تفسير راہنما جلد ۹

تفسير راہنما 10%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 779

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 779 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 212565 / ڈاؤنلوڈ: 3606
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۹

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

٢۔ علم و حکمت:

حضرت علی ـاس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ''جو شخص حکمت سے آگاہ ہے اس کو نگاہیں ہیبت اور وقار کی نظر سے دیکھتی ہیں ''۔(١)

٣۔ حلم:

حضرت علی ـسے منقول ہے: ''حلم وقا رکا باعث ہے '' ۔(٢)

٤۔سکوت:

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''زیادہ خاموشی انسان کے وقار میں اضافہ کرتی ہے ''۔(٣) نیز مومنین اور پرہیز گاروں کی خصوصیات کے سلسلہ میں فرماتے ہیں: '' اے ہمام ! مومن زیادہ سے زیادہ خاموش رہتا ہے اور باوقار ہوتا ہے ''۔(٤)

٥۔ تواضع و فروتنی:

حضرت علی ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ''فروتنی تم پر بزرگی اور شان و شوکت کا لباس پہناتی ہے '' ۔(٥) اسی طرح روایات میںدوسرے اسباب جیسے آہستہ گفتگو کرنا(٦) وغیرہ بیان ہوا ہے کہ اختصار کی وجہ سے انھیںہم ذکر نہیں کررہے ہیں۔ آیات و روایات میںاطمینان قلب کے لئے بہت سے اسباب و علل بیان کئے گئے ہیں کہ ان میں سب سے اہم درج ذیل ہے:

١۔ ازدواج:

قرآن کریم اس سلسلہ میں فرماتا ہے: ''اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تم ہی میں سے تمہارے جوڑوں کو تمہارے لئے خلق فرمایا تاکہ ان سے سکون حاصل کرواور تمہارے درمیان محبت ورحمت قرار دی۔ ہاں، اس (نعمت ) میں صاحبان عقل و فکر کے لئے یقینا ً نشانیاںہیں''۔(٧) دوسری جگہ فرماتا ہے: ''وہ ایسی ذات ہے جس نے تم کو ایک نفس سے خلق فرمایا اور اس سے جوڑے پیدا کئے تاکہ اس سے سکون حاصل کرو'' ۔(٨)

٢۔ عدالت:

حضرت فاطمہ زہرا ٭ فرماتی ہیں: ''خداوند عالم نے ایمان کو شرک دور کرنے کا ذریعہ....... اور عدالت کو دلوں کے سکون کا باعث قرار دیا ہے ''۔(٩)

____________________

١ ۔ کلینی، کافی، ج ٨، ص ٢٣، ح ٤، اور ملاحظہ ہو : صدوق، علل الشرائع، ج ١، ص ١١٠، ح ٩ ؛ مجلسی، بحار لا نوار، ج ١، ص ١١٧تا ١٢٤۔٢۔ آمدی، غرر الحکم، حکمت ٥٥٣٤۔ ٣۔ کلینی، کافی، ج ٢، ص ٢٢٦، ح ١۔ ٤۔ ایضاً۔٥۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٤١٨٤۔ ٦۔ کافی، ج٥، ص٣٩،ح٤۔٧۔ سورئہ روم، آیت ١ ٢۔ ٨۔ سورئہ اعراف، آیت ١٨٩۔ ٩۔ صدوق، من لا یحضر الفقیہ،ج٣، ص٥٦٨،ح٤٩٤٠۔ علل الشرایع، ص٢٤٨، ح٢۔ طبرسی، احتجاج، ج١،ص١٣٤۔

۱۴۱

٣۔ایمان:

حضرت امام جعفر صادق ـنے فرمایا: ''کوئی مومن نہیں ہے مگر یہ کہ خداوندعالم اس کے ایمان کے نتیجہ میں اس کے لئے ایک انس قرار دیتا ہے کہ جس سے وہ سکون حاصل کرتا ہے، اس طرح سے کہ اگر وہ پہاڑ کی چوٹی پر بھی ہو تو اپنے مخالفین سے وحشت نہیں رکھتا''۔(١) واضح ہے کہ اس سکون و اطمینان کا درجہ ایمان کے اعتبار سے ہے، جتنا ایمان کا درجہ زیادہ ہوگا اس سے حاصل شدہ سکون بھی زیادہ پایدار ہوگا۔

٤۔ خدا کی یاد:

قرآن کریم میں مذکور ہے: '' وہ لوگ جو ایمان لا چکے ہیںاور ان کے دل یاد الہی سے مطمئن ہیں آگاہ ہوجائیں کہ یاد الہی سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے ''۔(٢)

٥۔ حق تک پہنچنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا:'' انسان کا دل ہمیشہ حق کی تلاش و جستجو میں مضطرب اور پریشان رہتاہے اور جب اسے درک کرلیتا ہے تو مطمئن ہو جاتا ہے ''۔(٣) اس لحاظ سے شک وتردید کے علائم میں سے ایک اضطراب اور عدم سکون ہے کہ یہ بھی ایک قسم کا ذہنی درد و الم ہے۔ اُن تمام مذکورہ موارد کا فقدان جو سکون و وقار کے اسباب و علل میں شمار کئے گئے ہیں ان دونوں کے تحقق کے موانع شمار ہوتے ہیں مگر چونکہ بعض دیگر امور روایات میں سکون و وقار کے موانع کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں لہٰذا ذیل میںان میں سے اہم ترین امور کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے:

۱۔ لوگوں سے سوال و درخواست کرنا:

حضرت امام زین العابدین ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ''لوگوں سے سوال کرنا انسان کی زندگی کو ذلت وخواری سے جوڑ دیتا ہے، حیا کو ختم کردیتا اور وقار کو کم کردیتا ہے ''۔(٤) حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''فقیر انسان میں ہیبت و عظمت کا وجود محال ہے

۲۔ حد سے زیادہ ہنسنا اور ہنسی مذاق کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: ''جو زیادہ ہنستا ہے اس کی شان و شوکت کم ہوجاتی ہے ''۔ رسولخدا فرماتے ہیں: ''زیادہ ہنسی مذاق کرنا انسان کی آبرو کو ختم کردیتا ہے''۔(٥)

____________________

١ ۔ مجلسی، بحار لا نوار ج ٦٧، ص ٨ ٤ ١، ح ٤۔ ٢۔ رعد ، ٢٨۔ ٣۔ کلینی، کافی، ج ٢، ص٤٢١، ح ٥۔ ٤ ۔ مجلسی، بحار لا نوار، ج ٧٨، ص ١٣٦، ح ٣و ج ٧٥، ص ١٠٨۔

٥ ۔ کلینی، کافی، ج ٨، ص٢٢، ح ٤، اور ملاحظہ ہو حرانی، تحف العقول، ص ٩٦۔

۱۴۲

نیز حضرت علی ـ سے وصیت فرماتے ہیں : ''ہنسی مذاق کرنے سے اجتناب کروکیونکہ تمہاری شان و شوکت اور عظمت ختم ہوجائے گی ''۔(١) حضرت علی ـ نے بھی فرمایا ہے: ''جو زیادہ ہنسی مذاق کرتا ہے وہ کم عقل شمار ہوتا ہے''۔(٢)

٣۔ مال، قدرت،علم، تعریف اور جوانی سے سر مست ہونا:

حضرت علی ـ کی طرف منسوب بیان کے مطابق عاقل انسان کو چاہیے کہ خود کو مال، قدرت، علم، ستائش و جوانی کی سرمستی سے محفوظ رکھے، کیونکہ یہ سر مستی انسان کی عقل کو زائل کردیتی ہے اوراس کے وقارکو ختم کردیتی ہے۔(٣)

٤۔ جلد بازی:

جلد بازی سے مراد کسی کام کو بغیر سونچے سمجھے انجام دینا ہے۔ حضرت علی ـ مالک اشتر کو لکھتے ہیں: ہر گز کسی ایسے کام میں جلد بازی نہ کرو جس کا ابھی وقت نہ ہوا ہو! یا جس کام کا وقت ہوچکا ہو اس کے کرنے میں سستی نہ دکھاؤ! کوشش کروکہ ہر کام کو اس کے موقع و محل اور اس سے مخصوص وقت میں ہی انجام دو''۔(٤) ایک دوسرے موقع پر فرماتے ہیں: '' کسی کام میں جب تک کہ واضح نہ ہو اس کے کرنے میں جلد بازی نہ کرو''۔(٥) اور فرماتے ہیں: اس چیز میں جس میںخدا نے جلد بازی لازم نہیں قرار دی ہے اس میںجلد بازی نہ کرو ۔ ''(٦)

اسلام کے خلاقی نظام میںجلد بازی ہمیشہ نا پسندنہیں ہے، بلکہ بعض امور میں اس کی تاکید بھی کی گئی ہے، لیکن درج ذیل موارد میں جلد بازی سے روکا گیا ہے جیسے سزادینے، جنگ و خونریزی کرنے، کھانا کھانے، نماز تمام کرنے اور غور خوص کرنے میں جلد بازی سے منع کیا گیا ہے۔ نیکیوں، خدا کی خوشنودی، توبہ، عمل صالح اور تحصیل علم وغیرہ کے لئے جلد بازی کی تاکید کی گئی ہے۔ قرآن کریم نیک امور کی جانب سبقت کرنے کی تاکید فرماتا ہے: '' نیک کاموں میںایک دوسرے پر سبقت کرو''۔(٧)

____________________

١۔ صدوق، امالی، ص ٣ ٢٢، ح ٤۔ اختصاص، ص ٢٣٠ ؛ کلینی، کافی، ج ٢، ص ٦٦٤، ح ٦، اور ٦٦٥، ح١٦۔

٢۔ کلینی، کافی، ج ٨، ص٢٢، ح ٤۔ حرانی، تحف العقول، ص ٦٩۔ ٣۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٩٤٨ ١٠۔

٤۔ نہج البلاغہ، نامہ ٥٣۔ ٥۔ نہج البلاغہ، خطبہ ١٧٣۔ ٦ْ۔ ایضاً، خطبہ ٠ ١٩۔ ٧۔ سورئہ بقرہ، آیت ٤٨ اور سورئہ مائدہ، آیت ٨ ٤۔

۱۴۳

دو۔ نفس کے لئے خطر ناک شئی

نفس کے لئے خطر ناک شئی اس کا ضعیف ہونا ہے جس کے مضر اثرات ہیں اور یہ نفس کے موانع میںشمار ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض اثرات جیسے عدم ثبات، پست ہمتی، غیرت و حمیت کا نہ ہونا ان مباحث کے ضمن میں جو قوت نفس کے علائم میںبیان ہوئے ہیں، آشکار ہوگئے۔ یہاں پر ایک دوسرا مانع یعنی ''تہاون'' اور ''مداہنہ ''کا ذکر اس کی اہمیت کی بنا پر کیا جا رہا ہے۔

''مداہنہ'' سے مراد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں نرمی، کوتاہی اور سستی سے کام لینا ہے''۔(١) امر

با لمعروف اور نہی عن المنکر میں سستی اور کوتاہی یا نفس کے ضعیف ہونے سے پیدا ہوتی ہے یا اس شخص کے مال اور اعتبار میں دنیوی طمع و آرزو کی وجہ سے جس کی نسبت سستی اور کوتاہی کو روا رکھتا ہے۔(٢)

آیات وروایات میں دین میں نرمی اور کوتاہی کرنے کی شدت کے ساتھ مذمت کی گئی ہے اور اس کے نقصان دہ اثرات بیان کئے گئے ہیں ، جیسا کہ خدا وندعالم کفارو مشرکین کی سرزنش کرتے ہوئے فرماتا ہے: ''وہ چاہتے ہیں کہ تم نرمی سے کام لو تو وہ بھی نرمی سے کام لیں ''۔(٣) یعنی طرفین میںسے ہر ایک دوسرے کے دین سے متعلق سہل انگاری اور نرمی سے کام لے۔(٤ ) حضرت علی ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: '' میری جان کی قسم، حق کے مخالفین گمراہی و فساد میں غوطہ لگا نے والوں سے ایک آن بھی مقابلہ و جنگ کرنے میں سستی نہیں کروں گا''۔(٥) حضرت امام محمد باقر ـ فرماتے ہیں: '' خداوند سبحان نے حضرت شعیب کو وحی کی کہ تمہاری قوم میں سے ایک لاکھ افراد پر عذاب نازل کروں گا، ان میں سے ٤٠ ہزار افراد برے ہیں اور ٦٠ ہزار ان کے برگزیدہ ہیں۔ حضرت شعیب نے پوچھا: خدایا ! اخیار اور برگزیدہ افراد کا جرم و گناہ کیاہے ؟ تو خداوند سبحان نے جواب دیا: ان لوگوں نے گناہگاروں کے مقابل سستی اور نرمی سے کام لیا ہے اور میرے ناراض ہونے سے وہ ان پر ناراض نہیں ہوئے ''۔(٦)

____________________

١۔ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، ص ١٧٣ ؛ طریحی، مجمع البحرین، ج ١، ص ٦٦ ؛ ابن منظور، لسان العرب، ج١٣، ص ٢ ١٦ ؛ مجلسی ،بحار الانوار، ج ٧٥، ص ٢٨٢۔ ٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ٢٣٢ تا٢٤٠۔ ٣۔ قلم ٩۔

٤۔ طباطبائی، المیزان، ج١٩، ص ٣٧١۔ ٥۔ نہج البلاغہ، خطبہ ٢٤۔

٦۔ تہذیب، طوسی، ج ٦، ص ١٨١ ،ح ٣٧٢ ؛ کلینی، کافی، ج ٥، ص ٥٦، ح ١۔

۱۴۴

دین میں سستی ،سہل انگاری اور کوتاہی سے متعلق روایات میں جو نقصان دہ اور ضرر رساں اثرات بیان کئے گئے ہیں ان میں سے انسانی سماج کی گراوٹ، فسادو تباہی، گناہ و عصیان کی زیادتی، سزا ودنیوی اور اخروی عذاب اور دنیا وآخرت میں نقصان وخسارہ کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔(١)

