تفسير راہنما جلد ۹

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 779

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 779 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 212529 / ڈاؤنلوڈ: 3605
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۹

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

''المیزان'' میں مرحوم علامہ طباطبائی کا کلام الٰہی کے امتحانوں کے سلسلہ میں تربیتی عنوان سے قابل توجہ ہے: ''... اس وجہ سے انسانوں کے لئے عام الٰہی تربیت حُسن عاقبت اور سعادت اس دعوت دینے کے اعتبار سے امتحان ہے کیونکہ انسان کے لئے حالات کو مشخص و معین اور آشکار کرتی ہے کہ آیا یہ شخص کس عالم سے متعلق ہے: عالم ثواب وا جزا یا عالم عقاب و سزا۔ اس وجہ سے خداوند متعال اپنے تصرفات کو حوادث کی تشریع اور توجیہ کے عنوان سے بلائ، ابتلأ اور فتنہ نام دیتا ہے، مثال کے طور پر عام عنوان سے فرماتا ہے: (اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً )(١) ''بے شک ہم نے روئے زمین کی ہر چیز کو زمین کی زینت قرار دیا ہے تاکہ ان لوگوں کا امتحان لیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے '' یا فرماتا ہے: (وَنَبْلُوکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَةً )(٢) ''... اور ہم اچھائی اور برائی کے ذریعہ تم سب کو آزمائیں گے...'' یافرماتا ہے:(اَنَّمَا اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَة )(٣) '' تمہارے اموال اور اولاد فتنہ ہیں'' وغیرہ۔

یہ آیات جیسا کہ آپ ملاحظہ کررہے ہیں انسان سے متعلق ہر مصیبت وبلا کو ''الٰہی امتحان وآزمائش'' شمار کرتی ہیں تمام امور کے لئے جیسے اس کا وجود، اس کے اجزا اور اعضاء جیسے آنکھ، کان یا اس کے وجود سے خارج چیزیں جو اُس سے مربوط ہیںجیسے اولاد بیوی، رشتہ دار، احباب، مال، جاہ و مرتبہ مقام اور وہ تمام امور کہ جن سے وہ کسی قسم کا فائدہ حاصل کرتاہے، اسی طرح ان کے مقابل امور جیسے موت اور تمام مصیبتیں ۔ ان آیات میں افراد کے اعتبار سے بھی ایک عمومیت پائی جاتی ہے یعنی مومن وکافر، نیکوکار اور گناہگار، انبیاء اور ان سے کم درجہ والے سارے افرادمعرض بلا و امتحان میں ہیں، لہٰذا یہ اﷲ کی ایک جاری وساری سنت ہے کہ کوئی اس سے الگ نہیں ہوسکتا''۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔکہف آیت ٧۔

٢۔ سورۂ انبیاء آیت ٣٥۔

٣۔سورۂ تغابن آیت ١٥ ۔

٤۔ المیزان ج٤ ص٣٦۔

۲۲۱

یہ بات کہ امتحان اور ابتلاء جملہ امور میں تمام افراد کے لئیاﷲ کی بلا استثناء ایک جاری سنت ہے ، ابتلا کے تربیتی روش سے منافات نہیں رکھتی، کیونکہ اس طرح کے امور کے ساتھ ہمارے طرز عمل کو ایک تربیتی طرز کے عنوان سے مانا جاسکتا ہے یعنی مشکلات میں صبر وتحمل اور نعمات میں شکر کہ جس کی بازگشت ہمارے طرز عمل ہی کی جانب ہے، خود اخلاقی تربیت کے عوامل میں محسوب ہوسکتا ہے: اور ہم قطعی طور پر تم کو کچھ چیزوں جیسے خوف،بھوک، اموال، نفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور ان صابروں کو بشارت دیدو، (وہی لوگ) کہ جب ان پر مصیبت پڑتی ہے، کہتے ہیں: ''ہم خدا ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جائیں گے''(١)

اس کے علاوہ اگرچہ آیات میں خیر وشر، نعمت ونقمت، سختی اور سہولت سب کو امتحان اور ابتلا کے مصادیق میں شمار کیا گیا ہے حتی کہ بعض روایات میں شکر و کشادگی کی منزل میں طرز عمل کو صبر وناگواری کے وقت سے زیادہ سخت جانا گیا ہے، لیکن جو چیز امتحان کے موقع پر افراد کی توجہ کا زیادہ تر مرکز ہوتی ہے وہ ناگوار ، رنج آمیز اور اندوہگین حوادث وواقعات کا مقابلہ کرنا ہے، چنانچہ مذکورہ آیت میں تصریح کی گئی ہے کہ خوفناک اور ہولناک امور، بھوک، دلبندوں اور عزیزوں کے فقدان، اموال اور سرمایہ حیات کی نسبت آفات وحوادث وغیرہ سے (کہ جنھیں اصطلاح میں ''مصیبت'' کہا جاتا ہے) تمھیں آزمائیں گے، ان امور کا مقابلہ کرنے کے لئے آمادگی اور اُن سے ہمارا طرز مقابلہ ان میدان کو ایک تربیتی اور اصلاحی مدرسہ بناسکتا ہے۔

ابتلاء اور سختیوں سے مقابلہ کے تربیتی علائم روایات میں یوں بیان ہوئیہیں: گناہ سے پاک ہونا، باطنی خاکساری وتذلل اور خارجی سرافرازی وسربلندی، کبرونخوت کا زائل ہونا، درجہ بلند ہونا، شدائد ومشکلات کے سامنے ثابت قدمی، آخرت اور خدا کی ملاقات کا اشتیاق۔

''...یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ خدا نے جو کچھ تمھارے دلوں میں ہے (عمل میں) آزمائش کرے اور جوکچھ تمہارے ضمیر کی حقیقت ہے اُسے آشکار کردے اور خدا سینوں کے اسرار سے آگاہ ہے''۔(٢)

____________________

١۔ سورہ ٔبقرہ آیت ١٥٥۔١٥٦۔

٢۔ (وَلِیَبْتَلِیَ اللّٰهُ مَا فِی صُدُوْرِکُمْ وَلِیُمَحِّصَ مَا فِی قُلُوبِکُم، وَاللّٰهُ عَلِیْم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ )(سورہ ٔآل عمران آیت ١٥٤)۔

۲۲۲

حضرت امام جعفر صادق ـنے بھی فرمایا: '' وہ لوگ آزمائش کی بھٹی میں آزمائے جائیں گے، جس طرح سونے کو بھٹی میں آزمایا جاتا ہے اور خالص کئے جائیںگے جس طرح سونا کھرا اور خالص کیا جاتا ہے''۔(١)

سید قطب کی تحریر کے مطابق: تمام وسائل پر حوادث کی ایک تربیتی وسیلہ کے عنوان سے فضیلت وبرتری یہ ہے کہ ایسی خاص حالت روح میں پیدا کرتے ہیں کہ گویا اس کو پگھلادیتے ہیں۔ حادثہ روح کو کامل طور سے جھنجھوڑدیتا ہے وردّ عمل (تاثیر وتاثر) ایک حرارت اس کے باطن میں ایجاد کردیتا ہے کہ کبھی نرم کرنے کے لئے یانرم کرنے کی حد تک پہنچنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ یہ حالت روح میں نہ ہمیشہ پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی نفس کے لئے آسان ہے کہ سکون واطمینان اور امن وامان یا راحت طلبی کی حالت میں اس تک پہنچ جائے۔

''... ایک مثل لوگ کہتے ہیں: جب تک لوہا گرم ہے کوٹ لو، () کیونکہ لوہے کی گرمی کے وقت اُس پر ہتھوڑا مارنا آسان ہے اور اسے جس شکل میں چاہے بدل سکتے ہیں... اس وجہ سے سختیوں اور حوادث سے استفادہ کرنا تربیت کے اہم مطالب میں سے ہے، کیونکہ نفس کے پگھلنے اور گداز ہونے کی صورت میں مربی تربیت دئے جانے والے کو ارشاد وتہذیب کے جس رنگ میں چاہے رنگ سکتا ہے وہ اس طرح کہ کبھی اس کا اثرزائل نہیں ہو گا یا کم ازکم جلدی زائل نہیں ہو گا''۔(٢)

اسی طرح سختیو ں سے استفادہ اور عیش وراحت سے دوری کو اس شیوہ کا مکمِّل (پوراکرنے والا) جانا جا سکتا ہے، سختیاں انسان کے گوہروجودکو جلابخشتی ہیں، اور اس میں نکھاراورچمک پیدا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ سختی، مقاومت کہ جوحادثوں اور سختیوں کی طوفان میں ہمیں حاصل ہو تی ہے، انسان کو نادرست اخلاقی میلانات اور رجحانات کے مقابل محفوظ رکھتی ہے اس وجہ سے روایات میں تاکیدکی گئی ہے کہ بچہ تھوڑا سا کو مشکلات اور سختیوں سے دوچارکرو۔

حضرت امام موسیٰ کاظم ـ فرماتے ہیں:

''بہترہے بچہ عہدطفولیت میںزندگی کی ناگزیرسختیوں اور مشکلوں کا سامنا کرے جو کہ حیات کا تاوان ہے تاکہ جوانی اوربڑھاپے میں بردباراورصابرہو'' ۔(٣)

____________________

١۔''یفتنون کما یفتن الذهب، یخلصون کما یخلص الذهب'' ۔(کافی ج١ص ٣٧٠۔)

٢۔ روش تربیتی اسلام، ص٢٨٧،٢٨٨۔

٣۔ وسائل الشیقہ، ج٥، ص١٢٦۔

۲۲۳

حضرت علی ـ فرماتے ہیں:

''جنگل، ہوا اور طوفان میں پرورش پانے والے درخت باغبا ن کے پر و ر دہ اور تروتازہ درختوں سے بہتر ہوتے ہیں''۔(١)

اسلام میں جہاد اسی زاویہ سے قابل تو جہ و تحقیق ہے دین کے دشمنوں سے جہاد اور مقابلہ خواہ صدر اسلام میں ہو یا بعد کے زمانوں میں ( بالخصوص آخری دفاع مقدس کے دوران) ایک تربیتی اور اخلاقی مدرسہ رہا ہے ، اور اخلاق کی بلندیوں پر فائز انسان اُس مدرسہ سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں:

''ہم یقینا تمہیں آزمائیں گے تاکہ تم میں سے مجاہدین اور صابرین کو جان لیں اور (اس طرح) تمھارے حالات کو باقاعدہ جانچ لیں ''۔(٢)

ڈاکٹر'' ویکٹور فرانکل ''سویڈن کا ماہر نفسیات ہے اور ہیومنسٹ معالجین میں سے محسوب ہوتا ہے اور خود بھی ایک طولانی مدت تک جرمنی کے نازیوں چھائونی میں دوسری عالمی جنگ میں اسیر رہا ہے، اس نے اپنی آنکھوں سے جو انسان سوزی کی بھٹیاں دیکھیں اور بھوک، سردی، بیماری اور سخت ترین رنج والم اٹھائے لیکن اس کی جان بچ گئی۔ چھائونی سے آزاد ہونے کے بعد اُس نے اپنے معنوی علاج کے مکتب ( Logothrapy )کی بنیاد ان تین راہوں میں سے ایک راہ کے کشف وتفہیم پر رکھی:

١: ۔اچھے امور کا انجام دینا۔

٢: ۔تجربۂ اعلیٰ جیسے عشق۔

٣رنج والم برداشت کرنا۔

وہ تیسری راہ کی وضاحت میں کہتا ہے: رنج والم کابرداشت کرنا انسان کی بہترین وجودی جلوہ گاہ ہے اور جو بات اہم ہے وہ انسان کا رنج والم کے ساتھ فکر اور سلوک کا انداز ہے۔ ہدف زندگی رنج والم سے فرار کرنا نہیں ہے، بلکہ زندگی کو بامعنی بنانا ہے کہ اُسے واقعی مفہوم عطا کرے۔ ہر چیز کو ایک انسان سے لیاجاسکتا ہے مگر انسان کی آخری آزادی کو اس کی رفتار کے انتخاب میں ڈاسٹایوفسکی کے بقول: میں صرف ایک چیز سے ڈرتاہوں اور وہ یہ کہ اپنے رنج والم کی شایستگی اور لیاقت نہ رکھوں۔(٣)

____________________

١۔ نہج البلاغہ، نامہ، ٤٥۔

٢۔ سورہ ٔمحمد آیت٣١۔

٣۔ دیکٹور فرانکل: انسان درجستوی معنا۔

۲۲۴

د ۔معاشرت و مجالست:

اخلاقی ملکات کے رسوخ کے لئے ایک دوسرا عملی شیوہ صالح اور اخلاقی فضائل کے حامل افراد کے ساتھ زندگی گذارنا اور ناپاک نیز اخلاقی رذائل میں مبتلا افراد کی مجالست وہمنشینی سے اجتناب کرنا ہے، نفس شناسی کے دلائل بہت سی جہتوں سے قابل توجہ ہیں کہ جو تفصیل اور تکرار کے محتاج نہیں ہیں، منجملہ ان کے تقلید اور دوسروں کے اعمال کا مشاہدہ (باندوار کا نظریہ)،قوت بخش چیزوں کے وجود کے ساتھ ماحول سازی اور تداعی (موافقت وہماہنگی) کی ایجاد (ا سکینر کا فعال ماحول سازی کا نظریہ ، یعنی مثال کے طور پر ایک اچھے اور صالح گروہ میں اگر ایک اچھا باعمل انسان سے صادر ہو تو دیگر تمام افراد کے ذریعہ اس کی تقویت کی جائے)۔ (نظریہ تسہیل اجتماعی )(١) ہے (دوسروں کا وجود حتی غیر فعال تماشائیوں کا وجود انسان کی فعّالیت کو قوت بخشتا ہے (کیونکہ انسان کے مقصد کو بلندی عطا کرتا ہے) ۔

آیات وروایات میں نیکو کاروں کی معاشرت اخلاقی تربیت کے ایک شیوہ کے عنوان سے مورد تاکید واقع ہوئی ہے اور بزرگوں نے بھی اس سلسلہ میں مستقل کتابیں تالیف کی ہیں۔

