تفسير راہنما جلد ۹

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 779

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 779 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 218299 / ڈاؤنلوڈ: 3784
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۹

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

:''فوكزه العالم ، فقتله_ فقال له موسى (ع) : ا قتلت نفساً زكية بغير نفس لقد جئت شيئاً نكراً؟ ''قال :'' فا دخل العالم يده فاقتلع كتفه فا إذا عليه مكتوب : كافر مطبوع'' (۱)

امام صادق (ع) سے روايت نقل ہوئي ہے ...اس وقت كہ عالم ( خضر (ع) ) موسى (ع) كے ہمراہ جارہے تھے يكدم ايك لڑكے سے ملے كہ جو كھيل رہا تھا_ امام(ع) فرماتے ہيں كہ اس عالم نے اسے گھونسا ما را اور اسے قتل كرديا موسى (ع) نے اسے كہا :ا قتلت نفساً ذكية بغير نفس ...؟ امام فرماتے ہيں : اسكے بعد عالم نے ہاتھ بڑھا يا اور لڑكے كا كندھا نكالا كہ جس پر لكھا ہوا تھا كافر مطبوع ( يعنى وہ كافر كہ جس پر كفر كى مہرلگى ہو )

۱۲_عن أبى عبداللّه(ع) : ...وخرجا (موسي(ع) وخضر(ع) ) على ساحل البحر فإذا غلام يلعب مع غلمان ...فتورّ كه العالم فذبحه (۲)

امام صادق(ع) سے روايت نقل ہوئي ہے ...وہ دونوں (موسي(ع) اورخضر(ع) ) دريا كے ساحل پر كشتى سے نكلے يكدم ايك لڑكے سے ملے كہ جو دوسرے چندلڑكوں سے كھيل رہاتھا ...پس اس عالم (خضر(ع) ) نے اسے ۱پنے زانو پر ڈالا اور ذبح كرديا //اوليا ء الله :اوليا ء الله كا عفو كرنا۳;اوليا ء الله كى صفات۳/بے گناہ لوگ:بے گناہ لوگوں كے قتل كا ناپسنديدہ ہونا ۱۰//خضر (ع) :خضر(ع) پر اعتراض ۵،۱۱; خضر(ع) كا سفر ۱;خضر(ع) كا قصہ ۱،۲،۴،۵،۱۱،۱۲;خضر(ع) كى نوجوان سے ملاقات ۲; خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كاقتل ۴،۱۱،۱۲;خضر(ع) كے قصّہ ميں نوجوان كے قتل كا فلسفہ ۱۱;خضر(ع) كے قصّہ ميں نوجوانوں كى بے گناہى ۵

خطاكار لوگ:خطاكارلوگوں كومعاف كرنا۳;خطاكار لوگوں كى معذرت قبول كرنا۳

روايت :۱۱،۱۲//عمل :ناپسنديدہ عمل۱۰

قانون برائت :۶قصاص:قصاص كے احكام۹;يہوديت ميں قصاص۹

موسي(ع):موسي(ع) كا اعتراض ۵،۱۱; موسى (ع) كادينى تعصّب۸ ; موسي(ع) كاسفر۱ ; موسي(ع) كاعلم غيب ۷; موسي(ع) كا قصہ ۱،۲،۴ ،۵،۱۱ ،۱۲;موسي(ع) كى خضر كے ساتھ ہمراہى ۱;موسي(ع) كى فكر ۵; موسي(ع) كى معذرت قبول ہونا۱;موسي(ع) كى نوجوان كے ساتھ ملاقات ۲

____________________

۱) تفسير عياشى ج۲ص۳۳۵ج۵۳ ، نورالثقلين ج۳ص۲۸۶،ح۱۶۷_

۲) تفسير عياشى ج۲ ص۳۳۳ح۴۷ ،نورالثقلين ج۳ص۱۵۱۶_

۵۰۱

آیت ۷۵

( قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكَ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْراً )

بندہ صالح نے كہا كہ ميں نے كہا تھا كہ آپ ميرے ساتھ صبر نہيں كرسكتے ہيں (۷۵)

۱_حضرت خضر(ع) نے دوسرى بار اور بڑے واضح انداز ميں حضرت موسى كى بے صبرى او ر بلاوجہ سوالات پر انہيں تنبيہ اور خبر دار كيا _لقد جئت شيئاً نكراً _ قال ا لم أقل لك

حضرت خضر(ع) كى دوسرى تنبيہ ميں كلمہ '' لك '' آيا ہے اس كلمہ كے اضافہ ہونا اور يہ وضاحت كہ حضرت موسي(ع) كے بارے ميں يہ كلام آيا ہے، انكے سوال كے صحيح نہ ہونے پر تاكيد ہے _

۲_ حضرت خضر(ع) نے يہ كہ موسي(ع) انكے كاموں پر صبر نہيں كر سكتے تيسرى بار تاكيد كى ہے _

قال ا لم ا قل لك إنّك لن تستيطع معى صبرا

حضرت خضر(ع) نے ايك دفعہ حضرت موسى (ع) كے ساتھ ملاقات كى ابتداء ميں اور دوسرى دفعہ كشتى والے واقعہ كے بعد ايسااور تيسرى مرتبہ نوجوان كے قتل كے بعد جملہ بيان كيا كہ جس ميں عربى عبارت كے حوالے سے چند مرتبہ تاكيد موجود ہے''إنّك لن تستيطع معى ...''

۳_حضرت خضر(ع) كى اپنے كاموں كے مقابل حضرت موسى كى بے صبرى كے حوالے سے پيشگوئي حقيقت كے مطابق تھى _لقد جئت شيئاً نكراً_ قال ا لم ا قل لك إنك لن تستيطع معى صبرا

۴_نوجوان كے قتل كرنے كى غرض كے حوالے سے حضرت موسي(ع) كى لا علمى كى طرف حضرت خضر (ع) نے اشارہ كرتے ہوئے انكے اعتراض كو غلط جانا اوراس كوان ميں تحمل و صبر كے كم ہونے كے سلسلہ ميں اپنى شناخت كے درست ہونے پر علامت كے قرار ديا _لقد جئت شيئاً نكراً _ قال ا لم ا قل لك إنّك لن تستيطع معى صبرا

۵_ الله تعالى كے خاص اولياء اور علوم الہى كے حامل لوگوں كى صحبت سے فيض اٹھانے كيلئے صبراور تحمل، ضرورى شرط ہے _

۵۰۲

قال ا لم ا قل لك إنك لن تستيطع معى صبرا

اولياء الله :اولياء الله سے فائدہ اٹھانے كى شرائط ۵;اولياء الله ہم نشينى كے آداب۵; اولياء الله كى ہم نشينى ميں صبر ۵

خضر (ع) :خضر(ع) كا قصہ ۱،۲،۳،۴;خضر(ع) كى پشيكوئي كا پور ا ہونا ۳; خضر(ع) كى تشبہات ۱; خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كا قتل ۴

علماء :علماء سے فائدہ اٹھانے كى شرائط ۵; علماء كے ساتھ ہم نشينى كے آداب ۵;علماء كے ساتھ ہم نشينى ميں صبر ۵

موسى (ع) :موسي(ع) كا اعتراض رد ہونا ۴; موسي(ع) كا عجز ۲;موسي(ع) كا قصہ ۱،۲،۳،۴;موسي(ع) كو خبردار كيا جانا ۱;موسى (ع) كى بے صبرى ۱،۲،۳،۴

آیت ۷۵

( قَالَ إِن سَأَلْتُكَ عَن شَيْءٍ بَعْدَهَا فَلَا تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِن لَّدُنِّي عُذْراً )

موسى نے كہا كہ اس كے بعد ميں كسى بات كا سوال كروں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ ركھيں كہ آپ ميرى طرف سے منزل عذ رتك پہنچ چكے ہيں (۷۶)

۱_حضرت موسى (ع) نے حضرت خضر(ع) سے انكے غير معمولى كا موں كے مقابلہ ميں اپنے صبر كرنے كے حوالے سے آخرى مہلت مانگى _قال إن سا لتك عن شى بعد ها فلا تصاحبنى

۲_ حضرت موسى (ع) نے اپنے آپ كو دوبارہ سوال كرنے (تيسرى دفعہ خلاف ورزى كرنے ) كى صورت ميں حضرت خضر(ع) كى مصاحبت سے محروميت كا لائق سمجھا_قال إن سا لتك عن شى بعد ها فلا تصاحبني

۳_ خطا كرنے والوں اور بھول جانے والوں كو تين بار، مہلت دينا مناسب ہے _

قال إن سا لتك عن شى بعد فلا تصاحبني

حضرت موسى (ع) نے تيسرى دفعہ اپنى بے صبرى كا مظاہرہ كرنے اور حضرت خضر(ع) كے حكم كى خلاف ورزى كرنے كى صورت ميں اپنے آپ كو حضرت خضر(ع) كى مصاحبت سے جدائي اور محروميت كا لائق

۵۰۳

سمجھا لہذا كہہ سكتے ہيں كہ لوگوں كو تين مرتبہ مہلت دينا ،قابل قبول ہے _

۴_ حضرت موسى (ع) نے حضرت خضر(ع) كے كردار كو تحمل كرنے اور ان كى ہمراہى سے عاجزى كا اعتراف كرليا_

قال قد بلغت من لدنى عذرا

۵_ حضرت موسى (ع) نے يہ اعتراف كرليا كہ حضرت خضر كے كاموں كے مقابلہ ميں ان كے خاموش رہنے كى خلاف و رزى كے نتيجہ ميں ميں ان سے جدائيكے سلسلہ ہيں حضرت خضر(ع) معذور ہيں _

قال ان سألتك قد بلغت من لدنى عذرا

جملہ''قد بلغت من لدنى عذراً'' يعنى ميرى نظر ميں آپكے پاس مصاحبت چھوڑنے پر قابل قبول عذرہے يہ جملہ '' قد '' كے قرينہ كے مطابق ''إن سا لتك '' سے مربوط نہيں ہے بلكہ حضرت موسي(ع) كا اعتراف ہے كہ آپ ہمراہى چھوڑ نے كا حق ركھتے ہيں ليكن ميں ايك اور مہلت چاہتا ہوں _

۶_اپنے اوپر تنقيد اور اپنے حوالے سے فيصلہ كرنے ميں انصاف كرنا اور اپنے اعمال كى ذمہ دارى قبول كرنا، بلند اور شائستہ صفات ہيں _إن سا لتك عن شى بعد ها فلا تصاحبنى قد بلغت من لدنى عذرا

اسكے باوجود كہ حضرت موسى (ع) نے پہلے مرحلہ ميں بھول جانے كے عذر كو بيان كيا ليكن اس مرحلہ ميں سب سے پہلے اپنے عمل كى ذمہ دارى كو قبول

كيا اور دوسرايہ كہ اپنے حوالے سے انصاف سے فيصلہ صادر كيا اور حضرت خضر(ع) كو اپنے سے جدا ہونےكے سلسلہ ميں بر حق جانا_بھول جانے والے :بھول جانے والوں كو مہلت ۳

خضر (ع) :خضر(ع) كى ہمراہى سے محروميت كے اسباب ۲; خضر(ع) كا عذر ۵; خضر (ع) كا قصہ ۱،۲،۴،۵;خضر(ع) كى طرف سے مہلت طلب كرنا ۱//خطا كا ر لوگ :خطا كاڑ لوگوں كو مہلت ۳

خود :خود پر تنقيد ۶//ذمہ دارى لينا :۶

صفات :اچھى صفات ۶

فيصلہ كرنا :فيصلہ كرنے ميں عدالت ۶

موسى (ع) :موسي(ع) كا اقرار ۴،۵; موسي(ع) كا عجز ۴; موسي(ع) كا قصہ ۱،۲،۴،۵;موسي(ع) كا مہلت لينا ۱;موسي(ع) كى بے صبرى ۵; موسي(ع) كى رائے ۲; موسي(ع) كى عہد شكنى ۵;موسي(ع) كے سوالوں كے آثار ۲

۵۰۴

آیت ۷۷

( فَانطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَن يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَاراً يُرِيدُ أَنْ يَنقَضَّ فَأَقَامَهُ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْراً )

پھر دونوں آگے چلتے رہے يہاں تك كہ ايك قريہ والوں تك پہنچے اور ان سے كھانا طلب كيا ان لوگوں نے مہمان بنانے سے انكار كرديا پھر دونوں نے ايك ديوار ديكھى جو قريب تھا كہ گر پڑتى بندہ صالح نے اسے سيدھا كرديا تو موسى نے كہا كہ آپ چاہتے تو اس كى اجرت لے سكتے تھے (۷۷)

۱_ حضرت خضر(ع) نے حضرت موسي(ع) كى مہلت كى درخواست قبول كى اور انہيں تيسرى بار اپنى ہمراہى كا موقع ديا _

إن سا لتك عن شيئ: بعد ها فلا تصاحبني فا نطلقا

۲_ حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) اپنے سفر اور حركت كرنے كى راہ ميں ايك آبادى تك پہنچے اور وہاں كے لوگوں سے ملاقات كى _فانطلقا حتّى إذا ا تيا أهل قرية

يہ كہ كون سى آبادى انكى راہ ميں آئي بہت سے احتمالات ہيں ان ميں ايك احتمال يہ ہے كہ وہ شہرناصرہ ہے جو كہ ساحل دريا پر واقع تھا اس كو مجمع البيان نے امام صادق عليہ السلام سے روايت كيا ہے _

