تفسير راہنما جلد ۹

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 779

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 779 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 212610 / ڈاؤنلوڈ: 3607
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۹

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

:''فوكزه العالم ، فقتله_ فقال له موسى (ع) : ا قتلت نفساً زكية بغير نفس لقد جئت شيئاً نكراً؟ ''قال :'' فا دخل العالم يده فاقتلع كتفه فا إذا عليه مكتوب : كافر مطبوع'' (۱)

امام صادق (ع) سے روايت نقل ہوئي ہے ...اس وقت كہ عالم ( خضر (ع) ) موسى (ع) كے ہمراہ جارہے تھے يكدم ايك لڑكے سے ملے كہ جو كھيل رہا تھا_ امام(ع) فرماتے ہيں كہ اس عالم نے اسے گھونسا ما را اور اسے قتل كرديا موسى (ع) نے اسے كہا :ا قتلت نفساً ذكية بغير نفس ...؟ امام فرماتے ہيں : اسكے بعد عالم نے ہاتھ بڑھا يا اور لڑكے كا كندھا نكالا كہ جس پر لكھا ہوا تھا كافر مطبوع ( يعنى وہ كافر كہ جس پر كفر كى مہرلگى ہو )

۱۲_عن أبى عبداللّه(ع) : ...وخرجا (موسي(ع) وخضر(ع) ) على ساحل البحر فإذا غلام يلعب مع غلمان ...فتورّ كه العالم فذبحه (۲)

امام صادق(ع) سے روايت نقل ہوئي ہے ...وہ دونوں (موسي(ع) اورخضر(ع) ) دريا كے ساحل پر كشتى سے نكلے يكدم ايك لڑكے سے ملے كہ جو دوسرے چندلڑكوں سے كھيل رہاتھا ...پس اس عالم (خضر(ع) ) نے اسے ۱پنے زانو پر ڈالا اور ذبح كرديا //اوليا ء الله :اوليا ء الله كا عفو كرنا۳;اوليا ء الله كى صفات۳/بے گناہ لوگ:بے گناہ لوگوں كے قتل كا ناپسنديدہ ہونا ۱۰//خضر (ع) :خضر(ع) پر اعتراض ۵،۱۱; خضر(ع) كا سفر ۱;خضر(ع) كا قصہ ۱،۲،۴،۵،۱۱،۱۲;خضر(ع) كى نوجوان سے ملاقات ۲; خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كاقتل ۴،۱۱،۱۲;خضر(ع) كے قصّہ ميں نوجوان كے قتل كا فلسفہ ۱۱;خضر(ع) كے قصّہ ميں نوجوانوں كى بے گناہى ۵

خطاكار لوگ:خطاكارلوگوں كومعاف كرنا۳;خطاكار لوگوں كى معذرت قبول كرنا۳

روايت :۱۱،۱۲//عمل :ناپسنديدہ عمل۱۰

قانون برائت :۶قصاص:قصاص كے احكام۹;يہوديت ميں قصاص۹

موسي(ع):موسي(ع) كا اعتراض ۵،۱۱; موسى (ع) كادينى تعصّب۸ ; موسي(ع) كاسفر۱ ; موسي(ع) كاعلم غيب ۷; موسي(ع) كا قصہ ۱،۲،۴ ،۵،۱۱ ،۱۲;موسي(ع) كى خضر كے ساتھ ہمراہى ۱;موسي(ع) كى فكر ۵; موسي(ع) كى معذرت قبول ہونا۱;موسي(ع) كى نوجوان كے ساتھ ملاقات ۲

____________________

۱) تفسير عياشى ج۲ص۳۳۵ج۵۳ ، نورالثقلين ج۳ص۲۸۶،ح۱۶۷_

۲) تفسير عياشى ج۲ ص۳۳۳ح۴۷ ،نورالثقلين ج۳ص۱۵۱۶_

۵۰۱

آیت ۷۵

( قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكَ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْراً )

بندہ صالح نے كہا كہ ميں نے كہا تھا كہ آپ ميرے ساتھ صبر نہيں كرسكتے ہيں (۷۵)

۱_حضرت خضر(ع) نے دوسرى بار اور بڑے واضح انداز ميں حضرت موسى كى بے صبرى او ر بلاوجہ سوالات پر انہيں تنبيہ اور خبر دار كيا _لقد جئت شيئاً نكراً _ قال ا لم أقل لك

حضرت خضر(ع) كى دوسرى تنبيہ ميں كلمہ '' لك '' آيا ہے اس كلمہ كے اضافہ ہونا اور يہ وضاحت كہ حضرت موسي(ع) كے بارے ميں يہ كلام آيا ہے، انكے سوال كے صحيح نہ ہونے پر تاكيد ہے _

۲_ حضرت خضر(ع) نے يہ كہ موسي(ع) انكے كاموں پر صبر نہيں كر سكتے تيسرى بار تاكيد كى ہے _

قال ا لم ا قل لك إنّك لن تستيطع معى صبرا

حضرت خضر(ع) نے ايك دفعہ حضرت موسى (ع) كے ساتھ ملاقات كى ابتداء ميں اور دوسرى دفعہ كشتى والے واقعہ كے بعد ايسااور تيسرى مرتبہ نوجوان كے قتل كے بعد جملہ بيان كيا كہ جس ميں عربى عبارت كے حوالے سے چند مرتبہ تاكيد موجود ہے''إنّك لن تستيطع معى ...''

۳_حضرت خضر(ع) كى اپنے كاموں كے مقابل حضرت موسى كى بے صبرى كے حوالے سے پيشگوئي حقيقت كے مطابق تھى _لقد جئت شيئاً نكراً_ قال ا لم ا قل لك إنك لن تستيطع معى صبرا

۴_نوجوان كے قتل كرنے كى غرض كے حوالے سے حضرت موسي(ع) كى لا علمى كى طرف حضرت خضر (ع) نے اشارہ كرتے ہوئے انكے اعتراض كو غلط جانا اوراس كوان ميں تحمل و صبر كے كم ہونے كے سلسلہ ميں اپنى شناخت كے درست ہونے پر علامت كے قرار ديا _لقد جئت شيئاً نكراً _ قال ا لم ا قل لك إنّك لن تستيطع معى صبرا

۵_ الله تعالى كے خاص اولياء اور علوم الہى كے حامل لوگوں كى صحبت سے فيض اٹھانے كيلئے صبراور تحمل، ضرورى شرط ہے _

۵۰۲

قال ا لم ا قل لك إنك لن تستيطع معى صبرا

اولياء الله :اولياء الله سے فائدہ اٹھانے كى شرائط ۵;اولياء الله ہم نشينى كے آداب۵; اولياء الله كى ہم نشينى ميں صبر ۵

خضر (ع) :خضر(ع) كا قصہ ۱،۲،۳،۴;خضر(ع) كى پشيكوئي كا پور ا ہونا ۳; خضر(ع) كى تشبہات ۱; خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كا قتل ۴

علماء :علماء سے فائدہ اٹھانے كى شرائط ۵; علماء كے ساتھ ہم نشينى كے آداب ۵;علماء كے ساتھ ہم نشينى ميں صبر ۵

موسى (ع) :موسي(ع) كا اعتراض رد ہونا ۴; موسي(ع) كا عجز ۲;موسي(ع) كا قصہ ۱،۲،۳،۴;موسي(ع) كو خبردار كيا جانا ۱;موسى (ع) كى بے صبرى ۱،۲،۳،۴

آیت ۷۵

( قَالَ إِن سَأَلْتُكَ عَن شَيْءٍ بَعْدَهَا فَلَا تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِن لَّدُنِّي عُذْراً )

موسى نے كہا كہ اس كے بعد ميں كسى بات كا سوال كروں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ ركھيں كہ آپ ميرى طرف سے منزل عذ رتك پہنچ چكے ہيں (۷۶)

۱_حضرت موسى (ع) نے حضرت خضر(ع) سے انكے غير معمولى كا موں كے مقابلہ ميں اپنے صبر كرنے كے حوالے سے آخرى مہلت مانگى _قال إن سا لتك عن شى بعد ها فلا تصاحبنى

۲_ حضرت موسى (ع) نے اپنے آپ كو دوبارہ سوال كرنے (تيسرى دفعہ خلاف ورزى كرنے ) كى صورت ميں حضرت خضر(ع) كى مصاحبت سے محروميت كا لائق سمجھا_قال إن سا لتك عن شى بعد ها فلا تصاحبني

۳_ خطا كرنے والوں اور بھول جانے والوں كو تين بار، مہلت دينا مناسب ہے _

قال إن سا لتك عن شى بعد فلا تصاحبني

حضرت موسى (ع) نے تيسرى دفعہ اپنى بے صبرى كا مظاہرہ كرنے اور حضرت خضر(ع) كے حكم كى خلاف ورزى كرنے كى صورت ميں اپنے آپ كو حضرت خضر(ع) كى مصاحبت سے جدائي اور محروميت كا لائق

۵۰۳

سمجھا لہذا كہہ سكتے ہيں كہ لوگوں كو تين مرتبہ مہلت دينا ،قابل قبول ہے _

۴_ حضرت موسى (ع) نے حضرت خضر(ع) كے كردار كو تحمل كرنے اور ان كى ہمراہى سے عاجزى كا اعتراف كرليا_

قال قد بلغت من لدنى عذرا

۵_ حضرت موسى (ع) نے يہ اعتراف كرليا كہ حضرت خضر كے كاموں كے مقابلہ ميں ان كے خاموش رہنے كى خلاف و رزى كے نتيجہ ميں ميں ان سے جدائيكے سلسلہ ہيں حضرت خضر(ع) معذور ہيں _

قال ان سألتك قد بلغت من لدنى عذرا

جملہ''قد بلغت من لدنى عذراً'' يعنى ميرى نظر ميں آپكے پاس مصاحبت چھوڑنے پر قابل قبول عذرہے يہ جملہ '' قد '' كے قرينہ كے مطابق ''إن سا لتك '' سے مربوط نہيں ہے بلكہ حضرت موسي(ع) كا اعتراف ہے كہ آپ ہمراہى چھوڑ نے كا حق ركھتے ہيں ليكن ميں ايك اور مہلت چاہتا ہوں _

۶_اپنے اوپر تنقيد اور اپنے حوالے سے فيصلہ كرنے ميں انصاف كرنا اور اپنے اعمال كى ذمہ دارى قبول كرنا، بلند اور شائستہ صفات ہيں _إن سا لتك عن شى بعد ها فلا تصاحبنى قد بلغت من لدنى عذرا

اسكے باوجود كہ حضرت موسى (ع) نے پہلے مرحلہ ميں بھول جانے كے عذر كو بيان كيا ليكن اس مرحلہ ميں سب سے پہلے اپنے عمل كى ذمہ دارى كو قبول

كيا اور دوسرايہ كہ اپنے حوالے سے انصاف سے فيصلہ صادر كيا اور حضرت خضر(ع) كو اپنے سے جدا ہونےكے سلسلہ ميں بر حق جانا_بھول جانے والے :بھول جانے والوں كو مہلت ۳

خضر (ع) :خضر(ع) كى ہمراہى سے محروميت كے اسباب ۲; خضر(ع) كا عذر ۵; خضر (ع) كا قصہ ۱،۲،۴،۵;خضر(ع) كى طرف سے مہلت طلب كرنا ۱//خطا كا ر لوگ :خطا كاڑ لوگوں كو مہلت ۳

خود :خود پر تنقيد ۶//ذمہ دارى لينا :۶

صفات :اچھى صفات ۶

فيصلہ كرنا :فيصلہ كرنے ميں عدالت ۶

موسى (ع) :موسي(ع) كا اقرار ۴،۵; موسي(ع) كا عجز ۴; موسي(ع) كا قصہ ۱،۲،۴،۵;موسي(ع) كا مہلت لينا ۱;موسي(ع) كى بے صبرى ۵; موسي(ع) كى رائے ۲; موسي(ع) كى عہد شكنى ۵;موسي(ع) كے سوالوں كے آثار ۲

۵۰۴

آیت ۷۷

( فَانطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَن يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَاراً يُرِيدُ أَنْ يَنقَضَّ فَأَقَامَهُ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْراً )

پھر دونوں آگے چلتے رہے يہاں تك كہ ايك قريہ والوں تك پہنچے اور ان سے كھانا طلب كيا ان لوگوں نے مہمان بنانے سے انكار كرديا پھر دونوں نے ايك ديوار ديكھى جو قريب تھا كہ گر پڑتى بندہ صالح نے اسے سيدھا كرديا تو موسى نے كہا كہ آپ چاہتے تو اس كى اجرت لے سكتے تھے (۷۷)

۱_ حضرت خضر(ع) نے حضرت موسي(ع) كى مہلت كى درخواست قبول كى اور انہيں تيسرى بار اپنى ہمراہى كا موقع ديا _

إن سا لتك عن شيئ: بعد ها فلا تصاحبني فا نطلقا

۲_ حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) اپنے سفر اور حركت كرنے كى راہ ميں ايك آبادى تك پہنچے اور وہاں كے لوگوں سے ملاقات كى _فانطلقا حتّى إذا ا تيا أهل قرية

