تفسير راہنما جلد ۹

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 779

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 779 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 212519 / ڈاؤنلوڈ: 3605
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۹

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

۱۹_ انبياءعليه‌السلام كے مخالفين ، ان كے منطقى استدلال كا جواب دينے كے بجائے ان كى شخصيت پر حملہ آور ہوتے تھے_

قالت رسلهم ا فى الله شكّ فاطرالسموت والا رض ...قالو ان ا نتم الّا بشر مثلنا

۲۰_ گذشتہ دور كى كافر قوميں انبياء كرامعليه‌السلام كو پيروى كے قابل خصوصيات سے عارى جانتى تھيں _

قالو ان ا نتم الّا بشر مثلنا

كفار انبياء كے جواب ميں انھيں اپنے جيسا قرار ديتے ہوئے اس نكتہ كى طرف اشارہ كرتے كہ انبياءعليه‌السلام ان سے برتر و افضل نہيں ہيں لہذا ان ميں نبوت كے عہدے پر فائز ہونے كى ضرورى خصوصيات موجود نہيں ہيں _

۲۱_ حضرت نوحعليه‌السلام ، عاد اورثمود كى قوميں اوران كے بعد انے والى قوميں اپنے اباو اجداد كے خداو ں كى پرستش كرتى تھيں _تريدون ا ن تصدّونا عمّا كان يعبد ء اباو نا

۲۲_گذشتہ اقوام، خداپرستى كى طرف انبياءعليه‌السلام كى دعوت كو اپنے معبودوں كو منظر عام سے ہٹانے كى كوشش قرار ديتے ہوئے اس (دعوت)كى مخالفت پر اتر اتيں _تريدون ا ن تصدّونا عمّا كان يعبد ء اباو نا

۲۳_گذشتہ دور كى كافر قوميں متعصب تھيں اوراپنے اباو اجداد كى اندھى تقليد كرتى تھيں _

تريدون ا ن تصدّونا عمّا كان يعبد ء اباو نا

۲۴_ ثقافتى اوراجتماعى حالات ائندہ نسلوں كے عقائد اورنظريات پر واضح طور پر اثر انداز ہوتے ہيں _

تريدون ا ن تصدّونا عمّا كان يعبد ء اباو نا

كفار اپنے اباو اجداد كے مذہب كو عقل ومنطق كى بنياد پر قبول كرنے يا اس كے درست ہونے كا دعوى كرنے كے بغير اس كے بارے ميں تعصب اميز گفتگو كرتے تھے اس سے پتہ چلتا ہے كہ گذشتہ دور كى اقوام كے رسم ورواج ائندہ نسلوں پر گہرا اثر چھوڑتے ہيں _

۲۵_غير خدا كى عبادت كرنے ميں اباو اجداد كى تقليد كرنا ،ايك غلط كام ہے جس كے خلاف انبياءے الہى نے آواز بلند كي_

تريدون ا ن تصدّونا عمّا كان يعبد ء اباو نا

۲۶_ چند نسلوں كے درميان كسى عقيدے كا متداول اورجارى رہنا گذشتہ زمانے كے كافروں كے لئے ايك قابل قبول دليل تھي_تريدون ا ن تصدّونا عمّا كان يعبد ء اباونا

۲۷_ كافراقوام كے معبود ہر قسم كے شعور و ادراك سے عارى تھے_عمّا كان يعبد ء اباونا

۴۱

ہوسكتا ہے كفار كے معبودوں كا تعارف كرانے كے لئے '' مائے موصولہ''كا استعمال كہ جو اكثر اوقات شعور سے عارى چيزوں كے لئے لايا جاتا ہے، مذكورہ نكتے كو بيان كرنے كے لئے ہو_

۲۸_ گذشتہ زمانے كى كافر قوميں ، انبياءے كرامعليه‌السلام كى واضح دعوت كے مقابلے ميں شبہات پيدا كركے ان سے روشن اورقاطع دليل (معجزہ) طلب كرتى تھيں _ان ا نتم الّا بشر مثلنا فا تونا بسلطان مبين

اسمان:اسمانوں كا متعدد ہونا ۹; اسمانوں كا خالق ۷; اسمانوں كا پھٹنا ۸

ايات خدا:افاقى ايات ۸

اجر:مادى اجر كا وعدہ ۱۶ ; معنوى اجر كا وعدہ ۱۶

اجل:اجل مسمى كا پيش خيمہ ۱۳; اجل كے مو خر ہونے كا پيش خيمہ ۱۰

الله تعالى :الله تعالى كى خالقيت ۷; الله تعالى كى دعوتيں ۱۰، ۱۲; الله تعالى كى معرفت كے دلائل ۶; الله تعالى كى معرفت كا طريقہ ۴; الله تعالى كے بارے ميں شبہات ۲

انبياء :انبياء كا حجت لانا ۶; انبياء اور برھان ۱; انبياء اور تقليد ۲۵ ; انبياء كا بشر ہونا ۱۷ ; انبياء كى تاريخ ۱۷; انبياء كى خداشناسى ۶ ; انبياء كى دعوتيں ۱۲، ۲۲; انبياء كى دعوتوں كا ردّ ۱۷ ; انبياء كى طرف سے حجت لانے كا طريقہ ۱، ۲; مخالفين انبياء كے ساتھ مقابلے كا طريقہ ۱۹ ; انبياء كا شرك سے بر سر پيكار ہونا۲۵ ; انبياء كا ہدايت كرنا ۱۶; انبياء كے طريقے كا ہم اہنگ ہونا ۲

ايمان:ايمان كے اثرات ۱۰، ۱۳; اہميت ايمان ۱۰; ايمان كى دعوت ۱۰; ايمان كے فوائد ۱۱

برھان:برہان (انّ) ۶

باطل معبود:باطل معبودوں كا بے شعور ہونا ۲۷

تعليم:تعليم كا طريقہ ۳

تقليد:اباو اجداد كى تقليد ۲۱،۲۳، ۲۵; اندھى تقليد ۲۳; ناپسنديدہ تقليد۲۵

۴۲

ثقافت:ثقافت اورعقيدہ ۲۴;ثقافت كے اثرات ۲۴

خداپرستي:خدا پرستى كى طرف دعوت ۴

ذكر:خلقت موجودات كے ذكر كے اثرات ۴

زمين:زمين كاخالق۷; زمين كاپھٹنا ۸; زمينى موجودات ۸

عبادت:غيرخدا كى عبادت ۲۵

عقيدہ:عقيدے ميں مو ثر عوامل ۲۴; صحت عقيدہ كا معيار ۲۶

عمر :عمر كے طولانى ہونے كا پيش خيمہ ۱۳، ۱۴

قوم ثمود:قوم ثمود كا شرك ۲۱

قوم عاد:قوم عاد كا شرك ۲۱

قوم نوح:قوم نوح كاشرك ۲۱

كفار:كفار كا عقيدہ ۱۸

گذشتہ اقوام:گذشتہ اقوام اورانبياء ۲۰; گذشتہ اقوام اورخدا پرستى ۲۲; گذشتہ اقوام اورانبياء كى دعوتيں ۲۴; گذشتہ اقوام كى بہانہ جوئي ۱۷;گذشتہ اقوام كا نظريہ ۲۰،۲۲،۲۶;گذشتہ اقوام كا تعصب ۲۳; گذشتہ اقوام كى تقليد ۲۳; گذشتہ اقوام كے تقاضے ۲۸; گذشتہ اقوام كے شبہات ايجاد كرنا۲۸; گذشتہ اقوام كا شرك ۲۱; گذشتہ اقوام كا شك ۱، ۲;گذشتہ اقوام كى مخالفت كا فلسفہ ۲۲

مخلوق:مخلوق كاخالق ۷

مخلوقات:مخلوقات كے محتاج ہونے كا بديہى ہونا ۵

معاشرہ:معاشرے كا كردار ۲۴

معجزہ:معجزہ ۲۸

معنويات:معنويات كا كردار ۱۴

موت:

۴۳

موت ميں تعجيل كاامكان ۱۵

نبوت:بشر كى نبوت ۱۸

نظام عليت:۵

ہدايت:ہدايت ميں تشويق ۱۶; ہدايت كا طريقہ ۱۶

آیت ۱۱

( قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِن نَّحْنُ إِلاَّ بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلَـكِنَّ اللّهَ يَمُنُّ عَلَى مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَمَا كَانَ لَنَا أَن نَّأْتِيَكُم بِسُلْطَانٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّهِ وَعلَى اللّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ )

ان سے رسولوں نے كہا كہ يقينا ہم تمھارے ہى جيسے بشر ہيں ليكن خدا جس بندے پر چاہتا ہے مخصوص احسان بھى كرتاہے اور ہمارے اختيار ميں يہ بھى نہيں ہے كہ ہم بلا اذن خدا كوئي دليل يا معجزہ لے آئيں اور صاحبان ايمان تو صرف اللہ ہى پر بھروسہ كرتے ہيں _

۱_انبياءے كرام ان كے كفار كے مقابلے ميں كہ جوبشريت كو مقام نبوت كے منافى جانتے تھے، اپنے بشر ہونے كى تاكيداوراس كے مقام نبوت كے ساتھ منافى نہ ہونے كا اعلان كرتے_

قالوا ان ا نتم الّا بشر مثلنا ...قالت لهم رسلهم ان نحن الّا بشر مثلكم ولكنّ الله يمنّ على من يشاء من عباده

۲_اپنے مخالفين كے مقابلے ميں انبياءے الہى ايك ہى قسم كا رويہ اورمو قف ركھتے تھے_

قالت لهم رسلهم ان نحن الّا بشر مثلكم

۳_ حق بات كااعتراف ايك پسنديدہ اورمطلوب فعل ہے خواہ وہ كسى دشمن كى زبان سے ہى نكلى ہو_

قالوا ان ا نتم الّا بشر مثلنا ...قالت ان نحن الّا بشر مثلكم

انبياءے الہى مخالفين كو جواب ديتے وقت ، اپنے بشر ہونے كے بارے ميں ان كے قول كى تائيد

۴۴

كرتے تھے، اس سے ظاہر ہوتا ہے كہ واقعيت كااعتراف كرنا ايك پسنديدہ فعل ہے_

۴_ خداوند متعال جسے بھى چاہتا ہے ، عظيم نعمت دے ديتا ہے_ولكنّ الله يمنّ على من يشاء من عباده

لغت ميں '' منت '' عظيم اوربڑى نعمت كو كہتے ہيں _

۵_ انبياءے الہى ،خداوند متعال كى طرف سے اپنے ليے مقام نبوت كے انتخاب كو اس كى عظيم نعمت جانتے تھے_

ولكنّ الله يمنّ على من يشاء من عباده

۶_ مقام نبوت پرفائز ہونا، مشيت الہى پرموقوف ہے_ولكنّ الله يمنّ على من يشاء من عباده

۷_ مقام نبوت ورسالت ،خداوندمتعال كى جانب سے خاص بندوں كے لئے ايك بڑى نعمت اورعطيہ ہے_

ولكنّ الله يمنّ على من يشاء من عباده

۸_ عظيم الہى نعمت اوربخشش سے اپنى بہرہ مندى كا اعلان كرنے ميں انبياءے الہى ايك خاص تواضع اورادب كالحاظ كرتے تھے_ان نحن الّا بشر مثلكم ولكنّ الله يمنّ على من يشاء من عباده

يہ كہ انبياءے الہى نعمت خداوند سے اپنے بہرہ مند ہونے كو ان كلمات كے ساتھ كہ '' ہم اس قسم كے مقام و منزلت اورنعمت سے بہرہ مند ہيں ''بيان كرنے كے بجائے يہ كہتے تھے:''خداوند متعال نے(ہم پر)اس طرح فضل وكرم كيا ہے'' اس سے مذكورہ بالا مطلب اخذ ہوتا ہے_

۹_خداوند متعال كى عظيم نعمات سے بہرہ مند ہونے ميں انسانوں كے مختلف درجات اوررتبے ہيں _

ان نحن الّا بشر مثلكم ولكنّ الله يمنّ على من يشاء من عباده

انبياءے كرام بشر ہونے كے لحاظ سے لوگوں كے ساتھ اپنے مساوى ہونے كا اعتراف كرتے تھے اوراس بات كے ساتھ ساتھ اس چيز كى ياد دہانى بھى كراتے تھے كہ ان ميں اوردوسرے انسانوں ميں خداوند متعال كى خاص نعمت اوربخشش سے بہرہ مند ہونے ميں فرق ہے اس سے انسانوں كے درجات اوررتبے كے فرق كا پتہ چلتا ہے_

۱۰_ نعمات الہى سے بہرہ مند افراد كے لئے بہتر ہے كہ وہ فروتنى اورتواضع اختيار كريں اوراپنى اس بہرہ مندى كو خداوند كافضل وكرم جانيں _ولكنّ الله يمنّ على من يشاء من عباده

۱۱_كفار كى جانب سے معجزہ طلب كئے جانے پر انبياءے كرام اپنے اپ كو اذن خدا كے بغير معجزہ دكھانے كى طاقت سے عارى قرار ديتے تھے_وماكان لنا ا ن نا تيكم بسلطان الّا باذن الله

۴۵

۱۲_ انبياءے الہى نے اپنى اقوام پرواضح كرديا تھا كہ مو منين كو فقط خداوند متعال كو ہى سہارا بنانا اوراسى پر توكل كرنا چاہيئے_وعلى الله فليتوكّل المو منون

۱۳_ كفار كى جنگ و ستيز كے مقابلے ميں مو منين كے محاذ كى تقويت كے لئے انبياءے كرام انھيں خداوند متعال پر توكل اوربھروسہ كرنے كى تلقين كرتے تھے_وعلى الله فليتوكّل المو منون

يہ كہ انبياءے الہى مخالفين كو جواب دينے كے بعد اس بات كى تصريح كرتے ہيں كہ مو منين كو خداوند متعال پر بھروسہ كرنا چاہئے ، يہ درحقيقت ان كى جانب سے اس بات كى طرف راہنمائي ہے كہ مخالفين اوردشمنوں كے مقابلے ميں (ہميں ) خداوند پر تكيہ كرنا چاہيے_

