تفسير راہنما جلد ۹

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 779

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 779 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 212640 / ڈاؤنلوڈ: 3608
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۹

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

''المیزان'' میں مرحوم علامہ طباطبائی کا کلام الٰہی کے امتحانوں کے سلسلہ میں تربیتی عنوان سے قابل توجہ ہے: ''... اس وجہ سے انسانوں کے لئے عام الٰہی تربیت حُسن عاقبت اور سعادت اس دعوت دینے کے اعتبار سے امتحان ہے کیونکہ انسان کے لئے حالات کو مشخص و معین اور آشکار کرتی ہے کہ آیا یہ شخص کس عالم سے متعلق ہے: عالم ثواب وا جزا یا عالم عقاب و سزا۔ اس وجہ سے خداوند متعال اپنے تصرفات کو حوادث کی تشریع اور توجیہ کے عنوان سے بلائ، ابتلأ اور فتنہ نام دیتا ہے، مثال کے طور پر عام عنوان سے فرماتا ہے: (اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً )(١) ''بے شک ہم نے روئے زمین کی ہر چیز کو زمین کی زینت قرار دیا ہے تاکہ ان لوگوں کا امتحان لیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے '' یا فرماتا ہے: (وَنَبْلُوکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَةً )(٢) ''... اور ہم اچھائی اور برائی کے ذریعہ تم سب کو آزمائیں گے...'' یافرماتا ہے:(اَنَّمَا اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَة )(٣) '' تمہارے اموال اور اولاد فتنہ ہیں'' وغیرہ۔

یہ آیات جیسا کہ آپ ملاحظہ کررہے ہیں انسان سے متعلق ہر مصیبت وبلا کو ''الٰہی امتحان وآزمائش'' شمار کرتی ہیں تمام امور کے لئے جیسے اس کا وجود، اس کے اجزا اور اعضاء جیسے آنکھ، کان یا اس کے وجود سے خارج چیزیں جو اُس سے مربوط ہیںجیسے اولاد بیوی، رشتہ دار، احباب، مال، جاہ و مرتبہ مقام اور وہ تمام امور کہ جن سے وہ کسی قسم کا فائدہ حاصل کرتاہے، اسی طرح ان کے مقابل امور جیسے موت اور تمام مصیبتیں ۔ ان آیات میں افراد کے اعتبار سے بھی ایک عمومیت پائی جاتی ہے یعنی مومن وکافر، نیکوکار اور گناہگار، انبیاء اور ان سے کم درجہ والے سارے افرادمعرض بلا و امتحان میں ہیں، لہٰذا یہ اﷲ کی ایک جاری وساری سنت ہے کہ کوئی اس سے الگ نہیں ہوسکتا''۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔکہف آیت ٧۔

٢۔ سورۂ انبیاء آیت ٣٥۔

٣۔سورۂ تغابن آیت ١٥ ۔

٤۔ المیزان ج٤ ص٣٦۔

۲۲۱

یہ بات کہ امتحان اور ابتلاء جملہ امور میں تمام افراد کے لئیاﷲ کی بلا استثناء ایک جاری سنت ہے ، ابتلا کے تربیتی روش سے منافات نہیں رکھتی، کیونکہ اس طرح کے امور کے ساتھ ہمارے طرز عمل کو ایک تربیتی طرز کے عنوان سے مانا جاسکتا ہے یعنی مشکلات میں صبر وتحمل اور نعمات میں شکر کہ جس کی بازگشت ہمارے طرز عمل ہی کی جانب ہے، خود اخلاقی تربیت کے عوامل میں محسوب ہوسکتا ہے: اور ہم قطعی طور پر تم کو کچھ چیزوں جیسے خوف،بھوک، اموال، نفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور ان صابروں کو بشارت دیدو، (وہی لوگ) کہ جب ان پر مصیبت پڑتی ہے، کہتے ہیں: ''ہم خدا ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جائیں گے''(١)

اس کے علاوہ اگرچہ آیات میں خیر وشر، نعمت ونقمت، سختی اور سہولت سب کو امتحان اور ابتلا کے مصادیق میں شمار کیا گیا ہے حتی کہ بعض روایات میں شکر و کشادگی کی منزل میں طرز عمل کو صبر وناگواری کے وقت سے زیادہ سخت جانا گیا ہے، لیکن جو چیز امتحان کے موقع پر افراد کی توجہ کا زیادہ تر مرکز ہوتی ہے وہ ناگوار ، رنج آمیز اور اندوہگین حوادث وواقعات کا مقابلہ کرنا ہے، چنانچہ مذکورہ آیت میں تصریح کی گئی ہے کہ خوفناک اور ہولناک امور، بھوک، دلبندوں اور عزیزوں کے فقدان، اموال اور سرمایہ حیات کی نسبت آفات وحوادث وغیرہ سے (کہ جنھیں اصطلاح میں ''مصیبت'' کہا جاتا ہے) تمھیں آزمائیں گے، ان امور کا مقابلہ کرنے کے لئے آمادگی اور اُن سے ہمارا طرز مقابلہ ان میدان کو ایک تربیتی اور اصلاحی مدرسہ بناسکتا ہے۔

ابتلاء اور سختیوں سے مقابلہ کے تربیتی علائم روایات میں یوں بیان ہوئیہیں: گناہ سے پاک ہونا، باطنی خاکساری وتذلل اور خارجی سرافرازی وسربلندی، کبرونخوت کا زائل ہونا، درجہ بلند ہونا، شدائد ومشکلات کے سامنے ثابت قدمی، آخرت اور خدا کی ملاقات کا اشتیاق۔

''...یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ خدا نے جو کچھ تمھارے دلوں میں ہے (عمل میں) آزمائش کرے اور جوکچھ تمہارے ضمیر کی حقیقت ہے اُسے آشکار کردے اور خدا سینوں کے اسرار سے آگاہ ہے''۔(٢)

____________________

١۔ سورہ ٔبقرہ آیت ١٥٥۔١٥٦۔

٢۔ (وَلِیَبْتَلِیَ اللّٰهُ مَا فِی صُدُوْرِکُمْ وَلِیُمَحِّصَ مَا فِی قُلُوبِکُم، وَاللّٰهُ عَلِیْم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ )(سورہ ٔآل عمران آیت ١٥٤)۔

۲۲۲

حضرت امام جعفر صادق ـنے بھی فرمایا: '' وہ لوگ آزمائش کی بھٹی میں آزمائے جائیں گے، جس طرح سونے کو بھٹی میں آزمایا جاتا ہے اور خالص کئے جائیںگے جس طرح سونا کھرا اور خالص کیا جاتا ہے''۔(١)

سید قطب کی تحریر کے مطابق: تمام وسائل پر حوادث کی ایک تربیتی وسیلہ کے عنوان سے فضیلت وبرتری یہ ہے کہ ایسی خاص حالت روح میں پیدا کرتے ہیں کہ گویا اس کو پگھلادیتے ہیں۔ حادثہ روح کو کامل طور سے جھنجھوڑدیتا ہے وردّ عمل (تاثیر وتاثر) ایک حرارت اس کے باطن میں ایجاد کردیتا ہے کہ کبھی نرم کرنے کے لئے یانرم کرنے کی حد تک پہنچنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ یہ حالت روح میں نہ ہمیشہ پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی نفس کے لئے آسان ہے کہ سکون واطمینان اور امن وامان یا راحت طلبی کی حالت میں اس تک پہنچ جائے۔

''... ایک مثل لوگ کہتے ہیں: جب تک لوہا گرم ہے کوٹ لو، () کیونکہ لوہے کی گرمی کے وقت اُس پر ہتھوڑا مارنا آسان ہے اور اسے جس شکل میں چاہے بدل سکتے ہیں... اس وجہ سے سختیوں اور حوادث سے استفادہ کرنا تربیت کے اہم مطالب میں سے ہے، کیونکہ نفس کے پگھلنے اور گداز ہونے کی صورت میں مربی تربیت دئے جانے والے کو ارشاد وتہذیب کے جس رنگ میں چاہے رنگ سکتا ہے وہ اس طرح کہ کبھی اس کا اثرزائل نہیں ہو گا یا کم ازکم جلدی زائل نہیں ہو گا''۔(٢)

اسی طرح سختیو ں سے استفادہ اور عیش وراحت سے دوری کو اس شیوہ کا مکمِّل (پوراکرنے والا) جانا جا سکتا ہے، سختیاں انسان کے گوہروجودکو جلابخشتی ہیں، اور اس میں نکھاراورچمک پیدا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ سختی، مقاومت کہ جوحادثوں اور سختیوں کی طوفان میں ہمیں حاصل ہو تی ہے، انسان کو نادرست اخلاقی میلانات اور رجحانات کے مقابل محفوظ رکھتی ہے اس وجہ سے روایات میں تاکیدکی گئی ہے کہ بچہ تھوڑا سا کو مشکلات اور سختیوں سے دوچارکرو۔

حضرت امام موسیٰ کاظم ـ فرماتے ہیں:

''بہترہے بچہ عہدطفولیت میںزندگی کی ناگزیرسختیوں اور مشکلوں کا سامنا کرے جو کہ حیات کا تاوان ہے تاکہ جوانی اوربڑھاپے میں بردباراورصابرہو'' ۔(٣)

____________________

١۔''یفتنون کما یفتن الذهب، یخلصون کما یخلص الذهب'' ۔(کافی ج١ص ٣٧٠۔)

٢۔ روش تربیتی اسلام، ص٢٨٧،٢٨٨۔

٣۔ وسائل الشیقہ، ج٥، ص١٢٦۔

۲۲۳

حضرت علی ـ فرماتے ہیں:

''جنگل، ہوا اور طوفان میں پرورش پانے والے درخت باغبا ن کے پر و ر دہ اور تروتازہ درختوں سے بہتر ہوتے ہیں''۔(١)

اسلام میں جہاد اسی زاویہ سے قابل تو جہ و تحقیق ہے دین کے دشمنوں سے جہاد اور مقابلہ خواہ صدر اسلام میں ہو یا بعد کے زمانوں میں ( بالخصوص آخری دفاع مقدس کے دوران) ایک تربیتی اور اخلاقی مدرسہ رہا ہے ، اور اخلاق کی بلندیوں پر فائز انسان اُس مدرسہ سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں:

''ہم یقینا تمہیں آزمائیں گے تاکہ تم میں سے مجاہدین اور صابرین کو جان لیں اور (اس طرح) تمھارے حالات کو باقاعدہ جانچ لیں ''۔(٢)

ڈاکٹر'' ویکٹور فرانکل ''سویڈن کا ماہر نفسیات ہے اور ہیومنسٹ معالجین میں سے محسوب ہوتا ہے اور خود بھی ایک طولانی مدت تک جرمنی کے نازیوں چھائونی میں دوسری عالمی جنگ میں اسیر رہا ہے، اس نے اپنی آنکھوں سے جو انسان سوزی کی بھٹیاں دیکھیں اور بھوک، سردی، بیماری اور سخت ترین رنج والم اٹھائے لیکن اس کی جان بچ گئی۔ چھائونی سے آزاد ہونے کے بعد اُس نے اپنے معنوی علاج کے مکتب ( Logothrapy )کی بنیاد ان تین راہوں میں سے ایک راہ کے کشف وتفہیم پر رکھی:

١: ۔اچھے امور کا انجام دینا۔

٢: ۔تجربۂ اعلیٰ جیسے عشق۔

٣رنج والم برداشت کرنا۔

وہ تیسری راہ کی وضاحت میں کہتا ہے: رنج والم کابرداشت کرنا انسان کی بہترین وجودی جلوہ گاہ ہے اور جو بات اہم ہے وہ انسان کا رنج والم کے ساتھ فکر اور سلوک کا انداز ہے۔ ہدف زندگی رنج والم سے فرار کرنا نہیں ہے، بلکہ زندگی کو بامعنی بنانا ہے کہ اُسے واقعی مفہوم عطا کرے۔ ہر چیز کو ایک انسان سے لیاجاسکتا ہے مگر انسان کی آخری آزادی کو اس کی رفتار کے انتخاب میں ڈاسٹایوفسکی کے بقول: میں صرف ایک چیز سے ڈرتاہوں اور وہ یہ کہ اپنے رنج والم کی شایستگی اور لیاقت نہ رکھوں۔(٣)

____________________

١۔ نہج البلاغہ، نامہ، ٤٥۔

٢۔ سورہ ٔمحمد آیت٣١۔

٣۔ دیکٹور فرانکل: انسان درجستوی معنا۔

۲۲۴

د ۔معاشرت و مجالست:

اخلاقی ملکات کے رسوخ کے لئے ایک دوسرا عملی شیوہ صالح اور اخلاقی فضائل کے حامل افراد کے ساتھ زندگی گذارنا اور ناپاک نیز اخلاقی رذائل میں مبتلا افراد کی مجالست وہمنشینی سے اجتناب کرنا ہے، نفس شناسی کے دلائل بہت سی جہتوں سے قابل توجہ ہیں کہ جو تفصیل اور تکرار کے محتاج نہیں ہیں، منجملہ ان کے تقلید اور دوسروں کے اعمال کا مشاہدہ (باندوار کا نظریہ)،قوت بخش چیزوں کے وجود کے ساتھ ماحول سازی اور تداعی (موافقت وہماہنگی) کی ایجاد (ا سکینر کا فعال ماحول سازی کا نظریہ ، یعنی مثال کے طور پر ایک اچھے اور صالح گروہ میں اگر ایک اچھا باعمل انسان سے صادر ہو تو دیگر تمام افراد کے ذریعہ اس کی تقویت کی جائے)۔ (نظریہ تسہیل اجتماعی )(١) ہے (دوسروں کا وجود حتی غیر فعال تماشائیوں کا وجود انسان کی فعّالیت کو قوت بخشتا ہے (کیونکہ انسان کے مقصد کو بلندی عطا کرتا ہے) ۔

