تفسير راہنما جلد ۹

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 779

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 779 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 218340 / ڈاؤنلوڈ: 3786
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۹

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

جبرئیل امین تھے ( جو اس صورت میں ظاہر ہوئے) اور انہوں نے اس کی تاکید کرنا اہی جو میں نے علی کے بارے میں کہا تھا۔

اب میں آپ حضرات سے انصاف چاہتا ہوں کہ آیا یہ مناسب تھا کہ دو ہی مہینے کی مدت میں ایسے مضبوط عہد و پیمان کو توڑ دیا جائے جو رسول اللہ(ص) نے بحکم خدا ان لوگوں کے ساتھ باندھا تھا، بیعت سے انحراف کریں ہوا و ہوس میں پھنس کے حق کو پس پشت ڈال دیں اور وہ کچھ کریں جو نہ کرنا چاہیئے تھا ان کے دروازے پر آگ لے جائیں ان کے اوپر تلوار اٹھائیں۔ اہانتیں کریں اور بجبر و اکراہ ایک ہنگامہ اور فساد برپا کر کے توہین و تذلیل کے ساتح ڈرا دھمکا کر بیعت کے لیے مسجد میں لے جائیں؟

حافظ : مجھ کو آپ کے ایسے جلیل القدر مہذب سید سے یہ توقع نہیں تھی کہ اصحاب رسول(ص) کی طرف ہوا پرستی کی نسبت دیں گے حالانکہ آنحضرت(ص) نے اصحاب کو قوم کی ہدایت کا ذریعہ قرار دیا تھا جیسا کہ ارشاد ہے : "اصحابی کالنجوم بايهم اقتديتم اهتديتم" ( یعنی میرے اصحاب ستاروں کے مانند ہیں، ان میں سے جس کی اقتدا کرو گے ہدایت پائو گے۔

اقتدائے اصحاب کی حدیث غیر معتبر ہے

خیر طلب : پہلی درخواست تو میری یہ ہے کہ بار بار ایک ہی بات نہ دہرائیے ۔ ابھی بھی آپ اس حدیث سے استدلال کرچکے ہیں اور میں جواب عرض کرچکا ہوں کہ اصحاب بھی دوسرے لوگوں کی طرح جائز الخطا تھے، پس جب یہ ثابت ہوگیا کہ معصوم نہیں تھے تو اگر دلیل کے ساتھ ان میں سے کسی کی طرف ہوا پرستی کی نسبت دی جائے تو کونسی حیرت کی بات ہے؟ دوسرے آپ کے خیالات کو صاف کرنے اور یاد دہانی کے لیے چاہتا ہوں کہ پھر جواب عرض کردوں تاکہ اس کے بعد آپ ایسی کمزور حدیثوں کا سہارا نہ لیں۔ چونکہ آپ نے تجدید کلام فرمائی ہے لہذا میں بھی تکرار جواب کررہا ہوں۔ خود آپ کے اکابر علماء کی بحث و تحقیق کی بنا پر یہ حدیث قابل اعتبار نہیں۔ جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں۔ قاضی عیاض مالکی نے آپ کے اجلہ علماء سے نقل کیا ہے کہ اس کے سلسلے روایات میں چونکہ مجہول الحال راوی حارث بن قضین اور حمزہ نصیبی کا نام بھی شامل ہے جس پر کذب و دروغ گوئی کا الزام ہے لہذا یہ قابل نقل نہیں ہے۔ نیز قاضی عیاض نے شرح شفاء میں اور تعدیل احادیث کے نقاد بیہقی نے اپنی کتاب میں خود حدیث کو موضوع بنایا ہے اور اس کی سند کو ضعیف و مردود شمار کیا ہے۔

بعض صحابہ ہوائے نفس کے تابع اور حق سے منحرف ہوگئے

تیسرے میں تہذیب و ادب سے ہٹ کے ہرگز کوئی بات نہیں کہتا میں تو وہی کہتا ہوں جو خود آپ کے علماء لکھ چکے ہیں بہتر ہوگا آپ حضرات فاضل تفتازانی کی شرح مقاصد ملاحظہ فرمائیے جس میں وہ جیسا میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں

۴۱

صاف صاف لکھتے ہیں کہ صحابہ کے درمیان چونکہ کثرت سے اختلافات ، عداوتیں اور لڑائیاں رونما ہوئیں۔لہذا پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے کچھ لوگ راہ حق سے منحرف ہو کر ہوائے نفس کے تابع ہوگئے تھے بلکہ ظالم اور فاسق تھے۔

پس ہر فرد یا جماعتقابل احترام نہیں سمجھی جاسکتی۔ جس نے رسول اکرم (ص) کی مصاحبت پالی بلکہ احترام انکے اعمال و کردار کا ہے اگر وہ اہل نفاق نہیں تھے بلکہ رسول اللہ(ص) کے مطیع و فرمانبردار تھے اور آں حضرت(ص) کے احکام و ہدایات کے برخلاف عمل نہیں کرتے تھے تو یقینا بزرگ و محترم ہوں گے اور ان کی خاک قدم ہمارے لیے سرمہ چشم ہوگی۔

صاحبان انصاف یا تو آپ کو یہ کہنا چاہئیے کہ آپ کی معتبر کتابوں میں کثرت کے ساتھ جو اخبار و واحادیث امیرالمومنین علی علیہ السلام سے جنگ کرنے کے بارے میں وارد ہوئے ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا علی(ع) جنگ کرنا مجھ سے جنگ کرنا ہے یہ سب بے بنیاد ہیں۔ یا اگر تصدیق کیجئے گا کہ اس طرح کی حدیثیں اور روایتیں انتہائی معتبر ہیں اس لیے سلسلہ اسناد صحیحہ کے ساتھ آپ اکابر علماء کی کتابوں میں منقول ہیں( علاوہ اس تواتر کے جو علماء شیعہ کی معتبر کتابوں میں موجود ہے) تو آپ کو یہ ماننے پر مجبور ہونا پڑے گا کہ متعدد اصحاب فاسد، کھوٹے اور باطل پرست تھے۔ مثلا معاویہ، عمرو عاص، ابوہریرہ ،ثمرہ بن جندب، طلحہ اور زبیروغیرہ جو علی(ع) سے جنگ کرنے اٹھے ، کیونکہ علی(ع) سے جنگ کرنا رسول خدا(ص) سے جنگ کرنا تھا۔

اور چونکہ انہوں نے رسول اللہ(ص) سے جنگ کی لہذا قطعا حق سے برگشتہ تھے۔ پس اگر ہم نے کہہ دیا کہ بعض صحابہ ہوا و ہوس کے تابع ہوگئے تو غلط نہیں کہا بلکہ دلیل و برہان کے ساتھ کہا ہے۔ علاوہ اس کے ہم اس دعوے میں تنہا نہیں ہیں کہ بعض صحابہ فاسق و ظالم تھے اور حق سے منحرف ہوکر منافقین میں شامل تھے، بلکہ آپکے اکابر علماء سے اس کی سند لیتے ہیں۔

صحابہ کی عہد شکنی پر امام غزالی کا قول

آپ اگر کتاب سر العالمین مولفہ حجتہ الاسلام ابو حامد محمد بن حمد غزالی ؟؟؟؟ کا مطالعہ کریں تو ہرگز ہم پ؛ر ایراد نہ کریں۔ مجبورا میں اس کے چوتھے مقالے کا ایک حصہ اثبات حق کے لیے پیش کرتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں:

"أسفرت‏ الحجّةوجهه اوأجمعالجماهيرعلى متن الحديث من خطبته- صلى اللّه عليه وآله وسلم- في يوم غديرخمّ باتّفاق الجميع وهويقول: «من كنت مولاه فعليّ مولاه»فقالعمر: «بخ بخ لك ياأباالحسن لقدأصبحتم ولايوم ولى كلّ مؤمن ومؤمنة»فهذاتسليم ورضىوتحكيم؛ثمّ بعدهذاغلب الهوى بحبّ الرّئاسةوحمل عمودالخلافةوعقودالبنودوخفقانالهواءفيقع قعةالرايات واشتباك ازدحامالخيول وفتح الأمصارسقاهم كأسالهوى،فعادواإلى الخلاف الأوّل،فنبذواالحقّ وراءظهورهم واشتروابه ثمناقليلافبئس مايشترون و لما مات رسول الله قال قبل وفاته ايتونی بدوات و بياض

۴۲

روبيضا نسخة) لا زيل عنکم اشکال الامر و اذکر لکم من الستحق لو ابعدی قال عمرو عوا الرجل فانه لبهجر. و قيل بهذا فاذا بطل تعلقکم بتاويل النصوص فعدتم الی الاجماع و هذا منقوص ايفا فان العباس و اولاده و عليا و زوجته و اولاده لم يحضروا حلقة البية و خالقکم اصحاب السفية فی مبايعة الخزرجی ثم خالفهم الانصار"

یعنی جہت و برہان کا چہرہ روشن ہوگیا اور خطبہ روز غدیر کے متن حدیث پر متفقہ حیثیت سے جمہور مسلمین کا اجماع ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا جس کا مولا و آقا میں ہوں علی(ع) بھی اس کے مولا و آقا ہیں، پس فورا عمر نے کہا مبارک ہو مبارک ہو تم کو اے ابو الحسن( علی) کو تم میرے مولا و آقا اور سردار اور ہر مومن و مومنہ کے مولا و آقا ہوگئے اس قسم کی مبارک باد کا کھلا ہوا مطلب فرمان رسول(ص) کا مان لینا اور حکومت و خلافت علی(ع) کو بہ رضا و رغبت قبول کرنا ہے) لیکن اس کے بعد ان پر نفس امارہ غالب آگیا، مسند ریاست خلافت کی عمارت بلند کرنے، حکومت کا سہارا باندھنے، پھڑپھڑاتے پھریروں میں، ہوا کی سنناہٹ، کی طرف پلٹ گئے، خدا و رسول(ص) کے کم کو پس پشت ڈال دیا اور دین کو دنیا کے بدلے بیچ ڈالا اور ان لوگوں نے خدا کے ساتھ کیا برا معاملہ کیا جب رسول(ص) کی موت کا وقت قریب آیا تو آں حضرت(ص) نے اپنی وفات سے قبل فرمایا کہ کاغذ و قلم دوات لائو تاکہ میں تمہاری مشکل رفع کردوں اور اپنے امر خلافت کا مستحق بتا جائوں ؟ لیکن عمر نے کہا کہ اس شخص کو چھوڑو یہ ( معاذ اللہ) ہذیان بک رہا ہے۔ پس جب قرآن و حدیث کی تاویل سے تمہارا کام نہیں چلا تو تم نے اجماع کا سہارا لیا حالانکہ اسی طرح سقیفہ والوں نے بھی خزرجی کی بیعت سے اختلاف کیا پھر انصار نے بھی مخالفت کی۔

پس حضرات یاد رکھئے کہ جو کچھ آپ کے بڑے بڑے انصاف پسند علماء کہتے ہیں وہی بات شیعہ بھی کہتے ہیں لیکن چونکہ آپ ہم لوگوں سے بدگمانی رکھتے ہیں لہذا ہماری باقاعدہ باتوں پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور اپنے علماء پر کوئی گرفت نہیں کرتے کہ انہوں نےلکھا کیوں، بلکہ تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں۔ حالانکہ انہوں نے از روئے علم و انصاف حق کو ظاہر کیا اور واقعات کی حقیقت کو صفحات تاریخ کے حوالے کرگئے۔

شیخ : کتاب سرالعالمین امام غزالی کی تصنیف نہیں ہے اور ان کی منزل اس سے بلند ہے کہ ایسی کتاب لکھیں۔ چنانچہ خاص خاص علماء بھی اس کے قائل ہیں کہ یہ کتاب ان بزرگوار عالی مقام کی نہیں ہے۔

۴۳

سرّ العالمین امام غزالی کی کتاب ہے

خیر طلب : آپ کے متعدد علماء نے تصدیق کی ہے کہ یہ کتاب امام غزالی کی لکھی ہوئی ہے۔ اس وقت جو کچھ میرے پیش نظر ہے عرض کرتا ہوں کہ یوسف سبط ابن جوزی نے جو بہت نکتہ رس تھے اور نقل مطالب میں بہت احتیاط سےقلم اٹھاتے تھے اس کے علاوہ نیت میں بھی متعصب تھے تذکرۃ خواص الامہ میں اسی موضوع پر بحوالہ سر العالمین امام غزالی کے قول سے استدلال کیا ہے اور یہی عبارتیں نقل کی ہیں جو میں نے پیش کیں اور چونکہ ان باتوں پر کوئی تنقید نہیں کی ہے لہذا ثابت ہوتا ہے کہ اول تو وہ اس چیز کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ کتاب امام غزالی ہی کی ہے، دوسرے موصوف کے ان اقوال سےبھی موافقت کرتے ہیں جو میں نے وقت کے لحاظ سے مختصر طور پر عرض کئے ہیں لیکن انہوں نے تفصیل اور زیادتی کے ساتھ نقل کئے ہیں ورنہ ان پر نقد و تبصرہ ضرور کرتے البتہ آپ کے متعصب علماء جب اس قسم کے حقائق اور کابر علماء کے بیانات سے دوچار ہوتے ہیں اور کوئی منطقی جواب دینے سے عاجز ہوتے ہیں تو یا یہ کہنے لگتے ہیں کہ یہ کتاب اس عالم کی تالیف ہی نہیں ہے یا ان کی طرف تشیع کی نسبت دینے لگتے ہیں۔ بلکہ اگر ممکن ہو تو ان صاحبان انصاف کو فاسق اور کافر کہہ کر بالکل جڑ ہی کاٹ دیتے ہیں کہ انہوں نے انصاف کی بات کیوں کہی اور حق و حقیقت کا انکشاف کیوں کیا؟ اس لیے کہ

مصلحت نیست کہ از پردہ بروں افتدرازورنہ مجلس رنداں خبرے نیست کہ نیست

ابن عقدہ کی حالت

چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ آپ کے بہت سے اکابر علماء حق گوئی اور حق نگاری کی وجہ سے اپنی زندگی ہی میں حیران و پریشان اور حقیر بے بس ہوگئے اور ان کی کتابوں کا پڑھنا متعصب علماء اور بے خبر عوام نے حرام سمجھ لیا۔ یہاں تک کہ اس خطا میں ان کو قتل کر دیا گیا۔

مثلا حافظ ابن عقدہ ابوالعباس احمد بن محمد بن سعید ہمدانی متوفی سنہ333ہجری جو آپ کے جلیل القدر علماء میں سے ہیں۔ اور آپ کے علماء رجال جیسے ذہبی اور یافعی وغیرہ نے ان کی توثیق کی ہے اور ان کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کو مع اسناد تین لاکھ حدیثیں یاد تھیں اور بہت ثقہ اور سچے تھے۔ لیکن چونکہ تیسری صدی ہجری میں کوفہ اور بغداد کے اندر عام مجمعوں میں شیخیں ( ابوبکر و عمر) کے عیوب اور برائیاں بیان کر دیتے تھے لہذا لوگ ان کو رافضی کہتے تھے اور ان کی روایتیں نقل کرنے

۴۴

سے پرہیز کرتے تھے۔ چنانچہ ابن کثیر ، ذہبی اور یافعی نے ان کے بارے میں لکھا ہے۔

"ان هذا الشيخ کان يجلس فی جامع براثا و يحدث الناس بمثالب الشيخين و لذا ترکت روايته فلا کلام لاحد فی صدقه و ثقته"

