تفسير راہنما جلد ۹

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 779

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 779 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 212609 / ڈاؤنلوڈ: 3607
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۹

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

٦۔ محبت و امید کے ساتھ خوف:

خدا کے دوست اس کے جمال کے شیفتہ ہونے کے باوجود اس کی عظمت کے ادراک کے نتیجہ میں خوفزدہ اور ہراساں رہتے ہیں کیونکہ جس طرح اللہ کے جمال کا ادراک محبت کا پیش خیمہ ہے اسی طرح اس کی عظمت کا ادراک بھی ہیبت اور ہراس کا سبب ہوتا ہے، یہ خوف و رجاء پروردگار کی بندگی میں مکمل تکمیل کا کردار ادا کرتے ہیں راہ الہی کے بعض راہرئووں نے کہا ہے: ''خدا کی بندگی صرف محبت کے ساتھ اور بغیر خوف کے، امید کی زیادتی اور حد درجہ انبساط و سرور کی وجہ سے آدمی کی ہلاکت کا باعث ہوجاتی ہے۔ نیز عبودیت صرف خوف وہراس کے ساتھ بغیر امید کے وحشت کی وجہ سے پروردگار سے دوری اور ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے، خدا وند ذوالجلال کی بندگی خوف ومحبت دونوں کے ساتھ اس کی محبت اور تقرب کا سبب ہوتی ہے ''۔(١)

٧۔اللہ کی محبت کا کتمان اور اس کا دعویٰ نہ کرنا:

محبت محبوب کے اسرار میںسے ایک سر ہے اور بسا اوقات اس کے اظہار میں کوئی ایسی چیز کہی جاتی ہے جو واقع کے برخلاف اور محبوب پرافترا پردازی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ انسان کی محبت پروردگار کے خاص دوستوں یعنی عظیم ملائکہ اور ان انبیاء و اولیاء کی محبت واشتیاق کے مراتب کی نسبت قابل ذکر تحفہ نہیں ہے جو خود کو خدا کے شائستہ عشق ومحبت میں ناکام تصور کرتے تھے، بلکہ حقیقی محبت کی علامت یہ ہے کہ اپنی محبت کے درجات کو ہیچ خیال کرے اور اسے قابل ذکر نہ سمجھے اور خود کو ہمیشہ اس سلسلہ میں قاصر اور عاجز خیال کرے۔

ج۔ خداوند عالم کی محبت کے علائم:

خداوند عالم کی محبت کے علائم کثرت اور فراوانی کے ساتھ انسان کے مختلف وجودی پہلوئوں میںپائے جاتے ہیں۔ یہاں پر ان علائم کی طرف جو کہ نفسانی صفت کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں، اشارہ کیا جاتا ہے:

١۔ پروردگار سے انس:

جب انسان کادل اللہ کے قرب اور محبوب کے جمال مکشوف کے مشاہدہ سے شاد ومسرور ہوتا ہے تو انسان کے قلب میں ایک بشارت داخل ہوتی ہے کہ جسے'' انس'' کہا جاتا ہے۔ خداوندعالم سے انس کی علامت یہ ہے کہ گوشہ نشینی، خلوت اور اس کے ذکر میںمشغول ہونا خلائق سے انس اور ہم نشینی کرنے سے کہیں زیادہ بہتر اور خوشگوار ہے ایسا شخص لوگوں کے درمیان ہونے کے باوجو د بھی در حقیقت تنہا ہے۔ اور جس وقت وہ خلوت میں ہوتا ہے ، حقیقت میں وہ اپنے محبوب کے ساتھ ہمنشین ہوتا ہے۔ اس کا جسم تو لوگوں کے درمیان ہوتا ہے لیکن اس کادل ان سے الگ اور جدا ہوتا ہے۔(٢)

____________________

١۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٨، ص ٧٦ ، ٧٧۔ ٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص١٢٤، ١٨٩، ١٩٠۔

۸۱

حضرت امیر المومنین علی ـ نے ایسے صفات کے حامل افراد کے متعلق فرمایا ہے: '' انھیں علم نے بصیرت کی حقیقت تک پہنچا دیا ہے اور یہ یقین کی روح کے ساتھ گھل مل گئے ہیں، انھوں نے ان چیزوں کو آسان بنالیا ہے جنھیں راحت پسندوں نے مشکل بنا رکھا تھا اور ان چیزوں سے انھیں حاصل کیا ہے جن سے جاہل وحشت زدہ تھے اور اس دنیا میں ان اجسام کے ساتھ رہے ہیں جن کی روحیں ملأ اعلیٰ سے وابستہ ہیں، یہی روئے زمین پر اﷲ کے خلیفہ اور اس کے دین کے داعی ہیں''۔(۱)

٢۔ خداوند عالم کی جانب اشتیاق:

جمال الہی کا مشاہدہ کرنے کے خواہاں افراد جب وہ غیب کے پردوں کے پیچھے محبوب کے رخسار کا نظارہ کرنے بیٹھے ہوں اور اس حقیقت تک پہونچ چکے ہیں کہ اس کے جلال و عظمت کی حقیقی رویت سے قاصر و عاجز ہیںتو جو کچھ انہوں نے نہیں دیکھا ہے اس کے مشاہدہ کے لئے ان کی تشنگی اور شوق بڑھتا جاتا ہے، اس حالت کو '' مقام شوق '' کہا جاتا ہے بر خلاف مقام انس، جو محبوب کے کھلے چہرے کے مشاہدے سے پیدا ہوتا ہے، مقام اشتیاق، محبوب کے محجوب (درپردہ) جمال و جلال کے ادراک کے شوق کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔(۴)

٣۔ قضائے الہی سے راضی ہونا:

'' رضا '' '' سخط'' یعنی ناراضگی کے مقابلہ میں ہے اور' 'رضا'' سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ خدا نے مقدر فرمایا ہے اس پر ظاہر و باطن، رفتار وگفتار میں اعتراض نہ کرنا۔ رضااللہ کی محبت کے علائم و لوازم میںشمار ہوتی۔ کیونکہ محب جو کچھ محبوب سے صادر ہوتا ہے اسے خوبصورت اور بہتر سمجھتا ہے جو انسان مقام رضا کا مالک ہوجاتا ہے اس کے نزدیک فقر و غنا، آرام وتکلیف، تندرستی اور بیماری، موت اور زندگی وغیرہ وغیرہ یکساںہوتی ہے اوران میں سے کسی ایک کا تحمل بھی دشوار نہیں ہوتا ہے، کیونکہ سب ہی کو محبوب کی طرف سے خیا ل کر تا ہے وہ ہمیشہ خود کو فرحت و سرور، آرام وآسائش میں محسوس کرتے ہوئے زندگی گذارتا ہے کیونکہ تمام چیزوںکو نگاہ رضایت سے دیکھتا ہے اور در حقیقت تمام امور اس کی مراد کے مطابق واقع ہوتے ہیں، نتیجہ کے طور پر ہر قسم کے غم و اندوہ سے دور ہوگا، قرآن کریم میں کئی جگہ اس مرتبہ کی طرف اشارہ ہوا ہے، منجملہ ان کے ''حزب اﷲ'' کی شناخت کراتے ہوئے فرماتا ہے: ''خدا وند رحمان ان سے راضی و خوشنود اور وہ اس سے راضی و خوشنود ہیں، یہ لوگ خدا کے گروہ ہیں، حزب خدا ہی کامیاب ہے''۔(۳)

____________________

١۔ نہج البلاغہ: حکمت ١٤٧۔ ٢۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٨، ص ٥٥۔

٣۔ مجادلہ ٢٢ ؛ بینہ ٨، ملاحظہ ہو۔

۸۲

حضرت امام زین العابدین ـ مقام رضا کی عظیم شان ومنزلت کے بیان میں فرماتے ہیں: ''زہد کا سب سے بلند درجہ ورع کا پست ترین درجہ ہے اور فدع کا بلندترین درجہ یقین کا پست ترین درجہ ہے اوریقین کا بلند ترین درجہ رضاکا سب سے پست مقام و درجہ ہے''۔(١) اس وجہ سے خداکے دوست جو کچھ وہ مقدّر فرماتا ہے اس پر رضامندی کے ساتھ ہرقسم کے غم و اندوہ سے دور ہوتے ہیںاور نہایت سرور شادمانی کے ساتھ خوشگوارزندگی گذارتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم میںمذکور ہے: ''آگاہ ہوکہ خداکے دوستوںکو نہ کوئی غم و اندوہ ہے اور نہ ہی کوئی خوف و ہراس انہوںنے اپنے تمام امور خدا کے حوالے کردئیے ہیںاور اس کے ارادہ کے سامنے سراپا تسلیم ہیں''۔(٢)

د۔محبت پروردگارکاانجام:

محبت الہی کاخاتمہ دیگرساری محبتوں کی طرح محبوب کے وصال پر منحصر نہیں ہے۔ اس رویت کا تحقق خداو ندعالم کی معرفت پر موقوف ہے، جو خود ہی تطہیر باطن اور دنیوی لگاؤسے دل کو پاک وصاف رکھنے کامحتاج ہے، محبت الہی کی راہ میں سیر وسلوک کرنے والوں کے لئے دنیا میں اس کا حصول ہوتا ہے۔

اس ملاقات کی حقیقت کا سمجھنا ہمیشہ انسانی اذہان کے لئے دشوار رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے راہ انکار اختیار کرلی ہے۔

حضرت علی ـ سے خوارج میں سے ایک شخص نے سوال کیا: '' کیا آپ نے اپنے رب کو اس کی عبادت کرتے وقت دیکھا ہے؟'' آپ نے صراحت کے ساتھ فرمایا: '' تم پر وائے ہو ! میں ان لوگوں میںسے نہیں ہوں جنھوں نے پروردگار کو نہ دیکھا ہو اور اس کی عبادت وپرستش کرتے ہوں '' اس وقت سوال کرنے والے نے اس ملاقات کی حقیقت اور ماہیت کے بارے میں سوال کیا: کس طرح آپ نے اسے دیکھا ہے ؟ آپ نے جواب دیا! ''تم پر وائے ہو ! نگاہیںدیکھنے کے وقت اس کا ادراک نہ کرسکیں لیکن قلوب حقایق ایمان کے ساتھ اسے دیکھتے ہیں''۔(٣)

____________________

١۔ اصول کافی، کلینی، ج٢، ص١٢٨، ح٤۔

٢۔یونس ٦٢۔

٣۔ اصول کافی، کلینی، باب ابطال الروےة، ح ٦، اسی طرح ملاحظہ ہو امام حسین ـ کی دعا ئے عرفہ۔

۸۳

دوسری نظر: خدا وندسبحان کی بندوں سے محبت

قرآن و روایات ا ہل بیت (ع) ان آیات وروایات کے حامل ہیں جو پروردگار کی اپنے بعض بندوں سے خاص محبت ودوستی کی عکاسی کرتی ہیں، اس محبت کے خاص علائم ہیں جوصرف اور صرف خاص بندوں کو شامل ہوتے ہیں۔

البتہ خداوند سبحان کی عام رحمت و محبت، دنیوی مواہب و احکام شرعی کے قالب میں سب کو شامل ہے جیسا کہ پہلے بھی اشارہ ہوچکا ہے کہ خدا وندعالم قرآن میںاپنی دوستی کو مجاہدین، نیکو کار افراد، زیادہ توبہ کرنے والوں، پرہیزگاروں، عدالت پیشہ افراد، صابروں، پاک وپاکیزہ افراد اور پروردگار پر اعتماد و بھروسہ کرنے والوں کی نسبت اعلان کرتا ہے۔(١)

جمال الہی کا دیداراور اس کا مشاہدہ اتنا لذت بخش اور سرور آور ہے جو ناقابل توصیف وتشریح ہے۔ جن لوگوں نے اس کے ادنیٰ مراتب کو بھی چکھا ہے وہ کبھی دیگر خیالی لذتوں سے اس کا سودا نہیں کرتے اسی وجہ سے انبیاء اور

اولیائے الہی نے اپنے محبوب سے اپنی مناجات میں مسلسل اپنے اشتیاق کااس کی بہ نسبت آشکار طور پر اظہار کیا ہے اورعرفاء اور سالکین نے اپنے اشعار اور قصائد میں جو انہوں نے بطور یادگار چھوڑے ہیں اپنے آتش عشق کے دلکش اور جاذب نظر مناظرکی، جمال محبوب کی مراد و ملاقات و شہود سے متعلق اظہار خیال کیا ہے نیز دوست کے فراق و جدائی کے غم انگیز اور حزن آور حالات کی منظر کشی کی ہے۔ ان کے نزدیک خدا کی ملاقات عرفان کی بلند ترین چوٹی اور سالکین کی سیرکا منتہیٰ ہے انھوں نے ایسی بہت سی کتابیں بھی تحریر فرمائی ہیں جن میں اس مقصد تک رسائی کے اسباب و ذرائع اور ان منازل ومراحل کو بیان کیا ہے جو اس راہ کے سالکوں کے لئے سرراہ پائے جاتے ہیں اور جو خطرات اس راہ میں ہیں ان سے بھی آگاہ کیا ہے نیز اس راہ میںجو زاد و توشہ کام آسکتا ہے اس کا بھی ذکر کیا ہے۔

خدا وند عالم کی داؤد پیغمبر سے گفتگو کے درمیان مذکور ہے: ''اے داؤد! ہمارے زمین میں رہنے والے بندوں سے کہو ! میں اس کا دوست ہوں جو مجھے دوست رکھتا ہے اور اس کا ہمنشین ہوں جو مجھ سے ہمنشینی کرتا ہے اور اس کا ہمدم ہوں جو میری یاد اور نام سے انسیت حاصل کرتا ہے اور اس کے ہمراہ ہوں جو میرے ہمراہ ہے، میں اس کا انتخاب کرتا ہوں جو میرا انتخاب کرتا ہے اور اس کا فرمانبردار ہوں جو میرا فرمانبردار ہے، جو انسان مجھے قلبی اعتبار سے دوست رکھتا ہے اور میں اس پریقین کرلوں تو اسے اپنے ساتھ قبول کرلوں گا ( اور اسے ایسا دوست رکھوںگا ) کہ میرے بندوں میں سے کوئی بندہ اس پر سبقت نہ کر پائے، جو انسان واقعی مجھے تلاش کرے تو پالے گا

____________________

١۔ ترتیب وار رجوع کیجئے: سورئہ صف، ٤ ؛ بقرہ ١٩٥ ، ٢٢٢ ۔ آل عمران ٧٦، ١٤٦، ١٥٩ ؛ مائدہ ٤٢، اور توبہ ١٠٨۔ منجملہ ان کے میرزاجواد ملکی تبریزی کارسالہ، ' ' لقاء اللہ''ملاحظہ ہو ۔

