تفسير راہنما جلد ۹

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 779

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 779 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 212531 / ڈاؤنلوڈ: 3605
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۹

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

نشانياں ۴

عذاب :اخروى عذاب كے موجبات ۳

گناہ :گناہ كے اثرات ۳

گناہگار لوگ:ان كا اخروى عذاب ۴; ان كى اخروى اسارت ۳، ۴;ان كے حشر كى كيفيت ۲;وہ قيامت كے دن ۱ ، ۲

آیت ۵۰

( سَرَابِيلُهُم مِّن قَطِرَانٍ وَتَغْشَى وُجُوهَهُمْ النَّارُ )

ان كے لباس قطران كے ہوں گے او ر انكے چہروں كو آگ ہر طرف سے ڈھانكے ہوئے ہوگى _

۱_قيامت كے دن مجرمين ايك سياہ ،بد بو دار،گرم اور (تاركول جيسے)اشتعال انگيز مادے كا كرتا پہنے ہوں گے_

وترى المجرمين ...سرابيلهم من قطران

'' قطران'' ايك سياہ ،بد بو دار اور چپكنے والا مادہ (تيل)ہے كہ جسے اونٹ كے بدن پر ملتے ہيں (مجمع البيان )يہ جو خدا وندعالم نے فرمايا ہے كہ دوزخيوں كا لباس قطران سے ہے ممكن ہے يہ دوزخى انسان كے بدن پر جہنم كى اگ كى سوزش اور اشتعال انگيزى كى زيادتى كو بيان كر نے ميں مبالغے كے لئے ہو _نيز مادہ قطران كے قابل اشتعال ہونے كو بيان كرنے كے لئے ہو_ (لسان العرب)

۲_قيامت كے دن مجرمين كا چہرہ اگ سے ڈھانپا ہو گا_وترى المجرمين ...وتغشى وجوههم النار

۳_قيامت كے دن عذاب الہى مجرمين اور گناہگاروں كے پورے وجود كو گھير لے گا _

وترى المجرمين ...سرابيلهم من قطران وتغشى وجوههم النار

'' وجوہ''(چہروں ) كى تعبير شايد پورے وجود سے كنايہ ہو ;چونكہ چہرہ انسان كے پورے وجود كا ائينہ ہوتا ہے _قابل ذكر يہ كہ اتشين لباس اور مجرمين كے طوق وزنجير ميں باندھے جانے سے

۱۶۱

بھى اسى مطلب كى تائيد ہوتى ہے _

۴_قيامت كے دن مجرموں كے حاضر ہونے كى كيفيت اور اندازسے ايك ہولناك اور قبيح منظر كى عكاسى ہوتى ہے_

وبرزوا ...وترى المجرمين يومئذمقرّنين فى الا صفاد_ سرابيلهم من قطران وتغشى وجوههم النار

۵_قيامت كے دن سب انسان، جسم و روح كے ساتھ حاضر ہوں گے_

مقرّنين فى الا صفاد_سرابيلهم من قطران وتغشى وجوههم النار

۶_''عن ا بى عبدالله عليه‌السلام : ...ان جبرئيل جاء الى رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ...قال: ...لو ا ن سربالا من سرابيل ا هل النار علّق بين السّماء والا رض لمات ا هل الا رض من ريحه و وهجه ;(۱) امام صادقعليه‌السلام سے منقول ہے كہ حضرت جبرائيلعليه‌السلام حضرت رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس ائے ...اور كہا:اگر اہل اتش كے كرتوں ميں سے ايك كرتا بھى زمين و اسمان كے درميان لٹكايا جائے تو اہل زمين ا سكى بد بو او رشعلوں سے مر جائيں _

جہنمى لوگ :جہنمى لوگوں كے لئے لباس ۱،۶

روايت :۶

عذاب :اخروى عذاب كا احاطہ ۳

قيامت :اھوال قيامت ۴

گناہگار لوگ :ا ن كا اخروى عذاب۱،۲،۳;ان كا اخروى لباس ۱; ان كا چہرہ ۲;ان كے حشر كى كيفيت ۴;وہ قيامت ميں ۱،۲

معاد :جسمانى معاد ۵;روحانى معاد ۵

____________________

۱)تفسير قمى ،ج ۲،ص ۸۱ ;نور الثقلين ،ج۲،ص ۵۵۸،ح ۱۴۸_

۱۶۲

آیت ۵۱

( لِيَجْزِي اللّهُ كُلَّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ إِنَّ اللّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ )

تا كہ خدا ہر نفس كو اس كے كئے كا بدلہ دے دے كہ وہ بہت جلد حساب كرنے والا ہے _

۱_قيامت برپا ہونے پر انسانوں كو سزا و جزا دينے كے لئے موجودہ اسمانوں اور زمين كے نظام كا كسى دوسرے نظام ميں تبديل ہوجانا _يوم تبدّل الا رض غيرالا رض___وبرزوا اللّه ___ليجزى اللّه كل نفس ما كسبت

مندرجہ بالا مطلب اس بات پر مبنى ہے كہ جب ''ليجزى '' آيت مجيدہ ۴۸ كے كلمہ '' برزوا '' سے متعلق ہو _

۲_كائنات كے موجودہ نظام كے ساتھ انسان كو مكمل سزا و جزا دينا ممكن و مناسب نہيں _

يوم تبدّل الا رض غيرالا رض___وبرزوا الله ___ليجزى اللّه كل نفس ما كسبت

كيونكہ خدا وندعالم نے قيامت ميں انسانوں كى سزا و جزا كا مسئلہ پيش كرنے سے پہلے دنيا كے موجودہ نظام كے تبديل ہونے كا مسئلہ پيش كيا ہے اس سے مندرجہ بالا مطلب اخذہوتا ہے_

۳_قيامت كے دن الہى سزا و جزا كا نظام، انسان كى تمام حركات و سكنات كے مقابلے ميں سب انسانوں تك پھيلا ہوا ہے_ليجزى اللّه كل نفس ما كسبت

'' ما كسبت'' ميں ''ما'' موصولہ ہے جو جنس كا معنى ديتا ہے _بنا بريں '' ما كسبت '' يعنى انسان جو كچھ بھى كرتا ہے اور جو بھى حركت اس سے سرزد ہو تى ہے _

۴_قيامت كے دن، خدا وند عالم كى طرف سے انسانوں كى جزا و سزا ،مكمل طور پرانسان كے عمل كى كميت و كيفيت كے مطابق و مناسب ہو گى _ليجزى اللّه كل نفس ما كسبت

۵_ قيامت كے دن انسان كى عاقبت اور سعادت و شقاوت،دنيا ميں كيے گئے اس كے عمل و كردار پر موقوف ہو گي_

ليجزى اللّه كل نفس ما كسبت

۶_اخرت ميں جزائے الہى كى بنياد انسان كے عمل اور جزا و سزا كے لئے اس كے استحقاق پر استوار ہے _

ليجزى اللّه كل نفس ما كسبت

خد اوند عالمنے جزا و سزا ميں انسان كى سعى و كوشش( ماكسبت ) كا مسئلہ پيش كيا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ انسانوں كى جزا وسز ا كى بنياد يہى چيز ہے نہ كوئي اور چيز _

۱۶۳

۷_قيامت كے دن، خداوندعالم كا جزا دينا ،در حقيقت خود انسان كے عمل كا مجسم ہونا ہے جو اس كے كردار كا ائينہ ہے_

ليجزى اللّه كل نفس ما كسبت

(سعى و كوشش كے مقابلے ميں ) جملہ ''بما كسبت '' كے بجائے جملہ ''ما كسبت'' انا ، اس حقيقت كى طرف اشارہ ہو سكتا ہے كہ الہى جزا و سزا اور انسانى عمل كے درميان مكمل وحدت پائي جاتى ہے_بلكہ ہم كہہ سكتے ہيں كہ يہ دونوں بعينہ ايك ہى چيز ہيں _

۸_انسا ن اپنى تمام حركات و سكنات و فعل و كردار كے مقابلے ميں ذمہ داراورايك مختا رمخلوق ہے_

ليجزى اللّه كل نفس ما كسبت

يہ كہ خدا وند عالم انسان كے عمل كے بارے ميں پوچھ گچھ كرتا ہے ،اس سے ظاہر ہوتا ہے كہ انسان ايك مختار اور ذمہ دار مخلوق ہے _چونكہ پوچھ گچھ اسى وقت معقول ہے كہ جب انسان صاحب اختيار اور ذمہ دار ہو _

۹_خداوند عالم كا انتقام لينا خود انسان كے عمل كا تقاضا ہے نہ انتقام جوئي كى خصلت كا نتيجہ_

ان اللّه عزيز ذوانتقام___ليجزى اللّه كل نفس ما كسبت

اس بات كى صراحت كرنا كہ خداوندعالم خود انسان كى سعى و كوشش كے برابر اسے جزا اور سزا ديتا ہے اس سے يہ حقيقت ظاہر ہوتى ہے كہ گذشتہ آيت مجيدہ كے مطابق خدا كا انتقام لينا ،انتقام جوئي كى خصلت كى بنا پر نہيں بلكہ خود انسان كے عمل اور كردار كے مطابق ہے_

۱۰_الہى جزا و سزا فقط انسان كے ارادى اعمال اور سعى و كوشش كے مقابلے ميں ہے نہ كہ ذاتى اور فطرى امور كے مقابلے ميں _ليجزى اللّه كل نفس ما كسبت

اس بات كى صراحت كرنا كہ خداوند عالم خود انسان كى سعى و كوشش كے برابر اسے جزا اور سزا ديتا ہے(ما كسبت)،ہو سكتاہے مندرجہ بالا مطلب كى طرف اشارہ ہو_

۱۱_خدا وند عالم''سريع الحساب'' (جلد حساب لينے والا)ہے_ان اللّه سريع الحساب

۱۲_ قيامت كے دن خدا وند عالم انسان كے اعمال كا حساب وكتاب بہت سرعت كے ساتھ انجام دے گا _

ليجزى اللّه كل نفس ما كسبت ان اللّه سريع

۱۶۴

الحساب

۱۳_دنيا ميں انسان كا عمل انجام پاتے ہى بغير كسى تاخير كے خدا وندعالم كى جانب سے اس كا دقيق حساب لے ليا جاتا ہے_ليجزى اللّه كل نفس ما كسبت ان اللّه سريع الحساب

مذكورہ مطلب اس بات پر مبنى ہے كہ جب خداوند عالم كے '' سريع الحساب ''ہونے سے اسى دنيا ميں اعمال كا حساب كتاب ليا جانا مراد ہو اور يہ حساب كتاب قيامت كے دن تك چھوڑا نہ جاتا ہو_بلكہ بندوں سے اعمال كے صادر ہوتے ہى انكو ثبت كر كے ان كا محاسبہ ہو جاتا ہو _

۱۴_خدا وند عالم كى الوہيت ،بندوں كى جزا وسزا كى مقتضى ہے_ليجزى اللّه ___ان اللّه سريع الحساب

ايك ہى آيت ميں بغير كسى صراحت كى ضرورت كے كلمہ جلالہ''الله ''كے انے سے مندرجہ بالا مطلب حاصل ہوتا ہے_

اسمان :اسمان كے تبديل ہونے كا فلسفہ ۱

افرينش :نظام افرينش اور جزا ۲;نظام افرينش اور سزا ۲ ; نظام افرينش كے تبديل ہونے كا فلسفہ ۱

اجر:اخروى اجر كے عوامل ۶;اجر كا پيش خيمہ ۱۴;اجر كے عوامل ۱۰;عمل اور اجر ميں تناسب۴

اختيار :اختيار كے اثرات ۱۰

اسماء و صفات :سريع الحساب ۱۱

الله تعالى :الله تعالى كى الوہيت كے اثرات ۱۴;الله تعالى كى طرف سے حساب و كتاب لينے ميں سرعت ۱۲ ،۱۳ ; الله تعالى كى طرف سے سزائيں ۷;الله تعالى كے انتقام كا سر چشمہ ۹

انسان :انسان كا اخيتار ۸،۱۰;انسانوں كى اخروى جزا ۱; انسانوں كى اخروى سزا ۱;انسان كى ذمہ داري ۸

زمين :زمين كى تبديلى كا فلسفہ ۱

سزا :اخروى سزا كے عوامل ۶;سزا كا پيش خيمہ ۱۴;سزا اور گناہ ميں تناسب ۴;سزا كے عوامل ۱۰

سزائيں :اخروى سزائوں كا عام ہونا ۳

سعادت :

۱۶۵

اخروى سعادت كے عوامل ۵

شقاوت :اخروى شقاوت كے عوامل ۵

عمل :عمل كااخروى اجر ۴;عمل كااخروى حساب وكتاب۱۲ ; عمل كا مجسم ہونا ۷; عمل كا حساب و كتاب ۱۳; عمل كے اثرات ۵،۶،۹،۱۰;عمل كى اخروى سزا ۴

قيامت :قيامت ميں جزا وسزا كا نظام ۳،۴،۶;قيامت ميں حقائق كا ظہور ۷

نظام سزا وجزا :۱۰

آیت ۵۲

( هَـذَا بَلاَغٌ لِّلنَّاسِ وَلِيُنذَرُواْ بِهِ وَلِيَعْلَمُواْ أَنَّمَا هُوَ إِلَـهٌ وَاحِدٌ وَلِيَذَّكَّرَ أُوْلُواْ الأَلْبَابِ )

بيشك يہ قرآن لوگوں كے لئے ايك پيغام ہے تا كہ اسى كے ذريعہ انھيں ڈرايا جائے اور انھيں معلوم ہوجائے كہ خدا ہى خدائے واحد و يكتا ہے اور پھر صاحبان عقل نصيحت حاصل كرليں _

