تفسير راہنما جلد ۹

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 779

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 779 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 218349 / ڈاؤنلوڈ: 3787
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۹

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

روايات اهلبيت میں ذکر ہوا ہے کہ حضرت آسیہ بہشت میں نبی کی بیویوں میں سے ہونگی۔(۱)

اصحاب كهف او رتقيه

قطب راوندي نے شيخ صدوق سے امام صادقعليه‌السلام کي روايت نقل کي هے :

فَقَالَ لَوْ كَلَّفَكُمْ قَوْمُكُمْ مَا كَلَّفَهُمْ قَوْمُهُمْ فَافْعَلُوا فِعْلَهُمْ فَقِيلَ لَهُ وَ مَا كَلَّفَهُمْ قَوْمُهُمْ قَالَ كَلَّفُوهُمُ الشِّرْكَ بِاللهِ فَأَظْهَرُوهُ لَهُمْ وَ أَسَرُّوا الْإِيمَانَ حَتَّى جَاءَهُمُ الْفَرَجُ وَ قَالَ إِنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ كَذَبُوا فَآجَرَهُمُ اللهُ إِلَى أَنْ قَالَ وَ قَالَ إِنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ أَسَرُّوا الْإِيمَانَ وَ أَظْهَرُوا الْكُفْرَ فَكَانُوا عَلَى إِظْهَارِهِمُ الْكُفْرَ أَعْظَمَ أَجْراً مِنْهُمْ عَلَى إِسْرَارِهِمُ الْإِيمَانَ وَ قَالَ مَا بَلَغَتْ تَقِيَّةُ أَحَدٍ تَقِيَّةَ أَصْحَابِ الْكَهْفِ فَأَعْطَاهُمُ اللهُ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ ۔(۲)

"اگر تمهاري قوم کفر کا اظهار کرنے پر مجبور کرے تو اظهار کرنا اوراپنا ايمان آرام آنے تک

____________________

۱: ۔ تفسير نور الثقلين ۔ ج۵ ، ص۲۷۷۔

۲: مستدرك‏الوسائل ،ج ۱۲ ،ص ۲۷۲۔

۶۱

چھپا رکھنا۔ پھر فرمايا اصحاب کهف نے بھي ظاهراً جھوٹ بولا اور الله تعالي نے بھي ان کو جزائے خير دي اور کها اصحاب کهف نے اپنے ايمان کو چھپایا اور کفر کا اظهار کیا۔پس کفر کا اظهار کرنے کا ثواب ايمان کے چھپانے سے زياده هے ۔ اور فرمايا: اصحاب کهف سے زياده کسي اور نے تقيه نهيں کيا ۔۔۔الله تعالي نے بھي ان کو دو مرتبه اجر اور ثواب عطا کيا"

امير المؤمنينعليه‌السلام سے ایک حدیث نقل ہوئی ہے :

وَ عَلَيْكُمْ بِالتَّمَسُّكِ بِحَبْلِ اللهِ وَ عُرْوَتِهِ وَ كُونُوا مِنْ حِزْبِ اللهِ وَ رَسُولِهِ وَ الْزَمُوا عَهْدَ اللهِ وَ مِيثَاقَهُ عَلَيْكُمْ فَإِنَّ الْإِسْلَامَ بَدَأَ غَرِيباً وَ سَيَعُودُ غَرِيباً وَ كُونُوا فِي أَهْلِ مِلَّتِكُمْ كَأَصْحَابِ الْكَهْفِ وَ إِيَّاكُمْ أَنْ تُفْشُوا أَمْرَكُمْ إِلَى أَهْلٍ أَوْ وَلَدٍ أَوْ حَمِيمٍ أَوْ قَرِيبٍ فَإِنَّهُ دِينُ اللهِ عَزَّ وَ جَلَّ الَّذِي أَوْجَبَ لَهُ التَّقِيَّةَ لِأَوْلِيَائِهِ ۔(۱)

امام ؑ نے فرمایا:تم پر ضروری ہے کہ اللہ کی رسی اور عروۃ الوثقی سے متمسک رہیں ۔ اللہ

____________________

۱: مستدرك، باب وجوب التقية مع الخوف إلى خر۔

۶۲

اور اس کے رسول کی سپاہیوں میں سے ہوجائیں۔اللہ تعالی کے ساتھ جو بھی عہد وپیمان باندھ لئے ہیں ،ان پر پورا اترا کریں۔بیشک اسلام ابتداء میں بھی غریب تھا اور آنے والے زمانے میں بھی غریب ہوگا۔ تم لوگ اپنی قوم کے درمیان اصحاب کہف کی طرح زندگی گزار اکریں۔خبرداراپنی راز کی باتیں اپنی بیویاں ،اولاد اور اپنے دوستوں کو نہ بتائیں۔بیشک تمہارے لئے یہی دین خدا ہے جس نے اپنے اولیاء کے لئے تقیہ کو مجاز قرار دیا ہے۔

امام حسن العسكريعليه‌السلام کی روايت اس بات کی تائید کرتی ہے۔

وَ قَالَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ ع قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص: إِنَّ الْأَنْبِيَاءَ إِنَّمَا فَضَّلَهُمُ اللَّهُ عَلَى خَلْقِهِ أَجْمَعِينَ بِشِدَّةِ مُدَارَاتِهِمْ لِأَعْدَاءِ دِينِ اللَّهِ وَ حُسْنِ تَقِيَّتِهِمْ لِأَجْلِ‏ إِخْوَانِهِمْ‏ فِي‏ اللَّه‏ ۔(۱)

"رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: بیشک انبیائے الہٰی کو دوسرے لوگوں پر اس لئے فضیلت

____________________

۱: مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل / ج‏۱۲ / ۲۶۲ / ۲۷ باب وجوب الاعتناء و الاهتمام بالتقية و قضاء حقوق الإخوان ,ص : ۲۶۱

۶۳

ملی ہے کہ خدا کے دشمنوں کے ساتھ مدارات کیا کرتے تھے اور نیک لوگوں کے ساتھ خدا کی خاطر اچھا تقیہ کیا کرتے تھے "

یہ اسلام سے پہلے کے تقیہ کے کچھ موارد تھےجو آیات اورشیعہ سنی احادیث کی کتابوں میں مرقوم تھے ۔ اور یہ ایسے حقائق ہیں جن سے انکار ممکن نہیں ہے ۔

ب:ظهور اسلام کے بعد تقيه

اسلام چونکہ ابتدا سے غریب تھا اور غریب ہی رہ گیا ۔ابتدائے اسلام میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی اور اس زمانے میں لوگ انحرافات اور گمراہی کے اسیر ہوچکے تھے ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آکر انہیں نجات دلاد دی ۔جس پر قرآن گواہی دے رہا ہے :

( هُوَ الَّذِى بَعَثَ فىِ الْأُمِّيِّنَ رَسُولًا مِّنهْمْ يَتْلُواْ عَلَيهْمْ ءَايَاتِهِ وَ يُزَكِّيهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَ الحْكْمَةَ وَ

۶۴

إِن كاَنُواْ مِن قَبْلُ لَفِى ضَلَالٍ مُّبِينٍ ) ۔(۱)

"اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے جو ان ہی میں سے تھا کہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ,ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اگرچہ یہ لوگ بڑی کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا تھے "

یہ تعلیمات اسلامی کی خصوصیت تھی کہ انسان کو اس گمراہی سے نکال کر انسانیت کے بلند و بالا مقام تک پہنچایا۔اور عقلوں پر لگے ہوئے تالے کھول دیے ۔اور سارے انسانوں کو ایک ہی صف میں لاکر رکھ دیا ۔

اور انسان کی فضیلت کیلئے تقوی کو معیار قرار دیتے ہوئے فرمایا :( إِنَّ أَكْرَمَكمُ‏ عِندَ اللهِ أَتْقَئكُمْ ) ۔(۲)

بے شک خدا کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ باعزت ترین شخص وہی ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو ۔

____________________

۱: سوره جمعه۲۔

۲: سوره حجرات۱۳۔

۶۵

اسی طرح ظالم وجابر بادشاہ جو فقیر وں اور ضعیفوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہوئے زندگی گزارتے تھے ، جب اس پیغام کو سنا تو وہ لوگ خاموش نہیں رہ سکے ؛ بلکہ اسلام کو اس صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہوگئے ۔جس کی وجہ سے اسلام مظلوم اور غریب ہوا ۔

ابو طالبؑ اور تقيه

بعض نفسياتي خواهشات کے اسیر او ر ریاست طلب ،دین فروش اور درہم و دینار کے لالچی لوگوں نے ظالموں کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے اپنی کتابوں میں ابوطالب کے ایمان کو مشکوک ظاہر کرنا چاہا ۔ نعوذ باللہ ! آپ شرک کی حالت میں اس دنیا سے چلے گئے ؛ جبکہ آپ کی شخصیت ، عظمت اور اسلام کے ساتھ محبت اور ایمان پر واضح دلائل موجود ہیں ۔ابوطالبعليه‌السلام کی ذات وہ ہے جسے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت کا شرف حاصل ہے ؛ کہ آپ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کفار قریش اور دوسرے دشمنوں کے مکر وفریب اور ظلم وستم سے بچاتے رہے ، جبکہ وہ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جان کے درپے تھے ۔

اگر آپ کا اسلام اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر مکمل ایمان اور اعتقاد نہ ہوتا توکیسے

۶۶

دعوت ذوالعشیرہ کے موقع پر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یوں خطاب کیا ؟!:

وَ اللَّهِ لَا وَصَلُوا إِلَيْكَ بِجَمْعِهِمْ حَتَّى أُغَيَّبَ فِي التُّرَابِ دَفِيناً

فَامْضِ ابْنَ أَخِ فَمَا عَلَيْكَ غَضَاضَةٌ وَ أَبْشِرْ بِذَاكَ وَ قِرَّ مِنْكَ عُيُوناً