آیات وروایات میں نیکو کاروں کی معاشرت اخلاقی تربیت کے ایک شیوہ کے عنوان سے مورد تاکید واقع ہوئی ہے اور بزرگوں نے بھی اس سلسلہ میں مستقل کتابیں تالیف کی ہیں۔

قال الحواریون لعیسیٰ ـ: یاروح اللّٰہ مَن نجالسُ اذاً؟ قال: من یذکرکم اللّٰہ رؤیتہ ویزید فی عملکم منطقہ ویرغبکم فی الآخرة عملہ۔(٢) حواریوں نے حضرت عیسیٰ ـ سے پوچھا:

اے روح اﷲ! اس وقت ہم کس کے ساتھ ہمنشینی رکھیں؟ انھوں نے فرمایا: جس کا دیدار تمھیں اﷲ کی یاد دلائے، جس کی بات تمھارے علم میں اضافہ کرے اور جس کا عمل تمھارے اندر آخرت کے متعلق رغبت پیدا کرے۔

یا ابن مسعود، فلیکن جلساؤک الابرار واخوانک الاتقیاء والزهاد لانّ اللّٰه تعالیٰ قال فی کتابه : (الاخلاء یومئذ بعضهم لبعض عدو الّا المتقین(٣) اے ابن مسعود! تمھارے ہمنشین نیک لوگ ہونے چاہئیں اور تمھارے بھائی (دوست) متیقن وزاہدین ہونے چاہئیں اس لئے کہ تم خدائے تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے: ''اس دن صاحبان تقویٰ کے علاوہ تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیںگے'' ۔

____________________

١۔زمینہ روانشناسی ج٢ ص٢ ٣٧۔

٢۔ بحار الانوار ج٧٧ ص١٤٧۔

٣۔ بحار الانوار ج٧٧ ص١٠٠۔

۲۲۵

امام علی ـ:جالس العلماء تزدد حلماً ۔(١) علمائے کی ہمنشینی اختیار کرو کہ ان کی ہمنشینی حلم میں اضافہ کرتی ہے۔

امام حسین ـ:مجالس الصالحین داعیة الی الصلاح ۔(٢) صالحین کی مجالس (نشست) صلاح ونیکی کی طرف دعوت دیتی ہے۔

امام علی ـ:جالس العلماء یزددعلمک ویحسن ادبک وتزکوا نفسک ۔(٣) علماء کی ہمنشینی اختیار کرو کہ اس سے تمھارے علم میں اضافہ ہوگا، تمھارا ادب اچھا ہوگا اور تمھارا نفس پاک ہوگا۔

امام علی ـ:علیک باخوان الصدق فاکثر من اکتسابهم فانّهم عدة عند الرخاء وجُنَّة عند البلائ ۔(٤) تم پر سچے (نیک) دوستوںکی ہمنشینی لازم ہے پس ان سے زیادہ زیادہ سے زیادہ کسب فیض کرو اس لئے کہ وہ آسائش کے وقت وسیلۂ دفاع ہیں اور مصیبت کے وقت سپر ہیں۔

امام علی ـ:جانبوا الاشر وجالسوا الاخیار ۔(٥) بروں سے پرہیز کرو اور نیکوں کی ہمنشینی اختیار کرو۔

حضرت امام محمد باقرـ:لاتقارن ولاتواخ اربعة: الاحمق والبخیل والجبان والکذاب ۔(٦) چار افراد سے ہمنشینی اور دوستی اختیار نہ کرو: احمق، کنجوس، ڈرپوک اور جھوٹے سے۔

امام علی ـ:مجالسة اهل الهویٰ منساة للایمان ۔(٧) خواہش پرست کی ہمنشینی ایمان کو بھلادیتی ہے۔

____________________

١۔ غرر الحکم فصل ٣ص ٤٧۔

٢۔ بحار الانوار ج٧٨ ص١٤١۔

٣۔ غرر الحکم فصل ١ص ٤٣٠۔

٤۔ بحار الانوار ج٧٤ ص١٨٧۔

٥۔ غرر الحکم

٦۔ بحار الانوار ج٧٤ ص١٨٧۔

٧۔ نہج البلاغہ ج٨٦۔

۲۲۶

۴: ۔ تشویق اور تنبیہ کا طریقہ

''تشویق ''لغت میں آرزومند کرنے، شوق دلانے اور راغب کرنے کے معنی میں ہے۔(فرہنگ معین)

یہاں پر ''تشویق'' سے مراد انسان کی درخواست سے متعلق اور مطلوب امور سے عمل انجام دینے کے بعد عمل کے اضافہ یا اس کی تثبیت کے لئے استفادہ کرناہے۔

''تنبیہ''بھی لغت میں آگاہ کرنے، بیدار کرنے، تادیب اورسزادینے کے معنی میں ہے (فرہنگ معین)۔ یہاں پر تنبیہ سے مراد انسان کے لئے تکلیف دہ اسباب ووسائل سے عمل انجام دینے کے بعد عمل کو دور یا کم کرنے کے لئے استفادہ کرناہے۔ اس وجہ سے تشویق یا تنبییہ کو خود انسان یا دوسروں کے ذریعہ عملکو کنٹرول کرنے کا ایک سسٹم جاننا چاہئے کہ پسندیدہ یا ناپسندیدہ عمل کے بعد اس عمل کی زیادتی یا کمی کے لئے ان چیزوں کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔

تشویق یا تنبیہ کا نفسیاتی مبنیٰ، فعال ماحول سازی کے نظریہ کے مطابق، درج ذیل آزمائشوں پر استوار ہے:

١ ۔ہر جواب جو ایک قوت بخش محرک کے نتیجہ میں حاصل ہو، اس کی تکرار کی جاتی ہے ۔

٢ ۔قوت بخش محرک ایک ایسی چیز ہے کہ جواب ملنے کے احتمال کو بڑھاتا ہے۔

٣۔ان قوت بخش چیزوں جو ذاتی طور پر تقویت کرنے کی خاصیت کے حامل ہیں،اولین یا غیر شرطی قوت بخش کہتے ہیں، اوّلین مثبت قوت بخش جاندار کی جسمانی قوت ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں جیسے: پانی، غذا، ہوا، وغیرہ۔ اوّلین منفی قوت بخش چیزیں ذاتی طور پر تکلیف دہ خاصیت رکھتی ہیں جیسے: مارپیٹ، گالم گلوج ، زیادہ حرارت اور زیادہ نور وغیرہ۔

٤ ۔ثانوی یاشرطی قوت بخش چیزیںوہ ہیں جو کلاسیک ماحول سازی (اوّلین بخش چیزوں کے ساتھ ہمراہی چیزوں کے ساتھ ہمراہی اور تداعی ) کے اصول کے مطابق تقویت کرنے کی خاصیت رکھتی ہیں جیسے: روپیہ، انعام، نمبر وغیرہ ۔

٥ ۔اگر کوئی رفتار کسی چیز کی تقویت سے بڑھ جائے اور اسے ایک مدت تک تقویت نہ کریں، تو وہ تدریجاً موقوف ہوجائے گی کہ اُسے ''خاموشی''بھی کہتے ہیں۔

٦ ۔تنبیہ، ایک نادرست اورنامطلوب رفتار کے دور کرنے کے لئیتکلیف دہ محرک وسبب کے واردکرنے کے معنی میں ہے۔

۲۲۷

٧ ۔ کبھی کبھی تقویت مسلسل تقویت سے زیادہ اثر رکھتی ہے، لہٰذا اگر مربی (تربیت دینے والا) ہر بار مطلوب اور پسندیدہ رفتار کے ظاہر ہونے کے بعد جزاوسزا دے، تو ناخواستہ طور پر اس کے وقوع کا احتمال کم ہوتا جائے گا، لیکن اگر مربی کبھی کبھی چند بار مطلوب رفتار انجام دینے کے بعد جزا دے، تو اس کے توقعکا احتمال زیادہ ہوجائے گا زیادہ موثر یہ ہے کہ تربیت کی ابتدا میں مسلسل جزا ہو اور رضایت بخش سطح تک پہنچنے کے بعد نوبت وار کبھی کبھی ہوجائے ۔

٨۔ آغاز میں اجتماعی قوت بخش (ستائش، تائید اور مسکراہٹ وغیرہ) محسوس طور پر قوت بخش چیزوں کے ساتھ استعمال کی جائے اور اس کے بعد محسوس قوت بخش چیزیں ترک کردی جائیں ، آیات وروایات میں تشویق وتنبیہ کے تربیتی کردار پر تاکید کی گئی ہے۔

حضرت امیر المومنین علی ـ مالک اشتر کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''تمہارے نزدیک نیکو کار اور بدکاریکساں نہ ہوں، کیونکہ یہ امر (یکساں قرار دینا) نیکو کاروں کے نیکی ترک کرنے اور نااہلوں کی بدکاری میں اضافہ کا باعث ہوگا، لہٰذا ادب کی رعایت کے لئے ان میں سے ہر ایک کے ساتھ حالات کے مطابق برتائو رکھو''۔(١)

''نیکوکاروں کی اصلاح ان کا ادب و احترام کرنے سے ہوتی ہے اور بدکاروں کی اصلاح ان کی تادیب کرنے (سزا دینے)سے''۔(٢)

''جوکچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے وہ سب خدا کے لئے ہے، تاکہ جن لوگوں نے برا کیا ہے وہ ان کے کرتوت کی انھیں سزا دے اور جن لوگوں نے احسان ونیکی ہے انھیں اچھا بدلہ دے ''۔(٣)

''خداوند سبحان نے جزا اپنی اطاعت پراور سزا اپنی معصیت پر قرار دی ہے، تاکہ اپنے بندوں کو اپنے عذاب سے باز رکھے اور بہشت کی طرف روانہ کرے''۔(٤)

____________________

١۔ بحار الانوار ج٧٧ ص٤٦۔

٢۔''استطلاح الاخیار باکرامهم والاشراربتأدیبهم'' (بحار الانوار ج٧٨ ص٢٤٥)۔

٣۔ سورہ ٔنجم آیت ٣١۔

٤۔ نہج البلاغہ حکمت ٣٦٨۔

۲۲۸

ادیان الٰہی اور اسلام میں قانون عذاب وثواب کو دو اعتبارسے دیکھا جاسکتا ہے

: اول

یہ کہ ان کا اعلان کرنا انذار وتبشیر کا پہلو رکھتا ہے ، دوسرے یہ کہ ثواب وعقاب کی واقعیت عینی ہے کہ اُن میں سے بعض دنیا میں (جیسے سکون واطمینان، راحت وچین ، زندگی کی آسائش اور عیش وعشرت کو احساس ) اور درک کرتا ہے، اس لحاظ سے تشویق وتنبیہ اُن دونوں کی تطبیق واقع سے دور نہیں ہے۔ اُس کا اخروی حصہ جیسے حور وقصر ومحلات وغیرہ بھی ایمانی بصیرت (انسان کا دوسرے عالم اور وعدہ الٰہی کے قطعی ہونے اور اس بات پر اعتقاد رکھنا کہ انسان اپنے اعمال سے اس ثواب یاعقاب کو اس وقت بھی عینی تجسم بخشتا ہے ) کے اقتضا کے مطابق حاضر وموجود ہیں اور انھیں بھی تنبیہ وتشویق کے مصادیق میں شمار کرسکتے ہیں۔ اس بناپر بہشت ودوزخ اور ا ﷲ کے وعدہ و وعید سے متعلق تمام آیات ایک طرح بندوں کی تشویق اورتنبیہ کے لئے ہیں تاکہ وہ اپنی عادت اور روش کو بدل ڈالیں اور فلاح وکامیابی اور فضائل اخلاقی کے حامل ہونے کی راہ میں گامزن ہوجائیں۔ لیکن ان لوگوں کے لئے جن کا عقیدہ وایمان کمزور ہے، ان کے لئے وہ آیات انذار وتبشیر ہی کی حد میں ہوں گی ۔

دوسرانکتہ

جس کی ہمیں تاکید کرنی ہے یہ ہے کہ یہاں پر تشویق، ترغیب اور تحریض (ابھارنے) کے علاوہ ایک چیز ہے، تشویق عمل انجام دینے کے بعد کی چیز ہے، لیکن ترغیب وتحریض قبل ازعمل سے مربوط ہیں۔ تشویق وتنبیہ کے وہ طریقے جن میں ایک طرح منطقی ترتیب کا لحاظ کیا جاسکتا ہے، درج ذیل ہیں:

الف ۔ عاطفی توجہ:

محبت آمیز نگاہ ، مسکرانا، اور ہر قسم کی تائید ، مہر ومحبتاور طلف کا احساس تربیت پانے والے کو عزت نفس کے عمیق احساس میں مبتلا کردیتاہے، کیونکہ ہر انسان حُبّ ذات کے زیر اثر غیروں کی محبت اورتوجہ حاصل کرنے کا محتاج ہوتا ہے۔(١) درج ذیل آیات اس سلسلہ میں قابل توجہ ہیں: (وَاخْفِضْ جِنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ المُؤمِنِیْنَ )(٢) ''اور جو صاحبان ایمان آپ کی اتباع کرلیں ان کے لئے اپنے شانوں کو جھکادیجئے''۔

____________________

١۔اس بات کی مزید توضیح ''تکریم شخصیت کی روش ''کی بحث میں گذر چکی ہے۔

٢۔ سورہ ٔشعراء آیت٢١٥۔

۲۲۹

(وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰواةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهُ وَلَاتَعْدُ عَیْنَاکَ عَنْهُمْ )(١)

