تفسير راہنما جلد ۹

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 779

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 779 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 218385 / ڈاؤنلوڈ: 3787
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۹

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ائمہ اہل بیت علیہم السلام

ہم ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے روبرو حاضرہیں جنھوں نے معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دی ، وہ دنیائے عرب و اسلام میں شعور و فکر کے چراغ ہیں ،انھوں نے انسانی فکر ،اس کے ارادے ، سلوک و روش کی بنیاد ڈالی ، خالق کا ئنات اور زندگی دینے والے کے علاوہ کسی اورکی عبادت کرنے سے مخلوق خداکو نجات دی

بیشک ائمہ اہل بیت علیہم السلام شجرئہ نبوت کے روشن چراغ ہیں ،یہ اس شجرۂ طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہو ئی ہیں یہ شجرہ ہر زمانہ میںحکم پروردگار سے پھل دیتا رہتا ہے،یہ حضرات رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کا ایسا جزء ہیں جن کو کبھی بھی ان سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے وہ رسول جنھوں نے انسان کو پستی نکال کر بلندی عطا کی اوراسے نور سے منور فرمایا۔۔۔ہم اپنی گفتگو کا آغاز اس سلسلۂ جلیلہ سید و سردار یعنی امام علی کی سوانح حیات سے کرتے ہیں:

حضرت علی علیہ السلام

آپ اپنی جود و سخا ،عدالت، زہد،جہاد اور حیرت انگیز کارنامو ں میں اس امت کی سب سے عظیم شخصیت ہیں دنیائے اسلام میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے کو ئی بھی آپ کے بعض صفات کا مثل نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ وہ آپ کے بعض صفات تک کا مثل ہو ۔آپ کے فضائل و کمالات اور آپ کی شخصیت کے اثرات زمین پر بسنے والے پرتمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے زبان زد عام ہیں ، تمام مؤ رخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عرب یا غیرعرب کی تاریخ میں آپ کے بھائی اور ابن عم کے علاوہ آپ کا کو ئی ثانی نہیں ہے ہم ذیل میں آپ کے بعض صفات و خصوصیات کو قلمبند کررہے ہیں :

۲۱

کعبہ میں ولادت

تمام مؤرخین اورراویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت خانۂ کعبہ میں ہوئی۔(۱) آپ کے علاوہ کو ئی اور خانۂ کعبہ میں نہیں پیدا ہوا ،اور یہ اللہ کے نزدیک آ پ کے بلند مرتبہ اور عظیم شرف کی علامت ہے ،اسی مطلب کی طرف عبد الباقی عمری نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے :

اَنْت العلیُّ الذی فوق العُلیٰ رُفِعا

ببطن مکة عند البیت اِذْوُضِعَا

____________________

۱۔مروج الذہب ،جلد ۲ صفحہ ۳،فصول مہمہ مؤلف ابن صبّاغ، صفحہ ۲۴۔مطالب السئول، صفحہ ۲۲۔تذکرة الخواص، صفحہ ۷۔کفایة الطالب، صفحہ ۳۷۔ نور الابصار ،صفحہ ۷۶۔نزھة المجالس ،جلد۲،صفحہ ۲۰۴۔شرح الشفا ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔غایة الاختصار ،صفحہ ۹۷۔عبقریة الامام (العقاد)، صفحہ ۳۸۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۴۸۳۔اور اس میں وارد ہوا ہے کہ :''متواتر احادیث میں آیا ہے کہ امیر المو منین علی بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے کعبہ میں پیدا ہوئے ''۔

۲۲

''آپ وہ بلند و بالا شخصیت ہی ںجو تمام بلند یوں سے بلند و بالا ہیںاس لئے کہ آپ کی ولادت مکہ میں خانہ کعبہ میں ہوئی ہے ''۔

بیشک نبی کے بھائی اور ان کے باب شہر علم کی ولادت اللہ کے مقدس گھر میں ہو ئی تاکہ اس کی چوکھٹ کو جلا بخشے،اس پر پرچم توحید بلند کرے ،اس کو بت پرستی اور بتوںکی پلیدی سے پاک وصاف کرے ، اس بیت عظیم میں ابوالغرباء ،اخو الفقراء ، کمزوروں اور محروموں کے ملجأ و ماویٰ پیدا ہوئے تاکہ ان کی زندگی میں امن ،فراخدلی اور سکون و اطمینان کی روح کوفروغ دیں ، ان کی زندگی سے فقر و فاقہ کا خاتمہ کریں ،آپکے پدر بزرگوار شیخ بطحاء اور مو من قریش نے آپ کا اسم گرامی علی رکھاجو تمام اسماء میں سب سے بہترین نام ہے۔

اسی لئے آپ اپنی عظیم جود و سخا اور حیرت انگیز کارناموں میں سب سے بلند تھے اور خداوند عالم نے جو آپ کو روشن و منورعلم و فضیلت عطا فرمائی تھی اس کے لحاظ سے آپ اس عظیم بلند مرتبہ پر فائز تھے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

امیر بیان اور عدالت اسلامیہ کے قائد و رہبرنبی کی بعثت سے بارہ سال پہلے تیرہ رجب ۳۰ عام الفیل کو جمعہ کے دن پیدا ہوئے ۔(۱)

القاب

امیر حق نے آپ کو متعدد القاب سے نوازا جو آپ کے صفات حسنہ کی حکایت کرتے ہیں ،آپ کے القاب مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔صدیق(۲)

آپ کو اس لقب سے اس لئے نوازا گیا کہ آپ ہی نے سب سے پہلے رسول اللہ کی مدد کی اور اللہ کی طرف سے رسول ر نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لائے ، مولائے کائنات خود فرماتے ہیں :

''اَناالصدیق الاکبرآمنت قبل ان یومن ابوبکرواسلمتُ قبل ان یسلّم '(۳)

''میں صدیق اکبر ہوں ابوبکر سے پہلے ایمان لایاہوں اور اس سے پہلے اسلام لایاہوں ''۔

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱،صفحہ ۳۲۔منقول از مناقب آل ابوطالب ،جلد۳،صفحہ۹۰۔

۲۔تاریخ خمیس ،جلد ۲،صفحہ ۲۷۵۔

۳۔معارف ،صفحہ ۷۳۔ذخائر ،صفحہ ۵۸۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۵۷۔

۲۳

۲۔وصی

آپ کو یہ لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں اور رسول خدا نے اس لقب میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: ''اِنَّ وَصِیّ،وَمَوْضِعَ سِرِّی،وَخَیْرُمَنْ اَتْرُکَ بَعْدِیْ،وَیُنْجِزُعِدَتِیْ،وَیَقْضِیْ دَیْنِیْ،عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ'' ۔(۱)

''میرے وصی ،میرے راز داں ،میرے بعد سب سے افضل ،میرا وعدہ پورا کرنے والے اور میرے دین کی تکمیل کرنے والے ہیں ''۔

۳۔فاروق

امام کو فاروق کے لقب سے اس لئے یاد کیا گیا کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔یہ لقب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث سے اخذ کیا گیا ہے ،ابو ذر اور سلمان سے روایت کی گئی ہے کہ نبی نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :''اِنّ هٰذَااَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِیْ،وهٰذَا اَوَّلُ مَنْ یُصَافِحُنِیْ یَوْمَ القِیَامَةِ،وَهٰذَا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَرُ،وَهٰذَا فَارُوْقُ هٰذِهِ الاُمَّةِ یَفْرُقُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ'' ۔(۲)

''یہ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لائے ،یہی قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں

گے ،یہی صدیق اکبر ہیں ،یہ فاروق ہیں اور امت کے درمیان حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں ''۔

۴۔یعسوب الدین

لغت میں یعسوب الدین شہد کی مکھیوں کے نَر کو کہا جاتا ہے پھر یہ قوم کے صاحب شرف سردار کیلئے بولا جا نے لگا،یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے القاب میں سے ہے ،نبی اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو یہ لقب دیتے ہوئے فرمایا:هٰذَا ( واشارَالی الامام ) یَعْسُوْبُ المُؤمِنِیْنَ،وَالْمَالُ یَعْسُوْبُ الظَّا لِمِیْنَ'' ۔(۳)

''یہ (امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا)مو منین کے یعسوب ہیں اور مال ظالموں کا یعسوب ہے ''۔

____________________

۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔

۲۔مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۰۲،فیض القدیر،جلد ۴، صفحہ ۳۵۸۔کنز العمال ،جلد ۶ ،صفحہ ۱۵۶۔فضائل الصحابة، جلد ۱، صفحہ ۲۹۶۔

۳۔ مجمع الزوائد، جلد ۹،صفحہ ۱۰۲۔

۲۴

۵۔امیر المو منین

آپ کا سب سے مشہور لقب امیر المو منین ہے یہ لقب آپ کو رسول اللہ نے عطا کیا ہے روایت ہے کہ ابو نعیم نے انس سے اور انھوں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے :'' یاانس، ''اسْکُبْ لِیْ وَضُوء اً ''اے انس میرے وضو کرنے کے لئے پانی لائو''پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا:'' اے انس اس دروازے سے جو بھی تمہارے پاس سب سے پہلے آئے وہ امیر المو منین ہے ، مسلمانوں کا سردار ہے ،قیامت کے دن چمکتے ہوئے چہرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے '' ، انس کا کہنا ہے :میں یہ فکر کررہاتھا کہ وہ آنے والا شخص انصار میں سے ہو جس کو میں مخفی رکھوں ، اتنے میں حضرت علی تشریف لائے تو رسول اللہ نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا ؟ میں (انس) نے عرض کیا : علی ۔ آپ نے مسکراتے ہوئے کھڑے ہوکر علی سے معانقہ کیا ،پھر ان کے چہرے کا پسینہ اپنے چہرے کے پسینہ سے ملایااور علی کے چہرے پر آئے ہوئے پسینہ کو اپنے چہرے پر ملا اس وقت علی نے فرمایا: ''یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ آنحضرت نے فرمایا:''میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرے امور کے ذمہ دار،میری آواز دوسروں تک پہنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میںصحیح رہنما ئی کرنے والے ہو ''۔(۱)

۶ حجة اللہ

آپ کا ایک عظیم لقب حجة اللہ ہے، آپ خدا کے بندوں پر اللہ کی حجت تھے اور ان کومضبوط و محکم راستہ کی ہدایت دیتے تھے ،یہ لقب آپ کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عطا فرمایا تھا ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''میںاور علی اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہیں''۔(۲)