٢۔ حلم و برد باری اور غصہ کا پینا

'' حلم '' عربی زبان میں امور میں تامل، غوروفکر، تدبیر کرنے اور جلد بازی نہ کرنے کو کہتے ہیں۔ '' حلیم '' اس انسان کو کہتے ہیں جو حق پر ہونے کے باوجود جاہلوں کو سزا دینے میں جلد بازی نہ کرے اور مقابل شخص کی جاہلانہ رفتار سے وجود میں آنے والے غیض وغضب سے اپنے کو قابو میں رکھے۔(٢) بعض علماء اخلاق حلم کو اطمینان قلبی اور اعتماد نفس کا ایک درجہ خیال کرتے ہیں کہ اس کا مالک انسان آسانی سے غضبناک نہیں ہوتا اور ناگوار حوادث جلدی اسے پریشان اور مضطرب نہیں کرتے۔ اس وجہ سے حلم کی حقیقی ضد غضب ہے، کیونکہ حلم اصولی طور پر غضب کے وجود میں آنے سے مانع ہوجاتا ہے۔ حلم اور '' کظم غیظ '' ( غصہ کو پینے ) کے درمیان فرق کے بارے میں کہا گیا ہے کظم غیظ صرف خشم و غضب کے پیدا ہوجانے کے بعد اسے ضبط کر کے ٹھنڈا کردیتا ہے جب کہ حلم بے جا غیض و غضب کے پیدا ہونے سے مانع ہوتا ہے، پس حلم غیض و غضب کو پیدا ہی نہیں ہونے دیتا ''کظم غیظ '' اس کے پیدا ہونے کے بعد اس کے علائم کے ظاہر ہونے کو روک کر درحقیقت اس کا علاج کرتا ہے۔(٣)

قرآن کریم میں حلم ١٠ بار سے زیادہ خداوندسبحان کے صفات میں شمار کیا گیا ہے کہ ان موارد میں نصف سے زیادہ ''غفور'' اور ''حلیم '' ایک ساتھ ذکر ہوا ہے۔(٤)

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج ١، ص ٤٥، ح ٦، اور ج ٨، ص ٤ ٣ ١، ح ١٠٣، اور ص ١٢٨، ح ٩٨ ؛ حرانی، تحف العقول، ص ١٠٥، ٧ ٣ ٢؛ نہج البلاغہ، خ ٨٦، ٢٣٣؛ شیخ مفید، ارشاد، ص ٩٢۔

٢۔ ابن اثیر، نہایہ، ج ١، ص ٣٤ ٤، ؛ ابن منظور، لسان العرب، ج ١٢، ص ١٤٦ ؛ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، ص ١٢٩، مجمع البحرین، ج ١، ص ٥٦٥۔ اور فیض کاشانی، ملا محسن، المحجةالبیضائ، ج ٥، ص ٣١٠۔

٣۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٥ ٢٩، ٢٩٦۔

٤۔ عبد الباقی، محمد فؤاد، المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم، ص ٢١٦، ٢١٧۔

۱۴۵

اسلام کے اخلاقی نظام میںحلم اور بردباری کی قدر و منزلت اس درجہ بلند ہے کہ لوگوں کی رہبری و امامت کے ایک لوازم میں شمار کیا گیا ہے۔ رسول خدا فرماتے ہیں: ''امامت اوررہبری تین خصوصیات کے مالک افراد کے علاوہ کسی کے لئے سزاوار نہیں ہے، ایسا تقویٰ جو اسے خدا کی نافرمانی سے روکے، ایسا حلم وبرد باری جس کے ذریعہ وہ اپنے غصہ کو کنٹرول کرے اور لوگوں پر ایسی پسندیدہ حکمرانی کہ ان کے لئے ایک مہربان باپ کی طرح ہو''۔(١) حضرت علی ـ نے فرمایا: '' حلم ڈھانکنے والا پردہ اور عقل شمشیر براں ہے، لہٰذا اپنی اخلاقی کمی کو برد باری سے چھپاؤ اور اپنی نفسانی خواہشات کو عقل کی شمشیر سے قتل کرڈالو ''۔(٢) یعنی انسان کی اخلاقی کمی کے لئے حلم ایک پردہ ہے۔ دوسری جگہ حلم کو عزت کا بلند ترین مرتبہ(٣) عاقلوں کی سرشت ،(٤) اور قدرت کی علامت(٥) تصور کیا گیا ہے۔ کظم غیظ اور غصہ کو پینا در حقیقت تحلّم اور زحمت و کلفت کے ساتھ حلم اختیار کرنا ہے۔ اس وجہ سے کظم غیظ اہمیت کے اعتبار سے حلم سے کم درجہ رکھتا ہے، اگر چہ اپنی جگہ اہم اور قابل تعریف ہے۔ قرآن کریم کظم غیظ کو متقین کی صفت اور ایک قسم کی نیکی اور احسان جانتاہے۔ قرآن فرماتا ہے: ''اپنے پروردگار کی عفو و بخشش اورایسی بہشت کی طرف سبقت کرو جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے اور وہ ان پرہیز گاروں کے لئے آمادہ کی گئی ہے ۔(٦) وہ لوگ جو فراخی اور تنگی حالتوں میں انفاق کرتے ہیں اور اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں، اور خدا وند عالم احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے''۔ پیغمبر اکرم نے غصہ کے پینے کی فضیلت میں فرمایا ہے: ''خدا تک انسان کے پہنچنے کے محبوب ترین راستے دو گھونٹ نوش کرنا ہے،ایک غصّہ کا گھونٹ جو حلم وبردباری کے ساتھ پیاجاتا ہے اور غصّہ بر طرف ہوجاتا ہے، دوسرا مصیبت کا گھونٹ کہ جو صبر وتحمّل سے زائل ہوتا ہے ''(٧)

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج ١، ص ٤٠٧، ح ٨۔ ٢۔ نہج البلاغہ، حکمت ٤٢٤۔٣۔ کلینی، کافی ج ٨، ص ١٩، ح ٤۔

٤۔ صدوق، فقیہ، ج ٤، ص ٢٧٤، ح ٨٢٩۔٥۔ صدوق، خصال، ج ١، ص ١١٦، ح ٩٦۔

٦۔ سورئہ آل عمران، آیت ٣٣ ١ ، ١٣٤۔٧۔ کلینی، کافی، ج ٢، باب کظم غیظ، ح ٩۔

۱۴۶

حضرت امام جعفر صادق ـ نے اس سلسلہ میں فر مایا ہے: ''جو کوئی ایسے خشم وغضب کو کہ جسے وہ ظاہر کرسکتا ہے پی جائے تو قیامت کے دن خدا وند تعالیٰ اپنی رضا سے اس کے دل کو پرکردے گا ''(١)

الف۔ حلم اور کظم غیظ کے اسباب و موانع:

روایات میں علم، عقل، فقہ، تحلم، بلند ہمتی اور حلیم و برد بار افراد کی ہمنشینی کو حلم اختیار کرنے کے اسباب و علل میں ذکر کیا گیا ہے، جیسا کہ حضرت امام علی رضا ـ فرماتے ہیں: ''فقاہت کی علامتوں میں سے حلم اور سکوت ہے''۔(٢)

نیز حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''اگر تم واقعاً حلیم نہیں ہو تو حلم کا اظہار کرو کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کسی قوم کی شباہت اختیار کرے اور ان میں سے نہ ہوجائے''۔(١) اسی طرح آپ نے فرمایا: ''حلم اور صبر دونوں جڑواں ہیں اور دونوں ہی بلند ہمتی کا نتیجہ ہیں ''۔(٢) اس کے مقابل کچھ صفات ایسے ہیں جو حلم و برد باری کے موانع کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں کہ ان میں سے سفاہت ، بیوقوفی، حماقت ، دُرشت مزاجی، تند خوئی، غیض وغضب، ذلت وخواری اور ترش روئی کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔(٣)

ب۔حلم و برد باری کے فوائد:

اخروی جزا کے علاوہ آیات و روایات میں دنیوی فوائد بھی حلم و برد باری کے بیان کئے گئے ہیں۔ یہ فوائد خواہ انسان کی انسانی زندگی میں نفسانی صفات اور عملی صفات ہوں خواہ ا نسان کی اجتماعی زندگی کے مختلف ادوار میںظاہر ہوں، ان میں سب سے اہم فوائد یہ ہیں: سکون قلب، وقار، نجابت، رفق ومدارا، صبر، عفو و بخشش، خاموشی، سزادینے میںجلد بازی نہ کرنا، اور خندہ روئی فردی فائدے کے عنوان سے اور کرامت وبزرگواری، کامیابی ،صلح و آشتی، ریاست و بزرگی، لوگوں کے دلوں میں محبوبیت اور پسندیدہ وخوشگوارزندگی حلم و برد باری کے اجتماعی فوائد ہیں ۔ان میں سے بعض فوائد پر اس کے پہلے بحث ہوچکی ہے اور بعض دیگر ایک قسم کی رفتار (عمل) ہیں کہ عملی صفات کے بیان کے وقت ان میں سے بعض کا ذکر کریں گے۔

____________________

١۔کلینی، کافی، ج ٢، باب کظم غیظ، ح ٦۔ ٢۔ کلینی، کافی، ج ١، ص ٣٦، ح ٤۔٣۔ نہج البلاغہ، حکمت ٧ہ٢؛ کلینی، کافی، ج ٢، ص١١٢، ح ٦، ص ٢٠، ح ٤ اور تحف ا لعقول، ص ٦٩۔٤۔ نہج البلاغہ، حکمت ٤٦٠۔٥۔ صدوق، خصال، ج ٢، ص ٤١٦، ح ٧ ؛ مجلسی، بحار الانوار، ج ١٣، ص ٤٢١، ح ١٥ ؛ غرر الحکم، ح ٢٠٠٩ اور ٣٩٤٠ ؛نراقی، جامع السعادات، ج ١، ص ٢٧٥ اور ٢٩٥ ؛ فیض کاشانی، المحجة البیضائ، ج١٥، ص ٢٨٨، ٣٠٨۔

۱۴۷

٣۔ حیا

حیا نفسانی صفات میںایک اہم صفت ہے جو ہماری اخلاقی زندگی کے مختلف شعبوں میں بہت زیادہ اثر رکھتی ہے۔ اس تاثیر کا اہم ترین کردار خود کو محفوظ رکھنا ہے۔ '' حیا'' لغت میں شرم وندامت کے مفہوم میںہے اور اس کی ضد ''وقاحت'' اور بے حیائی ہے۔(١) علماء اخلاق کی اصطلاح میں حیا ایک قسم کا نفسانی انفعال اور انقباض ہے جو انسان میں نا پسندیدہ افعال کے انجام نہ دینے کاباعث بنتا ہے اور اس کا سر چشمہ لوگوں کی ملامت کا خوف ہے۔(٢)

آیات و روایات میں ''حیا '' کے مفہوم کے بارے میں مطالعہ کرنا بتاتا ہے کہ اس حالت کی پیدائش کا مرکز ایک آ گا ہ ناظر کے سامنے حضور کا احساس کرنا ہے، ایسا ناظر جو محترم اورگرامی قدر ہے۔ اس مفہوم کو کتاب و سنت میں مذکور حیا کے مسائل اور ابواب میں بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ مفہوم حیا کی تمام اقسام کے درمیان ایک مشترک مفہوم ہے اس وجہ سے حیا کے تین اصلی رکن ہیں: فاعل، ناظر اور فعل۔ حیا میں فاعل وہ ہے جو نفسانی کرامت و بزرگواری کا مالک ہے۔ ناظروہ ہے کہ جس کی قدرو منزلت فا عل کی نگاہ میںعظیم اور قابل احترام ہے اور فعل جو کہ حیا کے تحقق کا تیسرا رکن ہے، برا اور ناپسنددیدہ فعل ہے لہٰذا نتیجہ کے طور پر ''حیا ''''خوف '' و '' تقویٰ '' کے درمیان فرق کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ حیا میں روکنے والا محور ایک محترم اور بلند مرتبہ ناظر کے حضور کو درک کرنا اور اس کی حرمت کی حفاظت کرنا ہے، جبکہ خوف وتقویٰ میں روکنے والا محور، خدا کی قدرت کا درک کرنا اور اس کی سزا کا خوف ہے۔

قابل ذکر ہے کہ حیا کا اہم ترین کردار اور اصلی جوہر برے اعمال کے ارتکاب سے روکنا ہے، لامحالہ یہ رکاوٹ نیک اعمال کی انجام دہی کا باعث ہوگی۔ اسی طرح یہ بات قابل توجہ ہے کہ حیا مختلف شعبوںمیںکی جاتی ہے کہ اس کی بحث اپنے مقام پر آئے گی، جیسا کہ عورتوں کی حیا '' اخلاق جنسی'' میں، گھرمیں حیا کی بحث '' اخلاق خانوادہ ''میں اور دوسروں سے حیا '' اخلاق معاشرت '' میں مورد تحقیق قرار دی جائے گی۔ یہاں پر حیا سے متعلق صرف عام اور کلی مباحث ذکر کررہے ہیں۔

____________________

١۔ ابن منظور، لسان العرب، ج٨، ص ٥١ ؛ مفرادات الفاظ قرآن کریم، ص ٢٧٠ اور ابن اثیر نہایہ، ج ١، ص ٣٩١۔

٢۔ ابن مسکویہ، تہذیب الاخلاق، ص ٤١، ؛طوسی اخلاق نا صری، ص ٧٧۔

۱۴۸

الف۔ حیا کی اہمیت:

رسول خدا حیا کو انسان کی زینت شمار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ''بے حیائی کسی چیز کے ہمراہ نہیں ہوئی مگر یہ کہ اس کو نا پسند اور برا بنا دیا، اور حیا کسی چیز کے ہمراہ نہیں ہوئی مگر یہ کہ اسے اس نے آراستہ کردیا ''۔(١) حضرت علی ـ نے بھی فرمایا ہے: ''جو حیا کا لباس پہنتا ہے کوئی اس کا عیب دیکھ نہیں پاتا''۔ (٢ ) اور دوسرے بیان میں فرماتے ہیں: ''حیا اختیار کروکیونکہ حیا نجابت کی دلیل و نشا نی ہے''۔(٣) حضرت امام جعفر صادق ـ حیا کے مرتبہ کو اخلاقی مکارم میں سر فہرست قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ''مکارم اخلاق میں ہر ایک دوسرے سے مربوط اور جڑے ہوئے ہیں، خدا وندعالم ہر اس انسان کو جو ان مکارم اخلاق کا طالب ہے دیتا ہے، ممکن ہے کہ یہ مکارم ایک انسان میں ہو لیکن اس کی اولاد میں نہ ہو، بندہ میں ہو لیکن اس کے آقا میں نہ ہو (وہ مکارم یہ ہیں ) صداقت و راست گوئی، لوگوںکے ساتھ سچائی برتنا، مسکین کو بخشنا، خوبیوںکی تلافی، امانت داری، صلہ رحم، دوستوں اور پڑوسیوںکے ساتھ دوستی اور مہربانی ،مہمان نوازی اور ان سب میں سر فہرست حیا ہے۔(٤) حضرت علی ـ نے حیا کے بنیادی کردار کے بارے میں فرمایا: ''حیا تمام خوبصورتی اور نیکی تک پہنچنے کا وسیلہ ہے''۔(٥) حیا کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''جو حیا نہ رکھتا ہو اس کے پاس ایمان نہیں ہے''۔(٦) رسول اکرم کی سیرت کے بارے میں منقول ہے کہ آنحضرت جب بھی لوگوں سے بات کرتے تھے تو عرق شرم (حیا کا پسینہ ) آپ کی پیشانی پر ہوتا تھا اور کبھی ان سے آنکھیں چار نہیں کرتے تھے۔(٧)

____________________

١۔ شیخ مفید، امالی، ص ١٦٧۔ ٢۔ نہج البلاغہ، حکمت ٢٢٣ ؛ صدوق، فقیہ، ج ٤، ص ٣٩١ ح٥٨٣٤ ۔ کلینی، کافی، ج٨، ص ٢٣۔

٣۔ آ مدی، غرر الحکم، ح ٨٢ ٠ ٦۔٤۔ کلینی، کافی ج ٢، ص ٥٥ ح١۔ طوسی، امالی، ص ٣٠٨۔

٥۔ حرانی، تحف العقول ِ ،ص ٨٤۔٦۔ کلینی، کافی، ج٢، ص١٠٦۔٧۔ کافی ، ج٥ ،ص٥٦٥، ح٤١۔

۱۴۹

کبھی حیا کا منفی رخ سامنے آتا ہے اور وہ اس صورت میں کہ جب اس کا سبب حماقت، جہالت، اور نفس کی کمزوری ہو۔ اسلامی اخلاق میں ایسی شرم و حیا کی شدت کے ساتھ مذمت کی گئی ہے اور اسے اخلاقی فضیلت شمار نہیں کیا گیا ہے بلکہ انسان کے رشد و علو کے لئے رکاوٹ اور مختلف شعبوںمیں اس کے پچھڑنے کا سبب ہوتی ہے۔ روایات میں اس طرح کی شرم کو جہل و حماقت اور ضعف کی حیا کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔(١)

ب۔ حیا کے اسباب و موانع :

بعض وہ امور جو روایات میں حیا کے اسباب کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں، درج ذیل ہیں:

١۔عقل:

رسول خدا نے ایک عیسائی راہب ( شمعون بن لاوی بن یہودا) کے جواب میں کہ اس نے آپ سے عقل کے علائم وماہیت کے بارے میں سوال کیا تھا، فرمایا: ''عقل حلم کی پیدائش کا باعث ہے اور حلم سے علم، علم سے رشد، رشدسے عفاف اور پاک دامنی، عفاف سے خوداری، خوداری سے حیا، حیا سے وقار، وقار سے عمل خیر کی پابندی اور شر سے بیزاری اور شر سے تنفرسے نصیحت آمیز اطاعت حاصل ہوتی ہے۔(٢)

٢۔ایمان:

حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: '' جو حیا نہیں رکھتا وہ ایمان بھی نہیں رکھتا ''۔

اسی طرح روایات میں کچھ امور کو حیا کے موانع بے حیا ئی کے اسباب و علل کے عنوان سے پہچنوایا گیا ہے۔ ان میں سب سے اہم درج ذیل ہیں: ایک۔ حرمتوں اور پردوں کو اٹھا دینا: حضرت امام موسیٰ کاظم ـ اپنے اصحاب سے فرماتے ہیں: '' شرم وحیا کا پردہ اپنے اور اپنے بھائیوںکے درمیان سے نہ اٹھاؤ اور اس کی کچھ مقدار باقی رکھو، کیونکہ اس کا اٹھانا حیا کے اٹھانے کے مترادف ہے''۔(٣)

۳۔ لوگوںکی طرف دست سوال دراز کرنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: '' لوگوں کی طرف دست سوال دراز کرنا عزت چھین لیتا ہے اور حیا کو ختم کردیتا ہے''۔(٤)

____________________

١۔ صدوق، خصال، ج ١، ص٥٥، ح ٧٦ ؛ کلینی، کافی، ج٢، ص ١٠٦، ح ٦۔ ٢۔ حرانی، تحف العقول، ص ١٩، اسی طرح ملاحظہ ہو، ص ٢٧ ؛ صدوق، خصال، ج ٢، ص٤٠٤، ٤٢٧ ؛ کلینی، کافی، ج١، ص ١٠، ح ٢ ۔اور ج ٢، ص ٢٣٠۔ ٣۔ کافی، ج ٢، ص ٦٧٢، ح٥۔٤۔ ایضاً، ج٢، ص ١٤٨، ح ٤۔

۱۵۰

٣۔ زیادہ بات کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: ''جو زیادہ بولتا ہے وہ زیادہ خطا کرتا ہے اور جو زیادہ خطا کرتا ہے اس کی شرم و حیا کم ہو جا تی ہے اور جس کی شرم کم ہوجاتی ہے اس کی پارسائی کم ہوجاتی ہے اور جس کی پارسائی کم ہوجاتی ہے اس کا دل مردہ ہوجاتا ہے''۔(١)

٤۔ شراب خوری:

حضرت امام علی رضا ـ کی طرف منسوب ہے کہ آپ نے شراب کی حرمت کی علت کے بارے میں فرمایا: ''خداوندسبحان نے شراب حرام کی کیونکہ شراب تباہی مچاتی ہے، عقلو ں کو حقائق کی شناخت میں باطل کرتی ہے اورانسان کے چہرہ سے شرم و حیا ختم کردیتی ہے''۔(٢)

ج۔ حیا کے فوائد:

روایت میں حیا کے کثرت سے فوائد پائے جاتے ہیں خواہ وہ دنیوی ہوں یا اخروی، فردی ہوں یا اجتماعی، نفسانی ہوں یا عملی، ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

١۔ خدا کی محبت:

پیغمبر اکرم نے فرمایا: '' خدا وند سبحان، حیا دار،با شرم اور پاکدامن انسان کو دوست رکھتا ہے اور بے شرم فقیر کی بے شرمی سے نفرت کرتا ہے ''۔(٣)

٢۔عفّت اور پاکدامنی:

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''حیا کا نتیجہ عفّت اورپاکدامنی ہے''۔(٤)

٣۔ گناہوں سے پاک ہونا:

حضرت امام زین العابدین ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:'' چار چیزیں ایسی ہیں کہ اگر وہ کسی کے پاس ہوں تو اس کا اسلام کامل اور اس کے گناہ پاک ہوجائیں گے اور وہ اپنے رب سے ملاقات اس حال میں کرے گا، کہ خدا وند عالم اس سے را ضی و خوشنود ہوگا، جو کچھ اس نے اپنے آپ پر لوگو ں کے نفع میں قرار دیا ہے خدا کے لئے انجام دے اور لوگوں کے ساتھ اس کی زبان راست گوئی کرے اور جو کچھ خدا اور لوگوں کے نزدیک برا ہے اس سے شرم کرے اور اپنے اہل وعیال کے ساتھ خوش اخلاق ہو''۔(٥)

____________________

١۔ نہج البلاغہ، حکمت ٣٤٩۔٢۔ فقہ الرضا، ص ٢٨٢۔٣۔ طوسی، امالی، ص ٣٩، ح ٤٣۔ کلینی، کافی، ج ٢، ص ١١٢، ح٨ ؛ صدوق، فقیہ، ج٣، ص ٥٠٦، ح٤٧٧٤۔

٤۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٤٦١٢۔ ٥۔ صدوق، ، خصال، ج١، ص ٢٢٢، ح ١٥٠ ۔ مفید، امالی، ص ١٦٦، ح ١۔

۱۵۱

٤۔ رسول خدا نے شرم و حیا کے کچھ فوائد کی شرح کے ذیل میں فرمایا ہے:

''جو صفات حیا سے پیدا ہوتے ہیں یہ ہیں: نرمی، مہربانی، ظاہر اورمخفی دونوں صورتوں میں خدا کو نظر میںرکھنا، سلامتی، برائی سے دوری، خندہ روئی، جود وبخشش، لوگوںکے درمیان کامیابی اور نیک نامی، یہ ایسے فوائد ہیں جنھیں عقلمند انسان حیا سے حاصل کرتا ہے''۔(١)

اسلام کی اخلاقی کتابوں میں ''وقاحت '' اور ''بے شرمی'' سے متعلق بہت سے بیانات ہیںکہ ہم اختصار کی خاطر صرف ایک روایت پر اکتفا کرتے ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق ـ اپنے شاگرد ''مفضل '' سے فرماتے ہیں: ''اے مفضل! اگرحیا نہ ہوتی تو انسان کبھی مہمان قبو ل نہیں کرتا، اپنے وعدہ کو وفا نہیں کرتا، لوگوں کی ضرورتوں کو پورا نہ کرتا، نیکیوں سے دور ہو تا اور برائیوں کا ارتکاب کرتا۔ بہت سے واجب اور لازم امور حیا کی وجہ سے انجام دئے جاتے ہیں، بہت سے لوگ اگرحیا نہ کرتے اور شرمسار نہ ہوتے تو والدین کے حقوق کی رعایت نہیں کرتے، کوئی صلہ رحمی نہ کرتا، کوئی امانت صحیح وسالم واپس نہیں کرتااور فحشاو منکر سے باز نہیں آتا''۔(٢)

د۔حیا کے مقامات :

بیان کیا جاچکا ہے کہ ''حیا'' ناظر محترم کے حضوربرے اعمال انجام دینے سے شرم کرنا ہے۔ اس بنا پر پہلے: اسلام کی اخلاقی کتابوں میں خدا، اس کی طرف سے نظارت کرنے والے، اس کے نمایندے، انسان اور دوسروں کی انسانی اور الہی حقیقت کا ذکر ایک ایسے ناظر کے عنوان سے ہوا ہے کہ جن سے شرم وحیا کرنی چاہیے۔(٣)

دوسرے: حیا کے لئے ناپسندیدہ اور امور ہیں اور نیکیوں کی انجام دہی میں شرم و حیا کبھی ممدوح نہیں ہے لیکن اس حد و مرز کی رعایت بہت سے افراد کی طرف سے نہیں ہوتی ہے، اس کا سبب کبھی جہالت ہے اور کبھی لاپرواہی۔ بہت سی روایات میں بعض موقع پر حیا کرنے سے ممانعت کی گئی ہے معلوم ہوتا ہے کہ حیا کے مفہوم میں پہلے بیان کئے گئے ضابطہ و قانون کے باوجود یہ تاکید اس وجہ سے ہے کہ انسان ان موارد کی نسبت ایک طرح علمی شبہہ رکھتا

____________________

١۔ حرانی، تحف العقول، ص ٢٠۔٢۔ مجلسی، بحار ج ٣، ص ٨١۔

٣۔ صدوق، عیون اخبار الرضا ، ج ٢، ص٤٥، ح ١٦٢ ؛ تفسیر قمی، ج ١، ص ٣٠٤ ؛ کراجکی، کنز الفؤائد، ج ٢، ص ١٨٢ ؛ طوسی، امالی، ص ٢١٠۔

۱۵۲

ہے اور ایک حد تک ان موارد میں حیا کرنے کی تائید کے لئے توجیہات گڑھنے کی کوشش کرتا ہے، جب کہ اس کے خیالات و تصورات باطل ہیں۔ وہ بعض موارد اور مقامات جہاں حیا نہیں کرنی چاہیے، درج ذیل ہیں:

١۔ حق بات، حق عمل اور حق کی درخواست میں حیا کرنا: پیغمبر اکرم نے فرمایا: '' کوئی عمل بھی ریا اور خود نمائی کے عنوان سے انجام نہ دو اور اسے شرم و حیا کی وجہ سے ترک نہ کرو ''۔(١)

٢۔تحصیل علم سے حیاکرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' کوئی شخص جو وہ نہیں جانتا ہے اس کے سیکھنے میں شرم نہ کرے''۔(٢)

٣۔ حلال درآمد کے حصول میں حیا کرنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''اگر کوئی مال حلال طلب کرنے میں حیا نہ کرے تو اس کے مخارج آسان ہوجائیں گے اور خدا اس کے اہل و عیال کو اپنی نعمت سے فیضیاب کرے گا''۔(٣)

٤۔ مہمانوںکی خدمت کرنے سے حیا کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' تین چیزیں ایسی ہیں جن سے شرم نہیں کرنی چا ہیے، منجملہ ان کے انہیں میں مہمانوں کی خدمت کرناہے''۔(٤)

٥۔دوسروں کا احترام کرنے سے حیا کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: ''تین چیزوں سے شرم نہیں کرنی چا ہیے: منجملہ ان کے اپنی جگہ سے باپ اور استاد کی تعظیم کے لئے اٹھنا ہے''۔(٥)