۳_حضرت موسى (ع) اورخضر(ع) نے بھوك محسوس كرتے ہوئے شہروالوں ، سے غذا اور خوراك كا تقاضا كيا _

استطعما أهله''يضيّفوهما '' كے قرنيہ كى بناء پر '' استطعام '' سے مرادسفر كو جارى ركھنے كيلئے غذامہيا نہيں چاہى تھى بلكہ حضرت موسى (ع) اور حضرت خضر(ع) اس وقت بھوكے تھے _

۴_شہر والوں ميں سے كوئي بھي، حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) كى ميزبانى اورانہيں كھانا كھلانے كيلئے تيار نہيں ہوا_

استطعمإهلها فا بوا أن يضيّفوهم

''ابائ'' سے مراد'' انكا ر كرنا اور نہ كرنا'' ہے _

۵_ جس شہر ميں حضرت موسي(ع) اور حضرت خضر(ع) داخل ہوئے تھے وہاں كے لوگ مہمان كى خدمت اور غريب نوازى جيسى صفات سے عارى تھے _فا بوا ا ن يضيّفوهم

۵۰۵

۶_ مسافروں كى ميزبانى اور راستے كى مشكلات كا شكار ہونے والوں كو كھانا كھلانا، ايك پسنديدہ كام ہے _

استطعما أهلها فا بو ا ا ن يضيّفوهم

حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) نے صرف كھانا مانگا ليكن قرآن شہروالوں كى يہ توصيف كررہا ہے كہ انہوں نے مہمان كى خدمت كرنے سے انكار كيا يعنى چاہيے يہ تھا كہ لوگ ان دونوں كو اپنا مہمان بناتے اور غذاكے علاوہ كو ئي بھى چيز دينے سے دريغ نہ كرتے_

۷_پيغمبرى كے مقام پر فائز ہوتے ہوئے بھى لوگوں سے اپنى مادى احتياج كا تقاضا،غير مناسب نہيں ہے _

استطعما ا هله حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) نبى تھے پھر بھى انہوں نے لوگوں كے سامنے اپنى احتياج كا اظہار كيا پس معلوم ہوا كہ اس قسم كى درخواست، پيغمبر وں اور اولياء كيلئے نامناسب نہيں ہے _

۸_ حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) نے اس آبادى ميں ايك ايسى ديوار كو ديكھا جوگرنے اور خراب ہونے والى تھى _

فوجدا فيها جداراً يريد ان ينقض ''انقضاض'' مادہ'' قضض'' سے ہے اسكا معنى ''بكھر نا'' ہے (قاموس ) فعل ''يريد'' كا استعمال كہ جو عام طور پر با اختيار موجودات كيلئے استعمال ہوتا ہے يہاں بطور استعارہ ہے يعنى ديوار اس حدتك گرنے كے خطرہ ميں تھى كہ گويا خودگرنے اورخراب ہو كر بكھرنے كا عزم كر چكى ہو_

۹_حضرت خضر(ع) نے گر نے والى ديوار كو درست اور تعمير كيا _يريد ا ن ينقضّ فا قامه

۱۰_گرنے والى ديوار كى حضرت خضر(ع) كے ہاتھوں تعمير، شہر كے لوگوں كى نگاہوں كے سامنے انجام پائي _

حتى إذا ا تيا ا هل قرية ...فا قامه

شہر ميں داخل ہو نا اور شہر ميں ديوار كا پايا جانا، جيسا كہ آيت ميں ''فوجدا فيھا جداراً'' كى تعبير سے معلوم ہوتا ہے ممكن ہے اس طرف اشارہ ہو كہ لو گ حضرت خضر(ع) كے افعال كى طرف متوجہ تھے _

۱۱_ حضر ت خضر(ع) نے ديوار كى تعمير اور اسكے كھڑا كرنے ميں حضرت موسي(ع) سے مدد نہيں مانگى _

فأقامه

''أقامه '' كا مفرد آنا ممكن ہے اس حوالے سے ہو كہ ديوار كى تعمير صرف حضرت خضر(ع) كے ہاتھوں انجام پائي اگر چہ اس سے پہلے '' استطعما'' تثنيہ كى صورت ميں آيا ہے يعنى دونوں كے غذا مانگنے كو بيان كيا گيا ہے _

۵۰۶

۱۲_ حضرت خضر(ع) نے ديوار كى تعمير كى اجرت دريافت كرنے كے امكان كے باوجود كوئي چيز دريافت نہيں كى _

قال لو شئت لتخذت عليه أجرا

حضرت موسي(ع) كى طرف سے اجرت دريافت كرنے كى بات اسى صورت ميں درست ہے جب اسكے لينے كا امكان موجود ہو _

۱۳_ با جود اسكے كہ غذا كے حصول كيلئے اجرت كى احتياج تھي، حضر ت خضر (ع) كے اپنے كا م كے مقابلہ اجرت نہ چاہنے پر حضرت موسي(ع) ناراض اور شاكى تھے _استطعما ا هلها ...قالو شئت لتّخذت عليه أجرا

حضرت خضر(ع) اور حضرت موسى (ع) نے لوگوں سے مفت غذاكا مطالبہ كيا چونكہ خريدنے كيلئے انكے پاس رقم نہ تھى لہذا حضرت موسى (ع) نے ديوار كا كام مكمل ہونے پر اجرت كى بات كى تا كہ اس ذريعہ سے غذا خريدى جائے _

۱۴_ حضرت موسى (ع) كے زمانے ميں كام كى اجرت دينے كے نظام كا موجود ہونا_قال لو شئت لتّخذت عليه أجرا

۱۵_ كام كے انجام دينے كے بعد اجرت كى مقدار كا معين كرنا، صحيحاور قابل اجرائہے _لو شئت لتخذت عليه أجرا

۱۶_ كام لينے والے كى در خواست كے بغير انجام ديتے گئے كاموں كے مقابلہ ميں اجرت لينا جائز ہے _لو شئت لتّخذت عليه أجر لوگوں كى بد فطرتى اور پستي، انسان كو كا ر خير اور ذمہ دارى ادا كرنے سے نہ روكے _استطعما ا هلها فا بوا ...فا قامه اگر چہ شہر والے،بد فطرت اور برے تھے ليكن اسى حالت ميں حضرت خضر(ع) نے بغير كسى ناگوار ى كے اپنى ذمہ دارى ادا كى _لوگوں كا سرد رويہ آپكے كام ميں سستى اور دير كا باعث نہ بنا _

۱۸_اجرت حاصل نہ كرنے كے حوالے سے حضرت موسى (ع) كى حضرت خضر(ع) سے شكايت آميز بات اپنے عہد سے تيسرى مخالفت تھى _قال لوشئت لتّخذت عليه أجرا

۱۹_عن جعفر بن محمد (ع) ...''فانطلقا حتّى إذا ا تيإ هل قرية '' وهى الناصرة (۱) امام صادق(ع) سے روايت ہوئي ہے كہ آيت شريفہ ميں قرية سے مراد قريہ ناصرہ ہے _

۲۰_عن جعفر بن محمد (ع)''فوجدا فيها جداراً يريد أن ينقضّ'' فوضع الخضر يده عليه فا قامه (۲)

____________________

۱) علل الشرايع ص۶۱،ب۵۴، بحارالانوار ،ج ۱۳ ،ص۲۸۷،ح۴_

۲)علل الشرايع ص۶۱ ،ب۵۴،ح۱،بحارالا نوار جلد۱۳،ص۲۸۷،ح۴_

۵۰۷

امام صادق(ع) سے روايت نقل ہوئي ہے كہ حضرت خضر(ع) اور حضرت موسى (ع) نے ايك ديوار كو پايا جو گرنے والى تھى حضرت خضر(ع) نے اس پراپنا ہاتھ ركھا اور اسے سيدھا كرديا _

۲۱_عن ا بى عبدالله (ع) : ...فوجدافيها جداراً يريد ا ن ينقضّ فا قامه قال : لوشئت لتّخذت عليه ا جراً خبزاً نا كله فقد جُعنا (۱) امام صادق(ع) سے روايت نقل ہوئي ہے كہ ...حضرت خضر(ع) اور موسي(ع) نے اس آبادى ميں ايك ديوار ديكھى كہ جوگرنے والى تھى تو حضرت خضر(ع) نے اسے سيدھا كيا موسي(ع) نے كہا: اگر آپ چاہتے تو اس كام كى اجرت لے ليتے يعنى روٹى لے ليتے تاكہ ہم كھاليں كيونكہ ہم بھوكے ہيں _

ابن سبيل :ابن سبيل كو كھانا كھلانا۶//اجرت :اجرت كے احكام ۱۵،۱۶

انبياء :انبياء كى مادى ضروريات ۷//پستى :پستى كے آثار ۱۷

خضر (ع) :خضر(ع) سے شكوہ ۱۳;خضر(ع) كا سفر ۲; خضر(ع) كا قصہ۱،۲، ۳، ۴ ،۵،۸،۹،۱۰،۱،۲ ۱،۱۳،۱۸،۱۹،۲۰، ۲۱; خضر(ع) كى اہل ناصرہ سے ملاقات ۲خضر(ع) كى بھوك ۳; خضر(ع) كى غذا كيلئے در خواست ۳; خضر(ع) كى غذا كيلئے در خواست كا رد ہونا ۴;خضر(ع) كے ساتھ عہد شكنى ۱۸; خضر(ع) كے قصہ ميں ديوار كى تعمير ۹،۱۰،۱۱،۲۰;خضر(ع) كے قصہ ميں ديوار كى تعمير كى اجرت ۱۲،۱۳،۲۱;خضر(ع) كے قصہ ميں ديوار كى خرابى ۸;خضر(ع) كے قصہ ميں شہر ۲،۵; خضر(ع) كے قصہ ميں شہر والے ۴; ناصرہ ميں خضر(ع) ۱۹

ذمہ دارى :ذمہ دارى كوپورا كرنے كى اہميت ۱۷

روايت :۱۹،۲۰،۲۱//عمل:پسنديدہ عمل ۶

عمل صالح :عمل صالح كى اہميت ۱۷//كام :كام كى اجرت ۱۵،۱۶

كام لينے والے :كام لينے والوں كا كردار ۱۶//مسافرين :مسافرين كى پذيرائي ۶

موسى (ع) :موسي(ع) كا سفر ۲; موسى (ع) كا شكوہ ۱۳،۱۸;موسى (ع) كا قصہ ۱،۲،۳،۴،۵،۸،۹،۱۰ ،۱۱،۱۲، ۱۳ ، ۱۸ ، ۱۹ ، ۲۰،۲۱;موسى كى اہل ناصرہ سے ملاقات ۲۰; مو سى (ع)

____________________

۱) تفسير عياشيج۲ص،۳۳۳،ح۴۷،نوارالثقلين ، ج ۳،ص۲۷۸،ح۱۵۱_

۵۰۸

كى بھوك ۳; موسى (ع) كى عہد شكنى ۱۸; موسي(ع) كى غذا كيلئے در خواست كا رد ہونا ۴; موسي(ع) كى غذا كيلئے در خواست كرنا ۳; موسى (ع) كى طرف سے مہلت مانگے جانے كا قبول كيا جانا ۸; موسى (ع) كے زمانہ ميں كام كى اجرت ۱۴; موسى (ع) ناصرہ ميں ۱۹

ناصرہ :ناصرہ كے رہنے والوں كى خصلتيں ۵

آیت ۷۸

( قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِع عَّلَيْهِ صَبْراً )

بندہ صالح نے كہا كہ يہ ميرے اور تمھارے درميان جدائي كا موقع ہے عنقريب ميں تمھيں ان تمام باتوں كى تاويل بتادوں گا جن پر صبر تم نہيں كرسكے (۷۸)

۱_ حضرت موسي(ع) كى حضرت خضر(ع) سے كيئے ہوئے عہد كى تيسرى با رمخالفت ( اجرت لينے كى بات كرنا )، دونوں كى آپس ميں جدائي شروع ہونے كا باعث بنى _قال لو شئت لتخذت ...قال هذا فراق بينى و بينك

يہ كہ'' ہذا ''كس چيزطرف اشارہ ہے بہت سے احتمالات ہيں ان ميں سے ايك احتمال يہ بھى ہے كہ يہ حضرت موسى (ع) كى بات كى طرف اشارہ ہو يعني''هذا القول سبب فراق بيننا''

۲_ حضرت خضر(ع) كے كاموں كو تحمل كرنے كے حوالے سے حضرت موسى (ع) كى عاجزي، انكے تيسرے سوال اور اعتراض پر ثابت ہوگئي _قال هذا فراق بينى وبينك سا نبّئك بتا ويل ما لم تستطع عليه صبرا

۳_ حضرت خضر(ع) حضرت موسى (ع) كى آخرى غلطى پر ان سے جدا ہونے كيلئے محكم دليل اور قابل قبول عذر ركھتے تھے _قد بلغت من لدنّى عذراً ...قال لوشئت لتخذت عليه أجراً_ قال هذا فراق بينى و بينك

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ پچھلى آيت ميں ''قد بلغت '' كى عبارت''ان سا لتك '' كا نتيجہ ہو _

۴_ حضرت خضر(ع) نے حضرت موسى (ع) كو اطمينان دلا يا كہ جدا ہونے سے پہلے انہيں اپنے عجيب وغريب كاموں كے اسرار سے آگاہ كريں گے_سا نبّئك بتاويل مالم تستطع عليه صبرا