''اور اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ صبر آمادہ کرو جو صبح وشام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اسی کی مرضی کے طلبگار ہیں اور خبردار تمھاری نگاہیں ان کی طرف سے نہ پھرجائیں...''۔

ان آیات میں خداوند متعال اپنے مہربان حبیب سے چاہتا ہے کہ مومنین کے لئے لطف ومرحمت کے بازو جھکادیں، ان کی طرف سے چشم محبت نہ ہٹائیں اوران کے ساتھ ہمراہی اور صبر وشکیبائی کریں دوسری آیت میں اپنے رسول کی بلند ترین ان صفات کے حامل ہونے اور مومنین کے ساتھ ایسی معاشرت رکھنے پر معاملات کرنے کی توصیف کرتا اورفخرو مباہات کرتا ہے:

''یقیناً تمھارے پاس تمھیں میں سے وہ پیغمبر آیا ہے کہ تمہاری ہر مصیبت پراس کے لئے بہت ناگوار ہے وہ تمہاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مومنین پر دلسوز ومہربان ہے''۔(٢)

جی ہاں، وہ روح پرورنگاہ جو انسانوں پر عشق ومحبت کے ساتھ پڑتی ہے، انسان کو متحرک کرنے کے لئے کافی ہے اور بلال وسلمان کی صف میں بٹھادیتی ہے۔

ب ۔ زبانی تشویق:

تعریف وتمجید ، دعا، شکریہ ادا کرنا اور زبانی قدردانی بھی اُن عام وسائل اور اسباب میں سے ہیں کہ بلند مقاصد اور گرانمایہ اخلاقی اعمال تک رسائی کے لئے اُن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے خداوند عالم اپنے پیغمبر سے چاہتا ہے کہ مومنین سے زکات لینے کے بعد ان کے لئے دعا کریں۔(٣)

حضرت امیر المومنین علی ـ نے بھی مالک اشتر سے خطاب کرتے ہوئے انھیں اس نکتہ کی یاد آوری کی ہے:

... ان کی پے درپے تشویق کرو اور جو انھوں نے اہم کام انجام دئے ہیں انھیں شمار کرو (اہمیت دو) کیونکہ ان کے نیک کاموں کی یاد آوری ان کے دلیروں کو زیادہ سے زیادہ حرکت کرنے پر ابھارتی ہے، اور وہ لوگ جو کام میں سستی کرتے ہیں انھیں کام کرنے کا شوق پیدا ہوگا، انشاء اﷲ ۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔکہف آیت٢٨۔ ٢۔ سورہ ٔتوبہآیت ١٢٨۔٣۔ سورہ ٔتوبہ آیت ١٠٣۔ ٤۔ نہج البلا غہ نامہ ٥٣۔

۲۳۰

زبانی تشویق میں اہم نکتہ یہ ہے کہ اور موقع ومحل سے اس حد تک استفادہ ہو اور افراط وتفریط یا چاپلوسی کی حالت پیدا نہ ہو امام علی ـ نے فرمایا ہے:

جب تم تعریف وثنا کر و تو اختصار پر اکتفاکرو۔(١)

سب سے زیادہ بے عقلی اور حماقت، تعریف وستائش یا مذمت میں زیادتی کرناہے۔(٢)

''استحقاق سے زیادہ تعریف کرناچاپلوسی ہے اور اس (استحقاق) سے کم تعریف کرنا حسد یا عاجزی کی علامت ہے''۔(٣)

بہت سے افراد اپنی تعریف وتمجید ہونے سے مغرور ہوجاتے ہیں۔(٤)

ج ۔ عملی تشویق:

انعام، ہدیہ، تحفہ وغیرہ دینا، نمبر، تنخواہ یا حقوق یا مزدوری میں اضافہ کرنا، سیاحت اور تفریح کے لئے لے جانا، کھیلنے کی یا دوستوں کے ہمراہ باہر جانے کی اجازت دیناوغیرہ ، یہ سب عملی تشویق شمار ہوتی ہے کہ موقعیت کے اعتبار سے ان کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔

پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی سیرت میں ایسے متعددمقامات پائے جاتے ہیں کہ کسی ایک آدمی کے نیک عمل کا مشاہدہ کرنے کے بعد اُسے صلہ اورہدیہ دیتے ہیں حتی کبھی اپنا لباس بھی دیدیتے تھے، جیسے کمیت بن زیاداسدی کی داستان کہ حضرت امام زین العابدین ـ کی خدمت میں پہنچے اور کہا: میں نے آپ کی مدح وثنا میں کچھ اشعار کہے ہیں اور چاہتا ہوں کہ انھیں پیغمبر سے تقرب کا وسیلہ قراردوں۔پھر اپنا معردف قصیدہ آخرتک پڑھا، جب قصیدہ تمام ہو گیا، امام ـ نے فرمایا: ''ہم تمہاری جزا نہیں دے سکتے، امید ہے کہ خداوندعالم تمہیں جزادے۔''پھر اس کے بعد اپنے بعض لباس انھیں دیدیئے اوراُن کے حق میں اس طرح دعا کی: ''خدا یا! کمیت نے تیرے پیغمبر کے خاندان کی نسبت، اس حالت میں نیک فریضہ اداکیا کہ اکثرلوگوں نے اس کام سے نجل کیا اور شانہ خالی کیا ہے جوحق دوسروں نے پوشیدہ رکھا تھا اس نے آشکار کردیا۔ خدایا! اسے سعادت مندزندگی عطا کر اور اُسے شہادت نصیب کر اور اُسے نیک جزا دے کہ ہم اُس کی جزا نہیں دے سکتے جزا ور ناتواں ہیں۔

____________________

١۔ ''اذا مدحت فاختصر ''(غرر الحکم، فصل ٤ص٤٦٦)۔٢۔ ''اکبر الحمق الاغراق فی المدح والذم '' (غرر الحکم، فصل ٧ص٧٧)۔٣۔''الثناء بأکثر من الاستحقاق ملق والتقصیر عن الاستحقاق عیّ أوحسد'' (بحارالانوار ج٧٣ص ٢٩٥)۔٤۔''رُبّ مفتون بحسن القول فیه'' (بحارالانوار ج٧٣ص ٢٩٥)۔

۲۳۱

کمیت نے بعد میں کہا: ''میں ہمیشہ ان دعائوں کی برکت سے بہرہ مند رہا ہوں'' حضرت نے اس طریقہ سے کمیت کی روح شجاعت اور حق گوئی کی تشویق اور تائیدکی۔ اسی کے مشابہ داستان حضرت امام علی رضا ـ کے بارے میں بھی دعبل خز اعی کی نسبت ہے جب وہ قصیدہ پڑھ چکے تو حضرت نے وہ دس ہزار درہم کہ جن پر آپ کا نام کندہ تھا اُنھیں عطا کیا اور دعبل نے ہر درہم کو اپنی قوم کے درمیان (دس) درہم میں فروخت کیا۔(١)

درج ذیل نکات کی رعایت تشویق کی تاثیرمیں اضافہ کرتی ہے:

١۔تشویق ابھارنے اور قوت بخشنے کا ذریعہ ہے لہٰذا خودوہی ھدف نہیں بن جانا چاہئیکہ اور تربیت پانے والے کے تمام افکار داذہان کو اپنے ہی لئے سرگرم رکھے۔ تشویق کبھی کبھی کرنا، اس کا فیزیکی سطح سے اجتماعی ومعنوی بلندی کی طرف لے جانااور تشویق کا مستحق ہونا (رشوت کی حالت کا نہ رکھنا ) ایک حدتک مذکورہ اشکال واعتراض کو برطرف کردیتاہے۔

٢۔ تربیت پانے والے کو تشویق کی علت مکمل طور پرواضح اور معلوم ہونی چاہئے۔

٣۔تشویق موقع ومحل کے اعتبار سے ہو تاکہ کار آمد اور موثر ثابت ہو۔

٤۔تشویق کرتے وقت اُس کا کسی دوسرے سے مقائسہ اور موازنہ نہیں کرنا چاہئے ؛کیونکہ اُس پر بُرااثرپڑے گا۔

٥۔ مجمع میں تشویق وتحسین کرنا زیادہ اثر رکھتا ہے کیونکہ دوسروں کو بھی آمادہ کرتا ہے۔

د۔ جزاسے محرومیت اور نیکو کار کو جزادینا:

اس مرحلہ کے بعد تبنیہ کے طریقوں میںداخل ہو جائیں گے۔ مربی تربیت دئے جانے والے کی نا شائستہ حرکات وسکنات کو ختم کرنے کے لئیاسے ان بعض جزائوں اورمواہب سے محروم کردے جن کی وہ امید رکھتا ہے یایہ کہ نیکوکاروں کو جزادے کر اُسے اپنی محرومیت کی جانب متوجہ کرے اور اس کے اشتباہ وخطا کی نشاندہی کرے۔حضرت علی ـ کے گہربار اور زریں کلام میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ''نیکو کار کو جزا دے کر بدکار کو ان کی بدکاری سے روک دو''۔(٢)

____________________

١۔عیون اخبارالرضا ـ، ج١، ص١٥٤۔

٢۔ ''از جرالمسء بثواب المحسن''بحار، ج٧٥، ص٤٤، باب ٣٦

۲۳۲

(اَفَمَنْ کَانَ مُؤمِناً کَمَنْ کَانَ فَاسِقاً لَایَسْتَوُونَ(١)

''کیا وہ شخص جو صاحب ایمان ہے اس کے مثل ہوجائے گا جو فاسق ہے؟ ہرگز نہیں ، دونوں برابر نہیں ہوسکتے''۔

(لَایَسْتَوِی اَصْحَابُ النَّاسِ وَاَصْحَابُ الْجَنََّةِ ۔۔۔)(٢)

''اصحاب جنت اور اصحاب جہنم ایک جیسے نہیں ہوسکتے''۔

(وَمَایَسْتَوِی الاعمیٰ والبصیروالّذین آمنواوعملواالصالحات ولاالمسء قلیلا ماتتذکرون(٣)

''اور یاد رکھو کہ اندھے اور نابینا برابر نہیں ہوسکتے ہیں اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کئے ہیں وہ بدکاروں جیسے نہیں ہوسکتے ہیں، مگر تم لوگ بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو''۔

خداوند عالم ان آیات میں واضح طورپر نیکوکاروں اوربدکار روں کے مسادی نہ ہو نے کا اعلان کرتا ہے، اس سے اس کا مقصود یہ ہے کہ سب جان لیں کہ اچھے لوگوں کے لئے جزا ہے اور ناشائستہ اور قبیح اعمال والوں کے لئے محرومیت کے سوا کچھ نہیں ہے۔

ہ۔جرمانہ اور تلافی:

جرمانہ نمبرکم کرنے ، پیسہ دینے، دوستوں کے لئے مٹھائی خریدنے وغیرہ کی صورتوں میں ہوتا ہے۔ تلافی جیسے اس انسان سے عذر کرنا جس کی توہین کی ہے یا جس جگہ کوئی نقصان پہنچایا ہے اس کی تعمیر کرے یا مرمت کرے جرمانہ کے سلسلہ میں توجہ رکھنا چاہئے کہ ادا کرنے یا کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اوربے چارگی اوربیزاری کی حالت پیدا نہ ہو۔ جرمانہ کے شیوہ سے استفادہ کی شرط یہ ہے کہ انسان کی ایک مدت تک تقویت کی جائے تاکہ پہلے جو اُسے جزائیں دی گئی ہیں بعد میں اُس سے واپس لی جاسکیں۔

اسلام میں دیت کاقانون اس کے حقوقی جنبہ کے علاوہ تربیتی جنبہ سے بھی ایک قسم کا جرمانہ حساب ہوتا ہے۔

و۔ سرزنش وتوبیخ اور جسمانی توبیخ وتنبیہ:

توبیخ ، غیض وغضب کی نظر سے شروع ہوتی ہے اور علانیہ توبیخ تک پہنچتی ہے۔(٤)

____________________

١۔ سورئہ سجدہ، آیت ١٨۔ ٢۔ سورہ ٔحشرآیت ٢٠۔

٣۔ سورہ ٔغافر، آیت ٥٨۔ ٤۔ ایک اعتبار سے مخفی اور پوشیدہ توبیخ کو جرمانہ اور تلافی سے قبل جاننا چاہئے)۔

۲۳۳

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''عقلمندوں کی سزا کنایہ اور اشارہ کی صورت میں ہوتی ہے اورنادانوں کی سزا واضح اور صریح انداز میں ہوتی ہے۔(١)

''تعریض (کنایہ میں توبیخ کرنا) عقلمند کے لئے آشکار توبیخ سے کہیں زیادہ سخت ہے''(٢)

حضرت امام جعفر صادق ـ ''شعرانی'' جوکہ پیغمبر کے چاہنے والوں میں سے تھے، خلوت میں بالواسطہ طور پر نصیحت کے ذریعہ انھیں ان کے ناپسند عمل (شرابخوری ) کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''اچھا کام سب کے لئے اچھا ہے اور تمہارے لئے سب سے بہتر ہے اس انتساب کی وجہ سے جو تم ہم (اہل پیغمبر)سے رکھتے ہو اور برا کام سب کے لئے برا ہے لیکن تم سے سب سے زیادہ برا ہے اس انتساب کی وجہ سے کہ جو تم ہم سے رکھتے ہو''۔(٣)