۱۴_خداوندمتعال پر ايمان كا تقاضا ہى يہ ہے كہ اس پر توكل كيا جائے_وعلى الله فليتوكّل المو منون

''وعلى الله فلتتوكل'' كى بجائے جملہ'' و على الله فليتوكل المؤمنون'' ميں اسم فاعل وصفى ( مؤمنون) كا ذكر كرنا اور صيغہ متكلم كى جگہ غائب كا استعمال اسى مذكورہ مطلب كى طرف اشارہ ہوسكتاہے_

۱۵_انبياءے الہى اپنے اپ كو مو منين ميں سے جانتے تھے_قالت لهم رسلهم ...وعلى الله فليتوكّل المو منون

بعد والى ايت ميں عبارت'' ومالنا ا لّا نتوكّل على الله '' كے قرينے سے'' فليتوكّل المو منون'' ميں يقينا خود انبياءے كرام بھى شامل ہيں خداوند پر توكل كى ضرورت كو بيان كرنے كے لئے فعل غائب اورفاعل جمع سے استفادہ كا مطلب، حكم كو مو منين كے لئے عموميت دينا ہے_

۱۶_ اپنے مخالفين اوركفار كے اعتراضات وشبہات كا بغير كسى ابہام كے منطقى جواب دينے پر انبياء كاخصوصى توجہ دينا_

قالوا انا كفرنا ...انا لفى شك مما تدعوننا ...قالت رسلهم ا فى الله شك ...قالوا ان ا نتم الّا بشر ...قالت لهم رسلهم ان نحن الّا بشر ...وما اكان لناا ن نا تيكم بسلطان

۱۷_دينى شبہات كامنطقى جواب دينا ضرورى ہے_قالت لهم رسلهم ...وعلى الله فليتوكّل المو منون

يہ كہ خدواند متعال ، ان ايات ميں مخالفين كے ساتھ انبياءے كرام كے منطقى روش كو بيان كررہا ہے لہذا ہوسكتا ہے دينى شبہات كے مقابلے ميں عقلى اورمنطقى رويہ اختيار كرنے كے بارے ميں ايك عملى نمونہ پيش كرنا مقصود ہو_

۴۶

اقرار:حق بات كا اقرار ۳

الله تعالى :الله تعالى كے اذن كى اہميت ۱۱ ; الله تعالى كى بخششيں ۴، ۷ ; الله تعالى كا فضل ۱۰; الله تعالى كى مشيت ۴، ۶ ; الله تعالى كى نعمتيں ۵، ۷، ۸

انبياء:انبياء كا ادب ۸; انبياء اورسابقہ قوميں ۱; انبياء اورمنطقى جواب ۱۶; انبياء اوركفار كے شبہات ۱۶; انبياء اوراقتراحى معجزہ ۱۱; انبياء كاايمان ۱۵ ; انبياء كا منتخب ہونا ۵;انبياء كا بشر ہونا ۱; انبياء كى بصيرت ۵، ۱۱; انبياء كى تعليمات ۱۲، ۱۳; انبياء كى تواضع ۸; انبياء كى طرف سے حجت لانے كا طريقہ ۱۶; انبياء كا رويہ ۲; انبياء كے فضائل ۸; انبياء كے اختيارات كى حدود ۱۱; انبياء كا باہمى توافق۲

انسان :انسانوں ميں فرق ۹

ايمان:ايمان كے اثار ۱۴

توكل:توكل كا پيش خيمہ ۱۴;توكل كى اہميت ۱۲، ۱۳; توكل كى دعوت ۱۲

شبہات:دينى شبہات كا جواب دينے كى اہميت ۱۷

عمل:پسنديدہ عمل ۳

كفار :كفار كے ساتھ مقابلے كا طريقہ ۱۳

گذشتہ ا قوام:گذشتہ اقوام كى بصيرت ۱; گذشتہ اقوام كے مطالبات ۱۱

مو منين: ۱۵مو منين كو دعوت ۱۲; مو منين كى تقويت كے اسباب ۱۳

معجزہ:اقتراحى ۱۱ ; معجزے كا سرچشمہ ۱۱

نبوت:مقام نبوت ۵; نبوت كا سرچشمہ ۶; بشر كى نبوت ۱

نعمت سے بہرہ مند ہونے والے افرادنعمت:

نعمت سے بہرہ مند ہونے والے افرادميں فرق ۹; نعمت سے بہرہ مند ہونے والے افرادكى تواضع ۱۰; نعمت كے مراتب ۴،۵،۷،۸،۹ ; نعمت سے بہرہ مند ہونے والے افراد ۵،۷،۸ ; عظيم نعمت ۴،۵،۷،۹; نعمت نبوت ۵،۷

۴۷

آیت ۱۲

( وَمَا لَنَا أَلاَّ نَتَوَكَّلَ عَلَى اللّهِ وَقَدْ هَدَانَا سُبُلَنَا وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَى مَا آذَيْتُمُونَا وَعَلَى اللّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ )

اور ہم كيوں نہ اللہ پر بھروسہ كريں جب كہ اسى نے ہميں ہمارے راستوں كى ہدايت دى ہے اور ہم يقينا تمھارى اذيتوں پر صبر كريں گے اور بھر بھروسہ كرنے والے تو اللہ ہى بھروسہ كرتے ہيں _

۱_خداوند متعال كى جانب سے ہدايت پانے كے بعد انبياءے كرامعليه‌السلام خدا پر بھروسہ نہ كرنے كى كسى بھى توجيہ كو جائز نہيں سمجھتے تھے_ومالنا ا لّا نتوكّل على الله وقد هدنا سبلنا

۲_انبياءے كرام، مقام توكل پر فائز تھے_ومالنا ا لّا نتوكّل على الله

۳_تمام انبياءعليه‌السلام اپنے اپ كو خداوند عالم كى خاص ہدايت كا مرہون منت قرار ديتے تھے_وقد هدانا سبلنا

۴_ہدايت الہى سے بہرہ مندى كا تقاضا ہے كہ اس پر توكل كيا جائے_ومالنا ا لّا نتوكّل على الله وقد هدنا سبلنا

جملہ ''وقد ھدنا '' ميں ''واو ''حاليہ ہے_

۵_اسمانى شريعتيں متعدد اورمتنوع تھيں _هدنا سبلنا

ہوسكتاہے كلمہ جمع ''سبل''' كا ''نا '' كى طرف اضافہ انبياءے كرامعليه‌السلام ميں سے ہر ايك كے راستے كى طرف اشارہ ہو اور''راستوں ''سے مراد ''صاحب الميزان'' كے بقول وہ شريعتيں ہيں كہ جو انبياءے كرامعليه‌السلام كو عطا كى گئي تھيں _

۶_انبياءے كرامعليه‌السلام ميں سے ہر نبى خداوند متعال كى جانب مخصوص راستے كا حامل تھا_*وقد هدنا سبلنا

۴۸

احتمال ہے كہ ضمير متكلم كى طرف ''سبل ''كے اضافے سے مراد يہ ہو كہ انبياءے كرامعليه‌السلام ميں سے ہر نبى كواپنے ايك خاص راستے كى ہدايت كى گئي ہو جو خدا نے اس كے لئے معين فرمايا ہے_

۷_كافر قوميں ، انبياءے كرامعليه‌السلام كو اذيت و ازار پہنچاتى تھيں _ولنصبرنّ على ما ء اذيتمون

۸_سابقہ قوموں ميں مبعوث ہونے والے انبياء نے صراحت كے ساتھ كہہ ديا تھا كہ وہ ان كى ہر قسم كى اذيت اورازار كے مقابلے ميں صبر واستقامت اختيار كريں گے_ولنصبرنّ على ما ء اذيتمون

۹_رسالت الہى كى انجام دہى كے لئے صبر اورخدا پرتوكل دوضرورى ہتھيار ہيں _

ومالنا ا لّا نتوكّل على الله ولنصبرنّ على ما ء اذيتمون

۱۰_جو لوگ سہارے اورتكيہ كى تلاش ميں ہيں انھيں فقط خداوند متعال كو ہى اپنا سہارا بنانا اوراسى پر توكل كرنا چاہئے_

وعلى الله فليتوكّل المتوكّلون

۱۱_انبياءے كرامعليه‌السلام اپنى دعوت اورعمل كے ذريعے لوگوں كو خداوند پرتوكل كى تعليم ديتے تھے_

وعلى الله فليتوكّل المتوكّلون_ومالنا ا لّا نتوكّل على الله ...وعلى الله فليتوكّل المتوكّلون

۱۲_انبياءے كرامعليه‌السلام كى نظر ميں فقط خداوند متعال ہى كى ہستى توكل اوربھروسے كے قابل ہے_*

وعلى الله فليتوكّل المتوكّلون

۱۳_خداوند متعال كا ہرلحاظ سے صاحب استقلال اورذاتى طور پركامل ہونااس بات كو مستلزم ہے كہ توكل كيلئے صرف ذات خداوندى ہى سزاوار ہے_ومالنا ا لّا نتوكّل على الله وقد هدنا سبلنا ...وعلى الله فليتوكّل المتوكّلون

۱۴_''سئل ا بو عبدالله عليه‌السلام عن قول الله : ''وعلى الله فليتوكّل المتوكّلون'' قال: الزارعون ;حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام سے خداوند كے قول''وعلى الله فليتوكّل المتوكّلون'' كے بارے ميں پوچھے گئے سوال كے جواب ميں منقول ہے كہ اپعليه‌السلام نے فرمايا: متوكلين سے مراد كاشت كار ہيں _

اديان :اديان كا متعدد ہونا ۵;اديان كى انواع ۵

____________________

۱)من لايحضرہ الفقيہ ،ج ۳،ص۱۶،ح۱۴،نور الثقلين ،ج۲،ص۵۳۰،ح۳۰،۳۱_

۴۹

الله تعالى :الله تعالى كى بے نيازى ۱۳;الله تعالى كا كمال ۱۳;الله تعالى كى خاص ہدايات۳

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام كو اذيت ۷;انبياءعليه‌السلام كا توكل كو اہميت دينا ۱; انبياءعليه‌السلام كى بصيرت ۳;انبياءعليه‌السلام كى تعليمات ۱۱;انبياءعليه‌السلام كى توحيد ۱۲;انبياءعليه‌السلام كا توكل ۲،۱۲،۱۱;انبياءعليه‌السلام كى دعوت ۱۱;انبياءعليه‌السلام كا راستہ ۶;انبياءعليه‌السلام كا صبر ۸;انبياءعليه‌السلام كے فضائل ۲;انبياءعليه‌السلام كى ہدايت ۱،۳

توكل :توكل كى اہميت ۹،۱۰;خدا پر توكل ۱۳;توكل كى دعوت ۱۱;توكل كا پيش خيمہ ۴

دين :تبليغ دين كے ذرائع۹

روايت :۱۴

گذشتہ اقوام :گذشتہ اقوام كى اذيت و ازار ۷،۸

صبر :صبر كى اہميت ۹//كاشتكار:كاشتكاروں كا توكل ۱۴

متوكلين :متوكلين سے مراد ۱۴

ہدايت :ہدايت كے اثرات ۴

آیت ۱۳

( وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّـكُم مِّنْ أَرْضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّالِمِينَ )

اور كافروں نے اپنے رسولوں سے كہا كہ ہم تم كو اپنى سرزمين سے نكال باہر كرديں گے يا تم ہمارے مذہب كى طرف پلٹ آئو گے تو پروردگار نے ان كى طرف وحى كى كہ خبردار گھبرائو نہيں ہم يقينا ظالمين كو تباہ و برباد كرديں گے_

۱_گذشتہ كافر قوميں انبيا ءعليه‌السلام كى جانب سے روشن براہين اور منطقى دلائل ديكھنے كے بعد بھى اپنے موقف پر ڈٹى رہتى تھيں اور انھيں جلاوطنى يا طاقت كے ذريعے كفر (ارتداد) كى جانب لوٹانے كى دھمكى ديتى تھيں _

وما لنا ا لّا نتوكّل___ لنصبرنّ على ماء اذيتمونا___ وقال الذين كفروا لرسلهم لنخرجنّكم من ا رضنا ا و لتعودنّ فى ملّتن

۲_ انبياءعليه‌السلام كے منطقى براہين كا جواب دينے سے عاجز ہونے كى صورت ميں كفار دھمكى اور طاقت كے استعمال كو وسيلہ بناتے تھے_جائتهم رسلهم بالبينّت ___قالوا اناكفرنا___ولنصبرنّ___وعلى الله فليتوكّل المتوكّلون_وقال الذين كفروا لرسلهم لنخرجنّكم من ا رضنا ا و لتعودنّ فى ملّتن

۵۰

۳_كافر قوميں نہ فقط انبياءعليه‌السلام كى تعليمات كو قبول نہيں كرتى تھيں بلكہ خود ان كى ديندارى كو بھى برداشت نہيں كر پاتى تھيں _وقال الذين كفروا لرسلهم لنخرجنّكم من ا رضنا ا و لتعودنّ فى ملّتن

۴_گذشتہ كافر قوميں انبياءعليه‌السلام كے مقابلے ميں اپنے اپ كو طاقتور جانتى اور دعوى كرتى تھيں كہ جس زمين پر وہ اور انبياءعليه‌السلام رہتے ہيں وہ انكى ملكيت ہے_لنخرجنّكم من ا رضن

چونكہ وہ اقوام انبياءعليه‌السلام كو نكالنے كى دھمكى ديتى تھيں ،اس سے قدرت مند ہونے كا احساس ظاہر ہوتا ہے اور انھوں نے ''ارض''(سر زمين )كو اپنى طرف نسبت دى ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ اس پر مالكيت اور حاكميت كى دعويدار(بھي) تھيں _

۵_كافر قوميں اپنے عقائد اور شريعت كو پيروى كے لائق جانتى تھيں _ا و لتعودنّ فى ملّتن

۶_كافر قوميں انبيا ئے كرامعليه‌السلام كے معاشرے ميں باقى رہنے كى صورت ميں (لوگوں پر ) انكى تعليمات كى تاثير اور انكے پھيلنے سے خوفزدہ تھيں _لنخرجنّكم من ا رضنا ا و لتعودنّ فى ملّتن

