تفسير راہنما جلد ۹

تفسير راہنما 5%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 779

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 779 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 212530 / ڈاؤنلوڈ: 3605
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۹

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

''المیزان'' میں مرحوم علامہ طباطبائی کا کلام الٰہی کے امتحانوں کے سلسلہ میں تربیتی عنوان سے قابل توجہ ہے: ''... اس وجہ سے انسانوں کے لئے عام الٰہی تربیت حُسن عاقبت اور سعادت اس دعوت دینے کے اعتبار سے امتحان ہے کیونکہ انسان کے لئے حالات کو مشخص و معین اور آشکار کرتی ہے کہ آیا یہ شخص کس عالم سے متعلق ہے: عالم ثواب وا جزا یا عالم عقاب و سزا۔ اس وجہ سے خداوند متعال اپنے تصرفات کو حوادث کی تشریع اور توجیہ کے عنوان سے بلائ، ابتلأ اور فتنہ نام دیتا ہے، مثال کے طور پر عام عنوان سے فرماتا ہے: (اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً )(١) ''بے شک ہم نے روئے زمین کی ہر چیز کو زمین کی زینت قرار دیا ہے تاکہ ان لوگوں کا امتحان لیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے '' یا فرماتا ہے: (وَنَبْلُوکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَةً )(٢) ''... اور ہم اچھائی اور برائی کے ذریعہ تم سب کو آزمائیں گے...'' یافرماتا ہے:(اَنَّمَا اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَة )(٣) '' تمہارے اموال اور اولاد فتنہ ہیں'' وغیرہ۔

یہ آیات جیسا کہ آپ ملاحظہ کررہے ہیں انسان سے متعلق ہر مصیبت وبلا کو ''الٰہی امتحان وآزمائش'' شمار کرتی ہیں تمام امور کے لئے جیسے اس کا وجود، اس کے اجزا اور اعضاء جیسے آنکھ، کان یا اس کے وجود سے خارج چیزیں جو اُس سے مربوط ہیںجیسے اولاد بیوی، رشتہ دار، احباب، مال، جاہ و مرتبہ مقام اور وہ تمام امور کہ جن سے وہ کسی قسم کا فائدہ حاصل کرتاہے، اسی طرح ان کے مقابل امور جیسے موت اور تمام مصیبتیں ۔ ان آیات میں افراد کے اعتبار سے بھی ایک عمومیت پائی جاتی ہے یعنی مومن وکافر، نیکوکار اور گناہگار، انبیاء اور ان سے کم درجہ والے سارے افرادمعرض بلا و امتحان میں ہیں، لہٰذا یہ اﷲ کی ایک جاری وساری سنت ہے کہ کوئی اس سے الگ نہیں ہوسکتا''۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔکہف آیت ٧۔

٢۔ سورۂ انبیاء آیت ٣٥۔

٣۔سورۂ تغابن آیت ١٥ ۔

٤۔ المیزان ج٤ ص٣٦۔

۲۲۱

یہ بات کہ امتحان اور ابتلاء جملہ امور میں تمام افراد کے لئیاﷲ کی بلا استثناء ایک جاری سنت ہے ، ابتلا کے تربیتی روش سے منافات نہیں رکھتی، کیونکہ اس طرح کے امور کے ساتھ ہمارے طرز عمل کو ایک تربیتی طرز کے عنوان سے مانا جاسکتا ہے یعنی مشکلات میں صبر وتحمل اور نعمات میں شکر کہ جس کی بازگشت ہمارے طرز عمل ہی کی جانب ہے، خود اخلاقی تربیت کے عوامل میں محسوب ہوسکتا ہے: اور ہم قطعی طور پر تم کو کچھ چیزوں جیسے خوف،بھوک، اموال، نفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور ان صابروں کو بشارت دیدو، (وہی لوگ) کہ جب ان پر مصیبت پڑتی ہے، کہتے ہیں: ''ہم خدا ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جائیں گے''(١)

اس کے علاوہ اگرچہ آیات میں خیر وشر، نعمت ونقمت، سختی اور سہولت سب کو امتحان اور ابتلا کے مصادیق میں شمار کیا گیا ہے حتی کہ بعض روایات میں شکر و کشادگی کی منزل میں طرز عمل کو صبر وناگواری کے وقت سے زیادہ سخت جانا گیا ہے، لیکن جو چیز امتحان کے موقع پر افراد کی توجہ کا زیادہ تر مرکز ہوتی ہے وہ ناگوار ، رنج آمیز اور اندوہگین حوادث وواقعات کا مقابلہ کرنا ہے، چنانچہ مذکورہ آیت میں تصریح کی گئی ہے کہ خوفناک اور ہولناک امور، بھوک، دلبندوں اور عزیزوں کے فقدان، اموال اور سرمایہ حیات کی نسبت آفات وحوادث وغیرہ سے (کہ جنھیں اصطلاح میں ''مصیبت'' کہا جاتا ہے) تمھیں آزمائیں گے، ان امور کا مقابلہ کرنے کے لئے آمادگی اور اُن سے ہمارا طرز مقابلہ ان میدان کو ایک تربیتی اور اصلاحی مدرسہ بناسکتا ہے۔

ابتلاء اور سختیوں سے مقابلہ کے تربیتی علائم روایات میں یوں بیان ہوئیہیں: گناہ سے پاک ہونا، باطنی خاکساری وتذلل اور خارجی سرافرازی وسربلندی، کبرونخوت کا زائل ہونا، درجہ بلند ہونا، شدائد ومشکلات کے سامنے ثابت قدمی، آخرت اور خدا کی ملاقات کا اشتیاق۔

''...یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ خدا نے جو کچھ تمھارے دلوں میں ہے (عمل میں) آزمائش کرے اور جوکچھ تمہارے ضمیر کی حقیقت ہے اُسے آشکار کردے اور خدا سینوں کے اسرار سے آگاہ ہے''۔(٢)

____________________

١۔ سورہ ٔبقرہ آیت ١٥٥۔١٥٦۔

٢۔ (وَلِیَبْتَلِیَ اللّٰهُ مَا فِی صُدُوْرِکُمْ وَلِیُمَحِّصَ مَا فِی قُلُوبِکُم، وَاللّٰهُ عَلِیْم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ )(سورہ ٔآل عمران آیت ١٥٤)۔

۲۲۲

حضرت امام جعفر صادق ـنے بھی فرمایا: '' وہ لوگ آزمائش کی بھٹی میں آزمائے جائیں گے، جس طرح سونے کو بھٹی میں آزمایا جاتا ہے اور خالص کئے جائیںگے جس طرح سونا کھرا اور خالص کیا جاتا ہے''۔(١)

سید قطب کی تحریر کے مطابق: تمام وسائل پر حوادث کی ایک تربیتی وسیلہ کے عنوان سے فضیلت وبرتری یہ ہے کہ ایسی خاص حالت روح میں پیدا کرتے ہیں کہ گویا اس کو پگھلادیتے ہیں۔ حادثہ روح کو کامل طور سے جھنجھوڑدیتا ہے وردّ عمل (تاثیر وتاثر) ایک حرارت اس کے باطن میں ایجاد کردیتا ہے کہ کبھی نرم کرنے کے لئے یانرم کرنے کی حد تک پہنچنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ یہ حالت روح میں نہ ہمیشہ پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی نفس کے لئے آسان ہے کہ سکون واطمینان اور امن وامان یا راحت طلبی کی حالت میں اس تک پہنچ جائے۔

''... ایک مثل لوگ کہتے ہیں: جب تک لوہا گرم ہے کوٹ لو، () کیونکہ لوہے کی گرمی کے وقت اُس پر ہتھوڑا مارنا آسان ہے اور اسے جس شکل میں چاہے بدل سکتے ہیں... اس وجہ سے سختیوں اور حوادث سے استفادہ کرنا تربیت کے اہم مطالب میں سے ہے، کیونکہ نفس کے پگھلنے اور گداز ہونے کی صورت میں مربی تربیت دئے جانے والے کو ارشاد وتہذیب کے جس رنگ میں چاہے رنگ سکتا ہے وہ اس طرح کہ کبھی اس کا اثرزائل نہیں ہو گا یا کم ازکم جلدی زائل نہیں ہو گا''۔(٢)

اسی طرح سختیو ں سے استفادہ اور عیش وراحت سے دوری کو اس شیوہ کا مکمِّل (پوراکرنے والا) جانا جا سکتا ہے، سختیاں انسان کے گوہروجودکو جلابخشتی ہیں، اور اس میں نکھاراورچمک پیدا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ سختی، مقاومت کہ جوحادثوں اور سختیوں کی طوفان میں ہمیں حاصل ہو تی ہے، انسان کو نادرست اخلاقی میلانات اور رجحانات کے مقابل محفوظ رکھتی ہے اس وجہ سے روایات میں تاکیدکی گئی ہے کہ بچہ تھوڑا سا کو مشکلات اور سختیوں سے دوچارکرو۔

حضرت امام موسیٰ کاظم ـ فرماتے ہیں:

''بہترہے بچہ عہدطفولیت میںزندگی کی ناگزیرسختیوں اور مشکلوں کا سامنا کرے جو کہ حیات کا تاوان ہے تاکہ جوانی اوربڑھاپے میں بردباراورصابرہو'' ۔(٣)

____________________

١۔''یفتنون کما یفتن الذهب، یخلصون کما یخلص الذهب'' ۔(کافی ج١ص ٣٧٠۔)

٢۔ روش تربیتی اسلام، ص٢٨٧،٢٨٨۔

٣۔ وسائل الشیقہ، ج٥، ص١٢٦۔

۲۲۳

حضرت علی ـ فرماتے ہیں:

''جنگل، ہوا اور طوفان میں پرورش پانے والے درخت باغبا ن کے پر و ر دہ اور تروتازہ درختوں سے بہتر ہوتے ہیں''۔(١)

اسلام میں جہاد اسی زاویہ سے قابل تو جہ و تحقیق ہے دین کے دشمنوں سے جہاد اور مقابلہ خواہ صدر اسلام میں ہو یا بعد کے زمانوں میں ( بالخصوص آخری دفاع مقدس کے دوران) ایک تربیتی اور اخلاقی مدرسہ رہا ہے ، اور اخلاق کی بلندیوں پر فائز انسان اُس مدرسہ سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں:

''ہم یقینا تمہیں آزمائیں گے تاکہ تم میں سے مجاہدین اور صابرین کو جان لیں اور (اس طرح) تمھارے حالات کو باقاعدہ جانچ لیں ''۔(٢)

ڈاکٹر'' ویکٹور فرانکل ''سویڈن کا ماہر نفسیات ہے اور ہیومنسٹ معالجین میں سے محسوب ہوتا ہے اور خود بھی ایک طولانی مدت تک جرمنی کے نازیوں چھائونی میں دوسری عالمی جنگ میں اسیر رہا ہے، اس نے اپنی آنکھوں سے جو انسان سوزی کی بھٹیاں دیکھیں اور بھوک، سردی، بیماری اور سخت ترین رنج والم اٹھائے لیکن اس کی جان بچ گئی۔ چھائونی سے آزاد ہونے کے بعد اُس نے اپنے معنوی علاج کے مکتب ( Logothrapy )کی بنیاد ان تین راہوں میں سے ایک راہ کے کشف وتفہیم پر رکھی:

١: ۔اچھے امور کا انجام دینا۔

٢: ۔تجربۂ اعلیٰ جیسے عشق۔

٣رنج والم برداشت کرنا۔

وہ تیسری راہ کی وضاحت میں کہتا ہے: رنج والم کابرداشت کرنا انسان کی بہترین وجودی جلوہ گاہ ہے اور جو بات اہم ہے وہ انسان کا رنج والم کے ساتھ فکر اور سلوک کا انداز ہے۔ ہدف زندگی رنج والم سے فرار کرنا نہیں ہے، بلکہ زندگی کو بامعنی بنانا ہے کہ اُسے واقعی مفہوم عطا کرے۔ ہر چیز کو ایک انسان سے لیاجاسکتا ہے مگر انسان کی آخری آزادی کو اس کی رفتار کے انتخاب میں ڈاسٹایوفسکی کے بقول: میں صرف ایک چیز سے ڈرتاہوں اور وہ یہ کہ اپنے رنج والم کی شایستگی اور لیاقت نہ رکھوں۔(٣)

____________________

١۔ نہج البلاغہ، نامہ، ٤٥۔

٢۔ سورہ ٔمحمد آیت٣١۔

٣۔ دیکٹور فرانکل: انسان درجستوی معنا۔

۲۲۴

د ۔معاشرت و مجالست:

اخلاقی ملکات کے رسوخ کے لئے ایک دوسرا عملی شیوہ صالح اور اخلاقی فضائل کے حامل افراد کے ساتھ زندگی گذارنا اور ناپاک نیز اخلاقی رذائل میں مبتلا افراد کی مجالست وہمنشینی سے اجتناب کرنا ہے، نفس شناسی کے دلائل بہت سی جہتوں سے قابل توجہ ہیں کہ جو تفصیل اور تکرار کے محتاج نہیں ہیں، منجملہ ان کے تقلید اور دوسروں کے اعمال کا مشاہدہ (باندوار کا نظریہ)،قوت بخش چیزوں کے وجود کے ساتھ ماحول سازی اور تداعی (موافقت وہماہنگی) کی ایجاد (ا سکینر کا فعال ماحول سازی کا نظریہ ، یعنی مثال کے طور پر ایک اچھے اور صالح گروہ میں اگر ایک اچھا باعمل انسان سے صادر ہو تو دیگر تمام افراد کے ذریعہ اس کی تقویت کی جائے)۔ (نظریہ تسہیل اجتماعی )(١) ہے (دوسروں کا وجود حتی غیر فعال تماشائیوں کا وجود انسان کی فعّالیت کو قوت بخشتا ہے (کیونکہ انسان کے مقصد کو بلندی عطا کرتا ہے) ۔

آیات وروایات میں نیکو کاروں کی معاشرت اخلاقی تربیت کے ایک شیوہ کے عنوان سے مورد تاکید واقع ہوئی ہے اور بزرگوں نے بھی اس سلسلہ میں مستقل کتابیں تالیف کی ہیں۔

قال الحواریون لعیسیٰ ـ: یاروح اللّٰہ مَن نجالسُ اذاً؟ قال: من یذکرکم اللّٰہ رؤیتہ ویزید فی عملکم منطقہ ویرغبکم فی الآخرة عملہ۔(٢) حواریوں نے حضرت عیسیٰ ـ سے پوچھا:

اے روح اﷲ! اس وقت ہم کس کے ساتھ ہمنشینی رکھیں؟ انھوں نے فرمایا: جس کا دیدار تمھیں اﷲ کی یاد دلائے، جس کی بات تمھارے علم میں اضافہ کرے اور جس کا عمل تمھارے اندر آخرت کے متعلق رغبت پیدا کرے۔

یا ابن مسعود، فلیکن جلساؤک الابرار واخوانک الاتقیاء والزهاد لانّ اللّٰه تعالیٰ قال فی کتابه : (الاخلاء یومئذ بعضهم لبعض عدو الّا المتقین(٣) اے ابن مسعود! تمھارے ہمنشین نیک لوگ ہونے چاہئیں اور تمھارے بھائی (دوست) متیقن وزاہدین ہونے چاہئیں اس لئے کہ تم خدائے تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے: ''اس دن صاحبان تقویٰ کے علاوہ تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیںگے'' ۔

____________________

١۔زمینہ روانشناسی ج٢ ص٢ ٣٧۔

٢۔ بحار الانوار ج٧٧ ص١٤٧۔

٣۔ بحار الانوار ج٧٧ ص١٠٠۔

۲۲۵

امام علی ـ:جالس العلماء تزدد حلماً ۔(١) علمائے کی ہمنشینی اختیار کرو کہ ان کی ہمنشینی حلم میں اضافہ کرتی ہے۔

امام حسین ـ:مجالس الصالحین داعیة الی الصلاح ۔(٢) صالحین کی مجالس (نشست) صلاح ونیکی کی طرف دعوت دیتی ہے۔

امام علی ـ:جالس العلماء یزددعلمک ویحسن ادبک وتزکوا نفسک ۔(٣) علماء کی ہمنشینی اختیار کرو کہ اس سے تمھارے علم میں اضافہ ہوگا، تمھارا ادب اچھا ہوگا اور تمھارا نفس پاک ہوگا۔

امام علی ـ:علیک باخوان الصدق فاکثر من اکتسابهم فانّهم عدة عند الرخاء وجُنَّة عند البلائ ۔(٤) تم پر سچے (نیک) دوستوںکی ہمنشینی لازم ہے پس ان سے زیادہ زیادہ سے زیادہ کسب فیض کرو اس لئے کہ وہ آسائش کے وقت وسیلۂ دفاع ہیں اور مصیبت کے وقت سپر ہیں۔

امام علی ـ:جانبوا الاشر وجالسوا الاخیار ۔(٥) بروں سے پرہیز کرو اور نیکوں کی ہمنشینی اختیار کرو۔

حضرت امام محمد باقرـ:لاتقارن ولاتواخ اربعة: الاحمق والبخیل والجبان والکذاب ۔(٦) چار افراد سے ہمنشینی اور دوستی اختیار نہ کرو: احمق، کنجوس، ڈرپوک اور جھوٹے سے۔

امام علی ـ:مجالسة اهل الهویٰ منساة للایمان ۔(٧) خواہش پرست کی ہمنشینی ایمان کو بھلادیتی ہے۔

____________________

١۔ غرر الحکم فصل ٣ص ٤٧۔

٢۔ بحار الانوار ج٧٨ ص١٤١۔

٣۔ غرر الحکم فصل ١ص ٤٣٠۔

٤۔ بحار الانوار ج٧٤ ص١٨٧۔

٥۔ غرر الحکم

٦۔ بحار الانوار ج٧٤ ص١٨٧۔

٧۔ نہج البلاغہ ج٨٦۔

۲۲۶

۴: ۔ تشویق اور تنبیہ کا طریقہ

''تشویق ''لغت میں آرزومند کرنے، شوق دلانے اور راغب کرنے کے معنی میں ہے۔(فرہنگ معین)