جسمانی تنبیہ سب سے آخری مرحلہ میں ہے کہ گذشتہ مراحل میں ناکامی کی صورت میںخاص شرائط وحالات پائے جانے کی صورت میں اُس سے استفادہ ہوتا ہے، تنبیہی طریقہ کلی طریقے پر اور جسمانی تنبیہ خاص طور پر صاحبان نظر کے نزدیک محل اختلاف میں ہے، بعض جیسے سعدی ومولوی جسمانی تنبیہ کے طرفدار تھے، اور اس سے استفادہ کو جائز سمجھتے ہیں کہ بعض دیگر جیسے غزالی، بوعلی اور ابن خلدون نے مربی کو جسمانی تنبیہ سے تین بار سے زیادہ یا غصہ کی حالت میں روکا ہے۔(٤)

ماہرین نفسیات کے درمیان بھی بعض جیسے رین اور ہولز خاص شرائط وحالات پائے جانے کی صورت میں تنبیہ سے استفادہ کو رفتار تغییر کے معاملہ میں مفید جانتے ہیں(٥)

____________________

١۔''عقوبة العقلاء التلویح وعقوبة الجهال التصریح ''(میزان الحکمة ج١ص ٧٢)۔

٢۔''التعریض للعاقل اشد من عقابه'' (میزان الحکمة ج١ص ٧٢)۔

٣۔''یا شقر ان انّ الحسن لکل احد حسن وانه منک احسن لمکانک منّا وان القبیح لکل احدٍ قبیح وانّه منک اقبح'' (بحار الانوار ج٤٧ ص٣٤٩ باب ١١)۔

٤۔ نقش تربیت معلم، دفتر ہمکاری حوزہ ودانشگاہ۔

٥۔ ہیلگارد:روان شناسی یادگیر ص ٣٣٧۔

۲۳۴

اس کے باوجود اکثر ماہرین نفسیات رفتار کی تبدیلی اور تربیت کے لئے تنبیہ سے استفادہ کے مخالف ہیں۔

ا سکینرنہایت تاکید کے ساتھ تنبیہ سے استفادہ کو کلی طور پر خطرناک ، نامطلوب اور بے اثر شمار کرتا ہے اور متعدد دلائل بھی اپنے مدعا کے لئے پیش کرتا ہے:(١)

١ ۔تنبیہ دوسرے نامطلوب مضر آثار کا پیش خیمہ ہوتی ہے، جیسے عمومی خوف۔

٢ ۔تنبیہ اجسم کو پتہ دیتی ہے کہ کیا کام نہ کرے نہ یہ کہ کیا کام کرے۔

٣ ۔تنبیہ دوسروں کو صدمہ پہنچانے کی توجیہ کرتی ہے۔

٤۔تربیت پانے والا اگر مشابہ موقعیت میں واقع ہو جائے اور قابل تنبیہ نہ ہوتو ممکن ہے وہ اسی کام کے کرنے پر مجبور ہوجائے۔

٥ ۔تنبیہ، تنبیہ کرنے والے اور دوسروں کی نسبت پر خاش ایجاد کرتی ہے۔

٦ ۔تنبیہ عام طور پر ایک نامطلوب جواب کو دوسرے نامطلوب جواب کا جانشین بنادیتی ہے، جیسے بد نظمی کی جگہ رونا۔

ا سکینر اس کے بعد تنبیہ کے لئے بہت سی جانشین چیزوں کا ذکر کرتا ہے، جیسے ایسے مقتضیات کی تبدیلی جو نامطلوب رفتار کا باعث ہوتی ہے اور ناموافق رفتار کی نامطلوب رفتار سے تقویت ، آخر میں نتیجہ نکالتا ہے کہ نامطلوب عادات کے ختم کرنے کا بہترین طریقہ انھیں نظرانداز کرنا یا پھرخاموشی (تغافل اسی کے مانند ہے) اسلام کی نظر میں(٢) اگرتربیت نچلے درجوں اور طریقوں سے ممکن ہو تو جسمانی تنبیہ سے استفادہ جائز نہیں ہے اور اس کے علاوہ جسمانی تادیب اور تنبیہ (اس شرط کے ساتھ کہ اس حد میں نہ ہو کہ دیت لازم آجائے تو) جائز ہے انسان کے ولی کے علاوہ کی طرف سے بھی اجازت کے ساتھ ہونا چاہئے۔اس کی مقدار بھی محدود ہے (زیادہ سے زیادہ تین سے دس ضرب تک) فقہاء کے فتاویٰ بھی اسی طرح ہیں۔(٣)

____________________

١۔ ہرگنھان: روان شناسییاد گیری ص١٣٣۔

٢۔ البتہ تنبیہ کے موضوع پر اسلام کی فقہی نظر کا استخراج (حکم اولیہ اور ثانویہ کی صورت میں) مستقل فرصت کا محتاج ہے۔

٣۔ امام علی رضا ـ: ''التادیب ما بین ثلاث الی عشرةٍ''مستدرک الوسائل ج٣ص٢٤٨۔تحریر الوسیلة ج٢ص ٤٧٧۔

۲۳۵

تنبیہ کی نفی پر ا سکینرکے اعتراضات کے بارے میں کلی طور پر کہا جاسکتا ہے:

١۔ بعض ماہرین نفسیات جیسے رین اور ہولز خاص شرائط وحالات کے تحت( جیسے یہ کہ تنبیہ نامطلوب کاموں کے بعد فوراًبلافاصلہ ہو اور اس حد تک ہو کہ انسان کے لئے تکلیف دہ ہو... تنبیہ کو رفتار کی تبدیلی میں موثر جانتے ہیں اور اس سلسلہ میں آزمائشیں بھی کی ہیں۔

٢ ۔تنبیہ کے ہیجان آور نتائج (جیسے خوف یا پرخاش) کہ اسکینز جس کا ذکر کرتا ہے اس صورت میں منفی ہوجائیں گے جبکہ پہلے سے مربی اور تربیت پانے والے کے درمیان صرف ایک عاطفی ررابطہ رہا ہو کہ تنبیہ کی تاثیرکی شرط بھی اس طرح کے رابطہ موجود ہونا ہے۔

حضرت امیرالمومنین ـ کے ایک چاہئے والے نے چوری کی تو حضرت نے اُس کے ہاتھ کو قطع کردیا۔ ''ابن کوائ'' جو کہ خوارج میں سے تھا اس نے موقع غنیمت سمجھتے ہوئے اس سے سوال کیا: کس نے تمھارے ہاتھ کو قطع کردیا ہے؟ اس نے جواب دیا: میرے ہاتھ کو پیغمبروں کے اوصیاء کے سید وسردار، قیامت کے دن سرخرو حضرات کے پیشوا، مومنین کی نسبت سب سے زیادہ حقدار نے ابن کواء غصہ میں بولا: وائے ہو تم پر! وہ تمہارے ہاتھ کو قطع کرتے ہیں اور تو ان کی اس طرح مدح و ثنا کرتا ہے؟ اس نے جواب دیا: کیوںتعریف نہ کروں جبکہ ان کی محبت میرے گوشت وخون میں ملی ہوئی ہے، خدا کی قسم میرے انھوں نے ہاتھ کو صرف حق کی خاطر قطع کیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ مجھے آخرت کی سزا سے نجات دیں۔(١)

٣ ۔تنبیہ نا پسند استعدادوں اور صلاحیتوں کے کنٹرول کرنے اور خاموش کرنے کا ذریعہ ہے۔ ان لوگوں کے لئے جن کے بارے میں نرم رویّہ نتیجہ بخش ثابت نہیں ہوتا ہے، صرف ممکن طریقہ یہ ہے کہ ایک توبیخ وسرزنش یا پھر نفسیاتی جھنجھوڑ ان کے اندر ایجاد کریں، بالخصوص اگر تسلط پسند اور طغیان آمیز طبیعت رکھتے ہوں، جس طرح انسان کے جسم میں بدبودار اور کثیف غدود کو قطع کردیتے یا جلادیتے ہیں تاکہ دیگر حصوں تک سرایت نہ کرے۔ ''البرٹ الیس ''ان ماہرین نفسیات میں ہے کہ جواپنے علاج اور مشاورہ میں ناگہانی سرزنش وتوبیخ اور اس کے مانند دوسری چیزوں سے استفادہ کرتا ہے اور ایک جھٹکا دے مشاورہ کے درمیان مراجع کو اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے۔

____________________

١۔ بحار الانوار ج٤٠ ص٢٨١،٢٨٢۔

۲۳۶

اسلام کا سزائی اور جزائی نظام بھی جوکہ خاص جسمانی سزائوں پر مشتمل ہے، اپنے حقوقی پہلوئوں کے علاوہ، تربیتی رخ سے بھی قابل توجہ ہے، کیونکہ انسان کو جرم کی تکرار سے روکتا ہے۔

مذکورہ نکات کے علاوہ تنبیہ کے استعمال میں درج ذیل چیزیں اس کی تربیتی تاثیر میں اضافہ کرتی ہیں:

١۔ہر قسم کی تنبیہ سے پہلے ناپسند عمل کی علت کی شناخت سے مطمئن ہوں، بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مختلف گھریلو اور روحی مسائل ومشکلات کی بنا پر جوکہ ہم پرپوشیدہ ہیں، یہ خطا سرزد ہوگئی ہو، ایسی صورت میں تنبیہ مشکلات اور پیچیدگی کواضافہ کرتی ہے۔

٢ ۔ وہ تنبیہ مؤثر ہے جو جذبۂ انتقام اور غیض وغضب کی عنوان سے نہ ہو، اس وجہ سے بے جاسرزنش اور حد سے زیادہ تحقیر وتوہین سے پرہیز کیاجانا چاہئے۔

٣ ۔تنبیہ سنجیدہ اور حسب ضرورت ہو اور میزان خطا سے آگے نہ بڑھ جائے۔ حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''ملامت میں زیادہ روی ضد اور ہٹ دھرمی کی آگ کو بھڑکادیتی ہے''۔(١)

٤۔تنبیہ انسان کی نامطلوب صفت یاعمل سے دقیق رابطہ رکھتی ہو اور اسے تنبیہ کی علت کی نسبت مکمل آگاہی حاصل ہو۔

٥ ۔اگر انسان اپنے عمل سے شرمندہ وپشیمان ہوگیا اور اپنی رفتار سے باز آگیا تو اسے لطف ومہربانی کے ساتھ قبول کرلینا چاہئے۔

____________________

١۔''الافراط فی الملامة یشبّ نار اللجاجة'' (غرر الحکم ،ج١،ص ٨٨)۔

۲۳۷

تیسری فصل :

اسلام میں اخلا قی تر بیت کے طر یقے

۱۔خود پر ناظر ہونا

یہ روش مکمل طور پر ''خود تربیتی'' صورت میں انجام پائے گی، اپنے آپ پر نظارت سے مراد یہ ہے کہ انسان کامل ہوشیاری اور مراقبت کے ساتھ قبول شدہ اخلاقی اقدار کی نسبت کوشش کرے کہ جو (جوارحی یا جوانحی) رفتار وکردار اخلاقی فضائل کے منافی ہیں اس کے وجود میں راستہ پیدا نہ کرنے پائیں اور اُس کے اخلاقی ملکات وقوّتوں کے زوال اور سستی کا باعث نہ بنیں۔

اپنے آپ پر روش نظارت کے نفسیاتی مبانی میں دو مرحلے قابل تفکیک ہیں: پہلا مرحلہ اس روش کے استعمال سے متعلق ہے کہ تربیت پانے والا شوق اور مقصد کے اعتبار سے باندازۂ کافی آمادگی رکھتا ہو۔(١)

یہ مرحلہ گذشتہ روشوں کی مدد سے بالخصوص اقدار کی طرف دعوت کی روش اور عقلانی توانائی کی تربیت کی روش کے ذریعہ عملی ہونا چائیے، یعنی ایک شخص اس نظریہ تک پہنچے کہ یہ اقدار اور اخلاقی مقاصد اُس کے وجود میں پائدار رہیں اور اخلاقی رذائل اُس سے مٹ جائیں دوسرا مرحلہ اس روش کی تاثیر کی کیفیت کو واضح کرنا ہے۔ نفسیاتی نظام کے صادرات اور واردات تدریجی صورت میں بیماری وجود ی شکل کی تعمیر کرتے ہیں ، اور نفس شناسی کی اصطلاح میںہمارے تزکیہ باطن اور ظاہر کو ایک تعادل پسندی کی طرف آگے بڑھاتی ہے، اس وجہ سے واردات وصادرات کی نوع کیفیت پر نظارت (کہ جو ہماری نیّات اور مقاصد کو بھی شامل ہوتی ہے)اس شکل کو جہت دینے میں کہ جو ان کا نتیجہ ہے، مؤثر بلکہ قابل تعیین ہوسکتی ہے۔

____________________

١۔ اخلاقی کتب میں اسے ''مقام یقظہ'' یعنی مقام بیداری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

۲۳۸

(اسکینز کے )فعال ماحول سازی کے نمونہ میں یہ روش تقریبی طور پر ایک مستقل روش کے عنوان کے تحت تین مرحلہ بیان کی جاتی ہے ۔(١)

١ ۔اپنا مشاہدہ : اپنی رفتارکو دقت کے ساتھ جزئی اورکمّی (مقدار ک )لحاظ سیثبت وضبط کرتا ہے۔

٢ ۔خود سنجی: (اپنے کو تولنا) موجودہ رفتاروں آئیڈیل نمونہ کے ساتھ کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے مقایسہ اور موازنہ کیا جاتا ہے۔

٣ ۔ خود تقویتی: (اپنے آپ کو قوت پہنچانا) ایسی رفتار جو ہدف کو زیادہ قریب کرتی ہے اور اُس سے سنخیت رکھتی ہے ، اس پر جزا دی جاتی ہے اور اس کے مدمقابل رفتار کومنفی تقویت کے ساتھ اور کبھی تنبیہ کے ذریعہ قابو اور کنٹرول میں رکھا جاتا ہے ۔