قال الحواریون لعیسیٰ ـ: یاروح اللّٰہ مَن نجالسُ اذاً؟ قال: من یذکرکم اللّٰہ رؤیتہ ویزید فی عملکم منطقہ ویرغبکم فی الآخرة عملہ۔(٢) حواریوں نے حضرت عیسیٰ ـ سے پوچھا:

اے روح اﷲ! اس وقت ہم کس کے ساتھ ہمنشینی رکھیں؟ انھوں نے فرمایا: جس کا دیدار تمھیں اﷲ کی یاد دلائے، جس کی بات تمھارے علم میں اضافہ کرے اور جس کا عمل تمھارے اندر آخرت کے متعلق رغبت پیدا کرے۔

یا ابن مسعود، فلیکن جلساؤک الابرار واخوانک الاتقیاء والزهاد لانّ اللّٰه تعالیٰ قال فی کتابه : (الاخلاء یومئذ بعضهم لبعض عدو الّا المتقین(٣) اے ابن مسعود! تمھارے ہمنشین نیک لوگ ہونے چاہئیں اور تمھارے بھائی (دوست) متیقن وزاہدین ہونے چاہئیں اس لئے کہ تم خدائے تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے: ''اس دن صاحبان تقویٰ کے علاوہ تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیںگے'' ۔

____________________

١۔زمینہ روانشناسی ج٢ ص٢ ٣٧۔

٢۔ بحار الانوار ج٧٧ ص١٤٧۔

٣۔ بحار الانوار ج٧٧ ص١٠٠۔

۲۲۵

امام علی ـ:جالس العلماء تزدد حلماً ۔(١) علمائے کی ہمنشینی اختیار کرو کہ ان کی ہمنشینی حلم میں اضافہ کرتی ہے۔

امام حسین ـ:مجالس الصالحین داعیة الی الصلاح ۔(٢) صالحین کی مجالس (نشست) صلاح ونیکی کی طرف دعوت دیتی ہے۔

امام علی ـ:جالس العلماء یزددعلمک ویحسن ادبک وتزکوا نفسک ۔(٣) علماء کی ہمنشینی اختیار کرو کہ اس سے تمھارے علم میں اضافہ ہوگا، تمھارا ادب اچھا ہوگا اور تمھارا نفس پاک ہوگا۔

امام علی ـ:علیک باخوان الصدق فاکثر من اکتسابهم فانّهم عدة عند الرخاء وجُنَّة عند البلائ ۔(٤) تم پر سچے (نیک) دوستوںکی ہمنشینی لازم ہے پس ان سے زیادہ زیادہ سے زیادہ کسب فیض کرو اس لئے کہ وہ آسائش کے وقت وسیلۂ دفاع ہیں اور مصیبت کے وقت سپر ہیں۔

امام علی ـ:جانبوا الاشر وجالسوا الاخیار ۔(٥) بروں سے پرہیز کرو اور نیکوں کی ہمنشینی اختیار کرو۔

حضرت امام محمد باقرـ:لاتقارن ولاتواخ اربعة: الاحمق والبخیل والجبان والکذاب ۔(٦) چار افراد سے ہمنشینی اور دوستی اختیار نہ کرو: احمق، کنجوس، ڈرپوک اور جھوٹے سے۔

امام علی ـ:مجالسة اهل الهویٰ منساة للایمان ۔(٧) خواہش پرست کی ہمنشینی ایمان کو بھلادیتی ہے۔

____________________

١۔ غرر الحکم فصل ٣ص ٤٧۔

٢۔ بحار الانوار ج٧٨ ص١٤١۔

٣۔ غرر الحکم فصل ١ص ٤٣٠۔

٤۔ بحار الانوار ج٧٤ ص١٨٧۔

٥۔ غرر الحکم

٦۔ بحار الانوار ج٧٤ ص١٨٧۔

٧۔ نہج البلاغہ ج٨٦۔

۲۲۶

۴: ۔ تشویق اور تنبیہ کا طریقہ

''تشویق ''لغت میں آرزومند کرنے، شوق دلانے اور راغب کرنے کے معنی میں ہے۔(فرہنگ معین)

یہاں پر ''تشویق'' سے مراد انسان کی درخواست سے متعلق اور مطلوب امور سے عمل انجام دینے کے بعد عمل کے اضافہ یا اس کی تثبیت کے لئے استفادہ کرناہے۔

''تنبیہ''بھی لغت میں آگاہ کرنے، بیدار کرنے، تادیب اورسزادینے کے معنی میں ہے (فرہنگ معین)۔ یہاں پر تنبیہ سے مراد انسان کے لئے تکلیف دہ اسباب ووسائل سے عمل انجام دینے کے بعد عمل کو دور یا کم کرنے کے لئے استفادہ کرناہے۔ اس وجہ سے تشویق یا تنبییہ کو خود انسان یا دوسروں کے ذریعہ عملکو کنٹرول کرنے کا ایک سسٹم جاننا چاہئے کہ پسندیدہ یا ناپسندیدہ عمل کے بعد اس عمل کی زیادتی یا کمی کے لئے ان چیزوں کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔

تشویق یا تنبیہ کا نفسیاتی مبنیٰ، فعال ماحول سازی کے نظریہ کے مطابق، درج ذیل آزمائشوں پر استوار ہے:

١ ۔ہر جواب جو ایک قوت بخش محرک کے نتیجہ میں حاصل ہو، اس کی تکرار کی جاتی ہے ۔

٢ ۔قوت بخش محرک ایک ایسی چیز ہے کہ جواب ملنے کے احتمال کو بڑھاتا ہے۔

٣۔ان قوت بخش چیزوں جو ذاتی طور پر تقویت کرنے کی خاصیت کے حامل ہیں،اولین یا غیر شرطی قوت بخش کہتے ہیں، اوّلین مثبت قوت بخش جاندار کی جسمانی قوت ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں جیسے: پانی، غذا، ہوا، وغیرہ۔ اوّلین منفی قوت بخش چیزیں ذاتی طور پر تکلیف دہ خاصیت رکھتی ہیں جیسے: مارپیٹ، گالم گلوج ، زیادہ حرارت اور زیادہ نور وغیرہ۔

٤ ۔ثانوی یاشرطی قوت بخش چیزیںوہ ہیں جو کلاسیک ماحول سازی (اوّلین بخش چیزوں کے ساتھ ہمراہی چیزوں کے ساتھ ہمراہی اور تداعی ) کے اصول کے مطابق تقویت کرنے کی خاصیت رکھتی ہیں جیسے: روپیہ، انعام، نمبر وغیرہ ۔

٥ ۔اگر کوئی رفتار کسی چیز کی تقویت سے بڑھ جائے اور اسے ایک مدت تک تقویت نہ کریں، تو وہ تدریجاً موقوف ہوجائے گی کہ اُسے ''خاموشی''بھی کہتے ہیں۔

٦ ۔تنبیہ، ایک نادرست اورنامطلوب رفتار کے دور کرنے کے لئیتکلیف دہ محرک وسبب کے واردکرنے کے معنی میں ہے۔

۲۲۷

٧ ۔ کبھی کبھی تقویت مسلسل تقویت سے زیادہ اثر رکھتی ہے، لہٰذا اگر مربی (تربیت دینے والا) ہر بار مطلوب اور پسندیدہ رفتار کے ظاہر ہونے کے بعد جزاوسزا دے، تو ناخواستہ طور پر اس کے وقوع کا احتمال کم ہوتا جائے گا، لیکن اگر مربی کبھی کبھی چند بار مطلوب رفتار انجام دینے کے بعد جزا دے، تو اس کے توقعکا احتمال زیادہ ہوجائے گا زیادہ موثر یہ ہے کہ تربیت کی ابتدا میں مسلسل جزا ہو اور رضایت بخش سطح تک پہنچنے کے بعد نوبت وار کبھی کبھی ہوجائے ۔

٨۔ آغاز میں اجتماعی قوت بخش (ستائش، تائید اور مسکراہٹ وغیرہ) محسوس طور پر قوت بخش چیزوں کے ساتھ استعمال کی جائے اور اس کے بعد محسوس قوت بخش چیزیں ترک کردی جائیں ، آیات وروایات میں تشویق وتنبیہ کے تربیتی کردار پر تاکید کی گئی ہے۔

حضرت امیر المومنین علی ـ مالک اشتر کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''تمہارے نزدیک نیکو کار اور بدکاریکساں نہ ہوں، کیونکہ یہ امر (یکساں قرار دینا) نیکو کاروں کے نیکی ترک کرنے اور نااہلوں کی بدکاری میں اضافہ کا باعث ہوگا، لہٰذا ادب کی رعایت کے لئے ان میں سے ہر ایک کے ساتھ حالات کے مطابق برتائو رکھو''۔(١)

''نیکوکاروں کی اصلاح ان کا ادب و احترام کرنے سے ہوتی ہے اور بدکاروں کی اصلاح ان کی تادیب کرنے (سزا دینے)سے''۔(٢)

''جوکچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے وہ سب خدا کے لئے ہے، تاکہ جن لوگوں نے برا کیا ہے وہ ان کے کرتوت کی انھیں سزا دے اور جن لوگوں نے احسان ونیکی ہے انھیں اچھا بدلہ دے ''۔(٣)

''خداوند سبحان نے جزا اپنی اطاعت پراور سزا اپنی معصیت پر قرار دی ہے، تاکہ اپنے بندوں کو اپنے عذاب سے باز رکھے اور بہشت کی طرف روانہ کرے''۔(٤)

____________________

١۔ بحار الانوار ج٧٧ ص٤٦۔

٢۔''استطلاح الاخیار باکرامهم والاشراربتأدیبهم'' (بحار الانوار ج٧٨ ص٢٤٥)۔

٣۔ سورہ ٔنجم آیت ٣١۔

٤۔ نہج البلاغہ حکمت ٣٦٨۔

۲۲۸

ادیان الٰہی اور اسلام میں قانون عذاب وثواب کو دو اعتبارسے دیکھا جاسکتا ہے

: اول

یہ کہ ان کا اعلان کرنا انذار وتبشیر کا پہلو رکھتا ہے ، دوسرے یہ کہ ثواب وعقاب کی واقعیت عینی ہے کہ اُن میں سے بعض دنیا میں (جیسے سکون واطمینان، راحت وچین ، زندگی کی آسائش اور عیش وعشرت کو احساس ) اور درک کرتا ہے، اس لحاظ سے تشویق وتنبیہ اُن دونوں کی تطبیق واقع سے دور نہیں ہے۔ اُس کا اخروی حصہ جیسے حور وقصر ومحلات وغیرہ بھی ایمانی بصیرت (انسان کا دوسرے عالم اور وعدہ الٰہی کے قطعی ہونے اور اس بات پر اعتقاد رکھنا کہ انسان اپنے اعمال سے اس ثواب یاعقاب کو اس وقت بھی عینی تجسم بخشتا ہے ) کے اقتضا کے مطابق حاضر وموجود ہیں اور انھیں بھی تنبیہ وتشویق کے مصادیق میں شمار کرسکتے ہیں۔ اس بناپر بہشت ودوزخ اور ا ﷲ کے وعدہ و وعید سے متعلق تمام آیات ایک طرح بندوں کی تشویق اورتنبیہ کے لئے ہیں تاکہ وہ اپنی عادت اور روش کو بدل ڈالیں اور فلاح وکامیابی اور فضائل اخلاقی کے حامل ہونے کی راہ میں گامزن ہوجائیں۔ لیکن ان لوگوں کے لئے جن کا عقیدہ وایمان کمزور ہے، ان کے لئے وہ آیات انذار وتبشیر ہی کی حد میں ہوں گی ۔

دوسرانکتہ

جس کی ہمیں تاکید کرنی ہے یہ ہے کہ یہاں پر تشویق، ترغیب اور تحریض (ابھارنے) کے علاوہ ایک چیز ہے، تشویق عمل انجام دینے کے بعد کی چیز ہے، لیکن ترغیب وتحریض قبل ازعمل سے مربوط ہیں۔ تشویق وتنبیہ کے وہ طریقے جن میں ایک طرح منطقی ترتیب کا لحاظ کیا جاسکتا ہے، درج ذیل ہیں:

الف ۔ عاطفی توجہ:

محبت آمیز نگاہ ، مسکرانا، اور ہر قسم کی تائید ، مہر ومحبتاور طلف کا احساس تربیت پانے والے کو عزت نفس کے عمیق احساس میں مبتلا کردیتاہے، کیونکہ ہر انسان حُبّ ذات کے زیر اثر غیروں کی محبت اورتوجہ حاصل کرنے کا محتاج ہوتا ہے۔(١) درج ذیل آیات اس سلسلہ میں قابل توجہ ہیں: (وَاخْفِضْ جِنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ المُؤمِنِیْنَ )(٢) ''اور جو صاحبان ایمان آپ کی اتباع کرلیں ان کے لئے اپنے شانوں کو جھکادیجئے''۔

____________________

١۔اس بات کی مزید توضیح ''تکریم شخصیت کی روش ''کی بحث میں گذر چکی ہے۔

٢۔ سورہ ٔشعراء آیت٢١٥۔

۲۲۹

(وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰواةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهُ وَلَاتَعْدُ عَیْنَاکَ عَنْهُمْ )(١)

''اور اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ صبر آمادہ کرو جو صبح وشام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اسی کی مرضی کے طلبگار ہیں اور خبردار تمھاری نگاہیں ان کی طرف سے نہ پھرجائیں...''۔

ان آیات میں خداوند متعال اپنے مہربان حبیب سے چاہتا ہے کہ مومنین کے لئے لطف ومرحمت کے بازو جھکادیں، ان کی طرف سے چشم محبت نہ ہٹائیں اوران کے ساتھ ہمراہی اور صبر وشکیبائی کریں دوسری آیت میں اپنے رسول کی بلند ترین ان صفات کے حامل ہونے اور مومنین کے ساتھ ایسی معاشرت رکھنے پر معاملات کرنے کی توصیف کرتا اورفخرو مباہات کرتا ہے:

''یقیناً تمھارے پاس تمھیں میں سے وہ پیغمبر آیا ہے کہ تمہاری ہر مصیبت پراس کے لئے بہت ناگوار ہے وہ تمہاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مومنین پر دلسوز ومہربان ہے''۔(٢)

جی ہاں، وہ روح پرورنگاہ جو انسانوں پر عشق ومحبت کے ساتھ پڑتی ہے، انسان کو متحرک کرنے کے لئے کافی ہے اور بلال وسلمان کی صف میں بٹھادیتی ہے۔