یہاں پر ''تشویق'' سے مراد انسان کی درخواست سے متعلق اور مطلوب امور سے عمل انجام دینے کے بعد عمل کے اضافہ یا اس کی تثبیت کے لئے استفادہ کرناہے۔

''تنبیہ''بھی لغت میں آگاہ کرنے، بیدار کرنے، تادیب اورسزادینے کے معنی میں ہے (فرہنگ معین)۔ یہاں پر تنبیہ سے مراد انسان کے لئے تکلیف دہ اسباب ووسائل سے عمل انجام دینے کے بعد عمل کو دور یا کم کرنے کے لئے استفادہ کرناہے۔ اس وجہ سے تشویق یا تنبییہ کو خود انسان یا دوسروں کے ذریعہ عملکو کنٹرول کرنے کا ایک سسٹم جاننا چاہئے کہ پسندیدہ یا ناپسندیدہ عمل کے بعد اس عمل کی زیادتی یا کمی کے لئے ان چیزوں کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔

تشویق یا تنبیہ کا نفسیاتی مبنیٰ، فعال ماحول سازی کے نظریہ کے مطابق، درج ذیل آزمائشوں پر استوار ہے:

١ ۔ہر جواب جو ایک قوت بخش محرک کے نتیجہ میں حاصل ہو، اس کی تکرار کی جاتی ہے ۔

٢ ۔قوت بخش محرک ایک ایسی چیز ہے کہ جواب ملنے کے احتمال کو بڑھاتا ہے۔

٣۔ان قوت بخش چیزوں جو ذاتی طور پر تقویت کرنے کی خاصیت کے حامل ہیں،اولین یا غیر شرطی قوت بخش کہتے ہیں، اوّلین مثبت قوت بخش جاندار کی جسمانی قوت ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں جیسے: پانی، غذا، ہوا، وغیرہ۔ اوّلین منفی قوت بخش چیزیں ذاتی طور پر تکلیف دہ خاصیت رکھتی ہیں جیسے: مارپیٹ، گالم گلوج ، زیادہ حرارت اور زیادہ نور وغیرہ۔

٤ ۔ثانوی یاشرطی قوت بخش چیزیںوہ ہیں جو کلاسیک ماحول سازی (اوّلین بخش چیزوں کے ساتھ ہمراہی چیزوں کے ساتھ ہمراہی اور تداعی ) کے اصول کے مطابق تقویت کرنے کی خاصیت رکھتی ہیں جیسے: روپیہ، انعام، نمبر وغیرہ ۔

٥ ۔اگر کوئی رفتار کسی چیز کی تقویت سے بڑھ جائے اور اسے ایک مدت تک تقویت نہ کریں، تو وہ تدریجاً موقوف ہوجائے گی کہ اُسے ''خاموشی''بھی کہتے ہیں۔

٦ ۔تنبیہ، ایک نادرست اورنامطلوب رفتار کے دور کرنے کے لئیتکلیف دہ محرک وسبب کے واردکرنے کے معنی میں ہے۔

۲۲۷

٧ ۔ کبھی کبھی تقویت مسلسل تقویت سے زیادہ اثر رکھتی ہے، لہٰذا اگر مربی (تربیت دینے والا) ہر بار مطلوب اور پسندیدہ رفتار کے ظاہر ہونے کے بعد جزاوسزا دے، تو ناخواستہ طور پر اس کے وقوع کا احتمال کم ہوتا جائے گا، لیکن اگر مربی کبھی کبھی چند بار مطلوب رفتار انجام دینے کے بعد جزا دے، تو اس کے توقعکا احتمال زیادہ ہوجائے گا زیادہ موثر یہ ہے کہ تربیت کی ابتدا میں مسلسل جزا ہو اور رضایت بخش سطح تک پہنچنے کے بعد نوبت وار کبھی کبھی ہوجائے ۔

٨۔ آغاز میں اجتماعی قوت بخش (ستائش، تائید اور مسکراہٹ وغیرہ) محسوس طور پر قوت بخش چیزوں کے ساتھ استعمال کی جائے اور اس کے بعد محسوس قوت بخش چیزیں ترک کردی جائیں ، آیات وروایات میں تشویق وتنبیہ کے تربیتی کردار پر تاکید کی گئی ہے۔

حضرت امیر المومنین علی ـ مالک اشتر کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''تمہارے نزدیک نیکو کار اور بدکاریکساں نہ ہوں، کیونکہ یہ امر (یکساں قرار دینا) نیکو کاروں کے نیکی ترک کرنے اور نااہلوں کی بدکاری میں اضافہ کا باعث ہوگا، لہٰذا ادب کی رعایت کے لئے ان میں سے ہر ایک کے ساتھ حالات کے مطابق برتائو رکھو''۔(١)

''نیکوکاروں کی اصلاح ان کا ادب و احترام کرنے سے ہوتی ہے اور بدکاروں کی اصلاح ان کی تادیب کرنے (سزا دینے)سے''۔(٢)

''جوکچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے وہ سب خدا کے لئے ہے، تاکہ جن لوگوں نے برا کیا ہے وہ ان کے کرتوت کی انھیں سزا دے اور جن لوگوں نے احسان ونیکی ہے انھیں اچھا بدلہ دے ''۔(٣)

''خداوند سبحان نے جزا اپنی اطاعت پراور سزا اپنی معصیت پر قرار دی ہے، تاکہ اپنے بندوں کو اپنے عذاب سے باز رکھے اور بہشت کی طرف روانہ کرے''۔(٤)

____________________

١۔ بحار الانوار ج٧٧ ص٤٦۔

٢۔''استطلاح الاخیار باکرامهم والاشراربتأدیبهم'' (بحار الانوار ج٧٨ ص٢٤٥)۔

٣۔ سورہ ٔنجم آیت ٣١۔

٤۔ نہج البلاغہ حکمت ٣٦٨۔

۲۲۸

ادیان الٰہی اور اسلام میں قانون عذاب وثواب کو دو اعتبارسے دیکھا جاسکتا ہے

: اول

یہ کہ ان کا اعلان کرنا انذار وتبشیر کا پہلو رکھتا ہے ، دوسرے یہ کہ ثواب وعقاب کی واقعیت عینی ہے کہ اُن میں سے بعض دنیا میں (جیسے سکون واطمینان، راحت وچین ، زندگی کی آسائش اور عیش وعشرت کو احساس ) اور درک کرتا ہے، اس لحاظ سے تشویق وتنبیہ اُن دونوں کی تطبیق واقع سے دور نہیں ہے۔ اُس کا اخروی حصہ جیسے حور وقصر ومحلات وغیرہ بھی ایمانی بصیرت (انسان کا دوسرے عالم اور وعدہ الٰہی کے قطعی ہونے اور اس بات پر اعتقاد رکھنا کہ انسان اپنے اعمال سے اس ثواب یاعقاب کو اس وقت بھی عینی تجسم بخشتا ہے ) کے اقتضا کے مطابق حاضر وموجود ہیں اور انھیں بھی تنبیہ وتشویق کے مصادیق میں شمار کرسکتے ہیں۔ اس بناپر بہشت ودوزخ اور ا ﷲ کے وعدہ و وعید سے متعلق تمام آیات ایک طرح بندوں کی تشویق اورتنبیہ کے لئے ہیں تاکہ وہ اپنی عادت اور روش کو بدل ڈالیں اور فلاح وکامیابی اور فضائل اخلاقی کے حامل ہونے کی راہ میں گامزن ہوجائیں۔ لیکن ان لوگوں کے لئے جن کا عقیدہ وایمان کمزور ہے، ان کے لئے وہ آیات انذار وتبشیر ہی کی حد میں ہوں گی ۔

دوسرانکتہ

جس کی ہمیں تاکید کرنی ہے یہ ہے کہ یہاں پر تشویق، ترغیب اور تحریض (ابھارنے) کے علاوہ ایک چیز ہے، تشویق عمل انجام دینے کے بعد کی چیز ہے، لیکن ترغیب وتحریض قبل ازعمل سے مربوط ہیں۔ تشویق وتنبیہ کے وہ طریقے جن میں ایک طرح منطقی ترتیب کا لحاظ کیا جاسکتا ہے، درج ذیل ہیں:

الف ۔ عاطفی توجہ:

محبت آمیز نگاہ ، مسکرانا، اور ہر قسم کی تائید ، مہر ومحبتاور طلف کا احساس تربیت پانے والے کو عزت نفس کے عمیق احساس میں مبتلا کردیتاہے، کیونکہ ہر انسان حُبّ ذات کے زیر اثر غیروں کی محبت اورتوجہ حاصل کرنے کا محتاج ہوتا ہے۔(١) درج ذیل آیات اس سلسلہ میں قابل توجہ ہیں: (وَاخْفِضْ جِنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ المُؤمِنِیْنَ )(٢) ''اور جو صاحبان ایمان آپ کی اتباع کرلیں ان کے لئے اپنے شانوں کو جھکادیجئے''۔

____________________

١۔اس بات کی مزید توضیح ''تکریم شخصیت کی روش ''کی بحث میں گذر چکی ہے۔

٢۔ سورہ ٔشعراء آیت٢١٥۔

۲۲۹

(وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰواةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهُ وَلَاتَعْدُ عَیْنَاکَ عَنْهُمْ )(١)

''اور اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ صبر آمادہ کرو جو صبح وشام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اسی کی مرضی کے طلبگار ہیں اور خبردار تمھاری نگاہیں ان کی طرف سے نہ پھرجائیں...''۔

ان آیات میں خداوند متعال اپنے مہربان حبیب سے چاہتا ہے کہ مومنین کے لئے لطف ومرحمت کے بازو جھکادیں، ان کی طرف سے چشم محبت نہ ہٹائیں اوران کے ساتھ ہمراہی اور صبر وشکیبائی کریں دوسری آیت میں اپنے رسول کی بلند ترین ان صفات کے حامل ہونے اور مومنین کے ساتھ ایسی معاشرت رکھنے پر معاملات کرنے کی توصیف کرتا اورفخرو مباہات کرتا ہے:

''یقیناً تمھارے پاس تمھیں میں سے وہ پیغمبر آیا ہے کہ تمہاری ہر مصیبت پراس کے لئے بہت ناگوار ہے وہ تمہاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مومنین پر دلسوز ومہربان ہے''۔(٢)

جی ہاں، وہ روح پرورنگاہ جو انسانوں پر عشق ومحبت کے ساتھ پڑتی ہے، انسان کو متحرک کرنے کے لئے کافی ہے اور بلال وسلمان کی صف میں بٹھادیتی ہے۔

ب ۔ زبانی تشویق:

تعریف وتمجید ، دعا، شکریہ ادا کرنا اور زبانی قدردانی بھی اُن عام وسائل اور اسباب میں سے ہیں کہ بلند مقاصد اور گرانمایہ اخلاقی اعمال تک رسائی کے لئے اُن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے خداوند عالم اپنے پیغمبر سے چاہتا ہے کہ مومنین سے زکات لینے کے بعد ان کے لئے دعا کریں۔(٣)

حضرت امیر المومنین علی ـ نے بھی مالک اشتر سے خطاب کرتے ہوئے انھیں اس نکتہ کی یاد آوری کی ہے:

... ان کی پے درپے تشویق کرو اور جو انھوں نے اہم کام انجام دئے ہیں انھیں شمار کرو (اہمیت دو) کیونکہ ان کے نیک کاموں کی یاد آوری ان کے دلیروں کو زیادہ سے زیادہ حرکت کرنے پر ابھارتی ہے، اور وہ لوگ جو کام میں سستی کرتے ہیں انھیں کام کرنے کا شوق پیدا ہوگا، انشاء اﷲ ۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔکہف آیت٢٨۔ ٢۔ سورہ ٔتوبہآیت ١٢٨۔٣۔ سورہ ٔتوبہ آیت ١٠٣۔ ٤۔ نہج البلا غہ نامہ ٥٣۔

۲۳۰

زبانی تشویق میں اہم نکتہ یہ ہے کہ اور موقع ومحل سے اس حد تک استفادہ ہو اور افراط وتفریط یا چاپلوسی کی حالت پیدا نہ ہو امام علی ـ نے فرمایا ہے:

جب تم تعریف وثنا کر و تو اختصار پر اکتفاکرو۔(١)

سب سے زیادہ بے عقلی اور حماقت، تعریف وستائش یا مذمت میں زیادتی کرناہے۔(٢)

''استحقاق سے زیادہ تعریف کرناچاپلوسی ہے اور اس (استحقاق) سے کم تعریف کرنا حسد یا عاجزی کی علامت ہے''۔(٣)

بہت سے افراد اپنی تعریف وتمجید ہونے سے مغرور ہوجاتے ہیں۔(٤)

ج ۔ عملی تشویق:

انعام، ہدیہ، تحفہ وغیرہ دینا، نمبر، تنخواہ یا حقوق یا مزدوری میں اضافہ کرنا، سیاحت اور تفریح کے لئے لے جانا، کھیلنے کی یا دوستوں کے ہمراہ باہر جانے کی اجازت دیناوغیرہ ، یہ سب عملی تشویق شمار ہوتی ہے کہ موقعیت کے اعتبار سے ان کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔

پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی سیرت میں ایسے متعددمقامات پائے جاتے ہیں کہ کسی ایک آدمی کے نیک عمل کا مشاہدہ کرنے کے بعد اُسے صلہ اورہدیہ دیتے ہیں حتی کبھی اپنا لباس بھی دیدیتے تھے، جیسے کمیت بن زیاداسدی کی داستان کہ حضرت امام زین العابدین ـ کی خدمت میں پہنچے اور کہا: میں نے آپ کی مدح وثنا میں کچھ اشعار کہے ہیں اور چاہتا ہوں کہ انھیں پیغمبر سے تقرب کا وسیلہ قراردوں۔پھر اپنا معردف قصیدہ آخرتک پڑھا، جب قصیدہ تمام ہو گیا، امام ـ نے فرمایا: ''ہم تمہاری جزا نہیں دے سکتے، امید ہے کہ خداوندعالم تمہیں جزادے۔''پھر اس کے بعد اپنے بعض لباس انھیں دیدیئے اوراُن کے حق میں اس طرح دعا کی: ''خدا یا! کمیت نے تیرے پیغمبر کے خاندان کی نسبت، اس حالت میں نیک فریضہ اداکیا کہ اکثرلوگوں نے اس کام سے نجل کیا اور شانہ خالی کیا ہے جوحق دوسروں نے پوشیدہ رکھا تھا اس نے آشکار کردیا۔ خدایا! اسے سعادت مندزندگی عطا کر اور اُسے شہادت نصیب کر اور اُسے نیک جزا دے کہ ہم اُس کی جزا نہیں دے سکتے جزا ور ناتواں ہیں۔

____________________

١۔ ''اذا مدحت فاختصر ''(غرر الحکم، فصل ٤ص٤٦٦)۔٢۔ ''اکبر الحمق الاغراق فی المدح والذم '' (غرر الحکم، فصل ٧ص٧٧)۔٣۔''الثناء بأکثر من الاستحقاق ملق والتقصیر عن الاستحقاق عیّ أوحسد'' (بحارالانوار ج٧٣ص ٢٩٥)۔٤۔''رُبّ مفتون بحسن القول فیه'' (بحارالانوار ج٧٣ص ٢٩٥)۔

۲۳۱

کمیت نے بعد میں کہا: ''میں ہمیشہ ان دعائوں کی برکت سے بہرہ مند رہا ہوں'' حضرت نے اس طریقہ سے کمیت کی روح شجاعت اور حق گوئی کی تشویق اور تائیدکی۔ اسی کے مشابہ داستان حضرت امام علی رضا ـ کے بارے میں بھی دعبل خز اعی کی نسبت ہے جب وہ قصیدہ پڑھ چکے تو حضرت نے وہ دس ہزار درہم کہ جن پر آپ کا نام کندہ تھا اُنھیں عطا کیا اور دعبل نے ہر درہم کو اپنی قوم کے درمیان (دس) درہم میں فروخت کیا۔(١)

درج ذیل نکات کی رعایت تشویق کی تاثیرمیں اضافہ کرتی ہے:

١۔تشویق ابھارنے اور قوت بخشنے کا ذریعہ ہے لہٰذا خودوہی ھدف نہیں بن جانا چاہئیکہ اور تربیت پانے والے کے تمام افکار داذہان کو اپنے ہی لئے سرگرم رکھے۔ تشویق کبھی کبھی کرنا، اس کا فیزیکی سطح سے اجتماعی ومعنوی بلندی کی طرف لے جانااور تشویق کا مستحق ہونا (رشوت کی حالت کا نہ رکھنا ) ایک حدتک مذکورہ اشکال واعتراض کو برطرف کردیتاہے۔

٢۔ تربیت پانے والے کو تشویق کی علت مکمل طور پرواضح اور معلوم ہونی چاہئے۔

٣۔تشویق موقع ومحل کے اعتبار سے ہو تاکہ کار آمد اور موثر ثابت ہو۔

٤۔تشویق کرتے وقت اُس کا کسی دوسرے سے مقائسہ اور موازنہ نہیں کرنا چاہئے ؛کیونکہ اُس پر بُرااثرپڑے گا۔

٥۔ مجمع میں تشویق وتحسین کرنا زیادہ اثر رکھتا ہے کیونکہ دوسروں کو بھی آمادہ کرتا ہے۔

د۔ جزاسے محرومیت اور نیکو کار کو جزادینا:

اس مرحلہ کے بعد تبنیہ کے طریقوں میںداخل ہو جائیں گے۔ مربی تربیت دئے جانے والے کی نا شائستہ حرکات وسکنات کو ختم کرنے کے لئیاسے ان بعض جزائوں اورمواہب سے محروم کردے جن کی وہ امید رکھتا ہے یایہ کہ نیکوکاروں کو جزادے کر اُسے اپنی محرومیت کی جانب متوجہ کرے اور اس کے اشتباہ وخطا کی نشاندہی کرے۔حضرت علی ـ کے گہربار اور زریں کلام میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ''نیکو کار کو جزا دے کر بدکار کو ان کی بدکاری سے روک دو''۔(٢)

____________________

١۔عیون اخبارالرضا ـ، ج١، ص١٥٤۔

٢۔ ''از جرالمسء بثواب المحسن''بحار، ج٧٥، ص٤٤، باب ٣٦

۲۳۲

(اَفَمَنْ کَانَ مُؤمِناً کَمَنْ کَانَ فَاسِقاً لَایَسْتَوُونَ(١)

''کیا وہ شخص جو صاحب ایمان ہے اس کے مثل ہوجائے گا جو فاسق ہے؟ ہرگز نہیں ، دونوں برابر نہیں ہوسکتے''۔

(لَایَسْتَوِی اَصْحَابُ النَّاسِ وَاَصْحَابُ الْجَنََّةِ ۔۔۔)(٢)

''اصحاب جنت اور اصحاب جہنم ایک جیسے نہیں ہوسکتے''۔

(وَمَایَسْتَوِی الاعمیٰ والبصیروالّذین آمنواوعملواالصالحات ولاالمسء قلیلا ماتتذکرون(٣)

''اور یاد رکھو کہ اندھے اور نابینا برابر نہیں ہوسکتے ہیں اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کئے ہیں وہ بدکاروں جیسے نہیں ہوسکتے ہیں، مگر تم لوگ بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو''۔

خداوند عالم ان آیات میں واضح طورپر نیکوکاروں اوربدکار روں کے مسادی نہ ہو نے کا اعلان کرتا ہے، اس سے اس کا مقصود یہ ہے کہ سب جان لیں کہ اچھے لوگوں کے لئے جزا ہے اور ناشائستہ اور قبیح اعمال والوں کے لئے محرومیت کے سوا کچھ نہیں ہے۔

ہ۔جرمانہ اور تلافی:

جرمانہ نمبرکم کرنے ، پیسہ دینے، دوستوں کے لئے مٹھائی خریدنے وغیرہ کی صورتوں میں ہوتا ہے۔ تلافی جیسے اس انسان سے عذر کرنا جس کی توہین کی ہے یا جس جگہ کوئی نقصان پہنچایا ہے اس کی تعمیر کرے یا مرمت کرے جرمانہ کے سلسلہ میں توجہ رکھنا چاہئے کہ ادا کرنے یا کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اوربے چارگی اوربیزاری کی حالت پیدا نہ ہو۔ جرمانہ کے شیوہ سے استفادہ کی شرط یہ ہے کہ انسان کی ایک مدت تک تقویت کی جائے تاکہ پہلے جو اُسے جزائیں دی گئی ہیں بعد میں اُس سے واپس لی جاسکیں۔

اسلام میں دیت کاقانون اس کے حقوقی جنبہ کے علاوہ تربیتی جنبہ سے بھی ایک قسم کا جرمانہ حساب ہوتا ہے۔

و۔ سرزنش وتوبیخ اور جسمانی توبیخ وتنبیہ:

توبیخ ، غیض وغضب کی نظر سے شروع ہوتی ہے اور علانیہ توبیخ تک پہنچتی ہے۔(٤)

____________________

١۔ سورئہ سجدہ، آیت ١٨۔ ٢۔ سورہ ٔحشرآیت ٢٠۔

٣۔ سورہ ٔغافر، آیت ٥٨۔ ٤۔ ایک اعتبار سے مخفی اور پوشیدہ توبیخ کو جرمانہ اور تلافی سے قبل جاننا چاہئے)۔

۲۳۳

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''عقلمندوں کی سزا کنایہ اور اشارہ کی صورت میں ہوتی ہے اورنادانوں کی سزا واضح اور صریح انداز میں ہوتی ہے۔(١)

''تعریض (کنایہ میں توبیخ کرنا) عقلمند کے لئے آشکار توبیخ سے کہیں زیادہ سخت ہے''(٢)

حضرت امام جعفر صادق ـ ''شعرانی'' جوکہ پیغمبر کے چاہنے والوں میں سے تھے، خلوت میں بالواسطہ طور پر نصیحت کے ذریعہ انھیں ان کے ناپسند عمل (شرابخوری ) کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''اچھا کام سب کے لئے اچھا ہے اور تمہارے لئے سب سے بہتر ہے اس انتساب کی وجہ سے جو تم ہم (اہل پیغمبر)سے رکھتے ہو اور برا کام سب کے لئے برا ہے لیکن تم سے سب سے زیادہ برا ہے اس انتساب کی وجہ سے کہ جو تم ہم سے رکھتے ہو''۔(٣)

جسمانی تنبیہ سب سے آخری مرحلہ میں ہے کہ گذشتہ مراحل میں ناکامی کی صورت میںخاص شرائط وحالات پائے جانے کی صورت میں اُس سے استفادہ ہوتا ہے، تنبیہی طریقہ کلی طریقے پر اور جسمانی تنبیہ خاص طور پر صاحبان نظر کے نزدیک محل اختلاف میں ہے، بعض جیسے سعدی ومولوی جسمانی تنبیہ کے طرفدار تھے، اور اس سے استفادہ کو جائز سمجھتے ہیں کہ بعض دیگر جیسے غزالی، بوعلی اور ابن خلدون نے مربی کو جسمانی تنبیہ سے تین بار سے زیادہ یا غصہ کی حالت میں روکا ہے۔(٤)

ماہرین نفسیات کے درمیان بھی بعض جیسے رین اور ہولز خاص شرائط وحالات پائے جانے کی صورت میں تنبیہ سے استفادہ کو رفتار تغییر کے معاملہ میں مفید جانتے ہیں(٥)

____________________

١۔''عقوبة العقلاء التلویح وعقوبة الجهال التصریح ''(میزان الحکمة ج١ص ٧٢)۔

٢۔''التعریض للعاقل اشد من عقابه'' (میزان الحکمة ج١ص ٧٢)۔

٣۔''یا شقر ان انّ الحسن لکل احد حسن وانه منک احسن لمکانک منّا وان القبیح لکل احدٍ قبیح وانّه منک اقبح'' (بحار الانوار ج٤٧ ص٣٤٩ باب ١١)۔

٤۔ نقش تربیت معلم، دفتر ہمکاری حوزہ ودانشگاہ۔

٥۔ ہیلگارد:روان شناسی یادگیر ص ٣٣٧۔

۲۳۴

اس کے باوجود اکثر ماہرین نفسیات رفتار کی تبدیلی اور تربیت کے لئے تنبیہ سے استفادہ کے مخالف ہیں۔

ا سکینرنہایت تاکید کے ساتھ تنبیہ سے استفادہ کو کلی طور پر خطرناک ، نامطلوب اور بے اثر شمار کرتا ہے اور متعدد دلائل بھی اپنے مدعا کے لئے پیش کرتا ہے:(١)

١ ۔تنبیہ دوسرے نامطلوب مضر آثار کا پیش خیمہ ہوتی ہے، جیسے عمومی خوف۔

٢ ۔تنبیہ اجسم کو پتہ دیتی ہے کہ کیا کام نہ کرے نہ یہ کہ کیا کام کرے۔

٣ ۔تنبیہ دوسروں کو صدمہ پہنچانے کی توجیہ کرتی ہے۔

٤۔تربیت پانے والا اگر مشابہ موقعیت میں واقع ہو جائے اور قابل تنبیہ نہ ہوتو ممکن ہے وہ اسی کام کے کرنے پر مجبور ہوجائے۔

٥ ۔تنبیہ، تنبیہ کرنے والے اور دوسروں کی نسبت پر خاش ایجاد کرتی ہے۔

٦ ۔تنبیہ عام طور پر ایک نامطلوب جواب کو دوسرے نامطلوب جواب کا جانشین بنادیتی ہے، جیسے بد نظمی کی جگہ رونا۔

ا سکینر اس کے بعد تنبیہ کے لئے بہت سی جانشین چیزوں کا ذکر کرتا ہے، جیسے ایسے مقتضیات کی تبدیلی جو نامطلوب رفتار کا باعث ہوتی ہے اور ناموافق رفتار کی نامطلوب رفتار سے تقویت ، آخر میں نتیجہ نکالتا ہے کہ نامطلوب عادات کے ختم کرنے کا بہترین طریقہ انھیں نظرانداز کرنا یا پھرخاموشی (تغافل اسی کے مانند ہے) اسلام کی نظر میں(٢) اگرتربیت نچلے درجوں اور طریقوں سے ممکن ہو تو جسمانی تنبیہ سے استفادہ جائز نہیں ہے اور اس کے علاوہ جسمانی تادیب اور تنبیہ (اس شرط کے ساتھ کہ اس حد میں نہ ہو کہ دیت لازم آجائے تو) جائز ہے انسان کے ولی کے علاوہ کی طرف سے بھی اجازت کے ساتھ ہونا چاہئے۔اس کی مقدار بھی محدود ہے (زیادہ سے زیادہ تین سے دس ضرب تک) فقہاء کے فتاویٰ بھی اسی طرح ہیں۔(٣)

____________________

١۔ ہرگنھان: روان شناسییاد گیری ص١٣٣۔

٢۔ البتہ تنبیہ کے موضوع پر اسلام کی فقہی نظر کا استخراج (حکم اولیہ اور ثانویہ کی صورت میں) مستقل فرصت کا محتاج ہے۔

٣۔ امام علی رضا ـ: ''التادیب ما بین ثلاث الی عشرةٍ''مستدرک الوسائل ج٣ص٢٤٨۔تحریر الوسیلة ج٢ص ٤٧٧۔

۲۳۵

تنبیہ کی نفی پر ا سکینرکے اعتراضات کے بارے میں کلی طور پر کہا جاسکتا ہے:

١۔ بعض ماہرین نفسیات جیسے رین اور ہولز خاص شرائط وحالات کے تحت( جیسے یہ کہ تنبیہ نامطلوب کاموں کے بعد فوراًبلافاصلہ ہو اور اس حد تک ہو کہ انسان کے لئے تکلیف دہ ہو... تنبیہ کو رفتار کی تبدیلی میں موثر جانتے ہیں اور اس سلسلہ میں آزمائشیں بھی کی ہیں۔

٢ ۔تنبیہ کے ہیجان آور نتائج (جیسے خوف یا پرخاش) کہ اسکینز جس کا ذکر کرتا ہے اس صورت میں منفی ہوجائیں گے جبکہ پہلے سے مربی اور تربیت پانے والے کے درمیان صرف ایک عاطفی ررابطہ رہا ہو کہ تنبیہ کی تاثیرکی شرط بھی اس طرح کے رابطہ موجود ہونا ہے۔

حضرت امیرالمومنین ـ کے ایک چاہئے والے نے چوری کی تو حضرت نے اُس کے ہاتھ کو قطع کردیا۔ ''ابن کوائ'' جو کہ خوارج میں سے تھا اس نے موقع غنیمت سمجھتے ہوئے اس سے سوال کیا: کس نے تمھارے ہاتھ کو قطع کردیا ہے؟ اس نے جواب دیا: میرے ہاتھ کو پیغمبروں کے اوصیاء کے سید وسردار، قیامت کے دن سرخرو حضرات کے پیشوا، مومنین کی نسبت سب سے زیادہ حقدار نے ابن کواء غصہ میں بولا: وائے ہو تم پر! وہ تمہارے ہاتھ کو قطع کرتے ہیں اور تو ان کی اس طرح مدح و ثنا کرتا ہے؟ اس نے جواب دیا: کیوںتعریف نہ کروں جبکہ ان کی محبت میرے گوشت وخون میں ملی ہوئی ہے، خدا کی قسم میرے انھوں نے ہاتھ کو صرف حق کی خاطر قطع کیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ مجھے آخرت کی سزا سے نجات دیں۔(١)

٣ ۔تنبیہ نا پسند استعدادوں اور صلاحیتوں کے کنٹرول کرنے اور خاموش کرنے کا ذریعہ ہے۔ ان لوگوں کے لئے جن کے بارے میں نرم رویّہ نتیجہ بخش ثابت نہیں ہوتا ہے، صرف ممکن طریقہ یہ ہے کہ ایک توبیخ وسرزنش یا پھر نفسیاتی جھنجھوڑ ان کے اندر ایجاد کریں، بالخصوص اگر تسلط پسند اور طغیان آمیز طبیعت رکھتے ہوں، جس طرح انسان کے جسم میں بدبودار اور کثیف غدود کو قطع کردیتے یا جلادیتے ہیں تاکہ دیگر حصوں تک سرایت نہ کرے۔ ''البرٹ الیس ''ان ماہرین نفسیات میں ہے کہ جواپنے علاج اور مشاورہ میں ناگہانی سرزنش وتوبیخ اور اس کے مانند دوسری چیزوں سے استفادہ کرتا ہے اور ایک جھٹکا دے مشاورہ کے درمیان مراجع کو اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے۔

____________________

١۔ بحار الانوار ج٤٠ ص٢٨١،٢٨٢۔

۲۳۶

اسلام کا سزائی اور جزائی نظام بھی جوکہ خاص جسمانی سزائوں پر مشتمل ہے، اپنے حقوقی پہلوئوں کے علاوہ، تربیتی رخ سے بھی قابل توجہ ہے، کیونکہ انسان کو جرم کی تکرار سے روکتا ہے۔

مذکورہ نکات کے علاوہ تنبیہ کے استعمال میں درج ذیل چیزیں اس کی تربیتی تاثیر میں اضافہ کرتی ہیں:

١۔ہر قسم کی تنبیہ سے پہلے ناپسند عمل کی علت کی شناخت سے مطمئن ہوں، بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مختلف گھریلو اور روحی مسائل ومشکلات کی بنا پر جوکہ ہم پرپوشیدہ ہیں، یہ خطا سرزد ہوگئی ہو، ایسی صورت میں تنبیہ مشکلات اور پیچیدگی کواضافہ کرتی ہے۔

٢ ۔ وہ تنبیہ مؤثر ہے جو جذبۂ انتقام اور غیض وغضب کی عنوان سے نہ ہو، اس وجہ سے بے جاسرزنش اور حد سے زیادہ تحقیر وتوہین سے پرہیز کیاجانا چاہئے۔

٣ ۔تنبیہ سنجیدہ اور حسب ضرورت ہو اور میزان خطا سے آگے نہ بڑھ جائے۔ حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''ملامت میں زیادہ روی ضد اور ہٹ دھرمی کی آگ کو بھڑکادیتی ہے''۔(١)

٤۔تنبیہ انسان کی نامطلوب صفت یاعمل سے دقیق رابطہ رکھتی ہو اور اسے تنبیہ کی علت کی نسبت مکمل آگاہی حاصل ہو۔

٥ ۔اگر انسان اپنے عمل سے شرمندہ وپشیمان ہوگیا اور اپنی رفتار سے باز آگیا تو اسے لطف ومہربانی کے ساتھ قبول کرلینا چاہئے۔

____________________

١۔''الافراط فی الملامة یشبّ نار اللجاجة'' (غرر الحکم ،ج١،ص ٨٨)۔

۲۳۷

تیسری فصل :

اسلام میں اخلا قی تر بیت کے طر یقے

۱۔خود پر ناظر ہونا

یہ روش مکمل طور پر ''خود تربیتی'' صورت میں انجام پائے گی، اپنے آپ پر نظارت سے مراد یہ ہے کہ انسان کامل ہوشیاری اور مراقبت کے ساتھ قبول شدہ اخلاقی اقدار کی نسبت کوشش کرے کہ جو (جوارحی یا جوانحی) رفتار وکردار اخلاقی فضائل کے منافی ہیں اس کے وجود میں راستہ پیدا نہ کرنے پائیں اور اُس کے اخلاقی ملکات وقوّتوں کے زوال اور سستی کا باعث نہ بنیں۔

اپنے آپ پر روش نظارت کے نفسیاتی مبانی میں دو مرحلے قابل تفکیک ہیں: پہلا مرحلہ اس روش کے استعمال سے متعلق ہے کہ تربیت پانے والا شوق اور مقصد کے اعتبار سے باندازۂ کافی آمادگی رکھتا ہو۔(١)

یہ مرحلہ گذشتہ روشوں کی مدد سے بالخصوص اقدار کی طرف دعوت کی روش اور عقلانی توانائی کی تربیت کی روش کے ذریعہ عملی ہونا چائیے، یعنی ایک شخص اس نظریہ تک پہنچے کہ یہ اقدار اور اخلاقی مقاصد اُس کے وجود میں پائدار رہیں اور اخلاقی رذائل اُس سے مٹ جائیں دوسرا مرحلہ اس روش کی تاثیر کی کیفیت کو واضح کرنا ہے۔ نفسیاتی نظام کے صادرات اور واردات تدریجی صورت میں بیماری وجود ی شکل کی تعمیر کرتے ہیں ، اور نفس شناسی کی اصطلاح میںہمارے تزکیہ باطن اور ظاہر کو ایک تعادل پسندی کی طرف آگے بڑھاتی ہے، اس وجہ سے واردات وصادرات کی نوع کیفیت پر نظارت (کہ جو ہماری نیّات اور مقاصد کو بھی شامل ہوتی ہے)اس شکل کو جہت دینے میں کہ جو ان کا نتیجہ ہے، مؤثر بلکہ قابل تعیین ہوسکتی ہے۔

____________________

١۔ اخلاقی کتب میں اسے ''مقام یقظہ'' یعنی مقام بیداری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