اس طرح سے رفتاری آثار ونتائج (پاداش اور تنبیہ)سے استفادہ کرنے سے اپنے آپ پر ایک دائمی نظارت اور مراقبت عمل میں آتی ہے دوسرے طریقے جو ا سکینر اپنے کنٹرول اور ضبط نفس کے لئے اس سلسلہ میں ذکر کرتا ہے، یہ ہیں: اور اسباب وشرائط کا آسان یا تنگ کرنا (مثال کے طور پر فضول خرچ انسان، اپنی جیب میں کم پیسہ رکھے)، محرومیت، عاطفی شرائط وحالات پر تسلط، تکلیف دہ محرک سے استفادہ (جیسے گھنٹی والی گھڑی) اور دوسرے امور کی انجام دہی۔

مکتب سلوکیت کا نمونہ ا سکینر کے نظریہ کے مطابق رفتار کی نظارت اور جانچ معمولی اور کم اہمیت کی حامل ہیں ، لیکن ہم اس نمونہ اور توضیح سے بالاترین سطحوں کے لئے اور اپنے آپ پر نظارت کے لئے استفادہ کرسکتے ہیںاور تیّات ، اہداف ومقاصد حتی کہ اپنی رفتار وکردار کی خوبیوں پر کنٹرول کرسکتے ہیں۔ اخلاقی کتابوں میں یہ روش بہت زیادہ مورد توجہ رہی ہے اور اس سے متعلق مستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔(٢) ان کتابوں میں مراقبہ، محاسبہ یا مرابطہ مرز بانی]دشمن سے سرحد کی حفاظت[ کے عناوین کے تحت یہ بحث کی گئی ہے۔(٣)

____________________

.۱ Psychoegyobhelthp.۱۰۳;۱۰k

٢۔جیسے ان کے محاسبة النفس از سید ابن طائوس اور محاسبة النفس کفعمی)

٣۔اخلاقی تربیت کی روش میں عرفاء شیعہ نے آخری دوسو سال میں (ملاحسین قلی ہمدانی، میرزا علی آقا قاضی، مرحوم بہاری، حاج میرزا جواد تبریزی ، مرحوم علامہ طباطبائی اور امام خمینی تک نے )اپنے آپ پر نظارت (مراقبہ ومحاسبہ) کی روش پر بہت تاکید کی ہے اور اسے اپنے سلوک کی بنیاد قرار دیا ہے۔

۲۳۹

'' ابو حامد بندوں کے درمیان صرف صاحبان بصیرت جانتے ہیں کہ خداند عزوجل ان کا محافظ اورنگراں ہے اورمحاسبہ میں دقت سے کام لیا ہے اور ان کی نسبت بہت جزئی امور میں بھی سوال اوربازپرس کرتا ہے، لہٰذا یہ لوگ جانتے ہیں کہ ان امور سے نجات کا راستہ محاسبہ اورمراقبہ کے لزوم کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ کہ نفس کو حرکات اور لحظات کی نسبت جانچتے رہیں، لہٰذا جو اپنے نفس کو روز قیامت کے حساب وکتاب سے پہلے مورد محاسبہ قرار دے تو اُس دن اُس کا حساب آسان اور سوال کے وقت اُس کا جواب آمادہ ہوگا اورنتیجہ نیک اور اچھا ہوگا۔ اورجو کوئی اپنے نفس کا محاسبہ نہ کرے گا اس کی حسرت دائمی اور قیامت کے مواقف میں اُس کا توقف طولانی ہوگااور اس کی برائیاں اسے ایسی ذلت وخواری کے گڑھے میں ڈھکیل دیں گی۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ خداوندعالم کی اطاعت کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے اور اُسی نے صبر مرزبانی کا حکم دیا ہے:

(یَا اَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوْا ۔۔۔)۔(١)

''اے صاحبان ایمان تم لوگ صبر کرو، صبر کی تعلیم دو اور مرابطہ یعنی دشمن سے جہاد کے لئے تیاری کرو...'' لہٰذا تم مرابطہ ومرزبانی کرو پہلے مشارطہ کے ذریعہ اس کے بعد مراقبہ کے ذریعہ پھر محاسبہ اور پھر معاقبہ (سزا دینے) کے ذریعہ پھر اس کے بعد مجاہدہ اورمعاتبہ (عتاب کرنے) کے ذریعہ ...''(٢) اس لحاظ سے ایک دوسرے رخ سے بھی اپنے آپ پر نظارت اور نگرانی کا لزوم معلوم ہوا، محاسبۂ اعمال کردار کے تولنے کے لئے موازین قسط کے قرار دینا، قیامت کے دن حساب وکتاب کرنااور ہمارے نامہ اعمال میں ان کے جزئیات کو ضبط کرنا کہ جن کو ہر شخص واضح طور پر دیکھے گا، ان سب باتوں کے قطعی ہونے کے پیش نظر محاسبہ اوراعمال پر نظارت کے لزوم کے سلسلہ میں کوئی تردید نہیں رہ جاتی اورخداوند اس سے کہیں زیادہ کریم ہے کہ اپنے بندوں سے دوبارہ حساب کا مطالبہ کرے۔ قرآنی آیات اس سلسلہ میں بہت زیادہ واضح ہیں: ''ہم عدل وانصاف کا ترازو قیامت کے دن قرار دیں گے، پس کسی نفس پر بھی کسی چیز میں ستم نہیں جائے گا، اگر( کسی کا عمل) رائی کے دانہ کے برابر بھی ہوگا اُسے ہم لے آئیں گے اور ہم سب کا حساب کرنے کے لئے کافی ہیں ''۔(٣) ''اور جب نامۂ اعمال سامنے رکھا جائے گا، اُس وقت مجرمین کو اپنے نامۂ اعمال کے مندرجات سے خوفزدہ دیکھوگے اور وہ کہیں گے : اے ہم پروائے ہو، یہ کیسا نامۂ اعمال ہے کہ جس میں کوئی ]کام[ چھوٹا ہو یابڑاچھوڑا نہیں گیاہے، بلکہ سب کو جمع کرلیاہے اور جوکچھ انھوں نے انجام دیا ہے وہ سب اس میں موجود پائیں گے اور تمہارا رب کسی پر ستم روا نہیں رکھتا''۔(٤) اپنے آپ پر نظارت کے طریقے درج ذیل ہیں:

____________________

١۔ سورہ ٔآل عمران آیت ٢٠٠۔ ٢۔ احیاء العلوم، غزالی ج٤ص ٤١٧، ٤١٨۔٣۔ سورہ ٔانبیاء آیت٤٧۔ ٤۔سورہ ٔکہف آیت٤٩۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

سزا كا پيش خيمہ ۴

عاقبت :اُخروى عاقبت ميں موثر عوامل ۵

عمل :عمل كا اُخروى مواخذہ ۱;عمل كا جوابدہ ۳;عمل كے اثرات ۵;عمل كے مواخذہ كا پيش خيمہ ۴

قران كريم :قران كريم كا تجزيہ كرنے والوں كا اُخروى مواخذہ ۲

قيامت :قيامت ميں مواخذہ ۱،۲;قيامت ميں مواخذہ كا معيار ۵

كفار:كفار كا اُخروى مواخذہ ۲

آیت ۹۴

( فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ )

پس آپ اس بات كا واضح اعلان كرديں جس كا حكم ديا گيا ہے اور مشركين سے كنارہ كش ہوجائيں _

۱_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم واضح ، اشكارااور بغير كسى ابہام كے اپنے الہى منصبى فرائض اور رسالت كے ابلاغ پر مامور تھے_

فاصدع بما تو مر

لغت ميں ''صدع''واضح و اشكار بات كرنے كو كہتے ہيں _

۲_بعثت كے اغاز (مكى دور) ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى دعوت بعض مخفى كاموں ،رازدارى اور تقيہ كے ہمراہ تھي_

فاصدع بما تو مر

دعوت كو اشكار كرنے كا لازمہ اُس كا مخفى ركھنا ہے خواہ وہ كچھ وقت كے لئے ہى كيوں نہ ہو _

۳_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے منصبى فرائض ،فرامين خدا كے دائرے ميں تھے_فاصدع بما تو مر

۴_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، كفار و مشركين كى عہد شكنى ،اذيت و ازار سے بے اعتنائي اور اُن سے منہ موڑنے اور اپنى دعوت ميں ثابت قدم رہنے پر مامور تھے_فاصدع بما تو مرو ا عرض عن المشركين

''مشركين سے منہ موڑنے ''سے مراد يہ نہيں كہ اُن سے كنارہ گيرى كى جائے _چونكہ يہ ايت كے پہلے حصے( فاصدع بما تو مر ) كہ جس ميں اشكارا دعوت كا اظہار ہے،كے ساتھ ساز گار نہيں بلكہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مكہ ميں مشركين و كفار كى جانب سے بہت زيادہ ستائے گئے تھے لہذا مراد وہى ہے جو مذكورہ بالا مطلب ميں ايا ہے _ياد رہے كہ بعد والى ايت (انا كفينك المستهزء ين ) بھى اسى حقيقت كى تاكيد كر رہى ہے_

۳۲۱

۵_دينى نظريات اور اُصول كو بيان كرنے ميں صراحت و قاطعيت ،دينى راہنمائوں پرايك واجب اور ضرورى فريضہ ہے_

فاصدع بما تو مرو ا عرض عن المشركين

۶_''عن عبيداللّه بن على الحلبى قال: سمعت ا باعبداللّه عليه‌السلام يقول: مكث رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بمكة بعد ماجاء ه الوحى عن اللّه تبارك وتعالى ثلاث عشرة سنة منها ثلاث سنين مختفياً خائفاً لايظهر، حتى ا مره اللّه عزّوجلّ ا ن يصدع بما ا مره به، فا ظهر حينئذ الدّعوة; (۱) عبيد الله بن على الحلبى كا كہنا ہے كہ ميں نے امام صادق عليہ السلام سے سنا كہ اپعليه‌السلام نے فرمايا: جب خداوند متعال كى جانب سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر وحى نازل ہوئي اس كے بعد اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تيرہ سال تك مكہ ميں رہے _كہ جن ميں سے تين سال مخفى اور پنہاں تھے اور اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (اجتماعات ميں ) ظاہر نہيں ہوتے تھے_يہاں تك كہ خدا نے انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو فرمان ديا كہ جو كچھ اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو امر كيا گيا ہے اُسے اشكارا بيان كرو _اس كے بعد اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنى دعوت كو علنى كر ديا_

۷_''عن محمد بن على الحلبى عن ا بى عبداللّه عليه‌السلام قال: اكتتم رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بمكة مختفياً خائفاً خمس سنين ليس يظهر ا مره ثم ا مره اللّه عزّوجلّ ا ن يصدع بما ا مر به فظهر رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و ا ظهر ا مره; (۲) محمد بن على الحلبى نے امام صادقعليه‌السلام سے روايت كى ہے كہ اپعليه‌السلام نے فرمايا:رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پانچ سال تك مكہ ميں اپنى رسالت كو پنہاں ركھا _اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مخفى اور خوفزدہ تھے اور اپنى رسالت كو اشكار نہيں كرتے تھے پھر خداوند عزوجل نے اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو فرمان ديا كہ اپنى رسالت كو اشكار كرو _پس انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اشكار ہو گئے اور اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علنى دعوت شروع كر دي_

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اشكار دعوت ۶،۷; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى استقامت ۴; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تبليغ ۱;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت ۷; آنحضرت كى رسالت۳;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى ۴;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى شرعى ذمہ دارى ۱; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى صراحت۱;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى مخفى دعوت۲،۶،۷; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اذيت۴

احكام :۵

____________________

۱) كمال الدين ،ص۳۴۴، ح۲۹، ب۳۳; نور الثقلين ، ج ۳، ص۳۲ ،ح۱۲۳_

۲) كمال الدين ،ص۳۴۴، ح۲۸، ب۳۳; نور الثقلين ،ج ۳، ص۳۲ ، ح۱۲۱_

۳۲۲

اسلام :تاريخ صدر اسلام ۲،۶،۷

الله تعالى :الله تعالى كے اوامر ۳

تبليغ :تبليغ ميں صراحت ۱،۵;تبليغ ميں قاطعيت ۵

دين :دين كى تبليغ ۵

دينى قائدين :دينى قائدين كى شرعى ذمہ دارى ۵

روايت :۶،۷

مشركين :مشركين كى اذيتيں اور انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۴;مشركين سے منہ موڑنا ۴

واجبات :۵

آیت ۹۵

( إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ )

ہم ان استہزاء كرنے والوں كے لئے كافى ہيں _

۱_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو مشركين اور دشمنوں كى اذيت وازار اور استہزاء كے مقابلے ميں خداوند متعال كى حمايت حاصل تھي_انا كفينك المستهزء ين

۲_خداوندمتعال كا پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كواپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے استہزاء كرنے والوں كے شر كو دفع كرنے كى خوشخبرى دينا_

انا كفينك المستهزء ين

۳_دشمنوں اور مشركين سے بے اعتنائي كرنے اور اپنى دعوت كو علنى و اشكارا كرنے ميں انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كاسب سے بڑا پشت پناہ،دشمنوں كے مقابلے ميں خداوند متعال كاپيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حمايت كرنا تھا_

فاصدع بما تو مرو ا عرض عن المشركين _انا كفينك المستهزء ين

جملہ ''انا كفينك '' جملہ '' فاصدع بما تو مرو '' كے لئے تعليل كى حيثيت ركھتا ہے ;يعنى چونكہ ہم تمہارى حمايت كرتے ہيں پس جس چيز كا تجھے حكم ديا گيا ہے اُس پر عمل كرو اور مشركين سے منہ موڑ لو_