یعنی شیخ ابن عقدہ جامع براثا میں(مسجد براثا بغداد اور کاظمین کے درمیان مشہور جگہ ہے) بیٹھ کر لوگوں کے سامنے شیخین ( ابوبکر و عمر) کے معائب نقل کرتے تھے اسی وجہ سے ان کی روایتیں ترک کردی گئیں ورنہ ان کےسچے اور معتبر ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے)

اور خطیب بغداد نے بھی اپنی تاریخ میں ان کی تعریف کی ہے لیکن آخر میں کہتے ہیں کہ "انه کان خرج مثالب الشيخين "( یعنی یہ شیخین کے معائب و مثالب بیان کرتے تھے لہذا رافضی تھے) پس آپ حضرات اس خیال میں نہ رہیں کہ صرف شیعہ ہی ان حقائق کو بیان کرتے ہیں بلکہ خود آپ کے اکابر علماء جیسے امام غزالی اور ابن عقدہ وغیرہ بھی کبار صحابہ کے عیوب و نقائص نقل کرتے تھے۔

طبری کی موت

تاریخ کے ہر دور میں کثرت سے اس قسم کے علماء و دانشمندان گزرے ہیں جو حق کہنے اور حق لکھنے کے جرم میں متروک و مردود قرار دئے گئے یا قتل ہوئے جیسے تیسری صدی ہجری کے مشہور معروف مفسر و مورخ محمد بن جریر طبری جو آپ کے اکابر علماء کے اندر مایہ ناز تھے جب سنہ310 ہجری میں چھیاسی سال کی عمر میں بغداد کے اندر فوت ہوئے تو لوگوں نے دن کو ان کا جنازہ ہی نہیں اٹھنے دیا اور فساد پر آمادہ ہوئے لہذا مجبورا ان کی میت رات کے وقت انہیں کے گھر میں دفن کی گئی۔

امام نسائی کا قتل

تمام واقعات سے عجیب تر امام ابو عبدالرحمن احمد بن علی نسائی کے قتل کا واقعہ ہے جو بہت جلیل القدر اور ائمہ صحابہ ستہ میں سے تھے اور جو تیسری صدی ہجری کے اواخر میں آپ کے سرمایہ افتخار اکابر علماء میں سے تھے۔ اس واقعہ کی مختصر کیفیت کے بعد حتی کہ ہر نماز جمعہ کے خطبے میں امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام پر علانیہ سب و شتم اور لعنت کرتے ہیں، ان کو بہت صدمہ ہوا اور انہوں نے طے کر لیا کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے فضائل میں رسول خدا(ص) کی جو معتبر حدیثیں اپنے سلسلہ اسناد کے ساتھ ان کو یاد ہیں ان کو جمع کریں گے۔

چنانچہ حضرت کے مراتب عالیہ اور فضائل کاملہ کے اثبات میں کتاب خصائص العلوی لکھی اور برسر منبر اس کتاب کو

۴۵

اور اس کی حدیثوں کو پڑھ کے آپ کے فضائل و مناقب نشر کرتے تھے۔

ایک روز منبر پر یہ فضیلتیں بیان کر رہے تھے کہ جاہل اور متعصب لوگوں نے ہجوم کر کے ان کو منبر سے نیچے کھینچ لیا، سخت زد و کوب کی، ان کے انیثیں کو کوٹا اور آلہ تناسل کو پکڑ کے کھینچتے ہوئے مسجد کے باہر لے جاکر ڈال دیا۔ چنانچہ انہیں سخت ضربات اور لاتوں گھونسوں کی چوٹ سے چند روز کے بعد وفات پائی اور حسب وصیتان کی میت مکہ معظمہ لے جا کر دفن کر دی گئی۔

اسی طرح کے حرکات اس قوم کے بغض و عناد ،جہل مرکب اور احمقانہ تعصبات کے نتائج ہیں جو اپنے بزرگان ملت کو اس جرم ذلیل و رسوا اور تفس کرتے ہیں کہ انہوں نے سچی بات کیوں کہی اور حقائق کو بے نقاب کیوں کیا؟ حالانکہ اتنا نہیں سمجھتے کہ حق کو جس قدر چھپایا جائے گا اسی قدر آفتاب کی طرح چمکے گا اور باطل کے پردے چاک ہوں گے۔

خلاصہ یہ کہ میں معذرت چاہتا ہوں کہ مطلب سے دور ہوگیا ورنہ مقصد یہ ہے کہ حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کے مقام ولایت کو صرف علمائے شیعہ ہی نے تحریر نہیں کیا ہے بلکہ آپ کے بڑے بڑے علماء نے بھی نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے ستر ہزار یا ایک لاکھ بیس ہزار کے سامنے علی(ع) کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے امت کی امامت کے لیے نامزد فرمایا۔

لفظ مولیٰ میں اشکال

حافظ : اس قضیئے کے محل وقوع اور اصل حدیث میں کوئی حدیث میں کوئی شک و شبہ اور اشکال نہیں ہے لیکن اس اہمیت اور آب و تاب کے ساتھ نہیں جس طرح آپ نے بیان فرمایا۔

اس کے علاوہ متن حدیث بعض ایسے اشکال موجود ہیں جو آپ کے نقطہ نظر اور مقصد سے مطابقت نہیں کرتے۔ من جملہ ان کے لفظ مولا کے اندر بھی یہی بات ہے جس کے لیے اپنی تقریر کےسلسلے میں آپ نے ثابت کرنا چاہا ہے کہ مولی اولی بتصرف کے معنی میں ہے حالانکہ یہ طے ہوچکا ہے کہ اس حدیث میں مولی کے معنی محب و ناصر اور دوست کے ہیں، کیونکہ پیغمبر جانتے تھے کہ علی کرم اللہ وجہہ کے دشمن بہت میں لہذا آپ نے چاہا کہ وصیت کر کے امت کو بتادیں کہ جس کا محب و دوست اور ناصر میں ہوں، علی(ع) بھی اس کے محب و دوست اور ناصر ہیں اور اگر لوگوں سے کوئی بیعت لی ہے تو محض اس لیے کہ آں حضرت(ص) کے بعد علی کرم اللہ وجہہ کو اذیت نہ پہنچائیں۔

خیر طلب : میرا خیال ہے کہ کبھی کبھی آپ زبردستی اور خواہ مخواہ اپنے اسلاف و عادات کی پیروی کرنے لگتے ہیں، ورنہ اگر تھوڑا سا غور کریں، اپنے علم و اںصاف سے کام لیں اور قرائن پر توجہ کریں تو حق و حقیقت پوری طرح ظاہر و آشکار ہوجائے۔

حافظ : کون سے قرائن کے ساتھ آپ ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ مہربانی کر کے بیان فرمائیے۔

۴۶

اولی بہ تصرف کے معنی اور آیہ بلغ

خیر طلب : سب سے پہلا قرینہ قرآن مجید اور آیہ نمبر17 سورہ نمبر5( مائدہ) ہے:

"ياأَيُّهَاالرَّسُولُ بَلِّغْ‏ ماأُنْزِلَ‏إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمابَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ"

یعنی اے رسول(ص) جو کچھ تم پر خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے اس کو امت تک پہنچا دو! کیونکہ ایسا نہ کروگے تو گویا تم نے تبلیغ رسالت کا فرض ہی انجام نہیں دیا۔ اور اللہ تم کو لوگوں کے شر سے محفوط رکھے گا۔

حافظ : یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ یہ آیت اس روز اور اس مقصد کے لیے نازل ہوئی؟

خیر طلب : آپ کے فحول علماء جیسے جلال الدین سیوطی نے در منثور جلد دوم ص298 میں، حافظ ابن ابی حاتم رازی نے تفسیر غدیر میں، حافظ ابو جعفر طبری نے کتاب الولایہ میں، حافظ ابو عبداللہ محاملی نے امالی میں، حافظ ابوبکر شیرازی نے مانزل من القرآن فی امیرالمومنین میں، حافظ ابوسعید سجستانی نے کتاب الولایہ میں، حافظ ابن مردویہ نے آیت کی تفسیر میں، حافظ ابوقاسم حسکانی نے شواہد التنزیل میں، ابو الفتح نطتری نے خصائص العلوی میں، معین الدین میبدینے شرح دیوان میں، قاضی شوکانی نے فتح القدیر جلد سوم ص57 میں، سید جمال الدین شیرازی نے اربعین میں، بدالدین حنفی نے عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری جلد ہشتم ص584 میں، امام اصحاب حدیث احمد ثعلبی نے تفسیر کشف البیان میں، امام فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر جلد سیم ص636 میں،حافظ ابو نعیم اصفہانی نے ما نزل من القرآن فی علی میں، ابراہیم بن محمد حموینی نے فرائد السمطین میں، نظام الدین نیشاوپوری نے اپنی تفسیر جلد ششم ص170 میں، سید شہاب الدین آلوسی بغدادی نے روح المعانی جلد دوم ص348 میں، نور الدین بن صباغ مالکی نے فصول المہمہ ص37 میں، علی بن احمد واحدی نے اسباب النزول ص150 میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول ص16 میں، میر سید علی ہمدانی شافعی نے مودۃ القربی مودت پنجم میں اور شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب39 میں، خلاصہ یہ کہ جہاں تک میں نے دیکھا ہے خود آپ کے تقریبا تیس علماء اعلام نے اپنی معتبر ترین کتب و تفاسیر میں لکھا ہے کہ یہ آیہ شریفہ روز غدیر خم امیر المومنین علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی یہاں تک کہ قاضی روز بہان بھی باوجود اپنے انتہائی عناد و ضد اور تعصب کے لکھتے ہیں کہ "فقد ثبت هذا فی الصحاح " یعنی بتحققی کی یہ قضیہ ہماری صحاح معتبر میں ثابت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ(ص) نے علی(ع) کا بازو تھام کر فرمایا:"منكنتمولاهفعليّمولاه " اور تعجب یہ ہے کہ انہیں متعصب قاضی صاحب نے کشف الغمہ میں رزین بن عبداللہ سے ایک عجیب روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا ہم لوگ رسول خدا(ص) کے زمانہ میں اس آیت کو یوں پڑھتے تھے:

"ياأَيُّهَاالرَّسُولُ بَلِّغْ‏ ماأُنْزِلَ‏ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ انَّ عَلياََ مُولَی المُومِنِينَ فانَ لَمْ تَفْعَلْ فَمابَلَّغْتَ رِسالَتَهُ "

یعنی اے پیغمبر(ص) جو کچھ خدا کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے یعنی یہ کہ علی علیہ السلام مومنین کے امور میں اولی بتصرف ہیں اس کو

۴۷

لوگوں تک پہنچا دو۔ پس اگر تم نے ایسا نہ کیا تو گویا تبلیغ رسالت کا فریضہ ہی پورا نہیں کیا۔

نیز سیوطی نے درالمنثور میں ابن مردویہ سے، ابن عساکر اور ابن ابی حاتم نے ابوسعید خدری اور عبداللہ ابن مسعود (کاتب وحی) سے اور قاضی شوکانی نے تفسیر فتح القدیر میں نقل کیا ہے کہ زمانہ رسول(ص) میںہم بھی اس آیت کو اسی طرح پڑھتے تھے۔

غرضیکہ آیہ مبارکہ میں اس تاکید بلکہ تہدید سے کہ اگر اس امر کی تبلیغ نہ کرو گے تو گویا رسالت کا کوئی کام ہی انجام نہیں دیا صاف صاف پتہ چلتا ہے کہ آں حضرت جس اہم اور عظیم امر کی تبلیغ پر مامور ہوئے تھے وہ مقام رسالت ہی کے قدم بہ قدم تھا اور قطعا وہ امامت و وصایت اور اولی بتصرف ہونے کا معاملہ تھا جو رسول خدا(ص) کے بعد دین و احکام الہی کا محافظ اور نگہبان ہے۔

غدیر خم میں

آیہ اکملت لکم دینکم

دوسرا قرینہ آیت نمبر5 سورہ نمبر5(مائدہ) کا نزول ہے جس میںتکمیل دین کے لیے ارشاد ہے :

"الْيَوْمَ‏ أَكْمَلْتُ‏ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً"

یعنی آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا، تم اپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو ایک پاکیزہ دین قرار دیا۔

حافظ: مسلم تو یہ ہے کہ آیت روز عرفہ نازل ہوئی ہے اور کسی عالم نے اس کا نزول روز غدیر میں نہیں بتایا ہے۔

خیر طلب : میری درخواست ہے کہتقریر کے وقت انکار میں جلدی نہ فرمایا کیجئے کیونکہ شاید اثبات کا کوئی راستہ موجود ہی ہو۔ بلکہ مطالب کے بیان میں احتیاط کو مد نظر رکھا کیجئے تاکہ جواب ملنے پر ندامت کی زحمت نہ ہو۔

میں مانتا ہوں کہ آپ بعض علماء نے کہا ہے کہ یہ آیت عرفہ میں نازل ہوئی لیکن آپ ہی کے اکابر علماء کی ایک بڑی جماعت نے روز غدیر میں اس کا نازل ہونا نقل کیا ہے۔ نیز کے چند علماء کا قول ہے کہ غالبا یہ آیت دو مرتبہ نازل ہوئی، ایک مرتبہ غروب عرفہ کے وقت اور ایک مرتبہ غدیر میں۔ چنانچہ سبط ابن جوزی، تذکرہ خواص الامہ آخر ص18 میں کہتے ہیں کہ:

"احتمل ان الآية نزلت مرتين مرة بعرفة و مرة يوم الغدير کما نزلت بسم الله الرحمن الرحيم مرتين مرة بمکة و مرة بالمدينة"

یعنی احتمال ہے کہ یہ آیت دو مرتبہ نازل ہوئی ایک مرتبہ عرفہ میں، اور ایک مرتبہ روز غدیر، جیسے بسم اللہ الرحمن الرحیم دو مرتبہ نازل ہوئی ایک مرتبہ مکہ میں اور ایک مرتبہ مدینہ میں۔

ورنہ آپ کے موثق اکابر علماء جیسے جلال الدین سیوطی نے در المنثور جلد دوم ص256 اور اتقان جلد اول ص31 میں، العلوی میںامام المفسرین ثعلبی نے کشف البیان میں ، حافظ ابو نعیم اصفہانی نے ما نزل من القرآن فی علی میں ، ابوالفتح نطززی نے خصائص العلوی میں ابن کثیر شامی نے اپنی تفسیر جلد دوم ص14 میں، حافظ ابن مردویہ کے طریق سے، تیسری صدی ہجری کے مفسر اور مورخ عالم

۴۸

محمد بن جریر طبری نے تفسیر کتاب الولایہ میں، حافظ ابوالقاسم حسکانی نے شواہد التنزیل میں، سبط ابن جوزی نے تذکرۃ خواص الامۃ ص18 میں، ابو اسحاق حموینی نے فرائد السمطین باب دوازدہم میں، ابوسعید سجستانی نے کتاب الولایہ میں، خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد جلد ہشتم ص290 میں، ابن مغازلی فقییہ شافعی نے مناقب میں، ابوالموئد موفق بن احمد خورزمی نے مناقب فصل چہاردہم اور مقتل الحسین فصل چہارم میں نیز آپ کے دوسرے علماء نے لکھا ہے کہ غدیر خم کے روز جب رسول اللہ(ص) بحکم الہی علی علیہ السلام کو لوگوں کے سامنے نمایاں کر کے منصب ولایت پر معین فرمایا۔