۲۳۸

(اسکینز کے )فعال ماحول سازی کے نمونہ میں یہ روش تقریبی طور پر ایک مستقل روش کے عنوان کے تحت تین مرحلہ بیان کی جاتی ہے ۔(١)

١ ۔اپنا مشاہدہ : اپنی رفتارکو دقت کے ساتھ جزئی اورکمّی (مقدار ک )لحاظ سیثبت وضبط کرتا ہے۔

٢ ۔خود سنجی: (اپنے کو تولنا) موجودہ رفتاروں آئیڈیل نمونہ کے ساتھ کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے مقایسہ اور موازنہ کیا جاتا ہے۔

٣ ۔ خود تقویتی: (اپنے آپ کو قوت پہنچانا) ایسی رفتار جو ہدف کو زیادہ قریب کرتی ہے اور اُس سے سنخیت رکھتی ہے ، اس پر جزا دی جاتی ہے اور اس کے مدمقابل رفتار کومنفی تقویت کے ساتھ اور کبھی تنبیہ کے ذریعہ قابو اور کنٹرول میں رکھا جاتا ہے ۔

اس طرح سے رفتاری آثار ونتائج (پاداش اور تنبیہ)سے استفادہ کرنے سے اپنے آپ پر ایک دائمی نظارت اور مراقبت عمل میں آتی ہے دوسرے طریقے جو ا سکینر اپنے کنٹرول اور ضبط نفس کے لئے اس سلسلہ میں ذکر کرتا ہے، یہ ہیں: اور اسباب وشرائط کا آسان یا تنگ کرنا (مثال کے طور پر فضول خرچ انسان، اپنی جیب میں کم پیسہ رکھے)، محرومیت، عاطفی شرائط وحالات پر تسلط، تکلیف دہ محرک سے استفادہ (جیسے گھنٹی والی گھڑی) اور دوسرے امور کی انجام دہی۔

مکتب سلوکیت کا نمونہ ا سکینر کے نظریہ کے مطابق رفتار کی نظارت اور جانچ معمولی اور کم اہمیت کی حامل ہیں ، لیکن ہم اس نمونہ اور توضیح سے بالاترین سطحوں کے لئے اور اپنے آپ پر نظارت کے لئے استفادہ کرسکتے ہیںاور تیّات ، اہداف ومقاصد حتی کہ اپنی رفتار وکردار کی خوبیوں پر کنٹرول کرسکتے ہیں۔ اخلاقی کتابوں میں یہ روش بہت زیادہ مورد توجہ رہی ہے اور اس سے متعلق مستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔(٢) ان کتابوں میں مراقبہ، محاسبہ یا مرابطہ مرز بانی]دشمن سے سرحد کی حفاظت[ کے عناوین کے تحت یہ بحث کی گئی ہے۔(٣)

____________________

.۱ Psychoegyobhelthp.۱۰۳;۱۰k

٢۔جیسے ان کے محاسبة النفس از سید ابن طائوس اور محاسبة النفس کفعمی)

٣۔اخلاقی تربیت کی روش میں عرفاء شیعہ نے آخری دوسو سال میں (ملاحسین قلی ہمدانی، میرزا علی آقا قاضی، مرحوم بہاری، حاج میرزا جواد تبریزی ، مرحوم علامہ طباطبائی اور امام خمینی تک نے )اپنے آپ پر نظارت (مراقبہ ومحاسبہ) کی روش پر بہت تاکید کی ہے اور اسے اپنے سلوک کی بنیاد قرار دیا ہے۔

۲۳۹

'' ابو حامد بندوں کے درمیان صرف صاحبان بصیرت جانتے ہیں کہ خداند عزوجل ان کا محافظ اورنگراں ہے اورمحاسبہ میں دقت سے کام لیا ہے اور ان کی نسبت بہت جزئی امور میں بھی سوال اوربازپرس کرتا ہے، لہٰذا یہ لوگ جانتے ہیں کہ ان امور سے نجات کا راستہ محاسبہ اورمراقبہ کے لزوم کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ کہ نفس کو حرکات اور لحظات کی نسبت جانچتے رہیں، لہٰذا جو اپنے نفس کو روز قیامت کے حساب وکتاب سے پہلے مورد محاسبہ قرار دے تو اُس دن اُس کا حساب آسان اور سوال کے وقت اُس کا جواب آمادہ ہوگا اورنتیجہ نیک اور اچھا ہوگا۔ اورجو کوئی اپنے نفس کا محاسبہ نہ کرے گا اس کی حسرت دائمی اور قیامت کے مواقف میں اُس کا توقف طولانی ہوگااور اس کی برائیاں اسے ایسی ذلت وخواری کے گڑھے میں ڈھکیل دیں گی۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ خداوندعالم کی اطاعت کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے اور اُسی نے صبر مرزبانی کا حکم دیا ہے:

(یَا اَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوْا ۔۔۔)۔(١)

''اے صاحبان ایمان تم لوگ صبر کرو، صبر کی تعلیم دو اور مرابطہ یعنی دشمن سے جہاد کے لئے تیاری کرو...'' لہٰذا تم مرابطہ ومرزبانی کرو پہلے مشارطہ کے ذریعہ اس کے بعد مراقبہ کے ذریعہ پھر محاسبہ اور پھر معاقبہ (سزا دینے) کے ذریعہ پھر اس کے بعد مجاہدہ اورمعاتبہ (عتاب کرنے) کے ذریعہ ...''(٢) اس لحاظ سے ایک دوسرے رخ سے بھی اپنے آپ پر نظارت اور نگرانی کا لزوم معلوم ہوا، محاسبۂ اعمال کردار کے تولنے کے لئے موازین قسط کے قرار دینا، قیامت کے دن حساب وکتاب کرنااور ہمارے نامہ اعمال میں ان کے جزئیات کو ضبط کرنا کہ جن کو ہر شخص واضح طور پر دیکھے گا، ان سب باتوں کے قطعی ہونے کے پیش نظر محاسبہ اوراعمال پر نظارت کے لزوم کے سلسلہ میں کوئی تردید نہیں رہ جاتی اورخداوند اس سے کہیں زیادہ کریم ہے کہ اپنے بندوں سے دوبارہ حساب کا مطالبہ کرے۔ قرآنی آیات اس سلسلہ میں بہت زیادہ واضح ہیں: ''ہم عدل وانصاف کا ترازو قیامت کے دن قرار دیں گے، پس کسی نفس پر بھی کسی چیز میں ستم نہیں جائے گا، اگر( کسی کا عمل) رائی کے دانہ کے برابر بھی ہوگا اُسے ہم لے آئیں گے اور ہم سب کا حساب کرنے کے لئے کافی ہیں ''۔(٣) ''اور جب نامۂ اعمال سامنے رکھا جائے گا، اُس وقت مجرمین کو اپنے نامۂ اعمال کے مندرجات سے خوفزدہ دیکھوگے اور وہ کہیں گے : اے ہم پروائے ہو، یہ کیسا نامۂ اعمال ہے کہ جس میں کوئی ]کام[ چھوٹا ہو یابڑاچھوڑا نہیں گیاہے، بلکہ سب کو جمع کرلیاہے اور جوکچھ انھوں نے انجام دیا ہے وہ سب اس میں موجود پائیں گے اور تمہارا رب کسی پر ستم روا نہیں رکھتا''۔(٤) اپنے آپ پر نظارت کے طریقے درج ذیل ہیں:

____________________

١۔ سورہ ٔآل عمران آیت ٢٠٠۔ ٢۔ احیاء العلوم، غزالی ج٤ص ٤١٧، ٤١٨۔٣۔ سورہ ٔانبیاء آیت٤٧۔ ٤۔سورہ ٔکہف آیت٤٩۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

اشاريے (۵)

كفر كرنے والے : ۱۴/ ۲۸_كا انجام، اس سے عبرت، ۱۴/ ۲۸; اس كا برا انجام، ۱۴/ ۲۸

كمال:ر_ك خداوند عالم ، قرآن او ر محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

كوتاہ نظري:_كے آثار، ۱۶/ ۹۵نيزر_ك قسم توڑنے والے اور عہد شكن افراد

كينہ:_كا مقام، ۱۵/ ۴۷، _كا رفع ، اس كا پيش خيمہ، ۱۵/ ۴۷نيزر _ك بہشت، اہل بہشت اور متقين

'' گ''

گائے:_كى كھال، اس كے فوائد، ۱۶/ ۸۰; _كا خالق، ۱۶/۵; _كى خلقت اس كا فلسفہ، ۱۶/ ۵;_كا دود ھ اس كا آيات خدا ميں سے ہونا، ۱۶/۶۶;اس كے خروج سے عبرت، ۱۶/۶۶; اس كے فوائد، ۱۶/ ۶۶; اس كے خروج كى كيفيت ،۱۶/ ۶۶; _سے عبرت، ۱۶/ ۶۶; _كے فوائد، ۱۶/ ۵; _كا گوشت ، اس كا صدر اسلام ميں كھاياجانا۱۶/۸; _كے بال، اس كے فوائد، ۱۶/ ۸۰نيز ر_ك نعمت

گردن:ر_ك تشبيہات قرآن

گرسنگي:_كے آثار، ۱۶/ ۱۱۲;_كى بلائ، ۱۶/ ۱۱۲; _كے عوامل، ۱۶/ ۱۱۲نيزر_ك مكہ

گھوڑا:_سے استفادہ ،۱۶/۸; _كا خالق ، ۱۶/۸; _كى خلقت، اس كا فلسفہ ، ۱۶/۸;_كا زينت ہونا ، ۱۶/۸; _كى سوراي، ۱۶/۸; _كا صدر اسلام ميں گوشت ، اس كا كھانا، ۱۶/۸

گمراہ كرنے والے :_جہنم ميں ،۱۴/۳۰; _كا گناہ، ۱۶/۲۵

گمراہ كرنا:_ كى مذّ مت ، ۱۶/۶۳نيز ر_ك ابليس اور شيطان

گھر:_ ميں سكون، ۱۶/ ۸۰; _كا ساز و سامان، ان كى فراہمي، ۱۶/۸۰; سبك _ ، ان كى تعمير كا ذريعہ، ۱۶/۸۰; سنگين_، ۱۵/۸۰، ۸۲، _ كا نقش، ۱۶/۸۰نيز ر_ك گھر كى تعمير ، دين ، قوم ثمود اور گھر كى تعمير

گرمي: _كا ذريعہ، ۱۶/ ۵

گيلى مٹى :ر_ك انسان اور خلقت

گل:ر_ك غذارساني

۷۴۱

گمراہ افراد:۱۴/ ۳،۳۶، ۴۲_كا بے يارو مددگار ہونا، ۱۶/ ۳۷; _كے بارے ميں علم، ۱۶/ ۱۲۵; _كا انجام اس كا بيان، ۱۵/ ۴۵; _ جہنم ميں ، ۱۵/ ۴۴; _كا گناہ، ۱۶/ ۲۵; _كى محروميت، ۱۶/ ۳۷; _كا جہنم ميں داخل ہونا، اس كى كيفيت، ۱۵/ ۴۴; _كى ہدايت ، اس كے شرائط ، ۱۶/ ۳۷; _كا ناقابل ہدايت ہونا، ۱۶/۳۷; _كى نااميدى ، ۱۵/ ۵۶نيز ر_ك گمراہي

گمراہي:_كے آثار ، ۱۵/ ۴۳; _كا ذريعہ، ۱۴/ ۳۰; _كا اضافہ،اس كے عوامل، ۱۴/ ۲۷; _كى حقيقت، ۱۶/ ۹; _كے راستے ، انكا تعدّد، ۱۴/۱، ۱۶/۹; _كا پيش خيمہ، ۱۶ /۲۵;_كے عوامل ، ۱۵/ ۳۹; _كے مراتب، ۱۴/ ۳، ۱۸; _كا سرچشمہ، ۱۴/ ۴، ۱۶/۳۶، ۳۷،۹۳،_كے موارد، ۱۴/۱،۶ ،۱۸ ، ۳۶ ; _سے نجات، ۱۴/۵۰۱; اس كا طريقہ ، ۱۴/ ۹; اس كا پيش خيمہ، ۱۴/ ۱، ۹; _كے شرائط، ۱۴/ ۱; _ كى نشانياں ، ۱۵/ ۵۶نيزر_ك ابراہيمعليه‌السلام ، ابليس، اقرار، امتيں ، انسان، بنى اسرائيل، اہل جہنم، دنيا طلب افراد ، دين ، رہبر ، سبيل اللہ ، شيطان، ظالم افراد، كفار، گمراہ افراد، مرتدين، مرد، مبتكرين اور مشركين

گناہ:_كے آثار، ۱۴/ ۴۹، ۱۶/ ۳۶،۴۵،۸۵، ۱۱۹; اس كے معاشرتى آثار، ۱۵/ ۵۸، ۶۶، ۱۶/۱۱۲; _كى مغفرت، اس كے عوامل، ۱۶/ ۱۱۹; _سے اجتناب، ۱۶/ ۹۰; اس كے آثار، ۱۵/۵۹; _سے ندامت، ۱۶/ ۱۱۹; _كا جبران، ۱۶/ ۱۱۰; اس كے آثار، ۱۶/ ۱۱۰; _كى سنگيني۱۶/ ۲۵; _كا شيوع ، اس كے آثار، ۱۵/ ۶۶; _كى دنياوى سزا، ۱۶/ ۲۵; _كى سزا ،۱۶/۴۵; جاہلانہ_، ان كى مغفرت، ۱۶/ ۱۱۹; دوسروں كا_، اس كا تحمل، ۱۶/۲۵; گناہان كبيرہ، ۱۴/ ۴۳، ۱۵/۵۶،۷۴، ۷۹، ۹۰، ۱۶/ ۲۵، ۸۵، ۹۵; اس كے آثار، ۱۴/ ۷; اس كى سزا، ۱۶/ ۲۵; ناقابل بخشش_،۱۴/۴۳; ۴۴، ۱۶/ ۸۵; _ كے مراتب، ۱۶/ ۲۹،۳۴; _كا سرچشمہ، ۱۶/ ۱۱۹

( خاص موارد ميں خود موضوع ميں تحقيق كى جائے۹

گنہگار افراد:۱۵/ ۵۸، ۱۶/ ۶۱

_كى مغفرت، اس كے شرائط، ۱۶/ ۱۱۰; _كى اخروى اسارت، ۱۴/ ۴۹; _كا مذاق اڑانا، اس كا سبب، ۱۵/ ۱۲; _كے استہزائ، ۱۵/ ۱۲; _كے دل پر قرآن كا القائ، ۱۵/۱۲; _سے اميدواري، اس كى اہميت، ۱۵/۴۹; _كا برتاؤ اس كا طريقہ، ۱۵/ ۱۳; _كا اخروى پيراہن، ۱۴/ ۵۰; _كى تقليد ، ۱۶/ ۲۵; _كى جہالت، ۱۶/ ۲۵; _كا حشر ، اس كى كيفيت، ۱۴/ ۴۹،۵۰; _پر رحمت ، اس كے

۷۴۲

شرائط، ۱۶/ ۱۱۰; _كا چہرہ ۱۴/ ۵۰; _كا عذاب، ۱۵/۵۹; ان كا اخروى عذاب، ۱۴/ ۴۹، ۵۰; _كى سزا، ۱۵/ ۱۲; _قيامت ميں ، ۱۴/ ۴۹،۵۰; _اور آيات خدا، ۱۵/ ۱۲; _كا ناقابل ہدايت ہونا ، ان كى ھٹ دھرمي، ۱۵/ ۱۴; _كا اخروى مواخذہ، ۱۵/ ۹۲; _كا باہمى توافق ۱۵/۱۳نيزر_ك خداوند عالم

گمراہ افراد:ر_ك امتيں ، عمل اور قيامت

گواہي:ر_ك قيامت ، محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ملائكہ

گوسفند:_كى پشم ، اس كے فوائد، ۱۶/ ۸۰; _كى كھال ، اس كے فوائد، ۱۶/ ۸۰; _كا خالق، ۱۶/ ۵; _كى خلقت، اس كا فلسفہ، ۱۶/ ۵; _كا دودھ ،اس كا آيات خدا ميں سے ہونا، ۱۶/ ۶۶; اس كے خروج سے عبرت ، ۱۶/ ۶۶; اس كے فوائد، ۱۶/ ۶۶; اس كے خروج كى كيفيت ۱۶/۶۶; _ سے عبرت ۱۶/۶۶;_كے فوائد، ۱۶/ ۵; _كے بال ، ان كے فوائد، ۱۶/۸۰; _كا گوشت، صدر اسلام ميں اس كا كھايا جانا۱۶/ ۸نيز ر_ك نعت

گوشت:ر_ك گھوڑا ، خچر، گدھا، چوپائے ، حيوانات اور گوسفند

گونگھا:ر_ك قرآنى مثاليں

گونگھاپن:ر_ك ظالم افراد

گھونسلہ بنانا:گھروں پر_، ۱۶/ ۶۸; درختوں پر_، ۱۶/ ۶۸; سايبانوں پر _، ۱۶/ ۶۸نيز ر_ك شہد كى مكھي

'' ل''

لباس:_كى اہميت، ۱۶/۶، ۸۱; _كى فراہمى ، اس كے منابع ، ۱۶/ ۸۱;مباح _ ۱۶/ ۱۴نيز ر_ك نعمت اور ضرورت

لجاجت:_كے آثار، ۱۵/ ۱۵نيزر_ك گذشتہ اقوام ، صاحبان غلام ، توحيد، حق ، قوم ثمود ، قوم لوطعليه‌السلام ، كفار ، كفار مكہ، گنہگار افراد، محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مشركين

لذائذ :ر_ك علائق اور كفار

لطف خدا:

۷۴۳

_كے شامل حال افراد،۱۴/۲۳، ۳۱، ۳۴، ۱۵/ ۲۵، ۵۳، ۶۱، ۹۲، ۹۹، ۱۶/ ۳۷، ۸۱، ۹۶، ۱۱۰، ۱۲۸