۴_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اپنى رسالت كے پہلے دور (دوران

۳۲۳

مكہ) ميں مشركين كى طرف سے تمسخر،شديد مخالفتوں اور روحانى اذيت وازار كا سامنا كرنا پڑا تھا_

و ا عرض عن المشركين _انا كفينك المستهزء ين

۵_استہزا اور تمسخر كرنا،پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين اور دشمنوں كاطريقہ تھا _انا كفينك المستهزء ين

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين اور دشمنوں كو ''استہزاء كرنے والوں ''كے نام سے ياد كيا جانااس نكتے كى طرف اشارہ ہے كہ وہ انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ مقابلہ كرنے كے لئے ہميشہ اس طريقے سے استفادہ كرتے تھے_

۶_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، اپنى دعوت كو اشكار اور علنى كرنے كى صورت ميں مشركين و كفار كيطرف سے دشمنى اور روحانى اذيت وازار سے پريشان تھے_فاصدع بما تو مر ...انا كفينك المستهزء ين

احتمال ہے كہ جملہ''انا كفينك المستهزئين'' پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پريشانيوں كا جواب ہو كہ جو اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كوخدا كے فرمان: '' فاصدع بما تو مر واعرض عن المشركين ''كے بعد اپنى دعوت كو علنى كرنے كى وجہ سے لاحق تھيں _

۷_'' عن ا بان بن عثمان الا حمر رفعه قال: المستهزئون برسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خمسة، الوليد بن المغيرة المخزومى والعاص بن وائل السهمى والا سود بن عبديغوث زهرى والا سود بن مطلّب والحارث بن الطُلاطلة الثقفي; (۱) ابان بن عثمان احمد كى ايك مرفوعہ روايت ميں ايا ہے كہ (معصومعليه‌السلام )نے فرمايا:''پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے استہزاء كرنے والے پانچ شخص تھے:۱_وليد بن مغيرہ محزومى ،۲_عاص بن وائل سھمى ،۳_اسود بن عبد يغوث زھري،۴_اسود بن مطلب ،۵_حارث بن طلا طلة الثقفي''

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے استہزا كرنے والوں كے شر كا دور كرنا ۲;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے استہزا كرنے والے ۷; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا استہزا ۱،۴،۵;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اذيت ۴ ،۶;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو بشارت ۲; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اشكارا دعوت ۳،۶;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :كى پريشانى ۶;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى دشمنوں سے بے اعتنائي ۳; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى مشركين سے بے اعتنائي۳;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حامى ۱ ، ۳ ;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دشمن ۶;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دشمنوں كا استہزا ۱،۵ ;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دشمنوں كى اذيتيں ۱ ; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دشمنوں كے ساتھ مقابلے كا طريقہ ۵;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين كا استہزا ۵ ; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين كے ساتھ مقابلے كا طريقہ ۵; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين ۴

____________________

۱)خصال شيخ صدوق ،ص۲۷۹،ح ۲۴;نور الثقلين ،ج۳، ص۳۶، ح۱۲۷_

۳۲۴

اسلام :تاريخ صدر اسلام ۴،۷

الله تعالى :الله تعالى كى بشارتيں ۲

الله تعالى كى حمايتيں :الله تعالى كى حمايتيں جن كے شامل حال ہيں ۱،۳

روايت:۷

قران كريم :قران كا استہزاء كرنے والوں كا شر دور كرنا ۲

كفار:كفاركى دشمنى ۶;كفار كے استہزاء ۶

مشركين مشركين اور انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۴;مشركين كى اذيتيں ۱، ۴ ; مشركين كى دشمنى ۶;مشركين كے استہزا ۱،۴،۶

آیت ۹۶

( الَّذِينَ يَجْعَلُونَ مَعَ اللّهِ إِلـهاً آخَرَ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ )

جو خدا كے ساتھ دوسرا خدا قرار ديتے ہيں اور عنقريب انہيں ان كا حال معلوم ہوجائے گا_

۱_ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ استہزا كرنے والے، مشرك اور الله تعالى كے سوا كسى اور معبود كے معتقدتھے_

المستهزء ين_الذين يجعلون مع الله الهًا ء اخر

۲_الله كے سوا كسى اور كى خدائي كا عقيدہ اور شرك ،مكہ كے اكثر لوگوں كا مذہب اور دين تھا_

و ا عرض عن المشركين ...الذين يجعلون مع اللّه الهًا ء اخر

۳_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ٹھٹھہ مذاق كرنے والے مشركين كو شديد عذاب كى دھمكى دى گئي ہے_

الذين يجعلون مع اللّه الهًا ء اخر فسوف يعلمون

جملہ '' فسوف يعلمون ''(عنقريب جان ليں گے)تہديد و دھمكى كى حيثيت ركھتا ہے_

۴_قيامت ،حقائق كے منكشف ہونے اور حق و باطل كے روشن ہونے كا دن ہے_

الذين يجعلون مع اللّه الهًا ء اخر فسوف يعلمون

مندرجہ بالا مطلب اس نكتے پر مبنى ہے كہ جب ''جاننے ''كا وقت ،روز قيامت ہو_

۳۲۵

۵_خداوندمتعال كا پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اپنى رسالت اور مقاصد ميں اس طرح كامياب وموفق ہونے كى بشارت دينا كہ جس كا مشركين اور دشمن محسوس كرتے ہوئے نظارہ كريں گے_

انا كفينك المستهزء ين_الذين يجعلون مع اللّه الهًا ء اخر فسوف يعلمون

مذكورہ بالا مطلب اس احتمال پر مبنى ہے كہ جب ''يعلمون''كامفعول پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اپنى رسالت ميں كاميابى ہو كہ جو مشركين اور دشمنوں كى شكست اور ناكامى كے ہمراہ ہے_

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے استہزا كرنے والوں كا عقيدہ ۱; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے استہزاكرنے والوں كا شرك ۱; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو بشارت ۵;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے استہزاكرنے والوں كو ڈرانا۳;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے

آیت ۹۷

( وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ )

اور ہم جانتے ہيں كہ آپ انكى باتوں سے دل تنگ ہو رہے ہيں _

۱_خداوندمتعال،نے مشركين كى طرف سے غلط پروپيگنڈے اور استہزا كى وجہ سے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى دل تنگى اور غم واندوہ سے اپنى اگاہى كا اظہار كيا_انا كفينك المستهزء ين ...ولقد نعلم ا نك يضيق صدرك بما يقولون

۲_مشركين كى طرف سے غلط پروپيگنڈے اور اذيت

۳۲۶

ناك استہزا كے مقابلے ميں خداوندمتعال كا پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو تسلى و تشفى دينا _

المستهزء ين فسوف يعلمون_ولقد نعلم ا نك يضيق صدرك بما يقولون

۳_غلط پروپيگنڈا اور اذيت ناك ٹھٹھہ و مذاق، اسلام اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف كفار و مشركين كا دائمى حربہ تھا _

المستهزء ين ...ولقد نعلم ا نك يضيق صدرك بما يقولون

فعل مضارع '' يقولون ''مشركين اور دشمنوں كے پروپيگنڈے اور باتوں كے دائمى اور مستمر ہونے پر دلالت كرتا ہے_

۴_پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،مشركين اور دشمنان اسلام كى طرف سے غلط پروپيگنڈے اور اذيت ناك استہزا سے غمگين اور اندوہ ناك رہتے تھے_المستهزء ين ...ولقد نعلم ا نك يضيق صدرك بما يقولون

۵_انبياءے كرامعليه‌السلام بھى دوسرے انسانوں كى طرح اذيت و ازار سے متاثر ہوتے تھے_

ولقد نعلم ا نك يضيق صدرك بما يقولون

۶_اسلامى معاشرے كے مصلحين اوردينى قائدين ہميشہ سے دشمنوں كے غلط پروپيگنڈے اور اذيت ناك ٹھٹھہ و مذاق سے دوچار رہے ہيں لہذا اُنہيں خدا كى حمايت اور لطف الہى سے اُميد وار رہنا چاہيے _

المستهزء ين ...ولقد نعلم ا نك يضيق صدرك بما يقولون

۷_خداوند متعال انسان كے ضمير اور روحى و نفسياتى احساسات اور عواطف سے كاملاً اگاہ ہے_

ولقد نعلم ا نك يضيق صدرك بما يقولون

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كواذيت ۲،۴;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے استہزا ۱،۲،۳،۴;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كااندوہ وغم ۴;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف پروپيگنڈا ۱،۳،۴;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف سازش ۳;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دشمن ۳;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو تسلى ۲

اسلام :دشمنان اسلام كى اذيتيں ۴;دشمنان اسلام كے استہزا ۴،۶

الله تعالى :الله تعالى اور انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا غم واندوہ ۱;الله تعالى اور انسان كا ضمير ۷;الله تعالى كا علم ۱;الله تعالى كا علم غيب ۷

اُميد وارى :الله تعالى كى حمايت سے اُميد وار ى ۶;الله تعالى كے لطف سے اُميد وارى ۶

انبياء :انبياء كا بشر ہونا ۵;انبيا ء كا متاثر ہونا ۵

۳۲۷

دينى قائدين :دينى قائدين كى اُميد وارى ۶;دينى قائدين كے خلاف پروپيگنڈا ۶

مشركين :مشركين كى اذيتيں ۲،۴;مشركين كے استہزا ۱،۲ ،۳ ،۴;مشركين كا مقابلہ كرنے كا طريقہ ۳

آیت ۹۸

( فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ )

تو آپ اپنے پروردگار كے حمد كى تسبيح كيجئے اور سجدہ گذاروں ميں شامل ہوجايئے

۱_خداوند متعال كى جانب سے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو حمد و ستائش خدا كے ساتھ تسبيح كرنے كاحكم _

فسبّح بحمد ربك وكن مّن الساجدين

''بحمد '' ميں ''با'' مصاحبت كے لئے ہے ;يعنى تسبيح كو خداوند متعال كى حمد وستائش كے ساتھ ہونا چاہيے_

۲_خداوند متعال كى جانب سے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كواپنى رسالت اور دشمنوں كى مخالفتوں كے سبب پيدا ہونے والے مصائب اور مشكلات ميں نماز، عبادت اور پرورد گار كى ياد سے مدد طلب كرنے كا حكم _

ولقد نعلم ا نك يضيق صدرك بما يقولون_فسبّح بحمد ربك وكن مّن الساجدين

مندرجہ بالا مطلب ،''فسبح ''كى ''فا'' سے اخذ كيا گيا ہے كہ جو گذشتہ ايت سے اس جملے كى تفريع كے لئے ايا ہے_يعنى :خدا وند متعال كاپيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے غم واندوہ اور دل تنگى سے اگاہ ہونے كے بعد خدا كى جانب سے تسبيح اور حمد كے حكم سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ عبادات ،غم واندوہ اورپريشانى كو ختم كرنے ميں موثر ہيں _

۳_اسلامى معاشرے كے راہنمائوں اور حكمرانوں كو اپنے فرائض كى ادائيگى ميں مشكلات كے مقابلے ميں ذكر و عبادت اور نماز كے ذريعے پرورد گار سے مدد طلب كرنے كى ضرورت ہے_

ولقد نعلم ا نك يضيق صدرك ...فسبّح بحمد ربك وكن مّن الساجدين

۴_ذكر و عبادت ميں تسبيح پرورد گار كے ساتھ خدا كى حمد و ستائش كا ہونا ايك نيك اور پسنديدہ امر ہے_فسبّح بحمد ربك

۵_خداوند متعال كى طرف سے اپنے بندوں كى حمايت

۳۲۸

مقتضى ہے كہ اُس كا شكر اور تسبيح و عبادت كى جائے_ولقد نعلم ا نك يضيق صدرك ...فسبّح بحمد ربك

''فسبّح '' ميں ''فا'' گذشتہ ايت پر تفريع ہے (گذشتہ ايت مشركين كى اذيت ناك باتوں كے مقابلے ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو تسلى و تشفى پر مشتمل تھى ) اُس پر اس ايت كى تفريع ہو سكتا ہے مذكورہ بالا نكتے كى جانب اشارہ ہو_

۶_خدا وند متعال كے بارے ميں ہر قسم كے شرك اور ناروا، بات كے مقابلے ميں اُس كى تسبيح و عبادت كرنا ضرورى ہے_ولقد نعلم بما يقولون_فسبّح بحمد ربك

''فسبّح '' ميں گذشتہ ايت پر تفريع ہو سكتا ہے اس معنى ميں ہو كہ اب جبكہ وہ خدا كے بارے ميں ناروا باتيں كہتے ہيں اور پرورد گار كى تنقيص كرتے ہيں ،پس تو اُس كى حمد و ستائش اور تسبيح كر_

۷_ خدا وندمتعال كاذكر اور عبادت;مثلاً نماز، پريشانيوں اور غم واندوہ كو ختم كرنے ، ثابت قدمى وحوصلہ بلند كرنے اور اطمينان خاطر كا باعث بنتى ہے_ولقد نعلم ا نك يضيق صدرك ...فسبّح بحمد ربك وكن مّن الساجدين

مفسرين كى اكثريت كا كہنا ہے كہ اس ايت ميں سجدہ سے نماز مرادہے _اور اس كى تائيد ايك روايت سے بھى ہوتى ہے جس كے مطابق پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب بھى پريشان اور دل تنگ ہوتے تو نماز پڑھتے تھے_(مجمع البيان )