۵_ انبياء اور اولياء كے تحمل اور افعال كى نوعيت آپس ميں مختلف ہوتى ہے _سا لنبّئك بتاويل مالم تستطع عليه صبرا

۶_ حضرت خضر كے ظاہر ى طور پر ناقابلقبول كام ، باطن اور صحيح حقيقت پر مشتمل تھے _

۵۰۹

سا نبّئك بتا ويل مالم تستطع عليه صبرا

''تا ويل '' كى بناء ''ا ول ''يعنى '' پلٹا نا'' ہے آيت ميں '' مآل '' كے معنى ميں ہے يعنى وہ حقائق اور مصلحتيں جن كى بناء پر حضرت خضر(ع) كے كام انجام پائيں تو ضرورى ہے كہ ظاہرى طور پر حضرت خضر كے نا گوار كاموں كو انہى مصلحتوں كى طرف لوٹا يا جائے _

۷_ وہ علم جو حضرت موسى (ع) ، حضرت خضر(ع) سے سيكھنا چاہتے تھے وہ واقعات كى تاويل اورتحليل كا علم اور واقعات كے پس پردہ حقائق كى پہچان، كا علم تھا _هل ا تّبعك على أن تعلّمن ممّا علمت سا نبّئك بتاويل ما لم تسطيع عليه صبرا

۸_ حوادث كے رموز كو جاننے كے علم اوركائنات ميں پيدا ہونے والے مسائل كے حقيقى اسباب كو جاننے كى روش، ايك تجرباتى اور عملى روش ہے_سا نبّئك بتا ويل ما لم تستطع عليه صبرا

۹_ حضرت موسى (ع) حواد ث كى تاويل كے علم كو سيكھنے كى روش پر صبر نہيں كر سكتے تھے _

سا نبّئك بتاويل ما لم تستطع عليه صبرا

۱۰_ حوادث كى تاويل او رتحليل كے علم كو حاصل كرنے اور خضر(ع) جيسے علما ء كيصحبت اختيار كرنے كيلئے حضرت موسى (ع) كے صبر سے زيادہ صبر اور ان سے بڑھ كر قوت وتحمل كى ضرورت ہے _سا نبّئك بتا ويل مالم تستطع عليه صبرا

انبياء :انبياء كا صبر۵;انبياء كے درجات ۵//اولياء الله :اولياء الله كا صبر ۵;اوليا ء الله كے درجات ۵

حوادث:حوادث كى تحليل كے علم كا حصول ۷، حوادث كى تحليلكے علم كوحاصل كرنے كى روش ۸، حوادث كى تحليل كے علم كو حاصل كرنے كى شرائط ۱۰//خضر :خضر(ع) پر اعتراض ۲; خضر(ع) سے سيكھنا ۷;خضر(ع) كا عذر ۳; خضر(ع) كا قصہ ۱،۲،۳،۴; خضر(ع) كى ہم نشينى كى شرائط ۱۰; خضر(ع) كى ہم نشينى ميں صبر ۱۰; خضر(ع) كے ساتھ عہد شكنى ۱;خضر(ع) كے عمل كا راز۴،۶//علماء :علماء كى ہم نشينى كى شرائط ۱۰; علماء كى ہم نشينى ميں صبر ۱۰

موسى (ع) :موسى (ع) اور حوادثكى تحليل كا علم ۹;موسى (ع) اور خضر كى جدائي ۱،۳;موسى (ع) كا اعتراض ۲;موسى (ع) كا عجز ۲; موسى (ع) كا علم غيب ۷ ; موسى (ع) كا قصہ ۱،۲، ۳، ۴; موسى (ع) كى بے صبر ى ۲،۹; موسى (ع) كى خواہشات ۷; موسى (ع) كى عہد شكنى ۱

۵۱۰

آیت ۷۹

( أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَأَرَدتُّ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَاءهُم مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْباً )

يہ كشتى چند مساكين كى تھى جو سمندر ميں باربرداردى كا كام كرتے تھے ميں نے چاہا كہ اسے عيب دار بنادوں كہ ان كے پيچھے ايك بادشاہ تھا جو ہر كشتى كو غصب كرليا كرتا تھا (۷۹)

۱_ كشتى كو عيب دار بنانے سے حضرت خضر(ع) كا مقصد يہ تھا كہ اسے غاصب بادشاہ كے لوٹنے سے نجات دلائي جائے_

أما السفينة ...فا ردت ا ن أعيبها ...يأخذ كلّ سفينة غصبا

اگر چہ يہ كافى تھا كہ حضرت خضر(ع) كہتے كہ ميں نے اسے عيب دار بنايا ليكن انہوں نے كہا ہے كہ ميں نے پختہ ارادہ كيا كہ اسے عيب دار بناؤں تا كہ يہ نكتہ بيان كريں كہ جو كچھ كيا توجہ كے ساتھ اور اسكو غصب سے بچانے كيلئے كيا _

۲_ حضرت خضر(ع) كے ہاتھوں سوراخ ہونے والى كشتى ايكمسكين گروہ كى ملكيت ميں تھى اور انكے حصول رزق كا فقط يہى وسيلہ تھا _فكانت لمساكين يعملون فى البحر

۳_ حضرت موسى (ع) كے زمانہ ميں كشتى اور دريائي حمل ونقل در آمد كے ذارئع تھے _فكانت لمساكين يعملون فى البحر

۴_ قرار دا د كے ساتھ باہم شراكت جائز ہے اور گذشتہ اديان ميں بھى يہ چيز موجود تھى _فكانت لمساكين يعملون فى البحر

۵_ محروم لوگوں كى آخرى حد تك پشت پناہى اور انكے فائدہ كيلئے مخفيانہ كوشش، حضرت خضر(ع) كى ذمہ داريوں ميں سے تھى _فا ردت ا ن اعيبها وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا

۶_كام اور در آمد كا ہونا، محروم لوگوں پر'' مسكين ''كا عنوان ،صادق آنے سے مانع نہيں ہے _وامَّا السفينةفكانت لمساكين

اگرچہ كشتى والوں كے پاس كشتى اور در آمد تھى ليكن ان پر لفظ ''مسكين '' كا اطلاق ہوا ہے لہذا كسى طرح كا كام اور در آمدكانہ ہونا، عنوان ''مسكين '' كے صادق آنے سے تعلق نہيں ركھتا ہے _

۷_ حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) كى داستان كے زمانہ ميں ايك ظالم اور غاصب حكومت موجود تھي_وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا ''ورائ'' ہر پوشيدہ جگہ كو كہتے ميں خواہ وہ سامنے ہى كيوں نہ ہو ( قاموس )اس بناء پر غاصب سلطان، مساكين اور كشتى والوں كے پيچھے لگا ہوا تھا يا ان كے آگے تھا اورانہوں نے دوران سفراس كاسامنا كرنا تھا_

۵۱۱

۸_ حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) كى داستان كے زمانہ ميں ايك بادشاہ، تمام صحيح وسالم كشتيوں كو اس علاقہ ميں قبضہ ميں لے ليتا تھا _وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا

''ا ن اعيبہا '' كے قرينہ سے يہاں '' كل سفينة'' سے مراد ''كل سفينة صالحة'' ( پر صحيح و سالم كشتى )ہے _

۹_ لوگوں كے مال و متاع پر قبضہ كرنا، چاہے حاكموں كى طرف سے ہى كيوں نہ ہو ايك غلط چيز ہے _

وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا

۱۰_ حضرت خضر(ع) اورموسى (ع) كو سوار كرنے والى كشتى كا معيوب ہونا موجب بنا كہ بادشاہ اسے قبضہ ميں لينے سے باز رہا _فا ردت ا ن ا عيبها وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا

۱۱_ ايك بڑے اور يقينى نقصان سے بچانے كيلئے كسى كے مال كو ضرر پہنچانا جائز ہے _

فا ردت ا ن ا عيبها وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا

۱۲_ الله تعالى كے خاص اوليائ، غاصب حاكموں كو ناكام بنانے اور محروم لوگوں كے حقوق كى حفاظت ميں كو شان ہوتے ہيں _فا دت ا ن ا عيبها وكان وراء هم ملك يا خذكل سفينة غصبا

۱۳_ كشتى كے حوالے سے حضرت خضر(ع) كا عمل، اس قانون كا ايك مصداق اورنمونہ ہے كہ جس ميں مہم چيز كے ساتھ ٹكراؤ ميں اہم چيز كو ترجيح دى جاتى ہے_وامَّا السفينة فكانت لمساكين ...يا خذ كل سفينة غصبا

۱۴_ حضرت خضر(ع) بعض پيش آنے والے حادثات سے آگاہ تھے اور انكے مقابلہ ميں احساس ذمہ دارى ركھتے تھے _

وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا

احكام :۴اولياء الله :

۵۱۲

اولياء الله كى ذمہ دارى ۱۲; اولياء الله كى ظلم سے جنگ ۱۲

حمل و نقل :حمل ونقل كى تاريخ ۳

خضر (ع) :خضر(ع) كا ذمہ دارى قبول كرنا۱۴; خضر(ع) كا علم غيب ۱۴; خضر(ع) كى ذمہ دارى ۵;خضر(ع) كا قصہ ۱، ۸،۱۳;خضر(ع) كے زمانہ ميں حكومت ۷;خضر(ع) كے زمانہ ميں كشتيوں كا قبضہ ميں ليا جانا ۸; خضر (ع) كے قصہ ميں بادشاہ كا ظلم ۷،۸;خضر(ع) كے قصہ ميں بادشاہ كا لوٹ مار كرنا ۱;خضر(ع) كے قصہ ميں كشتى كے مالكوں كا فقير ہونا ۲; خضر(ع) كے قصہ ميں كشتى كے مالكوں كا محروم ہونا ۲; خضر(ع) كے قصہ ميں كشتى كے قبضہ ميں ليے جانے سے مانع ۱۰;خضر(ع) كے قصہ ميں كشتى ميں سوارخ كا فلسفہ ۱،۱۳;خضر(ع) كے قصہ ميں كشتى ميں سوارخ كرنے كے آثار ۱۰

شراكت :شراكت كے معاملہ كا جائز ہونا ۴; اديان ميں شراكت كا معاملہ ۴; شراكت كے معاملہ كى تاريخ ۴; شراكت كے معاملہ كے احكام ۴

غصب :غصب كا ناپسنديدہ ہونا ۹

مساكين :مساكين سے مراد ۶;مساكين كا كام ۶; مساكين كى حمايت ۵; مساكين كى در آمد ۶; مساكين كے مال و متاع كى حفاظت ۱۲

معيار :معيار ميں مقابلہ ۱۳

موسى (ع) :موسى (ع) كا قصہ ۸; موسى (ع) كے زمانہ ميں حكومت ۷; موسى (ع) كے زمانہ ميں حمل ونقل كے ذارئع ۳; موسى (ع) كے زمانہ ميں كسب كے زرائع ۳; موسى (ع) كے زمانہ ميں كشتيوں كا غصب ۸; موسى (ع) كے زمانہ ميں كشتى رانى ۳

آیت ۸۰

( وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَن يُرْهِقَهُمَا طُغْيَاناً وَكُفْراً )

اور يہ بچّہ _ اس كے ماں باپ مومن تھے اور مجھے خوف معلوم ہوا كہ بہ بڑا ہوكر اپنى سركشى اور كفر كى بناپر ان پر سختياں كرے گا (۸۰)

۱_ حضرت خضر(ع) كا لڑكے كو قتل كرنے كا مقصد، اسكے والدين كو كفر و طغيان سے بچانا تھا _

۵۱۳

وا مَّا الغلام ...فخشينا أن يرهقهما طغياناً وكفرا

''إرہاق'' سے مراد كسى كو ايسے كام پرآمادہ كرنا كہ جو اسكے ليے انجام دينا انتہائي مشكل و سخت ہو (قاموس )

۲_حضرت خضر (ع) كے ہاتھوں ، قتل ہونے والے نوجوان كے والدين، مؤمن و سر كشى اور نافرمانى سے دور لوگ تھے _فخشينا ا ن يرهقهما طغياناً وكفرا

''طغيان '' بہت زيادہ نافرمانى كى راہ ميں آگے نكل جانا ( مفرادت راغب )

۳_ وہ نوجوان كہ جسے حضرت خضر(ع) نے قتل كيا وہ كا فر تھا_وا مَّا الغلام فكان ا بواه مؤمنين

نوجوان كے والدين كے ساتھ فقط مؤمن كا لفظ آنا بتاتا ہے كہ وہ كا فر تھا اوريہ كہ وہ والدين كو كفر كى طرف مائل كرنے ميں اثر انداز ہو سكتا تھا يہ بھى اسكے كفر كى تائيد كر رہا ہے _

۴_ مقتول نوجوان كے والدين ،اپنے بيٹے كے زندہ رہنے كى صورت ميں اس كے ہاتھوں متاثر ہو كر نہ چاہتے ہوئے بھى سركشى اوركفر كى طرف چلے جاتے _فكان ا بواه مؤمنين فخشينا ا ن يرهقهم

۵_ مؤمنين كے ايما ن كى حفاظت اور انہيں كمزورى اورنابودى سے محفوظ ركھنے كى كوشش كرنا، حضرت خضر(ع) كى ذمہ داريوں ميں سے تھا _فخشينا ا ن يرهقهماطغياناً و كفرا

