تفسير راہنما جلد ۹

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 779

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 779 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 212520 / ڈاؤنلوڈ: 3605
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۹

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

آگاہ  رہو جو شخص ہمارے شیعوں میں سے اس ذمہ داری کو ادا کرے اسکی فضیلت اسلام کے تمام دشمنوں سے جنگ کرنے والے مجاہدین  سے ہزار ہزار بار زیادہ ہے چونکہ علماء ہمارے مانے والے  محبین کے دین اور عقیدے کی دفاع اور محافظت کرتے ہیں جبکہ مجاہد ین انکے بدن اور جسم  کی دفاع کرتے ہیں”  اورقیامت کے دن پروردگار عالم کی طرف سے ایک منادی ندا دے گا کہاں ہے ہیں ایتام آل محمد کی کفالت کرنے والے جو انکی غیبت کے دوران انکی کفالت کرتے تھے( يُنَادِی مُنَادِی رَبِّنَا عَزَّ وَ جَلَّ أَيُّهَا الْكَافِلُونَ لِأَيْتَامِ آلِ مُحَمَّدٍ(ص) النَّاعِشُونَ  لَهُمْ عِنْدَ انْقِطَاعِهِمْ عَنْ آبَائِهِمُ الَّذِینَ هُمْ أَئِمَّتُهُم  (1)

پس ائمہ اطہار ؑکے ان نورانی  کلمات سے معلوم ہوتا ہے کہ عصر غیبت میں فقہا ء ؛ علماء اورخصوصاً ولی امر مسلمین کے انکے نزدیک کیا حیثیت ہے اور انکا کہنا نہ  مانا انکے حق میں جفا اور امام  کے نزدیک انکے مقام کا خیال نہ رکھنا اس شخص کو کس مقام میں لا کر کھڑا کردیتا ہے اگر چہ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہےکہ ہمارے معاشرے میں  ہم میں سے بعض  خوستہ یا ناخواستہ دشمن کے غلط پڑوپکنڈوں کی  زد میں آکر  امام زمانہ کے مطیع نمائندوں کے خلاف ناحق زبان کھولنے  اور گستاخی کرنے کی جرئت کرتے ہیں جبکہ شیطان اور پیروان  شیطان اپنی تمام تر طاقتوں سمیٹ یہ کوشش  کررہیں  ہیں کہ انھی  پڑوپکنڈوں اور افواہوں کے ذریعے مجھ جیسے کمزور  مؤمنین کو علماء سے فقہاء سے دور کیا جاۓ تاکہ  انھیں دین اور ایمان کے دائرے سے نکالنا آسان ہو جاۓ ، اور ہم خود بھی جانتے ہیں کہ جو لوگ علماء اور ولایت فقیہ سے  کٹ جاتے ہیں   حقیقت میں وہ دین  اور صراط مستقیم سے کٹ جاتے ہیں   اور گمراہ ہو جاتے ہیں-نعوذ باﷲ من ذلک  - خدا ہمیں بچا کے رکھے -

پس ان روایات سےمعلوم ہوتا ہے عصر غیبت میں منتظریں کی  ایک اور اہم ذمہ داری  علماء  ،فقہاء کی اطاعت اورفرمان برداری اور خصوصیت کے ساتھ ولی امر مسلمین کے فرمان پر لببیک کہنا اور انکے نقش قدم پر چلنا ہے ۔جو کہ حقیقت میں خط ولایت  کے ساتھ متمسک  رہنا اور صراط مستقیم پر چلنا ہے - خدایا ہمیں  ہر دور میں اپنی حجت کو تشخیص دینے اور انکی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرما  - آمین !ثم  آمین!

--------------

(1):- الصراطالمستقیم ج : 3 ص ۵    

۶۱

۵:  برادران ایمانی کے ساتھ ہمدردی اور معاونت

ائمہ معصومینؐ کے ارشادات کے مطابق ہر دور کے امام کو اپنے ماننے والے مؤمنین پر ایک مہربان اور فداکار باپ کی حیثیت حاصل ہے ، اور تمام مؤ منین کو انکے  فرزندی  کا شرف حاصل ہے  اور یہی وجہ ہے امام زمانہ عجل اﷲ فرجہ کے  دوران غیبت میں مؤمنین کو ایتام آل محمد سے پکارا گیا ہے، يُنَادِی مُنَادِی رَبِّنَا عَزَّ وَ جَلَّ أَيُّهَا الْكَافِلُونَ لِأَيْتَامِ آلِ مُحَمَّدٍ ص النَّاعِشُونَ لَهُمْ عِنْدَ انْقِطَاعِهِمْ عَنْ آبَائِهِمُ الَّذِینَ هُمْ أَئِمَّتُهُم  (1)   اورکسی مؤمن بھائی کے ساتھ احسان وہمدردی ، اسکے ساتھ تعاون کرنے کو امام زمانہ کے ساتھ تعاون کرنے اور انکے حق میں ہمدردی سے پیش آنے  اسی طرح کسی مؤمن  بھائی کے حق کشی ، اسکے ساتھ بے دردی وبے اعتنائی سے پیش آنے کو امام زمانہؑ پر ظلم وجفا اور انکے ساتھ بے اعتنائی  سے پیش آنے کے برابر شمار  کیا گیا ہے ۔

لہذا منتظرین کی ایک اور بہت ہی اہم ذمہ داری عصر غیبت میں ہر ممکنہ راستوں سے برادران ایمانی کے معاشتی ،سماجی ،اجتماعی اقتصادی ، معنوی اور دیگر مختلف قسم کے مشکلات اور گرفتاریوں کو حل کرنے اور انکی ضروریات پورا کرنے کے لیے  جد وجہد کرنا ہے - چنانچہ اسی اجتماعی ذمہ داری کی  اہمیت اور اس پر عمل کرنے والوں کی خدا  و رسول اور  انکے حقیقی جانشین کے نزدیک قدر ومنزلت کو بیان کرتے ہوۓ  جناب شیخ صدوق نے سورہ عصر کے تفسیر میں امام صادق        سے نقل کرتے ہیں آپ فرماتے ہیں :(والعصر انّ الإنسان لفی خسر ) میں عصر سے مراد قائم کے ظھور کا زمانہ ہے  اور(إنّ الإنسان لفی خسر) سے مراد ہمارے دشمن ہیں اور(إلاّ الذین آمنوا ) سے مراد وہ مؤمنین ہیں جنہون نے ہماری آیات کے زریعے  ایمان لائیں ہونگے  - اور ( وعملواالصالحات ) یعنی برادران دینی کے ساتھ ہمدردی  اورتعاون کرتے ہیں(وتواصوا بالحق ) یعنی امامت اور(وتواصوا بالصبر )

--------------

(1):-    مستدرکالوساةل :ج 17 ص 318

۶۲

زمانہ فترت یعنی وہی غیبت کا زمانہ ہے (جس میں امام  غائیب پر عقیدہ رکھتے ہیں اور اس راہ  مین پیش آنے والی مشکلات پر صبر کرتے ہیں )(1) یعنی اس سورہ مبارکہ میں نجات یافتہ مؤمنین سے مراد وہ مؤمنین ہیں جنھون نے دوران غیبت میں اپنے مالی ،معنوی اسطاعت کے زریعے پسماندہ ،بے کس اور ناتوان مؤمنین کےہم دم  اور فریاد رس رہے ہیں  ۔

اسی طرح کسی دوسرے حدیث میں امام صادق        اور امام کاظم          دونوں سے روایت ہے  فرماتے ہیں :ُ مَنْ لَمْ يَقْدِرْ عَلَی زِيَارَتِنَا فَلْيَزُرْ صَالِحَ إِخْوَانِهِ يُكْتَبْ لَهُ ثَوَابُ زِيَارَتِنَا وَ مَنْ لَمْ يَقْدِرْ أَنْ يَصِلَنَا فَلْيَصِلْ صَالِحَ إِخْوَانِهِ يُكْتَبْ لَهُ ثَوَابُ صِلَتِنا (2) جو شخص ہم اہل بیت سے تعاون کرنے یا صلہ کرنے سے معذور ہو اسے چاہیے ہمارے چاہنے والوں کے ساتھ نیکی اور تعاون کرے  تو اسے  ہمارے ساتھ تعاون کرنے اور نیکی کرنے کا ثواب عطا ہو گا،اسی طرح اگر ہماری زیارت سے محروم ہیں تو ہمارے دوستوں اوراللہ کے  صالح بندوں کی زیارت کریں تو  خدا    اسے ہماری زیارت کرنے کا ثواب  عطا کرے گا

 چنانچہ  اما م موسی کاظم         سے روایت ہے فرماتے ہیں :مَنْ أَتَاهُ أَخُوهُ الْمُؤْمِنُ فِی حَاجَةٍ فَإِنَّمَا هِيَ رَحْمَةٌ مِنَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَ تَعَالَی سَاقَهَا إِلَيْهِ فَإِنْ قَبِلَ ذَلِكَ فَقَدْ وَصَلَهُ بِوَلَايَتِنَا وَ هُوَ مَوْصُولٌ بِوَلَايَةِ اللَّهِ وَ إِنْ رَدَّهُ عَنْ حَاجَتِهِ وَ هُوَ يَقْدِرُ عَلَی قَضَائِهَا سَلَّطَ اللَّهُ عَلَ کی ولایت خدا کی ولایت سے متصل ہے  )لیکن اگر اسے رد کر لے جبکہ وہ اس شخص کی حاجت پورا کرنے کی توانائی رکھتا ہو تو پروردگاريْهِ شُجَاعاً مِنْ نَارٍ يَنْهَشُهُ فِی قَبْرِهِ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَغْفُوراً لَهُ أَوْ مُعَذَّباً فَإِنْ عَذَرَهُ الطَّالِبُ كَانَ أَسْوَأَ حَالا   (3) کسی کے پاس اسکا مؤمن بھائی کوئی نہ کوئی حاجت لے کر آۓ تو اسے  یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ  خدا کی طرف سے رحمت ہے جو اس پر نازل ہوئی ہے  پس اس حالت میں اگر اسکی حاجت پوری کر دے تو اسے ہماری ولایت کے ساتھ متصل کیا ہے  اور بے شک اسے  خدا کی ولایت حاصل ہوئی ہے (چونکہ  اہل بیت اطہارؑ  کی ولایت خدا کی ولایت کا ایک حصّہ ہے لہذا جو اہل بیت ؑؑ اطہار کی ولایت کے دائرے میں داخل ہو جائے وہ خدا کی ولایت میں آگیا ہے )

--------------

(1):- صدوق : اکمال الدین:ج۲ ،ص ۶۵۶ -  

(2):- طوسی ،تہذ یب ج ۶ ،ص۱۰۴  اور کامل زیارات :ص ۳۱۹ - 

(3):- کلینی: اصول الکاف یج : 2 ص : ۶ 19 

۶۳

لیکن اگر اسے رد کر دے جبکہ وہ اس شخص کی حاجت پورا کرنے کی توانائی رکھتا ہو تو پروردگار عالم اسکے قبرمیں آگ سے  بنائے  ہوئے ایک سانپ  کو اس پر مسلط کرۓ گا جوقیامت تک اسے ڈنستا رہے گا چاہیے اسے خدا معاف کرے یا نہ کرے اور قیامت کے دن صاحب حاجت اسکا عذر قبول نہ کرے تو اسکی حالت پہلے سے بھی  زیادہ بدتر ہو جاۓ گی-

اسی طرح  متعدد روایات میں کسی مومن بھائی کی حرمت کا خیال نہ رکھنا اسکے ساتھ نیک برتاؤ سے پیش نہ آنا اور اسکے ساتھ تعاون نہ کرنا ائمہ علیہم السلام کے ساتھ تعاون نہ کرنے اور ان مقدس ذوات کی بے حرمتی کرنے کےبرابر جانا گیا ہے چنانچہ ابو ہارو ن نے چھٹے امام سے نقل کیا ہے کہتا ہے  :قَالَ قَالَ لِنَفَرٍ عِنْدَهُ وَ أَنَا حَاضِرٌ مَا لَكُمْ تَسْتَخِفُّونَ بِنَا قَالَ فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ خُرَاسَانَ فَقَالَ مَعَاذٌ لِوَجْهِ اللَّهِ أَنْ نَسْتَخِفَّ بِكَ أَوْ بِشَيْ‏ءٍ مِنْ أَمْرِكَ فَقَالَ بَلَی إِنَّكَ أَحَدُ مَنِ اسْتَخَفَّ بِی فَقَالَ مَعَاذٌ لِوَجْهِ اللَّهِ أَنْ أَسْتَخِفَّ بِكَ فَقَالَ لَهُ وَيْحَكَ أَ وَ لَمْ تَسْمَعْ فُلَاناً وَ نَحْنُ بِقُرْبِ الْجُحْفَةِ وَ هُوَ يَقُولُ لَكَ احْمِلْنِی قَدْرَ مِیلٍ فَقَدْ وَ اللَّهِ أَعْيَيْتُ وَ اللَّهِ مَا رَفَعْتَ بِهِ رَأْساً وَ لَقَدِ اسْتَخْفَفْتَ بِهِ وَ مَنِ اسْتَخَفَّ بِمُؤْمِنٍ فِینَا اسْتَخَفَّ وَ ضَيَّعَ حُرْمَةَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ  ” (1) ایک دفعہ امام صادق       نے کچھ لوگ جوآپ کے   پاس بیٹھے ہوۓ تھے او رانکے ساتھ میں بھی تھا ،ان سےکہا تمھیں کیا ہو گیا ہے ہماری حرمت کا خیال نہیں رکھتے ہو ،تو اہل خراسان کا رہنے والا  ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ ہم آپکو سبک شمار کرے یا آپکے فرمان میں کسی چیز کی بے اعتنائی کرے ، امام نے فرمایا ہاں انھی میں سے ایک تم بھی ہو جو ہمارے  لاج نہیں رکھتے ،اس شخص نے دوبار ا    کہا میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ آپکی لاج نہ رکھوں ،فرمایا چپ ہو جاؤ   کم بخت  کیا تم نے اس شخص کی آواز نہیں سنی تھی اس وقت جب ہم جعفہ کے نزدیک تھے اور وہ تم سے کہ رہا تھا کہ مجھے صرف ایک میل تک اپنے سواری پر بٹھا کر لے چلو خدا کہ قسم میں بہت ہی تھکا ہوں ،خدا کی قسم تم نے سر اُٹھا کر  بھی اسکی طرف نہیں دیکھا اس طریقے سے تم نے اسکی بے اعتنای کی ہے اور  کوئی شخص کسی  مومن کی استخفاف  کرے اسنے ہمارے بے اعتنائی کہ ہے ،اور خدا کی حرمت ضائع کر دی ہے ۔

