تفسير راہنما جلد ۹

تفسير راہنما 10%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 779

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 779 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 212564 / ڈاؤنلوڈ: 3606
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۹

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

٢۔ علم و حکمت:

حضرت علی ـاس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ''جو شخص حکمت سے آگاہ ہے اس کو نگاہیں ہیبت اور وقار کی نظر سے دیکھتی ہیں ''۔(١)

٣۔ حلم:

حضرت علی ـسے منقول ہے: ''حلم وقا رکا باعث ہے '' ۔(٢)

٤۔سکوت:

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''زیادہ خاموشی انسان کے وقار میں اضافہ کرتی ہے ''۔(٣) نیز مومنین اور پرہیز گاروں کی خصوصیات کے سلسلہ میں فرماتے ہیں: '' اے ہمام ! مومن زیادہ سے زیادہ خاموش رہتا ہے اور باوقار ہوتا ہے ''۔(٤)

٥۔ تواضع و فروتنی:

حضرت علی ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ''فروتنی تم پر بزرگی اور شان و شوکت کا لباس پہناتی ہے '' ۔(٥) اسی طرح روایات میںدوسرے اسباب جیسے آہستہ گفتگو کرنا(٦) وغیرہ بیان ہوا ہے کہ اختصار کی وجہ سے انھیںہم ذکر نہیں کررہے ہیں۔ آیات و روایات میںاطمینان قلب کے لئے بہت سے اسباب و علل بیان کئے گئے ہیں کہ ان میں سب سے اہم درج ذیل ہے:

١۔ ازدواج:

قرآن کریم اس سلسلہ میں فرماتا ہے: ''اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تم ہی میں سے تمہارے جوڑوں کو تمہارے لئے خلق فرمایا تاکہ ان سے سکون حاصل کرواور تمہارے درمیان محبت ورحمت قرار دی۔ ہاں، اس (نعمت ) میں صاحبان عقل و فکر کے لئے یقینا ً نشانیاںہیں''۔(٧) دوسری جگہ فرماتا ہے: ''وہ ایسی ذات ہے جس نے تم کو ایک نفس سے خلق فرمایا اور اس سے جوڑے پیدا کئے تاکہ اس سے سکون حاصل کرو'' ۔(٨)

٢۔ عدالت:

حضرت فاطمہ زہرا ٭ فرماتی ہیں: ''خداوند عالم نے ایمان کو شرک دور کرنے کا ذریعہ....... اور عدالت کو دلوں کے سکون کا باعث قرار دیا ہے ''۔(٩)

____________________

١ ۔ کلینی، کافی، ج ٨، ص ٢٣، ح ٤، اور ملاحظہ ہو : صدوق، علل الشرائع، ج ١، ص ١١٠، ح ٩ ؛ مجلسی، بحار لا نوار، ج ١، ص ١١٧تا ١٢٤۔٢۔ آمدی، غرر الحکم، حکمت ٥٥٣٤۔ ٣۔ کلینی، کافی، ج ٢، ص ٢٢٦، ح ١۔ ٤۔ ایضاً۔٥۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٤١٨٤۔ ٦۔ کافی، ج٥، ص٣٩،ح٤۔٧۔ سورئہ روم، آیت ١ ٢۔ ٨۔ سورئہ اعراف، آیت ١٨٩۔ ٩۔ صدوق، من لا یحضر الفقیہ،ج٣، ص٥٦٨،ح٤٩٤٠۔ علل الشرایع، ص٢٤٨، ح٢۔ طبرسی، احتجاج، ج١،ص١٣٤۔

۱۴۱

٣۔ایمان:

حضرت امام جعفر صادق ـنے فرمایا: ''کوئی مومن نہیں ہے مگر یہ کہ خداوندعالم اس کے ایمان کے نتیجہ میں اس کے لئے ایک انس قرار دیتا ہے کہ جس سے وہ سکون حاصل کرتا ہے، اس طرح سے کہ اگر وہ پہاڑ کی چوٹی پر بھی ہو تو اپنے مخالفین سے وحشت نہیں رکھتا''۔(١) واضح ہے کہ اس سکون و اطمینان کا درجہ ایمان کے اعتبار سے ہے، جتنا ایمان کا درجہ زیادہ ہوگا اس سے حاصل شدہ سکون بھی زیادہ پایدار ہوگا۔

٤۔ خدا کی یاد:

قرآن کریم میں مذکور ہے: '' وہ لوگ جو ایمان لا چکے ہیںاور ان کے دل یاد الہی سے مطمئن ہیں آگاہ ہوجائیں کہ یاد الہی سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے ''۔(٢)

٥۔ حق تک پہنچنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا:'' انسان کا دل ہمیشہ حق کی تلاش و جستجو میں مضطرب اور پریشان رہتاہے اور جب اسے درک کرلیتا ہے تو مطمئن ہو جاتا ہے ''۔(٣) اس لحاظ سے شک وتردید کے علائم میں سے ایک اضطراب اور عدم سکون ہے کہ یہ بھی ایک قسم کا ذہنی درد و الم ہے۔ اُن تمام مذکورہ موارد کا فقدان جو سکون و وقار کے اسباب و علل میں شمار کئے گئے ہیں ان دونوں کے تحقق کے موانع شمار ہوتے ہیں مگر چونکہ بعض دیگر امور روایات میں سکون و وقار کے موانع کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں لہٰذا ذیل میںان میں سے اہم ترین امور کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے:

۱۔ لوگوں سے سوال و درخواست کرنا:

حضرت امام زین العابدین ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ''لوگوں سے سوال کرنا انسان کی زندگی کو ذلت وخواری سے جوڑ دیتا ہے، حیا کو ختم کردیتا اور وقار کو کم کردیتا ہے ''۔(٤) حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''فقیر انسان میں ہیبت و عظمت کا وجود محال ہے

۲۔ حد سے زیادہ ہنسنا اور ہنسی مذاق کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: ''جو زیادہ ہنستا ہے اس کی شان و شوکت کم ہوجاتی ہے ''۔ رسولخدا فرماتے ہیں: ''زیادہ ہنسی مذاق کرنا انسان کی آبرو کو ختم کردیتا ہے''۔(٥)

____________________

١ ۔ مجلسی، بحار لا نوار ج ٦٧، ص ٨ ٤ ١، ح ٤۔ ٢۔ رعد ، ٢٨۔ ٣۔ کلینی، کافی، ج ٢، ص٤٢١، ح ٥۔ ٤ ۔ مجلسی، بحار لا نوار، ج ٧٨، ص ١٣٦، ح ٣و ج ٧٥، ص ١٠٨۔

٥ ۔ کلینی، کافی، ج ٨، ص٢٢، ح ٤، اور ملاحظہ ہو حرانی، تحف العقول، ص ٩٦۔

۱۴۲

نیز حضرت علی ـ سے وصیت فرماتے ہیں : ''ہنسی مذاق کرنے سے اجتناب کروکیونکہ تمہاری شان و شوکت اور عظمت ختم ہوجائے گی ''۔(١) حضرت علی ـ نے بھی فرمایا ہے: ''جو زیادہ ہنسی مذاق کرتا ہے وہ کم عقل شمار ہوتا ہے''۔(٢)

٣۔ مال، قدرت،علم، تعریف اور جوانی سے سر مست ہونا:

حضرت علی ـ کی طرف منسوب بیان کے مطابق عاقل انسان کو چاہیے کہ خود کو مال، قدرت، علم، ستائش و جوانی کی سرمستی سے محفوظ رکھے، کیونکہ یہ سر مستی انسان کی عقل کو زائل کردیتی ہے اوراس کے وقارکو ختم کردیتی ہے۔(٣)

٤۔ جلد بازی:

جلد بازی سے مراد کسی کام کو بغیر سونچے سمجھے انجام دینا ہے۔ حضرت علی ـ مالک اشتر کو لکھتے ہیں: ہر گز کسی ایسے کام میں جلد بازی نہ کرو جس کا ابھی وقت نہ ہوا ہو! یا جس کام کا وقت ہوچکا ہو اس کے کرنے میں سستی نہ دکھاؤ! کوشش کروکہ ہر کام کو اس کے موقع و محل اور اس سے مخصوص وقت میں ہی انجام دو''۔(٤) ایک دوسرے موقع پر فرماتے ہیں: '' کسی کام میں جب تک کہ واضح نہ ہو اس کے کرنے میں جلد بازی نہ کرو''۔(٥) اور فرماتے ہیں: اس چیز میں جس میںخدا نے جلد بازی لازم نہیں قرار دی ہے اس میںجلد بازی نہ کرو ۔ ''(٦)

اسلام کے خلاقی نظام میںجلد بازی ہمیشہ نا پسندنہیں ہے، بلکہ بعض امور میں اس کی تاکید بھی کی گئی ہے، لیکن درج ذیل موارد میں جلد بازی سے روکا گیا ہے جیسے سزادینے، جنگ و خونریزی کرنے، کھانا کھانے، نماز تمام کرنے اور غور خوص کرنے میں جلد بازی سے منع کیا گیا ہے۔ نیکیوں، خدا کی خوشنودی، توبہ، عمل صالح اور تحصیل علم وغیرہ کے لئے جلد بازی کی تاکید کی گئی ہے۔ قرآن کریم نیک امور کی جانب سبقت کرنے کی تاکید فرماتا ہے: '' نیک کاموں میںایک دوسرے پر سبقت کرو''۔(٧)

____________________

١۔ صدوق، امالی، ص ٣ ٢٢، ح ٤۔ اختصاص، ص ٢٣٠ ؛ کلینی، کافی، ج ٢، ص ٦٦٤، ح ٦، اور ٦٦٥، ح١٦۔

٢۔ کلینی، کافی، ج ٨، ص٢٢، ح ٤۔ حرانی، تحف العقول، ص ٦٩۔ ٣۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٩٤٨ ١٠۔

٤۔ نہج البلاغہ، نامہ ٥٣۔ ٥۔ نہج البلاغہ، خطبہ ١٧٣۔ ٦ْ۔ ایضاً، خطبہ ٠ ١٩۔ ٧۔ سورئہ بقرہ، آیت ٤٨ اور سورئہ مائدہ، آیت ٨ ٤۔

۱۴۳

دو۔ نفس کے لئے خطر ناک شئی

نفس کے لئے خطر ناک شئی اس کا ضعیف ہونا ہے جس کے مضر اثرات ہیں اور یہ نفس کے موانع میںشمار ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض اثرات جیسے عدم ثبات، پست ہمتی، غیرت و حمیت کا نہ ہونا ان مباحث کے ضمن میں جو قوت نفس کے علائم میںبیان ہوئے ہیں، آشکار ہوگئے۔ یہاں پر ایک دوسرا مانع یعنی ''تہاون'' اور ''مداہنہ ''کا ذکر اس کی اہمیت کی بنا پر کیا جا رہا ہے۔

''مداہنہ'' سے مراد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں نرمی، کوتاہی اور سستی سے کام لینا ہے''۔(١) امر

با لمعروف اور نہی عن المنکر میں سستی اور کوتاہی یا نفس کے ضعیف ہونے سے پیدا ہوتی ہے یا اس شخص کے مال اور اعتبار میں دنیوی طمع و آرزو کی وجہ سے جس کی نسبت سستی اور کوتاہی کو روا رکھتا ہے۔(٢)

آیات وروایات میں دین میں نرمی اور کوتاہی کرنے کی شدت کے ساتھ مذمت کی گئی ہے اور اس کے نقصان دہ اثرات بیان کئے گئے ہیں ، جیسا کہ خدا وندعالم کفارو مشرکین کی سرزنش کرتے ہوئے فرماتا ہے: ''وہ چاہتے ہیں کہ تم نرمی سے کام لو تو وہ بھی نرمی سے کام لیں ''۔(٣) یعنی طرفین میںسے ہر ایک دوسرے کے دین سے متعلق سہل انگاری اور نرمی سے کام لے۔(٤ ) حضرت علی ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: '' میری جان کی قسم، حق کے مخالفین گمراہی و فساد میں غوطہ لگا نے والوں سے ایک آن بھی مقابلہ و جنگ کرنے میں سستی نہیں کروں گا''۔(٥) حضرت امام محمد باقر ـ فرماتے ہیں: '' خداوند سبحان نے حضرت شعیب کو وحی کی کہ تمہاری قوم میں سے ایک لاکھ افراد پر عذاب نازل کروں گا، ان میں سے ٤٠ ہزار افراد برے ہیں اور ٦٠ ہزار ان کے برگزیدہ ہیں۔ حضرت شعیب نے پوچھا: خدایا ! اخیار اور برگزیدہ افراد کا جرم و گناہ کیاہے ؟ تو خداوند سبحان نے جواب دیا: ان لوگوں نے گناہگاروں کے مقابل سستی اور نرمی سے کام لیا ہے اور میرے ناراض ہونے سے وہ ان پر ناراض نہیں ہوئے ''۔(٦)

____________________

١۔ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، ص ١٧٣ ؛ طریحی، مجمع البحرین، ج ١، ص ٦٦ ؛ ابن منظور، لسان العرب، ج١٣، ص ٢ ١٦ ؛ مجلسی ،بحار الانوار، ج ٧٥، ص ٢٨٢۔ ٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ٢٣٢ تا٢٤٠۔ ٣۔ قلم ٩۔

٤۔ طباطبائی، المیزان، ج١٩، ص ٣٧١۔ ٥۔ نہج البلاغہ، خطبہ ٢٤۔

٦۔ تہذیب، طوسی، ج ٦، ص ١٨١ ،ح ٣٧٢ ؛ کلینی، کافی، ج ٥، ص ٥٦، ح ١۔

۱۴۴

دین میں سستی ،سہل انگاری اور کوتاہی سے متعلق روایات میں جو نقصان دہ اور ضرر رساں اثرات بیان کئے گئے ہیں ان میں سے انسانی سماج کی گراوٹ، فسادو تباہی، گناہ و عصیان کی زیادتی، سزا ودنیوی اور اخروی عذاب اور دنیا وآخرت میں نقصان وخسارہ کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔(١)