۷_كفار كى جانب سے انبياءعليه‌السلام كو دھمكى ديئے جانے كے بعد خداوند تعالى نے انبياءے كرامعليه‌السلام كو وحى كى كہ وہ ظالموں كو ہلاك كر دے گا_قالوا___ لنخرجنّكم ___ فا وحى اليهم ربّهم لنهلكنّ الظلمين

۸_انبياءعليه‌السلام كے ظالم مخالفين كو ہلاك كر كے ان كى حمايت كرنا ،ربوبيت خداوند كا تقاضا ہے_

فا وحى اليهم ربّهم لنهلكنّ الظلمين

۹_انبياءے كرامعليه‌السلام خداوند متعال كى خصوصى عنايت اور تربيت سے بہر ہ مند تھے_فا وحى اليهم ربّهم

۱۰_تعليمات انبياءعليه‌السلام كى مخالفت كرنے والى (تمام)كافر قوميں ،ظالم تھيں _وقال الذين كفروا لرسلهم لنخرجنّكم ___ فا وحى اليهم ___ لنهلكنّ الظلمين

۱۱_تعليمات انبياءعليه‌السلام سے كفر اور ان كے ساتھ جنگ و جدال ،ظلم ہے _

وقال الذين كفروا لرسلهم لنخرجنّكم ___فا وحى اليهم ربّهم لنهلكنّ الظلمين

۵۱

۱۲_ كفار كى طر ف سے اذيت وازار كے مقابلے ميں خداوند متعال پر توكل اورصبر كرنا ،حمايت الہى سے بہرہ مند ہونے كا پيش خيمہ بنتا ہے_وعلى الله فليتوكّل المتوكّلون___ ولنصبرنّ على ماء اذيتمونا___ فا وحى اليهم ربّهم لنهلكنّ الظلمين

۱۳_نافرمان لوگوں كووعظ ونصيحت اور اتمام حجت كے بعد سزا دينى چاہيے_

جائتهم رسلهم بالبينّت ___ وقال الذين كفروا لرسلهم لنخرجنّكم من ا رضنا___ فا وحى اليهم ربّهم لنهلكنّ الظلمين

۱۴ظالموں كى ہلاكت اور تباہى ،سنن الہى ميں سے ہے_لنهلكنّ الظلمين

''لنهلكنّ الظلمين'' كو لام ونون جيسى تاكيدى قيود اور فعل مضارع كہ جو استمرار پر دلالت كرتا ہے ،كے ساتھ لانا ہو سكتا ہے مذكورہ سنت كے بيان كے لئے ہو_

ارتداد:ارتداد كى دھمكى ۱

الله تعالى :الله تعالى كى ربوبيت كے اثرات۸;الله تعالى كى حمايتيں ۷،۸;الله تعالى كى ربوبيت۹;الله تعالى كى حمايتوں كا پيش خيمہ۱۲;الله تعالى كى سنن ۱۴; الله تعالى كا خاص لطف۹

انبياءعليه‌السلام :انبياء كى دھمكى كے اثرات ۷;انبيا ء واضع دلائل ۱; انبياء كو دھمكى ۱;انبياء كے حامى ۸;انبياء كے دشمن۳;انبياء كے دشمنوں كا ظلم ۱۰;انبياء كے ساتھ مقابلہ ۱۱; انبياء كى پرورش كرنے والے ۹; انبياء كو وحى ۷;انبياء كے دشمنوں كى ہلاكت ۷،۸

توكل :توكل كے اثرات ۱۲

جلاوطني:جلاوطنى كى دھمكى ۱

خوف:تعليمات انبيا ءعليه‌السلام سے خوف ۶

دين:دين كے دشمن ۳;دين كے دشمنوں كا ظلم ۱۰

سر زمين :

۵۲

گذشتہ اقوام كى سر زمين كى مالكيت ۴;انبياءعليه‌السلام كى سر زمين كى مالكيت۴

صبر:صبر كے اثرات ۱۲

ظالمين :ظالمين كى حتمى ہلاكت۷;ظالمين كى ہلاكت۸،۱۴

كفار:كفاركے ساتھ ٹمٹنے كا طريقہ۱،۲;كفاركى منہ زوري۲;كفاركى اذيتوں پرصبر ۱۲

كفر:انبياءعليه‌السلام سے كفر۱۱

گزشتہ اقوام :گزشتہ اقوام كا دعوى ۴; گزشتہ اقوام كى فكر۵; گزشتہ اقوام كے عقيدے كى پيروي۵;گزشتہ اقوام كا خوف۶;گزشتہ اقوام كى دھمكياں ۱;گزشتہ اقوام كى دشمنى ۱،۳;گزشتہ اقوام كى قدرت طلبي۴;گزشتہ اقوام كى پريشاني۶

نافرمان لوگ:نافرمان لوگوں پر اتمام حجت ۱۳;نافرمان لوگوں كے سزا كى شرائط۱۳;نافرمان لوگوں كى ہدايت ۱۳

آیت ۱۴

( وَلَنُسْكِنَنَّـكُمُ الأَرْضَ مِن بَعْدِهِمْ ذَلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِي وَخَافَ وَعِيدِ )

اور تمھيں ان كے بعد زمين ميں آباد كرديں گے اور يہ سب ان لوگوں كے لئے جو ہمارے مقام اور مرتبہ سے ڈرتے ہيں اور ہمارے عذاب كا خوف ركھتے ہيں _

۱_كفار كى جانب سے انبياءعليه‌السلام كو نكالے جانے كى دھمكى كے بعد خداوند متعال كا ا نہيں اپنى سر زمين ميں بسانے كا وعدہ دينا_وقال الذين كفروا لرسلهم لنخرجنّكم من ا رضنا فا وحى اليهم ولنسكننّكم الا رض من بعدهم

۲_خداوند متعال ، حق سے برسرپيكارظالمين كى سركشى كے مقابلے ميں حق طلب مظلوموں كے گروہ كا دفاع اور حمايت كرتا ہے_

وقال الذين كفروا لنخرجنّكم من ا رضنا فا وحى اليهم ربّهم لنهلكنّ الظلمين_ولنسكننّكم الا رض من بعدهم

۳_ظالم كفاركى جانب سے انبياء الہى كو ا نكے ابا ئي وطن سے نكالے جانے كى دھمكى كے بعد خدا وند متعال كا ظالم كفار كو موت كى تہديد كرنا _

وقال الذين كفروا لنخرجنّكم من ا رضنا فا وحى اليهم ربّهم لنهلكنّ الظلمين_ولنسكننّكم الا رض من بعدهم

۵۳

۴_كافر اقوام كى جانب سے انبياء الہىعليه‌السلام كى دعوت رد ّ ہو جانے ، ان كى جانب سے انبياءعليه‌السلام كو ازار واذيت دينے اور دھمكى ملنے كے بعد خداو ند متعال كا انبياءعليه‌السلام كو تسلى دينا_ولنصبرنّ على ماء اذيتمونا وقال الذين كفروا لرسلهم لنخرجنّكم من ا رضنا فا وحى اليهم ربّهم لنهلكنّ الظلمين_ولنسكننّكم الا رض من بعدهم

۵_ ظالموں كى ہلاكت كے ذريعے انكے چنگل سے نجات پا كر انكى جگہ حاصل كرنا ،فقط انہى لوگوں كو نصيب ہوتا ہے جوخداوند كے مقام وعيد سے ڈرتے ہوں _لنهلكنّ الظلمين ولنسكننّكم الا رض من بعدهم ذلك لمن خاف مقامى وخاف وعيد

۶_وہى لوگ خداوندعالم كى خصوصى امداد سے بہرہ مند ہو تے ہيں جو اس كے مقام وعيد اور حساب وكتاب سے ڈرتے ہوں _ولنسكننّكم الا رض من بعدهم ذلك لمن خاف مقامى وخاف وعيد

''مقام'' اسم مكان ہے اور اس كے بعد انے والے خوف اور وعيد كے قرينے سے ہوسكتاہے كہ حساب و كتاب كے ليے جو مكان بنايا گيا ہو وہ مراد ہو_

۷_خداوند عالم كى جانب سے حساب و كتاب ليئے جانے اور اس كى وعيد كا خوف ،خداوند متعال كى جانب سے ا يك قابل تشويق اور قدرو منزلت كى حامل چيز ہے_ذلك لمن خاف مقامى وخاف وعيد

۸_امور كى مضبوطى اور استحكام خداوند تعالى كے ہاتھ ميں ہے_ذلك لمن خاف مقامى وخاف وعيد

''مقام '' ہو سكتا ہے مصدر ميمى اور امور كے خداوند عالم كے ساتھ قائم ہو نے كے معنى ميں ہو

۹_ انسانوں كى زندگى اورتاريخى تحولات پر معنوى اور باطنى احوال كااثر انداز ہونا_

لنهلكنّ الظلمين ولنسكننّكم الا رض ...ذلك لمن خاف مقامى وخاف وعيد

''ذلك'' ظالم اقوام كى ہلاكت كے بعد انبياءعليه‌السلام كے ان كى جگہ اباد ہونے كى علت بيان كر رہا ہے چونكہ اس اہم تبديلى اور تحول كے دوران خداوند عالم كے حساب وكتاب اور وعيد سے ڈرنے كا اہم كردار بيان كيا گيا ہے كہ جو ايك معنوى چيز ہے_

۱۰_الہى امداد سے بہرہ مند ہونے كے لئے حتى انبياء

۵۴

كرامعليه‌السلام ميں بھى خاص شرائط اور خصوصيات كا پايا جانا ضرورى ہے_

ولنسكننّكم الا رض من بعدهم ذلك لمن خاف مقامى وخاف وعيد

۱۱_انبياءے كرامعليه‌السلام خداوند متعال كے مقام و منزلت سے ڈرنے كى وجہ سے الہى حمايت سے بہرہ مند ہوئے ہيں _

فا وحى اليهم ربّهم لنهلكنّ الظلمين_ ولنسكننّكم الا رض ...ذلك لمن خاف مقامى وخاف وعيد

۱۲_(وقال النبي صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم من اذى جاره طمعاً فى مسكنه ورثه الله داره وهو قوله: ''وقال الذين كفروا___ فا وحى اليهم ربّهم لنهلكنّ الظلمين_ولنسكننّكم الا رض من بعدهم) (۱) رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا ہے كہ جو بھى اپنے ہمسائے كا گھر ہتھيانے كى لالچ ميں اذيت و ازار پہنچائے تو خداوند عالم اپنا گھر ہمسائے كو دےدے گااور يہى قول خدا ہے :''وقال الذين كفروا فا وحى اليهم ربّهم ...''

۱۳_(عن ابن مسعود قال:لمّا نزلت ...(يا ا يهاالذين امنوا قوا ا نفسكم وا هليكم ناراً وقودها الناس والحجارة)تلا رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم على ا صحابه فخرّ فتى مغشياً عليه ...فبشّره النبي صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بالجنة فقال: ...ذلك لمن خاف مقامى وخاف وعيد (۲) ابن مسعود كہتے ہيں :جب آيت مجيدہ''يا ا يهاالذين امنوا قوا ا نفسكم ''نازل ہوئي تورسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب كے سامنے اس ايت كى تلاوت كى تو اس وقت ايك جوان زمين پر گر كر بيہوش ہو گيا _پس رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے جنت كى بشارت دى اور فرمايا:'' ذلك لمن خاف مقامى وخاف وعيد''

الله تعالى :الله تعالى كے افعال۸;الله تعالى كا ترغيب دلانا۷ ; الله تعالى كى دھمكياں ۳;الله تعالى كى حمايتيں ۲; الله تعالى كى امداد كے شرائط۱۰;الله تعالى كے وعدے۱

الله تعالى سے ڈرنے والے لوگ:ان كا مقام و مرتبہ۱۳

الہى امداد:الہى امداد جن كے شامل حال ہے۶

____________________

۱)تفسير قمى ،ج۱،ص۳۶۸;نور الثقلين ،ج۲، ص۵۳۰ ، ح۳ ۳_

۲)نور الثقلين ،ج۲،ص۵۳۰،ح۳۵_

۵۵

امور:امور كے استحكام كا سر چشمہ۸

انبياءعليه‌السلام :انبياء كو اذيت۴;انبياء اپنى سر زمين ميں ۱;انبياء اورالہى امداد ،۱۰،۱۱;انبياء كى دھمكي۱،۳;انبياء كے حامي۱۱;انبياء كا خوف خدا كو تسلى ۴;انبياء كے فضائل۱۱;انبياء كو ان كے وطن ميں آباد كرنے كا وعدہ۱;انبياء كو وعدہ۱

تاريخ:تاريخى تحولات ميں موثر عوامل۹

خوف:خوف خدا كے اثرات۵،۶،۱۱;خداكے حساب و كتاب سے خوف كى قدروقيمت۷;خدا كى وعيد سے خوف كى قدروقيمت۷;خدا كے حساب و كتاب سے خوف۶;خدا كى وعيدسے خوف ۵،۶ ;خداكے حساب وكتاب سے خوف كى ترغيب۷ ; خدا كى وعيدسے خوف كى ترغيب۷

روايت:۱۲،۱۳

زندگي:زندگى پر اثر انداز ہونے والے عوامل۹

ظالمين:ظالمين كى نافرماني۲;ظالمين سے نجات۵ ; ظالمين كى ہلاكت۵

كفار:ظالم كفار كى دھمكي۳;كفار كى دھمكياں ۳;كفار كى ہلاكت۳

گذشتہ اقوام:گذشتہ اقوام كى اذيتيں ۴;گذشتہ اقوام كى دھمكياں ۱

مظلوم:مظلوم كے حامي۲

معنويات:معنويات كے اثرات۹

ہمسايہ:ہمسائے كى اذيت كى مذمت۱۲

۵۶

آیت ۱۵

( وَاسْتَفْتَحُواْ وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ )

اور پيغمبروں نے ہم سے فتح كا مطالبہ كيا اور ان سے عناد ركھنے والے سركش افراد ذليل اور رسواہوگئے _

۱_كافر اقوام كى جانب سے دھمكى ملنے كے بعد انبياءعليه‌السلام كا خداوند متعال سے فتح كى دعا اور درخواست كرنا_