يہ كہ كون سى آبادى انكى راہ ميں آئي بہت سے احتمالات ہيں ان ميں ايك احتمال يہ ہے كہ وہ شہرناصرہ ہے جو كہ ساحل دريا پر واقع تھا اس كو مجمع البيان نے امام صادق عليہ السلام سے روايت كيا ہے _

۳_حضرت موسى (ع) اورخضر(ع) نے بھوك محسوس كرتے ہوئے شہروالوں ، سے غذا اور خوراك كا تقاضا كيا _

استطعما أهله''يضيّفوهما '' كے قرنيہ كى بناء پر '' استطعام '' سے مرادسفر كو جارى ركھنے كيلئے غذامہيا نہيں چاہى تھى بلكہ حضرت موسى (ع) اور حضرت خضر(ع) اس وقت بھوكے تھے _

۴_شہر والوں ميں سے كوئي بھي، حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) كى ميزبانى اورانہيں كھانا كھلانے كيلئے تيار نہيں ہوا_

استطعمإهلها فا بوا أن يضيّفوهم

''ابائ'' سے مراد'' انكا ر كرنا اور نہ كرنا'' ہے _

۵_ جس شہر ميں حضرت موسي(ع) اور حضرت خضر(ع) داخل ہوئے تھے وہاں كے لوگ مہمان كى خدمت اور غريب نوازى جيسى صفات سے عارى تھے _فا بوا ا ن يضيّفوهم

۵۰۵

۶_ مسافروں كى ميزبانى اور راستے كى مشكلات كا شكار ہونے والوں كو كھانا كھلانا، ايك پسنديدہ كام ہے _

استطعما أهلها فا بو ا ا ن يضيّفوهم

حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) نے صرف كھانا مانگا ليكن قرآن شہروالوں كى يہ توصيف كررہا ہے كہ انہوں نے مہمان كى خدمت كرنے سے انكار كيا يعنى چاہيے يہ تھا كہ لوگ ان دونوں كو اپنا مہمان بناتے اور غذاكے علاوہ كو ئي بھى چيز دينے سے دريغ نہ كرتے_

۷_پيغمبرى كے مقام پر فائز ہوتے ہوئے بھى لوگوں سے اپنى مادى احتياج كا تقاضا،غير مناسب نہيں ہے _

استطعما ا هله حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) نبى تھے پھر بھى انہوں نے لوگوں كے سامنے اپنى احتياج كا اظہار كيا پس معلوم ہوا كہ اس قسم كى درخواست، پيغمبر وں اور اولياء كيلئے نامناسب نہيں ہے _

۸_ حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) نے اس آبادى ميں ايك ايسى ديوار كو ديكھا جوگرنے اور خراب ہونے والى تھى _

فوجدا فيها جداراً يريد ان ينقض ''انقضاض'' مادہ'' قضض'' سے ہے اسكا معنى ''بكھر نا'' ہے (قاموس ) فعل ''يريد'' كا استعمال كہ جو عام طور پر با اختيار موجودات كيلئے استعمال ہوتا ہے يہاں بطور استعارہ ہے يعنى ديوار اس حدتك گرنے كے خطرہ ميں تھى كہ گويا خودگرنے اورخراب ہو كر بكھرنے كا عزم كر چكى ہو_

۹_حضرت خضر(ع) نے گر نے والى ديوار كو درست اور تعمير كيا _يريد ا ن ينقضّ فا قامه

۱۰_گرنے والى ديوار كى حضرت خضر(ع) كے ہاتھوں تعمير، شہر كے لوگوں كى نگاہوں كے سامنے انجام پائي _

حتى إذا ا تيا ا هل قرية ...فا قامه

شہر ميں داخل ہو نا اور شہر ميں ديوار كا پايا جانا، جيسا كہ آيت ميں ''فوجدا فيھا جداراً'' كى تعبير سے معلوم ہوتا ہے ممكن ہے اس طرف اشارہ ہو كہ لو گ حضرت خضر(ع) كے افعال كى طرف متوجہ تھے _

۱۱_ حضر ت خضر(ع) نے ديوار كى تعمير اور اسكے كھڑا كرنے ميں حضرت موسي(ع) سے مدد نہيں مانگى _

فأقامه

''أقامه '' كا مفرد آنا ممكن ہے اس حوالے سے ہو كہ ديوار كى تعمير صرف حضرت خضر(ع) كے ہاتھوں انجام پائي اگر چہ اس سے پہلے '' استطعما'' تثنيہ كى صورت ميں آيا ہے يعنى دونوں كے غذا مانگنے كو بيان كيا گيا ہے _

۵۰۶

۱۲_ حضرت خضر(ع) نے ديوار كى تعمير كى اجرت دريافت كرنے كے امكان كے باوجود كوئي چيز دريافت نہيں كى _

قال لو شئت لتخذت عليه أجرا

حضرت موسي(ع) كى طرف سے اجرت دريافت كرنے كى بات اسى صورت ميں درست ہے جب اسكے لينے كا امكان موجود ہو _

۱۳_ با جود اسكے كہ غذا كے حصول كيلئے اجرت كى احتياج تھي، حضر ت خضر (ع) كے اپنے كا م كے مقابلہ اجرت نہ چاہنے پر حضرت موسي(ع) ناراض اور شاكى تھے _استطعما ا هلها ...قالو شئت لتّخذت عليه أجرا

حضرت خضر(ع) اور حضرت موسى (ع) نے لوگوں سے مفت غذاكا مطالبہ كيا چونكہ خريدنے كيلئے انكے پاس رقم نہ تھى لہذا حضرت موسى (ع) نے ديوار كا كام مكمل ہونے پر اجرت كى بات كى تا كہ اس ذريعہ سے غذا خريدى جائے _

۱۴_ حضرت موسى (ع) كے زمانے ميں كام كى اجرت دينے كے نظام كا موجود ہونا_قال لو شئت لتّخذت عليه أجرا

۱۵_ كام كے انجام دينے كے بعد اجرت كى مقدار كا معين كرنا، صحيحاور قابل اجرائہے _لو شئت لتخذت عليه أجرا

۱۶_ كام لينے والے كى در خواست كے بغير انجام ديتے گئے كاموں كے مقابلہ ميں اجرت لينا جائز ہے _لو شئت لتّخذت عليه أجر لوگوں كى بد فطرتى اور پستي، انسان كو كا ر خير اور ذمہ دارى ادا كرنے سے نہ روكے _استطعما ا هلها فا بوا ...فا قامه اگر چہ شہر والے،بد فطرت اور برے تھے ليكن اسى حالت ميں حضرت خضر(ع) نے بغير كسى ناگوار ى كے اپنى ذمہ دارى ادا كى _لوگوں كا سرد رويہ آپكے كام ميں سستى اور دير كا باعث نہ بنا _

۱۸_اجرت حاصل نہ كرنے كے حوالے سے حضرت موسى (ع) كى حضرت خضر(ع) سے شكايت آميز بات اپنے عہد سے تيسرى مخالفت تھى _قال لوشئت لتّخذت عليه أجرا

۱۹_عن جعفر بن محمد (ع) ...''فانطلقا حتّى إذا ا تيإ هل قرية '' وهى الناصرة (۱) امام صادق(ع) سے روايت ہوئي ہے كہ آيت شريفہ ميں قرية سے مراد قريہ ناصرہ ہے _

۲۰_عن جعفر بن محمد (ع)''فوجدا فيها جداراً يريد أن ينقضّ'' فوضع الخضر يده عليه فا قامه (۲)

____________________

۱) علل الشرايع ص۶۱،ب۵۴، بحارالانوار ،ج ۱۳ ،ص۲۸۷،ح۴_

۲)علل الشرايع ص۶۱ ،ب۵۴،ح۱،بحارالا نوار جلد۱۳،ص۲۸۷،ح۴_

۵۰۷

امام صادق(ع) سے روايت نقل ہوئي ہے كہ حضرت خضر(ع) اور حضرت موسى (ع) نے ايك ديوار كو پايا جو گرنے والى تھى حضرت خضر(ع) نے اس پراپنا ہاتھ ركھا اور اسے سيدھا كرديا _

۲۱_عن ا بى عبدالله (ع) : ...فوجدافيها جداراً يريد ا ن ينقضّ فا قامه قال : لوشئت لتّخذت عليه ا جراً خبزاً نا كله فقد جُعنا (۱) امام صادق(ع) سے روايت نقل ہوئي ہے كہ ...حضرت خضر(ع) اور موسي(ع) نے اس آبادى ميں ايك ديوار ديكھى كہ جوگرنے والى تھى تو حضرت خضر(ع) نے اسے سيدھا كيا موسي(ع) نے كہا: اگر آپ چاہتے تو اس كام كى اجرت لے ليتے يعنى روٹى لے ليتے تاكہ ہم كھاليں كيونكہ ہم بھوكے ہيں _

ابن سبيل :ابن سبيل كو كھانا كھلانا۶//اجرت :اجرت كے احكام ۱۵،۱۶

انبياء :انبياء كى مادى ضروريات ۷//پستى :پستى كے آثار ۱۷

خضر (ع) :خضر(ع) سے شكوہ ۱۳;خضر(ع) كا سفر ۲; خضر(ع) كا قصہ۱،۲، ۳، ۴ ،۵،۸،۹،۱۰،۱،۲ ۱،۱۳،۱۸،۱۹،۲۰، ۲۱; خضر(ع) كى اہل ناصرہ سے ملاقات ۲خضر(ع) كى بھوك ۳; خضر(ع) كى غذا كيلئے در خواست ۳; خضر(ع) كى غذا كيلئے در خواست كا رد ہونا ۴;خضر(ع) كے ساتھ عہد شكنى ۱۸; خضر(ع) كے قصہ ميں ديوار كى تعمير ۹،۱۰،۱۱،۲۰;خضر(ع) كے قصہ ميں ديوار كى تعمير كى اجرت ۱۲،۱۳،۲۱;خضر(ع) كے قصہ ميں ديوار كى خرابى ۸;خضر(ع) كے قصہ ميں شہر ۲،۵; خضر(ع) كے قصہ ميں شہر والے ۴; ناصرہ ميں خضر(ع) ۱۹

ذمہ دارى :ذمہ دارى كوپورا كرنے كى اہميت ۱۷

روايت :۱۹،۲۰،۲۱//عمل:پسنديدہ عمل ۶

عمل صالح :عمل صالح كى اہميت ۱۷//كام :كام كى اجرت ۱۵،۱۶

كام لينے والے :كام لينے والوں كا كردار ۱۶//مسافرين :مسافرين كى پذيرائي ۶

موسى (ع) :موسي(ع) كا سفر ۲; موسى (ع) كا شكوہ ۱۳،۱۸;موسى (ع) كا قصہ ۱،۲،۳،۴،۵،۸،۹،۱۰ ،۱۱،۱۲، ۱۳ ، ۱۸ ، ۱۹ ، ۲۰،۲۱;موسى كى اہل ناصرہ سے ملاقات ۲۰; مو سى (ع)

____________________

۱) تفسير عياشيج۲ص،۳۳۳،ح۴۷،نوارالثقلين ، ج ۳،ص۲۷۸،ح۱۵۱_

۵۰۸

كى بھوك ۳; موسى (ع) كى عہد شكنى ۱۸; موسي(ع) كى غذا كيلئے در خواست كا رد ہونا ۴; موسي(ع) كى غذا كيلئے در خواست كرنا ۳; موسى (ع) كى طرف سے مہلت مانگے جانے كا قبول كيا جانا ۸; موسى (ع) كے زمانہ ميں كام كى اجرت ۱۴; موسى (ع) ناصرہ ميں ۱۹

ناصرہ :ناصرہ كے رہنے والوں كى خصلتيں ۵

آیت ۷۸

( قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِع عَّلَيْهِ صَبْراً )

بندہ صالح نے كہا كہ يہ ميرے اور تمھارے درميان جدائي كا موقع ہے عنقريب ميں تمھيں ان تمام باتوں كى تاويل بتادوں گا جن پر صبر تم نہيں كرسكے (۷۸)

۱_ حضرت موسي(ع) كى حضرت خضر(ع) سے كيئے ہوئے عہد كى تيسرى با رمخالفت ( اجرت لينے كى بات كرنا )، دونوں كى آپس ميں جدائي شروع ہونے كا باعث بنى _قال لو شئت لتخذت ...قال هذا فراق بينى و بينك

يہ كہ'' ہذا ''كس چيزطرف اشارہ ہے بہت سے احتمالات ہيں ان ميں سے ايك احتمال يہ بھى ہے كہ يہ حضرت موسى (ع) كى بات كى طرف اشارہ ہو يعني''هذا القول سبب فراق بيننا''

۲_ حضرت خضر(ع) كے كاموں كو تحمل كرنے كے حوالے سے حضرت موسى (ع) كى عاجزي، انكے تيسرے سوال اور اعتراض پر ثابت ہوگئي _قال هذا فراق بينى وبينك سا نبّئك بتا ويل ما لم تستطع عليه صبرا

۳_ حضرت خضر(ع) حضرت موسى (ع) كى آخرى غلطى پر ان سے جدا ہونے كيلئے محكم دليل اور قابل قبول عذر ركھتے تھے _قد بلغت من لدنّى عذراً ...قال لوشئت لتخذت عليه أجراً_ قال هذا فراق بينى و بينك