یہ آپ کے بعض القاب تھے ان کے علاوہ ہم نے آپ کے دوسرے چھ القاب امام امیر المومنین کی سوانح حیات کے پہلے حصہ میںبیان کئے ہیںجیسا کہ ہم نے آپ کی کنیت اور صفات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

____________________

۱۔حلیة الاولیائ، جلد ۱،صفحہ ۶۳۔

۲۔کنوز الحقائق ''المناوی''،صفحہ ۴۳۔

۲۵

آپ کی پرورش

حضرت امیر المو منین نے بچپن میں اپنے والد بزرگوار شیخ البطحاء اورمو منِ قریش حضرت ابوطالب کے زیر سایہ پرورش پائی جو ہر فضیلت ،شرف اور کرامت میں عدیم المثال تھے ،اور آپ کی تربیت جناب فاطمہ بنت اسدنے کی جو عفت ،طہارت اور اخلاق میں اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں انھوں نے آپ کو بلند و بالا اخلاق ،اچھی عا دتیں اور آداب کریمہ سے آراستہ و پیراستہ کیا۔

پرورش امام کے لئے نبی کی آغوش

امام کے عہد طفولیت میں نبی نے آپ کی پرورش کرنے کی ذمہ داری اس وقت لے لی تھی جب آپ بالکل بچپن کے دور سے گذر رہے تھے ،جس کا ماجرا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آنحضرت کے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کچھ بہتر نہیں تھے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچاعباس اور حمزہ کے پاس گفتگو کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور ان سے اپنے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کے سلسلہ میںگفتگو کی اور ان کا ہاتھ بٹانے کا مشورہ دیاتو انھوں نے آپ کی اس فرمائش کو قبول کرلیا ، چنانچہ جناب عباس نے طالب ، حمزہ نے جعفر اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کی پرورش کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی، لہٰذا اس وقت سے آپ (علی) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آغوش تربیت میں آگئے اور آنحضرت ہی کے زیر سایہ اورانھیں کے دامن محبت و عطوفت میں پروان چڑھے ،اسی لئے آپ کی رگ و پئے اور آپ کی روح کی گہرائی میںپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کردار اور اخلاق اور تمام صفات کریمہ اسی وقت سے سرایت کر چکے تھے اسی لئے آپ نے زندگی کے آغاز سے ہی ایمان کو سینہ سے لگائے رکھا ،اسلام کو بخوبی سمجھا اور آپ ہی پیغمبر کے سب سے زیادہ نزدیک تھے ، ان کے مزاج و اخلاق نیز آنحضرت کی رسالت کو سب سے بہتر انداز میں سمجھتے تھے ۔

۲۶

مو لائے کا ئنات نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پرورش کے انداز اور آپ سے اپنی گہری قرابت داری کے بارے میں ارشاد فرمایا :''تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام اُن کے نزدیک کیا تھا ؟میں بچہ ہی تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے گود میں لے لیا تھا،آنحضرت مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کر تے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سونگھاتے تھے ،پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منھ میں دیتے تھے ،اُنھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی ۔۔۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے رہتا ہے، آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کر تے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے ''۔

آپ نے نبی اور امام کے مابین بھروسہ اور قابل اعتماد رابطہ کا مشاہدہ کیااور ملاحظہ کیاکہ کس طرح نبی اکرم حضرت علی کی مہربانی اور محبت کے ساتھ تربیت فرماتے اور آپ کو بلند اخلاق سے آراستہ کرتے تھے ؟اور نبی نے کیسے حضرت علی کی لطف و مہربانی اور بلند اخلاق کے ذریعہ تربیت پا ئی ؟

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت

جب رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے عظیم انقلاب کا آغاز فرمایاجس سے جاہلیت کے افکار ، اور رسم و رواج متزلزل ہوگئے ،تو قریش آپ کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ،انھوں نے جان بوجھ کرتحریک کو خاموش کرنے کیلئے بھرپور کو شش کی اور اس کیلئے ہرممکنہ طریقۂ کاراختیارکیا ،اپنے بچوں کو نبی پر پتھروں کی بارش کرنے کے لئے بھڑکایا، اس وقت امام ہی ایک ایسے بچے تھے جو نبی کی حمایت کر رہے تھے اور ان بچوں کو ڈانٹتے اور مارتے تھے جب وہ اپنی طرف اس بچہ کو آتے ہوئے دیکھتے تھے تو ڈر کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے تھے ۔

۲۷

اسلام کی راہ میں سبقت

تمام مو رخین اور راوی اس بات پر متفق ہیں کہ امام ہی سب سے پہلے نبی پر ایمان لائے ، آپ ہی نے نبی کی دعوت پر لبیک کہا،اور آپ ہی نے اپنے اس قول کے ذریعہ اعلا ن فرمایا کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کرنے والا میں ہو ں :''لَقَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَبْلَ اَنْ یَعْبُدَہُ اَحَدُ مِنْ ھٰذِہِ الاُمَّةِ ''۔ ''میں نے ہی اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کی ہے ''۔(۱)

اس بات پر تمام راوی متفق ہیں کہ امیر المو منین دور جا ہلیت کے بتوں کی گندگی سے پاک و پاکیزہ رہے ہیں ،اور اس کی تاریکیوں کا لباس آپ کو ڈھانک نہیں سکا،آپ ہر گز دوسروں کی طرح بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے ۔

مقریزی کا کہنا ہے :(علی بن ابی طالب ہاشمی نے ہر گز شرک نہیں کیا،اللہ نے آپ سے خیر کا ارادہ کیا تو آپ کو اپنے چچازاد بھائی سید المرسلین کی کفالت میں قرار دیدیا)۔(۲)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیدہ ام المو منین خدیجہ آپ کے ساتھ ایمان لا ئیں، حضرت علی اپنے اور خدیجہ کے اسلام پر ایمان لانے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :''وَلَم یَجْمَعْ بَیْتُ یَومَئِذٍ واحدُ فی الاسلام غیرَرسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَخَدِیْجَةَ وَاَنَا ثَالِثُهُمَا'' ۔(۳) ''اس دن رسول اللہ خدیجہ اور میرے علاوہ کو ئی بھی مسلمان نہیں ہوا تھا ''۔

ابن اسحاق کا کہنا ہے :اللہ اور محمد رسول اللہ پر سب سے پہلے علی ایمان لائے ''۔(۴)

حضرت علی کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر سات سال یا دوسرے قول کے مطابق نو سال تھی۔(۵) مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے ،جو آپ کیلئے بڑے ہی شرف اور فخر کی بات ہے ۔

آپ کی نبی سے محبت

آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ اخلاص سے پیش آتے تھے ایک شخص نے امام سے

____________________

۱۔صفوة الصفوہ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۲۔

۲۔ امتاع الاسمائ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۔

۳۔حیاةالامام امیر المومنین ،جلد ۱،صفحہ ۵۴۔

۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۴،صفحہ ۱۱۶۔

۵۔صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۳۰۱۔طبقات ابن سعد ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ۵۵۔

۲۸

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اس سے فرمایا:''کَانَ وَاللّٰہِ احبَّ الینامِن مالناواولادِناوَامَّھَاتِنَاومِن المائِ الباردِعلیَ الظّمْأ۔۔۔''۔(۱)

''خدا کی قسم وہ مجھے میرے مال ،اولاد ،ماںاور پیا س کے وقت ٹھنڈے گوارا پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے ''۔

حضرت علی کی نبی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک باغ آپ کے حوالہ کیا گیا ،باغ کے مالک نے آپ سے کہا :کیا آپ میرے باغ کی سینچا ئی کردیں گے میں آپ کو ہر ڈول کے عوض ایک مٹھی خرما دوںگا؟ آپ نے جلدی سے اس باغ کی سینچا ئی کر دی تو باغ کے مالک نے آپ کو خرمے دئے یہاں تک کہ آپ کی مٹھی بھرگئی آپ فوراً ان کو نبی کے پاس لیکر آئے اور انھیں کھلادئے ۔(۲)

نبی سے آپ کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ خود ان کی خدمت کرتے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے اور ہم اس سلسلہ کے چند نمونے اپنی کتاب'' حیاة الامام امیر المومنین ''میںذکر کرچکے ہیں ۔

یوم الدار

حضرت علی کی بھر پور جوانی تھی جب سے آپ نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قدم بہ قدم چلنا شروع کیا،یہ وہ دور تھا جب آنحضرت نے اپنی اسلامی دعوت کا اعلان کیاتھا کیونکہ جب خداوند عالم نے آپ کو اپنے خاندان میں تبلیغ کرنے کا حکم دیا تو رسول نے علی کو بلاکر ان کی دعوت کرنے کوکہا جس میںآپ کے چچا :ابوطالب ،حمزہ ،عباس اور ابو لہب شامل تھے ،جب وہ حاضر ہوئے تو امام نے ان کے سامنے دسترخوان بچھایا،ان سب کے کھانا کھانے کے بعد بھی کھانا اسی طرح باقی رہااور اس میں کوئی کمی نہ آئی ۔

جب سب کھانا کھاچکے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کھڑے ہوکر ان کو اسلام کی دعوت دی اور بتوں کی پوجاکرنے سے منع فرمایا ،ابو لہب نے آپ کا خطبہ منقطع کر دیا اور قوم سے کہنے لگا :تم نے ان کا جادو دیکھا ،

____________________

۱۔خزانة الادب، جلد ۳،صفحہ ۲۱۳۔

۲۔تاریخ طبری ،جلد ۲،صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ،صفحہ ۲۴۔مسند احمد بن حنبل، صفحہ ۲۶۳۔

۲۹

اور یہ نشست کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئی ،دوسرے دن پھر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب کو بلایا، جب سب جمع ہوگئے سب کو کھانا کھلایا اور جب سب کھانا کھا چکے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یوں خطبہ دیا :''اے بنی عبد المطلب! خدا کی قسم میں نے قوم عرب میں کسی ایسے جوان کا مشاہدہ نہیں کیا جو قوم میں مجھ سے بہتر چیزیں لیکر آیا ہو ،میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی بھلا ئی لیکر آیا ہوں ،خدا وند عالم نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اس کی دعوت دوں، تو تم میں سے جو بھی میری اس کام میں مدد کرے گا وہ میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ہوگا ؟''۔