ب ۔ زبانی تشویق:

تعریف وتمجید ، دعا، شکریہ ادا کرنا اور زبانی قدردانی بھی اُن عام وسائل اور اسباب میں سے ہیں کہ بلند مقاصد اور گرانمایہ اخلاقی اعمال تک رسائی کے لئے اُن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے خداوند عالم اپنے پیغمبر سے چاہتا ہے کہ مومنین سے زکات لینے کے بعد ان کے لئے دعا کریں۔(٣)

حضرت امیر المومنین علی ـ نے بھی مالک اشتر سے خطاب کرتے ہوئے انھیں اس نکتہ کی یاد آوری کی ہے:

... ان کی پے درپے تشویق کرو اور جو انھوں نے اہم کام انجام دئے ہیں انھیں شمار کرو (اہمیت دو) کیونکہ ان کے نیک کاموں کی یاد آوری ان کے دلیروں کو زیادہ سے زیادہ حرکت کرنے پر ابھارتی ہے، اور وہ لوگ جو کام میں سستی کرتے ہیں انھیں کام کرنے کا شوق پیدا ہوگا، انشاء اﷲ ۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔکہف آیت٢٨۔ ٢۔ سورہ ٔتوبہآیت ١٢٨۔٣۔ سورہ ٔتوبہ آیت ١٠٣۔ ٤۔ نہج البلا غہ نامہ ٥٣۔

۲۳۰

زبانی تشویق میں اہم نکتہ یہ ہے کہ اور موقع ومحل سے اس حد تک استفادہ ہو اور افراط وتفریط یا چاپلوسی کی حالت پیدا نہ ہو امام علی ـ نے فرمایا ہے:

جب تم تعریف وثنا کر و تو اختصار پر اکتفاکرو۔(١)

سب سے زیادہ بے عقلی اور حماقت، تعریف وستائش یا مذمت میں زیادتی کرناہے۔(٢)

''استحقاق سے زیادہ تعریف کرناچاپلوسی ہے اور اس (استحقاق) سے کم تعریف کرنا حسد یا عاجزی کی علامت ہے''۔(٣)

بہت سے افراد اپنی تعریف وتمجید ہونے سے مغرور ہوجاتے ہیں۔(٤)

ج ۔ عملی تشویق:

انعام، ہدیہ، تحفہ وغیرہ دینا، نمبر، تنخواہ یا حقوق یا مزدوری میں اضافہ کرنا، سیاحت اور تفریح کے لئے لے جانا، کھیلنے کی یا دوستوں کے ہمراہ باہر جانے کی اجازت دیناوغیرہ ، یہ سب عملی تشویق شمار ہوتی ہے کہ موقعیت کے اعتبار سے ان کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔

پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی سیرت میں ایسے متعددمقامات پائے جاتے ہیں کہ کسی ایک آدمی کے نیک عمل کا مشاہدہ کرنے کے بعد اُسے صلہ اورہدیہ دیتے ہیں حتی کبھی اپنا لباس بھی دیدیتے تھے، جیسے کمیت بن زیاداسدی کی داستان کہ حضرت امام زین العابدین ـ کی خدمت میں پہنچے اور کہا: میں نے آپ کی مدح وثنا میں کچھ اشعار کہے ہیں اور چاہتا ہوں کہ انھیں پیغمبر سے تقرب کا وسیلہ قراردوں۔پھر اپنا معردف قصیدہ آخرتک پڑھا، جب قصیدہ تمام ہو گیا، امام ـ نے فرمایا: ''ہم تمہاری جزا نہیں دے سکتے، امید ہے کہ خداوندعالم تمہیں جزادے۔''پھر اس کے بعد اپنے بعض لباس انھیں دیدیئے اوراُن کے حق میں اس طرح دعا کی: ''خدا یا! کمیت نے تیرے پیغمبر کے خاندان کی نسبت، اس حالت میں نیک فریضہ اداکیا کہ اکثرلوگوں نے اس کام سے نجل کیا اور شانہ خالی کیا ہے جوحق دوسروں نے پوشیدہ رکھا تھا اس نے آشکار کردیا۔ خدایا! اسے سعادت مندزندگی عطا کر اور اُسے شہادت نصیب کر اور اُسے نیک جزا دے کہ ہم اُس کی جزا نہیں دے سکتے جزا ور ناتواں ہیں۔

____________________

١۔ ''اذا مدحت فاختصر ''(غرر الحکم، فصل ٤ص٤٦٦)۔٢۔ ''اکبر الحمق الاغراق فی المدح والذم '' (غرر الحکم، فصل ٧ص٧٧)۔٣۔''الثناء بأکثر من الاستحقاق ملق والتقصیر عن الاستحقاق عیّ أوحسد'' (بحارالانوار ج٧٣ص ٢٩٥)۔٤۔''رُبّ مفتون بحسن القول فیه'' (بحارالانوار ج٧٣ص ٢٩٥)۔

۲۳۱

کمیت نے بعد میں کہا: ''میں ہمیشہ ان دعائوں کی برکت سے بہرہ مند رہا ہوں'' حضرت نے اس طریقہ سے کمیت کی روح شجاعت اور حق گوئی کی تشویق اور تائیدکی۔ اسی کے مشابہ داستان حضرت امام علی رضا ـ کے بارے میں بھی دعبل خز اعی کی نسبت ہے جب وہ قصیدہ پڑھ چکے تو حضرت نے وہ دس ہزار درہم کہ جن پر آپ کا نام کندہ تھا اُنھیں عطا کیا اور دعبل نے ہر درہم کو اپنی قوم کے درمیان (دس) درہم میں فروخت کیا۔(١)

درج ذیل نکات کی رعایت تشویق کی تاثیرمیں اضافہ کرتی ہے:

١۔تشویق ابھارنے اور قوت بخشنے کا ذریعہ ہے لہٰذا خودوہی ھدف نہیں بن جانا چاہئیکہ اور تربیت پانے والے کے تمام افکار داذہان کو اپنے ہی لئے سرگرم رکھے۔ تشویق کبھی کبھی کرنا، اس کا فیزیکی سطح سے اجتماعی ومعنوی بلندی کی طرف لے جانااور تشویق کا مستحق ہونا (رشوت کی حالت کا نہ رکھنا ) ایک حدتک مذکورہ اشکال واعتراض کو برطرف کردیتاہے۔

٢۔ تربیت پانے والے کو تشویق کی علت مکمل طور پرواضح اور معلوم ہونی چاہئے۔

٣۔تشویق موقع ومحل کے اعتبار سے ہو تاکہ کار آمد اور موثر ثابت ہو۔

٤۔تشویق کرتے وقت اُس کا کسی دوسرے سے مقائسہ اور موازنہ نہیں کرنا چاہئے ؛کیونکہ اُس پر بُرااثرپڑے گا۔

٥۔ مجمع میں تشویق وتحسین کرنا زیادہ اثر رکھتا ہے کیونکہ دوسروں کو بھی آمادہ کرتا ہے۔

د۔ جزاسے محرومیت اور نیکو کار کو جزادینا:

اس مرحلہ کے بعد تبنیہ کے طریقوں میںداخل ہو جائیں گے۔ مربی تربیت دئے جانے والے کی نا شائستہ حرکات وسکنات کو ختم کرنے کے لئیاسے ان بعض جزائوں اورمواہب سے محروم کردے جن کی وہ امید رکھتا ہے یایہ کہ نیکوکاروں کو جزادے کر اُسے اپنی محرومیت کی جانب متوجہ کرے اور اس کے اشتباہ وخطا کی نشاندہی کرے۔حضرت علی ـ کے گہربار اور زریں کلام میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ''نیکو کار کو جزا دے کر بدکار کو ان کی بدکاری سے روک دو''۔(٢)

____________________

١۔عیون اخبارالرضا ـ، ج١، ص١٥٤۔

٢۔ ''از جرالمسء بثواب المحسن''بحار، ج٧٥، ص٤٤، باب ٣٦

۲۳۲

(اَفَمَنْ کَانَ مُؤمِناً کَمَنْ کَانَ فَاسِقاً لَایَسْتَوُونَ(١)

''کیا وہ شخص جو صاحب ایمان ہے اس کے مثل ہوجائے گا جو فاسق ہے؟ ہرگز نہیں ، دونوں برابر نہیں ہوسکتے''۔

(لَایَسْتَوِی اَصْحَابُ النَّاسِ وَاَصْحَابُ الْجَنََّةِ ۔۔۔)(٢)

''اصحاب جنت اور اصحاب جہنم ایک جیسے نہیں ہوسکتے''۔

(وَمَایَسْتَوِی الاعمیٰ والبصیروالّذین آمنواوعملواالصالحات ولاالمسء قلیلا ماتتذکرون(٣)

''اور یاد رکھو کہ اندھے اور نابینا برابر نہیں ہوسکتے ہیں اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کئے ہیں وہ بدکاروں جیسے نہیں ہوسکتے ہیں، مگر تم لوگ بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو''۔

خداوند عالم ان آیات میں واضح طورپر نیکوکاروں اوربدکار روں کے مسادی نہ ہو نے کا اعلان کرتا ہے، اس سے اس کا مقصود یہ ہے کہ سب جان لیں کہ اچھے لوگوں کے لئے جزا ہے اور ناشائستہ اور قبیح اعمال والوں کے لئے محرومیت کے سوا کچھ نہیں ہے۔

ہ۔جرمانہ اور تلافی:

جرمانہ نمبرکم کرنے ، پیسہ دینے، دوستوں کے لئے مٹھائی خریدنے وغیرہ کی صورتوں میں ہوتا ہے۔ تلافی جیسے اس انسان سے عذر کرنا جس کی توہین کی ہے یا جس جگہ کوئی نقصان پہنچایا ہے اس کی تعمیر کرے یا مرمت کرے جرمانہ کے سلسلہ میں توجہ رکھنا چاہئے کہ ادا کرنے یا کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اوربے چارگی اوربیزاری کی حالت پیدا نہ ہو۔ جرمانہ کے شیوہ سے استفادہ کی شرط یہ ہے کہ انسان کی ایک مدت تک تقویت کی جائے تاکہ پہلے جو اُسے جزائیں دی گئی ہیں بعد میں اُس سے واپس لی جاسکیں۔

اسلام میں دیت کاقانون اس کے حقوقی جنبہ کے علاوہ تربیتی جنبہ سے بھی ایک قسم کا جرمانہ حساب ہوتا ہے۔

و۔ سرزنش وتوبیخ اور جسمانی توبیخ وتنبیہ:

توبیخ ، غیض وغضب کی نظر سے شروع ہوتی ہے اور علانیہ توبیخ تک پہنچتی ہے۔(٤)

____________________

١۔ سورئہ سجدہ، آیت ١٨۔ ٢۔ سورہ ٔحشرآیت ٢٠۔

٣۔ سورہ ٔغافر، آیت ٥٨۔ ٤۔ ایک اعتبار سے مخفی اور پوشیدہ توبیخ کو جرمانہ اور تلافی سے قبل جاننا چاہئے)۔

۲۳۳

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''عقلمندوں کی سزا کنایہ اور اشارہ کی صورت میں ہوتی ہے اورنادانوں کی سزا واضح اور صریح انداز میں ہوتی ہے۔(١)

''تعریض (کنایہ میں توبیخ کرنا) عقلمند کے لئے آشکار توبیخ سے کہیں زیادہ سخت ہے''(٢)

حضرت امام جعفر صادق ـ ''شعرانی'' جوکہ پیغمبر کے چاہنے والوں میں سے تھے، خلوت میں بالواسطہ طور پر نصیحت کے ذریعہ انھیں ان کے ناپسند عمل (شرابخوری ) کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''اچھا کام سب کے لئے اچھا ہے اور تمہارے لئے سب سے بہتر ہے اس انتساب کی وجہ سے جو تم ہم (اہل پیغمبر)سے رکھتے ہو اور برا کام سب کے لئے برا ہے لیکن تم سے سب سے زیادہ برا ہے اس انتساب کی وجہ سے کہ جو تم ہم سے رکھتے ہو''۔(٣)

جسمانی تنبیہ سب سے آخری مرحلہ میں ہے کہ گذشتہ مراحل میں ناکامی کی صورت میںخاص شرائط وحالات پائے جانے کی صورت میں اُس سے استفادہ ہوتا ہے، تنبیہی طریقہ کلی طریقے پر اور جسمانی تنبیہ خاص طور پر صاحبان نظر کے نزدیک محل اختلاف میں ہے، بعض جیسے سعدی ومولوی جسمانی تنبیہ کے طرفدار تھے، اور اس سے استفادہ کو جائز سمجھتے ہیں کہ بعض دیگر جیسے غزالی، بوعلی اور ابن خلدون نے مربی کو جسمانی تنبیہ سے تین بار سے زیادہ یا غصہ کی حالت میں روکا ہے۔(٤)

ماہرین نفسیات کے درمیان بھی بعض جیسے رین اور ہولز خاص شرائط وحالات پائے جانے کی صورت میں تنبیہ سے استفادہ کو رفتار تغییر کے معاملہ میں مفید جانتے ہیں(٥)

____________________

١۔''عقوبة العقلاء التلویح وعقوبة الجهال التصریح ''(میزان الحکمة ج١ص ٧٢)۔

٢۔''التعریض للعاقل اشد من عقابه'' (میزان الحکمة ج١ص ٧٢)۔

٣۔''یا شقر ان انّ الحسن لکل احد حسن وانه منک احسن لمکانک منّا وان القبیح لکل احدٍ قبیح وانّه منک اقبح'' (بحار الانوار ج٤٧ ص٣٤٩ باب ١١)۔

٤۔ نقش تربیت معلم، دفتر ہمکاری حوزہ ودانشگاہ۔

٥۔ ہیلگارد:روان شناسی یادگیر ص ٣٣٧۔

۲۳۴

اس کے باوجود اکثر ماہرین نفسیات رفتار کی تبدیلی اور تربیت کے لئے تنبیہ سے استفادہ کے مخالف ہیں۔

ا سکینرنہایت تاکید کے ساتھ تنبیہ سے استفادہ کو کلی طور پر خطرناک ، نامطلوب اور بے اثر شمار کرتا ہے اور متعدد دلائل بھی اپنے مدعا کے لئے پیش کرتا ہے:(١)