۱_قران ،لوگوں كى طرف خداوندعالم كے پيغام كا ابلاغ ہے_هذا بلغ،للناس

مفسرين نے '' ھذا ''كے مشار اليہ كے بارے ميں تين احتمال ذكر كيے ہيں :ايك يہى اخرى ايات كہ جو دوزخيوں كى برى حالت كے بارے ميں ہيں _دوسرا اسى سورے كى ايات اور تيسرا خود قران كريم _مندرجہ بالا مطلب تيسر ے احتمال پر مبنى ہے _

۲_قران ،عالمى كتاب اورسب لوگوں كے لئے قابل فہم ہے_هذا بلغ،للناس

۳_قران ،تمام انسانوں كو ڈرانے اور خبردار كرنے كا وسيلہ ہے _هذا بلغ،للناس ولينذروا به

۴_ايمان سے عارى انسان ،ناقابل حل مشكلات ، صدمات اور خطرات سے دوچار ہوتا ہے_*هذا بلغ،للناس ولينذروا به

قران كو خداوندعالمنے انذار اور خبردار كرنے كا وسيلہ قرار ديا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ انسانوں كے راستے ميں بہت سے خطرات اور مشكلات موجود ہوتى ہيں كہ جن كے بارے ميں قران خبردار كر رہا ہے اور اگر انسان قران كى راہنمائي اور ہدايت سے استفادہ نہ كر ے اور اس پر ايمان نہ لائے تو ان ميں گرفتار ہو جائے گا_

۱۶۶

۵_قران ،انسان كى راہ ميں موجود مشكلات ،خطرات اور مصائب سے اس كى نجات كا باعث بنتا ہے_*

هذا بلغ،للناس ولينذروا به

۶_قران ،خدا وند يكتا سے انسانوں كى اگاہى اور اس كى وحدانيت كے بارے ميں انہيں ادراك عطا كرنے كے لئے (نازل ہوا )ہے_هذا بلغ،للناس___وليعلموا انما هو اله واحد

۷_قران ،وحدانيت خدا كى بولتى دليل ہے _هذا بلغ،للناس___وليعلموا انما هو اله واحد

مندرجہ بالا مطلب اس بات پر مبنى ہے كہ جب فقط قران كے مطالب توحيد كى تعليم نہ ديں بلكہ خودقران اپنى كيفيت اور خصوصيات كے ساتھ خدا كى يكتائي پر دليل ہو _

۸_خدا كى يكتائي كا اثبات اور لوگوں كو اس كى حقيقت سے اگاہ كرنا ہى قران كا بنيادى ترين موضوع اور اس كى تعليمات كا محور ہے_هذا بلغ،للناس___وليعلموا انما هو اله واحد

۹_اصول دين (توحيد وغيرہ ) كا علم ايك ضرورى چيز ہے _هذا بلغ،___وليعلموا انما هو اله واحد

يہ كہ خدا كى يكتائي اور وحدانيت كے بارے ميں لوگوں كا علم ،انذار اور ابلاغ وحى كا مقصد ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے كہ اس مقصد تك پہنچنا يعنى وحداينت خدا سے اگاہى حاصل كرنا ايك ضرورى چيز ہے_

۱۰_قران ،خالص عقل كے حامل افراد كى نصيحت پذيرى اور بيدارى كے لئے نازل ہوا ہے_

هذا بلغ،للناس ___ و ليذّكراولواالالباب

۱۱_ عقلمندى ،قرانى تعليمات اور معارف سے بہرہ مند ہونے كے شرائط اور ضرورى اسباب ميں سے ايك ہے_

هذا بلغ،للناس ___ و ليذّكراولواالالباب

۱۲_قران كى تعليمات اور معارف، خالص عقل كے مطابق اور اس كے ساتھ ہم اہنگ ہيں _

هذا بلغ،للناس ___و ليذّكراولواالالباب

يہ كہ خدا نے اہل عقل كى نصيحت پذيرى كو نزول قران كا مقصدقرار ديا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے

۱۶۷

كہ قران عقلى معيار كے مطابق اور اس سے ہم اہنگ ہے اور اگر ايسا نہ ہوتا تو اہل عقل اس سے نصيحت حاصل نہ كرتے بلكہ نتيجہ اس كے برعكس ہوتا_

۱۳_خالص عقل كے حامل افراد كو پند ونصيحت كرنا ہى تعليمات قران كااہم ترين محور اور اس كے بنيادى موضوعات ميں سے ہے_هذا بلغ،للناس ___و ليذّكراولواالالباب

انذار :انذار كا وسيلہ ۳

انسان :انسان كے خطرات سے دوچار ہونے كا پيش خيمہ ۴

اہل عقل :اہل عقل كو ياد دہانى ۱۳;اہل عقل كى عبرت پذيرى ۱۰

ايمان :ايمان كے اثرات ۴

تعقل:تعقل كے اثرات ۱۱

توحيد :توحيد كا پيش خيمہ ۶;توحيد كى اہميت ۸،۹;توحيد كے دلائل ۷

دين :دين كى عقلانيت ۱۲;اصول دين كے علم كى اہميت ۹

عبرت :عبرت كے عوامل۱۰

قران كريم :قران كريم اور عقل ۱۲; قران كريم سے استفادے كى شرائط ۱۱;قران كريم كانجات بخش ہونا۵;قران كريم كاكردار ۳،۵ ،۶ ، ۷، ۱۰ ; قران كريم كاوحى ہونا ۱; قران كريم كا واضح ہونا ۲;قران كريم كى اہميت ۵;قران كريم كى خصوصيات۲;قران كريم كى اہم ترين تعليمات ۸، ۱۳;قران كريم كى عا لمگيرى ۲;قران كريم كى عقلانيت ۱۲;قران كريم كے انذار۳;قران كريم كے نزول كا فلسفہ ۱۰; قران كريم كے فہم كى سہولت ۲

تنبہ:متنبہكرنے كے عوامل۱۰

۱۶۸

۱۵- سوره حجر

آیت ۱

( بسم الله الرحمن الرحیم )

( الَرَ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ وَقُرْآنٍ مُّبِينٍ )

بنام خدائے رحمان و رحيم

الريہ كتاب خدا اور قرآن مبين كى آيات ہيں _

۱_''الر'' رموز قران ميں سے ہے_الر تلك آيات الكتاب

۲_''الر '' قران كريم كى ايات ميں سے ہے اور عظمت كا حامل ہے _الر تلك آيات الكتاب

مندرجہ بالا مطلب اس احتمال كى بنا ء پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب ''الر ''مبتدا اور جملہ ''تلك ايات الكتاب ''اُس كى خبر ہو_

۳_سورہ حجر كى ايات ،قدرومنزلت اور عظمت وقداست كى حامل ہيں _تلك آيات الكتاب

مندرجہ بالا مطلب اس بات پر مبنى ہے كہ جب ''تلك'' كا مشار اليہ يہى سورہ حجر ہو _''تلك '' چونكہ دور كے لئے اشارہ ہے لہذا ہو سكتا ہے اس سورہ كى عظمت كو بيان كر نے كے لئے لايا گيا ہو_

۴_قران كى تمام ايات كے نزول كا سلسلہ ختم ہو نے سے پہلے ہى اسے كتاب كے عنوان سےمتعارف كيا گيا ہے_

الر تلك آيات الكتاب و قرآن مبين

باوجوداس كے كہ يہ سورہ مكى ہے اوراس وقت تك قران كى تمام ايات نازل نہيں ہوئي تھيں پھر بھى قران كا'' كتاب '' كے عنوان سے تعارف كرايا جارہا ہے_

۵_اخرى اسمانى كتاب كا نام ''قران ''ركھا جانا اور اسكي''ايات'' كے عنوان سے تقيسم بندى كرنا، خداوند عالم كى جانب سے تھا_الر تلك آيات الكتاب و قرآن مبين

۶_قران كى ايات ،لوح محفوظ سے نازل ہونے والى ايات ہيں _الر تلك آيات الكتب و قرآن مبين

۱۶۹

يہ كہ لفظ ''قران ''كو ''الكتاب '' كے بعد ذكر كيا گيا ہے نيز اصل يہ ہے كہ لفظ مترادف لانا تاسيس ہے نہ كہ تاكيد و تكرار_ لہذا احتمال ہے كہ ''الكتاب'' سے مراد لوح محفوظ ہو_

۷_قران، خداوندعالم كى بار گاہ ميں ايك بلند مرتبہ اور قدرو منزلت كى حامل كتاب ہے_و قرآن مبين

''قران'' كى تنوين تنكير ،تفخيم اور تعظيم كے لئے ہے اور مذكورہ نكتے پر دلالت كر رہى ہے_

۸_قران كريم كى ايات واضح اور قابل فہم ہيں _و قرآن مبين

مندرجہ بالا مطلب ''مبين '' كے لازم ہونے پر موقوف ہے كہ جوبمعنى واضح اور اشكار ہے_

۹_قران كى ايات حق و باطل كو جدا اور اُن دونوں كے درميان تميز كرنے والى ہيں _و قرآن مبين

مندرجہ بالا مطلب ''مبين '' كے متعدى ہونے پر موقوف ہے كہ جو لغت ميں ''دو چيزوں كو جدا كرنے والى شے '' كے معنى ميں ايا ہے اور موقع و محل كے قرينے سے يہاں اس سے مراد حق وباطل كے درميان تمايز و جدائي پيدا كرنا ہے_

۱۰_''عن جابر بن عبداللّه الا نصارى قال: وجدت سيدى على بن الحسين عليه‌السلام يدعو وقال: الهى و سيدى و قلت: ''ا لرتلك ايات الكتاب'' ثنيت بالكتاب مع القسم الذى هو اسم من اختصصته لوحيك واستودعته سرّغيبك ... ;(۱) حضرت جابر بن عبد الله انصارى سے منقول ہے كہ ميں نے اپنے مولا واقا على بن الحسينعليه‌السلام كو ديكھا كہ اپعليه‌السلام يہ دعا كر رہے تھے اور فرما رہے تھے : اے ميرے معبود اور ميرے اقا تو نے ہى فرمايا ہے :''ا لرتلك ايات الكتاب'' تو نے اپنى كتاب كو اُس قسم كے ساتھ ذكر كيا ہے كہ جس كے نام كو تو نے اپنى وحى سےمخصوص كيا ہے اور اپنے غيب كے راز اُسكے سپرد كيے ہيں ...''

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور خدا كے درميان رموز ۱۰

الله تعالى :الله تعالى كے افعال ۵

حروف مقطعہ :۱

حروف مقطعہ كا فلسفہ ۱۰;حروف مقطعہ كى عظمت ۲

حق:حق وباطل كے درميان مميز ۹

____________________

۱_نور الثقلين ،ج۲،ص ۲۹۱;بحار الانوار ،ج۸۸، ص۸ ، ح۳_

۱۷۰

روايت:۱۰

سورہ حجر :سورہ حجر كى ايات كى عظمت ۳

قران كريم :قران كريم اور لوح محفوظ ۶;قران كريم كا كردار ۹;قران كريم كا واضح ہونا ۸;قران كريم كي

ايات ۲;قران كريم كى آيت بندى ۵;قران كريم كى ايات كى خصوصيات ۹;قران كريم كى ايات كا نزول۶;قران كريم كى تاريخ ۴;قران كريم كى عظمت ۷;قران كريم كى نام گذارى ۵; قران كريم كے نام ۴;قران كريم كے رموز ۱; قران كريم كے فہم ميں سہولت ۸

كتاب :۴

آیت ۲

( رُّبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَوْ كَانُواْ مُسْلِمِينَ )

ايك دن آنے والا ہے جب كفاربھى يہ تمنا كريں گے كہ كاش ہم بھى مسلمان ہوتے _

۱_اسلام لانے كى فرصت ہاتھ سے كھو دينے كے بعد كفار كا مسلمان ہونے بہت زيادہ كى تمنا و ارزو كرنا_

ربما يودّالذين كفروالوكانوامسلمين

فعل ماضى ''كانوا'' كے قرينے سے ''يود'' سے مراد بطور مطلق دوست ركھنا نہيں بلكہ اس كا معنى تمنا اور ارزو ہے _اور ايت ميں ''ربما'' تكثير كے معنى ميں استعمال ہو اہے_

۲_عذاب يا موت كے روبرو ہونے پر كفار كا قران كے سامنے تسليم ہوجانے كى گہرى ارزو كرنا _

تلك آيات الكتب و قرآن مبين۰ربما يودّالذين كفروالوكانوامسلمين

احتمال ہے كہ ''كفروا'' كا متعلق پچھلى ايت ميں موجود كلمہ'' قران'' ہو اور قاعدے كے مطابق كفار كى تسليم ہونے كى ارزو كسى ايسے حادثے كے روبرو ہونے كے بعد ہى ہونى چاہيے كہ جس سے نجات ممكن نہيں اور وہ عذاب ہى ہے_

۳_كفار،بہت كم اسلام قبول كرنے كى ارزو كرتے ہيں _ربما يودّالذين كفروالوكانوامسلمين

۱۷۱

مندرجہ بالا مطلب اس بات پر مبنى ہے كہ جب حسب معمول ''ربما'' بمعنى قلت ہواور ''يود'' اپنے اصلى معنى (يحب) ميں استعمال ہوا ہو _ بعد والى ايت(ذرهم ياكلوا و يتمتعوا ...) بھى اسى مطلب كى تائيد كر رہى ہے_

۴_مسلمان اور خدا كے سامنے تسليم ہونے كاانجام بہت اچھا اور پسنديدہ ہے_ربما يودّالذين كفروالوكانوامسلمين

۵_فقط نزول عذاب اور موت كے روبرو ہونے سے پہلے اسلام لاناقابل قبول ہے_ربما يودّالذين كفروالوكانوامسلمين

۶_كفر اختيار كرنے كا نتيجہ ،فقط پشيمانى اور ندامت ہے_ربما يودّالذين كفروالوكانوامسلمين