پوری قوم پر سنّاٹا چھاگیا گو یاکہ ان کے سروں پر، پرندے بیٹھے ہوں ،اس وقت امام کی نوجوا نی تھی لہٰذا آپ نے بڑے اطمینان اور جوش کے ساتھ کہا :''اے نبی اللہ!میں اس کام میں، آپ کی مدد کروں گا ''۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا : '' بیشک یہ میرے بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ ہیں ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو ''۔

یہ سن کر مضحکہ خیز آوازیں بلند ہونے لگیںاور انھوں نے مذاق اڑاتے ہوئے ابوطالب سے کہا:''تمھیں حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ''۔(۱)

علماء کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث واضح طور پر امیر المو منین کی امامت پر دلالت کر تی ہے ،آپ ہی نبی کے وصی ،وزیر اور خلیفہ ہیں ،اور ہم نے یہ حدیث اپنی کتاب''حیاة الامام امیرالمو منین ''کے پہلے حصہ میں مفصل طور پر بیان کی ہے ۔

شعب ابی طالب

قریش کے سر کردہ لیڈروں نے یہ طے کیا کہ نبی کو شِعب ابو طالب میں قید کردیاجائے، اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

کو وہاں رہنے پر مجبور کیاجائے تا کہ آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا بند ہو جائے اور ان کے عقائدمیں کو ئی تبدیلی نہ ہو سکے ، اور وہ آپ کے اذہان کو جا ہلیت کے چنگل سے نہ چھڑاسکیں،لہٰذا انھوں نے بنی ہاشم کے خلاف مندرجہ ذیل معاہدے پر دستخط کئے :

____________________

۱۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،صفحہ ۲۴۔مسند احمد، صفحہ ۲۶۳۔

۳۰

۱۔وہ ہاشمیوںسے شادی بیاہ نہیں کریں گے ۔

۲۔ان میں سے کو ئی ایک بھی ہاشمی عورت سے شادی نہیں کر ے گا ۔

۳۔وہ ہاشمیوں سے خرید و فروخت نہیں کریں گے ۔انھوں نے یہ سب لکھ کر اور اس پر مہر لگا کرکعبہ کے اندر لٹکادیا ۔

پیغمبر کے ساتھ آپ پر ایمان لانے والے ہاشمی جن میں سر فہرست حضرت علی تھے سب نے اس شعب میں قیام کیا ، اور وہ مسلسل وہیں رہے اور اس سے باہر نہیں نکلے وہ بد ترین حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے اور ام المومنین خدیجہ نے ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا یہاں تک کہ اسی راستہ میں ان کی عظیم دولت کام آگئی ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شعب میں اپنے اہل بیت کے ساتھ دو یا دو سال سے زیادہ رہے ، یہاں تک کہ خدا نے دیمک کو قریش کے معاہدہ پر مسلط کیا جس سے وہ اس کو کھا گئیں ،اُدھر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کے ذریعہ یہ خبر پہنچا ئی کہ عہد نامہ کو دیمک نے کھا لیا ہے وہ جلدی سے عہد نامہ کے پاس آئے توانھوں نے اس کو ویسا ہی پایا جیسا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی خبر دی تھی تو ان کے ہوش اڑگئے ، قریش کی ایک جماعت نے ان کے خلاف آواز اٹھا ئی اور ان سے نبی کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا جس سے انھوں نے نبی کو چھوڑ دیا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اہل بیت کے ساتھ قید سے نکلے جبکہ ان پر قید کی سختیوں کے آثار نمایاں تھے۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شعب سے باہر نکل کر قریش کی دھمکیوں کی پروا نہیں کی اور پھر سے دعوت توحید کا اعلان کیا ،ان کا مقابلہ کرنے میں آپ کے چچا ابو طالب ،حضرت علی اور بقیہ دوسرے افراد نے بڑی مدد کی،یہی لوگ آپ کی مضبوط و محکم قوت بن گئے ،اور ابو طالب رسالت کا حق ادا کرنے کے متعلق یہ کہہ کر آپ کی ہمت افزائی کر رہے تھے :

اذهب بنّى فماعلیک غضاضةُ

اذهب وقرّ بذاک منک عیونا

واللّٰه لَنْ یَصِلُوا الیک بِجَمْعِهِمْ

حتی اُوسد فی التراب دفینا

وَدعوتن وعلِمتُ انکّ ناصِحِ

ولقد صدقتَ وکنتَ قَبْلُ اَمِیْنا

۳۱

وَلقد علِمتُ بِاَنَّ دِینَ محمدٍ

مِنْ خیرِ اَدیانِ البریة دِیْنا

فَاصدَعْ بِاَمْرِکَ مَاعَلَیْکَ غضَاضَةُ

وَابْشِرْ بِذَاکَ وَقُرَّ عُیُوْنَا(۱)

''بیٹے جائو تمھیں کو ئی پریشانی نہیں ہے ،جائو اور اس طرح اپنی آنکھیں روشن کر و۔

خدا کی قسم وہ اپنی جماعت کے ساتھ اس وقت تک تم تک نہیں پہنچ سکتے جب تک میں دنیا سے نہ اٹھ جائوں ۔

تم نے مجھے دعوت دی اور مجھے یقین ہو گیا کہ تم میرے خیر خواہ ہو ،تم نے سچ کہا اور پہلے بھی تم امانتدار تھے ۔

مجھے یقین ہو گیا ہے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین دنیا کا سب سے بہترین دین ہے۔

لہٰذا اپنی دعوت کا اعلان کرو اور تمھیںذرہ برابر ملال نہ ہو ،تم خوش رہواپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو ''۔

یہ اشعار ابوطالب کے صاحب ایمان ،اسلام کے حا می اور مسلمانوں میں پہلے مجاہد ہونے پر دلالت کر تے ہیں ،اور ان کے ہاتھ ٹوٹ جا ئیںجو ابو طالب کو صاحب ایمان نہیں سمجھتے ،اس طرح کی فکر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے ،حالانکہ ان کو یہ علم ہے کہ ابوطالب کا بیٹا جنت و جہنم کی تقسیم کرنے والا ہے ۔

بیشک ابو طالب اسلامی عقائد کے ایک رکن ہیں ،اگر آپ ابتدا میں پیغمبر کے موافق نہ ہوتے تو اسلام کا نام اور دستور و قواعد کچھ بھی باقی نہ رہتے اور قریش ابتدا ہی میں اس کا کام تمام کردیتے ۔

امام کا نبی کے بستر پر آرام کرنا (شب ہجرت)

یہ امام کی ایسی خو بی ہے جس کا شمارآپ کے نمایاں فضائل میں ہوتا ہے یعنی آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر نبی کی حفاظت کی ہے اور نبی کی محبت میںموت کا بخو شی استقبال کیاہے اسی لئے عالم اسلام میں آپ سب سے پہلے فدا ئی تھے۔

جب قریش نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے اور ان کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے آپ کے

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱، صفحہ ۱۳۷۔

۳۲

بیت الشرف کا اپنی ننگی تلواروں سے محاصرہ کیاتو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو بلا بھیجا اور ان کو قوم کے ارادہ سے آگاہ کیا ، ان کو اپنے بستر پرسبزچادر اوڑھ کر سونے کا حکم دیا تاکہ کفار آپ کو نبی سمجھتے رہیں ،امام نے نبی کے حکم کا خنداں پیشانی کے ساتھ استقبال کیاگویا آپ کو ایسی قابل رشک چیزمل گئی جس کا کبھی خواب تک نہیں دیکھا تھا، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُن کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر بھی نہ ہو ئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن کے منحوس چہروں کی طرف ایک مٹھی خاک یہ کہتے ہوئے پھینکی:''شاھت الوجوہ ذُلّاً'' ، ''رسوائی کی بنا پر چہرے بگڑ جا ئیں ' '، اس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( وَجَعَلْنَامِنْ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدّاً وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدّاً فَاَغْشَیْنَاهُمْ فَهُمْ لَایُبْصِرُوْنَ ) ۔(۱)

'' اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنا دی ہے پھر انھیں عذاب سے ڈھانک دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں ''۔

حضرت علی کا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر رات گذارنا آپ کے جہاد کی درخشاں تصویر اور ایسی بے مثال منقبت ہے جس کا جواب نہیں لایا جا سکتا اور خداوند عالم نے آپ کی شان میںیہ آیت نازل فرما ئی :

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ) ۔(۲)

''لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کوبیچ کر مرضی الٰہی خرید لیتے ہیں ''۔

____________________

۱۔سورئہ یس، آیت ۹۔

۲۔سورئہ بقرہ ،آیت ۲۰۷۔

۳۳

اس عزت و شرف کی اسلامی پیغام میںبڑی اہمیت ہے جس تک کو ئی بھی مسلمان نہیں پہنچ سکا ، شاعر کبیر شیخ ہاشم کعبی امام کی یوں مدح سرا ئی کرتے ہیں :

وَمَوَاقِفُ لَکَ دُوْنَ اَحْمَدَ جَاوَزَتْ

بِمَقَامِکَ التَّعْرِیْفَ وَالتَّحْدِیْدا

فَعَلیٰ الْفِرَاشِ مَبِیْتُ لَیْلِکَ وَالْعِدْ

تُهْدِیْ اِلَیْکَ بَوَارِقا ًوَرُعُوْداً

فَرْقَدْتَ مَثْلُوْ جَ الْفُؤَادِ کَاَنَّمَا

یُهْدِ الْقَرَاعُ لِسَمْعِکَ التَّغْرِیْداً

فَکَفَیْتَ لَیْلَتَهُ وَقُمْتَ مُعَارِضا

جَبَلاً اَشَمَّ وَفَارِساً صِنْدِیْدا

رَصَدُواالصَبَاحَ لِیُنْفِقُواکَنْزَالهُدیٰ

أَوَمَا دَرَوْاکَنْزَالهُدیٰ مَرْصُوداً؟

''(اے علی)حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر آپ کے درجات اور مقامات تعریف و ثنا کی حد سے بالا ہیں ۔

چنانچہ آپ شب ہجرت اس عالم میں بستر رسول پر سوئے کہ دشمن شمشیروں کے ذریعہ آپ کو گھیرے ہوئے تھے ۔

پھر بھی آپ نہایت سکون کے ساتھ سوئے گویا،آپ کے گوش مبارک میں نغمہ ٔ معنویت گونج رہا تھا ۔