وَ دَعَوْتَنِي وَ زَعَمْتَ أَنَّكَ‏ نَاصِحِي وَ لَقَدْ صَدَقْتَ وَ كُنْتَ قَبْلُ أَمِيناً

وَ لَقَدْ عَلِمْتُ‏ بأَنَ‏ دِينَ‏ مُحَمَّدٍ مِنْ خَيْرِ أَدْيَانِ البَرِيَّة دِينَا(۱)

خدا کی قسم! اگروہ سب مل کر اپنی پوری قوت صرف بھی کرے؛جب تک میں زندہ ہوں اس وقت تک آپ کو ان کی طرف سے کوئی گزند نہیں پہنچے گا ۔پس اے میرے برادر زادے! جو آپ کا مقصد ہے اسے آشکار کرلو اور اس کی بشارت دو کوئی عیب والی بات نہیں ہے اور تم خوش رہو۔چشم شما روشن باد۔[یہ فارسی اصطلاح میں ایک دعائے خیر ہے]

اور تم نے مجھے دعوت دی ہے مجھے معلوم ہے کہ تم میرے ناصح ہو اور تم نے سچ کہا ہے ،اور تم پہلے سے ہی امانت دار تھے۔اور میں بھی جانتا تھا کہ کہ دین محمد تمام مخلوقات عالم

___________________

۱: الغدير، ج۷ ، ص۳۳۴۔

۶۷

کے دین سے بہتر دین تھا۔

اگر ابوطالبعليه‌السلام ايمان نہ لائے ہوتے تو ابولہب کی طرح وہ بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا تھے ، خدا کی طرف سے مورد مذمت اور قابل نفرین قرار پاتے ؛ لیکن ایمان ابوطالب ؑ ہمارے لئے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آئمہ طاہرین ؑ کے فرامین کے ذریعے واضح اور روشن ہے ، اور آپ کا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت کرنا کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔

یہاں تک کہ ابن ابی الحدید نے اشعار کی شکل میں اس مطلب کو بیان کیا ہے :

لو لا ابو طالب و ابنه لما مثل الدين شخصا فقاما

فهذا بمكة آوي و حامي و هذا بيثرب جس الحماما(۱)

"اگر ابوطالبعليه‌السلام اور ان کے فرزند علی نہ ہوتے تو دین اسلام بطور نمونہ برپا نہ ہوتا ۔ پس ابوطالبعليه‌السلام نے مکہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پناہ دی اور ان کے بیٹے نے مدینے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جان بچانے کی خاطر اپنی جان کی بازی لگا دی" ۔

____________________

۱: شرح نهج البلاغہ ، ابن ابی الحدید ج۱۴،ص۸۴۔

۶۸

اگر علی نہ ہوتے تو ابوطالب سید سادات المسلمین والسابقین الاولین ہوتے ۔

جابر بن عبداللہ انصاری روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول خدااصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے امیر المؤمنینعليه‌السلام کی ولادت کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے وضاحت فرمائی ، یہاں تک کہ ابوطالبعليه‌السلام کے بارے میں عرض کی :

قَالَ جَابِرٌ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ اللهُ أَكْبَرُ النَّاسُ يَقُولُونَ [إِنَ‏] أَبَا طَالِبٍ مَاتَ كَافِراً قَالَ يَا جَابِرُ اللهُ أَعْلَمُ بِالْغَيْبِ إِنَّهُ لَمَّا كَانَتِ اللَّيْلَةُ الَّتِي أُسْرِيَ بِي فِيهَا إِلَى السَّمَاءِ انْتَهَيْتُ إِلَى الْعَرْشِ فَرَأَيْتُ أَرْبَعَةَ أَنْوَارٍ فَقُلْتُ إِلَهِي مَا هَذِهِ الْأَنْوَارُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ هَذَا عَبْدُالْمُطَّلِبِ وَ هَذَا أَبُو طَالِبٍ وَ هَذَا أَبُوكَ عَبْدُ اللهِ وَ هَذَا أَخُوكَ طَالِبٌ فَقُلْتُ إِلَهِي وَ سَيِّدِي فَبِمَا نَالُوا هَذِهِ الدَّرَجَةَ قَالَ بِكِتْمَانِهِمُ الْإِيمَانَ وَ إِظْهَارِهِمُ الْكُفْرَ وَ صَبْرِهِمْ عَلَى ذَلِكَ حَتَّى مَاتُوا ۔(۱)

جابر بن عبد اللہ انصاری نےعرض کی : یا رسول اللہ ! اللہ اکبر ؛ لوگ کہتے ہیں کہ ابوطالبؑ حالت کفر میں اس دنیا سے رحلت کر گئے!

____________________

۱: بحار الانوار،ج۳۵، ص۱۶۔

۶۹

فرمایا: اے جابر خداوند سب سے زیادہ جاننے والا ہے علم غیب کا مالک ہے ، جس رات جبرئیل مجھے معراج پر لے گئے اور عرش پر پہنچےتو چار نور دیکھنے میں آئے، میں نے سوال کیا : خدایا یہ چار نور کن کے ہیں ؟!تو الله تعالي کی طرف سے جواب آیا : اے محمد!صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ عبدالمطلب ، ابوطالب،تیرے والد عبداللہ اور تیرے بھائی طالب کے ہیں۔میں نے کہا : اے میرے الله اے میرے آقا ! یہ لوگ کیسے اس مرتبے پر پہنچے ؟ خدا تعالی کی طرف سے جواب آیا : ایمان کے چھپانے اور کافروں کے مقابلے میں کفر کے اظہار اور ان پر صبر کرنے کی وجہ سے پہنچے ہیں۔

يونس بن نباته نے امام صادقعليه‌السلام سے روايت کی ہے :

قال يا يونس ما يقول الناس في ايمان ابو طالب عليه‌السلام قلت جعلت فداك ، يقولون «هو في ضحضاح من نار و في رجليه نعلان من نار تغلى منهما امّ رأسه» فقال كذب اعداءالله ، ان اباطالب عليه‌السلام من رفقاء النبيين و الصديقين و الشهداء و الصالحين و حسن اولئك رفيقا ۔(۱)

____________________

۱: كنز الفوائد ،ص۸۰۔

۷۰

چنانچہ محمد بن یونس نے اپنے والد سے انہوں نے امام صادقعليه‌السلام سے نقل کيا هے کہ آنحضرت نے ہم سے کہا: اے یونس ! لوگ ابوطالب کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ میں نے عرض کی ، مولا میں آپ پر قربان ہو جاؤں ؛ لوگ کہتے ہیں :

هو في ضحضاح من نار و في رجليه نعلان من نار تغلى منهما امّ رأسه ۔

"ابو طالب کھولتی ہوئی آگ میں پیروں میں آگ کے جوتے پہنے ہوئے ہے جس کی وجہ سے اس کا دماغ کھول رہا ہے "

امام نے فرمایا: خدا کی قسم یہ خدا کے دشمن لوگ غلط کہہ رہے ہیں ! ابوطالب انبیاء،صادقین ، شہداء اور صالحین کے ساتھیوں میں سے ہیں اور وہ لوگ کتنے اچھے ساتھی ہیں ۔(۱)

قصہ مختصر اگر علمائے اہل سنت بھی تھوڑا انصاف سے کام لیتے تو ايمان ابو طالبعليه‌السلام کو درک کرلیتے کہ ایمان کے کتنے درجے پر آپ فائز تھے ۔لیکن بعض خود غرض اور بغض اور

____________________

۱:۔ الطرائف؛ترجمه داود الهامى؛ ايمان ابو طالب ص۴۴۸ ۔

۷۱

کینہ دل میں رکھنے والے لوگوں نے ایک جعلی اور ضعیف روایت جو حدیث ضحضاح کے نام سے مشہور ہے اس کو دلیل بنا کر امير المؤمنين کے پدر گرامی اور پیغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا ابو طالب کے ايمان کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں شکوک پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ۔اگران لوگوں کو اہل بیت اور علی ابن ابی طالبعليه‌السلام سے دشمنی نہ ہوتی تو ان ساری صحیح اور معتبر حدیثوں میں سے صرف ایک ضعیف حدیث کو نہیں اپناتے ۔ اور شيخ بطحا مؤمن قريش پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بڑے حامى پر یہ تہمت نہ لگاتے ۔(۱)

محققین اور راويو ں نے اس حديث کی بررسى اور گہری تحقيق کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یہ حدیث مورد اعتماد نہیں ہے ۔ علمائے اہل سنت کے نزدیک اس روایت کو نقل کرنے والے جھوٹے ، بعض مجہول اور بعض علیعليه‌السلام اور ان کی اولاد سے بغض و کینہ رکھنے والے تھے ۔ جن میں سے ایک مغيرة بن شعبه ہے جو ایک فاسق و فاجر اور سخت دشمن اہل بیت تھا ۔اس بارے میں درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کرسکتے ہیں :

____________________

۱: الطرائف؛ترجمه داود الهامى؛ ايمان ابو طالب ص۴۶۰۔

۷۲

۱- اسنى المطالب في نجاة ابي طالب، سيد احمد زينى دحلان۔

۲- شيخ الأبطح او ابو طالب، سيد محمد علي آل شرف الدين۔

۳- الطرائف-ترجمه داود الهامى، ص: ۴۶۱ ۔

۴- الشهاب الثاقب، لرجم كفر ابى طالب، شيخ نجم الدين۔

۵- ايمان ابى طالب، ابو على كوفى۔

۶- ايمان ابى طالب، مرحوم مفيد۔

۷- ايمان ابى طالب، ابن طاوس۔

۸- ايمان ابى طالب، احمد بن قاسم۔

۹- بغية الطالب ۔۔، سيد محمد عباس تسترى ۔

۱۰- موهاب الواهب في فضائل ابى طالب۔

۱۱- الحجة على الذاهب الى تكفير ابى طالب، سيد فخار۔(۱)

____________________

۱: ایضاً، ص ۴۶۱۔

۷۳

امام کاظمعليه‌السلام سے روایت ہے:

إِنَّ إِيمَانَ أَبِي طَالِبٍ لَوْ وُضِعَ فِي كِفَّةِ مِيزَانٍ وَ إِيمَانَ هَذَا الْخَلْقِ فِي كِفَّةِ مِيزَانٍ لَرَجَحَ‏ إِيمَانُ‏ أَبِي‏ طَالِبٍ‏ عَلَى إِيمَانِهِمْ ثُمَّ قَالَ كَانَ وَ اللَّهِ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ يَأْمُرُ أَنْ يُحَجَّ عَنْ أَبِي‏ النَّبِيِّ وَ أُمِّهِ وَ عَنْ أَبِي طَالِبٍ‏ حَيَاتَهُ وَ لَقَدْ أَوْصَى فِي وَصِيَّتِهِ بِالْحَجِّ عَنْهُمْ بَعْدَ مَمَاتِه ‏۔(۱)

" اگر ایمان ابوطالبعليه‌السلام کو ترازو کے ا یک پلڑے میں قرار دیدیا جائے ا ور دوسری تمام مخلوقات کے ایمان کو دوسرے پلڑےمیں رکھ دیا جائے تو ابوطالبعليه‌السلام کا ایمان دوسرے تمام مخلوقات کے ایمان سے زیادہ بھاری ہوگا ۔۔۔ خدا کی قسم امیر المؤمنینعليه‌السلام جب تک زندہ رہے اپنے باپ، ماں اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نیابت میں حج انجام دیتے رہے ۔اور حسن و حسینعليه‌السلام کو بھی وصیت کرگئے کہ وہ لوگ بھی اسی طرح ان کی نیابت میں حج انجام دیتے رہیں ۔اور ہم میں سے ہر امام اس سنت پر عمل کرتے رہیں گے یہاں تک کہ آخری حجت کا ظہور ہوگا "

____________________

۱: إيمان أبي طالب (الحجة على الذاهب إلى كفر أبي طالب) ؛ ص۸۵

۷۴

عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ع أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ أَبِي طَالِبٍ أَ كَانَ مُؤْمِناً فَقَالَ نَعَمْ فَقِيلَ لَهُ إِنَّ هَاهُنَا قَوْماً يَزْعُمُونَ أَنَّهُ كَافِرٌ فَقَالَ وَا عَجَبَاهْ أَ يَطْعَنُونَ عَلَى أَبِي طَالِبٍ أَوْ عَلَى رَسُولِ اللهِ ص وَ قَدْ نَهَاهُ اللهُ أَنْ يُقِرَّ مُؤْمِنَةً مَعَ كَافِرٍ فِي غَيْرِ آيَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ وَ لَا يَشُكُّ أَحَدٌ أَنَّ بِنْتَ أَسَدٍ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ السَّابِقَاتِ وَ أَنَّهَا لَمْ تَزَلْ تَحْتَ أَبِي طَالِبٍ حَتَّى مَاتَ أَبُو طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ ۔(۱)

امام سجادعليه‌السلام سے ایمان ابوطالبعليه‌السلام کے بارے میں سوال ہوا: کیا وہ مؤمن تھے ؟

تو فرمایا : ہاں ۔

راوی نے عرض کی : یہاں ایک قوم رہتی ہے جن کا عقیدہ ہے کہ ابوطالب حالت کفر میں اس دنیا سے چلے گئے ہیں !

تو امام ؑ نے فرمایا : واعجبا ! کیا وہ لوگ ابوطالب پر طعنہ اور تہمت لگا رہے ہیں یا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ؟! جب کہ خدا تعالی نے قرآن مجید کی کئی آیات میں کفار کے ساتھ ازدواج کو

____________________

۱: بحار ،ج ۳۵، ص ۱۱۷۔

۷۵

ممنوع قرار دیا ہے؛ اور اس میں بھی کسی کواختلاف نہیں کہ فاطمہ بنت اسد مؤمنہ عورتوں میں سے تھیں اور مرتے دم تک ابوطالبؑ کی زوجیت میں رہیں ۔

اور یہ دوسری دلیل ہے ایمان ابوطالب پر کہ مسلمان عورتوں کا کافروں کے ساتھ نکاح جائز نہیں ہے ؛ چنانچہ ۔ جب زینب نے اسلام قبول کیا ، اور ابی العاص نے شریعت اسلام قبول نہیں کیا تو اسلام نے ابی العاص کے ایمان لانے تک ان کے درمیان فاصلہ ڈالا۔ اور جب وہ ایمان لایا تو دوبارہ نکاح پڑھ کر ان کو رشتہ ازدواج میں منسلک کیا ۔(۱)

لیکن حضرت فاطمه بنت اسد وہ پہلی خاتون ہیں جنھوں نے مکہ سے مدینے میں رسول خدا (ص) کی طرف ہجرت کی ہے اور آپ پیغمبر اسلام (ص) کیلئے مہربان ترین خاتون تھیں۔(۲)

جب آپ رحلت کرگئی تو امير المؤمنينعليه‌السلام روتے ہوئے رسول خدا (ص) کی خدمت میں تشریف لائے ۔ رونے کا سبب پوچھا تو فرمایا : یارسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! میری ماں فاطمہ اس نیا سے رحلت کر گئی ہے ۔فقال رسول الله : امي والله !

____________________

۱: تنقيح المقال في علم الرجال،ج۳،ص۷۹۔

۲: اصول كافي ،ج۱،باب امير المؤمنين ۔

۷۶

تو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا خدا کی قسم وہ میری ماں تھی ۔ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم روتے ہوئے تشریف لائے اور تشییع جنازے میں شریک ہوئے ۔(۱)

پس اگر فاطمه بنت اسدمؤمنه تھیں اور ابو طالبعليه‌السلام كافر، تو کیسے پیغمبر اسلام (ص) نے ان کے درمیان جدائی نہیں ڈالی ؟!کیسے یہ تصور ممكن ہے كه پیغمبر اسلام (ص) نے ایک مهم ترين احكام اسلام سے چشم پوشي كرتے ہوئے اس حکم کو تعطيل كیا ہو؟!۔(۲)

پیغمبر اكرم (ص) ا ور تقيه

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کےتقيه كرنے کے موارد میں سے ایک مورد آپ کا بعثت سے تین سال پہلےمخفیانہ طور پر دعوت دینا تھا ۔

____________________

۱: اصول كافي ،ج۱،باب امير المؤمنين۔

۲: بحار الانوار،ج۳۵،ص۱۱۵۔

۷۷

اسی طرح صلح حدیبیہ کےموقع پرسهيل بن عمرو جو کہ مشركوں کانماينده تھا ، کی درخواست پر بسم اللہ الرحمن الرحیم کی بجائے 'باسمک اللهم' لکھنا اور رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عنوان کو حذف کرکے محمد بن عبداللہ لکھنا بھی ایک قسم کا تقیہ ہے ۔(۱)

آنحضرت (ص) کا عبد الله بن ابي پر نماز ميت پڑھنا اور بجائے دعا کے آہستہ سے نفرین کرنا جبکہ وہ منافقين مدينه کا سردار تھا ؛ موارد تقيه میں سے تھا ۔(۲)

عليعليه‌السلام اور تقيه

آپ کا سقیفہ والوں کے انتخاب پر ظاہرا ً ۲۵ سال تک خاموش رہنا جبکہ آپ کو معلوم تھا کہ قرآن اور فرمان رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مطابق خلافت پر آپ کا حق تھا ، لیکن مسلمانوں کے درمیان وحدت اور اتحاد کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے خاموش رہنا ،تقیہ تھا ۔ جس

____________________

۱: ابن هشام؛ السنة النبويه،ج۳، ص۳۱۷ ۔

۲: وسائل الشيعه،ج۹ ، ص۳۲۸ ـ ۳۲۹۔

۷۸

کا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کی مصلحتوں کو محفوظ کیا ۔ اگر آپ خاموش نہ رہتے تو اس وقت روم والے مسلمانوں کے سر پر کھڑے تھے کہ کوئی موقع ہاتھ آجائے تاکہ مسلمانوں پر حملہ کرکے ان کو نابود کرسکیں ، جو مسلمانوں کی وحدت کی وجہ سے ناکام ہوا ۔

آپ کا اپنے زمانے کے حاکموں کے پیچھے نماز پڑھنا بھی تقیہ کے موارد میں سے ہے ۔

امام حسن ، امام حسین ،امام سجاد  اور تقيه

امام حسنعليه‌السلام کی خلافت کا دور ۲۱ رمضان ۴۱ ھ سے لے کر وفات امام سجادعليه‌السلام سن ۹۵ ھ تک تاريك ترين اور وحشت ناك ترين دور ہے جس سے آئمہ طاهرين دوچار ہوئے۔

صلح امام حسنعليه‌السلام ربيع الاول سال ۴۱ ھ کے بعد اور حكومت اموي کے برسراقتدارآنے کے بعد ، شيعه اور ان کے پيشواؤں کوشدید دباؤ ميں رکھا گیا۔معا ويه نے حکم دیا كه خطيب لوگ عليعليه‌السلام اور ان کے خاندان کی شان میں گستاخی کریں

۷۹

اور منبروں سے لعن طعن کریں ۔ شهادت اما م حسينعليه‌السلام سن ۶۱ ھ کے بعد مزید سختی کرنے لگے ۔ حضرت عليعليه‌السلام نے اپني خاص روشن بینی کی وجہ سے اپنے بعد آنے والےتمام واقعات کی پیشگوئي فرمائی ۔ اور اس دوران میں اپنے دوستوں سے تقیہ کرنے کا حکم فرمارہے تھے ۔کہ جب بھی ان کے مولا کے بارے میں گستاخی کرنے پر مجبور کیا جائے تو اپنی جان بچائیں اور ان کی بات قبول کریں۔(۱)

اس دوران میں آئمہعليهم‌السلام کے سياسي تقيه کے واضح ترين مصداق ،صلح امام حسنعليه‌السلام کوقراردے سکتے ہیں ۔ كه جو خود مهم ترين علت اور اسباب میں سے ایک ہے جس کا مقصد مسلمانوں خصوصاً شیعیان حیدر کرار کے خون کی حفاظت تھی ۔(۲)