٦۔ نہ جاننے کے اعتراف سے حیا کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' اگر کسی سے سوال کریں اور وہ نہیں جانتا تو اسے یہ کہنے میں کہ ''میں نہیں جانتا'' شرم نہیں کرنی چاہیے''۔(٦)

____________________

١۔ حرانی، تحف العقول، ص ٤٧، ؛ صدوق، امالی، ص ٩٩ ٣ ، ح١٢، ؛ کلینی، کافی، ج٢، ص ١١ ١، ح ٢، اور ج ٥، ص ٥٦٨، ح ٥٣ ۔ ٢۔ نہج البلاغہ، حکمت ٨٢ ؛ حرانی، تحف العقول، ٣١٣۔٣۔ حرانی، تحف العقول، ص٥٩ ؛ صدوق، فقیہ ،ج ٤، ص ٤١٠، ح ٥٨٩٠۔ ٤۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٤٦٦٦۔٥۔ غرر الحکم۔

٦۔ نہج البلاغہ، حکمت، ٨٢ ؛ صدوق، خصال، ج ١، ص ٣١٥، ح ٩٥۔

۱۵۳

٧۔ خداوند عالم سے درخوست کرنے میں حیا کرنا:

امام جعفر صادق ـنے فرمایا: ''کوئی چیز خدا کے نزدیک اس بات سے زیادہ محبوب نہیں ہے کہ اس سے کسی چیز کا سوال کیا جائے، لہٰذا تم میں سے کسی کو رحمت خدا وندی کا سوال کرنے سے شرم نہیں کرنی چاہیے، اگر چہ اس کا سوال جوتے کے ایک فیتہ کے متعلق ہو ''۔(١)

٨۔ معمولی بخشش کرنے سے حیا کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: ''معمولی بخشش کرنے سے شرم نہ کروکہ اس سے محروم کرنا اس سے بھی کمتر ہے۔''(٢)

٩۔اہل و عیال کی خدمت کرنے سے حیا کرنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے مدینہ کے ایک انسان کو دیکھا کہ اس نے اپنے اہل و عیال کے لئے کوئی چیز خریدی ہے اور اپنے ہمراہ لئے جا رہا ہے، جب اس انسان نے امام کو دیکھا تو شرمندہ ہوگیا امام نے فرمایا: ''یہ تم نے خود خریدا ہے اور اپنے اہل و عیال کے لئے لے جا رہے ہو ؟ خدا کی قسم، اگر اہل مدینہ نہ ہوتے (کہ ملامت اور نکتہ چینی کریں) تو میں بھی اس بات کو دوست رکھتا کہ کچھ خرید کر اپنے اہل و عیال کے لئے لے جائوں''۔(٣)

٤۔ عفّت

نفسانی صفات میںایک دوسر ی روکنے والی صفت عفّت اور پاکدامنی ہے۔ '' عفّت '' لغت میں نا پسند اور قبیح امر کے انجام دینے سے اجتناب کرنے کے معنی میں ہے۔(٤) علم اخلاق کی اصطلاح میں ''عفت'' نام ہے اس نفسانی صفت کا جو انسان پر شہوت کے غلبہ اور تسلّط سے روکتی ہے۔(٥) شہوت سے مراد اس کا عام مفہوم ہے کہ جو شکم وخوراک کی شہوت، جنسی شہوت، بات کرنے کی شہوت اور نظر کرنے کی شہوت اور تمام غریزوں (شہوتوں) کو شامل ہوتی ہے، حقیقت عفّت یہ ہے کہ شہوتوںاورغریزوں سے استفادہ کی کیفیت میں ہمیشہ شہوتوں کی جگہ عقل و شرع کا غلبہ اور تسّلط ہو۔ اس طرح شہوتوں سے منظّم ومعیّن عقلی وشرعی معیاروں کے مطابق بہرہ مند ہونے میں افراط و تفریط نہیں ہوگی۔

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج٤، ص ٢٠ ح ٤۔٢۔ نہج البلاغہ، حکمت، ٦٧۔٣۔ کلینی، کافی، ج٢، ص١٢٣، ح١٠۔٤۔ لسان العرب، ج ٩، ص ٢٥٣ ،٢٥٤ ؛ جوہری ،صحاح اللغة، ج ٤، ص ١٤٠٥، ١٤٠٦ ؛ نہایہ، ج ٣، ص ٢٦٤۔٥۔ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ قرآن ص ٣٥١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ١٥ ۔

۱۵۴

الف۔ عفّت کے اقسام:

عفّت کے لئے بیان شدہ عام مفہوم کے مطابق عفّت کے مختلف ابعاد وانواع پائے جاتے ہیں کہ ان میں سب سے اہم درج ذیل ہیں:

١۔ عفّت شکم:

اہم ترین شہوتوںمیں سے ایک اہم کھانے کی شہوت و خواہش ہے۔ کھانے پینے کے غریزہ سے معقول ومشروع (جائز ) استفادہ کو عفّت شکم کہا جاتا ہے جیسا کہ اس عفّت کے متعلق قرآن میں اس آیت کی طرف اشارہ کیاجا سکتا ہے کہ فرماتا ہے: ''تم میں جو شخص مالداراور تونگر ہے وہ (یتیموں کا مال لینے سے) پرہیز کرے اور جو محتاج اور تہی دست ہے تو اسے عرف کے مطابق ( بقدر مناسب) کھا نا چاہیے''۔(١) اس عفّت کی تفصیلی بحث اقتصادی اخلاق میںکی جاتی ہے۔

٢۔ دامن کی عفت: جنسی غریزہ قوی ترین شہوتوں میں سے ایک ہے اسے جائز ومشروع استعمال میں محدود کرنا اور محرمات کی حد تک پہونچنے سے روکنا ''عفّت دامن '' یا پاکدامنی کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ اسی معنی میں عفّت کا استعمال درج ذیل آیت میں ہوا ہے: ''جن لوگوںمیں نکاح کرنے کی استطاعت نہیں ہے انھیں چاہیے کہ پاکدامنی اور عفّت سے کام لیں یہاں تک کہ خدا انھیںاپنے فضل سے بے نیاز کردے ''۔(٢)

اس عفّت کی بحث تفصیلی طور پراخلاق جنسی میں بیان کی جائے گی ۔اگر چہ اپنے آپ کو شہوتوںکے مقابل بچانا شکم اور دامن کی شہوت میں منحصر نہیں ہے، بلکہ تمام شہوتوں کو شامل ہے لیکن چونکہ یہ دونوں ان سب کی رئیس ہیں اور اخلاق کی مشہور کتابوں میں صرف انھیںدو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے حتیٰ بعض علماء نے ان دو کو عفّت کی تعریف میں بھی شامل کیا ہے،(٣) لہٰذا انھیں دو قسموں کے ذکر پر اکتفا کی جاتی ہے۔ دوسری طرف ان دو قسموں میں سے ہر ایک، ایک خاص عنوان سے مربوط ہے لہٰذا ہر ایک کی اپنے سے متعلق عنوان میں مفصل بحث کی جائے گی، یہا ں پر ان کے بعض کلی اور مشترک احکام کا ذکر کررہے ہیں۔

____________________

١۔ سورئہ نسائ، آیت ٦، اسیطرح سورئہ بقرہ، آیت ٢٧٣ ملاحظہ ہو۔

٢۔ سورئہ نور، آیت ٣٣؛ اسی طرح ملاحظہ ہو: آیت ٦٠۔

٣۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص١٥۔

۱۵۵

ب۔عفّت کی اہمیت:

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' سب سے افضل عبادت عفّت ہے '' ۔(١) اور حضرت امام محمد باقر ـ سے منقول ہے: ''خدا کے نزدیک بطن اور دامن (شرمگاہ) کی عفّت سے افضل کوئی عبادت نہیں ہے ''۔(٢) اور جب کسی نے آپ سے عرض کیا کہ میں نیک اعمال انجام دینے میں ضعیف اور کمزور ہوں اور کثرت سے نماز نہیں پڑھ سکتا اور زیادہ روزہ نہیں رکھ سکتا، لیکن امید کرتا ہوںکہ صرف مال حلال کھاؤں اور حلال طریقہ سے نکاح کروں تو حضرت امام محمد باقر ـ نے فرمایا: '' عفّت بطن ودامن سے افضل کون سا جہاد ہے ؟''(٣) رسول خدا اپنی امت کے سلسلہ میں بے عفتی اور ناپاکی کے بارے میںاپنی پریشانی کا اظہار یوں کرتے ہیں: ''میں اپنے بعد اپنی امت کے لئے تین چیز کے بارے میں زیادہ پریشان ہوں معرفت کے بعد گمراہی، گمراہ کن فتنے اور شہوت بطن ودامن''۔(٤)

ایک دوسرے بیان میں فرماتے ہیں: ''میری امت کے جہنم میں جانے کا زیادہ سبب شہوت شکم ودامن کی پیروی کرناہے'' ۔(٥)

ج۔ عفّت کے اسباب:

شکم اور دامن کی عفّت میں سے ہرایک کے پیدا ہونے کے اسباب اقتصادی اور جنسی اخلاق سے مربوط بحث اور اس کے مانند دوسری بحثوں میں بیان کئے جاتے ہیں۔ لیکن روایت میں عام عوامل واسباب جیسے عقل، ایمان، تقویٰ حیا و مروت کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ اختصار کی رعایت اور ایک حد تک ان کی علت کے واضح ہونے کی وجہ سے ان میں سے ہر ایک کے ذکر سے صرف نظر کرتے ہیں۔

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج٢، ص٧٩ ،ح ٣۔

٢۔ جامع السعادات، ص ٨٠، ح ٨ ۔ ص ٧٩، ح ١۔

٣۔ جامع السعادات، ص ٧٩، ح ٤ ۔

٤۔ جامع السعادات، ح ٦ ۔

٥۔ جامع السعادات، ص ٨٠، ح ٧۔

۱۵۶

د۔ عفّت کے موانع:

عفّت کے عام موانع میں ''شرارت '' اور ''خمود '' ( سستی اور سہل انگاری ) ہے، ان دونوں کی مختصرتوضیح درج ذیل ہے:

١۔ شرارت:

شرارت سے مراد اپنے عام مفہوم کے لحاظ سے شہوانی قوتوں کی پیروی کرنا ہے اس چیز میں جو وہ طلب کرتی ہیں،(١) خواہ وہ شہوت شکم ہو یا شہوت مال دوستی یا اس کے مانند کسی دوسری چیز کی شہوت ۔ شرارت یعنی جنسی لذتوں میں شدید حرص کا ہونا اور ان میں زیادتی کا پایا جانا۔(٢) حضرت علی ـ نے شرارت کی مذمت میں فرمایا ہے: '' شرارت تمام عیوب کی رئیس ہے''۔(٣) حضرت امام جعفر صادق ـ کا بیان اس سلسلہ میں یہ ہے: کہیںایسا نہ ہو کہ جو کچھ خدا نے تم پر حرام کیا ہے اس کا تمہارا نفس حریص ہوجائے کیونکہ جو شخص بھی دنیا میں حرام خدا وندی کا مرتکب ہوگا خداوند سبحان اسے جنت سے اور اس کی نعمتوں اور لذتوں سے محروم کردے گا ''۔(٤)

٢۔ خمود:

''شرارت'' کے مقابل ہے یعنی ضروری خوراک کی فراہمی میں کاہلی اور کوتاہی کرنا اور جنسی غریزہ سے ضروری استفادہ کرنے میں سستی اور کوتاہی کرنا اس طرح سے کہ صحت و سلامتی، خاندان کی تباہی اور نسل کے منقطع ہونے کا سبب بن جائے ۔ یہ واضح ہے کہ یہ حالت غریزوں اور شہوتوں سے استفادہ میں تفریط اور کوتاہی کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔(٥) ''خمود'' حکمت خلقت کے مخالف اور نسل انسان کے استمرار و دوام نیز اس کی بقا اور مصلحت کے مخالف ہے، اس کے علاوہ اسلامی اخلاق میں غرائز وشہوات سے جائز استفادہ کی جوکثرت سے تاکید پائی جاتی ہے اور جو کچھ رہبانیت اور دنیا سے کنارہ کشی کی مذمت کے سلسلہ میں بیان ہوا ہے وہ سب '' خمود '' کی قباحت کو بیان کرتے ہیں ۔اس امر کی تفصیلی بحث '' اخلاق جنسی '' میں ہوگی۔

____________________

١۔ ابن منظور، لسان العرب، ج ١٣، ص ٥٠٦۔٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ٤۔ ٣۔ ؛ کلینی، کافی، ج٨، ص ٩ ١، ح٤ ؛ نہج البلاغہ، حکمت، ٣٧١۔٤۔ کلینی، کافی ، ج٨، ص ٤، ح ١۔٥۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ١٣۔

۱۵۷

ہ۔ عفّت کے فوائد :

روایات میں عفّت کے متعدد دنیوی اور اخروی فوائد بیان کئے گئے ہیں جیسے پستیوں سے نفس کی حفاظت کرنا، شہوتوں کو کمزور بنانا اور عیوب کا پوشیدہ ہونا کہ یہاں اختصار کے پیش نظررسول خدا کے ایک کلام کے ذکر پر اکتفا کرتے ہوئے اس بحث کو ختم کررہے ہیں۔

عفّت کے علائم یہ ہیں: جو کچھ ہے اس پر راضی ہونا، اپنے کو معمولی اور چھوٹا سمجھنا، نیکیوں سے استفادہ کرنا، آسائش اور راحت میں، اپنے ما تحتوں اور مسکینوں کی دل جوئی، تواضع، یا د آوری ( غفلت کے مقابل )، فکر، جو د و بخشش اور سخاوت کرنا۔(١)