٢۔ حلم و برد باری اور غصہ کا پینا

'' حلم '' عربی زبان میں امور میں تامل، غوروفکر، تدبیر کرنے اور جلد بازی نہ کرنے کو کہتے ہیں۔ '' حلیم '' اس انسان کو کہتے ہیں جو حق پر ہونے کے باوجود جاہلوں کو سزا دینے میں جلد بازی نہ کرے اور مقابل شخص کی جاہلانہ رفتار سے وجود میں آنے والے غیض وغضب سے اپنے کو قابو میں رکھے۔(٢) بعض علماء اخلاق حلم کو اطمینان قلبی اور اعتماد نفس کا ایک درجہ خیال کرتے ہیں کہ اس کا مالک انسان آسانی سے غضبناک نہیں ہوتا اور ناگوار حوادث جلدی اسے پریشان اور مضطرب نہیں کرتے۔ اس وجہ سے حلم کی حقیقی ضد غضب ہے، کیونکہ حلم اصولی طور پر غضب کے وجود میں آنے سے مانع ہوجاتا ہے۔ حلم اور '' کظم غیظ '' ( غصہ کو پینے ) کے درمیان فرق کے بارے میں کہا گیا ہے کظم غیظ صرف خشم و غضب کے پیدا ہوجانے کے بعد اسے ضبط کر کے ٹھنڈا کردیتا ہے جب کہ حلم بے جا غیض و غضب کے پیدا ہونے سے مانع ہوتا ہے، پس حلم غیض و غضب کو پیدا ہی نہیں ہونے دیتا ''کظم غیظ '' اس کے پیدا ہونے کے بعد اس کے علائم کے ظاہر ہونے کو روک کر درحقیقت اس کا علاج کرتا ہے۔(٣)

قرآن کریم میں حلم ١٠ بار سے زیادہ خداوندسبحان کے صفات میں شمار کیا گیا ہے کہ ان موارد میں نصف سے زیادہ ''غفور'' اور ''حلیم '' ایک ساتھ ذکر ہوا ہے۔(٤)

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج ١، ص ٤٥، ح ٦، اور ج ٨، ص ٤ ٣ ١، ح ١٠٣، اور ص ١٢٨، ح ٩٨ ؛ حرانی، تحف العقول، ص ١٠٥، ٧ ٣ ٢؛ نہج البلاغہ، خ ٨٦، ٢٣٣؛ شیخ مفید، ارشاد، ص ٩٢۔

٢۔ ابن اثیر، نہایہ، ج ١، ص ٣٤ ٤، ؛ ابن منظور، لسان العرب، ج ١٢، ص ١٤٦ ؛ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، ص ١٢٩، مجمع البحرین، ج ١، ص ٥٦٥۔ اور فیض کاشانی، ملا محسن، المحجةالبیضائ، ج ٥، ص ٣١٠۔

٣۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٥ ٢٩، ٢٩٦۔

٤۔ عبد الباقی، محمد فؤاد، المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم، ص ٢١٦، ٢١٧۔

۱۴۵

اسلام کے اخلاقی نظام میںحلم اور بردباری کی قدر و منزلت اس درجہ بلند ہے کہ لوگوں کی رہبری و امامت کے ایک لوازم میں شمار کیا گیا ہے۔ رسول خدا فرماتے ہیں: ''امامت اوررہبری تین خصوصیات کے مالک افراد کے علاوہ کسی کے لئے سزاوار نہیں ہے، ایسا تقویٰ جو اسے خدا کی نافرمانی سے روکے، ایسا حلم وبرد باری جس کے ذریعہ وہ اپنے غصہ کو کنٹرول کرے اور لوگوں پر ایسی پسندیدہ حکمرانی کہ ان کے لئے ایک مہربان باپ کی طرح ہو''۔(١) حضرت علی ـ نے فرمایا: '' حلم ڈھانکنے والا پردہ اور عقل شمشیر براں ہے، لہٰذا اپنی اخلاقی کمی کو برد باری سے چھپاؤ اور اپنی نفسانی خواہشات کو عقل کی شمشیر سے قتل کرڈالو ''۔(٢) یعنی انسان کی اخلاقی کمی کے لئے حلم ایک پردہ ہے۔ دوسری جگہ حلم کو عزت کا بلند ترین مرتبہ(٣) عاقلوں کی سرشت ،(٤) اور قدرت کی علامت(٥) تصور کیا گیا ہے۔ کظم غیظ اور غصہ کو پینا در حقیقت تحلّم اور زحمت و کلفت کے ساتھ حلم اختیار کرنا ہے۔ اس وجہ سے کظم غیظ اہمیت کے اعتبار سے حلم سے کم درجہ رکھتا ہے، اگر چہ اپنی جگہ اہم اور قابل تعریف ہے۔ قرآن کریم کظم غیظ کو متقین کی صفت اور ایک قسم کی نیکی اور احسان جانتاہے۔ قرآن فرماتا ہے: ''اپنے پروردگار کی عفو و بخشش اورایسی بہشت کی طرف سبقت کرو جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے اور وہ ان پرہیز گاروں کے لئے آمادہ کی گئی ہے ۔(٦) وہ لوگ جو فراخی اور تنگی حالتوں میں انفاق کرتے ہیں اور اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں، اور خدا وند عالم احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے''۔ پیغمبر اکرم نے غصہ کے پینے کی فضیلت میں فرمایا ہے: ''خدا تک انسان کے پہنچنے کے محبوب ترین راستے دو گھونٹ نوش کرنا ہے،ایک غصّہ کا گھونٹ جو حلم وبردباری کے ساتھ پیاجاتا ہے اور غصّہ بر طرف ہوجاتا ہے، دوسرا مصیبت کا گھونٹ کہ جو صبر وتحمّل سے زائل ہوتا ہے ''(٧)

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج ١، ص ٤٠٧، ح ٨۔ ٢۔ نہج البلاغہ، حکمت ٤٢٤۔٣۔ کلینی، کافی ج ٨، ص ١٩، ح ٤۔

٤۔ صدوق، فقیہ، ج ٤، ص ٢٧٤، ح ٨٢٩۔٥۔ صدوق، خصال، ج ١، ص ١١٦، ح ٩٦۔

٦۔ سورئہ آل عمران، آیت ٣٣ ١ ، ١٣٤۔٧۔ کلینی، کافی، ج ٢، باب کظم غیظ، ح ٩۔

۱۴۶

حضرت امام جعفر صادق ـ نے اس سلسلہ میں فر مایا ہے: ''جو کوئی ایسے خشم وغضب کو کہ جسے وہ ظاہر کرسکتا ہے پی جائے تو قیامت کے دن خدا وند تعالیٰ اپنی رضا سے اس کے دل کو پرکردے گا ''(١)

الف۔ حلم اور کظم غیظ کے اسباب و موانع:

روایات میں علم، عقل، فقہ، تحلم، بلند ہمتی اور حلیم و برد بار افراد کی ہمنشینی کو حلم اختیار کرنے کے اسباب و علل میں ذکر کیا گیا ہے، جیسا کہ حضرت امام علی رضا ـ فرماتے ہیں: ''فقاہت کی علامتوں میں سے حلم اور سکوت ہے''۔(٢)

نیز حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''اگر تم واقعاً حلیم نہیں ہو تو حلم کا اظہار کرو کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کسی قوم کی شباہت اختیار کرے اور ان میں سے نہ ہوجائے''۔(١) اسی طرح آپ نے فرمایا: ''حلم اور صبر دونوں جڑواں ہیں اور دونوں ہی بلند ہمتی کا نتیجہ ہیں ''۔(٢) اس کے مقابل کچھ صفات ایسے ہیں جو حلم و برد باری کے موانع کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں کہ ان میں سے سفاہت ، بیوقوفی، حماقت ، دُرشت مزاجی، تند خوئی، غیض وغضب، ذلت وخواری اور ترش روئی کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔(٣)

ب۔حلم و برد باری کے فوائد:

اخروی جزا کے علاوہ آیات و روایات میں دنیوی فوائد بھی حلم و برد باری کے بیان کئے گئے ہیں۔ یہ فوائد خواہ انسان کی انسانی زندگی میں نفسانی صفات اور عملی صفات ہوں خواہ ا نسان کی اجتماعی زندگی کے مختلف ادوار میںظاہر ہوں، ان میں سب سے اہم فوائد یہ ہیں: سکون قلب، وقار، نجابت، رفق ومدارا، صبر، عفو و بخشش، خاموشی، سزادینے میںجلد بازی نہ کرنا، اور خندہ روئی فردی فائدے کے عنوان سے اور کرامت وبزرگواری، کامیابی ،صلح و آشتی، ریاست و بزرگی، لوگوں کے دلوں میں محبوبیت اور پسندیدہ وخوشگوارزندگی حلم و برد باری کے اجتماعی فوائد ہیں ۔ان میں سے بعض فوائد پر اس کے پہلے بحث ہوچکی ہے اور بعض دیگر ایک قسم کی رفتار (عمل) ہیں کہ عملی صفات کے بیان کے وقت ان میں سے بعض کا ذکر کریں گے۔

____________________

١۔کلینی، کافی، ج ٢، باب کظم غیظ، ح ٦۔ ٢۔ کلینی، کافی، ج ١، ص ٣٦، ح ٤۔٣۔ نہج البلاغہ، حکمت ٧ہ٢؛ کلینی، کافی، ج ٢، ص١١٢، ح ٦، ص ٢٠، ح ٤ اور تحف ا لعقول، ص ٦٩۔٤۔ نہج البلاغہ، حکمت ٤٦٠۔٥۔ صدوق، خصال، ج ٢، ص ٤١٦، ح ٧ ؛ مجلسی، بحار الانوار، ج ١٣، ص ٤٢١، ح ١٥ ؛ غرر الحکم، ح ٢٠٠٩ اور ٣٩٤٠ ؛نراقی، جامع السعادات، ج ١، ص ٢٧٥ اور ٢٩٥ ؛ فیض کاشانی، المحجة البیضائ، ج١٥، ص ٢٨٨، ٣٠٨۔

۱۴۷

٣۔ حیا

حیا نفسانی صفات میںایک اہم صفت ہے جو ہماری اخلاقی زندگی کے مختلف شعبوں میں بہت زیادہ اثر رکھتی ہے۔ اس تاثیر کا اہم ترین کردار خود کو محفوظ رکھنا ہے۔ '' حیا'' لغت میں شرم وندامت کے مفہوم میںہے اور اس کی ضد ''وقاحت'' اور بے حیائی ہے۔(١) علماء اخلاق کی اصطلاح میں حیا ایک قسم کا نفسانی انفعال اور انقباض ہے جو انسان میں نا پسندیدہ افعال کے انجام نہ دینے کاباعث بنتا ہے اور اس کا سر چشمہ لوگوں کی ملامت کا خوف ہے۔(٢)

آیات و روایات میں ''حیا '' کے مفہوم کے بارے میں مطالعہ کرنا بتاتا ہے کہ اس حالت کی پیدائش کا مرکز ایک آ گا ہ ناظر کے سامنے حضور کا احساس کرنا ہے، ایسا ناظر جو محترم اورگرامی قدر ہے۔ اس مفہوم کو کتاب و سنت میں مذکور حیا کے مسائل اور ابواب میں بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ مفہوم حیا کی تمام اقسام کے درمیان ایک مشترک مفہوم ہے اس وجہ سے حیا کے تین اصلی رکن ہیں: فاعل، ناظر اور فعل۔ حیا میں فاعل وہ ہے جو نفسانی کرامت و بزرگواری کا مالک ہے۔ ناظروہ ہے کہ جس کی قدرو منزلت فا عل کی نگاہ میںعظیم اور قابل احترام ہے اور فعل جو کہ حیا کے تحقق کا تیسرا رکن ہے، برا اور ناپسنددیدہ فعل ہے لہٰذا نتیجہ کے طور پر ''حیا ''''خوف '' و '' تقویٰ '' کے درمیان فرق کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ حیا میں روکنے والا محور ایک محترم اور بلند مرتبہ ناظر کے حضور کو درک کرنا اور اس کی حرمت کی حفاظت کرنا ہے، جبکہ خوف وتقویٰ میں روکنے والا محور، خدا کی قدرت کا درک کرنا اور اس کی سزا کا خوف ہے۔

قابل ذکر ہے کہ حیا کا اہم ترین کردار اور اصلی جوہر برے اعمال کے ارتکاب سے روکنا ہے، لامحالہ یہ رکاوٹ نیک اعمال کی انجام دہی کا باعث ہوگی۔ اسی طرح یہ بات قابل توجہ ہے کہ حیا مختلف شعبوںمیںکی جاتی ہے کہ اس کی بحث اپنے مقام پر آئے گی، جیسا کہ عورتوں کی حیا '' اخلاق جنسی'' میں، گھرمیں حیا کی بحث '' اخلاق خانوادہ ''میں اور دوسروں سے حیا '' اخلاق معاشرت '' میں مورد تحقیق قرار دی جائے گی۔ یہاں پر حیا سے متعلق صرف عام اور کلی مباحث ذکر کررہے ہیں۔

____________________

١۔ ابن منظور، لسان العرب، ج٨، ص ٥١ ؛ مفرادات الفاظ قرآن کریم، ص ٢٧٠ اور ابن اثیر نہایہ، ج ١، ص ٣٩١۔

٢۔ ابن مسکویہ، تہذیب الاخلاق، ص ٤١، ؛طوسی اخلاق نا صری، ص ٧٧۔

۱۴۸

الف۔ حیا کی اہمیت:

رسول خدا حیا کو انسان کی زینت شمار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ''بے حیائی کسی چیز کے ہمراہ نہیں ہوئی مگر یہ کہ اس کو نا پسند اور برا بنا دیا، اور حیا کسی چیز کے ہمراہ نہیں ہوئی مگر یہ کہ اسے اس نے آراستہ کردیا ''۔(١) حضرت علی ـ نے بھی فرمایا ہے: ''جو حیا کا لباس پہنتا ہے کوئی اس کا عیب دیکھ نہیں پاتا''۔ (٢ ) اور دوسرے بیان میں فرماتے ہیں: ''حیا اختیار کروکیونکہ حیا نجابت کی دلیل و نشا نی ہے''۔(٣) حضرت امام جعفر صادق ـ حیا کے مرتبہ کو اخلاقی مکارم میں سر فہرست قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ''مکارم اخلاق میں ہر ایک دوسرے سے مربوط اور جڑے ہوئے ہیں، خدا وندعالم ہر اس انسان کو جو ان مکارم اخلاق کا طالب ہے دیتا ہے، ممکن ہے کہ یہ مکارم ایک انسان میں ہو لیکن اس کی اولاد میں نہ ہو، بندہ میں ہو لیکن اس کے آقا میں نہ ہو (وہ مکارم یہ ہیں ) صداقت و راست گوئی، لوگوںکے ساتھ سچائی برتنا، مسکین کو بخشنا، خوبیوںکی تلافی، امانت داری، صلہ رحم، دوستوں اور پڑوسیوںکے ساتھ دوستی اور مہربانی ،مہمان نوازی اور ان سب میں سر فہرست حیا ہے۔(٤) حضرت علی ـ نے حیا کے بنیادی کردار کے بارے میں فرمایا: ''حیا تمام خوبصورتی اور نیکی تک پہنچنے کا وسیلہ ہے''۔(٥) حیا کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''جو حیا نہ رکھتا ہو اس کے پاس ایمان نہیں ہے''۔(٦) رسول اکرم کی سیرت کے بارے میں منقول ہے کہ آنحضرت جب بھی لوگوں سے بات کرتے تھے تو عرق شرم (حیا کا پسینہ ) آپ کی پیشانی پر ہوتا تھا اور کبھی ان سے آنکھیں چار نہیں کرتے تھے۔(٧)

____________________

١۔ شیخ مفید، امالی، ص ١٦٧۔ ٢۔ نہج البلاغہ، حکمت ٢٢٣ ؛ صدوق، فقیہ، ج ٤، ص ٣٩١ ح٥٨٣٤ ۔ کلینی، کافی، ج٨، ص ٢٣۔

٣۔ آ مدی، غرر الحکم، ح ٨٢ ٠ ٦۔٤۔ کلینی، کافی ج ٢، ص ٥٥ ح١۔ طوسی، امالی، ص ٣٠٨۔

٥۔ حرانی، تحف العقول ِ ،ص ٨٤۔٦۔ کلینی، کافی، ج٢، ص١٠٦۔٧۔ کافی ، ج٥ ،ص٥٦٥، ح٤١۔

۱۴۹

کبھی حیا کا منفی رخ سامنے آتا ہے اور وہ اس صورت میں کہ جب اس کا سبب حماقت، جہالت، اور نفس کی کمزوری ہو۔ اسلامی اخلاق میں ایسی شرم و حیا کی شدت کے ساتھ مذمت کی گئی ہے اور اسے اخلاقی فضیلت شمار نہیں کیا گیا ہے بلکہ انسان کے رشد و علو کے لئے رکاوٹ اور مختلف شعبوںمیں اس کے پچھڑنے کا سبب ہوتی ہے۔ روایات میں اس طرح کی شرم کو جہل و حماقت اور ضعف کی حیا کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔(١)

ب۔ حیا کے اسباب و موانع :

بعض وہ امور جو روایات میں حیا کے اسباب کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں، درج ذیل ہیں:

١۔عقل:

رسول خدا نے ایک عیسائی راہب ( شمعون بن لاوی بن یہودا) کے جواب میں کہ اس نے آپ سے عقل کے علائم وماہیت کے بارے میں سوال کیا تھا، فرمایا: ''عقل حلم کی پیدائش کا باعث ہے اور حلم سے علم، علم سے رشد، رشدسے عفاف اور پاک دامنی، عفاف سے خوداری، خوداری سے حیا، حیا سے وقار، وقار سے عمل خیر کی پابندی اور شر سے بیزاری اور شر سے تنفرسے نصیحت آمیز اطاعت حاصل ہوتی ہے۔(٢)

٢۔ایمان:

حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: '' جو حیا نہیں رکھتا وہ ایمان بھی نہیں رکھتا ''۔

اسی طرح روایات میں کچھ امور کو حیا کے موانع بے حیا ئی کے اسباب و علل کے عنوان سے پہچنوایا گیا ہے۔ ان میں سب سے اہم درج ذیل ہیں: ایک۔ حرمتوں اور پردوں کو اٹھا دینا: حضرت امام موسیٰ کاظم ـ اپنے اصحاب سے فرماتے ہیں: '' شرم وحیا کا پردہ اپنے اور اپنے بھائیوںکے درمیان سے نہ اٹھاؤ اور اس کی کچھ مقدار باقی رکھو، کیونکہ اس کا اٹھانا حیا کے اٹھانے کے مترادف ہے''۔(٣)

۳۔ لوگوںکی طرف دست سوال دراز کرنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: '' لوگوں کی طرف دست سوال دراز کرنا عزت چھین لیتا ہے اور حیا کو ختم کردیتا ہے''۔(٤)

____________________

١۔ صدوق، خصال، ج ١، ص٥٥، ح ٧٦ ؛ کلینی، کافی، ج٢، ص ١٠٦، ح ٦۔ ٢۔ حرانی، تحف العقول، ص ١٩، اسی طرح ملاحظہ ہو، ص ٢٧ ؛ صدوق، خصال، ج ٢، ص٤٠٤، ٤٢٧ ؛ کلینی، کافی، ج١، ص ١٠، ح ٢ ۔اور ج ٢، ص ٢٣٠۔ ٣۔ کافی، ج ٢، ص ٦٧٢، ح٥۔٤۔ ایضاً، ج٢، ص ١٤٨، ح ٤۔

۱۵۰

٣۔ زیادہ بات کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: ''جو زیادہ بولتا ہے وہ زیادہ خطا کرتا ہے اور جو زیادہ خطا کرتا ہے اس کی شرم و حیا کم ہو جا تی ہے اور جس کی شرم کم ہوجاتی ہے اس کی پارسائی کم ہوجاتی ہے اور جس کی پارسائی کم ہوجاتی ہے اس کا دل مردہ ہوجاتا ہے''۔(١)

٤۔ شراب خوری:

حضرت امام علی رضا ـ کی طرف منسوب ہے کہ آپ نے شراب کی حرمت کی علت کے بارے میں فرمایا: ''خداوندسبحان نے شراب حرام کی کیونکہ شراب تباہی مچاتی ہے، عقلو ں کو حقائق کی شناخت میں باطل کرتی ہے اورانسان کے چہرہ سے شرم و حیا ختم کردیتی ہے''۔(٢)

ج۔ حیا کے فوائد:

روایت میں حیا کے کثرت سے فوائد پائے جاتے ہیں خواہ وہ دنیوی ہوں یا اخروی، فردی ہوں یا اجتماعی، نفسانی ہوں یا عملی، ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

١۔ خدا کی محبت:

پیغمبر اکرم نے فرمایا: '' خدا وند سبحان، حیا دار،با شرم اور پاکدامن انسان کو دوست رکھتا ہے اور بے شرم فقیر کی بے شرمی سے نفرت کرتا ہے ''۔(٣)

٢۔عفّت اور پاکدامنی:

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''حیا کا نتیجہ عفّت اورپاکدامنی ہے''۔(٤)

٣۔ گناہوں سے پاک ہونا:

حضرت امام زین العابدین ـ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:'' چار چیزیں ایسی ہیں کہ اگر وہ کسی کے پاس ہوں تو اس کا اسلام کامل اور اس کے گناہ پاک ہوجائیں گے اور وہ اپنے رب سے ملاقات اس حال میں کرے گا، کہ خدا وند عالم اس سے را ضی و خوشنود ہوگا، جو کچھ اس نے اپنے آپ پر لوگو ں کے نفع میں قرار دیا ہے خدا کے لئے انجام دے اور لوگوں کے ساتھ اس کی زبان راست گوئی کرے اور جو کچھ خدا اور لوگوں کے نزدیک برا ہے اس سے شرم کرے اور اپنے اہل وعیال کے ساتھ خوش اخلاق ہو''۔(٥)

____________________

١۔ نہج البلاغہ، حکمت ٣٤٩۔٢۔ فقہ الرضا، ص ٢٨٢۔٣۔ طوسی، امالی، ص ٣٩، ح ٤٣۔ کلینی، کافی، ج ٢، ص ١١٢، ح٨ ؛ صدوق، فقیہ، ج٣، ص ٥٠٦، ح٤٧٧٤۔

٤۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٤٦١٢۔ ٥۔ صدوق، ، خصال، ج١، ص ٢٢٢، ح ١٥٠ ۔ مفید، امالی، ص ١٦٦، ح ١۔

۱۵۱

٤۔ رسول خدا نے شرم و حیا کے کچھ فوائد کی شرح کے ذیل میں فرمایا ہے:

''جو صفات حیا سے پیدا ہوتے ہیں یہ ہیں: نرمی، مہربانی، ظاہر اورمخفی دونوں صورتوں میں خدا کو نظر میںرکھنا، سلامتی، برائی سے دوری، خندہ روئی، جود وبخشش، لوگوںکے درمیان کامیابی اور نیک نامی، یہ ایسے فوائد ہیں جنھیں عقلمند انسان حیا سے حاصل کرتا ہے''۔(١)

اسلام کی اخلاقی کتابوں میں ''وقاحت '' اور ''بے شرمی'' سے متعلق بہت سے بیانات ہیںکہ ہم اختصار کی خاطر صرف ایک روایت پر اکتفا کرتے ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق ـ اپنے شاگرد ''مفضل '' سے فرماتے ہیں: ''اے مفضل! اگرحیا نہ ہوتی تو انسان کبھی مہمان قبو ل نہیں کرتا، اپنے وعدہ کو وفا نہیں کرتا، لوگوں کی ضرورتوں کو پورا نہ کرتا، نیکیوں سے دور ہو تا اور برائیوں کا ارتکاب کرتا۔ بہت سے واجب اور لازم امور حیا کی وجہ سے انجام دئے جاتے ہیں، بہت سے لوگ اگرحیا نہ کرتے اور شرمسار نہ ہوتے تو والدین کے حقوق کی رعایت نہیں کرتے، کوئی صلہ رحمی نہ کرتا، کوئی امانت صحیح وسالم واپس نہیں کرتااور فحشاو منکر سے باز نہیں آتا''۔(٢)

د۔حیا کے مقامات :

بیان کیا جاچکا ہے کہ ''حیا'' ناظر محترم کے حضوربرے اعمال انجام دینے سے شرم کرنا ہے۔ اس بنا پر پہلے: اسلام کی اخلاقی کتابوں میں خدا، اس کی طرف سے نظارت کرنے والے، اس کے نمایندے، انسان اور دوسروں کی انسانی اور الہی حقیقت کا ذکر ایک ایسے ناظر کے عنوان سے ہوا ہے کہ جن سے شرم وحیا کرنی چاہیے۔(٣)

دوسرے: حیا کے لئے ناپسندیدہ اور امور ہیں اور نیکیوں کی انجام دہی میں شرم و حیا کبھی ممدوح نہیں ہے لیکن اس حد و مرز کی رعایت بہت سے افراد کی طرف سے نہیں ہوتی ہے، اس کا سبب کبھی جہالت ہے اور کبھی لاپرواہی۔ بہت سی روایات میں بعض موقع پر حیا کرنے سے ممانعت کی گئی ہے معلوم ہوتا ہے کہ حیا کے مفہوم میں پہلے بیان کئے گئے ضابطہ و قانون کے باوجود یہ تاکید اس وجہ سے ہے کہ انسان ان موارد کی نسبت ایک طرح علمی شبہہ رکھتا

____________________

١۔ حرانی، تحف العقول، ص ٢٠۔٢۔ مجلسی، بحار ج ٣، ص ٨١۔

٣۔ صدوق، عیون اخبار الرضا ، ج ٢، ص٤٥، ح ١٦٢ ؛ تفسیر قمی، ج ١، ص ٣٠٤ ؛ کراجکی، کنز الفؤائد، ج ٢، ص ١٨٢ ؛ طوسی، امالی، ص ٢١٠۔

۱۵۲

ہے اور ایک حد تک ان موارد میں حیا کرنے کی تائید کے لئے توجیہات گڑھنے کی کوشش کرتا ہے، جب کہ اس کے خیالات و تصورات باطل ہیں۔ وہ بعض موارد اور مقامات جہاں حیا نہیں کرنی چاہیے، درج ذیل ہیں:

١۔ حق بات، حق عمل اور حق کی درخواست میں حیا کرنا: پیغمبر اکرم نے فرمایا: '' کوئی عمل بھی ریا اور خود نمائی کے عنوان سے انجام نہ دو اور اسے شرم و حیا کی وجہ سے ترک نہ کرو ''۔(١)

٢۔تحصیل علم سے حیاکرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' کوئی شخص جو وہ نہیں جانتا ہے اس کے سیکھنے میں شرم نہ کرے''۔(٢)

٣۔ حلال درآمد کے حصول میں حیا کرنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''اگر کوئی مال حلال طلب کرنے میں حیا نہ کرے تو اس کے مخارج آسان ہوجائیں گے اور خدا اس کے اہل و عیال کو اپنی نعمت سے فیضیاب کرے گا''۔(٣)

٤۔ مہمانوںکی خدمت کرنے سے حیا کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' تین چیزیں ایسی ہیں جن سے شرم نہیں کرنی چا ہیے، منجملہ ان کے انہیں میں مہمانوں کی خدمت کرناہے''۔(٤)