وقال الذين كفروا لرسلهم لنخرجنّكم ...و استفتحو ''استفتحوا'' ميں ضمير كا مرجع ہو سكتا ہے ''رسل'' ہو اور ہو سكتا ہے ''رسل'' اور''الذين كفروا ''ہو _مذكورہ بالا مطلب پہلے احتمال كى بناء پر اخذ كيا گيا ہے_

۲_انبياءعليه‌السلام كافر قوموں كے ہدايت پانے سے مايوس ہوكر ان پر لعنت كرتے تھے_قالت لهم رسلهم ...و استفتحو

انبياءے كرامعليه‌السلام روشن دليليں (بينات)پيش كرنے اور كفار سے چند بار گفتگو كرنے ، ان كى جانب سے دھمكى سننے اور خداوندعالم كى جانب سے (كفار كے لئے) تھديد انے كے بعد خداوند تعالى سے فتح كى درخواست كرتے تھے _اس سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ اپنى قوم كى ہدايت كے بارے ميں كوئي اميد نہيں ركھتے تھے_

۳_انبياءعليه‌السلام اور انكے مخالف كفار ميں سے ہر ايك ، دوسرے پر فتح مند ہونا چاہتے تھے _و استفتحو

يہ اس بناء پر كہ جب '' استفتحوا'' كى ضمير كا مرجع انبياءعليه‌السلام اور كفار ہر دو ہوں _''وخاب كلّ جبّار عنيد''كا قرينہ بتاتا ہے كہ ان ميں سے ہر ايك دوسرے گروہ پر فتح پانا چاہتا تھا ليكن كفار كو فتح سے محروم ہونا پڑا_

۴_ ايك دوسرے پر غلبہ پانے كے سلسلے ميں كفار اور انبياءعليه‌السلام كا دعا كرنا ،كفار كے لئے نہ فقط نتيجہ بخش ثابت نہ ہوا بلكہ اس كى وجہ سے انہيں دنيوى ہلاكت سے بھى دوچار ہونا پڑا_و استفتحوا وخاب كلّ جبّار عنيد

لغت ميں ''خاب'' كا معنى ''ھلك'' ايا ہے لہذا ''استفتحوا ''كے قرينے سے ہو سكتا ہے ''خيبة'' كا مطلب ہلاكت ہو_

۵_ہر گمراہ جبار انسان دنيوى خسارے سے دوچار ہوتا ہے_وخاب كلّ جبّار عنيد

لغت ميں ''خاب''كا معنى ''خسر'' اور ''عنيد''كا معنى ''نيكى سے عدول كرنے والا'' ہے_

۶_جھوٹ اور غلط طريقے سے شخصيت بنانا ہى خسارہ ہے_خاب كلّ جبّار عنيد

راغب لكھتا ہے :انسان ميں صفت ''جبار'' كا استعمال ايسے شخص كے بارے ميں ہوتا ہے كہ جس ميں كوئي خامى ہو اور وہ غلط دعوى كے ذريعے ايسا مقام ومنزلت حاصل كر لے كہ جس كا وہ اہل نہيں _اور انسان كے بارے ميں يہ صفت فقط مذمت كے لئے استعمال ہوتى ہے_

۵۷

۷_اپنى قوم كے كفار پرغلبے كے بارے ميں انبياءعليه‌السلام كى دعا كا قبول ہونا اور ان كا ہلاك ونابود ہو جانا_

و استفتحوا وخاب كلّ جبّار عنيد

ہو سكتا ہے '' وخاب كلّ جبّار عنيد''كى عبارت انبياءعليه‌السلام كى دعا كے قبول ہونے كو بيان كر رہى ہو_

۸_انبيا ئے كرامعليه‌السلام كى واضح اور روشن دليلوں كے مقابلے ميں ہٹ دھرمى دكھانے اور ان كامقابلہ كرنے والے كفار ،جبار اور گمراہ لوگ تھے_وقال الذين كفروالرسلهم لنخرجنكم ...وخاب كل جبّارعنيد

۹_اپنے اپ كو بنانے سنوارنے اوراپنے باطل عقائداور ثقافت كو بڑا جاننے (عجب)كے ذريعے اپنى شخصيت كى خاميوں كا ازالہ كرنا ناپسنديدہ فعل ہے_

قالوا ان ا نتم الّا بشر مثلنا تريدون ا ن تصدّونا عمّا كان يعبد ء اباو نا ...قال الذين كفروا لرسلهم وخاب كلّ جبّار عنيد

''عيد''كسى شخص كے اپنے پاس موجود چيز كو خوشگوار جاننے (المعجب بما عندہ)كے معنى ميں ہے اورعبارت ميں موجود قرائن كے مطابق ہو سكتا ہے كفار كے عقائد مراد ہوں كيونكہ يہاں افكار و عقائد كى بحث ہو رہى ہے _

۱۰_ استبداد اور من مانى سرى كا نتيجہ شكست ہے_وخاب كلّ جبّار عنيد

۱۱_''عن النبي صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قال:كلّ جبّار عنيد من ا بى ا ن يقول:لا اله الّا الله '' (۱)

رسول خدا سے منقول ہے كہ اپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا: ''جبار عنيد'' سے مرادہر وہ شخص ہے كہ جو ''لا الہ الّا الله '' كہنے كو پسند نہ كرتا ہو_

۱۲_''عن ا بى جعفر عليه‌السلام قال: (العنيد)

____________________

۱) توحيد صدوق ،ص۲۱،ح۹،ب۱،نور الثقلين ،ج۲، ص۵۳۲ ، ح ۳۷_

۵۸

المعرض عن الحق ;(۱) امام باقرعليه‌السلام سے منقول ہے كہ اپعليه‌السلام نے فرمايا:''عنيد''سے مراد حق سے منہ موڑنے والا شخص ہے_

استبداد:استبداد كى شكست ۱۰;ستبداد كا انجام۱۰

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام كى دعا كى قبوليت ۷;انبياءعليه‌السلام كى روشن دليلوں سے منہ موڑنا ۸;انبياءعليه‌السلام كى فتح ۱،۷;انبياءعليه‌السلام كے تقاضے۳،۴;انبياء كے دشمنوں كے تقاضے ۳; انبياء كے دشمن۸;انبياء كى دعا ۱;انبياء كى لعنت ۲;انبياء كى مايوسى ۲

توحيد:توحيد سے منہ موڑنے والوں كا ظلم ۱۱;توحيد سے منہ موڑنے والوں كى ہٹ دھرمي۱۱

حق:حق سے منہ موڑنے والوں كى ہٹ دھرمي۱۲

خسارہ اٹھانے والے لوگ:۵

روايت:۱۱،۱۲

شخصيت:جھوٹى شخصيت بنانا۶

ظالمين :۸

ظالمين كا دنيوى خسارہ۵

خودپسندي:خودپسندى برا عمل ہے۹

فتح:فتح كى دعا۱،۳

كفار:كفار كى گمراہي۸;كفار كا ظلم ۸;كفار كى ہٹ دھرمي۸

گذشتہ اقوام:گذشتہ اقوام كى دھمكياں ۱;گذشتہ اقوام كے تقاضے۳،۴;گذشتہ اقوام پر لعنت ۲;گذشتہ اقوام كى ہلاكت ۴،۷;گذشتہ اقوام كى ہدايت سے مايوسي۲

منحرف لوگ:۸

منحرف لوگوں كا دنيوى خسارہ۵

____________________

۱) تفسير قمى ،ج۱،ص۳۶۸،نور الثقلين ،ج۲، ص۵۳۲ ، ح۳۸_

۵۹

آیت ۱۶

( مِّن وَرَآئِهِ جَهَنَّمُ وَيُسْقَى مِن مَّاء صَدِيدٍ )

ان كے پيچھے جہنّم ہے اور انھيں پيپ دار پانى پلاياجائے گا_

۱_گمراہ جبارلوگ، دنيوى ہلاكت كے علاوہ اخرت ميں بھى جہنم ميں جائيں گے _

وخاب كلّ جبّار عنيد_من ورائه جهنّم

۲_گمراہ جبار لوگوں كو جہنم ميں گندہ اور بدبودار پانى پلايا جاتاہے_من ورائه جهنّم و يسقى من ماء صديد

''صديد''كا معنى وہ ميل اور گندگى ہے كہ جو گوشت اور جلد كے درميان پيدا ہوتى ہے _يہ كلمہ اہل جہنم كو پلائي جانے والى چيزوں كے لئے استعمال ہوتا ہے

۳_''عن ا بى عبدالله عليه‌السلام فى قوله تعالى :''و يسقى من ماء صديد''و يسقى ممّا يسيل من الدم والقيح من فروج الزوانى فى النار; (۱) امام صادقعليه‌السلام سے خداوند كے كلام ''و يسقى من ماء صديد''كے بارے ميں منقول ہے كہ انہيں جہنم ميں زناكار عورتوں سے جارى ہونے والى گندگى اور خون پلايا جا ئے گا_

۴_''قال ا ميرالمو منين عليه‌السلام : ان ا هل النار لمّا على الزقوم والضريع فى بطونهم كغلى الحميم سا لوا الشراب فا توا بشراب صديد ... ;(۲) امير المؤمنينعليه‌السلام سے منقول ہے كہ اپعليه‌السلام نے فرمايا:جب زقوم اور ضريع اہل جہنم كے پيٹ ميں ابلے ہوئے پانى كى طرح جوش كھاتے ہيں تو وہ پينے كے لئے كچھ مانگتے ہيں تو انہيں گندگى اور خون وغيرہ پينے كے لئے ديا جاتا ہے_

اہل جہنم :۱

جہنم :

____________________

۱) مجمع البيان ،ج۶،ص۴۷۴،نور الثقلين ،ج۲، ص۵۳۲ ، ح ۳۹_

۲)تفسير عياشى ،ج۲،ص۲۲۳،ح۷،نور الثقلين ،ج۲، ص۵۳۲، ح ۴۳_

۶۰

آگاہ  رہو جو شخص ہمارے شیعوں میں سے اس ذمہ داری کو ادا کرے اسکی فضیلت اسلام کے تمام دشمنوں سے جنگ کرنے والے مجاہدین  سے ہزار ہزار بار زیادہ ہے چونکہ علماء ہمارے مانے والے  محبین کے دین اور عقیدے کی دفاع اور محافظت کرتے ہیں جبکہ مجاہد ین انکے بدن اور جسم  کی دفاع کرتے ہیں”  اورقیامت کے دن پروردگار عالم کی طرف سے ایک منادی ندا دے گا کہاں ہے ہیں ایتام آل محمد کی کفالت کرنے والے جو انکی غیبت کے دوران انکی کفالت کرتے تھے( يُنَادِی مُنَادِی رَبِّنَا عَزَّ وَ جَلَّ أَيُّهَا الْكَافِلُونَ لِأَيْتَامِ آلِ مُحَمَّدٍ(ص) النَّاعِشُونَ  لَهُمْ عِنْدَ انْقِطَاعِهِمْ عَنْ آبَائِهِمُ الَّذِینَ هُمْ أَئِمَّتُهُم  (1)

پس ائمہ اطہار ؑکے ان نورانی  کلمات سے معلوم ہوتا ہے کہ عصر غیبت میں فقہا ء ؛ علماء اورخصوصاً ولی امر مسلمین کے انکے نزدیک کیا حیثیت ہے اور انکا کہنا نہ  مانا انکے حق میں جفا اور امام  کے نزدیک انکے مقام کا خیال نہ رکھنا اس شخص کو کس مقام میں لا کر کھڑا کردیتا ہے اگر چہ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہےکہ ہمارے معاشرے میں  ہم میں سے بعض  خوستہ یا ناخواستہ دشمن کے غلط پڑوپکنڈوں کی  زد میں آکر  امام زمانہ کے مطیع نمائندوں کے خلاف ناحق زبان کھولنے  اور گستاخی کرنے کی جرئت کرتے ہیں جبکہ شیطان اور پیروان  شیطان اپنی تمام تر طاقتوں سمیٹ یہ کوشش  کررہیں  ہیں کہ انھی  پڑوپکنڈوں اور افواہوں کے ذریعے مجھ جیسے کمزور  مؤمنین کو علماء سے فقہاء سے دور کیا جاۓ تاکہ  انھیں دین اور ایمان کے دائرے سے نکالنا آسان ہو جاۓ ، اور ہم خود بھی جانتے ہیں کہ جو لوگ علماء اور ولایت فقیہ سے  کٹ جاتے ہیں   حقیقت میں وہ دین  اور صراط مستقیم سے کٹ جاتے ہیں   اور گمراہ ہو جاتے ہیں-نعوذ باﷲ من ذلک  - خدا ہمیں بچا کے رکھے -

پس ان روایات سےمعلوم ہوتا ہے عصر غیبت میں منتظریں کی  ایک اور اہم ذمہ داری  علماء  ،فقہاء کی اطاعت اورفرمان برداری اور خصوصیت کے ساتھ ولی امر مسلمین کے فرمان پر لببیک کہنا اور انکے نقش قدم پر چلنا ہے ۔جو کہ حقیقت میں خط ولایت  کے ساتھ متمسک  رہنا اور صراط مستقیم پر چلنا ہے - خدایا ہمیں  ہر دور میں اپنی حجت کو تشخیص دینے اور انکی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرما  - آمین !ثم  آمین!