علی(ع) کے بارے میں جس امر پر مامور تھے اس کی تبلیغ فرمائی اور آپ کو اپنے ہاتھوں پر اس قدر بلند فرمایا کہ دونوں بغلوں کی سفیدی نمودار ہوگئی تو اس وقت امت سے ارشاد فرمایا کہسلموا علی علیّ بامرة المومنین " یعنی امارت مومنین کے ساتھ علی(ع) پر سلام کرو اور ساری امت نے اس کی تعمیل کی۔ ابھی ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوئے تھے کہ مذکورہ آیہ شریفہ نازل ہوئی۔

خاتم الانبیاء اس آیت کے نازل ہونے سے بہت خوش ہوئے لہذا حاضرین کی طرف متوجہ ہو کر :

" الله اکبر علی اکمال الدين و اتمام النعمة و رضا الرب برسالتی والولايه لعلی ابن ابی طالب بعدی "

یعنی اللہ بزرگ ہے جس نے دین کا کامل اور نعمت کو تمام کیا اور میری رسالت اورمیرے بعد علی(ع) کی ولایت پر راضی ہوا۔

امام حسکانی اور امام احمد ابن حنبل نے تو اس قضیے کو پوری تفصیل سے نقل کیا ہے اگر آپ حضرات تھوڑی دیر کے لیے اپنی عادت سے الگ ہو کر چشم انصاف اور حقیقت بین نگاہوں سے دیکھیں تو آیات کریمہ کے نزول اور حدیث شریف سے آپ پر بخوبی واضح ہوجائے گا کہ لفظ مولی، امامت و ولایت اور اولی بہ تصرف کے معنی میں ہے۔

اگر مولی اور ولی اولی بہ تصرف کے معنی میں نہ ہوتا تو بعدی کا فقرہ بے معنی ہو جاتا۔ یہ جملہ جو بار بار رسول خدا(ص) کی زبان مبارک پر جاری ہوا ہے ثابت کرتا ہے کہ مولی اور ولی اولی بہ تصرف کے معنی میں ہے کیونکہ فرماتے ہیں میرے بعد یہ منصب علی علیہ السلام کے لیے مخصوص ہے۔

تیسرے ذرا گہری نظر سے جائزہ لیجئے اور اںصاف کیجئے کہ اس گرم ہوا اور بے گیاہ میدان میں جہاں پہلے سے مسافروں کی کوئی منزل نہیں تھی پیغمبر تمام امت کو جمع کریں۔ آگے جانے والوں کو پلٹانے کا حکم دیں، اس دیکتی ہوئی دھوپ میں جب لوگ اپنے پائوں کو دامنوں سے لپیٹے ہوئے اونٹوں کے سائے میں بیٹھے تھے منبر پر تشریف لے جائیں اور فضائل و مقامات امیرالمومنین کے اثبات میں وہ طولانی خطبہ ارشاد فرمائیں جس کو خوارزمی و ابن مردویہ نے مناقب میں طبری نے کتاب الولایتہ میں نیز دوسروں نے نقل کیا ہے، تین روز تک لوگوں کا وقت لے کر اسی گرم وخشک صحرا میں ٹھہرائے رکھیں اور حکم دیں کہ تمام اعلی اونی اشخاص کر فردا فردا علی علیہ السلام کی بیعت کرنا چاہیئے اور نتیجہ صرف اتنا ہی ہو کہ علی (ع) کو دوست رکھو یا یہ کہ علی(ع) تمہارے دوست اور ناصر ہیں؟ ایسی صورت میں کہ افراد امت میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جو علی(ع) کے ساتھ آنحضرت(ص) کے انتہائی ربط کو نہ جانتا

۴۹

ہو اور بار بار آپ کی وصیت اور سفارش کو نہ سن چکا ہو( جیسا کہ ان میں سے بعض کی طرف میں پہلے اشارہ کرچکا ہوں) دوبارہ خاص طور پر ایسے سخت گرم مقام پر نزول آیات اور اس قدر شدید تاکید کی کیا ضرورت تھی کہ اگر زحمت اور تعطل میں پڑ جائیں اور نتیجہ فقط یہ ہو کہ علی کودوست رکھو؟ بلکہ اگر آپ اچھی طرح سے غور کریں تو یہ عمل جب کہ اس کا کوئی اہم مقصد اور خاص پہلو نہ ہو۔ صاحبان عقل کی نظر میں لغو ٹھہرے گا۔ اور رسول اکرم(ص) سے کوئی لغو کام ہرگز صادر نہیں ہوتا۔

پس عند العقلاء ثابت ہے کہ یہ سارا ارضی و سماوی اہتمام و انتظام محض محبت و دوستی کے لیے نہ تھا بلکہ منصب رسالت کے قدم بہ قدم کوئی اہم کام تھا اور وہ وہی امر ولایت و امامت تھا اور مسلمانوں کے امور اولی بہ تصرف ہونا تھا۔

مولی کے معنی میں سبط ابن جوزی کا عقیدہ

چنانچہ آپ کے اکابر علماء کے ایک گروہ نے از روئے غور و اںصاف اس بات کی تصدیق کی ہے۔ من جملہ ان کے سبط ابن جوزی تذکرۃ خواص الامہ باب دوم میں کلمہ مولیٰ کے دس مطلب ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ ان معانی میں سے کوئی بھی رسول اللہ(ص) کے کلام سے مطابقت نہیں کرتا :

"و المراد من‏ الحديث‏، الطاعة المحضة المخصوصة، فتعيّن الوجه العاشر و هوالأولى، و معناه: من كنت أولى به من نفسه، فعليّ أولى به."

یعنی حدیث سے خالص اور مخصوص اطاعت مراد ہے پس دسواں مطلب صحیح ٹھہرتا ہے اور وہ اولی بہ تصرف ہونا ہے لہذا معنی یہ ہوئے کہ جس شخص کے لیے میں اس کے نفس سے زیادہ اولی بہ تصرف ہوں علی(ع) بھی اس کے لیے اولی بہ تصرف ہیں۔

اور کتاب مرج البحرین میں حافظ ابوالفرج یحیی بن سعید ثقفی اصفہانی کا قول بھی اس معنی کی صراحت کرتا ہے جنہوں نے اس حدیث کی اپنے اسناد کے ساتھ اپنے مشایخ سے روایت کی ہے اور کہا ہے کہ پیغمبر(ص) نے علی(ع) کا ہاتھ پکڑ کے فرمایا "من كنت وليه وأولى به من نفسه فعلي‏ وليه‏." یعنی جس کا میں ولی اور اس کے نفس سے اولی بہ تصرف ہوں۔ پس علی(ع) بھی اس کے ولی یعنی اولیٰ بہ تصرف ہیں۔

پھر سبط ابن جوزی کہتے ہیں:

"ودل‏ عليه‏ أيضاقوله‏عليهالسلام«الست أولى بالمؤمنين منأنفسهم»وهذانص صريح في إثباتامامته وقبول طاعته"

یعنی آں حضرت (ص) کا قول الست اولی بالمومنین من انفسہم بھی اس پر دلالت کرتا ہے اور یہ علی علیہ السلام کی امامت اور ان کی اطاعت قبول کرنے کے اثبات میں ایک کھلی ہوئی نص ہے۔ انتہی کلامہ۔

۵۰

مولیٰ کے معنی میں

ابن طلحہ شافعی کا نظریّہ

نیز محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول باب اول اواسط پنجم ص16 میں کہتے ہیں کہ لفظ مولی کے متعدد معنی ہیں مثلا اولیٰ بہ تصرف، ناصر، وارث، صدیق اور سید، اس کے بعد کہتے ہیں کہ یہ حدیث اسرار آیہ مباہلہ میں سے ہے اس لیے کہ خدائے تعالی نے علی علیہ السلام بمنزلہ نفس پیغمبر(ص) فرمایا ہے اور نفس علی(ع) کے درمیان کوئی جدائی نہیں تھی کیونکہ ان دونوں کو رسول اللہ(ص) کی طرف ضمیر مضاف کے ذریعے باہم جمع فرمایا ہے۔

"أثبت‏ رسول‏ اللّه‏ لنفس‏ علي‏ بهذاالحديث ماهوثابت لنفسه على المؤمنين عموما،فإنه أولى بالمؤمنين،وفاءالمؤمنين،وسيدالمؤمنين،وكل معنى أمكن إثباتهم مايدل عليه لفظ المولى لرسول اللّه فقدجعله لعلي (ع)،وهي مرتبةسامية،ومنزلةسامقة،ودرجةعلية،ومكانةرفيعة،خصصه بهادونغيره،فلهذاصارذلكاليوميومعيده وموسمسرورلأوليائه."

یعنی رسول اللہ(ص) اس حدیث کے ذریعے نفس علی(ع) کے لیے بالعموم ہر وہ چیز ثابت فرمادی جو مومنین پر ان کے نفس کے لیے ثابت ہے، پس آں حضرت یقینا مومنین کے امور میں اولی بہ تصرف ، مومنین کے مددگار اور مومنین کے سید و آقا ہیں اور ہر وہ معنی جس پر رسول خدا(ص) کے لیے لفظ مولا دلالت کرتا ہے اور اس کا اثبات ممکن ہے علی(ع) کے لیے بھی قرار دیا، اور یہ ایک مرتبہ عالیہ، منزلت بزرگ ، درجہ بلند اور مقام رفیع ہے۔ جس سے بلاشرکت غیرے صرف آپ کو مخصوص فرمایا چنانچہ اسی وجہ سے روز غدیر آپ کے دوستوں کے لیے عید اور موسم سرور بن گیا۔

حافظ : آپ کے ارشاد کے پیش نظر لفظ مولی چونکہ متعدد معانی میں استعمال ہوا ہے لہذا اس کو تمام معانی کے درمیان سے بغیر کسی مختص کے صرف اولی بہ تصرف کے معنی سے مخصوص کردینا باطل ہوگا۔

خیر طلب : آپ محققین علم اصول کے اس قول سے تو یقینا بخوبی واقف ہیں کہ حیثیت سے جس لفظ کے متعدد معانی آئے ہیں ان میں سے ایک حقیقی ہے اور باقی مجازی، اور یہبدیہی چیز ہے کہ ہر جگہ حقیقت مجاز پر مقدم ہوتی ہے۔ پس اس اصول کی بنا پر لفظ مولی و ولی ہیں حقیقی معنی مولی بہ تصرف کے ہوتے ہیں۔ جیسے ولی نکاح یعنی امر نکاح کا متولی، عورت کا دل اس کا شوہر اور بچے کا ولی اس کا باپ یعنی اس پر اولی بہ تصرف اور بادشاہ کا ولی عہد یعنی بادشاہ کے بعد اس کے امور سلطنت میں متصرف اسی قبیل سے دوسرے تمام معنی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ اعتراض تو خود آپ ہی پر وارد ہوتا ہے کہ لفظ ولی و مولی کو جس کے متعدد معنی ہیں صرف محب و ناصر کے معنی سے مخصوص کرتے ہیں لہذا یہ تخصیص بلا مخصص قطعا باطل ہے۔ اور یہ ایراد زیادہ تر آپ ہی پر وارد ہے نہ کہ ہم پر اس لیے کہ ہم نے اگر تخصیص کی ہے تو بلا مخصص نہیں ہےبلکہ آیات و اخبار اور بزرگان قوم

۵۱

کے اقوال کے ان کثیر قرائن و دلائل کے روسے ہے جو اس مفہوم پر قائم ہیں۔

من جملہ ان کے وہ دلیلیں بھی ہیں جو آپ کے بڑے بڑے علماء جیسے سبط ابن جوزی اور محمد بن ابی طلحہ شافعی نے بیان کی ہیں۔ اور سب سے بڑی دلیل وہ ظاہیر و باطنی قرینے ہیں جو اس کے معنی کی تخصیص کرتے ہیں۔ اور جن میں سے بعض کی طرف میں اشارہ بھی کرچکا ہوں کہ ہمارے اور آپ کے طرق سے بکثرت احادیث میں سے ایک یہ ہے کہ اس آیہ مبارکہ کو اس طرح نقل کیا ہے:

"ياأَيُّهَاالرَّسُولُ بَلِّغْ‏ ماأُنْزِلَ‏ إِلَيْكَ فی و لاية علی و امامةاميرالمومنين"

چنانچہ جلال الدین سیوطی نے جو آپ کے اکابر علماء میں سے ہیں در المنثور میں ان حدیثوں کو جمع کیا ہے۔

رحبہ میں حدیث غدیر سے علی(ع) کا احتجاج

الرحبہ حدیث اور لفظ مولی امامت اور خلافت اولی پر نص نہ ہوتی تو حضرت امیرالمومنین علیہ السلام اس سے بار بار احتجاج نہ فرماتے اور بالخصوص شوری کے جلسوں میں اس سے استدلال نہ کرتے۔ جیسا کہ خطیب خوارزمی نے مناقب میں، ابراہیم بن محمد حموینی نے فرائد باب58 میں، حافظ ابن عقدہ نے کتاب الولایہ میں، ابن حاتم دمشقی نے وراء النظم میں اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص61 میں تفصیل سے نقل کیا ہے اور خالص طور پر یہ کہ رحبہ میں تیس عدد اصحاب نے اس کی گواہی دی۔

چنانچہ امام احمد بن حنبل نے مسند جز اول ص119 وجزء چہارم ص370 میں، ابن اثیر جزری نے اسد الغابہ جلد سوم ص307 و جلد پنجم ص205، ص276 میں، ابن قتیبہ نے معارف ص194 میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد اول ص362 میں، حافظ ابونعیم اصفہانی نے حلیتہ الاولیاء جلد پنجم ص26 میں، ابن حجر عسقلانی نے اصابہ جلد دوم ص408 میں، محب الدین طبری نے ذخائر العقبی ص67 میں، امام ابو عبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی ص26 میں، علامہ سمہودی نے جواہر العقدین میں، شمس الدین جزری نے اسنی المطالب ص3 میں، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب4 میں، حافظ ابن عقدہ نے کتاب الولایہ میں اور آپ کے دوسرے اکابر علماء نے رحبہ کوفہ (یعنی مسجد کوفہ کے صحن) میں مسلمانوں سے علی علیہ السلام کا احتجاج نقل کیا ہے کہ حضرت نے لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر فرمایا میں تم کو قسم دیتا ہوں کہ جس شخص نے غدیر خم میں اپنے کانوں سے میرے بارے میں رسول اللہ(ص) سے کچھ سنا ہو وہ اٹھ کر گواہی دے! اصحاب میں سے تیس نفر اٹھے جن میں بارہ عدد بدری صحابی تھے اور کہا کہ ہم نے غدیر خم کے روز دیکھا کہ رسول اللہ(ص) نے علی(ع) کا ہاتھ پکڑ کے لوگوں سے فرمایا:

"اتعلمون‏ اني‏ أَوْلى‏ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ‏؟قالوا: نعم،قال من كنت مولاه فهذامولاه- الخ"

یعنی آیا تم جانتے ہو کہ میں مومنین کے جانوں سے زیادہ ان پر حق رکھتا ہوں؟ لوگوں نے عرض کیا ہاں ، تو فرمایا جس شخص کا میں مولا ہوں پس یہ علی(ع) بھی اس کے مولا ہیں۔

اس مجمعمیں سے تین افراد نے شہادت نہیں دی جن میں ایک انس بن مالک بھی تھے جنہوں نے کہا مجھ پر بڑھاپا غالب

۵۲

آگیا ہے اس وجہ سے بھول گیا ہوں۔ حضرت نے ان لوگوں پر نفرین اور بد دعا فرمائی اور خصوصیت سے انس کے لیے فرمایا کہ اگر تم جھوٹ بول رہے ہو تو خدا تم کو جذام اور برص میں مبتلا کرے جس کو عمامہ چھپا نہ سکے! پس انس ابھی اپنی جگہ سے اٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ ان کے جسم میں کوڑھ اور سفید داغ پیدا ہوگئے( بعض روایتوں میں ہے کہ اندھے اور کوڑھی ہوگئے)