۸۴

اور جو کوئی میرے علاوہ کسی دوسرے کو تلاش کرے تو مجھے نہیں پائے گا، لہٰذا اے اہل زمین! دنیا کے فریبوں اور اس کی باطل چیزوںکو چھوڑ دو، اور میری کرامت، مصاحبت، ہمنشینی کے لئے جلدی کرو اور مجھ سے انس اختیار کرو تاکہ میں بھی تم سے انس اختیارکروں اور تم سے دوستی کے لئے جلدی کروں''۔(١)

٢۔توکل

اخلاق اسلامی میںایک دوسرا عام مفہوم جو نفسانی صفت پر ناظر اور انسان و خدا کے درمیان رابطہ کا بیان کرنے والا ہے''توکل''کامفہوم ہے۔ اس مختصر کتاب میںاس کے مقام و منزلت، ماہیت و درجات اورسعی و کوشش کے ساتھ اس کی نسبت کے بارے میں مطالعہ کریں گے۔

ایک۔ توکل کی حقیقت و ماہیت:

توکل کی حقیقت و ماہیت کس طر ح بیان کی جائے ؟ علماء اخلاق نے اس کی تعریف کے باب میں یہ ذکر کیا ہے: توکل یعنی اپنے تمام امور میں انسان کا خدا پر قلبی اطمینان اور اعتماد کرنا نیز تمام قدرتوں سے بیزاری اختیار کرنا ہے، البتہ انسان کے اندر اس حالت کا تحقق اس بات پر موقوف ہے کہ اس کا ایمان و یقین اور قوت قلب اس بات کو قبول کرے کہ عالم وبنی آدم کے کسی کام میں خدا کے علاوہ کوئی قوت اورطاقت موثر و کار ساز نہیں ہے اور تمام اسباب و علل قدرت الہی کے مقہور اور زیر اثرہیں اوراسی کے ارادہ کے تحت عمل کرتے ہیں کہ یہ خود توحید کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے۔ اس وجہ سے ''توکل'' کی اصل واساس توحید ہے اورحصول توحید کے بقیہ وہ وجود میں نہیں آسکتا۔(٢) یہ اس اعتبار سے ہے کہ خداوند عالم نے امور کو ان کے اسباب و علل کی طرف اور کاموںکو ان کے فاعل کی طرف منسوب کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ ایک طرح سے ہے اور علل اور فاعلوں کو حوادث اور افعال پر مسلّط کیا ہے؛ اگر چہ یہ تسلط اور غلبہ اصلی اور ذاتی نہیں ہے اور طبیعی علل اور انسانی فاعل تاثیر گذاری میں استقلال نہیں رکھتے، صرف خدا وند عالم ہے جو مستقل سبب اور تمام اسباب سے بالا تر ہے۔ اس بنا ء پر جب ایک عاقل اور رشید انسان نے کسی کام کا ارادہ کیا اور اس کے عادی و معمول کے مطابق اسباب و وسائل کو فراہم کیا تو وہ جانتا ہے کہ تدبیر امور میں مستقل سبب تنہا خدا ہے اورکسی قسم کی اصالت اور استقلال کا اپنے لئے نیز ان اسباب و علل کے لئے جن کا وہ استعمال کرتا ہے قائل نہیں ہے، لہٰذا وہ خداوند سبحان پر توکل کرتا ہے، اس بنا ء پر توکل کے معنی انسان یا طبیعی اسباب و علل کی جانب امور کے انتساب کی نفی کرنا اوراصالت و استقلال کو خدا سے مخصوص سمجھنا ہے(٣)

____________________

١۔ سید بن طاؤوس، مسکن الفواد، ص ٢٧۔٢۔ اسی لئے بعض علماء اخلاق نے توکل اور توحید کو ایک ردیف میںذکرکیا ہے، رجوع کیجئے: فیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص ٣٧٧۔٣۔ علامہ طباطبائی کی المیزان، ج ١١، ص ٢١٦ ، ٢١٧ ملاحظہ ہو۔

۸۵

دو۔ توکل کے درجات:

اخلاق اسلامی بعض علماء خداوند عالم پر توکل کے لئے تین درجات کے قائل ہیں کہ ان کا مختصر بیان درج ذیل ہے:

خداوندذ والجلال پرتوکل کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان اس پر اعتماد و اطمینان رکھے۔ بعینہ اس اعتما د کی طرح جو کسی وکیل پراپنے امور کی انجام دہی میں انتخاب کرکے رکھتا ہے۔ درحقیقت یہ توکل کا سب سے ادنی درجہ ہے اور آسانی کے ساتھ دسترسی کے قابل ہے اور زیادہ دن تک باقی رہتا ہے نیز انسان کے اختیار اور تد بیر سے بھی منافات نہیں رکھتا۔

توکل کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ انسان اصل توکل سے غافل اور اپنے وکیل یعنی خداوند سبحان کے بارے میں فانی ہے، بر خلاف پہلی قسم کے کہ انسان کی توجہ زیادہ تر وکالت کے قرار دادی رابطہ کی طرف ہوتی ہے۔ توکل کا یہ درجہ کم محقّق ہوتا ہے اور جلد ختم ہوجاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک دو دن سے زیادہ باقی نہیں رہتا ہے اور صرف خاص افراد کو حاصل ہوتا ہے انسان اس حالت میں اپنی بہتر سے بہتر کوشش گریہ اور خدا وند عالم سے دعا ودرخواست میں صرف کرتا ہے۔

توکل کا بلند ترین درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی تمام حرکات و سکنات کو خداوند عالم کے اختیار میں سمجھتا ہے۔ اس قسم اور قسم دوم میں فرق یہ ہے کہ اس میں انسان حتیٰ التماس، درخواست، تضرع و زاری اور دعا کو بھی نظر انداز کردیتا ہے اور اس بات کا اعتقاد رکھتا ہے کہ خداوند عالم اپنی حکمت سے امور کی تدبیر کرتا ہے اگر چہ وہ درخواست والتماس نہ کرے۔ اس توکل کا واقعی نمونہ حضرت ابراہیم ـ کا (خداپر) توکل کرنا ہے۔ کیونکہ جب نمرودیوں نے انھیںمنجنیق میں رکھ کر آگ میں ڈالا تو الہی فرشتہ انھیںیاد آوری کرتا ہے کہ وہ خدا سے امداد کی درخواست کریں، لیکن وہ جواب میں کہتے ہیں: ''خدا وندعالم کا میرے حال سے آگاہ ہونا، مجھے اس سے نجات کی درخواست کرنے سے بے نیاز کرتا ہے ''۔(١)

البتہ ایسی قسم ندرت سے دیکھنے میں آتی ہے اور نہایت کمیاب ہے۔ یہ صد یقین کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہوتی ہے اور اگر واقع ہو بھی گئی تو جلد ہی زائل ہوجاتی ہے اور چند لحظہ سے زیادہ اس کو دوام نہیں رہتا ۔(٢)

____________________

١۔ تفسیر قمی، ج٢، ص ٧٣ ملاحظہ ہو۔

٢۔ فیض کاشانی المحجة البیضائ، ج٧، ص ٤٠٨، ٤٠٩ ؛نراقی، ج٣، ص ٢٢٣تا ٢٢٥۔

۸۶

دوسرے رخ سے، لوگ خداوند عالم پر توکل و اعتماد کرنے میںیکساں مراتب و درجات نہیں رکھتے۔ ہر ایک کو چاہئے کہ اپنے توکل کے بقدر اپنے مقاصد تک پہنچنے میں اسباب و علل سے چارہ جوئی کرے۔ خداوند عالم ان لوگوں کے ساتھ جنہوں نے بالکل اسباب و علل طبیعی سے اپنا قطع تعلق کرلیا ہے اسی اعتماد کے تناسب سے برتائو کرے گا۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا ہے: ''خدا نہیں چاہتا ہے کہ مومنین کی روزی اس جگہ سے فراہم کرے جہاں سے وہ گمان نہیں رکھتے''(١) خداوند عالم کا یہ برتائو ان مومنین سے مخصوص ہے جو توکل کے اعلیٰ درجہ پرفائز ہیں ؛ لیکن جو لوگ اس درجہ پرفائز نہیں ہوئے ہیں اور ان کا خدا وند عالم پر اعتماد کے ساتھ ساتھ طبیعی اسباب و علل پر بھی اعتماد باقی ہے، خداوند عالم بھی اسباب و علل کے ذریعہ ان کی ضرورتوں کو پورا کرے گا۔(٢)

تین۔ توکل کی اہمیت:

قرآن کریم نے دسیوں بار صراحت اورکنایہ کے ساتھ انسان بالخصوص مومنین کو خداوند عالم پر توکل کی دعوت دی ہے اور بندوں کے اس اعتماد و اطمینان کے مقابل ان کے امور کی کفالت سے متعلق خداوند عالم کے وعدہ کا اعلان کیا ہے۔ منجملہ ان کے قرآن میں ذکر ہے: '' مومنین کو چاہئے کہ صرف اور صرف خدا پر توکل کریں''۔(٣) ''خداوند عالم توکل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے''۔(٤) اسی طرح خدا پر اعتماد اور توکل کے انجام کی نسبت اطمینان حاصل ہونے کے بارے میں قرآن فرماتا ہے: '' جو خدا پر اعتماد کرتا ہے اس کے لئے وہی کافی ہے ''(٥) احادیث نبوی اور اہل بیت (ع) کے ارشادات ان عبارتوں سے بھرے پڑے ہیں جن میں توکل کی اہمیت اور فضیلت بیان ہوئی ہے، مثال کے طور پر حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''بے شک بے نیازی اور عزت گردش کی حالت میں ہیں وہ جیسے ہی توکل کی منزل سے گذرتی ہیں اس جگہ کو اپنا ٹھکانہ اور وطن بنالیتی ہیں''۔(٦)

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج٥، ص٨٣، ح١۔ ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ص٦٠۔شیخ طوسی، امالی، ص٣٠٠، ح٥٩٣۔

٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص٢٢٩، ٢٣٠۔

٣۔ سورئہ آل عمران، آیت ١٢٢، ١٦٠۔ مائدہ ، آیت ١٢، ٢٦۔ توبہ آیت ٥٢۔ ابراہیم، آیت ١١۔ مجادلہ، آیت ١٠۔ تغابن، ١٣۔

٤ ۔سورئہ آل عمران، آیت ١٥٩۔

٥۔ سورئہ طلاق، آیت ٣۔

٦۔ کلینی، کافی ج٢، ص ٦٥، ح٣۔

۸۷

چار۔ سعی وکوشش اور توکل:

اگر چہ توکل کی حقیقت کے بارے میں غور و فکرکرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ توکل سعی وتلاش اور اسباب ووسائل سے استفادہ کرنے سے منافات نہیں رکھتا لیکن کبھی ایسا شبہہ پیش آتا ہے کہ اس کی جانب اشارہ کرنا مفید ہے۔ انسان ان امور کی نسبت جن کے اسباب و علل اس کے ارادہ سے خارج ہیں وہ توکل کے سوا کوئی چا رہ کا ر نہیں رکھتا لیکن ان حوادث کی نسبت جن کے اسباب و علل کی ایجاد اس کے ہاتھ میں ہے باوجودیکہ توکل کے سبب اسباب ووسائل کے لئے مستقل تاثیر کا قائل نہیں ہے، لیکن اس کا فریضہ ہے کہ ان کی فراہمی کے لئے کوشش کرے اور جس چیز کی سببیت کے لئے یقین یا گمان رکھتا ہے اس کا استعمال کرے اور اس حیثیت میں اپنی عقل و ہوش سے استفادہ کرے۔ کیونکہ خدا کی سنت اس بات پر قائم ہے کہ امور عالم اپنے خاص اسباب و علل کے ساتھ آگے بڑھیں، اسی بنیاد پر اس نے فرمایا ہے: '' جنگ کے موقع پر خاص طریقہ اور اسلحہ کے ساتھ نماز پڑھو''(١) '' اور اپنے لئے دفاعی قوت پیدا کرو''۔(٢) موسیٰ ـ کو حکم دیا کہ ''ہمارے بندوں کو شب (کے سناٹے) میں فرعونیوں کی نگاہوں سے بچا کر شہر سے نکال لو''۔(٣) پیغمبر اکرم نے جب ایک اعرابی کو دیکھا کہ اس نے خداوند عالم پر توکل کے بہانہ اپنے اونٹوں کو جنگل میں چھوڑدیا تو فرمایا: ''اعقلھا و توکّل''(٤) ''اونٹ کو باندھ دو اور خدا پر توکل کرو''۔

٣۔شکر

یہ مفہوم بھی چند لحاظ سے تحقیق کے قابل ہے :

ایک۔ شکر کی ماہیت اور درجات:

شکر کی ماہیت کے سلسلہ میں متعدد عبارتیں استعمال کی گئی ہیں'' نعمت کا تصوراور اس کااظہار ''(٥) ''منعم کی نعمت کی شناخت اور اس کی بہ نسبت سرور و شادمانی، اس سرورکے مقتضیٰ کے مطابق عمل کرنا امور خیر پر عزم کے ساتھ، منعم کی شکرگذاری اور خداوند عالم کی راہ بندگی میں نعمت کا استعمال''(٦) اور ''اظہار نعمت''(٧) یہ ساری تعریفیں شکر کے لئے بیان کی گئی ہیں ان تمام تعریفوںکو یکجا کرکے کہا جاسکتا ہے کہ درحقیقت شکروہی ''نعمت کا اظہار'' ہے ۔

____________________

١۔ سورئہ نساء ١٠١۔ ٢۔ سورئہ انفال ٦١۔ ٣۔سورئہ دخان ٢٣۔ ٤۔ طوسی، امالی، ص ١٩٣، ح ٣٢٩۔٥۔ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ قرآن، ص ٢٧٢۔

٦۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص ٢٣٣۔ اسی طرح ملا حظہ ہو فیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج٧، ص٤٤تا ١٤٦۔

٧۔ علا مہ طباطبائی، المیزان، ج٤، ص ٣٨، اور ج٦، ص ٢١٥۔

۸۸

نعمت کا اظہار ایک طرف اس کے تصورو ادراک کا مستلزم ہے اور دوسری طرف یہ اظہار مختلف مراتب اور پہلوؤں کا حامل ہے کیونکہ نعمت کے اظہار سے مراد اس کا ایسی راہ میںاستعمال کرنا ہے جس میں منعم نے ارادہ کیا ہو، اسی طرح اس کی کا ذکر اور اس کی نعمت کے لئے اس کی مدح و ثنا کرنا ہے۔ اس وجہ سے شکر سہ گانہ مراتب کا حامل ہے قلبی: (یاد کرنا ) ، زبانی (مدح و ثنا ) اورعملی۔ شکر خدا وندی سے مرادیہ ہے کہ انسان پہلے دل میں ہمیشہ اس کی نعمتوں کی طرف متوجہ ہواور اس کی نعمتوں کو یادرکھتا ہو۔ دوسرے یہ کہ اللہ کی بیکراں نعمتوں سے استفادہ کرنے کے وقت اللہ کی حمد و ستائش کے لئے زبان کھولے۔ تیسرے خدا کی نعمتوں اور اس کی برکتوں کواس راہ میںاستعمال کرے جس میں اس کی مرضی اور خواہش ہو ۔(١) شکر کے مقابل کفر ہے جو کہ اللہ کی نعمتوں کو پوشیدہ و مخفی کرنے کے معنی میں ہے۔ البتہ واضح ہے کہ اللہ کی بے شمار نعمتوں کی بہ نسبت اللہ کے شاکر بندے بھی شکر گزاری سے عہدہ بر نہیں ہو سکتے ، اس کے باوجود ادب بندگی اقتضاء کرتا ہے کہ اس راہ میں اپنی انتھک کوشش کرے۔ قرآن اللہ کی نعمتوں کی وسعت اور نوع بشر کے میزان شکر کے بارے میں فرماتا ہے: ''اور تم نے جو کچھ مانگا اس نے عطا کیا، اور اگر خدا کی نعمتوں کو شمار کرو تو ان کا شمار نہیں کرسکتے یقینا انسان بڑا ظالم اور ناشکرا ہے''۔(٢)