لحن:_كے شامل حال افراد، ۱۴/ ۲۷، ۱۵/ ۳۵; ان كى دعا كى اجابت ، ۱۵/ ۳۷نيز ر_ك ابليس اور شيطان

لواط:_كے آثار، ۱۵/۶۷، ۷۹نيز ر_ك قوم لوط

لوگ:_وں كاگمراہ كرنا ، اس كا انجام، ۱۴/ ۳۰; اس كا گناہ، ۱۶/ ۲۵; _وں كا انذار، ۱۴/ ۴۴، ۱۶/۲; _وں كى خبر داري، اس كى اہميت، ۱۴/۲۵; _وں كى فكر ى ترقى ، اس كى اہميت، ۱۶/ ۴۴; بعثت سے متصل_، ان كى آگاہي، ۱۴/ ۴۵; ان كى تاريخ سے آشنائي، ان كى گمراہي، ۱۴/ ۱; وہ اور قوم ثمود كى تاريخ،۱۴/ ۹; وہ اور قوم عاد كى تاريخ، ۱۴/۹; وہ اور قوم نوحعليه‌السلام كى تاريخ، ۱۴/ ۹; _وں كى ہدايت، ۱۶/ ۱۲۸; اس كى اہميت، ۱۴/ ۱، ۵; _كى ہوشيارى ، اس كى اہميت، ۱۶/ ۹۰نيز ر_ك ابراہيمعليه‌السلام ، انبياء، تبليغ، مبلغين، محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مكہ

لباس:ر_ك لباس

لوح محفوظ :ر_ك قرآن

لوطعليه‌السلام :_كى آبرو ، اس كى توہين،۱۵/۷۰; اس كا سرچشمہ، ۱۵/ ۶۶; _پر اتمام حجت، ۱۵/ ۶۳; _ پر اعتراض ، ۱۵/ ۷۰; _كے انذار، ۱۵/ ۶۳; اس پر شك، ۱۵/ ۶۳; _كى تجويز، ۱۵/۷۱; _كى تاريخ، ۱۵/ ۵۹; _كے زمانہ ميں تمدن، ۱۵/ ۶۷; _ كا خاندان ، اس كا امن، ۱۵/ ۶۵; اس كى پاكيزگي، ۱۵/ ۵۹; اس كا منزہ ہونا، ۱۵/ ۵۹; وہ اور گناہ ، ۱۵/ ۵۹; ان كے فضائل ، ۱۵/ ۶۱; ان كى ہجرت كى كيفيت ، ۱۵/ ۶۵; ان كى ذمہ دارى ، ۱۵/ ۶۵; ان كى ہجرت كا راستہ، ۱۵/ ۶۵; ان كى نجات، ۵۹، ۱۵/ ۶۵; ان كى نجات كے عوامل، ۱۵/ ۵۹; ان كو نہي، ۱۵/ ۶۵; ان پر ملائكہ كا داخلہ، ۱۵/ ۶۱; ان كى رات كو ہجرت ، ۱۵/ ۶۵;_كا گھر ، اس كا نقش، ۱۵/ ۷۰; _كے تقاضے ، ۱۵ / ۶۲،۷۰; _كى لڑكياں ، ان كے ساتھ ازدواج، ۱۵/ ۷۱; _كى ذلت، اس سے نہى ، ۱۵/ ۶۹; _كيطرف رجوع، ۱۵/ ۷۰; _كى سخاوت، ۱۵/ ۷۰; _كى مذمت، ۱۵/ ۷۰; _كے زمانہ ميں شہر نشيني،۱۵/ ۶۷; _كا ضعف، ۱۵/ ۷۰; _كا علم، ۱۵/ ۶۸; اس كا دائرہ كار، ۱۵/۶۲، ۶۸; _كے فضائل ، ۱۵/ ۷۱; _كا قصہ، ۱۵/ ۶۱، ۶۲،۶۳،۶۴، ۶۵،۶۷ ،۶۸ ،۶۹، ۷۰، ۷۱; اس ميں آيات خدا، ۱۵/ ۷۵; _كى ملائكہ كے ساتھ گفتگو، ۱۶/ ۶۲; _اور ملائكہ ، ۱۵/ ۶۲، ۶۸; _كا عوامى ہونا، ۱۵/ ۷۰; _كى ذمہ دارى ۱۵/ ۶۵; _كے مقامات ، ۱۵/ ۷۲;_كا معاشرتى مقام، ۱۵/ ۷۰; _كے مہمان، ۱۵/ ۶۱، ۶۲،۶۹; ان كى

۷۴۴

اہانت، ۱۵/ ۶۸; _كى مہمان نوازي، ۱۵/ ۷۰ ،۷۱ ; _كى نجات، ۱۵/ ۶۵; _كى نظارت، ۱۵/ ۶۵; _كى پريشاني، ۱۵/ ۶۸; _كے نواہي، ۱۵/ ۶۸ ،۶۹ ;_كو نہي، ۱۵/ ۶۵،۷۰; _ پر ملائكہ كا داخلہ، ۱۵/ ۶۲، ۶۳، ۶۴; اس كى كيفيت، ۱۵/ ۶۲; _كى ہجرت ، اس كى كيفيت، ۱۵/ ۶۵; اس كا راستہ، ۱۵/ ۶۵; ان كى رات كو ہجرت، ۱۵/ ۶۵; _كا كار ہدايت، ۱۵/ ۷۲;_كى ہمسر اس كا عذاب، ۱۵/ ۶۰; اس كے عذاب كى تقدير، ۱۵/ ۶۰; اس كے عذاب كا سرچشمہ، ۱۵/ ۶۰; اس كا گناہ ،۱۵/ ۶۰

نيزر_ك قسم ، قوم لوطعليه‌السلام اور ملائكہ

'' م''

ماں :_كے ليے استعفار، ۱۴/۴۱نيزر_ك ابراہيمعليه‌السلام

مالكيت:نيزر_ك گذشتہ اقوام، انبياء، خداوند عالم ، سرزمين اور موجودات

ماہ (چاند):_سے استفادہ ۱۶/ ۱۲; _كى تسخير، ۱۴/ ۳۳، ۱۶/ ۱۲; _كى گردش، اس كا تدوام، ۱۴/۳۳; _كا نقش ، ۱۴/ ۳۳

مؤمنين:۱۴/ ۱۱،۴۱_ كے ليے استغفار، ۱۴ /۴۱; _كا اطمينان، ۱۶/ ۱۰۶; _كا امتحان، اس كا پيش خيمہ، ۱۶ /۱۱۰; _كى اطاعت، ۱۶/ ۱۰۲; _كا ايمان ، اس كى تثبيت ، ۱۶/ ۱۰۲; اس كى خصوصيات، ۱۴/ ۲۷; _كا تعقل ، ۱۵ / ۷۷; _كا تقرب ۱۴/ ۳۱; _كى تقويت، اس كے عوامل ۱۴/ ۱۱; _كا منزہ ہونا، ۱۶/ ۱۰۶; _كيلئے تواضع، ۱۵/ ۸۸; _كى ثابت قدمى ، ۱۴/ ۲۷; _كے عوامل، ۱۴/ ۲۷; اس كا سرچشمہ، ۱۴/ ۲۷; _كا نيك انجام، ۱۴/ ۲۳; _كا حق قبول كرنا، ۱۶/ ۱۰۲; _كى طرف سے دعوت، ۱۴/ ۱۱، ۳۱; _ پر رحمت، ۱۶/ ۴۷، ۶۴; _كے صفات، ۱۵/ ۷۷; _كا عقيدہ ، اس كى خصوصيات، ۱۴/ ۲۷; _كے فضائل، ۱۴/ ۲۷; _كى ذمہ داري، ۱۶/ ۱; _كے مصالح، ۱۶/ ۱۲۶; _كى مصونيت، ۱۶/ ۹۹،۱۰۰; _كے مقامات، ۱۴/ ۳۱; _بہشت ميں ، ۱۴/ ۲۳; صالح _ ، ان كى پاداش، ۱۶/ ۹۷; ان كے فضائل، ۱۴/ ۲۳; غير متوكل_ ۱۶/ ۹۹; _اور لغزش، ۱۴/ ۲۷; _موت كے وقت، ۱۴/ ۲۷;_كى مدح، ۱۶/ ۱۱۰; _كى نشانياں ، ۱۴/ ۳۱; _كى ہدايت، ۱۶/ ۶۴; _كى ہوشياري، ۱۵/ ۷۷نيز ر_ك انبياء خدا اور قرآن

مباحات: ۱۶/ ۱۴_كى تحريم ، ۱۶/ ۳۵، ۱۱۴

مقابلہ:ر_ك انبياء ، انحراف جنسي، دنيا طلبي، دين ، كفار مكہ ، كفر، محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مسكرات

۷۴۵

اشاريے (۶)

مبغوضان خدا:۱۶/۲۶

مبلغين:_كے استہزائ، ۱۵/ ۹۷; _كى اميدواري، ۱۵/ ۹۷; _كے فضائل ، ۱۶/ ۱۲۸; _كى ذمہ داري، ۱۴/ ۴، ۱۵/ ۸۹، ۱۶/ ۱۲۵، ۱۲۷; _كا نقش ، ۱۶/ ۱۲۵; _كى لوگوں سے ہم زباني، ۱۴/ ۴نيز ر_ك شرك

متفكرين:_و طبيعت

متقين:_كى بہشت ميں آزادي، ۱۵/ ۴۶; _كى اخروى آسائش، ۱۶/ ۳۲; _كا احترام، ۱۶/ ۳۲;_كا احتضار، ۱۶/ ۳۲; _كا احسان، ۱۶/ ۳۰; _كا اخلاص ، ۱۵/۴۵; بہشت ميں _كا امن و امان ، ۱۵/ ۴۶; _كى پاداش، ۱۶ / ۳۲; ان كى اخروى پاداش ، ۱۶/ ۳۱; _كا منزہ ہونا، ۱۶/ ۳۰، ۳۱; _كى حمايت، ۱۶/ ۱۲۸; _كے تقاضے ، ان كى اجابت، ۱۶/ ۳۱; _كى طرف سے دعوت، ۱۵/ ۴۶، ۱۶/۳۲; _كى اخروى سعادت، ۱۶/ ۳۱; _ پر سلام ، ۱۶/ ۳۲; _كى اخروى سلامتي، ۱۶/ ۳۲; _كا عقيدہ، ۱۶/ ۳۰; ان كا پسنديدہ عقيدہ، ۱۶/ ۳۰; _كا پسنديدہ عمل ، ۱۶/ ۳۰; _كا انجام ، اس كا بيان، ۱۵/ ۴۵; _كے فضائل، ۱۵/ ۴۵، ۱۶/ ۳۲، ۱۲۸; _كى قبض روح، ۱۶/ ۳۲; _موت كے بعد، ۱۶/ ۳۲; _بہشت ميں ، ۱۵/ ۴۵،۴۷،۴۸، ۱۶/۳۱، ۳۲; ان كى دوستي، ۱۵ / ۴۷; ان كے روابط، ۱۵/ ۴۷; ان كى سلامتي، ۱۵/۴۶;ان پر سلام، ۱۵/ ۴۶; _اور تكبر ، ۱۶/ ۳۰; _ اور جہل، ۱۶/ ۳۲; _اور دشمني، ۱۵/ ۴۵; _كے اخروى مقامات، ۱۶/ ۳۰; _كى نشانياں ، ۱۶/ ۳۰; ۱۶/ ۳۲; اس كى كيفيت، ۱۵/ ۴۶; _كى خصوصيات،۱۶/ ۳۰ر_ك تذكر ا ور ملائكہ

متكبرين:_كا مقام ، اس كى قباحت، ۱۶/ ۲۹; _كا برا انجام، ۱۶/ ۲۹; _جہنم ميں ، ۱۶/ ۲۹

متوكلين:_سے مراد، ۱۴/ ۱۲; _كى مصونيت، ۱۶/ ۹۹، ۱۰۰

مثال:_كے فوائد،۱۴/ ۴۵، ۱۶/ ۷۶

قرآنى مثاليں :غلام كى مثال دينا،۱۶/ ۵۷،شجرہ خبيثہ كى مثال دينا، ۱۴/ ۲۶; شجرہ طيبہ كى مثال دينا، ۱۴/ ۲۴، ۲۵;جڑوانے درخت كى مثال دينا ۱۴/۲۴; گونگے كى مثال دينا، ۱۶/ ۷۶; عقيدہ حق كى مثال، ۱۴/ ۲۴; كلمہ خبيثہ كى مثال، ۱۴/ ۲۴; كلمہ طيبہ كى مثال، ۱۴/ ۲۴، ۲۵; موجودات كى مثال، ۱۶/ ۷۵، ۷۶

مجادلہ:_كا طريقہ، ۱۶/ ۱۲۵; _كى مذمت، ۱۶/ ۴; احسن_، ۱۶/ ۱۲۵نيزر_ك انسان ، قرآن ،كفار، مشركين اور باطل معبود

۷۴۶

مجازات:اخروى _، اس كى عموميت، ۱۴/ ۵۱نيز ر_ك سز

مجاہدين:_كى امداد، ۱۶/ ۱۱۰; _كوبشارت، ۱۶/ ۱۱۰; _كى دين داري، ۱۶/ ۱۱۰; _كے فضائل ۱۶/ ۱۱۰; _كى مدح، ۱۶/ ۱۱۰مجرمين:۱۵/ ۱۲

محبت:ر_ك ابراہيمعليه‌السلام اور اہل بہشت

محبوب افراد:ر_ك قسم

محرّمات:۱۶/ ۶۷، ۹۱، ۹۲، ۹۴، ۱۱۵، ۱۱۶_سے اجتناب، اس كے عوامل، ۱۶/ ۱۱۴;_سے استفادہ، ۱۶/ ۱۱۴; اس كا دائرہ كار، ۱۶/ ۱۱۵; _كى تحليل ، اس كے عوامل، ۱۶/ ۱۱۵; _كى خباثت، ۱۶/ ۱۱۵; _كا فلسفہ، ۱۶/ ۱۱۸; _كى محدويت، ۱۶/ ۱۱۵نيز ر_ك اديان

محسنين:_كى اخروى پاداش اس كى قدر و قيمت، ۱۶/ ۳۰; _كى دنيا وى پاداش، ۱۶/ ۳۰; اس كى قدر وقيمت، ۱۶/ ۳۰; _كى حمايت، ۱۶/ ۱۲۸;_ كے فضائل ، ۱۶/ ۱۲۸نيز ر_ك خداوند عالم

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :_كا ادراك، ۱۴ /۲۴;_كو اذيت، ۱۵/۸۵، ۸۶، ۹۴، ۹۴، ۹۵، ۹۷; _كى استقامت، ۱۵/ ۹۴; _كا استہزاء كرنے والے ، ۱۵/ ۹۵; ان كا انذار، ۱۵/ ۹۶; ان كا دفع شر، ۱۵/ ۹۵; ان كا شرك، ۱۵/ ۹۶; ان كا عقيدہ، ۱۵ / ۹۶; ان كى سزا، ۱۵/ ۹۶; _كے استہزائ، ۱۵/ ۶، ۱۱، ۱۳، ۹۵، ۹۷; _كو اطمينان، ۱۵/ ۹; _سے روگرداني، ۱۶/ ۸۲; _كو سورہ حمد كى عطا ، ۱۵/ ۸۷; _كو قرآن كى عطاء ،۱۵/ ۸۷; _پر افتراء ، اس كى سزا، ۱۶/ ۱۰۵; _كو نمونہ بنانا، ۱۴/ ۱۹، ۲۴; _كا اندوہ ۱۵/ ۹۷; اس كے عوامل، ۱۶/ ۱۲۷; _كے انذار، ۱۴/۴۴، ۱۵/ ۵۰، ۸۹; اس كا واضح ہونا، ۱۵/ ۸۹; _كے مقاصد، ۱۴/ ۵;_كو بشارت،۱۵ / ۹۵، ۹۶; _كى بعثت ، اس كے آثار، ۱۵/ ۱۷; _كى دشمنوں سے بے اعتنائي، ۱۵/ ۹۵; _كى مشركين سے بے اعتنائي، ۱۵/ ۹۵;_كى پيش قدمي، ۱۴/ ۱۹، ۲۴; _كے خلاف تبليغ، ۱۵/ ۹۷; _كى تبليغ، ۱۵/ ۹۴; ۱۶/ ۸۲; _كے تذكرات، ۴/۱ ۹; _كى فكر ى تقويت، ۱۵/۱۱، _كا تكامل، اس كے آثار، ۱۶/ ۱۲۵; اس كا پيش خيمہ، ۱۵/ ۸۶; _كى تكذيب ، اس كے آثار، ۱۶/ ۱۱۳; _كا سرچشمہ، ۱۶/ ۱۰۱; _كا شرعى وظيفہ،۱۵ /۸۸، ۸۹،۹۴،۹۹; _كى كوشش ، ۱۵/ ۳; _كا منزہ ہونا، ۱۶/ ۴۴، ۱۰۵; _كى تواضع، ۱۵/ ۸۸; _كو تلقين، ۱۵/ ۸۸، ۹۸، ۹۹;_ كے خلاف سازش ، ۱۵/ ۹۷; اس كا افشائ، ۱۶/ ۱۰۳; اس كى مذمت، ۱۶/ ۴۵; اس سے ممانعت، ۱۴/۴۵; _ پر تہمت، ان پر افترائ، كى تہمت،۱۶/ ۱۰۵; ان پر تعلم كى تہمت، ۱۶/ ۱۰۳; ان پر جادو گرى كى تہمت، ۱۶/ ۱۰۱، ۱۰۵; _كا حامى ، ۱۵/ ۹۵; _كے دشمن، ۱۴/ ۲۸،۱۵/ ۹۵، ۹۷;