اسی طرح امام حسينعليه‌السلام کا معاويه کے خلاف جنگ نہ کرنا بھی تقیہ شمار ہو تا

____________________

۱: بحار الانوار،ج۷۵ ، ص۳۹۳۔

۲: بحار الانوار،ج۷۵ ، ص ۴۴۷۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

نشانياں ۴

عذاب :اخروى عذاب كے موجبات ۳

گناہ :گناہ كے اثرات ۳

گناہگار لوگ:ان كا اخروى عذاب ۴; ان كى اخروى اسارت ۳، ۴;ان كے حشر كى كيفيت ۲;وہ قيامت كے دن ۱ ، ۲

آیت ۵۰

( سَرَابِيلُهُم مِّن قَطِرَانٍ وَتَغْشَى وُجُوهَهُمْ النَّارُ )

ان كے لباس قطران كے ہوں گے او ر انكے چہروں كو آگ ہر طرف سے ڈھانكے ہوئے ہوگى _

۱_قيامت كے دن مجرمين ايك سياہ ،بد بو دار،گرم اور (تاركول جيسے)اشتعال انگيز مادے كا كرتا پہنے ہوں گے_

وترى المجرمين ...سرابيلهم من قطران

'' قطران'' ايك سياہ ،بد بو دار اور چپكنے والا مادہ (تيل)ہے كہ جسے اونٹ كے بدن پر ملتے ہيں (مجمع البيان )يہ جو خدا وندعالم نے فرمايا ہے كہ دوزخيوں كا لباس قطران سے ہے ممكن ہے يہ دوزخى انسان كے بدن پر جہنم كى اگ كى سوزش اور اشتعال انگيزى كى زيادتى كو بيان كر نے ميں مبالغے كے لئے ہو _نيز مادہ قطران كے قابل اشتعال ہونے كو بيان كرنے كے لئے ہو_ (لسان العرب)

۲_قيامت كے دن مجرمين كا چہرہ اگ سے ڈھانپا ہو گا_وترى المجرمين ...وتغشى وجوههم النار

۳_قيامت كے دن عذاب الہى مجرمين اور گناہگاروں كے پورے وجود كو گھير لے گا _

وترى المجرمين ...سرابيلهم من قطران وتغشى وجوههم النار

'' وجوہ''(چہروں ) كى تعبير شايد پورے وجود سے كنايہ ہو ;چونكہ چہرہ انسان كے پورے وجود كا ائينہ ہوتا ہے _قابل ذكر يہ كہ اتشين لباس اور مجرمين كے طوق وزنجير ميں باندھے جانے سے

۱۶۱

بھى اسى مطلب كى تائيد ہوتى ہے _

۴_قيامت كے دن مجرموں كے حاضر ہونے كى كيفيت اور اندازسے ايك ہولناك اور قبيح منظر كى عكاسى ہوتى ہے_

وبرزوا ...وترى المجرمين يومئذمقرّنين فى الا صفاد_ سرابيلهم من قطران وتغشى وجوههم النار

۵_قيامت كے دن سب انسان، جسم و روح كے ساتھ حاضر ہوں گے_

مقرّنين فى الا صفاد_سرابيلهم من قطران وتغشى وجوههم النار

۶_''عن ا بى عبدالله عليه‌السلام : ...ان جبرئيل جاء الى رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ...قال: ...لو ا ن سربالا من سرابيل ا هل النار علّق بين السّماء والا رض لمات ا هل الا رض من ريحه و وهجه ;(۱) امام صادقعليه‌السلام سے منقول ہے كہ حضرت جبرائيلعليه‌السلام حضرت رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس ائے ...اور كہا:اگر اہل اتش كے كرتوں ميں سے ايك كرتا بھى زمين و اسمان كے درميان لٹكايا جائے تو اہل زمين ا سكى بد بو او رشعلوں سے مر جائيں _

جہنمى لوگ :جہنمى لوگوں كے لئے لباس ۱،۶

روايت :۶

عذاب :اخروى عذاب كا احاطہ ۳

قيامت :اھوال قيامت ۴

گناہگار لوگ :ا ن كا اخروى عذاب۱،۲،۳;ان كا اخروى لباس ۱; ان كا چہرہ ۲;ان كے حشر كى كيفيت ۴;وہ قيامت ميں ۱،۲

معاد :جسمانى معاد ۵;روحانى معاد ۵

____________________

۱)تفسير قمى ،ج ۲،ص ۸۱ ;نور الثقلين ،ج۲،ص ۵۵۸،ح ۱۴۸_

۱۶۲

آیت ۵۱

( لِيَجْزِي اللّهُ كُلَّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ إِنَّ اللّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ )

تا كہ خدا ہر نفس كو اس كے كئے كا بدلہ دے دے كہ وہ بہت جلد حساب كرنے والا ہے _

۱_قيامت برپا ہونے پر انسانوں كو سزا و جزا دينے كے لئے موجودہ اسمانوں اور زمين كے نظام كا كسى دوسرے نظام ميں تبديل ہوجانا _يوم تبدّل الا رض غيرالا رض___وبرزوا اللّه ___ليجزى اللّه كل نفس ما كسبت

مندرجہ بالا مطلب اس بات پر مبنى ہے كہ جب ''ليجزى '' آيت مجيدہ ۴۸ كے كلمہ '' برزوا '' سے متعلق ہو _

۲_كائنات كے موجودہ نظام كے ساتھ انسان كو مكمل سزا و جزا دينا ممكن و مناسب نہيں _

يوم تبدّل الا رض غيرالا رض___وبرزوا الله ___ليجزى اللّه كل نفس ما كسبت

كيونكہ خدا وندعالم نے قيامت ميں انسانوں كى سزا و جزا كا مسئلہ پيش كرنے سے پہلے دنيا كے موجودہ نظام كے تبديل ہونے كا مسئلہ پيش كيا ہے اس سے مندرجہ بالا مطلب اخذہوتا ہے_

۳_قيامت كے دن الہى سزا و جزا كا نظام، انسان كى تمام حركات و سكنات كے مقابلے ميں سب انسانوں تك پھيلا ہوا ہے_ليجزى اللّه كل نفس ما كسبت

'' ما كسبت'' ميں ''ما'' موصولہ ہے جو جنس كا معنى ديتا ہے _بنا بريں '' ما كسبت '' يعنى انسان جو كچھ بھى كرتا ہے اور جو بھى حركت اس سے سرزد ہو تى ہے _

۴_قيامت كے دن، خدا وند عالم كى طرف سے انسانوں كى جزا و سزا ،مكمل طور پرانسان كے عمل كى كميت و كيفيت كے مطابق و مناسب ہو گى _ليجزى اللّه كل نفس ما كسبت

۵_ قيامت كے دن انسان كى عاقبت اور سعادت و شقاوت،دنيا ميں كيے گئے اس كے عمل و كردار پر موقوف ہو گي_

ليجزى اللّه كل نفس ما كسبت

۶_اخرت ميں جزائے الہى كى بنياد انسان كے عمل اور جزا و سزا كے لئے اس كے استحقاق پر استوار ہے _

ليجزى اللّه كل نفس ما كسبت

خد اوند عالمنے جزا و سزا ميں انسان كى سعى و كوشش( ماكسبت ) كا مسئلہ پيش كيا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ انسانوں كى جزا وسز ا كى بنياد يہى چيز ہے نہ كوئي اور چيز _

۱۶۳

۷_قيامت كے دن، خداوندعالم كا جزا دينا ،در حقيقت خود انسان كے عمل كا مجسم ہونا ہے جو اس كے كردار كا ائينہ ہے_

ليجزى اللّه كل نفس ما كسبت

(سعى و كوشش كے مقابلے ميں ) جملہ ''بما كسبت '' كے بجائے جملہ ''ما كسبت'' انا ، اس حقيقت كى طرف اشارہ ہو سكتا ہے كہ الہى جزا و سزا اور انسانى عمل كے درميان مكمل وحدت پائي جاتى ہے_بلكہ ہم كہہ سكتے ہيں كہ يہ دونوں بعينہ ايك ہى چيز ہيں _

۸_انسا ن اپنى تمام حركات و سكنات و فعل و كردار كے مقابلے ميں ذمہ داراورايك مختا رمخلوق ہے_

ليجزى اللّه كل نفس ما كسبت

يہ كہ خدا وند عالم انسان كے عمل كے بارے ميں پوچھ گچھ كرتا ہے ،اس سے ظاہر ہوتا ہے كہ انسان ايك مختار اور ذمہ دار مخلوق ہے _چونكہ پوچھ گچھ اسى وقت معقول ہے كہ جب انسان صاحب اختيار اور ذمہ دار ہو _

۹_خداوند عالم كا انتقام لينا خود انسان كے عمل كا تقاضا ہے نہ انتقام جوئي كى خصلت كا نتيجہ_

ان اللّه عزيز ذوانتقام___ليجزى اللّه كل نفس ما كسبت

اس بات كى صراحت كرنا كہ خداوندعالم خود انسان كى سعى و كوشش كے برابر اسے جزا اور سزا ديتا ہے اس سے يہ حقيقت ظاہر ہوتى ہے كہ گذشتہ آيت مجيدہ كے مطابق خدا كا انتقام لينا ،انتقام جوئي كى خصلت كى بنا پر نہيں بلكہ خود انسان كے عمل اور كردار كے مطابق ہے_

۱۰_الہى جزا و سزا فقط انسان كے ارادى اعمال اور سعى و كوشش كے مقابلے ميں ہے نہ كہ ذاتى اور فطرى امور كے مقابلے ميں _ليجزى اللّه كل نفس ما كسبت

اس بات كى صراحت كرنا كہ خداوند عالم خود انسان كى سعى و كوشش كے برابر اسے جزا اور سزا ديتا ہے(ما كسبت)،ہو سكتاہے مندرجہ بالا مطلب كى طرف اشارہ ہو_