٥۔دوسروں کا احترام کرنے سے حیا کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: ''تین چیزوں سے شرم نہیں کرنی چا ہیے: منجملہ ان کے اپنی جگہ سے باپ اور استاد کی تعظیم کے لئے اٹھنا ہے''۔(٥)

٦۔ نہ جاننے کے اعتراف سے حیا کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' اگر کسی سے سوال کریں اور وہ نہیں جانتا تو اسے یہ کہنے میں کہ ''میں نہیں جانتا'' شرم نہیں کرنی چاہیے''۔(٦)

____________________

١۔ حرانی، تحف العقول، ص ٤٧، ؛ صدوق، امالی، ص ٩٩ ٣ ، ح١٢، ؛ کلینی، کافی، ج٢، ص ١١ ١، ح ٢، اور ج ٥، ص ٥٦٨، ح ٥٣ ۔ ٢۔ نہج البلاغہ، حکمت ٨٢ ؛ حرانی، تحف العقول، ٣١٣۔٣۔ حرانی، تحف العقول، ص٥٩ ؛ صدوق، فقیہ ،ج ٤، ص ٤١٠، ح ٥٨٩٠۔ ٤۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٤٦٦٦۔٥۔ غرر الحکم۔

٦۔ نہج البلاغہ، حکمت، ٨٢ ؛ صدوق، خصال، ج ١، ص ٣١٥، ح ٩٥۔

۱۵۳

٧۔ خداوند عالم سے درخوست کرنے میں حیا کرنا:

امام جعفر صادق ـنے فرمایا: ''کوئی چیز خدا کے نزدیک اس بات سے زیادہ محبوب نہیں ہے کہ اس سے کسی چیز کا سوال کیا جائے، لہٰذا تم میں سے کسی کو رحمت خدا وندی کا سوال کرنے سے شرم نہیں کرنی چاہیے، اگر چہ اس کا سوال جوتے کے ایک فیتہ کے متعلق ہو ''۔(١)

٨۔ معمولی بخشش کرنے سے حیا کرنا:

حضرت علی ـ نے فرمایا: ''معمولی بخشش کرنے سے شرم نہ کروکہ اس سے محروم کرنا اس سے بھی کمتر ہے۔''(٢)

٩۔اہل و عیال کی خدمت کرنے سے حیا کرنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے مدینہ کے ایک انسان کو دیکھا کہ اس نے اپنے اہل و عیال کے لئے کوئی چیز خریدی ہے اور اپنے ہمراہ لئے جا رہا ہے، جب اس انسان نے امام کو دیکھا تو شرمندہ ہوگیا امام نے فرمایا: ''یہ تم نے خود خریدا ہے اور اپنے اہل و عیال کے لئے لے جا رہے ہو ؟ خدا کی قسم، اگر اہل مدینہ نہ ہوتے (کہ ملامت اور نکتہ چینی کریں) تو میں بھی اس بات کو دوست رکھتا کہ کچھ خرید کر اپنے اہل و عیال کے لئے لے جائوں''۔(٣)

٤۔ عفّت

نفسانی صفات میںایک دوسر ی روکنے والی صفت عفّت اور پاکدامنی ہے۔ '' عفّت '' لغت میں نا پسند اور قبیح امر کے انجام دینے سے اجتناب کرنے کے معنی میں ہے۔(٤) علم اخلاق کی اصطلاح میں ''عفت'' نام ہے اس نفسانی صفت کا جو انسان پر شہوت کے غلبہ اور تسلّط سے روکتی ہے۔(٥) شہوت سے مراد اس کا عام مفہوم ہے کہ جو شکم وخوراک کی شہوت، جنسی شہوت، بات کرنے کی شہوت اور نظر کرنے کی شہوت اور تمام غریزوں (شہوتوں) کو شامل ہوتی ہے، حقیقت عفّت یہ ہے کہ شہوتوںاورغریزوں سے استفادہ کی کیفیت میں ہمیشہ شہوتوں کی جگہ عقل و شرع کا غلبہ اور تسّلط ہو۔ اس طرح شہوتوں سے منظّم ومعیّن عقلی وشرعی معیاروں کے مطابق بہرہ مند ہونے میں افراط و تفریط نہیں ہوگی۔

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج٤، ص ٢٠ ح ٤۔٢۔ نہج البلاغہ، حکمت، ٦٧۔٣۔ کلینی، کافی، ج٢، ص١٢٣، ح١٠۔٤۔ لسان العرب، ج ٩، ص ٢٥٣ ،٢٥٤ ؛ جوہری ،صحاح اللغة، ج ٤، ص ١٤٠٥، ١٤٠٦ ؛ نہایہ، ج ٣، ص ٢٦٤۔٥۔ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ قرآن ص ٣٥١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ١٥ ۔

۱۵۴

الف۔ عفّت کے اقسام:

عفّت کے لئے بیان شدہ عام مفہوم کے مطابق عفّت کے مختلف ابعاد وانواع پائے جاتے ہیں کہ ان میں سب سے اہم درج ذیل ہیں:

١۔ عفّت شکم:

اہم ترین شہوتوںمیں سے ایک اہم کھانے کی شہوت و خواہش ہے۔ کھانے پینے کے غریزہ سے معقول ومشروع (جائز ) استفادہ کو عفّت شکم کہا جاتا ہے جیسا کہ اس عفّت کے متعلق قرآن میں اس آیت کی طرف اشارہ کیاجا سکتا ہے کہ فرماتا ہے: ''تم میں جو شخص مالداراور تونگر ہے وہ (یتیموں کا مال لینے سے) پرہیز کرے اور جو محتاج اور تہی دست ہے تو اسے عرف کے مطابق ( بقدر مناسب) کھا نا چاہیے''۔(١) اس عفّت کی تفصیلی بحث اقتصادی اخلاق میںکی جاتی ہے۔

٢۔ دامن کی عفت: جنسی غریزہ قوی ترین شہوتوں میں سے ایک ہے اسے جائز ومشروع استعمال میں محدود کرنا اور محرمات کی حد تک پہونچنے سے روکنا ''عفّت دامن '' یا پاکدامنی کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ اسی معنی میں عفّت کا استعمال درج ذیل آیت میں ہوا ہے: ''جن لوگوںمیں نکاح کرنے کی استطاعت نہیں ہے انھیں چاہیے کہ پاکدامنی اور عفّت سے کام لیں یہاں تک کہ خدا انھیںاپنے فضل سے بے نیاز کردے ''۔(٢)

اس عفّت کی بحث تفصیلی طور پراخلاق جنسی میں بیان کی جائے گی ۔اگر چہ اپنے آپ کو شہوتوںکے مقابل بچانا شکم اور دامن کی شہوت میں منحصر نہیں ہے، بلکہ تمام شہوتوں کو شامل ہے لیکن چونکہ یہ دونوں ان سب کی رئیس ہیں اور اخلاق کی مشہور کتابوں میں صرف انھیںدو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے حتیٰ بعض علماء نے ان دو کو عفّت کی تعریف میں بھی شامل کیا ہے،(٣) لہٰذا انھیں دو قسموں کے ذکر پر اکتفا کی جاتی ہے۔ دوسری طرف ان دو قسموں میں سے ہر ایک، ایک خاص عنوان سے مربوط ہے لہٰذا ہر ایک کی اپنے سے متعلق عنوان میں مفصل بحث کی جائے گی، یہا ں پر ان کے بعض کلی اور مشترک احکام کا ذکر کررہے ہیں۔

____________________

١۔ سورئہ نسائ، آیت ٦، اسیطرح سورئہ بقرہ، آیت ٢٧٣ ملاحظہ ہو۔

٢۔ سورئہ نور، آیت ٣٣؛ اسی طرح ملاحظہ ہو: آیت ٦٠۔

٣۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص١٥۔

۱۵۵

ب۔عفّت کی اہمیت:

حضرت علی ـ نے فرمایا: '' سب سے افضل عبادت عفّت ہے '' ۔(١) اور حضرت امام محمد باقر ـ سے منقول ہے: ''خدا کے نزدیک بطن اور دامن (شرمگاہ) کی عفّت سے افضل کوئی عبادت نہیں ہے ''۔(٢) اور جب کسی نے آپ سے عرض کیا کہ میں نیک اعمال انجام دینے میں ضعیف اور کمزور ہوں اور کثرت سے نماز نہیں پڑھ سکتا اور زیادہ روزہ نہیں رکھ سکتا، لیکن امید کرتا ہوںکہ صرف مال حلال کھاؤں اور حلال طریقہ سے نکاح کروں تو حضرت امام محمد باقر ـ نے فرمایا: '' عفّت بطن ودامن سے افضل کون سا جہاد ہے ؟''(٣) رسول خدا اپنی امت کے سلسلہ میں بے عفتی اور ناپاکی کے بارے میںاپنی پریشانی کا اظہار یوں کرتے ہیں: ''میں اپنے بعد اپنی امت کے لئے تین چیز کے بارے میں زیادہ پریشان ہوں معرفت کے بعد گمراہی، گمراہ کن فتنے اور شہوت بطن ودامن''۔(٤)

ایک دوسرے بیان میں فرماتے ہیں: ''میری امت کے جہنم میں جانے کا زیادہ سبب شہوت شکم ودامن کی پیروی کرناہے'' ۔(٥)

ج۔ عفّت کے اسباب:

شکم اور دامن کی عفّت میں سے ہرایک کے پیدا ہونے کے اسباب اقتصادی اور جنسی اخلاق سے مربوط بحث اور اس کے مانند دوسری بحثوں میں بیان کئے جاتے ہیں۔ لیکن روایت میں عام عوامل واسباب جیسے عقل، ایمان، تقویٰ حیا و مروت کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ اختصار کی رعایت اور ایک حد تک ان کی علت کے واضح ہونے کی وجہ سے ان میں سے ہر ایک کے ذکر سے صرف نظر کرتے ہیں۔

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج٢، ص٧٩ ،ح ٣۔

٢۔ جامع السعادات، ص ٨٠، ح ٨ ۔ ص ٧٩، ح ١۔

٣۔ جامع السعادات، ص ٧٩، ح ٤ ۔

٤۔ جامع السعادات، ح ٦ ۔

٥۔ جامع السعادات، ص ٨٠، ح ٧۔

۱۵۶

د۔ عفّت کے موانع:

عفّت کے عام موانع میں ''شرارت '' اور ''خمود '' ( سستی اور سہل انگاری ) ہے، ان دونوں کی مختصرتوضیح درج ذیل ہے:

١۔ شرارت:

شرارت سے مراد اپنے عام مفہوم کے لحاظ سے شہوانی قوتوں کی پیروی کرنا ہے اس چیز میں جو وہ طلب کرتی ہیں،(١) خواہ وہ شہوت شکم ہو یا شہوت مال دوستی یا اس کے مانند کسی دوسری چیز کی شہوت ۔ شرارت یعنی جنسی لذتوں میں شدید حرص کا ہونا اور ان میں زیادتی کا پایا جانا۔(٢) حضرت علی ـ نے شرارت کی مذمت میں فرمایا ہے: '' شرارت تمام عیوب کی رئیس ہے''۔(٣) حضرت امام جعفر صادق ـ کا بیان اس سلسلہ میں یہ ہے: کہیںایسا نہ ہو کہ جو کچھ خدا نے تم پر حرام کیا ہے اس کا تمہارا نفس حریص ہوجائے کیونکہ جو شخص بھی دنیا میں حرام خدا وندی کا مرتکب ہوگا خداوند سبحان اسے جنت سے اور اس کی نعمتوں اور لذتوں سے محروم کردے گا ''۔(٤)

٢۔ خمود:

''شرارت'' کے مقابل ہے یعنی ضروری خوراک کی فراہمی میں کاہلی اور کوتاہی کرنا اور جنسی غریزہ سے ضروری استفادہ کرنے میں سستی اور کوتاہی کرنا اس طرح سے کہ صحت و سلامتی، خاندان کی تباہی اور نسل کے منقطع ہونے کا سبب بن جائے ۔ یہ واضح ہے کہ یہ حالت غریزوں اور شہوتوں سے استفادہ میں تفریط اور کوتاہی کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔(٥) ''خمود'' حکمت خلقت کے مخالف اور نسل انسان کے استمرار و دوام نیز اس کی بقا اور مصلحت کے مخالف ہے، اس کے علاوہ اسلامی اخلاق میں غرائز وشہوات سے جائز استفادہ کی جوکثرت سے تاکید پائی جاتی ہے اور جو کچھ رہبانیت اور دنیا سے کنارہ کشی کی مذمت کے سلسلہ میں بیان ہوا ہے وہ سب '' خمود '' کی قباحت کو بیان کرتے ہیں ۔اس امر کی تفصیلی بحث '' اخلاق جنسی '' میں ہوگی۔

____________________

١۔ ابن منظور، لسان العرب، ج ١٣، ص ٥٠٦۔٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ٤۔ ٣۔ ؛ کلینی، کافی، ج٨، ص ٩ ١، ح٤ ؛ نہج البلاغہ، حکمت، ٣٧١۔٤۔ کلینی، کافی ، ج٨، ص ٤، ح ١۔٥۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ١٣۔

۱۵۷

ہ۔ عفّت کے فوائد :

روایات میں عفّت کے متعدد دنیوی اور اخروی فوائد بیان کئے گئے ہیں جیسے پستیوں سے نفس کی حفاظت کرنا، شہوتوں کو کمزور بنانا اور عیوب کا پوشیدہ ہونا کہ یہاں اختصار کے پیش نظررسول خدا کے ایک کلام کے ذکر پر اکتفا کرتے ہوئے اس بحث کو ختم کررہے ہیں۔

عفّت کے علائم یہ ہیں: جو کچھ ہے اس پر راضی ہونا، اپنے کو معمولی اور چھوٹا سمجھنا، نیکیوں سے استفادہ کرنا، آسائش اور راحت میں، اپنے ما تحتوں اور مسکینوں کی دل جوئی، تواضع، یا د آوری ( غفلت کے مقابل )، فکر، جو د و بخشش اور سخاوت کرنا۔(١)