دو۔ شکر کی اہمیت:

آیات و روایات میں شکر کی شرح میںذکر ہوا ہے: شکر گزاری خدا کے صفات میں سے ہے '' اور خدا شکر گزار اور برد بار ہے''۔(٣) شکر گزاری جنت میں رہنے والوں کے کلام کی ابتدا وانتہا ہے: ''شکر اس خدا کا جس نے ہم سے کئے گئے اپنے وعدہ کو ہم پر سچ کردکھا یا ''(٤) اور ان کی مناجات کا آخری کلام یہ ہے: ''الحمد لله رب العالمین ''۔(٥) خدا وند عالم نے شکر گزاری کو ایمان کے ساتھ ساتھ عذاب سے روکنے کا باعث قرار دیا ہے: '' اگر شکر گذار بنو اور ایمان لے آؤ تو خدا تم پر عذاب کر کے کیا کرے گا ؟ ''(٦)

____________________

١۔ شکر کے مراتب کو معتبر و مستند احادیث کے مضامین سے استنباط کیا جا سکتا ہے ؛ جیسے کافی، ج٢، ص ٩٦، ح ١٥، اور ص ٩٥، ح٩، ١١۔

٢۔ سورئہ ابراہیم، آیت ٣٤، اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ اعراف، آیت ١٠ اور ١٧، سورئہ یونس، آیت ٦٠ اور سورئہ غافر، آیت ٦١۔

٣۔ سورئہ تغابن، آیت١٧ اسی طرح ملاحظہ ہوسورئہ نساء آیت ١٤٧۔

٤۔ سورئہ زمر ٧٤۔ ٥۔ یونس ١٠۔ ٦۔ نساء ١٤٧۔

۸۹

شکر گزاری کی فضیلت میںاتنا ہی کافی ہے کہ خداوندعالم صریحی طور پر بندوںکو اس کا حکم دیتا ہے: '' اور میرا شکر بجا لاؤ اور میرے ساتھ ناشکری نہ کرو ''(١) حضرت امام زین العابدین ـ کے بقول خداوند عالم کا شکر ادا کرنا انسان کو اللہ کی خاص محبت کے دائرہ میں قرار دیتا ہے: '' حقیقت میںخداوندعالم ہر محزون وغمزدہ دل اور ہر شکر گذار و قدرداں بندہ کودوست رکھتا ہے '' ۔(٢) اس وجہ سے حق شناسی اور شکر گزاری خداوند عالم اور انسان کے درمیان رابطہ بر قرارکرنے و الے اساسی وبنیادی عناصر میں سے ہے یہ انسان کا خدا کے ساتھ رابطہ ہے جس کی اصل الہٰی نعمتوں اور برکتوں کے ادراک اور ان کی نسبت قلبی اعتراف میں پوشیدہ ہے۔قابل ذکر بات ہے کہ ''شکر ''اپنے مجموعی مفہوم کے اعتبار سے لوگوں کی شکر گزاری بھی لوگوں کی خدمتوں کے سلسلہ میں شامل ہے اس طرح کے شکر کے سلسلہ میں اخلاق معاشرت کی بحث میںگفتگو کی جاتی ہے۔

تین۔ شکر خداوندی کا دنیوی نتیجہ:

سب سے اہم دنیوی اثر جو دینی کتابوں میں شکر گزاری کے لئے بیان کیا گیا ہے، پروردگار کی نعمتوں کا زیادہ ہونا ہے۔ قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے: ''جب کہ تمہارے رب نے اعلان کیا کہ اگر شکر کروگے تو(نعمت) کو تم پر زیادہ کردوں گا اور اگرناشکری کروگے تو یقینا میرا عذاب سخت ہے''۔(٣) یہ حقیقت بہت سی روایات میں بیان ہوئی ہے ؛ منجملہ ان کے حضرت علی ـ نے فرمایا: ''خداوند عالم کسی بندہ پر شکر گذاری کا دروازہ نہیں کھولتا، اس حال میں کہ نعمت کا دروازہ اس پر بندکردے '' ۔(٤)

یہ سوال ہمیشہ ہوتا رہتا ہے کہ آیا خداوند سبحان کی شکر گزاری بندوں کے لئے مقدور ہے؟کیونکہ سپاس گذار ی کی توفیق اور اس کی قوت خود خدا کی ایک نعمت ہے اور دوسرے شکر کامستلزم ہے۔ اگراس فریضہ کاانجام دینا انسان کے امکان سے خارج ہے، توپھر کس طرح ا نسان کو اس کے کرنے کاحکم دیتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: ''وہ باتیں جن کی خداوندعالم نے موسٰی ـ کووحی کی تھی ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ موسیٰ میراشکر ایسا اداکرو، جو میرے شایان شان ہو '' موسٰی ـ نے جواب میں پوچھا: خدایا! کس طرح تیری شکرگذاری کا حق ادا کروں جب کہ ہرطرح میری شکرگذاری خود ہی ایک دوسری نعمت ہے ؟ خدا نے جواب میں فرمایا: اب (جب کہ تم نے جان لیا کہ تمہارا شکر کرنا خود ہی ایک دوسری نعمت ہے) تم نے میرے شکرکا حق ادا کردیا '' ۔(١) یعنی شکر الہی کا حق یہ ہے کہ انسان اپنی آخری کوشش کو اس راہ میں صرف کرے، اسی کے ساتھ یہ یقین رکھتاہو کہ اللہ کے شایان شان شکر ادا نہیں ہوسکتا۔

____________________

١۔ بقرہ ١٥٢ اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ اعراف ١٤٤ اور سورئہ زمر ٦٦۔٢۔ کافی، کلینی، ج٢، ص٩٩ح٣٠۔ ٣۔ ابراہیم ٧۔ ٤۔ نہج البلاغہ، حکمت ٤٣٥؛ کافی، ج ٢، ص ٩٤، ح٢اورص ٩٥، ح ٩ ؛ امالی، ص ٥٩۔

۹۰

ب۔ نفس کا اپنی عاقبت کی طرف رجحان

بعض عام اخلاقی مفاہیم انسان کے نفسانی حالات کے نظام کو اپنی عاقبت اور انجام کار کے لئے وجود میں لاتے ہیں وہ اہم ترین مفاہیم جو اس باب میں ذکر ہوئے ہیں یہ ہیں: خوف، رجائ، مایوسی، نا امیدی اور تدبیر خداوندی سے حفاظت۔ چونکہ یاس و ناامیدی ''خوف وخشیت '' کے لئے نقصاندہ اور تدبیر خداوندی سے حفاظت، امید و رجاء کے لئے بلا شمار ہوتی ہے، نتیجہ کے طور پر بحث و گفتگوکا موضوع اس حصہ میں'' خوف و امید '' ہے اور دیگرمفاہیم انھیںدو عنوانوں کے تحت زیر بحث قرار پائیں گے۔

١۔خوف

الف۔ خوف کا مفہو م:

خوف یعنی مستقبل میں یقینی یاظنّی علامتوں کی بنیاد پر انسان کے لئے کسی ایسے ناگوار واقعہ کے پیش آنے کا احتمال(٢) جو فطری طور پر درد مندی اور پریشانی کا باعث ہے۔(٣) اس بناپر ''خوف'' ''بزدلی'' سے اساسی فرق رکھتا ہے کیونکہ'' جبن (بزدلی ) '' سے مراد ہے خود کو دفاع اور انتقام وغیرہ سے ایسی جگہوں پر روکنا جہاں شرعی اور عقلی دونوں لحاظ سے اس کا اقدام کرنا جائز اور بہتر ہے۔(٤)

____________________

١۔ کافی، کلینی، ج٢، ص٩٨، ص٩٨، ح٢٧ملاحظہ ہو۔

٢۔ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ قرآن، ص ١٦١۔

(٣۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص ٢٤٩؛ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص٢٠٩۔

٤۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٢٠٩۔

۹۱

علماء اخلاق نے پہلی تقسیم میں خوف کو دو پسندیدہ اور ناپسندیدہ قسم میں تقسیم کیاہے۔ ناپسند خوف وہی خدا کے علاوہ کسی دوسری چیز سے خوف کھانا ہے اور خوف پسندیدہ عذاب خداوندی اور برے انجام سے خوف کھاناہے اور حقیقت میں اپنی بری رفتار اور اعمال کے ناگوار عواقب سے خوف کھانا ہے۔ یہاں پر ہماری بحث کا موضوع پسندیدہ خوف ہے۔

ب۔ خوف کے درجات:

اخلاق اسلامی کی مشہور کتابوں میں ''ورع'' ''تقویٰ'' اور ''صدق'' کو ''خوف '' کے درجات میں شمار کیا گیا ہے اس طرح سے خوف کا سب سے معمولی درجہ یہ ہے کہ وہ اس بات کا باعث ہو کہ انسان اخلاقی ممنوعات ومنہیات کے ارتکاب سے پرہیز کرے۔ ''خوف ''کے اس درجہ کو ''ورع ''کہتے ہیں۔ اور جب خوف کی قوت اورطاقت میںاضافہ ہوجائے اور وہ اس بات کا باعث ہوکہ انسان محرمات کے ارتکاب کے علاوہ مشکوک و مشتبہ چیزوں سے بھی پرہیز کرے تو اسے تقویٰ'' کہتے ہیں۔ تقویٰ میں صداقت یہ ہے کہ حتی بعض جائز و مباح امور کے ارتکاب سے بھی پرہیز کرے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ حرام کے ارتکاب کی راہ ہموار کردے اور آخر کار جب انسان خدا سے شدت خوف کی وجہ سے سراپا آمادئہ خدمت ہوتا ہے اور ضرورت سے زیادہ کوئی گھر نہیں بناتا اور نہ کوئی مال ذخیرہ کرتا ہے اور اس مال کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا جس کے بارے میں اسے معلوم ہے کہ اسے ایک دن چھوڑ جائے گا اور کوئی سانس بھی غیر خدا کی راہ میں نہیں لیتا تو درحقیقت اس نے ''صدق ''کی وادی میںقدم رکھ دیا ہے اور ایسے مرتبہ کے مالک کو صدّیق کہتے ہیں اس بنا پر مقام ''صدق'' اپنے اندر تقویٰ و ورع بھی رکھتا ہے اور تقویٰ و ورع کا حامل بھی ہے البتہ ''ورع'' عفّت کے ساتھ بھی ہے کیونکہ عفّت نفسانی شہوات وخواہشات سے پرہیز کرنے کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں ہے لیکن اس کے بر عکس صادق نہیں ہے۔(١)

ج۔ خوف کی اہمیت:

اولاً

خدا کا خوف انسان کے لئے سعادت حاصل کرنے میں بڑا بنیادی کردار اداکرتا ہے، کیونکہ پہلے بیان کئے گئے مباحث کی روشنی میں انسان کی سعادت پروردگارسے ملاقات اور اس کے جوار میں سکونت اختیارکرنے کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ بات انس ومحبت الہی کے سایہ ہی میں ممکن و میسر ہے اور وہ خود معرفت الہی پر منحصر ہے اور معرفت خود فکر کی مرہون منت ہے اور انس محبت وذکرپر منحصر ہے۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٢١٩، ٢٢٠۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص ٢٧٠ ، ١ ٢٧۔

۹۲

فکر وذکر الہی اس وقت ہوتا ہے جب انسان اپنے دل کو دنیاوی محبت سے الگ کر لے اور دنیا سے قلبی لگاؤ کو قطع کرنے کے لئے شہوتوں اور لذتوں سے کنارہ کشی کرنے کے سواکوئی اور راستہ نہیں ہے۔ اور خوف خدا وندی کی آگ لذتوں اور شہوتوںکی راہ میں ایک کار آمد اسلحہ ہے۔(١) نتیجةً خوف الہی انسان کا مقصد کی طرف حرکت کرنے کا پہلا سنگ بنیاد ہے۔

ثانیاً،

بہت سی آیات وروایات مختلف انداز سے خدا کے خوف کی اہمیت و منزلت پر تاکید کرتی ہیں۔ منجملہ ان کے قرآن نے خدا سے خوف کرنے والوں کورحمت و رضوان و ہدایت کا وعدہ دیا ہے: ''ان لوگوں کے لئے جو اپنے رب کاخوف رکھتے تھے ہدایت و رحمت تھی''۔(٢) ''خدا ان لوگوں سے راضی و خوشنود ہے اور وہ لوگ بھی اس سے راضی و خوشنود ہیں یہ جزا اس کی ہے جو اپنے رب سے ڈرتا ہے''۔(٣) اسی طرح قرآن خوف کا دعوی صرف حقیقی عالموں سے قبول کرتا ہے: ''خدا کے بندوں میں صرف علماء ہیں جواس سے ڈرتے ہیں''۔(٤) دوسری جگہ خوف کو ایمان کے لوازم میں شمار کیا ہے: ''مومنین وہی لوگ ہیںکہ جب خدا کاذکر ہو تو ان کے دل خوفزدہ ہوں''(٥) سر انجام قرآن نے خدا ترس لوگوں سے بہشت کا وعدہ کیا ہے: '' اور رہے وہ جو خدا کے سامنے کھڑے ہونے سے ہراساں ہیں اور اپنے نفس کو ہواو ہوس سے روک رکھا ہے، اس کا ٹھکانہ بہشت ہے ''۔(٦) خداوندعالم کی حضرت عیسیٰ ـسے گفتگو میں مذکور ہے: ''اے عیسیٰ ! مجھ سے ڈرواور میرے بندوں کو میری نسبت خوف دلاؤ، شاید گناہگار لوگ جو وہ گناہ کرتے ہیں اس سے باز آجائیں اور نتیجہ کے طور پر ہلاک نہ ہوں سوائے ان کے جو جانتے ہیں''۔(٧)

