تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 6%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 247285 / ڈاؤنلوڈ: 3404
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۰

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

آیت ۴۴

( تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلاَّ يُسَبِّحُ بِحَمْدَهِ وَلَـكِن لاَّ تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ إِنَّهُ كَانَ حَلِيماً غَفُوراً )

ساتوں آسمان اور زمين اور جو كچھ ان كے درميان ہے سب اسكى تسبيح كر رہے ہيں اور كوئي شے ايسى نہيں ہے جو اس كى تسبيح نہ كرتى ہو يہ اور بات ہے كہ تم ان كى تسبيح كو نہيں سمجھتے ہو_ پروردگار بہت برداشت كرنے والا اور درگذر كرنے والا ہے (۴۴)

۱_ساتوں آسمان، زمين اور ان ميں رہنے والے ہميشہ الله كى تسبيح وتقديس ميں مشغول ہيں _

تسبّح له السموات السبع والإرض و من فيهنّ

۲_تمام آسمان، زمين اور ان ميں پائے جانے والے تمام موجودات بذات خود خالق كے كمال اور اس كے شريك اور ہر قسم كى كمى وكاستى سے منزّہ ہونے پر واضح دليل ہيں _تسبّح له السموات السبع والأرض و من فيهنّ

تسبّح كا لغت ميں معنى تنزيہ ہے _ (مفردات راغب) ''تنزيہ'' يعنى الله تعالى كو ان چيزوں سے دور سمجھنا كہ جس كے وہ لائق نہيں ہے _ (مجمع البحرين) كہ

كلام كى صورت ميں تنزيہ: حالت كى صورت ميں تنزيہ:مندرجہ بالا نكتہ ميں دوسرى صورت مراد ہے_

۳_تمام آسمان، زمين اور ان ميں پائے جانے والے تمام موجودات ہميشہ الله تعالى كى عبادت ميں مشغول ہيں _

تسبّح له السموات السبع والأرض و من فيهنّ

تسبح در حقيقت لغت ميں ''المرّ السريع فى عبادة الله '' ہے_

۴_ آسمانوں ميں باشعور موجودات كا ہونا_تسبح له السموات ومن فيهنّ ''ما '' جو كہ تمام موجودات كے ليے استعمال ہوتا ہے اس كى جگہ جملہ ''من'' كا استعمال جو كہ عام طور سے صاحبان عقل كے ليے استعمال ہوتا ہے مندرجہ بالا نكتہ پر دلالت كر رہا ہے _

۵_ كائنات ميں سات آسمانوں كا وجود _تسبح له السموات السبع

۶_ مادہ ميں شعور اور مخصوص كلام كا پاياجانا_تسبّح له السموات السبع والأرض و من فيهنّ وإن من شي إلّا يسبّح بحمده چونكہ تسبيح سے مراد اگر زبان وكلام سے تسبيح ليں تو مندرجہ بالا نكتہ سامنے آئے گا _

۱۲۱

۷_كائنات كے موجودات بغير كسى استثناء كے خدائے واحد كى حمد كے ساتھ اس كى تسبيح ميں مشغول ہيں _

وإن من شي إلّا يسبّح بحمده

چونكہ يہاں ''بحمدہ'' ميں باء مصاحبت كے لئے ہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ موجودات تسبيح كے ساتھ ساتھ الله كى حمد ميں بھى مشغول ہيں _

۸_كائنات كے تمام موجودات كا وجود، بذات خود اپنے خالق كى حمدوثناء ہے _وإن من شي إلّا يسبّح بحمده

موجودات الله تعالى كى زبان حال كے ساتھ تسبيح كر رہے ہيں _ يعنى اپنے وجود كے ساتھ ثناء خواں ہيں _باالفاظ ديگر موجودات كى طرف تسبيح كا مضاف ہونا مجازى ہے نہ حقيقى _

۹_موجودات الله تعالى كى حمد وشكر كے ساتھ تسبيح كرتے ہيں _يسبّح بحمده

اگر قائل ہوں كہ موجودات كى طرف تسبيح كى نسبت حقيقى ہے اور بحمدہ ميں باء يہاں استعانت كے لئے ہے _تو مندرجہ بالا نكتہ سمجھ ميں آجائے گا_

۱۰_تمام موجودات الله تعالى كى ہر قسم كے شريك اورنقص سے تنزيہ كے ساتھ ساتھ اس كے لئے تمام تر كمالات كے اثبات پر دليل ہيں _يسبح بحمده

''بحمدہ'' ميں باء اگر مصاحبت كے لئے ہو تو يہ تنزيہ كے ساتھ ساتھ اس كى حمد پر دليل ہے چونكہ كمال اور فضيلت كى بناء پرحمد ہوتى ہے _ لہذا موجودات اپنى حمد وثناء كے ساتھ اس كى كمال وفضيلت كا اعتراف كرتے ہيں _

۱۱_تمام مخلوقات موجودات كى الله تعالى كے لئے حمد وتسبيح ہوتے ہوئے اس كى طرف شريك يا نقص كى نسبت دينا ايك ناروا اور غير منطقى كام ہے_ا فأصفكم ربّكم بالبنين تسبّح له السموات السبع والأرض

''ا فأصفاكم ربّكم بالبنين واتّخذ من الملائكة إناثاً'' كے بعد''تسبّح له السموات السبع والأرض '' كا ذكر سے يہ مراد ہے كہ جب تمام موجودات الله تعالى كى تسبيح كررہے ہيں تو اس كے لئے شريك قرار دينا ايك غير مناسب كا م ہے_

۱۲_تمام موجودات كى الله تعالى كے لئے تسبيح كو انسان گہرائي سے درك كرنے اور كامل طور پر سمجھنے سے عاجز ہے_

ولكن لا تفقهون تسبيحهم

چونكہ آيت كے ظاہر سے معلوم ہورہاہے كہ يہاں انسانوں كو خطاب كيا جارہا ہے_ لہذا مندرجہ بالا نكتہ سامنے آتا ہے_

۱۲۲

۱۳_مشركين ،موجودات كى الله تعالى كے لئے حمد اور تسبيح كو درك نہيں كرسكتے _ولكن لاتفقهون تسبيحهم

مندرجہ بالا مطلب اس سے سمجھ آتا ہے كہ يہ آيت اسى پيغمبر (ص) كے فرمان كا تسلسل ہو كہ جسميں كيا گيا كہ ان مشركين كو كہہ دو

۱۴_الله تعالى ہميشہ حليم (بردبار) اور غفور (بخشنے والا) ہے _إنه كان حليماً غفورا

جملہ اسميہ حرف تاكيد انَّ كے ساتھ ہميشگى اور ثبات پر دلالت كرتا ہے_

۱۵_مشركين كى الله تعالى كے حوالے سے غلط اور گرى ہوئي باتوں كا تحمل ،اللہ تعالى كى بردبارى اوربخشش كى بناء پر ہے_

إنكم لتقولون قولاً عظيماً سبحنه وتعلى عمّا يقولون علوّا كبيراً إنه كان حليماً غفورا

مشركين كى الله تعالى كے بارے ميں غلط باتوں كے بعد ''إنہ كان حليماً غفوراً'' كا ذكر يہ مطلب دے رہا ہے كہ ان باتوں پر رد ّ عمل دكھانے چايئےھا اور انہيں سزا دينى چاہئے تھى ليكن چونكہ الله تعالى حكيم وغفور ہے ' لہذا انہيں تحمل كر رہا ہے_

۱۶_مشركين الله تعالى كے بارے ميں اپنى غلط باتوں اور عقائد كى وجہ سے الله تعالى كى تہديد كے زمرہ ميں آگئے_

إنكم لتقولون قولاً عظيماً تعلى عمّا يقولون إنه كان حليماً غفورا

''إنہ كان حليماً غفوراً ''كا ذكر بتا رہا ہے كہ اگر چہ مشركين كى غلط باتيں سزا كے لائق ہيں _ ليكن الله تعالى كے حلم وغفران كى وجہ سے فى الحال انہيں عذاب نہ ہوگا _

۱۷_الله تعالى كا مشركين كو شرك سے باز آنے كى صورت ميں بخشش كا وعدہ _تعالى عمّا يقولون إنه كان حليماً غفورا

آخر ميں ''غفوراً'' كا بصورت علت آنا مشركين كے لئے خوشخبرى ہے اگر چہ انكا گناہ بہت بڑا ہے اور انہوں نے الله تعالى كے بارے ميں انتہائي غلط باتيں كيں ھيں پھر بھى انكى بخشش كا امكان موجود ہے_

۱۸_الله تعالى كائنات كے حقائق مثلاً موجودات كى تسبيح وحمد كے بارے ميں فكر نہ كرنے كے گناہ كا بردبارانہ انداز سے جواب دے رہا ہے اور توبہ كى صورت ميں بخشش دے گا_لاتفقهون تسبيحهم إنه كان حليماً غفورا

