تفسير راہنما جلد ۹

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 779

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 779 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 212608 / ڈاؤنلوڈ: 3607
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۹

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

٦۔ محبت و امید کے ساتھ خوف:

خدا کے دوست اس کے جمال کے شیفتہ ہونے کے باوجود اس کی عظمت کے ادراک کے نتیجہ میں خوفزدہ اور ہراساں رہتے ہیں کیونکہ جس طرح اللہ کے جمال کا ادراک محبت کا پیش خیمہ ہے اسی طرح اس کی عظمت کا ادراک بھی ہیبت اور ہراس کا سبب ہوتا ہے، یہ خوف و رجاء پروردگار کی بندگی میں مکمل تکمیل کا کردار ادا کرتے ہیں راہ الہی کے بعض راہرئووں نے کہا ہے: ''خدا کی بندگی صرف محبت کے ساتھ اور بغیر خوف کے، امید کی زیادتی اور حد درجہ انبساط و سرور کی وجہ سے آدمی کی ہلاکت کا باعث ہوجاتی ہے۔ نیز عبودیت صرف خوف وہراس کے ساتھ بغیر امید کے وحشت کی وجہ سے پروردگار سے دوری اور ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے، خدا وند ذوالجلال کی بندگی خوف ومحبت دونوں کے ساتھ اس کی محبت اور تقرب کا سبب ہوتی ہے ''۔(١)

٧۔اللہ کی محبت کا کتمان اور اس کا دعویٰ نہ کرنا:

محبت محبوب کے اسرار میںسے ایک سر ہے اور بسا اوقات اس کے اظہار میں کوئی ایسی چیز کہی جاتی ہے جو واقع کے برخلاف اور محبوب پرافترا پردازی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ انسان کی محبت پروردگار کے خاص دوستوں یعنی عظیم ملائکہ اور ان انبیاء و اولیاء کی محبت واشتیاق کے مراتب کی نسبت قابل ذکر تحفہ نہیں ہے جو خود کو خدا کے شائستہ عشق ومحبت میں ناکام تصور کرتے تھے، بلکہ حقیقی محبت کی علامت یہ ہے کہ اپنی محبت کے درجات کو ہیچ خیال کرے اور اسے قابل ذکر نہ سمجھے اور خود کو ہمیشہ اس سلسلہ میں قاصر اور عاجز خیال کرے۔

ج۔ خداوند عالم کی محبت کے علائم:

خداوند عالم کی محبت کے علائم کثرت اور فراوانی کے ساتھ انسان کے مختلف وجودی پہلوئوں میںپائے جاتے ہیں۔ یہاں پر ان علائم کی طرف جو کہ نفسانی صفت کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں، اشارہ کیا جاتا ہے:

١۔ پروردگار سے انس:

جب انسان کادل اللہ کے قرب اور محبوب کے جمال مکشوف کے مشاہدہ سے شاد ومسرور ہوتا ہے تو انسان کے قلب میں ایک بشارت داخل ہوتی ہے کہ جسے'' انس'' کہا جاتا ہے۔ خداوندعالم سے انس کی علامت یہ ہے کہ گوشہ نشینی، خلوت اور اس کے ذکر میںمشغول ہونا خلائق سے انس اور ہم نشینی کرنے سے کہیں زیادہ بہتر اور خوشگوار ہے ایسا شخص لوگوں کے درمیان ہونے کے باوجو د بھی در حقیقت تنہا ہے۔ اور جس وقت وہ خلوت میں ہوتا ہے ، حقیقت میں وہ اپنے محبوب کے ساتھ ہمنشین ہوتا ہے۔ اس کا جسم تو لوگوں کے درمیان ہوتا ہے لیکن اس کادل ان سے الگ اور جدا ہوتا ہے۔(٢)

____________________

١۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٨، ص ٧٦ ، ٧٧۔ ٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص١٢٤، ١٨٩، ١٩٠۔

۸۱

حضرت امیر المومنین علی ـ نے ایسے صفات کے حامل افراد کے متعلق فرمایا ہے: '' انھیں علم نے بصیرت کی حقیقت تک پہنچا دیا ہے اور یہ یقین کی روح کے ساتھ گھل مل گئے ہیں، انھوں نے ان چیزوں کو آسان بنالیا ہے جنھیں راحت پسندوں نے مشکل بنا رکھا تھا اور ان چیزوں سے انھیں حاصل کیا ہے جن سے جاہل وحشت زدہ تھے اور اس دنیا میں ان اجسام کے ساتھ رہے ہیں جن کی روحیں ملأ اعلیٰ سے وابستہ ہیں، یہی روئے زمین پر اﷲ کے خلیفہ اور اس کے دین کے داعی ہیں''۔(۱)

٢۔ خداوند عالم کی جانب اشتیاق:

جمال الہی کا مشاہدہ کرنے کے خواہاں افراد جب وہ غیب کے پردوں کے پیچھے محبوب کے رخسار کا نظارہ کرنے بیٹھے ہوں اور اس حقیقت تک پہونچ چکے ہیں کہ اس کے جلال و عظمت کی حقیقی رویت سے قاصر و عاجز ہیںتو جو کچھ انہوں نے نہیں دیکھا ہے اس کے مشاہدہ کے لئے ان کی تشنگی اور شوق بڑھتا جاتا ہے، اس حالت کو '' مقام شوق '' کہا جاتا ہے بر خلاف مقام انس، جو محبوب کے کھلے چہرے کے مشاہدے سے پیدا ہوتا ہے، مقام اشتیاق، محبوب کے محجوب (درپردہ) جمال و جلال کے ادراک کے شوق کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔(۴)

٣۔ قضائے الہی سے راضی ہونا:

'' رضا '' '' سخط'' یعنی ناراضگی کے مقابلہ میں ہے اور' 'رضا'' سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ خدا نے مقدر فرمایا ہے اس پر ظاہر و باطن، رفتار وگفتار میں اعتراض نہ کرنا۔ رضااللہ کی محبت کے علائم و لوازم میںشمار ہوتی۔ کیونکہ محب جو کچھ محبوب سے صادر ہوتا ہے اسے خوبصورت اور بہتر سمجھتا ہے جو انسان مقام رضا کا مالک ہوجاتا ہے اس کے نزدیک فقر و غنا، آرام وتکلیف، تندرستی اور بیماری، موت اور زندگی وغیرہ وغیرہ یکساںہوتی ہے اوران میں سے کسی ایک کا تحمل بھی دشوار نہیں ہوتا ہے، کیونکہ سب ہی کو محبوب کی طرف سے خیا ل کر تا ہے وہ ہمیشہ خود کو فرحت و سرور، آرام وآسائش میں محسوس کرتے ہوئے زندگی گذارتا ہے کیونکہ تمام چیزوںکو نگاہ رضایت سے دیکھتا ہے اور در حقیقت تمام امور اس کی مراد کے مطابق واقع ہوتے ہیں، نتیجہ کے طور پر ہر قسم کے غم و اندوہ سے دور ہوگا، قرآن کریم میں کئی جگہ اس مرتبہ کی طرف اشارہ ہوا ہے، منجملہ ان کے ''حزب اﷲ'' کی شناخت کراتے ہوئے فرماتا ہے: ''خدا وند رحمان ان سے راضی و خوشنود اور وہ اس سے راضی و خوشنود ہیں، یہ لوگ خدا کے گروہ ہیں، حزب خدا ہی کامیاب ہے''۔(۳)

____________________

١۔ نہج البلاغہ: حکمت ١٤٧۔ ٢۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٨، ص ٥٥۔

٣۔ مجادلہ ٢٢ ؛ بینہ ٨، ملاحظہ ہو۔

۸۲

حضرت امام زین العابدین ـ مقام رضا کی عظیم شان ومنزلت کے بیان میں فرماتے ہیں: ''زہد کا سب سے بلند درجہ ورع کا پست ترین درجہ ہے اور فدع کا بلندترین درجہ یقین کا پست ترین درجہ ہے اوریقین کا بلند ترین درجہ رضاکا سب سے پست مقام و درجہ ہے''۔(١) اس وجہ سے خداکے دوست جو کچھ وہ مقدّر فرماتا ہے اس پر رضامندی کے ساتھ ہرقسم کے غم و اندوہ سے دور ہوتے ہیںاور نہایت سرور شادمانی کے ساتھ خوشگوارزندگی گذارتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم میںمذکور ہے: ''آگاہ ہوکہ خداکے دوستوںکو نہ کوئی غم و اندوہ ہے اور نہ ہی کوئی خوف و ہراس انہوںنے اپنے تمام امور خدا کے حوالے کردئیے ہیںاور اس کے ارادہ کے سامنے سراپا تسلیم ہیں''۔(٢)

د۔محبت پروردگارکاانجام:

محبت الہی کاخاتمہ دیگرساری محبتوں کی طرح محبوب کے وصال پر منحصر نہیں ہے۔ اس رویت کا تحقق خداو ندعالم کی معرفت پر موقوف ہے، جو خود ہی تطہیر باطن اور دنیوی لگاؤسے دل کو پاک وصاف رکھنے کامحتاج ہے، محبت الہی کی راہ میں سیر وسلوک کرنے والوں کے لئے دنیا میں اس کا حصول ہوتا ہے۔

اس ملاقات کی حقیقت کا سمجھنا ہمیشہ انسانی اذہان کے لئے دشوار رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے راہ انکار اختیار کرلی ہے۔

حضرت علی ـ سے خوارج میں سے ایک شخص نے سوال کیا: '' کیا آپ نے اپنے رب کو اس کی عبادت کرتے وقت دیکھا ہے؟'' آپ نے صراحت کے ساتھ فرمایا: '' تم پر وائے ہو ! میں ان لوگوں میںسے نہیں ہوں جنھوں نے پروردگار کو نہ دیکھا ہو اور اس کی عبادت وپرستش کرتے ہوں '' اس وقت سوال کرنے والے نے اس ملاقات کی حقیقت اور ماہیت کے بارے میں سوال کیا: کس طرح آپ نے اسے دیکھا ہے ؟ آپ نے جواب دیا! ''تم پر وائے ہو ! نگاہیںدیکھنے کے وقت اس کا ادراک نہ کرسکیں لیکن قلوب حقایق ایمان کے ساتھ اسے دیکھتے ہیں''۔(٣)

____________________

١۔ اصول کافی، کلینی، ج٢، ص١٢٨، ح٤۔

٢۔یونس ٦٢۔

٣۔ اصول کافی، کلینی، باب ابطال الروےة، ح ٦، اسی طرح ملاحظہ ہو امام حسین ـ کی دعا ئے عرفہ۔

۸۳

دوسری نظر: خدا وندسبحان کی بندوں سے محبت

قرآن و روایات ا ہل بیت (ع) ان آیات وروایات کے حامل ہیں جو پروردگار کی اپنے بعض بندوں سے خاص محبت ودوستی کی عکاسی کرتی ہیں، اس محبت کے خاص علائم ہیں جوصرف اور صرف خاص بندوں کو شامل ہوتے ہیں۔

البتہ خداوند سبحان کی عام رحمت و محبت، دنیوی مواہب و احکام شرعی کے قالب میں سب کو شامل ہے جیسا کہ پہلے بھی اشارہ ہوچکا ہے کہ خدا وندعالم قرآن میںاپنی دوستی کو مجاہدین، نیکو کار افراد، زیادہ توبہ کرنے والوں، پرہیزگاروں، عدالت پیشہ افراد، صابروں، پاک وپاکیزہ افراد اور پروردگار پر اعتماد و بھروسہ کرنے والوں کی نسبت اعلان کرتا ہے۔(١)

جمال الہی کا دیداراور اس کا مشاہدہ اتنا لذت بخش اور سرور آور ہے جو ناقابل توصیف وتشریح ہے۔ جن لوگوں نے اس کے ادنیٰ مراتب کو بھی چکھا ہے وہ کبھی دیگر خیالی لذتوں سے اس کا سودا نہیں کرتے اسی وجہ سے انبیاء اور

اولیائے الہی نے اپنے محبوب سے اپنی مناجات میں مسلسل اپنے اشتیاق کااس کی بہ نسبت آشکار طور پر اظہار کیا ہے اورعرفاء اور سالکین نے اپنے اشعار اور قصائد میں جو انہوں نے بطور یادگار چھوڑے ہیں اپنے آتش عشق کے دلکش اور جاذب نظر مناظرکی، جمال محبوب کی مراد و ملاقات و شہود سے متعلق اظہار خیال کیا ہے نیز دوست کے فراق و جدائی کے غم انگیز اور حزن آور حالات کی منظر کشی کی ہے۔ ان کے نزدیک خدا کی ملاقات عرفان کی بلند ترین چوٹی اور سالکین کی سیرکا منتہیٰ ہے انھوں نے ایسی بہت سی کتابیں بھی تحریر فرمائی ہیں جن میں اس مقصد تک رسائی کے اسباب و ذرائع اور ان منازل ومراحل کو بیان کیا ہے جو اس راہ کے سالکوں کے لئے سرراہ پائے جاتے ہیں اور جو خطرات اس راہ میں ہیں ان سے بھی آگاہ کیا ہے نیز اس راہ میںجو زاد و توشہ کام آسکتا ہے اس کا بھی ذکر کیا ہے۔

خدا وند عالم کی داؤد پیغمبر سے گفتگو کے درمیان مذکور ہے: ''اے داؤد! ہمارے زمین میں رہنے والے بندوں سے کہو ! میں اس کا دوست ہوں جو مجھے دوست رکھتا ہے اور اس کا ہمنشین ہوں جو مجھ سے ہمنشینی کرتا ہے اور اس کا ہمدم ہوں جو میری یاد اور نام سے انسیت حاصل کرتا ہے اور اس کے ہمراہ ہوں جو میرے ہمراہ ہے، میں اس کا انتخاب کرتا ہوں جو میرا انتخاب کرتا ہے اور اس کا فرمانبردار ہوں جو میرا فرمانبردار ہے، جو انسان مجھے قلبی اعتبار سے دوست رکھتا ہے اور میں اس پریقین کرلوں تو اسے اپنے ساتھ قبول کرلوں گا ( اور اسے ایسا دوست رکھوںگا ) کہ میرے بندوں میں سے کوئی بندہ اس پر سبقت نہ کر پائے، جو انسان واقعی مجھے تلاش کرے تو پالے گا

____________________

١۔ ترتیب وار رجوع کیجئے: سورئہ صف، ٤ ؛ بقرہ ١٩٥ ، ٢٢٢ ۔ آل عمران ٧٦، ١٤٦، ١٥٩ ؛ مائدہ ٤٢، اور توبہ ١٠٨۔ منجملہ ان کے میرزاجواد ملکی تبریزی کارسالہ، ' ' لقاء اللہ''ملاحظہ ہو ۔