١ ۔تنبیہ دوسرے نامطلوب مضر آثار کا پیش خیمہ ہوتی ہے، جیسے عمومی خوف۔

٢ ۔تنبیہ اجسم کو پتہ دیتی ہے کہ کیا کام نہ کرے نہ یہ کہ کیا کام کرے۔

٣ ۔تنبیہ دوسروں کو صدمہ پہنچانے کی توجیہ کرتی ہے۔

٤۔تربیت پانے والا اگر مشابہ موقعیت میں واقع ہو جائے اور قابل تنبیہ نہ ہوتو ممکن ہے وہ اسی کام کے کرنے پر مجبور ہوجائے۔

٥ ۔تنبیہ، تنبیہ کرنے والے اور دوسروں کی نسبت پر خاش ایجاد کرتی ہے۔

٦ ۔تنبیہ عام طور پر ایک نامطلوب جواب کو دوسرے نامطلوب جواب کا جانشین بنادیتی ہے، جیسے بد نظمی کی جگہ رونا۔

ا سکینر اس کے بعد تنبیہ کے لئے بہت سی جانشین چیزوں کا ذکر کرتا ہے، جیسے ایسے مقتضیات کی تبدیلی جو نامطلوب رفتار کا باعث ہوتی ہے اور ناموافق رفتار کی نامطلوب رفتار سے تقویت ، آخر میں نتیجہ نکالتا ہے کہ نامطلوب عادات کے ختم کرنے کا بہترین طریقہ انھیں نظرانداز کرنا یا پھرخاموشی (تغافل اسی کے مانند ہے) اسلام کی نظر میں(٢) اگرتربیت نچلے درجوں اور طریقوں سے ممکن ہو تو جسمانی تنبیہ سے استفادہ جائز نہیں ہے اور اس کے علاوہ جسمانی تادیب اور تنبیہ (اس شرط کے ساتھ کہ اس حد میں نہ ہو کہ دیت لازم آجائے تو) جائز ہے انسان کے ولی کے علاوہ کی طرف سے بھی اجازت کے ساتھ ہونا چاہئے۔اس کی مقدار بھی محدود ہے (زیادہ سے زیادہ تین سے دس ضرب تک) فقہاء کے فتاویٰ بھی اسی طرح ہیں۔(٣)

____________________

١۔ ہرگنھان: روان شناسییاد گیری ص١٣٣۔

٢۔ البتہ تنبیہ کے موضوع پر اسلام کی فقہی نظر کا استخراج (حکم اولیہ اور ثانویہ کی صورت میں) مستقل فرصت کا محتاج ہے۔

٣۔ امام علی رضا ـ: ''التادیب ما بین ثلاث الی عشرةٍ''مستدرک الوسائل ج٣ص٢٤٨۔تحریر الوسیلة ج٢ص ٤٧٧۔

۲۳۵

تنبیہ کی نفی پر ا سکینرکے اعتراضات کے بارے میں کلی طور پر کہا جاسکتا ہے:

١۔ بعض ماہرین نفسیات جیسے رین اور ہولز خاص شرائط وحالات کے تحت( جیسے یہ کہ تنبیہ نامطلوب کاموں کے بعد فوراًبلافاصلہ ہو اور اس حد تک ہو کہ انسان کے لئے تکلیف دہ ہو... تنبیہ کو رفتار کی تبدیلی میں موثر جانتے ہیں اور اس سلسلہ میں آزمائشیں بھی کی ہیں۔

٢ ۔تنبیہ کے ہیجان آور نتائج (جیسے خوف یا پرخاش) کہ اسکینز جس کا ذکر کرتا ہے اس صورت میں منفی ہوجائیں گے جبکہ پہلے سے مربی اور تربیت پانے والے کے درمیان صرف ایک عاطفی ررابطہ رہا ہو کہ تنبیہ کی تاثیرکی شرط بھی اس طرح کے رابطہ موجود ہونا ہے۔

حضرت امیرالمومنین ـ کے ایک چاہئے والے نے چوری کی تو حضرت نے اُس کے ہاتھ کو قطع کردیا۔ ''ابن کوائ'' جو کہ خوارج میں سے تھا اس نے موقع غنیمت سمجھتے ہوئے اس سے سوال کیا: کس نے تمھارے ہاتھ کو قطع کردیا ہے؟ اس نے جواب دیا: میرے ہاتھ کو پیغمبروں کے اوصیاء کے سید وسردار، قیامت کے دن سرخرو حضرات کے پیشوا، مومنین کی نسبت سب سے زیادہ حقدار نے ابن کواء غصہ میں بولا: وائے ہو تم پر! وہ تمہارے ہاتھ کو قطع کرتے ہیں اور تو ان کی اس طرح مدح و ثنا کرتا ہے؟ اس نے جواب دیا: کیوںتعریف نہ کروں جبکہ ان کی محبت میرے گوشت وخون میں ملی ہوئی ہے، خدا کی قسم میرے انھوں نے ہاتھ کو صرف حق کی خاطر قطع کیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ مجھے آخرت کی سزا سے نجات دیں۔(١)

٣ ۔تنبیہ نا پسند استعدادوں اور صلاحیتوں کے کنٹرول کرنے اور خاموش کرنے کا ذریعہ ہے۔ ان لوگوں کے لئے جن کے بارے میں نرم رویّہ نتیجہ بخش ثابت نہیں ہوتا ہے، صرف ممکن طریقہ یہ ہے کہ ایک توبیخ وسرزنش یا پھر نفسیاتی جھنجھوڑ ان کے اندر ایجاد کریں، بالخصوص اگر تسلط پسند اور طغیان آمیز طبیعت رکھتے ہوں، جس طرح انسان کے جسم میں بدبودار اور کثیف غدود کو قطع کردیتے یا جلادیتے ہیں تاکہ دیگر حصوں تک سرایت نہ کرے۔ ''البرٹ الیس ''ان ماہرین نفسیات میں ہے کہ جواپنے علاج اور مشاورہ میں ناگہانی سرزنش وتوبیخ اور اس کے مانند دوسری چیزوں سے استفادہ کرتا ہے اور ایک جھٹکا دے مشاورہ کے درمیان مراجع کو اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے۔

____________________

١۔ بحار الانوار ج٤٠ ص٢٨١،٢٨٢۔

۲۳۶

اسلام کا سزائی اور جزائی نظام بھی جوکہ خاص جسمانی سزائوں پر مشتمل ہے، اپنے حقوقی پہلوئوں کے علاوہ، تربیتی رخ سے بھی قابل توجہ ہے، کیونکہ انسان کو جرم کی تکرار سے روکتا ہے۔

مذکورہ نکات کے علاوہ تنبیہ کے استعمال میں درج ذیل چیزیں اس کی تربیتی تاثیر میں اضافہ کرتی ہیں:

١۔ہر قسم کی تنبیہ سے پہلے ناپسند عمل کی علت کی شناخت سے مطمئن ہوں، بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مختلف گھریلو اور روحی مسائل ومشکلات کی بنا پر جوکہ ہم پرپوشیدہ ہیں، یہ خطا سرزد ہوگئی ہو، ایسی صورت میں تنبیہ مشکلات اور پیچیدگی کواضافہ کرتی ہے۔

٢ ۔ وہ تنبیہ مؤثر ہے جو جذبۂ انتقام اور غیض وغضب کی عنوان سے نہ ہو، اس وجہ سے بے جاسرزنش اور حد سے زیادہ تحقیر وتوہین سے پرہیز کیاجانا چاہئے۔

٣ ۔تنبیہ سنجیدہ اور حسب ضرورت ہو اور میزان خطا سے آگے نہ بڑھ جائے۔ حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''ملامت میں زیادہ روی ضد اور ہٹ دھرمی کی آگ کو بھڑکادیتی ہے''۔(١)

٤۔تنبیہ انسان کی نامطلوب صفت یاعمل سے دقیق رابطہ رکھتی ہو اور اسے تنبیہ کی علت کی نسبت مکمل آگاہی حاصل ہو۔

٥ ۔اگر انسان اپنے عمل سے شرمندہ وپشیمان ہوگیا اور اپنی رفتار سے باز آگیا تو اسے لطف ومہربانی کے ساتھ قبول کرلینا چاہئے۔

____________________

١۔''الافراط فی الملامة یشبّ نار اللجاجة'' (غرر الحکم ،ج١،ص ٨٨)۔

۲۳۷

تیسری فصل :

اسلام میں اخلا قی تر بیت کے طر یقے

۱۔خود پر ناظر ہونا

یہ روش مکمل طور پر ''خود تربیتی'' صورت میں انجام پائے گی، اپنے آپ پر نظارت سے مراد یہ ہے کہ انسان کامل ہوشیاری اور مراقبت کے ساتھ قبول شدہ اخلاقی اقدار کی نسبت کوشش کرے کہ جو (جوارحی یا جوانحی) رفتار وکردار اخلاقی فضائل کے منافی ہیں اس کے وجود میں راستہ پیدا نہ کرنے پائیں اور اُس کے اخلاقی ملکات وقوّتوں کے زوال اور سستی کا باعث نہ بنیں۔

اپنے آپ پر روش نظارت کے نفسیاتی مبانی میں دو مرحلے قابل تفکیک ہیں: پہلا مرحلہ اس روش کے استعمال سے متعلق ہے کہ تربیت پانے والا شوق اور مقصد کے اعتبار سے باندازۂ کافی آمادگی رکھتا ہو۔(١)

یہ مرحلہ گذشتہ روشوں کی مدد سے بالخصوص اقدار کی طرف دعوت کی روش اور عقلانی توانائی کی تربیت کی روش کے ذریعہ عملی ہونا چائیے، یعنی ایک شخص اس نظریہ تک پہنچے کہ یہ اقدار اور اخلاقی مقاصد اُس کے وجود میں پائدار رہیں اور اخلاقی رذائل اُس سے مٹ جائیں دوسرا مرحلہ اس روش کی تاثیر کی کیفیت کو واضح کرنا ہے۔ نفسیاتی نظام کے صادرات اور واردات تدریجی صورت میں بیماری وجود ی شکل کی تعمیر کرتے ہیں ، اور نفس شناسی کی اصطلاح میںہمارے تزکیہ باطن اور ظاہر کو ایک تعادل پسندی کی طرف آگے بڑھاتی ہے، اس وجہ سے واردات وصادرات کی نوع کیفیت پر نظارت (کہ جو ہماری نیّات اور مقاصد کو بھی شامل ہوتی ہے)اس شکل کو جہت دینے میں کہ جو ان کا نتیجہ ہے، مؤثر بلکہ قابل تعیین ہوسکتی ہے۔

____________________

١۔ اخلاقی کتب میں اسے ''مقام یقظہ'' یعنی مقام بیداری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

۲۳۸

(اسکینز کے )فعال ماحول سازی کے نمونہ میں یہ روش تقریبی طور پر ایک مستقل روش کے عنوان کے تحت تین مرحلہ بیان کی جاتی ہے ۔(١)

١ ۔اپنا مشاہدہ : اپنی رفتارکو دقت کے ساتھ جزئی اورکمّی (مقدار ک )لحاظ سیثبت وضبط کرتا ہے۔

٢ ۔خود سنجی: (اپنے کو تولنا) موجودہ رفتاروں آئیڈیل نمونہ کے ساتھ کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے مقایسہ اور موازنہ کیا جاتا ہے۔

٣ ۔ خود تقویتی: (اپنے آپ کو قوت پہنچانا) ایسی رفتار جو ہدف کو زیادہ قریب کرتی ہے اور اُس سے سنخیت رکھتی ہے ، اس پر جزا دی جاتی ہے اور اس کے مدمقابل رفتار کومنفی تقویت کے ساتھ اور کبھی تنبیہ کے ذریعہ قابو اور کنٹرول میں رکھا جاتا ہے ۔

اس طرح سے رفتاری آثار ونتائج (پاداش اور تنبیہ)سے استفادہ کرنے سے اپنے آپ پر ایک دائمی نظارت اور مراقبت عمل میں آتی ہے دوسرے طریقے جو ا سکینر اپنے کنٹرول اور ضبط نفس کے لئے اس سلسلہ میں ذکر کرتا ہے، یہ ہیں: اور اسباب وشرائط کا آسان یا تنگ کرنا (مثال کے طور پر فضول خرچ انسان، اپنی جیب میں کم پیسہ رکھے)، محرومیت، عاطفی شرائط وحالات پر تسلط، تکلیف دہ محرک سے استفادہ (جیسے گھنٹی والی گھڑی) اور دوسرے امور کی انجام دہی۔

مکتب سلوکیت کا نمونہ ا سکینر کے نظریہ کے مطابق رفتار کی نظارت اور جانچ معمولی اور کم اہمیت کی حامل ہیں ، لیکن ہم اس نمونہ اور توضیح سے بالاترین سطحوں کے لئے اور اپنے آپ پر نظارت کے لئے استفادہ کرسکتے ہیںاور تیّات ، اہداف ومقاصد حتی کہ اپنی رفتار وکردار کی خوبیوں پر کنٹرول کرسکتے ہیں۔ اخلاقی کتابوں میں یہ روش بہت زیادہ مورد توجہ رہی ہے اور اس سے متعلق مستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔(٢) ان کتابوں میں مراقبہ، محاسبہ یا مرابطہ مرز بانی]دشمن سے سرحد کی حفاظت[ کے عناوین کے تحت یہ بحث کی گئی ہے۔(٣)

____________________

.۱ Psychoegyobhelthp.۱۰۳;۱۰k

٢۔جیسے ان کے محاسبة النفس از سید ابن طائوس اور محاسبة النفس کفعمی)

٣۔اخلاقی تربیت کی روش میں عرفاء شیعہ نے آخری دوسو سال میں (ملاحسین قلی ہمدانی، میرزا علی آقا قاضی، مرحوم بہاری، حاج میرزا جواد تبریزی ، مرحوم علامہ طباطبائی اور امام خمینی تک نے )اپنے آپ پر نظارت (مراقبہ ومحاسبہ) کی روش پر بہت تاکید کی ہے اور اسے اپنے سلوک کی بنیاد قرار دیا ہے۔