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ پچھلى آيت ميں ''قد بلغت '' كى عبارت''ان سا لتك '' كا نتيجہ ہو _

۴_ حضرت خضر(ع) نے حضرت موسى (ع) كو اطمينان دلا يا كہ جدا ہونے سے پہلے انہيں اپنے عجيب وغريب كاموں كے اسرار سے آگاہ كريں گے_سا نبّئك بتاويل مالم تستطع عليه صبرا

۵_ انبياء اور اولياء كے تحمل اور افعال كى نوعيت آپس ميں مختلف ہوتى ہے _سا لنبّئك بتاويل مالم تستطع عليه صبرا

۶_ حضرت خضر كے ظاہر ى طور پر ناقابلقبول كام ، باطن اور صحيح حقيقت پر مشتمل تھے _

۵۰۹

سا نبّئك بتا ويل مالم تستطع عليه صبرا

''تا ويل '' كى بناء ''ا ول ''يعنى '' پلٹا نا'' ہے آيت ميں '' مآل '' كے معنى ميں ہے يعنى وہ حقائق اور مصلحتيں جن كى بناء پر حضرت خضر(ع) كے كام انجام پائيں تو ضرورى ہے كہ ظاہرى طور پر حضرت خضر كے نا گوار كاموں كو انہى مصلحتوں كى طرف لوٹا يا جائے _

۷_ وہ علم جو حضرت موسى (ع) ، حضرت خضر(ع) سے سيكھنا چاہتے تھے وہ واقعات كى تاويل اورتحليل كا علم اور واقعات كے پس پردہ حقائق كى پہچان، كا علم تھا _هل ا تّبعك على أن تعلّمن ممّا علمت سا نبّئك بتاويل ما لم تسطيع عليه صبرا

۸_ حوادث كے رموز كو جاننے كے علم اوركائنات ميں پيدا ہونے والے مسائل كے حقيقى اسباب كو جاننے كى روش، ايك تجرباتى اور عملى روش ہے_سا نبّئك بتا ويل ما لم تستطع عليه صبرا

۹_ حضرت موسى (ع) حواد ث كى تاويل كے علم كو سيكھنے كى روش پر صبر نہيں كر سكتے تھے _

سا نبّئك بتاويل ما لم تستطع عليه صبرا

۱۰_ حوادث كى تاويل او رتحليل كے علم كو حاصل كرنے اور خضر(ع) جيسے علما ء كيصحبت اختيار كرنے كيلئے حضرت موسى (ع) كے صبر سے زيادہ صبر اور ان سے بڑھ كر قوت وتحمل كى ضرورت ہے _سا نبّئك بتا ويل مالم تستطع عليه صبرا

انبياء :انبياء كا صبر۵;انبياء كے درجات ۵//اولياء الله :اولياء الله كا صبر ۵;اوليا ء الله كے درجات ۵

حوادث:حوادث كى تحليل كے علم كا حصول ۷، حوادث كى تحليلكے علم كوحاصل كرنے كى روش ۸، حوادث كى تحليل كے علم كو حاصل كرنے كى شرائط ۱۰//خضر :خضر(ع) پر اعتراض ۲; خضر(ع) سے سيكھنا ۷;خضر(ع) كا عذر ۳; خضر(ع) كا قصہ ۱،۲،۳،۴; خضر(ع) كى ہم نشينى كى شرائط ۱۰; خضر(ع) كى ہم نشينى ميں صبر ۱۰; خضر(ع) كے ساتھ عہد شكنى ۱;خضر(ع) كے عمل كا راز۴،۶//علماء :علماء كى ہم نشينى كى شرائط ۱۰; علماء كى ہم نشينى ميں صبر ۱۰

موسى (ع) :موسى (ع) اور حوادثكى تحليل كا علم ۹;موسى (ع) اور خضر كى جدائي ۱،۳;موسى (ع) كا اعتراض ۲;موسى (ع) كا عجز ۲; موسى (ع) كا علم غيب ۷ ; موسى (ع) كا قصہ ۱،۲، ۳، ۴; موسى (ع) كى بے صبر ى ۲،۹; موسى (ع) كى خواہشات ۷; موسى (ع) كى عہد شكنى ۱

۵۱۰

آیت ۷۹

( أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَأَرَدتُّ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَاءهُم مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْباً )

يہ كشتى چند مساكين كى تھى جو سمندر ميں باربرداردى كا كام كرتے تھے ميں نے چاہا كہ اسے عيب دار بنادوں كہ ان كے پيچھے ايك بادشاہ تھا جو ہر كشتى كو غصب كرليا كرتا تھا (۷۹)

۱_ كشتى كو عيب دار بنانے سے حضرت خضر(ع) كا مقصد يہ تھا كہ اسے غاصب بادشاہ كے لوٹنے سے نجات دلائي جائے_

أما السفينة ...فا ردت ا ن أعيبها ...يأخذ كلّ سفينة غصبا

اگر چہ يہ كافى تھا كہ حضرت خضر(ع) كہتے كہ ميں نے اسے عيب دار بنايا ليكن انہوں نے كہا ہے كہ ميں نے پختہ ارادہ كيا كہ اسے عيب دار بناؤں تا كہ يہ نكتہ بيان كريں كہ جو كچھ كيا توجہ كے ساتھ اور اسكو غصب سے بچانے كيلئے كيا _

۲_ حضرت خضر(ع) كے ہاتھوں سوراخ ہونے والى كشتى ايكمسكين گروہ كى ملكيت ميں تھى اور انكے حصول رزق كا فقط يہى وسيلہ تھا _فكانت لمساكين يعملون فى البحر

۳_ حضرت موسى (ع) كے زمانہ ميں كشتى اور دريائي حمل ونقل در آمد كے ذارئع تھے _فكانت لمساكين يعملون فى البحر

۴_ قرار دا د كے ساتھ باہم شراكت جائز ہے اور گذشتہ اديان ميں بھى يہ چيز موجود تھى _فكانت لمساكين يعملون فى البحر

۵_ محروم لوگوں كى آخرى حد تك پشت پناہى اور انكے فائدہ كيلئے مخفيانہ كوشش، حضرت خضر(ع) كى ذمہ داريوں ميں سے تھى _فا ردت ا ن اعيبها وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا

۶_كام اور در آمد كا ہونا، محروم لوگوں پر'' مسكين ''كا عنوان ،صادق آنے سے مانع نہيں ہے _وامَّا السفينةفكانت لمساكين

اگرچہ كشتى والوں كے پاس كشتى اور در آمد تھى ليكن ان پر لفظ ''مسكين '' كا اطلاق ہوا ہے لہذا كسى طرح كا كام اور در آمدكانہ ہونا، عنوان ''مسكين '' كے صادق آنے سے تعلق نہيں ركھتا ہے _

۷_ حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) كى داستان كے زمانہ ميں ايك ظالم اور غاصب حكومت موجود تھي_وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا ''ورائ'' ہر پوشيدہ جگہ كو كہتے ميں خواہ وہ سامنے ہى كيوں نہ ہو ( قاموس )اس بناء پر غاصب سلطان، مساكين اور كشتى والوں كے پيچھے لگا ہوا تھا يا ان كے آگے تھا اورانہوں نے دوران سفراس كاسامنا كرنا تھا_

۵۱۱

۸_ حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) كى داستان كے زمانہ ميں ايك بادشاہ، تمام صحيح وسالم كشتيوں كو اس علاقہ ميں قبضہ ميں لے ليتا تھا _وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا

''ا ن اعيبہا '' كے قرينہ سے يہاں '' كل سفينة'' سے مراد ''كل سفينة صالحة'' ( پر صحيح و سالم كشتى )ہے _

۹_ لوگوں كے مال و متاع پر قبضہ كرنا، چاہے حاكموں كى طرف سے ہى كيوں نہ ہو ايك غلط چيز ہے _

وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا

۱۰_ حضرت خضر(ع) اورموسى (ع) كو سوار كرنے والى كشتى كا معيوب ہونا موجب بنا كہ بادشاہ اسے قبضہ ميں لينے سے باز رہا _فا ردت ا ن ا عيبها وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا

۱۱_ ايك بڑے اور يقينى نقصان سے بچانے كيلئے كسى كے مال كو ضرر پہنچانا جائز ہے _

فا ردت ا ن ا عيبها وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا

۱۲_ الله تعالى كے خاص اوليائ، غاصب حاكموں كو ناكام بنانے اور محروم لوگوں كے حقوق كى حفاظت ميں كو شان ہوتے ہيں _فا دت ا ن ا عيبها وكان وراء هم ملك يا خذكل سفينة غصبا

۱۳_ كشتى كے حوالے سے حضرت خضر(ع) كا عمل، اس قانون كا ايك مصداق اورنمونہ ہے كہ جس ميں مہم چيز كے ساتھ ٹكراؤ ميں اہم چيز كو ترجيح دى جاتى ہے_وامَّا السفينة فكانت لمساكين ...يا خذ كل سفينة غصبا

۱۴_ حضرت خضر(ع) بعض پيش آنے والے حادثات سے آگاہ تھے اور انكے مقابلہ ميں احساس ذمہ دارى ركھتے تھے _

وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا

احكام :۴اولياء الله :

۵۱۲

اولياء الله كى ذمہ دارى ۱۲; اولياء الله كى ظلم سے جنگ ۱۲

حمل و نقل :حمل ونقل كى تاريخ ۳

خضر (ع) :خضر(ع) كا ذمہ دارى قبول كرنا۱۴; خضر(ع) كا علم غيب ۱۴; خضر(ع) كى ذمہ دارى ۵;خضر(ع) كا قصہ ۱، ۸،۱۳;خضر(ع) كے زمانہ ميں حكومت ۷;خضر(ع) كے زمانہ ميں كشتيوں كا قبضہ ميں ليا جانا ۸; خضر (ع) كے قصہ ميں بادشاہ كا ظلم ۷،۸;خضر(ع) كے قصہ ميں بادشاہ كا لوٹ مار كرنا ۱;خضر(ع) كے قصہ ميں كشتى كے مالكوں كا فقير ہونا ۲; خضر(ع) كے قصہ ميں كشتى كے مالكوں كا محروم ہونا ۲; خضر(ع) كے قصہ ميں كشتى كے قبضہ ميں ليے جانے سے مانع ۱۰;خضر(ع) كے قصہ ميں كشتى ميں سوارخ كا فلسفہ ۱،۱۳;خضر(ع) كے قصہ ميں كشتى ميں سوارخ كرنے كے آثار ۱۰

شراكت :شراكت كے معاملہ كا جائز ہونا ۴; اديان ميں شراكت كا معاملہ ۴; شراكت كے معاملہ كى تاريخ ۴; شراكت كے معاملہ كے احكام ۴

غصب :غصب كا ناپسنديدہ ہونا ۹

مساكين :مساكين سے مراد ۶;مساكين كا كام ۶; مساكين كى حمايت ۵; مساكين كى در آمد ۶; مساكين كے مال و متاع كى حفاظت ۱۲

معيار :معيار ميں مقابلہ ۱۳

موسى (ع) :موسى (ع) كا قصہ ۸; موسى (ع) كے زمانہ ميں حكومت ۷; موسى (ع) كے زمانہ ميں حمل ونقل كے ذارئع ۳; موسى (ع) كے زمانہ ميں كسب كے زرائع ۳; موسى (ع) كے زمانہ ميں كشتيوں كا غصب ۸; موسى (ع) كے زمانہ ميں كشتى رانى ۳

آیت ۸۰

( وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَن يُرْهِقَهُمَا طُغْيَاناً وَكُفْراً )

اور يہ بچّہ _ اس كے ماں باپ مومن تھے اور مجھے خوف معلوم ہوا كہ بہ بڑا ہوكر اپنى سركشى اور كفر كى بناپر ان پر سختياں كرے گا (۸۰)

۱_ حضرت خضر(ع) كا لڑكے كو قتل كرنے كا مقصد، اسكے والدين كو كفر و طغيان سے بچانا تھا _

۵۱۳

وا مَّا الغلام ...فخشينا أن يرهقهما طغياناً وكفرا

''إرہاق'' سے مراد كسى كو ايسے كام پرآمادہ كرنا كہ جو اسكے ليے انجام دينا انتہائي مشكل و سخت ہو (قاموس )

۲_حضرت خضر (ع) كے ہاتھوں ، قتل ہونے والے نوجوان كے والدين، مؤمن و سر كشى اور نافرمانى سے دور لوگ تھے _فخشينا ا ن يرهقهما طغياناً وكفرا

''طغيان '' بہت زيادہ نافرمانى كى راہ ميں آگے نكل جانا ( مفرادت راغب )

۳_ وہ نوجوان كہ جسے حضرت خضر(ع) نے قتل كيا وہ كا فر تھا_وا مَّا الغلام فكان ا بواه مؤمنين

نوجوان كے والدين كے ساتھ فقط مؤمن كا لفظ آنا بتاتا ہے كہ وہ كا فر تھا اوريہ كہ وہ والدين كو كفر كى طرف مائل كرنے ميں اثر انداز ہو سكتا تھا يہ بھى اسكے كفر كى تائيد كر رہا ہے _