۸۴

اور جو کوئی میرے علاوہ کسی دوسرے کو تلاش کرے تو مجھے نہیں پائے گا، لہٰذا اے اہل زمین! دنیا کے فریبوں اور اس کی باطل چیزوںکو چھوڑ دو، اور میری کرامت، مصاحبت، ہمنشینی کے لئے جلدی کرو اور مجھ سے انس اختیار کرو تاکہ میں بھی تم سے انس اختیارکروں اور تم سے دوستی کے لئے جلدی کروں''۔(١)

٢۔توکل

اخلاق اسلامی میںایک دوسرا عام مفہوم جو نفسانی صفت پر ناظر اور انسان و خدا کے درمیان رابطہ کا بیان کرنے والا ہے''توکل''کامفہوم ہے۔ اس مختصر کتاب میںاس کے مقام و منزلت، ماہیت و درجات اورسعی و کوشش کے ساتھ اس کی نسبت کے بارے میں مطالعہ کریں گے۔

ایک۔ توکل کی حقیقت و ماہیت:

توکل کی حقیقت و ماہیت کس طر ح بیان کی جائے ؟ علماء اخلاق نے اس کی تعریف کے باب میں یہ ذکر کیا ہے: توکل یعنی اپنے تمام امور میں انسان کا خدا پر قلبی اطمینان اور اعتماد کرنا نیز تمام قدرتوں سے بیزاری اختیار کرنا ہے، البتہ انسان کے اندر اس حالت کا تحقق اس بات پر موقوف ہے کہ اس کا ایمان و یقین اور قوت قلب اس بات کو قبول کرے کہ عالم وبنی آدم کے کسی کام میں خدا کے علاوہ کوئی قوت اورطاقت موثر و کار ساز نہیں ہے اور تمام اسباب و علل قدرت الہی کے مقہور اور زیر اثرہیں اوراسی کے ارادہ کے تحت عمل کرتے ہیں کہ یہ خود توحید کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے۔ اس وجہ سے ''توکل'' کی اصل واساس توحید ہے اورحصول توحید کے بقیہ وہ وجود میں نہیں آسکتا۔(٢) یہ اس اعتبار سے ہے کہ خداوند عالم نے امور کو ان کے اسباب و علل کی طرف اور کاموںکو ان کے فاعل کی طرف منسوب کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ ایک طرح سے ہے اور علل اور فاعلوں کو حوادث اور افعال پر مسلّط کیا ہے؛ اگر چہ یہ تسلط اور غلبہ اصلی اور ذاتی نہیں ہے اور طبیعی علل اور انسانی فاعل تاثیر گذاری میں استقلال نہیں رکھتے، صرف خدا وند عالم ہے جو مستقل سبب اور تمام اسباب سے بالا تر ہے۔ اس بنا ء پر جب ایک عاقل اور رشید انسان نے کسی کام کا ارادہ کیا اور اس کے عادی و معمول کے مطابق اسباب و وسائل کو فراہم کیا تو وہ جانتا ہے کہ تدبیر امور میں مستقل سبب تنہا خدا ہے اورکسی قسم کی اصالت اور استقلال کا اپنے لئے نیز ان اسباب و علل کے لئے جن کا وہ استعمال کرتا ہے قائل نہیں ہے، لہٰذا وہ خداوند سبحان پر توکل کرتا ہے، اس بنا ء پر توکل کے معنی انسان یا طبیعی اسباب و علل کی جانب امور کے انتساب کی نفی کرنا اوراصالت و استقلال کو خدا سے مخصوص سمجھنا ہے(٣)

____________________

١۔ سید بن طاؤوس، مسکن الفواد، ص ٢٧۔٢۔ اسی لئے بعض علماء اخلاق نے توکل اور توحید کو ایک ردیف میںذکرکیا ہے، رجوع کیجئے: فیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص ٣٧٧۔٣۔ علامہ طباطبائی کی المیزان، ج ١١، ص ٢١٦ ، ٢١٧ ملاحظہ ہو۔

۸۵

دو۔ توکل کے درجات:

اخلاق اسلامی بعض علماء خداوند عالم پر توکل کے لئے تین درجات کے قائل ہیں کہ ان کا مختصر بیان درج ذیل ہے:

خداوندذ والجلال پرتوکل کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان اس پر اعتماد و اطمینان رکھے۔ بعینہ اس اعتما د کی طرح جو کسی وکیل پراپنے امور کی انجام دہی میں انتخاب کرکے رکھتا ہے۔ درحقیقت یہ توکل کا سب سے ادنی درجہ ہے اور آسانی کے ساتھ دسترسی کے قابل ہے اور زیادہ دن تک باقی رہتا ہے نیز انسان کے اختیار اور تد بیر سے بھی منافات نہیں رکھتا۔

توکل کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ انسان اصل توکل سے غافل اور اپنے وکیل یعنی خداوند سبحان کے بارے میں فانی ہے، بر خلاف پہلی قسم کے کہ انسان کی توجہ زیادہ تر وکالت کے قرار دادی رابطہ کی طرف ہوتی ہے۔ توکل کا یہ درجہ کم محقّق ہوتا ہے اور جلد ختم ہوجاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک دو دن سے زیادہ باقی نہیں رہتا ہے اور صرف خاص افراد کو حاصل ہوتا ہے انسان اس حالت میں اپنی بہتر سے بہتر کوشش گریہ اور خدا وند عالم سے دعا ودرخواست میں صرف کرتا ہے۔

توکل کا بلند ترین درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی تمام حرکات و سکنات کو خداوند عالم کے اختیار میں سمجھتا ہے۔ اس قسم اور قسم دوم میں فرق یہ ہے کہ اس میں انسان حتیٰ التماس، درخواست، تضرع و زاری اور دعا کو بھی نظر انداز کردیتا ہے اور اس بات کا اعتقاد رکھتا ہے کہ خداوند عالم اپنی حکمت سے امور کی تدبیر کرتا ہے اگر چہ وہ درخواست والتماس نہ کرے۔ اس توکل کا واقعی نمونہ حضرت ابراہیم ـ کا (خداپر) توکل کرنا ہے۔ کیونکہ جب نمرودیوں نے انھیںمنجنیق میں رکھ کر آگ میں ڈالا تو الہی فرشتہ انھیںیاد آوری کرتا ہے کہ وہ خدا سے امداد کی درخواست کریں، لیکن وہ جواب میں کہتے ہیں: ''خدا وندعالم کا میرے حال سے آگاہ ہونا، مجھے اس سے نجات کی درخواست کرنے سے بے نیاز کرتا ہے ''۔(١)

البتہ ایسی قسم ندرت سے دیکھنے میں آتی ہے اور نہایت کمیاب ہے۔ یہ صد یقین کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہوتی ہے اور اگر واقع ہو بھی گئی تو جلد ہی زائل ہوجاتی ہے اور چند لحظہ سے زیادہ اس کو دوام نہیں رہتا ۔(٢)

____________________

١۔ تفسیر قمی، ج٢، ص ٧٣ ملاحظہ ہو۔

٢۔ فیض کاشانی المحجة البیضائ، ج٧، ص ٤٠٨، ٤٠٩ ؛نراقی، ج٣، ص ٢٢٣تا ٢٢٥۔

۸۶

دوسرے رخ سے، لوگ خداوند عالم پر توکل و اعتماد کرنے میںیکساں مراتب و درجات نہیں رکھتے۔ ہر ایک کو چاہئے کہ اپنے توکل کے بقدر اپنے مقاصد تک پہنچنے میں اسباب و علل سے چارہ جوئی کرے۔ خداوند عالم ان لوگوں کے ساتھ جنہوں نے بالکل اسباب و علل طبیعی سے اپنا قطع تعلق کرلیا ہے اسی اعتماد کے تناسب سے برتائو کرے گا۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا ہے: ''خدا نہیں چاہتا ہے کہ مومنین کی روزی اس جگہ سے فراہم کرے جہاں سے وہ گمان نہیں رکھتے''(١) خداوند عالم کا یہ برتائو ان مومنین سے مخصوص ہے جو توکل کے اعلیٰ درجہ پرفائز ہیں ؛ لیکن جو لوگ اس درجہ پرفائز نہیں ہوئے ہیں اور ان کا خدا وند عالم پر اعتماد کے ساتھ ساتھ طبیعی اسباب و علل پر بھی اعتماد باقی ہے، خداوند عالم بھی اسباب و علل کے ذریعہ ان کی ضرورتوں کو پورا کرے گا۔(٢)

تین۔ توکل کی اہمیت:

قرآن کریم نے دسیوں بار صراحت اورکنایہ کے ساتھ انسان بالخصوص مومنین کو خداوند عالم پر توکل کی دعوت دی ہے اور بندوں کے اس اعتماد و اطمینان کے مقابل ان کے امور کی کفالت سے متعلق خداوند عالم کے وعدہ کا اعلان کیا ہے۔ منجملہ ان کے قرآن میں ذکر ہے: '' مومنین کو چاہئے کہ صرف اور صرف خدا پر توکل کریں''۔(٣) ''خداوند عالم توکل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے''۔(٤) اسی طرح خدا پر اعتماد اور توکل کے انجام کی نسبت اطمینان حاصل ہونے کے بارے میں قرآن فرماتا ہے: '' جو خدا پر اعتماد کرتا ہے اس کے لئے وہی کافی ہے ''(٥) احادیث نبوی اور اہل بیت (ع) کے ارشادات ان عبارتوں سے بھرے پڑے ہیں جن میں توکل کی اہمیت اور فضیلت بیان ہوئی ہے، مثال کے طور پر حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''بے شک بے نیازی اور عزت گردش کی حالت میں ہیں وہ جیسے ہی توکل کی منزل سے گذرتی ہیں اس جگہ کو اپنا ٹھکانہ اور وطن بنالیتی ہیں''۔(٦)

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج٥، ص٨٣، ح١۔ ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ص٦٠۔شیخ طوسی، امالی، ص٣٠٠، ح٥٩٣۔

٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص٢٢٩، ٢٣٠۔

٣۔ سورئہ آل عمران، آیت ١٢٢، ١٦٠۔ مائدہ ، آیت ١٢، ٢٦۔ توبہ آیت ٥٢۔ ابراہیم، آیت ١١۔ مجادلہ، آیت ١٠۔ تغابن، ١٣۔

٤ ۔سورئہ آل عمران، آیت ١٥٩۔

٥۔ سورئہ طلاق، آیت ٣۔

٦۔ کلینی، کافی ج٢، ص ٦٥، ح٣۔

۸۷

چار۔ سعی وکوشش اور توکل:

اگر چہ توکل کی حقیقت کے بارے میں غور و فکرکرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ توکل سعی وتلاش اور اسباب ووسائل سے استفادہ کرنے سے منافات نہیں رکھتا لیکن کبھی ایسا شبہہ پیش آتا ہے کہ اس کی جانب اشارہ کرنا مفید ہے۔ انسان ان امور کی نسبت جن کے اسباب و علل اس کے ارادہ سے خارج ہیں وہ توکل کے سوا کوئی چا رہ کا ر نہیں رکھتا لیکن ان حوادث کی نسبت جن کے اسباب و علل کی ایجاد اس کے ہاتھ میں ہے باوجودیکہ توکل کے سبب اسباب ووسائل کے لئے مستقل تاثیر کا قائل نہیں ہے، لیکن اس کا فریضہ ہے کہ ان کی فراہمی کے لئے کوشش کرے اور جس چیز کی سببیت کے لئے یقین یا گمان رکھتا ہے اس کا استعمال کرے اور اس حیثیت میں اپنی عقل و ہوش سے استفادہ کرے۔ کیونکہ خدا کی سنت اس بات پر قائم ہے کہ امور عالم اپنے خاص اسباب و علل کے ساتھ آگے بڑھیں، اسی بنیاد پر اس نے فرمایا ہے: '' جنگ کے موقع پر خاص طریقہ اور اسلحہ کے ساتھ نماز پڑھو''(١) '' اور اپنے لئے دفاعی قوت پیدا کرو''۔(٢) موسیٰ ـ کو حکم دیا کہ ''ہمارے بندوں کو شب (کے سناٹے) میں فرعونیوں کی نگاہوں سے بچا کر شہر سے نکال لو''۔(٣) پیغمبر اکرم نے جب ایک اعرابی کو دیکھا کہ اس نے خداوند عالم پر توکل کے بہانہ اپنے اونٹوں کو جنگل میں چھوڑدیا تو فرمایا: ''اعقلھا و توکّل''(٤) ''اونٹ کو باندھ دو اور خدا پر توکل کرو''۔

٣۔شکر

یہ مفہوم بھی چند لحاظ سے تحقیق کے قابل ہے :

ایک۔ شکر کی ماہیت اور درجات:

شکر کی ماہیت کے سلسلہ میں متعدد عبارتیں استعمال کی گئی ہیں'' نعمت کا تصوراور اس کااظہار ''(٥) ''منعم کی نعمت کی شناخت اور اس کی بہ نسبت سرور و شادمانی، اس سرورکے مقتضیٰ کے مطابق عمل کرنا امور خیر پر عزم کے ساتھ، منعم کی شکرگذاری اور خداوند عالم کی راہ بندگی میں نعمت کا استعمال''(٦) اور ''اظہار نعمت''(٧) یہ ساری تعریفیں شکر کے لئے بیان کی گئی ہیں ان تمام تعریفوںکو یکجا کرکے کہا جاسکتا ہے کہ درحقیقت شکروہی ''نعمت کا اظہار'' ہے ۔

____________________

١۔ سورئہ نساء ١٠١۔ ٢۔ سورئہ انفال ٦١۔ ٣۔سورئہ دخان ٢٣۔ ٤۔ طوسی، امالی، ص ١٩٣، ح ٣٢٩۔٥۔ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ قرآن، ص ٢٧٢۔

٦۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص ٢٣٣۔ اسی طرح ملا حظہ ہو فیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج٧، ص٤٤تا ١٤٦۔

٧۔ علا مہ طباطبائی، المیزان، ج٤، ص ٣٨، اور ج٦، ص ٢١٥۔

۸۸

نعمت کا اظہار ایک طرف اس کے تصورو ادراک کا مستلزم ہے اور دوسری طرف یہ اظہار مختلف مراتب اور پہلوؤں کا حامل ہے کیونکہ نعمت کے اظہار سے مراد اس کا ایسی راہ میںاستعمال کرنا ہے جس میں منعم نے ارادہ کیا ہو، اسی طرح اس کی کا ذکر اور اس کی نعمت کے لئے اس کی مدح و ثنا کرنا ہے۔ اس وجہ سے شکر سہ گانہ مراتب کا حامل ہے قلبی: (یاد کرنا ) ، زبانی (مدح و ثنا ) اورعملی۔ شکر خدا وندی سے مرادیہ ہے کہ انسان پہلے دل میں ہمیشہ اس کی نعمتوں کی طرف متوجہ ہواور اس کی نعمتوں کو یادرکھتا ہو۔ دوسرے یہ کہ اللہ کی بیکراں نعمتوں سے استفادہ کرنے کے وقت اللہ کی حمد و ستائش کے لئے زبان کھولے۔ تیسرے خدا کی نعمتوں اور اس کی برکتوں کواس راہ میںاستعمال کرے جس میں اس کی مرضی اور خواہش ہو ۔(١) شکر کے مقابل کفر ہے جو کہ اللہ کی نعمتوں کو پوشیدہ و مخفی کرنے کے معنی میں ہے۔ البتہ واضح ہے کہ اللہ کی بے شمار نعمتوں کی بہ نسبت اللہ کے شاکر بندے بھی شکر گزاری سے عہدہ بر نہیں ہو سکتے ، اس کے باوجود ادب بندگی اقتضاء کرتا ہے کہ اس راہ میں اپنی انتھک کوشش کرے۔ قرآن اللہ کی نعمتوں کی وسعت اور نوع بشر کے میزان شکر کے بارے میں فرماتا ہے: ''اور تم نے جو کچھ مانگا اس نے عطا کیا، اور اگر خدا کی نعمتوں کو شمار کرو تو ان کا شمار نہیں کرسکتے یقینا انسان بڑا ظالم اور ناشکرا ہے''۔(٢)