۷_''عن عبداللّه بن عطاء المكى قال:سا لت ا با جعفر عليه‌السلام عن قول اللّه:''ربما يودّالذين كفروالوكانوامسلمين '' قال: ينادى مناد يوم القيامة يسمع الخلائق:انه لايدخل الجنة الّا مسلم ثمّ يودّ سائر الخلق ا نهم كانوا مسلمين ;(۱) عبد الله بن عطا مكى كا كہنا ہے كہ ميں نے امام باقر عليہ السلام سے خدا كے اس قول :''ربما يودّالذين كفروالوكانوامسلمين ''كے بارے ميں پوچھا تو امامعليه‌السلام نے فرمايا:قيامت كے دن ايك منادى اس طرح صدا دے گا كہ جسے سب لوگ سن رہے ہوں گے كہ'' يقيناً بہشت ميں سوائے مسلمان كے اور كوئي بھى داخل نہيں ہو گا _اس وقت سارے لوگ ارزو كريں گے كہ كاش ہم مسلمان ہوتے''_

۸_''عن جابر بن عبداللّه قال:قال رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان ناساً من ا متى يعذبون بذنوبهم فيكونون فى النار ماشاء اللّه ا ن يكونوا، ثم يعيرهم ا هل الشرك فيقولون:مانرى ماكنتم فيه من تصديقكم نفعكم فلايبقى موحّد الّا ا خرجه اللّه تعالى من النار، ثم قرا رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :''ربما يودّالذين كفروا لوكانوا مسلمين '' ;(۲) جابر بن عبد الله نے روايت كى ہے كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا: بتحقيق ميرى اُمت ميں سے كچھ لوگ اپنے گناہوں كى وجہ سے عذاب ميں مبتلا ہوں گے_پس وہ جب تك خدا چاہے گا اگ ميں رہيں گے_اس كے بعد اہل شرك اُنہيں سرزنش كريں گے اور كہيں گے:ہم نہيں ديكھتے كہ تمہارے ايمان نے تمہيں كوئي فائدہ پہنچايا ہو_ پس اسوقت كوئي بھى موحد انسان باقى نہيں رہے گا كہ جسے خدا نے جہنم كى اگ سے نكال نہ ليا ہو_اس كے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس ايت كى تلاوت فرمائي :''ربما يودّالذين كفروالوكانوامسلمين ''

____________________

۱)تفسير عياشى ،ج۲،ص۲۳۹،ح۱;نور الثقلين ،ج۳،ص۲،ح۳_

۲)الدرالمنثور ،ج۵،ص۶۲_

۱۷۲

ارزو:مسلمانى كى ارزو۱،۲،۷،۸

اسلام :قبول اسلام كى شرائط ۵

پشيمانى :پشيمانى كے عوامل ۶

تسليم :خدا كے سامنے تسليم ہونے كا انجام ۴

روايت :۷،۸

كفار:كفار اور اسلام ۱، ۳;كفار اور قران ۲;كفار عذاب كے وقت ۲ ;كفار كى اُخروى ارزو۷;كفار كى ارزو ۱، ۲، ۳;كفار كى خواہشات ۱; كفار موت كے وقت۲

كفر:كفر سے پشيمانى ۶;كفر كے اثرات ۶

مسلمان:مسلمانوں كا حسن انجام ۴;مسلمانوں كى اُخروى نجات۸

مشركين :قيامت كے دن مشركين كا طعن ۸

آیت ۳

( ذَرْهُمْ يَأْكُلُواْ وَيَتَمَتَّعُواْ وَيُلْهِهِمُ الأَمَلُ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ )

انھيں ان كے حال پر چھوڑ دوكھائيں پئيں اور مزے اڑائيں اور اميديں انھيں غفلت ميں ڈالے رہيں عنقريب انھيں سب كچھ معلوم ہوجائے گا_

۱_كفار مكہ كى طرف سے حق كوقبول نہ كرنے پر پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا فريضہ ہے كہ اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُن كو اپنے حال پر چھوڑ ديں اور اُن كے ساتھ بحث نہ كريں _ذرهم يا كلوا ويتمتّعوا

۲_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كفار كى ہدايت كے لئے بہت زيادہ كوشش كى ہے _ذرهم يا كلوا ويتمتّعوا

يہ كہ خدا وند عالم پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو حكم ديتا ہے كہ ''اُن كو اپنے حال پر چھوڑ دو''اس سے معلوم ہوتا ہے كہ انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن كو كفر سے نجات دلانے كے لئے بہت زيادہ كوشش كى تھي_

۱۷۳

۳_حق سے فرار كرنے اور ہدايت قبول نہ كرنے والوں كے لئے نہ دل جلانا چاہيے اورنہ اُن پرسرمايہ صرف كرنا چاہےيے_

ذرهم يا كلوا ويتمتّعوا

۴_صدر اسلام كے ناقابل ہدايت كفار كى سارى كوشش كھانے پينے اور مادى لذات سے بہرہ مندہونے ميں صرف ہوتى تھي_ذرهم يا كلوا ويتمتّعوا

۵_كھانا پينا ،لذت اُٹھانا ،دنيوى مال و منال اور لذات سے بہر ہ مند ہونا اور بيہودہ خواہشات ميں ڈوبے رہنا ہى كفار كا سب سے بڑا مقصد ہے_ذرهم يا كلوا ويتمتّعوا و يلههم الا مل

۶_مادى لذات اور خواہشات ميں ڈوبے رہنا انسان كو دينى حقائق كے سامنے تسليم ہونے سے روكتا ہے_

ربما يودّالذين كفروالوكانوامسلمينذرهم يا كلوا ويتمتّعوا

جملہ '' ذرھم يا كلوا ويتمتّعوا___ '' كہ جو كفار كے حالات بيان كر رہا ہے ہو سكتا ہے اس چيز كا جواب اور علت بيان كر رہا ہو كہ وہ اسلام كيوں نہيں لاتے اور اخر كا ر كيوں پشيمان ہو تے ہيں ؟

۷_دينى تعليمات كے سامنے تسليم ہونے كے بغير زندگى بيہودہ اور عمر كا زياں ہے_ذرهم ...و يلههم الا مل

''لھو'' لغت ميں ايسى چيز كو كہتے ہيں كہ جو انسان كو مشغول ركھتى ہے اور اُسے اپنے مقصد و مراد سے روكے ركھتى ہے _لہذا جو شخص اپنے ہدف ومقصد كو پورا نہ كر سكے گويا وہ اپنى عمر كو ضائع كر ديتا ہے_

۸_دنيوى فوائد اور لذات سے زيادہ سے زيادہ بہرہ مند ہونے كے لئے اپنى سب كوششيں صرف كرنا اور بيہودہ ارزوئوں سے دل لگانا ايك ناپسنديدہ اور قابل مذمت كام ہے_ذرهم يا كلوا ويتمتّعوا و يلههم

يہ ايت اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ ہدايت قبول نہ كرنے والے كفار كا سارا ہم و غم دنيوى لذات ہيں لہذا اُن كو اپنے حال پر چھوڑ دينا چاہيے _ اس سے اُن كے بارے ميں خدا وند عالم كى ناراضگى ظاہر ہوتى ہے_

۹_صدر اسلام كے ناقابل ہدايت كفار ،بيہودہ ارزوئوں ميں سر گرم رہتے تھے_ذرهم ...و يلههم الا مل

۱۰_بيہودہ ارزوئوں ميں سرگرم رہنا، حق كے سامنے تسليم ہونے اور ہدايت قبول كرنے كے مانع بنتا ہے_

ربما يودّالذين كفروالوكانوامسلمينذرهم ...و يلههم الا مل

۱۱_خداوند عالم كا صدر اسلام كے كفار كو مستقبل ميں اسلام كى حقانيت كے اشكار ہوجانے كى خبر دينا_

ربما يودّالذين كفروا ...فسوف يعلمون

۱۷۴

مندرجہ بالا مطلب اس بات پر مبنى ہے كہ جب''يعلمون '' كا مفعول اور علم كا متعلق اسلام كى حقانيت ہوكہ جس كا وہ انكار كرتے تھے_

۱۲_ناقابل ہدايت كفار كو خداوند متعال كى جانب سے بُرى عاقبت ميں گرفتار ہونے كى دھمكى ملنا_

ذرهم ...فسوف يعلمون

مندرجہ بالا مطلب اس احتمال پر مبنى ہے كہ جب ''يعلمون '' ميں مفعول بہ اور متعلق علم ،ان كے اعمال كى عاقبت اور انكا انجام ہو_

۱۳_دنيوى لذات ميں ڈوبے رہنے اور مسلسل كفر اختيار كيے ركھنے كا انجام پشيمانى ہے_

ربما يودّالذين كفروا لوكانوا مسلمينذرهم يا كلوا ...فسوف يعلمون

۱۴_دنيا طلب كفار كو بُرى عاقبت كى تہديد اور خبردار كيا جانا،كفر اور دنيا پرستى سے روكنے كى ايك روش ہے_

ربما يودّالذين كفروا ...ذرهم يا كلواو ...فسوف يعلمون

ارزو:باطل ارزوئوں كے اثرات ۱۰;ناپسنديدہ ارزو۸

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور كفار كى ہدايت ۲;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا ہدايت كرنا ۲;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى كوشش ۲;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى مسوئوليت ۱

اسلام :حقانيت اسلام كا ظاہر ہونا ۱۱

الله تعالى :الله تعالى كے انذار ۱۲

انذار :انذار كے اثرات ۱۴;برے انجام سے انذار ۱۲، ۱۴

پشيمانى :پشيمانى كے اسباب ۱۳

حق :حق قبول نہ كرنے كے موانع۶،۱۰;حق كو قبول نہ كرنے والوں سے بے مہر ہونا ۳

دنيا پرست لوگ:دنيا پرست لوگوں كا بُرا انجام ۱۴

دنيا پرستي:دنيا پرستى كا مقابلہ كرنے كا طريقہ ۱۴;دنيا پرستى كا ناپسنديدہ ہونا ۸;دنيا پرستى كے اثرات ۶

دين :دينى افات كى پہچان ۶;دين كى اہميت ۷

۱۷۵

زندگى :ناپسنديدہ زندگى ۷

دلچسپياں :مادى لذائد ميں دلچسپيوں كا انجام۱۳;مادى لذائد ميں دلچسپيوں كا ناپسنديدہ ہونا ۸;مادى لذائد ميں دلچسپيوں كے اسباب ۱۳

عمر :عمر كى تباہى كے موارد ۷

عمل :ناپسنديدہ عمل ۸

قران كريم :قران كريم كى پيشگوئي ۱۱

كفار :صدر اسلام كے كفار كى باطل ارزوئيں ۹;كفار كى باطل ارزوئيں ۵;صدر اسلام كے كفار كے مادى لذائذ۴;صدر اسلام كے كفار كى دنيا پرستى ۴;صدر اسلام كے كفار كى سر گرمى ۹;كفار اور اسلام كى حقانيت ۱۱;كفار كا انذار۱۲;كفار كا بُرا انجام ۱۲ ، ۱۴ ; صدر اسلام كے كفار كى كوشش ۴;كفار كى دنيا پرستى ۵; كفار كے مقاصد ۵;كفار كے مادى لذائذ۵

كفار مكہ :كفار مكہ كى حق ناپذيرى ۱;كفار مكہ كے ساتھ بحث و تكرار كى ممانعت ۱

كفر :كفر پر اصرار كا انجام ۱۳;كفر كا مقابلہ كرنے كا طريقہ ۱۴

ہدايت :ہدايت كے موانع ۱۰

آیت ۴

( وَمَا أَهْلَكْنَا مِن قَرْيَةٍ إِلاَّ وَلَهَا كِتَابٌ مَّعْلُومٌ )

اور ہم نے كسى قريہ كو ہلاك نہيں كيا مگر يہ كہ اس كے لئے ايك ميعاد۱_مقرر كردى تھى _

۱_ہر انسانى معاشرے كى ہلاكت و نابودى ايك معين اور لكھى ہوئي اجل اور قانون كے مطابق ہوتى ہے_

وما ا هلكنا من قرية الّا ولها كتاب معلوم

۲_معاشروں ميں اموات ، ہلاكتيں اور قدرتى تحولات خداوند متعال كے ہاتھ ميں ہيں اور اُسى كى تقدير كے مطابق انجام پاتے ہيں _

۱۷۶

وما ا هلكنا من قرية الّا ولها كتاب معلوم

۳_خداوند متعال كا مكہ كے ناقابل ہدايت كفار كو خبر دار كرنا كہ اُنہيں مہلت دينا اُن كى زندگى كو دوام دينے كے مترادف نہيں بلكہ وہ ہميشہ ہلاكت كے خطرے سے دوچار ہيں _ربما يودّالذين كفروالوكانوامسلمينذرهم ...فسوف يعلمونوما ا هلكنا من قرية الّا ولها كتاب معلوم

'' فسوف يعلمون '' جيسى تہديد كے بعد اس ايت كو ذكر كرنا شايد اس مقدرشبہہ كے جواب كى خاطر ہو كہ : كفار '' ذرھم يا كلوا ___ ''كے حكم كے ذريعے مہلت حاصل كر لينے كے بعد يہ خيال نہ كريں كہ اب اُن كى زندگى اسى طرح جارى رہے گي_

۴_خدا وند متعال كے عذاب اور وعيدكے بارے ميں پيش انے والے شبہات كو ختم كرنے اور اذہان كو روشن كرنے كے لئے كفار كے بارے ميں خدا كے عذاب اور وعيد كے پورا ہونے كے متعلق قاعدے و قانون كى وضاحت وتبيين كى جانا_وما ا هلكنا من قرية الّا ولها كتاب معلوم