۶_ ايمان، انتہائي قيمتى گوہر ہے كہ كوئي چيز اسكا مقابلہ نہيں كرسكتى _فكان ا بواه مؤمنين فخشينا ا ن يرهقهما طغياناً وكفر الله تعالى نے والدين كے ايمان كى حفاظت كيلئے انكے عزيز فرزند كوان سے جدا كردياتاكہ انكاايمان محفوظ رہے ايسا ايمان ايك قيمتى متاع ہے كہ جس پر بيٹے كى قربانى آسان ہے _

۷_ الله تعالى كى پوشيدہ حماتيوں كے حامل مؤمنين، كفر اور معصيت سے دور ہيں _فكان ا بواه مؤمنين فخشينا ا ن يرهقهم

۸_ حضرت خضر، الہى احكام پر عمل كرنے والے تھے نہ كہ اپنى ذاتى خواہشات كو پورا كرتے تھے _فخشينا ا ن يرهقهم

''خشينا '' ميں ضمير ''نا '' مندرجہ بالا مطلب پر اشارہ ہوسكتى ہے _ بعد والى آيات ميں جملہ ''وما فعلتہ عن ا مرى '' بھى اسى نكتہ كى وضاحت كررہا ہے _

۹_ اولاد كا صالح نہ ہونا، والدين كے كفر اور سركشى كى طرف ميلان كا باعث ہو سكتا ہے _

فكان ا بواه مؤمنين فخشينا ا ن يرهقهما طغياناً وكفرا

۱۰_ انسان كے جبلى احساسات، اسكے معنوى اور ايمانى ميلانات ميں اہم اثر ركھتے ہيں _

۵۱۴

فكان ا بواه مؤمنين فخشينا ا ن يرهقهما طغياناً وكفرا

حضرت خضر(ع) بيٹے كو والدين سے لے ليتے ہيں تا كہ وہ اپنے فطرى تعلقات اور احساسات كى وجہ سے كفر اور سركشى كى طرف مائل نہ ہوں _ يہ نكتہ بتارہاہے كر ميلانان_ احساسات سے متاثر ہوتے ہيں _

۱۱_كفر اور سر كشيميں اضافہ كے اسباب سے مقابلہ كرنا اور انہيں آگے بڑ ھنےسے رو كنا ضرورى ہے_فخشينا ا ن ير هقهما طغياناً و كفرا اگر چہ حضرت خضر(ع) كا كام غيب اور اسرار سے آگاہ ہونے كى بناء پر تھا ليكن يہ كفر كو بڑھنے سے روكنے اور اسكے سبب كو ختم كرنے كى ضرورت كوبتا رہا ہے _

۱۲_ سر كشى اور الہى حدود سے تجاوز، انسان كے كفر كى طرف مائل ہونے كا باعث ہے _ير هقهما طغياناً و كفرا

احتمال يہ ہے كہ طغيان كو كفر پر مقدم كرنے كى وجہ يہ ہوكہ طغيان ميں مبتلا ء ہونا، كفر كى طرف جانے كى وجہ ہے_

۱۳_ الله تعالى كا والدين كے ايما ن كى حفاظت كرنا ، انكے بچوں كيلئے بعض ناگوار حادثات پيدا ہونے كا باعث ہے _

فكان ا بواه مؤمنين فخشينا ا ن يرهقهما طغياناً وكفرا

۱۴_ مؤمن كا بعض مشكلات اورنقائص ميں مبتلا ہونا اسكے ايمان كے محفو ظ رہنے كا فلسفہ ہے _

فكان ا بواه مؤمنين فخشينا ا ن يرهقهم

احساسات :احساسات كے آثار ۱۰

الله تعالى كى حدود :الله تعالى كى حدود سے تجاوز كرنے كے آثار ۱۲

الله تعالى كى حمايتيں :الله تعالى كى حمايتوں كے شامل حال لوگ ۷الله تعالى كے كام كرنے والے :۸

اقدار:۶

ايمان :ايمان كا باعث ۱۰;ايمان كى قدرو قيمت ۶

خضر (ع) :خضر(ع) كا كردار ۸; خضر(ع) كا كفر سے مقابلہ كرنا ۱;خضر(ع) كا قصہ ۱،۴;خضر(ع) كى ذمہ دارى ۵; خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كا كفر ۳; خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كا كردار ۴;خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كے قتل كا فلسفہ ۱;خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كے والدين كا ايمان ۲;خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كے والدين ۱،۴; خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كے والدين كا مطيع ہونا ۲

سركشى :سر كشى سے مقابلہ كرنے كى اہميت ۱۱; سركشى كا پيش خيمہ ۹ ;سر كشى كے آثار ۱۲

۵۱۵

فرزند :خراب فرزند كا كردار ۹;فرزند كى مشكلات كا باعث ۱۳

كفر :كفر سے مقابلہ كرنے كى اہميت ۱۱; كفر كا پيش خيمہ ۹،۱۲

مؤمنين :مؤمنين اور كفر ۷; مؤمنين اورگناہ ۷; مؤمنين كا محفوظ ہونا ۷،۱۴;مؤمنين كى حمايت۵; مؤمنين كے امتحان كا فلسفہ ۱۴; مؤمنين كے فضائل۷

ميلانات :معنوى ميلانات كا باعث ۱۰

والدين :والدين كے ايمان كى حفاظت ۱۳

آیت ۸۱

( فَأَرَدْنَا أَن يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْراً مِّنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْماً )

تو ميں نے چاہا كہ ان كا پرورگار انھيں اس كے بدلے ايسا فرزند ديدے جو پاكيزگى ميں اس سے بہتر ہو اور صلہ رحم ميں بھى (۸۱)

۱_ نوجوان كو قتل كرنے سے حضرت خضر(ع) كا مقصد اسكے والدين كيلئے پرہيز گار اور مہربان بيٹے كو حاصل كرنے كى فضاتيار كرنا تھا _فا ردنا ا ن يبدلهما ربّهما خيراً منه ذكوة وا قرب رحما

آيت ميں ''زكاة'' سے مراد طہارت اور گناہوں سے پاكيزگى ہے ''رحم'' اور ''رحمت'' كا ايك معنى ہے_ اگر چہ حضرت خضر نے اپنى اس كلام ميں مقتول نوجوان كيلئے پاكيزگى اور مہربان ہونے كا انكار نہيں كيا ليكن ممكن ہے حضرت موسى (ع) كى بات سے متناسب كہ انہوں نے مقتول نوجوان كو ''نفس ذكيہ '' كا عنوان ديا اپنى كلام كو انہوں نے اسم تفضيل كے قالب مين بيان كيا تھے ليكن حقيقت ميں مقتول نوجوان رحمت و پاكيزگى سے عارى تھا يااس كا انجام آخر گناہ اور بے رحمى تھا_

۲_ حضرت خضر (ع) اور انكے مانند دوسرے لوگ، الله تعالى كے ارادہ كو عملى جامہ پہنانے والے ہيں _

فا ردنا أن يبد لهما ربّهم ''أردنا '' والى كلام ميں اگر چہ كہنے والے صرف حضرت خضر(ع) تھے _ ليكن ضمير، جمع كى لائي گئي ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت خضر(ع) چاہتے تھے يہ نكتہ سمجھا ئيں كہ وہ اس عزم ميں تنہا نہيں تھے بلكہ انكے كام كے پيچھے الہى ارادہ كا ر فرما تھا دو سرے طرف ''ربّ'' كو ''يبدل '' كيلئے فاعل ذكر كيا تا كہ اس واقعہ كے حقيقى كردار كو واضح كريں اور اپنے ارادہ كو الله تعالى كے ارادہ كے تحت ہونے كو بيان كريں _

۵۱۶

۳_ غير صالح فرزند كواٹھا كر اسكى جگہ صالح فرزند عطا كرنا ،مؤمن والدين كيلئے الله تعالى كى ربوبيت كا ايك جلوہ ہے _

يبد لهما ربّهما خيراً منه

۴_ صالح اور مہربان فرزند كى عطا، ايك الہى نعمت ہے _يبد لهما ربّهما خيراً منه زكوة وا قرب رحما

۵_ بعض مصيبتوں اورناگوار حادثات ميں مؤمن كيلئے مصلحت اور خير ہوتى ہے _

وا مّا الغلام ...فا ردنا ا ن يبد لهما ربّهما خيراً منه زكوة وا قرب رحما

۶_ ايك شائستہ فرزند كى خصوصيات ميں سے اسكا پاك و صالح اور والدين كى نسبت بہت محبت كرنے والاہونا ہے _

يبد لهما ربّهما خيراً منه زكوة وا قرب رحما

۷_ الله تعالي، مؤمن كا پشت پناہ اور اسكى خيرو مصلحت كافيصلہ كرنے والا ہے _

فكان ا بواه مؤمنين ...فا ردنا أن يبد لهما ربّهما خيراً منه زكوة

۸_عن أبى عبدالله (ع) فى قول الله :''فا ردنا أن يبد لهما ربّهما خيراً منه ...''قال ا نه ولدت لهما جاريةفولدت غلاماً فكان نبياً (۱) امام صادق (ع) ، الله تعالى كى اس كلام ''فا ردنا أن يبدلہما ربّہما خيراً منہ ...''كے بارے ميں فرماتے ہيں كہ بے شك مقتول كے والدين كے ہاں ايك بيٹى پيدا ہوئي اور اس بيٹى سے ايك بيٹا پيدا ہوا كہ جو مقام نبوت پر فائز ہوا _

۹_عن ا بى عبدالله (ع): ...''فى قول الله عزوجل : فا ردنا أن يبد لهما ربّهما خيراً منه زكاة وا قرب رحماً '': ا بدلهما الله به جارية ولدت سبعين نبيا ...'' (۲)

امام صادق عليہ السلام سے الله تعالى كى اس كلام''فأردنا أن يبد لهما ربّهما خيرا ً منه زكوة'' كے بار ے ميں روايت ہوئي كہ الله تعالى نے مقتول كے والدين كو اسكى جگہ ايك بيٹى عطا كى جس كى نسل سے ستر انبياء پيدا ہوئے ...''

الله تعالى :الله تعالى كى خير خواہى ۷; الله تعالى كى ربوبيت كى علامات ۳; الله تعالى كى نعمات ۴;اللہ تعالى كے ارادہ كے تحت چلنے والے ۲//الله تعالى كى پشتى پناہى :الله تعالى كى پشت پناہى كے شامل حال لوگ ۷

انبياء :انبياء كا كردار ۲

خضر (ع) :خضر(ع) كا كردار ۲;خضر(ع) كا قصہ ۱،۸،۹; خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كے قتل كا فلسفہ ۱; خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كے والدين ۱;خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كے والدين كى نسل ۸،۹

____________________

۱)تفسير عياشى ج۲ ، ص۳۳۶، ح۵۹، نورالثقلين ج۳ ، ص۲۸۶، ح۱۷۰_۲) كافى ج۶ ،ص۷ ،ح۱۱،نورالثقلين ج۳ ، ص۲۸۶، ح ۱۷۴_

۵۱۷

روايت :۸،۹

فرزند :صالح فرزند كا پاك ہونا ۶; صالح فرزند كا جگہ لينا ۳; صالح فرزند كى صفات۶; صالح فرزند كي

مہربانى ۶; فاسد فرزند كى ہلاكت ۳

مصيبتں :مصيبتوں كا خير ہونا ۵; مصيبتوں كا فلسفہ ۵

مؤمنين :مؤمنين كا پشت پناہ ۷;مؤمنين كى مصلحتيں ۵، ۷; مؤمنين كيلئے خيرخواہ ہونا ۷

نعمت :صالح فرزند كى نعمت ۴; مہربان فرزند كى نعمت ۴

والدين :والدين كے ساتھ مہربانى ۶

آیت ۸۲

( وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنزٌ لَّهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحاً فَأَرَادَ رَبُّكَ أَنْ يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنزَهُمَا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ذَلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِع عَّلَيْهِ صَبْراً )

اور يہ ديوار شہر كے در يتيم بچّوں كى تھى اور اس كے نيچے ان كا خزانہ دفن تھا اور ان كا باپ ايك نيك بندہ تھا تو آپ كے پروردگار نے چاہا كہ يہ دونوں طاقت و توانائي كى عمر تك پہنچ جائيں اوراپنے خزانے كو نكال ليں _ يہ سب آپ كے پروردگار كى رحمت ہے اور ميں نے اپنى طرف س كچھ نہيں كيا ہے اور يہ ان باتوں كى تاويل ہے جن پر آپ صبر نہيں كرسكے ہيں (۸۲)

۱_ حضرت خضر(ع) نے حضرت موسى (ع) كيلئے پرانى ديوار كو تعمير كرنے كى وجہ بيان كى _وا مَّا الجدار ...ما فعلته عن أمري

۲_ حضرت خضر(ع) كے ہاتھوں ، تعمير ہونے والى ديوار دو يتيم لڑكو ں كى ملكيت ميں تھى _وا مَّإلجدار فكان لغلمين يتيمين

۳_ باوجود اسكے كہ ديوار كے مالك اس آبادى ميں نہيں تھے حضرت خضر(ع) نے ديوار كى تعمير كى _

فكان لغلمين يتيمين فى المدينة

يہ احتمال بے كہ اس آيت ميں پچھلى آيات كى مانند ''القرى ة '' آنے كى بجائے ''المدينہ '' آنا شايد اس جہت كيلئے ہو كہ وہ دونوں يتيم لڑكے اس آبادى ميں نہيں تھے بلكہ كسى اور شہر ميں تھے اور وہ شہر جيسا كہ '' المدينہ '' الف و لام سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت خضر(ع) اور موسى (ع) كيلئے جانا پہچانا تھا _