''إنّہ كان حليماً غفوراً'' كى علت بيان كر رہى ہے كہ ''لاتفقہون تسبيحہم'' (انكى تسبيح كو نہيں سمجھتے ہو) گناہ تھا اور سزا كے لائق تھا_ ليكن چونكہ وہ حليم وغفورہے _ لہذا اس كا بردبارانہ انداز سے جواب دے رہا ہے_

۱۹_انسان موجودات كى الله تعالى كے لئے تسبيح وحمد جيسے كائنات كے حقائق سمجھنے كى كوشش كرنے كا ذمہ دار

۱۲۳

لا تفقهون تسبيحهم إنه كان حليماً غفورا مندرجہ بالا نكتہ كى بنياد يہ ہے كہ''انه كان حليماً غفوراً'' گويا مشركين كو موجودات كى تسبيح كے بارے ميں غور نہ كرنے پر خبردار كيا جارہا ہے تو معلوم ہوتا ہے كہ كائنات كے حقائق سمجھنے پر كوشش ضرورى ہے_

۲۰_قرآن كى انسان كى تربيت اور ہدايت ميں ''تہديد'' اور ''حوصلہ افزائي'' سے استفادہ كرنے كى روش _إنه كان حليماً غفورا ميں حوصلہ افزائي كا پہلو ہے _''حليماً'' اپنے دامن ميں تہديد لئے ہوئے جبكہ ''غفوراً''

۲۱_عن الباقر (ع) دخل عليه رجل فقال يقول الله فى كتابه ''وإن من شي إلّا يسبح بحمده ولكن لا تفقهون تسبيحهم'' فقال نعم أما سمعت خشب البيت كيف ينقض ؟ وذلك تسبيحه (۱)

امام باقر (ع) سے روايت ہوئي كہ ايك شخص ان كى خدمت ميں حاضر ہوا اور كہا كہ الله تعالى نے اپنى كتاب ميں فرمايا''وإن من شي إلّا يسبّح بحمده ولكن لا تفقهون تسبيحهم'' حضرت (ع) نے فرمايا :ہاں كيا گھر كى لكڑى كى ٹوٹنے كى آواز سنى ؟ يہ آواز وہى تسبيح تو ہے''_

۲۲_عن أبى الصباح عن أبى عبدالله (ع) قال: قلت له: قول الله ''وإن من شي إلّا يسبّح بحمده'' قال: كلّ شي يسبح بحمده وأنّا لنرى ا ن ينقض الجدر هو تسبيحها'' (۲)

ابى الصباح كہتے ہيں كہ امام صادق(ع) كى خدمت ميں عرض كيا : الله تعالى كے اس كلام''وإن من شي الاّ يسبّح بحمده'' سے كيا مراد ہے ؟ تو حضرت نے جواب ميں فرمايا : تمام موجودات شكر وثناء كے ساتھ الله تعالى كى تسبيح كرتے ہيں يہ ہم ديوار كے ٹوٹنے كو اس كى تسبيح كى شكل ميں ديكھتے ہيں _

آسمان :آسمان با شعور موجودات ۴

سات آسمانوں كى تسبيح :۱آسمانوں كى عبادت ۳;سات آسمان ۵; آسمانوں كا كردار ۲

آيات خد ا:آفاقى آيات ۲

اسماء و صفات:حليم ۱۴;غفور ۱/الله تعالى : الله تعالى كى تنزيہ ۱۰; الله تعالى پر تہمت ۱۵;اللہ تعالى كا حلم ۱۸; الله تعالى كى تنزيہ كے دلائل ۲ ;ا للہ تعالى كے كمال كے دلائل ۲;اللہ تعالى كا ڈرانا ۱۶; الله تعالى كا كمال ۱۰ ; الله تعالى كى بخشش كے نتائج

____________________

۱) تفسير عياشى ج ۲، ص ۲۹۴، ح ۸۴_ نورالثقلين ج ۳، ص۱۶۸، ح ۲۲۸_

۲) تفسير عياشى ج ۲، ص ۲۹۳، ح ۷۹_ نورالثقلين ج۳، ص۱۶۸، ح ۲۲۳، ۲۲۴_

۱۲۴

۱۵;الله تعالى كے حلم كے نتائج ۱۵;اللہ تعالى كے وعدے ۱۷/الله تعالى كى تسبيح كرنے والے : ۱

بخشش :بخشش كا وعدہ ۱۷//تربيت :تربيت ميں تہديد ۲۰;تربيت ميں حوصلہ افزائي ۲۰;تربيت كى روش ۲۰

تسبيح :الله تعالى كى تسبيح ۷، ۱۱، ۲۱، ۲۲;اللہ تعالى كى تسبيح ۹

توبہ:توبہ كے نتائج ۱۷، ۱۸

توحید :توحید كے دلائل ۲

تہديد:تہديد كے نتائج ۲۰/حقايق :حقايق كو درك كرنے كى اہميت ۱۹

حمد:الله تعالى كى حمد ۷، ۹، ۱۰، ۱۱، ۲۲

حوصلہ افزائي :حوصلہ افزائي كے نتائج ۲۰

روايت :۲۱ ، ۲۲

زمين :زمين كى تسبيح ۱;زمين كى عبادت ۳;زمين كا كردار ۲

شرك:شرك سے توبہ ۱۷;شرك كا ناپسنديدہ ہونا ۱۱

عبادت :الله تعالى كى عبادت ۳

عمل:ناپسنديدہ عمل ۱۱

غودوفكر :تخليق ميں غوروفكر ۱۸;غوروفكر نہ كرنے كا گناہ ۱۸

قرآن:قرآن كا ہدايت دينا ۲۰

مشركين :مشركين كا باطل عقيدہ ۱۶;مشركين كى تہمتيں ۱۵; مشركين كو ڈرانا ۱۶;مشركين كى بخشش كے شرائط ۱۷; مشركين كا عجز ۱۳

موجودات :موجودات كى تسبيح ۱، ۷، ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۸، ۲۱، ۲۲ ; موجودات كى حمد ۱۸;موجودات كى تسبيح كو سمجھنا ۱۵; موجودات كى حمدكوسمجھنا ۱۹; موجودات كا شعور ۶;موجودات كى عبادت ۲;موجودات كى تسبيح سمجھنے سے عاجزى ۱۲،۱۳; موجودات كا كردار ۲، ۸ ، ۱۰;موجودات كے كلام ۱۶; موجودات كے خالق كى مدح ۸

ہدايت:ہدايت كى روش ۲۰

۱۲۵

آیت ۴۵

( وَإِذَا قَرَأْتَ القرآن جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِالآخِرَةِ حِجَاباً مَّسْتُوراً )

اور جب تم قرآن پڑھتے ہو تو ہم تمھارے اور آخرت پر ايمان نہ ركھنے والوں كے درميان حجاب قائم كرديتے ہيں (۴۵)

۱_الله تعالى پيغمبر (ص) كے قرآن پڑھنے كے دوران انكے اور كفار كے درميان ناديدہ پردہ قرار ديتا ہے_

وإذا قرا ت القرآن حجاباً مستورا مندرجہ بالا مطلب معنى ''مستور'' پر مبنى ہے كہ جو مفعول كا صيغہ ہے يعنى پوشيدہ ہے _ اس آيت ميں مراد كفار كے حواس سے پوشيدہ ہونا ہے_

۲_پيغمبر اسلام (ص) كے وظائف ميں سے لوگوں پر قرآن كى قرائت ،ر وحى كى تلاوت كرنا ہے_وإذا قرا ت القرآن

يہ كہ الله تعالى نے پيغمبر اسلام (ص) كى حفاظت كى رعايت كرتے ہوئے تلاوت قرآن كے وقت ان كے اور كفار كے درميان ناديدہ پردہ قرار ديا ہے _ ممكن ہے اس لئے ہو كہ آپ (ص) پر ذمہ دارى تھى كہ لوگوں پر قرآن كى تلاوت كريں چونكہ قرائت كے وقت وہ آپ كو اذيت و تكليف پہنچاتے تھے_ لہذا الله تعالى نے پردہ قرار دينے سے ان كى اس اذيت سے حفاظت فرمائي _

۳_لوگوں كے درميان پيغمبر اسلام (ص) كے ذريعے تلاوت قرآن كريم_وإذا قرا ت القرآن حجاباً مستورا

۴_كفار، رسول اكرم (ص) كو كہ جب وہ لوگوں پر قرآن كى تلاوت كر رہے ہوتے تكليف واذيت پہنچاتے اور ان كے لئے مشكلات پيدا كرتے _وإذا قرا ت القرآن

جو شان نزول وارد ہوا ہے( مجمع البيان اسى آيت كے ذيل ميں ) اس كے مطابق اور اس آيت ''جعلنا بينك وبين الذين ...'' كا ظاہر بھى بتا رہا ہے كہ پردہ قرار دينے كى غرض يہى تھى كہ كفار اسے نہ سنيں تاكہ وہ پيغمبر اسلام (ص) كو اذيت كرنے اور انكے لئے مشكلات پيدا كرنے كا باعث نہ بنيں _