۴_ مقتول نوجوان كے والدين ،اپنے بيٹے كے زندہ رہنے كى صورت ميں اس كے ہاتھوں متاثر ہو كر نہ چاہتے ہوئے بھى سركشى اوركفر كى طرف چلے جاتے _فكان ا بواه مؤمنين فخشينا ا ن يرهقهم

۵_ مؤمنين كے ايما ن كى حفاظت اور انہيں كمزورى اورنابودى سے محفوظ ركھنے كى كوشش كرنا، حضرت خضر(ع) كى ذمہ داريوں ميں سے تھا _فخشينا ا ن يرهقهماطغياناً و كفرا

۶_ ايمان، انتہائي قيمتى گوہر ہے كہ كوئي چيز اسكا مقابلہ نہيں كرسكتى _فكان ا بواه مؤمنين فخشينا ا ن يرهقهما طغياناً وكفر الله تعالى نے والدين كے ايمان كى حفاظت كيلئے انكے عزيز فرزند كوان سے جدا كردياتاكہ انكاايمان محفوظ رہے ايسا ايمان ايك قيمتى متاع ہے كہ جس پر بيٹے كى قربانى آسان ہے _

۷_ الله تعالى كى پوشيدہ حماتيوں كے حامل مؤمنين، كفر اور معصيت سے دور ہيں _فكان ا بواه مؤمنين فخشينا ا ن يرهقهم

۸_ حضرت خضر، الہى احكام پر عمل كرنے والے تھے نہ كہ اپنى ذاتى خواہشات كو پورا كرتے تھے _فخشينا ا ن يرهقهم

''خشينا '' ميں ضمير ''نا '' مندرجہ بالا مطلب پر اشارہ ہوسكتى ہے _ بعد والى آيات ميں جملہ ''وما فعلتہ عن ا مرى '' بھى اسى نكتہ كى وضاحت كررہا ہے _

۹_ اولاد كا صالح نہ ہونا، والدين كے كفر اور سركشى كى طرف ميلان كا باعث ہو سكتا ہے _

فكان ا بواه مؤمنين فخشينا ا ن يرهقهما طغياناً وكفرا

۱۰_ انسان كے جبلى احساسات، اسكے معنوى اور ايمانى ميلانات ميں اہم اثر ركھتے ہيں _

۵۱۴

فكان ا بواه مؤمنين فخشينا ا ن يرهقهما طغياناً وكفرا

حضرت خضر(ع) بيٹے كو والدين سے لے ليتے ہيں تا كہ وہ اپنے فطرى تعلقات اور احساسات كى وجہ سے كفر اور سركشى كى طرف مائل نہ ہوں _ يہ نكتہ بتارہاہے كر ميلانان_ احساسات سے متاثر ہوتے ہيں _

۱۱_كفر اور سر كشيميں اضافہ كے اسباب سے مقابلہ كرنا اور انہيں آگے بڑ ھنےسے رو كنا ضرورى ہے_فخشينا ا ن ير هقهما طغياناً و كفرا اگر چہ حضرت خضر(ع) كا كام غيب اور اسرار سے آگاہ ہونے كى بناء پر تھا ليكن يہ كفر كو بڑھنے سے روكنے اور اسكے سبب كو ختم كرنے كى ضرورت كوبتا رہا ہے _

۱۲_ سر كشى اور الہى حدود سے تجاوز، انسان كے كفر كى طرف مائل ہونے كا باعث ہے _ير هقهما طغياناً و كفرا

احتمال يہ ہے كہ طغيان كو كفر پر مقدم كرنے كى وجہ يہ ہوكہ طغيان ميں مبتلا ء ہونا، كفر كى طرف جانے كى وجہ ہے_

۱۳_ الله تعالى كا والدين كے ايما ن كى حفاظت كرنا ، انكے بچوں كيلئے بعض ناگوار حادثات پيدا ہونے كا باعث ہے _

فكان ا بواه مؤمنين فخشينا ا ن يرهقهما طغياناً وكفرا

۱۴_ مؤمن كا بعض مشكلات اورنقائص ميں مبتلا ہونا اسكے ايمان كے محفو ظ رہنے كا فلسفہ ہے _

فكان ا بواه مؤمنين فخشينا ا ن يرهقهم

احساسات :احساسات كے آثار ۱۰

الله تعالى كى حدود :الله تعالى كى حدود سے تجاوز كرنے كے آثار ۱۲

الله تعالى كى حمايتيں :الله تعالى كى حمايتوں كے شامل حال لوگ ۷الله تعالى كے كام كرنے والے :۸

اقدار:۶

ايمان :ايمان كا باعث ۱۰;ايمان كى قدرو قيمت ۶

خضر (ع) :خضر(ع) كا كردار ۸; خضر(ع) كا كفر سے مقابلہ كرنا ۱;خضر(ع) كا قصہ ۱،۴;خضر(ع) كى ذمہ دارى ۵; خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كا كفر ۳; خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كا كردار ۴;خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كے قتل كا فلسفہ ۱;خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كے والدين كا ايمان ۲;خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كے والدين ۱،۴; خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كے والدين كا مطيع ہونا ۲

سركشى :سر كشى سے مقابلہ كرنے كى اہميت ۱۱; سركشى كا پيش خيمہ ۹ ;سر كشى كے آثار ۱۲

۵۱۵

فرزند :خراب فرزند كا كردار ۹;فرزند كى مشكلات كا باعث ۱۳

كفر :كفر سے مقابلہ كرنے كى اہميت ۱۱; كفر كا پيش خيمہ ۹،۱۲

مؤمنين :مؤمنين اور كفر ۷; مؤمنين اورگناہ ۷; مؤمنين كا محفوظ ہونا ۷،۱۴;مؤمنين كى حمايت۵; مؤمنين كے امتحان كا فلسفہ ۱۴; مؤمنين كے فضائل۷

ميلانات :معنوى ميلانات كا باعث ۱۰

والدين :والدين كے ايمان كى حفاظت ۱۳

آیت ۸۱

( فَأَرَدْنَا أَن يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْراً مِّنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْماً )

تو ميں نے چاہا كہ ان كا پرورگار انھيں اس كے بدلے ايسا فرزند ديدے جو پاكيزگى ميں اس سے بہتر ہو اور صلہ رحم ميں بھى (۸۱)

۱_ نوجوان كو قتل كرنے سے حضرت خضر(ع) كا مقصد اسكے والدين كيلئے پرہيز گار اور مہربان بيٹے كو حاصل كرنے كى فضاتيار كرنا تھا _فا ردنا ا ن يبدلهما ربّهما خيراً منه ذكوة وا قرب رحما

آيت ميں ''زكاة'' سے مراد طہارت اور گناہوں سے پاكيزگى ہے ''رحم'' اور ''رحمت'' كا ايك معنى ہے_ اگر چہ حضرت خضر نے اپنى اس كلام ميں مقتول نوجوان كيلئے پاكيزگى اور مہربان ہونے كا انكار نہيں كيا ليكن ممكن ہے حضرت موسى (ع) كى بات سے متناسب كہ انہوں نے مقتول نوجوان كو ''نفس ذكيہ '' كا عنوان ديا اپنى كلام كو انہوں نے اسم تفضيل كے قالب مين بيان كيا تھے ليكن حقيقت ميں مقتول نوجوان رحمت و پاكيزگى سے عارى تھا يااس كا انجام آخر گناہ اور بے رحمى تھا_

۲_ حضرت خضر (ع) اور انكے مانند دوسرے لوگ، الله تعالى كے ارادہ كو عملى جامہ پہنانے والے ہيں _

فا ردنا أن يبد لهما ربّهم ''أردنا '' والى كلام ميں اگر چہ كہنے والے صرف حضرت خضر(ع) تھے _ ليكن ضمير، جمع كى لائي گئي ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت خضر(ع) چاہتے تھے يہ نكتہ سمجھا ئيں كہ وہ اس عزم ميں تنہا نہيں تھے بلكہ انكے كام كے پيچھے الہى ارادہ كا ر فرما تھا دو سرے طرف ''ربّ'' كو ''يبدل '' كيلئے فاعل ذكر كيا تا كہ اس واقعہ كے حقيقى كردار كو واضح كريں اور اپنے ارادہ كو الله تعالى كے ارادہ كے تحت ہونے كو بيان كريں _

۵۱۶

۳_ غير صالح فرزند كواٹھا كر اسكى جگہ صالح فرزند عطا كرنا ،مؤمن والدين كيلئے الله تعالى كى ربوبيت كا ايك جلوہ ہے _

يبد لهما ربّهما خيراً منه

۴_ صالح اور مہربان فرزند كى عطا، ايك الہى نعمت ہے _يبد لهما ربّهما خيراً منه زكوة وا قرب رحما

۵_ بعض مصيبتوں اورناگوار حادثات ميں مؤمن كيلئے مصلحت اور خير ہوتى ہے _

وا مّا الغلام ...فا ردنا ا ن يبد لهما ربّهما خيراً منه زكوة وا قرب رحما

۶_ ايك شائستہ فرزند كى خصوصيات ميں سے اسكا پاك و صالح اور والدين كى نسبت بہت محبت كرنے والاہونا ہے _

يبد لهما ربّهما خيراً منه زكوة وا قرب رحما

۷_ الله تعالي، مؤمن كا پشت پناہ اور اسكى خيرو مصلحت كافيصلہ كرنے والا ہے _

فكان ا بواه مؤمنين ...فا ردنا أن يبد لهما ربّهما خيراً منه زكوة

۸_عن أبى عبدالله (ع) فى قول الله :''فا ردنا أن يبد لهما ربّهما خيراً منه ...''قال ا نه ولدت لهما جاريةفولدت غلاماً فكان نبياً (۱) امام صادق (ع) ، الله تعالى كى اس كلام ''فا ردنا أن يبدلہما ربّہما خيراً منہ ...''كے بارے ميں فرماتے ہيں كہ بے شك مقتول كے والدين كے ہاں ايك بيٹى پيدا ہوئي اور اس بيٹى سے ايك بيٹا پيدا ہوا كہ جو مقام نبوت پر فائز ہوا _

۹_عن ا بى عبدالله (ع): ...''فى قول الله عزوجل : فا ردنا أن يبد لهما ربّهما خيراً منه زكاة وا قرب رحماً '': ا بدلهما الله به جارية ولدت سبعين نبيا ...'' (۲)

امام صادق عليہ السلام سے الله تعالى كى اس كلام''فأردنا أن يبد لهما ربّهما خيرا ً منه زكوة'' كے بار ے ميں روايت ہوئي كہ الله تعالى نے مقتول كے والدين كو اسكى جگہ ايك بيٹى عطا كى جس كى نسل سے ستر انبياء پيدا ہوئے ...''

الله تعالى :الله تعالى كى خير خواہى ۷; الله تعالى كى ربوبيت كى علامات ۳; الله تعالى كى نعمات ۴;اللہ تعالى كے ارادہ كے تحت چلنے والے ۲//الله تعالى كى پشتى پناہى :الله تعالى كى پشت پناہى كے شامل حال لوگ ۷

انبياء :انبياء كا كردار ۲

خضر (ع) :خضر(ع) كا كردار ۲;خضر(ع) كا قصہ ۱،۸،۹; خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كے قتل كا فلسفہ ۱; خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كے والدين ۱;خضر(ع) كے قصہ ميں نوجوان كے والدين كى نسل ۸،۹

____________________

۱)تفسير عياشى ج۲ ، ص۳۳۶، ح۵۹، نورالثقلين ج۳ ، ص۲۸۶، ح۱۷۰_۲) كافى ج۶ ،ص۷ ،ح۱۱،نورالثقلين ج۳ ، ص۲۸۶، ح ۱۷۴_

۵۱۷

روايت :۸،۹

فرزند :صالح فرزند كا پاك ہونا ۶; صالح فرزند كا جگہ لينا ۳; صالح فرزند كى صفات۶; صالح فرزند كي

مہربانى ۶; فاسد فرزند كى ہلاكت ۳

مصيبتں :مصيبتوں كا خير ہونا ۵; مصيبتوں كا فلسفہ ۵

مؤمنين :مؤمنين كا پشت پناہ ۷;مؤمنين كى مصلحتيں ۵، ۷; مؤمنين كيلئے خيرخواہ ہونا ۷

نعمت :صالح فرزند كى نعمت ۴; مہربان فرزند كى نعمت ۴

والدين :والدين كے ساتھ مہربانى ۶

آیت ۸۲

( وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنزٌ لَّهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحاً فَأَرَادَ رَبُّكَ أَنْ يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنزَهُمَا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ذَلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِع عَّلَيْهِ صَبْراً )

اور يہ ديوار شہر كے در يتيم بچّوں كى تھى اور اس كے نيچے ان كا خزانہ دفن تھا اور ان كا باپ ايك نيك بندہ تھا تو آپ كے پروردگار نے چاہا كہ يہ دونوں طاقت و توانائي كى عمر تك پہنچ جائيں اوراپنے خزانے كو نكال ليں _ يہ سب آپ كے پروردگار كى رحمت ہے اور ميں نے اپنى طرف س كچھ نہيں كيا ہے اور يہ ان باتوں كى تاويل ہے جن پر آپ صبر نہيں كرسكے ہيں (۸۲)

۱_ حضرت خضر(ع) نے حضرت موسى (ع) كيلئے پرانى ديوار كو تعمير كرنے كى وجہ بيان كى _وا مَّا الجدار ...ما فعلته عن أمري