آپ نے اس شب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی اور صبح کے وقت مضبوط پہاڑاور بے مثال شہسوار کی مانند بیدار ہوئے ۔

انھوں نے مخزن ہدایت کوخرچ کرنے کے لئے صبح کا انتظار کیا جبکہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ خود خزانہ ٔ ہدایت ان کے انتظار میں تھا''۔

۳۴

امام نے پوری رات خدا سے اس دعا میں گذاردی کہ خدا ان کی اس محنت و مشقت کے ذریعہ ان کے بھا ئی کو بچائے اور ان کو دشمنوں کے شر سے دور رکھے ۔

جب صبح نمودار ہو ئی تو سرکشوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ نبی کے بستر پر دھاوا بول دیا تو حضرت علی ان کی طرف اپنی ننگی تلوار لئے ہوئے شیر کی مانند بڑھے جب انھوں نے علی کو دیکھا تو ان کے ہوش اُڑگئے وہ سب ڈر کر اما م سے کہنے لگے :محمد کہا ں ہیں ؟

امام نے ان کے جواب میں فرمایا:''جَعَلْتُمُوْنِیْ حَارِساًعَلَیْهِ؟''

''کیا تم نے مجھے نبی کی حفاظت کے لئے مقرر کیا تھا ؟''۔

وہ بہت ہی مایوسی ا ور ناراضگی کی حالت میں الٹے پیر پھر گئے، چونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے وہ نبی جو ان کو آزاد ی دلانے اور اُن کے لئے عزم و ہمت کا محل تعمیر کرنے کیلئے آئے تھے ،قریش جل بھُن گئے اور آپ کو بہت ہی تیز نگاہوں سے دیکھنے لگے لیکن امام نے کو ئی پروا نہیں کی اور صبح وشام ان کا مذاق اڑاتے ہوئے رفت و آمد کرنے لگے ۔

امام کی مدینہ کی طرف ہجرت

جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے تو علی نے نبی کے پاس مو جودہ امانتوں کو صاحبان امانت کے حوالہ کیا، نبی جن کے مقروض تھے ان کا قرض اداکیا ،چونکہ آپ ان کے متعلق نبی سے وعدہ کر چکے تھے، آپ وہاں کچھ دیر ٹھہر کر اپنے چچازاد بھا ئی سے ملحق ہونے کیلئے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے، آپ کے ساتھ عورتیں اور بچے تھے ، راستہ میں سات سرکشوں نے آپ کا راستہ روکنا چاہا ،لیکن آپ نے بڑے عزم وہمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک کو قتل کیا اور اس کے باقی ساتھی بھاگ نکلے ۔

امام بغیر کسی چیز کے مقام بیداء پر پہنچے ،آپ صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کرنے کا شوق رکھتے تھے لہٰذا آپ مدینہ پہنچ گئے ،ایک قول یہ ہے :آپ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے مسجدقبا میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی ، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی آمد سے بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ کی ہر مشکل میں کام آنے والے مددگار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچ گئے تھے ۔

۳۵

امام ، قرآن کی نظرمیں

حضرت علی کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ہو ئی ہیں ، قرآن نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ہے ،اللہ کی نگاہ میں آپ کی بڑی فضیلت اوربہت اہمیت ہے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ کی شان میں تین سو آیات نازل ہو ئی ہیں(۱) جو آپ کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ہے۔

یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نہیں ہوئیںآپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :

۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔

۲۔وہ آیات جو آپ اور آپ کے اہل بیت کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۳۔وہ آیات جو آپ اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۴۔وہ آیات جو آپ کی شان اور آپ کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں ۔

ہم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رہے ہیں :

____________________

۱۔تاریخ بغداد، جلد ۶،صفحہ ۲۲۱۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۲۷۶۔نورالابصار ،صفحہ ۷۶،وغیرہ ۔

۳۶

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

سزا كا پيش خيمہ ۴

عاقبت :اُخروى عاقبت ميں موثر عوامل ۵

عمل :عمل كا اُخروى مواخذہ ۱;عمل كا جوابدہ ۳;عمل كے اثرات ۵;عمل كے مواخذہ كا پيش خيمہ ۴

قران كريم :قران كريم كا تجزيہ كرنے والوں كا اُخروى مواخذہ ۲

قيامت :قيامت ميں مواخذہ ۱،۲;قيامت ميں مواخذہ كا معيار ۵

كفار:كفار كا اُخروى مواخذہ ۲

آیت ۹۴

( فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ )

پس آپ اس بات كا واضح اعلان كرديں جس كا حكم ديا گيا ہے اور مشركين سے كنارہ كش ہوجائيں _

۱_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم واضح ، اشكارااور بغير كسى ابہام كے اپنے الہى منصبى فرائض اور رسالت كے ابلاغ پر مامور تھے_

فاصدع بما تو مر

لغت ميں ''صدع''واضح و اشكار بات كرنے كو كہتے ہيں _

۲_بعثت كے اغاز (مكى دور) ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى دعوت بعض مخفى كاموں ،رازدارى اور تقيہ كے ہمراہ تھي_

فاصدع بما تو مر

دعوت كو اشكار كرنے كا لازمہ اُس كا مخفى ركھنا ہے خواہ وہ كچھ وقت كے لئے ہى كيوں نہ ہو _

۳_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے منصبى فرائض ،فرامين خدا كے دائرے ميں تھے_فاصدع بما تو مر

۴_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، كفار و مشركين كى عہد شكنى ،اذيت و ازار سے بے اعتنائي اور اُن سے منہ موڑنے اور اپنى دعوت ميں ثابت قدم رہنے پر مامور تھے_فاصدع بما تو مرو ا عرض عن المشركين

''مشركين سے منہ موڑنے ''سے مراد يہ نہيں كہ اُن سے كنارہ گيرى كى جائے _چونكہ يہ ايت كے پہلے حصے( فاصدع بما تو مر ) كہ جس ميں اشكارا دعوت كا اظہار ہے،كے ساتھ ساز گار نہيں بلكہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مكہ ميں مشركين و كفار كى جانب سے بہت زيادہ ستائے گئے تھے لہذا مراد وہى ہے جو مذكورہ بالا مطلب ميں ايا ہے _ياد رہے كہ بعد والى ايت (انا كفينك المستهزء ين ) بھى اسى حقيقت كى تاكيد كر رہى ہے_

۳۲۱

۵_دينى نظريات اور اُصول كو بيان كرنے ميں صراحت و قاطعيت ،دينى راہنمائوں پرايك واجب اور ضرورى فريضہ ہے_

فاصدع بما تو مرو ا عرض عن المشركين

۶_''عن عبيداللّه بن على الحلبى قال: سمعت ا باعبداللّه عليه‌السلام يقول: مكث رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بمكة بعد ماجاء ه الوحى عن اللّه تبارك وتعالى ثلاث عشرة سنة منها ثلاث سنين مختفياً خائفاً لايظهر، حتى ا مره اللّه عزّوجلّ ا ن يصدع بما ا مره به، فا ظهر حينئذ الدّعوة; (۱) عبيد الله بن على الحلبى كا كہنا ہے كہ ميں نے امام صادق عليہ السلام سے سنا كہ اپعليه‌السلام نے فرمايا: جب خداوند متعال كى جانب سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر وحى نازل ہوئي اس كے بعد اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تيرہ سال تك مكہ ميں رہے _كہ جن ميں سے تين سال مخفى اور پنہاں تھے اور اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (اجتماعات ميں ) ظاہر نہيں ہوتے تھے_يہاں تك كہ خدا نے انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو فرمان ديا كہ جو كچھ اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو امر كيا گيا ہے اُسے اشكارا بيان كرو _اس كے بعد اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنى دعوت كو علنى كر ديا_

۷_''عن محمد بن على الحلبى عن ا بى عبداللّه عليه‌السلام قال: اكتتم رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بمكة مختفياً خائفاً خمس سنين ليس يظهر ا مره ثم ا مره اللّه عزّوجلّ ا ن يصدع بما ا مر به فظهر رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و ا ظهر ا مره; (۲) محمد بن على الحلبى نے امام صادقعليه‌السلام سے روايت كى ہے كہ اپعليه‌السلام نے فرمايا:رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پانچ سال تك مكہ ميں اپنى رسالت كو پنہاں ركھا _اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مخفى اور خوفزدہ تھے اور اپنى رسالت كو اشكار نہيں كرتے تھے پھر خداوند عزوجل نے اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو فرمان ديا كہ اپنى رسالت كو اشكار كرو _پس انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اشكار ہو گئے اور اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علنى دعوت شروع كر دي_

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اشكار دعوت ۶،۷; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى استقامت ۴; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تبليغ ۱;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت ۷; آنحضرت كى رسالت۳;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى ۴;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى شرعى ذمہ دارى ۱; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى صراحت۱;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى مخفى دعوت۲،۶،۷; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اذيت۴

احكام :۵

____________________

۱) كمال الدين ،ص۳۴۴، ح۲۹، ب۳۳; نور الثقلين ، ج ۳، ص۳۲ ،ح۱۲۳_

۲) كمال الدين ،ص۳۴۴، ح۲۸، ب۳۳; نور الثقلين ،ج ۳، ص۳۲ ، ح۱۲۱_

۳۲۲

اسلام :تاريخ صدر اسلام ۲،۶،۷

الله تعالى :الله تعالى كے اوامر ۳

تبليغ :تبليغ ميں صراحت ۱،۵;تبليغ ميں قاطعيت ۵

دين :دين كى تبليغ ۵

دينى قائدين :دينى قائدين كى شرعى ذمہ دارى ۵

روايت :۶،۷

مشركين :مشركين كى اذيتيں اور انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۴;مشركين سے منہ موڑنا ۴

واجبات :۵

آیت ۹۵

( إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ )

ہم ان استہزاء كرنے والوں كے لئے كافى ہيں _

۱_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو مشركين اور دشمنوں كى اذيت وازار اور استہزاء كے مقابلے ميں خداوند متعال كى حمايت حاصل تھي_انا كفينك المستهزء ين

۲_خداوندمتعال كا پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كواپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے استہزاء كرنے والوں كے شر كو دفع كرنے كى خوشخبرى دينا_