۱۱_خدا وند عالم''سريع الحساب'' (جلد حساب لينے والا)ہے_ان اللّه سريع الحساب

۱۲_ قيامت كے دن خدا وند عالم انسان كے اعمال كا حساب وكتاب بہت سرعت كے ساتھ انجام دے گا _

ليجزى اللّه كل نفس ما كسبت ان اللّه سريع

۱۶۴

الحساب

۱۳_دنيا ميں انسان كا عمل انجام پاتے ہى بغير كسى تاخير كے خدا وندعالم كى جانب سے اس كا دقيق حساب لے ليا جاتا ہے_ليجزى اللّه كل نفس ما كسبت ان اللّه سريع الحساب

مذكورہ مطلب اس بات پر مبنى ہے كہ جب خداوند عالم كے '' سريع الحساب ''ہونے سے اسى دنيا ميں اعمال كا حساب كتاب ليا جانا مراد ہو اور يہ حساب كتاب قيامت كے دن تك چھوڑا نہ جاتا ہو_بلكہ بندوں سے اعمال كے صادر ہوتے ہى انكو ثبت كر كے ان كا محاسبہ ہو جاتا ہو _

۱۴_خدا وند عالم كى الوہيت ،بندوں كى جزا وسزا كى مقتضى ہے_ليجزى اللّه ___ان اللّه سريع الحساب

ايك ہى آيت ميں بغير كسى صراحت كى ضرورت كے كلمہ جلالہ''الله ''كے انے سے مندرجہ بالا مطلب حاصل ہوتا ہے_

اسمان :اسمان كے تبديل ہونے كا فلسفہ ۱

افرينش :نظام افرينش اور جزا ۲;نظام افرينش اور سزا ۲ ; نظام افرينش كے تبديل ہونے كا فلسفہ ۱

اجر:اخروى اجر كے عوامل ۶;اجر كا پيش خيمہ ۱۴;اجر كے عوامل ۱۰;عمل اور اجر ميں تناسب۴

اختيار :اختيار كے اثرات ۱۰

اسماء و صفات :سريع الحساب ۱۱

الله تعالى :الله تعالى كى الوہيت كے اثرات ۱۴;الله تعالى كى طرف سے حساب و كتاب لينے ميں سرعت ۱۲ ،۱۳ ; الله تعالى كى طرف سے سزائيں ۷;الله تعالى كے انتقام كا سر چشمہ ۹

انسان :انسان كا اخيتار ۸،۱۰;انسانوں كى اخروى جزا ۱; انسانوں كى اخروى سزا ۱;انسان كى ذمہ داري ۸

زمين :زمين كى تبديلى كا فلسفہ ۱

سزا :اخروى سزا كے عوامل ۶;سزا كا پيش خيمہ ۱۴;سزا اور گناہ ميں تناسب ۴;سزا كے عوامل ۱۰

سزائيں :اخروى سزائوں كا عام ہونا ۳

سعادت :

۱۶۵

اخروى سعادت كے عوامل ۵

شقاوت :اخروى شقاوت كے عوامل ۵

عمل :عمل كااخروى اجر ۴;عمل كااخروى حساب وكتاب۱۲ ; عمل كا مجسم ہونا ۷; عمل كا حساب و كتاب ۱۳; عمل كے اثرات ۵،۶،۹،۱۰;عمل كى اخروى سزا ۴

قيامت :قيامت ميں جزا وسزا كا نظام ۳،۴،۶;قيامت ميں حقائق كا ظہور ۷

نظام سزا وجزا :۱۰

آیت ۵۲

( هَـذَا بَلاَغٌ لِّلنَّاسِ وَلِيُنذَرُواْ بِهِ وَلِيَعْلَمُواْ أَنَّمَا هُوَ إِلَـهٌ وَاحِدٌ وَلِيَذَّكَّرَ أُوْلُواْ الأَلْبَابِ )

بيشك يہ قرآن لوگوں كے لئے ايك پيغام ہے تا كہ اسى كے ذريعہ انھيں ڈرايا جائے اور انھيں معلوم ہوجائے كہ خدا ہى خدائے واحد و يكتا ہے اور پھر صاحبان عقل نصيحت حاصل كرليں _

۱_قران ،لوگوں كى طرف خداوندعالم كے پيغام كا ابلاغ ہے_هذا بلغ،للناس

مفسرين نے '' ھذا ''كے مشار اليہ كے بارے ميں تين احتمال ذكر كيے ہيں :ايك يہى اخرى ايات كہ جو دوزخيوں كى برى حالت كے بارے ميں ہيں _دوسرا اسى سورے كى ايات اور تيسرا خود قران كريم _مندرجہ بالا مطلب تيسر ے احتمال پر مبنى ہے _

۲_قران ،عالمى كتاب اورسب لوگوں كے لئے قابل فہم ہے_هذا بلغ،للناس

۳_قران ،تمام انسانوں كو ڈرانے اور خبردار كرنے كا وسيلہ ہے _هذا بلغ،للناس ولينذروا به

۴_ايمان سے عارى انسان ،ناقابل حل مشكلات ، صدمات اور خطرات سے دوچار ہوتا ہے_*هذا بلغ،للناس ولينذروا به

قران كو خداوندعالمنے انذار اور خبردار كرنے كا وسيلہ قرار ديا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ انسانوں كے راستے ميں بہت سے خطرات اور مشكلات موجود ہوتى ہيں كہ جن كے بارے ميں قران خبردار كر رہا ہے اور اگر انسان قران كى راہنمائي اور ہدايت سے استفادہ نہ كر ے اور اس پر ايمان نہ لائے تو ان ميں گرفتار ہو جائے گا_

۱۶۶

۵_قران ،انسان كى راہ ميں موجود مشكلات ،خطرات اور مصائب سے اس كى نجات كا باعث بنتا ہے_*

هذا بلغ،للناس ولينذروا به

۶_قران ،خدا وند يكتا سے انسانوں كى اگاہى اور اس كى وحدانيت كے بارے ميں انہيں ادراك عطا كرنے كے لئے (نازل ہوا )ہے_هذا بلغ،للناس___وليعلموا انما هو اله واحد

۷_قران ،وحدانيت خدا كى بولتى دليل ہے _هذا بلغ،للناس___وليعلموا انما هو اله واحد

مندرجہ بالا مطلب اس بات پر مبنى ہے كہ جب فقط قران كے مطالب توحيد كى تعليم نہ ديں بلكہ خودقران اپنى كيفيت اور خصوصيات كے ساتھ خدا كى يكتائي پر دليل ہو _

۸_خدا كى يكتائي كا اثبات اور لوگوں كو اس كى حقيقت سے اگاہ كرنا ہى قران كا بنيادى ترين موضوع اور اس كى تعليمات كا محور ہے_هذا بلغ،للناس___وليعلموا انما هو اله واحد

۹_اصول دين (توحيد وغيرہ ) كا علم ايك ضرورى چيز ہے _هذا بلغ،___وليعلموا انما هو اله واحد

يہ كہ خدا كى يكتائي اور وحدانيت كے بارے ميں لوگوں كا علم ،انذار اور ابلاغ وحى كا مقصد ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے كہ اس مقصد تك پہنچنا يعنى وحداينت خدا سے اگاہى حاصل كرنا ايك ضرورى چيز ہے_

۱۰_قران ،خالص عقل كے حامل افراد كى نصيحت پذيرى اور بيدارى كے لئے نازل ہوا ہے_

هذا بلغ،للناس ___ و ليذّكراولواالالباب

۱۱_ عقلمندى ،قرانى تعليمات اور معارف سے بہرہ مند ہونے كے شرائط اور ضرورى اسباب ميں سے ايك ہے_

هذا بلغ،للناس ___ و ليذّكراولواالالباب

۱۲_قران كى تعليمات اور معارف، خالص عقل كے مطابق اور اس كے ساتھ ہم اہنگ ہيں _

هذا بلغ،للناس ___و ليذّكراولواالالباب

يہ كہ خدا نے اہل عقل كى نصيحت پذيرى كو نزول قران كا مقصدقرار ديا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے

۱۶۷

كہ قران عقلى معيار كے مطابق اور اس سے ہم اہنگ ہے اور اگر ايسا نہ ہوتا تو اہل عقل اس سے نصيحت حاصل نہ كرتے بلكہ نتيجہ اس كے برعكس ہوتا_

۱۳_خالص عقل كے حامل افراد كو پند ونصيحت كرنا ہى تعليمات قران كااہم ترين محور اور اس كے بنيادى موضوعات ميں سے ہے_هذا بلغ،للناس ___و ليذّكراولواالالباب

انذار :انذار كا وسيلہ ۳

انسان :انسان كے خطرات سے دوچار ہونے كا پيش خيمہ ۴

اہل عقل :اہل عقل كو ياد دہانى ۱۳;اہل عقل كى عبرت پذيرى ۱۰

ايمان :ايمان كے اثرات ۴

تعقل:تعقل كے اثرات ۱۱

توحيد :توحيد كا پيش خيمہ ۶;توحيد كى اہميت ۸،۹;توحيد كے دلائل ۷

دين :دين كى عقلانيت ۱۲;اصول دين كے علم كى اہميت ۹

عبرت :عبرت كے عوامل۱۰

قران كريم :قران كريم اور عقل ۱۲; قران كريم سے استفادے كى شرائط ۱۱;قران كريم كانجات بخش ہونا۵;قران كريم كاكردار ۳،۵ ،۶ ، ۷، ۱۰ ; قران كريم كاوحى ہونا ۱; قران كريم كا واضح ہونا ۲;قران كريم كى اہميت ۵;قران كريم كى خصوصيات۲;قران كريم كى اہم ترين تعليمات ۸، ۱۳;قران كريم كى عا لمگيرى ۲;قران كريم كى عقلانيت ۱۲;قران كريم كے انذار۳;قران كريم كے نزول كا فلسفہ ۱۰; قران كريم كے فہم كى سہولت ۲

تنبہ:متنبہكرنے كے عوامل۱۰

۱۶۸

۱۵- سوره حجر

آیت ۱

( بسم الله الرحمن الرحیم )