دو۔ شکر کی اہمیت:

آیات و روایات میں شکر کی شرح میںذکر ہوا ہے: شکر گزاری خدا کے صفات میں سے ہے '' اور خدا شکر گزار اور برد بار ہے''۔(٣) شکر گزاری جنت میں رہنے والوں کے کلام کی ابتدا وانتہا ہے: ''شکر اس خدا کا جس نے ہم سے کئے گئے اپنے وعدہ کو ہم پر سچ کردکھا یا ''(٤) اور ان کی مناجات کا آخری کلام یہ ہے: ''الحمد لله رب العالمین ''۔(٥) خدا وند عالم نے شکر گزاری کو ایمان کے ساتھ ساتھ عذاب سے روکنے کا باعث قرار دیا ہے: '' اگر شکر گذار بنو اور ایمان لے آؤ تو خدا تم پر عذاب کر کے کیا کرے گا ؟ ''(٦)

____________________

١۔ شکر کے مراتب کو معتبر و مستند احادیث کے مضامین سے استنباط کیا جا سکتا ہے ؛ جیسے کافی، ج٢، ص ٩٦، ح ١٥، اور ص ٩٥، ح٩، ١١۔

٢۔ سورئہ ابراہیم، آیت ٣٤، اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ اعراف، آیت ١٠ اور ١٧، سورئہ یونس، آیت ٦٠ اور سورئہ غافر، آیت ٦١۔

٣۔ سورئہ تغابن، آیت١٧ اسی طرح ملاحظہ ہوسورئہ نساء آیت ١٤٧۔

٤۔ سورئہ زمر ٧٤۔ ٥۔ یونس ١٠۔ ٦۔ نساء ١٤٧۔

۸۹

شکر گزاری کی فضیلت میںاتنا ہی کافی ہے کہ خداوندعالم صریحی طور پر بندوںکو اس کا حکم دیتا ہے: '' اور میرا شکر بجا لاؤ اور میرے ساتھ ناشکری نہ کرو ''(١) حضرت امام زین العابدین ـ کے بقول خداوند عالم کا شکر ادا کرنا انسان کو اللہ کی خاص محبت کے دائرہ میں قرار دیتا ہے: '' حقیقت میںخداوندعالم ہر محزون وغمزدہ دل اور ہر شکر گذار و قدرداں بندہ کودوست رکھتا ہے '' ۔(٢) اس وجہ سے حق شناسی اور شکر گزاری خداوند عالم اور انسان کے درمیان رابطہ بر قرارکرنے و الے اساسی وبنیادی عناصر میں سے ہے یہ انسان کا خدا کے ساتھ رابطہ ہے جس کی اصل الہٰی نعمتوں اور برکتوں کے ادراک اور ان کی نسبت قلبی اعتراف میں پوشیدہ ہے۔قابل ذکر بات ہے کہ ''شکر ''اپنے مجموعی مفہوم کے اعتبار سے لوگوں کی شکر گزاری بھی لوگوں کی خدمتوں کے سلسلہ میں شامل ہے اس طرح کے شکر کے سلسلہ میں اخلاق معاشرت کی بحث میںگفتگو کی جاتی ہے۔

تین۔ شکر خداوندی کا دنیوی نتیجہ:

سب سے اہم دنیوی اثر جو دینی کتابوں میں شکر گزاری کے لئے بیان کیا گیا ہے، پروردگار کی نعمتوں کا زیادہ ہونا ہے۔ قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے: ''جب کہ تمہارے رب نے اعلان کیا کہ اگر شکر کروگے تو(نعمت) کو تم پر زیادہ کردوں گا اور اگرناشکری کروگے تو یقینا میرا عذاب سخت ہے''۔(٣) یہ حقیقت بہت سی روایات میں بیان ہوئی ہے ؛ منجملہ ان کے حضرت علی ـ نے فرمایا: ''خداوند عالم کسی بندہ پر شکر گذاری کا دروازہ نہیں کھولتا، اس حال میں کہ نعمت کا دروازہ اس پر بندکردے '' ۔(٤)

یہ سوال ہمیشہ ہوتا رہتا ہے کہ آیا خداوند سبحان کی شکر گزاری بندوں کے لئے مقدور ہے؟کیونکہ سپاس گذار ی کی توفیق اور اس کی قوت خود خدا کی ایک نعمت ہے اور دوسرے شکر کامستلزم ہے۔ اگراس فریضہ کاانجام دینا انسان کے امکان سے خارج ہے، توپھر کس طرح ا نسان کو اس کے کرنے کاحکم دیتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: ''وہ باتیں جن کی خداوندعالم نے موسٰی ـ کووحی کی تھی ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ موسیٰ میراشکر ایسا اداکرو، جو میرے شایان شان ہو '' موسٰی ـ نے جواب میں پوچھا: خدایا! کس طرح تیری شکرگذاری کا حق ادا کروں جب کہ ہرطرح میری شکرگذاری خود ہی ایک دوسری نعمت ہے ؟ خدا نے جواب میں فرمایا: اب (جب کہ تم نے جان لیا کہ تمہارا شکر کرنا خود ہی ایک دوسری نعمت ہے) تم نے میرے شکرکا حق ادا کردیا '' ۔(١) یعنی شکر الہی کا حق یہ ہے کہ انسان اپنی آخری کوشش کو اس راہ میں صرف کرے، اسی کے ساتھ یہ یقین رکھتاہو کہ اللہ کے شایان شان شکر ادا نہیں ہوسکتا۔

____________________

١۔ بقرہ ١٥٢ اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ اعراف ١٤٤ اور سورئہ زمر ٦٦۔٢۔ کافی، کلینی، ج٢، ص٩٩ح٣٠۔ ٣۔ ابراہیم ٧۔ ٤۔ نہج البلاغہ، حکمت ٤٣٥؛ کافی، ج ٢، ص ٩٤، ح٢اورص ٩٥، ح ٩ ؛ امالی، ص ٥٩۔

۹۰

ب۔ نفس کا اپنی عاقبت کی طرف رجحان

بعض عام اخلاقی مفاہیم انسان کے نفسانی حالات کے نظام کو اپنی عاقبت اور انجام کار کے لئے وجود میں لاتے ہیں وہ اہم ترین مفاہیم جو اس باب میں ذکر ہوئے ہیں یہ ہیں: خوف، رجائ، مایوسی، نا امیدی اور تدبیر خداوندی سے حفاظت۔ چونکہ یاس و ناامیدی ''خوف وخشیت '' کے لئے نقصاندہ اور تدبیر خداوندی سے حفاظت، امید و رجاء کے لئے بلا شمار ہوتی ہے، نتیجہ کے طور پر بحث و گفتگوکا موضوع اس حصہ میں'' خوف و امید '' ہے اور دیگرمفاہیم انھیںدو عنوانوں کے تحت زیر بحث قرار پائیں گے۔

١۔خوف

الف۔ خوف کا مفہو م:

خوف یعنی مستقبل میں یقینی یاظنّی علامتوں کی بنیاد پر انسان کے لئے کسی ایسے ناگوار واقعہ کے پیش آنے کا احتمال(٢) جو فطری طور پر درد مندی اور پریشانی کا باعث ہے۔(٣) اس بناپر ''خوف'' ''بزدلی'' سے اساسی فرق رکھتا ہے کیونکہ'' جبن (بزدلی ) '' سے مراد ہے خود کو دفاع اور انتقام وغیرہ سے ایسی جگہوں پر روکنا جہاں شرعی اور عقلی دونوں لحاظ سے اس کا اقدام کرنا جائز اور بہتر ہے۔(٤)

____________________

١۔ کافی، کلینی، ج٢، ص٩٨، ص٩٨، ح٢٧ملاحظہ ہو۔

٢۔ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ قرآن، ص ١٦١۔

(٣۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص ٢٤٩؛ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص٢٠٩۔

٤۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٢٠٩۔

۹۱

علماء اخلاق نے پہلی تقسیم میں خوف کو دو پسندیدہ اور ناپسندیدہ قسم میں تقسیم کیاہے۔ ناپسند خوف وہی خدا کے علاوہ کسی دوسری چیز سے خوف کھانا ہے اور خوف پسندیدہ عذاب خداوندی اور برے انجام سے خوف کھاناہے اور حقیقت میں اپنی بری رفتار اور اعمال کے ناگوار عواقب سے خوف کھانا ہے۔ یہاں پر ہماری بحث کا موضوع پسندیدہ خوف ہے۔

ب۔ خوف کے درجات:

اخلاق اسلامی کی مشہور کتابوں میں ''ورع'' ''تقویٰ'' اور ''صدق'' کو ''خوف '' کے درجات میں شمار کیا گیا ہے اس طرح سے خوف کا سب سے معمولی درجہ یہ ہے کہ وہ اس بات کا باعث ہو کہ انسان اخلاقی ممنوعات ومنہیات کے ارتکاب سے پرہیز کرے۔ ''خوف ''کے اس درجہ کو ''ورع ''کہتے ہیں۔ اور جب خوف کی قوت اورطاقت میںاضافہ ہوجائے اور وہ اس بات کا باعث ہوکہ انسان محرمات کے ارتکاب کے علاوہ مشکوک و مشتبہ چیزوں سے بھی پرہیز کرے تو اسے تقویٰ'' کہتے ہیں۔ تقویٰ میں صداقت یہ ہے کہ حتی بعض جائز و مباح امور کے ارتکاب سے بھی پرہیز کرے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ حرام کے ارتکاب کی راہ ہموار کردے اور آخر کار جب انسان خدا سے شدت خوف کی وجہ سے سراپا آمادئہ خدمت ہوتا ہے اور ضرورت سے زیادہ کوئی گھر نہیں بناتا اور نہ کوئی مال ذخیرہ کرتا ہے اور اس مال کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا جس کے بارے میں اسے معلوم ہے کہ اسے ایک دن چھوڑ جائے گا اور کوئی سانس بھی غیر خدا کی راہ میں نہیں لیتا تو درحقیقت اس نے ''صدق ''کی وادی میںقدم رکھ دیا ہے اور ایسے مرتبہ کے مالک کو صدّیق کہتے ہیں اس بنا پر مقام ''صدق'' اپنے اندر تقویٰ و ورع بھی رکھتا ہے اور تقویٰ و ورع کا حامل بھی ہے البتہ ''ورع'' عفّت کے ساتھ بھی ہے کیونکہ عفّت نفسانی شہوات وخواہشات سے پرہیز کرنے کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں ہے لیکن اس کے بر عکس صادق نہیں ہے۔(١)

ج۔ خوف کی اہمیت:

اولاً

خدا کا خوف انسان کے لئے سعادت حاصل کرنے میں بڑا بنیادی کردار اداکرتا ہے، کیونکہ پہلے بیان کئے گئے مباحث کی روشنی میں انسان کی سعادت پروردگارسے ملاقات اور اس کے جوار میں سکونت اختیارکرنے کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ بات انس ومحبت الہی کے سایہ ہی میں ممکن و میسر ہے اور وہ خود معرفت الہی پر منحصر ہے اور معرفت خود فکر کی مرہون منت ہے اور انس محبت وذکرپر منحصر ہے۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٢١٩، ٢٢٠۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص ٢٧٠ ، ١ ٢٧۔

۹۲

فکر وذکر الہی اس وقت ہوتا ہے جب انسان اپنے دل کو دنیاوی محبت سے الگ کر لے اور دنیا سے قلبی لگاؤ کو قطع کرنے کے لئے شہوتوں اور لذتوں سے کنارہ کشی کرنے کے سواکوئی اور راستہ نہیں ہے۔ اور خوف خدا وندی کی آگ لذتوں اور شہوتوںکی راہ میں ایک کار آمد اسلحہ ہے۔(١) نتیجةً خوف الہی انسان کا مقصد کی طرف حرکت کرنے کا پہلا سنگ بنیاد ہے۔

ثانیاً،

بہت سی آیات وروایات مختلف انداز سے خدا کے خوف کی اہمیت و منزلت پر تاکید کرتی ہیں۔ منجملہ ان کے قرآن نے خدا سے خوف کرنے والوں کورحمت و رضوان و ہدایت کا وعدہ دیا ہے: ''ان لوگوں کے لئے جو اپنے رب کاخوف رکھتے تھے ہدایت و رحمت تھی''۔(٢) ''خدا ان لوگوں سے راضی و خوشنود ہے اور وہ لوگ بھی اس سے راضی و خوشنود ہیں یہ جزا اس کی ہے جو اپنے رب سے ڈرتا ہے''۔(٣) اسی طرح قرآن خوف کا دعوی صرف حقیقی عالموں سے قبول کرتا ہے: ''خدا کے بندوں میں صرف علماء ہیں جواس سے ڈرتے ہیں''۔(٤) دوسری جگہ خوف کو ایمان کے لوازم میں شمار کیا ہے: ''مومنین وہی لوگ ہیںکہ جب خدا کاذکر ہو تو ان کے دل خوفزدہ ہوں''(٥) سر انجام قرآن نے خدا ترس لوگوں سے بہشت کا وعدہ کیا ہے: '' اور رہے وہ جو خدا کے سامنے کھڑے ہونے سے ہراساں ہیں اور اپنے نفس کو ہواو ہوس سے روک رکھا ہے، اس کا ٹھکانہ بہشت ہے ''۔(٦) خداوندعالم کی حضرت عیسیٰ ـسے گفتگو میں مذکور ہے: ''اے عیسیٰ ! مجھ سے ڈرواور میرے بندوں کو میری نسبت خوف دلاؤ، شاید گناہگار لوگ جو وہ گناہ کرتے ہیں اس سے باز آجائیں اور نتیجہ کے طور پر ہلاک نہ ہوں سوائے ان کے جو جانتے ہیں''۔(٧)

____________________

١۔ ایضاً۔

٢۔ اعراف ١٥٤۔

٣۔ بینہ ٨۔

٤۔ فاطر ٢٨۔

٥۔انفال ٢ ۔ آل عمران ١٧٥۔

٦۔ نازعات ٤٠، ٤١۔

٧۔) کافی، ج ٨، ص ١٣٨، ح ١٠٣۔

۹۳

د۔ خوف کے بارے میں ہوشیاری:

خداوند ذو الجلال سے خوف کھانا وادی قرب الہی میں بندوں کے سلوک کے لئے ایک تازیانہ ہے۔ جیسا کہ اس تازیانہ کا کمزور ہونا یا فقدان، الہی راہ کے سالکوں کے لئے بے زادو راحلہ بنادیتا ہے، حد سے زیادہ اس کی زیادتی بھی امید کی کرن کو اس کے دل میں منزل مقصود تک پہونچنے کے امکان میں خاموش کردے گی اور حرکت کرنے کی طاقت بھی اس سے سلب کرلے گی۔ لہٰذا خدا وند عالم سے خوف میں افراط کرنا رحمت الہی سے قنوط ومایوسی ہے جو خوف خدا کی عظیم آفت ہے۔ اور اخلاقی برائی شمار ہوتی ہے ]بعض ارباب لغت نے قنوط کو مایوسی کا شدید درجہ سمجھتے ہیں ۔(١) اسی بنیاد پر قرآن کریم رحمت خداوندی سے مایوسی کو محض گمراہی تصور کرتا ہے: '' کون ہے جز گمراہوں کے جو رحمت خداوندی سے مایوس ہوتا ہے ؟ ''(٢) اور دوسری جگہ رحمت خداوندی سے مایوسی کو کا فروںکا شیوہ تصور کرتا ہے: '' یقینا ً کافروں کے سوا کوئی رحمت الہی سے مایوس نہیں ہوتا ''۔(٣) بہت سے موارد میںانسان کاخوف زندگی کے برے انجام اور شوم عاقبت سے ہوتا ہے ؛ خوف اس بات کا کہ کہیں انسان کفر کی حالت یا خدا کے انکار یا شک وتردید کی حالت میں دنیا سے چلا جائے یا ایسے حال میں دنیا چھوڑے کہ اس کا دل خدا کی محبت اور اس کے انس سے خالی ہو، نتیجہ کے طور پر اپنے اعمال سے شرمندہ اور عذاب الہی میںگرفتار ہو۔ واضح ہے کہ جو بھی ایسا خوف و ہراس دل میں رکھے گا اسی وقت سے اپنی را ہ وروش اور گفتار کو بدلنا چاہے گا اور یہ وہی خدا سے خوف رکھنے کی فضیلت کا رمز ہے۔

٢۔ امید

الف۔ امید کا مفہوم: '' رجائ'' (''امید '' ) سے مراد قلبی سکون کا احساس ہے اور وہ کسی ایسے امرکے تحقق کے انتظار کے نتیجہ میں ہے جو محبوب اور خوش آیند ہے، البتہ ایسی صورت میں جبکہ اس محبوب امر کے اکثر اسباب اور موجبات محقق وثابت ہوں۔ لیکن جب اسباب کاوجود یا عدم معلوم نہ ہو تو ایسے انتظار کو '' تمنا'' اور '' آرزو'' کہا جاتا ہے۔ اگر امر محبوب کے وجود کے اسباب و علل فراہم نہ ہوں اور اس کے باوجود انسان اس کے تحقق کا انتظار رکھتا ہو توایسے انتظار کو '' فریب '' اور ''حماقت '' کہتے ہیں اور کبھی اس پر رجاء و امید کامفہوم صادق نہیں آتا ہے۔ ''امید ''بھی '' خوف وہراس '' کے مانند ایسی جگہ ذکر کی جاتی ہے جہاں واقعہ کا ظاہر ہونا عام طور سے محتمل ہو نہ کہ قطعی۔ اس وجہ سے امید سورج کے طلوع یا غروب کے متعلق جس کا تحقق قطعی ہے ، صحیح نہیں ہے۔(٤)

____________________

١۔ ملاحظہ ہو ابو ہلال عسکری اور نور الدین جزائری کی کتاب معجم الفروق اللغوےة، ص ٤٣٥، ٤٣٦۔ ٢۔ سورئہ حجر، آیت ٥٦۔ ٣۔ سورئہ یوسف، آیت ٨٧۔ ٤۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص٢٤٩۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٢٤٤۔

۹۴

ب۔ امید کی اہمیت:

قرآن وروایات میں رحمت خداوندی ا ور نیک انجام سے امید مختلف جہات اور اسالیب میںمورد تاکید وترغیب واقع ہوا ہے کہ ذیل میں ان کے صرف اصلی محور کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔

١۔ وہ آیات وروایات جو رحمت خداوندی سے اس مایوسی اور نا امیدی کی مذمت میںہے جو '' امید '' کے مقابل ہے، وارد ہوئی ہیں، ان میں سے بعض بیان ہوچکی ہیں۔

٢۔ وہ آیات وروایات جو بندوں کو واضح طور پر فضل خداوندی کا امید وار بناتی ہیں اور اس کی تشویق وترغیب کرتی ہیں؛ منجملہ ان کے یہ ہے کہ خداوند ذوالجلال رسول اکرم سے فرماتا ہے: ''عمل کرنے والے (مومنین ) ان اعمال پر اعتماد نہ کریں جو میرے ثواب کے حصول کے لئے انجام دیتے ہیں، کیونکہ اگر اپنی تمام عمر میری عبادت کے لئے کوشاں ہوںاور زحمت کریں اس کے بعد بھی کوتاہی کی ہو اور میری عبادت کی کنہ و حقیقت کو کہ جس کے سبب سے وہ کرامت جو میرے نزدیک ہے اور میری بہشت کی نعمتوںکو تلاش کرتے ہیں، نہیں پہونچ سکتے، بلکہ انھیںچاہئے کہ میری رحمت پر اعتماد کریں اور میری بخشش کے امید وار رہیں''۔(١)

٣۔ قرآن وروایات میں مذکور ہے کہ فرشتے اور اللہ کے انبیاء ہمیشہ مومنین کے لئے خداوند عالم سے عفو و بخشش طلب کرتے رہتے ہیں اور یہ خود رحمت خداوندی سے امید رکھنے کا باعث ہے۔

قرآن میں مذکور ہے: ''فرشتے اپنے پروردگار کی حمد میں تسبیح پڑھتے ہیں اوران لوگوںکے لئے جو زمین میں ہیں عفو وبخشش طلب کرتے ہیں''۔(٢)

٤۔ وہ آیات وروایات جو اللہ کے بے کراں عفو ومغفرت پر دلالت کرتی ہیں: ''یقیناً تمہارا رب لوگوں کی نسبت ان کے ستم کے باوجود بخشنے والاہے''۔(٣)

اسی طرح جو کچھ پیغمبر اکرم کی شفاعت کے بارے میں ان کی امت کی نسبت وارد ہوا ہے،(٤) یا وہ آیات وروایات جو اس بات کو بیان کرنے والی ہیں کہ جہنم صرف اور صرف کافروں کے لئے فراہم کی گئی ہے،(٥) یا مومنین کے آتش (جہنم ) میں ہمیشہ رہنے کی نفی کرتی ہیں، اسی طرح گناہگاروں کو عفو و گذشت کی درخواست میں جلدی کرنے کی دعوت دیتی ہیں یہ تمام آیات وروایات درحقیقت خداوندعالم سے امید رکھنے اور حسن عاقبت کی تشویق کرتی ہیں۔(٦)

____________________

١۔ کافی، ج٢، ص٧١، ح ١۔ ٢۔سورئہ شوری، آیت٥۔ ٣۔سورئہ رعد، آیت ٦۔ ٤۔ سورئہ ضحی کی پانچویںآیت کی تفسیر ملاحظہ ہو۔

٥۔ سورئہ آل عمران، آیت ١٣١۔ ٦۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٢٤٧ تا ٢٥٤۔

۹۵

ج۔ امیدکے نقصانات:

خداوندعالم کی رحمت سے امید اور نیک انجام کی توقع رکھنے سے دو لحاظ سے شدت کے ساتھ خطرہ محسوس ہوتاہے کہ ذیل میںا ن کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔

١۔ بغیر عمل کے امید وارہونا:

'' امید '' کی تعریف میں کہا گیا ہے کہ کسی خوش آیند امر کے تحقق کے انتظار کے نتیجہ میں قلبی کو اس صورت میں امید واری کا نام دیا جاتا ہے کہ جب اس کے اکثر وبیشتر اسباب وعلل فراہم ہوں ورنہ خوش آیند سر انجام کا انتظار بغیر اس کے اسباب کے تحقق کے '' حماقت ''اور ''غرور'' کے سوا کوئی چیز نہیں ہوگی۔

امیدواری کی ایک اہم ترین مشکل درواقع جھوٹی اور بے بنیاد امیدیں ہیں، اسلام کے اخلاقی نظام میں سعادتمندی اور نیک بختی صرف عمل صالح کی راہ سے گذرتی ہے لیکن بہت سے ایسے افراد ہیں جو بغیر کوشش اور نیک عمل کے، نیک اور اچھے انجام کی امیدکے داعویدار ہیں۔ حضرت علی ـ اس گرو ہ کو ہوشیار کرتے ہوئے فرماتے ہیں''کیا تم امید رکھتے ہو کہ تمہیںخدا متواضع افراد جیسا اجر دے دیگا جب کہ تم اس کے نزدیک سرکشوں میں شمار سے ہو اور صدقہ دینے والوں کے ثواب کی آرزو رکھتے ہو جب کہ تم نعمت سے مالامال ہو اوراسے بے چاروں اور بیوہ عورتوں پر خرچ کرنے سے دریغ کرتے ہو !آدمی نے جو کچھ کیا ہے وہ اسی کی جزا پاتا ہے اور جو اس نے پہلے روانہ کیا ہے اسی پر وارد ہوتا ہے''۔(١)

٢۔ تدبیر خداوندی سے اپنے کو محفوظ سمجھنا:

خداوند رحمان کی بخشش کا حد درجہ امیدوار ہونا تدبیر خداوندی (سزائے الہی) سے بے خوفی کا احساس دلاتا ہے جو کہ اخلاقی رزائل میںسے ایک ہے۔ خود کو اللہ کے عذاب سے محفوظ سمجھنا خوف الہی سے منافات رکھتا ہے، نیز تدبیر الہی سے امان کا احساس انسان کو گناہ و عصیان میںغوطہ لگانے کا آغاز ہے۔ اسی بنیاد پر انبیاء واولیاء خود کو امن وامان میں نہیں سمجھتے تھے اور ہمیشہ عذاب خداوندی سے خوفزدہ رہتے تھے۔ قرآن کریم تدبیر خداوندی سے امان کے احساس کی مذمت میں فرماتا ہے: ''آیا انہوں نے خود کو تدبیر خداوندی سے امان میں خیال کیا ہے ؟ (باوجودیکہ) خسارہ اٹھانے والے لوگوں کے علاوہ کوئی بھی خود کو تدبیر الہی سے محفوظ نہیں سمجھتا''۔(٢)

____________________

١۔ نہج البلاغہ، مکتوب ٢١، اور ملاحظہ ہو خطبہ ١٦٠، حکمت١٥٠ حرانی، تحف العقول، ص ٢ ۔ کافی، کلینی، ج٢، ص ٦٨، ح٥۔

٢۔ اعراف ٩٩۔

۹۶

۳۔ خوف ورجاء کے درمیان مناسبتیں:

اس سلسلہ میں دورخ سے توجہ کی جاسکتی ہے: ایک قلب انسان پر ان میں سے ہر ایک کی کیفیت اور اثر کے اعتبار سے، دوسرے یہ کہ دونوں ایک دوسرے کے مقابل کیا مقام ومنزلت اور کیا اہمیت رکھتے ہیں ،یعنی یہ کہ آیا امید، خوف سے زیادہ اہم چیز ہے یا اس کے عکس (خوف امید سے زیادہ اہم ہے؟)

پہلی بات تویہ ہے کہ خوف ورجاء گذشتہ مفہوم کے اعتبار سے اصل وجود میں ایک دوسرے کی نسبت لازم وملزوم ہیں ؛ کیونکہ ''خوف '' کسی ناگوار امر کے وقوع اور آئندہ ممکن الحصول چیز کے انتظار کے نتیجہ میں قلبی گھبراہٹ اور پریشانی ہے ، اس وجہ سے جس طرح اس کا واقع ہونا احتمال رکھتا ہے اسی طرح اس کاواقع نہ ہونا بھی احتمال رکھتا ہے نیز جس طرح اس کا واقع ہوناناگوار اور نا خوش آیند ہے اسی طرح اس کا واقع نہ ہونا بھی خوش آیند اور اس کے عدم کا انتظار خودہی مایۂ امید ہوگا۔اس وجہ سے ہرامید اپنے دامن میں خوف و ہراس رکھتی ہے اور اس کے برعکس ہر خوف و ہراس بھی اپنے دامن میں امید رکھتا ہے۔ رہا اس سوال کا جواب کہ ان دونوں کا اثر انسان پر کس درجہ ہے؟ کہا جا سکتا ہے: یہ نسبت اسی اندازہ اور میزان کے ساتھ ہونی چاہیے کہ ان دونوںمیں سے کوئی بھی دوسرے کے اثر حرکت اور کارآمد ہونے کو کم نہ کرے، کیونکہ خوف و رجاء عمل صالح اور خداوند عالم سے تقرب کا ذریعہ ہیں، اور یہ اس وقت ثابت ہوگا جب دونوں ہی تعادل وتوازن کے ساتھ( میانہ حالت پر) ہوں۔

دوسری بات یہ ہے کہ اہمیت کے اعتبار سے جب دونوں کا ایک دوسرے سے مقایسہ کیا جائے تو یہی ذہن میں آتا ہے کہ اس قیاس کو دوسطح میں انجام دیا جا سکتا ہے: ١ فرداًفرداًافراد اور مصادیق کے اعتبار سے، ٢ مصادیق سے صرف نظر کرکے تنہاخوف ورجاء کی حقیقت پر غور کرتے ہوئے افراد کی نسبت ان دونوںمیں سے ہر ایک کا مقدم ہونا فردکی حالت سے وابستہ ہے۔ بعض کو ''امید '' متحرک کردیتی ہے تو بعض کو ''خوف '' متحرک بنادیتا ہے۔ واضح ہے کہ مناسب دوا ہرایک کے لئے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن معین افراد واشخاص سے قطع نظر اور خوف و رجاء کی حقیقت کے پیش نظر بعض آیات(١) و روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ اگر عمل خداوندرحمان پر امید کے ذریعہ انجام پائے تو اس عمل پر جو خوف کی بنا پر وجود میں آتا ہے۔ برتری رکھتا ہے۔ منجملہ ان کے حضرت علی ـسے نقل ہوا ہے: ''رحمت الہی کی امید خوف الٰہی سے زیادہ قوی ہے۔کیونکہ خداوندعالم سے تمہارا خوف کھانا تمہارے گناہوں سے پیدا ہوتا ہے لیکن خدا سے تمہاری امید اس کی بخشش سے پیدا ہوتی ہے، لہٰذا خوف تمہاری طرف سے ہے اور امید اس کی طرف سے''۔(٢) دعائے جوشن کبیر میں وارد ہوا ہے:''یا من سبقت رحمته غضبه'' اے وہ ذات جس کی رحمت اس کے غضب پر سبقت رکھتی ہے۔