۲۳۹

'' ابو حامد بندوں کے درمیان صرف صاحبان بصیرت جانتے ہیں کہ خداند عزوجل ان کا محافظ اورنگراں ہے اورمحاسبہ میں دقت سے کام لیا ہے اور ان کی نسبت بہت جزئی امور میں بھی سوال اوربازپرس کرتا ہے، لہٰذا یہ لوگ جانتے ہیں کہ ان امور سے نجات کا راستہ محاسبہ اورمراقبہ کے لزوم کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ کہ نفس کو حرکات اور لحظات کی نسبت جانچتے رہیں، لہٰذا جو اپنے نفس کو روز قیامت کے حساب وکتاب سے پہلے مورد محاسبہ قرار دے تو اُس دن اُس کا حساب آسان اور سوال کے وقت اُس کا جواب آمادہ ہوگا اورنتیجہ نیک اور اچھا ہوگا۔ اورجو کوئی اپنے نفس کا محاسبہ نہ کرے گا اس کی حسرت دائمی اور قیامت کے مواقف میں اُس کا توقف طولانی ہوگااور اس کی برائیاں اسے ایسی ذلت وخواری کے گڑھے میں ڈھکیل دیں گی۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ خداوندعالم کی اطاعت کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے اور اُسی نے صبر مرزبانی کا حکم دیا ہے:

(یَا اَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوْا ۔۔۔)۔(١)

''اے صاحبان ایمان تم لوگ صبر کرو، صبر کی تعلیم دو اور مرابطہ یعنی دشمن سے جہاد کے لئے تیاری کرو...'' لہٰذا تم مرابطہ ومرزبانی کرو پہلے مشارطہ کے ذریعہ اس کے بعد مراقبہ کے ذریعہ پھر محاسبہ اور پھر معاقبہ (سزا دینے) کے ذریعہ پھر اس کے بعد مجاہدہ اورمعاتبہ (عتاب کرنے) کے ذریعہ ...''(٢) اس لحاظ سے ایک دوسرے رخ سے بھی اپنے آپ پر نظارت اور نگرانی کا لزوم معلوم ہوا، محاسبۂ اعمال کردار کے تولنے کے لئے موازین قسط کے قرار دینا، قیامت کے دن حساب وکتاب کرنااور ہمارے نامہ اعمال میں ان کے جزئیات کو ضبط کرنا کہ جن کو ہر شخص واضح طور پر دیکھے گا، ان سب باتوں کے قطعی ہونے کے پیش نظر محاسبہ اوراعمال پر نظارت کے لزوم کے سلسلہ میں کوئی تردید نہیں رہ جاتی اورخداوند اس سے کہیں زیادہ کریم ہے کہ اپنے بندوں سے دوبارہ حساب کا مطالبہ کرے۔ قرآنی آیات اس سلسلہ میں بہت زیادہ واضح ہیں: ''ہم عدل وانصاف کا ترازو قیامت کے دن قرار دیں گے، پس کسی نفس پر بھی کسی چیز میں ستم نہیں جائے گا، اگر( کسی کا عمل) رائی کے دانہ کے برابر بھی ہوگا اُسے ہم لے آئیں گے اور ہم سب کا حساب کرنے کے لئے کافی ہیں ''۔(٣) ''اور جب نامۂ اعمال سامنے رکھا جائے گا، اُس وقت مجرمین کو اپنے نامۂ اعمال کے مندرجات سے خوفزدہ دیکھوگے اور وہ کہیں گے : اے ہم پروائے ہو، یہ کیسا نامۂ اعمال ہے کہ جس میں کوئی ]کام[ چھوٹا ہو یابڑاچھوڑا نہیں گیاہے، بلکہ سب کو جمع کرلیاہے اور جوکچھ انھوں نے انجام دیا ہے وہ سب اس میں موجود پائیں گے اور تمہارا رب کسی پر ستم روا نہیں رکھتا''۔(٤) اپنے آپ پر نظارت کے طریقے درج ذیل ہیں:

____________________

١۔ سورہ ٔآل عمران آیت ٢٠٠۔ ٢۔ احیاء العلوم، غزالی ج٤ص ٤١٧، ٤١٨۔٣۔ سورہ ٔانبیاء آیت٤٧۔ ٤۔سورہ ٔکہف آیت٤٩۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

تحرير ى شكل ميں خود ساختہ داستانيں اور خيالى باتيں ہيں _

۲_ عالم آخرت كے منكرين ، خداوند عالم كى جانب سے نزول قرآن كے منكر تھے_

فاالذين لا يومنون بالآخرة ...اذا قيل لهم ماذا انزل ربّكم قالوا اساطير الاوّلين

''اساطير'' كا مرفوع ہونا، مبتداء محذوف ''المنزل''يا (الذى يسئل عنه'' ) كى خبر ہونے كى وجہ سے ہے كہ جس سے مراد ، قرآن مجيد ہے_

۳_حق قبول نہ كرنا اور استكبار ى فكر كا مالك ہونا ، خدا كى جانب سے نزول قرآن كے انكار كاسبب ہے_

فاالذين لا يومنون بالآخرة قلوبهم منكرة وهم مستكبرون ...واذا قيل لهم ماذا انزل ربّكم قالوا اساطير الاوّلين

۴_ معاد كے منكرين كا اپنى روشن فكرى اور سطح فكرى كے بلند ہونے كا دعوى دار ہونا _

فاالذين لا يومنون بالآخرة اذا قيل لهم ماذا انزل ربّكم قالوا اساطير الاوّلين

آخرت:آخرت كا انكار كرنے والوں كى تہمتيں ۱; آخرت كا انكار كرنے والے ۲; آخرت كر جھٹلانے والوں كا دعوي۴; آخرت كو جھٹلانے والوں كى خود پسندى ۴

استكبار:استكبار كے آثار۳

حق:حق قبول نہ كرنے كے آثار۳

روشن فكري:روشن فكرى كا دعوى كرنے والے ۴

قرآن:قرآن پر افسانہ ہونے كى تہمت ۱; قرآن كا وحى ہونا ۲،۳; قرآن كو جھٹلانے كے اسباب۳; قرآن كو جھٹلانے والے ۲

۳۸۱

آیت ۲۵

( لِيَحْمِلُواْ أَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمِنْ أَوْزَارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُم بِغَيْرِ عِلْمٍ أَلاَ سَاء مَا يَزِرُونَ )

تا كہ يہ مكمل طور پر اپنا بھى بوجھ اٹھائيں اور اپنے ان مريدوں كا بھى بوجھ اٹھائيں جنھيں بلا علم و فہم كے گمراہ كرتے رہے ہيں _ بيشك يہ بڑا بدترين بوجھ اٹھانے والے ہيں _

۱_ حقانيت قرآن كى تكذيب كرنے والے ، بالآخر قيامت كے دن اپنے آپ كو اپنے عمل كے تمام گناہوں كا ذمہ دار ٹھہرايں گے_واذا قيل لهم ماذا ا نزل ربّكم قالو اساطير الاوّلين _ ليحملوا اوزار هم كا ملةيوم القيامة

''ليحملوا'' ميں لام ، عاقبت كا ہے اور ''وزر''كى جمع (اوزار''كا معنى ثقيل اور سنگينى ہے اور يہ گناہ سے كنايہ ہے_

۲_ قرآن كو افسانہ قرار دينے والے ، قيامت كے دن كسى رعايت كے بغير اپنے كيفر و كردار تك پہنچ جائيں گے_

قالوا اساطير الاوّلين _ ليحملوا اوزار هم كاملة يوم القيامة

۳_ قرآن كو خود ساختہ خيال كرنا ، بہت سخت اورعظيم گناہ ہے_قالوا اساطير الاوّلين _ ليحملوا اوزار هم كاملة يوم اليقامة

۴_ گناہ گار كے كندھے پر گناہ كا ايك بھارى بوجھ ہے_ليحملوا اوزار هم كا ملة

گناہ كے يے ( وزر) كى تعبير كہ جس كا معنى ثقيل اور سنگينى ہوتا ہے مذكورہ بالا نكتہ پر دلالت كررہى ہے_

۵_ قرآن كو خود ساختہ خيال كرنے كے ذريعہ دوسروں كو گمراہ كرنے والے ، ان كے كچھ گناہوں كا ذمہ دار ٹھہر تے ہيں _

۳۸۲

واذا قيل لهم ما ذا انزل ربّكم قالوا اساطير الاوّلين _ ليحملوا اوزار هم كا ملة يوم القيامة ومن اوزار الذين يضلّو نهم

مذكورہ مطلب اس احتمال كى بناء پر ہے جب ''من'' تبعيض كے ليے ہو_

۶_قرآن پر افتراء باندھنے والے ، اپنے گناہ كے علاوہ ان لوگوں كے گناہوں كے بھى ذمہ دار ہوں گے جنہيں انہوں نے گمراہ كيا ہوگا_قالوا اساطير الاوّلين _ ليحملوا ا وزار هم كاملة يوم القيامة ومن اوزار الذين يضلّو نهم

مذكورہ مطلب اس احتمال كى بناء پر ہے جب ''من'' زائدہ يا جنس كے ليے ہو جيسا كہ مفسرين نے بھى يہ احتمال ديا ہے_

۷_ قرآن كو افسانہ قرار دينے والے ، قرآن پر افتراء باندھنے كے گناہ كے علاوہ ( ۱پنے گمراہ كردہ) دوسرے افراد كے كچھ گناہوں كے بھى ذمہ دارى بنتے ہيں _قالوا اساطير الاوّلين ليحملوا ا وزار هم كا ملة يوم القيامة ومن اوزار الذين يضلّو نهم

يہ استفادہ اس بات پر موقوف ہے جب''من اوزارالذين'' ميں ''من '' تبعيض كے ليے ہو_

۸_ قرآن كو افسانہ قراردينا ، لوگوں كو ايمان سے روكنے كا سبب ہے_قالوا اساطير الاوّ لين ليحملوا ومن اوزار الذين يضلّو نہم

۹_ انسانوں كے اعمال اور ان كا انجام مكمل طور پر تحرير اور محفوظ كيا جا تا ہے_

ليحملوا اوزار هم كا ملة يوم القيامة ومن اوزار الذين يضلّونهم

اگر چہ اس آيت ميں گناہ كے بارے ميں گفتگو ہوئي ہے اوريہ كہ گناہ گارافراد اپنے گناہوں كا بوجھ اپنے كندھے پر اٹھاتے ہيں ليكن گناہ خصوصيت كا حامل نہيں اور اس چيز كو ثابت كر نے كے ليے نمونہ ہے كہ تمام اعمال لكھے جاتے ہيں _

۱۰_ قرآن كو افسانہ سے تعبير كرنے والے ، لوگوں كى جہالت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہيں قرآن سے بد گمان اور گمراہ كرتے ہيں _قالوا اساطير الاوّلين ليحملوا ...ومن اوزار الذّين يضلّو نهم بغير علم

يہ مطلب اس بناء پر ہے جب (يضلّو نہم ) كى ضمير مفعولى كے ليے ( بغير علم ) حال واقع ہو _

۱۱_ دوسروں كے سوء استفادہ كرنے كے ليے جہالت اورنادانى مناسب زمينہ اور موقع ہے _يضلّونهم بغير علم

۱۲_ قرآن كے افسانہ ہونے كا ادعا ، جہالت پر مبنى اور علمى نظريات سے بعيد ہے_قالوا اساطير الاوّلين ...يضلّونهم بغير علم مذكورہ استفادہ اس احتمال پر موقوف ہے كہ جب ''يضلّونہم'' كى ضمير فاعلى كے ليے ''بغير'' حال ہو اور چونكہ قرآن كو افسانہ قرادر دينا ضلالت ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ ايسا دعوى ،علم پر مبتنى نہيں ہے_

۳۸۳

۱۳_گناہ كبيرہ كا ارتكاب اگر چہ جہالت ، تقليد اور پروپيگنڈہ كے تحت تاثير ہى كيوں نہ ہو ،سزا كا موجب ہے _

ليحملوا ا وزارهم ...ومن اوزار الذين يضلّونهم بغير علم

يہ استفادہ اس بناء پر ہے جب'' من'' تبعيض كے ليے اور ''بغير'' ضمير مفعولى كے ليے حال ہو اس بناء پر عبارت كا معنى يہ ہوگا يہ لوگ اپنے گناہوں اور ان كے كچھ گناہوں كہ جن كو انہوں نے گمراہ كيا ہوگا كا بوجھ اپنے كندھوں پر لادتے ہيں اگرچہ يہ لوگ جاہل ہى كيوں نہ تھے_

۱۴_ قرآن كو افسانہ قرار دينے كے گناہ كا بوجھ ، نہايت ناشائستہ اوربرا بوجھ ہے_قالوا اساطير الاوّ لين ...الا ساء مايزرون

۱۵_ قرآن كو افسانہ قرار دينے والے ، اپنے گمراہ كن كلام كے انجام كى طرف متوجہ نہيں ہيں _

قالوا اساطير ...ومن اوزار الذين يضلّو نهم بغير علم

۱۶_ قرآن كو افسانہ خيال كرنے والے اپنى بد عملى كى سزا اور گناہ كى عاقبت سے بے خبرى كى وجہ سے الہى تنبيہ كے محتاج ہيں _قالوا اساطير الاوّ لين ليحملوا اوزار هم ...الاساء ما يزرون

۱۷_''عن ابى جعفر عليه‌السلام '' فى قوله : (ليحملوا اوزارهم كاملة يوم القيامة ) يعنى ليستكملوا الكفر يوم القيامة ''ومن اوزارالذين يضلّونهم بغير علم ''يعنى كفر الذين يتولّونهم '' (۱)

حضرت امام باقرعليه‌السلام سے خداوند عالم كے اس كلام ''ليحملوا اوزار ہم كا ملة يوم القيامة '' كے بارے ميں روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا اس سے مراد يہ ہے كہ وہ قيامت كے دن اپنے كفر كو مكمل كريں اور آپعليه‌السلام نے''ومن اوزار الذين يضلّو نهم بغير علم '' كے بارے ميں فرمايا كے اس سے مراد يہ ہے كہ وہ اپنے پيرو كاروں كے كفر كا ذمہ دار بنتے ہيں _

۱۸_ ''عن النبي صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قال: ايّما داع دعى الى ضلالة فاتبع كان عليه مثل او زار من اتبعه من غير ان ينقص من اوزار هم شيئ .. .(۲)