۵۱۸

۴_ديوار كو تعمير كرنے سے حضرت خضر(ع) كا مقصد يہ تھا كہ شہرميں رہنے والے دونوں لڑكوں كا خزانہ اسكے نيچے محفوظ رہے _وا مَّا الجدار فكان لغلمين يتيمين فى المدينه وكان تحته كنزلهم

۵_ حضرت خضر(ع) ديوار كے مالكوں كے والد كے بارے ميں جانتے تھے اوراسكى زندگى كى اچھائيوں اوراعمال صالح سے با خبر تھے _وكان ا بوهما صلح

۶_ باپ كا صالح ہونا، حضرت خضر كے ان يتيم بچوں كےمفادات كى حمايت كرنے كا سبب بنا _وا مَّا الجدار فكان لغلامين يتيمين ...وكان أبوهماصالح جملہ '' وكان أبوہما صالحاً'' ديواركو تعمير كرنے كى علت ہے_

۷_ يتيموں كے باپ كا نيك اور صالح ہونا،ان دونوں كا بڑ ے ہوكر اپنے پوشيدہ خزانے كو پانے كے الہى ارادے كا سرچشمہ تھا_و كان أبوهما صالحا ً فا راد ربّك أن يبلغاً أشدّ هما و يستخرجا كنزهم

كلمہ ''اشد'' جمع كے ہم وزن مفرد ہے يا ايسى جمع ہے كہ جسكا مفرد نہيں ہے اسميں اہل لغت كا اختلاف ہے بعض اسے ''شدة'' كى جمع سمجھتے ہيں (لسان العرب) بہر صورت اس سے مراد ، جسمانى اور عقلى بلوغ اور استحكام ہے _

۸_ صالح افرادكے بچوں كے ساتھ انكے والدين كى اچھائي كى بناء پر مناسب رويہ ضرورى ہے _

و كان ا بوهماصالحاً فا رادربّك

۹_ باپ كا صالح اور شائستہ ہونا، بچوں كے سعادت مند اور نيك بخت ہونے ميں مو ثر ہے _

كان ا بوهما صالحاً فا راد ربّك أن يبلغاً ا شدهما ويستخرجا كنزهم

۱۰_صالح افراداور انكے بچوں كے مفادات كى حفاظت ميں اللہ تعالى كے غيبى اسباب، دخالت ركھتے ہيں _

فا راد ربّك أن يبلغا أ شدّ هما ويستخرجا كنزهمارحمةمن ربّك

ديوار كى تعمير اور يتيموں كے مفادات كى حفاظت اگرچہ ايك خاص واقعہ ہے ليكن آيت ميں عمومى پيغام ہے اوروہ يہ كہ والدين كے اعمال صالحہ كى بناء پر بچوں كے مفادات كى بھى حفاظت ہوگى _

۱۱_ضرورت مند بچوں كے مستقبل كى خاطر كچھ مال و متاع، بچا كر ركھنا ايك شائستہ كام ہے _

وكان تحته كنزلهماوكان أبوهماصالحا

اس مطلب ميں فرض يہ ہوا ہے كہ يتيموں كے باپ نے اپنے بچوں كے مستقبل كى خاطر كچھ مال ديوار كے نيچے چھپا ياہے اسكے صالح ہونے كے اعتبار سے تعريف، يہ نكتہ دے رہى ہے كہ اسكى دور انديشى بھى بہت مناسب تھى اور حضرت

۵۱۹

خضر(ع) كا اس پوشيدہ خزانے كى حفاظت كرنا اوراس واقعہ كى خصوصيات كا قران ميں آنا اس شخص كى اچھى تدبير سے حكايت كررہاہے _

۱۲_استحكام اور عقلى بلوغ، اموال ميں تصرف كے جائز ہونے كى شرط ہے _فا راد ربّك ا ن يبلغا ا شدّهما ويستخرجا كنزهم

۱۳_اللہ تعالى كى طرف سے صالح باپ كے يتيم بچوں كى پشت پناہى اور انكے اموال كى حفاظت، اسكى رحمت وربوبيت كا ايك جلوہ تھى _فا رادربّك رحمة من ربّك '' رحمة''فعل ''ا راد'' كيلئے مفعول لہ ہے يعنى يتيم بچوں كے خزانے كے باقى رہنے كے سلسلہ الله تعالى كا ارادہ، اسكى رحمت كى بناء پر تھا_

۱۴_يتيموں اورصالح افراد كے لواحقين كى مددكرنا اور انكے اموال كى حفاظت، الله تعالى كے نزديك پسنديدہ كام ہے _

فا رادربّك ...رحمة من ربّك

۱۵_ الله تعالى كى رحمت، اسكى ربوبيت كا جلوہ ہے _رحمة من ربّك

۱۶_ حضرت خضر(ع) نے حضر ت موسى (ع) كو وسيع الہى تدبير كى طرف توجہ كرتے ہوئے، يتيموں كے اموال كى حفاظت كا سرچشمہ الله تعالى كى وسيع ربوبيت كوقرار ديا_فا راد ربّك

حضر ت خضر(ع) نے '' ربّ'' كوضمير خطاب كى طرف (ربّك) مضاف كرتے ہوئے حضرت موسى (ع) كے ليے يہ نكتہ بيان كيا كہ اگرچہ ديوار كى تعمير نے آپكوغذا فراہم كرنے اور جسمانى تربيت ميں كوئي مدد نہيں كى ليكن آپكا مالك ومدبر ، يتيموں كا مالك و مدبر بھى ہے _

۱۷_حضرت خضر(ع) نے سب عجيب وغريب كام، الله تعالى كے حكم كى بناء پر انجام ديئےن ميں انكى كوئي ذاتى رائے شامل نہيں تھى _رحمة من ربّك وما فعلته عن ا مري

''مافعلتہ'' ميں مفعول كى ضمير ،آيت كے ذيل كے قرينہ كى مددسے ان تمام كا موں كے جامع كى طرف لوٹ جاتى ہے مثلاً'' جوكچھ تونے ديكھا'' ''ياوہ جوميں نے انجام ديا''_

۱۸_حضرت خضر(ع) ، الله تعالى كے فرمان كے سامنے سرتسليم خم كيے ہوئے تھے _رحمة من ربّك وما فعلته عن ا مري حضرت خضر(ع) نے موسي(ع) كوقانع كرنے كيلئے اپنے تمام كاموں كواللہ تعالى كے فرمان كى طرف نسبت دى _

۱۹_اللہ تعالى اپنے ارادہ كو پايہ تكميل تك پہنچا نے اور اس كودائر ہ عمل ميں لانے كيلئے اسباب وعلل سے كام ليتاہے

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

مذكورہ تفسير اس سورہ كى آيت نمبر۷۸(واللّه اخرجكم من بطون ...لعلّكم تشكرون )كہ جس ميں انسانوں كو نعمتيں عطا كرنے كا فلسفہ و مقصد پرودگار كى شكر گذارى بيان كيا گيا ہے كے ساتھ باہمى ربط كو ملحوظ خاطر ركھے ہوئے كى گئي ہے_

۱۴_ مادہ طبيعت كے مناظر ، انسانوں كا خدمت اور ان كے منافع كى خاطر خلق كيے گئے ہيں _

واللّه جعل لكم من بيوتكم ...لعلّكم تسلمون

''لكم'' ميں ''لام'' انتفاع كے ليے اور دونوں آيات ميں تكرار كى صورت ميں اس كا ذكر ہونا ممكن ہے مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے_

۱۵_ انسان، خداوند عالم كے خاص لطف و كرم اور كائنات ميں ايك خاص مقام و منزلت پر فائز ہے_

واللّه جعل لكم من بيوتكم ...وجعل لكم من الجبال ...لعلّكم تسلمون

۱۶_ انسان كے ليے لباس كى ضرورت ايك دائمى ضرورت ہے اور حيوانى محصولات سے اس كى فراہمى ايك وقتى چيز ہے_ومن اصوافها و ا و بارها و ا شعارها ا ثثاً و متعاً الى حين ...وجعل لكم سربيل تقيكم الحرّ

مذكورہ تفسير اس احتمال كى بناء پر ہے كہ ''الى حين'' كى قيد كا تعلق پشم ، كھال اور بال سے بہر ہ مند ى كے محدود ہونے كے ساتھ ہواور يہ جو مذكورہ اشياء محدود وقت سے مقيّد ہوئي ہيں ليكن ''سرابيل'' جو خاص كے بعد عام كے ذكر ہونے كے عنوان سے ہے كے ليے اس قيد كا ذكر نہيں ہوا ممكن ہے اس سے مذكورہ نكتہ كا استفادہ ہوتا ہو_

۱۷_ انسانوں كى لازم ضروريات كى فراہمى كے بعد ان سے ہدايت و تربيت كى اميد ركھنا، ايك بجا اور مناسب اميد ہے_

واللّه جعل لكم ...لعلّكم تسلمون

مذكورہ تفسير اس بناء پر ہے كہ خداوند عالم نے انسانوں پر اپنى فراواں نعمتوں كا ذكر كرنے كے بعد جملہ''لعلّكم تسلمون'' كو بيان كيا ہے_

۱۸_ خداوند عالم كے سامنے سر تسليم خم ہونا، ايك بلند اور قابل قدر مقام ہے_

۵۴۱

واللّه جعل لكم عليكم لعلّكم تسلمون

مذكورہ تفسير اس بات كو مد نظر ركھتے ہوئے ہے كہ انسان كى خلقت اور اس كو انواع و اقسام نعمتوں كى عطا كا مقصد، انسان كا تسليم ہونا ہے_

۱۹_ خداوند عالم كے مقابلہ ميں انسان، سر كشى كے خطرہ سے دوچار ہے_كذالك

كلمہ''لعّل'' كا استعمال جو تو قع اور فقط انتظار كے ليے استعمال ہوتا ہے اس بات كو بيان كررہا ہے كہ اگر خداوند عالم كى فراواں نعمتوں كى طرف توجہ نہ ہوتو اس كے سامنے انسان كا سر تسليم خم ہونا دور كى بات ہے_

آيات خدا:الله تعالى كى آفاقى نشانياں

الله تعالي:الله تعالى كى قدرت كے آثار ۱; الہى نعمات ۲، ۵، ۷ ; الہى نعمات كا وافر ہونا۱۱; خداشناسى كے دلائل ۳،۸; قدرت الہى ۴; متنوع الہى نعمات كا فلسفہ ۱۲

اميدواري:پسنديدہ اميدوارى ۱۷

انسان:انسان كى پناہ گاہ۴،۵; انسان كى دائمى ضرورتيں ۱۶; انسان كى ضروريات كو پورا كرنا۱۰; انسانوں كى عصيان گرى كا خطرہ۱۹; انسان كى كرامت ۱۵; انسان كى مادى ضرورتيں ۱۵; انسان كے مقامات ۱۵; انسان كے منافع ۱۴

پہاڑ:پہاڑ وں كى خلقت۴; پہاڑوں ميں سكونت ۵; پہاڑى پناہ گا ہوں كى اہميت۹

تربيت:تربيت كا زمينہ۱۷

تسليم:خدا كے سامنے تسليم ہونا ۱۳; خدا كے سامنے تسليم ہونے كا زمينہ ۱۱; خدا كے سامنے تسليم ہونے كى اہميت ۱۲، ۱۸; مقام تسليم كى ارزش ۱۸

تعقل:تعقل كى اہميت ۸; سايہ ميں تعقل ۳

چوپائے :چوپايوں كے فوائد۱۶

ذكر:نعمت كے ذكر كے آثار ۱۱

شكر:شكر خدا كى علامات ۱۳

عصيان:خدا كى عصيان كا خطرہ۱۹

۵۴۲

لباس:لباس كو تہيہ كرنے كے منابع۱۶

لطف خدا:لطف خداكے شامل حال۱۵

مادى امكانات :مادى امكانات سے استفادہ ۱۴; مادى امكانات كا فلسفہ۱۴

مسكن:مسكن كى اہميت ۹

نعمت:اتمام نعمت۱۰; پہاڑوں كى نعمت ۵; سايہ كى نعمت۲; لباس كى نعمت ۷

نيازمندى :ضرورى حاجتوں كو پورا كرنے كى اہميت ۱۷; لباس كى ضرورت ۱۶

ہدايت:ہدايت كا زمينہ۱۷

آیت ۸۲

( فَإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلاَغُ الْمُبِينُ )

پھر اس كے بعد بھى اگر يہ ظالم منھ پھير ليں تو آپ كا كام صرف واضح پيغام كا پہنچا دينا ہے اور بس _

۱_ كفارپرآيات الہى كو واضح كرنے كے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى دعوت سے ان كى روگردانى كے سلسلہ ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى كوئي ذمہ دارى نہيں تھي_فان تو لّو ا فانّما عليك البلغ المبين

۲_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا وظيفہ فقط انسانوں تك الہى پيغام پہنچانا تھا نہ كہ لوگوں كو اس پيغام كو قبول كرنے پر مجبور كرنا _

فانّما عليك البلغ المبين

مذكورہ آيت ميں ''فانّما عليك'' كى حصر اضافى حصر ہے اور اجبار و كراہت كى نسبت مطابقت ركھتى ہے _

۳_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا وظيفہ ہے كہ وہ دين كى تبليغ كے سلسلہ ميں واضح اور ر وشن مفاہيم كا استعمال كريں _