۷۴۷

ان كى اذيتيں ، ۱۵/ ۹۵;ان كے استہزائ، ۱۵/ ۹۵; ان كا انذار، ۱۶/ ۴۵، ۴۶، ۴۷; ان كا خوف، ۱۶/ ۴۷; ان كى سازش ، ۱۶/ ۴۵;ان سے برتاؤ كا طريقہ، ۱۵/ ۹۵; ان كى مذمت، ۱۶/ ۴۵; ان كا عذاب، ۱۶/ ۴۵; ان كے عذاب كى حتميت، ۱۶/ ۴۶; ان كا دنياوى عذاب، ۱۶/ ۴۷; ان كا مكر ، ۱۶/ ۴۵; ان كى ہلاكت، ۱۶/ ۴۶، ۴۷; ان كى تدريجى ہلاكت، ۱۶/ ۴۷; _كى دعوتيں ،۱۴/ ۴۴، ۱۶/ ۱۲۵، ۱۲۷; ان كى آشكار دعوتيں ، ۱۵/ ۹۴، ۹۵; ان كى مخفى دعوت، ۱۴/ ۹۴; اس كا طريقہ، ۱۶/ ۱۲۷; _كو تسلّي، ۱۴/ ۴۲، ۴۶،۴۷، ۱۵/۱۱، ۱۳،۸۶ ،۹۷ ، ۱۶/۳۶،۸۲، ۱۲۷; _كى دلسوزى ، ۱۵/ ۸۸; _كى طرف رجوع، ۱۶/ ۴۴; _كى رسالت، ۱۴/ ۳۱، ۴۴ ، ۱۵/ ۸۹، ۹۴; اس كا عالمگير ہونا، ۱۴ / ۱، ۴۴; اس كا دائرہ كار ، ۱۵/۹۴ ; _ اور خدا كے درميان اسرار و رموز ۱۵/۱ ;_كے بارے ميں شبہہ پيدا كرنا ۱۶/۴۵; اس كى مذمت ۱۶/۴۵;_كاصبر ، ۱۶/ ۱۲۷; اس كا پيش خيمہ، ۱۶/ ۱۲۷; _كى صداقت، اس كے دلائل، ۱۵/ ۷; _كى صراحت، ۱۵/ ۸۹، ۹۴; _كى عبادات، ۱۵/ ۹۹; _كى عبوديت، ۱۵/۹۹; _كى عصمت، ۱۶/ ۸۹; _كے عفو، ۱۵/ ۸۵، ۸۶; _كے علائق، ۱۵/ ۸۸، ۱۶/ ۳۷، ۱۲۷;_ كا علم، ۱۶/ ۶۴; ان كا علم لدني، ۱۶/ ۸۹; اس كى خصوصيات، ۱۶/ ۴۴; _كے فضائل ، ۱۴/ ۲۴، ۳۵، ۱۵/ ۹۲، ۹۹، ۱۶/ ۴۴، ۸۹، ۱۲۷; _كا فہم، ۱۶/ ۴۴; _كى كتاب، ۱۴/۱، ۱۶/ ۴۴; _ كى كرامت، ۱۵/ ۸۵; _كا كمال، ۱۶/ ۸۹; _كى گواہي، ۱۶/ ۸۹;_ پرلطف، ۱۵/ ۲۵; _كے ساتھ مقابلہ، ۱۶/ ۱۰۱; _كا مجادلہ، ۱۶/ ۱۲۵; _قيامت ميں ، ۱۶/۸۹; _اور ابراہيمعليه‌السلام ، ۱۶/ ۱۲۳; _ اور بنى اسرائيل كى تاريخ، ۱۴/ ۶; _اور دين ابراہيمعليه‌السلام ، ۱۶/ ۱۲۳; _ اور ظالم افراد،۱۴ /۴۲; _ اور فراموشي، ۱۶/ ۴۴; _اور قرآن ، ۱۶/ ۴۴; _ اور قصہ موسيعليه‌السلام ، ۱۴/ ۶; _اور يہود كے محرمات، ۱۶/ ۱۱۸; _ اور لوگ، ۱۶/ ۱۲۷; _اور كفار كى ہدايت، ۱۵/ ۳; _كے مخالفين، ۱۵/ ۹۵; ان كى اذيتيں ، ۱۵/ ۸۵; ان كے استہزائ، ۱۵/ ۹۵; ان كا اقرار، ۱۶/ ۱۰۳; ان كى كوشش ، ۱۶/ ۱۰۳; ان كى تہمتيں ، ۱۶/ ۱۰۵; ان سے بر تاؤ كا طريقہ، ۱۵/ ۹۵; ان كو متنبہ كرنا، ۱۴/ ۱۹; ان كى ہلاكت، ۱۴/ ۱۹; _كا مربي، ۱۵/ ۹۹; _كى ذمہ دراي، ۱۴/ ۱، ۶،۷، ۱۵/ ۳، ۲۸، ۴۹، ۵۰، ۵۱، ۸۵،۸۸، ۹۴، ۱۶/ ۸۲، ۱۰۲، ۱۲۳، ۱۲۵، ۱۲۷; اس كا دائرہ كار، ۱۵/ ۸۹، ۱۶/ ۸۲; _كى مشكلات، ۱۵/ ۱۱، ۱۶/ ۱۲۷;_كے مصالح، ۱۵/ ۸۶; _كا معجزہ، اس كى خصوصيات، ۱۶/ ۴۴; _پر افتراء باندھنے والے ، ان كا جھوٹاپں ،۱۶/ ۱۰۵; _كے مقامات، ۱۴/ ۲۴، ۱۵/ ۷۲، ۱۶/ ۸۹; _كى تكذيب كرنے والے ، ان كى جہالت ،۱۶/ ۱۰۱; ان كى لجاجت، ۱۶/ ۱۰۱; _كى كاميابي، ۱۵/ ۹۶; _ پر قرآن كا نزول ، ۱۶/ ۴۴، ۸۹; _كى پريشاني، ۱۵/ ۹۵; _كے نواسے ،۱۶/۷۲ ; _كو نہى

۷۴۸

، ۱۵/ ۸۸; _كى ضروريات، ۱۶/ ۱۲۷; ان كى روحانى ضروريات، ۱۵/ ۱۱; ان كى معنوى ضروريات ،۱۶/ ۹۸; _پر وحي، ۱۴/ ۱، ۱۵/۶، ۷، ۱۶/ ۶۴، ۱۱۸، ۱۲۳;_كى ولادت، اس كے آثار، ۱۵/ ۱۷; _كا كار ہدايت، ۱۴ /۱، ۵، ۱۵/ ۳، ۸۸، ۱۶/ ۳۷، ۱۲۷; _كى ہدايتيں ، ان كى تاثير كے شرائط ، ۱۶/ ۳۷نيز ر_ك انبياء، خداوند عالم ، قسم ،كفار، كفار مكہ اور مشركين

مخالفين:_كے ساتھ برتاؤ كا طريقہ، ۱۴/ ۳۶

مخلصين:_كا گمراہ نہ ہونا، ۱۵/ ۴۰، ۴۱، ۴۲; _كے فضائل ، ۱۵/ ۴۰; _كى كمى ، ۱۵/ ۴۰; _كى مصونيت، ۱۵/ ۴۰،۴۲

مخلوقات:ر_ك موجودات

مدين:اہل _، ان كا پيغمبر، ۱۵/ ۷۸

مدينہ:صدر اسلام ميں _، اس كا معاشرتى مقام، ۱۶/ ۴۱; _كى طرف ہجرت، ۱۶/ ۴۱

مذہب:ر_ك دين

مربي:_كى نسبت كفران، ۱۴/ ۱۸نيزر _ك انبياء، انسان، محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ملائكہ

متنبہ كرنا:_ے كے عوامل، ۱۴/۵۲نيز ر_ك كفار اور لوگ

معاشرہ:معاشرتى آفت شناسي، ۱۴/۲۸، ۴۵، ۱۵/۵۸، ۶۶، ۷۴، ۱۶/۸۸، ۱۱۲; _كى موت، ۱۵/ ۴; _كا استقلال ،اس كا سرچشمہ، ۱۶/ ۷۶; معاشروں كى پستى ، اس كے عوامل ، ۱۴/ ۲۱، ۱۵، ۶۶; معاشروں كا خاتمہ، اس كے عوامل ، ۱۴/ ۲۸، ۱۵/۶۶; اس كا سرچشمہ، ۱۵/۶۶;_ كى اہميت، ۱۵/۱۰ ، ۱۶/۹۰ ; فاسد معاشرے ان كى ہلاكت ، ۱۵/۶۶، ۷۴; _كى حقيقت، ۱۵/ ۴;_ كى حيات ، ۱۵/ ۴; اس كا پيش خيمہ، ۱۶/۲; معاشروں كا عذاب، اس كا سرچشمہ، ۱۵/۷۴; معاشروں كا قانون كے مطابق ہونا، ۱۵/۴; _كى قدرت، اس كا سرچشمہ، ۱۶/۷۶; معاشروں كے مصالح، ان كى فراہمي، ۱۶/ ۸۸;_ كا نقش، ۱۴/ ۱۰; ان كا وجود، ۱۵/ ۴; معاشروں كى ہلاكت، اس كا سبب، ۱۵/ ۵۸، ۷۴; ان كا قانونى ہونا، ۱۵/ ۴

مرتدين:_كى مغفرت،اس كے شرائط، ۱۶/ ۱۰۱; _كى توبہ، اس كا قبول ہونا، ۱۶/ ۱۱۰; _كے دل پر مہر، ۱۶/ ۱۰۸;_كى اخروى زياں كاري، ۱۶/ ۱۰۹; _كا عذاب ، ۱۶/ ۱۰۶;_پر غضب، ۱۶/ ۱۰۶;_كا بہرہ پن، ۱۶/ ۱۰۸; _كا اندھاپن ، ۱۶/ ۱۰۸; _كى

۷۴۹

محروميت، ۱۶/ ۱۰۸

مرد:_كى حقيقت ، ۱۶/ ۷۲; _كى پاكيزہ زندگي، ۱۶/ ۹۷نيزر_ك انبياء اور عورت

مردار:_كى حرمت، ۱۶/ ۱۱۵

مرد كى حاكميت:ر_ك جاہليت

مرد ہ افراد:_كا اخروى احيائ، ۱۴/۱۹، ۱۵/ ۲۵، ۱۶/ ۴۵; اس كى تكذيب، ۱۶/ ۳۸; اس سے جہالت،۱۶/ ۳۸; اس كا حتمى ہونا، ۱۶/ ۳۸، ۴۰;اس كا فلسفہ ،۱۶/ ۳۹

موت:_كا تداوم ، ۱۵/ ۲۳; _ميں تعجيل، اس كا امكان، ۱۴/ ۱۰; اس كى حتميت، ۱۵/ ۲۳; _كى حقيقت، ۱۵/ ۲۵، ۱۶/ ۲۸، ۳۲، ۷۰; _آيات ، خداوند ى ميں سے ، ۱۵/ ۲۳; _كا سر چشمہ، ۱۵/ ۴، ۲۳، ۱۴/ ۴۵، ۲۵، ۳۶، ۱۶/ ۷۰; _كا نقش ، ۱۶/ ۲۸، ۳۰نيز ر_ك ابليس، انسان، انفاق، پاكيزہ افراد، اہل جہنم، حيات، كفار، كفر، مومنين، متقين، ملائكہ اور يقين

مسؤوليت:_كا پيش خيمہ، ۱۶/ ۹۰

(خاص موارد ميں خود موضوع ميں تحقيق كى جائے)

مستكبرين:۱۶/ ۲۲

_كى تقليد، اس كے عوامل،۱۴/ ۲۱; _كى گمراہى ، اس كا مسوول ۱۴/ ۲۱; _كى محروميت، ۱۶/ ۲۳; _قيامت ميں ، ۱۴/ ۲۱نيز ر_ك تقليد

مسكرات:_كا مقابلہ ،اس كا طريقہ، ۱۶/ ۶۷; _كى ناپسنديدگى ،۱۶/ ۶۷

معاشرہ:ر_ك معاشرہ

موت:اٹل_ ،۱۵/۴، ۵، ۸، ۱۶/۶۱; اس كا حتمى ہونا ، ۱۶/ ۶۱; اس كاسبب ،۱۴/۱۰; اس سے مراد، ۱۶/۶۱; _كى تاخير ، اس كا سبب، ۱۴/ ۱۰; _كى تعيين ، اس كا سرچشمہ، ۱۶/۶۱نيز ر_ك امتيں ، انسان اور معاشرہ

مسكن:_كى اہميت، ۱۶/ ۸۱نيزر_ك گھر

مسلمان افراد:_كو بشارت، ۱۶/ ۸۹، ۱۰۲; _كا نيك انجام، ۱۵/۲; _كا سرور ، ۱۶/ ۸۹; صدر اسلام كے _، ان كا لفظى اظہار كفر، ۱۶/ ۱۰۶;_كے تقاضے ،۱۶/۱; ان كا شكنجہ ، ۱۶/ ۱۱۰، ۱۲۷ ; ان پر ظلم، ۱۶/ ۴۱;

۷۵۰

ان كى ہجرت، ۱۶/ ۴۱، ۴۱، ۱۱۰; ان كى ہجرت كا فلسفہ، ۱۶/ ۴۱; مظلوم_، ان كى پاداش، ۱۶/ ۴۱; _كى اخروى نجات، ۱۵/ ۲; _كى معنوى ضروريات، ۱۶/ ۴۲; _كى ہدايت ، ۱۶/ ۱۰۲نيزر_ك كفار

مسيحى افراد:۱۵/ ۹۰_اور قرآن ،۱۵/ ۹۱

مشركين: ۱۴/ ۲۲، ۱۵ ۹۶_كى آگاہي، ۱۶/ ۵۵; _كا احساس امن، اس كى سرزنش، ۱۶/ ۴۵; _كا موحدين كے ساتھ اختلاف، ۱۶/ ۳۹; _كے دعوے ، ۱۶/ ۶۲; ان كے باطل دعوے ، ۱۶/ ۶۲; ان كى تكذيب، ۱۶/ ۸۶; _كى اذيتيں ، ۱۵/ ۹۵، ۹۷; اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلعم، ۱۵/ ۹۴; _كے استہزائ، ۱۵/ ۹۵، ۹۷، ۱۶/ ۳۵; _سے روگرداني، ۱۵/ ۹۴; _كے افترائ، ۱۶/ ۵۶،۵۷،۶۲، ۶۳، ۷۸; اس كا سرچشمہ، ۱۶/ ۶۳;_كا اخروى اقرار، ۱۶/ ۸۶; _كى اكثريت، ۱۶/۷۵; _پر اندوہ ، ۱۵/ ۸۸; اس سے اجتناب، ۱۵/ ۸۸; _كا اندوہ، ۱۶/۸۵; _كا انذار، ۱۶/ ۴۵ ،۵۵،۵۹; _كے مقاصد ، ۱۶/۵۵; _بدعت پيدا كرنا، ۱۶/ ۳۵،۵۶; _كا برتاؤ ،اس كا طريقہ، ۱۵/ ۹۷،۱۶/ ۲۷،۳۵; _كى برتر طلبي، ۱۶/ ۶۲; _كى بہانہ جوئي، ۱۶/ ۱۰۱; _كى فكر، ۱۶/ ۵۶،۵۷،۵۸، ۸۷; _كى بيٹے سے محبت، ۱۶/ ۵۷; _كى پليدگى ، ۱۶/ ۶۰; _كى اخروى تحقير، ۱۶/ ۲۷; _پر ترحم،۱۵/ ۸۸; _كا خوف ، ۱۶/ ۵۱; _كا اخروى تسليم خم ، ۱۶/ ۸۷; _كا خدا سے تكلم، ۱۶/ ۸۶; _كى كوشش، ۱۶/ ۳۸; ان كى اخروى كوشش، ۱۶/ ۸۶; _كا توجيہ كرنا، ۱۶/ ۳۵; _كى سازش ، ۱۶/ ۳۸; اس كا افشائ، ۱۶/۱۰۳; _كى دھمكى ،۱۶/ ۵۶; _كى تہمتيں ، ۱۶/ ۱۰۱، ۱۰۳; ان كا جواب، ۱۶/ ۱۰۲;_كا جبر پر اعتقاد، ۱۶ /۳۵، ۳۹، ۴۳; _كى جہالت، ۱۶ / ۷۳، ۷۵; _كى خدا شناسى ، ۱۶/ ۵۷; _كا جھوٹا پن ، ۱۶/ ۵۶; _كى دشمني، ۱۵/ ۹۵، ۱۶/ ۲۷،۶۲; _كى دعوت، ۱۶/ ۴۸; _كى ذلت، ۱۶/ ۴۸; ان كى اخروى ذلت، ۱۶/ ۲۷; كى روزي، ۱۶/ ۴۸; _كى مذمت، ۱۶/ ۴۸; _ پرشيطان كا تسلط، ۱۶/ ۱۰۰; _كى قسم ، ۱۶/ ۴۸; _كا شبہ ڈالنا، اس كا فلسفہ، ۱۶/ ۴۵; _كا شرك عبادي، ۱۶/ ۳۵; _كى اخروى شكايت، ۱۶/ ۸۶; _كى صورت، ۱۶/ ۵۸; _كا عذاب، ۱۶/۵۵; ان كا دنياوى عذاب، ۱۶/ ۲۷; _ كا عفو ، ۱۵/۸۵; _كا عقيدہ، ۱۶/ ۲۷، ۳۵، ۳۸، ۴۰، ۵۰، ۵۴، ۵۷; ان كى توجيہ، ۱۶/ ۳۵; ان كا باطل عقيدہ، ۱۶/ ۳۶، ۴۳;_كے علائق ، ۱۶/ ۵۷; _ كے علماء، ان كى دشمني، ۱۶/ ۱۰۱; _كا ناپسنديدہ عمل، ۱۶/ ۴۵; ان كى توجيہ، ۱۶/ ۳۵; _كا غضب ،اس كے عوامل، ۱۶/ ۵۸; _كا فرار، ۱۶/ ۱۵۹; _كا فراموش ہونا، ۱۶/ ۶۳; _كا كفران ، ۱۶/ ۵۵، ۸۳; _كا كفر ، ۱۶/ ۲۷; _كى سزا، ۱۵/ ۹۶، ۱۶/ ۶۲; _كے ميلانات، ان كا سرچشمہ، ۱۶/ ۵۷;_كى گمراہي، اس كے عوامل، ۱۶/ ۸۶; _كى لجاجت، ۱۶/ ۸۳; _كا مواخذہ،۱۶/ ۵۶; اس كى