'' فسوف يعلمون '' جيسى تہديد كے بعد اس ايت كو ذكر كرنا شايد اس مقدر اعتراض كا جواب دينا مقصود ہو كہ جس كے مطابق ہو سكتا ہے كفار كہيں :يہ عذاب فوراً كيوں نہيں اتااور ايسى وعيد اور دھمكى كب اور كيسے پورى ہو گي؟تو انہيں خدا جواب ديتا ہے:عذاب اور وعيد الہى ايك قانون و قاعدے كے مطابق انجام پاتى ہيں _

۵_تاريخى تحولات اور واقعات ميں خداوند متعال كى مشيت و ارادے كى دخالت _

وما ا هلكنا من قرية الّا ولها كتاب معلوم

۶_انسانى معاشروں سے متعلق اخبار و اطلاعات كا ايك معين كتاب و ذخيرہ اطلاعات پر مشتمل ہونا _

وما ا هلكنا من قرية الّا ولها كتاب معلوم

۷_ہر معاشرہ، اپنے افراد سے الگ شناخت ،حيات اورمعين قوانين كا حامل ہو تا ہے_

وما ا هلكنا من قرية الّا ولها كتاب معلوم

اجتماعى تحولات:اجتماعى تحولات كاسرچشمہ ۲

اجل :اجل مسمى ۱

الله تعالى :الله تعالى كى مثبت كا كردار ۵;الله تعالى كى مہلتيں ۳ ; الله تعالى كے وعيدوں كاتحت ضابطہ ہونا ۴;الله تعالى كے وعيد وں كايقينى ہونا ۴;الله تعالى كے اختصاصات۲;الله تعالى كے ارادے كااثر ۵ا ; الله تعالى كے انذار ۳;الله تعالى كے مقدرات ۲

۱۷۷

انذار :ہلاكت سے انذار ۳

تاريخ :تاريخى تحولات كا سر چشمہ ۵

حوادث:حوادث كا ذخيرہ اطلاعات۶

قران كريم :قران كريم كى تعليمات ۴

كفار مكہ :كفار مكہ كو مہلت كا فلسفہ ۳;كفار مكہ كے انذار ۳

مصائب :مصائب كا طبيعى سر چشمہ ۲

معاشرہ:معاشروں كا تحت ضابطہ ہونا ۷;معاشرے كا وجود۷;معاشرے كى اجل ۱;معاشرے كى حقيقت ۷; معاشرے كى حيات ۷;معاشروں كى ہلاكت كا تحت ضابطہ ہونا ۱

موت:موت كا سر چشمہ ۲

آیت ۵

( مَّا تَسْبِقُ مِنْ أُمَّةٍ أَجَلَهَا وَمَا يَسْتَأْخِرُونَ )

كوئي امت نہ اپنے وقت سے آگے بڑھ سكتى ہے اور نہ پيچھے ہٹ سكتى ہے _

۱_كوئي اُمت اپنى اجل (موت) كو مقرر شدہ وقت سے اگے نہيں لے جاسكتى _ما تسبق من ا مة ا جلها

۲_ہر اُمت خداوند متعال كى جانب سے ايك مقرر ، معين اورناقابل تغيير اجل ركھتى ہے_

ما تسبق من ا مة ا جلها

۳_كوئي بھى اُمت وقوم اپنى تعيين شدہ اجل كو ٹالنے كى طاقت نہيں ركھتي_ما تسبق من ا مة ا جلها وما يستئخرون

اجل :اجل مسمى ۱،۲،۳

۱۷۸

الله تعالى :الله تعالى كے مقدرات۲

اُمم :اُمم كا عاجز ہونا ۱،۳;اُمم كى اجل ۱،۲،۳

آیت ۶

( وَقَالُواْ يَا أَيُّهَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ إِنَّكَ لَمَجْنُونٌ )

اور ان لوگوں نے كہا كہ اے وہ شخص جس پر قرآن نازل ہواہے تو ديوانہ ہے _

۱_كفار مكہ كا پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے گفتگو كرتے وقت اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو بے ادبى اور استہزاء كے ساتھ مخاطب كرنا_

وقالوا ىاأيهاالذى نزّل عليه الذّكر

يہ كہ كفار پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو مخاطب كرتے وقت اسم ولقب سے ياد كرنے كے بجائے ،انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كواسم موصول اور صيغہ غائب سے مخاطب كرتے تھے نيز يہ كہ اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو ايسى نسبت ديتے كہ جس كو وہ خود بھى قبول نہيں كرتے تھے_ اس سے مندرجہ بالا نكتہ اخذ ہوتا ہے_

۲_''قران كا ذكر ہونا'' ايك ايسى صفت ہے كہ جس سے كفار مكہ اشنا تھے_وقالوا ىاأيهاالذى نزّل عليه الذّكر

۳_كفار مكہ، پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اپنے اوپر وحى كے نزول كا دعوى كرنے كى وجہ سے مجنون و ديوانہ جانتے تھے_

وقالوا ىاأيهاالذى نزّل عليه الذّكرانك لمجنون

تاريخى شواہد گواہ ہيں كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دعوى نبوت سے پہلے وہ لوگ اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايسى تہمت نہيں لگاتے تھے _پس يہ تہمت مذكورہ نكتے ہى كى وجہ سے تھي_

۴_كفار مكہ، پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر وحى كے نزول كو محض ايك ادعا سمجھتے تھے_وقالوا ىاأيهاالذى نزّل عليه الذّكر

نزول ذكر كا سبب ذكر نہ كرنے اور فعل ''نُزل'' كو مجہول لانے اور اُسے استہزاء كى صورت ميں بيان كرنے سے مذكورہ نكتہ اخذ ہوتا ہے_

۵_كفار مكہ كے نزديك انسان پر خدا وند عالم كى جانب سے وحى نازل ہونا ايك ناقابل قبول اور ديوانگى كى حد تك عقل سے دور چيزتھي_وقالوا ىا يهاالذى نزّل عليه الذّكرانك لمجنون

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

۱۷۹

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جنون كى تہمت۳;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر وحي۳،۴ ;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا استہزاء ۱

اسلام :تاريخ صدر اسلام ۱،۳،۴

ذكر :۲

قران كريم :قران كريم كے نام ۲

كفار مكہ:كفار مكہ اور انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۱،۳;كفار مكہ اور قران ۲; كفار مكہ اور نبوت بشر ۵;كفار مكہ اور وحى ۴;كفار مكہ كا طرز عمل۱،۳;كفار مكہ كى بے ادب گفتگو ۱; كفار مكہ كى تہمتيں ۳;كفار مكہ كى بصيرت ۴،۵;كفار مكہ كے استہزاء ۱

آیت ۷

( لَّوْ مَا تَأْتِينَا بِالْمَلائِكَةِ إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ )

اگر تو اپنے دعوى ميں سچاہے تو فرشتوں كو كيوں سامنے نہيں لاتاہے_

۱_ كفار مكہ، پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبو ت كى تصديق كر نے كے لئے فرشتے لانے كا تقاضا كرتے تھے_

قالوا ...لو ما تا تينا بالملئكة ان كنت من الصدقين

''لو ما''بھى ''ھلا ''و ''لولا '' كى طرح تحضيض كے لئے ہے_

۲_كفار مكہ ،نزول وحى كے دعوى ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى صداقت كى دليل كے لئے فرشتوں كے انے كوہى اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تصديق جانتے تھے_لو ما تا تينا بالملئكة ان كنت من الصدقين

۳_كفار مكہ ،پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے معجزہ كے طور پر ملائكہ لانے كا تقاضا كرتے تھے_

لو ما تا تينا بالملئكة ان كنت من الصدقين

كفار مكہ كى طرف سے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ذريعے ملائكہ لانے كا تقاضا ياتو نبوت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تصديق كے لئے تھا يا اُن كا فرمائشى معجزہ تھا ،مندرجہ بالا مطلب دوسرے احتمال كى بناء پر اخذ كيا گيا ہے_

۴_كفار مكہ، كا اعتقاد تھا كہ انسان پرنازل ہونے والاہر اسمانى پيغام كسى محسوس اسمانى شاہد كے ہمراہ ہونا چاہيے_

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

''المیزان'' میں مرحوم علامہ طباطبائی کا کلام الٰہی کے امتحانوں کے سلسلہ میں تربیتی عنوان سے قابل توجہ ہے: ''... اس وجہ سے انسانوں کے لئے عام الٰہی تربیت حُسن عاقبت اور سعادت اس دعوت دینے کے اعتبار سے امتحان ہے کیونکہ انسان کے لئے حالات کو مشخص و معین اور آشکار کرتی ہے کہ آیا یہ شخص کس عالم سے متعلق ہے: عالم ثواب وا جزا یا عالم عقاب و سزا۔ اس وجہ سے خداوند متعال اپنے تصرفات کو حوادث کی تشریع اور توجیہ کے عنوان سے بلائ، ابتلأ اور فتنہ نام دیتا ہے، مثال کے طور پر عام عنوان سے فرماتا ہے: (اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً )(١) ''بے شک ہم نے روئے زمین کی ہر چیز کو زمین کی زینت قرار دیا ہے تاکہ ان لوگوں کا امتحان لیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے '' یا فرماتا ہے: (وَنَبْلُوکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَةً )(٢) ''... اور ہم اچھائی اور برائی کے ذریعہ تم سب کو آزمائیں گے...'' یافرماتا ہے:(اَنَّمَا اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَة )(٣) '' تمہارے اموال اور اولاد فتنہ ہیں'' وغیرہ۔

یہ آیات جیسا کہ آپ ملاحظہ کررہے ہیں انسان سے متعلق ہر مصیبت وبلا کو ''الٰہی امتحان وآزمائش'' شمار کرتی ہیں تمام امور کے لئے جیسے اس کا وجود، اس کے اجزا اور اعضاء جیسے آنکھ، کان یا اس کے وجود سے خارج چیزیں جو اُس سے مربوط ہیںجیسے اولاد بیوی، رشتہ دار، احباب، مال، جاہ و مرتبہ مقام اور وہ تمام امور کہ جن سے وہ کسی قسم کا فائدہ حاصل کرتاہے، اسی طرح ان کے مقابل امور جیسے موت اور تمام مصیبتیں ۔ ان آیات میں افراد کے اعتبار سے بھی ایک عمومیت پائی جاتی ہے یعنی مومن وکافر، نیکوکار اور گناہگار، انبیاء اور ان سے کم درجہ والے سارے افرادمعرض بلا و امتحان میں ہیں، لہٰذا یہ اﷲ کی ایک جاری وساری سنت ہے کہ کوئی اس سے الگ نہیں ہوسکتا''۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔکہف آیت ٧۔

٢۔ سورۂ انبیاء آیت ٣٥۔

٣۔سورۂ تغابن آیت ١٥ ۔

٤۔ المیزان ج٤ ص٣٦۔

۲۲۱

یہ بات کہ امتحان اور ابتلاء جملہ امور میں تمام افراد کے لئیاﷲ کی بلا استثناء ایک جاری سنت ہے ، ابتلا کے تربیتی روش سے منافات نہیں رکھتی، کیونکہ اس طرح کے امور کے ساتھ ہمارے طرز عمل کو ایک تربیتی طرز کے عنوان سے مانا جاسکتا ہے یعنی مشکلات میں صبر وتحمل اور نعمات میں شکر کہ جس کی بازگشت ہمارے طرز عمل ہی کی جانب ہے، خود اخلاقی تربیت کے عوامل میں محسوب ہوسکتا ہے: اور ہم قطعی طور پر تم کو کچھ چیزوں جیسے خوف،بھوک، اموال، نفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور ان صابروں کو بشارت دیدو، (وہی لوگ) کہ جب ان پر مصیبت پڑتی ہے، کہتے ہیں: ''ہم خدا ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جائیں گے''(١)

اس کے علاوہ اگرچہ آیات میں خیر وشر، نعمت ونقمت، سختی اور سہولت سب کو امتحان اور ابتلا کے مصادیق میں شمار کیا گیا ہے حتی کہ بعض روایات میں شکر و کشادگی کی منزل میں طرز عمل کو صبر وناگواری کے وقت سے زیادہ سخت جانا گیا ہے، لیکن جو چیز امتحان کے موقع پر افراد کی توجہ کا زیادہ تر مرکز ہوتی ہے وہ ناگوار ، رنج آمیز اور اندوہگین حوادث وواقعات کا مقابلہ کرنا ہے، چنانچہ مذکورہ آیت میں تصریح کی گئی ہے کہ خوفناک اور ہولناک امور، بھوک، دلبندوں اور عزیزوں کے فقدان، اموال اور سرمایہ حیات کی نسبت آفات وحوادث وغیرہ سے (کہ جنھیں اصطلاح میں ''مصیبت'' کہا جاتا ہے) تمھیں آزمائیں گے، ان امور کا مقابلہ کرنے کے لئے آمادگی اور اُن سے ہمارا طرز مقابلہ ان میدان کو ایک تربیتی اور اصلاحی مدرسہ بناسکتا ہے۔

ابتلاء اور سختیوں سے مقابلہ کے تربیتی علائم روایات میں یوں بیان ہوئیہیں: گناہ سے پاک ہونا، باطنی خاکساری وتذلل اور خارجی سرافرازی وسربلندی، کبرونخوت کا زائل ہونا، درجہ بلند ہونا، شدائد ومشکلات کے سامنے ثابت قدمی، آخرت اور خدا کی ملاقات کا اشتیاق۔

''...یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ خدا نے جو کچھ تمھارے دلوں میں ہے (عمل میں) آزمائش کرے اور جوکچھ تمہارے ضمیر کی حقیقت ہے اُسے آشکار کردے اور خدا سینوں کے اسرار سے آگاہ ہے''۔(٢)