فانّما عليك البلغ المبين

''بلاغ'' كا معنى تبليغ اور پيغام كا پہنچانا ہے اس كى ''المبين''''واضح اور آشكار'' سے توصيف، مذكورہ مطلب كو بيان كررہى ہے_

۴_ تبليغ دين كے سلسلہ ميں واضح اور روشن مفاہيم اور مطالب سے استفادہ كرنا ضرورى ہے_

فانّما عليك البلغ المبين

۵۴۳

۵_ فقط لوگوں كى دينى رہبروں سے روگردانى كى وجہ سے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور دينى راہنماؤں سے ابلاغ دين كے وظيفہ كا سلب نہ ہونا _فان تولّوا فانّما عليك البلغ المبين

مذكورہ تفسيركا اس احتمال كى بناء پر استفادہ ہوتا ہے كہ اس آيت كا معنى اس طرح ہو كہ اگر لوگ روگردانى كريں تو تم اپنى ذمہ دراى كو تر ك نہ كرو بلكہ اس طرح الہى پيغام كے ابلاغ كى كوشش كرتے رہو_قابل ذكر ہے كہ''فانما عليك''كے جملے كا اسميہ كى صورت ميں آنا جو كہ استمرار پر دلالت كرتا ہے اسى مطلب پر مويّد ہے_

۶_ خداوند عالم كا حق قبول نہ كرنے والوں كى روگردانى كى وجہ سے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پريشانى پر انہيں تسلّى دينا _

فان تولّوا فانّما عليك البلغ المبين

۷_ حق اور دينى حقائق كے واضح اور روشن ہونے كے باوجود ان سے انسان كى روگردانى ممكن ہے_

فان تولّوا فانّما عليك البلغ المبين

۸_ زندگى كے مختلف شعبوں ميں الہى نعمتوں كا بيان 'بلاغ مبين'' (روشن اور واضح دين كا بيان ) كا مصداق ہے _

والله جعل لكم ممّا خلق ظلالاً ...كذالك يتّم نعمة عليك لعلّكم تسلمون ...فإنما عليك البلغ المبين

گذشتہ آيات ميں خداوند عالم كى مختلف نعمات بيان ہوئي ہيں آخر ميں يہ اشارہ ہوا ہے كہ ان نعمتوں كے بيان كا مقصد انسانوں كا خدا كے سامنے سر تسليم خم ہونا ہے اور اگر لوگ رو گردانى كريں تو اس روشن بيان (نعمتوں كا بيان ) كے علاوہ كو ئي ذمہ دارى نہيں ہے_

آيات خدا:آيات خداكو بيان كرنا ۱

الله تعالي:الله تعالى كى نعمات كا بيان ۸

تبليغ:تبليغ ميں صراحت۳،۴

جبر و اختيار:۲

حق:حق سے منہ پھيرنا ۷;حق كو قبول نہ كرنے والوں كا اعراض۶

۵۴۴

دين:تبليغ دين كى اہميت ۵; تبليغ دين كى روش ۳،۴; تبليغ دين ميں استقامت ۵،۸; دين سے منہ پھيرنا۷; دين كو بيان كرنے كى روش_۸;دين ميں اكراہ كى نفي۲

دينى رہبر:دينى رہبروں كى ذمہ داري۵

كفار:كافروں كا منہ پھير نا۱

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اعراض۱; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو دلدارى ۶; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تبليغ ۲،۳; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ داري۳،۵; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى كى حدود ۱،۲

آیت ۸۳

( يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللّهِ ثُمَّ يُنكِرُونَهَا وَأَكْثَرُهُمُ الْكَافِرُونَ )

يہ لوگ اللہ كى نعمت كو پہچانتے ہيں اور پھر انكار كرتے ہيں اور ان كى اكثريت كافر ہے _

۱_ مشركين ،الہى نعمتوں كى شناخت كے باوجود ان كا عملى طور پر انكار كرتے ہيں اور ناشكرى كى راہ اختيار كرتے ہيں _

يعرفون نعمت الله ثم ينكرو نه

اس آيت ميں انكار، معرفت اور شناخت كے مقابلہ ميں قرار پايا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے كہ نعمت كے انكار سے مراد عملى انكار ہے نہ كہ اعتقادى _

۲_ صدراسلام كے اكثر مشركين نے الہى نعمتوں سے آگاہى كے باو جود نا شكرى كے راستہ كو اختيار كيا اور كافر ہوئے_

يعرفون نعمت الله ثم ينكرونها و اكثر هم الكافرون

۳_ صدر اسلام كے اكثر مشركين نے الہى نعمتوں كا عملاً انكار كرنے كے علاوہ زبانى طور پر بھى كفر اختيار كيا_

يعرفون نعمت الله ثم ينكرونها و اكثر هم الكافرون

الہى نعمتوں كا انكار اور نا شكرى يا زبان كے ساتھ ہے يا عمل كے ذريعہ جملہ''ثم ينكرونها ''عملى كفران نعمت اور جملہ''اكثرهم الكافرون'' زبانى طور پر نا شكرى كو بيان كررہا ہے_

۵۴۵

۴_ الہى نعمتوں كا اكثر انكار كرنے والے، كفر كا مجسمہ كامل اور مصداق ہيں _يعرفون نعمت الله ...واكثر هم الكافرون

مذكورہ تفسير اس نكتہ كى بناء پر ہے كہ ''ہم'' كى ضمير ''يعرفون'' كے فاعل كى طرف لوٹ رہى ہواور ''الكافرون'' ميں ''الف و لام'' استغراق(عموميت) كے ليے ہو_

الله تعالي:الله تعالى كى نعمتوں كى تكذيب كرنے والے ۱،۳; الله تعالى كى تكذيب كرنے والوں كى اكثريت ۴; الہى نعمتوں كى تكذيب كرنے والوں كا كفر۴

كفار:۲،۳،۴

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كا كفر ۲،۳; صدر اسلام كے مشركين كا كفران۲،۳; صدراسلام ميں مشركين كى اكثريت۳; مشركين كا كفر۱; مشركين كى لجاجت۱

آیت ۸۴

( وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِن كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً ثُمَّ لاَ يُؤْذَنُ لِلَّذِينَ كَفَرُواْ وَلاَ هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ )

اور قيامت كے دن ہم ہر امت ميں سے ايك گواہ لائيں گے اور اس كے بعد كافروں كو كسى طرح كى اجازت نہ دى جائے گى اور نہ ان كا عذر ہى سناجائے گا _

۱_ روز قيامت ہر امت ميں سے ايك فرد گواہ اورشاہد كے عنوان سے مبعوث ہوگا_ويوم نبعث من كل امّة: شهيد

۲_ خداوند عالم نے انسانوں كو قيامت يا د كرنے كى تاكيد كى ہے_ويوم نبعث من كل امّة شهيد

مذكورہ تفسير اس نكتہ پر موقوف ہے كہ ''يوم '' ظرف تقدير ميں ''ذكر'' يا''اذكروا'' كےمتعلق ہو_

۳_ روز قيامت تمام زمانوں كے متعلق ہر امت ميں سے ايك فرد شاہد اور گواہ كے عنوان سے حاضر ہوگا_ويوم نبعث من كل امة شهيد

ہر امت كے ايك گواہ كا حاضر ہونا ممكن ہے اس صورت ميں ہو كہ ہر زمانہ اور نسل سے متعلق تمام امتوں ميں سے ايك شخص گواہ كے عنوان سے روز قيامت حاضر ہوگا اس بناء پر نسلوں اور زمانوں كى تعداد كے مطابق گواہ ، گواہى ديں گے_

۴_ ہر زمانہ ميں تمام امتوں ميں سے خدا كى جانب سے افراد، لوگوں كے اعمال پر نظارت ركھتے ہيں _

ويوم نبعث من كل امة شهيد

۵۴۶

مذكورہ تفسير اس نكتہ كى بناء پر ہے كہ نظارت ركھنا گواہى دينے كا لازمہ ہے كيونكہ جب تك كسى چيز پر نظارت نہ كى جائے اس كے متعلق گواہى دينا ممكن نہيں ہوگا_

۵_ قيامت ، تمام انسانوں كے اعمال و كردار اور حقيقت كے ظاہر ہونے كا دن ہے_ويوم نبعث من كل امة شهيد

مذكورہ تفسير اس ليے ہے كہ گواہوں كى گواہى دينے كے ذريعہ انسانوں كے اعمال، كردار و غيرہ جو روز قيامت تك پنہاں ہوں گے سے پردہ چاك كرديا جائے گا_

۶_ قيامت كے دن اپنى امت كے اعمال پر گواہى دينے والے اپنى امت كے بہترين اور ممتاز افراد ہيں _

ويوم نبعث من كل امة شهيد

ہر امت ميں سے گواہ و شاہد كا انتخاب اس چيز كو بيان كررہا ہے كہ وہ گواہ امت كے بہترين اور ممتاز افراد ہوں گے كيوں كہ اگر ان كا تعلق بھى گناہ گار افراد سے ہواور ان كے اعمال پر كوئي دوسرا گروہ شاہد ہو تو گواہى دينے كے ليے ان كا انتخاب لغو اور بے ہودہ قرار پائے گا_

۷_ ہر زمانے اور عصر ميں گناہ و خطا سے محفوظ اور صالح انسان موجود ہوتا ہے_ويوم نبعث من كل امّة شهيد

۸_ روز قيامت امت كے گواہوں اور شاہد كے حضور كے وقت كفار كو بات اور معذرت كرنے كى اجازت نہيں ہوگي_

ويوم نبعث من كل امّة شهيداً ثم لا يوذن للذين كفروا

۹_ روز قيامت گواہوں كے پيش ہونے سے كفار كے ليے اپنا دفاع كرنے كى مہلت ختم ہوجائے گي_

ويوم نبعث من كل امّة شهيداً ثم لا يوذن للذين كفروا

كلمہ''ثم'' جو ترتيب كے ليے ہے ممكن ہے اس نكتہ كى طرف اشارہ ہو كہ گواہوں كے پيش ہونے كے بعد او ر نہ اس سے پہلے كفار كوا جازت نہيں ہوگي_

۱۰_ قيامت كى عدالت ميں كفار كى محكوميت گواہوں كى شہادت كے ذريعہ ہوگي_

ويوم نبعث من كل امّة شهيداً ثم لا يوذن للذين كفروا

۱۱_ قيامت ميں گواہوں كى شہادت ناقابل خدشہ اور رد نہيں كى جاسكتى ہے_ويوم نبعث من كل امّة شهيداً ثم لا يوذن

۵۴۷

للذين كفروا

۱۲_ روز قيامت كفار پر خداوند عالم كى رضايت كو جلب كرنے كے تمام راستے مسدود ہوجائيں گے_

ثم لا يوذن للذين كفروا ولا هم يستعتبون

''استعتاب''( يستعتبون) كا مصدر ہے جس كا معنى برائي كرنے والے سے بد كارى سے بازگشت كى در خواست اور جس كے ساتھ برائي ہوئي ہے اس كى جلب رضايت كرنا ہے اس بناء پر جملہ''ولا هم يستعتبون'' كا معنى يہ ہوگا كہ ان يہ نہيں كہا جائے گا كہ وہ عذر خواہى كريں يا خدا كى رضايت جلب كرنے كے ليے كوئي اقدام كريں _

امتيں :امتوں كے برگزيدہ ۶; امتوں كے صلحاء ۷; امتوں كے گواہ۱،۲،۳،۴،۶،۸،۹; امتوں كے معصوم۷

خدا:خدا كى تاكيديں _۲

ذكر :قيامت كے ذكر كى اہميت۲

عمل:گواہوں كا عمل ۴;گواہوں كے عمل كا برگزيدہ ہونا ۶

قيامت:قيامت كى خصوصيات ۵; قيامت ميں حقائق كا ظہور۵; قيامت ميں گواہ ۱،۳،۶،۸،۹; قيامت ميں گواہى ۱۱; قيامت ميں گواہى كا قبول ہونا ۱۱; قيامت ميں گواہى كى خصوصيات۱۱

كفار:قيامت ميں كفار۱۲; كفار اور خداوند عالم كى جلب رضايت ۱۲;كفار كى آخرى مہلت۹; كفار كى اخروى مذمت ۱۰; كفار كى اخروى معذرت۸

معصومين:۷

۵۴۸

آیت ۸۵

( وَإِذَا رَأى الَّذِينَ ظَلَمُواْ الْعَذَابَ فَلاَ يُخَفَّفُ عَنْهُمْ وَلاَ هُمْ يُنظَرُونَ )

اور جب ظالمين عذاب كو ديكھ ليں گے تو پھر اس ميں كوئي تخفيف نہ ہوگى اور نہ انھيں كسى قسم كى مہلّت دى جائے گئي _

۱_ ظالم افراد اپنے عذاب كے حتمى ہونے كے بعد ذرہ بھر رعايت اور مہلت سے محروم ہوں گے _

وإذا را الذين ظلموا العذاب فلا يخففّ عنهم

اس آيت ميں ''رويت''سے مراد آنكھ سے ديكھنا نہيں ہے بلكہ اس كا كفائي معنى مراد ہے يعنى عذاب كاحتمى ہونا _

۲_ كافر، ظالم افراد ہيں _لا يوذن كفروا ...وإذا رأ الذين ظلموا العذاب

۳_ ظلم ، عظيم اور ناقابل بخشش گناہ اور انسان كے اخروى عذاب ميں مبتلا ء ہونے كا سبب ہے _