--------------

(1):- کلینی :روضۃ الکافی،ج۸، ص ۱۰۲ -

۶۴

اسی طرح کسی دوسرے حدیث میں جابر جعفی امام محمد باقر        سے نقل کرتے ہیں: و نحن جماعة بعد ما قضینا نسكنا، فودعناه و قلنا له أوصنا یا ابن رسول الله. فقال لیعن قویكم ضعیفكم، و لیعطف غنیكم علی فقیركم، و لینصح الرجل أخاه كنصیحته لنفسه.... ، و إذا كنتم كما أوصیناكم، لم تعدوا إلی غیره، فمات منكم میت قبل أن یخرج قائمنا كان شهیدا، و من أدرك منكم قائمنا فقتل معه كان له أجر شهیدین، و من قتل بین یدیه عدوا لنا كان له أجر عشرین شهیدا. (1) کہ ہم نے مناسک حج اکٹھے  بجھا   لا نے  کے بعد جب   امام سے الگ ہونے کو تھے آپ سے عرض کیا اے فرزند رسول    ہمارے لیے کوئی نصیحت فرمائیں تو آپ نے فرمایا تم میں سے جو قوی ہے  قدرت ومقام رکھتا ہے اسکی ذمہ داری ہے کمزور لوگوں کی مدد کرے اور جو مالدار ہے فقیروں اور بے کسوں پر ترس کریں انکی نصرت کریں ،اوراپنے  مومن بھائی کے ساتھ اس طرح خیر خواہی سے پیش آے  جس طرح اپنے نفس کے ساتھ خیر خواہ ہے .....اور اگر تم نے ہماری نصیحت پر عمل کیا  تو غیروں میں سے شمار نہیں ہوگے- اب اس حالت میں تم میں سے جو شخص  قائم آل محمدکے قیام کرنے سےپہلے مر جاۓ تووہ شہید کی موت مرا  ہے ،اور جو  اپنی زندگی میں انھیں درک کرلے اور انکے ساتھ جھاد کرے تو اسے دو شہید کا ثواب عطا کرے گا ،اور جو شخص انکے ساتھ ہوتے ہوے ہمارے کسی دشمن کو قتل کرلیں تو اسے بیس ۲۰ شہید کا اجر دیا جاۓگا- پس ان روایات سے بخوبی یہ واضح ہوتا ہے کہ منتظرین کی اپنے مومن بھائی کی نسبت کیا ذمہ داری ہے اور اس اجتماعی  ذمہ داری کی کیا اہمیت ہے کہ جس کا خیال رکھنا  ہم سب کا شرعی اور اخلا قی فریضہ ہے - 

۶: خود سازی اور دیگر سازی

منتظرین کی ایک اور اہم ذمہ داری خودسازی و اپنے جسم وروح کی تربیت کے ساتھ ساتھ دیگر سازی  اور ہم نوع کی تربیت بھی ہے ،خود سازی اور دیگر سازی ایک اہم دینی وظیفہ ہونے کے ساتھ بزرگ ترین اور عالی ترین  انسانی خدمات میں سے بھی شمار ہوتا ہے

--------------

(1):- امالی طوسی ،ص ۲۳۲ اور بحار انوار ،۵۲ ،ص ۱۲۲ ،ح ۵ - 

۶۵

اور اسلامی تعلیمات میں بھی حضرت ولی عصر ؑاور انکے جان بہ کف آصحاب  تاریخ انسانیت کے پرہیز گار ؛متقی اور صالح ترین افراد ہونگے چنانچہ انکے توصیف میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے :وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فىِ الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِىَ الصَّلِحُون٭  (1)   اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے۔

 اسی طرح احادیث معصومین میں بھی امام عصر ؑکے آصحاب وہ لوگ ہونگے جنھیں خدا ورسولؐ اور ائمہ معصومینؑ کی صحیح معرفت  حاصل ہوگئی ، اخلاق اسلامی سے متخلق؛ نیک کردار کے مالک ؛عملی میدان میں ثابت قدم و پائیدار ؛ دستورات دینی کے مکمل پابند اور فرامین معصومینؑ کے سامنے سر تسلم خم ہونگے ۔

چنانچہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام نھج البلاغہ میں انکے توصیف میں فرماتے ہیں :وَ ذَلِكَ زَمَانٌ لَا يَنْجُو فِیهِ إِلَّا كُلُّ مُؤْمِنٍ نُوَمَةٍ إِنْ شَهِدَ لَمْ يُعْرَفْ وَ إِنْ غَابَ لَمْ يُفْتَقَدْ أُولَئِكَ مَصَابِیحُ الْهُدَی وَ أَعْلَامُ السُّرَی لَيْسُوا بِالْمَسَايِیحِ وَ لَا الْمَذَايِیعِ الْبُذُرِ أُولَئِكَ يَفْتَحُ اللَّهُ لَهُمْ أَبْوَابَ رَحْمَتِهِ وَ يَكْشِفُ عَنْهُمْ ضَرَّاءَ نِقْمَتِه‏. “ (2) اخری زمانہ  وہ زمانہ ایسا ہو گا جس میں صرف وہ مؤمن نجات پاسکے گا کہ جو گمنام اور بے شر ہو گا مجمع اسے  نہ پہچانے اور غائب ہو جاۓ تو کوئی اسکی  تلاش نہ کرۓ یہی لوگ ہدایت کے چراغ اور راتوں کے مسافروں کے لیۓ  نشانیان  منزل ہوں گۓ  نہ ادھر ادُھر   لگاتے پھرین گۓ  اور نہ لوگوں کے عیوب کی اشاعت کریں گے ؛ ان کے لئے اﷲ رحمت کے دروازے کھول دے گا اور ان سے عذاب کی سختیوں کو دور کردے گا

--------------

(1):- انبیاء :۱۰۵ - 

(2):- نہج البلاغ ہ،خ ۱۰۳ ،ص ۲۰۰ ،ترجمہس ید ذیشان حیدر جوادی - 

۶۶

اسی طرح صادق آل محمد  سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں : “جو شخص چاہتا ہے کہ حضرت قائم  ؑکے اصحاب میں سے ہوں اسے چاہئے انتظار کرنے کے ساتھ ساتھ پرہیزگاری اور نیک اخلاق کو پناۓ ،پھر اگر وہ اس حالت میں انکے قیام سے پہلے مر جاۓ اور بعد میں ہمارا قائم قیام کرۓ تو اسے ایسا اجر دیا جاۓگا جیسے اس نے حضرت کو درک کیا ہو.(1) اور خود معصومینؑ کے فرمان کے مطابق مبغوض ترین فرد وہ شخص ہے جو مؤمن اور امام زمانہ کے منتظر ہونے کا دعوا کرے لیکن قول وفعل میں انکے دیے ہوۓ دستورات اور دینی قوانین کے مخالفت سمت قدم اٹھاۓ چنانچہ اسی نقطے کی طرف اشارۃکرتے ہوۓ امام ذین العابدین فرماتے ہیں :لَا حَسَبَ لِقُرَشِيٍّ وَ لَا لِعَرَبِيٍّ إِلَّا بِتَوَاضُعٍ وَ لَا كَرَمَ إِلَّا بِتَقْوَی وَ لَا عَمَلَ إِلَّا بِالنِّيَّةِ وَ لَا عِبَادَةَ إِلَّا بِالتَّفَقُّهِ أَلَا وَ إِنَّ أَبْغَضَ النَّاسِ إِلَی اللَّهِ مَنْ يَقْتَدِی بِسُنَّةِ إِمَامٍ وَ لَا يَقْتَدِی بِأَعْمَالِهِ.” (2)   کسی کو عربی اور قریشی ہونے کی بنا پر دوسروں پر کسی قسم کی فوقیت اور برتری حاصل نہیں ہے سواۓ تواضع کے اورکسی کو کوئی کرامت حاصل نہیں ہے الا  یہ  کہ تقوای اختیار کرے  اور کوئی عمل نہیں ہے سواۓ نیت کے اور کوئی عبادت نہیں ہے سواۓ تفقہ کے (یعنی عبادت درست معرفت کے ساتھ ہے ) پس ہو شار رہو!پروردگار عالم کے نزدیک مبغوض ترین شخص وہ ہے جو ہماری ملت اور مذہب پر ہو لیکن عمل میں ہماری پیروی  واقتدا ء نہ کرے۔ اسی طرح امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :إِنَّا لَا نَعُدُّ الرَّجُلَ مُؤْمِناً حَتَّی يَكُونَ لِجَمِیعِ أَمْرِنَا مُتَّبِعاً مُرِیداً أَلَا وَ إِنَّ مِنِ اتِّبَاعِ أَمْرِنَا وَ إِرَادَتِهِ الْوَرَعَ فَتَزَيَّنُوا بِهِ يَرْحَمْكُمُ اللَّهُ وَ كَبِّدُوا أَعْدَاءَنَا بِهِ يَنْعَشْكُمُ اللَّهُ  (3) ہم کسی کو مومن نہیں جانتے جب تک وہ ہماری مکمل پیروی نہ کرۓ اور یہ جان لو ہماری پیروی پرہیز کاری اور تقوای اختیار کرنے میں ہے ،پس  اپنے آپکو زہد و  تقوای کے ذریعے زینت  دو  تاکہ خدا تمھیں  غریق رحمت کرۓ ،اور اپنے تقوای کے ذریعے ہمارے دشمنوں کو سختی وتنگی میں ڈال دو تاکہ خدا تمھیں عزت کی زندگی عطا کرے-

--------------

(1):- غیبۃ نعمانی :ص   ۱۰۶ 

(2):- کلینی :روضۃ الکافی ،ص ۲۳۴ ،ح۳۱۲ - 

(3):- کلینی :اصول کاقی ،ج۲ ،ص ۷۸ ،ح۱۳ - 

۶۷

پس ان روایات اور دوسری متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ہم نے ان مقدس ہستیوں کو اپنے مولا ومقتدا قبول کیا ہے تو  وہ ذوات بھی ہم سےیہ توقع رکھنے کا حق رکھتے ہیں کہ ہم عمل وکردار میں انکے  نقش قدم پر چلیں اسی لیے معصومینؑ فرماتے ہیں :کہ تم ہمارے لئے  زینت  کا باعث بن جاؤ ننگ وعار کی باعث مت بنو (1)

۷: شبہات اور بدعتوں کا مقابلہ

زمان غیبت میں ہم سب کی  خصوصاً  علماءاور بیدار طبقے کہ ایک اہم فرائض معاشرے میں خود غرض یا سادہ لوح دوستوں کے ہاتھوں مختلف قسم کےبدعتوں اور ان شبھات کا مقابلہ کرنا ہے جو امام زمان     ہ   کی غیبت کی وجہ سے انکے بارے میں وجود میں آئی ہیں چنانچہ امام صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں :إِذَا رَأَيْتُمْ أَهْلَ الرَّيْبِ وَ الْبِدَعِ مِنْ بَعْدِی فَأَظْهِرُوا الْبَرَاءَةَ مِنْهُمْ وَ أَكْثِرُوا مِنْ سَبِّهِمْ وَ الْقَوْلَ فِیهِمْ وَ الْوَقِیعَةَ وَ بَاهِتُوهُمْ كَيْلَا يَطْمَعُوا فِی الْفَسَادِ فِی الْإِسْلَامِ وَ يَحْذَرَهُمُ النَّاسُ وَ لَا يَتَعَلَّمُوا مِنْ بِدَعِهِمْ يَكْتُبِ اللَّهُ لَكُمْ بِذَلِكَ الْحَسَنَاتِ وَ يَرْفَعْ لَكُمْ بِهِ الدَّرَجَاتِ فِی الْآخِرَةِ ” (2) میرے بعد اہل تریدد (یعنی جو  ائمہ کی ولایت و امامت کے متعلق شک وتردید کا اظہار کرے)اور اہل بدعت (یعنی دین میں نئی چیز ایجاد کرنے والا جسکا دین سے کوئی ربط نہ ہو)کو دیکھیں تو ان لوگوں سے اپنی برائت و بیزاری کا اظہار کرو ،اور اس طرح انکے خلاف پروپکنڈہ کرو  کہ آیند ہ کوئی اسلام میں اس طرح کی فساد پھلانے کی جرئت نہ کرۓ اور لوگ خود بخود ان سے دور ہو جائیں اور انکی بدعتوں کو نہ اپنائیں اگر ایسا کیا تو پروردگار عالم اسکے مقابلے میں تمھیں حسنہ دیا جاۓ گا اور تمھارے درجات کو بلند کر ے گا ۔

اسی طرح بعض شبھات دشمنوں نے خود امام زمانہؑ کے بارے میں  لوگوں کے  حضرت مہدی پر عقیدے کو کمزور کرنے اور اس میں خلل  پیدا کرنے کے لئے ایجاد کیا ہے جیسا کہ آج کل نٹ پر ۱۰  ہزارسے زیادہ شبھات انکے متعلق دیا گیا ہے؛   تو علماء کی ذمہ داری ہے کہ ان شبھات کا مقابلہ کریں