( الَرَ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ وَقُرْآنٍ مُّبِينٍ )

بنام خدائے رحمان و رحيم

الريہ كتاب خدا اور قرآن مبين كى آيات ہيں _

۱_''الر'' رموز قران ميں سے ہے_الر تلك آيات الكتاب

۲_''الر '' قران كريم كى ايات ميں سے ہے اور عظمت كا حامل ہے _الر تلك آيات الكتاب

مندرجہ بالا مطلب اس احتمال كى بنا ء پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب ''الر ''مبتدا اور جملہ ''تلك ايات الكتاب ''اُس كى خبر ہو_

۳_سورہ حجر كى ايات ،قدرومنزلت اور عظمت وقداست كى حامل ہيں _تلك آيات الكتاب

مندرجہ بالا مطلب اس بات پر مبنى ہے كہ جب ''تلك'' كا مشار اليہ يہى سورہ حجر ہو _''تلك '' چونكہ دور كے لئے اشارہ ہے لہذا ہو سكتا ہے اس سورہ كى عظمت كو بيان كر نے كے لئے لايا گيا ہو_

۴_قران كى تمام ايات كے نزول كا سلسلہ ختم ہو نے سے پہلے ہى اسے كتاب كے عنوان سےمتعارف كيا گيا ہے_

الر تلك آيات الكتاب و قرآن مبين

باوجوداس كے كہ يہ سورہ مكى ہے اوراس وقت تك قران كى تمام ايات نازل نہيں ہوئي تھيں پھر بھى قران كا'' كتاب '' كے عنوان سے تعارف كرايا جارہا ہے_

۵_اخرى اسمانى كتاب كا نام ''قران ''ركھا جانا اور اسكي''ايات'' كے عنوان سے تقيسم بندى كرنا، خداوند عالم كى جانب سے تھا_الر تلك آيات الكتاب و قرآن مبين

۶_قران كى ايات ،لوح محفوظ سے نازل ہونے والى ايات ہيں _الر تلك آيات الكتب و قرآن مبين

۱۶۹

يہ كہ لفظ ''قران ''كو ''الكتاب '' كے بعد ذكر كيا گيا ہے نيز اصل يہ ہے كہ لفظ مترادف لانا تاسيس ہے نہ كہ تاكيد و تكرار_ لہذا احتمال ہے كہ ''الكتاب'' سے مراد لوح محفوظ ہو_

۷_قران، خداوندعالم كى بار گاہ ميں ايك بلند مرتبہ اور قدرو منزلت كى حامل كتاب ہے_و قرآن مبين

''قران'' كى تنوين تنكير ،تفخيم اور تعظيم كے لئے ہے اور مذكورہ نكتے پر دلالت كر رہى ہے_

۸_قران كريم كى ايات واضح اور قابل فہم ہيں _و قرآن مبين

مندرجہ بالا مطلب ''مبين '' كے لازم ہونے پر موقوف ہے كہ جوبمعنى واضح اور اشكار ہے_

۹_قران كى ايات حق و باطل كو جدا اور اُن دونوں كے درميان تميز كرنے والى ہيں _و قرآن مبين

مندرجہ بالا مطلب ''مبين '' كے متعدى ہونے پر موقوف ہے كہ جو لغت ميں ''دو چيزوں كو جدا كرنے والى شے '' كے معنى ميں ايا ہے اور موقع و محل كے قرينے سے يہاں اس سے مراد حق وباطل كے درميان تمايز و جدائي پيدا كرنا ہے_

۱۰_''عن جابر بن عبداللّه الا نصارى قال: وجدت سيدى على بن الحسين عليه‌السلام يدعو وقال: الهى و سيدى و قلت: ''ا لرتلك ايات الكتاب'' ثنيت بالكتاب مع القسم الذى هو اسم من اختصصته لوحيك واستودعته سرّغيبك ... ;(۱) حضرت جابر بن عبد الله انصارى سے منقول ہے كہ ميں نے اپنے مولا واقا على بن الحسينعليه‌السلام كو ديكھا كہ اپعليه‌السلام يہ دعا كر رہے تھے اور فرما رہے تھے : اے ميرے معبود اور ميرے اقا تو نے ہى فرمايا ہے :''ا لرتلك ايات الكتاب'' تو نے اپنى كتاب كو اُس قسم كے ساتھ ذكر كيا ہے كہ جس كے نام كو تو نے اپنى وحى سےمخصوص كيا ہے اور اپنے غيب كے راز اُسكے سپرد كيے ہيں ...''

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور خدا كے درميان رموز ۱۰

الله تعالى :الله تعالى كے افعال ۵

حروف مقطعہ :۱

حروف مقطعہ كا فلسفہ ۱۰;حروف مقطعہ كى عظمت ۲

حق:حق وباطل كے درميان مميز ۹

____________________

۱_نور الثقلين ،ج۲،ص ۲۹۱;بحار الانوار ،ج۸۸، ص۸ ، ح۳_

۱۷۰

روايت:۱۰

سورہ حجر :سورہ حجر كى ايات كى عظمت ۳

قران كريم :قران كريم اور لوح محفوظ ۶;قران كريم كا كردار ۹;قران كريم كا واضح ہونا ۸;قران كريم كي

ايات ۲;قران كريم كى آيت بندى ۵;قران كريم كى ايات كى خصوصيات ۹;قران كريم كى ايات كا نزول۶;قران كريم كى تاريخ ۴;قران كريم كى عظمت ۷;قران كريم كى نام گذارى ۵; قران كريم كے نام ۴;قران كريم كے رموز ۱; قران كريم كے فہم ميں سہولت ۸

كتاب :۴

آیت ۲

( رُّبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَوْ كَانُواْ مُسْلِمِينَ )

ايك دن آنے والا ہے جب كفاربھى يہ تمنا كريں گے كہ كاش ہم بھى مسلمان ہوتے _

۱_اسلام لانے كى فرصت ہاتھ سے كھو دينے كے بعد كفار كا مسلمان ہونے بہت زيادہ كى تمنا و ارزو كرنا_

ربما يودّالذين كفروالوكانوامسلمين

فعل ماضى ''كانوا'' كے قرينے سے ''يود'' سے مراد بطور مطلق دوست ركھنا نہيں بلكہ اس كا معنى تمنا اور ارزو ہے _اور ايت ميں ''ربما'' تكثير كے معنى ميں استعمال ہو اہے_

۲_عذاب يا موت كے روبرو ہونے پر كفار كا قران كے سامنے تسليم ہوجانے كى گہرى ارزو كرنا _

تلك آيات الكتب و قرآن مبين۰ربما يودّالذين كفروالوكانوامسلمين

احتمال ہے كہ ''كفروا'' كا متعلق پچھلى ايت ميں موجود كلمہ'' قران'' ہو اور قاعدے كے مطابق كفار كى تسليم ہونے كى ارزو كسى ايسے حادثے كے روبرو ہونے كے بعد ہى ہونى چاہيے كہ جس سے نجات ممكن نہيں اور وہ عذاب ہى ہے_

۳_كفار،بہت كم اسلام قبول كرنے كى ارزو كرتے ہيں _ربما يودّالذين كفروالوكانوامسلمين

۱۷۱

مندرجہ بالا مطلب اس بات پر مبنى ہے كہ جب حسب معمول ''ربما'' بمعنى قلت ہواور ''يود'' اپنے اصلى معنى (يحب) ميں استعمال ہوا ہو _ بعد والى ايت(ذرهم ياكلوا و يتمتعوا ...) بھى اسى مطلب كى تائيد كر رہى ہے_

۴_مسلمان اور خدا كے سامنے تسليم ہونے كاانجام بہت اچھا اور پسنديدہ ہے_ربما يودّالذين كفروالوكانوامسلمين

۵_فقط نزول عذاب اور موت كے روبرو ہونے سے پہلے اسلام لاناقابل قبول ہے_ربما يودّالذين كفروالوكانوامسلمين

۶_كفر اختيار كرنے كا نتيجہ ،فقط پشيمانى اور ندامت ہے_ربما يودّالذين كفروالوكانوامسلمين

۷_''عن عبداللّه بن عطاء المكى قال:سا لت ا با جعفر عليه‌السلام عن قول اللّه:''ربما يودّالذين كفروالوكانوامسلمين '' قال: ينادى مناد يوم القيامة يسمع الخلائق:انه لايدخل الجنة الّا مسلم ثمّ يودّ سائر الخلق ا نهم كانوا مسلمين ;(۱) عبد الله بن عطا مكى كا كہنا ہے كہ ميں نے امام باقر عليہ السلام سے خدا كے اس قول :''ربما يودّالذين كفروالوكانوامسلمين ''كے بارے ميں پوچھا تو امامعليه‌السلام نے فرمايا:قيامت كے دن ايك منادى اس طرح صدا دے گا كہ جسے سب لوگ سن رہے ہوں گے كہ'' يقيناً بہشت ميں سوائے مسلمان كے اور كوئي بھى داخل نہيں ہو گا _اس وقت سارے لوگ ارزو كريں گے كہ كاش ہم مسلمان ہوتے''_

۸_''عن جابر بن عبداللّه قال:قال رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان ناساً من ا متى يعذبون بذنوبهم فيكونون فى النار ماشاء اللّه ا ن يكونوا، ثم يعيرهم ا هل الشرك فيقولون:مانرى ماكنتم فيه من تصديقكم نفعكم فلايبقى موحّد الّا ا خرجه اللّه تعالى من النار، ثم قرا رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :''ربما يودّالذين كفروا لوكانوا مسلمين '' ;(۲) جابر بن عبد الله نے روايت كى ہے كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا: بتحقيق ميرى اُمت ميں سے كچھ لوگ اپنے گناہوں كى وجہ سے عذاب ميں مبتلا ہوں گے_پس وہ جب تك خدا چاہے گا اگ ميں رہيں گے_اس كے بعد اہل شرك اُنہيں سرزنش كريں گے اور كہيں گے:ہم نہيں ديكھتے كہ تمہارے ايمان نے تمہيں كوئي فائدہ پہنچايا ہو_ پس اسوقت كوئي بھى موحد انسان باقى نہيں رہے گا كہ جسے خدا نے جہنم كى اگ سے نكال نہ ليا ہو_اس كے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس ايت كى تلاوت فرمائي :''ربما يودّالذين كفروالوكانوامسلمين ''