____________________

١۔ سورہ ٔبقرہ آیت ١٥٥۔١٥٦۔

٢۔ (وَلِیَبْتَلِیَ اللّٰهُ مَا فِی صُدُوْرِکُمْ وَلِیُمَحِّصَ مَا فِی قُلُوبِکُم، وَاللّٰهُ عَلِیْم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ )(سورہ ٔآل عمران آیت ١٥٤)۔

۲۲۲

حضرت امام جعفر صادق ـنے بھی فرمایا: '' وہ لوگ آزمائش کی بھٹی میں آزمائے جائیں گے، جس طرح سونے کو بھٹی میں آزمایا جاتا ہے اور خالص کئے جائیںگے جس طرح سونا کھرا اور خالص کیا جاتا ہے''۔(١)

سید قطب کی تحریر کے مطابق: تمام وسائل پر حوادث کی ایک تربیتی وسیلہ کے عنوان سے فضیلت وبرتری یہ ہے کہ ایسی خاص حالت روح میں پیدا کرتے ہیں کہ گویا اس کو پگھلادیتے ہیں۔ حادثہ روح کو کامل طور سے جھنجھوڑدیتا ہے وردّ عمل (تاثیر وتاثر) ایک حرارت اس کے باطن میں ایجاد کردیتا ہے کہ کبھی نرم کرنے کے لئے یانرم کرنے کی حد تک پہنچنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ یہ حالت روح میں نہ ہمیشہ پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی نفس کے لئے آسان ہے کہ سکون واطمینان اور امن وامان یا راحت طلبی کی حالت میں اس تک پہنچ جائے۔

''... ایک مثل لوگ کہتے ہیں: جب تک لوہا گرم ہے کوٹ لو، () کیونکہ لوہے کی گرمی کے وقت اُس پر ہتھوڑا مارنا آسان ہے اور اسے جس شکل میں چاہے بدل سکتے ہیں... اس وجہ سے سختیوں اور حوادث سے استفادہ کرنا تربیت کے اہم مطالب میں سے ہے، کیونکہ نفس کے پگھلنے اور گداز ہونے کی صورت میں مربی تربیت دئے جانے والے کو ارشاد وتہذیب کے جس رنگ میں چاہے رنگ سکتا ہے وہ اس طرح کہ کبھی اس کا اثرزائل نہیں ہو گا یا کم ازکم جلدی زائل نہیں ہو گا''۔(٢)

اسی طرح سختیو ں سے استفادہ اور عیش وراحت سے دوری کو اس شیوہ کا مکمِّل (پوراکرنے والا) جانا جا سکتا ہے، سختیاں انسان کے گوہروجودکو جلابخشتی ہیں، اور اس میں نکھاراورچمک پیدا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ سختی، مقاومت کہ جوحادثوں اور سختیوں کی طوفان میں ہمیں حاصل ہو تی ہے، انسان کو نادرست اخلاقی میلانات اور رجحانات کے مقابل محفوظ رکھتی ہے اس وجہ سے روایات میں تاکیدکی گئی ہے کہ بچہ تھوڑا سا کو مشکلات اور سختیوں سے دوچارکرو۔

حضرت امام موسیٰ کاظم ـ فرماتے ہیں:

''بہترہے بچہ عہدطفولیت میںزندگی کی ناگزیرسختیوں اور مشکلوں کا سامنا کرے جو کہ حیات کا تاوان ہے تاکہ جوانی اوربڑھاپے میں بردباراورصابرہو'' ۔(٣)

____________________

١۔''یفتنون کما یفتن الذهب، یخلصون کما یخلص الذهب'' ۔(کافی ج١ص ٣٧٠۔)

٢۔ روش تربیتی اسلام، ص٢٨٧،٢٨٨۔

٣۔ وسائل الشیقہ، ج٥، ص١٢٦۔

۲۲۳

حضرت علی ـ فرماتے ہیں:

''جنگل، ہوا اور طوفان میں پرورش پانے والے درخت باغبا ن کے پر و ر دہ اور تروتازہ درختوں سے بہتر ہوتے ہیں''۔(١)

اسلام میں جہاد اسی زاویہ سے قابل تو جہ و تحقیق ہے دین کے دشمنوں سے جہاد اور مقابلہ خواہ صدر اسلام میں ہو یا بعد کے زمانوں میں ( بالخصوص آخری دفاع مقدس کے دوران) ایک تربیتی اور اخلاقی مدرسہ رہا ہے ، اور اخلاق کی بلندیوں پر فائز انسان اُس مدرسہ سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں:

''ہم یقینا تمہیں آزمائیں گے تاکہ تم میں سے مجاہدین اور صابرین کو جان لیں اور (اس طرح) تمھارے حالات کو باقاعدہ جانچ لیں ''۔(٢)

ڈاکٹر'' ویکٹور فرانکل ''سویڈن کا ماہر نفسیات ہے اور ہیومنسٹ معالجین میں سے محسوب ہوتا ہے اور خود بھی ایک طولانی مدت تک جرمنی کے نازیوں چھائونی میں دوسری عالمی جنگ میں اسیر رہا ہے، اس نے اپنی آنکھوں سے جو انسان سوزی کی بھٹیاں دیکھیں اور بھوک، سردی، بیماری اور سخت ترین رنج والم اٹھائے لیکن اس کی جان بچ گئی۔ چھائونی سے آزاد ہونے کے بعد اُس نے اپنے معنوی علاج کے مکتب ( Logothrapy )کی بنیاد ان تین راہوں میں سے ایک راہ کے کشف وتفہیم پر رکھی:

١: ۔اچھے امور کا انجام دینا۔

٢: ۔تجربۂ اعلیٰ جیسے عشق۔

٣رنج والم برداشت کرنا۔

وہ تیسری راہ کی وضاحت میں کہتا ہے: رنج والم کابرداشت کرنا انسان کی بہترین وجودی جلوہ گاہ ہے اور جو بات اہم ہے وہ انسان کا رنج والم کے ساتھ فکر اور سلوک کا انداز ہے۔ ہدف زندگی رنج والم سے فرار کرنا نہیں ہے، بلکہ زندگی کو بامعنی بنانا ہے کہ اُسے واقعی مفہوم عطا کرے۔ ہر چیز کو ایک انسان سے لیاجاسکتا ہے مگر انسان کی آخری آزادی کو اس کی رفتار کے انتخاب میں ڈاسٹایوفسکی کے بقول: میں صرف ایک چیز سے ڈرتاہوں اور وہ یہ کہ اپنے رنج والم کی شایستگی اور لیاقت نہ رکھوں۔(٣)

____________________

١۔ نہج البلاغہ، نامہ، ٤٥۔

٢۔ سورہ ٔمحمد آیت٣١۔

٣۔ دیکٹور فرانکل: انسان درجستوی معنا۔

۲۲۴

د ۔معاشرت و مجالست:

اخلاقی ملکات کے رسوخ کے لئے ایک دوسرا عملی شیوہ صالح اور اخلاقی فضائل کے حامل افراد کے ساتھ زندگی گذارنا اور ناپاک نیز اخلاقی رذائل میں مبتلا افراد کی مجالست وہمنشینی سے اجتناب کرنا ہے، نفس شناسی کے دلائل بہت سی جہتوں سے قابل توجہ ہیں کہ جو تفصیل اور تکرار کے محتاج نہیں ہیں، منجملہ ان کے تقلید اور دوسروں کے اعمال کا مشاہدہ (باندوار کا نظریہ)،قوت بخش چیزوں کے وجود کے ساتھ ماحول سازی اور تداعی (موافقت وہماہنگی) کی ایجاد (ا سکینر کا فعال ماحول سازی کا نظریہ ، یعنی مثال کے طور پر ایک اچھے اور صالح گروہ میں اگر ایک اچھا باعمل انسان سے صادر ہو تو دیگر تمام افراد کے ذریعہ اس کی تقویت کی جائے)۔ (نظریہ تسہیل اجتماعی )(١) ہے (دوسروں کا وجود حتی غیر فعال تماشائیوں کا وجود انسان کی فعّالیت کو قوت بخشتا ہے (کیونکہ انسان کے مقصد کو بلندی عطا کرتا ہے) ۔

آیات وروایات میں نیکو کاروں کی معاشرت اخلاقی تربیت کے ایک شیوہ کے عنوان سے مورد تاکید واقع ہوئی ہے اور بزرگوں نے بھی اس سلسلہ میں مستقل کتابیں تالیف کی ہیں۔

قال الحواریون لعیسیٰ ـ: یاروح اللّٰہ مَن نجالسُ اذاً؟ قال: من یذکرکم اللّٰہ رؤیتہ ویزید فی عملکم منطقہ ویرغبکم فی الآخرة عملہ۔(٢) حواریوں نے حضرت عیسیٰ ـ سے پوچھا:

اے روح اﷲ! اس وقت ہم کس کے ساتھ ہمنشینی رکھیں؟ انھوں نے فرمایا: جس کا دیدار تمھیں اﷲ کی یاد دلائے، جس کی بات تمھارے علم میں اضافہ کرے اور جس کا عمل تمھارے اندر آخرت کے متعلق رغبت پیدا کرے۔

یا ابن مسعود، فلیکن جلساؤک الابرار واخوانک الاتقیاء والزهاد لانّ اللّٰه تعالیٰ قال فی کتابه : (الاخلاء یومئذ بعضهم لبعض عدو الّا المتقین(٣) اے ابن مسعود! تمھارے ہمنشین نیک لوگ ہونے چاہئیں اور تمھارے بھائی (دوست) متیقن وزاہدین ہونے چاہئیں اس لئے کہ تم خدائے تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے: ''اس دن صاحبان تقویٰ کے علاوہ تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیںگے'' ۔

____________________

١۔زمینہ روانشناسی ج٢ ص٢ ٣٧۔

٢۔ بحار الانوار ج٧٧ ص١٤٧۔

٣۔ بحار الانوار ج٧٧ ص١٠٠۔

۲۲۵

امام علی ـ:جالس العلماء تزدد حلماً ۔(١) علمائے کی ہمنشینی اختیار کرو کہ ان کی ہمنشینی حلم میں اضافہ کرتی ہے۔

امام حسین ـ:مجالس الصالحین داعیة الی الصلاح ۔(٢) صالحین کی مجالس (نشست) صلاح ونیکی کی طرف دعوت دیتی ہے۔

امام علی ـ:جالس العلماء یزددعلمک ویحسن ادبک وتزکوا نفسک ۔(٣) علماء کی ہمنشینی اختیار کرو کہ اس سے تمھارے علم میں اضافہ ہوگا، تمھارا ادب اچھا ہوگا اور تمھارا نفس پاک ہوگا۔

امام علی ـ:علیک باخوان الصدق فاکثر من اکتسابهم فانّهم عدة عند الرخاء وجُنَّة عند البلائ ۔(٤) تم پر سچے (نیک) دوستوںکی ہمنشینی لازم ہے پس ان سے زیادہ زیادہ سے زیادہ کسب فیض کرو اس لئے کہ وہ آسائش کے وقت وسیلۂ دفاع ہیں اور مصیبت کے وقت سپر ہیں۔

امام علی ـ:جانبوا الاشر وجالسوا الاخیار ۔(٥) بروں سے پرہیز کرو اور نیکوں کی ہمنشینی اختیار کرو۔

حضرت امام محمد باقرـ:لاتقارن ولاتواخ اربعة: الاحمق والبخیل والجبان والکذاب ۔(٦) چار افراد سے ہمنشینی اور دوستی اختیار نہ کرو: احمق، کنجوس، ڈرپوک اور جھوٹے سے۔

امام علی ـ:مجالسة اهل الهویٰ منساة للایمان ۔(٧) خواہش پرست کی ہمنشینی ایمان کو بھلادیتی ہے۔

____________________

١۔ غرر الحکم فصل ٣ص ٤٧۔

٢۔ بحار الانوار ج٧٨ ص١٤١۔

٣۔ غرر الحکم فصل ١ص ٤٣٠۔

٤۔ بحار الانوار ج٧٤ ص١٨٧۔

٥۔ غرر الحکم

٦۔ بحار الانوار ج٧٤ ص١٨٧۔

٧۔ نہج البلاغہ ج٨٦۔

۲۲۶

۴: ۔ تشویق اور تنبیہ کا طریقہ

''تشویق ''لغت میں آرزومند کرنے، شوق دلانے اور راغب کرنے کے معنی میں ہے۔(فرہنگ معین)

یہاں پر ''تشویق'' سے مراد انسان کی درخواست سے متعلق اور مطلوب امور سے عمل انجام دینے کے بعد عمل کے اضافہ یا اس کی تثبیت کے لئے استفادہ کرناہے۔

''تنبیہ''بھی لغت میں آگاہ کرنے، بیدار کرنے، تادیب اورسزادینے کے معنی میں ہے (فرہنگ معین)۔ یہاں پر تنبیہ سے مراد انسان کے لئے تکلیف دہ اسباب ووسائل سے عمل انجام دینے کے بعد عمل کو دور یا کم کرنے کے لئے استفادہ کرناہے۔ اس وجہ سے تشویق یا تنبییہ کو خود انسان یا دوسروں کے ذریعہ عملکو کنٹرول کرنے کا ایک سسٹم جاننا چاہئے کہ پسندیدہ یا ناپسندیدہ عمل کے بعد اس عمل کی زیادتی یا کمی کے لئے ان چیزوں کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔

تشویق یا تنبیہ کا نفسیاتی مبنیٰ، فعال ماحول سازی کے نظریہ کے مطابق، درج ذیل آزمائشوں پر استوار ہے:

١ ۔ہر جواب جو ایک قوت بخش محرک کے نتیجہ میں حاصل ہو، اس کی تکرار کی جاتی ہے ۔

٢ ۔قوت بخش محرک ایک ایسی چیز ہے کہ جواب ملنے کے احتمال کو بڑھاتا ہے۔

٣۔ان قوت بخش چیزوں جو ذاتی طور پر تقویت کرنے کی خاصیت کے حامل ہیں،اولین یا غیر شرطی قوت بخش کہتے ہیں، اوّلین مثبت قوت بخش جاندار کی جسمانی قوت ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں جیسے: پانی، غذا، ہوا، وغیرہ۔ اوّلین منفی قوت بخش چیزیں ذاتی طور پر تکلیف دہ خاصیت رکھتی ہیں جیسے: مارپیٹ، گالم گلوج ، زیادہ حرارت اور زیادہ نور وغیرہ۔