--------------

(1):-کلینی: کافی ،ج ۲ ، ص ۷۷ ،ح۹ - 

(2):- کلینی : اصول کافی،ج۲ ،ص ۳۷۵ ،ح ۴

۶۸

 اور بطوراحسن  جواب دیں  اور  لوگوں کو امام زمانہ  ہ      کے مقدس وجود کی طرف جذب ہونے کا زمینہ فراہم کریں لہذا ہماری اس اہم زمہ داری اور عصر غیبت میں رونما  ہونے والے شبھات کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ امام صادق          فرماتے ہیں :.....  فإیاكم و الشك و الارتیاب و انفوا عن أنفسكم الشكوك و قد حذرتكم فاحذروا أسأل الله توفیقكم و إرشادكم (1) خبردار شک وریب سے پرہیز کرنا ،(یعنی انکے غیبت اور ظہور کے بارے میں) اپنے دلوں سے شکوک وشبھات باہر نکال دو میں نے تم لوگوں کو برحزر کردیا ہے لہذا تم لوگ اس قسم کے شک وتردید سے باز رہو  (چونکہ اس  امر میں شک صراط مستقیم میں شک کے برابر ہے ) میں اﷲ تعالی سے تمھارے لئے توفیقات اور ہدایت کی دعا کروں گا-

اسی طرح رسول اکرم (ص) فرماتے ہیں:......... یا جابر إن هذا الأمر أمر من أمر الله و سر من سر الله مطوی عن عباد الله فإیاك و الشك فیه فإن الشك فی أمر الله عز و جل كفر (2) اے جابر انکی غیبت اورظہور میں شک کرنا  خدا سے کفر اختیار کرنے کے برابر ہے -

اورہم سب جانتے ہیں کی آج کا دور ایسا دور ہے جس میں ایک طرف دشمن مختلف شبہات اور غلط پروپکنڈوں کے ذریعے لوگوں کو عقیدہ انتظار اور اسکی حقیقت سے دوررکھنے اور انکے دلوں میں شک وتردید پیدا کرنے کے درپے ہیں تو دوسری طرف جعلی اور فرصت طلب افراد امام زمانہ ؑکے مقدس نام پر مؤمنین کے انکی نسبت صادقانہ عقیدے سے سؤء استفادہ کرنے اور مختلف قسم کی دکانین کھولنے کی کوشش میں لگے ہوۓ ہیں لہذا علماو اور ذمہ دار افراد کی ذمہ داری ان دونوں حدود  پر دشمن کے مقابلہ کرنا ہے

--------------

(1):- الغیبةللنعمان ی      ص     150 ،ح ۸ -    

(2):- صدوق اکمال الدین : ج ۱ ، ص ۲۸۷ - 

۶۹

۸:بے صبری سے پرہیزکرنا

اس میں کوئی شک نہیں کہ عصر غیبت مشکلات اور مصائب کے ہجوم لانے کا زمانہ ہے اور مومنین سے مختلف قسم کی سختیوں اور گرفتاریوں کے ذریعے سے امتحان لیا جاۓ گا تاکہ اس طرح نیک وبد ؛صادق و کاذب اور مومن ومنافق میں تمیز ہو جاۓ اور یہ ایک سنت الہی ہے اس امت یا اس زمان کے لوگوں تک محدود نہیں بلکہ گزشتہ امتوں سے لیا گیا ہے اور آئیند آنے والے نسلوں سے بھی تا قیامت تک مختلف ذریعوں سے امتحان لیا جاۓ گا ۔ چناچہ اسی سنت الھی کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ پروردگار عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے :ما كانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنینَ عَلی‏ ما أَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتَّی يَمیزَ الْخَبیثَ مِنَ الطَّيِّبِ.....٭  ” (1) اﷲ تعالی مومنین کو منافقین سے جس حالت میں نا مشخص ہے نہیں رکھا جاۓ گا ،یہاں تک (امتحان کےذریعے )خبیث اور طیب میں تمیز پیدا ہو جاۓ ۔ اسی طرح سورہ   عنکبوت کی آیت  نمبر۲   میں فرماتا ہے :أَ حَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَ هُمْ لا يُفْتَنُونَ٭ وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذینَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذینَ صَدَقُوا وَ لَيَعْلَمَنَّ الْكاذِبینَ   (2) “کیا لوگوں نے  یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دۓ جائیں گے کہ وہ یہ کہے کہ ہم  ایمان لے آۓ ہیں اور انکا امتحان نہیں ہو گا ٭ بشک ہم نے ان سے پہلے والوں کا بھی امتحان لیا ہے اور اﷲ تو بہر حال یہ جاننا چاہتا ہے کہ ان میں کون لوگ سچے ہیں اور کون جھوٹے ہیں ” 

--------------

(1):- سورہآل عمران : ۱۷۹ - 

(2):- سورہعنکبوت : ۲ -۳ - 

۷۰

اورناطق قرآن علی ابن ابی طالبؑ اسی بارے میں فرماتے ہیں :.....ِ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعَاذَكُمْ مِنْ أَنْ يَجُورَ عَلَيْكُمْ وَ لَمْ يُعِذْكُمْ مِنْ أَنْ يَبْتَلِيَكُمْ وَ قَدْ قَالَ جَلَّ مِنْ قَائِلٍ إِنَّ فِی ذلِكَ لَآیاتٍ وَ إِنْ كُنَّا لَمُبْتَلِین (1)   لوگو اﷲ تعالی کسی پر ظلم نہیں کرتا لیکن کبھی یہ ضمانت نہیں دیا ہے کہ تم سے امتحا ن بھی نہیں لیا جاۓ گا ، اور خدا سب سے بڑکر سچا ہے ،یوں فرماتا ہے “ بے شک ان حوادث اور وقعات میں علامتیں اور نشانیان ہیں اور ہم اچھے اور بُرے سب بندوں سے امتحان لیتے ہیں ”-

اور انھیں نشانیوں کی طرف اشارہ کرتے ہو ۓ اما م صادق        فرماتے ہیں :ہمارے قائم کے ظھور سے پہلے مومنین کے لئے خدا  کی  جانب سے کچھ نشانیاں ہیں ،عرض ہوا  یا ابن رسول اﷲ        وہ نشانیاں کیا ہیں ؟ فرمایا وہ نشانیاں اس کلام الھی میں ذکر ہوئی ہیں اور اس آیت کی تلاوت کی“وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْ‏ءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِنَ الْأَمْوالِ وَ الْأَنْفُسِ وَ الثَّمَراتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرینَ٭  “ (2) اور یقیناً  ہم تم سے خوف، بھوک اور اموال ،نفوس اور ثمرات کی کمی سے امتحان لیا جاۓ گا اور اے پیغمبر(ص) آپ ان صبر کرنے والوں کو بشارت دیدیں ” بے شک تم سے امتحان لیا جاۓ گا یعنی حضرت قائم کے خروج سے پہلے مومنین سے سلاطین جور  سے  ترس ،منگائی ،گرانی کی وجہ سے بھوک ؛گرسنگی ،تجارت میں ورشکستگی و ناگہانی موت اورفصل وکاشت میں نقصان کے ذریعے امتحان لیا جاۓ گا ،پھر فرمایا اے محمد بن مسلم یہ ہے اس آیت کی تاویل جسکی تاویل(وَ ما يَعْلَمُ تَأْویلَهُ إِلاَّ اللَّهُ وَ الرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنا وَ ما يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُولُوا الْأَلْباب‏ (3) سواۓ خدا اور راسخین  فی علم کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔

--------------

(1):- نہج البلاغ ہخطب ہ ۱۰۳ اردو ترجمہس ید ذیشان حیدر - 

(2):- بقرہ: ۱۵۵ - 

(3):- آل عمران :۷ - 

۷۱

اور امام زمانہؑ کے طول غیبت کے دوران  مختلف قسم کےسختیوں ا ورمصیبتوں پر صبر کرنے والوں کی توصیف میں پیغمبر اکرم(ص)  فرماتے ہیںَّ:قَالَ(ص) طُوبَی لِلصَّابِرِینَ فِی غَيْبَتِهِ طُوبَی لِلْمُقِیمِینَ عَلَی مَحَجَّتِهِمْ أُولَئِكَ وَصَفَهُمُ اللَّهُ فِی كِتَابِهِ فَقَالَ الَّذِینَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ... (1) خوش ہیں وہ لوگ جو اس کی غیبت کے زمانہ میں صبر سے کام لیں خوش ہیں وہ لوگ جواسکی محبت پر ثابت قدم رہیں،ان ہی لوگوں کی تعریف میں اﷲ نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمایا ہے ،اور وہ لوگ غیب پر ایمان رکھتے ہیں.اور متعدد روایات میں انکی غیبت کی وجہ سے پیش آنے والی مصیبتوں واذیتوں پر بے صبری کرنے سے منع کیا گیا ہے اور قضاء وقدر کے سامنے تسلم ہونے کا حکم دیا ہے جیسا کہ شیخ کلینی نے اپنی سند امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے حضرت نے فرمایا :

كَذَبَ الْوَقَّاتُونَ وَ هَلَكَ الْمُسْتَعْجِلُونَ وَ نَجَا الْمُسَلِّمُونَ  (2) ظہور کے وقت تعین کرنے والے ہلاکت میں ہوں گے لیکن قضاوقدر الہی کے سامنے تسلیم ہونے والے نجات پائیں گے

۹: جوانوں کی مخصوص ذمہ داری

اسلامی تعلیمات میں جوانی اور جوان طبقے کو خاص اہمیت اور مخصوص مقام حاصل ہے ،انکے ساتھ الفت ،عطوفت کے ساتھ پیش آنے اور ہمیشہ اچھی نگاہوں سے دیکھنے پر زور دیا گیا ہے جس طرح رسول اکرم  (ص)کا فرمان ہے:اوصیكم بالشباب خیراً فإنّهم ارقُّ افئدةً انّ اللّه بعثنی بالحق بشیراً و»نذیراً  فحالفنی الشباب وخالفنی الشیوخ .تمھیں وصیت کرتا ہوں ان جوانوں کے بارے میں جو پاک دل ہوتے ہیں ،جب اﷲ تعالی نے مجھے بشیرو نذیر بنا کر بھیجا تو یہ جوان تھے جنھوں نے میرے ساتھ دیا جبکہ عمر رسیدہ افراد نے میری مخالفت کی ۔

--------------

(1):- مجلسی : بحار الانوار،ج۵۲ ،ص ۱۴۳ - 

(2):- الکاف یج : 1 ص : 368

۷۲

پس کلام رسول پاک (ص) سےہمیں یہ درس ملتا ہے کہ جوانوں کو بری نگاہوں سے نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ انکے بارے  میں نیک سوچ رکھنا چاہیے اور تاریخ اسلام اس بات پر زندہ گواہ ہے کہ جب نبی اکرم(ص) نے ذوالعشیرمیں قریش کو توحید اور دین کی طرف پہلی بار دعوت دیا تو جس شخص نے سب سے پہلے آنحضرت(ص) کی دعوت پر لبیک کہا وہ علی ابن ابی طالب ۱۰ سالہ نوجوان تھے جبکہ بزرگان قریش آخری دم تک آپ کے مخالفت کرتے رہیں ۔

جوانی کی قدر وقیمت کے لیے یہی کافی ہے کہ خود امام زمانہؑ  ظہور کریں گے تو  آپ جواں  ہونگے  جیسا کہ امیر مومنین فرماتے ہے-مہدیؐؑ  قریش کے خاندان کا  ایک دلیر ؛ شجاع اور تیز ہوش جوان ہونگے تیس یا چالیس سے کم عمر میں ظہور کریں گے - اسی طرح امام زمانہ  ؑکا خاص سفیر نفس زکیہ جنہیں رکن مقام کے درمیان شہید کیا جاۓ گا ایک جوان ہو ں گئے ـ   اما م صادق        اس بارے میں فرماتے ہیں :امام زمانہ کے ظہورکے وقت انکی طرفسے ایک جوان شخص سفیرکے عنوان سے منتخب ہونگے تاکہ امام ؑکے پیغام کو اہل مکہ تک پہنچا  ۓ اور انھیں آنحضرت کی حکومت کے پرچم تلے آنے کی دعوت دے لیکن مکہ کے حکمران اسے رکن  و مقام کے درمیان شھید کریں گے(1)   اسی طرح مختلف روایا ت میں آیا ہے کہ امام عصر کے ۳۱۳  اصحاب میں سے بہت ہی کم افراد کے سب جوان ہونگے  -چناچہ امیر مومنین        فرماتے ہیں  - امام مہدی ؑکے اصحاب سارے جوان ہونگے ان میں کوئی بھوڑے نہیں ہونگے سواۓ آنکھ میں سرمہ اور کھانےمیں نمک کی برابرکے :أصحاب المهدی شباب لا كهول فیهم إلا مثل كحل العین و الملح فی الزاد و أقل الزاد الملح (2)   اور کتنا ہی کم ہو تا ہے کھانے میں نمک  کی مقدار ۔

--------------

(1):- طوسی الغیبہ ،ص ۴۶۴ -

(2):- طوسی الغیبہ ،ص ۴۷۶  اور بحار انوار ج ۵۲ ، ص ۳۳۳ -

۷۳

 اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اما م زمانہؑ کے غیبی ندا پر سب سے پہلے  لبیک کہنےوالے اکثر جوان ہی ہونگے  امامؑ صادق  فرماتے ہیں: امام ؑکے ظہور کرنے کے بعد جب انکا آسمانی ندا انکے کانوں تک پہنچ جاے گی تو اس حالت میں لبیک کہیں گے کہ اپنے  اپنے چھتوں پر آرام کررہے ہونگے اور بغیر کسی آمادگی کے حرکت کریں گے اور صبح ہوتے ہوتے اپنے امامؑ کی زیارت سے شرف یاب ہونگے -  (1)

سوال نمبر 14: کیا عصر غیبت میں حضرت مھدی  سے ملاقات ممکن ہے اگر ممکن ہے تو کیسے ؟