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روايت ہے كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا: جو شخص بھى لوگوں كو گمراہى كى دعوت دے اور اس كى پيروى كى جائے وہ ايسا ہے جيسے كہ اس نے اپنے

____________________

۱)تفسير عياشى ج۲ ، ص۲۵۷ ، ح۱۶ ، نورالثقلين ، ج۳ ص ۴۸ ،ح۵۹_

۲) تفسير طبرى ، جز ۱۴ ،ص۹۶الدرالمنشور ، ج۵ ، ص۱۲۶_

۳۸۴

پيروكاروں كے گناہوں كے بوجھ كو اپنے كندھے پر لانے كى دعوت دى ہے بغير اس كے كہ اس كے كہ اس كے پيرو كاروں كے گناہوں ميں كوئي كمى كى جائے

الله تعالي:الله تعالى كے انذار۱۶

ايمان:قرآن پر ايمان لانے كے موانع۸

جہل:جہل كے آثار۱۰،۱۱،۱۲

روايت:۱۷،۱۸

سوء استفادہ:سوء استفادہ كا سرچشمہ۱۰،۱۱

عمل :عمل كا ثبت ہونا ۹; عمل كے آثار ۹

قرآن:قرآن پر افتراء باندھنے كا گناہ ۳،۱۴; قرآن پر افتراء باندھنے كا نا پسنديدہ ہونا ۱۴; قرآن پر افتراء باندھنے كے آثار ۸،۱۵; قرآن پر افتراء باندھنے والوں كا فضول ہونا ۱۲; قرآن پر افتراء باندھنے والوں كا گمراہ كرنا۱۰; قرآن پر افتراء باندھنے والوں كا گناہ۵،۶،۷; قرآن پر افتراء باندھنے والوں كا ناپسنديدہ عمل ۱۶; قرآن پر افتراء باندھنے والوں كو انذار۱۶; قرآن پر افتراء باندھنے والوں كى اخروى سزا ۲; قرآن پر افتراء باندھنے والوں كى بے توجہى ۱۵; قرآن پرافتراء باندھنے والوں كى سزا ۶;قرآن پر افسانہ ہونے كى تہمت ۲،۳،۵،۷،۸،،۱۲،۱۴،۱۵،۱۶;قرآن كو جھٹلانے والوں كا انجام۱; قرآن كو جھٹلانے والوں كاگناہ۱; قرآن كو جھٹلانے والے قيامت كے دن ۱

قيامت:قيامت كى خصوصيات ۱۷

كفار:قيامت كے دن كفار۱۷; كافر پيروكاروں كا گناہ۱۷

گمراہ:گمراہ لوگوں كا گناہ۱۸

گمراہ كرنے والے :گمراہ كرنے والوں كا گناہ ۱۸

گمراہي:گمراہى كا سرچشمہ۱۰

گناہ:دوسروں كے گناہوں كو اٹھانا ۵،۶، ۷،۱۷،۱۸;

۳۸۵

گناہ كى سنگينى ۴

گناہ كبيرہ:گناہ كبيرہ كى سزا ۱۳

گناہ كرنے والے:گناہگاروں كا جاہل ہونا ۱۳;گناہگاروں كى تقليد ۱۳

لوگ :لوگوں كو گمراہ كرنے كا گناہ ۵،۶،۷

آیت ۲۶

( قَدْ مَكَرَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَأَتَى اللّهُ بُنْيَانَهُم مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِن فَوْقِهِمْ وَأَتَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لاَ يَشْعُرُونَ )

يقينا ان سے پہلے والوں نے بھى مكارياں كى تھيں تو عذاب الہى ان كى تعميرات تك آيا اور اسے جڑ سے اكھاڑ پھينك ديا اور ان كے سروں پر چھت گر پڑى اور عذاب ايسے انداز سے آيا كہ انھيں شعور بھى نہ پيدا ہوسكا _

۱_دين كے خلاف سازش اوردھو كہ بازى كى ايك طولانى تاريخ ہے_قد مكر الذين من قبلهم

''قالوا اساطير الاوّلين '' كے قرينہ كے مطابق آيت ميں ''مكر'' كا متعلق گذشتہ آسمانى كتابيں ہيں جو معارف دين الہى كا نمونہ اور ان پر مشتمل تھيں _

۲_ قرآن كو افسانہ قرار دينا اوراس كو خود ساختہ خيال كرنا اس آسمانى كتاب كے دشمنوں كا دھوكہ اور سازش ہے _

واذا قيل لهم ماذا انزل ربّكم قالو ااساطير الاوّلين ...قد مكر الذين من قبلهم

۳_ دين الہى كے خلاف سازش كرنے والے اپنے گھروں كے اندر ہى اپنے اوپر چھتوں كے گرنے سے ہلاك ہوگئے_

قد مكر الذين من قبلہم فاتى الله بينہم من القواعد فخر عليہم اسقف من فوقہم

''فخّر عليهم السقف'' ان پر چھت گر گئي كے بيان كے بعد'' من فوقہم'' كى قيد كا ذكر كرنا جب كہ چھت ہميشہ اوپر سے ہى گرتى ہے ممكن ہے اس مقصد كى خاطر ہوكہ وہ اپنے گھروں كے اندر ہى ملبے ميں دفن ہوگئے_

۴_ خداوند عالم ، دين كے خلاف سازش كرنے والوں كى تمام ساز شوں اوران كے مكر كو خود ان كى طرف لوٹا ديتا ہے_

قد مكر الذين من قبلهم فاتى الله بنيانهم من القواعد فخّر عليهم اسقف من فوقهم

۳۸۶

احتمال يہ ہے كہ''فاتى الله بنيانهم من القواعد ...'' كا جملہ حقيقى نہيں بلكہ ايك تمثيل ہے اس بناء پر آيت سے مراد يہ ہوگى كہ انہوں نے دين كے خلاف بہت زيادہ كوشش اور مستحكم فكرى بنيادوں كو استوار كيا تھا ليكن خداوند عالم نے ان بنيادوں كوخود انھيں كے خلاف استعمال كرديا_

۵_ خداوند عالم نے دين كے خلاف سازش كرنے والوں كو عذاب سے دوچار ہونے سے اس طرح غافل كرديا كہ جس كا وہ گمان بھى نہيں كرسكتے تھے_قد مكر الذين من قبلهم ...واتهم العذاب من حيث لا يشعرون

۶_ قرآن كريم پر افتراء باندھنے والوں كو خداوند عالم نے ہلاكت و نابودى كى تنبيہ كى _

واذا قيل لهم ماذا انزل ربّكم قالوا اساطير الاوّلين ...قد مكر الذين من قبلهم فا تى الله بنيانهم ...واتهم العذاب من حيث لا يشعرون

۷_ دين كے خلاف دشمنوں كى سازش اور مكر كے وقت ، تاريخى تحولات ميں خداوند عالم كى مداخلت _

واذا قيل لهم ماذ ا انزل ربّكم قالوا اساطير الاوّلين ...قد مكر الذين من قبلهم فاتى الله بنيانهم ...واتهم العذاب

۸_ دين الہى كے خلاف سازش كرنے والوں كى بدعاقبت سے عبرت لينا ضرورى ہے _

قد مكر الذين من قبلهم ف اتى الله بنيانهم ...وا تهم العذاب

خداوند عالم نے قرآن كے مخالفين كى حركات كو بيان كرنے كے بعد ان لوگوں كى داستان كو ذكر كيا ہے جنہوں نے انبياء كرام كى آسمانى تعليمات كے خلاف سازش اور مكر سے كام ليا اور اس كى وجہ سے وہ عذاب الہى سے دوچار ہوئے لہذا يہ تمام انسانوں كے ليے تنبيہ ہے كہ وہ اس واقعہ سے عبرت حاصل كريں _

۹_ دين كے خلاف سازش كرنے والوں نے كبھى يہ تصور بھى نہيں كيا تھا كہ دين كے خلاف اپنے مكرو فريب كے چنگل ميں وہ خود ہى پھنس جائيں گے_قد مكر الذين من قبلهم فاتى الله بنيادنهم من القواعد واتهم العذاب من حيث لا يشعرون

۱۰_ خداوند عالم دين الہى كے خلاف سازش كرنے والوں سے سخت ناراض ہوتا ہے_فاتى الله ينبنهم من القواعد

يہ جو خدواند عالم نے دين كے خلاف ، سازش كرنے والوں كے عذاب كى كيفيت كو بيان كرنے كے ليے ''آتى امرالله '' كے بجائے ''آتى الله ''سے استفادہ كيا ہے اس سے مذكورہ مطلب كا احتمال پيدا ہوتا ہے _

۳۸۷

۱۱_ سازشى ، دين كے خلاف اپنى سازش ميں ناكامى اور شكست كے عوامل كو درك كرنے سے عاجز ہيں _

قد مكر الذين من قبلهم ...واتهم العذاب من حيث الا يشعرون

۱۲_''عن ابى جعفر عليه‌السلام فى قول الله : (فا تى الله بنيانهم من القواعد '' قال : كان بيت غدر يجتمعون فيه ،(۱)

حضرت امام باقرعليه‌السلام سے خداوند عالم كے اس قول ''فا تى الله بنيانہم من القواعد '' كے بارے ميں روايت ہے كے آپعليه‌السلام نے فرمايا: وہ''بنياد'' خيانت والا گھر تھا جس ميں وہ جمع ہوتے تھے_

۱۳_''عن ابى جعفر عليه‌السلام فى قوله: (قد مكر الذين من قبلهم فا تى الله بنيانهم من القواعد فخّر عليهم اسقف من فوقهم و اتاهم العذاب من حيث لا يشعرون) قال : بيت مكر هم اى ماتوفا لقاهم الله فى النار (۲)

حضرت امام باقرعليه‌السلام سے خداوند عالم كے اس قول'' ...فا تى الله بنيانہم من القواعد ...''كے بارے ميں روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا: اس سے مراد يہ ہے كہ خداوند عالم نے ان كے مكروفريب كو ويران كرديا يعنى وہ مرگئے اور خدا نے انہيں جہنم ميں ڈال ديا_

الله تعالي:الله تعالى كا كردار۷; الله تعالى كى سزا،۱۲،۱۳; الله تعالى كے افعال ۴; الله تعالى كے انذار۶; الله تعالى كے عذاب۵

الله تعالى كے غضب شدہ ۱۰

تاريخ:تاريخ كے تحولات كا سرچشمہ۷

خود:اپنے آپ كو دھوكہ دنيا۴،۹

دين:دين كے خلاف سازش كى تاريخ۱; دين كے دشمن ۷; دين كے دشمنوں كا انجام ۱۲،۱۳; دين كے دشمنوں كا عاجز ہونا۱۱; دين كے دشمنوں كا عذاب ۳،۵; دين كے دشمنوں كا غضب شدہ ہونا ۱۰; دين كے دشمنوں كا مكر وفريب۷; دين كے دشمنوں كى سازشوں كے آثار۴; دين كے دشمنوں كى شكست كے اسباب۱۱; دين كے دشمنوں كى غفلت۵،۹; دين كے دشمنوں كى ہلاكت كي

____________________

۱) تفسير عياشى ،ج۲ ،ص۲۵۸، ح۱۹ ،بحارالانوار،ج۱۴ ،ص۴۵۸، ح۱۱_

۲) تفسير قمى ، ج۱،ص۳۸۴ ،نورالثقلين ، ج۳ص۵۰،ح۶۸ _

۳۸۸

كيفيت ۳; دين كے دشمنوں كے انجام سے عبرت۸;دين كے دشمنوں كے ساتھ فريب ۴،۹; دين كے دشمنوں كے گھروں كى ويرانى ۳،۱۲، ۱۳; دين كے دشمنوں كے مكرو فريب كے آثار۴،۹

روايت:۱۲،۱۳

شكست:شكست كے اسباب جاننے سے عاجزى ۱۱

عبرت:عبرت كى اہميت ۸; عبرت كے اسباب۸

قرآن:قرآن پر افتراء باندھنا ۲; قرآن پر افتراء باندھنے والوں كو انذار ۶; قرآن پر افتراء باندھنے والوں كى ہلاكت ۶; قرآن پر افسانہ ہونے كى تہمت ۲; قرآن كى اہميت ۶;قرآن كے دشمنوں كامكر۲; قرآن كے دشمنوں كى سازش ۲

آیت ۲۷

( ثُمَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُخْزِيهِمْ وَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكَآئِيَ الَّذِينَ كُنتُمْ تُشَاقُّونَ فِيهِمْ قَالَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْعِلْمَ إِنَّ الْخِزْيَ الْيَوْمَ وَالْسُّوءَ عَلَى الْكَافِرِينَ )

اس كے بعد وہ روز قيامت انھيں رسوا كرے گا اور پوچھے گا كہاں ہيں وہ ميرے شريك جن كے بارے ميں تم جھگڑا كيا كرتے تھے_ اس وقت صاحبان علم كہيں گے كہ آج رسوائي اور برائي كافروں كے لئے ثابت ہوگئي ہے _

۱_ خداوند عالم ، دين كے خلاف سازش كرنے والوں كو دنياوى عذاب سے دوچار كرنے كے علاوہ ، قيامت ميں حقيرانہ انداز ميں ذليل و خوار كرے گا_قد مكر الذين من قبلهم ...واتهم العذاب ثم يوم القيامة يخزيهم ويقول ا ين شركائ

لغت ميں ''خزيٌ ''كا معنى شكست اور ذلت ہے يہ كيفيت كبھى خود شخصى كى طرف سے عارض ہو تى ہے او ر كبھى كسى دوسرے كى طرف سے ، اگر كسى

۳۸۹

دوسرے كى طرف سے ہو تو اس كے ساتھ پستى اور حقارت ہوتى ہے _

۲_ قيامت ميں مشركين كو اپنے شرك آلودہ عقيدہ كى وجہ سے دوبارہ طلب كيا جائے گا_

ثم يوم القيامة ...ويقول ا ين شركاء ي

۳_ خداوند عالم قيامت ميں بہ ذات خود ، مشركين كو طلب كرے گا_ويقول اين شركاء ي

۴_ مشركين ، خدائے وحدہ كے ساتھ ساتھ، متعدد خداؤں كے معتقد ہيں _ويقول اين شركاء ي

''شركائ'' كو جمع لانا ان كے كے متعدد ہونے سے حكايت ہے او رضمير متكلم كى طرف اس كا مضاف ہونا اس چيز سے حاكى ہے كہ وہ خدا كے ساتھ دوسرے خداؤں كا بھى اعتقاد ركھتے تھے_