٤ ۔ثانوی یاشرطی قوت بخش چیزیںوہ ہیں جو کلاسیک ماحول سازی (اوّلین بخش چیزوں کے ساتھ ہمراہی چیزوں کے ساتھ ہمراہی اور تداعی ) کے اصول کے مطابق تقویت کرنے کی خاصیت رکھتی ہیں جیسے: روپیہ، انعام، نمبر وغیرہ ۔

٥ ۔اگر کوئی رفتار کسی چیز کی تقویت سے بڑھ جائے اور اسے ایک مدت تک تقویت نہ کریں، تو وہ تدریجاً موقوف ہوجائے گی کہ اُسے ''خاموشی''بھی کہتے ہیں۔

٦ ۔تنبیہ، ایک نادرست اورنامطلوب رفتار کے دور کرنے کے لئیتکلیف دہ محرک وسبب کے واردکرنے کے معنی میں ہے۔

۲۲۷

٧ ۔ کبھی کبھی تقویت مسلسل تقویت سے زیادہ اثر رکھتی ہے، لہٰذا اگر مربی (تربیت دینے والا) ہر بار مطلوب اور پسندیدہ رفتار کے ظاہر ہونے کے بعد جزاوسزا دے، تو ناخواستہ طور پر اس کے وقوع کا احتمال کم ہوتا جائے گا، لیکن اگر مربی کبھی کبھی چند بار مطلوب رفتار انجام دینے کے بعد جزا دے، تو اس کے توقعکا احتمال زیادہ ہوجائے گا زیادہ موثر یہ ہے کہ تربیت کی ابتدا میں مسلسل جزا ہو اور رضایت بخش سطح تک پہنچنے کے بعد نوبت وار کبھی کبھی ہوجائے ۔

٨۔ آغاز میں اجتماعی قوت بخش (ستائش، تائید اور مسکراہٹ وغیرہ) محسوس طور پر قوت بخش چیزوں کے ساتھ استعمال کی جائے اور اس کے بعد محسوس قوت بخش چیزیں ترک کردی جائیں ، آیات وروایات میں تشویق وتنبیہ کے تربیتی کردار پر تاکید کی گئی ہے۔

حضرت امیر المومنین علی ـ مالک اشتر کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''تمہارے نزدیک نیکو کار اور بدکاریکساں نہ ہوں، کیونکہ یہ امر (یکساں قرار دینا) نیکو کاروں کے نیکی ترک کرنے اور نااہلوں کی بدکاری میں اضافہ کا باعث ہوگا، لہٰذا ادب کی رعایت کے لئے ان میں سے ہر ایک کے ساتھ حالات کے مطابق برتائو رکھو''۔(١)

''نیکوکاروں کی اصلاح ان کا ادب و احترام کرنے سے ہوتی ہے اور بدکاروں کی اصلاح ان کی تادیب کرنے (سزا دینے)سے''۔(٢)

''جوکچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے وہ سب خدا کے لئے ہے، تاکہ جن لوگوں نے برا کیا ہے وہ ان کے کرتوت کی انھیں سزا دے اور جن لوگوں نے احسان ونیکی ہے انھیں اچھا بدلہ دے ''۔(٣)

''خداوند سبحان نے جزا اپنی اطاعت پراور سزا اپنی معصیت پر قرار دی ہے، تاکہ اپنے بندوں کو اپنے عذاب سے باز رکھے اور بہشت کی طرف روانہ کرے''۔(٤)

____________________

١۔ بحار الانوار ج٧٧ ص٤٦۔

٢۔''استطلاح الاخیار باکرامهم والاشراربتأدیبهم'' (بحار الانوار ج٧٨ ص٢٤٥)۔

٣۔ سورہ ٔنجم آیت ٣١۔

٤۔ نہج البلاغہ حکمت ٣٦٨۔

۲۲۸

ادیان الٰہی اور اسلام میں قانون عذاب وثواب کو دو اعتبارسے دیکھا جاسکتا ہے

: اول

یہ کہ ان کا اعلان کرنا انذار وتبشیر کا پہلو رکھتا ہے ، دوسرے یہ کہ ثواب وعقاب کی واقعیت عینی ہے کہ اُن میں سے بعض دنیا میں (جیسے سکون واطمینان، راحت وچین ، زندگی کی آسائش اور عیش وعشرت کو احساس ) اور درک کرتا ہے، اس لحاظ سے تشویق وتنبیہ اُن دونوں کی تطبیق واقع سے دور نہیں ہے۔ اُس کا اخروی حصہ جیسے حور وقصر ومحلات وغیرہ بھی ایمانی بصیرت (انسان کا دوسرے عالم اور وعدہ الٰہی کے قطعی ہونے اور اس بات پر اعتقاد رکھنا کہ انسان اپنے اعمال سے اس ثواب یاعقاب کو اس وقت بھی عینی تجسم بخشتا ہے ) کے اقتضا کے مطابق حاضر وموجود ہیں اور انھیں بھی تنبیہ وتشویق کے مصادیق میں شمار کرسکتے ہیں۔ اس بناپر بہشت ودوزخ اور ا ﷲ کے وعدہ و وعید سے متعلق تمام آیات ایک طرح بندوں کی تشویق اورتنبیہ کے لئے ہیں تاکہ وہ اپنی عادت اور روش کو بدل ڈالیں اور فلاح وکامیابی اور فضائل اخلاقی کے حامل ہونے کی راہ میں گامزن ہوجائیں۔ لیکن ان لوگوں کے لئے جن کا عقیدہ وایمان کمزور ہے، ان کے لئے وہ آیات انذار وتبشیر ہی کی حد میں ہوں گی ۔

دوسرانکتہ

جس کی ہمیں تاکید کرنی ہے یہ ہے کہ یہاں پر تشویق، ترغیب اور تحریض (ابھارنے) کے علاوہ ایک چیز ہے، تشویق عمل انجام دینے کے بعد کی چیز ہے، لیکن ترغیب وتحریض قبل ازعمل سے مربوط ہیں۔ تشویق وتنبیہ کے وہ طریقے جن میں ایک طرح منطقی ترتیب کا لحاظ کیا جاسکتا ہے، درج ذیل ہیں:

الف ۔ عاطفی توجہ:

محبت آمیز نگاہ ، مسکرانا، اور ہر قسم کی تائید ، مہر ومحبتاور طلف کا احساس تربیت پانے والے کو عزت نفس کے عمیق احساس میں مبتلا کردیتاہے، کیونکہ ہر انسان حُبّ ذات کے زیر اثر غیروں کی محبت اورتوجہ حاصل کرنے کا محتاج ہوتا ہے۔(١) درج ذیل آیات اس سلسلہ میں قابل توجہ ہیں: (وَاخْفِضْ جِنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ المُؤمِنِیْنَ )(٢) ''اور جو صاحبان ایمان آپ کی اتباع کرلیں ان کے لئے اپنے شانوں کو جھکادیجئے''۔

____________________

١۔اس بات کی مزید توضیح ''تکریم شخصیت کی روش ''کی بحث میں گذر چکی ہے۔

٢۔ سورہ ٔشعراء آیت٢١٥۔

۲۲۹

(وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰواةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهُ وَلَاتَعْدُ عَیْنَاکَ عَنْهُمْ )(١)

''اور اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ صبر آمادہ کرو جو صبح وشام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اسی کی مرضی کے طلبگار ہیں اور خبردار تمھاری نگاہیں ان کی طرف سے نہ پھرجائیں...''۔

ان آیات میں خداوند متعال اپنے مہربان حبیب سے چاہتا ہے کہ مومنین کے لئے لطف ومرحمت کے بازو جھکادیں، ان کی طرف سے چشم محبت نہ ہٹائیں اوران کے ساتھ ہمراہی اور صبر وشکیبائی کریں دوسری آیت میں اپنے رسول کی بلند ترین ان صفات کے حامل ہونے اور مومنین کے ساتھ ایسی معاشرت رکھنے پر معاملات کرنے کی توصیف کرتا اورفخرو مباہات کرتا ہے:

''یقیناً تمھارے پاس تمھیں میں سے وہ پیغمبر آیا ہے کہ تمہاری ہر مصیبت پراس کے لئے بہت ناگوار ہے وہ تمہاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مومنین پر دلسوز ومہربان ہے''۔(٢)

جی ہاں، وہ روح پرورنگاہ جو انسانوں پر عشق ومحبت کے ساتھ پڑتی ہے، انسان کو متحرک کرنے کے لئے کافی ہے اور بلال وسلمان کی صف میں بٹھادیتی ہے۔

ب ۔ زبانی تشویق:

تعریف وتمجید ، دعا، شکریہ ادا کرنا اور زبانی قدردانی بھی اُن عام وسائل اور اسباب میں سے ہیں کہ بلند مقاصد اور گرانمایہ اخلاقی اعمال تک رسائی کے لئے اُن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے خداوند عالم اپنے پیغمبر سے چاہتا ہے کہ مومنین سے زکات لینے کے بعد ان کے لئے دعا کریں۔(٣)

حضرت امیر المومنین علی ـ نے بھی مالک اشتر سے خطاب کرتے ہوئے انھیں اس نکتہ کی یاد آوری کی ہے:

... ان کی پے درپے تشویق کرو اور جو انھوں نے اہم کام انجام دئے ہیں انھیں شمار کرو (اہمیت دو) کیونکہ ان کے نیک کاموں کی یاد آوری ان کے دلیروں کو زیادہ سے زیادہ حرکت کرنے پر ابھارتی ہے، اور وہ لوگ جو کام میں سستی کرتے ہیں انھیں کام کرنے کا شوق پیدا ہوگا، انشاء اﷲ ۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔکہف آیت٢٨۔ ٢۔ سورہ ٔتوبہآیت ١٢٨۔٣۔ سورہ ٔتوبہ آیت ١٠٣۔ ٤۔ نہج البلا غہ نامہ ٥٣۔

۲۳۰

زبانی تشویق میں اہم نکتہ یہ ہے کہ اور موقع ومحل سے اس حد تک استفادہ ہو اور افراط وتفریط یا چاپلوسی کی حالت پیدا نہ ہو امام علی ـ نے فرمایا ہے:

جب تم تعریف وثنا کر و تو اختصار پر اکتفاکرو۔(١)

سب سے زیادہ بے عقلی اور حماقت، تعریف وستائش یا مذمت میں زیادتی کرناہے۔(٢)

''استحقاق سے زیادہ تعریف کرناچاپلوسی ہے اور اس (استحقاق) سے کم تعریف کرنا حسد یا عاجزی کی علامت ہے''۔(٣)

بہت سے افراد اپنی تعریف وتمجید ہونے سے مغرور ہوجاتے ہیں۔(٤)

ج ۔ عملی تشویق:

انعام، ہدیہ، تحفہ وغیرہ دینا، نمبر، تنخواہ یا حقوق یا مزدوری میں اضافہ کرنا، سیاحت اور تفریح کے لئے لے جانا، کھیلنے کی یا دوستوں کے ہمراہ باہر جانے کی اجازت دیناوغیرہ ، یہ سب عملی تشویق شمار ہوتی ہے کہ موقعیت کے اعتبار سے ان کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔

پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی سیرت میں ایسے متعددمقامات پائے جاتے ہیں کہ کسی ایک آدمی کے نیک عمل کا مشاہدہ کرنے کے بعد اُسے صلہ اورہدیہ دیتے ہیں حتی کبھی اپنا لباس بھی دیدیتے تھے، جیسے کمیت بن زیاداسدی کی داستان کہ حضرت امام زین العابدین ـ کی خدمت میں پہنچے اور کہا: میں نے آپ کی مدح وثنا میں کچھ اشعار کہے ہیں اور چاہتا ہوں کہ انھیں پیغمبر سے تقرب کا وسیلہ قراردوں۔پھر اپنا معردف قصیدہ آخرتک پڑھا، جب قصیدہ تمام ہو گیا، امام ـ نے فرمایا: ''ہم تمہاری جزا نہیں دے سکتے، امید ہے کہ خداوندعالم تمہیں جزادے۔''پھر اس کے بعد اپنے بعض لباس انھیں دیدیئے اوراُن کے حق میں اس طرح دعا کی: ''خدا یا! کمیت نے تیرے پیغمبر کے خاندان کی نسبت، اس حالت میں نیک فریضہ اداکیا کہ اکثرلوگوں نے اس کام سے نجل کیا اور شانہ خالی کیا ہے جوحق دوسروں نے پوشیدہ رکھا تھا اس نے آشکار کردیا۔ خدایا! اسے سعادت مندزندگی عطا کر اور اُسے شہادت نصیب کر اور اُسے نیک جزا دے کہ ہم اُس کی جزا نہیں دے سکتے جزا ور ناتواں ہیں۔

____________________

١۔ ''اذا مدحت فاختصر ''(غرر الحکم، فصل ٤ص٤٦٦)۔٢۔ ''اکبر الحمق الاغراق فی المدح والذم '' (غرر الحکم، فصل ٧ص٧٧)۔٣۔''الثناء بأکثر من الاستحقاق ملق والتقصیر عن الاستحقاق عیّ أوحسد'' (بحارالانوار ج٧٣ص ٢٩٥)۔٤۔''رُبّ مفتون بحسن القول فیه'' (بحارالانوار ج٧٣ص ٢٩٥)۔