جواب : کثرت روایات اور مستند تاریخی حوالے یہ یہ بات ثابت ہے کہ غیبت صغری میں حضرت مھدی  کے نائبین خاص کے ذریعہ آپکے مانے والے آپ سے رابطہ برقرار کیے ہوے تھے او ر ان میں سے بعض افراد امام  کے حضور میں شرف یاب بھی ہوئے ہین ۔لیکن غیبت کبری میں یہ رابطہ ختم ہو گیا ہے اور امام عصر  سے عام طور پر ملاقات کرنا عادتا ً ناممکن ہے چو نکہ بنا اور وظیفہ آپکے لوگوں کی نگاہوں سے مخفی رہنا ہے لیکن اسکے باوجود عقلاً اور شرعاً دونو ں اعتبار سے آپکی دیدار سے مشرف ہونے میں کوئی مانع نہیں ہے جسکے تقریباً تمام علماء متقدمیں اور متاخریں سب متفق ہیں ۔جیسا کہ شیخ طوسی قدس سرہ فرماتے ہیں : ہم ممکن سمجھتے ہیں کہ بہت سے اولیا اور انکی امامت کے ماننے والے حضرات انکی خدمت میں پہونچیں اور انکی ہستی سے استفادہ کریں(2)    اسی طرح سیّد ابن طاووس علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں : امام کی زیارت کے راستے ہر اس شخص کے لیے کھلا ہوا ہے جسے خدا اپنے بے انتہا احسان اور انکی زیارت عنایت فرمائے(3) :  اور تاریخ میں بھی انتہائی باوقا ر افراد  اور عظیم الشان علماء کی امام زمانہ  سے ملاقات کے واقعات نقل ہوئے ہیں (4)

--------------

(1):- نعمانی الغیبہ :ص ۳۱۶  ،باب ۲۰ ح ۱۱-

(2):- کلمات المحقیقن :ص533

(3):- الطرائف : ص185 

(4):- دیکھئے:جنة الماویٰ،اور نجم الثاقب،محدث نوری

۷۴

یہاں ضروری ہے کہ امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی ملاقات کے بارے میں بحث کے حوالے سے درج ذیل نکات پر توجہ دی جائے:

پہلا نکتہ یہ ہے کہ امام  علیہ السلام  کی ملاقات کبھی ایسے لوگوںکی نصرت اور مدد کے لئے ہوتی ہے کہ جو پریشانیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور تنہائی و بے کسی کا احساس کرتے ہیں۔ مثلاً جیسے کوئی حج کے سفر میں راستہ بھٹک گیا اور امام  علیہ السلام  یا ان کے اصحاب میں سے کسی صحابی نے اسے سرگردانی سے نجات دی اور امام  علیہ السلام سے اکثر ملاقاتیں اسی طرح کی ہوئی ہیں۔

لیکن بعض ملاقاتیں عام حالات میں بھی ہوئی ہیں اور ملاقات کرنے والے اپنے مخصوص روحانی مقام کی وجہ سے امام  علیہ السلام  کی ملاقات سے شرفیاب ہوئے ہیں۔لہٰذا مذکورہ نکتے کے مد نظر توجہ رہے کہ ہر کسی سے امام  علیہ السلام کی ملاقات کا دعویٰ قابل قبول نہیں ہے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ غیبت کبریٰ کے زمانہ میں خصوصاً آج کل بعض لوگ امام زمانہ  علیہ السلام  کی ملاقات کا دعویٰ کرکے اپنی دُکان چمکا کرشہرت اور دولت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس طرح بہت سے لوگوں کو گمراہی اور عقیدہ و عمل میں انحراف کی طرف لے جاتے ہیں، بعض دعاؤں کے پڑھنے اور بعض ایسے اعمال انجام دینے کی دعوت دیتے ہیں کہ ان میں سے بہت سے اذکار اور اعمال کی کوئی اصل اور بنیاد بھی نہیں ہے۔ امام زمانہ علیہ السلام  کے دیدار کا وعدہ  دے کر ایسی محفلوں میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں جن کے طور طریقے دین یا امام زمان علیہ السلام     کے لئے قابل قبول نہیں اوریوں وہ لوگ امام غائب کی ملاقات کو سب کے لئے ایک آسان کام قرار دیتے ہیں، جبکہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام  علیہ السلام  خداوندعالم کے ارادہ کے مطابق مکمل طور پر غیبت میں ہیں اور صرف ایسے گنتی کے چند افراد ہی کی امام  علیہ السلام سے ملاقات ہوتی ہے جن کی نجات فقط لطف الٰہی کے اس مظہر یعنی اما م عصر کی براہ راست عنایت پرمنحصر ہوتی ہے۔

۷۵

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ امام علیہ السلام  کی ملاقات صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب امام زمانہ  علیہ السلام کی نظر میں کوئی مصلحت اس ملاقات میں ہو،

لہٰذا اگرکسی عاشق امام  علیہ السلام کو اس کے تمام تر اشتیاق ورغبت اور بھرپور کوشش کے باوجودبھی امام سے ملاقات کا شرف حاصل نہ ہوسکے تو اس کوما یوسی اور ناامیدی کا شکار نہیں ہونا چاہئے اورملاقات نہ ہونے کو امام  علیہ السلام کے لطف و کرم کے نہ ہونے کی علامت قرار نہیں دینا چاہئے، جیسا کہ جو افراد امام  علیہ السلام  کی ملاقات  سے فیض یاب ہوئے ہیں ان کی ملاقات کو ان کے تقویٰ اور فضیلت کی علامت قرارنہیں دیا جا سکتا ہے۔

حاصل کلام یہ کہ اگرچہ امام زمانہ  علیہ السلام کے جمالِ پر نور کی زیارت اور دلوں کے اس محبوب سے گفتگو اور کلام کرنا واقعاً ایک بڑی سعادت ہے لیکن آئمہ  علیہم السلام خصوصاً امام عصر علیہ السلام  اپنے شیعوں سے یہ نہیں چاہتے کہ ان سے ملاقات کی کوشش میں رہیں اور اپنے اس مقصود تک پہنچنے کے لئے  چِلّہ  کاٹیں، یا جنگلوں میں مارے مارے پھریں؛ بلکہ آئمہ معصومین علیہم السلام نے بہت زیادہ تاکید کی ہے کہ ہمارے شیعوں کو ہمیشہ اپنے امام کو یاد رکھنا چاہئے اور ان کے ظہور کے لئے دعا کرنا چاہئے اور آپ کی رضایت حاصل کرنے کے لئے اپنی رفتار و کردار کی اصلاح کی کو شش کرنا چاہئے اورآپ کے عظیم مقاصد کے حصول کے راستے پر قدم بڑھانا چاہئے تاکہ جلد از جلدبشریت کی اس آخری امید کے ظہور کا راستہ ہموار ہوجائے اور کائنات ان کے وجود سے براہ راست فیضیاب ہو۔خود امام مہدی  علیہ السلام فرماتے ہیں:''اَکثِرُْوا الدعَاء َ بِتَعجِیلِ الفرجِ، فانَّ ذَلکَ فَرَجُکُم'' (1)  

--------------

(1):- کمال الدین،ج2،باب45،ح4،ص239. اس مطلب کو محور کائنات  جناب  سیفی کی کتاب سے لیا گیا ہے ۔

۷۶

سوال نمبر 15: انتظار کیا ہے ؟  اور اسکا صحیح  معنی بیان کیجہے ؟

ج : انتظار کا صحیح مفہوم :

لغت کے اعتبارسے انتظار  ایک نفسیاتی حالت جو آئندہ اور مستقبل کے لیۓ  امیدوار ہونا ہے لیکن اسلامی تعلیمات میں انتظار نہ صرف ایک نفسیاتی حالت کا نام نہیں بلکہ عقیدہ ہے عقیدہ حق وعدالت  کے طاقتوں کا ظلم وباطل کے طاقتوں پر مکمل طور پر غالب آنے ،تمام انسانی اقدار کا روۓ زمین پر برقرار ہونے اور مدینہ فاضلہ یعنی ایک آئیڈیل آفاقی معاشرے کے وجود میں لانے بلاآخر عدل الہی اور دین الہی کا اس روۓ زمین پر آخری حجت خدا کے ہاتھوں جلوہ گرہونے کا ۔

انتظار نظریہ ہے نظریہ آخری زمانہ میں منجی موعود کا ظہور کرنے اور عالم بشریت کو موجودہ حالات سے نجات دینے اور مستضعفیں کے ہاتھوں ایک آفاقی اور الھی نظام کا قائم کرنے کا ہے ۔انتظار عمل اور حرکت ہے ایسا عمل جو جس میں نفس کہ تزکیہ ہو، فردی اور اجتماعی اصلاح ہو یعنی خود سازی کے ساتھ دیگر سازی اور سماج سازی بھی ہو ،اور ایسی حرکت جو منظم اور انسانی زندگی کے تمام پہلو اور زاویوں سے  ہو، اور اس آفاقی نظام کے لیۓ  زمینہ فراہم کرۓ اور اس دور کے ساتھ ہم آہنگ اور وہم سوہوں  یہ ہے حقیقت انتظار  اسی لیے اہل بیت اطہارعلیم السلام نے واضح  الفاظ مین نظریۃانتظار کے بنیادی رکن کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ فرمایا ہے کہ انتظار صرف نفسیاتی حالت کا نام نہیں بلکہ عمل ہے اور وہ بھی بہتریں عمل ہے جیسا کہ  فریقین کی جانب سے منقول ہے رسول خدا (ص) نے فرمایاافضل اعمال امتی انتظار الفرج من اﷲ (1) -میری امت کے اﷲ تعالی کی جانب سے ظہور وآسائش کا انتظار کرنا بزرک ترین عمل ہے ۔ یاکسی اور مقام پر   آپ  یوں فرماتے  ہیں  -انتظار الفرج عبادة افضل اعمال اُمّتی انتظار فرج اﷲ عزّوجل  (2) - فرج اور آسائش کا انتظار کرنا عبادت ہیں میری امت کے اعمال میں سب کے بہتر عمل اﷲ کی طرف سے فرج وکشائش کا انتظار ہے

--------------

(1):- کمال الدین:  ج ۲ باب نمبر ۵۵ ح ۱ -

(2):- کنزل العمال : ج ۳ ص ۲۷۳ ح ۶۵۰۹ -

۷۷

اور اسی مضمون میں ائمہ معصومینؑ  سے بھی بے شمار روایتیں نقل ہوئی ہیں  جیسا کہ امیر المؤمنیں علی          فرماتے ہیں ۔انتظروا الفرج ولا تیأسو من روح اللّه ،فإنّ أحب الأعما الی اللّه عزّوجل انتظار الفرج  الآخذ بأمرنا معنا غداً فی حظیر القدس ،والمنتظر لأمرنا كالمتشحط بدمه فی سبیل اللّه (1)   آسائش اور رہائی کا انتظار کرو  خدا کی  رحمتوں سے کبھی مایوس نہ ہوجاؤ  اسلئے کہ پروردگا ر عالم کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل انتظار فرج ہے اور ہماری ولایت کو مضبوطی سے تھامنے والا کل جنت میں ہمارے ساتھ ہوگا  اور ہماری ولایت وامامت کے انتظار کرنے والا اس شخص کی مانند ہے  جو اﷲ کے راہ میں اپنے خون سے غلطان  ہو

د: انتظار کا غلط مفہوم اور اسکا منفی نتائیج .

ممکن ہے بسا اوقات نظریہ انتظار کو اپنے  درست اور اصلی مفہہوم  میں نہ سمجھنےبلکہ  کج فہمی  کے شکار ہونے  اور اسے غلط معنی اور مفہوم مراد لینے کی وجہ سے  یہی انتظار سازندگی وتعمیری روخ کو بدل کر تخریبی ویرانگری کا روخ اختیار کر لے اور ایک متحرک انقلابی اور پاک سرش شخص یا معاشرے کو  رکود وجمود ،مفلوج اور خباثت کی طرف دعوت دے  -

اگر آپ تاریخ  کا مطالعہ کریں تو سینکڑوں؛  ہزاروں کی تعداد میں افراد مختلف گروہوں  تنظیموں کی شکل میں نظر  آئیں گے جنہون  نے عقیدہ انتظار کو الٹا سمجھنے  اور اسے غلط مفہوم مراد لینے کی وجہ سے نہ صرف انتظار کو اپنے ترقی وسازندگی کا ذریعہ بنایا بلکہ الٹا یہی انتظار انکےمفلوج ہونے جمود کے شکار ہونے اور اپنے علاوہ سکاج کو بھی فساد اور گناہوں کی طرف دعوت دینے کا سبب بنا مثال کے طور پر (انجمن حجتیہ )نامی تنظیم جنہوں نے انقلاب اسلامی ایران سے پہلے انقلاب کے دوران او انقلاب کے بعد بھی ایران میں ملکی سطح  پر لوگوں کو فساد اور گناہوں کی طرف دعوت دیتے تھے اور انکا یہ شعار تھا کہ ہم معاشرے میں  جتنا بھی ہو سکھے گناہوں کو اور ظلم وبربریت کو عام کر دے

--------------

(1):- بحار انوار : ج ۵۲ ص ۱۲۳ ح ۷ -

۷۸

اتنا ہی امام زمانہ کی ظہور میں تعجیل کا زمینہ فراہم ہو گا اور امام جلدی ظہور کریں گے ہم یہاں پر ان گروہوں میں سے ایک دو کی طرف اشارہ کرتے ہیں تاکہ مؤمنین کے لیےاس قسم کے منحرف شدہ گروہوں کو پہچاننے اور ان سے دوری اختار کرنے میں مدد ثابت ہو جاے  ۔