____________________

١۔ ایضاً۔

٢۔ اعراف ١٥٤۔

٣۔ بینہ ٨۔

٤۔ فاطر ٢٨۔

٥۔انفال ٢ ۔ آل عمران ١٧٥۔

٦۔ نازعات ٤٠، ٤١۔

٧۔) کافی، ج ٨، ص ١٣٨، ح ١٠٣۔

۹۳

د۔ خوف کے بارے میں ہوشیاری:

خداوند ذو الجلال سے خوف کھانا وادی قرب الہی میں بندوں کے سلوک کے لئے ایک تازیانہ ہے۔ جیسا کہ اس تازیانہ کا کمزور ہونا یا فقدان، الہی راہ کے سالکوں کے لئے بے زادو راحلہ بنادیتا ہے، حد سے زیادہ اس کی زیادتی بھی امید کی کرن کو اس کے دل میں منزل مقصود تک پہونچنے کے امکان میں خاموش کردے گی اور حرکت کرنے کی طاقت بھی اس سے سلب کرلے گی۔ لہٰذا خدا وند عالم سے خوف میں افراط کرنا رحمت الہی سے قنوط ومایوسی ہے جو خوف خدا کی عظیم آفت ہے۔ اور اخلاقی برائی شمار ہوتی ہے ]بعض ارباب لغت نے قنوط کو مایوسی کا شدید درجہ سمجھتے ہیں ۔(١) اسی بنیاد پر قرآن کریم رحمت خداوندی سے مایوسی کو محض گمراہی تصور کرتا ہے: '' کون ہے جز گمراہوں کے جو رحمت خداوندی سے مایوس ہوتا ہے ؟ ''(٢) اور دوسری جگہ رحمت خداوندی سے مایوسی کو کا فروںکا شیوہ تصور کرتا ہے: '' یقینا ً کافروں کے سوا کوئی رحمت الہی سے مایوس نہیں ہوتا ''۔(٣) بہت سے موارد میںانسان کاخوف زندگی کے برے انجام اور شوم عاقبت سے ہوتا ہے ؛ خوف اس بات کا کہ کہیں انسان کفر کی حالت یا خدا کے انکار یا شک وتردید کی حالت میں دنیا سے چلا جائے یا ایسے حال میں دنیا چھوڑے کہ اس کا دل خدا کی محبت اور اس کے انس سے خالی ہو، نتیجہ کے طور پر اپنے اعمال سے شرمندہ اور عذاب الہی میںگرفتار ہو۔ واضح ہے کہ جو بھی ایسا خوف و ہراس دل میں رکھے گا اسی وقت سے اپنی را ہ وروش اور گفتار کو بدلنا چاہے گا اور یہ وہی خدا سے خوف رکھنے کی فضیلت کا رمز ہے۔

٢۔ امید

الف۔ امید کا مفہوم: '' رجائ'' (''امید '' ) سے مراد قلبی سکون کا احساس ہے اور وہ کسی ایسے امرکے تحقق کے انتظار کے نتیجہ میں ہے جو محبوب اور خوش آیند ہے، البتہ ایسی صورت میں جبکہ اس محبوب امر کے اکثر اسباب اور موجبات محقق وثابت ہوں۔ لیکن جب اسباب کاوجود یا عدم معلوم نہ ہو تو ایسے انتظار کو '' تمنا'' اور '' آرزو'' کہا جاتا ہے۔ اگر امر محبوب کے وجود کے اسباب و علل فراہم نہ ہوں اور اس کے باوجود انسان اس کے تحقق کا انتظار رکھتا ہو توایسے انتظار کو '' فریب '' اور ''حماقت '' کہتے ہیں اور کبھی اس پر رجاء و امید کامفہوم صادق نہیں آتا ہے۔ ''امید ''بھی '' خوف وہراس '' کے مانند ایسی جگہ ذکر کی جاتی ہے جہاں واقعہ کا ظاہر ہونا عام طور سے محتمل ہو نہ کہ قطعی۔ اس وجہ سے امید سورج کے طلوع یا غروب کے متعلق جس کا تحقق قطعی ہے ، صحیح نہیں ہے۔(٤)

____________________

١۔ ملاحظہ ہو ابو ہلال عسکری اور نور الدین جزائری کی کتاب معجم الفروق اللغوےة، ص ٤٣٥، ٤٣٦۔ ٢۔ سورئہ حجر، آیت ٥٦۔ ٣۔ سورئہ یوسف، آیت ٨٧۔ ٤۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص٢٤٩۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٢٤٤۔

۹۴

ب۔ امید کی اہمیت:

قرآن وروایات میں رحمت خداوندی ا ور نیک انجام سے امید مختلف جہات اور اسالیب میںمورد تاکید وترغیب واقع ہوا ہے کہ ذیل میں ان کے صرف اصلی محور کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔

١۔ وہ آیات وروایات جو رحمت خداوندی سے اس مایوسی اور نا امیدی کی مذمت میںہے جو '' امید '' کے مقابل ہے، وارد ہوئی ہیں، ان میں سے بعض بیان ہوچکی ہیں۔

٢۔ وہ آیات وروایات جو بندوں کو واضح طور پر فضل خداوندی کا امید وار بناتی ہیں اور اس کی تشویق وترغیب کرتی ہیں؛ منجملہ ان کے یہ ہے کہ خداوند ذوالجلال رسول اکرم سے فرماتا ہے: ''عمل کرنے والے (مومنین ) ان اعمال پر اعتماد نہ کریں جو میرے ثواب کے حصول کے لئے انجام دیتے ہیں، کیونکہ اگر اپنی تمام عمر میری عبادت کے لئے کوشاں ہوںاور زحمت کریں اس کے بعد بھی کوتاہی کی ہو اور میری عبادت کی کنہ و حقیقت کو کہ جس کے سبب سے وہ کرامت جو میرے نزدیک ہے اور میری بہشت کی نعمتوںکو تلاش کرتے ہیں، نہیں پہونچ سکتے، بلکہ انھیںچاہئے کہ میری رحمت پر اعتماد کریں اور میری بخشش کے امید وار رہیں''۔(١)

٣۔ قرآن وروایات میں مذکور ہے کہ فرشتے اور اللہ کے انبیاء ہمیشہ مومنین کے لئے خداوند عالم سے عفو و بخشش طلب کرتے رہتے ہیں اور یہ خود رحمت خداوندی سے امید رکھنے کا باعث ہے۔

قرآن میں مذکور ہے: ''فرشتے اپنے پروردگار کی حمد میں تسبیح پڑھتے ہیں اوران لوگوںکے لئے جو زمین میں ہیں عفو وبخشش طلب کرتے ہیں''۔(٢)

٤۔ وہ آیات وروایات جو اللہ کے بے کراں عفو ومغفرت پر دلالت کرتی ہیں: ''یقیناً تمہارا رب لوگوں کی نسبت ان کے ستم کے باوجود بخشنے والاہے''۔(٣)

اسی طرح جو کچھ پیغمبر اکرم کی شفاعت کے بارے میں ان کی امت کی نسبت وارد ہوا ہے،(٤) یا وہ آیات وروایات جو اس بات کو بیان کرنے والی ہیں کہ جہنم صرف اور صرف کافروں کے لئے فراہم کی گئی ہے،(٥) یا مومنین کے آتش (جہنم ) میں ہمیشہ رہنے کی نفی کرتی ہیں، اسی طرح گناہگاروں کو عفو و گذشت کی درخواست میں جلدی کرنے کی دعوت دیتی ہیں یہ تمام آیات وروایات درحقیقت خداوندعالم سے امید رکھنے اور حسن عاقبت کی تشویق کرتی ہیں۔(٦)

____________________

١۔ کافی، ج٢، ص٧١، ح ١۔ ٢۔سورئہ شوری، آیت٥۔ ٣۔سورئہ رعد، آیت ٦۔ ٤۔ سورئہ ضحی کی پانچویںآیت کی تفسیر ملاحظہ ہو۔

٥۔ سورئہ آل عمران، آیت ١٣١۔ ٦۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٢٤٧ تا ٢٥٤۔

۹۵

ج۔ امیدکے نقصانات:

خداوندعالم کی رحمت سے امید اور نیک انجام کی توقع رکھنے سے دو لحاظ سے شدت کے ساتھ خطرہ محسوس ہوتاہے کہ ذیل میںا ن کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔

١۔ بغیر عمل کے امید وارہونا:

'' امید '' کی تعریف میں کہا گیا ہے کہ کسی خوش آیند امر کے تحقق کے انتظار کے نتیجہ میں قلبی کو اس صورت میں امید واری کا نام دیا جاتا ہے کہ جب اس کے اکثر وبیشتر اسباب وعلل فراہم ہوں ورنہ خوش آیند سر انجام کا انتظار بغیر اس کے اسباب کے تحقق کے '' حماقت ''اور ''غرور'' کے سوا کوئی چیز نہیں ہوگی۔

امیدواری کی ایک اہم ترین مشکل درواقع جھوٹی اور بے بنیاد امیدیں ہیں، اسلام کے اخلاقی نظام میں سعادتمندی اور نیک بختی صرف عمل صالح کی راہ سے گذرتی ہے لیکن بہت سے ایسے افراد ہیں جو بغیر کوشش اور نیک عمل کے، نیک اور اچھے انجام کی امیدکے داعویدار ہیں۔ حضرت علی ـ اس گرو ہ کو ہوشیار کرتے ہوئے فرماتے ہیں''کیا تم امید رکھتے ہو کہ تمہیںخدا متواضع افراد جیسا اجر دے دیگا جب کہ تم اس کے نزدیک سرکشوں میں شمار سے ہو اور صدقہ دینے والوں کے ثواب کی آرزو رکھتے ہو جب کہ تم نعمت سے مالامال ہو اوراسے بے چاروں اور بیوہ عورتوں پر خرچ کرنے سے دریغ کرتے ہو !آدمی نے جو کچھ کیا ہے وہ اسی کی جزا پاتا ہے اور جو اس نے پہلے روانہ کیا ہے اسی پر وارد ہوتا ہے''۔(١)

٢۔ تدبیر خداوندی سے اپنے کو محفوظ سمجھنا:

خداوند رحمان کی بخشش کا حد درجہ امیدوار ہونا تدبیر خداوندی (سزائے الہی) سے بے خوفی کا احساس دلاتا ہے جو کہ اخلاقی رزائل میںسے ایک ہے۔ خود کو اللہ کے عذاب سے محفوظ سمجھنا خوف الہی سے منافات رکھتا ہے، نیز تدبیر الہی سے امان کا احساس انسان کو گناہ و عصیان میںغوطہ لگانے کا آغاز ہے۔ اسی بنیاد پر انبیاء واولیاء خود کو امن وامان میں نہیں سمجھتے تھے اور ہمیشہ عذاب خداوندی سے خوفزدہ رہتے تھے۔ قرآن کریم تدبیر خداوندی سے امان کے احساس کی مذمت میں فرماتا ہے: ''آیا انہوں نے خود کو تدبیر خداوندی سے امان میں خیال کیا ہے ؟ (باوجودیکہ) خسارہ اٹھانے والے لوگوں کے علاوہ کوئی بھی خود کو تدبیر الہی سے محفوظ نہیں سمجھتا''۔(٢)

____________________

١۔ نہج البلاغہ، مکتوب ٢١، اور ملاحظہ ہو خطبہ ١٦٠، حکمت١٥٠ حرانی، تحف العقول، ص ٢ ۔ کافی، کلینی، ج٢، ص ٦٨، ح٥۔

٢۔ اعراف ٩٩۔

۹۶

۳۔ خوف ورجاء کے درمیان مناسبتیں:

اس سلسلہ میں دورخ سے توجہ کی جاسکتی ہے: ایک قلب انسان پر ان میں سے ہر ایک کی کیفیت اور اثر کے اعتبار سے، دوسرے یہ کہ دونوں ایک دوسرے کے مقابل کیا مقام ومنزلت اور کیا اہمیت رکھتے ہیں ،یعنی یہ کہ آیا امید، خوف سے زیادہ اہم چیز ہے یا اس کے عکس (خوف امید سے زیادہ اہم ہے؟)

پہلی بات تویہ ہے کہ خوف ورجاء گذشتہ مفہوم کے اعتبار سے اصل وجود میں ایک دوسرے کی نسبت لازم وملزوم ہیں ؛ کیونکہ ''خوف '' کسی ناگوار امر کے وقوع اور آئندہ ممکن الحصول چیز کے انتظار کے نتیجہ میں قلبی گھبراہٹ اور پریشانی ہے ، اس وجہ سے جس طرح اس کا واقع ہونا احتمال رکھتا ہے اسی طرح اس کاواقع نہ ہونا بھی احتمال رکھتا ہے نیز جس طرح اس کا واقع ہوناناگوار اور نا خوش آیند ہے اسی طرح اس کا واقع نہ ہونا بھی خوش آیند اور اس کے عدم کا انتظار خودہی مایۂ امید ہوگا۔اس وجہ سے ہرامید اپنے دامن میں خوف و ہراس رکھتی ہے اور اس کے برعکس ہر خوف و ہراس بھی اپنے دامن میں امید رکھتا ہے۔ رہا اس سوال کا جواب کہ ان دونوں کا اثر انسان پر کس درجہ ہے؟ کہا جا سکتا ہے: یہ نسبت اسی اندازہ اور میزان کے ساتھ ہونی چاہیے کہ ان دونوںمیں سے کوئی بھی دوسرے کے اثر حرکت اور کارآمد ہونے کو کم نہ کرے، کیونکہ خوف و رجاء عمل صالح اور خداوند عالم سے تقرب کا ذریعہ ہیں، اور یہ اس وقت ثابت ہوگا جب دونوں ہی تعادل وتوازن کے ساتھ( میانہ حالت پر) ہوں۔

دوسری بات یہ ہے کہ اہمیت کے اعتبار سے جب دونوں کا ایک دوسرے سے مقایسہ کیا جائے تو یہی ذہن میں آتا ہے کہ اس قیاس کو دوسطح میں انجام دیا جا سکتا ہے: ١ فرداًفرداًافراد اور مصادیق کے اعتبار سے، ٢ مصادیق سے صرف نظر کرکے تنہاخوف ورجاء کی حقیقت پر غور کرتے ہوئے افراد کی نسبت ان دونوںمیں سے ہر ایک کا مقدم ہونا فردکی حالت سے وابستہ ہے۔ بعض کو ''امید '' متحرک کردیتی ہے تو بعض کو ''خوف '' متحرک بنادیتا ہے۔ واضح ہے کہ مناسب دوا ہرایک کے لئے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن معین افراد واشخاص سے قطع نظر اور خوف و رجاء کی حقیقت کے پیش نظر بعض آیات(١) و روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ اگر عمل خداوندرحمان پر امید کے ذریعہ انجام پائے تو اس عمل پر جو خوف کی بنا پر وجود میں آتا ہے۔ برتری رکھتا ہے۔ منجملہ ان کے حضرت علی ـسے نقل ہوا ہے: ''رحمت الہی کی امید خوف الٰہی سے زیادہ قوی ہے۔کیونکہ خداوندعالم سے تمہارا خوف کھانا تمہارے گناہوں سے پیدا ہوتا ہے لیکن خدا سے تمہاری امید اس کی بخشش سے پیدا ہوتی ہے، لہٰذا خوف تمہاری طرف سے ہے اور امید اس کی طرف سے''۔(٢) دعائے جوشن کبیر میں وارد ہوا ہے:''یا من سبقت رحمته غضبه'' اے وہ ذات جس کی رحمت اس کے غضب پر سبقت رکھتی ہے۔