۲۳۱

کمیت نے بعد میں کہا: ''میں ہمیشہ ان دعائوں کی برکت سے بہرہ مند رہا ہوں'' حضرت نے اس طریقہ سے کمیت کی روح شجاعت اور حق گوئی کی تشویق اور تائیدکی۔ اسی کے مشابہ داستان حضرت امام علی رضا ـ کے بارے میں بھی دعبل خز اعی کی نسبت ہے جب وہ قصیدہ پڑھ چکے تو حضرت نے وہ دس ہزار درہم کہ جن پر آپ کا نام کندہ تھا اُنھیں عطا کیا اور دعبل نے ہر درہم کو اپنی قوم کے درمیان (دس) درہم میں فروخت کیا۔(١)

درج ذیل نکات کی رعایت تشویق کی تاثیرمیں اضافہ کرتی ہے:

١۔تشویق ابھارنے اور قوت بخشنے کا ذریعہ ہے لہٰذا خودوہی ھدف نہیں بن جانا چاہئیکہ اور تربیت پانے والے کے تمام افکار داذہان کو اپنے ہی لئے سرگرم رکھے۔ تشویق کبھی کبھی کرنا، اس کا فیزیکی سطح سے اجتماعی ومعنوی بلندی کی طرف لے جانااور تشویق کا مستحق ہونا (رشوت کی حالت کا نہ رکھنا ) ایک حدتک مذکورہ اشکال واعتراض کو برطرف کردیتاہے۔

٢۔ تربیت پانے والے کو تشویق کی علت مکمل طور پرواضح اور معلوم ہونی چاہئے۔

٣۔تشویق موقع ومحل کے اعتبار سے ہو تاکہ کار آمد اور موثر ثابت ہو۔

٤۔تشویق کرتے وقت اُس کا کسی دوسرے سے مقائسہ اور موازنہ نہیں کرنا چاہئے ؛کیونکہ اُس پر بُرااثرپڑے گا۔

٥۔ مجمع میں تشویق وتحسین کرنا زیادہ اثر رکھتا ہے کیونکہ دوسروں کو بھی آمادہ کرتا ہے۔

د۔ جزاسے محرومیت اور نیکو کار کو جزادینا:

اس مرحلہ کے بعد تبنیہ کے طریقوں میںداخل ہو جائیں گے۔ مربی تربیت دئے جانے والے کی نا شائستہ حرکات وسکنات کو ختم کرنے کے لئیاسے ان بعض جزائوں اورمواہب سے محروم کردے جن کی وہ امید رکھتا ہے یایہ کہ نیکوکاروں کو جزادے کر اُسے اپنی محرومیت کی جانب متوجہ کرے اور اس کے اشتباہ وخطا کی نشاندہی کرے۔حضرت علی ـ کے گہربار اور زریں کلام میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ''نیکو کار کو جزا دے کر بدکار کو ان کی بدکاری سے روک دو''۔(٢)

____________________

١۔عیون اخبارالرضا ـ، ج١، ص١٥٤۔

٢۔ ''از جرالمسء بثواب المحسن''بحار، ج٧٥، ص٤٤، باب ٣٦

۲۳۲

(اَفَمَنْ کَانَ مُؤمِناً کَمَنْ کَانَ فَاسِقاً لَایَسْتَوُونَ(١)

''کیا وہ شخص جو صاحب ایمان ہے اس کے مثل ہوجائے گا جو فاسق ہے؟ ہرگز نہیں ، دونوں برابر نہیں ہوسکتے''۔

(لَایَسْتَوِی اَصْحَابُ النَّاسِ وَاَصْحَابُ الْجَنََّةِ ۔۔۔)(٢)

''اصحاب جنت اور اصحاب جہنم ایک جیسے نہیں ہوسکتے''۔

(وَمَایَسْتَوِی الاعمیٰ والبصیروالّذین آمنواوعملواالصالحات ولاالمسء قلیلا ماتتذکرون(٣)

''اور یاد رکھو کہ اندھے اور نابینا برابر نہیں ہوسکتے ہیں اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کئے ہیں وہ بدکاروں جیسے نہیں ہوسکتے ہیں، مگر تم لوگ بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو''۔

خداوند عالم ان آیات میں واضح طورپر نیکوکاروں اوربدکار روں کے مسادی نہ ہو نے کا اعلان کرتا ہے، اس سے اس کا مقصود یہ ہے کہ سب جان لیں کہ اچھے لوگوں کے لئے جزا ہے اور ناشائستہ اور قبیح اعمال والوں کے لئے محرومیت کے سوا کچھ نہیں ہے۔

ہ۔جرمانہ اور تلافی:

جرمانہ نمبرکم کرنے ، پیسہ دینے، دوستوں کے لئے مٹھائی خریدنے وغیرہ کی صورتوں میں ہوتا ہے۔ تلافی جیسے اس انسان سے عذر کرنا جس کی توہین کی ہے یا جس جگہ کوئی نقصان پہنچایا ہے اس کی تعمیر کرے یا مرمت کرے جرمانہ کے سلسلہ میں توجہ رکھنا چاہئے کہ ادا کرنے یا کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اوربے چارگی اوربیزاری کی حالت پیدا نہ ہو۔ جرمانہ کے شیوہ سے استفادہ کی شرط یہ ہے کہ انسان کی ایک مدت تک تقویت کی جائے تاکہ پہلے جو اُسے جزائیں دی گئی ہیں بعد میں اُس سے واپس لی جاسکیں۔

اسلام میں دیت کاقانون اس کے حقوقی جنبہ کے علاوہ تربیتی جنبہ سے بھی ایک قسم کا جرمانہ حساب ہوتا ہے۔

و۔ سرزنش وتوبیخ اور جسمانی توبیخ وتنبیہ:

توبیخ ، غیض وغضب کی نظر سے شروع ہوتی ہے اور علانیہ توبیخ تک پہنچتی ہے۔(٤)

____________________

١۔ سورئہ سجدہ، آیت ١٨۔ ٢۔ سورہ ٔحشرآیت ٢٠۔

٣۔ سورہ ٔغافر، آیت ٥٨۔ ٤۔ ایک اعتبار سے مخفی اور پوشیدہ توبیخ کو جرمانہ اور تلافی سے قبل جاننا چاہئے)۔

۲۳۳

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''عقلمندوں کی سزا کنایہ اور اشارہ کی صورت میں ہوتی ہے اورنادانوں کی سزا واضح اور صریح انداز میں ہوتی ہے۔(١)

''تعریض (کنایہ میں توبیخ کرنا) عقلمند کے لئے آشکار توبیخ سے کہیں زیادہ سخت ہے''(٢)

حضرت امام جعفر صادق ـ ''شعرانی'' جوکہ پیغمبر کے چاہنے والوں میں سے تھے، خلوت میں بالواسطہ طور پر نصیحت کے ذریعہ انھیں ان کے ناپسند عمل (شرابخوری ) کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''اچھا کام سب کے لئے اچھا ہے اور تمہارے لئے سب سے بہتر ہے اس انتساب کی وجہ سے جو تم ہم (اہل پیغمبر)سے رکھتے ہو اور برا کام سب کے لئے برا ہے لیکن تم سے سب سے زیادہ برا ہے اس انتساب کی وجہ سے کہ جو تم ہم سے رکھتے ہو''۔(٣)

جسمانی تنبیہ سب سے آخری مرحلہ میں ہے کہ گذشتہ مراحل میں ناکامی کی صورت میںخاص شرائط وحالات پائے جانے کی صورت میں اُس سے استفادہ ہوتا ہے، تنبیہی طریقہ کلی طریقے پر اور جسمانی تنبیہ خاص طور پر صاحبان نظر کے نزدیک محل اختلاف میں ہے، بعض جیسے سعدی ومولوی جسمانی تنبیہ کے طرفدار تھے، اور اس سے استفادہ کو جائز سمجھتے ہیں کہ بعض دیگر جیسے غزالی، بوعلی اور ابن خلدون نے مربی کو جسمانی تنبیہ سے تین بار سے زیادہ یا غصہ کی حالت میں روکا ہے۔(٤)

ماہرین نفسیات کے درمیان بھی بعض جیسے رین اور ہولز خاص شرائط وحالات پائے جانے کی صورت میں تنبیہ سے استفادہ کو رفتار تغییر کے معاملہ میں مفید جانتے ہیں(٥)

____________________

١۔''عقوبة العقلاء التلویح وعقوبة الجهال التصریح ''(میزان الحکمة ج١ص ٧٢)۔

٢۔''التعریض للعاقل اشد من عقابه'' (میزان الحکمة ج١ص ٧٢)۔

٣۔''یا شقر ان انّ الحسن لکل احد حسن وانه منک احسن لمکانک منّا وان القبیح لکل احدٍ قبیح وانّه منک اقبح'' (بحار الانوار ج٤٧ ص٣٤٩ باب ١١)۔

٤۔ نقش تربیت معلم، دفتر ہمکاری حوزہ ودانشگاہ۔

٥۔ ہیلگارد:روان شناسی یادگیر ص ٣٣٧۔

۲۳۴

اس کے باوجود اکثر ماہرین نفسیات رفتار کی تبدیلی اور تربیت کے لئے تنبیہ سے استفادہ کے مخالف ہیں۔

ا سکینرنہایت تاکید کے ساتھ تنبیہ سے استفادہ کو کلی طور پر خطرناک ، نامطلوب اور بے اثر شمار کرتا ہے اور متعدد دلائل بھی اپنے مدعا کے لئے پیش کرتا ہے:(١)

١ ۔تنبیہ دوسرے نامطلوب مضر آثار کا پیش خیمہ ہوتی ہے، جیسے عمومی خوف۔

٢ ۔تنبیہ اجسم کو پتہ دیتی ہے کہ کیا کام نہ کرے نہ یہ کہ کیا کام کرے۔

٣ ۔تنبیہ دوسروں کو صدمہ پہنچانے کی توجیہ کرتی ہے۔

٤۔تربیت پانے والا اگر مشابہ موقعیت میں واقع ہو جائے اور قابل تنبیہ نہ ہوتو ممکن ہے وہ اسی کام کے کرنے پر مجبور ہوجائے۔

٥ ۔تنبیہ، تنبیہ کرنے والے اور دوسروں کی نسبت پر خاش ایجاد کرتی ہے۔

٦ ۔تنبیہ عام طور پر ایک نامطلوب جواب کو دوسرے نامطلوب جواب کا جانشین بنادیتی ہے، جیسے بد نظمی کی جگہ رونا۔

ا سکینر اس کے بعد تنبیہ کے لئے بہت سی جانشین چیزوں کا ذکر کرتا ہے، جیسے ایسے مقتضیات کی تبدیلی جو نامطلوب رفتار کا باعث ہوتی ہے اور ناموافق رفتار کی نامطلوب رفتار سے تقویت ، آخر میں نتیجہ نکالتا ہے کہ نامطلوب عادات کے ختم کرنے کا بہترین طریقہ انھیں نظرانداز کرنا یا پھرخاموشی (تغافل اسی کے مانند ہے) اسلام کی نظر میں(٢) اگرتربیت نچلے درجوں اور طریقوں سے ممکن ہو تو جسمانی تنبیہ سے استفادہ جائز نہیں ہے اور اس کے علاوہ جسمانی تادیب اور تنبیہ (اس شرط کے ساتھ کہ اس حد میں نہ ہو کہ دیت لازم آجائے تو) جائز ہے انسان کے ولی کے علاوہ کی طرف سے بھی اجازت کے ساتھ ہونا چاہئے۔اس کی مقدار بھی محدود ہے (زیادہ سے زیادہ تین سے دس ضرب تک) فقہاء کے فتاویٰ بھی اسی طرح ہیں۔(٣)

____________________

١۔ ہرگنھان: روان شناسییاد گیری ص١٣٣۔

٢۔ البتہ تنبیہ کے موضوع پر اسلام کی فقہی نظر کا استخراج (حکم اولیہ اور ثانویہ کی صورت میں) مستقل فرصت کا محتاج ہے۔

٣۔ امام علی رضا ـ: ''التادیب ما بین ثلاث الی عشرةٍ''مستدرک الوسائل ج٣ص٢٤٨۔تحریر الوسیلة ج٢ص ٤٧٧۔

۲۳۵

تنبیہ کی نفی پر ا سکینرکے اعتراضات کے بارے میں کلی طور پر کہا جاسکتا ہے:

١۔ بعض ماہرین نفسیات جیسے رین اور ہولز خاص شرائط وحالات کے تحت( جیسے یہ کہ تنبیہ نامطلوب کاموں کے بعد فوراًبلافاصلہ ہو اور اس حد تک ہو کہ انسان کے لئے تکلیف دہ ہو... تنبیہ کو رفتار کی تبدیلی میں موثر جانتے ہیں اور اس سلسلہ میں آزمائشیں بھی کی ہیں۔

٢ ۔تنبیہ کے ہیجان آور نتائج (جیسے خوف یا پرخاش) کہ اسکینز جس کا ذکر کرتا ہے اس صورت میں منفی ہوجائیں گے جبکہ پہلے سے مربی اور تربیت پانے والے کے درمیان صرف ایک عاطفی ررابطہ رہا ہو کہ تنبیہ کی تاثیرکی شرط بھی اس طرح کے رابطہ موجود ہونا ہے۔

حضرت امیرالمومنین ـ کے ایک چاہئے والے نے چوری کی تو حضرت نے اُس کے ہاتھ کو قطع کردیا۔ ''ابن کوائ'' جو کہ خوارج میں سے تھا اس نے موقع غنیمت سمجھتے ہوئے اس سے سوال کیا: کس نے تمھارے ہاتھ کو قطع کردیا ہے؟ اس نے جواب دیا: میرے ہاتھ کو پیغمبروں کے اوصیاء کے سید وسردار، قیامت کے دن سرخرو حضرات کے پیشوا، مومنین کی نسبت سب سے زیادہ حقدار نے ابن کواء غصہ میں بولا: وائے ہو تم پر! وہ تمہارے ہاتھ کو قطع کرتے ہیں اور تو ان کی اس طرح مدح و ثنا کرتا ہے؟ اس نے جواب دیا: کیوںتعریف نہ کروں جبکہ ان کی محبت میرے گوشت وخون میں ملی ہوئی ہے، خدا کی قسم میرے انھوں نے ہاتھ کو صرف حق کی خاطر قطع کیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ مجھے آخرت کی سزا سے نجات دیں۔(١)