وإذا راء الذين ظلموا العذاب

مذكورہ تفسير اس نكتہ كى بناء پر ہے كہ با وجود اس كے كہ آيت قيامت كے دن كفار كى حالت بيان كرنے كے سلسلہ ميں ہے ليكن انہيں ظالم افراد سے توصيف كيا ہے اور وصف علت كو بيان كررہا ہے قابل ذكر ہے كہ اخروى عذاب كا وعدہ اس كے عظيم اور ناقابل معافى ہونے كو بيان كررہا ہے_

۴_ ظالم كفار ، عذاب الہى كا مشاہدہ اور سزا كے حتمى ہونے كے بعد اپنى سزا ميں رعايت اور تاخير كے خواہشمند ہوں گے_

فلا يخففّ عنهم العذاب ولا هم ينظرون

ظالموں كو عذا ب ميں رعايت اور مہلت نہ دينے كے بارے ميں الہى تذكر اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ وہ رعايت اور مہلت طلب كرنے كے خواہش مندہوں گے_

ظالم:عذاب كے وقت ظالم ۴; ظالموں كے عذاب كا حتمى ہونا ۱

ظلم:ظلم كا گناہ ہونا ۳; ظلم كے آثار ۳

عذاب:اخروى عذاب كے اسباب۳; عذاب كى تخفيف كى در خواست۴

كفار:عذاب كے وقت كفار ۴;كفار كا ظلم۲; ظالم كفار كا مہلت طلب كرنا۴; ظالم كفار كى خواہشات ۴

گناہ:گناہ كے آثار۳; ناقابل معافى گناہ۳

گناہ كبيرہ:۳

۵۴۹

آیت ۸۶

( وَإِذَا رَأى الَّذِينَ أَشْرَكُواْ شُرَكَاءهُمْ قَالُواْ رَبَّنَا هَـؤُلاء شُرَكَآؤُنَا الَّذِينَ كُنَّا نَدْعُوْ مِن دُونِكَ فَألْقَوْا إِلَيْهِمُ الْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَكَاذِبُونَ )

اور جب مشركين اپنے شركاء كو ديكھيں گے تو كہيں گے پروردگار يہى ہمارے شركاء تھے جنھيں ہم تجھے چھوڑكر پكارا كرتے تھے پھر وہ شركاء اس بات كو انھيں كى طرف پھينك ديں گے كہ تم لوگ بالكل جھوٹے ہو _

۱_ مشركين روز قيامت اپنے جھوٹے معبودوں كا سامنا كرتے وقت ان سے نزاع پر اترآئيں گے _

وإذا را الذين اشركوا شركاء هم قالوا ربّنا هؤلائ شركاؤن

۲_ روز قيامت مشركين ، خداوند عالم سے تكلم كريں گے اور اپنے معبودوں كى شكايت كريں گے_قالوا ربّنا هوء لاء شركاؤن

جملہ''فالقوا اليهم القول '' ممكن ہے اس

۵۵۰

بات پر قرينہ ہو كہ مشركين كى بات ( قالوا ...) شكايت كے عنوان سے ادا ہوگي_

۳_ قيامت كے دن مشركين ،خداوحدہ كى ربوبيت كا اقرار كريں گے_قالوا ربّنا هو لاء شركاء ن

۴_ قيامت كے دن مشركين اپنے دائمى شرك كے گناہ اور غلط ہونے كا عتراف كريں گے_

هولاء شركا ء نا الذين كنّا ندعوا من دونك

۵_ قيامت كے دن مشركين كى يہ كوشش ہوگى كہ وہ اپنى گمراہى كے سلسلہ ميں اپنے معبودوں كے جھوٹ كو دخيل قرار ديں _وإذا رأ الذين اشركوا شركاهم قالوا ربّنا هولاء شركائْ نا الذين كنّا ندعوا من دونك

مذكورہ تفسير اس احتمال كى بناء پر ہے كہ مشركين كا اپنے جھوٹے معبودوں كى نشاندہى كرنے كى غرض اپنے گناہ كے بوجھ كو كم كرنا اور اسے اپنے معبودوں كے دوش پر لادنا ہو_

۶_ قيامت كے دن مشركين كا خداوند عالم كے ليے معبودوں كو شريك قرا ر دينے كا دعوى ،خود معبودوں كى طرف سے جھوٹا قرار ديا جائے گا_فالقوا اليهم القول انّكم لكازبون

قيامت كے دن مشركين كااپنے معبودوں سے شكوہ (قالوا هؤلائ ...) ممكن ہے اس وجہ سے ہو كہ وہ معبودوں كو اپنى گمراہى كا سبب قرار ديں گے اس بنا پر معبودوں كى تكذيب ممكن ہے اسى دعوى سے متعلق ہو_

اقرار:ربوبيت خدا كا اقرار۳; گناہ كا اقرار۴

باطل معبود:باطل معبودوں كا كردار۵; باطل معبودوں كى تكذيب۶; باطل معبودوں كى شكايت۲; باطل معبودوں كے ساتھ نزاع_۱

مشركين:قيامت ميں مشركين ۵،۶; مشركين اور باطل معبود۱; مشركين كا اخروى اقرار ۳،۴; مشركين كا اخروى نزاع ۱; مشركين كا خدا سے كلام ۲; مشركين كى اخروى شكايت ۲; مشركين كى اخروى كوشش ۵; مشركين كى گمراہى كے اسباب۵; مشركين كے دعوى كى تكذيب۶

۵۵۱

آیت ۸۷

( وَأَلْقَوْاْ إِلَى اللّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُواْ يَفْتَرُونَ )

اور پھر اس دن اللہ كى بارگاہ ميں اطاعت كى پيشكش كريں گے اور جن باتوں كا افترا كيا كرتے تھے وہ سب غائب اور بے كار ہوجائيں گى _

۱_ روز قيامت مشركين خداوند عالم كے حضور اپنے تسليم ہونے كے مراتب كا اظہار كريں گے _

وإذا راء الذين ا شركوا ...وا لقوا الى الله يومئذ: السّلم

۲_ مشركين ، فقط قيامت كے دن اور مجبورى كے بعد تسليم خم ہوں گے_وا لقوا الى اللّه يومئذ السّلم

يہ بات مخفى نہ رہے كہ مشركين دنيا ميں كبھى بھى فرمان خدا كے سامنے سر تسليم خم نہ تھے_

(يعرفون نعمت الله ثم ينكرو نها ...) اس بناء پر اظہار تسليم كو''يومئذ'' ( اس دن) كے ساتھ مقيّد كرنا مذكورہ تفسير كو بيان كرر ہا ہے_

۳_ قيامت كے دن مشركين ، خداوند عالم كا شريك قرار دينے والے اپنے خود ساختہ جھوٹے خداؤں كو نہيں پائيں گے_

وضلّ عنهم ما كانوا يفترون

۴_ شرك، جھوٹ سے كام لينا اورشرك آلو نظريات ، باطل اور بے بنياد ہيں _

وإذا رء الذين اشركوا ...وضلّ عنهم ماكانوا يفترون

شرك:شرك كا بے منطق ہونا ۴

۵۵۲

مشركين:قيامت ميں مشركين۱،۲; مشركين كا آخرت ميں تسليم ہونا ۱،۲; مشركين كى آخرت ميں ناكامي۳; مشركين كى افتراء بازى ۳; مشركين كى فكر۳

آیت ۸۸

( الَّذِينَ كَفَرُواْ وَصَدُّواْ عَن سَبِيلِ اللّهِ زِدْنَاهُمْ عَذَاباً فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُواْ يُفْسِدُونَ )

جن لوگوں نے كفر اختيار كيا اور راہ خدا ميں ركاوٹ پيدا كى ہم نے ان كے عذاب ميں مزيد اضافہ كرديا كہ يہ لوگ فسادبرپا كيا كرتے تھے_

۱_راہ خدا كو مسدود كرنے والے كفار ،دوسرے كفار كى نسبت عظيم عذاب سے دوچار ہيں _

الذين كفروا وصّد وا عن سبيل الله زدنهم عذاباً فوق العذاب

۲_ معارف اور آسمانى اديان كے قوانين ، ''سبيل الله '' كا مظہر ہيں _الذين كفروا و صدّوا عن سبيل اللّه

۳_ دين الہى كى ترويج سے روكنا ،فساد بر پا كرنا ہے اور راہ خدا مسدود كرنےوالے مفسد ہيں _

الذين كفروا و صدّوا عن سبيل الله ...بما كانوايفسدون

۴_ معاشرہ ميں فساد كو ترويج دينے كى سزا فساد سے آلودہ ہونے سے زيادہ ہے_

الذين كفروا وصّدوا عن سبيل الله زدنهم عذاباً فوق العذاب بما كانوا يفسدون

۵_ الہى اديان ، انسانى معاشرہ كو خير و بھلائي فراہم كرنے كے ليے ہيں _الذين كفروا ...بما كانوا يفسدون

''افساد '' كے بازگشت كا معنى يہ ہے كہ انسان خير كو ختم كردے يا اس كے تحقق كے ليے ركاوٹ بنے اس بناء پر الہى اديان كى مفسدين كے ساتھ جنگ در حقيقت معاشرہ ميں خير و صلاح سے دفاع ہے_

۶_ الہى اديان كے نفوذ كے ليے ركاوٹ بننا اور بے دينى كى ترويج، معاشرہ ميں فساد اور تباہ كار ى كے رائج ہونے كا پيش خيمہ ہے_الذين وكفروا صدّوا عن سبيل الله ...بما كانوا يفسدون

۵۵۳

۷_ كفار كا عذاب، ان كے اعمال اور فساد كے لحاظ سے متفاوت ہے_زدنهم عذاباً ...بما كانوا يفسدون

۸_ كفار كا اخروى عذاب، خو د ان كے مسلسل فساد پھيلانے كا نتيجہ ہے_زدنهم عذاباً ...بما كانوا يفسدون

۹_''ان النبي'' سئل عن فوق الله ''زدنا هم عذاباً فوق العذاب''قال: عقارب ا مثال النخل الطوال ينهشو نهم فى جهنّم (۱)

رسول خدا سے خداوند عالم كے اس قول ''زدنہم فوق العذاب'' كے بارے ميں سوال ہوا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا ( عذاب زيادہ ہونا) كجھور كے بلند درختوں كى مانند بچھوہيں جو جہنم ميں جہنميوں كو ڈسے _

۱۰_''عن النبي صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ''قال : الزيادة خمسة ا نهار تجرى من تحت العرش على رؤس من اهل النار فذلك قوله :''زدناهم عذاباً فوق العذاب ...'' (۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روايت نقل ہوئي ہے كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا : عذاب كا اضافہ پانچ نہريں ہيں جو عرش كے نيچے سے اہل جہنم پر جارى ہوں گى ...اور خداوند عالم كے اس قول''زدنهم عذاباً فوق العذاب'' سے يہى مراد ہے_

اديان:اديان كا كردار ۵; اديان كى تعليمات ۲; اديان كے قوانين۲

بے ديني:بے دينى كے آثار۶

جرم:جرم كا زمينہ۶

دين:دين كے پھيلاؤ كى ممانعت ۳،۶

روايت:۹،۱۰

سبيل الله :سبيل الله سے روكنے والوں كا عذاب۱; سبيل الله

____________________

۱)الدر المنشور ،ج۵،ص۱۵۷_

۲) الدر المنشور ،ج۵،ص ۱۵۸_

۵۵۴

سے روكنے والوں كا فساد كرنا۳; سبيل الله كے موارد۲

سزا:سزا كا نظام۷; سزا كے مراتب۴; گناہ كى مناسبت سے سزا۴

عذاب:عذاب كے مراتب۱،۷،۹،۱۰

فساد:سماجى فساد كا زمينہ ۶; فساد پھيلانے كى سزا ۴;فساد كى سزا ۴

فساد پھيلا نا:فساد پھيلا نے كے موارد ۳

كفار:كفار كا فساد پھيلانا ۷; كفار كے اخروى عذاب كے اسباب۸; كفار كے عذاب ۱; كفار كے فساد پھيلانے كے آثار ۸

مفسد:۳

معاشرہ:معاشرہ كى اجتماعى آسيب شناسي۶; معاشرہ كے اجتماعى مصالح كو پورا كرنا۵

آیت ۸۹

( وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً عَلَيْهِم مِّنْ أَنفُسِهِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيداً عَلَى هَـؤُلاء وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَاناً لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ )

اور قيامت كے دن ہم ہر گروہ كے خلاف انھيں ميں سے ايك گواہ اٹھائيں گے اور پيغمبر آپ كو ان سب كا گواہ بناكر لے آئيں گے اور ہم نے آپ پر كتاب نازل كى ہے جس ميں ہر شے كى وضاحت موجود ہے اور يہ كتاب اطاعت گذاروں كے لئے ہدايت، رحمت اور بشارت ہے _

۱_ انسان كى ذمہ دارى ہے كہ وہ ہرزمانہ ميں اپنے اعمال پر الہى گواہوں كى نظارت كى طرف متوجہ رہے

ويوم نبعث فى كلّ ا مّة شهيدا

چند آيات كے ضمن ميں ''يوم نبعث '' كے مضمون كا تكرار نيز''اذكر'' يا ''اذكروا'' كا تقدير ميں ہونا، الہى گواہوں كى نظارت اور اس سلسلہ ميں انسان كى تكليف كے موضوع كى اہميت كو بيان كررہا ہے_