____________________

١۔ فصلت ٢٣ اور فتح ١٢۔ ٢۔ شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدیدمعتزلی، ج٢٠، ص ٣١٩ ،ح ٦٦٦۔

۹۷

ج۔ نفس کا خود اپنی طرف رجحان

نفس انسانی کے اپنی نسبت رجحان کا تعادل وتوازن بعبارت دیگر اپنے کام سے متعلق صحیح جانچ پڑتال رکھنا اخلاق اسلامی میں عام مفاہیم کے دوسرے گروہ کا ہدف ومقصد ہے۔ سب سے اہم وہ مفہوم جو انسانی کے اپنی نسبت مثبت رجحان اور صحیح جانچ پڑتال کا ذریعہ بیان کرتا ہے وہ '' انکساری '' یا '' خود شکنی '' اور '' تواضع '' ہے۔

١۔ انکسار نفس

نفس کی انکساری اور خود شکنی سے مراد یہ ہے کہ انسان بغیر اس کے کہ اپنا کسی غیر سے مقایسہ کرے خود کو سب سے حقیر چھوٹا سمجھے نیز خود پسند اور اپنے آپ سے راضی نہ ہو، خود شکنی تواضع کا سرچشمہ ہے اور بغیر اس کے تواضع محقق نہیں ہوتی۔ اس بنا پر جو کچھ تواضع کی اہمیت اور فضیلت کے بارے میں بیان کیا جائے گاوہ سب فروتنی اور خود شکنی کی فضیلت پر بھی دلالت کرے گا، اور شاید اسی وجہ سے آیات و روایات میں زیادہ تر ''تواضع '' کے سلسلہ میں تاکید کی گئی ہے اور انکساری نفس اور خود کو حقیر شمار کرنے کے بارے میں کم ذکر آیا ہے۔ انکساری نفس کی فضیلت کے مختلف پہلوئوں کو جب اس کے موانع سے مقایسہ کریں اور ان کے متضاد مفاہیم پر غور کریں تو بخوبی دریافت کرسکتے ہیں، یہ موانع درج ذیل ہیں:(١)

پہلی نظر عُجب(خود پسندی)

عُجب خود ستائی اور غرور فروتنی اور خودکو حقیر شمار کرنے کے اصلی و بنیادی موانع میں سے ایک ہے، چونکہ خودستائی حقیقت میں خود پسندی کی علامت اور اس کے ملحقات میں سے ہے لہذا ہم موانع کی بحث کو خود پسندی اور غرور کے محور پر بیان کریں گے۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٣٤٣ملاحظہ ہو۔

۹۸

الف۔ عُجب کا مفہوم:

عُجب یعنی خود کو اس کمال کی وجہ سے عظیم اور بلند سمجھنا ا جو وہ اپنے اندر سمجھتا ہے خواہ وہ کمال واقعاً اس میں پایا جاتا ہو یا نہ پایا جاتا ہو، نیز جس چیز کو وہ کمال تصور کررہا ہے واقعاً بھی کمال ہو یا نہ ہو اس وجہ سے خود پسندی میں بھی انکسار نفس اور فروتنی کے مانند دوسرے سے مقایسہ نہیں پایا جاتا ہے اور بغیر اس کے کہ انسان اپنا دوسروں سے مقایسہ کرے اپنے اندرپائے جانے والے واقعی یاخیالی کمال کے تصوّر کی وجہ سے نیز اس بات سے غفلت کے سبب کہ ہر کمال خدا کی جانب سے ہے، اپنے آپ پر مغرور اور راضی و خوشنود ہے اور اپنی حالت کوپسند کرتا ہے۔ بر خلاف ''کبر '' کے کہ متکبر انسان اپنے آپ سے راضی و خوشنود ہونے کے علاوہ خود کو دوسروں سے مقایسہ کرکے اور اپنے آپ کو غیروں سے بہتر سمجھتا ہے نیز اپنے لئے دوسروں کے مقابل حق اور اہمیت و امتیاز کا قائل ہے(١)

اس بنا پر، ''کبر'' کا محقق ہونا اس بات کا مستلزم ہے کہ'' عُجب '' بھی پایا جائے، لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہے کہ جہاں عُجب و خود پسندی ہووہاں کبر بھی ضروری ہو۔کبھی انسان کی خود پسندی اس درجہ بڑھ جاتی ہے کہ جو اس کے اندر کمال پایا جاتا ہے اس کی وجہ سے اپنے لئے خدا وند عالم سے حقوق اور مطالبات کا انتظار کرتا ہے اور اپنے لئے خدا کے نزدیک حیثیت و مرتبہ کا قائل ہو جاتا ہے، اس طرح سے کہ ناگوار حوادث کا وقوع اپنے لئے بعید سمجھتا ہے ایسی حالت کو ''ادلال'' کہا جاتا ہے ،درحقیقت یہ حالت خود پسندی کا سب سے بڑا اور بدترین درجہ ہے۔(٢)

ب۔ خود پسندی کی مذمت :

قرآن کریم میں بارہاخود پسندی کی مذمت کی گئی ہے، منجملہ ان کے جنگ حنین میں مسلمانوں کی شکست کی علّت بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے: ''یقیناً خداوندرحمان نے تمہاری بہت سے مواقع پر مدد کی ہے اورحنین کے روز بھی جب کہ تمہاری کثرت تعداد نے تمہیں فخر وناز میں مبتلا کر دیا تھا لیکن اس نے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور زمین اپنی تمام تر وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی، پھر تم دشمن کی طرف پیٹھ کر کے فرار کر گئے''۔(٣)

اس آیت میں خود پسندی کا ذکر اخلاقی برائی کے عنوان سے ہوا ہے جو کہ لشکر اسلام کی شکست کا باعث بن گئی ۔ پیغمبر اکرم سے منقو ل ہے کہ خدا وند عالم نے حضرت داؤد ـ سے فرمایا: ''اے داؤد! گناہگاروں کو بشارت دے دو اور صدیقین (سچے اور پاک باز لوگوں کو ) ڈراؤ۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٣٢١، ٣٢٢ملاحظہ ہو۔ ٢۔ ایضاً، ص٣٢٢۔٣۔ سورئہ توبہ، آیت٢٥۔ اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ حشر، آیت ٢۔ سورئہ کہف، آیت ٤٠۔ اور سورئہ فاطر، آیت ٨۔

۹۹

داؤد ـ نے عرض کی: گناہگاروں کو کس طرح مژدہ سنائوں اورصدیقین کوکیسے ڈراؤں ؟ خدا نے فرمایا: اے داؤد! گنہگاروں کو اس بات کی خوش خبری دو کہ میں توبہ قبول کروں گا اوران کے گناہوں کو معاف کر دوں گا اور صدیقین کو ڈراؤ کہ اپنے اعمال پر اترائیں نہیں ، کیونکہ کوئی ایسا بندہ نہیں ہے جس کا محاسبہ کروں مگر یہ کہ وہ ہلاک ہو۔(١)

بے شک خود پسندی اور خود بینی اخلاق اسلامی کی رو سے نہ صرف ایک غیر اخلاقی عمل ہے بلکہ اخلاقی رذائل کی ایک شاہراہ ہے اورجو تعبیریں دینی کتابوںمیں اس کی مذمت میں وارد ہوئی ہیں وہ اس مختصر کتاب کی گنجائش سے باہر ہیں۔(٢)

ج۔خود پسندی کے اسباب:

اسلامی اخلاق کے عالموںنیخود پسندی کے بہت سے اسباب و عوامل ذکر کئے ہیں کہ ان میں سے اہم ترین درج ذیل ہیں:

١۔ جسمانی بنیاد پر خود پسندی، جیسے خوبصورتی، جسم کا تناسب، اس کی صحت اور اس کا قوی ہونا، خوش آواز ہونا ِ اور اس کے مانند۔

٢۔ اقتداراور قدرت کے احساس کی بنا پر خود پسندی، جیسا کہ خدا وندعالم قوم عاد کے بارے میں فرماتا ہے کہ وہ لوگ اسی طرح کے توہم کا شکار ہوکر بولے: '' ہم سے زیادہ قوی کون ہے(٣) ؟'' اس طرح کی خود پسندی عام طور پر جنگ اور ظلم وستم ایجاد کرتی ہے۔

٣۔ عقل ودانش، ذہانت وآگاہی اور دینی اور دنیوی امور کے بارے میں دقیق اور وسیع علم رکھنے کی بنیاد پر خود پسندی۔ اس طرح کی خود پسندی کا نتیجہ خود رائی، ہٹ دھرمی، مشورہ سے بے نیازی کا احساس، دوسروں کو جاہل خیال کرنا اور عالموں اور دانشوروں کی باتوں کو سننے سے پرہیز کرنا ہے۔

٤۔ انتساب کی وجہ سے خود پسندی یعنی باشرف نسب اور با عظمت بزرگوں کی طرف منسوب ہونے کی بنا پر جیسے بنی ہاشم کی طرف منسوب ہونااور سید ہونا یا بزرگ خاندان سے تعلق یاشاہان وسلاطین کی طرف انتساب۔ انسان کاایسا خیال اپنے لئے لوگوں کی خدمت گذاری کی چاہت پیدا کرتا ہے۔

____________________

١۔ اصول کافی، کلینی، ج٢، ص ٣١٤، ح٨۔

٢۔ علامہ مجلسی ،بحار الانوار، ج ٧١، ص ٢٢٨تا ص ٢٣٥۔ کافی، ج ٢، ص ٣١٣، ٣١٤۔

٣۔ سورئہ فصلت، آیت ١٥۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

احكام كا فلسفہ ۹; احكام كى تشريع ۷

اديان:اديان كا توافق۶; اديان ميں محرمات ۶

اسماء صفات:صفات جلاليہ ۷

الله تعالى :الله تعالى اور ظلم۴،۷;الله تعالى كا منزہ ہونا ۷

اہل يہود:اہل يہود پر حلال چيزوں كى حرمت ۱۴; اہل يہود كى تاريخ ۲;اہل يہود كى خصوصيات ۲; اہل يہود كى دنياوى سزا ۴; اہل يہود كى سزا كے اسباب ۳; اہل يہودكے شرعى وظائف كى سختى ۲; اہل يہودكے شرعى وظائف كى سختى كا فلسفہ ۳

خوردونوش اشيائ:خوردونوش اشياء كى حرمت ۶

سختي:سختى كے اسباب ۸

سزا:سزا كے ذرائع ۹

ظلم :ظلم كے آثار ۸

آیت ۱۱۹

( ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ عَمِلُواْ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابُواْ مِن بَعْدِ ذَلِكَ وَأَصْلَحُواْ إِنَّ رَبَّكَ مِن بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ )

اس كے بعد تمھارا پروردگار ان لوگوں كے لئے جنھوں نے نادانى ميں برائياں كى ہيں اور اس كے بعد تو بہ بھى كرلى ہے اور اپنے كو سدھار بھى ليا ہے تمھارا پروردگار ان باتوں كے بعد بہت بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے _

۱_ خداوند عالم نے بدكار افراد كو توبہ اور اصلاح كرنے كى صورت ميں حتمى طور پر انكے گناہوں كى بخشش كا وعدہ

۶۴۱

فرمايا ہے_ثم انّ ربّك للذين عملوا السوء بجهالة ثم تابوا من بعد ذلك وا صلحوا ء انَّ ربّك من بعدها لغفور رحيم

۲_ توبہ كے ذريعے ہر قسم كے گناہ اور بدكارى قابل بخشش ہے_

ثم ان ربّك للذين عملوا السوء ...ثم تابوا من بعد ذلك ...لغفور ر حيم

قابل ذكر ہے كہ مذكورہ بالا تفسير كلمہ'' السوئ'' كے مطلق ہونے كو مد نظر ركھتے ہوئے ہے_

۳_ ہر قسم كا قبيح اور ناشائستہ عمل ، اپنے نفس پر ظلم كرنا ہے_ولكن كانوا نفسهم يظلمون ...للذين عملوا السوئ

۴_ خداوند عالم اس صورت ميں بدكار افراد كى بخشش كرے گاجب انہوں نے عمداً اور سركشى كرنے كى بجائے انجام كے حقائق سے جہالت و نادانى كى بناء پرگناہ كا ارتكاب كيا ہو_ثمّ انّ ربّك للذين عملوا السوء بجهالة

ممكن ہے كہ ''بجہالة'' سے مراد علم كے مقابلہ ميں الہى احكام سے جہالت نہ ہو كيونكہ اس صورت ميں گناہ سرزد نہيں ہوا ہے تا كہ توبہ يا مغفرت الہى كى ضرورت ہو بلكہ اس سے مراد سركشى اور جانتے ہوئے عمل كرنے كے مقابلہ ميں جہالت ہے اور بلند آسمانى معارف سے جہالت بھى مراد ہے_

۵_ حقائق سے جہالت و ناداني، ہرگناہ اور بدكارى كا سبب ہے_للذين عملوا السوء بجهالة

كلمہ ''بجہالة'' بدكار افراد كو دو گروہوں ميں تقسيم نہيں كررہا ہے بلكہ احتمال يہ ہے كہ يہ بدكردار افراد كى ماہيت كى وضاحت كے بيان كے مقام پر ہے يعنى ہر بدكار حتمى طو ر پرجاہل اور بے عقل ہے _ كيونكہ اگر وہ عقل مند ہوتا تو وہ اپنے آپ كو گناہ كے برے انجام ميں كبھى بھى مبتلا نہ كرتا_

۶_ گذشتہ لغزشوں كى اصلاح اور عملى طور پر اصلاح كى طرف ميلان، حقيقى توبہ كى علامت اور اسكى قبوليت كى شرط ہے_

ثم تابوامن بعد ذلك وا صلحوا انّ ربّك من بعدها لغفور رحيم

مذكورہ تفسيراس بناء پر ہے كہ ''اصلحوا'' كا متعلق اور مفعول ذكر نہيں ہوا ہے _ليكن ما قبل جملہ(للذين عملوا السوئ ...) جو كہ خطاء اور بدكارى كے بارے ميں بيان كررہا ہے ، كے قرينہ كى بناء پر اس سے مقصور گذشتہ حالت كى اصلاح اور اصلاح كرنے كے درپے ہونا ہے _

۷_ اگر امور كو حلال و حرام قرار دينا ( بدعت پيدا كرنا) جہالت اور كم علمى كى وجہ سے ہو تو توبہ اورگذشتہ غلطيوں كى اصلاح كى صورت ميں الہى مغفرت اور بخشش كے قابل ہے _

۶۴۲

لا تقولوا ...هذا حلال وهذا حرام ...وعلى الذين هادوا حرّمنا ...ولكن كانوا نفسهم يظلمون ثم انّ ربّك للذين عملوا السوء بجهالة ...انّ ربّك من بعدها لغفور رحيم