٣ ۔تنبیہ نا پسند استعدادوں اور صلاحیتوں کے کنٹرول کرنے اور خاموش کرنے کا ذریعہ ہے۔ ان لوگوں کے لئے جن کے بارے میں نرم رویّہ نتیجہ بخش ثابت نہیں ہوتا ہے، صرف ممکن طریقہ یہ ہے کہ ایک توبیخ وسرزنش یا پھر نفسیاتی جھنجھوڑ ان کے اندر ایجاد کریں، بالخصوص اگر تسلط پسند اور طغیان آمیز طبیعت رکھتے ہوں، جس طرح انسان کے جسم میں بدبودار اور کثیف غدود کو قطع کردیتے یا جلادیتے ہیں تاکہ دیگر حصوں تک سرایت نہ کرے۔ ''البرٹ الیس ''ان ماہرین نفسیات میں ہے کہ جواپنے علاج اور مشاورہ میں ناگہانی سرزنش وتوبیخ اور اس کے مانند دوسری چیزوں سے استفادہ کرتا ہے اور ایک جھٹکا دے مشاورہ کے درمیان مراجع کو اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے۔

____________________

١۔ بحار الانوار ج٤٠ ص٢٨١،٢٨٢۔

۲۳۶

اسلام کا سزائی اور جزائی نظام بھی جوکہ خاص جسمانی سزائوں پر مشتمل ہے، اپنے حقوقی پہلوئوں کے علاوہ، تربیتی رخ سے بھی قابل توجہ ہے، کیونکہ انسان کو جرم کی تکرار سے روکتا ہے۔

مذکورہ نکات کے علاوہ تنبیہ کے استعمال میں درج ذیل چیزیں اس کی تربیتی تاثیر میں اضافہ کرتی ہیں:

١۔ہر قسم کی تنبیہ سے پہلے ناپسند عمل کی علت کی شناخت سے مطمئن ہوں، بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مختلف گھریلو اور روحی مسائل ومشکلات کی بنا پر جوکہ ہم پرپوشیدہ ہیں، یہ خطا سرزد ہوگئی ہو، ایسی صورت میں تنبیہ مشکلات اور پیچیدگی کواضافہ کرتی ہے۔

٢ ۔ وہ تنبیہ مؤثر ہے جو جذبۂ انتقام اور غیض وغضب کی عنوان سے نہ ہو، اس وجہ سے بے جاسرزنش اور حد سے زیادہ تحقیر وتوہین سے پرہیز کیاجانا چاہئے۔

٣ ۔تنبیہ سنجیدہ اور حسب ضرورت ہو اور میزان خطا سے آگے نہ بڑھ جائے۔ حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''ملامت میں زیادہ روی ضد اور ہٹ دھرمی کی آگ کو بھڑکادیتی ہے''۔(١)

٤۔تنبیہ انسان کی نامطلوب صفت یاعمل سے دقیق رابطہ رکھتی ہو اور اسے تنبیہ کی علت کی نسبت مکمل آگاہی حاصل ہو۔

٥ ۔اگر انسان اپنے عمل سے شرمندہ وپشیمان ہوگیا اور اپنی رفتار سے باز آگیا تو اسے لطف ومہربانی کے ساتھ قبول کرلینا چاہئے۔

____________________

١۔''الافراط فی الملامة یشبّ نار اللجاجة'' (غرر الحکم ،ج١،ص ٨٨)۔

۲۳۷

تیسری فصل :

اسلام میں اخلا قی تر بیت کے طر یقے

۱۔خود پر ناظر ہونا

یہ روش مکمل طور پر ''خود تربیتی'' صورت میں انجام پائے گی، اپنے آپ پر نظارت سے مراد یہ ہے کہ انسان کامل ہوشیاری اور مراقبت کے ساتھ قبول شدہ اخلاقی اقدار کی نسبت کوشش کرے کہ جو (جوارحی یا جوانحی) رفتار وکردار اخلاقی فضائل کے منافی ہیں اس کے وجود میں راستہ پیدا نہ کرنے پائیں اور اُس کے اخلاقی ملکات وقوّتوں کے زوال اور سستی کا باعث نہ بنیں۔

اپنے آپ پر روش نظارت کے نفسیاتی مبانی میں دو مرحلے قابل تفکیک ہیں: پہلا مرحلہ اس روش کے استعمال سے متعلق ہے کہ تربیت پانے والا شوق اور مقصد کے اعتبار سے باندازۂ کافی آمادگی رکھتا ہو۔(١)

یہ مرحلہ گذشتہ روشوں کی مدد سے بالخصوص اقدار کی طرف دعوت کی روش اور عقلانی توانائی کی تربیت کی روش کے ذریعہ عملی ہونا چائیے، یعنی ایک شخص اس نظریہ تک پہنچے کہ یہ اقدار اور اخلاقی مقاصد اُس کے وجود میں پائدار رہیں اور اخلاقی رذائل اُس سے مٹ جائیں دوسرا مرحلہ اس روش کی تاثیر کی کیفیت کو واضح کرنا ہے۔ نفسیاتی نظام کے صادرات اور واردات تدریجی صورت میں بیماری وجود ی شکل کی تعمیر کرتے ہیں ، اور نفس شناسی کی اصطلاح میںہمارے تزکیہ باطن اور ظاہر کو ایک تعادل پسندی کی طرف آگے بڑھاتی ہے، اس وجہ سے واردات وصادرات کی نوع کیفیت پر نظارت (کہ جو ہماری نیّات اور مقاصد کو بھی شامل ہوتی ہے)اس شکل کو جہت دینے میں کہ جو ان کا نتیجہ ہے، مؤثر بلکہ قابل تعیین ہوسکتی ہے۔

____________________

١۔ اخلاقی کتب میں اسے ''مقام یقظہ'' یعنی مقام بیداری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

۲۳۸

(اسکینز کے )فعال ماحول سازی کے نمونہ میں یہ روش تقریبی طور پر ایک مستقل روش کے عنوان کے تحت تین مرحلہ بیان کی جاتی ہے ۔(١)

١ ۔اپنا مشاہدہ : اپنی رفتارکو دقت کے ساتھ جزئی اورکمّی (مقدار ک )لحاظ سیثبت وضبط کرتا ہے۔

٢ ۔خود سنجی: (اپنے کو تولنا) موجودہ رفتاروں آئیڈیل نمونہ کے ساتھ کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے مقایسہ اور موازنہ کیا جاتا ہے۔

٣ ۔ خود تقویتی: (اپنے آپ کو قوت پہنچانا) ایسی رفتار جو ہدف کو زیادہ قریب کرتی ہے اور اُس سے سنخیت رکھتی ہے ، اس پر جزا دی جاتی ہے اور اس کے مدمقابل رفتار کومنفی تقویت کے ساتھ اور کبھی تنبیہ کے ذریعہ قابو اور کنٹرول میں رکھا جاتا ہے ۔

اس طرح سے رفتاری آثار ونتائج (پاداش اور تنبیہ)سے استفادہ کرنے سے اپنے آپ پر ایک دائمی نظارت اور مراقبت عمل میں آتی ہے دوسرے طریقے جو ا سکینر اپنے کنٹرول اور ضبط نفس کے لئے اس سلسلہ میں ذکر کرتا ہے، یہ ہیں: اور اسباب وشرائط کا آسان یا تنگ کرنا (مثال کے طور پر فضول خرچ انسان، اپنی جیب میں کم پیسہ رکھے)، محرومیت، عاطفی شرائط وحالات پر تسلط، تکلیف دہ محرک سے استفادہ (جیسے گھنٹی والی گھڑی) اور دوسرے امور کی انجام دہی۔

مکتب سلوکیت کا نمونہ ا سکینر کے نظریہ کے مطابق رفتار کی نظارت اور جانچ معمولی اور کم اہمیت کی حامل ہیں ، لیکن ہم اس نمونہ اور توضیح سے بالاترین سطحوں کے لئے اور اپنے آپ پر نظارت کے لئے استفادہ کرسکتے ہیںاور تیّات ، اہداف ومقاصد حتی کہ اپنی رفتار وکردار کی خوبیوں پر کنٹرول کرسکتے ہیں۔ اخلاقی کتابوں میں یہ روش بہت زیادہ مورد توجہ رہی ہے اور اس سے متعلق مستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔(٢) ان کتابوں میں مراقبہ، محاسبہ یا مرابطہ مرز بانی]دشمن سے سرحد کی حفاظت[ کے عناوین کے تحت یہ بحث کی گئی ہے۔(٣)

____________________

.۱ Psychoegyobhelthp.۱۰۳;۱۰k

٢۔جیسے ان کے محاسبة النفس از سید ابن طائوس اور محاسبة النفس کفعمی)

٣۔اخلاقی تربیت کی روش میں عرفاء شیعہ نے آخری دوسو سال میں (ملاحسین قلی ہمدانی، میرزا علی آقا قاضی، مرحوم بہاری، حاج میرزا جواد تبریزی ، مرحوم علامہ طباطبائی اور امام خمینی تک نے )اپنے آپ پر نظارت (مراقبہ ومحاسبہ) کی روش پر بہت تاکید کی ہے اور اسے اپنے سلوک کی بنیاد قرار دیا ہے۔

۲۳۹

'' ابو حامد بندوں کے درمیان صرف صاحبان بصیرت جانتے ہیں کہ خداند عزوجل ان کا محافظ اورنگراں ہے اورمحاسبہ میں دقت سے کام لیا ہے اور ان کی نسبت بہت جزئی امور میں بھی سوال اوربازپرس کرتا ہے، لہٰذا یہ لوگ جانتے ہیں کہ ان امور سے نجات کا راستہ محاسبہ اورمراقبہ کے لزوم کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ کہ نفس کو حرکات اور لحظات کی نسبت جانچتے رہیں، لہٰذا جو اپنے نفس کو روز قیامت کے حساب وکتاب سے پہلے مورد محاسبہ قرار دے تو اُس دن اُس کا حساب آسان اور سوال کے وقت اُس کا جواب آمادہ ہوگا اورنتیجہ نیک اور اچھا ہوگا۔ اورجو کوئی اپنے نفس کا محاسبہ نہ کرے گا اس کی حسرت دائمی اور قیامت کے مواقف میں اُس کا توقف طولانی ہوگااور اس کی برائیاں اسے ایسی ذلت وخواری کے گڑھے میں ڈھکیل دیں گی۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ خداوندعالم کی اطاعت کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے اور اُسی نے صبر مرزبانی کا حکم دیا ہے:

(یَا اَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوْا ۔۔۔)۔(١)

''اے صاحبان ایمان تم لوگ صبر کرو، صبر کی تعلیم دو اور مرابطہ یعنی دشمن سے جہاد کے لئے تیاری کرو...'' لہٰذا تم مرابطہ ومرزبانی کرو پہلے مشارطہ کے ذریعہ اس کے بعد مراقبہ کے ذریعہ پھر محاسبہ اور پھر معاقبہ (سزا دینے) کے ذریعہ پھر اس کے بعد مجاہدہ اورمعاتبہ (عتاب کرنے) کے ذریعہ ...''(٢) اس لحاظ سے ایک دوسرے رخ سے بھی اپنے آپ پر نظارت اور نگرانی کا لزوم معلوم ہوا، محاسبۂ اعمال کردار کے تولنے کے لئے موازین قسط کے قرار دینا، قیامت کے دن حساب وکتاب کرنااور ہمارے نامہ اعمال میں ان کے جزئیات کو ضبط کرنا کہ جن کو ہر شخص واضح طور پر دیکھے گا، ان سب باتوں کے قطعی ہونے کے پیش نظر محاسبہ اوراعمال پر نظارت کے لزوم کے سلسلہ میں کوئی تردید نہیں رہ جاتی اورخداوند اس سے کہیں زیادہ کریم ہے کہ اپنے بندوں سے دوبارہ حساب کا مطالبہ کرے۔ قرآنی آیات اس سلسلہ میں بہت زیادہ واضح ہیں: ''ہم عدل وانصاف کا ترازو قیامت کے دن قرار دیں گے، پس کسی نفس پر بھی کسی چیز میں ستم نہیں جائے گا، اگر( کسی کا عمل) رائی کے دانہ کے برابر بھی ہوگا اُسے ہم لے آئیں گے اور ہم سب کا حساب کرنے کے لئے کافی ہیں ''۔(٣) ''اور جب نامۂ اعمال سامنے رکھا جائے گا، اُس وقت مجرمین کو اپنے نامۂ اعمال کے مندرجات سے خوفزدہ دیکھوگے اور وہ کہیں گے : اے ہم پروائے ہو، یہ کیسا نامۂ اعمال ہے کہ جس میں کوئی ]کام[ چھوٹا ہو یابڑاچھوڑا نہیں گیاہے، بلکہ سب کو جمع کرلیاہے اور جوکچھ انھوں نے انجام دیا ہے وہ سب اس میں موجود پائیں گے اور تمہارا رب کسی پر ستم روا نہیں رکھتا''۔(٤) اپنے آپ پر نظارت کے طریقے درج ذیل ہیں:

____________________

١۔ سورہ ٔآل عمران آیت ٢٠٠۔ ٢۔ احیاء العلوم، غزالی ج٤ص ٤١٧، ٤١٨۔٣۔ سورہ ٔانبیاء آیت٤٧۔ ٤۔سورہ ٔکہف آیت٤٩۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779