۲_ حضرت خضر(ع) كے ہاتھوں ، تعمير ہونے والى ديوار دو يتيم لڑكو ں كى ملكيت ميں تھى _وا مَّإلجدار فكان لغلمين يتيمين

۳_ باوجود اسكے كہ ديوار كے مالك اس آبادى ميں نہيں تھے حضرت خضر(ع) نے ديوار كى تعمير كى _

فكان لغلمين يتيمين فى المدينة

يہ احتمال بے كہ اس آيت ميں پچھلى آيات كى مانند ''القرى ة '' آنے كى بجائے ''المدينہ '' آنا شايد اس جہت كيلئے ہو كہ وہ دونوں يتيم لڑكے اس آبادى ميں نہيں تھے بلكہ كسى اور شہر ميں تھے اور وہ شہر جيسا كہ '' المدينہ '' الف و لام سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت خضر(ع) اور موسى (ع) كيلئے جانا پہچانا تھا _

۵۱۸

۴_ديوار كو تعمير كرنے سے حضرت خضر(ع) كا مقصد يہ تھا كہ شہرميں رہنے والے دونوں لڑكوں كا خزانہ اسكے نيچے محفوظ رہے _وا مَّا الجدار فكان لغلمين يتيمين فى المدينه وكان تحته كنزلهم

۵_ حضرت خضر(ع) ديوار كے مالكوں كے والد كے بارے ميں جانتے تھے اوراسكى زندگى كى اچھائيوں اوراعمال صالح سے با خبر تھے _وكان ا بوهما صلح

۶_ باپ كا صالح ہونا، حضرت خضر كے ان يتيم بچوں كےمفادات كى حمايت كرنے كا سبب بنا _وا مَّا الجدار فكان لغلامين يتيمين ...وكان أبوهماصالح جملہ '' وكان أبوہما صالحاً'' ديواركو تعمير كرنے كى علت ہے_

۷_ يتيموں كے باپ كا نيك اور صالح ہونا،ان دونوں كا بڑ ے ہوكر اپنے پوشيدہ خزانے كو پانے كے الہى ارادے كا سرچشمہ تھا_و كان أبوهما صالحا ً فا راد ربّك أن يبلغاً أشدّ هما و يستخرجا كنزهم

كلمہ ''اشد'' جمع كے ہم وزن مفرد ہے يا ايسى جمع ہے كہ جسكا مفرد نہيں ہے اسميں اہل لغت كا اختلاف ہے بعض اسے ''شدة'' كى جمع سمجھتے ہيں (لسان العرب) بہر صورت اس سے مراد ، جسمانى اور عقلى بلوغ اور استحكام ہے _

۸_ صالح افرادكے بچوں كے ساتھ انكے والدين كى اچھائي كى بناء پر مناسب رويہ ضرورى ہے _

و كان ا بوهماصالحاً فا رادربّك

۹_ باپ كا صالح اور شائستہ ہونا، بچوں كے سعادت مند اور نيك بخت ہونے ميں مو ثر ہے _

كان ا بوهما صالحاً فا راد ربّك أن يبلغاً ا شدهما ويستخرجا كنزهم

۱۰_صالح افراداور انكے بچوں كے مفادات كى حفاظت ميں اللہ تعالى كے غيبى اسباب، دخالت ركھتے ہيں _

فا راد ربّك أن يبلغا أ شدّ هما ويستخرجا كنزهمارحمةمن ربّك

ديوار كى تعمير اور يتيموں كے مفادات كى حفاظت اگرچہ ايك خاص واقعہ ہے ليكن آيت ميں عمومى پيغام ہے اوروہ يہ كہ والدين كے اعمال صالحہ كى بناء پر بچوں كے مفادات كى بھى حفاظت ہوگى _

۱۱_ضرورت مند بچوں كے مستقبل كى خاطر كچھ مال و متاع، بچا كر ركھنا ايك شائستہ كام ہے _

وكان تحته كنزلهماوكان أبوهماصالحا

اس مطلب ميں فرض يہ ہوا ہے كہ يتيموں كے باپ نے اپنے بچوں كے مستقبل كى خاطر كچھ مال ديوار كے نيچے چھپا ياہے اسكے صالح ہونے كے اعتبار سے تعريف، يہ نكتہ دے رہى ہے كہ اسكى دور انديشى بھى بہت مناسب تھى اور حضرت

۵۱۹

خضر(ع) كا اس پوشيدہ خزانے كى حفاظت كرنا اوراس واقعہ كى خصوصيات كا قران ميں آنا اس شخص كى اچھى تدبير سے حكايت كررہاہے _

۱۲_استحكام اور عقلى بلوغ، اموال ميں تصرف كے جائز ہونے كى شرط ہے _فا راد ربّك ا ن يبلغا ا شدّهما ويستخرجا كنزهم

۱۳_اللہ تعالى كى طرف سے صالح باپ كے يتيم بچوں كى پشت پناہى اور انكے اموال كى حفاظت، اسكى رحمت وربوبيت كا ايك جلوہ تھى _فا رادربّك رحمة من ربّك '' رحمة''فعل ''ا راد'' كيلئے مفعول لہ ہے يعنى يتيم بچوں كے خزانے كے باقى رہنے كے سلسلہ الله تعالى كا ارادہ، اسكى رحمت كى بناء پر تھا_

۱۴_يتيموں اورصالح افراد كے لواحقين كى مددكرنا اور انكے اموال كى حفاظت، الله تعالى كے نزديك پسنديدہ كام ہے _

فا رادربّك ...رحمة من ربّك

۱۵_ الله تعالى كى رحمت، اسكى ربوبيت كا جلوہ ہے _رحمة من ربّك

۱۶_ حضرت خضر(ع) نے حضر ت موسى (ع) كو وسيع الہى تدبير كى طرف توجہ كرتے ہوئے، يتيموں كے اموال كى حفاظت كا سرچشمہ الله تعالى كى وسيع ربوبيت كوقرار ديا_فا راد ربّك

حضر ت خضر(ع) نے '' ربّ'' كوضمير خطاب كى طرف (ربّك) مضاف كرتے ہوئے حضرت موسى (ع) كے ليے يہ نكتہ بيان كيا كہ اگرچہ ديوار كى تعمير نے آپكوغذا فراہم كرنے اور جسمانى تربيت ميں كوئي مدد نہيں كى ليكن آپكا مالك ومدبر ، يتيموں كا مالك و مدبر بھى ہے _

۱۷_حضرت خضر(ع) نے سب عجيب وغريب كام، الله تعالى كے حكم كى بناء پر انجام ديئےن ميں انكى كوئي ذاتى رائے شامل نہيں تھى _رحمة من ربّك وما فعلته عن ا مري

''مافعلتہ'' ميں مفعول كى ضمير ،آيت كے ذيل كے قرينہ كى مددسے ان تمام كا موں كے جامع كى طرف لوٹ جاتى ہے مثلاً'' جوكچھ تونے ديكھا'' ''ياوہ جوميں نے انجام ديا''_

۱۸_حضرت خضر(ع) ، الله تعالى كے فرمان كے سامنے سرتسليم خم كيے ہوئے تھے _رحمة من ربّك وما فعلته عن ا مري حضرت خضر(ع) نے موسي(ع) كوقانع كرنے كيلئے اپنے تمام كاموں كواللہ تعالى كے فرمان كى طرف نسبت دى _

۱۹_اللہ تعالى اپنے ارادہ كو پايہ تكميل تك پہنچا نے اور اس كودائر ہ عمل ميں لانے كيلئے اسباب وعلل سے كام ليتاہے

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

اقدار :اقدار معنوى كا بر ترہونا ۲;اقدار معنوى كا جاودانہ ہونا ۱،۲;اقدار معنوى كاملاك۸;

الله تعالى :الله تعالى كى برترين جزائيں ۲;الله تعالى كى جزاو ں كاسبب۷;الله تعالى كى جزاو ں كى جاودانيت ۱،۲;الله تعالى كے فضل كا سبب۱۰;

جزا:جزا كے اسباب ۶;جزاكے مراتب;۴

سختى :سختى كے آثار ۸

سعادت :اخروى سعادت كا سرچشمہ ۱۰;سعادت كے عوامل ۹

صبر:صبر كى اہميّت۸;صبركے آثار ۷،۸،۹

صبر كرنے والے افراد:صبر كرنے والوں پر لطف وكرم ۵;صبركرنے والوں كا پسنديدہ عمل ۳;صبر كرنے والوں كى پاداش۳;صبركرنے والوں كے مقامات۵

عہد :عہد سے وفا كے آثار ۶

عمل :پسنديدہ عمل كى پاداش ۴;پسنديدہ عمل كے مراتب۴;عمل كى قدروقيمت۸;عمل كے آثار۱۰

لطف خدا:لطف خدا كے شامل حال افراد۵

مادى امكانات :مادى امكانات سے اعراض كا سبب ۷;مادى امكانات كى ناپائيداري۱

معنوى مقامات:معنوى مقامات كے اسباب۹،۱۰

۵۸۱

آیت ۹۷

( مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ )

جو شخص بھى نيك عمل كرے گا وہ مرد ہو يا عورت بشرطيكہ صاحب ايمان ہو ہم اسے پاكيزہ حيات عطا كريں گے اور انھيں ان اعمال سے بہتر جزا ديں گے جو وہ زندگى ميں انجام دے رہے تھے _

۱_خدا كى بارگاہ ميں عمل صالح كى اہميّت، ايمان كے ساتھ مشروط ہے _من عمل صالحاًوهومؤمن

۲_الہى پاداش سے بہرہ مند ہونے اورپاكيزہ وپسنديدہ حيات سے مستفيد ہونے ميں مرد وعورت برابر ہيں _

من عمل صالحاًمن ذكر وانثى وهومؤمن فلنحيينّه حياةًطيّبهً

۳_انسان كا پاكيزہ اور خوشحال زندگى كا حصول، ايسے عمل صالح كا مرہون منت ہے جس كا سرچشمہ ايمان ہو_

من عمل صالحا ًوهومؤمنٌفلنحيينّه حياةًطيبةً

۴_انسان كے ليے كمال اور برترين حيات تك رسائي كے ليے ايمان اور عمل صالح دو اہم سبب ہيں _

من عمل صالحاًوهومؤمن ٌفلنحيينّه حياةطيبةً

''فلنحيينّه حياةطيبةً'' جملہ سے مراد، معنوى زندگى ہے چونكہ يہ واضح سى بات ہے جو لوگ عمل صالح انجام ديتے ہيں ان كے پاس مادى زندگى ہے اور معنوى حيات سے مراد، وجود كا كمال و رشد وبلندى ہے _

۵_انسان كى دنيوى زندگى كى سلامتى اور پسنديدہ ہونے

۵۸۲

ميں ايمان اور عمل مو ثر ہيں _من عمل صالحا ًوهومؤمن فلنحيينّه حياةطيبةً

مذكورہ بالاتفسير اس نكتہ پر موقوف ہے كہ '' حياة طيبةً'' سے مراد، يہى دنيوى زندگى ہو_

۶_حقيقى اور قابل قدر زندگى ايسى زندگى ہے جو ايمان اور عمل صالح كے ساتھ ہو_من عمل وهومؤمنٌفلنحيينّه حياةً طيبةً

مذكورہ تفسير دو نكات پر موقوف ہے (الف)اس بناء پر كہ '' حياةً طيبةً'' سے مراد، دنيوى زندگى ہو (ب)دنيوى زندگى ميں مؤمن اورنيك كردار لوگوں كا زندہ ہونا اس مطلب كى طرف اشارہ ہوكہ زندگى ايمان كے بغير در حقيقت انسان كے ليے شائستہ اور اس كى شان كے خلاف ہے اور حقيقى زندگى ايمان اور عمل صالح ہے_

۷_خداوند عالم نيك كردار مؤمنين كو ان كے بہترين عمل كى بنا ء پر پاداش عطا كرنے والا ہے _

من عمل صالحاً ...وهو مؤمن لنجز ينهّم ا جر هم باحسن ما كانوا يعملون

۸_سعادت اور اخروى پاداش تك رسائي ميں عمل صالح كا اساسى اوربنيادى كردار ہے_

من عمل صالحاً وهو مؤمن ...لنجز ينّهم اجر هم باحسن ما كانوا يعملون

مذكورہ تفسير اس بناء پر ہے كہ آيت كى ابتداء ميں عمل كا موثرہونا، ايمان كے ساتھ مشروط ہے_

(ومن عمل صالحاً ...وهو مؤمن ) در حالانكہ آيت كے آخر ميں اخروى پاداش كو فقط عمل كے ساتھ مربوط قرار ديا گيا ہے اور ايمان كے بارے ميں گفتگو نہيں كى گئي_

۹_''عن النبى صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فى قوله تعالى ''فلنحيينه حياة طيبةّ'' قال : انّها القنا عة والرضا بما قسم الله (۱)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خداوند عالم كے اس قول ''فلنجينّہ حياة طيبة'' كے بارے ميں روايت نقل ہوئي ہے كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا : بے شك حيات طيبہ يہ ہے كہ خداوند عالم نے جو چيز تقسيم كى ہے اس پر قانع اور راضى ہوجائيں _