بدیہی چیز ہے کہ اس حدیث کو حجت قرار دینا اور اس سے استشہاد کرنا اس کی مکمل دلیل ہے کہ آپ نے سب سے بڑھے حق یعنی امارت و خلافت مںصوصہ کو ثابت فرمایا۔

( اس موقع پر مئوذن کی آواز بلند ہوئی اور مولوی صاحبان نماز عشاء پڑھنے کے لیے اٹھ گئے ۔ ادائے فریضہ تھوڑی استراحت اور چائے نوشی کے بعد پھر گفتگو شروع ہوئی۔)

چوتھا قرینہ

الست اولی بکم من انفسکم

خیر طلب : چوتھے حدیث کا قرینہ کلام خود اس مقصد کو ثابت کررہا ہے کہ مولی سے مراد اولی بہ تصرف ہے کیونکہ خطبہ غدیر اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ(ص) نے اظہار مطلب سے قبل فرمایا "الست اولی بکم من انفسکم " یعنی آیا میں تمہارے نفوس سے زیادہ تم پر اولی بہ تصرف نہیں ہوں؟( اشارہ سورہ نمبر33 ( احزاب) کے آیہ نمبر6 کی طرف جس میں ارشاد ہے "النبی أنّي أولى بالمؤمنين من أنفسهم" ( یعنی پیغمبر(ص) مومنین کی جانوں سے زیادہ ان کے لیے اولی بہ تصرف اور حقدار ہیں)

اور کتب فریقین میں یہ حدیث صحیح بھی وارد ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا " ما من مومن الا انا اولی به فی الدنيا والآخرة " یعنی کوئی مومن ایسا نہیں ہے جس پر میں دنیا و آخرت میں اولی بہ تصرف ہوں۔

سب نے کہا ہاں، آپ ہمارے نفوس سے زیادہ ہم پر اولی بہ تصرف ہیں، تب آں حضرت(ص) نے فرمایا"من كنت مولاه فهذا عليّ مولاه" پس سباق کلام بتاتا ہے کہ مولی سے وہی اولیت مراد ہے جو رسول خدا(ص) کو امت پر حاصل تھی۔

حافظ : بہت سی کتابوں میں اس قرینے کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ فرمایا ہو" الست اولی بکم من انفسکم "

خیر طلب : حدیث غدیر کے سلسلہ میں عبارات و الفاظ اور نقل کرنے والوں کے اقوال مختلف ہیں۔ اخبار امامیہ میں تو عمومیت ہے اور جمہور علماء شیعہ نے اپنی معتبر کتابوں میں اسی قرینے کے ساتھ نقل کیا ہے۔ لیکن آپ کی معتبر کتابوں میں بھی کثرت سے موجود ہے۔ چنانچہ اس وقت جہاں تک میرے پیش نظر ہے، سبط ابن جوزی نے تذکرۃ خواص الامہ ص18 میں، امام احمد ابن حنبل نے مسند میں، نور الدین بن صباغ مالکی نے امام احمد وزہری اور حافظ ابوبکر بیہقی سے نقل کرتے ہوئے فصول المہمہ میں، ابوالفتوح اسعد بن ابی الفضائل بن خلف العجلی نے اپنی کتاب الموجز فی الفضائل الخلفاء الاربعہ میں، خطیب خوارزمی نے مناقب فصل چہاردہم

۵۳

محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب اول میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب4 میں، مسند احمد حنبل مشکوۃ ال؟؟؟؟ سنن ابن ماجہ، حلیتہ الاولیاء حافظ ابو نعیم اصفہانی، مناقب ابن مغازلی شافعی اور کتاب الموالات ابن عقدہ کے حوالوں سے اور آپ کے دوسرے اکابر علماء نے الفاظ اور انداز بیان کے معمولی فرق کے ساتھ حدیث غدیر کو نقل کیا ہے اور ہر ایک کے یہاں جملہ "الست اولی بکم من انفسکم " موجود ہے۔ تیمنا و تبرکا میں اس حدیث کا ترجمہ عرض کرتا ہوں جو اصحاب حدیث کے امام احمد بن حنبل نے مسند جلد چہارم ص481 میں، براء بن عازب کی سند سے نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا میں ایک سفر میں رسول خدا(ص) کے ساتھ تھا، یہاں تک کہ ہم لوگ غدیر میں پہنچے۔ آں حضرت(ص) نے منادی کرائی " الصلوۃ جامعۃ " ( عادت اور رسم یہی تھی کہ جب کوئی اہم مسئلہ در پیش ہوتا تھا تو آں حضرت(ص) حکم دیتے تھے کہ " الصلوۃ جامعۃ " کی ندا دی جائے جب امت جمع ہوجاتی تھی تو ادائے نماز کے بعد اس امر خاص کی تبلیغ فرماتے تھے) اس کے بعد دو درختوں کے درمیان پیغمبر(ص) کی قیام گاہ بنائی گئی اور ادائے نماز کے بعد آں حضرت(ص) نے حضرت علی(ع) کا ہاتھ پکڑ کر مجمع کے سامنے ارشاد فرمایا :

"ألستم تعلمون أنّي أولى بالمؤمنين من أنفسهم قالوا: بلى.قال: ألستم‏ تعلمون‏ أنّي‏ أولى‏ بكلّ مؤمن من نفسه؟!قالوا: بلى.قال: من كنت مولاه فعليّ مولاه، اللّهمّ وال من والاه، و عاد من عاداه. فلقيه عمر بن الخطاب بعد ذلك، فقال له: هنيئا يا بن أبي طالب! أصبحت و أمسيت مولى كلّ مؤمن و مؤمنة"

یعنی آیا تم لوگ نہیں جانتے ہو کہ میں مومنین کے نفسوں سے زیادہ ان پر تصرف کا حق رکھتا ہوں؟ لوگوں نے کہا ہاں ہم واقف ہیں۔ پھر فرمایا آیا تم لوگ نہیں جانتے ہو کہ میں ہر مومن پر اس کی جان سے بڑھ کے اولی بتصرف ہوں؟ پھر دعا فرمائی کہ خداوند دوست رکھ اس کو جو علی(ع) کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اس کو جو علی(ع) کو دشمن رکھے۔ اس کے بعد فورا عمر ابن خطاب نے علی علیہ السلام سے ملاقات کی اور کہا مبارک ہو تم کو اے ابوطالب کے فرزند کہ تم ہر مومن ومومنہ کے مولا ہوگئے۔

نیز میر سید علی ہمدانی شافعی نے مودۃ القربی مودت پنجم میں ، سلیمان بلخی حنفی نے یبابیع میں اور حافظ ابو نعیم نے حلیہ میں مختصر لفظی تفاوت کے ساتھ اسی حدیث کو درج کیا ہے۔

بالخصوص حافظ ابو الفتح نے جن سے ابن صباغ نے بھی فصول المہمہ میں نقل کیا ہے اس عبارت کے ساتھ لکھا ہے، کہ خاتم الانبیاء(ص) نے فرمایا :

"ايهاالناس ان الله تبارک و تعالی مولای و انا اولی بکم من انفسکم الا ومن کنت مولاه فعلی مولاه"

یعنی اے لوگو خدائے تبارک و تعالی میرا مولا ہے اور میں تمہارے نفوس سے زیادہ تم پر اولی بہ تصرف ہوں۔ آگاہ ہو کہ جس کے لیے میں اولی بہ تصرف ہوں پس علی(ع) بھی اس کے لیے اسی طرح اولویت رکھتے ہیں۔

ابن ماجہ قزوینی نے سنن میں اور امام ابو عبدالرحمن نسائی نے احادیث ص81،83، و ص92، 94، میں بھی اسی قرینے کو نقل کیا ہے اور حدیث نمبر84 میں

۵۴

زید بن ارقم سے اس عبارت کے ساتھ روایت کی ہے کہ رسول اللہ(ص) نے خطبے کے ضمن میں فرمایا :

"ألستم‏ تعلمون‏ أنّي‏ أولى‏ بكلّ مؤمن من نفسه؟!قالوا: بلى. نشهد لانت اولی بکل مومن من نفسه قال: فانی من كنت مولاه فعليّ مولاه و اخذ بيد علی عليه السلام"

یعنی آیاتم نہیں جانتے ہو کہ میں ہر مومن و مومنہ پر اس کے نفس سے زیادہ تصرف کا حق رکھتا ہوں؟ سب نے کہا ہاں ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ ہر مومن کے نفس سے زیادہ اس پر اولی بہ تصرف ہیں اس وقت فرمایا کہ جس پر میں اولی بہ تصرف ہوں یہ بھی اس پر اولی بہ تصرف ہیں۔ اور علی(ع) کا ہاتھ پکڑ لیا اس کے علاوہ ابوبکر احمد بن علی خطیب بغدادی متوفی سنہ463 ہجری نے تاریخ بغداد جلد ہشتم ص290 میں ابوہریرہ سے ایک مفصل حدیث نقل کی ہے کہ جو شخص اٹھارہویں ذی حجہ ( روز غدیر) کو روزہ رکھے تو اس کو ساٹھ مہینوں کے روزوں کا ثواب حاصل ہوگا۔ پھر مذکورہ حدیث غدیر کو اسی قرینے کے ساتھ نقل کیا ہے۔

میرے خیال میں نمونے کے لیے اسی قدر روایتوں کا نقل کردینا کافی ہوگا تاکہ آپ دوبارہ یہ نہ فرمائیں کہ اخبار و احادیث میں قرینہ "الست اولی بکم من انفسکم " کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔

رسول اللہ(ص) کے سامنے حسان کے اشعار

پانچوان قرینہ حسان بن ثابت اںصاری کے وہ اشعار ہیں جو انہوں نے رسول اللہ(ص) کے سامنے خود آنحضرت(ص) کی اجازت سے اسی جلسے میں پڑھے جس میں علی(ع) کے منصب ولایت کا اعلان فرمایا گیا تھا۔ سبط ابن جوزی وغیرہ لکھتے ہیں کہ آں حضرت(ص) نے جس وقت یہ اشعار سنے تو فرمایا :

"ياحسان‏ لاتزال‏ مؤيدابروح القدس مانصرتناأونافحت عنابلسانك."

یعنی اے حسان جب تک تم ہماری نصرت یا اپنی زبان سے ہماری تعریف و توصیف کرتے رہے ہوگے روح القدس برابر تمہاری تائید کرتا رہے گا۔ یعنی تمہارے یہ اشعاد روح القدس کی تائید میں سے ہیں٫

چنانچہ چوتھی صدی ہجری کے مشہور مفسر و محدث حافظ ابن مردویہ احمد بن موسی متوفی سنہ352 ہجری مناقب میں، صدر الائمہ موفق بن احمد خوارزمی مناقب اور مقتل الحسین فصل چہارم میں، جلال الددن سیوطی رسالہ الازہار فیما عقدہ الشعراء میں، حافظ ابوسعید خرگوشی شرف المصطفی میں، حافظ ابوالفتح نطتری خصائص العلویہ میں، حافظ جمال الدین زرندی نظم دار السمطین میں، حافظ ابونعیم اصفہانی مانزل من القرآن فی علی میں، ابراہیم بن محمد حمیونی فرائد السمطین باب 12 میں، حافظ ابوسعید سجستانی کتاب الولایہ میں، یوسف ابن جوزی ت تذکرۃ خواص الامہ ص20 میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب باب اول میں، اور آپ کے دوسرے علماء و محدثین و مورخین ابو سعید خدزی سے نقل کرتے ہیں کہ روز غدیر خم خطبہ رسول(ص) اور نصب امیرالمومنین نیز گر تشریحات کے بعد جن کا مختصر ذکر ہوچکا ہے حسان بن ثابت نے عرض کیا:

"أَتَأْذَنُ لِي أَنْ‏ أَقُولَ‏ أَبْيَاتاً فَقَالَ صلی الله عليه ،سلم

۵۵

قُلْ بىبَرَكَةِاللَّهِ"

یعنی کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ میں اس بارے میں کچھ اشعار کہوں؟آنحضرت(ص) نے فرمایا کہو یہ برکتِ خداوندی یعنی لطف و عنایت پروردگار۔ پس وہ ایک بلند قدم پر کھڑے ہوئے اور فی البدیہ یہ اشعار شروع کئے۔

يُنَادِيهِمْ يَوْمَ الْغَدِيرِنَبِيُّهُمْ‏بِخُمٍّ وَأَسْمِعْ بِالنَّبِيِّ مُنَادِياً

أَلَسْتُ أَنَامَوْلَاكُمْ وَوَلِيَّكُمْ‏فَقَالُواوَلَمْ يَبْدُواهُنَاكَ التَّعَامِيَا

إِلَهُكَ مَوْلَانَاوَأَنْتَ وَلِيُّنَاوَلَاتَجِدَنْ فِي الْخَلْقِ لِلْأَمْرِعَاصِياً

فَقَالَ لَه ُقُمْ يَاعَلِيُّ فَإِنَّنِي‏رَضِيتُكَ مِنْ بَعْدِي إِمَاماًوَهَادِياً

فمن کنت مولاه فهذا وليهفکونوا لهانصار صدق مواليا

هناک دعا اللخم وال وليهو کن الذی عادی عليا معاديا

یعنی غدیر خم کے روز نبی اکرم(ص) نے امت کو آواز دی اور میں نے آں حضرت(ص) کے منادی کی ندا سنی۔ آں حضرت(ص) نے فرمایا کہ تمہارا مولا اور ولی ( یعنی اولی بہ تصرف ) کون ہے ؟ تو لوگوں نے صاف صاف کہا کہ خدا ہمارا مولی اور آپ ہمارے ولی ہیں اور کسی کو اس حقیقت سے انکار نہیں ہے۔ پس آں حضرت (ص) نے علی(ع) سے فرمایا کہ اٹھو میں اپنے بعد تمہارے امام اور ہادی ہونے پر راضی ہوں پس میں جس کے امور میں ولی اور اولی بہ تصرف ہوں یہ علی(ع) بھی اس کے امور میں ولی اور اولی بہ تصرف ہیں، لہذا اے امت والو سچائی اور وفادار کے ساتھ ان کے یار و مددگار بنو پھر دعا فرمائی کہ خداوندا جو علی(ع) کا دوست ہو اس کو دوست رکھ اور جو ان کا دشمن ہو اس کو دشمن رکھ۔

یہ اشعار بہت واضح دلیل ہیں اس بات کی کہ اس روز اور اس موقع پر اصحاب نے لفظ مولی سے علی علیہ السلام کی امامت و خلافت کے سوا اور کوئی مطلب نہیں نکلا۔ اگر مولا امام ہادی اور اولی بہ تصرف کے معنی میں نہ ہوتا تو قطعا جس وقت حضرت نے حسان کے اشعار میں مصرع "رَضِيتُ كَمِنْ بَعْدِيإ ِمَام اًوَهَادِياً " سنا تھا فوراارشاد فرماتے کہ حسان تم نے دھوکا کھایا اور میرا مقصد نہیں سمجھے اس لیے کہ اس بیان سے میرا مقصود امام و ہادی اور اولی بہ تصرف قائم مقام منصب نبوت نہیں بلکہ دوست و ناصر کا مفہوم مراد تھا۔ لیکن قطع نظر اس سے کہ ان کی تکذیب نہیں کی، الفاظ "لاتزال‏ مؤيدابروح القدس " سے ان کی تصدیق بھی فرما دی ۔ اس کے علاوہ خطبے کی ضمن میں بھی پوری وضاحت کے ساتھ آپ کی امامت و خلافت کا اعلان فرمایا آپ حضرات کو لازم ہے کہ خطبہ ولایت کا مطالعہ کیجئے جو رسول خدا(ص) نے غدیر کے روز بیان فرمایا تھا اور جس کو ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی سنہ310 ہجری نے کتاب الولایہ میں تمام و کمال نقل کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