۵_ مشركين، اپنے دعوى كردہ معبودوں كا سختى سے دفاع كرتے اوران كے بارے ميں توحيد پرستوں سے تنازع كرتے تھے_اين شركاء ى الذين كنتم تشاقوّن فيهم

''مصدر شقاق'' سے ''تشاقون'' كا معنى اس طرح مخالفت ہے كہ ايك شخص ايك فريق اور دوسرا شخص دوسرا فريق ہو فعل ''تشاقون'' باب مفاعلہ جو دو طرفہ افعال كے استفادہ كے ليے ہوتا ہے _قرينہ مقاميہ كى بناء پر مشركين سے تنازع كرنے والے دوسرے فريق وہ لوگ تھے جو خدائے وحدہ كے معتقد تھے اور انہيں موحدين سے تعبير كيا جاتا ہے_

۶_ اپنے شرك آلودہ عقيدے كى وجہ سے مشركين كى توحيد پرستوں سے دشمنى ہميشہ جارى رہى ہے _

اين شركاء ى الذين كنتم تشاقون فيهم

فعل ''كنتم''اور ''تشاقون'' كى تركيب ماضى استمرارى كا فائدہ دے رہى ہے اور مذكورہ مطلب كى طرف اشارہ ہے _

۷_ قيامت كے دن ، خداوندعالم كى پيشى كے مقابلے ميں مشركين جواب نہيں دے سكيں گے_

اين شركاء ى الذين كنتم تشاقون فيهم قال الذين اؤ توا العلم

چونكہ آيت ميں مشركين كے جواب كو بيان كرنے كے بجائے ، دوسرے افراد كو مو رد گفتگو قرار دے ديا گيا ہے _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ خداوند عالم كے مواخذہ كے مقابلے ميں مشركين كے پاس پيش كرنے كے ليے كوئي جواب نہيں ہوگا_

۸_ قيامت ميں ، مشركين كے خداوں كا بطلان و فضول پن ظاہر ہوجائے گا_يقول اين شركاء ى الذين كنتم تشاقون فيهم

چونكہ خداوند عالم قيامت ميں مشركين سے مواخذہ كرتے وقت ان سے پوچھے گا: تمھارے وہ خدا كہاں ہيں جن كا تم دعوى كرتے تھے اور وہ جواب نہيں دے سكيں گے لہذا يہ مشركين كے معبودوں كے بطلان كے آشكار ہونے سے حكايت ہے_

۳۹۰

۹_ قيامت كے دن مشركين كے دعوى كردہ معبودوں كے بارے ميں ان كى دوبارہ پيشى ، ان كى اخروى ذلت و خوارى كا ايك نمونہ ہے_ثم يوم القيامة يخزيهم ويقول اين شركاء ى الذين كنتم تشاقون فيهم

''ويقول'' ميں ''واو'' عاطفہ ہے او ر ممكن ہے عطف تفسيرى ہو اس بناء پر ''مشركين كا مورد مواخذہ قرارپانا'' ان كا ذلت و خوارى كا نمونہ ہے_

۱۰_ روز قيامت اہل علم ، كفار كو ان كو اس دن كى ذلت سے آگاہ كرديں گے_

قال الذين اوتوالعلم ان الخز ى اليوم والسوٌ على الكافرين

۱۱_ قيامت ميں مشركين كا مواخذہ ،اہل علم كے حضور انجام پائے گا_ويقول اين شركاء ي ...قال الذين اوتواالعلم

۱۲_ خداوند عالم كے عطا كردہ علوم كے مالك افراد ، شائستہ اور بلند مقام كے حامل ہيں _

قال الذين اوتوا العلم ان الخزى اليوم والسوء على الكافرين

۱۳_ قيامت كے دن كچھ افراد ، بات كرنے ميں آزاد اور ان كے ليے كسى قسم كى ركاوٹ نہيں ہوگي_

ثم يوم القيامة ...قال الذين اؤتوا العلم

۱۴_ قيامت بڑا سخت اور رسواء كرنے والا دن ہے_ان الخزى اليوم والسوء على الكافرين

۱۵_ مشركين جو كہ قرآن كو افسانہ كہتے ہيں اور وہ لوگ جو دين الہى كے خلاف سازش كرتے ہيں ، وہ علماء دين كے ساتھ حقيرانہ اور رسوا ئي والا سلوك كرتے ہيں _وا ذا قيل لهم ماذا انزل ربّكم قالوا اساطير الاوّلين قد مكر الذين من قبلهم ثم يوم القيامة يخزيهم قال الذين اوتوا لعلم ان الخزى اليوم والسوء على الكفرين

قيامت كے دن مشركين كے مواخذہ كے وقت علماء كاحاضر ہونا اور ان كى طرف سے يہ كہنا كہ كافروں كے ليے روز قيامت خوارى اور رسوائي ہے اس نكتہ سے حكايت كررہا ہے كہ يہ علماء دنيا ميں مشركين كے ہاتھ ذليل و خوار ہوئے ہيں _ واضح رہے كہ موضوع ( قرآن و تعاليم اديان آسماني) كى مناسبت سے ''اوتوا لعلم '' سے مراد ، علماء دين ہيں _

۱۶_ مشركين جو كہ قرآن كو افسانہ كہتے ہيں نيز وہ افراد جو كہ دين الہى كے خلاف سازش كرتے ہيں _وہ كافروں كے زمرے ميں ہيں _واذا قيل لهم ما ذا نزل ربّكم قالوااساطير الاوّلين قد مكر الذين من قبلهم ثم يوم القيامة يخزيهم ان الخزى اليوم و السوء على الكفرين

۳۹۱

الله تعالي:الله تعالى كا كردار ۳; الله تعالى كے عذاب۱

باطل معبود:باطل معبودوں كا فضول ہونا ۸; باطل معبود وں كى حمايت ۵

دين:دين كے دشمنوں كا كفر۱۶; دين كے دشمنوں كو دنياوى عذاب ۱; دين كے دشمنوں كى اخروى تحقير ۱; دين كے دشمنوں كى اخروى ذلت۱; دين كے دشمنوں كے برتاؤ كى روش ۱۵

شرك:شرك كے آثار ۲،۶

علماء:علماء قيامت ميں ۱۰; علماء كا اخروى كردار ۱۱; علماء كى فكر۱۲; علماء كے مقامات ۱۲; كافر علماء۱۰

علماء دين:علماء دين كى تحقير ۱۵; علماء دين كے دشمن۱۵

قرآن:قرآن پر افتراء باندھنے والوں كا كفر۱۶; قرآن پر افتراء باندھنے والوں كى روش ۱۵

قيامت:قيامت كى خصوصيات ۱۴; قيامت ميں آزادى بيان ۱۳;قيامت ميں حقائق كا ظہور ۸; قيامت ميں ذلت ۱۴; قيامت كى سختى ۱۴; قيامت ميں مواخذہ۲،۳

كافر:۱۶كافر قيامت كے دن ۱۰;كافروں كى اخروى ذلت۱۰

مشركين:مشركين اور باطل معبود ۵; مشركين قيامت ميں ۷; مشركين كا اخروى مواخذہ ۲،۳،۷،۹،۱۱; مشركين كا دنياوى عذاب ۱; مشركين كا عقيدہ ۴; مشركين كا كفر ۱۶; مشركين كا موحدين كے ساتھ تنازع۵; مشركين كى اخروى تحقير ۱; مشركين كى اخروى ذلت ۱،۹; مشركين كى دشمني۶; مشركين كے برتاؤ كى روش۱۵; مشركين كے مبعودوں كا متعدد ہونا ۴

موحدين:موحدين كے دشمن۶

۳۹۲

آیت ۲۸

( الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ فَأَلْقَوُاْ السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِن سُوءٍ بَلَى إِنَّ اللّهَ عَلِيمٌ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ )

جنھيں ملائكہ اس عالم ميں اٹھاتے ہيں كہ وہ اپنے نفس كے ظالم ہوتے ہيں تو اس وقت اطاعت كى پيشكش كرتے ہيں كہ ہم تو كوئي برائي نہيں كرتے تھے_ بيشك خدا خوب جانتا ہے كہ تم كيا كيا كرتے تھے_

۱_ كفار وہ لوگ ہيں جو اپنے كفر كى وجہ سے اپنے نفس پر ظلم كرتے ہيں _الكافرين الذين تتو فهم الملئكة ظالمى انفسهم

''الكافرين'' كے ليے ''الذين ''صفت ہے اور ظالمين اس كے ليے حال ہے لفظ ''الكافرين'' كے قرينے كى بناء پر ''ظالمى انفسہم'' سے مراد كفر اختيار كرنے كے ذريعہ اپنے نفس پر ظلم كرنے والے ہيں _

۲_ جو كفار اپنے نفس پر ظلم ( كفر) كى حالت ميں اس دنيا سے اٹھيں گے ، قيامت ميں و ذلت و خوارى سے دوچار ہوں گے _ان الخزى اليوم والسوء على الكافرين _ الذين تتو فهم الملئكة ظالمى انفسهم

۳_ كفر، نفس پر ظلم كرنا ہے_الكافرين _ الذين ظالمى انفسهم

۴_ شرك، نفس پر ظلم ہے_ويقول ا ين شركاء ى ...الكافرين _ الذين تتوفّهم الملئكة ظالمى انفسهم

۵_ انسانوں كى روح، ملائكہ كے ذريعہ قبض كى جاتى ہے_تتو فهم الملائكة

۶_ انسانوں كى روح كو قبض كرنے والے ، متعدد ملائكہ ہيں _

۳۹۳

تتو فهم الملائكه

۷_ انسان موت كے ذريعہ ، نابود و فنا نہيں ہوتا ہے_تتو فهم الملئكة

''تتوفيّ'' ''توفيّ'' مصدر سے ہے جس كا معنى كسى چيز كو كامل طور پر لينا ہے اور يہ اس چيز سے حكايت ہے كہ انسان موت كے ذريعہ نابود نہيں ہوتا بلكہ اس كى حقيقت كو قبض اور منتقل كيا جاتا ہے_

۸_ انسان ، جسم سے بالا ترايك حقيقت ہے_تتو فهم الملائكة

واضح سى بات ہے كہ موت كے بعد انسان كا جسم ، زمين ميں رہ جاتا ہے اور بوسيدہ اور زائل ہوجاتا ہے اور يہ علامت ہے اس بات پر كہ جو چيز ملائكہ بہ صورت كامل قبض كرتے ہيں ضرورى ہے كہ وہ جسم كے علاوہ كوئي چيز ہو_

۹_ موت كے وقت ، كفار مطيع و فرمانبردار ہوجائيں گے_الكافرين _ الذين تتو فّهم الملئكة فالقو السلم

۱۰_ كفار ، موت كے وقت وحشت اور خوف سے دوچار ہوں گے_الكافرين _ الذين تتوفّهم الملائكة فالقوا السلم

''ما كنّا نعمل من سوئً:'' كے قرينہ كى بناء پر موت كے وقت كفار كا مطيع و فرمانبردار ہونا ،ممكن ہے مذكورہ نكتے كى طرف اشارہ ہو_

۱۱_ كفار ، موت كے بعد اپنے تمام قبيح اعمال كا انكار كريں گے_الكافرين الذين تتو فّهم الملئكة ...ماكنّا نعمل من سوء

۱۲_ دنيا ميں قبيح اعمال كے ارتكاب كے ذريعہ اپنے نفس پر ظلم كرنے والے قيامت ميں ان اعمال كے منكر ہوں گے_

الذين تتو فّهم الملئكة ظالمى انفسهم ما كنّا نعمل من سوئ

مذكورہ بالا مطلب اس احتمال كى بناء پر ہے جب''ماكنا نعمل من سوئ: '' ( ہم نے قبيح اعمال انجام نہيں ديے تھے) كے قرينے كى بناء پر ''ظالمى انفسہم '' سے مراد وہ برے و قبيح اعمال ہوں جن كا ارتكاب كرنے والے ان كى اپنے آپ سے نفى كريں گے_

۱۳_ كفار ، موت كے بعد ، حقائق كو پاليں گے اور اپنے گذشتہ كر تو توں سے پريشان ہوں گے _

الكافرين _ الذين تتو فّهم الملئكة ظالمى انفسهم ما كنا نعمل عن سوئ

موت كے بعد كفار بغير اس كے كہ كوئي بات كى جائے اپنا دفاع شروع كرديں گے اور اپنے قبيح اعمال كا انكار كريں گے اس سے معلوم ہوتا ہے كے وہ اپنى حالت بد اور اس كردار كے بارے ميں

۳۹۴

جو ان كے عذاب سے دوچار ہونے كا باعث ہوگا جيسى چيزوں كے بارے ميں مطلع ہوجائيں گے_

۱۴_ موت، انسان كے ليے حقائق كو كشف كرنے كا سبب ہے_الذين تتو فهم الملائكه فا لقوا السلم ما كنا نعمل من سوئ

۱۵_ قرآن كو افسانہ قرار دينا، دين الہى كے خلاف سازش اور كفر كا انتخاب ، ناشائستہ اور ناپسنديدہ اعمال ہيں _

واذا قيل لهم ماذا انزل ربّكم قالوا اساطير الاوّلين قد مكر الذين من قبلهم الكفرين الذين تتو فهم الملئكة ظالمى ا نفسهم ما كنّا نعمل من سوئ

۱۶_ خداوند عالم يقيناً كفار كے كرتوتوں سے آگاہ ہے_انّ الله عليم بما كنتم تعملون

۱۷_ خداوند عالم ، جاننے والا ( صاحب علم) ہے_انّ الله عليم

۱۸_ ملائكہ كا اس چيز پر اعتقاد اور علم ہے كہ خداوند عالم ، انسان كے كردار سے آگاہ ہے _

بلى انّ الله عليم بما كنتم تعملون

مذكورہ بالا مطلب اس بناء پر ہے جب''بلى انّ الله '' كفار كے مقابلے ميں ملائكہ كا كلام ہو_

۱۹_ روز قيامت ، كفار اپنے دفاع كے ليے جھوٹ سے كام ليں گے_ما كنّا نعمل من سوء بلى ان الله عليم بما كنتم تعملون