--------------

(1):- الصراطالمستقیم ج : 3 ص ۵    

۶۱

۵:  برادران ایمانی کے ساتھ ہمدردی اور معاونت

ائمہ معصومینؐ کے ارشادات کے مطابق ہر دور کے امام کو اپنے ماننے والے مؤمنین پر ایک مہربان اور فداکار باپ کی حیثیت حاصل ہے ، اور تمام مؤ منین کو انکے  فرزندی  کا شرف حاصل ہے  اور یہی وجہ ہے امام زمانہ عجل اﷲ فرجہ کے  دوران غیبت میں مؤمنین کو ایتام آل محمد سے پکارا گیا ہے، يُنَادِی مُنَادِی رَبِّنَا عَزَّ وَ جَلَّ أَيُّهَا الْكَافِلُونَ لِأَيْتَامِ آلِ مُحَمَّدٍ ص النَّاعِشُونَ لَهُمْ عِنْدَ انْقِطَاعِهِمْ عَنْ آبَائِهِمُ الَّذِینَ هُمْ أَئِمَّتُهُم  (1)   اورکسی مؤمن بھائی کے ساتھ احسان وہمدردی ، اسکے ساتھ تعاون کرنے کو امام زمانہ کے ساتھ تعاون کرنے اور انکے حق میں ہمدردی سے پیش آنے  اسی طرح کسی مؤمن  بھائی کے حق کشی ، اسکے ساتھ بے دردی وبے اعتنائی سے پیش آنے کو امام زمانہؑ پر ظلم وجفا اور انکے ساتھ بے اعتنائی  سے پیش آنے کے برابر شمار  کیا گیا ہے ۔

لہذا منتظرین کی ایک اور بہت ہی اہم ذمہ داری عصر غیبت میں ہر ممکنہ راستوں سے برادران ایمانی کے معاشتی ،سماجی ،اجتماعی اقتصادی ، معنوی اور دیگر مختلف قسم کے مشکلات اور گرفتاریوں کو حل کرنے اور انکی ضروریات پورا کرنے کے لیے  جد وجہد کرنا ہے - چنانچہ اسی اجتماعی ذمہ داری کی  اہمیت اور اس پر عمل کرنے والوں کی خدا  و رسول اور  انکے حقیقی جانشین کے نزدیک قدر ومنزلت کو بیان کرتے ہوۓ  جناب شیخ صدوق نے سورہ عصر کے تفسیر میں امام صادق        سے نقل کرتے ہیں آپ فرماتے ہیں :(والعصر انّ الإنسان لفی خسر ) میں عصر سے مراد قائم کے ظھور کا زمانہ ہے  اور(إنّ الإنسان لفی خسر) سے مراد ہمارے دشمن ہیں اور(إلاّ الذین آمنوا ) سے مراد وہ مؤمنین ہیں جنہون نے ہماری آیات کے زریعے  ایمان لائیں ہونگے  - اور ( وعملواالصالحات ) یعنی برادران دینی کے ساتھ ہمدردی  اورتعاون کرتے ہیں(وتواصوا بالحق ) یعنی امامت اور(وتواصوا بالصبر )

--------------

(1):-    مستدرکالوساةل :ج 17 ص 318

۶۲

زمانہ فترت یعنی وہی غیبت کا زمانہ ہے (جس میں امام  غائیب پر عقیدہ رکھتے ہیں اور اس راہ  مین پیش آنے والی مشکلات پر صبر کرتے ہیں )(1) یعنی اس سورہ مبارکہ میں نجات یافتہ مؤمنین سے مراد وہ مؤمنین ہیں جنھون نے دوران غیبت میں اپنے مالی ،معنوی اسطاعت کے زریعے پسماندہ ،بے کس اور ناتوان مؤمنین کےہم دم  اور فریاد رس رہے ہیں  ۔

اسی طرح کسی دوسرے حدیث میں امام صادق        اور امام کاظم          دونوں سے روایت ہے  فرماتے ہیں :ُ مَنْ لَمْ يَقْدِرْ عَلَی زِيَارَتِنَا فَلْيَزُرْ صَالِحَ إِخْوَانِهِ يُكْتَبْ لَهُ ثَوَابُ زِيَارَتِنَا وَ مَنْ لَمْ يَقْدِرْ أَنْ يَصِلَنَا فَلْيَصِلْ صَالِحَ إِخْوَانِهِ يُكْتَبْ لَهُ ثَوَابُ صِلَتِنا (2) جو شخص ہم اہل بیت سے تعاون کرنے یا صلہ کرنے سے معذور ہو اسے چاہیے ہمارے چاہنے والوں کے ساتھ نیکی اور تعاون کرے  تو اسے  ہمارے ساتھ تعاون کرنے اور نیکی کرنے کا ثواب عطا ہو گا،اسی طرح اگر ہماری زیارت سے محروم ہیں تو ہمارے دوستوں اوراللہ کے  صالح بندوں کی زیارت کریں تو  خدا    اسے ہماری زیارت کرنے کا ثواب  عطا کرے گا

 چنانچہ  اما م موسی کاظم         سے روایت ہے فرماتے ہیں :مَنْ أَتَاهُ أَخُوهُ الْمُؤْمِنُ فِی حَاجَةٍ فَإِنَّمَا هِيَ رَحْمَةٌ مِنَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَ تَعَالَی سَاقَهَا إِلَيْهِ فَإِنْ قَبِلَ ذَلِكَ فَقَدْ وَصَلَهُ بِوَلَايَتِنَا وَ هُوَ مَوْصُولٌ بِوَلَايَةِ اللَّهِ وَ إِنْ رَدَّهُ عَنْ حَاجَتِهِ وَ هُوَ يَقْدِرُ عَلَی قَضَائِهَا سَلَّطَ اللَّهُ عَلَ کی ولایت خدا کی ولایت سے متصل ہے  )لیکن اگر اسے رد کر لے جبکہ وہ اس شخص کی حاجت پورا کرنے کی توانائی رکھتا ہو تو پروردگاريْهِ شُجَاعاً مِنْ نَارٍ يَنْهَشُهُ فِی قَبْرِهِ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَغْفُوراً لَهُ أَوْ مُعَذَّباً فَإِنْ عَذَرَهُ الطَّالِبُ كَانَ أَسْوَأَ حَالا   (3) کسی کے پاس اسکا مؤمن بھائی کوئی نہ کوئی حاجت لے کر آۓ تو اسے  یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ  خدا کی طرف سے رحمت ہے جو اس پر نازل ہوئی ہے  پس اس حالت میں اگر اسکی حاجت پوری کر دے تو اسے ہماری ولایت کے ساتھ متصل کیا ہے  اور بے شک اسے  خدا کی ولایت حاصل ہوئی ہے (چونکہ  اہل بیت اطہارؑ  کی ولایت خدا کی ولایت کا ایک حصّہ ہے لہذا جو اہل بیت ؑؑ اطہار کی ولایت کے دائرے میں داخل ہو جائے وہ خدا کی ولایت میں آگیا ہے )

--------------

(1):- صدوق : اکمال الدین:ج۲ ،ص ۶۵۶ -  

(2):- طوسی ،تہذ یب ج ۶ ،ص۱۰۴  اور کامل زیارات :ص ۳۱۹ - 

(3):- کلینی: اصول الکاف یج : 2 ص : ۶ 19 

۶۳

لیکن اگر اسے رد کر دے جبکہ وہ اس شخص کی حاجت پورا کرنے کی توانائی رکھتا ہو تو پروردگار عالم اسکے قبرمیں آگ سے  بنائے  ہوئے ایک سانپ  کو اس پر مسلط کرۓ گا جوقیامت تک اسے ڈنستا رہے گا چاہیے اسے خدا معاف کرے یا نہ کرے اور قیامت کے دن صاحب حاجت اسکا عذر قبول نہ کرے تو اسکی حالت پہلے سے بھی  زیادہ بدتر ہو جاۓ گی-

اسی طرح  متعدد روایات میں کسی مومن بھائی کی حرمت کا خیال نہ رکھنا اسکے ساتھ نیک برتاؤ سے پیش نہ آنا اور اسکے ساتھ تعاون نہ کرنا ائمہ علیہم السلام کے ساتھ تعاون نہ کرنے اور ان مقدس ذوات کی بے حرمتی کرنے کےبرابر جانا گیا ہے چنانچہ ابو ہارو ن نے چھٹے امام سے نقل کیا ہے کہتا ہے  :قَالَ قَالَ لِنَفَرٍ عِنْدَهُ وَ أَنَا حَاضِرٌ مَا لَكُمْ تَسْتَخِفُّونَ بِنَا قَالَ فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ خُرَاسَانَ فَقَالَ مَعَاذٌ لِوَجْهِ اللَّهِ أَنْ نَسْتَخِفَّ بِكَ أَوْ بِشَيْ‏ءٍ مِنْ أَمْرِكَ فَقَالَ بَلَی إِنَّكَ أَحَدُ مَنِ اسْتَخَفَّ بِی فَقَالَ مَعَاذٌ لِوَجْهِ اللَّهِ أَنْ أَسْتَخِفَّ بِكَ فَقَالَ لَهُ وَيْحَكَ أَ وَ لَمْ تَسْمَعْ فُلَاناً وَ نَحْنُ بِقُرْبِ الْجُحْفَةِ وَ هُوَ يَقُولُ لَكَ احْمِلْنِی قَدْرَ مِیلٍ فَقَدْ وَ اللَّهِ أَعْيَيْتُ وَ اللَّهِ مَا رَفَعْتَ بِهِ رَأْساً وَ لَقَدِ اسْتَخْفَفْتَ بِهِ وَ مَنِ اسْتَخَفَّ بِمُؤْمِنٍ فِینَا اسْتَخَفَّ وَ ضَيَّعَ حُرْمَةَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ  ” (1) ایک دفعہ امام صادق       نے کچھ لوگ جوآپ کے   پاس بیٹھے ہوۓ تھے او رانکے ساتھ میں بھی تھا ،ان سےکہا تمھیں کیا ہو گیا ہے ہماری حرمت کا خیال نہیں رکھتے ہو ،تو اہل خراسان کا رہنے والا  ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ ہم آپکو سبک شمار کرے یا آپکے فرمان میں کسی چیز کی بے اعتنائی کرے ، امام نے فرمایا ہاں انھی میں سے ایک تم بھی ہو جو ہمارے  لاج نہیں رکھتے ،اس شخص نے دوبار ا    کہا میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ آپکی لاج نہ رکھوں ،فرمایا چپ ہو جاؤ   کم بخت  کیا تم نے اس شخص کی آواز نہیں سنی تھی اس وقت جب ہم جعفہ کے نزدیک تھے اور وہ تم سے کہ رہا تھا کہ مجھے صرف ایک میل تک اپنے سواری پر بٹھا کر لے چلو خدا کہ قسم میں بہت ہی تھکا ہوں ،خدا کی قسم تم نے سر اُٹھا کر  بھی اسکی طرف نہیں دیکھا اس طریقے سے تم نے اسکی بے اعتنای کی ہے اور  کوئی شخص کسی  مومن کی استخفاف  کرے اسنے ہمارے بے اعتنائی کہ ہے ،اور خدا کی حرمت ضائع کر دی ہے ۔

--------------

(1):- کلینی :روضۃ الکافی،ج۸، ص ۱۰۲ -

۶۴

اسی طرح کسی دوسرے حدیث میں جابر جعفی امام محمد باقر        سے نقل کرتے ہیں: و نحن جماعة بعد ما قضینا نسكنا، فودعناه و قلنا له أوصنا یا ابن رسول الله. فقال لیعن قویكم ضعیفكم، و لیعطف غنیكم علی فقیركم، و لینصح الرجل أخاه كنصیحته لنفسه.... ، و إذا كنتم كما أوصیناكم، لم تعدوا إلی غیره، فمات منكم میت قبل أن یخرج قائمنا كان شهیدا، و من أدرك منكم قائمنا فقتل معه كان له أجر شهیدین، و من قتل بین یدیه عدوا لنا كان له أجر عشرین شهیدا. (1) کہ ہم نے مناسک حج اکٹھے  بجھا   لا نے  کے بعد جب   امام سے الگ ہونے کو تھے آپ سے عرض کیا اے فرزند رسول    ہمارے لیے کوئی نصیحت فرمائیں تو آپ نے فرمایا تم میں سے جو قوی ہے  قدرت ومقام رکھتا ہے اسکی ذمہ داری ہے کمزور لوگوں کی مدد کرے اور جو مالدار ہے فقیروں اور بے کسوں پر ترس کریں انکی نصرت کریں ،اوراپنے  مومن بھائی کے ساتھ اس طرح خیر خواہی سے پیش آے  جس طرح اپنے نفس کے ساتھ خیر خواہ ہے .....اور اگر تم نے ہماری نصیحت پر عمل کیا  تو غیروں میں سے شمار نہیں ہوگے- اب اس حالت میں تم میں سے جو شخص  قائم آل محمدکے قیام کرنے سےپہلے مر جاۓ تووہ شہید کی موت مرا  ہے ،اور جو  اپنی زندگی میں انھیں درک کرلے اور انکے ساتھ جھاد کرے تو اسے دو شہید کا ثواب عطا کرے گا ،اور جو شخص انکے ساتھ ہوتے ہوے ہمارے کسی دشمن کو قتل کرلیں تو اسے بیس ۲۰ شہید کا اجر دیا جاۓگا- پس ان روایات سے بخوبی یہ واضح ہوتا ہے کہ منتظرین کی اپنے مومن بھائی کی نسبت کیا ذمہ داری ہے اور اس اجتماعی  ذمہ داری کی کیا اہمیت ہے کہ جس کا خیال رکھنا  ہم سب کا شرعی اور اخلا قی فریضہ ہے - 

۶: خود سازی اور دیگر سازی

منتظرین کی ایک اور اہم ذمہ داری خودسازی و اپنے جسم وروح کی تربیت کے ساتھ ساتھ دیگر سازی  اور ہم نوع کی تربیت بھی ہے ،خود سازی اور دیگر سازی ایک اہم دینی وظیفہ ہونے کے ساتھ بزرگ ترین اور عالی ترین  انسانی خدمات میں سے بھی شمار ہوتا ہے

--------------

(1):- امالی طوسی ،ص ۲۳۲ اور بحار انوار ،۵۲ ،ص ۱۲۲ ،ح ۵ - 

۶۵

اور اسلامی تعلیمات میں بھی حضرت ولی عصر ؑاور انکے جان بہ کف آصحاب  تاریخ انسانیت کے پرہیز گار ؛متقی اور صالح ترین افراد ہونگے چنانچہ انکے توصیف میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے :وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فىِ الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِىَ الصَّلِحُون٭  (1)   اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے۔

 اسی طرح احادیث معصومین میں بھی امام عصر ؑکے آصحاب وہ لوگ ہونگے جنھیں خدا ورسولؐ اور ائمہ معصومینؑ کی صحیح معرفت  حاصل ہوگئی ، اخلاق اسلامی سے متخلق؛ نیک کردار کے مالک ؛عملی میدان میں ثابت قدم و پائیدار ؛ دستورات دینی کے مکمل پابند اور فرامین معصومینؑ کے سامنے سر تسلم خم ہونگے ۔

چنانچہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام نھج البلاغہ میں انکے توصیف میں فرماتے ہیں :وَ ذَلِكَ زَمَانٌ لَا يَنْجُو فِیهِ إِلَّا كُلُّ مُؤْمِنٍ نُوَمَةٍ إِنْ شَهِدَ لَمْ يُعْرَفْ وَ إِنْ غَابَ لَمْ يُفْتَقَدْ أُولَئِكَ مَصَابِیحُ الْهُدَی وَ أَعْلَامُ السُّرَی لَيْسُوا بِالْمَسَايِیحِ وَ لَا الْمَذَايِیعِ الْبُذُرِ أُولَئِكَ يَفْتَحُ اللَّهُ لَهُمْ أَبْوَابَ رَحْمَتِهِ وَ يَكْشِفُ عَنْهُمْ ضَرَّاءَ نِقْمَتِه‏. “ (2) اخری زمانہ  وہ زمانہ ایسا ہو گا جس میں صرف وہ مؤمن نجات پاسکے گا کہ جو گمنام اور بے شر ہو گا مجمع اسے  نہ پہچانے اور غائب ہو جاۓ تو کوئی اسکی  تلاش نہ کرۓ یہی لوگ ہدایت کے چراغ اور راتوں کے مسافروں کے لیۓ  نشانیان  منزل ہوں گۓ  نہ ادھر ادُھر   لگاتے پھرین گۓ  اور نہ لوگوں کے عیوب کی اشاعت کریں گے ؛ ان کے لئے اﷲ رحمت کے دروازے کھول دے گا اور ان سے عذاب کی سختیوں کو دور کردے گا

--------------

(1):- انبیاء :۱۰۵ - 

(2):- نہج البلاغ ہ،خ ۱۰۳ ،ص ۲۰۰ ،ترجمہس ید ذیشان حیدر جوادی - 

۶۶

اسی طرح صادق آل محمد  سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں : “جو شخص چاہتا ہے کہ حضرت قائم  ؑکے اصحاب میں سے ہوں اسے چاہئے انتظار کرنے کے ساتھ ساتھ پرہیزگاری اور نیک اخلاق کو پناۓ ،پھر اگر وہ اس حالت میں انکے قیام سے پہلے مر جاۓ اور بعد میں ہمارا قائم قیام کرۓ تو اسے ایسا اجر دیا جاۓگا جیسے اس نے حضرت کو درک کیا ہو.(1) اور خود معصومینؑ کے فرمان کے مطابق مبغوض ترین فرد وہ شخص ہے جو مؤمن اور امام زمانہ کے منتظر ہونے کا دعوا کرے لیکن قول وفعل میں انکے دیے ہوۓ دستورات اور دینی قوانین کے مخالفت سمت قدم اٹھاۓ چنانچہ اسی نقطے کی طرف اشارۃکرتے ہوۓ امام ذین العابدین فرماتے ہیں :لَا حَسَبَ لِقُرَشِيٍّ وَ لَا لِعَرَبِيٍّ إِلَّا بِتَوَاضُعٍ وَ لَا كَرَمَ إِلَّا بِتَقْوَی وَ لَا عَمَلَ إِلَّا بِالنِّيَّةِ وَ لَا عِبَادَةَ إِلَّا بِالتَّفَقُّهِ أَلَا وَ إِنَّ أَبْغَضَ النَّاسِ إِلَی اللَّهِ مَنْ يَقْتَدِی بِسُنَّةِ إِمَامٍ وَ لَا يَقْتَدِی بِأَعْمَالِهِ.” (2)   کسی کو عربی اور قریشی ہونے کی بنا پر دوسروں پر کسی قسم کی فوقیت اور برتری حاصل نہیں ہے سواۓ تواضع کے اورکسی کو کوئی کرامت حاصل نہیں ہے الا  یہ  کہ تقوای اختیار کرے  اور کوئی عمل نہیں ہے سواۓ نیت کے اور کوئی عبادت نہیں ہے سواۓ تفقہ کے (یعنی عبادت درست معرفت کے ساتھ ہے ) پس ہو شار رہو!پروردگار عالم کے نزدیک مبغوض ترین شخص وہ ہے جو ہماری ملت اور مذہب پر ہو لیکن عمل میں ہماری پیروی  واقتدا ء نہ کرے۔ اسی طرح امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :إِنَّا لَا نَعُدُّ الرَّجُلَ مُؤْمِناً حَتَّی يَكُونَ لِجَمِیعِ أَمْرِنَا مُتَّبِعاً مُرِیداً أَلَا وَ إِنَّ مِنِ اتِّبَاعِ أَمْرِنَا وَ إِرَادَتِهِ الْوَرَعَ فَتَزَيَّنُوا بِهِ يَرْحَمْكُمُ اللَّهُ وَ كَبِّدُوا أَعْدَاءَنَا بِهِ يَنْعَشْكُمُ اللَّهُ  (3) ہم کسی کو مومن نہیں جانتے جب تک وہ ہماری مکمل پیروی نہ کرۓ اور یہ جان لو ہماری پیروی پرہیز کاری اور تقوای اختیار کرنے میں ہے ،پس  اپنے آپکو زہد و  تقوای کے ذریعے زینت  دو  تاکہ خدا تمھیں  غریق رحمت کرۓ ،اور اپنے تقوای کے ذریعے ہمارے دشمنوں کو سختی وتنگی میں ڈال دو تاکہ خدا تمھیں عزت کی زندگی عطا کرے-

--------------

(1):- غیبۃ نعمانی :ص   ۱۰۶ 

(2):- کلینی :روضۃ الکافی ،ص ۲۳۴ ،ح۳۱۲ - 

(3):- کلینی :اصول کاقی ،ج۲ ،ص ۷۸ ،ح۱۳ - 

۶۷

پس ان روایات اور دوسری متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ہم نے ان مقدس ہستیوں کو اپنے مولا ومقتدا قبول کیا ہے تو  وہ ذوات بھی ہم سےیہ توقع رکھنے کا حق رکھتے ہیں کہ ہم عمل وکردار میں انکے  نقش قدم پر چلیں اسی لیے معصومینؑ فرماتے ہیں :کہ تم ہمارے لئے  زینت  کا باعث بن جاؤ ننگ وعار کی باعث مت بنو (1)

۷: شبہات اور بدعتوں کا مقابلہ

زمان غیبت میں ہم سب کی  خصوصاً  علماءاور بیدار طبقے کہ ایک اہم فرائض معاشرے میں خود غرض یا سادہ لوح دوستوں کے ہاتھوں مختلف قسم کےبدعتوں اور ان شبھات کا مقابلہ کرنا ہے جو امام زمان     ہ   کی غیبت کی وجہ سے انکے بارے میں وجود میں آئی ہیں چنانچہ امام صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں :إِذَا رَأَيْتُمْ أَهْلَ الرَّيْبِ وَ الْبِدَعِ مِنْ بَعْدِی فَأَظْهِرُوا الْبَرَاءَةَ مِنْهُمْ وَ أَكْثِرُوا مِنْ سَبِّهِمْ وَ الْقَوْلَ فِیهِمْ وَ الْوَقِیعَةَ وَ بَاهِتُوهُمْ كَيْلَا يَطْمَعُوا فِی الْفَسَادِ فِی الْإِسْلَامِ وَ يَحْذَرَهُمُ النَّاسُ وَ لَا يَتَعَلَّمُوا مِنْ بِدَعِهِمْ يَكْتُبِ اللَّهُ لَكُمْ بِذَلِكَ الْحَسَنَاتِ وَ يَرْفَعْ لَكُمْ بِهِ الدَّرَجَاتِ فِی الْآخِرَةِ ” (2) میرے بعد اہل تریدد (یعنی جو  ائمہ کی ولایت و امامت کے متعلق شک وتردید کا اظہار کرے)اور اہل بدعت (یعنی دین میں نئی چیز ایجاد کرنے والا جسکا دین سے کوئی ربط نہ ہو)کو دیکھیں تو ان لوگوں سے اپنی برائت و بیزاری کا اظہار کرو ،اور اس طرح انکے خلاف پروپکنڈہ کرو  کہ آیند ہ کوئی اسلام میں اس طرح کی فساد پھلانے کی جرئت نہ کرۓ اور لوگ خود بخود ان سے دور ہو جائیں اور انکی بدعتوں کو نہ اپنائیں اگر ایسا کیا تو پروردگار عالم اسکے مقابلے میں تمھیں حسنہ دیا جاۓ گا اور تمھارے درجات کو بلند کر ے گا ۔

اسی طرح بعض شبھات دشمنوں نے خود امام زمانہؑ کے بارے میں  لوگوں کے  حضرت مہدی پر عقیدے کو کمزور کرنے اور اس میں خلل  پیدا کرنے کے لئے ایجاد کیا ہے جیسا کہ آج کل نٹ پر ۱۰  ہزارسے زیادہ شبھات انکے متعلق دیا گیا ہے؛   تو علماء کی ذمہ داری ہے کہ ان شبھات کا مقابلہ کریں

--------------

(1):-کلینی: کافی ،ج ۲ ، ص ۷۷ ،ح۹ - 

(2):- کلینی : اصول کافی،ج۲ ،ص ۳۷۵ ،ح ۴

۶۸

 اور بطوراحسن  جواب دیں  اور  لوگوں کو امام زمانہ  ہ      کے مقدس وجود کی طرف جذب ہونے کا زمینہ فراہم کریں لہذا ہماری اس اہم زمہ داری اور عصر غیبت میں رونما  ہونے والے شبھات کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ امام صادق          فرماتے ہیں :.....  فإیاكم و الشك و الارتیاب و انفوا عن أنفسكم الشكوك و قد حذرتكم فاحذروا أسأل الله توفیقكم و إرشادكم (1) خبردار شک وریب سے پرہیز کرنا ،(یعنی انکے غیبت اور ظہور کے بارے میں) اپنے دلوں سے شکوک وشبھات باہر نکال دو میں نے تم لوگوں کو برحزر کردیا ہے لہذا تم لوگ اس قسم کے شک وتردید سے باز رہو  (چونکہ اس  امر میں شک صراط مستقیم میں شک کے برابر ہے ) میں اﷲ تعالی سے تمھارے لئے توفیقات اور ہدایت کی دعا کروں گا-

اسی طرح رسول اکرم (ص) فرماتے ہیں:......... یا جابر إن هذا الأمر أمر من أمر الله و سر من سر الله مطوی عن عباد الله فإیاك و الشك فیه فإن الشك فی أمر الله عز و جل كفر (2) اے جابر انکی غیبت اورظہور میں شک کرنا  خدا سے کفر اختیار کرنے کے برابر ہے -

اورہم سب جانتے ہیں کی آج کا دور ایسا دور ہے جس میں ایک طرف دشمن مختلف شبہات اور غلط پروپکنڈوں کے ذریعے لوگوں کو عقیدہ انتظار اور اسکی حقیقت سے دوررکھنے اور انکے دلوں میں شک وتردید پیدا کرنے کے درپے ہیں تو دوسری طرف جعلی اور فرصت طلب افراد امام زمانہ ؑکے مقدس نام پر مؤمنین کے انکی نسبت صادقانہ عقیدے سے سؤء استفادہ کرنے اور مختلف قسم کی دکانین کھولنے کی کوشش میں لگے ہوۓ ہیں لہذا علماو اور ذمہ دار افراد کی ذمہ داری ان دونوں حدود  پر دشمن کے مقابلہ کرنا ہے

--------------

(1):- الغیبةللنعمان ی      ص     150 ،ح ۸ -    

(2):- صدوق اکمال الدین : ج ۱ ، ص ۲۸۷ - 

۶۹

۸:بے صبری سے پرہیزکرنا

اس میں کوئی شک نہیں کہ عصر غیبت مشکلات اور مصائب کے ہجوم لانے کا زمانہ ہے اور مومنین سے مختلف قسم کی سختیوں اور گرفتاریوں کے ذریعے سے امتحان لیا جاۓ گا تاکہ اس طرح نیک وبد ؛صادق و کاذب اور مومن ومنافق میں تمیز ہو جاۓ اور یہ ایک سنت الہی ہے اس امت یا اس زمان کے لوگوں تک محدود نہیں بلکہ گزشتہ امتوں سے لیا گیا ہے اور آئیند آنے والے نسلوں سے بھی تا قیامت تک مختلف ذریعوں سے امتحان لیا جاۓ گا ۔ چناچہ اسی سنت الھی کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ پروردگار عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے :ما كانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنینَ عَلی‏ ما أَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتَّی يَمیزَ الْخَبیثَ مِنَ الطَّيِّبِ.....٭  ” (1) اﷲ تعالی مومنین کو منافقین سے جس حالت میں نا مشخص ہے نہیں رکھا جاۓ گا ،یہاں تک (امتحان کےذریعے )خبیث اور طیب میں تمیز پیدا ہو جاۓ ۔ اسی طرح سورہ   عنکبوت کی آیت  نمبر۲   میں فرماتا ہے :أَ حَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَ هُمْ لا يُفْتَنُونَ٭ وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذینَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذینَ صَدَقُوا وَ لَيَعْلَمَنَّ الْكاذِبینَ   (2) “کیا لوگوں نے  یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دۓ جائیں گے کہ وہ یہ کہے کہ ہم  ایمان لے آۓ ہیں اور انکا امتحان نہیں ہو گا ٭ بشک ہم نے ان سے پہلے والوں کا بھی امتحان لیا ہے اور اﷲ تو بہر حال یہ جاننا چاہتا ہے کہ ان میں کون لوگ سچے ہیں اور کون جھوٹے ہیں ” 