____________________

۱)تفسير عياشى ،ج۲،ص۲۳۹،ح۱;نور الثقلين ،ج۳،ص۲،ح۳_

۲)الدرالمنثور ،ج۵،ص۶۲_

۱۷۲

ارزو:مسلمانى كى ارزو۱،۲،۷،۸

اسلام :قبول اسلام كى شرائط ۵

پشيمانى :پشيمانى كے عوامل ۶

تسليم :خدا كے سامنے تسليم ہونے كا انجام ۴

روايت :۷،۸

كفار:كفار اور اسلام ۱، ۳;كفار اور قران ۲;كفار عذاب كے وقت ۲ ;كفار كى اُخروى ارزو۷;كفار كى ارزو ۱، ۲، ۳;كفار كى خواہشات ۱; كفار موت كے وقت۲

كفر:كفر سے پشيمانى ۶;كفر كے اثرات ۶

مسلمان:مسلمانوں كا حسن انجام ۴;مسلمانوں كى اُخروى نجات۸

مشركين :قيامت كے دن مشركين كا طعن ۸

آیت ۳

( ذَرْهُمْ يَأْكُلُواْ وَيَتَمَتَّعُواْ وَيُلْهِهِمُ الأَمَلُ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ )

انھيں ان كے حال پر چھوڑ دوكھائيں پئيں اور مزے اڑائيں اور اميديں انھيں غفلت ميں ڈالے رہيں عنقريب انھيں سب كچھ معلوم ہوجائے گا_

۱_كفار مكہ كى طرف سے حق كوقبول نہ كرنے پر پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا فريضہ ہے كہ اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُن كو اپنے حال پر چھوڑ ديں اور اُن كے ساتھ بحث نہ كريں _ذرهم يا كلوا ويتمتّعوا

۲_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كفار كى ہدايت كے لئے بہت زيادہ كوشش كى ہے _ذرهم يا كلوا ويتمتّعوا

يہ كہ خدا وند عالم پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو حكم ديتا ہے كہ ''اُن كو اپنے حال پر چھوڑ دو''اس سے معلوم ہوتا ہے كہ انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن كو كفر سے نجات دلانے كے لئے بہت زيادہ كوشش كى تھي_

۱۷۳

۳_حق سے فرار كرنے اور ہدايت قبول نہ كرنے والوں كے لئے نہ دل جلانا چاہيے اورنہ اُن پرسرمايہ صرف كرنا چاہےيے_

ذرهم يا كلوا ويتمتّعوا

۴_صدر اسلام كے ناقابل ہدايت كفار كى سارى كوشش كھانے پينے اور مادى لذات سے بہرہ مندہونے ميں صرف ہوتى تھي_ذرهم يا كلوا ويتمتّعوا

۵_كھانا پينا ،لذت اُٹھانا ،دنيوى مال و منال اور لذات سے بہر ہ مند ہونا اور بيہودہ خواہشات ميں ڈوبے رہنا ہى كفار كا سب سے بڑا مقصد ہے_ذرهم يا كلوا ويتمتّعوا و يلههم الا مل

۶_مادى لذات اور خواہشات ميں ڈوبے رہنا انسان كو دينى حقائق كے سامنے تسليم ہونے سے روكتا ہے_

ربما يودّالذين كفروالوكانوامسلمينذرهم يا كلوا ويتمتّعوا

جملہ '' ذرھم يا كلوا ويتمتّعوا___ '' كہ جو كفار كے حالات بيان كر رہا ہے ہو سكتا ہے اس چيز كا جواب اور علت بيان كر رہا ہو كہ وہ اسلام كيوں نہيں لاتے اور اخر كا ر كيوں پشيمان ہو تے ہيں ؟

۷_دينى تعليمات كے سامنے تسليم ہونے كے بغير زندگى بيہودہ اور عمر كا زياں ہے_ذرهم ...و يلههم الا مل

''لھو'' لغت ميں ايسى چيز كو كہتے ہيں كہ جو انسان كو مشغول ركھتى ہے اور اُسے اپنے مقصد و مراد سے روكے ركھتى ہے _لہذا جو شخص اپنے ہدف ومقصد كو پورا نہ كر سكے گويا وہ اپنى عمر كو ضائع كر ديتا ہے_

۸_دنيوى فوائد اور لذات سے زيادہ سے زيادہ بہرہ مند ہونے كے لئے اپنى سب كوششيں صرف كرنا اور بيہودہ ارزوئوں سے دل لگانا ايك ناپسنديدہ اور قابل مذمت كام ہے_ذرهم يا كلوا ويتمتّعوا و يلههم

يہ ايت اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ ہدايت قبول نہ كرنے والے كفار كا سارا ہم و غم دنيوى لذات ہيں لہذا اُن كو اپنے حال پر چھوڑ دينا چاہيے _ اس سے اُن كے بارے ميں خدا وند عالم كى ناراضگى ظاہر ہوتى ہے_

۹_صدر اسلام كے ناقابل ہدايت كفار ،بيہودہ ارزوئوں ميں سر گرم رہتے تھے_ذرهم ...و يلههم الا مل

۱۰_بيہودہ ارزوئوں ميں سرگرم رہنا، حق كے سامنے تسليم ہونے اور ہدايت قبول كرنے كے مانع بنتا ہے_

ربما يودّالذين كفروالوكانوامسلمينذرهم ...و يلههم الا مل

۱۱_خداوند عالم كا صدر اسلام كے كفار كو مستقبل ميں اسلام كى حقانيت كے اشكار ہوجانے كى خبر دينا_

ربما يودّالذين كفروا ...فسوف يعلمون

۱۷۴

مندرجہ بالا مطلب اس بات پر مبنى ہے كہ جب''يعلمون '' كا مفعول اور علم كا متعلق اسلام كى حقانيت ہوكہ جس كا وہ انكار كرتے تھے_

۱۲_ناقابل ہدايت كفار كو خداوند متعال كى جانب سے بُرى عاقبت ميں گرفتار ہونے كى دھمكى ملنا_

ذرهم ...فسوف يعلمون

مندرجہ بالا مطلب اس احتمال پر مبنى ہے كہ جب ''يعلمون '' ميں مفعول بہ اور متعلق علم ،ان كے اعمال كى عاقبت اور انكا انجام ہو_

۱۳_دنيوى لذات ميں ڈوبے رہنے اور مسلسل كفر اختيار كيے ركھنے كا انجام پشيمانى ہے_

ربما يودّالذين كفروا لوكانوا مسلمينذرهم يا كلوا ...فسوف يعلمون

۱۴_دنيا طلب كفار كو بُرى عاقبت كى تہديد اور خبردار كيا جانا،كفر اور دنيا پرستى سے روكنے كى ايك روش ہے_

ربما يودّالذين كفروا ...ذرهم يا كلواو ...فسوف يعلمون

ارزو:باطل ارزوئوں كے اثرات ۱۰;ناپسنديدہ ارزو۸

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور كفار كى ہدايت ۲;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا ہدايت كرنا ۲;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى كوشش ۲;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى مسوئوليت ۱

اسلام :حقانيت اسلام كا ظاہر ہونا ۱۱

الله تعالى :الله تعالى كے انذار ۱۲

انذار :انذار كے اثرات ۱۴;برے انجام سے انذار ۱۲، ۱۴

پشيمانى :پشيمانى كے اسباب ۱۳

حق :حق قبول نہ كرنے كے موانع۶،۱۰;حق كو قبول نہ كرنے والوں سے بے مہر ہونا ۳

دنيا پرست لوگ:دنيا پرست لوگوں كا بُرا انجام ۱۴

دنيا پرستي:دنيا پرستى كا مقابلہ كرنے كا طريقہ ۱۴;دنيا پرستى كا ناپسنديدہ ہونا ۸;دنيا پرستى كے اثرات ۶

دين :دينى افات كى پہچان ۶;دين كى اہميت ۷

۱۷۵

زندگى :ناپسنديدہ زندگى ۷

دلچسپياں :مادى لذائد ميں دلچسپيوں كا انجام۱۳;مادى لذائد ميں دلچسپيوں كا ناپسنديدہ ہونا ۸;مادى لذائد ميں دلچسپيوں كے اسباب ۱۳

عمر :عمر كى تباہى كے موارد ۷

عمل :ناپسنديدہ عمل ۸

قران كريم :قران كريم كى پيشگوئي ۱۱

كفار :صدر اسلام كے كفار كى باطل ارزوئيں ۹;كفار كى باطل ارزوئيں ۵;صدر اسلام كے كفار كے مادى لذائذ۴;صدر اسلام كے كفار كى دنيا پرستى ۴;صدر اسلام كے كفار كى سر گرمى ۹;كفار اور اسلام كى حقانيت ۱۱;كفار كا انذار۱۲;كفار كا بُرا انجام ۱۲ ، ۱۴ ; صدر اسلام كے كفار كى كوشش ۴;كفار كى دنيا پرستى ۵; كفار كے مقاصد ۵;كفار كے مادى لذائذ۵

كفار مكہ :كفار مكہ كى حق ناپذيرى ۱;كفار مكہ كے ساتھ بحث و تكرار كى ممانعت ۱

كفر :كفر پر اصرار كا انجام ۱۳;كفر كا مقابلہ كرنے كا طريقہ ۱۴

ہدايت :ہدايت كے موانع ۱۰

آیت ۴

( وَمَا أَهْلَكْنَا مِن قَرْيَةٍ إِلاَّ وَلَهَا كِتَابٌ مَّعْلُومٌ )

اور ہم نے كسى قريہ كو ہلاك نہيں كيا مگر يہ كہ اس كے لئے ايك ميعاد۱_مقرر كردى تھى _