۸_انسان كا عمل ، اسكے عقائدو نيت اور باطنى كيفيات پر علامت ہے :ثم تابوا من بعد ذلك و ا صلحو

آيت كريمہ ميں عملى طور پر اصلاح كرنا، توبہ كى شرط اوراسكے حقيقى ہونے كے عنوان سے ذكر ہوا ہے اور يہ اس بات پر علامت ہے كہ انسان كے خداكى طرف اندرونى تحولات عمل صالح كے بغير ناممكن ہيں _

۹_ گناہگار توبہ كرنے والوں كى نسبت مغفرت اور وسيع رحمت ، خدا وند عالم كى ربوبيت كا تقاضا ہے_

إنّ ربّك للذين ...انّ ربّك من بعدها لغفور رحيم

۱۰_ خداوند عالم، وسيع رحمت اور بخشنے والا ہے _انّ ربّك ...لغفور رحيم

۱۱_ ظلم اور گناہ ،انسان كيلئے مغفرت اور خدا كى وسيع رحمت سے بہر ہ مند ہونے كيلئے ركاوٹ ہے_

كانوا ا نفسهم يظلمون ...ثم تابوا ...وانّ ربّك من بعد هالغفور رحيم

''من بعدہا '' كى تعبير اور قيد يہ بتارہى ہے كہ حقيقى توبہ سے پہلے انسان خداوند عالم كى اس قدر وسيع رحمت اور بخشش سے بہرہ مندنہيں ہو سكتا ہے_

۱۲_خداوند عالم كى بخشش ،مہربانى سے مخلوط ہے_انّ ربّك من بعدها لغفور رحيم

مذكورہ تفسير اس نكتہ پر موقوف ہے كہ''رحيم '' كلمہ ''غفور'' كيلئے صفت ہو _

اصلاح:اصلاح كے آثار ۱،۷

الله تعالي:الله تعالى كى ربوبيت كے آثار ۹; الله تعالى كى رحمت ۱۰; الله تعالى كى مغفرتيں ۱۰; الله تعالى كى مغفرت كى خصوصيات ۱۲; الله تعالى كى مہربانى ۱۲; الله تعالى كے وعد ے ۱

ايمان:ايمان كے علامتيں ۱۸

بدعت:بدعت كى بخشش كے شرائط۷; بدعت كے بارے ميں جہالت ۷

بد كار افراد:بدكار افراد كى مغفرت ۱

توبہ :

۶۴۳

توبہ كى قبوليت كے شرائط ۶; توبہ كے آثار ۱،۲

توبہ كرنے والے:توبہ كرنے والوں كى مغفرت كا سبب۹

جہالت:جہالت كے آثار ۴،۵،۷

رحمت:رحمت كاسبب ۹;رحمت كے موانع ۱۱

ظلم:ظلم كے آثار ۱۱

عمل:عمل كى اصلاح۶; عمل كے آثار ۸; نا پسنديدہ عمل كا ظلم ۳; ناپسنديدہ عمل كا سرچشمہ ۵

گناہ:جاہلانہ گنا ہ كى مغفرت ۴; گناہ سے پشيمانى ۶; گناہ كا سرچشمہ ۵; گنا ہ كى مغفرت كے اسباب ۲; گناہ كے آثار ۱۱

نفس:نفس پر ظلم ۳

آیت ۱۲۰

( إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتاً لِلّهِ حَنِيفاً وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ )

بيشك ابراہيم ايك مستقل امت اور اللہ كے اطاعت گذار اور باطل سے كترا كر چلنے والے تھے اور مشركين ميں سے نہيں تھے _

۱_حضرت ابراہيمعليه‌السلام اكيلے ايك امت كے مقام وبلند منزلت پر فائز اور تما م انسانى فضائل اور اقدار كے مالك تھے_

انّ ابراهيم كان امّة

حضرت ابراہيمعليه‌السلام كي''امت '' كيساتھ توصيف ممكن ہے اس وجہ سے ہو كہ تمام فضائل و اقدار جنكا ايك قوم نہ كہ فرد ميں جمع ہونا ممكن ہو ان حضرتعليه‌السلام ميں جمع تھا اور وہ ايك ايسے مكمل معاشرہ كہ جسميں تمام گوناگوں فضائل اور اقدار موجود ہوں سے بہرہ مند تھے_

۲_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اپنى نبوت كے آغاز ميں ہى اپنے زمانے كے تن تنہا موّحد اور عبارت كرنے والے تھے_

ان ابراهيم كان اْمّة قانتاًلله

۳_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام ''توحيدى امت كے عظيم بانى ہيں''انّ ابراهيم كان امّة

مذكورہ تفسير اس احتمال كى بناء پر ہے كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام پر امت كا اطلاق اس وجہ سے ہو كہ آنحضرتعليه‌السلام كا توحيد

۶۴۴

ى امت كى تشكيل ميں اہم كردار ہو_ مسلسل اور پر اخلاص عبادات نيز افراط وتفريط و كج روى سے اجتناب ، حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى اہم خصوصيات ميں سے ہے _انّ ابراهيم ...قانتا لله حنيف

مذكورہ تفسير دو نكتہ پر موقوف ہے_

۱_ ''قنوت'' كا معنى خاضعانہ اطاعت كا تسلسل ہے_

۲_ ''الحنف'' كا معنى گمراہ سے ہدايت اور حق كى طرف ميلان ہے (مفردات راغب) اور اس ميں افراط و تفريط سے دورى اور حد وسط و ميانہ روى كى طرف ميلان كامعنى مضمر ہے_

۴_ خدا كے سامنے زيادہ سے زيادہ سر تسليم خم اور سيدھے معتدل راستہ پر گامزن ہونا ،اسكے نزديك انسانى كمالات كى بلندى كا سبب ہے_ان ّ ابراهيم كان اْمّة قانتا ً لله حنيف

۵_ شريعتوں كے احكام كے صحيح اور نا صحيح ہونے كا معيار و ملاك ،دين ابراہيمعليه‌السلام كيساتھ تو افق اور عدم توافق ہے _

ولا تقولوا ...هذا حلال وهذا حرام لتفتروا على الله الكذب انّ ابراهيمعليه‌السلام كان امّة قانتا لله حنيفاً ولم يك من المشركين

اس آيت كريمہ كا ما قبل آيت سے ربط اور درج ذيل ۳ نكات كو مد نظر ركھتے ہوئے مذكورہ تفسير كا استفادہ ہوتا ہے_

۱_گذشتہ آيات بدعت اور حلال كو حرام اور حرام الہى كو حلال كرنے كے بارے ميں تھيں _

۲_ تمام آسمانى اديان كے پيروكار حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے دين كے دعوى دار ہيں _

۳_ اس چيز كا ذكر كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام خداكے سامنے خاضع اور حنيف تھے ان افراد پر انگشت نمائي ہے جو حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى پيرو ى كا دعوى كرتے ہيں ليكن اسكے باو جود كسى دليل كے بغير امو ر كو حلال اور حرام قرار ديتے ہيں _

۶_حضرت ابراہيمعليه‌السلام ،شرك سے منزہ اور مشركيں كيصنف سے جدا تھے_انّ ابراهيم ...ولم يك من المشركين

۷_عن ا بى جعفر عليه‌السلام فى قوله ''انّ ابراهيم عليه‌السلام كان امّة قانتا للّه حنيفا'' وذلك انه على دين لم يكن عليه احد غيره فكان اُمة واحدة وا مّا ''قانتاً'' فالمطيع وامّا الحنيف فالمسلم ...''

۶۴۵

امام باقرعليه‌السلام سے خدا وند عالم كے اس قو ل''ان ابراهيم كان امة قانتاً لله حنيفاً'' كے بارے ميں روايت نقل ہوئي ہے : حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا امت ہونااس وجہ سے ہے كہ وہ ايسے دين پر تھے كہ جس دين پر انكے علاوہ كوئي دوسر انہيں تھا اور'' قانتا''كا معنى مطيع اور''حنيف'' مسلم كے معنى ميں ہے _

ابراہيمعليه‌السلام :حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور شرك۷; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا اخلاص ۴; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا اعتدال ۴; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا امت ہونا ۱; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا حنيف ہونا ۸; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا دين ۸; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا كردار۳; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا قصہ۲; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا منزہّ ہونا ۷; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى اطاعت ۸; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى توحيد عبادي۲; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى خصوصيات ۲،۴; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى عبادت كا دوام ۴; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے امت ہونے كا فلسفہ ۸;حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے دين كى اہميت ۶; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے فضائل ۱،۴

اديان:اديان كے صحيح ہونے كا معيار ۶

اطاعت:اطاعت كے آثار ۵

اعتدال:اعتدال كے آثار ۵

اقوام:توحيد ى امت كا بانى ۳

تسليم:خدا كے سامنے تسليم كے آثار ۵

روايت:۸

صراط مستقيم:صراط مستقيم كى اہميت ۵

موّحد افراد :۲،۷

۶۴۶

آیت ۱۲۱

( شَاكِراً لِّأَنْعُمِهِ اجْتَبَاهُ وَهَدَاهُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ )

وہ اللہ كى نعمتوں كے شكرگذار تھے خدا نے انھيں منتخب كيا تھا اور سيدھے راستہ كى ہدايت دى تھى _

۱_ خداوند عالم كى نعمتوں كے مقابلہ ميں شكر گزارى ، حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے اوصاف اور خصوصيات ميں سے تھا_

ان ابراهيمعليه‌السلام كان شاكراً لا نعمه

۲_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام خدا كے برگزيدہ ( بندے) تھے_ان ابراهيم عليه‌السلام اجتباه

۳_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام ميں فرمان خداكو دل و جان سے قبول كرنے كى فكر ، انكى حق پرستى اور شرك سے اجتناب نيز ان كى شكر گزارى نے خداوند عالم كى جانب سے ان كے انتخاب ميں اہم كردار ادا كيا_

ان ابراهيمعليه‌السلام ...اجتباه كان امّة قانتاً لله حنيفاً ولم يك من المشركين شاكراً الا نعمه اجتباه

خداوند عالم نے حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے ليے چار كسبى صفات بيان كرنے كے بعد ان كے انتخاب و برگزيدگى كے مسئلہ كو پيش كيا ہے ان دوكلاموں كے درميان باہمى ارتباط سے استفادہ ہوتا ہے كہ معنوى اوصاف اور اخلاقى فضائل كے حصول نے حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے انتخاب ميں اہم كردار ادا كيا ہے _

۴_ خداوند عالم نے حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى ''صراط مستقيم'' كى طرف ہدايت فرمائي ہے _هذ ه إلى صراط مستقيم

۵_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا صراط مستقيم كى طرف ہدايت پانے كے سلسلہ ميں ان ميں خدا كے سامنے سر تسليم خم ہونے كى فكر ، حق پرستى ، شرك سے اجتناب اور ان كى شكر گزارى كا اہم كردار ہے_

ان ابراهيم كان امّة قانتاً لله حنيفاً ولم يك من المشركين شاكراً الا نعمه اجتباه وهذه الى صراط مستقيم

۶_صراط مستقيم كو پانے كے ليئے انسان الہى ہدايت ك

۶۴۷

محتاج ہے_هذه إلى صراط مستقيم

۷_ خداوند عالم كى جانب سے انسانوں كے انتخاب كے سلسلہ ميں ان كى معنوى شخصيت اور شخصى فضائل ، معيار ہيں _

ان ابراہيم كان امة قانتالله حنيفاً و لم يك من المشركين شاكراً لا نعمہ اجتبہ

۸_ صراط مستقيم كے راستے پر گامزن ہونے كى توفيق كے حصول كے ليئے انسان كى شخصى كوشش اور معنوى فضائل كا كسب مؤثر ہے_ان ابراهيم كان امة قانتا لله حنيفاً _ هذه الى صراط مستقيم

ابراہيم :حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا انتخاب ۲۰; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى اطاعت كے آثار ۳،۵;حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى حق پرستى ۳،۵; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى شكر گزارى ۳،۵; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى شكر گزارى كے آثار ۳،۵; حضرت ابراہيم كى صفات ۱; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى ہدايت ۵; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى ہدايت كے اسباب ۵; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے شرك سے مقابلہ كے آثار ۳; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے فضائل ۱; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے مقامات ۲

الله تعالى :الله تعالى كى ہدايتيں ۴; الله تعالى كے منتخب شدہ بندے ۲

انتخاب:انتخاب كا معيار ۷

آیت ۱۲۲

( وَآتَيْنَاهُ فِي الْدُّنْيَا حَسَنَةً وَإِنَّهُ فِي الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ )

اور ہم نے انھيں دنيا ميں بھى نيكى عطا كى اور آخرت ميں بھى ان كا شمار نيك كردار لوگوں ميں ہوگا _

۱_حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا دنياوى زندگى ميں خداوند عالم كى عنايات اور احسانات سے بہرہ مند ہونا _

ان ابراهيم كان ...وء اتينه فى الدنيا حسنة

۲_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام آخرت ميں صالحين كے زمرہ ميں ہيں _وانه فى الاخرة لمن الصالحين

۳_ حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے دين ميں الہى احسانات و نعمتوں اور آخرت ميں بلند و برتر منزلت سے بہرہ مند ہونے ميں خدا كے سامنے سر تسليم خم ہونے كى فكر، حق پرستى ، شرك سے اجتناب اور انكى شكر گذارى كا اہم كردار ہے_

انّ ابراهيمعليه‌السلام كان امّة قانتاً لله ...وء اتينه فى الدنيا حسنة و انّه فى الاخرة لمن الصالحين

۴_ آخرت ميں صالحين كا مقام و منزلت ، بلند اور خصوص مقام ہے _وانه فى الاخرة لمن الصالحين

۶۴۸

يہ جو خداوند عالم نے حضرت ابر اہيمعليه‌السلام پر احسان جتلانے كے مقام پر انہيں صالحين كے زمرہ ميں شمار كيا ہے يہ اس

بات كى علامت ہے كہ صالحين كا مقام و مرتبہ بلند و برتر ہے اور حضرت ابراہيمعليه‌السلام جيسى شخصيات اس مقام كے اہل ہيں (وانّه فى الاخرة لمن الصالحين )

۵_دنيا ميں انسان كا عنايات و احسانات اور آخرت ميں بلند مقامات سے بہرہ مند ہونا ، خود اس كى كوشش اور معنوى فضائل كے حصول كا مرہون منت ہے_ان ابراهيم عليه‌السلام كان امّة قانتاً لله و انّه فى الاخرة لمن الصالحين

۶_ نعمت كا شكر ، دنياوى نعمتوں ميں اضافہ كا سبب ہے_شاكراً لاً نعمه ...و ء اتينه فى الدنيا حسنة

۷_ الہى پاداش و اجر ، اخروى جہان ميں منحصر نہيں ہے_واتينه فى الدنيا حسنة وانه فى الاخرة لمن الصالحين