٥۔ صبر

نفسانی صفات میں سب سے عام اور اہم روکنے والی صفت ''صبر '' ہے۔ ''صبر '' کے معنی عربی لغت میں حبس کرنے اور دباؤ میں رکھنے کے ہیں۔(٢) اور بعض نے اسے بے تابی اور بے قراری سے نفس کو باز رکھنے سے تعبیر کیا ہے۔(٣) اخلاقی اصطلاح میں صبرنام ہے نفس کو اس چیز کے انجام دینے اور آمادہ کرنے جس میں عقل و شرع کا اقتضاء ہونیز اس چیز سے روکنا جسے عقل وشرع منع کرتے ہیں۔(٤) مذکورہ تعریفوں کے پیش نظر ''صبر '' ایک ایسی عام اور روکنے والی نفسانی صفت ہے کہ جس میں دو اہم جہت پائے جاتے ہیں : صبر ایک طرف انسان کی غریزی اور نفسانی خواہش اور میلان کوحبس اور دائرئہ عقل وشرع میںمحدود کرتا ہے۔ دوسری طرف نفس کو عقل وشرع کے مقابل ذمہ داری سے فرار اختیار کرنے سے روکتا ہے اور اسے اس بات پر ابھارتا ہے کہ اپنے کو فرائض الہی کی پابندی کے لئے زحمت اٹھانے اور دشواریوں کا سامنا کرنے کے لئے آمادہ کرے، البتہ اگر یہ حالت انسان میں سہولت و آسانی سے پیدا ہوجائے تو اسے ''صبر'' اور اگر انسان زحمت ومشقت میں خود کو مبتلا کرکے اس پر آمادہ کرے تو اسے '' تصبر '' (زبردستی صبر کرنا )کہتے ہیں۔

____________________

١۔ حرانی، تحف العقول، ص٢٠۔

٢۔ زبیدی، تاج العروس، ج ٧، ص ٧١ ؛ راغب اصفہانی، مفردات، ٤٧٤ ؛ ابن منظور، لسان العرب، ج ٤، ص ٤٣٨۔

٣۔ جوہری، صحاح اللغة، ج ٢، ص ٧٠٦۔ طریحی، مجمع البحرین، ج ٢، ص ١٠٠٤۔

٤۔ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ قرآن، ص ٤٧٤۔

۱۵۸

الف۔ صبر کی قسمیں:

صبر کے لئے جو عام اور وسیع مفہوم بیان کیا گیا ہے اس کے مطابق علماء اخلاق نے متعدد جہات سے صبر کے لئے مختلف اقسام و انواع بیان کی ہیں کہ ان میں سے اہم ترین اقسام کو اختصار کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے۔

١۔ مفہوم کے لحاظ سے:

مذکورہ تعریفوں کے مطابق کبھی صبر سے مراد نفسانی جاذبوں اور دافعوں میں ہر قسم کی محدودیت کا ایجاد کرنا ہے کہ جو ایک عام مفہوم ہے اور کبھی اس سے مرادناگوار امور کی نسبت عدم رضایت اور بے تابی کے اظہار سے نفس کو روکنا ہے۔ اس لحاظ سے صبر کے دو مفہوم ہیں کہ کبھی خاص مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔

٢۔ موضوع کے لحاظ سے:

صبر اپنے عام مفہوم میں موضوع کے اعتبار سے متعدد انواع کا حامل ہے۔

کبھی صبر سختیوں اور مصیبتوںپر ہوتا ہے جو کہ ان سختیوں اور مصیبتوں کے مقابل مضطرب وپریشان نہ ہونا اور سعہ صدر کی حفاظت ہے، اسے '' مکروہات پر صبر '' کہتے ہیں اور اس کے مقابل ''جزع '' اور بے قرار ی ہے صبر کی رائج قسم یہی ہے۔ جنگ کی دشواریوں پر صبر کرنا '' شجاعت'' ہے اور اس کے مقابل '' جبن '' بزدلی اور خوف ہے۔ اور کبھی صبر غیض و غضب کی سرکشی اور طغیانی کے مقابل ہے کہ اسے '' حلم '' اور '' کظم غیظ '' کہتے ہیں۔ کبھی صبر عبادت کے انجام دینے میں ہے کہ اس کے مقابل ''فسق '' ہے جو شرعی عبادت کی پابندی نہ کرنے کے مفہوم میں ہے۔ اور کبھی صبر شکم کی شہوت اور جنسی غریزہ کے مقابل ہے کہ جسے '' عفّت ''کہتے ہیں۔ اور دنیا طلبی اور زیادہ طلبی کے مقابل ہے جو کہ ''زہد '' ہے اور اس کے مقابل '' حرص '' ہے۔

۱۵۹

اور کبھی صبر اسرار کے کتمان پر ہوتا ہے کہ جسے راز داری کہتے ہیں۔(١)

٣۔ حکم کے لحاظ سے:

صبر اپنے تکلیفی حکم کے اعتبارسے پانچ قسم میں تقسیم ہوتاہے: واجب صبرجو کہ حرام شہوات ومیلانات کے مقابل ہے۔ اور مستحب صبر مستحبات کے انجام دینے پر ہونے والی دشواریوں کے مقابل ہے۔ حرام صبر جو بعض اذیت و آزار پر ہے جیسے انسان کے مال، جان اور ناموس پر دوسروں کے تجاوز کرنے پر صبر کرنا۔ صبر ناگوار اور مکروہ امور کے مقابل جیسے عاشور کے دن روزہ رکھنے کی سختی پر صبر کہ جو مکروہ ہے ان موارد کے علاوہ مباح ہے، لہٰذا ہمیشہ صبر پسندیدہ اور محبوب شیٔ نہیں ہے، بلکہ کبھی حرام اور کبھی مکروہ بھی ہوجاتا ہے۔(٢)

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٣، ص٢٨٠، ٢٨١؛ رسول اکرم نے ایک حدیث میں صبر کی تین قسم بیان کی ہے: مصیبت کے وقت صبر، طاعت و بندگی پر صبر، اور معصیت و گناہ پر صبر۔ کلینی، اصو ل کافی، ج ٢، ص ٩١، ح ١٥۔ اسی طرح بعض علماء اخلاق نے صبر کو اس وجہ سے دو قسم پر تقسیم کیا ہے متاع دنیا (سراء ) پر صبر اور بلا (ضراء ) پر صبر۔ ملاحظہ ہو نراقی، جامع السعادات، ج٣، ص ٢٩٣، ٢٩٤۔

٢۔ نراقی، جامع السعادات، ج٣، ص ٢٨٥۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

دوسرے لوگوں اور ان كے در ميان كوئي فرق نہ ہوتا جس كے نتيجے ميں مطالعہ كے ليے كوئي خصوصيت در كار نہ ہوتي_

۱۱_ امتوں ميں ايسے انسان موجود رہے ہيں جن پر گمراہى كى مہر لگى ہوئي ہے اور وہ كبھى بھى ہدايت نہيں پائيں گے_

و منهم من حقّت عليه الضلالة حق كے چند معنى اور استعمال ہيں جن ميں سے ايك ايسا عمل اور گفتار ہے جو اس وجہ سے ظاہر ہو چونكہ اس كا وقوع لازم اور ضرورى تھا اس بناء پر عبارت ، ''حقت عليہ الضلالة'' كا مطلب يہ ہے كہ اس كے ليے يہ گمراہى ضرورى اور يقينى ہوتى ہے_

۱۲_ زمين كے تمام وسيع علاقے كہ جہاں انسانى معاشرے موجود رہے ہيں اس بات پرشاہد ہيں كہ خداوند عالم كى طرف سے ان كى طرف انبياء بھيجے گئے ہيں _ولقد بعثنا فى كل امة رسولاً ...فسيروا فى الأرض فانظرو

''فيسروا' ميں ''فا'' تفريع كے ليے ہے_ ہر امت ميں انبياء كو مبعوث كرنے كے بيان كے بعد لوگوں كوكائنات ميں گردش كرنے كى دعوت كا مطلب يہ ہے كہ زمين كى وسعت، انبياء الہى كى تكذيب كرنے والوں كى عاقبت اور حالت پرگواہ ہے اس كے نتيجے كے طور پر ان كے آثار كو پيدا اور انہيں مورد مطالعہ قرار ديا جا سكتا ہے_

۱۳_تاريخ كا مطالعہ، عبرت اور درس لينے كا وسيلہ ہے_فسيروافى الارض فانظرو اكيف كان عقبة المكذبين

۱۴_ زمين اپنے سينے ميں گذشتہ امتوں كے عبرت انگيز آثار كو ليے ہوئے ہے_

فسيروافى الأرض فانظر و ا كيف كان عقبة المكذبين

۱۵_انسان كا عمل، اس كى سرنوشت كى تعيين ميں موثر ہے_فانظروا كيف كان عاقبة المكذّبين

۱۶_ طول تاريخ ميں انسانوں كى سعادت وكمال اور ان كى پستى كے راستے يكساں اور ايك قانون كے حامل ہيں _

فسيروا فى الارض فانظروا كيف كان عاقبة المكذبين

لوگوں كو سير وسياحت اور مطالعہ كى دعوت ديناتاكہ وہ عبرت حاصل كريں اس كے ليے فعل امر''سيروا'' او ر ''انظروا'' كا استعمال اس چيز سے حكايت ہے كہ تمام جارى امور ميں يكساں قوانين نافذ ہيں _

۱۷_ مشركين مكہ كو خداوند عالم كى طرف سے برے انجام سے خبر داركياگيا ہے_وقال الذين أشركوا ...فسيروا فى الارض

۴۲۱

فانظرو اكيف كا ن عقبة المكذبين

اس احتمال كى بناء پر فعل امر ''سيروا'' كے مخاطب ، مشركين مكہ ہيں اس چيز كا استفادہ ہوتا ہے كہ مشركين كا خدا كے بارے ميں اپنے نظريات كو بيان كرنے كے بعد انہيں زمين ميں انبياء كى تكذيب كرنے والوں كے انجام كا مطالعہ كرنے كے ليے زمين ميں سيرو سفر كى دعوت دينا گويا انہيں خبردار كرنا ہے_

۱۸_ كچھ گناہ، دنياوى عذاب كے نزول كا سبب ہيں _فانظروا كيف كان عقبة المكذبين

انبياء كرام كى تكذيب كرنے والوں كے انجام ميں انتہائي دقت اور عميق نگاہ كى دعوت اس نكتے كى طرف اشارہ ہے كہ تكذيب كرنے والے عذاب سے دوچار ہوئے ہيں _ اس بناء پر اس چيز كا استفادہ ہوتا ہے كہ كچھ گناہ( انبياء كى تكذيب) دنياوى عذاب كا سبب ہيں _

الله تعالي:الله تعالى كى توفيقات ۷; الله تعالى كى سنتيں ۴; الله تعالى كے انذار۱۷

امتيں :امتوں كى گمراہي۶; امتوں كى ہدايت۶; ہدايت قبول نہ كرنے والى امتيں ۱۱

انبياء :انبياء كو جھٹلانے والوں كى سزا ۱۰; انبياء كو جھٹلانے والوں كے انجام كامطالعہ ۹; انبياء كى بعثت كى اہميت۱۲;انبياء كى بعثت كا فلسفہ ۴،۵; انبياء كى تعليمات كے اركان۲; انبياء كى دعوتوں كا ہم آہنگ ہونا ; انبياء كى عالمگير رسالت ۱۲; انبياء كى ہدايت كرنا۶

انسان:انسانوں كى سعادت كے قوانين۱۶;انسانوں كے قوانين كا انحطاط ۱۶

باطل معبود:باطل معبودوں سے اعراض ۳

تاريخ:تاريخ سے عبرت ۱۳،۱۴;تاريخ كے مطالعہ كے آثار ۱۳

توحيد :توحيد عبادى كى دعوت ۵

جبر و اختيار :جبر و اختيار كے بطلان كے دلائل ۵

جہان گردي:جہان گردى كى اہميت ۹

سرنوشت:سرنوشت كے موثر عوامل ۱۵

۴۲۲

طاغوت:طاغوت سے اجتناب كى اہميت ۲

عبادت:عبادت خدا كى اہميت ۲

عبرت:عبرت كے اسباب ۱۳،۱۴

عذاب:اہل عذاب ۱۰; دنياوى عذاب كے اسباب۱۸

عمل :عمل كے آثار ۱۵

گذشتہ اقوام:گذشتہ اقوام كى تاريخ۱۰،۱۴; گذشتہ اقوام كى سزا ۱۰

گمراہي:گمراہى كا سرچشمہ ۸

گناہ:گناہ كے آثار۱۸

مسافرت:مسافرت كى اہميت۹

مشركين:مشركين كا باطل عقيدہ ۵

مشركين مكہ:مشركين مكہ كا برا انجام۱۷; مشركين مكہ كو تہديد۱۷

ہدايت:ہدايت كا سرچشمہ۷

آیت ۳۷

( إِن تَحْرِصْ عَلَى هُدَاهُمْ فَإِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي مَن يُضِلُّ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِينَ )

اگر آپ كو خواہش ہے كہ يہ ہدايت پاجائيں تو اللہ جس كو گمراہى ميں چھوڑ چكا ہے اب اسے ہدايت نہيں دے سكتا اور نہ ان كا كوئي مدد كرنے والا ہوگا _

۱_مشركين كى ہدايت كرنا، پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى شديد خواہش اور آرزو تھي_

۴۲۳

وقال الذين ا شركوا ...حقت عليه الضللة ...إن تحرص على هداهم

۲_خداوند عالم جنہيں گمراہى ميں چھوڑديتاہے وہ انہيں ہدايت نہيں ديتا_فانّ اللّه لا يهدى من يضل

۳_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مشيت خداوندى كے بغير، گمراہ افراد كو ہدايت كرنے پر قادر نہيں ہيں _

إن تحرص على هداهم فان اللّه لا يهدى من يضل

ان شرطيہ كا جواب ''لا تقدر '' محذوف ہے چونكہ عبارت''فان ّ اللّه لا يهدى من يضل'' ميں ''فا'' كا تعليلہ ہونا اس پر قرينہ ہے يعنى اگر تم انہيں ہدايت كرنے پر حريص ہو تو بھى ہدايت نہيں كر سكتے چونكہ خداوند عالم كے ہاتھوں گمراہ ہونے والوں كو خداوند عالم ہدايت نہيں دے گا_