اقدار:اقدار كا ملاك۱،۶

الله تعالي:الله تعالى كى جزائيں ۷; الله تعالى كے افعال۷; الله تعالى كے مقررات پر راضى ہونا ۹

ايمان:ايمان كے آثار ۱،۳،۴،۵

____________________

۱)مجمع البيان ،ج۶،ص۵۹۳،نورالثقلين ،ج۳، ص۸۴ ، ح۲۰۶_

۵۸۳

پاداش:اخروى پاداش كے اسباب ۸; پاداش سے استفادہ ۲; پاداش كے اسباب۷

تكامل:تكامل كے اسباب۴

حيات:حيات طيبہّ سے مراد ۹

زندگي:پاكيزہ زندگى كا سبب۳; زندگى ميں ايمان ۶; زندگى ميں عمل صالح ۶; سلامت زندگى كے اسباب۵; قابل قدر زندگي۶

روايت:۹

سعادت:سعادت كے عوامل۸

عورت:عورت كى پاكيزہ زندگى ۲;مرد و عورت كا مساوى ہونا ۲

عمل صالح:عمل صالح كى قدر وقيمت كے شرائط ۱; عمل صالح كے آثار ۳،۴،۵،۸

قناعت:قناعت كى اہميت ۹

مرد:مرد كى پاكيزہ زندگي۲

معنوى مقامات:معنوى مقامات كے اسباب ۴

آیت ۹۸

( فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ )

لہذا جب آپ قرآن پڑھيں تو شيطان رجيم كے مقابلہ كے لئے اللہ سے پناہ طلب كريں _

۱_ قرآن كى تلاوت كے وقت شيطان كے شر سے خداوند عالم كى پناہ لينا ضرورى ہے_

۵۸۴

فإذا قرا ت القرآن فاستعذ باللّه من الشيطان الرجيم

۲_ شيطان كے شر سے محفوظ رہنے ميں استعاذہ اور خدا كى پناہ موثر ہے_فاستعذ با للّه من الشيطان الرجيم

۳_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نزول وحى كے ابتدائي مراحل ميں قرآن ،اسلام كى آسمانى كتاب كے ناموں سے متعارف تھا_

فإذا قرآت القرآن

۴_ تلاوت قرآن كے وقت انسان، شيطان كے حملہ و غضب كے خطرہ سے دوچار ہوتا ہے _فإذا قرا ت القرآن فاستعذ

۵_ شيطان، قرآن كى تلاوت اور انسان كا اس كى تعليمات سے آگاہ ہونے كے مخالف ہے_

فإذا قرا ت القرآن فاستعذ باالله من الشيطان الرجيم

شيطان كے شر سے انسان كى خداوند عالم كى پناہ لينا اس چيز كو بيان كررہا ہے كہ شيطان تلاوت قرآن اور اس سے آشنائي سے خوش نہيں ہے قابل ذكر ہے كہ بعد والى آيت جو كہ شيطان كے تسلط اور مؤمنين كے اس تسلط سے محفوظ رہنے كے بارے ميں ہے اس مطلب پر موّيد ہے_

۶_ شيطان ، بارگاہ الہى سے دھتكار ا ہوا ہے_من الشيطان الرجيم

۷_ بارگاہ الہيّہ سے شيطان كا دھتكار ا جانا اس بات كا سبب ہے كہ وہ انسان كے ليے شر پيدا كرتا ہے اور اس كے شر سے خدا كى پناہ لينے كے ضرورى ہونے كا فلسفہ بھى يہى ہے _فاستعذ باللّه من الشيطان الرجيم

۸_ شيطان كى ''رجيم'' كے ساتھ توصيف ، ممكن ہے علّت كو بيان كرنے كى طرف اشارہ اور پناہ لينے كے لزوم كا فلسفہ ہو_

۹_ تلاوت قرآن، عمل صالح اور خاص اہميت كى حامل ہے_من عمل صالحاً ...فاذا قرا ت القرآن فاستعذ

مذكورہ تفسير ما قبل آيت جو عمومى صورت ميں عمل صالح كے بارے ميں تھى اور مذكورہ آيت كہ جو ايك باعظمت عمل (تلاوت قرآن) كے بارے ميں ہے كے با ہمى ربط كى بناء پر ہے_

۱۰_انسان ہر نيك عمل ميں شيطان كے حملہ و وسوسہ سے دوچار اورخداوند عالم كى پناہ لينے كا محتاج ہے _

من عمل صالحاً ...فاذا قرا ت القرآن فاستعذبالله من الشيطن الرجيم

مذكورہ مطلب اس احتمال كى بناء پر ہے كہ تلاوت قرآن عمل صالح كے ايك نمونہ كے عنوان سے

۵۸۵

ذكر ہو كہ ما قبل آيت ميں اس كے بارے ميں گفتگو ہوئي تھى _

۱۱_ تمام انسان حتى كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھى شيطان كے شرسے خدا كى پناہ لينے كے محتاج ہيں _

فاذا قرا ت القرآن فاستعذ بالله من الشيطان الرجيم

۱۲_''عن ابى جعفر عليه‌السلام قال: فاذا قرا ت بسم الله الرحمن الرحيم فلا تبالى الا تستعيذ ...امام باقرعليه‌السلام سے روايت نقل ہوئي ہے كہ آپ نے فرمايا : جس وقت بھى تم''بسم الله الرحمن الرحيم'' كى تلاوت كرو تو ضرور استعاذہ''اعوذ بسم الله من الشيطان الرجيم '' بھى كہو_

۱۳_عن سماعة عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قول الله : ''واذا قرا ت القرآن فاستعذبالله من الشيطن الرجيم ''قلت كيف اقول قال: تقول : استعيذ بالله السميع العليم من الشيطن الرجيم و قال :انّ الرجيم ا خبث الشيّاطين (۱) سماعة كہتے ہيں كہ ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے خداوند عالم كے اس قول''واذا قرا ت القرآن فاستعذ بالله من الشيطان الرجيم'' كے بارے ميں سوال كيا كہ ہم كس طرح پڑھيں توحضرت نے فرمايا كہ اس طرح كہو ''استعيذ باالله السميع العليم من الشيطان الرجيم'' ''رجيم'' خبيث ترين شيطان ہے _

۱۴_''عن على بن محمد العسكرى عليه‌السلام يقول : معنى الرجيم انه مرجوم باللعن مطرود من مواضع الخير لا يذكره مؤمن الا لعنه و ان فى علم الله السابق انه إذا خَرَجَ القائم عليه‌السلام لا يبغى مؤمن فى زمانه الا رجمه بالحجاره كما كان قبل ذلك مرجوماً باللعن (۲) امام ہاديعليه‌السلام سے ''رجيم'' كے بارے ميں روايت نقل ہوئي ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ اس ''شيطان'' كو لعنت كے ساتھ رجم اور خير كے دروازے نكالاا اور دھتكارا گياہے مؤمن جب بھى اس كو ياد كرتا ہے تو اس پر لعنت بھيجتا ہے چونكہ علم الہى ميں يہ واضح تھا كہ جب حضرت قائم آل محمدعليه‌السلام خروج فرمائيں گے تو اس وقت ہر مؤمن شيطان كو پتھر كے ساتھ رجم كرے گا جيسا كہ وہ اس سے پہلے لعنت كے ذريعہ رجم ہوا تھا _

استعاذہ:

____________________

۱) عياشى ، ج ۲، ص۲۷۰ ، ح۶۷، نورالثقلين ، ج۳، ص ۸۵ ، ح۲۲۵ _

۲) معانى الاخبار ، ص۱۳۹، ح۱، نورالثقلين ، ح۳ ، ص۸۵ ، ح۲۲۷_

۵۸۶

استعاذہ كى كيفيت ۱۲;الله تعالى كى پناہ ميں جانا ۱،۹،۱۰،۱۱; الله تعالى كى پناہ ميں جانے كا فلسفہ ۷;الله تعالى كى پناہ ميں جانے كى اہميت ۱۰; الله تعالى كى پنا ہ ميں جانے كے آثار ۲; تلاوت قرآن مجيد ميں استعاذہ ۱،۱۲; شيطان سے استعاذہ ۱، ۱۰ ، ۱۱ ،۱۲; شيطان سے استعاذہ كا فلسفہ ۷

انسان:انسان كى معنوى ضروريات ۹،۱۰

بسم الله :بسم الله كے آثار ۱۱

حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى معنوى ضروريات ۱۰

خدا كے دھتكارے ہوئے :۶،۱۳

روايت:۱۱،۱۲،۱۳

شيطان:شيطان پر لعنت ۱۳; شيطان سے محفوظ رہنے كا زمينہ ۲; شيطان كا دھتكار اجانا ۶،۱۳;شيطان كى دشمنى ۴،۵; شيطان كى شرارت كے اسباب۷; شيطان كے دھتكار ے جانے كے آثار ۷; شيطان كے غضب شدہ ۴; شيطان كے وسوسہ ڈالنے كازمينہ ۹

عمل صالح:عمل صالح كے آثار ۹

قرآن:قرآن كى تلاوت كى اہميت ۸; قرآن كى تلاوت كے آداب ۱; قرآن كى تلاوت ميں استعاذہ ۱،۱۲; قرآن كے اسماء گرامى ; قرآن كے دشمن ۵; قرآن كے قاريوں كے دشمن ۴،۵

آیت ۹۹

( إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُواْ وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ )

شيطان ہرگز ان لوگوں پر غلبہ نہيں پاسكتا جو صاحبان ايمان ہيں اور جن كا اللہ پر توكل اور اعتماد ہے _

۱_ خدا پر توكل كرنےوالے مؤمنين پر شيطان ہر قسم كے تسلط سے عاجز ہے_

۵۸۷

الشيطان الرجيم انه ليس له سلطان على الذين امنوا و على ربهم يتوكلّون

لفظ ''سلطان'' چونكہ ''تنوين'' كے ساتھ اورحرف نفى كے بعد آيا ہے لہذا مطلق نفى پر دلالت كر رہا ہے _

۲_ خدا پرتوكل كے ساتھ ايمان ، انسان پر شيطان كے ہر قسم كے تسلّط كے ليے ركاوٹ ہے _

انه ليس له سلطان على الذين ء امنوا و على ربّهم يتوكّلون

۳_ فقط ، خداوند عالم پرتوكل كرنے والے مؤمنين ،شيطان كے تسلط سے امان ميں ہيں _

انه ليس له سلطان على الذين ء امنوا وعلى ربّهم يتوكلّون

مذكورہ تفسير اس بات كوملحوظ خاطر ركھتے ہوئے ہے كہ آيت تمام انسانوں كى نسبت شيطان كے كردار كو بيان كرنے كے مقام پر ہے اور متوكلّ مؤمنين كو جملہ وصفيہ كى صورت ميں استثنا ،كرنا حصر پر دليل ہے_قابل ذكر ہے كہ بعد والى آيت''انمّا سلطانه على الذين يتولونه ...'' اسى مطلب پر مويد ہے_

۴_ خداوند عالم كى پناہ طلب كرنا، اس پر ايك قسم كا توكل كرنا اور شيطان كے تسلط سے ركاوٹ ہے_

فاستعذ بالله من الشيطن الرجيم _ انه ليس له سلطان على الذين ء امنوا و على ربّهم يتوكّلون

مذكورہ تفسير كا جملہ''انّه ليس له سلطان على الذين ...يتوكلون'' ''فاستعذ بالله '' كے ليے علت ہے سے استفادہ ہوتا ہے_

۵_ خداوند عالم پر توكل اور بھروسہ كرنے سے غافل مؤمنين، شيطانى تسلّط سے دوچار ہونے كے خطرے ميں ہيں _

انّه ليس له سلطان على الذين و امنوا وعلى ربّهم يتوكّلون

شيطان كے تسلط سے محفوظ رہنے كى بنياد دو اصول پر ہے (۱) ايمان(۲) پرودگار عالم پر توكّل اس بناء پر اگر ايمان ہو ليكن توكّل نہ ہو تو مكمل طور پر تحفظ حاصل نہيں ہوگا_

۶_ انسان ، شيطانى وسوسوں اور ساز شوں كے مقابل ميں خود مختار اور اس كى مخالفت پر قادر ہے _

انّه ليس له سلطان على الذين ء امنوا وعلى ربّهم يتوكّلون

۷_ خداوند عالم كى ربوبيت كا تقاضا ہے كہ اس كى ذات پر توكل كيا جائے _وعلى ربّهم يتوكلون

۸_''ابو بصير عن ابى عبدالله عليه‌السلام قال : قلت له: ''فاذا قرا ت القرآن فاستعذ بالله من الشيطان الرجيم انه ليس له سلطان على الذين امنوا وعلى ربّهم يتوكلون؟ فقال :

۵۸۸

يا ا با محمد يسلطّ والله من المؤمن على بدنه ولا يسلط على دينه (۱)

حضرت ابوبصير كہتے ہيں كہ ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے خداوند عالم كے اس قول''فاذا قرا ت القرآن فاستعذ باالله من الشيطان الرجيم انّه ليس له سلطان على الذين آمنوا و على ربّهم يتوكلون '' كے بارے ميں سوال كيا تو آپعليه‌السلام فرمايا كہ اے ابو محمد خدا كى قسم شيطان، مؤمن كے بدن پر مسلّط ہوگا ليكن اس كے دين پر مسلّط نہيں ہوگا