٥۔ صبر

نفسانی صفات میں سب سے عام اور اہم روکنے والی صفت ''صبر '' ہے۔ ''صبر '' کے معنی عربی لغت میں حبس کرنے اور دباؤ میں رکھنے کے ہیں۔(٢) اور بعض نے اسے بے تابی اور بے قراری سے نفس کو باز رکھنے سے تعبیر کیا ہے۔(٣) اخلاقی اصطلاح میں صبرنام ہے نفس کو اس چیز کے انجام دینے اور آمادہ کرنے جس میں عقل و شرع کا اقتضاء ہونیز اس چیز سے روکنا جسے عقل وشرع منع کرتے ہیں۔(٤) مذکورہ تعریفوں کے پیش نظر ''صبر '' ایک ایسی عام اور روکنے والی نفسانی صفت ہے کہ جس میں دو اہم جہت پائے جاتے ہیں : صبر ایک طرف انسان کی غریزی اور نفسانی خواہش اور میلان کوحبس اور دائرئہ عقل وشرع میںمحدود کرتا ہے۔ دوسری طرف نفس کو عقل وشرع کے مقابل ذمہ داری سے فرار اختیار کرنے سے روکتا ہے اور اسے اس بات پر ابھارتا ہے کہ اپنے کو فرائض الہی کی پابندی کے لئے زحمت اٹھانے اور دشواریوں کا سامنا کرنے کے لئے آمادہ کرے، البتہ اگر یہ حالت انسان میں سہولت و آسانی سے پیدا ہوجائے تو اسے ''صبر'' اور اگر انسان زحمت ومشقت میں خود کو مبتلا کرکے اس پر آمادہ کرے تو اسے '' تصبر '' (زبردستی صبر کرنا )کہتے ہیں۔

____________________

١۔ حرانی، تحف العقول، ص٢٠۔

٢۔ زبیدی، تاج العروس، ج ٧، ص ٧١ ؛ راغب اصفہانی، مفردات، ٤٧٤ ؛ ابن منظور، لسان العرب، ج ٤، ص ٤٣٨۔

٣۔ جوہری، صحاح اللغة، ج ٢، ص ٧٠٦۔ طریحی، مجمع البحرین، ج ٢، ص ١٠٠٤۔

٤۔ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ قرآن، ص ٤٧٤۔

۱۵۸

الف۔ صبر کی قسمیں:

صبر کے لئے جو عام اور وسیع مفہوم بیان کیا گیا ہے اس کے مطابق علماء اخلاق نے متعدد جہات سے صبر کے لئے مختلف اقسام و انواع بیان کی ہیں کہ ان میں سے اہم ترین اقسام کو اختصار کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے۔

١۔ مفہوم کے لحاظ سے:

مذکورہ تعریفوں کے مطابق کبھی صبر سے مراد نفسانی جاذبوں اور دافعوں میں ہر قسم کی محدودیت کا ایجاد کرنا ہے کہ جو ایک عام مفہوم ہے اور کبھی اس سے مرادناگوار امور کی نسبت عدم رضایت اور بے تابی کے اظہار سے نفس کو روکنا ہے۔ اس لحاظ سے صبر کے دو مفہوم ہیں کہ کبھی خاص مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔

٢۔ موضوع کے لحاظ سے:

صبر اپنے عام مفہوم میں موضوع کے اعتبار سے متعدد انواع کا حامل ہے۔

کبھی صبر سختیوں اور مصیبتوںپر ہوتا ہے جو کہ ان سختیوں اور مصیبتوں کے مقابل مضطرب وپریشان نہ ہونا اور سعہ صدر کی حفاظت ہے، اسے '' مکروہات پر صبر '' کہتے ہیں اور اس کے مقابل ''جزع '' اور بے قرار ی ہے صبر کی رائج قسم یہی ہے۔ جنگ کی دشواریوں پر صبر کرنا '' شجاعت'' ہے اور اس کے مقابل '' جبن '' بزدلی اور خوف ہے۔ اور کبھی صبر غیض و غضب کی سرکشی اور طغیانی کے مقابل ہے کہ اسے '' حلم '' اور '' کظم غیظ '' کہتے ہیں۔ کبھی صبر عبادت کے انجام دینے میں ہے کہ اس کے مقابل ''فسق '' ہے جو شرعی عبادت کی پابندی نہ کرنے کے مفہوم میں ہے۔ اور کبھی صبر شکم کی شہوت اور جنسی غریزہ کے مقابل ہے کہ جسے '' عفّت ''کہتے ہیں۔ اور دنیا طلبی اور زیادہ طلبی کے مقابل ہے جو کہ ''زہد '' ہے اور اس کے مقابل '' حرص '' ہے۔

۱۵۹

اور کبھی صبر اسرار کے کتمان پر ہوتا ہے کہ جسے راز داری کہتے ہیں۔(١)

٣۔ حکم کے لحاظ سے:

صبر اپنے تکلیفی حکم کے اعتبارسے پانچ قسم میں تقسیم ہوتاہے: واجب صبرجو کہ حرام شہوات ومیلانات کے مقابل ہے۔ اور مستحب صبر مستحبات کے انجام دینے پر ہونے والی دشواریوں کے مقابل ہے۔ حرام صبر جو بعض اذیت و آزار پر ہے جیسے انسان کے مال، جان اور ناموس پر دوسروں کے تجاوز کرنے پر صبر کرنا۔ صبر ناگوار اور مکروہ امور کے مقابل جیسے عاشور کے دن روزہ رکھنے کی سختی پر صبر کہ جو مکروہ ہے ان موارد کے علاوہ مباح ہے، لہٰذا ہمیشہ صبر پسندیدہ اور محبوب شیٔ نہیں ہے، بلکہ کبھی حرام اور کبھی مکروہ بھی ہوجاتا ہے۔(٢)

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٣، ص٢٨٠، ٢٨١؛ رسول اکرم نے ایک حدیث میں صبر کی تین قسم بیان کی ہے: مصیبت کے وقت صبر، طاعت و بندگی پر صبر، اور معصیت و گناہ پر صبر۔ کلینی، اصو ل کافی، ج ٢، ص ٩١، ح ١٥۔ اسی طرح بعض علماء اخلاق نے صبر کو اس وجہ سے دو قسم پر تقسیم کیا ہے متاع دنیا (سراء ) پر صبر اور بلا (ضراء ) پر صبر۔ ملاحظہ ہو نراقی، جامع السعادات، ج٣، ص ٢٩٣، ٢٩٤۔

٢۔ نراقی، جامع السعادات، ج٣، ص ٢٨٥۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

۵_اسلام كى سياست ،رشتہ داروں سے صلہ رحمى اور ان كى موجودہ مشكلات كو دور كرنے كے استحكام پر مشتمل ہے_

ان الله يأمر بالعدل والاحسان

۶_خداوندعالم،عدالت كى رعايت كے علاوہ انسان كے معاشرتى تعلقات پر روح احسان كى حاكميت كو چاہتاہے _

ان الله يأمربالعدل والاحسان

۷_عدالت كى رعايت،لوگوں پراحسان اور رشتہ داروں پر بخشش كرنے سے اہم اور ترجيح ركھتى ہے _

ان اللّه يأمر بالعدل والاحسان وايتاى ذى القربي

احسان اور رشتہ داروں پربخشش سے پہلے عدل كا ذكر ممكن ہے تقدم رتبى كا فائدہ دے رہاہو كيوں كہ عدالت كى رعايت ايك عمومى ذمہ دارى اور ايسى چيز ہے جس سے صرف نظر نہيں كيا جاسكتا اور اس كى رعايت كے بغير احسان اور بخشش كى كوئي قدر وقيمت نہيں ہوگى _

۸_خداوند عالم نے قبيح،ناپسنديدہ اعمال اور ظلم وسركشى سے منع كيا ہے _وينهى عن الفحشا والمنكر والبغي

۹_فحشا وقبيح اور ظلم كے ارتكاب سے نہى ،قران مجيد كے اہم ترين انذار اور نواہى ميں سے ہے _

ونزلنا عليك الكتاب ان الله ينهى عن الفحشا والمنكر والبغي

۱۰_اسلام نے انسانوں كے اجتماعى تعلقات كو سالم قرار دينے اور اسے محكم نيز معاشرہ كو برائي اور فحشا اور ظلم وسركشى سے پاك كرنے كے ليے اہتمام كيا ہے_ان الله يامر بالعدل والاحسان وايتاى ذى القربى و ينهى عن الفحشا ء والمنكر والبغي

۱۱_معاشرہ ميں عدالت كى رعايت نہ كرنا اور رشتہ داروں پر احسان نہ كرنا اور قطع تعلق كرنا،معاشرہ ميں برائي وفحشا ء اور ظلم وسركشى كے رواج پانے كا سبب ہے_ان الله يامر بالعدل والاحسان وايتاى ذى القربى وينهى عن الفحشا ء والمنكر والبغي

مذكورہ تفسير كا استفادہ ، عدل واحسان اور رشتہ داروں پر انفاق كا فحشا ء ومنكر كے با ہمى تقابل سے ہوتا ہے اگر معاشرہ ميں عدالت ہو تو برائي و فحشا ء كے پھيلانے كا سبب ختم ہو جاتا ہے _

۱۲_دوسروں كے حقوق پر ظلم وتجاوز ، دوسرى برائيوں كى

۵۶۱

نسبت بہت زيادہ قبيح ہے _وينهى عن الفحشا ء والمنكر والبغي

مذكورہ مطلب اس نكتہ كو ملحوظ خاطر ركھتے ہوئے ہے كہ با وجو د اس كے كہ ''بغى '' خود منكرات كا ايك مصداق ہے ليكن خصوصى طور پر اس كا جدا ذكر ہوا ہے _

۱۳_تمام كمالات ونقائص كى وضاحت ،قران مجيد كى ذمہ دارى ہے _

تبيانا ً لكل شى ء ان اللّه يأمر بالعدل والاحسان وينهى عن الفحشا ء والمنكر والبغي

قران مجيد كو''تبياناًلكل شى ئ'' سے متصف كرنے كے بعد عدالت كى رعايت غيرہ كا حكم اور فحشا ء سے انذار ممكن ہے مذكورہ مطلب كو بيان كر رہا ہو يعنى قران تمام كمالات ونقائص كو بيان كرنے والا ہے _

۱۴_لوگ،معاشرہ ميں بے عدالتى ،فحشاء وبرائي ،ظلم ،فقر اور لوگو ں كى اقتصادى ضروريات جيسے مسائل كى نسبت ذمہ دار ہيں _انّ اللّه يأمر بالعدل والاحسان وايتاى ذى القربى وينهى عن الفحشا ء والمنكر والبغى يعظكم

۱۵_خداوند عالم كا امر ونہى لوگوں كو وعظ كرنے كے لئے ہے _انّ اللّه يأمر بالعدل والاحسان وينهى عن الفحشا ء والمنكر والبغى يعظكم

۱۶_عدالت كى رعايت ،احسان ، رشتہ داروں كے حقوق كى ادائيگى ،فحشاء وقبيح اور ظالمانہ اعمال سے دورى خداوند عالم كا انسان كو ايك وعظ ونصيحت ہے _ان الله يامربالعدل والاحسان وينهى عن الفحشا ء والمنكر والبغى يعظكم

۱۷_خداوند عالم كے وعظ ونصيحت انسانوں كى عقل وفطرت كو بيدار كرنے كے ليے ہيں _

انّ اللّه يأمر بالعدل والاحسان وينهى عن الفحشا ء والمنكر والبغى يعظكم لعلكم تذّكرون

''تذّكرون مادہ''سے ''تذّكر'' كا معنى كسى فراموش شدہ چيز كى يادآورى ہو اس بناء پر مواعظ الہى كا تذكر ايسے امور كى بارے ميں وعظ ونصيحت ہے جن تك انسان تعليم وحى كے بغير نہيں پہنچ سكتا اور در حقيقت فطرتى وعقل چيز ہے ليكن انسانوں نے اس كو فراموش كرديا ہے وحى كے ذريعہ ان كو اس كى يادد ہانى كرائي جاتى ہے_

۱۸_ عدل و احسان اور رشتہ داروں پر انفاق ، انسانى فطرت كے ميلانات ميں سے ہے_

يا مر بالعدل والاحسن وا يتاى ذى القربى لعلّكم تذكرون

مذكورہ تفسير اس بناء پر ہے كہ خداوند عالم نے عدالت و غيرہ كے امر كو انسانوں كے تذكر كى خاطر مواعظہ قرار ديا ہے او رلفظ ''تذكر'' ميں يہ

۵۶۲

معنى مضمر ہے كہ مذكورہ كمالات كى طرف ميلان كى اصل تمام انسانوں ميں موجود ہے اور غفلت كى صورت ميں ياد دہانى كى ضرورت ہوتى ہے _

۱۹_ فحشاء ، برائي اور ظلم سے بيزاري، انسانوں كى سرشت ميں مضمر ہے_و ينهى عن لعلّكم تذكّرون

''تذكر'' ايسى چيز كى ياد آورى ہے كہ جس كے بارے ميں انسان پہلے سے ايك قسم كى آگاہى ركھتا ہو اور اس كى طرف مائل ہو_

۲۰_ انسان ، غفلت اور اپنى فطرتى ميلانات اور عقلى معلومات سے روگردانى كے خطرہ سے دوچار اور تذكراور بيدارى كا محتاج ہے_انّ الله يا مر ...وينهى ...يعظكم لعلكّم تذكرّون

۲۱_ لوگوں كى بيدارى اور ہوشيارى كے ليے موعظہ ، قرآن كا ايك تربيتى و ہدايتى طريقہ ہے_

۲۲_''قال على عليه‌السلام :فى قوله تعالى ''ان الله يا مر بالعدل و الا حسان ''العدل الانصاف والا حسان: التفيضل (۱)