۴_ گمراہ شدہ افراد كى ہدايت كے ليے فقط انبياء اور ہدايت دينے والوں كى كوشش كافى نہيں ہے_

ان تحرص على هدهم فان اللّه لا يهدى من يضل

۵_ ہدايت اور گمراہى كى زمام ، خداوند عالم كے ہاتھ ميں ہے_ان تحرص على هدهم فانّ اللّه لا يهدى من يضل

۶_ جن لوگوں كے ليے گمراہى مقدر ہو چكى ہے وہ كبھى بھى ہدايت نہيں پائيں گے_

و منهم من حقت عليه الضللة ...فانَّ اللّه لا يهدى من يضل

۷_ فقط مناسب ہدايت كرنے والے كى موجود گي، ہدايت پانے كے لے كافى نہيں ہے_

ان تحرص على هدهم فان اللّه لا يهدى من يضل

۸_ گمراہ افراد ہر قسم كے يارو مددگار سے محروم ہيں _فان اللّه لا يهدى من يضل وما لهم من ناصرين

۹_ خداوند عالم كى ہدايت سے محروم ، بے يارو مددگار لوگ ہيں _فان اللّه لا يهدى من يضل وما لهم من ناصرين

۱۰_ہدايت پانے والے ، خداوند عالم كى عنايت اور معاون و مددگار كے حامل ہوں گے_

فمنهم من هدى اللّه و منهم من حقت عليه الضللة ...فان اللّه يهدى من يضل وما لهم من ناصرين

چونكہ خداوند عالم نے لوگوں كے دو گروہ ، ہدايت قبول كرنے والے اور گمراہ افراد كو بيان كيا ہے اورگمراہ افراد كو خدائي ہدايت سے محروم اور بے يارو مددگار قرار ديا ہے لہذا قرينہ مقابلہ كى بناء پر مذكورہ نكتہ كا استفادہ كيا جاسكتا ہے_

۴۲۴

الله تعالي:الله تعالى كا كردار۵; الله تعالى كى مشيت كے آثار ۳; الله تعالى كى ہدايت سے محروم۹; الله تعالى كے گمراہ كرنے كى خصوصيات۲

انبياء:انبياء كى ہدايت كے تاثير كى شرائط ۴

گمراہ:گمراہوں كا بے يارو مددگار ہونا ۸،۹;گمراہوں كا ہدايت نہ پانا۲،۶; گمراہوں كى محروميت۸; گمراہوں كى ہدايت كے شرائط۳،۴

گمراہي:گمراہى كا سرچشمہ ۵

لطف خدا:لطف خدا كے شامل حال افراد ۱۰

محمد:حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ہدايت ۱; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ہدايت كے اثر كے شرائط۳; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پسنديدہ ۱

مشركين:مشركين كى ہدايت۱

ہدايت:ہدايت كا سرچشمہ۵; ہدايت كے شرائط ۷

ہدايت پانے والے:ہدايت پانے والوں كا مددگار ۱۰; ہدايت پانے والوں كے فضائل ۱۰

ہدايت قبول نہ كرنے والے:۲

آیت ۳۸

( وَأَقْسَمُواْ بِاللّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لاَ يَبْعَثُ اللّهُ مَن يَمُوتُ بَلَى وَعْداً عَلَيْهِ حَقّاً وَلـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ )

ان لوگوں نے واقعى اللہ كى قسم كھائي تھى كہ اللہ مرنے والوں كو دوبارہ زندہ نہيں كرسكتا ہے حالانكہ يہ اس كا برحق وعدہ ہے يہ اور بات ہے كہ اكثر لوگ اس حقيقت سے باخبر نہيں ہيں _

۱_ انسانوں كى اخروى حيات كے انكار كے ليے ، مشركين كا الله كى قسم كھانا_

واقسموا باللّه جهد ا يمنهم

۲_ مشركين مكہ، خداوند عالم كے وجود كا اعتقاد ركھتے تھے_واقسموا باللّه جهد ا يمنهم

۳_ صدر اسلام ميں الله كى قسم كھانا ، لوگوں ميں رائج تھا_واقسموا باللّه جهد ا يمنهم لا يبعث اللّه من يموت

۴۲۵

۴_ موت كے بعد انسانوں كو دوبارہ زندہ كرنے كا انكار كرنے كے ليے مشركين كى جد وجہد_

واقسموا باللّه ...لا يبعث اللّه من يموت

''جہد ''فعل محذوف كے ليے مفعول مطلق نوعى ہے جو فعل كے انجام كى تاكيد كے ليے ہوتا ہے اور ''ايمان ''(قسميں ) كو جمع لانا ممكن ہے مذكورہ مطلب كے ليے مويد ہو_

۵_مشركين مكہ، زندگى كو دائرہ اختيار ميں سمجھتے تھے_واقسموا باللّه لا يبعث اللّه من يموت

۶_ منكرين معاد،يہ خيال كرتے تھے كہ خود خداوند عالم ، مردہ انسانوں كو زندہ نہيں كرے گا_

واقسموا باللّه ...لا يبعث اللّه من يموت

۷_ مشركين مكہ ،زوال پذير انسان كو مبعوث رسالت كے قابل نہيں سمجھتے تھے_

ما قبل آيات جو كہ انبياء كى بعثت اور مشركين كى طرف سے اس كا انكار كئے جانے كے بارے ميں ہيں كے قرينہ كى بناء پر يہ احتمال ہے كہ آيت سے مراد ، مذكورہ نكتہ ہويعنى ''يبعث'' سے مراد نبوت كے ليے مبعوث كرنا ہے نہ كہ اخروى حشر مراد ہے_

۸_ موت كے بعد انسانوں كو دوبارہ زندہ كرنے كے بارے ميں خداوند عالم كا وعدہ قطعى اور ناقابل تخلّف ہے _

...لا يبعث اللّه ...بلى وعداً عليه حق

''وعداً وحقاً'' افعال محذوف كے ليے مفعول مطلق اور تاكيد پر دلالت كررہے ہيں اس بناء پر ''بلى وعداً عليہ حقاً''كا معنى يہ ہوگا، ہاں انسانوں كو دوبارہ زندہ كرنے كى خبر، حق كا وعدہ ہے اور اس ميں باطل كے ليے كوئي راہ نہيں ہے_

۹_ انسانوں كى اكثريت ، انسانوں كو دوبارہ حيات عطا كرنے پر خداوند عالم كى قدرت سے نا آگاہ ہے _

بلى وعداً عليه حقاً ولكن اكثر الناس لا يعلمون

ممكن ہے كہ موضوع كى مناسبت _جو كہ معاد كا انكار اور اثبات ہے_كے قرينے كى بناء پر ''لا يعلمون'' كا متعلق انسانوں كو دوبارہ حيات عطا كرنے پر خداوند عالم كى قدرت ہو_

۱۰_ مشركين مكہ كى اكثريت ، انسانوں كو دوبارہ زندہ كرنے پر خداوند عالم كى قدرت سے بے خبر تھي_

۴۲۶

بلى وعداً عليه حقاً ولكن اكثر الناس لا يعلمون

مذكورہ بالا مطلب اس نكتہ كى بناء پر ہے جب ''الناس ''پر الف و لام عہد ذكر ى كاہو اور اس سے مراد ، وہ مشرك ہوں جن كے بارے ميں ماقبل آيات ميں گفتگو ہوئي ہے_

۱۱_ حشر اور قيامت كے انكار كا سرچشمہ جہالت اور ناآگاہى ہے_بلى وعداً عليه حقاً ولكن اكثر الناس لا يعلمون

۱۲_ جہالت اور نادانى ، حقائق كے انكار كا سبب ہے_واقسموا باللّه ...لا يبعث اللّه من يموت بلى وعداً عليه حقاً ولكن اكثر الناس لا يعلمون

۱۳_ انسانوں كى اكثريت ،معاد كى حقيقت كے بارے ميں كچھ نہيں جانتى ہے_ولكن اكثر الناس لا يعلمون

احتمال ہے كہ ''لا يعلمون '' كا مفعول بہ ''شيئاً'' محذوف ہو اور اس بناء پر مذكور بالا نكتے كا استفادہ ہو تا ہے_

اكثريت:اكثريت كى جہالت ۹،۱۳

الله تعالي:الله تعالى كا كردار۶; الله تعالى كى قدرت سے جہالت ۹،۱۰; الله تعالى كے وعدوں كا حتمى ہونا۸

انسان:انسانوں كى جہالت۹،۱۳

جہالت:جہالت كے آثار ۱۱،۱۲

حقائق:حقائق كى تكذيب كرنے كے اسباب ۱۲

حيات:اخروى حيات كو جھٹلانے والے۱; حيات كا سرچشمہ۵

قسم:خدا كى قسم۱; صدر اسلام ميں خداكى قسم۳

مردے:مردوں كى اخروى حيات سے جہالت ۹، ۱۰; مردوں كى اخروى حيات كا حتمى ہونا ۸;مردوں كى اخروى حيات كى تكذيب۴،۶

مشركين:مشركين كا عقيدہ ۵; مشركين كى سازش۴; مشركين كى قسم۱; مشركين كى كوشش۴

مشركين مكہ:مشركين مكہ اور نبوت ۷; مشركين مكہ كا عقيدہ ۲;

۴۲۷

مشركين مكہ كى اكثريت كا جاہل ہونا ۱۰;مشركين مكہ كى خدا شناسى ۲; مشركين مكہ كى فكر۷

معاد:معاد سے جاہل ۹،۱۰،۱۳; معاد كا حتمى ہونا۸; معاد كو جھٹلانے والے ۴; معاد كى تكذيب كا سرچشمہ ۱۱; معاد كے جھٹلانے والوں كى فكر۶

نبوت:بشر كى نبوت كا انكار كرنے والے ۷;نبوت كے شرائط۷

آیت ۳۹

( لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ كَفَرُواْ أَنَّهُمْ كَانُواْ كَاذِبِينَ )

وہ چاہتا ہے كہ لوگوں كے لئے اس امر كو واضح كردے جس ميں وہ اختلاف كر رہے ہيں اور كفار كو يہ معلوم ہوجائے كہ وہ واقعى جھوٹ بولا كرتے تھے _

۱_ خداوند عالم ، موت كے بعد انسانوں كو زندہ كرے گا تا كہ حقائق كو ان كے ليے آشكار كردے_

بلى وعداً عليه حقاً ...ليبين لهم الذى يختلفون فيه

۲_ اختلافى مسائل كى حقيقت كا ظاہر ہونا ، قيامت ميں انسانوں كے زندہ ہونے كى ايك دليل ہے_

بلى وعداً عليه حقاً ...ليبين لهم الذى يختلفون فيه

۳_ قيامت ، حقائق كے آشكار ہونے كا دن ہے_بلى وعداً عليه حقاً ...ليبين لهم الذي يختلفون فيه

۴_ اختلافى امور كى مكمل حقيقت ظاہر ہونا ،ا س دنيا ميں ممكن نہيں ہے_بلى وعداً عليه حقاً ...ليبين لهم الذى يختلفون فيه

باوجود اس كے كہ دنيا ميں حقائق كو آشكار كرنا، خداوند عالم كے ليے ممكن ہے ليكن قيامت كے حتمى وقو ع كى دليل كو اس دن حقائق كے آشكار ہونے كو بيان كيا ہے يہ اس بات كى علامت ہے كہ حقائق كو آشكار كرنے كى علت فاعلى كى طرف سے كوئي مشكل نہيں ہے بلكہ ''ظرف'' اس چيز كى

۴۲۸

قابليت نہيں ركھتا ہے_

۵_حقائق كو آشكار كرنا ، نہايت اہم اور شائستہ اقدام ہے_...ليبن لهم الذى يختلفون فيه

چونكہ خداوند عالم نے قيامت كے وقوع كى ايك دليل ، حقائق كو آشكار كرنا قرار دى ہے لہذا اس سے مذكورہ مطلب كا استفادہ ہوتا ہے_

۶_ موحدين كے ساتھ مشركين كے اختلافات كى ہميشگي_ليبين لهم الذى يختلفون فيه

مذكورہ بالا مطلب اس احتمال كى بناء پر ہے كہ جب اختلاف كا متعلق و ہ تعليمات ہوں جن كو انبياء لائے اور مشركين نے ان كا انكار كيا _لازم الذكر ہے كہ فعل ''يختلفون ''كا مضارع آنا اختلاف كے دائمى ہونے كو بتارہا ہے_

۷_ اختلافى مسائل ميں حق كا واضح اور اختلاف كا برطرف ہونا ، بعثت انبياء كى حكمتوں ميں سے ہے_

...ولقد بعثنا فى كل امة روسولاً ليبين لهم الذى يختلفون فيه

مذكورہ بالا مطلب اس بناء پر ہے جب'' ليبين'' ميں لام تعليل ، آيت ''ولقد بعثنا فى كل امة رسولاً'' كے ليے علت ہو _ فعل مضارع ''يختلفون'' جو زمانہ حال پر دلالت كرتا ہے ممكن ہے اس دنيا ميں آشكار اور واضح ہونے پر قرينہ ہو_

۸_ كفار كا اپنى كذب بيانى سے مطلع ہونا، قيامت ميں انسانوں كے دوبارہ زندہ ہونے پر ايك دليل ہے_

بلى وعداً عليه حقاً ...وليعلم الذين كفروا انَّهم كانو كذبين

۹_ كفار ، معاد كے بارے ميں ہميشہ كذب بيانى سے كام ليتے ہيں _

واقسموا باللّه ...لا يبعث اللّه من يموت بلى وعداً عليه ...وليعلم الذين كفرواا نهم كانوا كذبين

۱۰_دنيا ميں كفار كا معاد كے بارے ميں اپنى كذب بيانى سے نا آگاہ ہونا_

وا قسموا باللّه لا يبعث الله من يموت بلى وعداً عليه وليعلم الذين كفر ا ا نفهم كانوا كذبين

۱۱_ بعثت انبياء ، مشركين كے اس دعوى كہ ہدايت اورگمراہى جبرى ہے كے جھوٹ ہونے پر واضح دليل ہے_