____________________

١۔ فصلت ٢٣ اور فتح ١٢۔ ٢۔ شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدیدمعتزلی، ج٢٠، ص ٣١٩ ،ح ٦٦٦۔

۹۷

ج۔ نفس کا خود اپنی طرف رجحان

نفس انسانی کے اپنی نسبت رجحان کا تعادل وتوازن بعبارت دیگر اپنے کام سے متعلق صحیح جانچ پڑتال رکھنا اخلاق اسلامی میں عام مفاہیم کے دوسرے گروہ کا ہدف ومقصد ہے۔ سب سے اہم وہ مفہوم جو انسانی کے اپنی نسبت مثبت رجحان اور صحیح جانچ پڑتال کا ذریعہ بیان کرتا ہے وہ '' انکساری '' یا '' خود شکنی '' اور '' تواضع '' ہے۔

١۔ انکسار نفس

نفس کی انکساری اور خود شکنی سے مراد یہ ہے کہ انسان بغیر اس کے کہ اپنا کسی غیر سے مقایسہ کرے خود کو سب سے حقیر چھوٹا سمجھے نیز خود پسند اور اپنے آپ سے راضی نہ ہو، خود شکنی تواضع کا سرچشمہ ہے اور بغیر اس کے تواضع محقق نہیں ہوتی۔ اس بنا پر جو کچھ تواضع کی اہمیت اور فضیلت کے بارے میں بیان کیا جائے گاوہ سب فروتنی اور خود شکنی کی فضیلت پر بھی دلالت کرے گا، اور شاید اسی وجہ سے آیات و روایات میں زیادہ تر ''تواضع '' کے سلسلہ میں تاکید کی گئی ہے اور انکساری نفس اور خود کو حقیر شمار کرنے کے بارے میں کم ذکر آیا ہے۔ انکساری نفس کی فضیلت کے مختلف پہلوئوں کو جب اس کے موانع سے مقایسہ کریں اور ان کے متضاد مفاہیم پر غور کریں تو بخوبی دریافت کرسکتے ہیں، یہ موانع درج ذیل ہیں:(١)

پہلی نظر عُجب(خود پسندی)

عُجب خود ستائی اور غرور فروتنی اور خودکو حقیر شمار کرنے کے اصلی و بنیادی موانع میں سے ایک ہے، چونکہ خودستائی حقیقت میں خود پسندی کی علامت اور اس کے ملحقات میں سے ہے لہذا ہم موانع کی بحث کو خود پسندی اور غرور کے محور پر بیان کریں گے۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٣٤٣ملاحظہ ہو۔

۹۸

الف۔ عُجب کا مفہوم:

عُجب یعنی خود کو اس کمال کی وجہ سے عظیم اور بلند سمجھنا ا جو وہ اپنے اندر سمجھتا ہے خواہ وہ کمال واقعاً اس میں پایا جاتا ہو یا نہ پایا جاتا ہو، نیز جس چیز کو وہ کمال تصور کررہا ہے واقعاً بھی کمال ہو یا نہ ہو اس وجہ سے خود پسندی میں بھی انکسار نفس اور فروتنی کے مانند دوسرے سے مقایسہ نہیں پایا جاتا ہے اور بغیر اس کے کہ انسان اپنا دوسروں سے مقایسہ کرے اپنے اندرپائے جانے والے واقعی یاخیالی کمال کے تصوّر کی وجہ سے نیز اس بات سے غفلت کے سبب کہ ہر کمال خدا کی جانب سے ہے، اپنے آپ پر مغرور اور راضی و خوشنود ہے اور اپنی حالت کوپسند کرتا ہے۔ بر خلاف ''کبر '' کے کہ متکبر انسان اپنے آپ سے راضی و خوشنود ہونے کے علاوہ خود کو دوسروں سے مقایسہ کرکے اور اپنے آپ کو غیروں سے بہتر سمجھتا ہے نیز اپنے لئے دوسروں کے مقابل حق اور اہمیت و امتیاز کا قائل ہے(١)

اس بنا پر، ''کبر'' کا محقق ہونا اس بات کا مستلزم ہے کہ'' عُجب '' بھی پایا جائے، لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہے کہ جہاں عُجب و خود پسندی ہووہاں کبر بھی ضروری ہو۔کبھی انسان کی خود پسندی اس درجہ بڑھ جاتی ہے کہ جو اس کے اندر کمال پایا جاتا ہے اس کی وجہ سے اپنے لئے خدا وند عالم سے حقوق اور مطالبات کا انتظار کرتا ہے اور اپنے لئے خدا کے نزدیک حیثیت و مرتبہ کا قائل ہو جاتا ہے، اس طرح سے کہ ناگوار حوادث کا وقوع اپنے لئے بعید سمجھتا ہے ایسی حالت کو ''ادلال'' کہا جاتا ہے ،درحقیقت یہ حالت خود پسندی کا سب سے بڑا اور بدترین درجہ ہے۔(٢)

ب۔ خود پسندی کی مذمت :

قرآن کریم میں بارہاخود پسندی کی مذمت کی گئی ہے، منجملہ ان کے جنگ حنین میں مسلمانوں کی شکست کی علّت بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے: ''یقیناً خداوندرحمان نے تمہاری بہت سے مواقع پر مدد کی ہے اورحنین کے روز بھی جب کہ تمہاری کثرت تعداد نے تمہیں فخر وناز میں مبتلا کر دیا تھا لیکن اس نے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور زمین اپنی تمام تر وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی، پھر تم دشمن کی طرف پیٹھ کر کے فرار کر گئے''۔(٣)

اس آیت میں خود پسندی کا ذکر اخلاقی برائی کے عنوان سے ہوا ہے جو کہ لشکر اسلام کی شکست کا باعث بن گئی ۔ پیغمبر اکرم سے منقو ل ہے کہ خدا وند عالم نے حضرت داؤد ـ سے فرمایا: ''اے داؤد! گناہگاروں کو بشارت دے دو اور صدیقین (سچے اور پاک باز لوگوں کو ) ڈراؤ۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٣٢١، ٣٢٢ملاحظہ ہو۔ ٢۔ ایضاً، ص٣٢٢۔٣۔ سورئہ توبہ، آیت٢٥۔ اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ حشر، آیت ٢۔ سورئہ کہف، آیت ٤٠۔ اور سورئہ فاطر، آیت ٨۔

۹۹

داؤد ـ نے عرض کی: گناہگاروں کو کس طرح مژدہ سنائوں اورصدیقین کوکیسے ڈراؤں ؟ خدا نے فرمایا: اے داؤد! گنہگاروں کو اس بات کی خوش خبری دو کہ میں توبہ قبول کروں گا اوران کے گناہوں کو معاف کر دوں گا اور صدیقین کو ڈراؤ کہ اپنے اعمال پر اترائیں نہیں ، کیونکہ کوئی ایسا بندہ نہیں ہے جس کا محاسبہ کروں مگر یہ کہ وہ ہلاک ہو۔(١)

بے شک خود پسندی اور خود بینی اخلاق اسلامی کی رو سے نہ صرف ایک غیر اخلاقی عمل ہے بلکہ اخلاقی رذائل کی ایک شاہراہ ہے اورجو تعبیریں دینی کتابوںمیں اس کی مذمت میں وارد ہوئی ہیں وہ اس مختصر کتاب کی گنجائش سے باہر ہیں۔(٢)

ج۔خود پسندی کے اسباب:

اسلامی اخلاق کے عالموںنیخود پسندی کے بہت سے اسباب و عوامل ذکر کئے ہیں کہ ان میں سے اہم ترین درج ذیل ہیں:

١۔ جسمانی بنیاد پر خود پسندی، جیسے خوبصورتی، جسم کا تناسب، اس کی صحت اور اس کا قوی ہونا، خوش آواز ہونا ِ اور اس کے مانند۔

٢۔ اقتداراور قدرت کے احساس کی بنا پر خود پسندی، جیسا کہ خدا وندعالم قوم عاد کے بارے میں فرماتا ہے کہ وہ لوگ اسی طرح کے توہم کا شکار ہوکر بولے: '' ہم سے زیادہ قوی کون ہے(٣) ؟'' اس طرح کی خود پسندی عام طور پر جنگ اور ظلم وستم ایجاد کرتی ہے۔

٣۔ عقل ودانش، ذہانت وآگاہی اور دینی اور دنیوی امور کے بارے میں دقیق اور وسیع علم رکھنے کی بنیاد پر خود پسندی۔ اس طرح کی خود پسندی کا نتیجہ خود رائی، ہٹ دھرمی، مشورہ سے بے نیازی کا احساس، دوسروں کو جاہل خیال کرنا اور عالموں اور دانشوروں کی باتوں کو سننے سے پرہیز کرنا ہے۔

٤۔ انتساب کی وجہ سے خود پسندی یعنی باشرف نسب اور با عظمت بزرگوں کی طرف منسوب ہونے کی بنا پر جیسے بنی ہاشم کی طرف منسوب ہونااور سید ہونا یا بزرگ خاندان سے تعلق یاشاہان وسلاطین کی طرف انتساب۔ انسان کاایسا خیال اپنے لئے لوگوں کی خدمت گذاری کی چاہت پیدا کرتا ہے۔

____________________

١۔ اصول کافی، کلینی، ج٢، ص ٣١٤، ح٨۔

٢۔ علامہ مجلسی ،بحار الانوار، ج ٧١، ص ٢٢٨تا ص ٢٣٥۔ کافی، ج ٢، ص ٣١٣، ٣١٤۔

٣۔ سورئہ فصلت، آیت ١٥۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

۷_احكام كو مستدلّ اور منطقى قرار دينا ، ايك مطلوب اور پسنديدہ طريقہ اور اس كى پابندى كے ليے رغبت پيدا كرنے كى روش ہے_لا تتخذوا الهين انّما هو الهٌ واحد

''انّما ہو الہٌ واحد'' كى علت لانا ممكن ہے مذكورہ نكتے كى طرف اشارہ ہو_

۸_خداوند عالم كى يكتا ئي كا لازمہ يہ ہے كہ خوف كو صرف اس كى ذات سے ڈرنا قرار ديا جائے_

انّما هو الهٌ واحد فاياّى فارهبون

۹_متعدد خداوؤں كا اعتقاد ركھنے والے مشركين اپنے معبودوں سے ہر اساں تھے_لا تتخذوا الهين اثنين ...فاياّى فارهبون

''فايّاى '' ميں ''فا'' جو شرط مقدر كا جواب ہے اور اس كو مفعول مقدم كى ابتدا ء ميں لانا جو كہ حصر كا فائدہ دے رہا ہے ممكن ہے مذكورہ نكتہ كى طرف اشارہ ہو_

اديان:اديان كى تعليمات۴; اديان كى ہم آہنگي۴

استدلال:استدلال كى اہميت۷; اوامر ميں استدلال۷

اطاعت:اطاعت پر تشويق كرنے كى روش۷

الله تعالي:الله تعالى اور توحيد ۳;الله تعالى كى نواہي۱; الله تعالى كے مختصّات۶،۸

الوہيت:غير خدا كى الوہيت كا بطلان۵

توحيد:توحيد ذاتى ۲،۵; توحيد كى طرف دعوت ۴;توحيد عبادى ۲;توحيد كا اعلان ۳; توحيد كى اہميت۴; توحيد كے آثار۸

ثنويت :ثنويت كى نفي۱

خوف:باطل معبودوں سے خوف ۹;خوف الہي۶،۸

شرك:شرك سے اجتناب كى دعوت۴; شرك سے اجتناب كے دلائل ۵ شرك سے نہي۱

مديريت:مديريت كى روش۷

مشركين:مشركين كا خوف۹

۴۶۱

آیت ۵۲

( وَلَهُ مَا فِي الْسَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَلَهُ الدِّينُ وَاصِباً أَفَغَيْرَ اللّهِ تَتَّقُونَ )

اور اسى كے لئے زمين وآسمان كى ہر شے ہے اور اسى كے لئے دائمى اطاعت بھى ہے تو كيا تم غير خدا سے بھى ڈرتے ہو_

۱_تمام آسمان اور زمين كے موجودات كى مالكيت اور ان پر حاكميت ، خداوند عالم كى ذات ميں منحصر ہے _

وله ما فى السموات والارض

مالكيت كا لازمہ ، حاكميت ہے ممكن ہے عبارت ''افغير اللّہ تتقون'( كيا تم غير خدا سے ڈرتے ہو) اس بات پر قرينہ ہو كہ ''لہ ما فى السموات و ...'' سے مراد حاكميت بھى ہے_

۲_كائنات ميں متعدد آسمان ہيں _وله ما فى السموات والارض

۳_تمام موجودات پر خداوند عالم كى مالكيت ، اس كى وحدانيت كى دليل ہے_انّما هو اله واحد ...وله ما فى السموات والارض

۴_دين كى تشريع اور قانون سازى كا حق، خداوند عالم كے ساتھ مخصوص ہے_وله الدين واصب

۵_فقط خداوند عالم دائمى اطاعت كے سزاوار ہے_وله الدين واصبا

لغت ميں ''دين'' كے بيان كے گئے معانى ميں سے ايك معنى اطاعت ہے يہ تفسير اس مذكورہ معنى كى بناء پر ہے_

۶_خداوند عالم كى يكتا ئي كا لازمہ يہ ہے كہ دين كى تشريع كا حق اس كے ساتھ خاص ہے _

انمّا هو اله واحد ...وله الدين واصبا

يہ جو خداوند عالم نے دو خداؤں پر عقيدہ سے اجتناب كے حكم كے سلسلہ ميں اپنى كچھ خصوصيات كہ جن ميں دين كا اس كے ساتھ خاص ہونا بھى ہے كا ذكر كيا ہے لہذا احتمال يہ ہے كہ ايسا مذكورہ نكتہ كے بيان كے ليے ہو_

۷_ بندوں كو جزا(سزاوثواب) دينا، خداوند عالم كا دائمى اور مخصوص حق ہے_وله الدين واصبا

''دين'' كے چند معانى ميں سے ايك معنى جزا ہے مذكورہ تفسير اس معنى كى بناء پر ہے_

۸_غير خدا سے ڈرنا ،ايك نا پسنديدہ اور مذموم امر ہے_افغير اللّه تتقون

تقوى كا اصل ميں معنى يہ ہے كہ اپنے آپ كو ايسى چيز سے محفوظ ركھنا جو پريشانى اور خوف كا سبب ہو اور يہ خود خوف كے معنى ميں بھى آيا ہے مذكورہ تفسير دوسرے معنى كى بناء پر ہے_