"اسمعواوأطيعوافإن‏ الله‏ مولاكم‏وعلي إمامكم ثم الإمامةفي ولدي من صلبه إلى يوم القيامة. معاشر الناس هذا اخی و وصيی و داعی علمی و خليفتی علی من آمن بی و علی تفسير کتاب ربی"

یعنی سنو اور اطاعت کرو پس یقینا اللہ تمہارا مولا اور علی(ع) تمہارے امام ہیں۔ پھر قیامت تک امامت علی(ع) کی نسل سے میری اولاد ہی میں رہے گی۔ اے گروہ ناس یہ(علی(ع)) میرے بھائی،

۵۶

میرے وصی میرے علم کے محافظ اور میرے خلیفہ ہیں ہر اس شخص پر جو مجھ پر اور کتاب الہی کی تفسیر پر ایمان لایا ہے۔

حضرات ! اگر انصاف سے دیکھئے تو خود آں حضرت(ص) کے بیانات کے علاوہ یہ اشعار سننے کےبعد آپ کی خاموشی دلیل قاطع ہے اس چیز پر کہ آں حضرت(ص) کی مراد محب و ناصر نہیں تھی بلکہ وہی تھی جس کو حسان نے نظم کیا ہے یعنی امام و ہادی امور مسلمین میں اولی بہ تصرف۔ چنانچہ فرمایا کہ حسان ! یہ حقیقت تمہاری زبان پر روح القدس کی تائید سے جاری ہوئی ہے۔

صحابہ کی وعدہ شکنی

بہر حال آں حضرت(ص) کے حسب الارشاد و لایت مطلقہ کے حقیقی معنی لیے جائیں یا آپ کے عقیدے کے مطابق محب و ناصر کے معنی، یہ مسلم ہے کہ اس روز اصحاب نے حکم رسول(ص) سے کچھ وعدہ کیا تھا، ایک بیعت کی تھی اور کوئی عہد و پیمان کیا تھا۔ جس پر علمائے فریقین ( شیعہ و سنی) کا اتفاق ہے، پس آخر اس عہد و پیمان کو کیوں توڑا؟ اگر آپ ہی کا فرمانا صحیح فرض کر لیا جائے کہ آنحضرت(ص) کا مقصود دوستی اور یاوری تھا تو خدا کے لیے انصاف سے بتائیے کہ جس دوستی کا اور نصرت و یاری کا عہد باندھا تھا کیا اس کا مطلب اور نتیجہ یہی ہونا چاہئیے تھا کہ ان کے دروازے پر آگ لے جائیں، ان کی بیوی بچوں کو جو اولاد رسول(ص) تھے آزار پہنچائیں اور خوف زدہ کریں ان کو جبرا کھینچتے ہوئے مسجد میں لے جائیں، اور ننگی تلواریں لیے ہوئے ان کو قتل کردینے کی دھمکی دیں، رسول خدا(ص) کا پارہ جگر جناب فاطمہ(ع) کو خوفزدہ اور اذیت میں مبتلا کریں اور حمل ساقط کریں؟

آیا اس خاص تاریخ میں اس قدر عظیم الشان انتظامات اور اتنے سخت تاکیدات کے ساتھ رسول(ص) کی سفارشوں کا یہی مقصد تھا؟ آیا آں حضرت(ص) کی وفات کے بعد اس قسم کے حرکات خدا و رسول(ص) سے عہد شکنی نہیں تھی؟ آیا جن لوگوں نے یہ عہد توڑٰا یا ( آپ کے خیال سے ) دوستی کا پیمان آخر تک نہیں نبھایا۔ انہوں نے سورہ نمبر13 ( رعد) کی آیت نمبر25 نہیں پڑھی تھی؟ اگر ہم جاہلانہ محبت اور بغض کو الگ رکھیں تو حق و حقیقت بالکل ظاہر ہے۔

گرپردہ زروئے کار ہا بردارندمعلوم شود کہ درجہ کار ہمہ

احد حنین اور حدیبہ میں صحابہ کی عہد شکنی

غزوہ احد اور حنین میں جب رسول اللہ(ص) نے تمام اصحاب سے عہد لیا تھا کہ آج کے روز فرار نہ کرنا تو کیا ان لوگوں نے فرار نہیں کیا؟ آیا یہ میدان جنگ سے بھاگنا اور دشمنوں کے مقابلہ میں پیغمبر(ص) کو تنہا چھوڑ کر چل دینا، جس کو خود آپ کے مورخین طبری، ابن ابی الحدید اور ابن عثم کوفی وغیرہ نے بھی لکھا ہے، عہد شکنی نہیں تھی؟

۵۷

قسم خدا کی آپ لوگ بلا وجہ ہم پر اعتراض کرتے ہیں۔ شیعہ بھی وہی کہتے ہیں جو آپ کے بڑے بڑے علماء نے کہا ہے اور کتابوں میں وہی لکھتے ہیں جو خود آپ کے علماء ومورخین لکھ چکے ہیں۔

اگر علماء شیعہ نے صحابہ پر کچھ تنقیدیں کی ہیں تو وہ وہی ہیں جو آپ کے علماء نے لکھی ہیں۔

اںصاف سے فیصلہ کرنا چاہئیے

پس آخر آپ لوگ نسلا بعد نسل ہم پر کس لیے حملے کرتے چلے آرہے ہیں؟ آپ لوگ لکھیں تو کوئی عیب نہیں اور نہ قابل گرفت ہے۔ لیکن جو کچھ سنی اکابر علماء نے لکھا ہے اگر وہی ہم کہہ دیں تو کافر ہوجاتے ہیں، ہمارا قتل واجب ہوجاتا ہے محض اس جر م میں کہ بعض صحابہ کے افعال زشت اور اعمال قبیحہ پر تبصرہ اور نکتہ چینی کرتے ہیں۔

حالانکہ اگر صحابہ پر طعن و تشنیع مذموم اور موجب رفض ہے تو قطعا تمام صحابہ بھی رافضی تھے کیونکہ عام طور پر سب نے ایک دوسرے کو لعنت ملامت کی ہے اور اعمال کی مذمت کی ہے یہاں تک کہ ابوبکر و عمر نے بھی۔

اگر تنگی وقت کا خیال نہ ہوتا تو تفصیل سے ان کے اقوال بیان کرتا۔ اگر آپ بخوبی اس کی جانچ کرنا چاہتےہوں کہ اصحاب رسول(ص) بھی دوسرے لوگوں کی طرح جائز الخطا تھے۔ ان میں سے جنہوں نے پرہیزگاری اختیار کی وہ مومنین یا پاکباز اور قابل احترام ٹھہرے اور جو لوگ ہوا و ہوس کے بندے بنے اور ان سے بری حرکتیں سر زد ہوئیں وہ مطعون مذموم قرار پائے تو شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد چہارم کے ص454 سے ص462 تک صحابہ کے بارے میں ابوالمعانی جوینی کے اعتراض پر زیدی کا مفصل جواب ملاحظہ فرمائیے۔ جس کو ابوجعفر نقیب نے نقل کیا ہے تاکہ آپ کومعلوم ہو کہ صحابہ کس قدر اختلاف و افتراق تھا اور کس طرح ایک دوسرے کی تفسیق و تکفیر اور لعنت و ملامت کرتے تھے۔

شیعوں اور آپ کے منصف علماء اور عام حضرات اہل سنت وجماعت کے درمیان جو خاص فرق ہے وہ محبت اور بغض کے مسئلے میں ہے، آپ لوگ چونکہ بعض صحابہ سے اندھادھند عقیدت اور خلوص و محبت رکھتے ہیں لہذابمصداق حب الشی يعمی و يعصم ( یعنی کسی چیز کی محبت اندھا اور بہرا بنادیتی ہے 12مترجم ) ان کے اندر برائی نظر ہی نہیں آتی بلکہ اگر نگاہ محبت سے دیکھنے کے باوجود بھی ان کے دامن داغدار نظر آتے ہیں تو ان کو تمام مطاعن سے مبرا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور کھلے ہوئے معائب کے مقابلہ میں ایسے پھسپھسے جوابات دیتے ہیں کہ ان پر ہنسی آجاتی ہے۔

لیکن ہم خدا کو گواہ کر کے کہتے ہیں کہ ہم اصحاب رسول(ص) کو بغض و عناد اور عداوت کی نظر سے نہیں دیکھتے بلکہ متفقہ حالات و واقعات کا عقل وبرہان کی نگاہ سے جائزہ لیتے ہیں، اچھائیوں کو اچھا اور برائیوں کو برا دیکھتے ہیں اور حق فیصلہ کرتے ہیں٫

محترم حضرات! ہم اور آپ قیامت اور روز جزا پر ایمان رکھتے ہیں، دنیا کی اس چند روز زندگی میں کیا رکھا ہے جو عنقریب

۵۸

ختم ہوجائے گی۔ فکر تو اس روز کی کرنا چاہئے۔

قسم خدا کی ہم شیعہ مظلوم ہیں، بے خبر عوام کو بلاوجہ دھوکا نہ دیجئے اور موحد شیعوں کو کافر اور رافضی نہ کہئے۔ آیا یہ مناسب ہے کہ محمد(ص) و آل محمد صلوۃ اللہ علیہم اجمعین کے پیرئوں کو خواہ مخواہ بہانہ بنا کے رافضی اور خطا وار قرار دیجئے؟ در آنحالیکہ اگر اس تنقید اور اظہار حقیقت کی وجہ سے آپ شیعوں کر برا کہتے اور کافر سمجھتے ہیں تو ان سے پہلے اپنے بڑے بڑے علماء کو برا کہئے جن کے قلم سے اس قسم کی تنقیدیں نکلی ہیں اور آپ کی معتبر کتابوں میں درج ہیں۔

حدیبیہ میں صحابہ کا فرار

مثلا قضیہ حدیبیہ کے سلسلے میں ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں اور آپ کے دوسرے مورخین لکھتے ہیں کہ قرار داد صلح کے بعد عمر ابن خطاب کے ساتھ اکثر صحابہ بگڑے ہوئے تھے اور رسول اللہ(ص) کو تائو دکھا رہے تھے کہ ہم صلح پر راضی نہیں تھے جنگ کرنا چاہتے تھے۔ آپ نے کیوں صلح کر لی؟ آنحضرت(ص) نے فرمایا اگر تم لڑائی کا شوق ہے تو جائو میں منع نہیں کرتا ہے۔ چنانچہ ان لوگوں نے حملہ کیا، لیکن قریش بھی تیار تھے انہوں نےمنہ توڑ جواب دیا اور ان کو ایسی شکست فاش ہوئی کہ اب جو بھاگے تو پیغمبر(ص) کے پاس بھی نہیں ٹھہر سکے بلکہ صحرا کی طرف نکل گئے۔ آں حضرت(ص) نے علی علیہ السلام سے فرمایا کہ تلوار اٹھائو اور قریش کی روک تھام کرو۔ قریش نے جونہی علی(ع) کو مقابلے پر دیکھا پیچھے ہٹ گئے۔ اس کے بعدبھاگے ہوئے اصحاب تھوڑے تھوڑے کر کے واپس آئے اور اپنی حرکت سے شرمندہ ہوکر معذرت کرنے لگے۔ رسول اللہ(ص) نے فرمایا کہ میں تم کو پہنچانتا نہیں ہوں ؟ کیا تم لوگ وہی نہیں ہو جو غزوہ بدر کبری میں دشمنوں کے سامنے کانپ رہے تھے یہاں تک کہ خدا نے ہماری مدد کے لیے فرشتے بھیجے؟ آیا تمہیں لوگ میرے وہ اصحاب نہیں ہو جو احد کے روز بھاگ کر پہاڑوں پر چڑھ گئے تھے اور مجھ کو اکیلا چھوڑ دیا تھا۔ میں ہر چند پکارتا رہا لیکن تم لوگ نہیں پلٹے؟ خلاصہ یہ کہ آںحضرت(ص) ان کی تمام کمزوریان اور بے ثباتیاں گنواتے رہے اور وہ لوگ برابر عذار خواہی کرتے رہے بالآخر ابن ابی الحدید اس مقام پر لکھتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے یہ ساری زجرو توبیخ عمر کے اوپر کی جب وہ آں حضرت(ص) کے وعدوں کو جھٹلا چکے تھے۔ پھر لکھتے ہیں کہ پیغمبر(ص) کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ احد میں ضرور بھاگے ہوں گے کیونکہ آں حضرت(ص) نے عتاب فرماتے ہوئے اس کا بھی ذکر فرمایا ہے آپ حضرات ملاحظہ فرمائیے کہ یہی قضیہ جس کو ابن ابی الحدید وغیرہ کے ایسے بزرگ علماء لکھ چکے ہیں اگر ہم بیاں کریں تو آپ فورا دھر پکڑ کرنے اور ہم کو رافضی و کافر کہنے لگتے ہیں کہ ایسا کیوں کہتے ہو اور خلیفہ کی توہین کیوں کرتے ہو، لیکن ابن ابی الحدید اور انہیں جیسے دوسرے علماء پر کوئی اعتراض نہیں، یاد رکھئیے ہم جو کچھ کہتے ہیں توہین کی غرض سے نہیں کہتے بلکہ تاریخی واقعات کو نقل کرتے ہیں۔ لیکن چونکہ آپ ہماری طرف سے بد گمانی رکھتے ہیں لہذا اس کا کوئی اثر نہیں لیتے۔

۵۹

اس موقع کے لحاظ سے عرب کے ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

وعين‏ الرضاعنك لعيبك ليلةكماأن عين السخط تبديالمساويا

یعنی عقیدت مند کی آںکھ ہر عیب سے چشم پوشی کرتی ہے لیکن چشم غضب خطائوں کو ڈھونڈ نکالتی ہے۔

قیامت کے روز آپ کے علماء پر ہمارے بہت سے استغاثے ہیں ضیا تو گزر جائے گی لیکن اللہ کے دربار عدالت میں آپ کو ہماری مظلومانہ فریاد کی جواب دہی کے لیے حاضری دینا ہوگی۔

حافظ : آپ پر کون سا ظلم ہوا ہے کہ قیامت کے روز داد خواہی کیجئے گا؟

خیر طلب: مظالم بہت اور ہتک حرمت کے واقعات کثرت سے ہیں۔ لیکن اگر سب سے چشم پوشی کر لی جائے تب بھی چونکہ میں صدیقہ مظلومہ جناب فاطمہ صلوات اللہ علیہا کی اولاد میں ہونے کا فخر رکھتا ہوں لہذا اپنے حق سے ہرگز دست بردار نہ ہوں گا اور جس روز محکمہ عدل الہی قائم ہوگا جس پر ہمارا اعتقاد ہے تو میں بہت سے ظلموں و زیادتیوں کو داد خواہی کروں گا اور یقین رکھتا ہوں کہ انصاف کیا جائے گا۔

حافظ : گذارش ہے کہ جذبات کو نہ ابھاریئے آپ کا کون سا حق مارا گیا ہے اور آپ پر کیا ظلم ہوا ہے یہ بیان کیجئے؟