پہلاگروہ ـ :1

لوگوں کے ایک گروہ کا یہ نظریہ ہے کہ عصر غیبت میں ہماری ذمہ داری صرف اور صرف حضرت حجت         کے تعجیل فرج کے لیے دعا کرنا ہے اور کسی قسم کی اصلا حی واجتماعی حرکت کو انتظار اور خدائی مصلحت کے خلاف سمجھتے ہیں انکا خیال ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے ہونے دو ؛ ہمیں کوئی ربط نہیں امام زمان       ہ خود تشریف فرما کر ان سب کو ٹھیک کریں گے،اسے پہلے جو بھی علم اٹھے گا باطل کا علم ہو گا اور لا محالہ دین و شریعت کے خلا ف ہو گا لہذا  اسے اصلاحی اور اجتما عی حرکت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوتے ہیںامام خمینی قدس اﷲ (عصر حاضر کی عظیم ہستی)ا نکے رد میں فرماتے ہیں : (کچھ لوگ انتظار فرج کو صرف مسجدوں حسینیوں اور گھروں میں بیٹہ کر امام زمانہ کے ظہور کے لیے خدا کی درگاہ میں دعا کرنے میں دیکھتا ہے اور  تکلیف اور ذمداری سمجھتے ہیں ہم سے کوئی ربط نہیں دنیا میں ملتوں  پر کیا گزرے ،خود امام ظہور کریں گے تو سب کچھ ٹھیک کریں گے )یہ ان لوگوں کی منطق ہے جو حقیقت میں اپنے وظیفے پر عمل کرنے سے گریز کرتا ہے ،اسلام انکو قبول نہیں کرتا بلکہ ہماری ذمہ داری ہے کہ انکی آمد کے لیے زمینہ فراہم کر یں مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کریں انشاء اﷲ ظہور کریں گے(1)   اگر ہماری بس میں ہوتا تو پوری دنیا  سے ظلم وجور کو مٹا دیتے ہماری شرعی ذمہ داری تھی لیکن یہ ہماری بس سے باہر ہے ،اور حقیقت یہ ہے کہ حضرت حجت دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے یہ نہیں کہ تم لوگ اپنے شرعی تکلیف سے ہاتھ اُٹھاے بیٹھے اور اپنی ذمہ داری کو انجام نہ دے(2)

--------------

(1):- مجلہم ہد ی موعود : شمارہنمبر ۱،ص ۱۶ -

(2):- مجلہم ہد ی موعود : شمارہنمبر ۱،ص۱۴ -

۷۹

 بلکہ دوران غیبت میں چونکہ احکام حکومتی اسلام جاری وساری ہیں کسی قسم کی ہرج و مرج  قابل قبول نہیں ہے ،پس حکومت اسلامی کا تشکیل دینا ہماری ذمہ داری ہے جسکا عقل حکم کرتی ہے ،تاکہ کل اگر ہم پر حملہ کرے یا ناموس مسلمین پر ہجوم لانے کی صورت میں دفاع کر سکے اور انھویں روک سکے ہم ان سے یہ سوال کرتے ہیں ،کہ کیا پیغمبر اکرم (ص)نے جن قوانین کی تبلیغ وتبین اور نشروتنفیذ کے لیے ۲۳ سال طاقت فرسا زحمتیں برداشت کی وہ قوانیں محدود مدت کے تھیں ؟ یا خدا نے ان قونیں کے اجرا کرنے کو ۲۰۰ سال تک کے لیے محدود کیا  ؟ کیا غیبت صغری کے بعد اسلام نے سب کچھ  چھوڑ دیا ؟(بے شک ) اس طرح کا عقیدہ اور اسکا اظہار کرنا اسلام کے منسوخ  ہو جانے پر عقیدہ رکھنے اور اسے اظہار کرنے سے زیادہ بدتر ہے ، کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اب اسلامی مملکتوں کا انکے حدود اور باڈروں کا دفاع کرنا واجب نہیں ہے یا مالیات ،جزیہ ،خمس وزکواۃ  اور ٹیکس نہیں لینا چاہیے ،یا اسلام کے کیفری احکام دیات؛  قصاص سب کی چھٹی ہے(1)  

دوسرا اور بدترین گروہ

اس گروہ کا کہنا ہے کہ نہ صرف سماج سے ظلم وستم  کو ختم کرنا اور گناہوں سے پاک کرنا ہماری ذمہ داری ہے بلکہ  ہمیں چاہیے کہ لوگوں کو گناہوں کی طرف دعوت دیں اور جتنا بھی ہو سکے ظلم وبربریت کے دائرے کو بڑاھنے کی کوشش کریں تاکہ امام زمانہ کی ظہور کے لیے زمینہ فراہم ہو جاۓ ،اس گروہ   میں بعض خود غرض  افراد بھی ہوتے ہیں  جو سوچھے سمجھے فساد کی طرف دعوت دیتے  ہیں  اور بعض ایسے سادہ لوح افراد بھی ہوتے ہیں جو دوسروں کے غلط افکار کی زد میں آکر منحرف  ہوچکے ہوتے ہیں ۔انکے رد میں رہبر کبیر امام خمینی فرماتے ہیں :یہ جو کہتے  ہیں ضروریات اسلام کے خلاف ہے ،یہ کہ ہم خود بھی گناہ  انجام دیں اور معاشرے میں بھی گناہوں کو  پھلائے تاکہ حضرت حجت         جلدی ظہور کرے ،....حضرت حجت      ظہور کریں گے تو  کس لیے ظہور کریں گے ؟ اس لیے ظہور کریں گے کہ دنیا  میں عدالت پھیلانے کے لیے   ،حکومت کو تقویت دینے کے لیے ، فساد کو زمین سے ریشہ کن کرنے کے لیے ظہور کریں گے ،

--------------

(1):- مجلہم ہد ی موعود : شمارہنمبر ۱،ص۱۵ -

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

للذين احسنوا فى هذه الدنيا حسنة لدار الآخرة خير

اگر چہ آيت ميں اخروى پاداش كا ذكر نہيں آيا ليكن ''فى ہذہ الدنيا حسنہ'' ( دنيا ميں احسان كرنے والوں كے ليے نيكى ہے) كے قرينہ كى بناء پر جملہ ''ولدار الآخرہ خير'' جو كہ اخروى گھر كى برترى كو بيان رہا ہے اور اس نكتے كى طرف متوجہ كررہا ہے كہ اخروى زندگى كى پاداش اعلى وبرتر ہے _

۱۲_ اخروى جزائيں ، دنياوى جزاؤں سے بہتر ہيں _للذين احسنوا ء فى هذا الدنيا حسنة والدار الآخرة خير

۱۳_ انسان كا عقيدہ و عمل ، اس كى دنياوى و اخروى سعادت كى تعين ميں موثر ہے_

وقيل للذين اتقو ماذا انزل ربّكم قالوا خيراً الذين احسنوا فى هذا الدنيا حسنة ولدار الاخرة خير

''ا تقوا''اچھے اور پسنديدہ عمل پر دلالت كررہا ہے اور ''قرآن كے مطلق خير ہونے پر يقين'' اچھے عقيدہ كى طرف اشارہ ہے كہ مجموعى طور پر دنياوى اور اخروى نيكى كو دريافت كرنے كا موجب بنيں گے_

۱۴_ انسانوں كى زندگى ، موت كے ذريعہ ختم نہيں ہوگي_للذين احسنوا ولدار الآخرة خير

اس بات كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ آيت دوسرے جہان ميں نيك افراد كى پاداش كو بيان كررہى ہے_ لہذا اس سے معلوم ہوتا ہے كہ موت ان كى زندگى كا خاتمہ نہيں ہے_

۱۵_ آخرت ميں متقين كا بہت ہى اچھا مقام ہے_ولنعم الدار المتقين

۱۶_ تقوى اور احسان كى عاقبت ، دنياوى اور اخروى سعادت ہے_للذين احسنوا ولنعم دار المتقين

۱۷_ احسان ، متقين كى نشانى ہے_للذين احسنوا ولنعم دار المتقين

۱۸_ قرآن كا خداوند عالم كى طرف سے نزول اور اس كے خير مطلق ہونے كا عقيدہ ركھنے والوں كے ليے آخرت ميں نہايت ہى اچھا مقام ہے_وقيل للذين اتقو ماذا انزل ربّكم قالوا خيراً ولنعم دار المتقين

۱۹_ تقوى اور احسان دو اہم امور اور پاداش كے حامل ہيں _للذين ...احسنوا فى هذه الدنيا حسنة ولنعم دارا لمتقين

۲۰_ متقين ، تكبر كى فكر سے منزّہ ہيں _

۴۰۱

فلبئس مثوى المتكبرين ولنعم دار المتّقين

متكبر گروہ كہ جن كے ليے برا مقام شمار كيا گيا ہے مقابلے ميں متقين كو پيش كرنا اور ان كے ليے اچھے مقام كا تعارف كروانے سے معلوم ہوتاہے كہ متقين تكبر جيسى صفت سے منزّہ ہيں _

۲۱_ متقين ، صحيح عقيدہ اور اچھے عمل كے حامل ہيں _وقيل للذين اتقواماذا انزل ربّكم قالوا خيراً للذين احسنوا المتقين

آخرت:آخرت كى ارزش۱۰; آخرت كى دنيا پر برترى ۱۰

احسان :احسان كى ارزش ۱۹; احسان كى پاداش ۱۹; احسان كے آثار ۱۶; احسان كے موارد۹

اقدار:۱۹

اقرار:حق كے اقرار كا زمينہ ۳

الله تعالي:الله تعالى كى ربوبيت كے آثار ۵

انسان :انسانوں كا انجام۱۴

پا داش:اخروى پاداش كى ارزش ۱۲ ; دنيوى پاداش كى ارزش۱۲

تقوي:تقوى كى ارزش۱۹; تقوى كى پاداش۱۹; تقوى كے آثار ۲،۳،۱۶

حق:حق كو قبول كرنے كا زمينہ۳

حيات:موت كے بعد زندگي۱۴

دنيا:دنيا كا كردار۶; دنيا كى ارزش ۱۰

دين:دين كا خير والا ہونا ۴; دين كوبيان كرنے كا زمينہ۵; دين كے بارے ميں اظہار نظر كرنا۹; دين كے مقاصد ۷

سعادت:اخروى سعادت كے اسباب ۱۳،۱۶ دنياوى سعادت كے اسباب۷، ۱۳،۱۶

عقيدہ :عقيدہ كے آثار ۱۳; قرآن كے خير ہونے كا عقيدہ ۱۸; قرآن كے وحى ہونے كا عقيدہ ۱۸

۴۰۲

عمل :عمل كے آثار ۱۳; عمل كى فرصت۶

قرآن:قرآن پرايمان لانے والوں كے اخروى مقامات ۱۸; قرآن كا خير ہونا ۱;قرآن كے نازل ہونے كا زمينہ۵

متقين:متقين اور تكبر۱۰; متقين كا احسان ۱۷; متقين كا پسنديدہ عقيدہ ۲۱; متقين كا پسنديدہ عمل ۲۱; متقين كا عقيدہ ۱; متقين كا منزہّ ہونا ۲۰; متقين كي خصوصيات ۲۰; متقين كى علامات ۱۷; متقين كے اخروى مقامات ۱۵

محسنين:محسنين كى اخروى پاداش۱۱; محسنين كى دنياوى پاداش ۸; محسنين كى دنياوى پاداش كى ارزش۱۱

موت:موت كا كردار ۱۴

وحي:وحى كا خير ہونا ۱; وحى كى ارزش كو پہچاننے كا زمينہ ۲;وحى كے بارے ميں اظہار نظر كرنا۹

آیت ۳۱

( جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ لَهُمْ فِيهَا مَا يَشَآؤُونَ كذالك يَجْزِي اللّهُ الْمُتَّقِينَ )

وہاں ہميشہ رہنے والے باغات ہيں جن ميں يہ لوگ داخل ہوں گے اور ان كے نيچے نہريں جارى ہوں گى وہ جو كچھ چاہيں گے سب ان كے لئے حاضر ہوگا كہ اللہ اسى طرح ان صاحبان تقوى كو جزا ديتا ہے _

۱_ آخرت ميں اہل تقوى كامقام ، ہميشہ رہنے والى جنت ہے_ولنعم الدار المتقين _ جنّت عدن

۲_ اہل تقوى كى بہشت ميں بہت سى جارى نہريں ہيں _جنّت عدن يدخلونها تجرى من تحتها الا نهار

۳_ جنت كے متعدد باغ اور باغيچے ہيں _جنّت عدن

۴۰۳

''جنت '' كا معنى ايسا باغ ہے جس ميں ايسے درخت ہوں جن كے جھنڈنے زمين كو چھپار كھا ہو_ اس كو جمع لانامذكورہ نكتے كى طرف اشارہ كررہا ہے_

۴_ جنت ميں متقين كى تمام خواہشات كو پورا كيا جائے گا_دار المتقين جنت عدن يدخلونها لهم فيها مايشاء ون

۵_ جنت ميں انسان كى تمام قابل تصور نعمات اور اچھائياں پائي جائيں گي_جنت عدن لهم فيها ما يشاء ون

۶_ اچھا مقام ، وہ مقام ہے جس ميں انسان كى تمام خواہشات كو پورا كيا جائے _

ولنعم الدار المتقين جنت عدن لهم فيها ما يشاء ون

۷_ جاودانى جنت ميں داخل ہونا اور اس ميں تما م خواہشات كى تكميل ، خدواند عالم كى اہل تقوى كو جزا دينا ہے_

دار المتقين جنت عدن لهم فيها ما يشاء ون

۸_ تقوى ، جنت ميں داخل ہونے اور نعمات الہى كے بحر بيكراں تك پہنچے كا زمينہ فراہم كرتا ہے _

دار المتقين جنت عدن ...لهم فيها ما يشاء ون

۹_ اخروى سعادت تك رسائي ، جنت ميں مقام پانا اور اس ميں تمام خواہشات كا پورا كيا جانا يہ اہل تقوى كے ليے خدواند عالم كى پاداش ہے_ولنعم الدار المتقين _ جنت عدن لهم فيها ما يشاء ون لذلك يجزى الله المتقين

الله تعالى :الله تعالى كى جزائيں ۷، ۹; الله تعالى كى نعمات ۸

انسان:انسان كى خواہشات كا پورا ہونا ۶

بہشت:بہشت كى نعمات ۵; بہشت كى نہريں ۲;بہشت كے اسباب ۸; بہشت كے باغوں كا متعدد ہونا ۳; بہشت كى صفات ۵