۵_آخرت كے منكرين ،وحى كے پيغامات كو درك كرنے سے محروم ہيں _

وإذا قرا ت القرآن جعلنا بينك وبين الذين لا يؤمنون بالا خرة حجاباً مستورا

يہ احتمال بھى ہے كہ پيغمبر اسلام (ص) اور كفار كے درميان حجاب قرار دينے سے مراد يہ ہو كہ وہ آخرت پر ايمان نہ لانے كے نتيجہ ميں آيات قرآن كے فہم ودرك سے محروم ہوگئے تھے_

۱۲۶

۶_معنوى حقايق اور الہى پيغامات آخرت كے انكار كى صورت ميں درك كرنا ممكن نہيں ہے _

وجعلنا بينك وبين الذين لا يؤمنون بالا خرة حجاباً مستوار

''الذين'' كے لئے ''لايومنون'' كى صفت كا ذكر كرنا يہ معنى دے رہا ہے كہ وہ قرآنى آيات كى فہم و درك كى لياقت نہيں ركھتے تھے_

۷_دينى عقائد ميں آخرت پر ايمان كا ايك اہم اور بنيادى مقام ہے_

وإذا قرا ت القرآن جعلنا بينك وبين الذين لا يؤمنون بالا خرة حجاباً مستورا

تمام عقائد ميں سے مشركين كے لئے ''لا يؤمنون بالاخرة'' كے ذكر كو مخصوص كرنا مندرجہ بالا نكتہ كو بيان كر رہا ہے_

۸_كفار كى آنكھوں پر پردہ گرنا اور انكا وحى كو سننے اور درك كرنے سے محروم ہونا ان كے آخرت پر ايمان نہ ركھنے كے عزم كا نتيجہ ہے_بين الذين لا يؤمنون بالا خرة حجاباً مستورا ''الذين لا يؤمنون بالا خرة'' كى تعبير كا جملہ و صفيہ كى صورت ميں اور كافرين كى جگہ فعل مضارع كا آنا ممكن ہے يہى معنى بيان كر رہا ہو كہ الله تعالى كى طرف سے حجاب اسى خصلت كى بناء پر آيا ہے_

۹_حق وحقيقت كى شناخت ناديدہ ركاوٹوں كا شكار ہے_وإذا قرا ت القرآن حجاباً مستورا

''حجاباً'' يہاں شناخت كے لئے ركاوٹ كوبيان كر رہا ہے اور ''مستوراً'' اس ركاوٹ كے ناديدہ ہونے كو بيان كر رہا ہے_

۱۰_الله تعالى نے پيغمبر اسلام (ص) كو وحى پہنچاتے وقت اپنى غيبى امداد سے نوازا ہے_

وإذا قرا ت القرآن جعلنا بينك ...حجاباً مستورا

۱۱_دخل هشام بن السائب على ا بى عبدالله (ع) فقال: ...ا خبرنى عن قول الله :''وإذا قرا ت القرآن جعلنا بينك وبين الذين لا يؤمنون بالا خرة حجاباً مستوراً'' قال آية فى الكهف وآية فى النحل وآية فى الجاثية و هي: ''أفرا يت من اتخذ إلهه هواه وا ضلّه الله على علم وختم على سمعه وقلبه ...'' وفى النحل: ''أولئك الذين طبع الله على قلوبهم وسمعهم وأبصارهم وأولئك هم الغافلون'' وفى الكهف ''ومن أظلم ممن ذكر بآيات ربّه فأعرض عنها ونسى ما قدّمت يداه'' _(۱)

ہشام بن سائب امام صادق (ع) كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور عرض كى كہ مجھے اس كلام الہى : ''و

____________________

۱) عدّة الداعى ص ۲۷۶ _ بحارالانوار ج ۸۹، ص ۲۸۳، ح ۲_

۱۲۷

إذا قرا ت القرآن جعلنا بينك وبين الذين لا يؤمنون بالا خرة حجاباً مستوراً'' كے بارے ميں بتائيں ؟

آپ (ع) نے فرمايا: اس قرآن سے مراد كہ جسكے تلاوت كرنے سے پيغمبر اسلام (ص) كفار كى نگاہوں سے پوشيدہ ہوجاتے تھے_ وہ سورہ جاثيہ كى آيت :'' ا فرايت '' اور سورہ نحل كى آيت : ''اولئك الذين '' اور سورہ كہف : ''ومن أظلم ممّن ...'' ہے_

آخرت :آخرت كوجھٹلانے والوں كا محروم ہونا ۵;آخرت كو جھٹلانے كے نتائج ۶

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كو اذيت ۴;آنحضرت (ص) كى امداد ۱۰ ; آنحضرت (ص) كا قرآن كى تلاوت كرنا۱، ۲،۳، ۴;آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ۲، ۳;آنحضرت (ص) اور كفار كے درميان حجاب ۱، ۱۱;آنحضرت (ص) كو وحى ۱۰

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۴

الله تعالى :الله تعالى كے افعال۱;اللہ تعالى كے امداد۱۰

امداد :امداد غيبى ۱۰

حقائق :حقائق كو درك كرنے سے ركاوٹ ۶

دل :دل پر مہر لگنے كے اسباب ۸

دين :اصول دين ۷

روايت : ۱۱

شناخت :شناخت سے موانع ۹

عقيدہ :آخرت پر عقيدہ كى اہميت ۷

قرآن :قرآن كى فہم سے محروميت كے اسباب ۸;قرآن فہم سے محروم لوگ ۵;قرآن كى تلاوت كے نتائج ۱

كفار:كفار كا اذيت كرنا ۴;كفار كى محروميت كے اسباب ۸;كفار پرقرآن كى تلاوت ۱;كافركا اندھا ہونا ۸

كفر:آخرت پر كفر كے نتائج ۸

لوگ :لوگوں پر قرآن كى تلاوت ۲، ۳

۱۲۸

آیت ۴۶

( وَجَعَلْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَن يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْراً وَإِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِي القرآن وَحْدَهُ وَلَّوْاْ عَلَى أَدْبَارِهِمْ نُفُوراً )

اور ان كے دلوں پر پردے ڈال ديتے ہيں كہ كچھ سمجھ نہ سكيں اور ان كے كانوں كو بہرہ بناديتے ہيں اور جب قرآن ميں اپنے پروردگار كاتنہا ذكر كرتے ہو تو يہ الٹے پاؤں متنفر ہوكر بھاگ جاتے ہيں (۴۶)

۱_جو لوگ مقام باطل پر ہونے كى وجہ سے آخرت پر ايمان نہيں ركھتے الله تعالى ان كے دلوں پر پردے قرار ديتا ہے كہ وہ قرآن كو نہ سمجھ سكيں _الذين لا يؤمنون بالا خرة وجعلنا على قلوبهم أكنّة أن يفقهوه

۲_مكہ كے مشركين دلوں پر پردے اور كانوں كے بھارى پن كى وجہ سے الله تعالى كى آيات كو صحيح طريقے سے درك كرنے سے محروم تھے _وجعلنا بينك وبين الذين لا يؤمنون بالا خرة حجاباً مستوراً وجعلنا على قلوبهم أكنّة أن يفقهوه وفى أذانهم وقرا

۳_كفار كا حق قبول نہ كرنا اور كفر اختيار كرنا موجب بنا كہ قرآن كے حقائق كو صحيح درك كرنے سے محروم ہو جائيں _

الذين لا يؤمنون بالا خرة وجعلنا على قلوبهم أكنّة أن يفقهوه وفى أذانهم وقرا

۴_انسان كا عزم وارادہ قرآنى حقائق كو درك كرنے يا درك نہ كرے اور انہيں قبول كرنے ميں واضح كردار ادا كرتا ہے_

الذين لا يؤمنون بالا خرة وجعلنا على قلوبهم أكنّة أن يفقهوه

''الذين لا يؤمنون'' ( وہ لوگ جو كہ ايمان نہيں لاتے ) كا جملہ ''الكافرين '' كى جگہ ان كے خيالات جاننے كے لئے ہوسكتا ہے انكے ارادہ وقصد كى سے حكايت كر رہاہو_

۵_سننے كى حس حقائق تك پہنچنے كا وسيلہ اور دل انہيں درك كرنے اور سمجھنے كا مركز ہے _

على قلوبهم أكنّة أن يفقهوه وفى أذانهم وقرا

۶_جب پيغمبر اسلام(ص) كى طرف سے قرآنى آيات كى بناء پر الله تعالى كى وحدانيت بيان ہوتى تو مشركين بہت زيادہ نفرت كے ساتھ آپ (ص) سے پيٹھ پھيرليتے_وإذا ذكرت ربّك فى القرآن وحده ولّوا على أدبارهم نفورا