انا كفينك المستهزء ين

۳_دشمنوں اور مشركين سے بے اعتنائي كرنے اور اپنى دعوت كو علنى و اشكارا كرنے ميں انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كاسب سے بڑا پشت پناہ،دشمنوں كے مقابلے ميں خداوند متعال كاپيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حمايت كرنا تھا_

فاصدع بما تو مرو ا عرض عن المشركين _انا كفينك المستهزء ين

جملہ ''انا كفينك '' جملہ '' فاصدع بما تو مرو '' كے لئے تعليل كى حيثيت ركھتا ہے ;يعنى چونكہ ہم تمہارى حمايت كرتے ہيں پس جس چيز كا تجھے حكم ديا گيا ہے اُس پر عمل كرو اور مشركين سے منہ موڑ لو_

۴_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اپنى رسالت كے پہلے دور (دوران

۳۲۳

مكہ) ميں مشركين كى طرف سے تمسخر،شديد مخالفتوں اور روحانى اذيت وازار كا سامنا كرنا پڑا تھا_

و ا عرض عن المشركين _انا كفينك المستهزء ين

۵_استہزا اور تمسخر كرنا،پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين اور دشمنوں كاطريقہ تھا _انا كفينك المستهزء ين

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين اور دشمنوں كو ''استہزاء كرنے والوں ''كے نام سے ياد كيا جانااس نكتے كى طرف اشارہ ہے كہ وہ انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ مقابلہ كرنے كے لئے ہميشہ اس طريقے سے استفادہ كرتے تھے_

۶_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، اپنى دعوت كو اشكار اور علنى كرنے كى صورت ميں مشركين و كفار كيطرف سے دشمنى اور روحانى اذيت وازار سے پريشان تھے_فاصدع بما تو مر ...انا كفينك المستهزء ين

احتمال ہے كہ جملہ''انا كفينك المستهزئين'' پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پريشانيوں كا جواب ہو كہ جو اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كوخدا كے فرمان: '' فاصدع بما تو مر واعرض عن المشركين ''كے بعد اپنى دعوت كو علنى كرنے كى وجہ سے لاحق تھيں _

۷_'' عن ا بان بن عثمان الا حمر رفعه قال: المستهزئون برسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خمسة، الوليد بن المغيرة المخزومى والعاص بن وائل السهمى والا سود بن عبديغوث زهرى والا سود بن مطلّب والحارث بن الطُلاطلة الثقفي; (۱) ابان بن عثمان احمد كى ايك مرفوعہ روايت ميں ايا ہے كہ (معصومعليه‌السلام )نے فرمايا:''پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے استہزاء كرنے والے پانچ شخص تھے:۱_وليد بن مغيرہ محزومى ،۲_عاص بن وائل سھمى ،۳_اسود بن عبد يغوث زھري،۴_اسود بن مطلب ،۵_حارث بن طلا طلة الثقفي''

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے استہزا كرنے والوں كے شر كا دور كرنا ۲;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے استہزا كرنے والے ۷; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا استہزا ۱،۴،۵;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اذيت ۴ ،۶;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو بشارت ۲; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اشكارا دعوت ۳،۶;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :كى پريشانى ۶;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى دشمنوں سے بے اعتنائي ۳; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى مشركين سے بے اعتنائي۳;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حامى ۱ ، ۳ ;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دشمن ۶;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دشمنوں كا استہزا ۱،۵ ;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دشمنوں كى اذيتيں ۱ ; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دشمنوں كے ساتھ مقابلے كا طريقہ ۵;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين كا استہزا ۵ ; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين كے ساتھ مقابلے كا طريقہ ۵; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين ۴

____________________

۱)خصال شيخ صدوق ،ص۲۷۹،ح ۲۴;نور الثقلين ،ج۳، ص۳۶، ح۱۲۷_

۳۲۴

اسلام :تاريخ صدر اسلام ۴،۷

الله تعالى :الله تعالى كى بشارتيں ۲

الله تعالى كى حمايتيں :الله تعالى كى حمايتيں جن كے شامل حال ہيں ۱،۳

روايت:۷

قران كريم :قران كا استہزاء كرنے والوں كا شر دور كرنا ۲

كفار:كفاركى دشمنى ۶;كفار كے استہزاء ۶

مشركين مشركين اور انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۴;مشركين كى اذيتيں ۱، ۴ ; مشركين كى دشمنى ۶;مشركين كے استہزا ۱،۴،۶

آیت ۹۶

( الَّذِينَ يَجْعَلُونَ مَعَ اللّهِ إِلـهاً آخَرَ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ )

جو خدا كے ساتھ دوسرا خدا قرار ديتے ہيں اور عنقريب انہيں ان كا حال معلوم ہوجائے گا_

۱_ پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ استہزا كرنے والے، مشرك اور الله تعالى كے سوا كسى اور معبود كے معتقدتھے_

المستهزء ين_الذين يجعلون مع الله الهًا ء اخر

۲_الله كے سوا كسى اور كى خدائي كا عقيدہ اور شرك ،مكہ كے اكثر لوگوں كا مذہب اور دين تھا_

و ا عرض عن المشركين ...الذين يجعلون مع اللّه الهًا ء اخر

۳_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ٹھٹھہ مذاق كرنے والے مشركين كو شديد عذاب كى دھمكى دى گئي ہے_

الذين يجعلون مع اللّه الهًا ء اخر فسوف يعلمون

جملہ '' فسوف يعلمون ''(عنقريب جان ليں گے)تہديد و دھمكى كى حيثيت ركھتا ہے_

۴_قيامت ،حقائق كے منكشف ہونے اور حق و باطل كے روشن ہونے كا دن ہے_

الذين يجعلون مع اللّه الهًا ء اخر فسوف يعلمون

مندرجہ بالا مطلب اس نكتے پر مبنى ہے كہ جب ''جاننے ''كا وقت ،روز قيامت ہو_

۳۲۵

۵_خداوندمتعال كا پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اپنى رسالت اور مقاصد ميں اس طرح كامياب وموفق ہونے كى بشارت دينا كہ جس كا مشركين اور دشمن محسوس كرتے ہوئے نظارہ كريں گے_

انا كفينك المستهزء ين_الذين يجعلون مع اللّه الهًا ء اخر فسوف يعلمون

مذكورہ بالا مطلب اس احتمال پر مبنى ہے كہ جب ''يعلمون''كامفعول پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اپنى رسالت ميں كاميابى ہو كہ جو مشركين اور دشمنوں كى شكست اور ناكامى كے ہمراہ ہے_

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے استہزا كرنے والوں كا عقيدہ ۱; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے استہزاكرنے والوں كا شرك ۱; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو بشارت ۵;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے استہزاكرنے والوں كو ڈرانا۳;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے

آیت ۹۷

( وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ )

اور ہم جانتے ہيں كہ آپ انكى باتوں سے دل تنگ ہو رہے ہيں _

۱_خداوندمتعال،نے مشركين كى طرف سے غلط پروپيگنڈے اور استہزا كى وجہ سے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى دل تنگى اور غم واندوہ سے اپنى اگاہى كا اظہار كيا_انا كفينك المستهزء ين ...ولقد نعلم ا نك يضيق صدرك بما يقولون

۲_مشركين كى طرف سے غلط پروپيگنڈے اور اذيت

۳۲۶

ناك استہزا كے مقابلے ميں خداوندمتعال كا پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو تسلى و تشفى دينا _

المستهزء ين فسوف يعلمون_ولقد نعلم ا نك يضيق صدرك بما يقولون

۳_غلط پروپيگنڈا اور اذيت ناك ٹھٹھہ و مذاق، اسلام اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف كفار و مشركين كا دائمى حربہ تھا _

المستهزء ين ...ولقد نعلم ا نك يضيق صدرك بما يقولون

فعل مضارع '' يقولون ''مشركين اور دشمنوں كے پروپيگنڈے اور باتوں كے دائمى اور مستمر ہونے پر دلالت كرتا ہے_

۴_پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،مشركين اور دشمنان اسلام كى طرف سے غلط پروپيگنڈے اور اذيت ناك استہزا سے غمگين اور اندوہ ناك رہتے تھے_المستهزء ين ...ولقد نعلم ا نك يضيق صدرك بما يقولون

۵_انبياءے كرامعليه‌السلام بھى دوسرے انسانوں كى طرح اذيت و ازار سے متاثر ہوتے تھے_

ولقد نعلم ا نك يضيق صدرك بما يقولون

۶_اسلامى معاشرے كے مصلحين اوردينى قائدين ہميشہ سے دشمنوں كے غلط پروپيگنڈے اور اذيت ناك ٹھٹھہ و مذاق سے دوچار رہے ہيں لہذا اُنہيں خدا كى حمايت اور لطف الہى سے اُميد وار رہنا چاہيے _

المستهزء ين ...ولقد نعلم ا نك يضيق صدرك بما يقولون

۷_خداوند متعال انسان كے ضمير اور روحى و نفسياتى احساسات اور عواطف سے كاملاً اگاہ ہے_

ولقد نعلم ا نك يضيق صدرك بما يقولون

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كواذيت ۲،۴;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے استہزا ۱،۲،۳،۴;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كااندوہ وغم ۴;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف پروپيگنڈا ۱،۳،۴;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف سازش ۳;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دشمن ۳;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو تسلى ۲

اسلام :دشمنان اسلام كى اذيتيں ۴;دشمنان اسلام كے استہزا ۴،۶

الله تعالى :الله تعالى اور انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا غم واندوہ ۱;الله تعالى اور انسان كا ضمير ۷;الله تعالى كا علم ۱;الله تعالى كا علم غيب ۷

اُميد وارى :الله تعالى كى حمايت سے اُميد وار ى ۶;الله تعالى كے لطف سے اُميد وارى ۶

انبياء :انبياء كا بشر ہونا ۵;انبيا ء كا متاثر ہونا ۵

۳۲۷

دينى قائدين :دينى قائدين كى اُميد وارى ۶;دينى قائدين كے خلاف پروپيگنڈا ۶

مشركين :مشركين كى اذيتيں ۲،۴;مشركين كے استہزا ۱،۲ ،۳ ،۴;مشركين كا مقابلہ كرنے كا طريقہ ۳

آیت ۹۸

( فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ )

تو آپ اپنے پروردگار كے حمد كى تسبيح كيجئے اور سجدہ گذاروں ميں شامل ہوجايئے

۱_خداوند متعال كى جانب سے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو حمد و ستائش خدا كے ساتھ تسبيح كرنے كاحكم _