بہشتي:بہشتيوں كى خواہشات كى تكميل۴

تقوي:تقوى كے آثار ۸; تقوى كى اہميت ۸،۹

متقين:متقين بہشت ميں ۱،۴،۷،۹; متقين كى اخروى

۴۰۴

پاداش ۷،۹ ; متقين كى اخروى سعادت ۹: متقين كى خواہشات كا پورا ہونا ۴،۷،۹

مقامات:اچھے مكان كے شرائط۶

نعمت:نعمت كا زمينہ ۸

آیت ۳۲

( الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلآئِكَةُ طَيِّبِينَ يَقُولُونَ سَلامٌ عَلَيْكُمُ ادْخُلُواْ الْجَنَّةَ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ )

جنھيں ملائكہ اس عالم ميں اٹھاتے ہيں كہ وہ پاك و پاكيزہ ہوتے ہيں اور ان سے ملائكہ كہتے ہيں كہ تم پر سلام ہو اب تم اپنے نيك اعمال كى بنا پر جنّت ميں داخل ہوجاؤ_

۱_ انسانوں كى روح ، ملائكہ كے ذريعے قبض ہوتى ہے_الذين تتو فّهم الملائكة

۲_ انسانوں كى روح كو قبض كرنے والے ، متعدد ملائكہ ہيں _الذين تتو فّهم الملائكة

۳_ اہل تقوى ، پاكيزہ انسان اور جہالت و گناہ سے منزہ ہيں _

كلمہ طيّب كى جب انسان كى طرف نسبت دى جاتى ہے تو اس كا معنى آلودگى ، جہالت گناہ اور قبيح اعمال سے دورى ہوتا ہے_

۴_ متقين ، قبض روح كے وقت ، نفس پر ہر قسم كے ظلم سے دور ہيں _المتقين الذين تتو فّهم الملائكة طيبين

آيت ''الكفارين الذين تتوفّہم الملائكہ ظالمى انفسہم''سے مقابلہ كے قرينہ كى بناء پر يہ احتمال ہے كہ طيب ( پاكيزہ) سے مراد نفس پر ظلم سے دورى ہے_

۵_ انسان، موت كے ذريعہ نيست و نابودنہيں ہوتا ہے_الذين تتوفّهم الملائكه

( توفّى مصدر ہے) ''تتوفي'' كا معنى كسى چيز كو

۴۰۵

بطور كامل لينا ہے اور يہ مطلب اس چيز سے حكايت ہے كہ انسان كى حقيقت كو اخذ كياجاتا ہے اور وہ منتقل ہوتى ہے_آيت كا بعد والا حصہ (سلام عليكم ادخلوا الجنة ) بھى اس مذكورہ مطلب پر مويد ہے_

۶_ انسان ، جسم سے بالا تر حقيقت كا مالك ہے_تتوفّهم الملائكة

واضح ہے كہ موت كے بعد انسان كا جسم ، زمين ميں رہ جائے گا اور بوسيدہ اور زائل ہوگا اور يہ اس بات پر علامت ہے كہ روح كو قبض كرنے والے ملائكہ جو چيز قبض كرتے ہيں _ضرورى ہے وہ جسم كے علاوہ كوئي چيز ہو اور جو ''سلام'' اور ''ادخلوا'' كے خطاب كى قابليت ركھتى ہو _

۷_ جن لوگوں كى روح پاكيزہ حالت ميں قبض ہوگى ملائكہ ان كا استقبال كريں گے_

الذين تتو فّهم الملائكه طيبين يقولون سلم عليكم

۸_ متقين كى روح قبض كرتے وقت، ملائكہ ان پر درود وسلام بھيجتے ہيں _

المتقين الذين تتوفّهم الملائكة طيبين يقولون سلم عليكم

۹_ ملائكہ ، متقين كا احترام و تكريم بجالاتے ہيں _المتقين الذين تتوفّهم الملائكه طيبين يقولون سلم عليكم ادخلو الجنة

۱۰_ اہل تقوى كى روح قبض ہونے كے وقت ، ملائكہ كے پاس ان كى سلامتى اور خوشحالى كا پيغام ہوگا_

المتقين الذين تتوفّهم الملائكةطيبين يقولون سلم عليكم ادخلوا الجنة

۱۱_ متقين، موت كے بعد مسلسل آسائش اور سلامتى ميں ہوں گے_المتقين الذين تتو فّهم الملائكة طيبين يقولوں سلم عليكم

۱۲_ سلام، بہترين درود و تحفہ ہے_يقولوں سلم عليكم

اس بات كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ ملائكہ ، متقين كى روح كو قبض كرتے وقت انہيں خوش آمديد كے ليے كلمہ'' سلام '' سے استفادہ كريں گے اس سے واضح ہوتا ہے كہ بہترين تحفہ ، سلام كہنا ہے_

۱۳_ ملائكہ ، متقين كى روح قبض كرتے وقت ، انہيں جنت ميں داخل ہونے كى دعوت ديں گے_

المتقين الذين تتوفّهم الملائكة طيبين يقولون ادخلوا الجنة

۱۴_ اہل تقوى ، رغبت وميلان سے جنت ميں داخل ہوں گے_المتقين جنت عدن يدخلونها ...يقولون سلم عليكم ادخلوا الجنة متقين كے جنت ميں داخل ہونے كے ليے ''ادخلوا جہنم'' جو كہ اس كى بدى كو بيان

۴۰۶

كرنے كے ساتھ كفار كو جہنم ميں داخل ہونے كا حكم ہے كے مقابلے ميں فعل و ''يدخلون'' اور فعل امر''ادخلو'' كا ''سلام عليكم'' كے ساتھ استعمال ، مذكورہ نكتے كا فائدہ دے رہا ہے_

۱۵_ متقين كے اعمال ، انہيں جنت ميں داخل كرنے كا سبب ہيں _المتقين ادخلو ا الجنة بما كنتم تعملون

۱۶_ بہشت ، متقين كے اعمال و كردار كى جزا ہے_ادخلوا الجنة بما كنتم تعملون

۱۷_ انسانوں كا صحيح عقيدہ اور عمل صالح ، ان كى سعادت كے يقين ميں موثر ہے _وقيل للذين اتقوما ذا انزل ربّكم قالوا خير

۱۸_ خداوند عالم كى جانب سے قرآن كے نزول اور اس كے خير مطلق ہونے كا عقيدہ ، انسان كو بلند مقام عطا كرنے كا سبب ہے_وقيل للذين اتقوا ماا انزل ربّكم قالوا خيراً ولنعم دارلمتقين الذين تتوفّهم الملائكه يقولون سلم عليكم ادخلوا الجنة

۱۹_ نيك وبدكار افراد كى مثال اور نمونہ پيش كرنا ، قرآن كريم كا تربيتى طريقہ ہے_

الكافرين الذين تتو فّهم الملائكه ظالمى انفسهم ادخلوا ابواب جهنم ...فلبئس مثوى المتكبرين المتقين الذين تتوفهم الملائكه طيبين يقولون سلم عليكم ادخلوا الجنة

۲۰_ بدبخت كفار كے انجام اور متقى افراد كى سعادت مند عاقبت كا ايك دوسرے كے ساتھ ذكر ، قرآن كا تبليغى طريقہ ہے_

الكافرين

۲۱_''عن امير المؤمنين عليه‌السلام ...انّه ليس احد من الناس تفارق روضه جسده حتى يعلم الى ايّ المنزلين يعير الى الجنة ام النار ...فان كان ولياً لله فتحت له ابواب الجنة و شرع له طرفها ونظر الى ما اعدّ الله له فيها قال الله تعالى ، الذين تتوفاهم الملائكة طيبين سلام عليكم ادخلو الجنة ...'' (۱)

امير المؤمنينعليه‌السلام سے روايت نقل ہوئي ہے كہ كسى بھى انسان كے بدن سے اس وقت تك روح نہيں نكلتى مگر يہ كہ وہ جان ليتا ہے كہ وہ دو مقام بہشت ياجہنم ميں سے كس كى طرف جارہا ہے اگر يہ شخص الله تعالى سے محبت كرنے والاہے تو بہشت كے دروازے اس كے ليے كھول ديے جاتے ہيں اور ان كے راستے اس پر واضح ہوجاتے ہيں اور جو كچھ خدا نے اس كے ليے وہاں آمادہ كرركھا ہے

____________________

۱) امالى شيخ طوسى ، ج۱،ص۲۶ ، نورالثقلين ، ج۳ ، ص۵۲ ، ح۷۵_

۴۰۷

اس كو ديكھتا ہے اس ليے كہ خداوند عالم نے ارشاد فرمايا ہے''الذين تتوفاهم الملائكة طيبين ...''

انسان:انسان كى ابعاد ۶; انسانوں كا انجام۵

اولياء الله :اولياء الله كى قبض روح ۲۱

بشارت:سرور كى بشارت ۱۰; سلامتى كى بشارت ۱۰;

بہشت:بہشت كى دعوت ۱۳; بہشت كے اسباب ۱۵،۱۶

بہشتي:۱۴

پاك لوگ:پاك لوگوں كا استقبال۷; پاك لوگوں كى موت۷

تبليغ :تبليغ كى روش۲۰

تحيت وسلام :بہترين تحيّت و سلام ۱۲

تذكر:متقين كى سعادت كا تذكر ۲۰; كافروں كى شقاوت كا تذكر ۲۰

تربيت:تربيت ميں نمونہ عمل ۱۹; تربيت كى روش۱۹

تكامل:تكامل كے اسباب۱۸

حيات:مرنے كے بعد كى حيات۵

خود:اپنے اور پر ظلم۴

روان شناسى :تربيتى رواں شناسى ۱۹

روايت:۲۱

روح:روح كو قبض كرنے والا ۱،۲

سعادت:سعادت كے اسباب۱۷

سلام:سلام كى خصوصيات ۱۲

۴۰۸

عقيدہ:عقيدہ كے آثار۱۷; قرآن كے خير ہونے كے عقيدہ كے آثار ۱۸; قرآن كے وحى ہونے پر عقيدہ كے آثار۱۸

عمل:عمل كے آثار۱۵،۱۶

عمل صالح:عمل صالح كے آثار۱۷

متقين:بہشت ميں متقين كا ورود۱۴; متقين اور جہل ۳; متقين اورفسق۳; متقين بہشت ميں ۱۵; متقين كا احترام ۹; متقين كامنزہ ہونا ۳،۴; متقين كوبشارت ۱۰; متقين كو دعوت ۱۳; متقين كو سلام ۸،۱۰; متقين كى اخروى آسائش ۱۱; متقين كى اخروى سلامتى ۱۱; متقين كى پاداش ۱۶; متقين كى حالت احتضار ۴، ۱۳; متقين كى قبض روح ۸; متقين كے فضائل ۳; متقين مرنے كے بعد۱۱

موت:موت كى حقيقت ۵

ملائكہ :ملائكہ اور متقين ۹; ملائكہ كا استقبال كرنا ۷;ملائكہ كا سلام ۸; ملائكہ كا كردار ۱; ملائكہ كى بشارتيں ۱۰; ملائكہ كى دعوتيں ۱۳; موت كے ملائكہ ۱; موت كے ملائكہ كا متعدد ہونا ۲

آیت ۳۳

( هَلْ يَنظُرُونَ إِلاَّ أَن تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ أَوْ يَأْتِيَ أَمْرُ رَبِّكَ كذالك فَعَلَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللّهُ وَلـكِن كَانُواْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ )

كہ يہ لوگ صرف اس بات كا انتظار كر رہے ہيں كہ ان كے پاس ملائكہ آجائيں يا حكم پروردگار آجائے تو يہى ان كے پہلے والوں نے بھى كيا تھا اور اللہ نے ان پر كوئي ظلم نہيں كيا ہے بلكہ يہ خود ہى اپنے نفس پر ظلم كرتے رہے ہيں _

۱_ حق قبول نہ كرنے والے كفار نے خداوند عالم كي دھمكيوں پر كان نہيں دھرا_

الكافرين ...ظالمى ا نفسهم هل ينظرون إلاّ ا ن تاتيهم الملئكة ا وياتى ا مرربّك

مذكورہ مطلب ا س نكتہ پر موقوف ہے جب''تاتيهم الملائكه'' ميں ملائكہ سے مراد، روح قبض كرنے والے فرشتے ہوں اور''يا تى امر ربّك'' سے مراد، عذاب ہو _ اس احتمال كے مطابق ، كفار فقط موت كے آنے يا اپنے عذاب كے منتظر ہيں ، كا مطلب يہ ہے كہ انہوں نے خداوند عالم كى دھمكيوں كو كچھ اہميت نہيں دى اور مسلسل منحرف راستے پر گامزن رہے_

۴۰۹

۲_ حق كے منكر كفار مكّہ ، قرآن كى حقانيت كى تائيد كے ليے نزول ملائكہ كے معجزہ يا خداوند عالم كى طرف سے كسى خصوصى امر كے انتظار ميں تھے_واذا قيل لهم ما ذا انزل ربّكم قالو اساطير الاولين هل ينظرون الاّ ان تاتيهم الملئكة او يا تى ا مر ربّك

مذكورہ مطلب اس بناء پر ہے جب گذشتہ آيات جو كہ قرآن مجيد كے بارے ميں تھيں كے قرينہ كى بناء پر''تاتيهم الملائكة ''اور''يا تى ا مر ربّك'' ( ملائكہ ان كے ليے آئيں يا امر پروردگار ) قرآن كى تائيد كے ليے ملائكہ يا امر خدا كے آنے پر دلالت كررہى ہو_

۳_نزول عذاب، خداوند عالم كے حكم سے ہے_اويا تى ا مر ربّك ممكن ہے ''امر ''كا متعلق عذاب ہو جيسا كہ مفسرين نے اس كى وضاحت كى ہے_