--------------

(1):- سورہآل عمران : ۱۷۹ - 

(2):- سورہعنکبوت : ۲ -۳ - 

۷۰

اورناطق قرآن علی ابن ابی طالبؑ اسی بارے میں فرماتے ہیں :.....ِ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعَاذَكُمْ مِنْ أَنْ يَجُورَ عَلَيْكُمْ وَ لَمْ يُعِذْكُمْ مِنْ أَنْ يَبْتَلِيَكُمْ وَ قَدْ قَالَ جَلَّ مِنْ قَائِلٍ إِنَّ فِی ذلِكَ لَآیاتٍ وَ إِنْ كُنَّا لَمُبْتَلِین (1)   لوگو اﷲ تعالی کسی پر ظلم نہیں کرتا لیکن کبھی یہ ضمانت نہیں دیا ہے کہ تم سے امتحا ن بھی نہیں لیا جاۓ گا ، اور خدا سب سے بڑکر سچا ہے ،یوں فرماتا ہے “ بے شک ان حوادث اور وقعات میں علامتیں اور نشانیان ہیں اور ہم اچھے اور بُرے سب بندوں سے امتحان لیتے ہیں ”-

اور انھیں نشانیوں کی طرف اشارہ کرتے ہو ۓ اما م صادق        فرماتے ہیں :ہمارے قائم کے ظھور سے پہلے مومنین کے لئے خدا  کی  جانب سے کچھ نشانیاں ہیں ،عرض ہوا  یا ابن رسول اﷲ        وہ نشانیاں کیا ہیں ؟ فرمایا وہ نشانیاں اس کلام الھی میں ذکر ہوئی ہیں اور اس آیت کی تلاوت کی“وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْ‏ءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِنَ الْأَمْوالِ وَ الْأَنْفُسِ وَ الثَّمَراتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرینَ٭  “ (2) اور یقیناً  ہم تم سے خوف، بھوک اور اموال ،نفوس اور ثمرات کی کمی سے امتحان لیا جاۓ گا اور اے پیغمبر(ص) آپ ان صبر کرنے والوں کو بشارت دیدیں ” بے شک تم سے امتحان لیا جاۓ گا یعنی حضرت قائم کے خروج سے پہلے مومنین سے سلاطین جور  سے  ترس ،منگائی ،گرانی کی وجہ سے بھوک ؛گرسنگی ،تجارت میں ورشکستگی و ناگہانی موت اورفصل وکاشت میں نقصان کے ذریعے امتحان لیا جاۓ گا ،پھر فرمایا اے محمد بن مسلم یہ ہے اس آیت کی تاویل جسکی تاویل(وَ ما يَعْلَمُ تَأْویلَهُ إِلاَّ اللَّهُ وَ الرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنا وَ ما يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُولُوا الْأَلْباب‏ (3) سواۓ خدا اور راسخین  فی علم کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔

--------------

(1):- نہج البلاغ ہخطب ہ ۱۰۳ اردو ترجمہس ید ذیشان حیدر - 

(2):- بقرہ: ۱۵۵ - 

(3):- آل عمران :۷ - 

۷۱

اور امام زمانہؑ کے طول غیبت کے دوران  مختلف قسم کےسختیوں ا ورمصیبتوں پر صبر کرنے والوں کی توصیف میں پیغمبر اکرم(ص)  فرماتے ہیںَّ:قَالَ(ص) طُوبَی لِلصَّابِرِینَ فِی غَيْبَتِهِ طُوبَی لِلْمُقِیمِینَ عَلَی مَحَجَّتِهِمْ أُولَئِكَ وَصَفَهُمُ اللَّهُ فِی كِتَابِهِ فَقَالَ الَّذِینَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ... (1) خوش ہیں وہ لوگ جو اس کی غیبت کے زمانہ میں صبر سے کام لیں خوش ہیں وہ لوگ جواسکی محبت پر ثابت قدم رہیں،ان ہی لوگوں کی تعریف میں اﷲ نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمایا ہے ،اور وہ لوگ غیب پر ایمان رکھتے ہیں.اور متعدد روایات میں انکی غیبت کی وجہ سے پیش آنے والی مصیبتوں واذیتوں پر بے صبری کرنے سے منع کیا گیا ہے اور قضاء وقدر کے سامنے تسلم ہونے کا حکم دیا ہے جیسا کہ شیخ کلینی نے اپنی سند امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے حضرت نے فرمایا :

كَذَبَ الْوَقَّاتُونَ وَ هَلَكَ الْمُسْتَعْجِلُونَ وَ نَجَا الْمُسَلِّمُونَ  (2) ظہور کے وقت تعین کرنے والے ہلاکت میں ہوں گے لیکن قضاوقدر الہی کے سامنے تسلیم ہونے والے نجات پائیں گے

۹: جوانوں کی مخصوص ذمہ داری

اسلامی تعلیمات میں جوانی اور جوان طبقے کو خاص اہمیت اور مخصوص مقام حاصل ہے ،انکے ساتھ الفت ،عطوفت کے ساتھ پیش آنے اور ہمیشہ اچھی نگاہوں سے دیکھنے پر زور دیا گیا ہے جس طرح رسول اکرم  (ص)کا فرمان ہے:اوصیكم بالشباب خیراً فإنّهم ارقُّ افئدةً انّ اللّه بعثنی بالحق بشیراً و»نذیراً  فحالفنی الشباب وخالفنی الشیوخ .تمھیں وصیت کرتا ہوں ان جوانوں کے بارے میں جو پاک دل ہوتے ہیں ،جب اﷲ تعالی نے مجھے بشیرو نذیر بنا کر بھیجا تو یہ جوان تھے جنھوں نے میرے ساتھ دیا جبکہ عمر رسیدہ افراد نے میری مخالفت کی ۔

--------------

(1):- مجلسی : بحار الانوار،ج۵۲ ،ص ۱۴۳ - 

(2):- الکاف یج : 1 ص : 368

۷۲

پس کلام رسول پاک (ص) سےہمیں یہ درس ملتا ہے کہ جوانوں کو بری نگاہوں سے نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ انکے بارے  میں نیک سوچ رکھنا چاہیے اور تاریخ اسلام اس بات پر زندہ گواہ ہے کہ جب نبی اکرم(ص) نے ذوالعشیرمیں قریش کو توحید اور دین کی طرف پہلی بار دعوت دیا تو جس شخص نے سب سے پہلے آنحضرت(ص) کی دعوت پر لبیک کہا وہ علی ابن ابی طالب ۱۰ سالہ نوجوان تھے جبکہ بزرگان قریش آخری دم تک آپ کے مخالفت کرتے رہیں ۔

جوانی کی قدر وقیمت کے لیے یہی کافی ہے کہ خود امام زمانہؑ  ظہور کریں گے تو  آپ جواں  ہونگے  جیسا کہ امیر مومنین فرماتے ہے-مہدیؐؑ  قریش کے خاندان کا  ایک دلیر ؛ شجاع اور تیز ہوش جوان ہونگے تیس یا چالیس سے کم عمر میں ظہور کریں گے - اسی طرح امام زمانہ  ؑکا خاص سفیر نفس زکیہ جنہیں رکن مقام کے درمیان شہید کیا جاۓ گا ایک جوان ہو ں گئے ـ   اما م صادق        اس بارے میں فرماتے ہیں :امام زمانہ کے ظہورکے وقت انکی طرفسے ایک جوان شخص سفیرکے عنوان سے منتخب ہونگے تاکہ امام ؑکے پیغام کو اہل مکہ تک پہنچا  ۓ اور انھیں آنحضرت کی حکومت کے پرچم تلے آنے کی دعوت دے لیکن مکہ کے حکمران اسے رکن  و مقام کے درمیان شھید کریں گے(1)   اسی طرح مختلف روایا ت میں آیا ہے کہ امام عصر کے ۳۱۳  اصحاب میں سے بہت ہی کم افراد کے سب جوان ہونگے  -چناچہ امیر مومنین        فرماتے ہیں  - امام مہدی ؑکے اصحاب سارے جوان ہونگے ان میں کوئی بھوڑے نہیں ہونگے سواۓ آنکھ میں سرمہ اور کھانےمیں نمک کی برابرکے :أصحاب المهدی شباب لا كهول فیهم إلا مثل كحل العین و الملح فی الزاد و أقل الزاد الملح (2)   اور کتنا ہی کم ہو تا ہے کھانے میں نمک  کی مقدار ۔

--------------

(1):- طوسی الغیبہ ،ص ۴۶۴ -

(2):- طوسی الغیبہ ،ص ۴۷۶  اور بحار انوار ج ۵۲ ، ص ۳۳۳ -

۷۳

 اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اما م زمانہؑ کے غیبی ندا پر سب سے پہلے  لبیک کہنےوالے اکثر جوان ہی ہونگے  امامؑ صادق  فرماتے ہیں: امام ؑکے ظہور کرنے کے بعد جب انکا آسمانی ندا انکے کانوں تک پہنچ جاے گی تو اس حالت میں لبیک کہیں گے کہ اپنے  اپنے چھتوں پر آرام کررہے ہونگے اور بغیر کسی آمادگی کے حرکت کریں گے اور صبح ہوتے ہوتے اپنے امامؑ کی زیارت سے شرف یاب ہونگے -  (1)

سوال نمبر 14: کیا عصر غیبت میں حضرت مھدی  سے ملاقات ممکن ہے اگر ممکن ہے تو کیسے ؟

جواب : کثرت روایات اور مستند تاریخی حوالے یہ یہ بات ثابت ہے کہ غیبت صغری میں حضرت مھدی  کے نائبین خاص کے ذریعہ آپکے مانے والے آپ سے رابطہ برقرار کیے ہوے تھے او ر ان میں سے بعض افراد امام  کے حضور میں شرف یاب بھی ہوئے ہین ۔لیکن غیبت کبری میں یہ رابطہ ختم ہو گیا ہے اور امام عصر  سے عام طور پر ملاقات کرنا عادتا ً ناممکن ہے چو نکہ بنا اور وظیفہ آپکے لوگوں کی نگاہوں سے مخفی رہنا ہے لیکن اسکے باوجود عقلاً اور شرعاً دونو ں اعتبار سے آپکی دیدار سے مشرف ہونے میں کوئی مانع نہیں ہے جسکے تقریباً تمام علماء متقدمیں اور متاخریں سب متفق ہیں ۔جیسا کہ شیخ طوسی قدس سرہ فرماتے ہیں : ہم ممکن سمجھتے ہیں کہ بہت سے اولیا اور انکی امامت کے ماننے والے حضرات انکی خدمت میں پہونچیں اور انکی ہستی سے استفادہ کریں(2)    اسی طرح سیّد ابن طاووس علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں : امام کی زیارت کے راستے ہر اس شخص کے لیے کھلا ہوا ہے جسے خدا اپنے بے انتہا احسان اور انکی زیارت عنایت فرمائے(3) :  اور تاریخ میں بھی انتہائی باوقا ر افراد  اور عظیم الشان علماء کی امام زمانہ  سے ملاقات کے واقعات نقل ہوئے ہیں (4)

--------------

(1):- نعمانی الغیبہ :ص ۳۱۶  ،باب ۲۰ ح ۱۱-

(2):- کلمات المحقیقن :ص533

(3):- الطرائف : ص185 

(4):- دیکھئے:جنة الماویٰ،اور نجم الثاقب،محدث نوری

۷۴

یہاں ضروری ہے کہ امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی ملاقات کے بارے میں بحث کے حوالے سے درج ذیل نکات پر توجہ دی جائے:

پہلا نکتہ یہ ہے کہ امام  علیہ السلام  کی ملاقات کبھی ایسے لوگوںکی نصرت اور مدد کے لئے ہوتی ہے کہ جو پریشانیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور تنہائی و بے کسی کا احساس کرتے ہیں۔ مثلاً جیسے کوئی حج کے سفر میں راستہ بھٹک گیا اور امام  علیہ السلام  یا ان کے اصحاب میں سے کسی صحابی نے اسے سرگردانی سے نجات دی اور امام  علیہ السلام سے اکثر ملاقاتیں اسی طرح کی ہوئی ہیں۔

لیکن بعض ملاقاتیں عام حالات میں بھی ہوئی ہیں اور ملاقات کرنے والے اپنے مخصوص روحانی مقام کی وجہ سے امام  علیہ السلام  کی ملاقات سے شرفیاب ہوئے ہیں۔لہٰذا مذکورہ نکتے کے مد نظر توجہ رہے کہ ہر کسی سے امام  علیہ السلام کی ملاقات کا دعویٰ قابل قبول نہیں ہے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ غیبت کبریٰ کے زمانہ میں خصوصاً آج کل بعض لوگ امام زمانہ  علیہ السلام  کی ملاقات کا دعویٰ کرکے اپنی دُکان چمکا کرشہرت اور دولت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس طرح بہت سے لوگوں کو گمراہی اور عقیدہ و عمل میں انحراف کی طرف لے جاتے ہیں، بعض دعاؤں کے پڑھنے اور بعض ایسے اعمال انجام دینے کی دعوت دیتے ہیں کہ ان میں سے بہت سے اذکار اور اعمال کی کوئی اصل اور بنیاد بھی نہیں ہے۔ امام زمانہ علیہ السلام  کے دیدار کا وعدہ  دے کر ایسی محفلوں میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں جن کے طور طریقے دین یا امام زمان علیہ السلام     کے لئے قابل قبول نہیں اوریوں وہ لوگ امام غائب کی ملاقات کو سب کے لئے ایک آسان کام قرار دیتے ہیں، جبکہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام  علیہ السلام  خداوندعالم کے ارادہ کے مطابق مکمل طور پر غیبت میں ہیں اور صرف ایسے گنتی کے چند افراد ہی کی امام  علیہ السلام سے ملاقات ہوتی ہے جن کی نجات فقط لطف الٰہی کے اس مظہر یعنی اما م عصر کی براہ راست عنایت پرمنحصر ہوتی ہے۔

۷۵

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ امام علیہ السلام  کی ملاقات صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب امام زمانہ  علیہ السلام کی نظر میں کوئی مصلحت اس ملاقات میں ہو،

لہٰذا اگرکسی عاشق امام  علیہ السلام کو اس کے تمام تر اشتیاق ورغبت اور بھرپور کوشش کے باوجودبھی امام سے ملاقات کا شرف حاصل نہ ہوسکے تو اس کوما یوسی اور ناامیدی کا شکار نہیں ہونا چاہئے اورملاقات نہ ہونے کو امام  علیہ السلام کے لطف و کرم کے نہ ہونے کی علامت قرار نہیں دینا چاہئے، جیسا کہ جو افراد امام  علیہ السلام  کی ملاقات  سے فیض یاب ہوئے ہیں ان کی ملاقات کو ان کے تقویٰ اور فضیلت کی علامت قرارنہیں دیا جا سکتا ہے۔