۷۵۱

حتميت، ۱۶/ ۵۶; ان كا اخروى مجادلہ، ۱۶/ ۸۶; _كے ساتھ مجادلہ ۱۶/ ۱۲۵;_جہنم ميں ، ۱۶/ ۶۲; _سختى ميں ، ۱۶/ ۵۴; _قيامت ميں ، ۱۶/ ۲۷، ۸۶، ۸۷; ان كا طعن، ۱۵/ ۲; صدر اسلام كے _، ان كے استہزاء ، ۱۶/ ۱; ان كى اكثريت ۱۶/ ۸۳; ان كے مادى وسائل، ۱۵/ ۸۸; ان كا پيداو ايجاد كرنا، ۱۶/ ۳۵; ان كى ثروت مندي، ۱۵/ ۸۸; ان كے تقاضے ، ۱۶/ ۱; ان كى دشمني، ۱۶/ ۱; ان كا عقيدہ، ۱۶/ ۳; ان كا كفران ، ۱۶/ ۸۳; ان كا كفر، ۱۶/ ۸۳; ھٹ دہرم_، ۱۶/ ۱۰۱; ناشكر _، ان پر غضب، ۱۶/ ۵۵; _اور اخرت، ۱۶/ ۶۰; _ اور بہشت، ۱۶/ ۶۲; _ اور حسن انجام، ۱۶/ ۶۲; _ اور بيٹى ، ۱۶/ ۵۷، ۵۸، ۵۹; _اور دين ، ۱۶/ ۳۵; _اور فصاحت قرآن، ۱۶/ ۱۰۳; _ اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ۱۵/ ۹۵; _اور معاد، ۱۶/ ۴۰; _او ر باطل معبود ، ۱۶/ ۲۷، ۵۶، ۸۶; _سختى دور ہونے كے وقت، ۱۶/ ۵۴،۵۵; _كے موحدين كے ساتھ جھگڑائے، ۱۶/ ۲۷; _كو مہلت، ۱۶/ ۵۵; _كى اخروى نا كامى ،۱۶/ ۸۷; _كى دنياوى نعمتيں ، ۱۶/ ۵۵; _كى ہدايت، ۱۵/ ۸۸، ۱۶/ ۳۷; _كو خبر دار كيا جانا، ۱۴/ ۱۹; _كى ہلاكت، ۱۴/ ۱۹; _كا بااہميت توافق، ۱۶/ ۳۵; _كى ہوس پرستي، ۱۶/ ۵۷; اس كے آثار، ۱۶/ ۵۷نيزر_ك جاہليت، مومنين، مشركين مكہ اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلعم

مشركين مكہ:_كى اكثريت ،ان كى جہالت، ۱۶/ ۳۸; _كا انذار، ۱۶/ ۶۳; _كے افترائ، ۱۶/ ۶۱; _كى بت پرستي، اس كا سرچشمہ، ۱۶/ ۳۵; _كى فكر، ۱۶/ ۳۵، ۳۸، ۴۳; _كى كوشش، ۱۶/ ۳۵; _كى دھمكي، ۱۶/ ۳۶; _كا جبر پر اعتقاد، ۱۶/ ۳۵; _كى خداشناسى ، ۱۶/ ۳۵، ۳۸; _كى دشمني، ۱۶/ ۳۵; _كى طرف سے دعوت، ۱۶/ ۴۳; _كے رہبر، ان كا نقش، ۱۴/ ۲۸: _كا ظلم، ۱۶/ ۴۱; اس پر صبر، ۱۶/ ۴۲; _كا عقيدہ، ۱۶/ ۳۵، ۳۸; اس كى تقويت، ۱۶/ ۳۵; _كا برا انجام، ۱۶/ ۳۶; _كے عقائدى نظريات، ۱۶/ ۳۵; _اور مشيت خدا، ۱۶/ ۳۵; _اور نبوت، ۱۶/ ۳۸; _اور بشركى نبوت، ۱۶/ ۴۳; _كو مہلت، ۱۶/ ۶۱نيز ر_ك جاہليت اور محمد صلعم

مشكلات:نفسياتي_، اس كے موانع، ۱۶/ ۱۲۸; معاشرتي_ ۱۶/ ۱۱۲; اس كے رفع كى اہميت، ۱۶/ ۹۰; اس كا پيش خيمہ، ۱۴/ ۶نيز ر_ك خاندان ، صبر اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلعم

مضطر:_كے احكام، ۱۶/ ۱۱۵; _سے تكليف كا رفع، ۱۶/ ۱۱۵; _كے شرائط، ۱۶/ ۱۱۵

مظلوم:_كا حامي، ۱۴/ ۱۴نيزر_ك مسلمان افراد

مغفرت:_اخروى ، اس كى اہميت ۱۴/۴۱; _پر اميد ركھنے والے ۱۴/۳۶; _كا سبب ۱۶/ ۱۱۰; _كى شرائط ۱۶/ ۱۱۹; _كے شامل حال افراد۱۶/ ۱۱۰; _كے موانع

۷۵۲

۱۶/۱۱۹، _كے اسباب ۱۴/ ۱۰ ،۱۶/۱۱۰; _كا وعدہ ، ۱۶/۱۱۹

خاص موارد ميں خود موضوع كے بارے ميں تحقيق كى جائے

معاد:_كى اہميت، ۱۶/ ۷۷; _كى تكذيب، اس كے آثار، ۱۶/ ۳۹; اس كا سرچشمہ، ۱۶/ ۳۸;_سے جاہل افراد، ۱۶/۳۸;_كى حتميت، ۱۶/ ۳۸;_ كے دلائل، ۱۴/ ۱۹;_كے بارے ميں شبہ پيدا كرنا ، ۱۶/ ۴۵; اس كى مذمت، ۱۶/ ۴۵; _كا فلسفہ ، ۱۶/ ۳۹; جسماني_، ۱۴/ ۴۳، ۵۰ ،۱۵ / ۴۷; روحاني_، ۱۴/ ۴۳، ۵۰; _كى تكذيب كرنے والے ، ۱۶/ ۳۸; ان كى فكر، ۱۶/ ۳۸; ان كے راز ، ۱۶/ ۲۳; ان كى نيتيں ، ۱۶/ ۲۳نيز ر_ك خداوند عالم ، كفار اور مشركين

معدنيات:_كى پيدائش ، ۱۵/ ۱۹، ۲۱; اس كى جگہ ، ۱۵/ ۱۹; معدنى مواد، ان كا تناسب، ۱۵/۱۹; ان كا وزن، ۱۵/ ۱۹

معاش:_كى فراہمي، اس كا ذريعہ، ۱۵/ ۲۰، ۲۱، ۲۲; اس كا سرچشمہ، ۱۵/ ۲۰نيزر _ك انسان اور زندگي

معاشرت:_كے آداب ، ۱۵/ ۵۲، ۶۸،۶۹، -۱۶/۲۰نيزر_ك رفتار

معاملہ:_ميں قسم:۱۶/ ۹۲نيز ر_ك آخرت اور خداوند عالم

معاہدہ كرنے والے:_وں كى ذمہ دارى ۱۶/ ۹۲

معجزہ:_كى تكذيب، اس كى سزا، ۱۵/ ۸۳; _كى حقيقت، ۱۴/ ۵; اقتراحى _۱۴/ ۱۰، ۱۱، ۱۵،۷،۱۶/ ۳۳; اس كے رد كا فلسفہ، ۱۰/ ۸; حسي_ ، اس كى درخواست، ۱۵/ ۷; _كا سرچشمہ، ۱۴/ ۵،۱۱; _كا نقش ، ۱۴/۵نيز ر_ك آيات خدا ، انبياء، عذاب ، قوم ثمود، محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلعم اور موسيعليه‌السلام

معصومين:۱۶/ ۸۴، ۸۹

معصيت:ر_ك گناہ

معنويات:_كے آثار، ۱۴/ ۱۴; _كى قدرو قيمت، ۱۶/ ۹۵; _ كى اہميت، ۱۶/ ۹۵; _سے سوء استفادہ، ۱۶/ ۹۵; _ كا نقش، ۱۴/ ۱۰مغضوبان خدا:۱۵/ ۳۵، ۵۵، ۱۰۶

مغفرت:ر_ك مغفرت

۷۵۳

مفسدين:۱۵/ ۱۲،۱۶/ ۵۹_كا عذاب، ۱۵/ ۵۹

مقابلہ بالمثل:_كى قدر و قيمت، ۱۶/ ۱۲۶; _كے شرائط، ۱۶/ ۱۲۶;_ميں صبر، ۱۶/ ۱۲۶; _ميں عدالت، ۱۶/ ۱۲۶، ۱۲۸; _سے عفو، ۱۶/ ۱۲۸; _كى مشروعيت، ۱۶/ ۱۲۶نيزر_ك دشمن افراد

معنوى مقامات:_كا پيش خيمہ، ۱۶/ ۹۶، ۹۷

مقاومت:ر_ك استقامت

مقسمين:_سے مراد، ۱۵/ ۹۰

مقدرات خدا:ر_ك خد

مقدسات:_سے سوء استفادہ ، اس كے آثار، ۱۶/۹۴; دوسروں كے _، ان كا احترام ۱۶/ ۲۰مقربين:۱۴/۳۱

_كا گمراہ، نہ ہونا، ۱۵/ ۴۲; _كى مصونيت، ۱۵/ ۴۲: _كى ضروريات، ۱۴/ ۳۱

مكانات:ر_ك اماكن

مكر:_كى مذمت ، ۱۶/ ۹۲; قسم كے ساتھ _، ۱۶/ ۹۲

مُكرہ:_كے احكام، ۱۶/۱۰۶

مكہ:_كا احترام، ۱۴/ ۳۵; _كا امن و امان، ۱۴/ ۳۵; اس كى درخواست، ۱۴/ ۳۵; اہل _، ان كے كفران كے آثار، ۱۶/ ۱۱۲; وہ اور اصحاب ايكہ كے آثار قديمہ، ۱۵/ ۷۹; وہ اور قوم لوطعليه‌السلام كے آثار قديمہ، ۱۵/ ۷۹; _كے ليے نعمت كى درخواست، ۱۴/ ۳۷; ان كا دين، ۱۵/ ۹۶; ان كى اكثريت، ان كا شرك، ۱۵/ ۹۶; ان كا عذاب،۱۶/ ۱۱۳; _كى اہميت، ۱۴/ ۳۷; _كى تاريخ،۱۴/ ۳۵، ۳۷، ۱۶/ ۴۱، ۱۱۲; _ميں توحيد ، ۱۴/ ۳۷; _كى اقتصادى رونق كے ليئے درخواست، ۱۴/۳۷; _سے لوگوں كے شوق كى درخواست، ۱۴/ ۳۷; _كا شہر ، ۱۴/ ۳۵; _كى فضيلت، ۱۴/ ۳۵; _ميں فقرا س كے عوامل ، ۱۶/ ۱۱۲; _ميں گرسنگي، اس كے عوامل، ۱۶/۱۱۲;_ابراہيمعليه‌السلام ، كے زمانے ميں ، ۱۴/ ۳۵; _كا معاشرتى مقام، ۱۴/ ۳۷; صدر اسلام ميں _كا معاشرتى مقام، ۱۶/ ۴۱; _كى آب وہوا كى كيفيت، ۱۴/ ۳۷; _ميں ناامن، اس كے عوامل، ۱۶/ ۱۱۲; _سے ہجرت، ۱۶/ ۴۱نيز ر_ك ابراہيمعليه‌السلام ، اسماعيلعليه‌السلام ، انفاق، مكہ كے علماء، مشركين مكہ ، نماز اور ہاجر

۷۵۴

مشروبات:۱۶/ ۶۷; سالم _، ۱۶/۶۶، ۶۷; بہترين _ ۱۶ / ۶۷نيز ر_ك پانى اور جہنم

ملائكہ:_كا استقبال،۱۶/ ۳۲; _كى فرمانبردارى ، ۱۵/ ۳۰، ۱۶/۴۹، ۵۰; _كى بشارتيں ، ۱۵/ ۵۳، ۵۴، ۵۵، ۱۶/ ۳۲; _سے سوال، ۱۵/ ۵۴; _كى تاثير پذيرى ، ۱۶/ ۵۰; _كا شرعى وظيفہ، ۱۵/ ۲۹، ۳۰، ۱۶/۵۰; _كى توحيد عبادي، ۱۶/ ۴۹; _كى تلقينات، ۱۵ / ۵۵ ; _كى خلقت، اس كى تاريخ، ۱۵/ ۲۸; _كے تقاضے، ۱۵/ ۵۳، ۶۵; _كى گواہى كى درخواست، ۱۵/۷;_كے نزول كى درخواست، ۱۵/ ۷،۸، ۱۶/ ۳۳; _كى دعوتيں ، ۱۶/ ۳۲; _كا مشاہدہ، ۱۵/ ۷، ۵۲، ۶۲; _كى رسالت، ۱۵/ ۶۴; اس كے بارے ميں سوال، ۱۵/ ۵۸; _كا سجدہ، ۱۶/ ۴۹; _كا سلام، ۱۵/ ۵۲، ۱۶/ ۳۲; _كا صعود، ۱۵/ ۸; _ كا عقيدہ ، ۱۶/ ۲۸; _كا علم، ۱۶/ ۲۸; _كے فضائل ، ۱۶/ ۴۹; _كا مربي، ۱۶/ ۵۰; _كى ذمہ دارى ۱۵/ ۵۷،۵۸،۶۳; _كے مقامات، ان پر عقيدہ، ۱۶/ ۵۰; _كا عذاب، ۱۵/ ۵۷، ۵۸،۶۱، ۶۳، ۶۴، ۵۷;_كى قبر، اس كا سوال ۱۴/۲۷; _ كا مبشر ہونا ۱۵/۵۴،۵۵،۷۵;_كى موت، ۱۶/ ۲۸، ۳۲; اس كا تعدد ، ۱۶/ ۲۸، ۳۲; ابراہيمعليه‌السلام ، كے_، ۱۵/ ۵۳; _وحى ، ۱۶/ ۲، ۱۰۲; _اور عصيان، ۱۶/ ۴۹; _ اور لوطعليه‌السلام ، ۱۵/۵۳; _اور متقين، ۱۶/ ۳۲; _كا نزول ۱۵/ ۸; اس كے شرائط،۱۵/ ۸; اس كا فلسفہ، ۱۶/۲; _كا نقش، ۱۵/ ۵۷، ۵۹، ۶۰،۱۶/ ۲، ۲۸، ۳۲;_كى خصوصيات ، ۱۶/ ۴۹، ۵۰نيزر_ك آدمعليه‌السلام ، ابراہيمعليه‌السلام ،ابليس، انسان، خدا كے برگزيدہ افراد، عقيدہ ، قوم لوطعليه‌السلام ، كفار مكہ اور لوطعليه‌السلام

منافع:دنياوي_ا ن كى بے وقعي، ۱۶/ ۱۱۷نيزر_ك انسان اور بدعتمنحرف افراد:۱۴/۱۵_كا دنياوى زياں ، ۱۴/ ۱۵; _جہنم ميں ، ۱۴/ ۱۶/ ۱۷; _كى ہلاكت، ۱۴/ ۱۶;

موجودات:_كا سہارا، ۱۶/ ۷۶; _كى فرمانبرداري، ۱۶/ ۴۸; _كى پيدائش، اس كے مراحل، ۱۶/ ۴۰; _كى تسخير، ۱۶/ ۱۳; _كا تغيّر، ۱۴/ ۱۹; _كے رنگ كا تنوع، ۱۶/ ۱۳; اس كے آثار۱۴/۱۳ ، اس كے فوائد ۱۶/۱۳; _ كا حاكم ۱۶/۵۲; _ كى حيات اس كے عوامل، ۱۶/ ۶۵;_كا خالق، ۱۴/ ۱۹، ۱۶/ ۸، ۱۷; اس كى بے نظيرى ، ۱۶/ ۱۷; _كے خزانے ،۱۵/ ۲۱; اس كا مقام، ۱۵/ ۲۱; _كا خضوع، ۱۶/ ۴۸; _كى خلقت، ۱۶/ ۷; اس كى تدريجي، خلقت، ۱۶/ ۴۰; اس كا قانونى ہونا، ۱۵/ ۲۱; _كى روزي، ۱۵/ ۲۰; _كا سجدہ ، ۱۶/ ۴۸; _كى طول عمر، ۱۵/۳۷; _سے عبرت، ۱۶/ ۱۷; _ كا عجز،۱۵/ ۸۴، ۱۶/ ۷۴،۷۵، ۷۶; _كاانجام، ۱۵/ ۲۳; _كے فوائد، ان كا مطالعہ، ۱۶/ ۸۱; _كا خدا كے ساتھ قياس، ۱۶/ ۷۵، ۷۶; _كامالك، ۱۶/ ۵۲; _كى مالكيت، اس كا زوال، ۱۵/ ۲۳; _كى محدوديت، ۱۵/ ۲۱; _كى مدح ، ۱۴/ ۳۹; باشعور_، ۱۵/ ۲۰; بے

