ماوى وسائل كے ساتھ _۱۱/۹; _ انسانوں كے ايمان كے ساتھ_۱۲/۱۰۳;غلام كے ساتھ_: اس كى سرزنش ۱۲/۳۰;اولاد كے ساتھ _۱۲/۵; محبوب ہونے كے ساتھ _۱۲/۹; نعمت كے ساتھ _ ۱۱/۹;پسنديدہ _۱۲/۵//لعنت :كے شامل حال ۱۱/۱۸، ۶۰، ۹۹، ۱۳/۲۵ ،۳۹;

۹۳۹

اخروى _۱۱/۱۹; نيز ر،ك اللہ تعالي،دين ،ظالمين ،عہد توڑنے والے ،فرعون ،فرعونى ،قوم عاد،كفار ،اللہ تعالى پر افتراء ،باندھنے والے ،فساد بپاكرنے والے اور يہود

لقاء اللہ :كازمانہ ۱۱/۲۹;_كا حتمى ہونا ۱۳/۲;دنيا ميں _۱۱/۲۹;قيامت كے دن_۱۱/۲۹;_كا مقام ۱۱/۲۹;نيزر،ك ايمان اورقوم نوح (ع)

لقيط :(گم شدہ اشياء كا مل جانا )

لواط :كاپليد ہونا ۱۱/۷۸;_كاظلم ہونا ۱۱/۸۳;_كاگناہ ہونا ۱۱/۷۸;_نيز ر،ك قوم لوط (ع)

لوطعليه‌السلام :كى آرزو ۱۱/۸۰;_كى آگاہى ۱۱/۷۹;_كواذيت _۱۱/۷۸;_كى اندازہ گيرى ۱۱/۷۷;_پر اطمينان ۱۱/۸۱;_كى امنيت وامن ۱۱/۸۱;_كاغم و اندوہ۱۱/۷۷;_كاسلوك :اس كاطريقہ كار ۱۱/۷۸ ; _كا بے يارومدد گار ہونا ۱۱/۸۰;_كا پناہ حاصل كرنا ۱۱/۸۰;_كى تجويز ۱۱/۷۸;اس كا مستردكياجانا ۱۱/۷۹;_كى حمايت ۱۱/۸۱;_كا خاندان ۱۱/۸۱;ان كاايمان ۱۱/۸۱;ان كا منزّہ ہونا۱۱/۸۱;ان كى نجات ۱۱/۸۱;ان كى ہجرت ۱۱/۸۱;_كى بيٹيان :ان كے ساتھ شادى ۱۱/۷۸; اس كامستردكياجانا ۱۱/۷۹;ان كابالغ ہونا ۱۱/۷۸ ; ان كا متعدد ہونا ۱۱/۷۸،۷۹;_كے تقاضے۱۱/۷۸،۸۱;_كى بيچارگى ۱۱/۸۱;_كى دعوتيں ۱۱/۷۸;_كا دين :اس ميں شادى ۱۱/۷۸ ; _كے سخت ايام ۱۱/۷۷;_كى سخاوت ۱۱/۷۷ ; _ كى عجلت ۱۱/۸۱;_كاعلم :اس كى حدود ۱۱/ ۷۷; _ كے فضائل ۱۱/۷۷;_كاقصّہ۱۱/ ۷۷، ۷۸، ۷۹، ۸۰، ۸۱;_كاانكار كرنے والے ۱۱/۸۱; _ اور ذلّت ۱۱/۷۸;_اورقوم لوطعليه‌السلام ۱۱/۷۸;_اور ملائكہ ۱۱/۷۷،۸۱;_پرايمان لانے والے :ان كى كمى ۱۱/۸۱;ان كا جہاد۱۱/۸۱;ان كى تربيت كرنے والا۱۱/۸۱;_كى ذمہ دارى ۱۱/۷۷،۸۱;_كى مہربانى ۱۱/۷۸;_كے مہمان ۱۱/۷۸،۸۱;ان كى رسالت ۱۱/۸۱;ان كى ذمہ دارى ۱۱/۷۷;_كى مہمان نوازى ۱۱/۷۷،۷۸،۸۰،۸۱;_كى نجات ۱۱/۸۱;_كى پريشانى ۱۱/۷۷;_كى نواہى ۱۱/۷۸; _كى طرف وحى ۱۱/۸۱;_كى ہجرت ۱۱/۸۱;ان كى رات كو ہجرت ۱۱/۸۱;_كى بيوى ۱۱/۸۱;اس كى جاسوسى ۱۱/۷۸;اس پرعذاب ۱۱/۸۱;اس كا كفر ۱۱/۸۱;اس كا گناہ ۱۱/۸۱;اس كے مقدرات ۱۱/۸۱;اس كى ہلاكت ۱۱/۸۱;_وہ عذاب كے وقت ۱۱/۸۱;_كے ہم سفر _۱۱/۸۱;_نيزر،ك قوم لوطعليه‌السلام ،حضرت محمّدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورملائكہ

۹۴۰

941

942

943

944

945

946

947

948

949

950

951

952

953

954

955

956

957

958

959

960

961

962

963

964

965

966

967

968

969

970

971