۷_مكہ كے مشركين اپنے شرك آلودہ عقائد سے بہت زيادہ دل لگائے ہوئے تھے _

وأذا ذكرت ربّك ...ولّوا على أدبارهم نفورا

۸_مشركين كا توحيد سے فرار كرنا بذات خود انكا قرآنى آيات ميں تا مل اور دقت نہ كرنے كى مثال ہے_

وجعلنا على قلوبهم ا كنّة أن يفقهوه وإذا ذكرت ربّك فى القرآن وحده ولّوا على أدبارهم نفورا

۱۲۹

۹_پروردگاركى توحيد ربوبيت ،قرآنى تعليمات ميں سے ايك اہم ترين تعليم ہے اور مشركين اس كے حوالے سے شديد حساسيت ركھتے تھے _وإذا ذكرت ربّك فى القرآن وحده ولّوا على أدبارهم نفورا

الله تعالى كے تمام اسماء وصفات ميں سے ''رب'' كا ذكر ،توحيد كى قيد كے ساتھ دينى تعليمات ميں اس كى اہميت كو اجاگر كر رہا ہے جبكہ مشركين كا نفرت كے ساتھ اس سے پيٹھ پھيرنا اس كى اس حوالے سے شديد حساسيت كو بيان كر رہا ہے_

وإذا ذكرت ربّك فى القرآن وحده ولّوا على أدبارهم نفورا

۱۰_ كفار اور مشركين مكہ كا قرآن سے انكار كا رويہ عقل و منطق كى بنياد پر نہ تھا بلكہ خواہشات نفسانى كى وجہ سے تھا _

وإذا ذكرت رّبك فى القرآن وعده ولّوا على أدبارهم نفورا

چونكہ ''نفرت'' كا تعلق نفس وباطن كى جہات سے ہے _ لہذا قرآن سے كفار كا نفرت آميز رويّہ انكے نفسانى انگيزوں ميں سے تھا_

۱۱_عن زراره عن ا حدهما قال: ''فى بسم الله الرحمن الرحيم قال: وهى الا ية التى قال الله :''وإذا ذكرت ربّك فى القرآن وحده '' ...''ولوا على أدبارهم نفوراً'' كان المشركوں يستمعون إلى قراء ة النبى (ص) فإذا قرا بسم الله الرحمن الرحيم نفروا وذهبوا ..(۱)

زرارہ، امام باقر (ع) يا امام صادق (ع) سے روايت كرتے ہيں :بسم الله الرحمن الرحيم كے بارے ميں كہ انہوں نے فرمايا : يہ وہى آيت ہے كہ الله تعالى فرماتا ہے : ''وإذا ذكرت ربّك فى القرآن وحدہ'' مشركين پيغمبر اسلام (ص) سے قرآن كى قراء ت سنتے تھے اور جب آپ(ص) ''بسم الله الرحمن الرحےم'' كى قرائت كرتے تھے تو وہ ادھر اُدھر چلے جاتے تھے_

آخرت:جھٹلانے والوں كے دل پر مہر ۱

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) سے منہ پھيرنے والے ۶

آيات خدا :آيات خدا كو درك كرنے سے محروم لوگ ۲

ارادہ:ارادہ كى اہميت ۴;ارادہ كا كردار ۴

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۶

____________________

۱)تفسير عياشى ج ۲، ۲۹۵، ح ۸۶_نورالثقلين ج ۳، ص ۱۷۳، ح ۲۴۹ _

۱۳۰

باسم الله :باسم الله كى تلاوت كے اثرات ۱۱

توحید :توحید ربوبى كى اہميت ۹;توحید سے منہ پھيرنا ۸;توحید سے منہ پھيرنے والے ۶

چاہتيں :شرك سے چاہت ۷

حق:حق قبول نہ كرنے كے نتائج ۱، ۳

حقائق :حقائق كو درك كرنے كا مركز ۵

دل :دل كا كردار ۵

روايت : ۱۱

شناخت:شناخت كے ذرائع ۵

قرآن:قرآن كے فہم ميں مو ثر اسباب ۴;قرآن كے فہم سے محروميت كے اسباب ۳;قرآن كى اہم ترين تعليمات ۹;قرآن كو جھٹلانے والے ۱۰;قرآن ميں فكر نہ كرنے كے نتائج ۸

كفار:كفار كى محروميت كے اسباب ۳

كفار مكہ:كفار مكہ كا انگيزہ ۱۰;كفار مكہ كا بے منطق ہونا ۱۰;كفار مكہ كى نفس پرستى ۱۰

كفر:كفر كے نتائج ۳

كان :كان كے فوائد ۵

مشركين :مشركين اور توحيد ۶;مشركين اور پروردگار كى توحید ۹;مشركين كى دشمنى ۹;مشركين كا رويّہ۶;مشركين كے فكر نہ كرنے كى علامات ۸;مشركين كا منہ پھيرنا ۶ ، ۸

مشركين مكہ:مشركين مكہ كا انگيزہ ۱۰;مشركين مكہ كى چاہت۷;مشركين مكہ كى محروميت ۲; مشركين مكہ كے دل پر مھر كے نتائج ۲;مشركين مكہ كے كان كے بھارى ہونے كے نتائج ۲;مشركين مكہ كى نفس پرستى ۱۰

۱۳۱

آیت ۴۷

( نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَسْتَمِعُونَ بِهِ إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ وَإِذْ هُمْ نَجْوَى إِذْ يَقُولُ الظَّالِمُونَ إِن تَتَّبِعُونَ إِلاَّ رَجُلاً مَّسْحُوراً )

ہم خوب جانتے ہيں كہ يہ لوگ آپ كى طرف كان لگا كرسنتے ہيں تو كيا سنتے ہيں اور جب يہ باہم رازدارى كى باتيں كرتے ہيں تو ہم اسے بھى جانت ہيں يہ ظالم آپس ميں كہتے ہيں كہ تم لوگ ايك جادو زدہ انسان كى پيروى كر رہے ہو (۴۷)

۱_كفار كے پيغمبر اسلام (ص) كے كلمات كو سنتے وقت ان كے انگيزوں اور اہداف سے الله تعالى كا مكمل طور پر آگاہ ہونا _

نحن ا علم بما يستمعون به

''بما'' ميں ''بائ'' سببيت كے لئے ہے تو اس صورت ميں آيت كا معنى يوں ہوگا كہ ہم كفار كے ان انگيزوں اور اہداف كہ جنكى بناء پر وہ پيغمبر اسلام(ص) كى بات كو سنتے ہيں اس سے اچھى طرح واقف ہيں _

۲_الله تعالى ،كفار كى پيغمبر اسلام (ص) كے خلاف سرگوشيوں اور پوشيدہ باتوں سے آگاہ ہے_

نحن ا علم ...وإذ هم نجوى إذ يقول

۳_ كفار پيغمبر اكرم كى بات كو ناكام بنانے كے ليے كا نا پھوسى ار پوشيدہ باتيں كرتے تھے _نحن أعلم ...وإذا هم نجوى إذ يقول ''إذاهم نجوى '' اور''إذ يقول الظالمون'' جملہ''إذ يستمعون'' كا بدل ہے_ اس نكتہ كى طرف توجہ كرتے ہوئے آيت كا معنى يوں ہوگا كہ ہم كفار كى پيغمبر اسلام (ص) كى باتوں كو سننے كى غرض سے آگاہ ہيں كہ وہ غرض آپ(ص) پر جادوگرى كى تہمت لگانا ہے او رہم ان كى سرگوشيوں اور باتوں سے آگاہ ہيں _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ ان كى آنحضرت (ص) كى باتوں كو سننے كى غرض ہى آپ (ص) كو ناكام كرنا ہوتى تھي_

۴_اللہ تعالى نے كفار كے پيغمبر (ص) كى باتوں كو سننے ميں

۱۳۲

انگيزوں كو فاش كركے انہيں تنبيہ اور دھمكى _نحن ا علم ...وإذهم نجوى الله تعالى كا واضح كرنا كہ وہ كفار كى پيغمبر اسلام (ص) كى باتوں كو سننے كى غرض اور ان كى آپس ميں گفتگو سے مطلع ہے يہ ان كے لئے تنبيہ وخبردار ہے_

۵_كفار خفيہ انداز سے قرآن كى آيات كو سنتے اور ايك دوسرے كو اس كام پر ملامت كرتے تھے_نحن ا علم بما يستمعون ...وإذهم نجوى احتمال ہے كہ ''اذ ہم نجوى '' سے مراد وہى ہو كہ جس طرح بعض مقامات پر شان نزول بيان ہوا ہے كہ وہ كفار ہيں جو خفيہ طريقے سے آنحضرت (ص) كى باتوں كو سنتے تھے اور ايك دوسرے كو ديكھ كر سرگوشى كرتے پھر ايك دوسرے كى ملامت كرتے تھے_