حضرت عليعليه‌السلام سے خداوند عالم كے اس قول''انّ الله يا مربالعدل والاحسان'' كے بارے ميں روايت نقل ہوئي ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا :عدل كا معنى انصاف اور احسان كے معنى تفضّل ہے_

احسان :احسان كا مفہوم ۲۲;احسان كو ترك كرنے كے آثار ۱۱; احسان كى اہميت۱،۲،۳،۴،۶،۷،۱۶

اقدار:اقدرا كو بيان كرنا ۱۳

اسلام:اسلام كى تعلميات ۵

الله تعالي:الله تعالى كى تاكيد يں ۶; الله تعالى كى نواہى كا فلسفہ ۱۵; الله تعالى كے اوامر ۱; الله تعالى كے اوامر كا فلسفہ ۱۵; الله تعالى كے مواعظ۱۶; الله تعالى كے نواہى ۸،۹;الله تعالى كے وعظ كا فلسفہ۱۷

انسان:انسان كى سماجى ذمہ داري۱۴; انسان كى عدالت خواہي۱۸;انسان كى غفلت ۲۰; انسان كى فطريات ۱۸،۱۹; انسان كى معنوى ضروريات ۲۰; انسانون كو موعظہ كرنے كى اہميت ۱۵

تجاوز :تجاوز سے اجتناب ۱۰; تجاوز سے نہى ۸; تجاوز كا زمينہ ۱۱;تجاوز كا ناپسند ہونا۱۲

____________________

۱)نہج البلاغہ صبحى صالح، كلمات قصار ، كلمہ ۲۳۱; بحار الانوار ،ج۷۲، ص۲۹، ج۲۱_

۵۶۳

تربيت:تربيت كا روش ۲۱

رشتہ درا:رشتہ داروں پر احسان ۱،۳،۱۸; رشتہ داروں كو ہبہ كرنا ۱،۳،۷،۱۸

رشتہ دارى :رشتہ دارى كے آثار ۴; رشتہ دارى كے حقوق كا زمينہ۴; رشتہ دارى كى رعايت كرنے كى اہميت ۱۶;رشتہ دا رى كے روابط كى اہميت۵

روابط:سالم سماجى روابط كى اہميت۱۰; سماجى روابط ميں احسان ۶; سماجى روابط ميں عدالت۶

روايت:۲۲

صلہ رحم:صلہ رحم كى اہميت۲،۵; قطع رحم كرنے كے آثار ۱۱

ظلم:ظلم سے اجتناب ۱۰; ظلم سے اجتناب كى اہميت ۱۶; ظلم سے نفرت ۱۹; ظلم سے نہي۸،۹; ظلم كا زمينہ ۱۱

عدالت:عدالت كا مفہوم۲۲; عدالت كى اہميت ۱،۲ ،۶، ۷،۱۶

عمل:ناپسند عمل سے اجتناب كى اہميت ۱۶; ناپسندعمل سے نفرت ۱۹; ناپسند عمل سے نہي۸،۹

فحشاء:فحشاء سے اجتناب ۱۰; فحشاء سے اجتناب كى اہميت ۱۶; فحشاء سے نفرت ۱۹; فحشاء سے نہي۸،۹; فحشاء كا زمينہ ۱۱

فطرت:فطرت سے اعراض ۲۰; فطرت كو متنبّہ كرنے كى اہميت۱۷

قرآن:قرآن مجيد كا كردار ۱۳; قرآن مجيد كى مہم ترين تعليمات ۲،۱۳; قرآن مجيد كى ہدايت گرى ۲; قرآن مجيد كے انذار۹

گناہ:گناہ سے اجتناب ۱۰

گھر:گھريلو مشكلات دور كرنے كى اہميت۵

لوگ:لوگوں كى ہوشيارى كى اہميت ۲۱

مسؤليت:مسؤليت كا زمينہ۲

مشكلات:سماجى مشكلات دور كرنے كى اہميت ۱۴

معاشرہ:معاشرہ كى اہميت۱۰،۱۴

۵۶۴

موعظہ:موعظہ كا كردار۲۱

ہبہ:ہبہ كى اہميت۱،۳

ہدايت:ہدايت كى روش۲۱

آیت ۹۱

( وَأَوْفُواْ بِعَهْدِ اللّهِ إِذَا عَاهَدتُّمْ وَلاَ تَنقُضُواْ الأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلاً إِنَّ اللّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ )

اور جب كوئي عہد كرو تو اللہ كے عہد كو پورا كرو اور اپنى قسموں كو ان كے استحكام كے بعد ہرگز مت توڑو جب كہ تم اللہ كو كفيل اور نگراں بناچكے ہو كہ يقينا اللہ تمھارے افعال كو خوب جانتا ہے _

۱_خداوند عالم سے باندھے گئے پيمان و عہدوں كى پابندى انسان كے ليے ضرورى ہے_وا وفوا بعهد الله إذا عهد تم

۲_ خداوند عالم كے ساتھ خداوند عالم كا پيمان باندھنا ايك مشروط اور دين ميں قابل قبول عمل ہے_

وا وفو بعهد الله إذا عهد تّم

۳_ خدا كى محكم قسم كھا نے كے بعد اسے توڑنا حرام ہے_ولا تنقضوا لا يمن بعد توكيدها

۴_ خداوند عالم كى قسم كھانا جائز ہے_ولا تنقضوا الا يمن بعد توكيدها

۵_ قسم پر متوجہ اور سنجيدہ ہونا اس كے وقوع اور ترتيب اثر كى شرط ہے_ولا تنقضوا الا يمن بعد توكيدها

۶_ انسان ، خداوند عالم كے ساتھ با ندھے گئے پيمان اور عہدوں كو توڑنے كے خطرہ سے دوچار ہے_

۵۶۵

واؤفوا بعهد الله إذا عهد تّم ولا تنقضوا الا يمن بعد توكيدها

۷_ خداوند عالم سے پيمان باندھنا اور اس كى قسم كھانا درحقيقت خداوند عالم كو اپنے نفس كے ليے ضامن اور كفيل قرار دينا ہے_وا وفوا بعهد الله ...وقد جعلتم الله عليكم كفيل

۸_خداوند عالم سے كيے گئے عہد اور قسم توڑنا ضمانت الہى سے خيانت كے مترادف ہے _

ولا تنفضوا الا يمن بعد توكيد ها و قد جعلتم اللّه

۹_ خداوند عالم ، انسان كے تمام اعمال سے آگاہ ہے_انّ الله يعلم ما تفعلون

۱۰_انسان كا اپنى رفتار و كردار پر خداوند عالم كے علمى احاطہ كى طرف توجہ ، پيمان اور قسم توڑنے ميں ركاوٹ ہے_

وا وفوا ...ولا تنقضوا ...انّ اللّه يعلم ما تفعلون

۱۱_ تمام انسانوں كے اعمال سے متعلق خداوند عالم كے علم پر اعتقاد اورتوجہ اس كے احكام اور فرامين كو جارى كرنے ميں معاون اور مدد گارہے_وا وفوابعهد الله ...انّ اللّه يعلم ما تفعلون

مذكورہ تفسيرجملہ''انّ الله يعلم ما تفعلون'' كے علت واقع ہونے سے حاصل ہوئي ہے يعنى خداوند عالم كے ساتھ عہد و پيمان سے وفا كرو كيونكہ خداوند عالم تمھارے اعما ل سے آگاہ ہے_

احكام:۱،۳،۴،۵

اطاعت:خدا كى اطاعت كرنے كے اسباب۱۱

الله تعالى :الله تعالى كا علم غيب۱; الله تعالى كى كفالت ۷;۱لله تعالى كے ساتھ عہد شكني۶،۸; الله تعالى كے ساتھ عہد كى حقيقت ۷; الله تعالى كے ساتھ عہد كى شرعى حيثيت۲

انسان:انسان كا عمل۹،۱۱

خيانت:الله تعالى كے ساتھ خيانت ۸

ذكر:علم خدا كے ذكر كے آثار ۱۰،۱۱

شرعى ذمہ داري:شرعى ذمہ دارى پر عمل كا پيش خيمہ ۱۱

قسم:

۵۶۶

الله تعالى كى قسم۴; الله تعالى كى قسم كى حقيقت ۷; جائز قسم ۴; قسم توڑنے كے موانع۱۰; قسم كا توڑنا ۸;

قسم كى تاكيد۳; قسم كے احكام ۳،۴،۵; قسم كے عملى ہونے كے شرائط۵

عقيدہ:علم خدا كا عقيدہ ركھنے كے آثار ۱۱

عہد:عہد كے احكام ۱،۲; وفا، عہد كا واجب ہونا ۱

عہد شكني:عہد شكنى كے موانع ۱۰

محرمات:۳

واجبات :۱

آیت ۹۲

( وَلاَ تَكُونُواْ كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِن بَعْدِ قُوَّةٍ أَنكَاثاً تَتَّخِذُونَ أَيْمَانَكُمْ دَخَلاً بَيْنَكُمْ أَن تَكُونَ أُمَّةٌ هِيَ أَرْبَى مِنْ أُمَّةٍ إِنَّمَا يَبْلُوكُمُ اللّهُ بِهِ وَلَيُبَيِّنَنَّ لَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ )

اور خبردار اس عورت كے مانند نہ ہوجاؤ جس نے اپنے دھاگہ كو مضبوط كاتنے كے بعد پھر سے ٹكڑے ٹكڑے كرڈالا_ كيا تم اپنے معاہدے كو اس چالاكى كا ذريعہ بناتے ہو كہ ايك گروہ دوسرے گروہ سے زيادہ فائدہ حاصل كرے_ اللہ تمھيں انھيں باتوں كے ذريعہ آزما رہا ہے اور يقينا روز قيامت اس امر كى وضاحت كردے گا جس ميں تم آپس ميں اختلاف كر رہے تھے _

۱_ حتمى عہد و پيمان توڑنا ، محكم رشتہ جو ڑنے كے بعد اسے توڑنے كى مانند ہے_

ا وفوا بعهد الله ...ولا تنفضوا ...ولا تكونوا كا لتى نقضت غزلها من بعد قوّة انكث

۵۶۷

۲_ پيمان شكنى ايك غير عاقالانہ اور ناقابل توجيہ كام ہے_والا تكونوا كالتى نقضت غزلها من بعد قوة ا نكث

رشتہ جوڑنے كے بعد اسے توڑنا نقض غرض كا واضع نمونہ ہے اور روشن سى بات ہے كہ نقض غرض غير عاقلانہ كام ہے _

۳_ دوسرے لوگوں كو دھوكہ دينے كے ليے قسم كو بطور وسيلہ استعمال كرنا ممنوع ہے_

ولا تكونوا ...تتّخذون ايمنكم دخلاً بينكم

۴_ الہى فكر كے مطابق لوگوں كو دھوكہ اور فريب دينا، ناپسنديدہ فعل ہے_تتخذون ايمنكم دخلاً بينكم

۵_ اجتماعى تعلقات ميں قسم اور پيمان پر عمل كرنا ،ايك ضرورى امر او راہم اصول ہے_

ولا تكونوا كا لتى نقضت غزلها ...تتخذون ايمنكم دخلاً بينكم

۶_ دوسروں سے كے گئے عہد و پيمان كو توڑنا اگر چہ اس ميں بہت زيادہ فائد ہ ہى كيوں جائز نہيں ہے_

ولاتكونوا ...تتخذون ايمنكم دخلاً بينكم ا ن تكون امّة هى اربى من امة

۷_ طاقتور گروہ سے پيمان باندھنے كى خاطر كسى دوسرے گروہ سے پيمان توڑنا، حرام اور غير عاقلانہ كام ہے_

ولا تكونوا ...تتّخذون ايمنكم دخلاً بينكم ا ن تكون امّة هى ا ربى من امّة

۸_ طرف مقابل ميں كمزورى كا مشاہدہ كرنے كى وجہ سے اہل پيمان كو عہد شكنى كا رخ نہيں كرنا چايئے

تتّخذون ايمانكم دخلاً بينكم ا ن تكون امّة هى ا ربى من امّة

۹_ قسم اور پيمان ايسى قابل قدر چيز ہے جسے مادى معاملات كے تحت الشعاع نہيں ہونا چاہيئے

دخلاً بينكم ان تكون امّة هى ا ربى من امّة

۱۰_ خداوند عالم كا پيمان و عہد اور قسم كو تو ڑنے سے اجتناب كرنے كا حكم دينا فقط انسان كى آزمائش كے ليے ہے_

وا وفوا بعهدالله ...ولا تكونوا ...تتخذون ايمنكم دخلاً بينكم ...انما يبلوكم الله به

۱۱_ قسم اور دوسروں كے ساتھ انسان كا پيمان اس كے ليے الہى آزمائش كا پيش خيمہ ہے_

تتخذون ايمنكم ...انما يبلوكم به

۱۲_ خداون عالم يقينى طور پر قيامت كے دن انسانوں كے مورد اختلا ف حقائق كو بيان كرے گا_

وليبيّن لكم يوم القيمة ما كنتم فيه تختلفون

۱۳_ قيامت كے دن پيمان توڑنے والے خداوند عالم كے مورد مواخذہ اور فيصلہ قرار پائيں گے_

تتخذون ايمنكم دخلاً ...وليبيّن لكم يوم القيمة ما كنتم فيه تختلفون

۵۶۸

۱۴_ عہد و قسم توڑنے والوں كو خداوند عالم كا خبر دار كرنا ، روز قيامت ان كے مواخذہ پر مشتمل ہے_

ا وفوا بعهد الله ...تتخذون ايمنكم دخلاً ...وليبيّن لكم يوم القيمة ماكنتم فيه تختلفون

۱۵_ دنياوى زندگى ميں انسانوں كے مسلسل جھگڑے اور اختلافات موجود ہيں _وليبيّن لكم يوم القيمة ماكنتم فيه تختلفون

فعل''كنتم'' اور اس كى مانند فعل كا دوسرے فعل كى ابتداء ميں آنا اس فعل كے استمرار مضمون كو بيان كررہا ہے_

۱۶_ دنيا ميں انسانوں كے كچھ مورد اختلاف حقائق و مسائل مخفى ہيں _وليبيّن لكم يوم القيمة ما كنتم فيه تختلفون

اس ميں شك نہيں كہ دنيا ميں لوگوں كے بعض مورد اختلاف مسائل كا حق ہونا واضح ہے اس بناء پر قيامت كے دن مورد اختلاف حقائق كى وضاحت ان مسائل سے متعلق ہے جن كا حق ہونا واضح نہيں ہے_

۱۷_ قيامت كى طرف انسان كى توجہ اور اعتقاد اس كى پيمان شكنى سے مانع ہے_

وا وفوا بعهد ...تتخذون ايمنكم دخلاً بينكم وليبينّ لم يوم القيمة ما كنتم فيه تختلفون

پيمان اور قسم توڑنے كے مسئلہ كے بعد خداوند عالم كا روز قيامت حقائق كى وضاحت كے بارے ميں تذكر، ممكن ہے مذكورہ مطلب كى طرف اشارہ ہو_

عى ا بى جعفرعليه‌السلام قال: الّتى نقضت غزلها إمراة ...يقال لها ء رابطة (ريطة) كانت حمقا ء تغزل الشعر فإذا غزلت نقضه ثم عادت فغزلله فقال الله ''كالتى نقضت غزلها ...''

امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ وہ عورت جو رشتہ ناطہ جو ڑنے كے بعد توڑنى ہے وہ عورت ...رابطہ يا ريطہ ) ...ہے وہ ايك بے وقوف عورت تھى جو بكرى كے بالوں كو بنتى تھى اور پھر اسے كھول ديتى تھى اور پھر دوبارہ بننا شروع كرديتى تھى پس خداوند عالم نے اس كے بارے ميں فرمايا :''كالتى نقضت غزلها ''(۱)

احكام۳،۶،۷

الله تعالي:الله تعالى كى اخروى قضاوت ۱۳; الله تعالى كى سرزنشيں ۴; الله تعالى كا امتحان ۱۰،۱۱; الله تعالى كے اوامر كا فلسفہ۱۰; الله تعالى كے ڈراوے۱۴

____________________

۱) تفسير قمي، ج۱ ،ص۳۸۹، نورالثقلين ،ج۳، ص۸۲، ح ۲۱۵_

۵۶۹

امتحان:امتحان كا زمينہ ۱۱; عہد پورا كرنے كا امتحان ۱۰;قسم كو پورا كرنے كا امتحان۱۰

انسان:انسانوں ميں اختلاف ۱۲،۱۵،۱۶

دينا:حقائق كا دنيا ميں مخفى ہونا ۱۶

ذكر:قيامت كے ذكر كے آثار ۱۷

روابط:سماجى روابط كے اصول ۵

روايت:۱۸

زندگي:دنياوى زندگى كى خصوصيات ۱۵

عقيدہ:قيامت پر عقيدہ ركھنے كے آثار ۱۷

عمل:جاہلانہ عمل ۲،۷; ناپسنديدہ عمل۴

عہد:عہد كو پورا كرنے كى اہميت ۵،۸،۱۴; عہد كى اہميت۹; عہد كے آثار ۱۱; عہد كے احكام ۶،۷

عہد توڑنا:عہد توڑنے كا بے منطق ہونا ۲،۷; عہد توڑنے كى حرمت ۶،۷; عہد توڑنے كے موانع ۱۷

عہد كو توڑنے والے:عہد كو توڑنے والوں كا اخروى مواخذہ ۱۳،۱۴; عہد كو توڑنے والوں كوانذار۱۴

عہد كرنے والے :عہدكرنے والوں كى ذمہ دارى ۸

قرآن:قرآن كى تشبيہات ۱،۱۸

قرآنى تشبيہات :بننے كے ساتھ تشبيہ دينا ۱; عہد شكنى كى تشبيہ۱

قسم:حرام قسم كھانا ۳; قسم كو پوراكرنے كى اہميت۵،۱۴; قسم كى اہميت۹; قسم كے آثار۱۱; قسم كے احكام۳

قسم توڑنے والے:قسم توڑنے والوں كا اخروى مواخذہ۱۴;قسم توڑنے والوں كو انذار۱۴

قيامت:قيامت ميں اختلاف كو بيان كرنا۱۲; قيامت ميں حقائق كا ظہور ہونا ۱۲

محرمات;۶،۷

۵۷۰

معاملہ:معاملہ ميں قسم۹

مكر:قسم كھانے كے ساتھ مكر كرنا ۳;مكر كى سرزنش۴

آیت ۹۳

( وَلَوْ شَاء اللّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلكِن يُضِلُّ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ وَلَتُسْأَلُنَّ عَمَّا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ )

اور اگر پروردگار چاہتا ہو جبراً تم سب كو ايك قوم بنا ديتا ليكن وہ اختيار دے كر جسے چاہتا ہے گمراہى ميں چھوڑ ديتا ہے اور جسے چاہتا ہے منزل ہدايت تك پہنچا ديتا ہے اور تم سے يقينا ان اعمال كے بارے ميں سوال كيا جائے گا جو تم دنيا ميں انجام دے رہے تھے _

۱_انسان كے عقائد و فكر ى اختلافات كا ختم ہونا اور امتوں كا ايك امت ميں تبديل ہونا مشيت الہى ميں ايك ممكن امر ہے_و لوشاء لجعلكم امّة وحدة

جملہ''يضلّ من يشاء يہدى من يشائ ...'' كے قرينہ كى بناء پر ''امت واحدہ ''سے مرادعقيدہ اور دين ميں امت كا واحد ہوناہے _ جيسا كہ لغت كے لحاظ سے كلمہ '' امت'' ايسے گروہ كے ليے استعمال ہوا ہے جن كا دين ايك ہے ( مفردات راغب)

۲_ خداوند عالم كا ارادہ اور مشيت ناقابل تخلفّ ہے_ولو شاء لجعلكم امّة واحدة

۳_ تمام انسانوں كا عقيدہ كردار ميں ايك جيسانہ ہونا اور ان كے در ميان تفاوت ،خداوند عالم كى مشيت اور تديبركى بناء پرہے_ولو شاء لجعلكم امّة واحدة

۴_ ايك گروہ كا ہدايت اور دوسرے كا گمراہى كے راستہ كو اختيار كرنا، مشيت الہى پر مبتنى ہے_

۵۷۱

يضلّ من يشاء و يهدى من يشاء

۵_ انسانوں كا جبر و اكراہ كى بجائے اختيار و زمہ دارى كے راستہ پر گامزن ہونا، مشيت خداوند عالم ہے _

مشيت الہى كو بيان كرنے كے بعد انسان كى مسؤليت ''لتسل ن ...''كا ذكر اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ مشيت الہى انسان سے مسؤليت كے سلب كا سبب نہيں ہے بلكہ مسؤليت كو تحقق بخشتى ہے_

۶_ انسان اپنے اعمال كے بارے ميں مسئول ذمہ دار ہے_ولتسل ن عمّا كنتم تعملون

۷_ قيامت كے دن انسانوں سے ان كے اعمال كے بارے ميں باز پرس ہوگي_ولتسئلن عمّا كنتم تعملون

۸_ خداوند عالم كے توسط سے انسان كى ہدايت اور گمراہى خود ان كى خواہش اور انتخاب كے تابع ہے_

يضّل من يشاء و يهدى من يشاء

مذكورہ مطلب اس احتمال كى بناء پر ہے كہ ''يشائ'' ميں فاعل ايسى ضمير ہو جو ' ' من'' كى طرف لوٹ رہى ہو اور ''يضّل'' كے فاعل سے متحد نہ ہو_

الله تعالي:الله تعالى كى تدبير كے آثار ۳; الله تعالى كى مشيت كا حتمى ہونا ۲; الله تعالى كى مشيت كے آثار ۱،۳،۴; مشيت الہى ۵

امتيں :امت واحدہ۱

انسان:انسان كا اختيار ۵،۸;انسانوں كا اخروى مواخذہ ۵;انسانوں كا عقيدہ ۳; انسانوں كا عمل۳; انسان كى مسؤليت ۵،۶; انسانوں ميں تفاوت ۳

جبر و اختيار:جبر كا باطل ہونا ۵

عقيدہ :عقيدتى مسائل كے حل ہونے كا امكان۱

عمل:عمل كا ذمہ داري۶

گمراہى :گمراہى كاسرچشمہ ۴،۸

ہدايت:ہدايت كا سرچشمہ۴، ۸

۵۷۲

آیت ۹۴

( وَلاَ تَتَّخِذُواْ أَيْمَانَكُمْ دَخَلاً بَيْنَكُمْ فَتَزِلَّ قَدَمٌ بَعْدَ ثُبُوتِهَا وَتَذُوقُواْ الْسُّوءَ بِمَا صَدَدتُّمْ عَن سَبِيلِ اللّهِ وَلَكُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ )

اور خبردار اپنى قسموں كو فساد كا ذريعہ نہ بناؤ كہ نو مسلم افراد كے قدم ثابت ہونے كے بعد پھر كھڑجائيں اور تمھيں راہ خدا سے روكنے كى پاداش ميں بڑے عذاب كا مزہ چكھنا پڑے اور تمھارے لئے عذاب عظيم ہوجائے _

۱_ فريبانہ مقاصد كى پيش رفت كے ليے قسم كو وسيلہ قرار دينا حرام ہے_ولا تتخذوا ايمنكم دخلاً بينكم

۲_ اسلام نے لوگوں كو اپنى قسموں اور پيمان كى پابندى كرنے كى تاكيد كى ہے_ولا تنقضوا ايمنكم دخلاً بينكم

۳_ ناشائستہ مقاصد تك دسترسى كے ليے دينى اقدار كو وسيلہ قرار دينا ممنوع ہے_ولا تتخذوا ايمنكم دخلاً بينكم

مذكورہ بالا تفسير ''ايمان'' كى خصوصيت كو ختم كرنے اور اسے تمام اقدار او ر مقدسات ميں عموميت دينے كے ليے ہے_

۴_ قسم اور دينى مقدسات سے سوء استفادہ كرنا ، دوسروں كے عقيدہ اورايمان كو ضعيف كرنے كا سبب ہے_

ولا تتخدوا ايمنكم دخلاً بينكم فتزلّ قدم بعد ثبوته

مذكورہ تفسير اس احتمال كى بناء پر ہے كہ 'قدم''سے مراد ان لوگوں كا ايمان اور عقيدہ ہو جنہوں نے دين كى طرف ميلان پيدا كيا ہو اور كچھ دينى اقدار سے سوء استفادہ كا مشاہدہ كرنے كى وجہ سے وہ لغزش كا شكار ہوجائيں اور ايمان سے منہ پھر ليں _

۵_ قسم كے ذريعہ دوسروں كو دھوكہ دينا اپنے آپ كوبد اعتماد كرنے كا پيش خيمہ ہے_

ولا تتخذوا ايمنكم دخلاً بينكم فتزلّ قدم بعد ثبوته

مذكورہ تفسير اس احتمال كى بناء پر ہے كہ ان كے قدموں كا ضعيف ہونا لوگوں كى نگاہ ميں اصل قسم كے بے اعتبار ہونے سے كنايہ ہو_

۵۷۳

۶_ دين اوردينى مقدسات كى نسبت لوگوں كو بے عقيدہ كرنے كا زمينہ فراہم كرنا حرام ہے_

ولا تتخذوا ايمنكم دخلاً بينكم فتزلّ قدم بعدثبوتها و تذوقوا السوئ

مذكورہ تفسير اس نكتہ كى بناء پر ہے كہ ''حنث قسم'' (قسم توڑنا ) سے نہى اس وجہ سے كى گئي ہے كہ يہ دوسروں كے عقيدہ كو ضعيف كرنے كا ہوتا ہے _ آيت كے ذيل ميں يہ عمل ''صد عن سبيل الله '' اور عظيم عذاب كے عنوان سے بيان كيا گيا ہے_

۷_ قسم توڑنے اور لوگوں كو دھوكہ دينے كا ضرر اور نقصان خود قسم توڑنے اور دھو كہ دينے والوں كو ہوگا_

ولا تتخدوا ايمنكم دخلاً بينكم فتزل ّ قدم بعد ثبوتها وتذوقوا لسوئ

يہ جو خداوند عالم نے قسم توڑنے كے نقصان كو خود قسم توڑنے والوں كے ليے قرار ديا ہے اور انہيں مخاطب قرار ديا ہے( وتذوقوا السوئ) اس سے مذكورہ مطلب كا استفادہ ہوتا ہے_

۸_قسم توڑنے والے لوگوں كو خدا كى راہ سے روكنے والے ہيں _ولا تتخذوا ايمنكم دخلاً ...بما صددتمّ عن سبيل الله ولكم عذاب عظيم

۹_ دينى مقدسات سے سوء استفادہ كے ذريعہ لوگوں كے ايمان كوضعيف كرنا ''صد عن سبيل الله '' ہے _

ولا تتخذوا ايمنكم دخلاً ...وتذوقوا السوئ

يہ جو خداوند عالم نے حنث قسم اور فريب كارى كو راہ خدا كو مسدود كرنے سے تعبير كيا ہے (بما صددتم عن سبيل الله ) اس سے يہ استفادہ ہوتا ہے كہ حنث قسم اور فريب كارى كے ذريعہ لوگوں كے ايمان كو ضعيف كرنا راہ خدا كو مسدود كرنے كا واضح مصداق ہے_

۱۰_ قسم اور پيمان كو توڑنا، سخت دنياوى عكس العمل اور عظيم عذاب كا حامل ہے_

ولا تتخذوا ايمنكم دخلاً ...وتذوقوا لسوء بما صددتم عن سبيل الله ولكم عذاب عظيم

مذكورہ تفسير اس احتمال كى بناء پر ہے كہ ''تذوقوا ...'' ديناوى سختيوں كى طرف اور ''عذاب عظيم''اخروى عذاب كى طرف اشارہ ہو_