۷۵۵

سايہ_، ۱۶/ ۸۱; ان كى خلقت، ۱۶/ ۴۸، ۸۱; _كى فضائ، ۱۵، ۸۵; مادي_، ۱۶/ ۴۸; اس كے مطالعہ كے آثار، ۱۶/ ۴۸; ان كى ضروريات كى فراہمي، ۱۶/ ۷; _كانقص، ۱۶/ ۷۵; _ كى نيازمندي، اس كا واضح ہونا، ۱۴/ ۱۰; _كى معنوى ضروريات، ان كى فراہمي، ۱۶/ ۷; _كا وارث، ۱۵/ ۲۳نيز ر_ك آسمان ، خلقت، بصيرت، ذكر، زمين، قياس اور قرآنى مثاليں

موحدين:۱۴/ ۴۱، ۱۶،۱۲۰، ۱۲۳_كى استقامت ، ۱۶/ ۵۴; _كى دشمن، ۱۶/ ۲۷; _كى معنوى ضروريات، ۱۴/ ۳۵

نيز ر_ك مشركين

مصلحت:اخروي_، اس كا سبب، ۱۶/ ۱۲۳

ميلانات:اقدار كى طرف ميلان، ۱۶/ ۹۵; زيبائي كى طرف ميلان، ۱۵/ ۳۹، ۱۶/ ۶، ۱۴ ، ۶۳; زيور آلات كى طرف ميلان، ۱۶/ ۱۴; سبيل اللہ كى طرف ميلان ، اس كا پيش خيمہ ،۱۶/۱۲۵; عقيدہ حق كى طرف ميلان، ۱۴/۲۶;كفر كى طرف ميلان، ۱۶/ ۱۰۶; اس كا پيش خيمہ، ۱۶/ ۱۰۷; اس كے موانع، ۱۶/ ۱۰۷ نيزر_ك انسان اور مشركين

مادى وسائل:_كے آثار،۱۶/۱۱۳; _سے استفادہ ، ۱۴/۳۱، ۴۴ ، ۱۶/ ۸۱; _كے دلائل ، ۱۶/ ۱۱۷; _سے لا پرواہي، ۱۵/۸۸; _كى جذابيت، ۱۵/۸۸;_ كا فلسفہ ، ۱۶/۸۱;_كا فانى ہونا ، ۱۶/ ۱۱۷; _كا مالك، ۱۵/۸۸; _كا سرچشمہ ، ۱۴/۳۱; ۱۵/۸۸; _كى نا پيدار ى ۱۶/۹۶نيز ر_ك كفار، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مشركين

موسيعليه‌السلام :_كے اہداف، ۱۴/ ۵; _كے تذكرات، ۱۴/ ۹; _كے تقاضے، ۱۴/ ۶،۷; _كى رسالت، ۱۴/ ۸; ان كى پہلى رسالت، ۱۴/ ۶; اس كا دائرہ كار ، ۱۴/ ۷ ; _كى مذمتيں ، ۱۴/۹; _كاقصہ، ۱۴/ ۵;اس سے عبرت، ۱۴/ ۶; _كى ذمہ داري، ۱۴/ ۵; اہم ترين ذمہ داري، ۱۴/ ۹۵; _كا معجزہ، ۱۴/ ۵; اس كا تعدد ، ۱۴/ ۵; _كے مقامات، ۱۴/ ۵; _اور بنى اسرائيل ، ۱۴/ ۶;_كى نبوت، ۱۴/ ۵; _كا نقش، ۱۴/ ۵; _ كے نواہي، ۱۴/ ۸; _كا كا ر ہدايت ۱۴/ ۵نيز ر_ك تذكر، ذكر اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلعم

موعظہ:_سے استفادہ، ۱۶/ ۱۲۵; _كى تاثير، اس كے موانع، ۱۵/ ۷۲; _ميں روش شناسي، ۱۶/ ۱۲۵; _كے شرائط، ۱۶/ ۱۲۵; _كا نقش، ۱۶/ ۹۰نيز ر_ك تبليغ، دعوت اور ضروريات

كا ميابي:ر_ك محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

مہاجرين:_كا اخلاص، اس كے آثار، ۱۶/ ۴۱; _كى امداد، ۱۶/ ۱۱۰; _كو بشارت، ۱۶/ ۱۱۰; _كى اخروى پاداش، ۱۶/ ۴۱;ان كى دنياوى پاداش، ۱۶/ ۴۱;

۷۵۶

_كا توكل، ۱۶/ ۴۲; _كى جہالت، ۱۶/ ۴۱; _كى دينداري، ۱۶/ ۱۱۰; _كى اخروى سعادت، اس كے عوامل، ۱۶/ ۴۲; _كى دنياوى سعادت، اس كے عوامل، ۱۶/ ۴۲; _كا صبر ، ۱۶/ ۴۲; _كے فضائل ۱۶/ ۴۲، ۱۱۰; _كى مدح ، ۱۶/ ۱۱۰; _كے اخروى مقامات، ۱۶/ ۴۱; صابر ، ۱۶/ ۱۱۰

مہرباني:ر_ك خد

مہمان:_كا احترام، ۱۵/ ۶۸; اس كى اہميت، ۱۵/ ۶۸، ۶۹;_كى توہين، اس كے آثار، ۱۵/ ۶۸،۶۹;اس كى مذمت، ۱۵/ ۶۸،۶۹;_كا دفاع، ۱۵/ ۷۱; اس كى اہميت، ۱۵/ ۶۸، ۶۹نيزر_ك قوم لوطعليه‌السلام اور مہمان نوازي

مہمان نوازي:_كے آداب ، ۱۵/ ۶۸نيز ر_ك ابراہيمعليه‌السلام ، لوطعليه‌السلام اور مہمان

ميانہ روي:ر_ك اعتدال

ميثاق:ر_ك عہد

ميزبان:_كى اہانت، ۱۵/ ۶۸،۶۹: _كى ذمہ داري، ۱۵/ ۶۹

''ن''

نا امن:_كى بلائ، ۱۶/ ۱۱۲; معاشرتي_، اس كا پيش خيمہ، ۱۶/ ۱۱۲; اس كے عوامل، ۱۶/ ۱۱۲، ۱۱۳نيز ر_ك امن اور مكہ

نااميدي: ر_ك نااميدي

نادان افراد: ر_ك جہالت

ناشكري:ر_ك كفران

نجات:غير خدا كى طرف_ بخشى كى نسبت دينے كى سزا، ۱۶/ ۵۶نيزر_ك ابليس، امتحان، بنى اسرائيل، جہنم، ظالم افراد، ظلم، ظلمت، عذاب، فراعنہ، قرآن، كفر گمراہى ،لوطعليه‌السلام ، مسلمان افراد اور نعمت

نبوت:_كے شرائط، ۱۶/ ۳۸، ۴۳; _كا مقام، ۱۴/ ۱۱; _كا سرچشمہ، ۱۴ /۱۱; بشر كى _، ۱۴/ ۱۰، ۱۱; اس كى تكذيب كرنے والے،۱۶/ ۳۸نيزر_ك انبياء، محمد صلعم، موسيعليه‌السلام او رنعمت

نخل:۱۴/ ۲۴_كا اگانے والا ، ۱۶/ ۱۱; _كا اگنا، ۱۶/ ۱۱;_سے عبرت ، ۱۶ /۶۷; _كے فوائد، ۱۶ /۶۷ نيزر_ك خرم

۷۵۷

نسخ:ر_ك قرآن

نااميدي:_كے موانع، ۱۵/ ۵۶; رحمت خدا سے _، ۱۵/ ۵۶; اس كى مذمت، ۱۵/ ۵۵، ۵۶; اس كى ممنوعيت، ۱۵/ ۳۷; طبيعى عوامل سے _، ۱۴/ ۳۹; لطف خدا سے _ اس كى مذمت، ۱۵/۵۵نيزر_ك ابراہيمعليه‌السلام ، گذشتہ اقوام، انبياء، بچہ دارى اور گمراہ افراد

نفسيات شناسي:تربيتي_، ۱۵/ ۹۸، ۱۶/ ۳۲نيز ر_ك اس كا انگيزہ

نہريں :_وں كى تسخير، ۱۴/ ۳۲

نفسياتى حالات:_كے آثار، ۱۶/ ۵۸

نظريہ كا ئنات :توحيدى _، ۱۵/ ۲۳، ۸۶، ۱۶/۱، ۲۲، ۵۱،۵۲،۷۳

نصيحت:ر_ك عبرت

نباتات:_سے استفادہ،۱۶/۱۰، ۱۱; _كا ثمر آور ہونا، اس كے عوامل ، ۱۵/ ۲۲; _كے عناصر كا تناسب، ۱۵/ ۱۹; _كا رنگ ، اس كے تنوع كے آثار ، ۱۶/ ۶۹; _كا گناہ ، ۱۵/ ۱۹، ۲۱،۱۶/ ۱۱; اس كا آيات خدا ميں سے ہونا، ۱۶/ ۱۱; اس كے عوامل، ۱۴/ ۳۲، ۱۶/ ۱۰،۱۱; اس كا فلسفہ، ۱۴/ ۳۲،۱۶/۱۱; _كا قانونى ہونا، ۱۵/ ۱۹;_كا نقش ، ۱۴/۳۲; _كى زوجيت، ۱۵/۲۲; _كے فوائد، ۱۶/ ۱۰نيزر_ك نعمت

نسل :_وں كى بقاء ،اس كى اہميت، ۱۶ /۶۱; اس كا طريقہ ، ۱۶ /۷۲;_وں كى جايگزينى ، اس كى سہولت ، ۱۴/ ۲۰

نيز ر_ك آدمعليه‌السلام ، ابراہيمعليه‌السلام ، خدا كى سنتيں ، علائق ، قوم لوطعليه‌السلام ، مشركين اور لغت

نصيحت :ر_ك موعظہ

نطفہ:ر_ك انسان

نظام جزائي:۱۴/ ۵۱، ۱۶/۱۱۱نيزر_ك قيامت

نظام عليت:۱۴/ ۱۰، ۳۲، ۱۶/ ۵۴

نظام كيفري:ر_ك سز

نظام شمسي:_كى حركت، اس كا مطالعہ، ۱۶/ ۴۸

نعمت:_كا اتمام ، ۱۶ /۸۱; _كا اضافہ، اس كے عوامل ، ۱۴/ ۷، ۱۶/ ۱۲۲; اس كا پيش خيمہ، ۱۴/ ۷; اس كے اسباب،

۷۵۸

۱۴/ ۷; _سے استفادہ ، ۱۶/ ۷; اس سے صحيح استفادہ، ۱۶/ ۱۱۴ ، اس كى كيفيت، ۱۶/ ۶۹; اس كى محدويت، ۱۶/ ۸۰; _كى بقاء ، اس كے عوامل، ۱۶/۱۲۲; _كا پيش خيمہ، ۱۶/ ۳۱،۱۲۲; _كا سلب، اس كے عوامل، ۱۴/۷، ۱۶/۱۲۲; _كے مراتب، ۱۴/ ۷، ۱۱، ۱۵/ ۸۷; _كے شامل حال افراد، ۱۴/ ۱۱، ۳۴، ۱۶/ ۱۲۲; ان كاانذار، ۱۶/ ۱۲۲; ان كا تفاوت، ۱۴/ ۱۱، ان كى تواضع، ۱۴/ ۱۱; _كا سرچشمہ، ۱۶/ ۵۳;_كے اسباب، ۱۶/۱۲۲; اہم ترين_، ۱۶/ ۷۸; آرام ، سكون كي_، ۱۶/ ۸۰; اجتماعى سكون كى نعمت، ۱۶۰/ ۱۱۲; آزادي، ۱۶/ ۷۱; ائمہعليه‌السلام كي_ ، ۱۶/ ۱۱۳; استقلال كى _۱۶/ ۷۱; معاشرتى امن كى ،۱۶/ ۱۱۲;انبياء كي_،۱۶ / ۱۱۳; كار انفاق، كى _، ۱۶/ ۷۵; عظيم_، ۱۴/۱۱; بقاء نسل كي_، ۱۶/۷۲; بصارت كي_، ۱۶/ ۷۸; حيوانات كى پشم كى _، ۱۶/ ۸۰; اونٹ كى كھال كى _ ، ۱۶/۸۰; گائے كى كھال_ ۱۶/ ۸۰; گوسفند كى كھال _، ۱۶/ ۸۰; نہروں كى تسخير كى _، ۱۴/ ۳۲; چوپاووں كى _، ۱۶/ ۵; رشتہ داروں كي_، ۱۶/ ۷۲ ; راستوں كي_، ۱۶/۱۵; اقتصادى ترقى كي_، ۱۶/ ۱۱۲; رفع سختى كى _، ۱۶/ ۵۵; انسانوں كى زوجيت كي_، ۱۶/ ۷۲; سايہ كى _، ۱۶/ ۸۱; شكرگزارى كى _، ۱۴/۷; سماعت كى _، ۱۶/ ۷۸ ; پاكيزہ طعام كي_، ۱۶/ ۷۲; طيبات كى _، ۶/۱ ۷۲، ۱۱۴; فرزند كى _۱۴/ ۳۹، ۱۶/ ۷۲;عالم فرزند كي_، ۱۵/ ۵۳; قرآن كي_، ۱۵/ ۷۸; قلب كي_، ۱۵/ ۷۸; ادار كى قوہ كي_، ۱۶ /۷۸; حيوانات كے بال كى _، ۱۶/ ۸۰; كشتى رانى كي_، ۱۶/ ۱۴; پہاڑوں كي_، ۱۶/ ۱۵، ۸۱; نباتات كي_، ۱۴/ ۳۲ ; لباس كي_، ۱۶/ ۸۱; حيوانات كے بالوں كي_، ۱۶/ ۸۰; پھلوں كي_، ۱۴/ ۳۲; نبوت كي_، ۱۴/ ۱۱، ۱۶/ ۳۶; ظالمين سے نجات كى _، ۱۴/ ۶،۷، نواسہ كي_، ۱۶/ ۷۲;نہروں كي_، ۱۶/ ۱۵ ; عظيميں ،۱۴/ ۷، ۱۵/ ۷۸; سمندري_يں ۱۶/ ۱۱۴ ; ان سے استفادہ، ۱۶/ ۱۴; ہمسر كي_، ۱۶/ ۷۲; نقصان كي_، اس كے عوامل، ۱۴/ ۷نيزر_ك ابراہيمعليه‌السلام ، انبياء، انذار، بہشت، ذكر ، زندگي، شكر كرنے و الے ، كفران، مشركين اور مكہ

نفخ صور:ر_ك قيامت

نفرين:ر_ك گذشتہ اقوام اور انبياء

نقض پيمان: ر_ك عہد شكني

نماز:_كے آثار، ۱۵/ ۹۸; _كے اركان، ۱۵/ ۹۸; _كى اہميت، ۱۴/ ۳۱، ۳۷،۴۰، ۱۵، ۹۷; _برپا كرنا ، اس كى قدرو قيمت، ۱۴/ ۴۰; اس كى اہميت، ۱۴/ ۳۱ ۳۷، ۴۰;اس كى توفيق كى درخواست، ۱۴ /۴۰;_كى تاريخ، ۱۴/ ۳۷; _كى تشريع، ۱۴/ ۳۱;

۷۵۹

مكہ ميں اس كى تشريع، ۱۴/ ۳۱; _ميں خضوع، اس كى اہميت، ۱۵/ ۹۸; _ميں سجدہ، اس كى اہميت، ۱۵/۹۸; ابرہيمعليه‌السلام كے زمانہ ميں _، ۱۴ / ۳۷نيزر _ك ابراہيمعليه‌السلام ، استمداد كعبہ اور ضروريات

نوحعليه‌السلام :_كى دليليں ۱۴/۹

نور:_كے موارد، ۱۴/۱نيزر_ك سبيل اللہ

نو مولود:_كا ادارك ، ۱۶/ ۷۸; _كى بينائي، ۱۶/ ۷۸; _كا سننا، ۱۵/ ۷۸; _كا قلب، ۱۶/ ۷۸

نواسہ:_كى امداد، ۱۶/ ۷۲نيزر_ك نعمت

نويد:ر_ك بشارت

نہريں :_وں سے استفادہ، ۱۴/ ۳۲، ۱۶/ ۱۵; _وں كى اہميت، ۱۴/ ۳۲; _وں كى تسخير،۱۴/ ۳۲; _وں كى خلقت، اس كا فلسفہ، ۱۶/ ۱۵; _وں كے فوائد، ۱۴/ ۳۲، ۳۳; _كا نقش، ۱۴/۳۳نيزر_ك بہشت اور نعمت

نہضت اسلامي:۱۵/ ۸۵نيزر_ك انبياء

نيت:_كے آثار، ۱۶/ ۴۱; _كا علم ، ۱۴/ ۳۸; _كى نشانياں ، ۱۶/ ۱۱۹نيز ر_ك خداوند اور قوم لوطعليه‌السلام

''و''

واجبات:۱۵/ ۹۴، ۱۶/ ۹۱_مالي،۱۴،۳۱نيزر_ك تقليد، دين اور عہد

وجدان:_كا نقش، ۱۶/ ۱۷

وحدت:ر_ك اتحاد

وحي:_كى قدر وقيمت، اس كى شناخت كا پيش خيمہ، ۱۶/ ۳۰; _كے بارے ميں اظہار نظر ، ۱۶/۳۰; _كى وضاحت، ۱۶/۱۰۲; _كى تكذيب، ۱۶/ ۳۳;_كا خير ہونا، ۱۶/ ۳۰; _كى دريافت، اس كا سبب، ۱۶/۲; _كى حفاظت، ۱۵/ ۱۸; _كا نزول اس كے شرائط، ۱۵/ ۷;_كا نقش، ۱۴/ ۹، ۱۵/ ۸۹، ۱۶/ ۲، ۷۴،۷۷، ۱۱۸، ۱۲۳; بشر كى طرف _، ۱۵/ ۷،

۷۶۰

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779