شيء ...ولقد بعثنا فى كل امّة رسولاً وليعلم الذين كفروا انهم كانوا كذبين

۱۲_معاد كا انكار، كفرہے_وليعلم الذين كفروا انهم كانو اكذبين

''الذين كفروا '' سے مراد،وہ لوگ ہيں جو روز قيامت كو جھٹلانت تھے_

۴۲۹

اختلاف:اختلاف كو حل كرنے كى اہميت ۷

انبياء:انبياء كى بعثت كا فلسفہ ۷;انبياء كى بعثت كے آثار۱۱

جبر و اختيار:جبر كے بطلان كے دلائل۱۱

حقائق :حقائق كو بيان كرنے كى اہميت ۵; حقائق كے ظہور كى اہميت ۷

دنيا:دنيا ميں حقائق كا ظہور پذير ہونا ۴

قيامت:قيامت كى خصوصيات ۳; قيامت ميں حقائق كا ظہور ۱،۲،۳،۸

كفار:كفار اور معاد ۹،۱۰;كفار كى اخروى آگاہى ۸ ; كفار كى جہالت ۱۰; كفار كى كذب بيانى ۸،۹،۱۰; كفار كى كذب بيانى كے دلائل ۱۱; كفار كے دعوى كے بطلان كے دلائل ۱۱

كفر:كفر كے اسباب ۱۲

مردے:مردوں كو آخرت ميں زندہ كرنے كا فلسفہ ۱،۲،۸

مشركين:مشركين كا جبر ۱۱;مشركين كا موحدين كے ساتھ اختلاف ۶

معاد:معاد كا فلسفہ ۱،۲،۸;معاد كى تكذيب كے آثار۱۲

آیت ۳۰

( إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَيْءٍ إِذَا أَرَدْنَاهُ أَن نَّقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ )

ہم جس چيز كا ارادہ كرليتے ہيں اس سے فقط اتنا كہتے ہيں كہ ہوجا اور پھر وہ ہوجاتى ہے _

۱_ خداوند عالم جس وقت كسى چيز كے تحقق كا ارادہ كرتا ہے تو ''تو ہوجا'' كے فرمان كے ذريعے سے وجود ميں لے آتا ہے_

انّما قولنا لشيء اذا اردنه ان نقول له كن فيكون

۴۳۰

۲_ خداوند عالم كے ارادہ اوراشياء كے پيدا كرنے كے ليے اس كے حكم كے در ميان فاصلہ نہيں ہوتا ہے_

انّما قولنا لشيء اذا ا ردنه ان نقول له كن فيكون

۳_ خداوند عالم، مطلق قدرت كا مالك ہے_انّما قولنا لشيء اذا ا ردنه ان نقول له كن فيكون

۴_ موجودات كى پيدائش و ايجاد ، ارادہ ( قضا) اور فرمان خداوند ى كے دومرحلوں كى بعد ہے_

انّما قولنا لشيئ: اذا اردنه ان نقول له كن فيكون

۵_ خداوند عالم كے تكوينى فرامين، ناقابل تخلّف ہيں _انّما قولنا لشيء اذا اردنه ا ن نقول له كن فيكون

۶_ خداوند عالم كا يہ فرمان ''كن'' ( ہوجا) اس كے ارادہ كے تحقق كے ليے كافى ہے_

انمّا قولنا لشيء اذا ا ارنه ا ن نقول له كن فيكون

۷_ خداوند عالم كا ارادہ، اس كے حكم پر مقدم ہے_انّما قولنا لشيء اذا ا ردنه ا ن نقول له كن فيكون

۸_ خداوند عالم كى خلقت و پيدائش ميں استمرار ہے اور تمام موجودات كو اس نے ايك ہى دفعہ خلق نہيں كيا ہے_

انّما قولنا لشيء اذا ا رانه ا ن نقول له كن فيكون

''اذا '' زمانہ مستقبل كے ليے ظرف ہے اور صيغہ امر ''كن'' (ہوجا) كے متعلق كا آئندہ زمانے ميں وقوع پر دلالت كرتا ہے_

۹_ خداوند عالم كى قدرت مطلقہ، انسانوں كو دوبارہ زندہ كرنے اور قيامت كے برپا كرنے كے وعدہ كے تحقق كى ضامن ہے_

وا قسموا باللّه ...لا يبعث اللّه من يموت بلى وعداً عليه انّما قولنا لشى اذا اردنه ان نقول له كن فيكون

۱۰_مشركين ، موت كے بعد انسانوں كو دوبارہ زند ہ كرنے پر خداوند عالم كو قادر نہيں سمجھتے تھے_

واقسموا بالله ...لا يبعث الله من يموت بلى وعداً عليه انما قولنا شيء اذا ا ردنه ا ن نقول له كن فيكون

انسانوں كو دوبارہ زندہ نہ كرنے كے بارے ميں مشركين كے نظريہ كو بيان كرنے كے بعد''انّما قولنا لشيء اذا اردناان نقول له كن فيكون'' كہ جو خداوند عالم كى قدرت مطلقہ كے اثبات كے ليے ہے كا ذكر ممكن ہے مشركين پر اعتراض ہو چونكہ وہ اس نظريہ كے قائل تھے_

۱۱_''عن صفوان بن يحيى قال : قلت لا بى

۴۳۱

الحسنعليه‌السلام اخبر نى عن الار ادة من اللّه فقال ...الا رادة من الله تعالى احراثه فارادة الله الفعل لا غير ذلك يقول له ''كن فيكون'' بلا لفظ ولا نطق

صفوان بن يحيى كہتے ہيں : ميں نے امام ابولحسنعليه‌السلام كى خدمت ميں عرض كى مجھے بتايئےہ خداوند عالم كا ارادہ كيسا ہے؟ حضرت نے فرمايا ...ارادہ خداوند اس كى ايجاد ہے ...پس ارادہ خدا فعل ہے نہ كہ اس كے علاوہ كوئي چيز ( وہ جب ، چيز كا ارادہ كرتا ہے) تو كہتا ہے ''كن فيكون'' اور يہ زبان پر جارى كيئے بغير ہى كہتا ہے_

الله تعالي:الله تعالى كا ارادہ تكويني۲; الله كى خالقيت كى دائمى ہونا۸; الله تعالى كى قدرت ۳،۱۰; الله تعالى كى قدرت كے آثار ۹; الله تعالى كے ارادے سے مراد ۱۱; الله تعالى كے ارادے كا متحقق ہونا ۶; الله تعالى كے ارادہ كا مقدم ہونا ۷; الله تعالى كے ارادے كى حتميت۱; الله تعالى كے اوامر ۴،۷; الله تعالى كے اوامر كى حتميت۵; الله تعالى كے تكوينى ارادے كے كردار ۶; الله تعالى كے تكوينى اوامر ۲،۵; الله تعالى كے وعدوں كا حتمى ہونا ۹

روايت:۱۱

قضاو قدر :۴

قيامت:قيامت كا حتمى ہونا ۹

مردے :آخرت ميں مردوں كا حتمى طور پر زندہ ہونا ۹; مردوں كى اخروى حيات ۱۰

مشركين :مشركين اورمعاد۱۰; مشركين كا عقيدہ ۱۰

۴۳۲

آیت ۴۱

( وَالَّذِينَ هَاجَرُواْ فِي اللّهِ مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُواْ لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَلَأَجْرُ الآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُواْ يَعْلَمُونَ )

اور جن لوگوں نے ظلم سہنے كے بعد راہ خدا ميں ہجرت اختيار كى ہے ہم عنقريب دنيا ميں بھى ان كو بہترين مقام عطا كريں گے اور آخرت كا اجر تو يقينا بہت بڑا ہے_ اگر يہ لوگ اس حقيقت سے باخبر ہوں _

۱_ وہ مسلمان جو مظلوم واقع ہوئے اورانہوں نے خدا كے ليئے ہجرت كى خداوند عالم دنيا ميں انہيں بہت اچھا مقام اور آخرت ميں عظيم اجر عطا كرتے گا_والذين هاجروا فى اللّه من بعد ما ظلموا لبَوئنهم فى الدنيا حسنة والا جرالا خرة ا كبر

''في'' الله ''ميں ''فى ''لام'' كے معنى اور علت كے ليے ہے اس بنا ء پر عبارت كا معنى يہ ہوگا ہجرت خداوند عالم كى رضا كے حصول كے ليے ہے_

۲_ صدر اسلام كے كچھ مسلمان ، مشركين مكہ كے ظلم و ستم سے نجات كى خاطر اس شرسے ہجرت كرگئے_

والذين هاجروا فى الله من بعد ما ظلموا

سورة نحل چونكہ مكہ ميں نازل ہوتى ہے لہذا اس دليل كى بناء پر احتمال ہے كہ ''الذين ہاجروا'' سے مراد ايسے مسلمان ہوں جو مكہ سے ہجرت كركے حبشہ يا مدينہ چلے گئے تھے_

۳_ مكہ ميں مسلمان، مشركين كے ظلم و ستم كا نشانہ بنے ہوئے تھے_والذين هاجروا فى اللّه من بعد ما ظلموا

۴_مسلمان مہاجرين كى مكہ سے (مدينہ يا حبشہ) كى طرف ہجرت ،ان كے ليے شائستہ اور مناسب مقام تھا_

والذين هاجروا فى اللّه من بعد ما ظلموا نبوّنهم فى الدنيا حسنة

۵_ ہجرت سے پہلے شہر مكہ، مسلمانوں كے ليے ناشائستہ اوران كى زندگى كے ليے نامناسب مقام تھا _

والذين هاجروا فى الله من بعد ما ظلموا لنبوّئنهم فى الدنيا حسنة

۶_زندگى كے ليے مناسب اور شائستہ ما حول كا حصول ، ايك پسنديدہ اور مطلوب چيز ہے _لنبوّ ئنهم فى الدنيا حسنة

۷_ ظالمين كے ظلم و ستم سے پچنا، ايك شائستہ عمل اور قابل تشويق ہے_

والذين هاجروا فى اللّه من بعد ما ظلموا نبوّئنهم فى الدنيا حسنة

۴۳۳

۸_ہجرت كى اہميت كى شرط يہ ہے كہ وہ راہ خدا ميں ہو_هاجروا فى اللّه

احتمال يہ ہے كہ ''فى '' اپنے معنى ميں ہو اور اس بناء پر اس سے مراد ، ممكن ہے ''فى سبيل الله '' ہو_

۹_ستم گر معاشروں سے ہجرت ،ظلم سے بچنے كا راستہ اور كاميابى كا پيش خيمہ ہے_

والذين هاجروا فى اللّه من بعد ماظلمو

۱۰_خدا كى راہ ميں ہجرت كااخروى اجر، اس كے دنياوى اجر سے بہت زيادہ ہے_

والذين هاجروا فى اللّه من بعد ماظلموا نبوّئنهم فى الدنيا حسنة لأ جر الاخرة ا كبر

۱۱_ خدا كى راہ ميں ہجرت كا اخروى اجر، قابل تو صيف نہيں ہے_

والذين هاجروا فى اللّه ...لنبوّ ئنهم فى الدنيا حسنة لأ جر الاخرة ا كبر

''اكبر'' افعل تفضيل كا '' مفضل عليہ'' محذوف ہے اور اس كو عموميت دينے كے ليے حذف كيا گيا ہے اس بناء پر عبارت كا معنى يوں ہو گا ہجرت كا اخروى اجر اس سے بلند و بالا ہے كہ كوئي شخص اس كو درك كرسكے _

۱۲_ مہاجرين ، خدا كى راہ ميں ہجرت كے دنياوى فوائد اور اخروى اجر سے بے خبر ہيں _

والذين هاجروا ...الا جر الا خرة اكبر لو كانوا يعلمون

۱۳_ ظالمين، خدا كى راہ ميں ہجرت كى قدرو قيمت اور اس كے اجر سے نا آگاہ ہيں _من بعد ما ظلموا لو كانوا يعلمون

مذكورہ بالا مطلب اس احتمال كى بناء پر ہے كہ جب ''يعلمون ''كى ضمير كا مرجع فعل ''ظلموا'' كا فاعل محذوف ہو_

۱۴_ خدا كى راہ ميں ہجرت كے دنياوى فوائد اور اس كے اخروى اجر سے آگاہ ہونا، مطلوب خداوند ى ہے_

والذين هاجروا لو كانوا يعلمون

''لو '' كا ايك استعما ل اور معني'' تمنّا'' ہے مذكورہ بالا مطلب اسى بناء پر ہے_

۱۵_ خدا كى راہ ميں ہجرت كے تمام دنياوى فوائد اور اس كے اخروى اجر سے آگاہى ، ناممكن چيز ہے _

والذين هاجروا فى اللّه ولأ جر الا خرة ا كبر لو كانوا يعلمون

مذكورہ بالا مطلب اس بناء پر ہے جب''لو '' تمنّي''

۴۳۴

كے ليے ہو اور ''لو'' تمنى وہاں استعمال ہوتا ہے جہاں كو ئي امر محال يا محال كے حكم ميں ہو_

۱۶_ علم و آگاہي، بيش بہا اقدار كى تشخيص كا وسيلہ ہے_والا جر الاخره اكبر لو كانوا يعلمون

اجتماعى ماحول كى اہميت۶

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۲،۳،۴،۵

اقدار:اقدار كا ملاك۸; اقدار كى تشخيص كا ملاك۱۶

پاداش:اْخروى پاداش۱; پاداش كے اسباب۱; پاداش كے مراتب۱،۱۰

حبشہ:حبشہ كى طرف ہجرت ۴;صدر اسلام ميں حبشہ كى معاشر تى حيثيت ۴

خدا:خدا كے اجر، ۱; خدا كے تقاضے ۱۴

شناخت :شناخت كے وسائل ۱۶

ظالمين:ظالمين اور ہجرت كى اہميت ۱۳; ظالمين كى جہالت ۱۳

ظلم:ظلم سے فرار۷; ظلم سے فرار كى روش۹

علم :علم كے آثار ۱۶

عمل:پسنديدہ عمل۷

كا ميابى :كا ميابى كا پيش خيمہ۹

مدينہ:صدر اسلام ميں مدينہ كى معاشرتى حيثيت ۴; مدينہ كى طرف ہجرت۴

مسلمان:صدر اسلام كے مسلمانوں پر ظلم ۳; صدر اسلام كے مسلمانوں كى ہجرت۴; صدر اسلام كے مسلمانوں كى ہجرت كا فلسفہ ۲; مظلوم مسلمانوں كا اجر،۱