خیر طلب : ظلم و تعدی اور ہماری حق تلفی کوئی آج ہی کے دن سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہمارے جد بزرگوار حضرت خاتم الانبیاء(ص) کی وفات کے بعد ہی سے اس کی بنا قائم کی گئی کیونکہ خدا ورسول(ص) نے ہماری جدہ مظلومہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو ان کے بچوں کی پرورش کے لیے جو واجبی حق عطا کیا تھا اس کو غصب کر لیا گیا اور ان معصومہ(ع) کے نالہ وفریاد کا کوئی اثر نہیں لیا گیا، یہاں تک کہ وہ پیغمبر(ص) کی یادگار عفوان شباب ہی میں درد بھرے دل کے ساتھ دنیا سے اٹھ گئی۔

حافظ : میں عرض کرتا ہوں کہ جناب عالی بہت تیزی دکھا رہے ہیں اور جوشیلے جملے استعمال کر کے لوگوں میں بلاوجہ ہیجان پیدا کرتے ہیں۔ آخر فاطمہ رضی اللہ عنہا کا واجبی حق کیا تھا جو زبردستی چھین لیا گیا؟ اگر آپ اپنے برادران مومن کے سامنے اپنا دعوی ثابت نہ کرسکے تو محکمہ عدل الہی میں درجہ اولی ہرگز کامیاب نہ ہوسکتیں گے آپ سمجھئے کہ آجہی محکمہ عدل الہی قائم ہے لہذا اپنا دعوی ثابت کیجئے۔

خیر طلب: وہاں خدائی عدالت ہے ذاتی اغراض اور تعصب وغیرہ کی گنجائش نہیں لہذا سچا اور بے لوث فیصلہ ہوگا۔ اگر آپ حضرات بھی نگاہ انصاف سے رکھتے ہوں تو قاضی عادل کی طرح غیر جانبداری کے ساتھ میرے معروضات سنیئے یقین ہے کہ ہماری حقانیت کی تصدیق کیجئے گا۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

خداوند عالم كى نشانى اور اس كى قدرت كا كرشمہ ہے_وماذرا لكم فى الارض مختلفاً الوانه انّ فى ذلك لاية

۵_ بيدار اور متوجہ انسان ، زمينى موجودات كى خلقت اور ان كے انواع و اقسام كے رنگوں سے خدا كى وحدانيت كا درس ليتا ہے_وما ذرا لكم لاية لقوم يذكّرون

چونكہ ''لآية'' كا متعلق محذوف ہے لہذا ہوسكتا ہے كہ ''لتوحيد ہ'' مقدر ہے يعنى خدا وند عالم كى وحدانيت كى نشانى ہے_

۶_خداوند عالم كى شناخت كے ليے عالم طبيعت كى طرف توجہ اور اس كى انواع و اقسام كى رنگينيوں ميں دقت ضرورى ہے _انّ فى ذلك لاية لقوم يذكّرون

۷_ توجہ اور ياد آوري، معرفت كا پيش خيمہ اور شناخت كا ذريعہ ہيں _و ماذرا لكم فى الارض ان فى ذلك لاية لقوم يذكّرون

۸_ عالم طبيعت ميں خدا شناسى كے ليے ہر بار فكر و تدبّر ايك مناسب ذريعہ ہے_

ينبت لكم به الزرع لقوم يتفكرون و سخّر لكم اليل لقوم يعقلون و ما ذراء لكم لقوم يذكّرون

''الذرع والزيتون ...'' جو كہ مادى اور معمولى امور ہيں جن كے نتيجے كے ليے فقط فكر كافى ہے جملات كے بعد ''لقوم يتفكرون'' كالا نا اور رات و دن كى تسخير و غيرہ كہ جن كے ليے دقت ضرورى ہے كہ بعد ''لقوم يعقلون'' اور اسى طرح انواع و اقسام كے رنگ كہ جن كے ليے كلى مقدمات ہوتے ہيں اور تھوڑى سى توجہ سے مطلب حاصل ہوجا تاہے كے بعد ''لقوم يتذكرحق'' كے استعمال كى طرف توجہ كرنے سے مذكورہ بالا مطلب كا استفادہ ہوتا ہے_

۹_ شناخت كے انواع و اقسام كے مراتب اپنے ليے مناسب ذريعے كا تقاضا كرتے ہيں _

الزرع والزيتون لقوم يتفكرون اليل و النّهار لقوم يعقلون و ما ذرا لكم فى الارض لقوم يذكّرون

الله تعالى :الله تعالى كے افعال۱; خدا شناسى كے دلائل۶; خدا كى قدرت كى نشانياں ۴; عالم طبيعت ميں خدا شناسي۶،۸;شناخت كا پيش خيمہ ۷;شناخت كا ذريعہ ۷،۸،۹; شناخت كے مراتب۹

الله تعالى كى نشانياں :الله تعالى كى آفاقى نشانياں ۴، ۶

انسان:

۳۶۱

انسان كے فضائل ۱

بصيرت:اہل بصيرت اور موجودات كے لئے انواع اقسام كے رنگوں كا ہونا۵

تفكر:تفكر كے مراتب ۸

توحيد:توحيد كے دلائل۵

ذكر :ذكر كے آثار ۷

آیت ۱۴

( وَهُوَ الَّذِي سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَأْكُلُواْ مِنْهُ لَحْماً طَرِيّاً وَتَسْتَخْرِجُواْ مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَا وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيهِ وَلِتَبْتَغُواْ مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ )

اور وہى وہ ہے جس نے سمندروں كو مسخر كرديا ہے تا كہ تم اس ميں سے تازہ گوشت كھا سكو اور پہننے كے لئے زينت كا سامان نكال سكو اور تم تو ديكھ رہے ہو كہ كشتياں كس طرح اس كے سينے كو چيرتى ہوئي چلى جا رہى ہيں اور يہ سب اس لئے بھى ہے كہ تم اس كے فضل و كرم كو تلاش كرسكو اور شايد اسى طرح اس كے شكرگذار بندے بھى بن جاؤ _

۱_ خداوند عالم نے سمندر وں كو انسان كے ليے مسخّر كيا ہے_وهو الذى سخّر البحر لتاكلوا منه

۲_ انسانوں كى بہرہ مندى كے ليے سمندروں كو مسخّر كرنے والا فقط خداوند عالم ہے_وهو الذى سخّر البحر لتاكلوا منه

مبتدا ''ہو'' كا حصر نہ ہونا اور خبر ''الذي حصر'' پر دلالت كررہے ہيں _

۳_ تازہ گوشت سے غذائي ضرورت پورى كرنا، سمندرى جواہرات اور كشتى سے استفادہ، سمندرى فوائد ميں سے ہے _

سخّر البحر لتاكلوا منه كماً طريّاً و

۳۶۲

تستخرجوا منه حلية تلبسونها و ترى الفلك

''طري'' كا معنى جديد اور تازہ اور ''حليتہ''زيور كے معنى ميں ہے_

۴_ خوراك ، لباس اور آلات زيور كے ليے عالم طبيعت كے مظاہر سے استفادہ كرنا جائز ہے_

لتاكلوا منه كماً طرياً و تستخرجوا منه حلية تلبسونه

۵_ قيمتى اور آرائشى اشياء كے استخراج كے ليے سمند ر ميں غوطہ زن ہونا جائز ہے_و تستخر جوا منه حلية تلبسونه

۶_ خوبصورتى اور آلات زيور سے مزيّن ہونے كى طرف انسانوں كا ميلان_تستخرجوا

فعل مضارع ''تلبسو نہا'' خارجى حقيقت سے حكايت كررہا ہے جو كہ آلات زيور سے استفادہ كرنا ہے اوردوسرى طرف تزئين انسان كى ضروريات كى خبر نہيں جبكہ ضروريات كے ساتھ اس كا بھى ذكر ہوا ہے اور يہ مذكورہ حقيقت سے حكايت ہے_

۷_ سمندروں ميں پانى كى حركت كشتيوں كى روانى ايك دلكش اور حيرت انگيز منظر ہے_وترى الفلك مواخر فيه

''ترى الفلك موا خرفيہ'' كى عبارت جملہ معترضہ ہے اور ايسے چند جملوں كے درميان واقع ہوئي ہے كہ جن كا ايك دوسرے پر عطف ہوا ہے_ عطف كے ممكن ہونے كے با وجود جملہ معترضہ كا لا يا جانا اسلوب جملے كے خلاف اور اس كے تعجب كو بيان كرنے كے ليے ہے_لازم الذكر ہے كہ ''مواخر'' ''ماخرہ'' ''مادہ'' ''منحر''كى جمع ہے جس كا معنى چير نا ہے_

۸_ سمندر كا تازہ گوشت اور تزئين و آرائش و الى اشياء اور كشتى رانى كى سہولت ، خداوند عالم كى نعمت ہے_

و ہوالذى سخّر البحر لتاكلوا منہ لحماً طريّاً و تستخرجوا منہ حلية تلبسونہا و ترى الفلك مواخر فيہ

۹_ سمند ر كے فوائد ، تازہ گوشت ، زينت و آرائش كى اشياء اور كشتى رانى ميں منحصر ہيں _

سخر البحر لتاكلوا منه لحماً و طرياً و تستخرجوا منه حلية لتبتغوا منه حفظه

۱۰_خداوند عالم كى طرف سے سمندروں كى تسخير اور اس كے ليے بے شمار نعمتوں كا بيان، انسان كو شكر گزارى كى تشويق دلانے كے ليے ہے_وسخر البحر لتاكلوا منه و لتبتغوا من فضله و لعلّكم تشكرون

۱۱_ خداوند عالم نے سمندر ميں بہت سے فوائد و عطا يا قرار ديے ہيں كہ جن سے كوشش اور جدو جہد كے ذريعے استفادہ كيا جا سكتا ہے_

۳۶۳

سخّر البحر لتاكلوا منه و لتبتغوا من فضله

''تبتغوا'' ( ابتغائ) سے مطلوبہ چيز كے حصول كے ليے كوشش اور جد وجہد كرنے كے معنى ميں ہے_

۱۲_ سمندر اس كى نعمتوں كى طرف توجہ خدا كى شناخت اور اس كى نعمتوں كا شكر يہ ادا كرنے كا زمينہ فراہم كرتى ہے_

سخر البحر لعلكم تشكرون

جملہ'' ولعلّكم تشكرون ''كا عطف ''ولعلكم تعرفون'' جيسے محذوف جملے پر ہے_

۱۳_ خدا كى نعمتوں كے مقابلے ميں شكر ادا كرنا ضرورى ہے_ولعلكم تشكرون

كيونكہ خداوند عالم نے اپنى بہت سى نعمتوں كے ذكر كا فلسفہ يہ بيان كيا ہے كہ انسان كے اند رشكر گزارى كا انگيزہ پيدا ہو اس سے معلوم ہوتا ہے كہ شكر گزارى ايك ضرورى اور لازمى چيز ہے_

۱۴_انسان كى ضروريات كو پورا كرنے كے سلسلہ ميں طبيعى اسبا ب، ارادہ خداوند كے جارى ہونے كا مقام ہيں _

هو الذى سخّر البحر لتاكلوا فيه لحماً طرياً و تستخرجوا منه حلية تلبسونها و تريى الفلك مواخر فيه و لتبتغوا من فضله

احكام:۴،۵

الله تعالى :الله تعالى كى شناخت كا پيش خيمہ۱۲; الله تعالى كى نعمتيں ۸،۱۱; الله تعالى كے ارادے كا مقام۱۴;الله تعالى كے افعال۱;الله تعالى كے مختصات۲

انسان:انسان ميں خوبصورتى كى چاہت ۶; انسان كى ضروريات ۴; انسان كے فضائل۱; انسان كے ميلانات۶

توحيد:توحيد افعال۲

حيوانات:سمندرى جانوروں كا گوشت۳،۸

ذكر:ذكر نعمت كے آثار۱۲; سمندرى نعمتوں كا ذكر۱۲

زينت:سمندرى زينتوں كا حصول۵; زينت سے استفادہ ۴; سمندرى زينتوں سے استفادہ ۳; سمندرى زينتيں

سمندر:سمندر سے استفادہ ۱،۲; سمند ر كى تسخير۱،۱۰;

۳۶۴

سمندرى مناظر۷; سمندر كے فوائد۳،۹

شكر:شكر نعمت كى اہميت۱۳; شكر نعمت كى ترغيب ۱۰; شكر كا پيش خيمہ ۱۲

ضروتيں :ضرورتوں كو پورا كرنے ميں مؤثر اسباب۱۴

طبيعت:طبيعت سے استفادہ۴

طبيعى عوامل:طبيعى عوامل كا كردار۱۴

غوطہ زني:غوطہ زنى كے احكام۵

كشتياں :كشتيوں كى حيرت انگيزرواني۷

كشتى راني:سمندر ميں كشتى راني۳

كھانے والى اشيائ:كھانے والى اشياء كا مباح ہونا۴

لباس:لباس كا مباح ہونا۱۴

مباحات:۴

ميلانات:خوبصورتى كا ميلان۶; آلات زيور كى طرف ميلان۶

نعمت:سمندرى نعمتوں سے استفادہ ۱۱; كشتى رانى كى نعمت۸

آیت ۱۵

( وَأَلْقَى فِي الأَرْضِ رَوَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِكُمْ وَأَنْهَاراً وَسُبُلاً لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ )

اور اس نے زمين ميں پہاڑوں كے لنگر ڈال ديئے تا كہ تمھيں لے كر اپنى جگہ ہے ہٹ نہ جائے اور نہريں اور راستے بنادئے تا كہ منزل سفر ميں ہدايت پاسكو _

۱_ خداوند عالم نے پہاڑوں كوزمين ميں محكم اور استوارركھا ہے تا كہ ان كو انسان كے ليے آرام دہ بستر كى مانند قرار دے_والقى فى الارض رواسى ان تميدبكم

''رواسي'' مادہ ''رسو'' سے ''راسيہ'' كى جمع ہے جس كا معنى محكم اور استوار ہونا ہے اس سے مراد پہاڑ ہيں جن كا غالبى وصف كى بناء پر يہ نام ركھا گيا ہے اور ''القائ'' جب ''فى '' كے ساتھ ہو تو اس كا معنى قرار ديناہے_

۳۶۵

۲_ پہاڑ ، زمين كو جنبش اور حركت سے محفوظ ركھتے ہيں _

لغت ميں ''ميد'' بڑى چيزوں كى لغزش اور اضطراب كو كہتے ہيں چونكہ يہ آيت، الہى نعمتوں كے مقام بيان ميں ہے اور زمين كى لغزش اور اضطراب نعمت ہيں جس سے معلوم ہوتا ہے كہ ان ''تميد بكم'' اصل ميں ''لا ن لا تميد بكم'' يا ''كراہيتہ ان تميد بكم'' ہے يعنى پہاڑوں كو زمين ميں اس ليے قرار ديا گيا ہے تا كہ تمھارى زمين ميں لرزہ پيدا نہ ہوسكے_

۳_ پہاڑوں كے بغير ، زمين متحرك اور لرز نے والى اور انسانى زندگى كے ليے مناسب زمين ہے_

والقى فى الارض رواسى ان تميد بكم

۴_ پانى كى نہريں اور زمينى راستے ، انسانوں كے استفادہ كے ليے پيدا كيے گئے ہيں _

والقى فى الارض ...وانهراً و سبلاً لعلكم تهتدون

۵_ نہروں كى خلقت اور طبيعى راستے ، انسانوں كے ليے راستہ دريافت كرنے كى علامات ہيں _

ا نهراً وسبلاً لعلّكم تهتدون ...وعلمت

''پہاڑوں كے منافع ''اور بعدو الى آيت ميں ''علامات '' كے بيان كے قرينے كى بناء پر يہ احتمال ہے كہ ''لعلّكم تہتدون'' سے مراد، راستہ دريافت كرنا ہے_