۴_زمانہ اسلام سے پہلے كے كفار، اپنى آسمانى كتاب ساتھ صدراسلام كے كفار جيسا سلوك كرتے تھے _

هل ينظرون الا ان تاتيهم الملئكة اويا تى ا مر ربّك كذالك فعل الذين من قبلهم

۵_ اديان كے دشمنوں كا اديان كے ساتھ سلوك كے سلسلہ ميں تاريخ اپنے آپ كو دہرا تى ہے_كذالك فعل الذين من قبلهم

۶_ زمانہ اسلام سے پہلے كے كفار ، اپنى آسمانى كتاب كى حقانيت كى تائيد كے ليے فرشتوں كے آنے يا خدا جانب سے خصوصى امر كے نزول كے انتظار ميں تھے_واذا قيل لهم ما ذا انزل قالو اساطير الاولين قد مكر الذين من قبلهم ...هل ينظرون الا ان تاتيهم الملئكة او يا تى امر ربّك كذالك فعل الذين من قبلهم

۷_آسمانى كتابوں كے دشمنوں كا ، ان كتابوں سے برتاؤ كا سليقہ ايك جيسا تھا_واذا قيل لهم ما ذا انزل ربّكم قالو ا ساطير الاولين قد مكر الذين من قبلهم هل ينظرون الا ان تاتيهم الملئكه اوياتى امر ربّك كذالك فعل الذين من قبلهم

۸_ كفار نے آسمانى كتابوں كى حقانيت كا انكار كركے اپنے نفس پر ظلم كيا ہے_

۴۱۰

وما ظلمهم ولكن

۹_ وحى اور آسمانى كتابوں كا انكار ، اپنے نفس پر ظلم ہے_هل ينظرون الا ان تاتيهم الملئكة او يا تى امر ربّك كذالك فعل الذين من قبلهم و ما ظلمهم اللّه ولكن كانوا انفسهم يظلمون

۱۰_ آسمانى كتابوں كے مقابلے ميں قيام كے نتيجہ ميں كفار پر ہونے والا ظلم ، خدا كى طرف سے نہيں بلكہ خود ان ہى كى طرف سے ہے_وما ظلهم اللّه ولكن كانوا انفسهم يظلمون

۱۱_ عذاب كا حكم ، اگر چہ خداوند عالم كى طرف سے ہے ليكن اس كا زمينہ خود اہل عذاب نے فراہم كيا ہے_

او يا تى امر ربّك ...وما ظلمهم اللّه ولكن كانوا انفسهم يظلمون

۱۲_انسان كے انجام كى تعيين ميں عقيدہ و عمل، موثر ہيں _هل ينظرون الا ان تأتيهم الملئكة اويا تى امر ربّك كذالك فعل الذين من قبلهم و ما ظلمهم اللّه ولكن كانوا انفسهم يظلمون

۱۳_ آسمانى كتابوں كى حقانيت كا انكار ، ايسى چيز تھى جسے خود ان كے منكرين نے اختيار كيا اور خدا وند عالم نے انہيں اس كى ترغيب نہيں دلائي ہے_كذالك فعل الذين من قبلهم و ما ظلمهم اللّه ولكن كانوا انفسهم يظلمون

يہ مطلب اس احتمال كى بناء پرہے جب نفس پر ظلم سے مراد، حق كے راستے سے انحراف ہو كہ جسے خداوند عالم نے منحرفين كى طرف نسبت دى ہے اور اس سلسلہ ميں اپنے عمل و دخل كى نفى كى ہے_

آسمانى كتب:آسماني۸ كتب كى تكذيب۹; آسمانى كتب كى تكذيب كے آثار۸; آسمانى كتب كى حقانيت كے دلائل۶; آسمانى كتب كے جھٹلانے والوں كا كردار۱۳; آسمانى كتب كے دشمنوں كا باہمى توافق۷

الله تعالي:الله تعالى كا كردار۱۱،۱۳; الله تعالى كے انذار سے اعراض۱; اوامر الہي۳; اوامر الہى كے نزول كى درخواست ۲;۶

انسان:انسان كا اختيار۱۳

جبرواختيار:۱۳

خود:اپنے نفس پر ظلم۸،۹،۱۰

دين:تاريخ ميں دين كے دشمن۵; دين كے دشمنوں ك

۴۱۱

باہمى توافق ۵

سرنوشت:سرنوشت ميں موثر اسباب۱۲

ظالمين:۸

عذاب:اہل عذاب كا كردار۱۱; عذاب كا سرچشمہ۳،۱۱; عذاب كا زمينہ ۱۱

عقيدہ:عقيدہ كے آثار۱۲; عقيدہ ميں آزادي۱۳

عمل:عمل كے آثار۱۲

قرآن :قرآن كى حقانيت كے دلائل كى درخواست۲

كفار:اسلام سے قبل كفار كى چاہت۶; كفار اور كتب آسماني۴; كفار پر ظلم كا سرچشمہ ۱۰; كفار كا اعراض ۱; كفار كا ظلم ۸; كفار كى ہم آہنگي۴

كفار مكّہ:كفار مكہ كى چاہت۲

كفر :كفر كى حقيقت۹

معجزہ:معجزہ اقتراحي۲،۶

ملائكہ:ملائكہ كے نزول كى درخواست۲،۶

وحي:وحى كى تكذيب

آیت ۳۴

( فَأَصَابَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا عَمِلُواْ وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُواْ بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ )

نتيجہ يہ ہوا كہ ان كے اعمال كے برے اثرات ان تك پہنچ گئے اور جن باتيں كا يہ مذاق اڑايا كرتے تھے انھيں باتوں نے انھيں اپنے گھيرے ميں لے ليا اور پھر تباہ و برباد كرديا _

۱_گذشتہ اقوام كے قبيح اعمال ان كے گريبان گير ہوگئے اور انہيں عذاب سے دوچار كرديا_

۴۱۲

فاصابهم سيأت ما عملوا

''سيئة'' كى جمع ''سيئات'' كا معنى ، برے اعمال ہيں اور'' سئية'' كا پہنچنا مجاز عقلى ہے اور تقديراً مضاف ہے اس بناء پر ان تك برائي كے پہنچنے سے مراد، ان كے اعمال كے گناہ كے نتيجہ ميں ان كا سزا سے دوچار ہونا ہے_

۲_ انسانوں كے اعمال پر نتيجہ ، مرتّب ہوتا ہے_فأصابهم سيئات ما عملوا

۳_ آسمانى كتابوں كى حقانيت كے منكرين، عذاب سے دوچار ہوئے ہيں _

كذالك فعل الذين من قبلهم وما ظلمهم اللّه ولكن كانوا انفسهم يظلمون فاصابهم سيّات ما عملوا

۴_آسمانى كتابوں كى حقانيت كے انكار كے نتيجے ميں عذاب سے دوچار ہونے كے ذمہ دار، خود منكرين ہيں _

كذالك فعل الذين من قبلهم و ما ظلمهم اللّه و لكن

۵_ اپنے عمل كى سزا سے دوچار ہونا ، نفس پر ظلم كرنے كا مظہر اور نمونہ ہے_

ولكن كانوا انفسهم يظلمون فاصابهم سيئات ما عملوا

۶_آسمانى كتابوں كى حقانيت كا انكار كرنے والے كفار اور انبياء كا استہزاء كرنے والے متعدد قبيح اعمال كے مالك تھے_

فاصابهم سيئات ما عملوا وحاق بهم ماكانوا به يستهزون

۷_ مورد استہزاء قرار پانے والے ، عذاب موعود نے استہزاء كرنے والے كفار كو اپنى لپيٹ ميں لے ليا _

كذالك فعل الذين من قبلهم _وحاق بهم ماكانوا به يستهزون

لغت ميں ''حاق'' كا معنى ''احاطہ'' ہے اور ''ماكانوا بہ'' ميں ''ما'' سے مراد، عذاب ہے_

۸_ كفار، عذاب كے وعدہ كا مذاق اڑاتے تھے_وحاق بهم ما كانوا به يستهزون ''بہ'' كى ضمير كا مرجع ''ما '' ہے اور اس سے مراد ، عذاب ہے_

۹_ كفار كى جانب سے عذاب كا وعدہ ، ہميشہ مورد استہزاء قرار پايا ہے_وحاق بهم ما كانوا به يستهزون

۱۰_حقانيت قرآن اور قرآن كے منكر كفار كو نزول عذاب كى دھمكى دى گئي_هل ينظرون الاّ ان تاتيهم الملئكة اوياتى امر ربّك كذالك فعل الذين من قبلهم _ فاصابهم سيئات ما عملوا و حاق بهم ما كانوا به يستهزؤن

۴۱۳

۱۱_ انسان كا عمل ان كى سرنوشت كى تعيين ميں موثر ہےفاصابهم سيات ما عملوا اوحاق بهم ما كانوا به يستهزؤن كيونكہ آيت ميں عذاب سے دوچار ہونے كو برے عمل اور انبياءعليه‌السلام كے استہزاء كا معلول قرار ديا ہے لہذا اس سے معلوم ہوتا ہے كہ خودانسا نوں كا عمل ان كى سر نوشت ميں موثر ہوتا ہے_

۱۲_ قبيح اعمال كا انكار اور الہى وعدہ كا استہزاء ، اپنے نفس پر ظلم ہے_وما ظلمهم اللّه ولكن كانوا انفسهم يظلمون

۱۳_خداوند عالم كا استہزاء كرنے والے كفار مكہ كو خبر دار كرنا_هل ينظرون الا ان تاتيهم الملئكة ...كذالك فعل الذين من قبلهم فاصابهم سيئات ما عملوا وحاق بهم ما كانوا به يستهزون

۱۴_ كچھ گناہ ، وسيع عذاب كے موجب اور دوسرے گناہوں كى نسبت زيادہ سخت ہيں _

فاصابهم سيئات ما عملوا و حاق بهم ما كانوا به يستهزون

''سيئة'' كے ليے كلمہ ''اصابہ' ' اور استہزاء كے ليے ''حاق '' كا استعمال ہو ا ہے اس سے مذكورہ مطلب كا استفادہ ہوتا ہے_

۱۵_خداوند عالم كے وعدہ عذاب كا مورد استہزاء قرار پانا، كفار كے قبيح ترين اعمال ميں سے ہے _فاصابهم

اس ميں شك زمين كہ خداوند عالم كے وعدہ عذاب كا استہزاء كفار كا برا عمل تھا ليكن عام ''سيئات '' كے بعد خاص كا ذكر ، اس كى خاص اہميت كو بيان كررہا ہے_

آسمانى كتب:آسمانى كتب كو جھٹلانے والوں كا سرچشمہ۴; آسمانى كتب كو جھٹلانے والوں كا كردار ۴;آسمانى كتب كو جھٹلانے والوں كى سزا۳;آسمانى كتب كوجھٹلانے والوں كے عمل كا ناپسنديدہ ہونا ۶

استہزاء كرنے والے:استہزاء كرنے والوں كو انذار۱۳

الله تعالي:الله تعالى كے انذار۱۳;الله تعالى كے عذاب كا استہزاء كرنے والوں كے عذاب كا آثار۱۲; الله تعالى كے عذابوں كا استہزاء كرنا ۱۵; الله تعالى كے وعيد كا استہزاء كرنا ۷،۸،۹،۱۵

انبياء:انبياء كا استہزاء كرنے والوں كے عمل كا ناپسنديدہ ہونا ۶

انذار:عذاب استيصال سے انذار

۴۱۴

خود:خود پر ظلم ۱۲; خود پر ظلم كى علامات ۵

سرنوشت:سرنوشت كے موثر عوامل۱۱

سزا:گناہ كے مطابق سزا كا ہونا۱۴

عذاب:اہل عذاب ۳; عذاب كے مراتب۱۴

عمل:عمل كے آثار ۲،۱۱ عمل كى سزا ۵; ناپسنديدہ عمل كے آثار ۱۲

قرآن :قرآن كو جھٹلانے والوں كو انذار ۱۰

كفار :كفار پر عذاب كا احاطہ ہونا۷; كفار كا استہزاء ۷،۸،۱۵; كفار كا انذار۱۰; كفار كا ناپسنديدہ عمل۱۵; كفار كے استہزاء كا دائمى ہونا ۹

كفار مكہ :كفار مكہ كو انذار

گذشتہ اقوام:گذشتہ اقوام كے عذاب كے اسباب۲;گذشتہ اقوام كے ناپسنديدہ عمل كے آثار ۱

گناہ:گناہ كے مراتب۱۴

آیت ۳۵

( وَقَالَ الَّذِينَ أَشْرَكُواْ لَوْ شَاء اللّهُ مَا عَبَدْنَا مِن دُونِهِ مِن شَيْءٍ نَّحْنُ وَلا آبَاؤُنَا وَلاَ حَرَّمْنَا مِن دُونِهِ مِن شَيْءٍ كذالك فَعَلَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ إِلاَّ الْبَلاغُ الْمُبِينُ )

اور مشركين كہتے ہيں كہ اگر خدا چاہتا تو ہم يا ہمارے بزرگ اس كے علاوہ كسى كى عبادت نہ كرتے اور نہ اس كے حكم كے بغير كسى شے كو حرام قرار ديتے_ اسى طرح ان كے پہلے والوں نے بھى كيا تھا تو كيا رسولوں كى ذمہ دارى واضح اعلان كے علاوہ كچھ اور بھى ہے _

۱_ مشركين مكہ ، اپنى اور اپنے اباء و اجداد كى بت پرستى كو خدواند عالم كى مشيت كا تقاضا سمجھتے تھے_

وقال الذين أشركوا لو شاء اللّه ما عبدنا من دونه من شيء نحن ولا آباؤنا

سورہ نحل كے مكى ہونے كو مد نظر ركھتے ہوئے اور ''كذلك فعل الذين من قبلہم '' كے قرينے كى بناء پر ''الذين اشركوا'' سے مراد مكہ كے مشركين ہيں _

۴۱۵

۲_ مشركين مكہ كا مسلك، جبر تھا اور وہ مشيت خداوندى كو اپنے عمل كا اساس قرارديتے تھے_