۸_سجدہ اور خضوع ،نماز كى روح اور اصلى ركن ہے جس كو تمام عبادات ميں خصوصى مقام حاصل ہے _

فسبّح بحمد ربك وكن مّن الساجدين

ہو سكتا ہے'' سجدہ ''سے نماز مراد ہو چونكہ نماز كے بجائے سجدے كا حكم ديا گيا ہے_ شايديہ اس حقيقت كو بيان كر رہا ہو كہ سجدہ نماز كا اہم ركن اور اُس كى روح ہے_ياد رہے كہ تسبيح و حمد كى نصيحت كے بعد خدا كى طرف سے سجدہ كا حكم كہ ہر دو ايك طرح كى عبادت شمار ہوتى ہيں ، اس كے خاص مقام ومنزلت كو ظاہر كرتا ہے_

۹_خداوند متعال كى ربوبيت، اس بات كے لائق ہے كہ اُس كى تسبيح وحمد كى جائے اورانسان اُس كى بارگاہ ميں فروتنى اور سجدہ بجا لائے_فسبّح بحمد ربك وكن مّن الساجدين

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو وصيت ۱،۲

استقامت :استقامت كے عوامل ۷

استمداد :الله تعالى سے استمداد ۲،۳;عبادت سے استمداد

۳۲۹

۲;نماز سے استمداد ۲

الله تعالى :الله تعالى كى تسبيح كى اہميت ۱،۶;الله تعالى كى تسبيح كے عوامل ۵،۹;الله تعالى كى ربوبيت ۹;الله تعالى كى حمايتيں ۵;الله تعالى كے سامنے سجدہ كے عوامل۹;الله تعالى كے وصايا ۱،۲

حمد :حمد خدا كى اہميت ۱;حمد خدا كے عوامل ۵،۹

حوصلہ بلند ہونا :اس كے عوامل ۷

دينى قائدين :دينى قائدين كى ضروريات ۳

ذكر :الله تعالى كے ذكركى اہميت ۲،۳;الله تعالى كے ذكر كے اداب ۴;الله تعالى كے ذكر كے اثرات ۷; الله تعالى كے ذكر ميں تحميد ۴الله تعالى كے ذكر ميں تسبيح ۴

سختى :سختى ميں تسہيل كى روش ۲،۳

عبادت:الله كى عبادت كى اہميت ۲،۳،۶;الله كى عبادت كے عوامل ۵;الله كى عبادت ميں تحميد ۴; الله كى عبادت ميں تسبيح ۴;عبادت كے اداب ۴;عبادت كے اثرات ۷

عمل :پسنديدہ عمل ۴

غم واندوہ:غم واندوہ ختم ہونے كے عوامل ۷

قلبى اطمينان:قلبى اطمينان كے عوامل ۷

نفسيات :تربيتى نفسيات ۷

نماز :نماز كى اہميت ۲،۳;نمازكے اثرات ۷;نماز كے اركان ۸;نماز ميں خضوع كى اہميت ۸;نماز ميں سجدے كى اہميت ۸

۳۳۰

آیت ۹۹

( وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ )

اور اس وقت تك اپنے رب كى عبادت كرتے رہيے جب تك كہ موت نہ آجائے _

۱_خداوند متعال كى طرف سے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كوعمر كے اخر تك عبادت كرنے كا حكم _

واعبد ربك حتى ياتيك اليقين

مندرجہ بالا مطلب اس بات پر مبنى ہے كہ جب ''يقين '' سے موت مراد ہو _جيسا كہ سورہ ''مدثر'' كى ايت ۴۷ ميں بھى موت كو ''يقين '' سے تعبير كيا گيا ہے _قابل ذكر ہے كہ ''تحصيل يقين ''كے بجائے ''انے''(يا تي) كى تعبير سے بھى اس مطلب كى تائيد ہو سكتى ہے_

۲_ پورى عمرپرورد گار كى عبادت كرنا، بندوں كا فريضہ ہے_واعبد ربك حتى ياتيك اليقين

۳_انسان موت كے بعد ہى حقائق سے اگاہ ہوتا ہے اور اُسے اُن كا يقين اتا ہے_واعبد ربك حتى ياتيك اليقين

مندرجہ بالا مطلب كو موت كى وجہ تسميہ''يقين ''

سے اخذ كيا گيا ہے_يعنى موت كو اس لئے ''يقين'' كہا جاتا ہے چونكہ انسان پر حقائق اشكار ہو جاتے ہيں اوراُسے اُنكا يقين اجاتا ہے_

۴_خداوند متعال كى جانب سے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو يقين كے مرتبے پر فائز ہونے تك پرورد گار كى عبادت كرنے كى نصيحت _

واعبد ربك حتى ياتيك اليقين

مندرجہ بالا مطلب اس بنياد پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب كلمہ ''يقين''اپنے لغوى و اصطلاحى معنى ميں استعمال ہوا ہو_

۵_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خداوند متعال كى خصوصى تربيت اور خاص توجہ كے تحت تھے_واعبد ربك حتى ياتيك اليقين

ہو سكتا ہے مذكورہ مطلب اس لئے اخذ كيا گيا ہوكہ صفت ''ربّ'' ،كاف خطاب كى طر ف مضاف ہے كہ جس كا مرجع پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہيں _لہذااس نكتہ كى بنا ء

۳۳۱

پر خداوند سب بندوں كا ''ربّ'' ہے _

۶_يقين ،ايمان و معرفت كے بلند ترين مراتب كى علامت ہے_واعبد ربك حتى ياتيك اليقين

چونكہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كہ جو ايمان كا مظہر ہيں كو نصيحت كى جاتى ہے كہ اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يقين پر فائز ہونے كے لئے عبادت كريں _اس سے مندرجہ بالا مطلب اخذ ہوتا ہے_

۷_يقين كے بلند ترين مرتبے پر فائز ہونا ہى عبادت كا فلسفہ اور مقصد ہے_واعبد ربك حتى ياتيك اليقين

''حتى '' غايت كى انتہاكے لئے ہے جو ''الى '' كے معنى ميں ہے اوراس ايت ميں ''يقين'' كو ''عبادت'' كے لئے غايت و مقصد كے طور پر ليا گيا ہے(واعبد ...)_

۸_خداوند متعال كى ربوبيت ،اُس كى بار گاہ ميں عبادت كى مقتضى ہے_واعبد ربك حتى ياتيك اليقين

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كامربى ۵;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو نصيحت ۴ ; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى شرعى ذمہ دارى ۱;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى عبادات ۱;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى عبوديت ۱; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فضائل ۵

الله تعالى :الله تعالى كى ربوبيت ۸;الله تعالى كى نصيحتيں ۴;الله تعالى كے اوامر ۱

انسان:انسانوں كى شرعى ذمہ دارياں ۲

ايمان :ايمان كے مراتب ۶

شرعى ذمہ داري:شرعى ذمہ دارى كا سب كےلئے ہونا ۲

شناخت :شناخت كے مراتب ۶

عبادت:خدا كى عبادت ۲،۴;خدا كى عبادت كے عوامل ۸;عبادت كا فلسفہ ۷

لطف خدا :لطف خدا جن كے شامل حال ہے ۵

يقين :موت كے بعد كے حقائق كا يقين ۳;يقين كى اہميت ۶،۷

۳۳۲

۱۶- سوره نحل

آیت ۱

( بسم الله الرحمن الرحیم )

( أَتَى أَمْرُ اللّهِ فَلاَ تَسْتَعْجِلُوهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ )

بنام خدائے رحمان و رحيم

امر الہى آگيا ہے لہذا اب بلاوجہ جلدى نہ مچاؤ كہ خدا ان كے شرك سے پاك و پاكيزہ اور بلند و بالا ہے_

۱_ خداوند عالم كى طرف سے اسلام و توحيد كى فتح اور شرك و مشركين كى رسوائي كا فرمان جارى ہونا_

آتى امرالله فلا تستعجلوه سبحانه و تعالى عمّا يشركون

مذكورہ با لا تفسير اس بناء پر ہے كے جب ''امر'' كا معنى فرمان ہو ليكن فرمان كس چيز كے بارے ميں ہے آيت كا ذيل (سبحانه و تعالى عَمّا يشركون ) ممكن ہے اس بات پر قرينہ ہو كہ امر سے يہاں مراد شرك كى شكست و رسوائي اور توحيد كى فتح ہے_

۲_ صدر اسلام كے مسلمان توحيد اور اسلام كى حاكميت اور خدائي و عدے كے جلد متحقق ہونے كے خواہاں تھے_

آتى امرالله فلا تستعجلوهسبحانه و تعالى عمّا يشركون

''لا تستعجلوه '' كے مخاطب كے بارے ميں دو احتمال ہے ايك يہ كہ اس سلسلے ميں عجلت مسلمانوں كى طرف سے پائي_ دو سرا يہ كہ مشركين يہ چاہتے تھے كہ وعدہ الہى (عذاب يا توحيد كى حاكميت يا قيامت ) جلد از جلد وقوع پذير ہو_ مذكورہ بالا مطلب پہلے احتمال كى بناء پر ہے_

۳_ مؤمنين كا وظيفہ ہے كہ وہ صبر و شكيبائي سے كام ليتے ہوئے خدائي وعدوں كے جلد تحقق كى خواہش سے پرہيز كريں _

آتى امرالله فلا تستعجلوه سبحانه و تعالى عمّا يشركون

اس بات كو مدنظر ركھتے ہوئے كہ''لاتستعجلوه'' مخاطب اور'' يشركون'' غائب كا صيغہ ہے ايسے معلوم ہوتا ہے كہ پہلے فعل كے مخاطب ،مؤمنين ہوں _

۴_ صدر اسلام كے مشركين، دشمنى اور مذاق اڑانے كى خاطر الہى و عدوں (عذاب، اسلام كى حاكميت اور قيامت) كے جلد وقوع پذير ہونے كے خواہاں تھے_آتى امراللّه فلا تستعجلوه

۳۳۳

يہ احتمال ہے كہ ''تستعجلوہ'' كا مخاطب مشركين ہوں جو الہى وعدوں كے تحقق كے خواہش مند تھے كيونكہ عام طور پر كوئي بھى اپنے دشمن كى فتح اور اپنى شكست و رسوائي كا خواہشمند نہيں ہوتا اس ليے يہ كہا جاسكتا ہے كہ نزول عذاب كے سلسلے ميں مشركين كى جلد بازى ، دشمنى اور تمسخر كى خاطر تھي_

۵_ خدائي و عدوں كے جلد وقوع پذير ہونے كے سلسلے ميں عجلت اور بے صبرى كا مظاہرہ كرنا جائز نہيں ہے_

آتى امراللّه فلا تستعجلوه

۶_ خدائي وعدے حتمى اور اپنے مقررہ وقت پرانجام پذير ہوتے ہيں _آتى امراللّه فلا تستعجلوه

۷_ خداوند عالم ہر قسم كے شريك سے منزہ و مبرّہ ہے_سبحنه ...عمّا يشركون

۸_ خداوند عالم كى ذات اقدس اس چيز سے بالاتر ہے كہ اس كے ليے كسى طرح كے شريك كا تصور كيا جائے_

سبحنه و تعالى عمّا يشركون

۹_ شرك كى ناپائيدارى كا سرچشمہ اس كا حقيقت سے عارى اور بے بنياد ہونا ہے _

۱۰_''عن بعض اصحابناعن ابى عبداللّه عليه‌السلام قال: مسئلة عن قول الله : ''اتى امر الله فلا تستعجلوه قال: ...انّ اللّه اذا اجز أن شيائً كائن فانه قد كانّ'' (۱)

ايك صحابى كا بيان ہے : كہ ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے خداوند عالم كے اس كلام''آتى امراللّہ فلا تستعجلوہ'' كے بارے ميں سوال كيا تو آپعليه‌السلام نے فرمايا: جب بھى خداوند عالم كسى چيز كے تحقق كے بارے ميں خبر ديتا ہے تو اسے متحقق ہى سمجھا جاتا ہے_

۱۱_قال رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قبل الساعة سحابة سودائ ثم ينادى منادي: ايّها الناس ''اتى امر اللّه فلد تستعجلوه'' (۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا: كہ روز قيامت سے پہلے بادل ظاہر ہوگا ...پھر منادى ندا،د ے گا اے لوگوںاتى امرى الله فلا تستعجلوه

____________________

۱) تفسير عياشى ج۲ ص۲۵۴ ح۲ ، نورالثقلين ص۳۸ ح۵ _

۲)الدرالمنشور ج۵ ص۱۰۸_

۳۳۴

اسلام:اسلام كى فتح۱،۲

الله تعالى :الله تعالى اور اس كاشريك ۷،۸; الله تعالى كا علّو ۸;الله تعالى كا منزہ ہونا ۷،۸; الله تعالى كى خبروں كا حتمى ہونا۱۰; الله تعالى كے وعدوں كا حتمى ہونا۶; الله تعالى كے وعدوں كے تحقق پر صبر ۳;الله تعالى كے وعدوں كے تحقق ميں جلد بازى كى درخواست ۲ ، ۴;اوامر الہي۱،۱۰; الہى وعدوں ميں تعجيل سے اجتناب ۳

روايت ۱۰، ۱۱

شرك:شرك كى شكست ۱; شرك كى ناپائيداري۹; شرك كے بطلان كے آثار۹

عجلت:عجلت كى سرزنش۵

قيامت :قيامت كى نشانياں ۱۱

مسلمين:صدراسلام كے مسلمانوں كے تقاضے ۲

مؤمنين:مؤمنين كى ذمہ داري۳

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كا استہزاء ۴; صدرا سلام كے مشركين كى دشمنى ۴; صدرا سلام كے مشركين كے تقاضے ۴; مشركين كى ذلت۱