۶_ زمين كى پستى اور بلندياں ، زندگى كے فوائد اور انسانى سہوليات كى حامل ہيں _

والقى فى الارض رواسى ان تميد بكم و انهراً و سبلاً لعلّكم تهتدون

۷_ پہاڑوں ، نہروں اور راستوں كى خلقت كا مقصد ، انسانوں كى ہدايت ہے _

والقى فى الارض رواسي وانهراً و سبلاً لعلّكم تهتدون

مذكورہ استفادہ اس نكتہ كى بناء پر ہے كہ جب ''تہتدون'' سے معنوى ہدايت مراد ہو_

۸_ پہاڑ ، نہريں اور راستے، الہى نعمتيں ہيں _والقى فى الارض رواسى ان تميد بكم و انهراً و سبلاً لعلّكم تهتدون

الله تعالي:الله تعالى كى نعمتيں ۸; الله تعالى كے افعال۱

انسان:

۳۶۶

انسان كے فضائل ۱;انسانوں كى ہدايت كى اہميت۷

پہاڑ:پہاڑوں كى اہميت۳; پہاڑوں كى خلقت كا فلسفہ ۷; پہاڑوں كے فوائد ۱،۲،۳

راستہ پانا:راستہ پانے كے وسائل۵

راستے :راستوں سے استفادہ ۴; راستوں كى خلقت كا فلسفہ ۴،۵،۷

زمين:زمين كى لرزش كے موانع ۲،۳; زمين كى ناہموراى كے فوائد۶; زمين كے سكون كے اسباب۱

نعمت:پہاڑوں كى نعمت۸; نعمتوں كے راستے ۸; نہروں كى نعمت۸

آیت ۱۶

( وَعَلامَاتٍ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ )

اور علامات معين كرديں اور لوگ ستاروں سے بھى راستے دريافت كرليتے ہيں _

۱_ خداوند عالم نے انسانوں كے راستہ دريافت كرنے كے ليے زمين ميں علامات اور نشانياں قرار دى ہيں _

والقى فى الارض رواسي لعلّكم تهتدون و علامات

''علامات'' كا ''رواسى اور انھار'' پر عطف ہے اوراس سے مراد ايسى طبيعى علامات اور نشانياں ہيں جو زمين ميں موجود ہيں _

۲_ مسافروں كے ليے راستہ دريافت كرنے كے ليے ستاروں كا نہايت اہم كردار ہے_

و علامات و بالنجم هم يهتدون

عام '' علامات ''كے بعد خاص ''نجم'' جبكہ يقينى طور پر نجم خود علامات ميں سے ہے كا ذكر كرنا ممكن ہے مذكورہ نكتے كو بيان كررہا ہو_

۳_''قال رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ''''وبالنجم هم يهتدون'' قال هو الجدى لانّه، نجم' لا تزول و عليه بقاء القبله و به يهتدى اهل البرّ و

۳۶۷

البحر (۱)

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خداوند عالم كے اس كلام''وبالنجم هم يهتدون'' كے بارے ميں فرمايا: وہ ستارہ جدى ہے كيونكہ يہ وہ ستارہ ہے جو كبھى محو نہيں ہوتا اور قبلہ كى تشخيص كى اساس يہى ستارہ ہے اور اس كے ذريعہ سمندر اور خشكى والے راہنمائي ليتے ہيں ...''

الله تعالي:الله تعالى كے افعال۱

راستہ پانا:راستہ پانے كى علامات ۱; راستہ پانے كے وسائل ۲

روايت:۳

ستارے:ستاروں كے ذريعہ راستہ پانا۲،۳; ستاروں كے فوائد ۲،۳; ستاروں كے جدى ۳

قبلہ:قبلہ كو معين كرنے كے وسائل ۳

آیت ۱۷

( أَفَمَن يَخْلُقُ كَمَن لاَّ يَخْلُقُ أَفَلا تَذَكَّرُونَ )

كيا ايسا پيدا كرنے والا ان كے جيسا ہوسكتا ہے جو كچھ نہيں پيدا كرسكتے آخر تمھيں ہوش كيوں نہيں آرہا ہے _

۱_ خداوندعالم ، تمام موجودات كا خالق اور انہيں پيدا كرنے والا ہے_

خلق السموات والارض ...خلق الانسان ...والا نعام خلقها لكم ...و يخلق مالا تعلمون وماذرا لكم فى الارض ا فمن يخلق كمن لا يخلق

چونكہ مختلف مخلوقات كے بيان كے بعد خداوند عالم نے يہ فرمايا ہے: كيا خلق كرنے والا اس جيسا ہے جوخلق نہيں كرتا _ اس سے معلوم ہو تا ہے كہ وہ تمام اشياء كا خالق ہے_

۲_تمام موجودات كے خالق كى اس كے ساتھ كسى قسم كى شباہت نہيں جو كسى چيز كا خالق نہيں ہے_

ا فمن يخلق كمن لا يخلق

____________________

۱) تفسير عياشي،ج۲ ص۲۵۶ ، نورالثقلين، ج۳، ص۴۶ ، ح۵۱_

۳۶۸

۳_ خالق كبھى بھى غير خالق سے قابل مقائسہ نہيں ہے_ا فمن يخلق كمن لا يخلق

۴_ خالق ہستى كا خلق كى قدرت سے مفقود موجود سے قابل مقائسہ نہ ہونا ،عقلى واضحات ميں ہے_

ا فمن يخلق كما لا يخلق

آيت ميں جواب ديئے بغير مذكورہ سوال كا پيش آنا عقلى قسم كى طرف ارشاد و راہنمائي ہے_

۵_ياد آورى اور ہوشيارى ، توحيد كى طرف ميلان كا سبب اور شرك ناسازگارہے_ا فمن يخلق كمن لا يخلق ...ا فلا تذكرّون

۶_ موجودات اور مخلوقات كى ياد دہانى اس ليئے ہے تا كہ يہ چيز خلقت كے جھوٹے دعوے داروں كے ليے ، تنبيہ ، نصيحت اور خداوند عالم كى خالقيت كى تجديد معرفت كا سبب ہے_ا فمن يخلق كمن لا يخلق ا فلا تذكّرون

كيونكہ خداوند عالم نے استفہام تو بيخى كے قا لب ميں ياد آورى اور تذكر كا حكم ديا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ مخلوقات كى طرف توجہ ، تذكر كا سبب ہے_

۷_ وجدان سے سوال اور تلاش حق كى حس كا برانگيختہ ہونا ، ہوشيار ى كا ذريعہ اور حقائق كے اثبات كا طريقہ ہے_

ا فمن يخلق كمن لا يخلق فلا تذكّرون

۸_ خالق كا غير خالق سے قابل مقائسہ نہ ہونے كى طرف عدم توجہ، مذموم اور ناپسنديدہ ہے_

ا فمن يخلق كمن لا يخلق ا فلا تذكّرون

الله تعالي:الله تعالى كى خالقيت۱; خداشناسى كى روش۶

ايمان:توحيد پر ايمان كے اسباب ۶

باطل قياس ۳،۴،۸

تذكر:تذكر كے آثار۵;حقائق كے اثبات كى روش۷

خالق:خالق كا بے نظير ہونا ۳;خالق كے بے نظير ہونے كا بد يہات ميں سے ہونا ۴

ذكر:موجودات كى خلقت كے ذكر كے آثار۶

سوال:سوال كے فوائد ۷

عبرت:عبرت كے اسباب۶

۳۶۹

عمل:ناپسنديدہ عمل۸

غفلت:خالف كى بے نظير سے غفلت ۸

موجودات :موجودات سے عبرت ۶; موجودات كا خالق

۱;خالق كے بے نظير ہونا۲

وجدان:وجدان كا كردار ۷

ہوشياري:شرك سے ہوشيارى كا ہم آہنگ نہ ہونا۵; ہوشيارى كا زمينہ۷; ہوشيارى كے آثار۵

آیت ۱۸

( وَإِن تَعُدُّواْ نِعْمَةَ اللّهِ لاَ تُحْصُوهَا إِنَّ اللّهَ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ )

اور تم اللہ كى نعمتوں كو شمار بھى كرنا چا ہو تو نہيں كرسكتے ہو بيشك اللہ بڑا مہربان اور بخشنے والا ہے (۱۸)

۱_ خداوند عالم كى نعمتيں فراواں اور بے شمار ہيں _ان تعدّو انعمة الله لا تحصوها انّ الله لغفورٌ رحيم

۲_ خداوند عالم كى بے شمار نعمتوں كے حق كى ادائيگى اور مطلوبہ شكر گزارى ، انسان كے بس كا روگ نہيں ہے_

ان تعدّو انعمة الله لا تحصوها انّ الله لغفورٌ رحيم

خداوند عالم نے بندوں پر بے شمار نعمتوں كے بيان كے بعد اپنے آپ كو ''غفور'' ( بہت بخشنے والا) سے متصف كيا ہے _ لہذا اس سے يہ استفادہ كيا جا سكتا ہے كہ انسان خدا كى بے شمار نعمتوں كى شكر گزارى سے عہدہ برآ نہيں ہو سكتا ہے _

۳_ خدا كى نعمتوں كے حق كى ادائيگى ، ايك شائستہ اور پسنديدہ عمل ہے_ان تعدوا نعمة الله لا تحصوها انّ الله لغفورٌ

۴_ خداوند عالم ، غفور ( بہت بخشنے والا ) اور رحيم (مہربان) ہے_

۳۷۰

ان الله لغفور رحيم

۵_ بندوں كولا تعداد نعمتوں كا عطا كرنا، رحمت خداوند ى كا تقاضا ہے_وان تعدو ا نعمة الله لا تحصوها انّ الله لغفور رحيم

۶_ خداوند عالم كى فراواں نعمتوں كا حق ادا نہ كرنا ، ايك قسم كا نقصان ، نقص اور قابل مذمت و سرزنش ہے _

وان تعدوا نعمة الله لا تحصوها انّ الله لغفورٌ رحيم

خداوند عالم كى فراواں نعمات كے بعد''انّ الله لغفور'' كے ذكر سے يہ احتمال ہے كہ خداوند عالم كى نعمتوں كے حق كو كما حقّہ ادا نہ كرنا ايك قسم كا نقصان شمار ہوتا ہے اور اسى وجہ سے يہ قابل سرزنش ہے_عبارت ''انّ الله لغفور'' اس نقصان ا ور نقص كر بيان كو رہى ہے كہ جسے خداوند تعالى اپنى بخشش كے زير سايہ قرار ديتا ہے_

۷_ كائنات ميں انسان ايك خاص مقام كا حامل اور تمام طبيعى اسباب اس كى خدمت كے ليے ہيں _

والا نعام خلقها لكم ...ماذرا لكم سخّر لكم وان تعدوا نعمة الله لا تحصوه

اس بات كو مد نظر ركھتے ہو ئے كہ آيت نمبر ۵ سے ليكر ۱۶ تك انسان كو عطا شدہ نعمتوں كا ذكر كيا گيا ہے اور آخر ميں خداوند عالم كى نعمتوں كے ناقابل شمار ہونے كو بيان كيا گيا ہے اس سے مذكور ہ بالا مطلب كا استفادہ ہوتا ہے_

اسماء صفات:رحيم۴; غفور۴

اقدار:اقدار كى ضد۶

الله تعالي:الله تعالى كى رحمت كے آثار ۵; الله تعالى كى نعمتوں كا سرچشمہ ۵; الله تعالى كى نعمتوں كى فراوانى ۱،۲،۵

انسان:انسان كا عاجز ہونا ۲; انسان كے فضائل ۷

شكر:نعمت كے شكر سے عاجزى ۲; نعمت كے شكر كى اہميت ۳

طبيعى عوامل:طبيعى عوامل كا كردار۷

عمل :پسنديدہ عمل ۳

كفران:كفران نعمت پر سرزنش ۶

۳۷۱

آیت ۱۹

( وَاللّهُ يَعْلَمُ مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ )

اور اللہ ہى تمھارے باطن و ظاہر دونوں سے باخبر ہے_

۱_ خداوند عالم ، انسانوں كے تمام پوشيدہ اور آشكار امور سے آگاہ ہے_والله يعلم ما يسرّون و ما تعلنون

۲_ خداوند عالم كا انسانوں كو اپنى فراوان نعمتوں كے مقابلے ميں ان كى رفتار پر خبردار كرنا_

وان تعدوا انعمة الله لا تحصوها والله يعلم ما تسرّون و ما تعلنون

احتمال ہے كہ آيت ميں انسانوں كے آشكار و پوشيدہ امور پر خداوند عالم كى آگاہى كو بيان كرنے سے مراد، مذكورہ نكتہ ہو كيونكہ خداوند عالم كى ناقابل شمار نعمتوں كے بيان كرنے كے بعد ، انسانوں كو خطاب كركے كہا گيا ہے كہ : خداوند عالم تمھارے پوشيدہ اور آشكار امورسے آگاہ ہے يعنى تم نعمات الہى كے بارے ميں جو كچھ ظاہر و مخفى ركھتے ہو وہ خدا سے پوشيدہ نہيں ہے_

۳_ خداوند عالم كا علم، مطلق اور تمام چيزوں پر حاوى ہے_والله يعلم ما تسرّون وما تعلنون

الله تعالي:الله تعالى كا علم غيب۱; الله تعالى كى فراوان نعمات۲; الله تعالى كے انذار۲; الله تعالى كے علم كى وسعت۳

۳۷۲

آیت ۲۰

( وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ لاَ يَخْلُقُونَ شَيْئاً وَهُمْ يُخْلَقُونَ )

اور اس كے علاوہ جنھيں يہ مشركين پكارتے ہيں وہ خودہى مخلوق ہيں اور وہ كسى چيز كو خلق نہيں كرسكتے ہيں _

۱_ مشركين كے دعوى دار خدا ، كسى چيز كى خلقت پر قدرت نہيں ركھتے ہيں _

والذين يدعون من دون الله لا يخلقون شيائ

''الذين'' كا صلہ ''يدعون'' ہے اور صلہ كى ضمير مفعول كى ضمير ہے جو كہ محذوف ہے اور اس كا مرجع ''الذين'' ہے ماقبل آيات ( جو ناتوان خدائي دعوى كرنے والوں كے بارے ميں ہيں )كے قرينہ كى بناء پر ''الذين'' سے مراد ، مشركين كے خدا ہيں _

۲_ مشركين كے خدائي دعوى دار، نہ فقط خالق نہيں بلكہ وہ خود بھى مخلوق اور پيدا كے گئے ہيں _

والذين يدعون من دون الله لا يخلقون شياء وهم يخلقون

۳_ خلق كرنے پر قدرت اور مخلوق نہ ہونا ، خدا اور معبود حقيقى كى علامت ہے_

والذين يدعون من دون الله لا يخلقون شياء وهم يخلقون

چونكہ مشركين كے معبودوں كى الوہيت كى نفى كے مقام پر خدا نے دواہم صفات كو شمار كيا ہے_ اس سے استفادہ ہوتا ہے كہ ضرورى ہے''الله ''خالق ہواور مخلوق نہ ہو_

۴_الوہيت كے ليے خالق ہونا اور مخلوق نہ ہونا ،عقلى واضحات ميں سے ہے_

والذين يدعون من دون الله لا يخلقون شياء وهم يخلقون

مشركين كے معبودوں كى الوہيت كى نفى كرنے كے سلسلہ ميں استدلال كے بغير تنقيد اس نكتے كى ياد آورى ہے كہ وہ خلقت پر قدرت نہيں ركھتے اور وہ خود مخلوق ہيں ، اس سے مذكورہ نكتہ كى حكايت ہوتى ہے_