فسبّح بحمد ربك وكن مّن الساجدين

''بحمد '' ميں ''با'' مصاحبت كے لئے ہے ;يعنى تسبيح كو خداوند متعال كى حمد وستائش كے ساتھ ہونا چاہيے_

۲_خداوند متعال كى جانب سے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كواپنى رسالت اور دشمنوں كى مخالفتوں كے سبب پيدا ہونے والے مصائب اور مشكلات ميں نماز، عبادت اور پرورد گار كى ياد سے مدد طلب كرنے كا حكم _

ولقد نعلم ا نك يضيق صدرك بما يقولون_فسبّح بحمد ربك وكن مّن الساجدين

مندرجہ بالا مطلب ،''فسبح ''كى ''فا'' سے اخذ كيا گيا ہے كہ جو گذشتہ ايت سے اس جملے كى تفريع كے لئے ايا ہے_يعنى :خدا وند متعال كاپيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے غم واندوہ اور دل تنگى سے اگاہ ہونے كے بعد خدا كى جانب سے تسبيح اور حمد كے حكم سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ عبادات ،غم واندوہ اورپريشانى كو ختم كرنے ميں موثر ہيں _

۳_اسلامى معاشرے كے راہنمائوں اور حكمرانوں كو اپنے فرائض كى ادائيگى ميں مشكلات كے مقابلے ميں ذكر و عبادت اور نماز كے ذريعے پرورد گار سے مدد طلب كرنے كى ضرورت ہے_

ولقد نعلم ا نك يضيق صدرك ...فسبّح بحمد ربك وكن مّن الساجدين

۴_ذكر و عبادت ميں تسبيح پرورد گار كے ساتھ خدا كى حمد و ستائش كا ہونا ايك نيك اور پسنديدہ امر ہے_فسبّح بحمد ربك

۵_خداوند متعال كى طرف سے اپنے بندوں كى حمايت

۳۲۸

مقتضى ہے كہ اُس كا شكر اور تسبيح و عبادت كى جائے_ولقد نعلم ا نك يضيق صدرك ...فسبّح بحمد ربك

''فسبّح '' ميں ''فا'' گذشتہ ايت پر تفريع ہے (گذشتہ ايت مشركين كى اذيت ناك باتوں كے مقابلے ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو تسلى و تشفى پر مشتمل تھى ) اُس پر اس ايت كى تفريع ہو سكتا ہے مذكورہ بالا نكتے كى جانب اشارہ ہو_

۶_خدا وند متعال كے بارے ميں ہر قسم كے شرك اور ناروا، بات كے مقابلے ميں اُس كى تسبيح و عبادت كرنا ضرورى ہے_ولقد نعلم بما يقولون_فسبّح بحمد ربك

''فسبّح '' ميں گذشتہ ايت پر تفريع ہو سكتا ہے اس معنى ميں ہو كہ اب جبكہ وہ خدا كے بارے ميں ناروا باتيں كہتے ہيں اور پرورد گار كى تنقيص كرتے ہيں ،پس تو اُس كى حمد و ستائش اور تسبيح كر_

۷_ خدا وندمتعال كاذكر اور عبادت;مثلاً نماز، پريشانيوں اور غم واندوہ كو ختم كرنے ، ثابت قدمى وحوصلہ بلند كرنے اور اطمينان خاطر كا باعث بنتى ہے_ولقد نعلم ا نك يضيق صدرك ...فسبّح بحمد ربك وكن مّن الساجدين

مفسرين كى اكثريت كا كہنا ہے كہ اس ايت ميں سجدہ سے نماز مرادہے _اور اس كى تائيد ايك روايت سے بھى ہوتى ہے جس كے مطابق پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب بھى پريشان اور دل تنگ ہوتے تو نماز پڑھتے تھے_(مجمع البيان )

۸_سجدہ اور خضوع ،نماز كى روح اور اصلى ركن ہے جس كو تمام عبادات ميں خصوصى مقام حاصل ہے _

فسبّح بحمد ربك وكن مّن الساجدين

ہو سكتا ہے'' سجدہ ''سے نماز مراد ہو چونكہ نماز كے بجائے سجدے كا حكم ديا گيا ہے_ شايديہ اس حقيقت كو بيان كر رہا ہو كہ سجدہ نماز كا اہم ركن اور اُس كى روح ہے_ياد رہے كہ تسبيح و حمد كى نصيحت كے بعد خدا كى طرف سے سجدہ كا حكم كہ ہر دو ايك طرح كى عبادت شمار ہوتى ہيں ، اس كے خاص مقام ومنزلت كو ظاہر كرتا ہے_

۹_خداوند متعال كى ربوبيت، اس بات كے لائق ہے كہ اُس كى تسبيح وحمد كى جائے اورانسان اُس كى بارگاہ ميں فروتنى اور سجدہ بجا لائے_فسبّح بحمد ربك وكن مّن الساجدين

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو وصيت ۱،۲

استقامت :استقامت كے عوامل ۷

استمداد :الله تعالى سے استمداد ۲،۳;عبادت سے استمداد

۳۲۹

۲;نماز سے استمداد ۲

الله تعالى :الله تعالى كى تسبيح كى اہميت ۱،۶;الله تعالى كى تسبيح كے عوامل ۵،۹;الله تعالى كى ربوبيت ۹;الله تعالى كى حمايتيں ۵;الله تعالى كے سامنے سجدہ كے عوامل۹;الله تعالى كے وصايا ۱،۲

حمد :حمد خدا كى اہميت ۱;حمد خدا كے عوامل ۵،۹

حوصلہ بلند ہونا :اس كے عوامل ۷

دينى قائدين :دينى قائدين كى ضروريات ۳

ذكر :الله تعالى كے ذكركى اہميت ۲،۳;الله تعالى كے ذكر كے اداب ۴;الله تعالى كے ذكر كے اثرات ۷; الله تعالى كے ذكر ميں تحميد ۴الله تعالى كے ذكر ميں تسبيح ۴

سختى :سختى ميں تسہيل كى روش ۲،۳

عبادت:الله كى عبادت كى اہميت ۲،۳،۶;الله كى عبادت كے عوامل ۵;الله كى عبادت ميں تحميد ۴; الله كى عبادت ميں تسبيح ۴;عبادت كے اداب ۴;عبادت كے اثرات ۷

عمل :پسنديدہ عمل ۴

غم واندوہ:غم واندوہ ختم ہونے كے عوامل ۷

قلبى اطمينان:قلبى اطمينان كے عوامل ۷

نفسيات :تربيتى نفسيات ۷

نماز :نماز كى اہميت ۲،۳;نمازكے اثرات ۷;نماز كے اركان ۸;نماز ميں خضوع كى اہميت ۸;نماز ميں سجدے كى اہميت ۸

۳۳۰

آیت ۹۹

( وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ )

اور اس وقت تك اپنے رب كى عبادت كرتے رہيے جب تك كہ موت نہ آجائے _

۱_خداوند متعال كى طرف سے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كوعمر كے اخر تك عبادت كرنے كا حكم _

واعبد ربك حتى ياتيك اليقين

مندرجہ بالا مطلب اس بات پر مبنى ہے كہ جب ''يقين '' سے موت مراد ہو _جيسا كہ سورہ ''مدثر'' كى ايت ۴۷ ميں بھى موت كو ''يقين '' سے تعبير كيا گيا ہے _قابل ذكر ہے كہ ''تحصيل يقين ''كے بجائے ''انے''(يا تي) كى تعبير سے بھى اس مطلب كى تائيد ہو سكتى ہے_

۲_ پورى عمرپرورد گار كى عبادت كرنا، بندوں كا فريضہ ہے_واعبد ربك حتى ياتيك اليقين

۳_انسان موت كے بعد ہى حقائق سے اگاہ ہوتا ہے اور اُسے اُن كا يقين اتا ہے_واعبد ربك حتى ياتيك اليقين

مندرجہ بالا مطلب كو موت كى وجہ تسميہ''يقين ''

سے اخذ كيا گيا ہے_يعنى موت كو اس لئے ''يقين'' كہا جاتا ہے چونكہ انسان پر حقائق اشكار ہو جاتے ہيں اوراُسے اُنكا يقين اجاتا ہے_

۴_خداوند متعال كى جانب سے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو يقين كے مرتبے پر فائز ہونے تك پرورد گار كى عبادت كرنے كى نصيحت _

واعبد ربك حتى ياتيك اليقين

مندرجہ بالا مطلب اس بنياد پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب كلمہ ''يقين''اپنے لغوى و اصطلاحى معنى ميں استعمال ہوا ہو_

۵_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خداوند متعال كى خصوصى تربيت اور خاص توجہ كے تحت تھے_واعبد ربك حتى ياتيك اليقين

ہو سكتا ہے مذكورہ مطلب اس لئے اخذ كيا گيا ہوكہ صفت ''ربّ'' ،كاف خطاب كى طر ف مضاف ہے كہ جس كا مرجع پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہيں _لہذااس نكتہ كى بنا ء

۳۳۱

پر خداوند سب بندوں كا ''ربّ'' ہے _

۶_يقين ،ايمان و معرفت كے بلند ترين مراتب كى علامت ہے_واعبد ربك حتى ياتيك اليقين

چونكہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كہ جو ايمان كا مظہر ہيں كو نصيحت كى جاتى ہے كہ اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يقين پر فائز ہونے كے لئے عبادت كريں _اس سے مندرجہ بالا مطلب اخذ ہوتا ہے_

۷_يقين كے بلند ترين مرتبے پر فائز ہونا ہى عبادت كا فلسفہ اور مقصد ہے_واعبد ربك حتى ياتيك اليقين

''حتى '' غايت كى انتہاكے لئے ہے جو ''الى '' كے معنى ميں ہے اوراس ايت ميں ''يقين'' كو ''عبادت'' كے لئے غايت و مقصد كے طور پر ليا گيا ہے(واعبد ...)_

۸_خداوند متعال كى ربوبيت ،اُس كى بار گاہ ميں عبادت كى مقتضى ہے_واعبد ربك حتى ياتيك اليقين

انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كامربى ۵;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو نصيحت ۴ ; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى شرعى ذمہ دارى ۱;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى عبادات ۱;انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى عبوديت ۱; انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فضائل ۵