۴۶۲

۹_خداوند عالم كى وحدانيت اور كائنات پر اس كى تنہا مالكيت پر توجہ كرتے ہوئے ، غير خدا كا توہم كرنا تعجب خيز او رغير منطقى چيز ہے_انمّا هو اله واحد ...وله ما فى السموات والأرض ...افغير اللّه تتقون

''افغير اللّہ'' ميں ہمزہ استفہام انكار ہے اور تعجب كے معنى كو متضمن ہے _ تعجب و ہاں ہوتا ہے جہاں كام غير طبيعى اور معمول سے ہٹ كر ہو يہ جو ''انمّا ہو الہ واحد'' اور ''لہ ما فى السموات والارض'' كى ياد دہانى كے بعد تعجب خيز انذازميں ''افغير اللّہ تتقون'' كا اظہار كيا گيا ہے اس سے مذكورہ تفسير كا استفادہ ہوتا ہے_

۱۰_جزا(ثواب و عقاب) كا خداوند عالم كى ذات ميں منحصر ہونے كا تقاضا يہ ہے كہ خوف كو اسى كے خوف كے ساتھ خاص قرارد يا :جائے_وله الدين واصباً افغير اللّه تتقون

موضوع (غير خدا سے ڈرنے كى مذمت) كى مناسبت سے احتمال ہے كہ ''الدين'' سے مراد ، جزا ہو يہ جو غير خدا سے ڈرنے كى مذمت كى گئي ہے ممكن ہے اس وجہ سے ہو كہ جزا خداوند عالم كے اختيار ميں منحصر ہے اور اس صورت ميں غير خدا سے ڈرنے كا كوئي معنى نہيں بنتا_

۱۱_''سماعة عن أبى عبداللّه عليه‌السلام قال: سا لته عن قول اللّه : ''وله الدين واصباً'' قال واجباً (۱)

سماعة كہتے ہيں كہ ميں نے حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام سے خداوند عالم كے اس قول ''ولہ الدين واصباً'' كے بارے ميں سوال كيا تو حضرت نے فرمايا ''واصب''كا معنى واجب ہے_

آسمان:آسمان كا متعدد ہونا ۲

اطاعت:اللّہ تعالى كى اطاعت۵

امور:حيرت انگيز امور۹

____________________

۱) تفسير عياشى ،ج۲ص۲۶۲،ح۳۷ ،تفسير برہان ،ج۲،ص۳۷۳ ،ح۱_

۴۶۳

الله تعالي:الله تعالى كى حاكميت۱;الله تعالى كى مالكيت۱; الله تعالى كى مالكيت كے آثار۳;الله تعالى كے مختصات ۱،۳،۴،۵،۷،۱۰; حقوق الله ۴،۶،۷

پاداش:پاداش كا سرچشمہ۷،۱۰

توحيد:توحيد كے آثار ۶; توحيد كے دلائل ۳

حقوق:قانون سازى كا حق ۴

خوف:غير خدا سے خوف پر حيرت زدگى ۹;غير خدا سے خوف پر سرزنش ۸; غير خدا سے خوف كے اسباب۱۰

دين:دين كى پيروى كا واجب ہونا۱۱; دين كى تشريع كا سرچشمہ ۴،۶

ذكر:توحيد كا ذكر۹; خدا كى مالكيت كا ذكر۹

روايت:۱۱

سزا:سزا كا سرچشمہ ۷،۱۰

صفات:ناپسنديدہ صفات۸

موجودات:موجودات كا حاكم ،۱; موجودات كا مالك، ۱

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات۱

آیت ۵۳

( وَمَا بِكُم مِّن نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّهِ ثُمَّ إِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَإِلَيْهِ تَجْأَرُونَ )

تا كہ ان نعمتوں كا انكار كرديں جو ہم نے انھيں عطا كى ہيں خير چند روز اور مزے كرلو اس كے بعد انجام معلوم ہى ہوجائے گا _

۱_تمام نعمات، خداوند عالم كے اختيار ميں ہيں _وما بكم من نعمة فمن اللّه

۴۶۴

۲_ خداوند عالم كا تمام نعمتوں كے بنيادى سر چشمہ ہونے كا تقاضا يہ ہے كہ خوف كو اس كى ذات كے خوف سے مخصوص قرارد يا جائے_افغير اللّه تتقون ...وما بكم من نعمة فمن اللّه

چونكہ آيات كا سياق ايكہے او ريہ ايسے نكات كو بيان كہ رہى ہيں جو انسانوں كو خداوند عالم سے خوف كى ترغيب دلاتے ہيں لہذا غير خدا سے خوف كى توبيخ كے بعد ''وما بكم من نعمة '' كا بيان ممكن ہے مذكورہ مطلب كى خاطر ہو_

۳_ انسان ، فقط ضعف كا احساس اور رنج و تكليف ميں مبتلا ہونے كى صورت ميں تضرع اور در خواست كے ساتھ بارگاہ خداوندى كا رخ كرتے ہيں _ثم اذا مسّكم الضّر فاليه تجئرون

''ضرّ'' كا معنى جسمانى اور روحانى بيمارى اور اقتصادى كمى ہے اور ''جؤار مصدر سے'' ''تجئرون'' كا معنى تضرع ميں زيادتى ذكر ہوا ہے_

۴_تمام انسان فطرتى طور پر فقط خداوند عالم كو اپنا ملجاء و ماؤى سمجھتے ہيں _ثم اذا مسَّكْم الضّر فاليه تجئرون

۵_خداوند عالم كا تمام نعمتوں كے ليے سرچشمہ اور اس كا مصيبت اور رنج ميں گرفتار افراد كى تنہا پنا گاہ ہونا ، اس كى وحدانيت اور ( عقيدہ) دوگانگى كے بطلان پر دليل ہے_

وقال اللّه لا تتخذوا الهين اثنين هو اله واحد ...ومابكم من نعمة فمن اللّه ثم اذا مسكم الضرّ فاليه تجئرون

۶_انسانوں كى دنياوى زندگى ، نعمت و محروميت پر مشتمل ہے_وما بكم من نعمة من اللّه ثم اذا مسّكم الضّر

۷_مشكلات و تكاليف ميں گرفتار ہونا، انسانوں كى توحيدى فطرت كو بيدار كرنے كا سبب ہے_

ثم اذا مسّكم الضرّ فاليه تجئرون

۸_ مشكلات سے دوچار ہونے كے وقت ، انسانوں كا خداوند عالم كى طرف متوجہ ہونا ، وجود خداوند ى پر دليل ہے _

ثم اذا مسّكم الضّر فاليه تجئرون

اگرچہ ما قبل آيات ميں خداوند عالم كا شريك قرار دينے سے منع كيا گيا ہے اور بعد والى آيت ميں بھى انسانوں كے شرك سے ان كے مشكلات كے بارے ميں گفتگو ہوئي ہے اور ان آيات كا سياق توحيد كے بارے ميں ہے ليكن ان تمام اوصاف كے ذريعہ دلالت اقتضائي كى بناء پر يہ استفادہ كيا جا سكتا ہے كہ اس طريقہ سے بھى وجود خداوند عالم قابل اثبات ہے _

ابتلائ:

۴۶۵

سختى ميں ابتلاء كے آثار۷

الله تعالي:الله تعالى كى پناہ ۴،۵; الله تعالى كى نعمتيں ۱; الله تعالى كے مختصات۴; خدا شناسى كے دلائل۸

انسان:انسان كى پناہ گاہ۳،۴،۵; انسان كى خصوصيات ۳; انسانوں كى زندگى كے تحولات۶: انسان كى فطريات۴; انسان كے عجز كے آثار ۳; سختى ميں انسان۳

توحيد:توحيد كے دلائل۵

ثنويت:ثنويت كے بطلان كے دلائل۵

خوف:خوف خدا كے دلائل۲

ذكر:سختى كے وقت ذكر خدا۸

زندگي:دنياوى زندگى ميں محروميت۶; دنياوى زندگى ميں نعمت ۶

سختي:سختى ميں تضرّع۳

فطرت:فطرت توحيدي۷; فطرت كو متنبّہ كرنے كے اسباب۷

نعمت:نعمت كا سرچشمہ۱،۲،۵

آیت ۵۴

( ثُمَّ إِذَا كَشَفَ الضُّرَّ عَنكُمْ إِذَا فَرِيقٌ مِّنكُم بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُونَ )

اور جب وہ تكليف كو دور كرديتا ہے تو تم ميں سے ايك گروہ اپنے پروردگار كا شريك بنانے لگتا ہے _

۱_مصائب سے دوچار ہونے كے وقت ، انسانوں كا تضرع كى حالت ميں خداوند عالم كى طرف رخ كرنے كے باوجود مشكلات كے دور ہوجانے كے بعد ان ميں ايك گروہ منہ پھير ليتا ہے اور شرك اختيار كر ليتا ہے _

ثم اذا مسّكم الضرّ فاليه تجئرون _ثم اذا كشف

۴۶۶

الضرّ عنكم اذا فريق منهم برّبوهم يشركون

۲_انسانوں كى مشكلات اور مصائب كو دور كرنا ، خداوند عالم كے اختيار ميں ہے_ثم اذل كشف الضرّ عنكم

۳_ناگوار حالات سے دوچار، انسانوں كى دعا اور تضرّع خداوند عالم كى بارگاہ ميں مستجا ب ہوتى ہے_

اذا مسّكم الضرّ فاليه تجئرون _ثم اذا كشف الضرّ عنكم

خداوند عالم كى بارگاہ ميں ملتمسانہ دعا كرنے والے مصائب ميں گرفتار افراد سے ناگوراى كو برطرف كرنا ، ممكن ہے ان كى دعاؤں كے سبب ہو_

۴_مشكلات سے نجات يافتہ انسانوں كا خداوند عالم كى ربوبيت ميں شرك كرنا در حالانكہ انہى مصائب نے خداوند عالم كى طرف متوجہ كيا تھا ،ايك خلاف توقع اور تعجب خيز امر ہے_

ثم اذا كشف الضّر عنكم اذا فريق منكم بربهّم يشركون

اس مقام پر ''اذا'' فجائيہ كا استعمال جو كہ خلاف توقع اور ناگہانى امور ميں استعمال ہوتا ہے ممكن ہے مذكورہ مطلب پر دليل ہو ضمير ''ہم'' كى طرف كلمہ ''رب'' كا مضاف ہونا بھى ممكن ہے مذكورہ مطلب پر مؤيد ہو_

۵_انسان، آسائش اور مصائب سے چھٹكارے كے وقت يكساں نہيں ہيں _

ثم اذا كشف الضّر عنكم اذا فريق منكم بربهّم يشركون

۶_ايسے انسان موجود ہيں جو ہر حالت ميں اپنے توحيدى عقيدہ كى حافظت كرتے ہيں _

ثم اذا كشف الضّر عنكم اذا فريق منكم بربّهم يشركون

۷_مصائب سے چھٹكارا پانے والے كہ جنہوں نے شرك اختيار كيا با وجود اس كے كہ انہوں نے مصائب ميں دوچار ہوتے وقت خداوند عالم كى بارگاہ ميں التماس كى تھى انہوں نے توحيد ربوبى كو قبول نہيں كيا اور اپنى نجات كے سلسلہ ميں دوسرے اسباب كو دخيل سمجھتے ہيں _ثم اذا كشف الضّر عنكم اذا فريق منكم بربّهم يشركون

''بربّہم'' فعل ''يشركون ''كے متعلق ہے مطلق كلام لانے يا توحيد كے باقى موارد كے ذكر كے بجائے كلمہ ''رب'' كا ذكر ان كى ربوبيت ميں شرك سے حكايت ہے اور خود يہى ممكن ہے اس بات پر قرينہ ہو كہ ان كا شرك ربوبيت كو اختيار كرنے كا شايد سبب ان كے عقيدہ ميں دوسرے اسباب كا موثر ہونا بھى ہو_

۸_خداوند عالم كے ذريعہ، انسانوں سے مصائب و مشكلات كو دوركرنا ظاہرى اسباب و عوامل كى بناء پر ہے_

۴۶۷

ثم اذا كشف الضّر عنكم اذا فريق منكم بربّهم يشركون

ايمان:سختى ميں ايمان ۱

الله تعالي:الله تعالى كى افعال ۲; الله تعالى كے افعال كے مجاري۸

امور:تعجب انگيز امور۴

انسان:آسائش كے وقت انسان۵; انسانوں كا تفاوت ۵; سختى كے خاتمے پر انسان۵

توحيد:توحيد ربوبى كو جھٹلانے والے ۷

دعا:دعا كا مستجاب ہونا ۳

سختي:سختى كے ختم ہونے كا سرچشمہ۲،۸;سختى ميں تضرّع ۳ ، ۷; سختى ميں دعا ۳

شرك:سختى كے ختم ہونے كے وقت شرك۱،۴

طبيعى اسباب:طبيعى عوامل و اسباب كا كردار۸

مشركين:مشركين كا عقيدہ ۷; سختى كے ختم ہونے كے وقت مشركين۷; سختى ميں مشركين ۷

موحدين:موحدين كى استقامت۶

نظام علّيت۸

آیت ۵۵

( لِيَكْفُرُواْ بِمَا آتَيْنَاهُمْ فَتَمَتَّعُواْ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ )

تا كہ ان نعمتوں كا انكار كرديں جو ہم نے انھيں عطا كى ہيں خير چند روز اور مزے كرلو اس كے بعد انجام معلوم ہى ہوجائے گا _

۱_مصائب سے نجات يافتہ افراد كا شرك ربوبيت ، خداوند عالم كى نعمتوں كى ناشكرى ہے_

۴۶۸

بربّهم يشركون ليكفر وا بما آتيناهم

احتمال ہے كہ''ليكفروا'' ميں لام عاقبت كے ليے ہو اس بناء پر معنى يوں ہوگا :ان كے شرك كى عاقبت نعمتوں كا كفران ٹھرى لازم الذكر ہے كہ ''ما آتينا ہم'' كى مناسبت سے ''يكفروا''سے مراد ،ناشكرى ہے _

۲_مصائب سے چھٹكارا پانے والوں كا شرك كى طرف ميلان ركھنے كا مقصد ، اپنى نجات كے خدائي ہونے سے انكار كرنا ہے_ثم اذا مسّكم الضرّ ...ليكفروا بما آتينا هم

احتمال يہ كہ ''ليكفروا'' ميں لام ''كى '' كے معنى ميں ہو اس بناء پر آيت كا معنى يوں ہوگا انہوں نے شرك اختيار كيا تا كہ يہ ثابت كريں كہ ان كى نجات خداوند عالم كى طرف سے نہيں ہے اس تفسير ميں ''ما اتينا ہم'' سے مراد ، مصائب كو دور كرنا اور ''يكفروا'' كا معنى چھپانا اور انكار كرنا ہے_