۶_پيغمبر (ص) پر جادو ہونے كى تہمت لگانا كفار كے دلوں پر پردہ ہونے اور ان كا حقائق كو درك كرنے سے عاجز ہونے كى علامت ہے_وجعلنا فى قلوبهم ا كنّة ا ن يفقهوه وفى أذانهم وقراً و إذ يقول الظالمون إن تتبعون إلّا رجلاً مسحورا

۷_پيغمبر (ص) كى طرف جادو ہونے كى نسبت دينے والے ظالم لوگ تھے_إذ يقول الظالمون إن تتبعون إلّا رجلاً مسحورا

۸_كفار، حق سے گريزاں ، ظالم اور ستم گر لوگ تھے_الذين لا يؤمنون بالا خرة إذ يقول الظالمون

۹_كفار پيغمبر(ص) كے بارے ميں جادو ہونے كا اعلان كركے آپ (ص) كے پيروكاروں كو آپ (ص) كے بارے ميں گمراہ كرنا چاہتے تھے_إذ يقول الظالمون إن تتبعون إلّا رجلاً مسحور مندرجہ بالا مطلب اس نكتہ كى بناء پر ہے كہ اس آيت''إن تتبعون إلّا رجلاً مسحوراً'' كے مخاطب مؤمنين ہوں اور كفار ''مسحور'' كى تہمت كے ساتھ يعنى سحر كى وجہ سے طبيعى حالت سے خارج ہونے كے ذريعے چاہتے تھے كہ لوگوں كو آپ (ص) كے حوالے سے گمراہ كريں _

۱۰_كفار ہميشہ اپنے درميان آپ (ص) كے حوالے سے شك وشبہ ڈالتے رہتے تھے كہ اس طرح كوئي بھى آپ (ص) كى طرف مائل نہ ہوسكے_إذ يقول الظالمون إن تتبعون إلّا رجلاً مسحورا مندرجہ بالا مطلب كى بنياد يہ نكتہ ہے كہ فعل ''تتبعون'' كا مخاطف كفار ہيں كہ جو آپس ميں ايك دوسرے كو كہتے تھے اور فعل مضارع ''يقول'' كا آنا انكى ہميشہ كوشش بيان كررہاہے_

۱۱_تہمت لگانا اور شخصيت خراب كرنا كفار كى پيغمبر (ص) كے ساتھ اور ان كى تعليمات كے ساتھ مقابلہ كرنے كے طريقوں ميں سے تھا _إن تتّبعون إلّارجلاً مسحورا

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) پر تہمت ۱۱;آنحضرت (ص) پر جادو كى

۱۳۳

تہمت ۶، ۷، ۹;آنحضرت (ص) كے دشمن ۲، ۹، ۱۰;آنحضرت (ص) كے خلاف سازش ،آنحضرت (ص) كے بارے ميں گمراہ كرنے كى سازش ۹، ۱۰;آنحضرت (ص) پر تہمت كے ذريعے ظم ۷

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۳، ۹

الله تعالى :الله تعالى كا بے نقاب كرنا ۴;اللہ تعالى كى طرف سے خبردار كرنا ۴;اللہ تعالى كا علم غيب ۱ ، ۲

حقايق:حقايق كو درك كرنے سے افراد ۶

ظالم لوگ: ۷ ، ۸

كفار:كفار كا انگيزہ ۱;كفار كا انگيزہ بے نقاب ہونا ۴;كفار اور پيغمبر (ص) كى باتيں ۱، ۳، ۴; كفار كى تہمتيں ۹،۱۱;كفار كو خبردار كرنا ۴;كفار كى دشمنى ۹، ۱۰; كفار كے دل پر مہر لگنے كى نشانياں ۶;كفار كا سرگوشى كرنا ۲، ۳;كفار كى سازش ۵، ۹;كفار كا قرآن سننا ۵;كفار كا طريقہ مقابلہ ۱۱;كفار كے حق كوقبول نہ كرنے كا ظلم ۸;كفار كا عجز ۶; كفار كا عزت پامال كرنا ۱۱;كفار كا فضا ہموار كرنا ۹ ، ۱۰;كفار كى كوشش كا انداز ۱، ۳;كفار كى مذمت ۵ ;كفار كى مذمتيں ۵

آیت ۴۸

( انظُرْ كَيْفَ ضَرَبُواْ لَكَ الأَمْثَالَ فَضَلُّواْ فَلاَ يَسْتَطِيعْونَ سَبِيلاً )

ذرا ديكھو كہ انھوں نے تمھارے لئے كيسى مثاليں بيان كى ہيں اور اس طرح ايسے گمراہ ہوگئے ہيں كہ كوئي راستہ نہيں مل رہا ہے (۴۸)

۱_مشركين اور اپنے دشمنوں كے الزامات اور پروپيگنڈہ پر دقت سے غور وفكر كرنے كى پيغمبر (ص) پر الله تعالى كى طرف سے ذمہ دارى _انظر كيف ضربوا لك الأمثال جملہ''ضربوا لك الأمثال'' عربى زبان ميں ''شبھوك بالا شيائ'' كے معنى ميں استعمال

ہوتا ہے _ يعنى وہ تمہيں مختلف چيزوں سے تشبيہ ديتے ہيں اور ان سے مراد پچھلى آيت كے مطابق برى صفات كى آپ (ص) كى طرف نسبت دينا ' مثلاً : مجنون ، مسحور

۲_مؤمنين دشمنوں كے پروپيگنڈہ كے طريقوں پر ضرور توجہ ركھيں _

۱۳۴

انظر كيف ضربوا لك الأمثال

۳_كفار كا غلط مثالوں اور صفات سے پيغمبر(ص) كى مخالفت كرنا اور بغض ركھنا انہيں لا علاج گمراہى ميں مبتلا كرتا ہے_

كيف ضربوا لك الأمثال فضلوا فلا يستطيعون سبيل

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''سبيل'' سے مراد راہ ہدايت ہے _

۴_پيغمبر (ص) كے مخالف مشركين مكہ اس حد تك گمراہ ہوچكے تھے كہ ہدايت كا دروازہ بند كرچكے تھے _

فضلّوا فلا يستطيعون سبيل ''فلا يستطيعون '' ''ضلّوا'' پر نتيجہ ہے اور اس سے مراد ہدايت كے تمام راستوں كا بند ہونا ہے_

۵_كفار ،پيغمبر (ص) كے پيغام كو آگے بڑھنے سے روكنے كے لئے مختلف پروپيگنڈہ كرنے اور تہمتيں لگانے كے باوجود كامياب نہ ہوسكے_انظركيف ضربوا لك الأمثال فضلوا فلا يستطيعون سبيلا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ احتمال ہے كہ كفار كا راستہ نہ پاسكنا سے مراد پيغمبر (ص) كے پيغام كو روكنے كا چارہ نہ ہونا ہے_

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) پر تہمت ۵;آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ۱;آنحضرت (ص) كے دشمنوں كى سازش ۱;آنحضرت (ص) كا دشمنوں سے مقابلہ كرنے كا طريقہ ۳; آنحضرت (ص) كے دشمنوں كى ناكامى ۵;آنحضرت(ص) پر تہمت كے نتائج ۳; آنحضرت (ص) كے دشمنوں كى گمراہى كے نتائج۴ ; آنحضرت (ص) كے دشمنوں كا ہدايت نہ لينا ۴; آنحضرت (ص) كى دشمنوں كے مدمقابل ہوشيارى ۱; آنحضرت (ص) كى ہوشيارى ۱

الله تعالى :الله تعالى كے احكام ۱

دشمن:دشمن كى سازش كى اہميت ۲;دشمن كے مدمقابل ہوشيارى ۲

كفار :كفار كى گمراہى كے اسباب ۳كفار كى تہمتيں ۵;كفار كى مثالوں كا فلسفہ ۳;كفار كى ناكامى ۵;كفار كى دشمنى كے نتائج ۳

مؤمنين :مؤمنين كى ذمہ دارى ۲

مشركين :مشركين كے مدمقابل ہوشيارى ۱

مشركين مكہ:مشركين مكہ كى گمراہى كے نتائج ۴; مشركين مكہ كا ہدايت قبول نہ كرنا ۴

۱۳۵

آیت ۴۹

( وَقَالُواْ أَئِذَا كُنَّا عِظَاماً وَرُفَاتاً إنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقاً جَدِيداً )

اور يہ كہتے ہيں كہ جب ہم ہڈى اور خاك ہوجائيں گے تو كيا دوبارہ نئي مخلوق بناكر اٹھائے جائيں گے (۴۹)

۱_مشركين مكہ بوسيدہ ہڈياں بننے كے بعد دور بارہ زندگى كے امكان پر اپنى بے يقينى كا اظہار كرتے تھے_