الله تعالى :الله تعالى كى ربوبيت ۸;الله تعالى كى نصيحتيں ۴;الله تعالى كے اوامر ۱

انسان:انسانوں كى شرعى ذمہ دارياں ۲

ايمان :ايمان كے مراتب ۶

شرعى ذمہ داري:شرعى ذمہ دارى كا سب كےلئے ہونا ۲

شناخت :شناخت كے مراتب ۶

عبادت:خدا كى عبادت ۲،۴;خدا كى عبادت كے عوامل ۸;عبادت كا فلسفہ ۷

لطف خدا :لطف خدا جن كے شامل حال ہے ۵

يقين :موت كے بعد كے حقائق كا يقين ۳;يقين كى اہميت ۶،۷

۳۳۲

۱۶- سوره نحل

آیت ۱

( بسم الله الرحمن الرحیم )

( أَتَى أَمْرُ اللّهِ فَلاَ تَسْتَعْجِلُوهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ )

بنام خدائے رحمان و رحيم

امر الہى آگيا ہے لہذا اب بلاوجہ جلدى نہ مچاؤ كہ خدا ان كے شرك سے پاك و پاكيزہ اور بلند و بالا ہے_

۱_ خداوند عالم كى طرف سے اسلام و توحيد كى فتح اور شرك و مشركين كى رسوائي كا فرمان جارى ہونا_

آتى امرالله فلا تستعجلوه سبحانه و تعالى عمّا يشركون

مذكورہ با لا تفسير اس بناء پر ہے كے جب ''امر'' كا معنى فرمان ہو ليكن فرمان كس چيز كے بارے ميں ہے آيت كا ذيل (سبحانه و تعالى عَمّا يشركون ) ممكن ہے اس بات پر قرينہ ہو كہ امر سے يہاں مراد شرك كى شكست و رسوائي اور توحيد كى فتح ہے_

۲_ صدر اسلام كے مسلمان توحيد اور اسلام كى حاكميت اور خدائي و عدے كے جلد متحقق ہونے كے خواہاں تھے_

آتى امرالله فلا تستعجلوهسبحانه و تعالى عمّا يشركون

''لا تستعجلوه '' كے مخاطب كے بارے ميں دو احتمال ہے ايك يہ كہ اس سلسلے ميں عجلت مسلمانوں كى طرف سے پائي_ دو سرا يہ كہ مشركين يہ چاہتے تھے كہ وعدہ الہى (عذاب يا توحيد كى حاكميت يا قيامت ) جلد از جلد وقوع پذير ہو_ مذكورہ بالا مطلب پہلے احتمال كى بناء پر ہے_

۳_ مؤمنين كا وظيفہ ہے كہ وہ صبر و شكيبائي سے كام ليتے ہوئے خدائي وعدوں كے جلد تحقق كى خواہش سے پرہيز كريں _

آتى امرالله فلا تستعجلوه سبحانه و تعالى عمّا يشركون

اس بات كو مدنظر ركھتے ہوئے كہ''لاتستعجلوه'' مخاطب اور'' يشركون'' غائب كا صيغہ ہے ايسے معلوم ہوتا ہے كہ پہلے فعل كے مخاطب ،مؤمنين ہوں _

۴_ صدر اسلام كے مشركين، دشمنى اور مذاق اڑانے كى خاطر الہى و عدوں (عذاب، اسلام كى حاكميت اور قيامت) كے جلد وقوع پذير ہونے كے خواہاں تھے_آتى امراللّه فلا تستعجلوه

۳۳۳

يہ احتمال ہے كہ ''تستعجلوہ'' كا مخاطب مشركين ہوں جو الہى وعدوں كے تحقق كے خواہش مند تھے كيونكہ عام طور پر كوئي بھى اپنے دشمن كى فتح اور اپنى شكست و رسوائي كا خواہشمند نہيں ہوتا اس ليے يہ كہا جاسكتا ہے كہ نزول عذاب كے سلسلے ميں مشركين كى جلد بازى ، دشمنى اور تمسخر كى خاطر تھي_

۵_ خدائي و عدوں كے جلد وقوع پذير ہونے كے سلسلے ميں عجلت اور بے صبرى كا مظاہرہ كرنا جائز نہيں ہے_

آتى امراللّه فلا تستعجلوه

۶_ خدائي وعدے حتمى اور اپنے مقررہ وقت پرانجام پذير ہوتے ہيں _آتى امراللّه فلا تستعجلوه

۷_ خداوند عالم ہر قسم كے شريك سے منزہ و مبرّہ ہے_سبحنه ...عمّا يشركون

۸_ خداوند عالم كى ذات اقدس اس چيز سے بالاتر ہے كہ اس كے ليے كسى طرح كے شريك كا تصور كيا جائے_

سبحنه و تعالى عمّا يشركون

۹_ شرك كى ناپائيدارى كا سرچشمہ اس كا حقيقت سے عارى اور بے بنياد ہونا ہے _

۱۰_''عن بعض اصحابناعن ابى عبداللّه عليه‌السلام قال: مسئلة عن قول الله : ''اتى امر الله فلا تستعجلوه قال: ...انّ اللّه اذا اجز أن شيائً كائن فانه قد كانّ'' (۱)

ايك صحابى كا بيان ہے : كہ ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے خداوند عالم كے اس كلام''آتى امراللّہ فلا تستعجلوہ'' كے بارے ميں سوال كيا تو آپعليه‌السلام نے فرمايا: جب بھى خداوند عالم كسى چيز كے تحقق كے بارے ميں خبر ديتا ہے تو اسے متحقق ہى سمجھا جاتا ہے_

۱۱_قال رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قبل الساعة سحابة سودائ ثم ينادى منادي: ايّها الناس ''اتى امر اللّه فلد تستعجلوه'' (۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا: كہ روز قيامت سے پہلے بادل ظاہر ہوگا ...پھر منادى ندا،د ے گا اے لوگوںاتى امرى الله فلا تستعجلوه

____________________

۱) تفسير عياشى ج۲ ص۲۵۴ ح۲ ، نورالثقلين ص۳۸ ح۵ _

۲)الدرالمنشور ج۵ ص۱۰۸_

۳۳۴

اسلام:اسلام كى فتح۱،۲

الله تعالى :الله تعالى اور اس كاشريك ۷،۸; الله تعالى كا علّو ۸;الله تعالى كا منزہ ہونا ۷،۸; الله تعالى كى خبروں كا حتمى ہونا۱۰; الله تعالى كے وعدوں كا حتمى ہونا۶; الله تعالى كے وعدوں كے تحقق پر صبر ۳;الله تعالى كے وعدوں كے تحقق ميں جلد بازى كى درخواست ۲ ، ۴;اوامر الہي۱،۱۰; الہى وعدوں ميں تعجيل سے اجتناب ۳

روايت ۱۰، ۱۱

شرك:شرك كى شكست ۱; شرك كى ناپائيداري۹; شرك كے بطلان كے آثار۹

عجلت:عجلت كى سرزنش۵

قيامت :قيامت كى نشانياں ۱۱

مسلمين:صدراسلام كے مسلمانوں كے تقاضے ۲

مؤمنين:مؤمنين كى ذمہ داري۳

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كا استہزاء ۴; صدرا سلام كے مشركين كى دشمنى ۴; صدرا سلام كے مشركين كے تقاضے ۴; مشركين كى ذلت۱

آیت ۲

( يُنَزِّلُ الْمَلآئِكَةَ بِالْرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ أَنْ أَنذِرُواْ أَنَّهُ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ أَنَاْ فَاتَّقُونِ )

وہ جس بندے پر چاہتا ہے اپنے حكم سے ملائكہ كو روح كے ساتھ نازل كرديتا ہے كہ ان بندوں كو ڈراؤ اور سمجھاؤ كہ ميرے علاوہ كوئي خدا نہيں ہے لہذا مجھى سے ڈريں _

۱_خداوند عالم، اپنے برگزيدہ بندوں پر ملائكہ كو روح (وحى الہي) ساتھ نازل كرتا ہے_

ينزلالملائكة بالروح من امره على من يشاء من عباده

آيت ميں روح سے كيا مراد ہے اس بارے ميں مفسرين نے مختلف احتمالات ذكر كئے ہيں _

جيسے حضرت جبرائيل ، وحى اور وہ چيز كہ جس كے ذريعہ زندگى متحقق ہوتى ہو_ مذكوربالا مطلب ميں ''روح'' وحى سے كنايہ ہے_

۳۳۵

۲_ ''روح '' خداوند عالم كے مختص امور اور شان ميں سے اور اسى كے ساتھ مربوط ہے_

ينزل ملائكه بالروح من امره على من يشاء من عباده

''امر '' كا ايك معنى شان بھى ہے مذكورہ بالا تفسير اسى معنى كى بناء پر ہے_

۳_ خدا كے برگزيدہ بندوں پر ملائكہ كا نزول حكم خداوندى كے تحت ہے_ينزّل الملائكة بالروح من امره

''امر'' كا ايك معنى فرمان اور حكم ہے اور ''من'' يہاں ''با'' كے معنى ميں ہوسكتى ہے لہذا اس صورت ميں ''من امرہ'' كا معنى يعنى حكم وفرمان خداہے_

۴_''وحي''انسان اور معاشرہ كے ليے سرمايہ حيات ہے_ينزّل الملائكه بالروح من امره على من يشاء

جيسا كہ مفسرين نے كہا ہے كہ ''الروح'' سے مراد وحى ہوسكتى ہے_وحى كى جگہ پر كلمہ''الروح'' كا استعمال ،استعارہ ہے_ اس استعارہ كى وجہ شبہ وحى كا سرمايہ حيات ہونا ہے_ جيسا كہ روح موجودات كے ليے سرمايہ حيات ہوتى ہے_

۵_ ملائكہ، خداوند عالم كے برگزيدہ بندوں پر ابلاغ وحى كا ايك واسطہ ہيں _

ينزل الملائكةبالروح من امره على من يشاء من عباده

بعد والے جملات (ان انذروا ...) كہ جو وحى اور رسالت كے ابلاغ كے بارے ميں ہے كے قرينے كى بناء پر آيت ميں ''روح'' سے مراد وحى ہوسكتى ہے_

۶_ انسان كے ليے وحى كو دريافت كرنے كے ليے خداوند كى عبوديت، ايك شائستہ پيش خيمہ ہے_

ينزّل الملائكهبالروح من امره على من يشاء من عباده

''من يشائ'' كى ''من عبادہ'' كے ذريعہ وضاحت كرنا اور ''ناس '' اور خلق وغيرہ جيسے كلمات كى جگہ پر لفظ ''عباد'' كا استعمال ممكن ہے مذكورہ بالا مطلب كى طرف اشارہ ہو_