۲۰_ قيامت ميں جھوٹ بولنے كا امكان_ما كنا نعمل من سوء بلى ان الله عليم بما كنتم تعملون

۲۱_وہ كفار ، جو كفر كى حالت ميں دنيا سے اٹھتے ہيں وہ ہميشہ دنيا ميں غلط راستے پر چلتے اور قبيح اعمال كے مرتكب ہوتے ہيں _ما كنّا نعمل من سوء ان الله عليم بما كنتم تعملون

عبارات''ما كنّا نعمل'' اور'' ما كنتم تعملون'' ماضى استمرارى پر دلالت كرہى ہيں پہلى عبارت كفار كا كلام ہے كہ جس كے ذريعہ وہ اپنے تمام قبيح اعمال كے منكر ہيں اور دوسرى عبارت ان كفار كا جواب ہے جو ان كے مسلسل سياہ كرتوتوں كے ارتكاب پر دلالت كررہى ہے_

۲۲_''عن امير المؤمنين عليه‌السلام انّه ليس ا حد من الناس تفارق روحه جسده حتى يعلم الى اى المنزلين يعير الى الجنة ام النار ان كان عدوالله فتحت له ا بواب النار ونظر الى ما ا عد الله له فيها كل هذا يكون عند الموت قال الله تعالي ''الذين تتو فّاهم الملائكة ظالمى

۳۹۵

ا نفسهم فادخلوا ا بواب جهنم'' (۱) '

حضرت امير المؤمنينعليه‌السلام سے روايت نقل ہوئي ہے كہ ہر انسان كے بدن سے روح جدا ہوتے وقت اسے يہ معلوم ہوتا ہے كہ وہ كس مقام كى طرف جارہا ہے جنت : يا جہنم؟ اگر وہ دشمن خدا ہو تو جہنم كے درواز ے اس كے ليے كھول ديے جاتے ہيں اور وہاں جو كچھ خدا نے اس كے ليے آمادہ كيا ہوتاہے وہ اس كا مشاہدہ كرتا ہے يہ سب كچھ موت كے وقت ہوگا خداوند عالم نے فرمايا _الذين تتو فّهم الملائكة ظالمى انفسهم فادخلو ابواب جهنم

اسماء وصفات :عليم۱۷

الله تعالي:الله تعالى اور انسانوں كے عمل۱۸; الله تعالى اور كفار كاعمل ۱۶; الله تعالى كا علم

انسان:انسان كى خصوصيات ۸; انسان كے ابعاد۸; انسانوں كا انجام ۷

جہنمي:جہنميوں كى قبض روح۲۲

حقائق:حقائق كے ظہور كے اسباب۱۴

خود:اپنے اور پر ظلم ۱،۲،۳،۴،۱۲

دين:دين كے خلاف سازش۱۵

ذلت:اخروى ذلت كے اسباب ۲

روايت:۲۲

روح :قابض روح ۵،۶

شرك:شرك كى حقيقت۴

ظالمين:ظالموں كا ناپسنديدہ عمل ۱۲;ظالمين قيامت ميں ۱۲

عقيدہ:علم خدا پر عقيدہ ۱۸

عمل :ناپسنديدہ عمل۱۵

____________________

۱) امالى شيخ طوسى ج۱ ، ص۲۶، نورالثقلين ، ج۳، ص ۵۲ ، ح۷۵_

۳۹۶

قرآن:قرآن پر افتراء باندھنے كا ناپسنديد ہ ہونا۱۵; قرآن پر افسانہ ہونے كى تہمت ۱۵

قيامت:قيامت ميں جھوٹ بولنا ۱۹، ۲۰; قيامت ميں حقائق كا ظہور ۱۳; قيامت ميں عمل كو جھٹلانا ۱۲

كافرين:كافروں كا اخروى كيفر كردار ۲; كافروں كا تسليم ہونا ۹; كافروں كا خوف ۱۰; كافروں كا ظلم ۱; كافروں كا ناپسنديدہ عمل ۱۱،۲۱; كافروں كى اخروى پريشانى ۱۳; كافروں كى حالت احتضار۹،۱۰; كافروں كي خصوصيات ۱;كافروں كى دروغگوئي ۱۹; كافروں كى ذلت اخروى ۲; كافروں كى موت ۹،۱۰;كفار اور عمل كا جھٹلانا۱۱;كفار قيامت كے روز۱۹; كفار مرنے كے بعد۱۱

كفر:كفر كاناپسنديدہ ہونا ۱۵; كفر كى حقيقت ۱،۳; كفر كى موت ۲،۲۱; كفر كے آثار ۲

موت:حقيقت موت ۷; موت كا كردار۱۴

ملائكہ:ملائكہ پر عقيدہ ۱۸; ملائكہ كا علم ۱۸;ملائكہ كا كردار ۵; موت كے ملائكہ ۵; موت كے ملائكہ كا متعدد ہونا۶

آیت ۲۹

( فَادْخُلُواْ أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا فَلَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ )

جاؤ اب جہنّم كے دروازوں سے داخل ہوجاؤ اور ہميشہ وہيں رہو كہ متكبرين كا ٹھكانا بہت برا ہوتا ہے _

۱_ خداوند عالم كا كفار كو ان كى موت كے بعد جہنم ميں داخل ہونے كا حكم دينا_

الكافرين الذين تتوفهم الملئكة فادخلوا ابواب جهنم

''فادخلوا'' ميں ''فا'' عاطفہ ہے اور اس كے ذريعہ مسبب كا سبب پر عطف كيا گيا ہے_

۲_ كفار كے قبيح اعمال سے خداوند عالم كى آگاہى اس چيز كا سبب ہے كہ وہ انہيں جہنم ميں داخل ہونے كا حكم ديتاہے_

الكافرين ...ان الله عليهم بما كنتم تعملون فادخلوا ابواب جهنم

''فادخلوا'' ميں ''فا'' عاطفہ ہے اور يہ مسبب كا سبب ( علم ) پر عطف كررہى ہے_اس بناء پر آيت كا مطلب يہ ہوگا ; اب جبكہ خداوند عالم اس طرح تمھارے كردار سے آگاہ ہے پس جہنم ميں داخل ہوجاؤ_

۳_ كفار ، مختلف دروازوں سے جہنم ميں داخل ہوں گے_الكافرين ...فادخلو ابواب جهنم

۴_ جہنم كے متعدد اور مختلف دروازے ہيں _ابواب جهنم

۳۹۷

۵_ جہنم ، مختلف قسم كے عذابوں كا حامل ہے_فادخلوا ابواب جهنم

مذكورہ بالا مطلب اس بناء پر ہے جب ''ابواب '' سے مراد عذاب كے طبقات مراد ہوں ''خالدين فيہا'' ممكن ہے اس احتما ل پر قرينہ ہو _ ''وخاليدن فيہا'' كى ضمير كا مرجع ''ابواب'' ہے كيوں كہ ابواب ميں جاودانيت معنى نہيں ركھتى اس ليئے ہو سكتا ہے ''ابواب '' طبقات كے معنى ميں ہو، اس صورت ميں طبقات ، مختلف قسم كے عذابوں كى موجود گى سے حكايت كررہا ہے_

۶_ كفار ، ہميشہ جہنم ميں رہيں گے_فادخلوا ابواب جهنم خالدين فيه

۷_ جہنم ، ابدى اور جاودانى مقام ہے_جهنم خالدين فيه

جب جہنمى لوگ، جہنم ميں ہميشہ مظروف كے عنوان سے رہيں گے تو يہ اس بات كى مستلزم ہے كہ خود جہنم ظرف ابدى كے عنوان سے ہو_

۸_ كفر ، جہنم ميں ہميشہ كے ليے گرفتار ہونے كا سبب ہے_الكافرين فادخلو ابواب جهنم خلدين فيه

۹_ تكبر كرنے والوں كا مقام ، جہنم ہے_فادخلوا جهنم فلبئس مثوى المتكبرّين

''بئس'' فعل مذمت ہے اور مخصوص بالذم ، كلمہ جہنم ہے جو كہ محذوف ہے_

۱۰_ تكبرّ كرنے والوں كا مقام ، برا مقام ہے_فلبئس مثوى المتكبرين

''مثوي'' ''ثوي'' سے اسم مكان ہے جس كا معنى قيام كى جگہ ہے_

۱۱_ گناہوں كے مختلف مراتب ہيں اور يہ اپنے سے متناسب عذابوں كے حامل ہيں _

فادخلوا ابواب جهنم خلدين فيها فلبئس مثوى المتكبّرين

مذكورہ بالا مطلب اس نكتہ كى بناء پر ہے جب ابواب سے مراد اصناف و اقسام ہوں اور يہ معنى ، گناہ سے متناسب عذاب كو ظاہر كر رہا ہے_ مذكورہ مطلب پر مؤيّد يہ ہے كہ جہنميوں ميں سے تكبر كرنے والوں كو مخصوص قرار ديا گيا ہے_

۳۹۸

۱۲_ اپنے نفس پر ظلم كرنے والے كفار ، متكبر ہيں _الكافرين _ الذين تتو فّهم الملئكةظالمى انفسهم فلبئس مثوى المتكبرّين

الله تعالي:الله تعالى اور كفار كا عمل۲; الله تعالى كے علم كے آثار ۲; اوامر الہى ۱; اوامر الہى كے اسباب۲

جہنم:جہنم كا دائمى ہونا ۷; جہنم كے اسباب ۸; جہنم كے دروازوں كا متعدد ہوتا ۳،۴; جہنم كے عذاب ۸; جہنم كے عذابوں كا مختلف ہونا ۵; جہنم ميں ہميشہ رہنے والے ۶; جنہم ميں ہميشہ كا رہنا ۸

جہنمي:۹

خود :اپنے اوپر ظلم۱۲

كفار:جہنم ميں كفار ۶;ظالم كفار كا تكبّر ۱۲;كفار كا جہنم ميں داخل ہونا ۱،۲،۳

كفر:كفر كے آثار۸

كيفر:سزا كا نظام ۱۱;گناہ كے مطابق سزا كا ہونا ۱۱

گناہ:گناہ كے مراتب۱۱

متكبرين:متكبرين جہنم ميں ۹; متكبروں كا برا انجام ۱۰; متكبرين كى برى جگہ۱۰

آیت ۳۰

( وَقِيلَ لِلَّذِينَ اتَّقَوْاْ مَاذَا أَنزَلَ رَبُّكُمْ قَالُواْ خَيْراً لِّلَّذِينَ أَحْسَنُواْ فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَلَدَارُ الآخِرَةِ خَيْرٌ وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِينَ )

اور جب صاحبان تقوى سے كہا گيا كہ تمھارے پروردگار نے كيا نا زل كيا ہے تو انھوں نے كہا كہ سب خير ہے_ بيشك جن لوگوں نے اس دنيا ميں نيك اعمال كئے ہيں ان كے لئے نيك ہے اور آخرت كا گھر تو بہرحال بہتر ہے اور وہ متقين كا بہترين مكان ہے_

۱_ متقى لوگوں كا وحى الہى ( قرآن) كے خير مطلق ہونےپر عقيدہ ركھنا_

۳۹۹

وقيل للذين اتقوا ماذا انزل ربّكم قالوا خيرا وحى الہى (قرآن)

۲_ تقوى ، وحى الہى كى اہميت كو پہچاننے كا ذريعہ فراہم كرتا ہے_وقيل للذين اتقوا ماذا انزل ربّكم قالوا خير

۳_ تقوى ، حقائق كا اعتراف اور ان كے سامنے سر تسليم خم ہونے كا زمينہ فراہم كرتاہے_

وقيل للذين اتقوا ماذا انزل ربّكم قالوا خير

مذكورہ مطلب اس سورہ كى آيت نمبر ۲۳ و ۲۴ كو مدنظر ركھتے ہوئے ليا گيا ہے كہ جن ميں وہ تكبر كرنے والوں كے سامنے اس سوال كو پيش كرتے تھے اور وہ استكبارى فكر ركھنے كى وجہ سے قرآن كو انسانوں كا خود ساختہ قرار ديے تھے ليكن يہاں متقّين كو بيان كيا گيا ہے جو تقوى كى وجہ سے حقيقت وحى كے سامنے سرتسليم خم ہوئے اور اس كو مطلق خير قرار ديا_

۴_ دين ، انسان كے ليے مطلق خيرہے_وقيل للذين اتقوا ماذا انزل ربّكم قالوا خير

چونكہ وحى اور قرآن كے مضامين ، دين كے ليے خير محض ہيں اس سے يہ استفادہ ہوتا ہے كہ دين بھى خير ہے _

۵_ اپنے بندوں پر قرآن ( تعليمات دين ) كانزول ، ربوبيت الہى كا تقاضا ہے_وقيل للذين اتقوا ماذا انزل ربّكم قالوا خير

دنيا، آخرت كے ليے عمل كا مقام ہے_اگر'' فى هذه الدنيا ''''احسنوا '' كے متعلق ہو تو يہ مذكورہ مطلب كا معنى ديتا ہے_

۷_ دين ميں لوگوں كى دنياوى سعادت مضمرہے_للذين احسنوا فى هذا الدني

۸_ احسان كرنے والے ، اس دنيا ميں اچھى طرح بہرہ مند ہوں گے_للذين احسنوا فى هذا الدنيا حسنة

مذكورہ مطلب اس بناء پر ہے جب 'ہى ہذہ'' ''حسنہ'' كے متعلق ہو_

۹_ دين اور وحى كے بارے ميں صحيح اظہار نظر ، احسان كا مصداق ہے_

وقيل للذين اتقوا ماذا انزل ربّكم قالوا خيراً للذين احسنوا فى الدنيا حسنة

مذ كورہ مطلب اس بناء پر ہے جب ''للذين احسنوا '' خداوند عالم كا كلام ہونہ كہ متقين كے كلام كا تسلسل، اس بناء پر خداوند عالم اس بيان كے ذريعہ اہل تقوى كى يہ توصيف كررہا ہے كہ انہوں نے قرآن اور دين كو وحى سمجھا ہے_

۱۰_ آخرت كا مقام ،دنياوى مقام سے بہت اچھاہے_ولدار الآخرة خير

۱۱_ احسان كرنے والوں كى اخروى جزا، ان كى دنياوى پاداش سے بہت بہتر ہے_

۴۰۰

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779