وقالوا أ ء ذا كنّا عظاماً ورفاتاً أ ء نّا لمبعوثون خلقاً جديدا

''رفات'' مادہ ''رفت'' سے ہے كہ جس كا معنى ٹوٹنا اور يزہ ريزہ ہونا ہے _( مفردات راغب)

۲_مشركين كا معاد پر يقين نہ كرنا اور ترديد كا شكار ہونا انكى گمراہى كى واضح ترين مثال ہے_

فضلّوا وقالو ا ء ذا كنّا أء نّا لمبعوثون خلقاً جديدا

۳_مشركين موت كو عدم اورنابودى كى مانند سمجھتے تھے اور اس كے بعد كى زندگى كو بعيد شمار كرتے تھے_

ا ء ذا كنّاعظاماً ورفاتاً اء نّا لمبعوثون خلقاً جديدا

۴_قيامت ومعاد پر ايمان ،دين وقرآن كى اہم ترين تعليمات ميں سے ہے _وقالوا ا ء ذا لمبعوثون خلقاً جديدا

قرآن اور پيغمبر (ص) كى رسالت كے ذكر كے بعد دينى تعليمات ميں سے معاد كے مسئلہ كا ذكر كرنا اس كے خصوصى مقام كى حكايت كر رہا ہے_

۵_مشركين، جسمانى معاد كو بعيد اور غير ممكن شمار كرتے تھے _وقالوا ا ء ذاكنّاعظاماً ورفاتاً ا ء نّا لمبعوثون خلقاً جديدا

يہ كہ مشركين انسان كى ريزہ ريزہ ہوئي ہڈيوں كا دوبارہ بننا بعيد اور نا ممكن سمجھتے تھے اس سے معلوم ہوتا ہے وہ معاد جسمانى كو غير ممكن سمجھتے تھے_

۶_انسان كا معاد اور محشور ہونا اس كے لئے نئي خلقت ہے_وقالوا ا ء ذاكنّاعظاماً ورفاتاً ا ء نّا لمبعوثون خلقاً جديدا

۷_مشركين ،معاد كى حقيقت كو درك نہ كرنے اور اسے بعيد شمار كرنے كى بناء پر معاد پر ايمان نہيں لائے_لا يؤمنون بالا خره ...وقالوا ا ء ذاكنّاعظاماً ورفاتاً ا ء نّا لمبعوثون خلقاً جديدا

۸_مشركين معاد كے انكار كرنے ميں كوئي دليل قطعى اور استدلال نہيں ركھتے تھے_ محض اسے بعيد سمجھتے تھے _

ا ء ذاكنّاعظاماً ورفاتاً ا ء نّا لمبعوثون خلقاً جديدا يہ كہ مشركين نے معاد كے انكار ميں صرف اس كے بعيدہونے پر اكتفا كيا ہے _ اس سے معلوم ہو تا ہے كہ اس كے جھٹلانے پر ان كے پاس كوئي دليل نہ تھي_

۱۳۶

۹_مشركين كا معاد كى حقانيت كو درك كرنے سے عاجز ہونا ان كى طرف سے پيغمبر (ص) پر جادو ہونے كى تہمت لگانے كا سبب بنا _إن تتبعون الاّ رجلاً مسحوراً وقالوا أء ذا كنّا عظاماً ا ء نّا لمعبوثون

احتمال ہے كہ انكا پيغمبر (ص) سے ايسى باتوں كا سننا كہ جسے وہ درك نہيں كرسكتے تھے موجب بنا كہ ان كى طرف سے آپ (ص) پر جادو ہونے كى تہمت لگائي گئي _ پيغمبر (ص) كى باتوں ميں سے ايك بات معاد جسمانى كے بارے ميں بھى تھي_

۱۰_جاء أبيّ بن خلف فا خذ عظما بالياًمن حائط ففته ثم قال يا محمد ''إذا كنّا عظاماً ورفاتاً ا ء ناّ لمبعوثون خلقاً جديداً ...'' _(۱)

ابى بن خلف ايك بوسيدہ سى ہڈى ايك ديوار سے اٹھا كر رسول الله (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوا اور اپنے ہاتھوں سے اسے ريزہ ريزہ كيا پھر كہا اے محمد (ص)إذا كنا عظاماً ورفاتاً ا ء نّا لمبعوثون خلقاً جديدا

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) پر سحر شدہ ہونے كى تہمت ۹

انسان :انسان كى اخروى خلقت

ايمان :معاد كے بارے ميں ايمان كى اہميت ۴

دين :اصول دين ۴

روايت : ۱۰

قرآن :قرآن كى اہم ترين تعليمات ۴

مشركين :مشركين كى تہمتوں كے اسباب ۹;مشركين كا بے منطق ہونا ۸;مشركين كا معاد كے بارے ميں شك ۲،مشركين كى گمراہى كى علامات ۲،;مشركين كا كفر ۵;مشركين اور معاد ۳;مشركين اور موت ۳;مشركين كے درك نہ كرنے كے نتائج ۹;مشركين كا نظريہ ۳

____________________

۱) تفسير عياشى ج ۲، ص ۲۹۶، ح ۸۹_ نورالثقلين ج ۳، ص۱۷۴، ح ۲۵۲_

۱۳۷

مشركين مكہ:مشركين مكہ كا كفر ۱

معاد:كے جواب كى اہميت معلوم ہوتى ہے_

معاد كے جھٹلانے كے اسباب ۸;معاد كو بعيد شمار كرنا ۳، ۵، ۸;معاد كے جھٹلانے والوں كا بے منطق ہونا۸ ;معاد كو جھٹلانے والے ۱،۱۰;معاد كى حقيقت ۶معاد جشمانى كو چھٹلانے والے

آیت ۵۰

( قُل كُونُواْ حِجَارَةً أَوْ حَدِيداً )

آپ كہہ ديجئے كہ تم پتھر يا لوہا بن جاؤ (۵۰)

۱_الله تعالى نے معاد كے منكرين كے شبھات كا جواب دينے كا طريقہ پيغمبر (ص) كو سكھايا _قل كونوا حجارة أو حديدا

۲_پيغمبر (ص) معاد كے منكرين كے اعتراض كے جواب دينے كے ذمہ دار _قالوا أء إذا كنّا عظاماً ...قل كونوا حجارة أو حديدا

۳_دينى تعليمات كے منكروں كا جواب دينا ايك ضرورى اور لازمى امر ہے_قالوا أء إذا كنّا عظاماً و زماتاً ...قل كونوا حجارة أو حديد الله تعالى كا منكرين معاد كے شبھات كا پيغمبر (ص) كو جواب دينے كا حكم دين كے عقائد كے اركان ميں سے ايك ركن ہے اور آپ(ص) كو ان كے جواب دينے كا طريقہ بھى بتا رہا ہے _ اس سے ان شبھات

۴_الله تعالى انسانوں كے دوبارہ زندہ كرنے پر قادر ہے چاہے وہ پتھر اور لوہا ميں بھى بدل جائيں _قل كونوا حجارة أو حديدا

۵_انسان كا جسم مرنے كے بعد ممكن ہے پتھر' لوہا يا اس سے سخت كسى چيز ميں تبديل ہوجائے_قل كونوا حجارة أو حديدا

ممكن ہے كہ يہ ''كونوا حجارة ...'' بعنوان تحدى نہ ہو بلكہ ايك فرض ہو تو اس صورت ميں مندرجہ بالا مطلب واضح ہوتاہے_

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ۲;آنحضرت (ص) كا معلم ہونا ۱

الله تعالى :

۱۳۸

الله تعالى كى تعليمات ۱;اللہ تعالى كى قدرت ۴

بدن :موت كے بعد بدن ۵;بدن كا پتھر ميں تبديل ہونا ۴،۵;دن كا لوہے ميں تبديل ہونا ۴،۵

دين:دينى شبھات كے جواب كى اہميت ۳

قل كونوا حجارة أو حديدا_ أو خلقاً ممّا يكبر فى صدوركم

مردے:مُردوں كا آخرت ميں زندہ ہونا ۴

معاد:معاد كى اہميت ۲;معاد كے شبھات كے جواب كى اہميت ۲;معاد كے شبھات كا جواب ۱، ۲;معاد جسمانى ۴

آیت ۵۱

( أَوْ خَلْقاً مِّمَّا يَكْبُرُ فِي صُدُورِكُمْ فَسَيَقُولُونَ مَن يُعِيدُنَا قُلِ الَّذِي فَطَرَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَسَيُنْغِضُونَ إِلَيْكَ رُؤُوسَهُمْ وَيَقُولُونَ مَتَى هُوَ قُلْ عَسَى أَن يَكُونَ قَرِيباً )