۱_ہر انسانى معاشرے كى ہلاكت و نابودى ايك معين اور لكھى ہوئي اجل اور قانون كے مطابق ہوتى ہے_

وما ا هلكنا من قرية الّا ولها كتاب معلوم

۲_معاشروں ميں اموات ، ہلاكتيں اور قدرتى تحولات خداوند متعال كے ہاتھ ميں ہيں اور اُسى كى تقدير كے مطابق انجام پاتے ہيں _

۱۷۶

وما ا هلكنا من قرية الّا ولها كتاب معلوم

۳_خداوند متعال كا مكہ كے ناقابل ہدايت كفار كو خبر دار كرنا كہ اُنہيں مہلت دينا اُن كى زندگى كو دوام دينے كے مترادف نہيں بلكہ وہ ہميشہ ہلاكت كے خطرے سے دوچار ہيں _ربما يودّالذين كفروالوكانوامسلمينذرهم ...فسوف يعلمونوما ا هلكنا من قرية الّا ولها كتاب معلوم

'' فسوف يعلمون '' جيسى تہديد كے بعد اس ايت كو ذكر كرنا شايد اس مقدرشبہہ كے جواب كى خاطر ہو كہ : كفار '' ذرھم يا كلوا ___ ''كے حكم كے ذريعے مہلت حاصل كر لينے كے بعد يہ خيال نہ كريں كہ اب اُن كى زندگى اسى طرح جارى رہے گي_

۴_خدا وند متعال كے عذاب اور وعيدكے بارے ميں پيش انے والے شبہات كو ختم كرنے اور اذہان كو روشن كرنے كے لئے كفار كے بارے ميں خدا كے عذاب اور وعيد كے پورا ہونے كے متعلق قاعدے و قانون كى وضاحت وتبيين كى جانا_وما ا هلكنا من قرية الّا ولها كتاب معلوم

'' فسوف يعلمون '' جيسى تہديد كے بعد اس ايت كو ذكر كرنا شايد اس مقدر اعتراض كا جواب دينا مقصود ہو كہ جس كے مطابق ہو سكتا ہے كفار كہيں :يہ عذاب فوراً كيوں نہيں اتااور ايسى وعيد اور دھمكى كب اور كيسے پورى ہو گي؟تو انہيں خدا جواب ديتا ہے:عذاب اور وعيد الہى ايك قانون و قاعدے كے مطابق انجام پاتى ہيں _

۵_تاريخى تحولات اور واقعات ميں خداوند متعال كى مشيت و ارادے كى دخالت _

وما ا هلكنا من قرية الّا ولها كتاب معلوم

۶_انسانى معاشروں سے متعلق اخبار و اطلاعات كا ايك معين كتاب و ذخيرہ اطلاعات پر مشتمل ہونا _

وما ا هلكنا من قرية الّا ولها كتاب معلوم

۷_ہر معاشرہ، اپنے افراد سے الگ شناخت ،حيات اورمعين قوانين كا حامل ہو تا ہے_

وما ا هلكنا من قرية الّا ولها كتاب معلوم

اجتماعى تحولات:اجتماعى تحولات كاسرچشمہ ۲

اجل :اجل مسمى ۱

الله تعالى :الله تعالى كى مثبت كا كردار ۵;الله تعالى كى مہلتيں ۳ ; الله تعالى كے وعيدوں كاتحت ضابطہ ہونا ۴;الله تعالى كے وعيد وں كايقينى ہونا ۴;الله تعالى كے اختصاصات۲;الله تعالى كے ارادے كااثر ۵ا ; الله تعالى كے انذار ۳;الله تعالى كے مقدرات ۲

۱۷۷

انذار :ہلاكت سے انذار ۳

تاريخ :تاريخى تحولات كا سر چشمہ ۵

حوادث:حوادث كا ذخيرہ اطلاعات۶

قران كريم :قران كريم كى تعليمات ۴

كفار مكہ :كفار مكہ كو مہلت كا فلسفہ ۳;كفار مكہ كے انذار ۳

مصائب :مصائب كا طبيعى سر چشمہ ۲

معاشرہ:معاشروں كا تحت ضابطہ ہونا ۷;معاشرے كا وجود۷;معاشرے كى اجل ۱;معاشرے كى حقيقت ۷; معاشرے كى حيات ۷;معاشروں كى ہلاكت كا تحت ضابطہ ہونا ۱

موت:موت كا سر چشمہ ۲

آیت ۵

( مَّا تَسْبِقُ مِنْ أُمَّةٍ أَجَلَهَا وَمَا يَسْتَأْخِرُونَ )

كوئي امت نہ اپنے وقت سے آگے بڑھ سكتى ہے اور نہ پيچھے ہٹ سكتى ہے _

۱_كوئي اُمت اپنى اجل (موت) كو مقرر شدہ وقت سے اگے نہيں لے جاسكتى _ما تسبق من ا مة ا جلها

۲_ہر اُمت خداوند متعال كى جانب سے ايك مقرر ، معين اورناقابل تغيير اجل ركھتى ہے_

ما تسبق من ا مة ا جلها

۳_كوئي بھى اُمت وقوم اپنى تعيين شدہ اجل كو ٹالنے كى طاقت نہيں ركھتي_ما تسبق من ا مة ا جلها وما يستئخرون

اجل :اجل مسمى ۱،۲،۳

۱۷۸

الله تعالى :الله تعالى كے مقدرات۲

اُمم :اُمم كا عاجز ہونا ۱،۳;اُمم كى اجل ۱،۲،۳

آیت ۶

( وَقَالُواْ يَا أَيُّهَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ إِنَّكَ لَمَجْنُونٌ )

اور ان لوگوں نے كہا كہ اے وہ شخص جس پر قرآن نازل ہواہے تو ديوانہ ہے _

۱_كفار مكہ كا پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے گفتگو كرتے وقت اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو بے ادبى اور استہزاء كے ساتھ مخاطب كرنا_

وقالوا ىاأيهاالذى نزّل عليه الذّكر

يہ كہ كفار پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو مخاطب كرتے وقت اسم ولقب سے ياد كرنے كے بجائے ،انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كواسم موصول اور صيغہ غائب سے مخاطب كرتے تھے نيز يہ كہ اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو ايسى نسبت ديتے كہ جس كو وہ خود بھى قبول نہيں كرتے تھے_ اس سے مندرجہ بالا نكتہ اخذ ہوتا ہے_

۲_''قران كا ذكر ہونا'' ايك ايسى صفت ہے كہ جس سے كفار مكہ اشنا تھے_وقالوا ىاأيهاالذى نزّل عليه الذّكر

۳_كفار مكہ، پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اپنے اوپر وحى كے نزول كا دعوى كرنے كى وجہ سے مجنون و ديوانہ جانتے تھے_

وقالوا ىاأيهاالذى نزّل عليه الذّكرانك لمجنون

تاريخى شواہد گواہ ہيں كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دعوى نبوت سے پہلے وہ لوگ اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايسى تہمت نہيں لگاتے تھے _پس يہ تہمت مذكورہ نكتے ہى كى وجہ سے تھي_

۴_كفار مكہ، پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر وحى كے نزول كو محض ايك ادعا سمجھتے تھے_وقالوا ىاأيهاالذى نزّل عليه الذّكر

نزول ذكر كا سبب ذكر نہ كرنے اور فعل ''نُزل'' كو مجہول لانے اور اُسے استہزاء كى صورت ميں بيان كرنے سے مذكورہ نكتہ اخذ ہوتا ہے_

۵_كفار مكہ كے نزديك انسان پر خدا وند عالم كى جانب سے وحى نازل ہونا ايك ناقابل قبول اور ديوانگى كى حد تك عقل سے دور چيزتھي_وقالوا ىا يهاالذى نزّل عليه الذّكرانك لمجنون

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

۱۷۹

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جنون كى تہمت۳;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر وحي۳،۴ ;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا استہزاء ۱

اسلام :تاريخ صدر اسلام ۱،۳،۴

ذكر :۲

قران كريم :قران كريم كے نام ۲

كفار مكہ:كفار مكہ اور انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۱،۳;كفار مكہ اور قران ۲; كفار مكہ اور نبوت بشر ۵;كفار مكہ اور وحى ۴;كفار مكہ كا طرز عمل۱،۳;كفار مكہ كى بے ادب گفتگو ۱; كفار مكہ كى تہمتيں ۳;كفار مكہ كى بصيرت ۴،۵;كفار مكہ كے استہزاء ۱

آیت ۷

( لَّوْ مَا تَأْتِينَا بِالْمَلائِكَةِ إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ )

اگر تو اپنے دعوى ميں سچاہے تو فرشتوں كو كيوں سامنے نہيں لاتاہے_

۱_ كفار مكہ، پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبو ت كى تصديق كر نے كے لئے فرشتے لانے كا تقاضا كرتے تھے_

قالوا ...لو ما تا تينا بالملئكة ان كنت من الصدقين

''لو ما''بھى ''ھلا ''و ''لولا '' كى طرح تحضيض كے لئے ہے_

۲_كفار مكہ ،نزول وحى كے دعوى ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى صداقت كى دليل كے لئے فرشتوں كے انے كوہى اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تصديق جانتے تھے_لو ما تا تينا بالملئكة ان كنت من الصدقين

۳_كفار مكہ ،پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے معجزہ كے طور پر ملائكہ لانے كا تقاضا كرتے تھے_

لو ما تا تينا بالملئكة ان كنت من الصدقين

كفار مكہ كى طرف سے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ذريعے ملائكہ لانے كا تقاضا ياتو نبوت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تصديق كے لئے تھا يا اُن كا فرمائشى معجزہ تھا ،مندرجہ بالا مطلب دوسرے احتمال كى بناء پر اخذ كيا گيا ہے_

۴_كفار مكہ، كا اعتقاد تھا كہ انسان پرنازل ہونے والاہر اسمانى پيغام كسى محسوس اسمانى شاہد كے ہمراہ ہونا چاہيے_

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779