استعاذہ:الله تعالى كى پناہ ميں جانے كے آثار ۴

الله تعالي:الله تعالى كى ربوبيت كے آثار ۷

انسان:انسان كا اختيار ۶; انسان كى قدرت ۶

ايمان:ايمان كے آثار ۲

توكل:توكل كا زمينہ ۷; توكل كے آثار ۲; توكل كے موارد۴

روايت:۸

شيطان:شيطان سے محفوظ رہنا ۱،۳،۸; شيطان كا عجز ۱; شيطان كى سازش كو دفع كرنے كا ممكن ہونا ۶; شيطان كے تسلّط كا زمينہ ۵; شيطان كے تسلط كى حدود ۱،۳،۸; شيطان كے تسّلط كے موانع ۲،۳; شيطانى وسوسوں كو دفع كرنے كا ممكن ہونا ۶

مؤمنين:غير متوكل مؤمنين ۵; مؤمنين كا محفوظ ہونا ۱،۳،۸

متوكلين:متوكلين كا محفوظ ہونا ۱،۳

۵۸۹

آیت ۱۰۰

( إِنَّمَا سُلْطَانُهُ عَلَى الَّذِينَ يَتَوَلَّوْنَهُ وَالَّذِينَ هُم بِهِ مُشْرِكُونَ )

اس كا غلبہ صرف ان لوگوں پر ہوتا ہے جو اسے سرپرست بناتے ہيں اور اللہ كے بارے ميں شرك كرنے والے ہيں _

۱_ شيطان كا تسلّط اور حكمرانى فقط دوگروہوں ، اس كى اطاعت كرنے والوں اور مشركين پر ہے_

انّما سلطانه على الذين يتولّونه والذين هم به مشركون

۲_ انسان ، شيطانى وسوسوں اورسازشوں كے مقابلہ ميں خودمختار اوراس كى مخالفت پر قادر ہے _

انّما سلطانه على الذين يتولّونه

۳_ خودانسان كا كردار و عمل شيطان كے تسلط كازمينہ فراہم كرتاہے _انّما سلطانه على الذين يتولّونه

۴_ فقط مؤمنين اورخداوند عالم پرتوكل كرنے والے شيطانى تسلط سے آزاد ہيں _

ليس له سلطان على الذين ...انما سلطانه على الذين يتولّونه والذين هم به مشركون

۵_ شيطان كى سرپرستى كو قبول اوراس كى اطاعت كرنا ، خداوند عالم كے ساتھ شرك ہے _

الذين يتولّونه ...هم به مشركون

مذكورہ مطلب اس نكتہ پر موقوف ہے كہ ''بہ'' ميں ''با'' سببيت كے ليے ہو اور اس كى ضمير ( قبول كرنے ) جو (يتولونہ) (اس كے حكم كى اطاعت كرتے ہيں ) كے معنى ميں مضمر ہے لوٹ رہى ہو_

۶_ شرك، انسان پر شيطانى تسلط اور حكمرانى كازمينہ فراہم كرتا ہے_انمّا سلطانه على ...الذين هم به مشركون

۵۹۰

مذكورہ تفسير اس بناء پر ہے كہ''بہ'' كى ضمير لفظ ''الله '' كى طرف لوٹے اس صورت ميں آيت كا معنى يہ ہو گا ، اور شيطان كا تسلط بھى ان افراد پر ہوگا جو خدا كے ساتھ شريك قرار ديتے ہيں _

۷_ شيطان ، خداوند عالم كے ساتھ شريك قرار دينے كااصلى سبب ہے _والذين هم به مشركون

مذكورہ تفسيراس احتمال كى بناء پر كہ''بہ'' كى ضمير شيطان كى طرف لوٹے اور ''با'' سببيت پر دلالت كررہى ہو_

۸_ابى بصير عن ابى عبدالله عليه‌السلام قال: قلت له ...قوله تعالى :''انّما سلطان على الذين يتوكّلون والذين هم به مشركون'' قال : الذين هم بالله مشركون يسلط على ا بدانهم و على ا ديانهم'' (۱)

ابوبصير كہتے ہيں كہ امام صادقعليه‌السلام سے الله تعالى كے اس قول:''انمّا سلطانه على الذين يتولونه والذين هم به مشركون'' كے بارے ميں سوال كيا تو حضرتعليه‌السلام نے فرمايا: وہ لوگ جنھوں نے خدا كے ساتھ شريك قرار ديا ( شيطان) ان كے بدن اوردين پر مسلطّ ہو جائے گا''

انسان:انسان كا اختيار ۲; انسان كى قدرت ۲

روايت :۸

شرك:شرك كے آثار ۶; شرك كے اسباب ۷; شرك كے موارد۵

شيطان:شيطان سے محفوظ ہونا ۴; شيطان كا كردار ۷; شيطان كى پيروى ۵; شيطان كى سازش كو دفع كرنے كا ممكن ہونا ۲; شيطان كى ولايت كو قبو ل كرنا ۵; شيطان كے پيروكار ۱،۸; شيطان كے تسلّط كا زمينہ ۳،۶; شيطان كے تسلّط كى حدود ۱،۸; شيطانى وسوسوں كو دفع كرنے كا ممكن ہونا ۲

عمل:عمل كے آثار ۳

مؤمنين:مؤمنين كا محفوظ ہونا ۴

متوكلين:متوكلين كا محفوظ ہونا ۴

مشركين:مشركين پر شيطان كا تسلّط ۱،۸

____________________

۱) كافى ، ج۸ ،ص۲۸۸، ح۴۳۳، نورالثقلين ، ج۳ ، ص۸۶، ح ۲۲۴_

۵۹۱

آیت ۱۰۱

( وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَّكَانَ آيَةٍ وَاللّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُواْ إِنَّمَا أَنتَ مُفْتَرٍ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ )

اور ہم جب ايك آيت كى جگہ پر دوسرى آيت تبديل كرتے ہيں تو اگر چہ خدا خوب جانتا ہے كہ وہ كيا نازل كر رہا ہے ليكن يہ لوگ يہى كہتے ہيں كہ محمد تم افترا كرنے والے ہو حالانكہ ان كى اكثريت كچھ نہيں جانتى ہے _

۱_قرآن مجيد كى بعض آيات كا نسخ اور ايك پيغام كو دوسرے پيغام ميں تبديل كرنے كى وجہ سے مشركين كا پيغمبر اكرم پر جھوٹ كى تہمت لگانا _واذا بدّلنا اية مكان اية قالوا انّما انت مفتر

۲_نسخ اور بعض الہى پيغامات كى تبديلى ، مشركين كے ليے پيغمبر اكرم كے ساتھ جدال اور انہيں جھوٹ سے متہم كرنے كے ليے سہارا تھا_واذا بدّلنا اية مكان آية قالوا انّما انت مفتر

۳_قرآن مجيد ميں نسخ اور بعض الہى پيغامات كى تبديلى كا خود قران مجيد كے ذريعہ موجودہونا _واذا بدّلنا ا ية مكان آية

۴_قرآنى آيات ،تدريجى اور مرور زمان كے ساتھ نازل ہوئي ہيں _واذا بدّلنا ا ية مكان آية

قرآنى پيغامات ميں تبديلى يا آيات كا نسخ ان كے تدريجى نزول كا لازمہ ہے_

۵_ قرآنى آيات كا تدريجى نزول اور بعض ميں مرورزمان كے ساتھ مضمون كے اعتبار سے تبديلى كا سر چشمہ علم الہى ہے _

و اذابدّلنا ا ية مكان آية والله اعلم بماينزل

۵۹۲

۶_نسخ وقرآنى پيغامات اور آيات كى تبديلى حكمت اور عالمانہ دليل كى بناء پر ہے _

واذا بدّلنا ء اية مكان آية والله اعلم بما ينزّل

۷_اكثر منكرين اور قرآن وپيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كى تكذيب كرنے والے،نسخ كى حقيقت اور اس كى حكمت سے جاہل ہيں _واذابدّلنا ء اية اكثرهم لا يعلمون

۸_مشركين اور پيغمبر اكرم كى تكذيب كرنے والوں ميں بعض آگاہ وخود غرض افراد كا موجود ہونا _بل اكثرهم لا يعلمون

۹_كفر وشرك اور پيغمبر اكرم كى تكذيب كى طرف ميلان كا اصلى سبب جہالت اور نادانى ہے _

قالوا انّما انت مفتر بل اكثرهم لا يعلمون

صدر اسلام كى تاريخ :۲،۸

الله تعالى :الله تعالى كا علم ۵

جہالت :جہالت كے آثار ۹

شرك:شرك كا سرچشمہ۹

قرآن:قرآن مجيد كا تدريجى نزول ۴،۵; قرآن مجيد كو جھٹلانے والوں كى جہالت ۷; قرآن مجيد ميں نسخ ۱،۳،۵; قرآن مجيد ميں نسخ كا فلسفہ ۶،۷; قرآن مجيد ميں نسخ كى حقيقت ۷; قرآن مجيد ميں نسخ كے آثار ۲

كفر:كفر كا سرچشمہ ۹

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر كذب كى تہمت ۱،۲; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانے والوں كى جہالت ۷; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانے والوں كى لجاجت ۸; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تكذيب كا سرچشمہ ۹; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ مبارزہ ۲

مشركين:لجوج مشركين ۸; مشركين كى بہانہ جوئي ۲; مشركين كى تہمتيں ۱،۲; مشركين كے علماء كى دشمني۸

۵۹۳

آیت ۱۰۲

( قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِينَ آمَنُواْ وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ )

تو آپ كہہ ديجئے كہ اس قرآن كو روح القدس جبريل نے تمھارے پروردگار كى طرف سے حق كے ساتھ نازل كيا ہے تا كہ صاحبان ايمان كو ثبات و استقلال عطا كرے اور يہ اطاعت گذاروں كے لئے ايك ہدايت اور بشارت ہے _

۱_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا وظيفہ ہے كہ وہ وحى كى حقيقت كو واضح كرتے ہوئے مشركين كے ان اعتراضات كا جواب ديں جو قرآن كے خود ساختہ ہونے پر مبتنى ہيں _انّما انت مفتر قل نز ّله روح القدس من ربّك

۲_ ناسخ اور منسوخ تمام آيات ، پرودرگار كى طرف سے نازل ہوئي ہيں _قل نزّله روح الله القدس من ربّك

۳ _ روح القدس ( جبرائيل ) ابلاغ وحى كا واسطہ اور پرودرگار كى طرف سے منزّہ مخلوق ہے_

قل نزّله روح القدس من ربّك

اس بات كو ملحوظ خاطر ركھتے ہوئے كہ ''قدس'' كا معنى طہارت اور پاكيزگى ہے حضرت جبرائيل كا روح القدس سے ملقب ہوناممكن ہے ان كے آيات الہى ميں دخل و تصرف سے منزّہ ہونے كو بيان كرنے كے ليے ہو_

۴_قرآن ، ايك بلند و بالا حقيقت كا حامل ہے_قالوا انّما انت مفتر ...قل نز ّله روح القدس من ربّك

''نزّل'' كہ جس كا معنى او پر سے نيچے كى جانب نازل ہونا ہے كى تعبير حضرت جبرئيل كے توسط سے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پرقرآن كو القاء كرنے كے سلسلہ ميں ممكن ہے مذكورہ نكتہ سے حكايت ہو_

۶_ قرآن مجيد ، مجسمہ حق اور باطل و بيہودہ كلام سے منزّہ كتاب ہے_قل نزّله روح القدس من ربّك بالحق

۷_قرآن مجيد كا تدريجى نزول اور اس كا ناسخ و منسوخ ہونا ،ايك برحق اور درست امر ہے_

واذا بدلّنا ء آيه مكان ايه ...قل نز ّله روح القدس من ربّك بالحقّ

۵۹۴

۸_ قرآن اور اس كى آيات كا تدريجى نزول ، مؤمنين كے ايمان كو محكم اور پختہ كرنے كا سرچشمہ ہے _

نز ّله ...ليثبّت الذين ء امنو

۹_قرآن اور اس كى آيات مسلمانوں كے ليے ہدايت اور بشارت كى حامل ہيں _وهدى ً وبشرى للمسلمين

۱۰_ نسخ اور الہى پيغامات ميں تبديلى نيز قرآنى آيات سے تدريجى نزول كا مقصد ، مؤمنين كے ايمان كو پختہ اور مسلمانوں كو ہدايت اور بشارت دينا ہے _واذا ابدلنّا اية مكان ء اية ...قل نزّله ليثبّت الذين ء امنوا وهدى و بشرى للمسلمين

۱۱_ہدايت اور قرآنى بشارت سے بہرہ مند ہونے كى شرط يہ ہے كہ انسان حق كے مقابلہ ميں تسليم كى فكر ركھتا ہو_

وهديً بشرى للمسلمين

۱۲_ مؤمنين ،حق كے مقابلہ ميں روح فرمانبردارى سے بہرہ مند ہيں _ليثبّت الذين ء امنوا وهديً و بشرى للمسلمين