۳_مصائب اور مشكلات كو دور كرنا ، خداوند عالم كى نعمت اور عطيّہ ہے_ثم اذا كشف الضّر عنكم ...بما آتينا هم

۴_ قد رناشناس مشركين، خداوند عالم كى شديد مذّمت كے مصداق ٹھہرے ہيں _

بربّهم يشركون _ليكفروا ...فتمتّعوا فسوف تعلمون

۵_نعمتوں كى ناشكرى كرنے والے مشركين ،الہى نعمتوں كے كفران كے باوجود ان سے بہرہ مند ہوئے اور انہيں زندگى كى مہلت مل گئي ہے _بربّهم يشركون _ليكفروا بما اتينا هم فتمتّعوا فسوف تعلمون

۶_ناسپاس مشركين ، اپنى ناشكرى كى سزا سے مطلع ہوجائيں گے_بربّهم يشركون ...فتمتعوا فسوف تعلمون

۷_مشكلات و مصائب سے نجات پانے والے ناسپاس مشركين ، خداوند عالم كے شديد قہر و غضب كا نشانہ ہيں _

ثم اذا كشف الضّر عنكم اذا ...بربّهم يشركون ...فتمتعوا فسوف تعملون

احتمال ہے كہ غيب كے صيغہ سے مخاطب كى طرف عدول كرنا ، خداوند عالم كے قہر و غضب كى شدت كو بيان كرنے كے ليے ہو_

۸_دنياوى لذتوں اور نعمتوں سے بہرہ مند ہونے كے بعد مشركين كا عذاب الہى ميں گرفتار ہونا_

فتمتعوا فسوف تعلمون

الله تعالي:الله تعالى كى طرف سے نجات دينے كو جھٹلانے والے ۲; الله تعالى كى نعمتيں ۳; الله تعالى كے انذار۴

شرك:

۴۶۹

سختى كے ختم ہونے كے بعد شرك۱

كفران:كفران نعمت۱،۵; كفران نعمت كى سزا ۶

مشركين:سختى كے ختم ہوتے وقت۲; مشركين كا كفر ۱،۴،۵; مشركين كو عذاب ۸; مشركين كو مہلت۵;

ناسپاس مشركين پر غضب۷;مشركين كى آگاہى ۶; مشركين كے انذار_۷; مشركين كے مقاصد ۲; مشركين كى دنياوى نعمت

مغضوبان خدا:۷

نعمت:سختى كے ختم ہونے كے نعمت۳

آیت ۵۶

( وَيَجْعَلُونَ لِمَا لاَ يَعْلَمُونَ نَصِيباً مِّمَّا رَزَقْنَاهُمْ تَاللّهِ لَتُسْأَلُنَّ عَمَّا كُنتُمْ تَفْتَرُونَ )

اور يہ ہمارے ديئے ہوئے رزق ميں سے ان كا بھى حصّہ قرار ديتے ہيں جنھيں جانتے بھى نہيں ہيں تو عنقريب تم سے تمھارے افترا كے بارے ميں بھى سوال كيا جائےگا_

۱_مشركين ، عطا شدہ رزق ميں اپنے معبودوں كے ليے حصہ كے قائل تھے_

يشركون و يجعلون لما لا يعلمون نصيباً ممّا رزقناهم

آيت مشركين كى خلاف كاريوں كے بيان كا تسلسل ہے مذكورہ بالا مطلب اس پر موقوف ہے كہ ''ما'' موصول سے مراد معبود ہيں اور فعل ''يعلمون'' كا مفعول بہ محذوف ہے_

۲_مشركين ، امور كى انجام دہى ميں اسباب اور ظاہري علل كى مستقل تاثير كے قائل تھے_

بربهّم يشركون _ليكفروا بما اتيناهم و يجعلون لما لا يعلمون نصيباً ممّا رزقناهم

مذكورہ بالا تفسير اس صورت ميں ہے جب ''ما '' موصول سے مراد ، وہ اسباب اور عوامل ہوں جنہيں مشركين مشكلات سے اپنى نجات كے سلسلہ ميں دخيل سمجھتے تھے در حالانكہ ان كى كيفيت سے آگاہ نہيں تھے اور يہ جو خداوند عالم نے مشركين كو اس فكر كى وجہ سے مورد سرزنش قرار ديا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ ايسے اسباب كى

۴۷۰

مستقل تاثير كے قائل تھے ورنہ سرزنش اور مذمت كا كوئي مقام نہيں تھا_

۳_مشركين اپنى آمدنى كا كچھ حصّہ اپنے معبودوں كے ليے مخصوص كرتے تھے_ويجعلون لما لا يعلمون نصيباً ممّا رزقناهم

مذكورہ بالا مطلب اس بناء پر ہے جب ''لا يعلمون'' كا فاعل ''ما'' ہو كہ جس سے مراد، بْت ہوں اور اس كا مفعول حذف ہوا ہو اس بناء پر عبارت كا معنى يوں ہوگا مشركين ايسے موجودات كے ليے حصّہ قرار ديتے ہيں جنہيں كچھ معلوم نہيں ہے_

۴_مشركين كے معبود، بے خبر اور نا آگاہ موجودات ہيں _ويجعلون لما لا يعلمون نصيب

احتمال ہے كہ ''يعلمون'' كى ضمير كا مرجع وہ ''آلہہ'' ہو جس كا ''ما'' سے استفادہ ہوتا ہے لہذا جملہ''لا يعلمون'' ''ما'' كى توصيف كے بيان كے ليے ہے_

۵_تمام انسا نوں كى مانند مشركين كا رزق ، خداوند عالم كے اختيار ميں ہے_ممّا رزقناهم

۶_ اپنے اموال كا، كچھ حصّہ باطل معبودوں كے ليے مخصوص قرار دينا ، مشركين كى بدعت ہے_

ويجعلون لما يعلمون نصيباً ممّا رزقناهم تالله تسئلنّ

۷_ عطا شدہ رزق ميں باطل مبعودوں كا حصّہ خيال كرنے كى خداوند عالم نے سرزنش كى ہے_

ويجعلون لما يعلمون نصيباً ممّا رزقناهم تالله تسئلنّ

۸_الله تعالى كے عطا كردہ رزق ميں باطل مبعودوں كا كچھ حصّہ مخصوص كرنے پر خداوند عالم نے مذمت كى ہے_

يجعلون لّما لا يعلمون نصيباً ممّا رزقناهم تاللّه لستئلنّ

۹_مشركين كو خبردار اور مورد مواخذہ قرار دينے كے ليے خداوند عالم نے اپنى ذات كى قسم اٹھائي ہے_

تاللّه تسئلنّ عمّا كنتم تفترون

۱۰_خداوند عالم پر افتراء باندھنے كى وجہ سے مشركين كا مورد مواخذہ قرار پانا ،يقينى امر ہے _تالله لتسئلنّ عمّا كنتم تفترون

۱۱_ مشكلات سے نجات دينے ( جو كہ خداوند عالم كا كام ہے) كى نسبت غير خدا كى طرف دينے پر شديد مؤاخذہ كيا جائے گا_

ثم اذا كشف الضرّ عنكم اذا فريق منكم بربّهم يشركون ...ويجعلون لما لا يعلمون نصيباً ...تاللّه لتسئلنّ عمّا كنتم تفترون

۴۷۱

۱۲_ بندوں كو رزق پہنچانے ميں باطل معبودوں كو دخيل سمجھنا، افتراء ہے_

ويجعلون لما لا يعلمون نصيباً ممّا رزقنا هم تالله لتسئلن عمّا كنتم تفترون

ممكن ہے ''تفترون'' كا متعلق مشركين كى جانب سے باطل مبعودوں كے ليے ''جعل نصيب'' (حصّہ قرارد دينا ہو) اور معبودوں كے سہم قرار دينے سے مراد ، انہيں رزق پہنچانے كے سلسلہ ميں دخيل سمجھنا ہے_

۱۳_خداوند عالم پر افتراء با ندھنا ( جو امر رزق ميں خداوند عالم كے شريك قرارد ينے پر مشتمل ہو) شرك ربوبيت پر اعتماد ركھنے والوں كا دائمى فعل ہے_بربّهم يشركون ...ويجعلون لما لا يعلمون نصيباً ممّا رزقناهم ...كنتم تفترون

۱۴_ خداوند عالم پر افتراء باندھنا ، خداوند عالم كے شديد غضب و ناراضگى كا سبب ہے_

ويجعلون لمّا لا يعلمون نصيباً ممّا رزقنا هم تالله لتسئلن عمّا كنتم تفترون

مخاطب سے غائب كے صيغہ كى طرف عدول ، ممكن ہے مذكورہ نكتہ سے حكايت ہو _ لفظ جلالہ كے ذريعہ قسم اٹھانا اور فعل مجہول ''تْسئلنّ '' پر نون تاكيد كا آنا، نيز ممكن ہے مذكورہ تفسير پر مؤيّد ہو_

۱۵_ شرك ربوبيّت (رزق پہنچانے ميں خدا كا شريك قرار دينا) كے معتقد افراد نے اپنے اعتقاد كى بنياد ، خود ساختہ جھوٹ پر ركھى ہے_بربّهم يشركون ...ويجعلون لما لا يعلمون نصيباً ...عمّا كنتم تفترون

(مصدر ثلاثى مزيد)سے ''يفترون''كا معنى جھوٹ ہے اس كے اور كذب (خبر كا واقع كے مطابق نہ ہونا) كے در ميان فرق يہ ہے كہ ''افتراء ' خود ساختہ اور جعلى ہے_

عوامل اور اسباب كے كرداركو مستقل قرارد ينا ، ايسا افتراء ہے جس پر مواخذہ كيا جا ئيگا_

ويجعلون لما لا يعلمون نصيباً ...تاللّه لتسئلن عمّا كنتم تفترون

افترائ:خدا پر افتراء باندھنے كے آثار ۱۴; افتراء كى مغضوبيت۱۴; افتراء كے موارد۱۲،۱۶

الله تعالي:الله تعالى كے انذار۹; الله تعالى كى رازقيّت۵; الله تعالى كى سرزنشيں ۷،۸; الله تعالى كے مواخذے ۱۱ ، ۱۶; الله تعالى كے غضب كے اسباب۱۴

باطل:باطل معبود وں كا جہل ۴; باطل معبودوں كى رازقيّت ۱۲،۱۳; باطل معبودوں كے سہم المال كى سرزنش۸; باطل معبودوں كا سہم المال۳،۶; باطل معبود اور رازقيّت۱

خدا پر افتراء باندھنے والے:

۴۷۲

خدا پر افتراء باندھنے والوں كے مواخذہ كا حتمى ہونا۱۰

روزي:روزى كا سرچشمہ ۵

شرك:رازقيّت ميں شرك۱،۱۲،۱۳;رازقيّت ميں شرك كى سرزنش ۷;شرك افعالى ۲; شرك افعالى پر مواخذہ۱۶; شرك ربوبى كا فضول ہونا ۱۵

طبيعى عوامل:طبيعى عوامل كا كردار۲،۱۶

عقيدہ:باطل معبودوں كى رازقيّت پر سرزنش ۷; شرك ربوبى كا عقيدہ۱۳

قرآن:قرآن مجيد كى قسم۹

قسم:خدا كى قسم۹

مشركين:مشركين اور باطل معبود ۳; مشركين كا مواخذہ ۹;مشركين كى بدعت گذاري۶; مشركين كى تہديد ۹; مشركين كى روزي۵; مشركين كى فكر۱،۲; مشركين كى كذب بياني۱۵; مشركين كے افتراء ۱۳; مشركين كے عقيدتى مباني۵; مشركين كے مواخذ كا حتمى ہونا۱۰

نجات:غيرخدا كى طرف نجات دينے كى نسبت كى سزا۱

آیت ۵۷

( وَيَجْعَلُونَ لِلّهِ الْبَنَاتِ سُبْحَانَهُ وَلَهُم مَّا يَشْتَهُونَ )

اور يہ اللہ كے لئے لڑكياں قرار ديتے ہيں جب كہ وہ پاك اور بے نياز ہے اور يہ جو كچھ چاہتے ہيں وہ سب انھيں كے لئے ہے _

۱_زمانہ جاہليت كے مشركين ، خداوند عالم كى بيٹيوں كے قائل تھے_ويجعلون للّه البنات

۲_مشركين ، وجود خدا كے معتقد تھے_يجعلون للّه البنات

۳_خداوند عالم، بيٹيوں جيسى اولاد سے منزّہ ہے_

۴۷۳

ويجعلون للّه البنات سبحانه

۴_خداوند علم كے ليے اولاد (بيٹى كا ہونا ) نقص ہے_ويجعلون للّه البنات سبحانه

تنزيہ كے ليے ''سبحان'' كا ذكر خداوند عالم كو اس نسبت سے منزّہ و مبرہّ قرار ديناہے جو مشركين اس كى طرف ديتے تھے اور يہ تنزيہ اس نقص و عيب سے حكايت ہے جو خداوند عالم كى طرف اولادكى نسبت دينے سے پيدا ہوتاہے_

۵_خداوند عالم، اولاد و نسل سے منزّہ ہے_ويجعلون للّه البنات سبحانه

۶_مشركين كا خدا كى طرف بيٹيوں كى نسبت دينا ، افتراء اور خودساختہ جھوٹ ہے_

ويجعلون للّه البنات سبحانه

۷_مشركين كے تمايلات كى بنياد ، خواہشات نفسانى تھي_ولهم ما يشتهون

۸_مشركين كے نزديك ، بيٹا ركھنا پسنديدہ اور بيٹى كا ہونا نا پسنديدہ تھا_ويجعلون للّه البنات ...ولهم ما يشتهون

قرينہ مقابلہ كى بناء پر احتمال ہے كہ ''ما'' سے مراد بيٹے كى صورت ميں اولاد ہے_ مشركين كا خداوند عالم كى طرف بيٹى كى نسبت دينے كا مقصد اس كى تنقيص تھا اور يہ اس چيز سے حكايت ہے كہ وہ لڑكى كے وجود سے نفرت كرتے تھے_

۹_مشركين كا خداوند عالم كے ليے بيٹى ركھنے اور اپنے ليے دلخواہ اولاد ( بيٹا ) ركھنے كے بارے ميں اظہار نظر كى بنياد، خواہش نفسانى تھي_ويجعلون لله البنات ...ولهم ما يشتهون

۱۰_ مشركين ، خداوند عالم كى طرف بيٹى كى نسبت دينے كے مقابلے ميں اپنى طرف دلخواہ اولاد (بيٹے) كى نسبت ديتے تھے_