حاصل کلام یہ کہ اگرچہ امام زمانہ  علیہ السلام کے جمالِ پر نور کی زیارت اور دلوں کے اس محبوب سے گفتگو اور کلام کرنا واقعاً ایک بڑی سعادت ہے لیکن آئمہ  علیہم السلام خصوصاً امام عصر علیہ السلام  اپنے شیعوں سے یہ نہیں چاہتے کہ ان سے ملاقات کی کوشش میں رہیں اور اپنے اس مقصود تک پہنچنے کے لئے  چِلّہ  کاٹیں، یا جنگلوں میں مارے مارے پھریں؛ بلکہ آئمہ معصومین علیہم السلام نے بہت زیادہ تاکید کی ہے کہ ہمارے شیعوں کو ہمیشہ اپنے امام کو یاد رکھنا چاہئے اور ان کے ظہور کے لئے دعا کرنا چاہئے اور آپ کی رضایت حاصل کرنے کے لئے اپنی رفتار و کردار کی اصلاح کی کو شش کرنا چاہئے اورآپ کے عظیم مقاصد کے حصول کے راستے پر قدم بڑھانا چاہئے تاکہ جلد از جلدبشریت کی اس آخری امید کے ظہور کا راستہ ہموار ہوجائے اور کائنات ان کے وجود سے براہ راست فیضیاب ہو۔خود امام مہدی  علیہ السلام فرماتے ہیں:''اَکثِرُْوا الدعَاء َ بِتَعجِیلِ الفرجِ، فانَّ ذَلکَ فَرَجُکُم'' (1)  

--------------

(1):- کمال الدین،ج2،باب45،ح4،ص239. اس مطلب کو محور کائنات  جناب  سیفی کی کتاب سے لیا گیا ہے ۔

۷۶

سوال نمبر 15: انتظار کیا ہے ؟  اور اسکا صحیح  معنی بیان کیجہے ؟

ج : انتظار کا صحیح مفہوم :

لغت کے اعتبارسے انتظار  ایک نفسیاتی حالت جو آئندہ اور مستقبل کے لیۓ  امیدوار ہونا ہے لیکن اسلامی تعلیمات میں انتظار نہ صرف ایک نفسیاتی حالت کا نام نہیں بلکہ عقیدہ ہے عقیدہ حق وعدالت  کے طاقتوں کا ظلم وباطل کے طاقتوں پر مکمل طور پر غالب آنے ،تمام انسانی اقدار کا روۓ زمین پر برقرار ہونے اور مدینہ فاضلہ یعنی ایک آئیڈیل آفاقی معاشرے کے وجود میں لانے بلاآخر عدل الہی اور دین الہی کا اس روۓ زمین پر آخری حجت خدا کے ہاتھوں جلوہ گرہونے کا ۔

انتظار نظریہ ہے نظریہ آخری زمانہ میں منجی موعود کا ظہور کرنے اور عالم بشریت کو موجودہ حالات سے نجات دینے اور مستضعفیں کے ہاتھوں ایک آفاقی اور الھی نظام کا قائم کرنے کا ہے ۔انتظار عمل اور حرکت ہے ایسا عمل جو جس میں نفس کہ تزکیہ ہو، فردی اور اجتماعی اصلاح ہو یعنی خود سازی کے ساتھ دیگر سازی اور سماج سازی بھی ہو ،اور ایسی حرکت جو منظم اور انسانی زندگی کے تمام پہلو اور زاویوں سے  ہو، اور اس آفاقی نظام کے لیۓ  زمینہ فراہم کرۓ اور اس دور کے ساتھ ہم آہنگ اور وہم سوہوں  یہ ہے حقیقت انتظار  اسی لیے اہل بیت اطہارعلیم السلام نے واضح  الفاظ مین نظریۃانتظار کے بنیادی رکن کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ فرمایا ہے کہ انتظار صرف نفسیاتی حالت کا نام نہیں بلکہ عمل ہے اور وہ بھی بہتریں عمل ہے جیسا کہ  فریقین کی جانب سے منقول ہے رسول خدا (ص) نے فرمایاافضل اعمال امتی انتظار الفرج من اﷲ (1) -میری امت کے اﷲ تعالی کی جانب سے ظہور وآسائش کا انتظار کرنا بزرک ترین عمل ہے ۔ یاکسی اور مقام پر   آپ  یوں فرماتے  ہیں  -انتظار الفرج عبادة افضل اعمال اُمّتی انتظار فرج اﷲ عزّوجل  (2) - فرج اور آسائش کا انتظار کرنا عبادت ہیں میری امت کے اعمال میں سب کے بہتر عمل اﷲ کی طرف سے فرج وکشائش کا انتظار ہے

--------------

(1):- کمال الدین:  ج ۲ باب نمبر ۵۵ ح ۱ -

(2):- کنزل العمال : ج ۳ ص ۲۷۳ ح ۶۵۰۹ -

۷۷

اور اسی مضمون میں ائمہ معصومینؑ  سے بھی بے شمار روایتیں نقل ہوئی ہیں  جیسا کہ امیر المؤمنیں علی          فرماتے ہیں ۔انتظروا الفرج ولا تیأسو من روح اللّه ،فإنّ أحب الأعما الی اللّه عزّوجل انتظار الفرج  الآخذ بأمرنا معنا غداً فی حظیر القدس ،والمنتظر لأمرنا كالمتشحط بدمه فی سبیل اللّه (1)   آسائش اور رہائی کا انتظار کرو  خدا کی  رحمتوں سے کبھی مایوس نہ ہوجاؤ  اسلئے کہ پروردگا ر عالم کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل انتظار فرج ہے اور ہماری ولایت کو مضبوطی سے تھامنے والا کل جنت میں ہمارے ساتھ ہوگا  اور ہماری ولایت وامامت کے انتظار کرنے والا اس شخص کی مانند ہے  جو اﷲ کے راہ میں اپنے خون سے غلطان  ہو

د: انتظار کا غلط مفہوم اور اسکا منفی نتائیج .

ممکن ہے بسا اوقات نظریہ انتظار کو اپنے  درست اور اصلی مفہہوم  میں نہ سمجھنےبلکہ  کج فہمی  کے شکار ہونے  اور اسے غلط معنی اور مفہوم مراد لینے کی وجہ سے  یہی انتظار سازندگی وتعمیری روخ کو بدل کر تخریبی ویرانگری کا روخ اختیار کر لے اور ایک متحرک انقلابی اور پاک سرش شخص یا معاشرے کو  رکود وجمود ،مفلوج اور خباثت کی طرف دعوت دے  -

اگر آپ تاریخ  کا مطالعہ کریں تو سینکڑوں؛  ہزاروں کی تعداد میں افراد مختلف گروہوں  تنظیموں کی شکل میں نظر  آئیں گے جنہون  نے عقیدہ انتظار کو الٹا سمجھنے  اور اسے غلط مفہوم مراد لینے کی وجہ سے نہ صرف انتظار کو اپنے ترقی وسازندگی کا ذریعہ بنایا بلکہ الٹا یہی انتظار انکےمفلوج ہونے جمود کے شکار ہونے اور اپنے علاوہ سکاج کو بھی فساد اور گناہوں کی طرف دعوت دینے کا سبب بنا مثال کے طور پر (انجمن حجتیہ )نامی تنظیم جنہوں نے انقلاب اسلامی ایران سے پہلے انقلاب کے دوران او انقلاب کے بعد بھی ایران میں ملکی سطح  پر لوگوں کو فساد اور گناہوں کی طرف دعوت دیتے تھے اور انکا یہ شعار تھا کہ ہم معاشرے میں  جتنا بھی ہو سکھے گناہوں کو اور ظلم وبربریت کو عام کر دے

--------------

(1):- بحار انوار : ج ۵۲ ص ۱۲۳ ح ۷ -

۷۸

اتنا ہی امام زمانہ کی ظہور میں تعجیل کا زمینہ فراہم ہو گا اور امام جلدی ظہور کریں گے ہم یہاں پر ان گروہوں میں سے ایک دو کی طرف اشارہ کرتے ہیں تاکہ مؤمنین کے لیےاس قسم کے منحرف شدہ گروہوں کو پہچاننے اور ان سے دوری اختار کرنے میں مدد ثابت ہو جاے  ۔

پہلاگروہ ـ :1

لوگوں کے ایک گروہ کا یہ نظریہ ہے کہ عصر غیبت میں ہماری ذمہ داری صرف اور صرف حضرت حجت         کے تعجیل فرج کے لیے دعا کرنا ہے اور کسی قسم کی اصلا حی واجتماعی حرکت کو انتظار اور خدائی مصلحت کے خلاف سمجھتے ہیں انکا خیال ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے ہونے دو ؛ ہمیں کوئی ربط نہیں امام زمان       ہ خود تشریف فرما کر ان سب کو ٹھیک کریں گے،اسے پہلے جو بھی علم اٹھے گا باطل کا علم ہو گا اور لا محالہ دین و شریعت کے خلا ف ہو گا لہذا  اسے اصلاحی اور اجتما عی حرکت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوتے ہیںامام خمینی قدس اﷲ (عصر حاضر کی عظیم ہستی)ا نکے رد میں فرماتے ہیں : (کچھ لوگ انتظار فرج کو صرف مسجدوں حسینیوں اور گھروں میں بیٹہ کر امام زمانہ کے ظہور کے لیے خدا کی درگاہ میں دعا کرنے میں دیکھتا ہے اور  تکلیف اور ذمداری سمجھتے ہیں ہم سے کوئی ربط نہیں دنیا میں ملتوں  پر کیا گزرے ،خود امام ظہور کریں گے تو سب کچھ ٹھیک کریں گے )یہ ان لوگوں کی منطق ہے جو حقیقت میں اپنے وظیفے پر عمل کرنے سے گریز کرتا ہے ،اسلام انکو قبول نہیں کرتا بلکہ ہماری ذمہ داری ہے کہ انکی آمد کے لیے زمینہ فراہم کر یں مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کریں انشاء اﷲ ظہور کریں گے(1)   اگر ہماری بس میں ہوتا تو پوری دنیا  سے ظلم وجور کو مٹا دیتے ہماری شرعی ذمہ داری تھی لیکن یہ ہماری بس سے باہر ہے ،اور حقیقت یہ ہے کہ حضرت حجت دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے یہ نہیں کہ تم لوگ اپنے شرعی تکلیف سے ہاتھ اُٹھاے بیٹھے اور اپنی ذمہ داری کو انجام نہ دے(2)

--------------

(1):- مجلہم ہد ی موعود : شمارہنمبر ۱،ص ۱۶ -

(2):- مجلہم ہد ی موعود : شمارہنمبر ۱،ص۱۴ -

۷۹

 بلکہ دوران غیبت میں چونکہ احکام حکومتی اسلام جاری وساری ہیں کسی قسم کی ہرج و مرج  قابل قبول نہیں ہے ،پس حکومت اسلامی کا تشکیل دینا ہماری ذمہ داری ہے جسکا عقل حکم کرتی ہے ،تاکہ کل اگر ہم پر حملہ کرے یا ناموس مسلمین پر ہجوم لانے کی صورت میں دفاع کر سکے اور انھویں روک سکے ہم ان سے یہ سوال کرتے ہیں ،کہ کیا پیغمبر اکرم (ص)نے جن قوانین کی تبلیغ وتبین اور نشروتنفیذ کے لیے ۲۳ سال طاقت فرسا زحمتیں برداشت کی وہ قوانیں محدود مدت کے تھیں ؟ یا خدا نے ان قونیں کے اجرا کرنے کو ۲۰۰ سال تک کے لیے محدود کیا  ؟ کیا غیبت صغری کے بعد اسلام نے سب کچھ  چھوڑ دیا ؟(بے شک ) اس طرح کا عقیدہ اور اسکا اظہار کرنا اسلام کے منسوخ  ہو جانے پر عقیدہ رکھنے اور اسے اظہار کرنے سے زیادہ بدتر ہے ، کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اب اسلامی مملکتوں کا انکے حدود اور باڈروں کا دفاع کرنا واجب نہیں ہے یا مالیات ،جزیہ ،خمس وزکواۃ  اور ٹیکس نہیں لینا چاہیے ،یا اسلام کے کیفری احکام دیات؛  قصاص سب کی چھٹی ہے(1)  

دوسرا اور بدترین گروہ

اس گروہ کا کہنا ہے کہ نہ صرف سماج سے ظلم وستم  کو ختم کرنا اور گناہوں سے پاک کرنا ہماری ذمہ داری ہے بلکہ  ہمیں چاہیے کہ لوگوں کو گناہوں کی طرف دعوت دیں اور جتنا بھی ہو سکے ظلم وبربریت کے دائرے کو بڑاھنے کی کوشش کریں تاکہ امام زمانہ کی ظہور کے لیے زمینہ فراہم ہو جاۓ ،اس گروہ   میں بعض خود غرض  افراد بھی ہوتے ہیں  جو سوچھے سمجھے فساد کی طرف دعوت دیتے  ہیں  اور بعض ایسے سادہ لوح افراد بھی ہوتے ہیں جو دوسروں کے غلط افکار کی زد میں آکر منحرف  ہوچکے ہوتے ہیں ۔انکے رد میں رہبر کبیر امام خمینی فرماتے ہیں :یہ جو کہتے  ہیں ضروریات اسلام کے خلاف ہے ،یہ کہ ہم خود بھی گناہ  انجام دیں اور معاشرے میں بھی گناہوں کو  پھلائے تاکہ حضرت حجت         جلدی ظہور کرے ،....حضرت حجت      ظہور کریں گے تو  کس لیے ظہور کریں گے ؟ اس لیے ظہور کریں گے کہ دنیا  میں عدالت پھیلانے کے لیے   ،حکومت کو تقویت دینے کے لیے ، فساد کو زمین سے ریشہ کن کرنے کے لیے ظہور کریں گے ،

--------------

(1):- مجلہم ہد ی موعود : شمارہنمبر ۱،ص۱۵ -

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779