۲_ روز قيامت جن حقائق كا ہر صورت ميں انسانوں كو سامنا كرنا پڑے گا ان كى طرف توجہ كرنا ضرورى ہے_

ويوم نبعث فى كل امّة شهيدا

۵۵۵

''يوم'' سے مراد، قيامت كا دن ہے خداوند عالم كى طرف سے اس دن كى يادآورى كى تاكيد كہ جس كا ''اذكر'' امر سے استفادہ ہوتا ہے مذكورہ مطلب سے حكايت ہے_

۳_قيامت، ہرا مت ميں سے ان كے متعلق شہادت دينے كے ليے گواہوں كے مبعوث ہونے كا دن ہے _

ويوم نبعث فى كلّ امّة شهيداً عليهم من ا نفسهم

۴_ قيامت كے دن امت كے اعمال سے متعلق گواہى دينے والے افراد فقط اپنى امت كے بہترين اور ممتاز افراد ہوں گے_ويوم نبعث فى كلّ امّة عليهم من انفسهم

ہر امت ميں سے ايك گواہ اور شاہد كا انتخاب اس بات كو بيان كررہا ہے كہ وہ افراد امت كے بہترين اور ممتاز افراد ہوں گے كيوں كہ اگر ان افراد كا تعلق گناہ گار افراد سے ہو او ران كے اعمال پركوئي دوسرا گروہ گواہ و شاہد ہو توگواہى و شہادت كے ليے ان كا انتخاب لغو اور بے ہو دہ قرار پائے گا_

۵_ ہر زمانے ميں گناہ و خطا سے معصوم اور صالح انسان كاموجود ہونا_ويوم نبعث فى كلّ ا مّة شهيدا ً عليهم من انفسهم

۶_ خداوند عالم كا قيامت كے دن انسانوں كے ما بين فيصلہ اور حكم، دليل او رگواہوں كى شہادت كى بنياد پرہوگا_

ويوم نبعث فى كلّ ا مّة شهيداً عليهم من انفسهم

مذكورہ مطلب اس نكتہ كو ملحوظ خاطر ركھنے كى بناء پر ہے كہ گواہوں كى پيشي، حكم اورفيصلہ كے سلسلہ ميں ہے اور نيز يہ اتمام حجت كى خاطر اس كا م كو انجام ديا جائے گا_

۷_ ہرزمانے اور گروہوں كے در ميان شائستہ اور بلند كردار انسانوں كى موجود گى ، خداوند عالم كى دوسروں پر اتمام حجت كا سرچشمہ ہے_ويوم نبعث فى كلّ امّة شهيداً عليهم من انفسهم

مذكورہ تفسير اس احتمال كى بناء پر ہے كہ شہادت اور گواہى سے مراد ، شہادت اور گواہى قولى نہ ہو بلكہ شہادت عملى ہو يعنى خود صالح افراد كا وجود دوسروں پر اتمام حجت كا ذريعہ ہے_

۸_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنى امت كے اعمال پر ناظر اور روز قيامت ان پر گواہ ہيں _وجئنا بك شهيداً على هؤلائ

مذكورہ تفسير آيت ميں موجود دو نكات كو مدنظر ركھتے ہوئے ہے (الف) اس بناء پر كہ ''فى كل امّة'' ميں امت سے مراد ہر زمانے كے لوگ نہ ہوں بلكہ ہرپيغمبر كى امت ہو (ب) ''ہؤلائ'' قيامت كے دن تك پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تمام امت كى

۵۵۶

طرف اشارہ ہونہ فقط آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانے كے لوگوں كى طرف _

۹_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مقام عصمت پر فائز ہيں _وجئنا بك شهيدا ً على هؤلائ

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا اپنى امت كى نسبت گواہ ہونے كا لازمہ يہ ہے كہ وہ خود معصوم ہيں ورنہ وہ خود كسى اور گواہ كے نيازمند ہيں _

۱۰_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،طول تاريخ كے تمام گواہوں پر شاہد و گواہ ہيں _وجئنابك شهيداً هؤلائ

مذكورہ مطلب اس بناء پر ہے كا ''ہؤلائ'' كا اشارہ ''شہيداً '' يعنى ہر امت كے گواہوں كى طرف ہو_

۱۱_تاريخ بشريت ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،كامل ترين اور بلند كردار انسان ہيں _

مذكورہ مطلب اس بناء پر ہے كہ ''ہؤلائ'' كا اشارہ ''شہيداً'' يعنى ہرا مت كے گواہ ہوں _

اس صورت ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہ اكيلے انسان ہوں گئے جو طول تاريخ كے انسانوں اور تمام گواہوں پر شرافت و برترى ركھتے ہيں _

۱۲_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قرآن مجيد كا نزول انسانى رشد و سعادت اور اس كى ہدايت سے متعلق ضروريات كے حقائق كى وضاحت كے ليے ہے_ونزلّنا عليك الكتب تبيّناً لكلّ شيئ

اگر چہ ''كل شيئ'' عموميت كا فائدہ ديتا ہے او ر ظاہر اً كائنات كے تمام حقائق كو شامل ہو سكتا ہے ليكن يہاں عرفى قرائن كى بناء پر اس كا دائرہ محدود ہے جن ميں سے ايك يہ كہ چونكہ قرآن كتاب ہدايت اور سعادت و رشد كى كتاب ہے وہ ايسے حقائق كو بيان كرتى ہے جو ان تين موضوعات سے متعلق ہوں _

۱۳_ قرآن ، كائنات كے تمام حقائق پر مشتمل ہے جن سب سے آگاہى پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اختيار قدرت ميں ہے _

ونزّلنا عليك الكتب تبيناً لكلّ شيء وهديً

مذكورہ تفسير اس احتمال كى بناء پر ہے كہ''تبيناً لكل شى ئ'' سے مراد ، كائنات كے تمام حقائق ہوں ليكن چونكہ قرآن ذات پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہوا''نزلّنا عليك'' اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قرآن حقائق كى وضاحت كرنے كے ذمہ دارى ہيں ''وانزلن

۵۵۷

عليك الذكر لتبيّن للناس ...'' اس ليے يہ كہاجا سكتا ہے كے تمام قرآن كے حقائق جو كائنات كے حقائق پر مشتمل ہيں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس موجود ہيں اور مصلحت كے مطابق كچھ حقائق كو لوگوں كے ليے بيان كرتے ہيں _

۱۴_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شائستہ ترين انسان اور قرآن مجيد انسانوں كے رشد اور ہدايت كے ليے كامل ترين پروگرام ہے _

وجئنا بك شهيداً على هؤلاء و نزلنا عليك الكتب تبياناً لكلّ شيء و هديً

آيت كے دوجملوں كے باہمى ربط كو مد نظر ركھتے ہوئے يعنى ''وجئنا بك شہيداً ...'' اور ''ونزلّنا عليك ...'' نيز اس بناء پر كہ ''شہيداً''كا معنى نمونہ قرار ديں اور شہادت سے مراد عملى شہادت ليں تو ممكن ہے كہ مذكورہ مطلب كا استفادہ ہو_

۱۵_ انسان كے رشد و ہدايت كے حقيقى عوامل كى شناخت كے ليے قرآن مجيد كى طرف رجوع كرنا ضرورى ہے _

ونزلّنا عليك الكتب تبياناً لكلّ شيء هديً

۱۶_ انسانوں كے ليے خداوند عالم كى اتمام حجت كے طور پر قرآن مجيد ايك بہترين آئين نامہ ہے _

ويوم نبعث فى كلّ امّة شهيداً ...ونزلّنا عليك الكتب تبياناً لكلّ شيء وهديً

۱۷_ حق كے سامنے تسليم ہونے والوں كے ليے قرآن ہدايت ، رحمت اور بشارت كا سرچشمہ ہے _

ونزلنا عليك الكتب ...وهدى و رحمة و بشرى للمسلمين

۱۸_ ہدايت ، رحمت اور قرآنى بشارت سے بہرہ مند ہونے كے ليے حق قبول كرنے كى فكر ، شرط ہے_

ونزّلنا عليك الكتب ...وهديً و رحمة و بشرى للمسلمين

۱۹_ علم ، ہدايت كا مقدمہ اور ہدايت رحمت الہى كو جلب كرنے كا پيش خيمہ اور رحمت مسلمانوں كى بشارت اور سرورحقيقى كا سبب ہے_ونزلّنا عليك الكتب ...وهديً ورحمة وبشرى للمسلمين

مذكورہ مطلب اس نكتہ پر موقوف ہے كہ آيت ميں ترتيب رہتى ہو يعنى ان ميں ہر ايك دوسرے كے ليے مقدّمہ ہو_

الله تعالي:الله تعالى كى اتمام حجت۷،۱۶;الله تعالى كى اخروى قضاوت كرنے كا معيار۶; الله تعالى كى رحمت كا زمينہ۱۹; الله تعالى كى رحمت كے آثار ۱۹

امتيں :امتوں كے برگزيدہ۴; امتوں كے صلحائ۵; امتوں كے صلحاء كا كردار۷; امتوں كے گواہ۳ ،۴، ۸، ۱۰:

۵۵۸

امتوں كے گواہوں كا كردار۷; امتوں كے معصوم۵

انسان:انسان كا مل ۱۱،۱۴; انسان كى ذمہ داري۱; انسان كى سعادت كا زمينہ۱; انسان كى معنوى ضرورتيں ۱۲

بشارت:بشارت كے اسباب۱۹

تكامل:تكامل كا زمينہ ۱۲،۱۴

حق:حق قبول كرنے والوں كو بشارت ۱۷;حق قبول كرنے كے آثار ۱۸;حق قبول كرنے والوں پر رحمت كے اسباب۱۷; حق قبول كرنے والوں كى ہدايت كے اسباب۱۹

ذكر:عمل كے گواہوں كا ذكر۱

رحمت:رحمت سے استفادہ كى شرائط ۱۸; رحمت كا زمينہ۱۹

رشد:رشد كے اسباب ۱۵

زندگي:زندگى كا بہرين پروگرام۱۴،۱۶

سرور:سرور كے اسباب۱۹

عصمت:مقام عصمت ۹

علم:علم كے آثار ۱۹

عمل:عمل كے گواہوں كا برگزيدہ ہونا ۴

قرآن:رحمت قرآن۱۷; فضيلت قرآن ۱۴; قرآن كا كردار۱۲; قرآن كا كمال ۱۴; قرآن كى اہميت ۱۵; قرآن كى بشارتوں كى تاثير كے شرائط ۱۸; قرآن كى بشارتيں ۱۷;قرآن كى تعليمات ۱۳، ۱۴، ۱۵ ،۱۶ ; قرآن كى خصوصيات۱۳،۱۴; قرآن كى ہدايت كى تاثير كے شرائط ۱۸; قرآن كى ہدايت گرى ۱۲،۱۵ ،۱۷; قرآن كے نزول كا فلسفہ ۱۲

قيامت:قيامت كے خصوصيات۳; قيامت كے گواہوں كا كردار ۶; قيامت ميں گواہ۴،۸; قيامت ميں حقائق كا ظہور كرنا۲; قيامت ميں گواہي۳

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قرآن كانزول ۱۲; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قيامت ميں ۸; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا علم لدنى ۱۳; حضرت

۵۵۹

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا كردار ۱۰; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا كمال ۱۱،۱۴; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى عصمت ۹; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى گواہى ۸،۱۰; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فضائل ۱۱،۱۴; حضر ت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مقامات ۹

مسلمان:مسلمانوں كا سرور۱۹;مسلمانوں كو بشارت ۱۹

معصومين:۵،۹

ہدايت:ہدايت كا زمينہ۱۲; ہدايت كے آثار ۱۹; ہدايت كے اسباب ۱۵

آیت ۹۰

( إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِيتَاء ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ )

بيشك اللہ عدل، احسان اور قرابت داروں كے حقوق كى ادائيگى كا حكم ديتا ہے اور بدكاري، ناشائستہ حركات اور ظلم سے منع كرتا ہے كہ شايد تم اسى طرح نصيحت حاصل كرلو_

۱_خداوند عالم ، عدل كى رعايت اور رشتہ داروں پر احسان اور بخشش كا حكم ديتا ہے_

انّ اللّه يامر بالعدل والاحسان وايتا ى ذى القربي

۲_عدل ،احسان اور صلہ رحمى ،ہدايت قران كے اہم ترين احكام ہيں _

ونزلنا عليك الكتاب ان اللّه يأمربالعدل والاحسان وايتاى ذى القربي

خداوند عالم نے قران كے تعارف كے بعد عدل ، احسان اور رشتہ داروں پر بخشش كے مسئلہ كو پيش كياہے ان موضوع كا با ہمى ربط ممكن ہے مذكورہ مطلب كو بيان كررہاہو

۳_تمام نيكيوں ميں سے رشتہ داروں پر بخشش ايك خاص اہميت كى حاصل ہے_

ان الله يأمر بالعدل والاحسان وايتاى ذى القربي

مذكورہ تفسير اس بناء پر ہے كہ يقينى طو پر رشتہ داروں سے بخشش احسان كے مصاديق ميں سے ہے اور يہ جو دوبارہ جداگانہ طور پر اس كا ذكر ہوا ہے يہ اس كى اہميت كى طرف اشارہ ہے_

۴_صلہ رحمى ،مسئوليت كا سبب اور خصوصى حقوق كے پيدائش كا سرچشمہ ہے _

ان الله يامر بالعدل والاحسان وايتاى ذى القربي

۵۶۰

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779