۸_ دين ، سعادت اور دنياوى و اخروى نيكيوں كا حامل ہے _واتينه فى الدنيا حسنة وانه فى الاخرة لمن الصالحين

آخرت :آخرت ميں اخروى مقامات كا سبب ۵

ابراہيمعليه‌السلام :حضرت ابراہيمعليه‌السلام صالحين كے زمرہ ميں ۲; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى اطاعت كے آثار ۳; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى حق پرستى كے آثار ۳; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى شكرگذارى كے آثار ۳; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى نعمتيں ۱،۳; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے شرك سے مقابلہ كے آثار ۳; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے فضائل ۱; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے مقامات اخروي۳

اقدار:اقدار كى تحصيل كے آثار ۵

الله تعالي:الله تعالى كى اخروى جزائيں ۷; الله تعالى كى دنياوى جزائيں ۷

دين:دين كا كردار

سعادت:سعادت كے عوامل ۸

شكر:شكر نعمت كے آثار ۶

صالحين:آخرت ميں صالحين ۲; صالحين كے اخروى مقامات ۴

عمل :عمل كے آثار ۵

نعمت:نعمت كا سبب ۵; نعمت كے اسباب ۳; نعمت كے شامل حال افراد ۱; نعمت ميں اضافہ كے اسباب ۶

۶۴۹

آیت ۱۲۳

( ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفاً وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ )

اس كے بعد ہم نے آپ كى طرف وحى كى كہ ابراہيم حنيف كے طريقہ كا اتباع كريں كہ وہ مشركين ميں سے نہيں تھے_

۱_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،دين ابراہيمعليه‌السلام كى پيروى پر مامور ہوئے ہيں _ثم ا وحينا اليك ان ابتع ملّة ابراهيم

۲_ ہر قسم كے انحراف و شكر سے اجتناب كے سلسلہ ميں حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى پيروى كرنا ضرورى ہے _

ثم اوحينا اليك ان ابتع ملّة ابراهيمعليه‌السلام

۳_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، وحى كے ذريعہ دين ابراہيمعليه‌السلام سے آگاہ ہوئے_ثم ا وحينا اليك ا ن اتبع ملّة ابراهيم حنيف

مذكورہ تفسير اس نكتہ پر موقوف ہے كہ جملہ ''ان اتبع ...'' جملہ تفسير يہ نہ ہو يعنى ہم نے تيرى طرف وحى كى ہے اور ہمارى وحى كا مضمون وہى دين ابراہيمعليه‌السلام ہے _

۴_ اسلام ،دين ابراہيمىعليه‌السلام اور حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى تعليمات و معارف كے مطابق اور اسكے سازگار ہے_

اتبع ملّة ابراهيم حنيف

۵_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى پيروى كرنے كا فلسفہ و حكمت ان حضرتعليه‌السلام كا توحيد پرست اور ہر قسم كى كج روى اور افراط و تفريط سے منزّہ و مبّرا ہوناہے _اتبع ملّة ابراهيم حنيف

''حنيفاً'' جو ابراہيمعليه‌السلام كيلئے حال ہے اتباع كے حكم كے ليے بمنزلہ علت ہے يعنى دين ابراہيمعليه‌السلام كى اتباع كروچونكہ وہ ''حنيف'' ہے _

۶_حضرت ابراہيمعليه‌السلام اپنے تمام عرصہ حيات ميں حق پرست شخصيت ، شرك سے منزّااور مشركين كے مقاصد سے الگ انسان تھے _ملّة ابراهيم حنيفاًوما كان من المشركين

۷_ابراہيمى مقاصد پراعتقاد ، خداوند عالم كے ساتھ ہر قسم كا شريك قرار دينے سے ناسازگار ہے_

ملّة ابراهيم حنيفاً وما كان من المشركين

مذكورہ تفسيرا س نكتہ كو مدّ نظر ركھتے ہوئے ہے كہ عبارت''ما كان من المشركين ''ان مشركين مكہ پر انگشت نمائي ہو جو ايك طرف تو ، خانہ كعبہ كے بانى حضرت ابراہيمعليه‌السلام كو اہميت ديتے تھے ليكن دوسرى طرف شرك اختيار كرتے تھے _

۶۵۰

۸_ صحيح فكر اور دين ( توحيد) كا مالك ہونا ، حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى بنيادى اور برجستہ خصوصيت تھي_

يہ جو خداوند عالم نے ماقبل آيات ميں حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى چار صفات ميں سے صفت ''حنيف'' كو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ليے ان كى پيروى كا معيار قرار ديا ہے اس سے مذكورہ تفسير كا استفادہ ہوتاہے_

۹_ حق و صحيح فكر اور مقصد ، انسانوں كى قدر و قيمت كا معيار ہے_اتبع ملّة ابراهيم حنيفاً و ماكان ميں المشركين

۱۰_ حنيف( معتدل اور كج روى سے پاك) ابراہيمى مقاصد كى پيروى ميں دنياوى نيكياں اور اخروى اصلاح مضمر ہے_

وء اتينه فى الدنيا حسنةً و انّه فى الاخرة لمن الصالحين ...اتبّع ملّة ابراهيم حنيف

ابراہيمعليه‌السلام :ابراہيمعليه‌السلام كے دين كى پيروى كے آثار۱۰; ابراہيم اور شرك ، ابراہيم كى ميانہ روى ۵; ابراہيم كى دين كى اہميت ۱; ابراہيم كے دين كى پيروى ۱،۲; ابراہيم كى پاكى ۶،۵;ابراہيم كى توحيد ۸،۵; ابراہيم كى حق دوستى ۶; ابراہيم كا دين ۸; ابراہيم كا عقيدہ ۸; ابراہيم كى پيروى كى وجہ ۵; ابراہيم كى خصوصيات ۸; ابراہيم كے دين كى خصوصيات

اديان:اديان كى ہم آہنگى ۴

عظمتيں :عظمتوں كا معيار ۹

اسلام:اسلام اور ابراہيمعليه‌السلام كا دين ۴; اسلام كى حقيقت ۴

انحراف :انحراف سے دورى ۲

فكر كرنا:درست فكر كرنے كا كردار۹

اچھائياں :دنياوى اچھائيوں كا سبب۱۰

شرك:شرك سے دورى ۲; شرك كى مشكلات ۷

بھلائي:آخرت كى بھلائي كا سبب۱۰

عقيدہ:ابراہيمعليه‌السلام كے دين پر عقيدہ ۷

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابراہيم ۴،۵; محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابراہيم كا دين محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى ۱; محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر وحي۳

وحي:وحى كا كردار۳

۶۵۱

آیت ۱۲۴

( انَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَى الَّذِينَ اخْتَلَفُواْ فِيهِ وَإِنَّ رَبَّكَ لَيَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُواْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ )

ہفتہ كے دن كى تعظيم صرف ان لوگوں كے لئے قر ار دى گئي تھى جو اس كے بارے ميں اختلاف كر رہے تھے اور آپ كا پروردگار روز قيامت ان تمام باتوں كا فيصلہ كردے گا جن ميں يہ لوگ اختلاف كر رہے ہيں _

۱_ ہفتہ كے دن كو چھٹى كے طورپر معين كرنا، يہوديوں كے ساتھ ايك خاص حكم تھا_

انما جعل السبت على الذين اختلفوا فيه

''سبت'' لغت كے اعتبار سے ''قطع''كے معنى ميں ہے اور اس ايت ميں اس سے يہوديوں كے لئے ہفتہ كے دن كى چھٹى مراد ہے اسلئے كہ چھٹى كے دن تمام كام اور كوششيں چھوڑ دى جاتى ہيں _

۲ _ ہفتہ كے دن چھٹى كا قانون جو يہوديوں كے برخلاف ايك حكم تھا وہ ان كے ابراہيمعليه‌السلام كے توحيدى دين كے بارے ميں اختلاف كرنے كے جرم ميں ديا گيا تھا _انما جعل السبت على الذين اختلفوا فيه

يہ آيت اس سوال كا جواب ہے كہ : ابراہيمعليه‌السلام كے دين اور ان كے بعد والے اديان ميں تو جمعہ كے دن كو چھٹى كا دن قرار ديا گيا ليكن يہوديوں كے كيوں ہفتہ كے دن كو چھٹى كا دن قرار ديا گيا ؟

جواب يہ ہے كہ: يہوديوں كے لئے يہ خاص حكم ان كے دين ابراہيمعليه‌السلام ميں اختلاف كرنے كے جرم ميں قرار ديا گيا تھا_ كہا جاسكتاہے كہ ''فيہ'' كى ضمير حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى طرف، مضاف كو مقدر مانتے ہوئے يعنى ''ملتہ'' لوٹتى ہے_

۳ _ چھٹى كے دن كى تعيين ميں يہوديوں كا اختلاف ، ان كے لئے ہفتہ كے دن كو چھٹى كا دن قرار دينے كا باعث بنا_انما جعل السبت على الذين اختلفوا فيه گذشتہ مطلب اس نكتے كى بناپر ہے كہ''جعل السبت'' ،''اختلفوا فيه'' كا نتيجہ اول معلول ہو اور ''فيہ '' كى ضمير ''سبت'' كے لغوى معنى (كہ جو چھٹى كا دن ہے)كى طرف لوٹتى ہے نہ اس كے اصطلاحى معنى كى طرف كہ جو ہفتہ كے دن معنى ميں ہے_

۴_ توحيدى مذاہب ميں ہفتہ ميں ايك دن كى چھٹى ، ايك سابقہ اور تاريخى حيثيت ركھتى ہے_انما جعل السبت على الذين اختلفوا فيه

گذشتہ مطلب اس نكتے كى بناپر ہے اس آيت ميں اديان الہى ميں ہفتے ميں ايك دن كى چھٹى كے بارے ميں بحث نہيں كى گئي ہے بلكہ يہوديوں كے لئے خاص طور سے ہفتہ كے دن كو چھٹى كا دن قرار دينے كى علت كے متعلق بات كى گئي ہے_

۶۵۲

۵_ قيامت ميں خداوند عالم يہوديوں كے اختلافات اور انحرافات كا فيصلہ كرے گا_

و ان ربك ليحكم بينهم يوم القى مة فيما كانوا فيه يختلفون

۶_قيامت، انسان كے اختلافات اور انحرافات ميں خدا كے فيصلہ كرنے كا دن ہوگا_

و ان ربّك ليحكم بينهم يوم القى مة فيما كانوا فيه يختلفون

۷_يہوديوں كا چھٹى كے دن كے بارے ميں اختلاف، ايك طويل اور بے نتيجہ قسم كا اختلاف تھا_

و ان ربّك ليحكم بينهم يوم القى مة فيما كانوا فيه يختلفون

گذشتہ مطلب اس نكتے كى بناپر ہے كہ ''فيہ'' كى ضمير ''سبت'' كى طرف لوٹے_ كہا جاسكتاہے كہ فعل مضارع ''يختلفون '' فعل ''كانوا'' كے ہمراہ مضمون كے استمرار اور دوام پر دلالت كرتاہے_

۸_ يہوديوں كے دين حق اور صراط مستقيم كے بارے ميں اختلافات ايك طويل اور بے نيتجہ قسم كے اختلافات تھے_

و ان ربك ليحكم بينهم يوم القى مة فيما كانوا فيه يختلفون

گذشتہ مطلب اس نكتے كى بناپر ہے كہ ''فيہ'' كى ضمير ابراہيمعليه‌السلام اور ان كے دين كى طرف لوٹے_

۹ _ حق و باطل كى آخرى شناخت اور انسانى اختلافات كا فيصلہ ، خدا كى ربوبيت كا تقاضا ہے_

و ان ربّك ليحكم فيما كانوا فيه يختلفون

ابراہيمعليه‌السلام :دين ابراہيمعليه‌السلام ميں اختلاف ۲

اختلاف :اختلاف كے حل كے اسباب۹

اديان:اديان كا معطّل ہوجانا۴

الله تعالي:الله تعالى كى اخروى قضاوت۵،--۶; الله تعالى كى ربوبيت كے آثار ۹

باطل :باطل كو بيان كرنے كے اسباب۹

حق:حق كو بيان كرنے كے اسباب ۹

دين:دين حق ميں اختلاف۹

سنيچر:

۶۵۳

سنيچر كو تعطيل۱

صراط مستقيم:صراط مستقيم ميں اختلاف۸

قيامت :قيامت كے خصوصيات۶;قيامت ميں قضاوت ۵،۶

معطلّي:ہفتہ ميں تعطيل كى تاريخ۴

يہود:يہود كى تاريخ ۷،۸; يہوديوں كى شرعى ذمہ دارياں ۱ ، ۲ ; يہوديوں كے اختلاف ۲ ، ۵; يہوديوں كے اختلاف كے آثار ۳;يہوديوں كے انحرافا ت ۵يہوديوں كے خصوصيات ۱; يہوديوں ميں تعطيل ۱،۷; يہوديوں ميں سنيچر ۱،۷;يہوديوں ميں سنيچر كو تعطيل كا فلسفہ ۲; يہوديوں ميں سينچر كى تعطيل كے اسباب۳

آیت ۱۲۵

( ادْعُ إِلِى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ )

آپ اپنے رب كے راستے كى طرف حكمت اور اچھى نصيحت كے ذريعہ دعوت ديں اور ان سے اس طريقہ سے بحث كريں جو بہترين طريقہ ہے كہ آپ كا پروردگار بہتر جانتا ہے كہ كون اس كے راستے سے بہك گيا ہے اوركون لوگ ہدايت پانے والے ہيں _

۱_پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، لوگوں كو حكمت ( عقلى و نقلى دلائل ) اور موعظہ حسنہ كى روشنى ميں پرودگار عالم كے راستہ كى طرف دعوت دينے پر مامور تھے_اُدع الى سبيل ربّك بالحكمه والموعظة الحسنة

''حكمت'' كا معنى علم و عقل كے پر تو ميں حق كو حاصل كرناہے (مفردات راغب) لہذا ''بالحكمة'' يعنى عقلى و علمى دلائل كے بل بوتے پر حق تك پہنچنا _

۲_ خداوند عالم كے راستہ كى طرف دوسروں كو دعوت دينے كاتقاضا يہ ہے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا رشد وكمال ، ربوبيت الہى كى روشنى ميں ہو_ادع الى سبيل ربّك لغت ميں ''ربّ''كا لفظ تربيت كے معنى ميں آتاہے ( مفردات راغب)ممكن ہے كہ اس سے مراد بيان يہ ہو كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا ربوبيت الہى سے بہرہ مند ہونا ،اس بات كا تقاضا كرتا ہے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھى دوسروں كو ربوبيت الہى سے بہرہ مند كريں _

۶۵۴

۳_ راہ خدا پر دوسروں كو تبليغ اور دعوت دينا ، تمام انسانوں كى شرعى ذّمہ دارى ہے _ادع الى سبيل ربّك