يا تمھارے خيال ميں جو اس سے بڑى مخلوق ہوسكتى ہو وہ بن جاؤ پس عنقريب يہ لوگ كہيں گے كہ ہميں كون دوبارہ واپس لاسكتا ہے تو كہہ ديجئے كہ جس نے تمھيں پہلى مرتبہ پيدا كيا ہے پھر يہ لوگ استہزاء ميں سر ہلائيں گے اور كہيں گے كہ يہ سب كب ہوگا تو كہہ ديجئے كہ شايد قريب ہى ہوجائے (۵۱)

۱_انسان كا سخت ترين جسموں اور زندگى سے دور مادہ ميں موت كے بعد تبديل ہونا بھى اس كے دوبارہ اٹھائے جانے اور زندہ ہونے كے مانع نہيں ہے_

۲_الله تعالى كے لئے انسان كا دوبارہ خاك' پتھر ' لوہا يا كسى اور سخت مادہ سے دوبارہ زندہ كرنا برابر ہے_

قل كونوا حجارة أو حديدا_ أو خلقاً ممّا يكبر فى صدوركم

حرف ''او'' جو كہ حرف تخيير ہے اور معطوف اور معطوف عليہ كى متكلم كے نزديك مساوى حيثيت بيان كرتا ہے_ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ انسان كے پتھر ہونے يا لوہا ہونے سے الله تعالى كو مزيد قدرت بڑھانے كى ضرورت نہيں ہوگي_

۳_انسان كے جسم كے بكھرنے كے بعد ا س كى معاد كو بعيد شمار كرنا پروردگار كى لامحدود قدرت سے غفلت كا نتيجہ ہے_

۱۳۹

قل كونوا حجارة أو حديدا_ أو خلقاً ممّا يكبر فى صدوركم

جملہ '' كونواحجارة أو خلقاً ممّا يكبر '' كہ جو الله تعالى كى لامحدود قدرت پر اشارہ كر رہا ہے اس كا تذكرہ مشركين كو اس غفلت سے نكالنے كے لئے ہے كہ جس كى بناء پر وہ ريزہ ريزہ ہوئي ہڈيوں كے دوبارہ زندہ ہونے پر متردد تھے_

۴_انسان كى معاد ،جسمانى ہے_

قالو ا ء إذا كنّا عظاماً أورفاتاً ا ء نّا لمبعوثون خلقاً جديداً_ قل كونوا حجارة أو حديدا أو خلقاً ممّا يكبر فى صدوركم

۵_الله تعالى نے پيغمبر (ص) پر پہلے ہى سے واضح كرديا كہ منكرين معاد اپنے شبھہ ''معاد كا بعيد ہونے'' كا جواب لينے كے بعد وجود ميں لانے والے كے بارے ميں سوال كريں گے _فسيقولون من يعيدنا

۶_مشركين اس طاقت پر كہ جو انسان كے جسم كو دوبارہ زندہ كرنے پر قادر ہے ايمان لانے ميں بے يقينى اور ترديد كا شكار تھے_قل كونوا حجارة ...فسيقولون من يعيدنا

۷_پيغمبر (ص) ، مشركين كو قيامت كو وجود ميں لانے والے كے بارے ميں جواب دينے ميں ذمہ دار_

فسيقولون من يعيدنا قل الذى فطركم أوّل مرّة

۸_حقيقت ہے كہ وہ ذات جو انسان كو پہلى دفعہ وجود دينے پر قادر ہے وہ اسے دوبارہ بھى خلق كرنے پر قادر ہے_

من يعيدنا قل الذى فطركم أوّل مرّة

۹_انسان كى پہلى زندگى اس كى دوبارہ زندگى پر بذات خود واضح ترين دليل ہے _فسيقولون من يعيدنا قل الذى فطركم أوّل مرّة

۱۰_عدم سے وجود ميں لانا بذات خود الله تعالى كى دوبارہ وجود دينے كى قدرت پر واضح دليل ہے_

فسيقولون من يعيدنا قل الذى فطركم أوّل مرّة

''فطر'' كے معنى پر توجہ دينے سے كہ عدم سے دائرہ وجود ميں لانے والا اس سے مندرجہ بالا مطلب سامنے آتا ہے_

۱۱_معاد كى شناخت پيدا كرنے اور اس كے شبھات حل كرنے سے پہلے خالق كائنات كى شناخت پيدا كرنا ضرورى ہے_

فسيقولون من يعيدنا قل الذى فطركم أوّل مرّة

الله تعالى نے انسان كو معاد كے حوالے سے شبھات حل كرنے ميں اس كى اول خلقت كا مسئلہ بيان كيا_ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ آغاز خلقت كى شناخت معاد كے شبھات حل كرنے كا موجب ہے_

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

ب۔ صبر کے درجات:

بعض علماء اخلاق اور اہل معرفت نا گوار امور پر صبر کرنے ( صبر خاص )کے لئے تین درجوں کے قائل ہوئے ہیں۔

١۔ تائبین کا صبر: اوراس سے مراد ہے شکوہ کا ترک کرنا، بے تابی اور بے قراری کا ثبوت نہ دینا، اور غیر فطری اور پریشان کن رفتارنہ رکھنا۔

٢۔ زاہدین کا صبر: یعنی اول درجہ کے علاوہ جوسختیاں، درد والم انسان کے لئے مقدر ہوئی ہیں ان پر قلبی طور سے راضی ہونا۔

٣۔ صدیقین کا صبر: یعنی پہلے دودرجہ کے علاوہ نسبت اس چیز سے جو خدا وند عالم نے اس کے لئے معین کر رکھا ہے، عشق کرنا اور اسے دوست رکھنا ۔(١)

ج۔ صبر کی اہمیت:

کلمہ ''صبر ''مختلف صورتوں میں سو بار سے زیادہ قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے کہ جس سے خود ہی اس موضوع کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ قرآن کریم بعض بنی اسرائیل کی ہدایت وپیشوائی کے منصب تک پہونچنے کی علت کے بیان میںفرماتا ہے: ''اور جب انہوں نے صبر کیا اس حال میں میری آیتوں پر یقین رکھتے تھے تو ہم نے ان میں سے بعض کو پیشوا قرار دیا کہ وہ ہمارے حکم سے (لوگوں کی) ہدایت کرتے تھے''۔(٢) اور آخرت میں صابروں کی کیفیت جزا کے بارے میں ایک جگہ پر ان کے عمل سے بہتر جزا کا وعدہ دیتا ہے: ''یقینا ً جن لوگوں نے صبر کیا تو جو انہوں نے عمل کیا ہے ہم انھیں اس سے بہتر جزا دیں گے''۔ ٣)

دوسری آیت میں صابروں کی مقدار جزا کی تعیین کے بارے میں ارشاد ہو تا ہے: ''وہ لوگ کہ جنہوں نے صبر کیا اور نیکیوں سے برائی کو دور کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیںروزی دی ہے اس میں سے انفاق کرتے ہیں اس لئے وہ لوگ دہر ی جزا پائیں گے''۔(٤)

____________________

١۔ نراقی، جامع السعادات، ج٣ ، ص ٢٨٤۔

٢۔ سجدہ ٢٤۔

٣۔ نمل ٩٦۔

٤۔ قصص ٥٤۔

۱۶۱

دوسری جگہ پر اعلان کرتا ہے کہ صابروں کا اجر اور ان کی جزابے حد اور ناقابل شمار ہے اور وہ لوگ بے حساب جزا پائیں گے: ''بے شک صابرین اپنی جزا بے حساب پوری پوری پائیں گے''۔(١) اسی طرح خداوند عالم نے صابروں کو ہمراہی کا وعدہ دیا ہے: '' صبر کروکیونکہ خدا صابروں کے ساتھ ہے ''۔(٢ ) وہ نصرت اور کامیابی کو صرف اور صر ف صبر و شکیبائی کے سایہ ممکن جانتا ہے''۔(٣) ہدایت، درود اور رحمت پروردگار کو صابروں کے حق میں قرار دیتا ہے۔(٤) صابروں کو اپنے دوستوں اور محبوبوںکے زمرہ میں بیان کرتا ہے۔(٥) بارہا اور بارہا اپنے رسولوںاور تمام انسانوں کو صبر کی تاکید کرتا ہے۔(٦) اپنے خاص بندوں کے بارے میں نقل کرتا ہے کہ وہ لوگ ہمیشہ خداوند سبحان سے صبر و شکیبائی کی توفیق کی درخواست کرتے رہے ہیں۔(٧) اس کے علاوہ مزید اور دسیوںمورد ہیں جو اسلام کے اخلاقی نظام میںصبر کی اہمیت بیان کرتے ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق ـ بھی فرماتے ہیں: ''صبر ایمان کے لئے وہی حیثیت رکھتا ہے جو جسم کے لئے سر کی حیثیت ہے، جس طرح سر کے نہ ہونے سے جسم کا خاتمہ ہوجاتاہے اسی طرح اگر صبر نہ ہوتوایمان بھی جاتارہے گا ''۔(٨) حضرت امام محمد باقر ـ سے صبر کی اہمیت کے بارے میں نقل ہوا ہے : '' جنت نا گواریوں سے گھری ہوئی ہے لہٰذا جو بھی دنیا میں نا گوارچیزوں پر صبر کرے وہ بہشت میں جائے گا۔ اور دوزخ نفسانی خواہشات اور لذّات میں گھری ہوئی ہے، لہٰذا جو بھی نفسانی خواہشات ولذات کی تکمیل کرے گا، وہ جہنم میںجائے گا ''۔(٩)