۵۷۴

۱۱_راہ خدا ( دينى الہي) ميں روڑے اٹكانا، دنياوى مشكلات اور عظيم اخروى عذاب كاسبب ہے_

وتذوقوا السّوء بما صددتم عن سبيل الله ولكم عذاب عظيم

''سبيل الله '' سے مراد، دين خدا ہے قرآن كى بہت سارى آيات ميں اسى عنوان سے يہ ذكر ہوا ہے_

اپنى ذات:اپنى ذات كو نقصان۷

احكام:۱،۶

اسلام:اسلام كى تعليمات ۲

اقدار:اقدار سے سوء استفادہ ۳;اقدار سے سوء استفادہ كے آثار ۴; اقدار كى اہميت۳

ايمان:ايمان ميں سستى كا زمينہ۹; ايمان ميں سستى كے اسباب ۴

دين:دين سے ممانعت كے آثار ۱۱; دين سے ممانعت كے اخروى آثار۱۱

دينداري:ديندارى ميں سستى كا زمينہ ۶

سبيل الله :سبيل الله سے روكنے والے۸; سبيل الله سے ممانعت ۹;سبيل الله سے ممانعت كے آثار۱۱; سبيل الله سے ممانعت كے اخروى آثار ۱۱

سختي:سختى كے اسباب۱۱

قسم:حرام قسم۱; قسم توڑنے كا اخروى عذاب ۱۰; قسم توڑنے كا ضرر ۷;قسم توڑنے كے اسباب۱۰; قسم سے سوء استفادہ ۱; قسم سے سوء استفادہ كے آثار ۴،۵; قسم كو پورا كرنے كى اہميت۲; قسم كے بے اعتبار ہونا كازمينہ۵

قسم توڑنے والے:۸

عذاب:عذاب كے اسباب ۱۰،۱۱; عذاب كے مراتب ۱۰،۱۱

عقيدہ:عقيدہ ميں سستى كے اسباب۴

عہد شكني:عہد شكنى كا اخروى عذاب۱۰;عہد شكنى كے آثار ۱۰

محرمات:۱،۶

مقدسات:مقدسات سے سوء استفادہ كے آثار ۹

۵۷۵

آیت ۹۵

( وَلاَ تَشْتَرُواْ بِعَهْدِ اللّهِ ثَمَناً قَلِيلاً إِنَّمَا عِندَ اللّهِ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ )

اور خبردار اللہ كے عہد كے عوض معمولى قيمت (مال دنيا) نہ لو كہ جو كچھ اللہ كے پاس ہے وہى تمھارے حق ميں بہتر ہے اگر تم كچھ جانتے بوجھتے ہو _

۱_ الہى عہد و پيمان سے سودا بازى اور دنيا كى ناچيز قيمت كے مقابلہ ميں اسے پامال كرنا ممنوع اور ناقابل بخشش گناہ ہے_

ولا تتخذوا ايمانكم دخلاً ...ولكم عذاب عظيم ولا تشتروا بعهد الله ثمناً قليلا

خدا كے عہد وپيمان سے سودا بازى سے نہى ''لا تشتروا '' اوراس كا عظيم گناہ ہونا ما قبل آيت كے ذيل ''ولكم عذاب عظيم ''جو كہ عظيم عذاب سے خبر دار كياگيا ہے سے استفادہ كيا گيا ہے_

۲_ دنيا كا مال ومتاع اگر چہ ظاہرى طور سے عظيم اور بہت زيادہ ہى كيوں نہ ہو الہى عہد و پيمان توڑنے كے مقابلہ ميں نا چيز اور بے قيمت ہے_ولا تشتروا بعهد الله ثمناً قليلا

۳_ دين اور معنويات كى بلند قدر و قيمت مادى امور سے قابل مقائسہ نہيں ہے_

ولا تشتروا بعهد الله ثمناً قليلاً انما عند الله هو خير لكم

۴_ الہى قسم اور عہد كو توڑنے والے افراد، دنياپرست ، پست فكر، عاجز اور ناتواں ہيں _

لا تتخذو ا ايمانكم دخلاً بينكم ...ولا تشتروا بعهد الله ثمنا قليلا

''ثمناًقليلاً'' ( كم اور ناچيز قيمت) كى تعبير سے پست فكرى اور ناتوانى كا استفادہ ہوتا ہے كيونكہ كوئي صاحب عقل و فكر اجناس كو كم اور ناچيزقيمت

۵۷۶

اور اس كى حقيقى قيمت سے كم نہيں بيچتا _

۵_ انسان ،ماديات كے حصول كے ليے معنوى مقدسات كوپامال كرنے كے خطرہ سے دوچار ہے_

ولا تشتروا بعهد الله ثمناً قليلا

۶_ پست فكرى ، ناتوانى اور دنيا طلبي، انسان كا الہى پيمانوں كوتوڑنے كى طرف ميلان اور دنيا كو آخرت پر ترجيح دينے كاسبب ہے_ولا تشتروا بعهد الله ثمناً قليلا

۷_ انسانوں كا حقيقى نفع اور خير، دنيا كے ناچيز مال و متاع كى بجائے فقط معنوى والہى مقدسات ميں مضمر ہے_

ولا تشتروا بعهد الله ثمناً قليلاً انمّا عندالله هو خيرّ لكم

۸_ الہى عہد سے وفا كرنے والوں كى جزا، خداوند عالم كے ہاں محفوظ ہے_

ولا تشتروا بعهد اللّه ...انما عند الله هو خير لكم

۹_ سب سے برترين الہى پاداش كى طرف توجہ ، انسان كو خداوند عالم سے كے گئے پيمان سے روگردانى كرنے سے روكتى ہے_ولا تشتروا بعهد الله ...انما عند الله هو خير لكم ان كنتم تعلمون

۱۰_ دين كے ساتھ سودا بازى اوردنيا كو آخرت پر ترجيح دينا ، جہالت اور نادانى كى علامت ہے _

ولا تشتروا بعهد الله ...انمّا عند الله هو خير لكم ان كنتم تعلمون

۱۱_ ذمہ داريوں اور الہى تعہدّات سے رو گردانى كرنے والے لوگ، جاہل اورخداوند عالم كى عظيم پاداش كى طرف متوجہ نہيں ہيں _ولا تشتروا بعهد اللّه ...انمّا عندالله هوخير لكم ان كنتم تعلمون

۱۲_ علوم و افكار كى سطح كوبلند كرنا ، عظيم الہى مقدسات اور حقيقى نفع و نقصان كو بہتر سمجھنے كا وسيلہ ہے_

ولا تشتروا بعهد اللّه ...انمّا عندالله هو خير لكم ان كنتم تعلمون

۱۳_ انسان، عظيم اقدار كا اسير ہے_انمّا عندالله هو خير لكم ان كنتم تعلمون

مذكورہ تفسير اس بناء پر ہے كہ خداوند عالم نے برترين مقدسات كى نشاند ہى كے ذريعہ انسان كو حقيقى اقدار كى طرف راہنمائي كى ہے_

۱۴_ اسلام انسان كے ليے اقدار كا معيار مقرر كرنے والا اور برترين اقدار كا تعارف كرانے والا ہے_

ولا تشتروا بعهد الله ثمناً قليلاً انمّا عندالله

۵۷۷

هو خير لكم ان كنتم تعلمون

۱۵_ انسان ، اقدار كى تشخيص اور قدرو قيمت لگانے كے لحاظ سے خطا سے دوچار ہوتا ہے_

ولا تشتروا ...ثمناً قليلاً انمّا عندالله هو خير لكم ان كنتم تعلمون

اسلام :اسلام كا كردار۱۴

اقدار:اقدارسے سوء استفادہ كرنا۵;اقداركا معيار ۱۴; اقدار كوبيان كرنا۱۴; اقداركوسمجھنے كے اسباب۱۲

اقدار كا مقائسہ كرنا:اقدار كا مقائسہ كرنے ميں غلطى كرنا ۱۵

الله تعالى :الله تعالى كى جزائيں ۸;الله تعالى كے ساتھ عہد شكنى كا زمينہ۶; الله تعالى كے ساتھ عہدشكنى كا گناہ ۱ ; الله تعالى كے ساتھ عہد شكنى كا ممنوع ہونا۱;الله تعالى كے ساتھ عہد شكنى كے موانع۹

انسان:انسان كى خطائيں ۱۵;انسان كے مصالح ۷ ; انسان كے ميلانات ۱۳

جہالت :جہالت كى نشانياں ۱۰

دنيا :آخرت پر دنيا كو ترجيح دينے كا سبب۶_آخرت پر دنيا كو ترجيح دينے كے آثار۱۰

دنيا طلبى :دنيا طلب كرنے والے۲; دنيا طلبى كے آثار ۶

دين :دين سے اعراض كرنے والوں كى جہالت ۱۱; دين سے اعراض كرنے والوں كى غفلت ۱۳;دين كى اہميّت ۳

دين فروشى :دين فروشى كے آثار ۱۰

ذكر :خدا كى جز او ں كے آثار كا ذكر ۹

علم :علم كے اضافہ كے آثار ۱۲

عہد :عہد سے وفا كرنے والوں كى پاداش ۸_عہدسے وفا كى اہميّت ۲

عہد توڑنے والے :عہد توڑنے والوں كى تنگ نظرى ۴_عہد توڑنے والوں كى دنيا طلبى ۴

۵۷۸

غافل افراد :خداكى پاداش سے غافل افراد۱۱

كوتاہ نظرى :كوتاہ نظرى كے آثار ۶

گناہان كبيرہ: ۱

مادى امكانات :مادى امكانات كى بے وقعتى ،۲،۳،۷

ميلانات :اقدار كى طرف ميلانات ۱۳

معنويات :معنويا ت سے سوء استفادہ۵; معنويات كى اہميّت ۷;معنويات كى قدر وقيمت۳

آیت ۹۶

( مَا عِندَكُمْ يَنفَدُ وَمَا عِندَ اللّهِ بَاقٍ وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِينَ صَبَرُواْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ )

جو كچھ تمھارے پاس ہے وہ سب خرچ ہوجائے گا اور جو كچھ اللہ كے پاس ہے وہى باقى رہنے والا ہے اور ہم يقينا صبر كرنے والوں كو ان كے اعمال سے بہتر جزا عطا كريں گے _

۱_انسان كا حاصل كردہ مادى مال ومتاع فنا ہونے والے اور معنوى مقدسات اور الہى جزائيں باقى اور جاودانى ہيں _

ما عندكم ينفد و ما عندالله باق

۲_معنوى مقدسات اور الہى پاداش كى جاودانيت ان كى مادى مال ومتاع پرمطلق برترى كا راز ہے_

انّما عندكم هو خير لكم ما عندكم ينفد وما عندالله باق :

۳_خداوند عالم صابرين كے ہر نيك عمل كے مطابق انہيں بہترين جزا دے گا_

ولنجزينّ الذين صبروا اجرهم باحسن ما كانوايعملون

۴_ہرنيك عمل نيكى ميں مختلف مراتب اور گوناگوں اور متناسب پاداش كا حامل ہے _

ولنجزينّ الذين صبروا ا جرهم با حسن ما كانوا يعملون

يہ جو خداوند عالم صبر كرنے والوں كو ان كے نتيجہ ميں بہترين نوعيت كى جزا دے گا اس چيز پر علامت ہے كہ ہر نيك عمل مختلف انواع ومراتب كا حامل ہے كہ خداوند عالم نے مقام جزا ميں ان كى بہترين نوعيت كو معيار قرار ديا ہے اور صابرين كو عطا كرے گا_

۵۷۹

۵_صبر كرنے والے خداوند عالم كے خصوصى لطف و كرم سے بہرہ مند ہيں _

ولنجزينّ الذين صبروا اجرهم باحسن ما كانوا يعملون

۶_تعہّدات اور پيمان كى پاسداري، برترين الہى جزاو ں سے بہرہ مند ہونے كا سبب ہے _

ولا تشتروا بعهدالله ثمناًقليلاًولنجزينّ الذين صبروا اجرهم با حسن ما كانوا يعملون

۷_خداوند كى جاودانى جزاو ں تك پہنچے كى اميد سے ماديات سے دست بردار ہونا، صبر وشكيبائي كا محتاج ہے _

ما عندكم ينفذ وما عنداللّه باق ولنجزينّ الذين صبروا اجرهم باحسن ما كانوايعملون

ماديات كے فنا ہونے اور معنويات كى جاودانيت كا تذكر اور پھر صبر وشكيبائي كے مسئلہ كو پيش كرنے سے معلوم ہوتا ہے كہ ماديات كو چھوڑنا اور اخروى نعمتوں سے دل لگانا، صبر كا محتاج ہے _

۸_ايسا عمل جو سختى ،تسلسل صبر او ر استقامت كے ساتھ انجام پائے وہ عظيم قدر وقيمت كا حامل ہے_

ّولنجزينّ الذين صبروا ا جرهم باحسن ما كانوا يعملون

۹_انسانى سعادت اور بارگاہ الہى ميں بلند مقام كے حصول ميں صبر واستقامت كا اہم كردار ہے _

ولنجرينّ الذين صبروا ا جرهم باحسن ما كانوا يعملون

جزا اور معنوى مقام تك رسائي كے ليے مؤمنين كى بہترين اور خوب صفات ميں سے صبر واستقامت كى صفت كا خصوصى طور پر ذكر كرنے سے مذكو رہ مطلب كا استفادہ ہوتاہے _

۱۰_انسان كے عمل كا تسلسل ،الہى فضل سے بہرہ مند ہونے اور معنوى مقام اور اخروى سعادت تك رسائي كا سرچشمہ ہے _ولنجزينّ الذين صبروا ا جرهم با حسن ما كانوا يعملون

۵۸۰

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779