ويجعلون للّه البنات ...ولهم ما يشتهون

''ولہم'' ميں ممكن ہے ''واو'' حاليہ ہو او ريہ بھى ممكن ہے كہ عاطفہ ہو_ عاطفہ ہونے كى صورت ميں جملہ ''ما ...'' ''البنات'' پر عطف كى وجہ سے محلاً منصوب ہوگا بہرحال ہر صورت ميں مذكورہ تفسير قابل استفادہ ہے اور خداوند عالم كى طرف بيٹى كى نسبت دينا اس بات پر قرينہ ہے كہ ''ما يشتہون''ميں ''ما '' سے مراد، بيٹے كى صورت ميں اولاد ہے_

اسماء وصفات:صفات جلال ۳،۴،۵

افترائ:الله تعالى پرافترائ۶

الله تعالي:

۴۷۴

الله تعالى اور بيٹى ۳،۴; الله تعالى اور توليد مثل ۵; الله تعالى كا منزّہ ہونا ۳،۴،۵;الله تعالى كى طرف بيٹى كى نسبت ۱،۶،۹،۱۰

جاہليت:جاہليت كے مشركين ۶،۹;جاہليت كے مشركين كا عقيدہ ۱

عقيدہ:الله تعالى كے فرزند ركھنے كا عقيدہ۱

علائق و محبت:بيٹے كے ساتھ محبت۸

مشركين:مشركين اور بيٹى ۸; مشركين كا بيٹے كو پسند كرنا۸،۹،۱۰; مشركين كا عقيدہ ۲; مشركين كى خواہشات نفسانى كى پرستش۷;مشركين كى خدا شناسى ۲; مشركين كى فكر ۱۰;مشركين كے افترائ۶; مشركين كے خواہشات كى پيروى كے آثار ۹; مشركين كے علائق و بحث ۸،۱۰; مشركين كے ميلانات كا سرچشمہ ۷

آیت ۵۸

( وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالأُنثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدّاً وَهُوَ كَظِيمٌ )

اور جب خود ان ميں سے كسى كو لڑكى كى بشارت دى جاتى ہے تو اس كا چہرہ سياہ پڑجاتا ہے اور وہ خون كے گھونٹ پينے لگتا ہے _

۱_ لڑكى كى ولادت كى خبر سن كر زمانہّ جاہليت كے مشركين كا چہرہ، غصّہ اور ناراضگى كى شدت سے متغيّرہوجاتاتھا_

واذا بشّر أحدهم بالانثى ظلّ و جهه مسودّا

۲_ انسان كے نفيساتى حالات كا اثر، اس كے جسم اور چہرہ پر ظاہر ہوتا ہے_واذا بشّر أحدهم بالانثى ظّل وجهه

اگر چہ آيات ميں فقط ايك مقام پر ذكرہوا ہے كہ خبرچہر ے كے تغيّر و تبدل كا باعث ہوتى ہے ليكن يہى ايك مورد مذكورہ دعوى كے ليے كافى اور اس قضيہ كو ثابت كررہا ہے_

۳_ ناگوار خبريں ، انسان پر اپنا اثر چھوڑتى ہيں _واذا بشّر احدهم بالانثى ظلّ وجهه مسوّدا

۴_ بيٹى كى ولادت كى خبر سن كر مشركين كا دل غم و غصّہ

۴۷۵

سے بھرجاتا تھا اور وہ انتہائي شرمندگى كى وجہ سے اپنا چہرہ نہيں دكھا تے تھے_واذا بشرّ احدهم بالانثى

لغت ميں ''كظم ''كا معنى نفس كے خروج كا راستہ ہے اور نفس كے حبس اور سكوت كے معنى ميں بھى استعمال ہوتا ہے اور آيت ميں ''كظيم'' سے مراد ، و ہ شخص ہے جو غم واندہ سے پر ہو _

۶_مشركين، بيٹياں ركھنے سے نفرت كرنے كے با وجود انہيں خداوند عالم كى طرف نسبت ديتے تھے _

ويجعلون للّه البنات ...واذا بشر أحدهم بالانثى ظلّ وجهه مسودّا كظيم

۷_انسان اپنے غصّہ اور جذبات كو كنٹرول كرنے پر قادر ہے_واذا بشّر احدهم بالانثى ظلّ وجهه مسودّا وهو كظيم

احساسات :احساسات كا معتدل كرنا۷

الله تعالي:الله تعالى كى طرف بيٹى كى نسبت۶

انسان:انسان كا غضب۷; انسان كى انعطاف پذيري۳; انسان كى صفات۳،۷

بدن:بدن ميں موثر اسباب۲

بشارت:فرزند كى ولاد ت كى بشارت۴

جاہليت:جاہليت كى رسوم; جاہليت كے مشركين۱،۵،۶; جاہليت ميں بيٹى ۱; جاہليت ميں فرزند كى ولايت

حالات رواني:حالات روانى كے آثار ۲

مشركين:مشركين اور بيٹى ۱،۵،۶; مشركين كا غم ۵; مشركين كى صورت ۱;; مشركين كى فكر۶

مشركين كے غضب كے اسباب۱

۴۷۶

آیت ۵۹

( يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلاَ سَاء مَا يَحْكُمُونَ )

قوم ہے منھ چھپا تا ہے که بہت برى خبرسنائي گئى ہے اب اس کو ذلت سميت زنده رکهے يا خاک ميں ملادے يقينا يہ لوگ بہت برا فيصلہ كر رہے ہيں _

۱_زمانہ جاہليت ميں بيٹياں ركھنے والے مشركين كا مخفى اورچھپنے كا سبب وہ ناراضگى تھى جو بيٹى كى ولادت كى خبر سے پيدا ہوتى تھي_واذا بشرّ احدهم بالانثى ...يتورى من القوم من سؤ ما بشرّ به

۲_لڑكى كى ولادت كى خبر، مشركين كے ليے ناگور اور برى خبر تھي_يتورى من القوم من سؤ ما بشرّ به

۳_زمانہ جاہليت ميں خاندانوں پرمرد كى حاكميت_

واذا بشّر احدهم بالانثى ظلّ وجهه ...يتورى من القوم من سو ما بشر به ايمسكه على هون ام يدسّه فى التراب

۴_مشركين اس بات ميں متحيّر اور متردّدتھے كہ نوذاد بيٹى كى كفالت ذلت كے ساتھ كريں يا اسے زندہ در گور كرديں _

أيمسكه على هون ام يدسّه فى التراب

''يمسكہ'' ميں ضمير كامرجع ''مبشر بہ'' ہے اور اس سے مراد ، نوزاد بيٹى ہے اور ''على ہون'' ''يمسكہ''كى ضمير مفعول كے ليے حال ہے ''ہون'' كا معنى ذلّت اور خوارى ہے (دسّ) مصدر سے ''يدسّ'' كا معنى مخفى كرنا ذكر ہوا ہے_

۵_زمانہ جاہليت ميں خواتين اور لڑكيوں كى كوئي قدر و قيمت نہيں تھى اور وہ مايہ ننگ و عار شمار ہوتى تھيں _

أيمسكه على هون ام يدسّه فى التراب

۶_زمانہ جاہليت ميں بيٹى ركھنے والے مشركين، بيٹيوں

۴۷۷

كى كفالت كو اپنے ليے ننگ وعار سمجھتے تھے_أيمسكه على هون

مذكورہ بالا مطلب اس بناء پر ہے كہ''على ہون'' ''يمسكہ'' كى ضمير فاعل كے ليے حال ہو _

۷_زمانہ جاہليت ميں مرد حضرات كو اپنى اولاد پر مكمل ولايت و اختيار حاصل تھا _

أيمسكه على هون ام يدسّه فى التراب

يہ جو خداوند عالم نے نوزاد بيٹيوں كے بارے ميں مشركين كے اس ارادے كا ذكر كيا ہے كہ وہ انہيں زندہ ركھيں يا زندہ در گور كرديں اور كسى دوسرے شخص كو دخيل اور اعتراض كرنے والا قرار نہيں ديا لہذا ممكن ہے يہ مذكورہ نكتہ سے حكايت ہو_

۸_ بيٹى ركھنے والے مشركين ، بيٹى ركھنے كى وجہ سے اپنى اجتماعى شخصيت كو خطر ے ميں ديكھتے تھے _

يتورى من القوم من سوء ما بشرّ به أم يمسكه على هون أم يدسّه فى التراب

۹_مشركين كى طرف سے خداوند عالم كے ليے بيٹى اور اپنے ليے بيٹا قرار دينا ، نہايت قبيح اور نامناسب فيصلہ تھا_

ويجعلون للّه البنات سبحانه و لهم ما يشتهون الأ ساء ما يحكمون

۱۰_زمانہ جاہليت كے مشركين كى طرف سے لڑكيوں اور لڑكوں كے ما بين تفاوت كا قائل ہونا، نا مناسب اور قبيح فيصلہ تھا_ويجعلون للّه البنات سبحانه ولهم ما يشتهون ...الا ساء ما يحكمون

۱۱_نوزاد بيٹيوں كى ذلّت كے ساتھ كفالت يا انہيں در گور كرنے كے بارے ميں مشركين كا ارادہ نہايت قبيح اور نامناسب ارادہ تھا_أيمسكه على هون ام يدسّه فى التراب الا ساء ما يحكمون

۱۲_ خداوند عالم نے مشركين كو نوزاد بيٹيوں كے بارے ميں تصميم لينے پر خبردار كيا ہے_

أيمسكه على هون أم يدسّه فى التراب الا ساء ما يحكمون

۱۳_ اسلام نے عورتوں اور لڑكيوں كى شخصيت اور حقوق كا دفاع كيا ہے_ألا ساء ما يحكمون

الله تعالى :الله تعالى كى طرف بيٹى كى نسبت دينا۹; الله تعالى كے انذار۱۲

باپ:باپ كى ولايت۷

بيٹي:بيٹى كا زندہ در گور كرنا۴; بيٹى كے زندہ در گور كرنے

۴۷۸

كا ناپسنديدہ ہونا ۱۱

جاہليت:جاہليت كى رسوم۱،۳،۱۱; جاہليت كے مشركين ۱، ۲ ،۱۲; جاہليت كے مشركين كا بيٹے سے محبت كرنا ۹; جاہليت كے مشركين كا متحير ہونا ۴; جاہليت كے مشركين كى فكر۶،۸; جاہليت كے مشركين كى ناپسنديدہ قضاوت ۹،۱۰; جاہليت ميں امتيازى سلوك ۱۰ ; جاہليت ميں بيٹى ۲،۴،۸،۱۱،۱۲; جاہليت ميں بيٹى كا بے وقعت ہونا ۵; جاہليت ميں بيٹى كى ذلّت۶; جاہليت ميں خاندان كا نظام ۳; جاہليت ميں عورت كابے وقعت ہونا ۵; جاہليت ميں مرد كى حاكميت ۳،۷

ذلت:ذلّت كے اسباب

عورت:عورت كى شخصيت۱۳;عورت كے حقوق۱۳

فرزند:فرزند پر ولايت۷

مشركين:مشركين اور بيٹى ۱،۲; مشركين كا فرار ۱; مشركين كے انذار ۱۲

آیت ۶۰

( لِلَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِالآخِرَةِ مَثَلُ السَّوْءِ وَلِلّهِ الْمَثَلُ الأَعْلَىَ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ )

جن لوگوں كا آخرت پر ايمان نہيں ہے ان كى مثال بدترين مثال ہے اور اللہ كے لئے بہترين مثال ہے كہ وہى صاحب عزّت اور صاحب حكمت ہے _

۱_ زمانہ جاہليت كے مشركين كا بيٹى كو قتل كرنے كا سبب، عالم آخرت پر ايمان نہ ركھنا ہے_

واذا بشرّ احدهم بالانثى يتورى من القوم ...ام يد سّه فى التراب ...للذين لا يومنون بالاخرة

۲_ عالم آخرت پر ايمان نہ ركھنے والے ، قبيح صفت اور بدسيرت كے مالك ہيں _

للذين لا يومنون بالاخرة مثل السّوئ

''مثل السّوئ''سے مراد جيسا كہ مفسرين كى جماعت نے كہا ہے _برى اور قبيح صفت ہے_

۴۷۹

۳_عصر جاہليت كے مشركين، عالم آخرت كے منكر تھے_للذين لا يومنون بالآخرة

يہ آيت ان آيات كے سياق ميں ہے جو مشركين كى مذمت كے بارے ميں تھيں اور يہ خود اس پر قرينہ ہے كہ ''الذّين'' سے مراد ، مشركين ہيں _

۴_ جاہل مشركين كے نزديك بيٹى ركھنا ، قبيح صفت شمار ہوتا تھا_للذين لا يومنون بالآخرة مثل السوّئ

''مثل السوئ'' ايسى مثل ہے جو كہ جاہل مشركين بيٹى والوں كے ليے استعمال كرتے تھے اور ان كى اس سے مراد بد حالى اور برائي كے ليے ضرب المثل تھا يہ جو خداوند عالم نے نوزاد بيٹى كے بارے ميں ان كے نظريے كو بيان اور ان كى مذمت كرنے كے بعد ، ''مثل السوئ'' كو خود ان كى طرف نسبت دى ہے ممكن ہے مذكورہ مطلب پر قرينہ ہو_

۵_ عالم آخرت پر ايمان نہ لانا،قبيح ہے نہ كہ بيٹى ركھنا_للذين لا يومنون بالآخرة مثل السّوئ

احتمال ہے كہ آيت ان مشركين پر انگشت نمائي كررہى ہے جو بيٹى ركھنے كو''مثل السّوئ'' سے تعبير كرتے تھے اور خداوند عالم جواب دے رہا ہے كہ عالم آخرت پر ايمان نہ ركھنا ''مثل السّوئ'' ہے_

۶_عالم آخرت پر ايمان نہ ركھنے كى وجہ سے مشركين، قبيح صفت كے مالك ہيں _

للذين لا يومنون بالآخرة مثل السّوئ

اسم ظاہر كى جگہ'' الذين'' موصول كو قرار دينا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ ان كا بد صفت سے متصف ہونا ان كے كفر كى وجہ سے ہے_

۷_عقيدہ، انسان كى روحانى صفات اور خصلتوں پر موثر ہوتا ہے_للذين لا يومنون بالآخرة مثل السّوئ

۸_فقط خداوند عالم، بلند ترين صفات كا مالك ہے_ولله المثل الا علي

۹_بلند ترين صفات كا مالك ہونا، اس بات پر دليل ہے كہ خداوند عالم مشركين كى ناروا نسبتوں سے منزّہ ہے_

ويجعلون لما لا نصيباً ممّا رزقناهم ...كنتم تفترون ...ويجعلون لله النبات سبحانه ...ولله المثل الا علي

۱۰_خداوند عالم كى طرف بيٹى كى نسبت دينا ، اس كى بلند صفات اور اس كے بلند و برتر مقام سے سازگار نہيں ہے_

ولله المثل الاعلي

عبارت'' ولله المثل الا علي'' اس ناروا نسبت كے جو اب كے مقام پر ہے جو مشركين خداوند عالم كى طرف ديتے تھے اور وہ نسبت خدا كے ليے بيٹى كا ہونا ہے در حالانكہ خداوند عالم بلند

۴۸۰

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779