مشركين مكہ:مشركين مكہ كا ظلم۲،۳

مكّہ:صدر اسلام ميں مكہ كى معاشر تى حيثيت ۵;مكہ كى

۴۳۵

تاريخ۵

مہاجرين:مہاجرين كى اخروى پاداش ۱،۱۲; مہاجرين كى جہالت ۱۲; مہاجرين كى دنياوى پاداش۱،۱۲; مہاجرين كے اخروى مقامات ۱; مہاجرين كے اخلاص كے آثار ۱

نيت :نيت كے آثار ۸

ہجرت:راہ خدا ميں ہجرت ۱،۸،۱۰،۱۱،۱۴; ظالم معاشرہسے ہجرت ۹; مكہ سے ہجرت ۲،۴; ہجرت كى اخروى پاداش سے آگاہي۱۴،۱۵; ہجرت كى ارزش كے شرائط ۸; ہجرت كى اخروى پاداش كى اہميت; ہجرت كى دنياوى پاداش ۱۰; ہجرت كے آثار۹; ہجرت كے دنياوى فوائد سے آگاہى ۱۴،۱۵; ہجرت كے فوائد ۱۲

آیت ۴۲

( الَّذِينَ صَبَرُواْ وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ )

يہى وہ لوگ ہيں جنھوں نے صبر كيا ہے اور اپنے پروردگار پر بھروسہ كرتے رہے ہيں _

۱_ مسلمان مہاجر ين ، مشركين مكہ كے ظلم كے مقابلہ ميں ايسے صابر افراد تھے كہ جنہوں نے ظالموں كے ظلم كے سامنے صبر و شكيبا ئي كامظاہرہ كيا_والذين هاجروا فى اللّه ...الذين صبروا

''الذين'' گذشتہ آيت ميں ''الذين ''كے ليے عطف بيان ہے_

۲_ دشواريوں كے مقابلہ ميں صبر كرنا ، دنياوى و اخروى فوائد كا حامل ہے_

لنبؤنهم فى الدينا ...ولأجر الآخرة اكبر ...الذين صبروا

۳_ خداوند عالم كى راہ ميں ہجرت كرنے والوں كى دنياوى و اخروى سعادت كے عوامل و شرائط ميں صبرو شكيبائي اور خداوند عالم پر توكل كرنا ہے_والذين هاجروا فى اللّه ...لنبؤنّهم فى الدنيا ولأ جرلآخرة اكبر ...الذين صبرو اعلى ربّهم يتوكلّون

۴_ خدا كى راہ ميں ہجرت اور وطن ترك كرنا ، مشكلات اور دشواريوں كا حامل ہے_والذين هاجروا الذين صبرو

راہ خدا ميں مہاجرين كے ليے ''صبروا'' كى

۴۳۶

صفت او ران كے ليے مقرر شدہ پاداش كا ذكر ممكن ہے اس نكتہ كى طرف اشارہ ہو كہ ہجرت ، بہت سى مشكلات كى حامل ہے اور مہاجرين نے اپنے آپ كو اس كے ليے آمادہ كيا ہے_

۵_ خدا كى راہ ميں ہجرت كرنے والے ہميشہ اورتمام امور ميں فقط اپنے پرودرگار پر بھروسہ كرتے ہيں _

والذين هاجروا فى اللّه ...و على ربّهم يتوكلّون

''على ربّہم'' كو مقدم كرنا ممكن ہے حصر كے ليئے ہے ہواور ''يتوكلون'' كے فعل كو مضارع لانا اور اس كے متعلق كا حذف، ممكن ہے استمرار اور اس نكتہ كى طرف اشارہ ہو كہ مہاجرين تمام امور ميں خدا پر توكل كرتے ہيں _

۶_ تمام امور ميں خداوند عالم پر توكل كرنا، نہايت شائستہ و پسنديدہ اور دنياوى واخروى فوائد كا حامل ہے _

الذين هاجروا ...و على ربّهم يتوكلّون

۷_ خداوند عالم كى ربوبيت ہر لحاظ سے اس پر توكل كرنے كے سزوار ہے_وعلى ربّهم يتوكلّون

۸_ مسلمانوں كا صبر ، وقتى ضرورت اورجب كہ توكل كرنا دائمى ضرورت ہے_

الذين هاجروا ...الذين صبروا و على ربّهم يتوكلّون

چونكہ مہاجرين كى صبر سے توصيف كرنے كے ليے فعل ماضى سے استفادہ كيا گيا ہے جبكہ ان كے توكل كى تعريف كے لے فعل مضارع كا استفادہ ہوا ہے لہذا ممكن ہے اس سے مذكورہ نكتہ كا استفادہ ہو_

الله تعالي:الله تعالى كى بوبيت كے آثار۷

توكل:الله تعالى پر توكل۳،۵،۶،۷،۸; توكل كا ملاك ۷ ; توكل كے آثار۳; توكل كے اْخروى فوائد۶; توكل كے دنياوى فوائد ۶

سختى :سختى ميں صبر۲

صابرين:۱

صبر:صبر كے آثار ۳; صبر كے اخروى فوائد۲; صبر كے دنياوى فوائد ۲

عمل:پسنديدہ عمل ۶

مسلمان:مسلمانوں كى معنوى ضروريات ۸

۴۳۷

مشركين مكہ:مشركين مكہ كے ظلم پر صبر_ ۱

مہاجرين:مہاجرين كا توكل ۵; مہاجرين كا صبر_۱; مہاجرين كى اخروى سعادت كے اسباب۳; مہاجرين كى دنياوى سعادت كے اسباب۳;

مہاجرين كے فضائل۵

نيازمندي:توكل كى نيازمندي۸; صبر كى نياز مندى ۸

ہجرت:راہ خدا ميں ہجرت كى سختياں ۴

آیت ۴۳

( وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلاَّ رِجَالاً نُّوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ )

اور ہم نے آپ سے پہلے بھى مردوں ہى كو رسول بناكر بھيجا ہے اور ان كى طرف بھى وحى كرتے رہے ہيں تو ان سے كہئے كہ اگر تم نہيں جانتے ہو تو جاننے والوں سے دريافت كرو_

۱_ تمام انبياء اور الہى رسل كا تعلق جنس بشريت سے ہے_وما ارسلنا من قبلك الاّ رجالاً نوحى اليهم

۲_ تمام انبياء، مرد تھے_و ما ارسلنا من قبلك الاّ رجالاً نوحى اليهم

۳_ خداوند عالم ،تمام انبياء كى طرف و حى نازل كرتا رہا ہے_وما ارسلنا من قبلك الاّ رجالاً نوحى اليهم

۵_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے متعدد انبياء مبعوث رسالت ہوئے ہيں _وما ارسلنا من قبلك الاّ رجال

آيت، مشركين پراعتراض اور ان كے اس نظريے كا جواب ہے جيسا كہ قرائن اور قرآن كى دوسرى آيات ( سورة يونس آيت۲) كى بناء پر وہ انبياء كو خداوند عالم كى طرف سے پيغمبر نہيں مانتے تھے آيت ميں فعل ''نوحي'' مذكورہ نكتہ پر قرينہ و علامت ہے_

۶_نبوت، خداوند عالم كى عطا ہے جس سے اس نے اپنے پيغمبروں كو نواز ا ہے_ّما ارسلنا من قبلك الا ّ رجالاً نوحى اليهم

۷_ نبوت وہ الہى ذمہ دارى ہے جو فقط مردوں كے سپرد كى گئي ہے_وما ارسلنامن قبلك الاّ رجالاً نوحى اليهم

۴۳۸

۸_ خداوند عالم كى طرف انبياء كا مبعوث ہونا، مشركين كے اس عقيدہ كے باطل ہونے كى دليل ہے كہ ان كے اعتقادات جبرى ہيں _وقال الذين أشركوا لوشاء اللّه ما عبدنا من دونه من شي ...وما ارسلنا من قبلك الاّ رجالاً نوحى اليهم

احتمال ہے كہ آيت مشركين كے اس خيال كے جواب كے بارے ميں ہے جس كى بناء پر وہ يہ كہتے تھے كہ خداوند عالم كى مشيّت نے انہيں شرك عبادى پرآمادہ كيا ہے(لوشاء اللّه ما عبدنا من دونه )

خداوند عالم ان كو يہ جواب دے رہا ہے كہ لوگوں كى ہدايت كے سلسلہ ميں خداوند عالم كى سنت و طريقہ انسانوں كو ہدايت كے ليے آمادہ كرنا ہے اور اس سلسلہ ميں كسى قسم كا جبر در كار نہيں ہے_

۹_ لوگوں كى ہدايت كے سلسلہ ميں خداوند مالك كايہ اصول نہيں كہ وہ اپنى قہرانہ قدرت سے استفادہ كرتے ہوئے انہيں مجبور كرے_لو شاء اللّه ما عبدنا من دونه من شيء ...وما ارسلنا من قبلك الاّ رجالاً نوحى اليهم

۱۰_ خداوند عالم كا مشركين مكہ كو علماء سے تحقيق و جستجو كرنے كى دعوت دينے كا مقصد يہ ہے كہ وہ انسانوں پر وحى كے نزول كى حقيقت كو درك كرسكےں _وما ارسلنامن قبلك الاّ رجالاً ...فاسئلوا اهل الذكران كنتم لا تعلمون

ما قبل آيات جو كہ مشركين كے بارے ميں تھيں كے قرينہ كى بناء پر ''فاسئلوا ''كا مخاطب ممكن ہے مشركين ہوں _

۱۱_ انسان پر وحى كے امكان سے نا آگاہ افراد كے ليے اس كى حقيقت كو درك كرنے كے ليے ضرورى ہے كہ وہ علماء كى طرف رجوع كريں _وما أرسلنامن قبلك فاسئلو اهل الذكر ان كنتم لا تعلمون

۱۲_ ناآگاہ افراد كو مختلف امور ميں اپنى جہالت دور كرنے كے ليے علماء كى طرف رجوع كرنا چاہيے_

فاسئلو ا اهل الذكر ان كنتم لا تعلمون

۱۳_ علم ، انسان كى ہوشيارى اوراس كى حقائق سے آگاہى كا سبب ہے_فاسئلو اهل الذكر ان كنتم لا تعلمون

لغت ميں ''ذكر ''(علمى صورت ميں ) كسى چيز كادل ميں ہونا ہے اس معنى كے مطابق ذكر ، غفلت اور نسيان كى ضد ہوگا اور ''لا تعلمون'' كے قرينہ كى بناء پر اہل ذكر سے مراد صاحبان علم ہيں _اس بات كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ علم كے ليے ذكر كى تعبير استعمال ہوتى ہے ممكن ہے مذكورہ نكتے كا فائدہ دے _

۱۴_ سوال ، شناخت كا ذريعہ ہے_فاسئلوا اهل الذكر ان كنتم لا تعلمون

۱۵_ علماء كى اپنے علم كے دائرہ كا ر ميں رائے، معتبر اور قابل احترام ہے_فاسئلوا اهل الذكر ان كنتم لا تعلمون

۴۳۹

نا آگاہ افراد كا انبياء كے بارے ميں اطلاعات اور حقيقت نبوت كو درك كرنے كے ليے علماء كى طرف رجوع، اس چيز سے حكايت ہے كہ ان كى بات معتبر ہے _

۱۶_ صدر اسلام ميں مكّہ ميں آگاہ ، عالم اور انبياء الہى كے حالات سے مطلع افراد كا موجود ہونا _

فاسئلوا اهل الذكر ان كنتم لا تعلمون

۱۷_ لوگوں كے سوالات كے مرجع، وہ علماء ہو سكتے ہيں جو مجسمہ علم ہوں _فاسئلوا اهل الذكر ان كنتم لا تعلمون

''اہل ذكر''ان افراد كو كہا جاتا ہے جن كے دلوں ميں غفلت اور نسيان نہ پائي جائے اس نكتہ كو مد نظر ركھتے ہوئے ''اہل علم'' كى جگہ ''اہل ذكر'' كالانا ممكن ہے مذكورہ مطلب كى طرف اشارہ ہو_

۱۸_ انبياء كى خصوصيات اور دين كے حقائق كے حصول كے ليے مشورت كرنا ضرورى ہے_

فاسئلوا اهل الذكر ان كنتم لا تعلمون

''لا تعلمون'' كا متعلق محذوف ہے اور ابتداء آيت كے قرينہ كى بناء پر ممكن ہے اس كا متعلق انبياء اور ان كى خصوصيات ہوں اور چونكہ انبياء اور ان كے عقيدہ كے بارے ميں بحث دينى معارف ميں سے ہے لہذايہ كہا جاسكتا ہے كہ باقى دينى مسائل بھى اس ميں شامل ہيں _

۱۹_''عن رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قال: لا ينبغى للعالم ان يسَلت على علمه وه ينبغى للجاهل ان يسَلت على جهله وقد قال اللّه : (فاسئلوا اهل الذكر ...'' (۱)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روايت ہے كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ عالم كے ليے يہ سزاوارنہيں كہ وہ اپنے علم پرسكوت اختيار كرے اور جاہل كے ليے يہ شائستہ نہيں كہ وہ اپنى جہالت پر خاموش رہے جيسا كہ خداوند عالم نے فرمايا ہے:فاسئلوا اهل الذكر ...''

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۱۶

الله تعالي:الله تعالى كى دعوتيں ۱۰; الله تعالى كى سنتيں ۹; الله تعالى كى نعمات۶

____________________

۱) الدر المنشور ج۵، ص۱۳۳_

۴۴۰

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779