۷_ وحى كے دريافت كے ليے انبياء كا انتخاب، مشيّت الہى كے تابع ہے_ينزل الملائكه بالروح من امره على من يشاء من عباده

۸_ انبياء، خداوند عالم كے منتخب بندے ہيں _من يشاء

۹_ برگزيدہ افراد پر وحى كے ابلاغ كے ليے ملائكہ كا نزول ، حكم الہى كے يقينى اور حتمى ہونے كا ايك پر تو

۳۳۶

ہے_آتى امراللّه ينزّل الملائكه بالروح من امره

۱۰_ لوگوں كو انذار اور خبردار كرنا، انبياء كا بنيادى وظيفہ ہے_ينزل الملائكهبالروح من عباده ان انذرو

۱۱_ منتخب بندوں پر فرشتوں كے نزول كا مقصد، ان تك الہى پيغام پہنچانا ہے _

ينزل الملائكه ان انذروا انّه لا اله الّا أن

۱۲_ ملائكہ كے ذريعہ، الہى فرامين كا اجراء ہوتا ہے_ينزل الملائكه ان انذرو

۱۳_ تقوى اور حقوق الله كى رعايت، غير معمولى قدر وقيمت كى مالك ہے_انهّ لا الهالّا أنا فاتقون

كيوں كہ روح اور ملائكہ كو توحيد كے ابلاغ كے ليے بھيجا جاتا ہے اور توحيدكو تقوى تك پہنچنے كا ايك مقدمہ قرار ديا گيا ہے اس سے مذكورہ بالا مطلب حاصل ہوتاہے _

۱۴_ انبياء كى دعوت كا خلاصہ ، توحيد كى طرف دعوت اور خوف الہى ہے _لا اله الا أنا فاتقون

۱۵_ خدائے يكتا پر اعتقاد ، تقوى اور خوف الہى كا پيش خيمہ ہے_ان انذروا انّه لا اله الّا أنا فاتقون

''فاتقون'' ميں ''فا'' تفريع كے ليے ہے اس بناء پر يہ مطلب اخذ ہوتا ہے كہ : اگر كوئي توحيد اور خدائي يگانگت پر ايمان لے آئے تو اس كے ليے تقوى الہى كا زمينہ بھى فراہم ہوجاتا ہے _

۱۶_ توحيدى فكر ، انسان كو اس كے مناسب عمل كرنے كى دعوت ديتى ہے_لا اله

۱۷_آتى رجل امير المؤمنين عليه‌السلام يسأله عن الروح أليس هو جبرئيل عليه‌السلام : فقال له اميرالمؤمنين عليه‌السلام جبرئيل من الملائكة و الروح غير جبرئيل يقول اللّه تعالى لنبيّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم '' ينزّل الملائكه بالروح'' و الروح غير الملائكة (۱)

ايك شخص امير المؤمنينعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوا اور سوال كيا كہ كيا روح سے مراد وہى جبرائيل ہيں ؟ تو آپعليه‌السلام نے فرمايا : جبرئيل تو ملائكہ ميں سے اور روح، جبرئيل سے ہٹ كر ہيں خداوند عالم اپنے پيغمبر كو ارشاد فرما رہا ہے_

''ينزل الملائكہ بالروح'' ( اس آيت كى بناء پر) وہ ملائكہ سے عليحدہ چيز كرہے(۱)

۱۸_عن ابى جعفر عليه‌السلام فى قوله ''على من

____________________

۱) كافي، ج۱ ص ۲۷۴ ح ۶، نورالثقلين ، ج۳، ص ۳۹ ح ۷_

۳۳۷

يشاء من عباده ان اذروا انّه لا اله الّا انا فاتقون؟ يقول: بالكتاب و النبوة'' (۱)

امام محمد باقرعليه‌السلام سے خداوند عالم كے اس قول''على من يشاء من عباده ان انذرو ا انّه لا اله الاّ فاتقون'' كے بارے ميں روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا: كہ كتاب ونبوت كے ذريعے(لوگوں كو ڈرايئے(۲)

اقدار:۱۴

الله تعالي:الله تعالى كى خصوصيات ۳; الله تعالى كى مشيّت ۷ ; الله تعالى كے احكام كو اجراء كرنے والے۱۲; الله تعالى كے افعال ۱; الله تعالى كے اوامر۳; الله تعالى كے اوامر كا حتمى ہوتا ۹; الله تعالى كے عمّال۱۲;الله تعالى كے مختصات۲

انبياء:انبياء كا انتخاب ۷ ،۸; انبياء كى دعوتيں ۱۴; انبياء كى ذمہ دارى ۱۰;انبياء كے انذار۱۰، ۱۸; انبياء كے فضائل۹

انسان:انسان كا مايہ حيات۴

توحيد:توحيد كى اہميت ۱۳; توحيد كى طرف دعوت۱۴

تقوي:تقوى كا پيش خيمہ ۱۵; تقوى كى اہميت ۱۳،۱۴; تقوى كى طرف دعوت ۱۳;تقوى كى قدرو قيمت۱۳

خدا كے برگزيدہ افراد۸

برگزيدہ افراد پر ملائكہ كا نزول۱، ۳، ۱۰، ۱۲; برگزيدہ افراد پر وحى ۱، ۵

خوف:خوف الہى كا پيش خيمہ۱۵

روايت:۱۷ ،۱۸

روح:روح سے مراد ۱۷; روح كى حقيقت۲

عبوديت :عبوديت كے آثار۶

عقيدہ :توحيد پر عقيدہ كے آثار ۱۵،۱۶;پسنديدہ عمل كى دعوت۱۶

كتب آسمانى :كتب آسمانى كے انذار ۱۸

لوگ:لوگوں كو ڈرانا۱۰

____________________

۱) تفسير قمي، ج۱ ص ۳۸۲; نورالثقلين، ج۳ ص ۳۹ ح ۸_

۳۳۸

معاشرہ:معاشرہ كا مايہ حيات ۴

ملائكہ :ملائكہ كا كردار ۵،۱۲; ملائكہ كو وحى ۵; ملائكہ كے

نزول كا فلسفہ۱۱

وحي:وحى كا كردار۴; وحى كو دريافت كرنے كا پيش خيمہ۶

آیت ۳

( خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ بِالْحَقِّ تَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ )

اسى خدا نے زمين و آسمان كو حق كے ساتھ پيدا كيا ہے اور وہ ان كے شريكوں سے بہت بلند و بالاتر ہے _

۱_ زمين و آسمان (كائنات) كا خالق خداوند عالم ہے_خلق السموات والأرض

۲_ كائنات (زمين و آسمانوں ) كى خلقت منظّم ، با مقصد ، متقن اور محكم ہونے كے ساتھ ساتھ ہر قسم كى بے نظمى اور بطلان سے دور ہے_خلق السموات والأرض بالحق

حق كا ايك معنى ، باحكمت مقصد اور متقن ہونا ہے لہذا ،خلق السموات والارض بالحق ، كا معنى يوں ں ہوگا كہ خداوند عالم نے كائنات كو مقصد كے تحت اور نہايت ہى متقن اور محكم خلق كيا ہے_

۳_ كائنات ميں متعدد آسمان ہيں _خلق السموات

۴_ زمين و آسمانوں كے بر حق مدار كى خلقت ، خداوند عالم كى وحدانيت اور اس كے لا شريك ہونے پر دليل ہے _

ان أنذروا أنّه لا إله الّا أنا فاتقون، خلق السموات و الارض بالحق تعالى عما يشركون

جملہ'' خلق السماوات والأرض'' گذشتہ آيت ميں''لا اله الاّ انا'' كے مطلب كے ليئے بہ منزلہ علّت ہے _

۵_خداوند عالم كى ذات اس سے بلند و برتر ہے كہ خلقت ميں اسكے ليے كسى شريك كا تصور كيا جائے_

خلق السموات و الارض بالحق تعالى عما يشركون

۳۳۹

۶_ خداوند عالم كے ليے كسى قسم كا شريك قرار دينا، اس كے غلط اور غير واقعى تصور كى علامت ہے_تعلى عمّا يشركون

۷_ آسمانوں اور زمين (كائنات ) كى خلقت، اس بات پر دليل ہے كہ خداوند عالم اپنے وعدوں كو پورا كرنے پر قادرہے_

اتى امراللّه خلق السموات و الارض بالحق تعالى عما يشركون

''خلق السماوات ...'' كا جملہ اس بات كى وضاحت كے ليے تعليل كى حيثيت ركھتا ہے كہ خداوند عالم اپنے وعدوں كو پورا كرنے پر قادر ہے_

۸_ صدراسلام كے مشركين، خداوند عالم كو آسمانوں اور زمين كا خالق سمجھتے تھے_

آتى امر اللّه ...سبحنه و تعلى عما يشركون خلق السموات و الارض بالحق تعالى عما يشركون

''تعالى عمّا يشركون'' كا تعلق ''بالحق '' كے ساتھ ہے نہ كہ ''خلق السماوات'' كے ساتھ اس بناء پر آيت سے يہ استفادہ ہوتا ہے كے مشركين كو كائنات كى اصل خلقت كے بارے ميں اعتراض نہيں تھا بلكہ اس كى حقانيت اور بطلان پر توہم كا شكار تھے_

آسمان:آسمانوں كا خالق۱،۸;آسمانوں كا متعدد ہونا۳; آسمانوں كى خلقت۴،۷

الله تعالى :الله تعالى كا علّو۵; الله تعالى كى خالقيت۱; الله تعالى كى قدرت كے دلائل ۷; الله تعالى كے بارے ميں غلط فكر۶; الله تعالى كے وعدوں كا حتمى ہونا۷

الله تعالى كى نشانياں :الله تعالى كى آفاقى نشانياں ۴

توحيد:توحيد افعالي۵; توحيد كے دلائل ۴; خالقيت ميں توحيد۵

زمين:زمين كا خالق ۱،۸; زمين كى خلقت ۳،۷

عقيدہ :خدا كى خالقيت پر عقيدہ ۸; شرك پر عقيدہ ۶

كائنات:كائنات كا بامقصد ہونا ۲; كائنات كا خالق ۱; كائنات كا متقن ہونا۲; كائنات كا نظم۲; كائنات كى حقانيت۳; كائنات كى خلقت ۷

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كا عقيدہ۸

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779