وقال الذين اشركوا لو شاء الله ما عبدنا من دونه من شيئ

۳_ مشركين مكہ، اپنے عقيدتى مركز كو استحكام بخشنے كے ليے اس بات كو دليل بناتے تھے كہ اس كا سرچشمہ تاريخى ہے _

وقال الذين أشركوا لو شاء اللّه ما عبدنا من دونه من شيء نحن ولاآباؤنا

مشركين كے كلام ميں ''ولااباؤنا''كا ذكر كرنا درحالانكہ ان كے بارے ميں بحث نہيں تھى ممكن ہے مذكروہ نكتے كى طرف اشارہ ہو_

۴_ مشركين مكہ ،خداوند عالم كى مشيّت پر يقين ركھتے اور اس غلط كى تفسير كرتے تھے_

وقال الذين أشركو ا لوشاء اللّه ما عبدنا من دونه من شيئ:

۵_ مشركين ، انبياء كرام كا استہزا ء اور ان كا مذاق اڑاتے تھے_وقال الذين أشركوا لو شاء اللّه ما عبدنا من دونه من شيئ

مذكورہ بالا استفادہ اس احتمال پر موقوف ہے كہ جب مشركين كا كلام (لوشاء اللّه ما عبدنا من دونه ) ايمان اور اعتقاد كى بناء پر نہ ہو چاہے وہ خدا پر عقيدہ اور اس كى ربوبيت كى صورت ميں مشرك نہ تھے بلكہ تمسخر اور استہزاء كى بنياد پر انہوں نے ايساكيا ہو_

۶_مشركين مغالطہ آميز استدلال كے ذريعہ ، اس كوشش ميں تھے كہ وہ اپنے اعمال اور شرك آلود عقائد كى توجيہ كريں _

وقال الذين أشركوا لو شاء اللّه ما عبدنا من دونه من شيئ

در حالانكہ خداوند عالم نے تشريعى لحاظ سے مشركين سے تقاضا كيا ہے كے وہ اپنے عقيدہ كى اصلاح اور توحيد كا انتخاب كريں يہى مشركين اس تقاضا كى نفى كرنے كے ليے اسے ارادہ تكوينى سے مخلوط كرتے تھے تا كہ اپنے سے وظيفہ كو رفع كرسكيں _

۷_ مشركين مكہ نے متعدد خداؤں پر اعتقاد كے باوجود خداوند عالم پر عقيدے كا اظہار كيا اور كائنات ميں اس كے فيصلہ كو نا فذ سمجھتے تھے_وقال الذين أشركوا لو شاء اللّه ما عبدنا من دونه من شيئ

۸_مشركين، كچھ مباح چيزوں كو بغير كسى دليل كے حرام قرار ديتے تھے _

۴۱۶

ولا حرّمنا من دونه من شيئ

۹_ مشركين ، بغير كسى دليل كے مباحات كو حرام قرار دينے ميں اپنى مداخلت كا سرچشمہ ، مشيت الہى بيان كرتے تھے_

لو شاء اللّه ...ولا حرّمنا من دونه من شيئ

۱۰_ اسلام سے پہلے كے مشركين، صدر اسلام كے مشركين كى طرح مباحات كو بغير كسى وجہ كے حرام قرار ديتے تھے_

وقال الذين أشركوا لو شاء اللّه ما عبدنا من دونه من شى ئ_ نحن ولاء ابا ء نا ولا حرّمنا من دونه من شى ء كذالك فعل الذين من قبلهم

۱۱_عبادت ميں شرك، مباحات كو حرام قرار دينا اور اسے مشيت الہى كى طرف نسبت دينا ، طول تاريخ ميں مشركين كا متداول طريقہ تھا_وقال ألذين اشركوا لو شاء اللّه ما عبدنا من دونه من شيء نحن ولا آباؤناا ولا حرّمنا من دونه من شيء كذالك فعل الذين من قبلهم

۱۲_ طول تاريخ ميں جبر پر اعتقاد، مشركين كا مسلك رہا ہے_وقال الذين اشركوالوشاء اللّه ما عبدنا من دونه من شيء نحن ولاآباؤناا ولا حرّمنا من دونه من شيئ

۱۳_ انسان، دين كو قبول يا اسے رد كرنے كے سلسلے ميں صاحب اختيار ہيں _

وقال الذين ، اشركوا لو شاء الله ما عبدنا من دونه من شي فهل على الرسل الّا البلغ المبين

آيت كے آخر ميں''فهل على الرسل الاّ البلاغ ...''كى عبارت كولانا ، ممكن ہے عقيدہ جبر كے بارے ميں مشركين كے عقيدے كا جواب ہو وہ اس طرح كہ خداوند عالم ان كے جواب ميں فرما رہا ہے كہ انبياء فقط خداوند عالم كے پيغام كو پہنچانے كے ليے بھيجے گئے ہيں اور جبر سے اصلاً ان كا كوئي سر و كار نہيں ہے_

۱۴_طول تاريخ ميں انبياء اور آسمانى تعليمات كے ساتھ مشركين كا برتاؤ برابر اور ايك جيسا رہا ہے _

كذالك فعل الذين من قبلهم ...وقال الذين اشركوا لو شااللّه _ كذالك فعل الذين من قبلهم

۱۵_ تمام انبياء الہى كا وظيفہ فقط واضح اور روشن صورت ميں خداوند عالم كے پيغام كا ابلاغ رہاہے نہ كہ لوگوں كو اس پر مجبور كرنا_فهل على الرسل الا البلغ المبين

۱۶_ تمام انبياء باہمى توافق اور ايك جيسے وظيفہ كے مالك تھے_فهل على الرسل الاّ البلغ المبين

۱۷_ مشركين، جبرى اعتقاد كى فكر كو عام كرنے كے ذريعہ، انبياء كى بعثت كو عبث، ثابت كرنا چاہتے

۴۱۷

تھے_وقال الذين أشركوا لوشاء اللّه ما عبدنا من دونه من شيئ_فهل على الرسل الاّ البلغ المبين

مشركين كے عقائد كو بيان كرنے كے بعد''فهل على الرسل الا البلاغ المبين'' كى عبارت ممكن ہے ان كا جواب ہو اس توضيح كے ساتھ كہ مشركين چاہتے تھے كہ ايمان اور كفر كو خداوند عالم كى طرف نسبت دے كريہ بيان كريں كہ اس چيز كے ليے انبياء كے آنے كى ضرورت نہيں اور خدواند عالم نے ''فہل على الرسل ...'' كے ذريعے ان كويہ جواب ديا ہے كہ انبياء كى بعثت ، عبث نہيں بلكہ الہى پيغام كے ابلاغ كے ليے ہے_

الله تعالي:الله تعالى كى مشيت كے آثار ۱،۲،۹،۱۱

انيبائ:انبياء كا استہزاء كرنے والے ۵; انبياء كى تبليغ كى روش ۱۵; انبياء كى ذمہ داري۱۶; انبياء كى ذمہ دارى كى حدود۱۵،۱۶; انبياء كى ہم آہنگي۱۶; انبياء كے ساتھ برتاؤ كى روش۱۴

انسان:انسان كا اختيار ۱۳

بدعت گزار:۸

تبليغ:تبليغ ميں صراحت ۱۵

جبر و اختيار۱۳،۱۵

دين:دين كى تبليغ ۱۵; دين كے ساتھ برتاؤ كى روش۱۴; دين ميں اختيار ۱۳

عقيدہ:جبر كے عقيدہ كے آثار۱۷; عقيدہ كى تاريخ۱۲; مشيت خدا كا عقيدہ۴

مباحات:مباحات كا حرام كرنا ۸،۹،۱۰،۱۱

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كى بدعت گزاري۱۰; مشركين اور انبياء ۱۴; مشركين اور دين ۱۴; مشركين كا استہزاء ۵; مشركين كا شرك عبادى ۱۱; مشركين كا عقيدہ ۱۲; مشركين كى بدعت گزارى ۸،۹،۱۰،۱۱; مشركين كى توجيہہ۶; مشركين كى جبر گرائي۹،۱۰،۱۱; مشركين كى ہم آہنگي۱۰،۱۴; مشركين كے ساتھ برتاؤ كى روش۱۱; مشركين كے ناپسنديدہ عمل كى توجيہہ ۶

مشركين مكہ:مشركين مكہ اور مشيّت خدا ۴،۷; مشركين مكہ كا عقيدہ ۴،۷;مشركين مكہ كى بت پرستى كا سرچشمہ ۱; مشركين مكہ كى جبر گرائي ۱،۲،۱۷; مشركين مكہ كى خداشناسى ۷; مشركين مكہ كى دشمنى ۱۷; مشركين مكہ كى فكر۱،۲; مشركين مكہ كى كوشش ۳;مشركين مكہ كے عقيدتى نظريات ۳

۴۱۸

آیت ۳۶

( وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللّهَ وَاجْتَنِبُواْ الطَّاغُوتَ فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى اللّهُ وَمِنْهُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلالَةُ فَسِيرُواْ فِي الأَرْضِ فَانظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ )

اور يقينا ہم نے ہر امّت ميں ايك رسول بھيجا ہے كہ تم لوگ اللہ كى عبادت كرو اور طاغوت سے اجتناب كرو پھر ان ميں بعض كو خدا نے ہدايت ديدى اور بعض پر گمراہى ثابت ہوگئي تو اب تم لوگ روئے زمين ميں سير كرو اور ديكھو كہ تكذيب كرنے والوں كا انجام كيا ہوتا ہے _

۱_ تمام امتيں اور معاشرے ، خداوند عالم كى طرف سے مبعوث كيے گئے انبياء كى رسالت كے زير سايہ ہيں _

ولقد بعثنا فى كلّ امة رسول

۲_ خدا كى عبادت اور طاغوت سے اجتناب ، تعليمات انبياء كے دو بنيادى ركن ہيں _

ولقد بعثنا فى كل امة رسولاً ان اعبد واللّه و اجتنبوا الطغوت

۳_ ہر قسم كے باطل معبود سے اجتناب، تمام انبياء الہي كى واضح دعوت ہے_

فهل على الرسل الا البلغ المبين _ ولقد بعثنا فى كل امة رسولاً ان اعبدواللّه و اجتنبو الطغوت

لغت ميں ''طاغوت '' كامعنى خدا كے علاوہ ہر معبود اور پرستش قرار پانے والا ہے_

۴_ بعثت انبياء كے سلسلہ ميں خداوند عالم كى سنت يہ ہے كہ ان ميں معاشروں اور امتوں كى طرف جانے كے ليے انگيزہ پيدا كرتا ہے_

ولقد بعثنا فى كل امة رسول

چونكہ خداوند عالم نے انبياء كى بعثت اور تكذيب كرنے والوں كى طرف سے ان كى تكذيب كے مقام بيان ميں ''ناس'' كى جگہ ''امت'' سے استفادہ كيا گيا ہے اور امت كا اطلاق ايسے گروہ پر ہوتا ہے جو كسى سبب كے تحت ہوئي ہے اس سے مذكورہ نكتے كا استفادہ كيا جاسكتا ہے_

۴۱۹

۵_ تمام امتوں ميں توحيد عبادى كى دعوت كے ليے انبياء كو بھيجنا ، مشركين كے اس عقيدہ كے باطل ہونے پر دليل ہے كہ ان كا شرك جبرى ہے_وقال الذين اشركوا لوشاء اللّه ما عبدنا من دونه من شيء ...ولقد بعثنا فى كل امة رسولاً ان اعبدواللّه

مشركين كى اپنے شرك كے جبرى ہونے كے بارے ميں گفتگو كے بعد عبارت ''قد بعثنا ...''كالانا ان كے جواب كى حيثيت ركھتا ہے وہ اس طرح كہ اگر شرك، خداوند عالم كى مشيّت سے ہوتا تو خداوند عالم كو انبياء مبعوث نہيں كرنے چاہيئے در حالانكہ اس نے انہيں ہدايت كے ليے بھيجاہے اور يہ چيز ان كے اس عقيدہ كے باطل ہونے سے حكايت كررہى ہے_

۶_ كچھ امتيں اپنى طرف انبياء كے آنے كى وجہ سے ہدايت پاگئيں اور كچھ اپنى گمراہى پر باقى رہيں _

فمنهم من هدى اللّه ومنهم من حقت عليه الضللة

۷_ انسانوں كى ہدايت كا سرچشمہ ،خداوند عالم كى توفيق ہے_فمنهم من هدى اللّه

۸_ گمراہ ہونے والوں كى گمراہى كاسبب وہ خود ہيں _ّومنهم من حقت عليه الضللة

چونكہ خداوند عالم نے ہدايت اورگمراہى كے سرچشمہ كو بيان كرنے كے مقام پر فقط ہدايت كو اپنى طرف نسبت دى ہے لہذا اس سے مذكورہ بالا نكتے كا استفادہ كيا جا سكتا ہے_

۹_ انبياء كى تكذيب كرنے والوں كے برے انجام كا مطالعہ كرنے كے ليے كائنات ميں گردش اور سيرو سياحت ضرورى ہے_فسير وا فى الارض فانظر و ا كيف كان عقبة المكذّبين

''نظر'' مصدر سے ''''انظروا'' كا معنى كسى چيز كو ديكھنے اور اس كودرك و دريافت كرنے كے ليے آنكھ كا گھمانا ہے_

۱۰_ طول تاريخ ميں انبياء كى تكذيب كرنے والے گروہ و اقوام ،عذاب سے دوچار ہوئے ہيں _

فسيروافى الارض فانظر و اكيف كان عقبة المكذبين

انبياء كى تكذيب كرنے والوں كى عاقبت كا مطالعہ كرنے كے ليے جہان ميں سير و سياحت كى دعوت اس بات پر دلالت كررہى ہے كہ وہ عذاب سے دوچار ہوئے ہيں اور اس كا مطالعہ سبق آموزہے اور اگر وہ اپنى طبيعيموت سے مرے تو

۴۲۰

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779