مذكورہ بالا معنى اس صورت ميں حاصل ہوتا ہے جب يہ فرض كريں كہ آيت شريفہ ميں مخاطب پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے علاوہ دوسرے افراد بھى ہوں (يعنى پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خصوصيات كو ملغى كريں )

۴_ مخاطبين كى مناسبت سے دعوت دين دينے كے ليے مختلف تبليغى طريقہ كار اختيار كرنے ضرورى ہيں _

ادع الى سبيل ربّك بالحكمة والموعظة الحسنة وجندلهم

راہ خدا كى طرف دعوت دينے كے ليے ''حكمت'' ''موعظہ'' اور احسن طريقہ سے جدال جيسے الفاظ كو بطور وسيلہ ذكر كرنا، مندرجہ بالا معنى كو بيان كررہا ہے_

۵_ تبليغى طريقے پر جمود ، عمومى ہدايت كے ليے ضرورى وسائل كے فقدان كا سبب ہے _ادع الى سبيل ربّك بالحكمة والموعظة الحسنة وجاد لهم مختلف طريقہ كا راور روشوں ( برہان ،موعظہ وجدال احسن ) سے استفادہ كرنے كا الہى حكم، يہ بتاتا ہے كہ ايك ہى طريقہ كار كو بروئے كا رلانا كافى نہيں ہے _

۶_ مبلغين دين كے ليے ضرورى ہے كہ وہ حكمت ، موعظہ اور برترين جدلى طريقہ كا ر سے آشنا ہوں _

ادع الى سبيل ربّك بالحكمة ولموعظة الحسنة وجادلهم بالتى هى احسن

دين كى تبليغ كے ليے حكمت ، موعظہ حسنہ اور برترين جدل كو اختيار كرنے كا الہى حكم يہ بتاتا ہے كہ جو لوگ ان طريقہ كا ر كو نہيں اپنا تے وہ تبليغ دين كے سلسلہ ميں ضرورى و شائستہ و سائل سے بے بہرہ ہيں _

۷_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا وظيفہ ہے كہ وہ كفار اور مشركين كے ساتھ بہترين انداز وروش سے مجادلہ مناظرہ كريں _

وجادلهم بالّتى هى ا حسن

۸_ تبليغ دين كے ليے حكمت ( دلائل عقلى و علمي) بنيادى اور ارزش مندترين وسيلہ ہے _

ادع الى سبيل ربّك بالحكمة ولموعظه الحسنة وجادلهم

مندرجہ بالا مطلب اس صورت ميں ليا گيا ہے كيونكہ ''حكمت''كو ''موعظہ''اور''جدال'' پر مقدم كيا گيا ہے اور يہ ان كى اہميت و ارزش كے ليے معلول واقع ہو رہا ہو _اس كے علاوہ ''حكمت'' كا مطلق استعمال كرنا اور ''جدال '' اور ''موعظہ'' كو ''احسن'' كے ساتھ مقيّدكرنا، مندرجہ بالا مطلب كى تائيدكرتا ہے _

۹_ انسان، راہ خدا كى طرف ميلان پيدا كرنے كے ليے

۶۵۵

محكم عقلى دلائل كے ساتھ ساتھ موعظہ حسنہ كا محتاج ہے _ادع الى سبيل ربّك بالحكمة والموعظة الحسنة

مندرجہ بالا مطلب اس بناء پر ہے كہ ''الموعظہ''كا عطف''بالحكمة ''پر ہے اور ايك ہى سياق ميں ذكر ہواہے_جبكہ ''جادلہم'' ايك دوسرے مطلب كو بيان كرنے كے ليے اور جدا ذكر ہوا ہے_

۱۰_ تبليغ دين كے سلسلے ميں انسان كے عقلى ، برہانى ، عاطفى اور احساسى پہلو كو مد نظر ركھنا ضرورى ہے_

ادع الى سبيل ربّك الحكمة والمرعظة الحسنة

۱۱_ راہ خدا اور اسلام ، عقل ، علم اور انسانى احساسات كے ساتھ سازگار ہيں _ادع الى سبيل ربّك بالحكمة والموعظة الحسنة

۱۲_ نيك اور اور موثر روش كى مراعات كرنا ، وعظ وخطابت كے شرائط ميں سے ہے_ادع ...و لموعظة الحسنة

۱۳_ مسائل دينى اور حقائق الہى كو اجا گر كرنے كے ليے، جدل ( مباحثہ و مناظرہ) ميں برترين اور موثر ترين طريقہ كار كو اپنانا چاہيے _ادع الى سبيل ربّك ...وجادلهم بالتى هى احسن

۱۴_تبليغ دين اور وسعت اسلام كے سايہ ميں ثقافتى حركت _ادع الى سبيل ربّك بالحكمة ولموعظة الحسنة وجالهم بالتى هى احسن

۱۵_ تبليغ دين ميں ''حكمت،موعظة حسنة'' ا ور بہترين مناظرہ سے استفادہ كرنا، روش ابراہيمى ہے_

اتبع ملّة ابراهيم ...ادع الى سبيل ربّك بالحكمة والموعظة الحسنة وجالهم بالتى هى احسن

۱۶_ مختلف تبليغى طريقہ كار اپنانا ، اتمام حجت كے ليے ہے نہ كہ يہ سبب ہے كہ تمام لوگ حتماً ہدايت يافتہ ہو جائيں _

ادع ...ان ربّك هو اعلم بمن ضلّ عن سبيله و هو اعلم بالمهتدين جملہ ''انّ ربّك ...بالمہتدين'' سے معلوم ہو تا ہے كہ انسانوں كے دوگروہ ہيں :

گمراہ اور ہدايت يافتہ ، اس بناء پر ''ادع '' كا فرمان اتمام حجت كے ليے ہے نہ كہ تمام انسان كى ہدايت كے ليے _

۱۷_ بعض افراد ، ہر قسم كى مناسب تبليغى روش كے باوجود ہدايت يافتہ نہيں ہو سكتے اگر چہ ان كو ہدايت اور تبليغ كرنے والى ذات پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہى كى كيوں نہ ہو_

۶۵۶

ادع الى سبيل ربّك بالحكمة ...ان ربّك هو اعلم بمن ضلّ عن سبيله و هو اعلم بالمهتدين

۱۸_ خداوند عالم ، گمراہوں اور ہدايت يافتہ لوگوں كے بارے ميں مكمل آگاہى ركھتا ہے _

انّ ربّك هو اعلم بمن ضلّ عن سبيله وهو اعلم بالمهتدين

۱۹_''عن ابى عبدالله عليه‌السلام '' قال : والله نحن السبيل الذى ا مركم الله باتباعه ، قوله ''وجادلهم بالتى هى احسن'' يعنى بالقرآن (۱)

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا : خدا كى قسم وہ راہ جس پيروى كا امر ، خداوند عالم نے آپ كو ديا ہے وہ ہم ہيں اور خداوند عالم كے اس قول''وجادلهم بالتى هى احسن' ' سے مراد، قرآن مجيد ہے_

ابراہيمعليه‌السلام :حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى روش تبليغ

اتما م حجت:اتمام حجت كے اسباب ۱۶

اسلام :اسلام كا احساسات كے ساتھ ہم آہنگ ہونا ۱۱; اسلام كا عقل كے ساتھ ہم آہنگ ہونا ۱۱; اسلام كا علم كے ساتھ ہم آہنگ ہونا ۱۱; اسلام كى وسعت كے اركان ۱۴; اسلام كے خصوصيات ۱۱

اطاعت:ائمہ طاہرينعليه‌السلام كى اطاعت ۱۹

الله تعالي:الله تعالى كا علم ۱۸; الله تعالى كى ربوبيت كے آثار ۲

انسان:انسان كى معنوى ضرورتيں ۹

برہان:برہان عقلى كى اہميت ۹

تبليغ:تبليغكا مخاطبين كى مناسبت سے ہونا ۴; تبليغ كى تاثير كے موانع۵; تبليغ كى روش ۴،۵،۶،۱۰; تبليغ كے اركان ۱۴; تبليغ كے ضرر كوپہچاننے۵; تبليغ كے وسائل ۸; تبليغ ميں احساسات ۱۰; تبليغ ميں احسن مناظرہ ۵،۶; تبليغ ميں انعطاف پذيرى ۵; تبليغ ميں برہان ۱۰; تبليغ ميں حكمت ۶،۸،۱۵; تبليغ ميں مختلف روشوں سے استفادہ كرنا ۱۶; تبليغ ميں موعظہ ۶،۱۵

ثقافت:ثقافت كى اہميت ۱۴

حقائق:حقائق كو بيان كرنے كى روش۱۳

____________________

۱) كافى ،ج۵، ص۱۳،ح۱، نورالثقلين ،ج ۳، ص ۹۵، ح۲۶۵_

۶۵۷

حكمت:حكمت سے استفادہ ۱۵; حكمت كى قيمت ۸

دعوت:دعوت كى روش ۱،۲; دعوت ميں برہان ۱،۹; دعوت ميں حكمت ۱; دعوت ميں موعظہ ۱،۹

دين:دين كى تبليغ ۳; دين كى روش بيان كرنے كا طريقہ ۱۳

روايت:۱۹

سبيل الله :سبيل الله سے مراد ۱۹; سبيل الله كا عقل سے ہم آہنگ ہونا ۱۱; سبيل الله كا علم سے ہم آہنگ ہونا ۱۱; سبيل الله كى خصوصيات ۱۱; سبيل الله كى طرف دعوت ۱،۲،۳،۹

شرعى ذمہ داري:شرعى ذمہ دارى كا تمام افراد كے ليے ہونا ۳

قرآن:قرآن كے ساتھ مجادلہ و مناظرہ۱۹

كفار:كفار كے ساتھ مجادلہ ومناظرہ۷

گمراہ:گمراہوں كا علم ۱۸

مبلغين:مبلغين كا كردار ۱۷; مبلغين كى ذمہ دارى ۶

مجادلہ:بہترين انداز ميں مجادلہ ۷،۱۳، ۱۵،۱۹; مجادلہ كى روش ۱۳

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا مجادلہ و مناظرہ ۷; محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى دعوتيں ۲; محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ داري۱،۷ ; محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے تكامل كے آثار ۲

مشركين:مشركين كے ساتھ مجادلہ

موعظہ:موعظہ سے استفادہ ۱۵; موعظہ كے شرائط ۱۲; موعظہ ميں روش شناسي۱۲

مہتدين :مہتدين كا علم ۱۸

ميلانات :سبيل الله كى طرف ميلان كا زمينہ ۹

نياز مندى و ضرورتيں :موعظہ كى ضرورت ۹

ہدايت:ہدايت سے محروم لوگ۱۷

۶۵۸

آیت ۱۲۶

( وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُواْ بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ وَلَئِن صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصَّابِرينَ )

اور اگر تم ان كے ساتھ سختى بھى كرو تو اسى قدر جس قدر انھوں نے تمھارے ساتھ سختى كى ہے اور اگر صبر كرو تو صبر بہرحال صبر كرنے والوں كے لئے بہترين ہے _

۱_ دشمن كے ساتھ مقابلہ بالمثل كے سلسلہ ميں عدالت و انصاف كى رعايت كرنا ضرورى ہے_

وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم به

۲_ قصاص اور مقابلہ بالمثل ميں ہرلحاظ سے مساوات كى رعايت ضرورى ہے_

وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عو قبتم به

۳_ كفار كو دين اسلام كى دعوت ديتے وقت يہ امكان بھى موجود ہے كہ وہ مسلمانوں پر ظلم و ستم كريں _

ادع الى سبيل ربّك ...او عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم به

۴_ قصاص اور مقابلہ بالمثل ، اسلام ميں قابل قبول امور ہيں _وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم به

۵_ قصاص اور بالمثل مقابلہ كرنے كى بجائے صبر و شكيبائي سے كام لينا ،زيادہ باعظمت اور مفيد ہے _

انّ عاقبم فعا قبوا ...ولن صبرتم لهو خير للصابرين

۶_ تبليغ دين اور لوگوں كو ہدايت كرنے كا نتيجہ ، دشمنوں كى طرف سے اذيت و آزار اور استقامت كى ضرورت ، صبر و شكيبائي اور عفو ودر گذر ہے_

ادع الى سبيل ربّك ...ان عاقبتم ...ولئن صبرتم لهو خير للصابرين

۷_ اسلام كى دعوت ديتے ہوئے مؤمنين كا عظيم نفع اور صلاح اس ميں ہے كہ وہ صبر سے كام ليں اور دشمن سے مقابلہ بالمثل يا انتقام لينے ميں عجلت كا مظاہر ہ نہ كريں _ادع الى سبيل ربّك ...وان عاقبتم فعاقبوا ...ولئن صبرتم لهو خير للصابرين

۶۵۹

۸_ دشمن كو معاف كردينا اور اس كى دى گئي اذيتوں اور تكاليف سے صرف نظر كرنا ، ايك انتہائي مشكل امر ہے جو كہ صبر و شكيبائي كا تقاضا كرتا ہے_و عاقبتم فعا قبوا ...ولئن صبرتم لهو خير للصابرين

۹_''عن على بن الحسين عليه‌السلام ...و اما حق من ساء ك القضاء على يديه بقول ا و فعل فان كان تعمد ها كان العفو ا ولى بك لما فيه له من القمع و حسن الا دب قال عزّوجل '' ...ولئن صبرتم لهو خير للصابرين'' ...فان لم يكن عمداً لم تظلمه ...'' (۱)

امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے كہ ...جس شخص كى بات يا كسى عمل سے تجھے نقصا ن پہنچا ہو اس كا تجھ پر يہ حق ہے كہ اگر اس نے جان بوجھ كرتيرے ساتھ برائي كى ہو تو تيرے ليے بہتر ہے كہ اسے معاف كردے اس ليے كہ يہ معاف كرنا سبب بنے گاكہ و ہ شخص برائي كرنے سے اجتناب كرلے اورايك نيك انسان بن جائے خداوند عالم فرماتا ہے :'' ...ولئن صبرتم لہو خير للصابرين ...'' اور اگر اس نے جان بوجھ كر برائي نہيں كى ( تو معاف كرنےكى وجہ سے ) تونے اس پر كوئي ظلم نہيں كياہے_

اسلام :اسلام كى دعوت دينے ميں صبر ۷

انتقام :انتقام ميں صبر ۷

تبليغ:تبليغ كے آثار ۶; تبليغ ميں صبر ۶،۷; تبليغ ميں عفو ۶

دشمن:دشمنوں كو معاف كرنا ۸; دشمنوں كى اذيتوں پر صبر ۸، ۹; دشمنوں كى اذيتوں كا زمينہ ۶;دشمنوں كے ساتھ مقابلہ بالمثل ۱،۷

دين:دين كى دعوت دينے كے آثار ۳

روايت:۹

۱) تحف العقول ص۲۷۱، فراز ۴۸، بحارالا نوار، ج۷۱، ص ۲۰، ح ۲_

۶۶۰

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779