۳۷۳

۵_ مشركين، قدرت سے مفقود اور اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے موجودات كواپنا خدا قرار ديتے تھے_

والذين يدعون من دون الله لا يخلقون شياء وهم يخلقون

مذكورہ بالا مطلب اس بناء پرہے جب ''يدعون'' سے مراد، ان موجودات كو خدا كے عنوان سے پكارنا ہو_

۶_ ہاتھوں سے ترا شے ہوئے اور ہر قسم كى خلق كى قدرت سے عارى موجودات ، الوہيت كى اہليت نہيں ركھتے اور ان كے بارے ميں ہر قسم كا خد ائي عقيدہ ركھنا باطل ہے_والذين يدعون من دون الله لا يخلقون شياء وهم يخلقون

۷_ دوسروں كے عقائد اور مقدس نظريات ( اگر چہ باطل ہى كيوں نہ ہوں ) كے مقابلے ميں ادب كى رعايت ايك شائستہ عمل ہے_والذين يدعون من دون الله لا يخلقون شيئاً وهم يخلقون

مشركين كے معبود جو عام طور پر پتھر ، لكڑى وغيرہ سے بنے تھے كے ليے ''الذين'' اور ''ہم'' جيسے كلمات كا استعمال جو كہ ذوالعقول كے ليے استعمال ہوتے ہيں ممكن ہے كہ مذكورہ بالا نكتے كى طرف اشارہ ہو_

والذين يدعون من دون الله لا يخلقون شيئاً وهم يخلقون

۸_ مشركين كے متعدد معبود و خدا تھے_والذين يدعون من دون الله لا يخلقون شيئاً و هم يخلقون

۹_ مشركين، ايسے معبودوں كى پر ستش كرتے تھے جو ہر قسم كى قدرت سے عارى تھے_

والذين يدعون من دون الله لا يخلقون شيئاً وهم يخلقون

۱۰_ فقط خداوند عالم كى ذات اس كى سزاوار ہے كہ اس كى عبادت كى جائے اور مدد كے ليے پكارا جائے_

والذين يدعون من دون الله لا يخلقون شيائ

آيت ، مشركين كے اس عمل كى سرزنش كررہى ہے جو انہوں نے متعدد معبود بنا ليے تھے اور يہ استفادہ ہوتا ہے كہ ايسا كام قبيح اور قابل مذمت ہے_

الله تعالى :الله تعالى كے شايان شان۱۰; الله تعالى كے مختصات ۱۰

الوہيت:الوہيت كا معيار ۳،۴،۶،۱۰

باطل معبودم باطل معبود اور خالقيت ۱; باطل معبود وں كا عجز ۱، ۵ ،۶،۹; باطل معبودوں كا مخلوق ہونا ۲; باطل

۳۷۴

معبودوں كا متعدد ہونا ۸

خالقيت:خالقيت و الوہيت ۶

عقيدہ :باطل خداؤں كے عقيدہ كا باطل ہونا ۶; باطل عقيدہ ۶

سچا معبود:سچے معبود كى خالقيت ۳; سچے مبعود كى خالقيت كا واضع ہونا ۴; سچے معبود كى قدرت ۳

عمل:پسنديدہ عمل۷

مدد طلب كرنا :خالق سے مدد طلب كرنا۱۰

مشركين:مشركين كے معبود ۲،۵

معاشرت :آداب معاشرت۷

مقدسات:دوسروں كے مقدسات كا احترام ۷

آیت ۲۱

( أَمْواتٌ غَيْرُ أَحْيَاء وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ )

وہ تو مردہ ہيں ان ميں زندگى بھى نہيں ہے اور نہ انھيں يہ خبر ہے كہ مردے كب اٹھائے جائيں گے _

۱_ مشركين كے خدا، ايسے بے جان موجودات ہيں جن ميں شروع ہى سے زندگى كى رمق نہ تھى اورنہ ہى وہ حيات كى لياقت ركھتے ہيں _والذين يدعون من دون الله ...اموات غير ا حيائ

''اموات'' كے بعد ''غير احيائ'' كى عبارت كا ذكر ممكن ہے اس نكتے كى طرف اشارہ ہو كہ يہ موجودات مردہ ہونے كے علاوہ ، نہ سابقہ زندگى ركھتے تھے اور نہ انہيں حيات نصيب ہوگي_

۲_ مشركين كے خدا ، زمانہ قيامت كے وقوع اور اپنے حشر كے بارے ميں بالكل نا آگاہ تھے _

وما يشعرون ايّان يبعثون

مذكورہ بالا مطلب اس نكتہ پر موقوف ہے كہ جب ''يشعرون ''اور يبعثون'' فاعل كى ضيمر ك

۳۷۵

مرجع وہ باطل معبود ہوں جن كے بارے ميں ماقبل آيت ميں گفتگو ہوئي ہے_

۳_ مشركين كے معبودوں كى اپنے پرستش كرنے والوں كے حشر كے وقت سے ناآگاہى _وما يشعرون ايّان يبعثون

مذكورہ مطلب اس احتمال كى بناء پر ہے جب ''يبعثون'' كى ضمير كا مرجع وہى بتوں كى پرستش كرنے والے ہوں جو ''يدعون '' كى ضمير فاعلى ہيں _

۴_ جاندار ہونا اور قيامت كے وقت سے آگاہى ، الوہيت كى شرائط ميں سے ہے_

اموات غير احياء وما يشعرون ايّان يبعثون

چونكہ خداوند عالم نے مشركين كے معبودوں كى الوہيت كى نفى كے مقام پر انہيں ايسے مردوں سے تعبير كيا ہے جو ہر قسم كى حيات و شعور سے عارى ہيں لہذا اس سے استفادہ كيا جا سكتا ہے كہ خدا كے ليے صاحب حيات و علم ہونا ضرورى ہے_

۵_ مشركين، متعدد خداؤں كے حامل تھے_اموات غير احياء وما يشعرون ايّان يبعثون

الوہيت:الوہيت كى شرائط ۴

باطل معبود:باطل معبودوں كا بے جان ہونا ۱; باطل معبودوں كا متعدد ہونا ۵; باطل مبعودوں كى جہالت ۲،۳

حيات:حيات كا كردار

قيامت:قيامت كے وقت سے آگاہي۴;قيامت كے وقت سے لا علمى ۲،۳

آیت ۲۲

( إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَالَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِالآخِرَةِ قُلُوبُهُم مُّنكِرَةٌ وَهُم مُّسْتَكْبِرُونَ )

تمھارا خدا صرف ايك ہے اور جو لوگ آخرت پر ايمان نہيں ركھتے ہيں ان كے دل منكر قسم كے ہيں اور وہ خود مغرور متكبر ہيں _

۱_ انسانوں كا تنہا، حقيقى مبعود ، خدائے وحدہ لا شريك ہے_

۳۷۶

الهكم اله واحد

گذشتہ آيات جو كہ خداوند عالم كى صفات كے بارے ميں اور مشركين كے معبودوں كى نفى كے بارے ميں تھيں انہيں مد نظر ركھتے ہوئے اور اس آيت ميں '' معبود'' اور'' الہ'' كو ايك ذات ميں منحصر كرنے سے واضح ہو جا تا ہے كہ ''الہ'' يگانہ سے مراد ذات الہى ہے_

۲_ علم ، قدرت ، خالقيت اور حيات حقيقى خدا و معبود كى خصوصيات ميں سے ہے_

ا فمن يخلق كمن لا يخلق والله يعلم والذين يدعون من دون الله لا يخلقون شيئاً وهم يخلقون اموات غير احياء ...الهكم اله واحد

خداوند عالم كى برجستہ صفات كے بيان كے بعد ''الہكم الہ واحد'' كى عبارت كو لانا اور باطل معبودوں كے ضعف و نقائص كى ياد آورى ان كى گفتگو كے نتيجے كو ذكر كرنے كے قائم مقام اور مذكورہ نكتے كى طرف اشارہ ہے_

۳_ وہ لوگ جو آخرت پر ايمان نہيں ركھتے ان كے دل حق كو قبول نہ كرنے والے اور استكبار انہ روش كے مالك ہيں _

فاالذين لا يؤمنون بالآخره قلوبهم منكرة وهم مستكبرون

۴_خدائے وحدہ كو ثابت كرنے والے دلائل ، عالم آخرت پر ايمان كى بھى دليليں ہيں _

الهكم اله واحد فاالذين لا يؤمنون بالآخره قلوبهم منكرة

''فالذين '' كا ''فا'' خدائے وحدہ كے اثبات كے ليے ذكر كيے گئے روشن دلائل كے ليے نتيجہ كے مقام پر ہے اس آيت ميں ''فا''كے آنے كا مطلب يہ ہے كہ يہ دلائل عالم آخرت كو بھى ثابت كرتے ہيں ان كى طرف توجہ كے ذريعہ عالم آخرت پر بھى ايمان لانا چاہئے وہ لوگ ان دلائل كى طرف متوجہ ہونے كے با وجود ايمان نہيں لائے ، ان كے دل حق كے منكر ہيں _

۵_ حق قبول نہ كرنے والے قلوب ، عالم آخرت پر ايمان لانے كے ليے ركاوٹ ہيں _

الهكم اله واحد فاالذين لا يومنون بالآخرة قلوبهم منكرة

''فالذين'' ميں ''فا'' تفريع كے ليے ہے اور يہ دلالت كررہى ہے كہ ما قبل آيات ميں ثابت شدہ توحيد ،ايسى كا مل توحيد ہے كہ جس كے ساتھ آخرت پر ايمان لانا بھى شامل ہے لہذا جو لوگ آخرت پر ايمان نہيں لاتے وہ حق كو قبول نہ كرنے والے اور استكبارى قلوب جيسے موانع كے حامل ہيں _

۶_ تكبر اور احساس برترى ، عالم آخرت پر ايمان لانے سے مانع ہيں _فالذين لا يؤمنوں بالآخرة ''هم مستكبرون''

۳۷۷

۷_ حقائق كى قبوليت يا انكار كا مركز ، دل ہے_فاالذين لا يومنون بالآخره قلوبهم منكرة

۸_ حق قبول نہ كرنا ، مرض قلبى كى نشانى ہے_فاالذين لا يومنون بالآخرة قلوبهم منكرة

''لا يومنون'' ان كے اعيان نہ لانے كا فعل حق كو قبول نہ كرنے سے حكايت ہے اور ''منكرة ''كا معنى حق كے زير سايہ نہ جاناہے جو كہ ايك قسم كا مرض ہے_

آخرت:آخرت كا انكار كرنے والوں كا حق كا قبول نہ كرنا۳; آخرت كا انكار كرنے والے مستكبرين۳

استكبار :استكبار كے آثار۶

الله تعالى :الله تعالى كے مختصات۱

ايمان:آخرت پر ايمان لانے كے دلائل ۴;آخرت پر ايمان لانے كے موانع۵،۶; ايمان كا مقام۷

برحق وسچے معبود:سچے معبودوں كا علم ۲;سچے مبعود وں كى حيات ۲; سچے معبودوں كى خالقيت ۲; سچے معبودوں كى خصوصيات ۲; سچے معبود وں كى قدرت ۲

توحيد:توحيد عبادى ۱; توحيد كے دلائل ۴

حقائق:حقائق كو جھٹلانا ۷; حقائق كو قبول كرن

خود پسندي:خود پسندى كے آثار۶

قلب:دل كا كردار۷; دل كى بيماريوں كى علامت۸

مستكبرين:۳

۳۷۸

آیت ۲۳

( لاَ جَرَمَ أَنَّ اللّهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِينَ )

يقينا اللہ ان تمام باتوں كو جانتا ہے جنھيں يہ چھپاتے ہيں يا جن كا اظہار كرتے ہيں وہ مستكبرين كو ہرگز پسند نہيں كرتا ہے _

۱_ خداوند عالم ، يقينى طورپر ان تمام امور سے مكمل طور پر آگاہ ہے جہنيں آخرت كے منكرين ، پنہاں يا ظاہر كرتے ہيں _

لا جرم انّ الله يعلم ما يسّرون و ما يعلنون

''ما يسرّون و ما يعلنون'' ميں فاعل كى ضمير ماقبل آيت ميں''الذين لا يومنون بالآخرة'' كى طرف لوٹ رہى ہے_

۲_ خداوند عالم ، انسانوں كى نيّتوں اور باطنى حالات سے آگاہ ہے_لا جرم انّ الله يعلم ما يسّرون

۳_ خداوند عالم كا عالم آخرت كے منكرين كو خبر دار كرنا_فاالذين لا يومنون بالآخرة قلوبهم منكرة لا جرم انّ الله يعلم ما يسّرون وما يعلنون

منكرين آخرت كى تمام نيتوں اور ان كے كردار كے متعلق خداوند عالم كے يقينى علم كا اعلان، انہيں خبر دار اور دھمكى دينے سے كنايہ ہے_

۴_ منكرين قيامت كى نيتوں اور باطنى كيفيات سے خداوند عالم كى آگاہى كا سرچشمہ، اس كا علم غيب ہے_

فالذين لا يومنون بالآخرة قلوبهم منكرة لا جرم انّ الله يلعم ما يسرّون

۵_ مستكبرين ، خداوند عالم كى محبت سے محروم ہيں _انّه لا يحب المستكبرين

۶_ عالم آخرت كے منكرين ، خداوند عالم كى محبت سے محروم ہيں _

۳۷۹

فاالذين لا يومنون بالآخرة قلوبهم منكرة وهم مستكبرون ...انّه لا يحب المستكبرين

۷_ حق كے منكرين ، الله تعالى كى محبت سے محروم ہيں _

فاالذين لا يومنون بالآخرة قلوبهم منكرة وهم مستكبرون ...انّه لا يحب ّ المستكبرين

آخرت:آخرت كے جھٹلانے والوں كو انذار ۳; آخرت كے منكرين كى محروميت۶; آخرت كے منكرين كے راز،۱

الله تعالي:الله تعالى اور آخرت كے جھٹلانے والے ۱; الله تعالى اور معاد كے جھٹلانے والے ۴; الله تعالى اور نيّات ۲; الله تعالى كا علم غيب۱،۲،۴; الله تعالى كي محبت سے محروم۵،۶،۷; الله تعالى كے انذار۳

الله تعالى كے علم كا سرچشمہ:۴

ايمان:آخرت پر ايمان كى اہميت۶

حق:حق كو جھٹلانے و الوں كى محروميت۷

مستكبرين:مستكبرين كى محروميت۵

معاد:معاد كو جھٹلانے والوں كى نيتيّں ۴;معاد كو جھٹلانے والوں كے راز۴

آیت ۲۴

( وَإِذَا قِيلَ لَهُم مَّاذَا أَنزَلَ رَبُّكُمْ قَالُواْ أَسَاطِيرُ الأَوَّلِينَ )

اور جب ان سے پوچھا جاتا ہے كہ تمھارے پروردگار نے كيا كيا نازل كيا ہے تو كہتے ہيں كہ يہ سب پچھلے لوگوں كے افسانے ہيں _

۱_ منكرين آخرت ، قرآنى آيات كو خود ساختہ كلام اور گذشتہ افراد كے تحريف شدہ قصّے قرار ديتے تھے _

فاالذين لا يومنون بالآخرة قلوبهم منكرة واذا قيل لهم ما ذا انزل ربّكم قالوا اساطير الاّولين

''اسطورة '' كى جمع ''اساطير'' ہے جس كا معنى

۳۸۰

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779