مذكورہ تفسير اس نكتہ پر موقوف ہے كہ''للمسليمن'' ''الذين ء امنوا'' كے ليے دوسرى صفت ہو نہ كہ لوگوں كے دوسرے گروہ كو بيان كرنے والاہو_

۱۳_ قرآن سے لوگوں كا بہر ہ مند ہونا ، متفاوت اور مختلف مراتب كا حامل ہے _

قل نز ّله روح القدس من ربّك بالحق ليثبّت الذين ء امنوا و هديً وبشرى للمسلمين

يہ جو قرآن مجيد نے اپنے مقصد كو مؤمنين كى ثابت قدمى پيدا كرنے والا اور مسلمانوں كے ليے بشارت اور ہدايت قرار ديا ہے اور يہ دونوں گروہ متفاوت ہيں اس سے يہ استفادہ ہوتا ہے كہ قرآن سے بہرہ مند ہونے كے لحاظ سے لوگ يكساں نہيں ہيں _

۱۴_''عن ابى جعفر عليه‌السلام فى قوله ''روح القدس ''قال هو جبرئيل ، والقدس الطاهر ...'' (۱)

____________________

۱)بحار الانوار ج۹ ص ۲۲۱ ح ۱۰۶ نورالثقلين ج۳ ص ۸۶ ح ۲۲۷_

۵۹۵

امام باقرعليه‌السلام سے خدا كے كلام ميں ''روح القدس'' كے بار ے ميں روايت نقل ہوئي ہے آپ نے فرمايا : وہ جبريلعليه‌السلام ہے اور قدس كا معنى پاك و پاكيزہ ہے_

۱۵_''عن ابى عبدالله عليه‌السلام قال : ان الله تبارك و تعالى خلق روح القدس فلم يخلق خلقاً ا قرب الى الله منها وليست با كرم خلقه عليه فاذا ا راد ا مراً فا لقاه اليها فا لقاه الى النجوم فجرت به (۱)

امام صادقعليه‌السلام سے روايت نقل ہوئي ہے كہ آپ نے فرمايا كہ خداوند تبارك و تعالى نے ''روح القدس'' كو خلق كيا ہے اور كسى مخلوق كو خلق نہيں كيا كہ جو اس كى نسبت خدا كے زيادہ نزديك ہو ليكن وہ خدا كے نزديك تمام مخلوقات ميں معززّ نہيں ہے پس جب بھى خداوند تعالى الہى امر كا ارادہ كرتا ہے تو روح القدس كو اس كا القاء كرتا ہے اور پھرستاروں كو اور اس طرح وہ امر ستاروں كے ذريعہ انجام پاتا ہے_

انسان:انسانوں كى فہم كا متفاوت ہونا ۱۳

جبرئيل:جبرئيل كا تقدس ۵; جبرئيل كا كردار ۳،۱۵; جبرئيل كا منزّہ ہونا ۴;جبرئيل كى امانت داري۴;جبرئيل كے فضائل ۱۵

حق:حق كو تسليم كرنے كے آثار ۱۱

روايت:۱۴، ۱۵

روح القدس :روح القدس سے مراد ۱۴

قرآن مجيد:قرآن مجيد سے استفادہ كے مراتب ۱۳; قرآن مجيد كا كردار ۸; قرآن مجيد كا منزّہ ہونا ۶; قرآن مجيد كا وحى ہونا ۲; قرآن مجيد كو جھٹلانے والوں كو جواب ۱; قرآن مجيد كى بشارتوں سے استفادہ ۱۱; قرآن مجيد كى بشارتيں ۹; قرآن مجيد كى حقانيت ۶; قرآن مجيد كى حقيقت ۵; قرآن مجيد كى فضيلت ۵; قرآن مجيد كى منسوخ آيات ۲; قرآن مجيد كى مسنوخ آيات كى حقانيت ۷; قرآن مجيد كى ناسخ آيات ۲; قرآن مجيد كى ناسخ آيات كى حقانيت ۷; قرآن مجيد كى ہدايت كرنا ۹; قرآن مجيد كے تدريجى نزول كا فلسفہ ۱۰; قرآن مجيد كے تدريجى نزول كى حقانيت ۷; قرآن مجيد كے تدريجى نزول كے آثار ۸; قرآن مجيد ميں نسخ ۲; قرآن مجيد ميں نسخ كا فلسفہ ۱۰; نزول قرآن ۳

مؤمنين:مؤمنين كا حق قبول كرنا ۱۲; مؤمنين كا سرتسليم خم كرنا ۱۲; مؤمنين كے ايمان كى تثبيت ۱۰

____________________

۱) تفسير عياشى ، ج۲، ص۲۷۰ ، ح۷۰، نورالثقلين،ج۳، ص ۸۷، ح ۲۲۸_

۵۹۶

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى ۱

مسلمان:مسلمانوں كو بشارت ۹،۱۰; مسلمانوں كو ہدايت ۹، ۱۰

مشركين:مشركين كى تہمتوں كا جواب ۱

ملائكہ:ملائكہ اور وحى ۳

وحي:وحى كو بيان كرنا ۱

ہدايت:ہدايت كى شرائط ۱۱

آیت ۱۰۳

( وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ لِّسَانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ أَعْجَمِيٌّ وَهَـذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُّبِينٌ )

اور ہم خوب جانتے ہيں كہ يہ مشركين يہ كہتے ہيں كہ انھيں كوئي انسان اس قرآن كى تعليم دے رہا ہے_ حالانكہ جس كى طرف يہ نسبت ديتے ہيں وہ عجمى ہے اور يہ زبان عربى واضح و فصيح ہے _

۱_ خداوند عالم كا پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حقانيت و قرآن كے خلاف كفار اور مشركين كى مخفيانہ سازشوں سے پردہ چاك كرنا اور ان كے بارے ميں خبر دينا_ولقد نعلم انهّم يقولون انما يعلّمه بشر

۲_ كفار اور مشركين لوگوں ميں قرآن كا اس عنوان سے تعارف كرتے تھے كہ يہ ايك عجمى انسان كى پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو سكھائي گئي تعليمات ہيں _ولقد نعلم انهم يقولون انما يعلّمه بشر ...ا عجمي

خداوند عالم كے اس جواب ميں كہ جس ميں اس نے فرمايا :''لسان الذى يلحدون اليہ اعجمى ...'' سے قرآن كے عجمى سمجھنے كا استفادہ ہوتا ہے_

۵۹۷

۳_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر كفار و مشركين كى ايك تہمت يہ تھى كہ يہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو بشر كا سكھا يا ہوا كلام ہے _

ولقد نعلم انهم يقولون انما يعلّمه بشر

۴_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قرآن نامى كتاب پيش كرنے ميں كسى انسان كى مدد نہيں لى ہے_

نز ّله روح القدس من ربّك ...ولقد نعلم انهم يقولون انما يعلّمه بشر

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين نے ضمناً يہ اعتراف كيا كہ كوئي عرب ، قرآن جيسے مطالب لانے كى قدرت نہيں ركھتا ہے _

ولقد نعلم انهم يقولون انما يعلّمه بشر لسان الذى يلحدون اليه اعجمي

اس بات كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ مشركين ، قرآن كو عجمى افراد كى تعليمات قرار ديتے تھے اور كہتے تھے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان مطالب كو ان سے حاصل كياہے سے واضح ہوتا ہے كہ وہ قرآنى مطالب كو اپنى طاقت سے بالاتر سمجھتے تھے_

۶_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين كى كوشش رہى ہے كہ وہ قرآن مجيد كو غير الہى جلوہ ديں _يقولون انما يعلّمه بشر

۷_ قرآن مجيد ، فصيح و واضح عربى زبان كے قالب ميں نازل ہوا ہے_

لسان الذى يلحدون اليه اعجمى وهذا لسان عربى مبين

۸_ عربى زبان كے قالب ميں فصيح ور وشن قرآن كا بيان اس بات پر واضح ترين دليل ہے كہ يہ عجمى شخص (غير عرب) كے توسط سے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل نہيں ہوا ہے_لسان الذى يلحدون اليه اعجمى و هذا لسان عربى مبين

۹_قرآن مجيد كى اعلى ترين فصاحت اور اس كا واضح بيان كو تمام افراد حتى كہ كفار اور مشركين بھى قبول كرتے ہيں _

وهذا لسان عربى مبين

كفار كے دعوى كو رد كرنے كے ليے خداوند عالم كا استدلال اس بات پر مبتنى ہے كہ قرآن مجيد كى فصاحت كو تمام لوگ قبول كريں _

۱۰_ قرآن كو بشر كى طرف نسبت دينا، ايك ناروا اور حق سے دور نسبت ہے _لسان الذى يلحدون اليه اعجمي

''الحاد'' كے مفہوم ميں حق سے انحراف ،مضمر ہے_

الله تعالى :الله تعالى كا بھيدوں كو كھولنا ۱

حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو تعليم دينے كى تہمت ۲،۳; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف سازش كو بے نقاب كرنا ۱;حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين كا اقرار ۵; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين

۵۹۸

كى كوشش ۶

قرآن:قرآن مجيدپر افتراء باندھنا ۱۰; قرآن مجيد كا بے نظير ہونا ۵; قرآن مجيد كا عربى ہونا ۷; قرآن مجيد كا وحى ہونا ۴،۱۰; قرآن مجيد كى فصاحت ۷،۸; قرآن مجيد كے خلاف سازش كو بے نقاب كرنا ۱; قرآن مجيد كے عجمى ہونے كارد۸; قرآن مجيد كے وحى ہونے كو پنہاں كرنا۶; قرآن مجيد كے وحي ہونے كے دلائل ۸

كفار:كفار اور قرآن مجيد كى فصاحت ۹; كفار كى تہمتيں ۲،۳; كفار كى سازش كو بے نقاب كرنا ۱

مشركين:مشركين اور قرآن مجيد كى فصاحت ۹; مشركين كى تہمتيں ۲،۳; مشركين كى سازش كو افشاء كرنا ۱

آیت ۱۰۴

( إِنَّ الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللّهِ لاَ يَهْدِيهِمُ اللّهُ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ )

بيشك جو لوگ اللہ كى نشانيوں پر ايمان نہيں لاتے ہيں خدا انھيں ہدايت بھى نہيں ديتا ہے اور ان كے لئے دردناك عذاب بھى ہے _

۱_وہ لوگ جنہوں نے كفر پر اصرار اورھٹ دھرمى كى وجہ سے حق قبول نہيں كيا الہى ہدايت سے محروم ہيں _

انّ الذين لا يومنون بايات الله لا يهديهم الله

فعل مضارع''لا يومنون'' استمرار پر دلالت كرتا ہے اور اس بات كو ملحوظ خاطر ركھتے ہوئے كہ قرآن واضح اور فصيح زبان ميں نازل ہوا ہے ليكن اس كے باوجود كفار اس پر ايمان نہيں لائے ممكن ہے يہ ان كى ھٹ دھرمى اور حق قبول نہ كرنے كى فكر كو بيان كر رہا ہو_

۲_ واضح ترين الہى دلائل ، ھٹ دھرم وحق قبو ل نہ كرنے والوں كے دل پراثر انداز نہيں ہوتے _

لسان الذى يلحدون اليه اعجمى و هذا لسان عربى مبين ان الذين لا يومنون لا يهديهم الله

خداوند عالم نے ما قبل آيت ميں واضح ترين بيان كے ساتھ قرآن كى حقانيت پر استدلال كيا ہے _

اور اس آيت ميں بھى فرمايا : يہ دليل اپنى وضاحت كے ساتھ ان لوگوں كے ليے فائدہ مند نہيں ہے

۵۹۹

جنہوں نے ايمان نہ لانے كا پختہ ا رادہ كيا ہے _

۳_ ہدايت تك رسائي خود انسان كى خواہش اور اس كے ارادہ و اختيار سے وابستہ ہے _

انّ الذين لا يومنون با يات الله لا يهديهم الله

''لا يومنون'' سے يہ استفادہ ہوتا ہے كہ وہ لوگ جوايمان نہيں لا نا چاہتے الہى ہدايت و لطف سے محروم ہيں لہذ ا اس كى ہدايت او رلطف تك پہنچنا خود انسان كے ارادہ سے مشروط ہے _

۴_ وہ كفار جو ھٹ دھرمى اورعناد كى وجہ سے الہى آيات پر ايمان نہيں لاتے ان كا انجام اور سزا، دردناك عذاب ہے_

انّ الذين لا يومنون با يات الله ...لهم عذاب اليم

الہى آيات:الہى آيات كو جھٹلانے والے۴

انسان:انسان كا اختيار ۳

جبر و اختيار: ۳

حق:حق قبول نہ كرنے كے آثار۱; حق قبول نہ كرنے والوں كا ہدايت كو قبول نہ كرنا ۲; حق قبول نہ كرنے والوں كى لجاجت ۲; حق قبول نہ كرنے والوں كى محروميت ۱

عذاب:اہل عذاب۴; دردناك عذاب۴; عذاب كے اسباب ۴; عذاب كے مراتب ۴

كفار:لجوج كفار كا عذاب ۴; لجوج كفار كى سزا ۴; كفار كى محروميت ۱

كفر:كفر پر اصرار كے آثار ۱

ہدايت:ہدايت سے محروم ۱;ہدايت كا زمينہ۳

۶۰۰

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779