آیت ۲

( يُنَزِّلُ الْمَلآئِكَةَ بِالْرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ أَنْ أَنذِرُواْ أَنَّهُ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ أَنَاْ فَاتَّقُونِ )

وہ جس بندے پر چاہتا ہے اپنے حكم سے ملائكہ كو روح كے ساتھ نازل كرديتا ہے كہ ان بندوں كو ڈراؤ اور سمجھاؤ كہ ميرے علاوہ كوئي خدا نہيں ہے لہذا مجھى سے ڈريں _

۱_خداوند عالم، اپنے برگزيدہ بندوں پر ملائكہ كو روح (وحى الہي) ساتھ نازل كرتا ہے_

ينزلالملائكة بالروح من امره على من يشاء من عباده

آيت ميں روح سے كيا مراد ہے اس بارے ميں مفسرين نے مختلف احتمالات ذكر كئے ہيں _

جيسے حضرت جبرائيل ، وحى اور وہ چيز كہ جس كے ذريعہ زندگى متحقق ہوتى ہو_ مذكوربالا مطلب ميں ''روح'' وحى سے كنايہ ہے_

۳۳۵

۲_ ''روح '' خداوند عالم كے مختص امور اور شان ميں سے اور اسى كے ساتھ مربوط ہے_

ينزل ملائكه بالروح من امره على من يشاء من عباده

''امر '' كا ايك معنى شان بھى ہے مذكورہ بالا تفسير اسى معنى كى بناء پر ہے_

۳_ خدا كے برگزيدہ بندوں پر ملائكہ كا نزول حكم خداوندى كے تحت ہے_ينزّل الملائكة بالروح من امره

''امر'' كا ايك معنى فرمان اور حكم ہے اور ''من'' يہاں ''با'' كے معنى ميں ہوسكتى ہے لہذا اس صورت ميں ''من امرہ'' كا معنى يعنى حكم وفرمان خداہے_

۴_''وحي''انسان اور معاشرہ كے ليے سرمايہ حيات ہے_ينزّل الملائكه بالروح من امره على من يشاء

جيسا كہ مفسرين نے كہا ہے كہ ''الروح'' سے مراد وحى ہوسكتى ہے_وحى كى جگہ پر كلمہ''الروح'' كا استعمال ،استعارہ ہے_ اس استعارہ كى وجہ شبہ وحى كا سرمايہ حيات ہونا ہے_ جيسا كہ روح موجودات كے ليے سرمايہ حيات ہوتى ہے_

۵_ ملائكہ، خداوند عالم كے برگزيدہ بندوں پر ابلاغ وحى كا ايك واسطہ ہيں _

ينزل الملائكةبالروح من امره على من يشاء من عباده

بعد والے جملات (ان انذروا ...) كہ جو وحى اور رسالت كے ابلاغ كے بارے ميں ہے كے قرينے كى بناء پر آيت ميں ''روح'' سے مراد وحى ہوسكتى ہے_

۶_ انسان كے ليے وحى كو دريافت كرنے كے ليے خداوند كى عبوديت، ايك شائستہ پيش خيمہ ہے_

ينزّل الملائكهبالروح من امره على من يشاء من عباده

''من يشائ'' كى ''من عبادہ'' كے ذريعہ وضاحت كرنا اور ''ناس '' اور خلق وغيرہ جيسے كلمات كى جگہ پر لفظ ''عباد'' كا استعمال ممكن ہے مذكورہ بالا مطلب كى طرف اشارہ ہو_

۷_ وحى كے دريافت كے ليے انبياء كا انتخاب، مشيّت الہى كے تابع ہے_ينزل الملائكه بالروح من امره على من يشاء من عباده

۸_ انبياء، خداوند عالم كے منتخب بندے ہيں _من يشاء

۹_ برگزيدہ افراد پر وحى كے ابلاغ كے ليے ملائكہ كا نزول ، حكم الہى كے يقينى اور حتمى ہونے كا ايك پر تو

۳۳۶

ہے_آتى امراللّه ينزّل الملائكه بالروح من امره

۱۰_ لوگوں كو انذار اور خبردار كرنا، انبياء كا بنيادى وظيفہ ہے_ينزل الملائكهبالروح من عباده ان انذرو

۱۱_ منتخب بندوں پر فرشتوں كے نزول كا مقصد، ان تك الہى پيغام پہنچانا ہے _

ينزل الملائكه ان انذروا انّه لا اله الّا أن

۱۲_ ملائكہ كے ذريعہ، الہى فرامين كا اجراء ہوتا ہے_ينزل الملائكه ان انذرو

۱۳_ تقوى اور حقوق الله كى رعايت، غير معمولى قدر وقيمت كى مالك ہے_انهّ لا الهالّا أنا فاتقون

كيوں كہ روح اور ملائكہ كو توحيد كے ابلاغ كے ليے بھيجا جاتا ہے اور توحيدكو تقوى تك پہنچنے كا ايك مقدمہ قرار ديا گيا ہے اس سے مذكورہ بالا مطلب حاصل ہوتاہے _

۱۴_ انبياء كى دعوت كا خلاصہ ، توحيد كى طرف دعوت اور خوف الہى ہے _لا اله الا أنا فاتقون

۱۵_ خدائے يكتا پر اعتقاد ، تقوى اور خوف الہى كا پيش خيمہ ہے_ان انذروا انّه لا اله الّا أنا فاتقون

''فاتقون'' ميں ''فا'' تفريع كے ليے ہے اس بناء پر يہ مطلب اخذ ہوتا ہے كہ : اگر كوئي توحيد اور خدائي يگانگت پر ايمان لے آئے تو اس كے ليے تقوى الہى كا زمينہ بھى فراہم ہوجاتا ہے _

۱۶_ توحيدى فكر ، انسان كو اس كے مناسب عمل كرنے كى دعوت ديتى ہے_لا اله

۱۷_آتى رجل امير المؤمنين عليه‌السلام يسأله عن الروح أليس هو جبرئيل عليه‌السلام : فقال له اميرالمؤمنين عليه‌السلام جبرئيل من الملائكة و الروح غير جبرئيل يقول اللّه تعالى لنبيّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم '' ينزّل الملائكه بالروح'' و الروح غير الملائكة (۱)

ايك شخص امير المؤمنينعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوا اور سوال كيا كہ كيا روح سے مراد وہى جبرائيل ہيں ؟ تو آپعليه‌السلام نے فرمايا : جبرئيل تو ملائكہ ميں سے اور روح، جبرئيل سے ہٹ كر ہيں خداوند عالم اپنے پيغمبر كو ارشاد فرما رہا ہے_

''ينزل الملائكہ بالروح'' ( اس آيت كى بناء پر) وہ ملائكہ سے عليحدہ چيز كرہے(۱)

۱۸_عن ابى جعفر عليه‌السلام فى قوله ''على من

____________________

۱) كافي، ج۱ ص ۲۷۴ ح ۶، نورالثقلين ، ج۳، ص ۳۹ ح ۷_

۳۳۷

يشاء من عباده ان اذروا انّه لا اله الّا انا فاتقون؟ يقول: بالكتاب و النبوة'' (۱)

امام محمد باقرعليه‌السلام سے خداوند عالم كے اس قول''على من يشاء من عباده ان انذرو ا انّه لا اله الاّ فاتقون'' كے بارے ميں روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا: كہ كتاب ونبوت كے ذريعے(لوگوں كو ڈرايئے(۲)

اقدار:۱۴

الله تعالي:الله تعالى كى خصوصيات ۳; الله تعالى كى مشيّت ۷ ; الله تعالى كے احكام كو اجراء كرنے والے۱۲; الله تعالى كے افعال ۱; الله تعالى كے اوامر۳; الله تعالى كے اوامر كا حتمى ہوتا ۹; الله تعالى كے عمّال۱۲;الله تعالى كے مختصات۲

انبياء:انبياء كا انتخاب ۷ ،۸; انبياء كى دعوتيں ۱۴; انبياء كى ذمہ دارى ۱۰;انبياء كے انذار۱۰، ۱۸; انبياء كے فضائل۹

انسان:انسان كا مايہ حيات۴

توحيد:توحيد كى اہميت ۱۳; توحيد كى طرف دعوت۱۴

تقوي:تقوى كا پيش خيمہ ۱۵; تقوى كى اہميت ۱۳،۱۴; تقوى كى طرف دعوت ۱۳;تقوى كى قدرو قيمت۱۳

خدا كے برگزيدہ افراد۸

برگزيدہ افراد پر ملائكہ كا نزول۱، ۳، ۱۰، ۱۲; برگزيدہ افراد پر وحى ۱، ۵

خوف:خوف الہى كا پيش خيمہ۱۵

روايت:۱۷ ،۱۸

روح:روح سے مراد ۱۷; روح كى حقيقت۲

عبوديت :عبوديت كے آثار۶

عقيدہ :توحيد پر عقيدہ كے آثار ۱۵،۱۶;پسنديدہ عمل كى دعوت۱۶

كتب آسمانى :كتب آسمانى كے انذار ۱۸

لوگ:لوگوں كو ڈرانا۱۰

____________________

۱) تفسير قمي، ج۱ ص ۳۸۲; نورالثقلين، ج۳ ص ۳۹ ح ۸_

۳۳۸

معاشرہ:معاشرہ كا مايہ حيات ۴

ملائكہ :ملائكہ كا كردار ۵،۱۲; ملائكہ كو وحى ۵; ملائكہ كے

نزول كا فلسفہ۱۱

وحي:وحى كا كردار۴; وحى كو دريافت كرنے كا پيش خيمہ۶

آیت ۳

( خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ بِالْحَقِّ تَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ )

اسى خدا نے زمين و آسمان كو حق كے ساتھ پيدا كيا ہے اور وہ ان كے شريكوں سے بہت بلند و بالاتر ہے _

۱_ زمين و آسمان (كائنات) كا خالق خداوند عالم ہے_خلق السموات والأرض

۲_ كائنات (زمين و آسمانوں ) كى خلقت منظّم ، با مقصد ، متقن اور محكم ہونے كے ساتھ ساتھ ہر قسم كى بے نظمى اور بطلان سے دور ہے_خلق السموات والأرض بالحق

حق كا ايك معنى ، باحكمت مقصد اور متقن ہونا ہے لہذا ،خلق السموات والارض بالحق ، كا معنى يوں ں ہوگا كہ خداوند عالم نے كائنات كو مقصد كے تحت اور نہايت ہى متقن اور محكم خلق كيا ہے_

۳_ كائنات ميں متعدد آسمان ہيں _خلق السموات

۴_ زمين و آسمانوں كے بر حق مدار كى خلقت ، خداوند عالم كى وحدانيت اور اس كے لا شريك ہونے پر دليل ہے _

ان أنذروا أنّه لا إله الّا أنا فاتقون، خلق السموات و الارض بالحق تعالى عما يشركون

جملہ'' خلق السماوات والأرض'' گذشتہ آيت ميں''لا اله الاّ انا'' كے مطلب كے ليئے بہ منزلہ علّت ہے _

۵_خداوند عالم كى ذات اس سے بلند و برتر ہے كہ خلقت ميں اسكے ليے كسى شريك كا تصور كيا جائے_

خلق السموات و الارض بالحق تعالى عما يشركون

۳۳۹

۶_ خداوند عالم كے ليے كسى قسم كا شريك قرار دينا، اس كے غلط اور غير واقعى تصور كى علامت ہے_تعلى عمّا يشركون

۷_ آسمانوں اور زمين (كائنات ) كى خلقت، اس بات پر دليل ہے كہ خداوند عالم اپنے وعدوں كو پورا كرنے پر قادرہے_

اتى امراللّه خلق السموات و الارض بالحق تعالى عما يشركون

''خلق السماوات ...'' كا جملہ اس بات كى وضاحت كے ليے تعليل كى حيثيت ركھتا ہے كہ خداوند عالم اپنے وعدوں كو پورا كرنے پر قادر ہے_

۸_ صدراسلام كے مشركين، خداوند عالم كو آسمانوں اور زمين كا خالق سمجھتے تھے_

آتى امر اللّه ...سبحنه و تعلى عما يشركون خلق السموات و الارض بالحق تعالى عما يشركون

''تعالى عمّا يشركون'' كا تعلق ''بالحق '' كے ساتھ ہے نہ كہ ''خلق السماوات'' كے ساتھ اس بناء پر آيت سے يہ استفادہ ہوتا ہے كے مشركين كو كائنات كى اصل خلقت كے بارے ميں اعتراض نہيں تھا بلكہ اس كى حقانيت اور بطلان پر توہم كا شكار تھے_

آسمان:آسمانوں كا خالق۱،۸;آسمانوں كا متعدد ہونا۳; آسمانوں كى خلقت۴،۷

الله تعالى :الله تعالى كا علّو۵; الله تعالى كى خالقيت۱; الله تعالى كى قدرت كے دلائل ۷; الله تعالى كے بارے ميں غلط فكر۶; الله تعالى كے وعدوں كا حتمى ہونا۷

الله تعالى كى نشانياں :الله تعالى كى آفاقى نشانياں ۴

توحيد:توحيد افعالي۵; توحيد كے دلائل ۴; خالقيت ميں توحيد۵

زمين:زمين كا خالق ۱،۸; زمين كى خلقت ۳،۷

عقيدہ :خدا كى خالقيت پر عقيدہ ۸; شرك پر عقيدہ ۶

كائنات:كائنات كا بامقصد ہونا ۲; كائنات كا خالق ۱; كائنات كا متقن ہونا۲; كائنات كا نظم۲; كائنات كى حقانيت۳; كائنات كى خلقت ۷

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كا عقيدہ۸

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779