____________________

١۔ زمر ١٠۔

٢۔ انفعال ٤٦۔

٣۔ آل عمران ١٢٥۔

٤۔ بقرہ ١٥٧۔

٥۔ آل عمران ١٤٦۔

٦۔ احقاف ٣٥۔

٧۔ بقرہ ٢٥٠ ؛ اعراف ١٢٦۔

٨۔ کلینی، کافی ج ٢، ص٨٩، ح ٥۔

٩۔ ایضاً، ح٧۔

۱۶۲

د۔ صبر کے فوائد:

صبر کے بہت سے دینی و دنیوی فوائد شمار کئے جاسکتے ہیں، منجملہ ان کے حضرت علی ـ بعض گذشتہ امتوں کی عزت وذلت کے بارے میں اپنے ایک خطبہ میں فرماتے ہیں: ''جب خدا نے دیکھا کہ وہ کس طرح اس سے دوستی کی راہ میں اذیت و آزار پر صابر ہیں اور اس کے خوف سے نا گواریوں پر صبر و تحمل کرتے ہیں تو اس نے انھیں گرداب بلا سے نکال کر گشائش عطا کی، اور ذلت و خواری کے بعد انھیں با آبرو بنایا اور سکون و اطمینان کو خوف کا جا گزیں بنادیا۔ پھر وہ حکمراں بادشاہ اور باعظمت و شان پیشوا ہوگئے اور خدا کی کرامت ان کے حق میں یہاںتک پہنچ گئی کہ دیدۂ آرزو ان کے آخری درجہ کہ وہ اس جگہ پہونچا ان کی نگاہ اور اس کی انتہا کو نہ دیکھ سکی''۔(١)

بعض علماء اخلاق نے صبر کو مقدّرات الٰہی پر راضی رہنے کے مقام رضایت تک پہونچنے کا دروازہ قراردیا ہے، اور مقام رضا کو محبت پروردگار کی وادی تک پہونچنے کا دروازہ جانا ہے۔(٢) اس لحاظ سے صبر کے اہم فوائد میں سے اسی دنیا میں مقام '' رضا '' و'' محبت '' تک رسائی کا نام لیا جا سکتا ہے۔

''صبر '' کے لئے دیگر متعدد موضوعات بھی قابل ذکر ہیں، جیسے صبر و شکر میں مناسبتیں، صبر کے حصول کی راہیں اور اس کے مانند دوسرے موضوعات کہ اختصار کے پیش نظر ان کا ذکر نہیں کیا جارہا ہے۔

____________________

١۔ نہج البلاغہ، خطبہ ١٩٢۔

٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٣، ص ٢٨٣۔

۱۶۳

تیسرا باب :

اسلام کی نظر میں اخلا قی تر بیت

پہلی فصل :

اسلام میں اخلا قی تر بیت کے طر یقے

مقدمہ:

اخلاق اسلامی کے اصول اور مفاہیم سے آشنائی کے بعد یہ بات مناسب ہے کہ اپنے آپ سے سوال کریں '' نا مطلوب موجود '' کی حالت کو کس طرح '' ناموجود مطلوب '' سے تبدیل کیا جا سکتا ہے ؟ واضح عبارت میں اخلاقی تربیت کے طریقے کیا ہیں ؟

تربیتی طریقے، کبھی خود تربیتی اپنے ( لئے تربیتی) ہیں تو دیگر تربیتی کبھی دوسرے کے( لئے تربیتی) ہیں، کبھی قولی ہیں تو کبھی عملی، کبھی سلبی ( روکنے والے ) ہیں اور کبھی ایجابی (اصلاحی )، کبھی عام( یعنی تمام سن کے مراحل کے لئے ) ہیں اور کبھی خاص۔ رفتار کے مبادی(١) کے پیش نظر ان اخلاقی تربیت کی روشوں کو جو رفتار یا اس کے مبادی یعنی ابتدائی مرحلوں سے تعلق رکھتی ہیں، تین چیزوں: شناخت، سبب اور رفتار کے اعتبار سے مورد توجہ قرار دیں گے اور تفصیل سے آئندہ مباحث کے ضمن میں ان کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ چونکہ علوم تربیتی کی اصطلاحا ت (منجملہ اصول، روشیں، اہداف و مقاصد وغیرہ وغیرہ ) کی دقیق تعریف محل اختلا ف ہے اور ان کے سلسلہ میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں لہٰذا یہاںپر اس کتاب میں مورد نظر تعریف کی طرف اشارہ کریں گے۔ ''روش'' (طریقہ) سے مراد وہ کلی قوانین ہیں کہ ہر ایک جدا گانہ طور پر یا دوسری روشوں کی مدد سے مقصد تک پہنچانے کی خصوصیت کی حامل ہیں۔ ہر روش کے تحقق کیلئے ممکن ہے کہ ہر ایک کے لئے مختلف اسلوب اور متعدد فنون پائے جاتے ہوں جو روشوں کی نسبت جزئی تر قوانین کا مقصود ہیں۔

____________________

١۔گذشتہ علماء کے نظریات کے مطابق مبادی رفتار اس طرح ہیں: فائدہ کا تصوّر، اس کی تصدیق، شوق موکد۔ معاصر ماہرین نفسیات نے اس سے مشابہ ایک دوسری ترکیب پیش کی ہے ؛ وہ اس طرح ہے: شناخت، باعث اور عملی توانائی۔

۱۶۴

روشوں کے بیان میں ایک عقلی ترتیب پائی جاتی ہے کہ آسان تر دیگر تربیتی روشوں سے شروع ہوتی ہے اور مشکل تر خود تربیتی روشوں پر ختم ہوتی ہے۔ یہ عقلی ترتیب انسان کے اخلاقی اور نفسیاتی رشد سے بھی منطبق ہے اور اسلام کی تربیتی تعلیمات سے بھی ہم آہنگ ہے۔

ہر روش کو اس کی تعریف اور توضیح سے شروع ہے اور بعد کے مرحلہ میں آیات وروایات سے استفادہ کرتے ہوئے اس کا استناد اسلام سے ثابت کیا گیاہے پھراس کے بعد ( یا اس کے ضمن میں ) نفسیات کے علمی مطالعہ سے استفادہ کرتے ہوئے روش کی توضیح وتکمیل کی گئی ہے، یعنی نفسیات میں کون سے نظری اصول ومبانی کے ذریعہ اس روش کا دفاع کرسکتے ہیں اور اخلاقی تربیت میں اس کی تاثیر ثابت کی جاسکتی ہے، یہاں پر نفسیات کے اہم ترین نظریوں کے متعلق جو کہ تربیت اخلاقی سے مربوط ہیں بحث کی جارہی ہے۔

طریقے

١۔ تربیت کے لئے مناسب ماحول بنانا

انسان کی تکوین اور تغییر کا اہم ترین عامل مختلف ما حول کے حالات ہیں خواہ وہ زمانی یا مکانی یا اجتماعی ماحول ہو۔ بہت سے مقامات میں ماحول کی ترمیم واصلاح سے تربیت کے لئے مساعد اورسازگار ماحول فراہم کرکے جس کی تربیت کی جاتی ہے اس کی عادتوں، خصلتوں، افکار اور رفتار کو بدلا جا سکتا ہے اور جدیدخصوصیات کو اس کا جاگزین بنایا جا سکتا ہے، اس روش کی نفسیاتی بنیاد اس ماحول کے حالات سے انسان کے متاثر ہونے کی اصل ہے جو ماحول سازی ( بعض رفتار کی ہمراہی اور ہمنوائی بعض دیگر کے ساتھ ان کے ثابت کرنے کا باعث ہوتی ہے)، فعّال وکردار ساز ماحول سازی ( ایک ماحول میں خاص طرز عمل ورفتار پر جزا دی جاتی ہے ) یا اجتماعی تعلّم وتربیت ( رفتارکے مشاہدہ سے خاص نمونوں کی پیروی) کے نظریات کے بیان ہوتی ہے ضمن میں یہ روش خاص طور سے دوسروں کے ذریعہ اور انسان کے اولیاء کے ذریعہ بروئے کار لائی جاتی ہے، لیکن انسان خود بھی کسی حد تک موثر ہوسکتا ہے، اس روش کو وجود میں لانے کے جو طریقے لازم ہیں وہ ترتیب وار یہ ہیں:

۱۶۵

مقدمہ سازی، نمونہ سازی، ماحول کو صحیح و سالم بنانا اور حیثیت اور ماحول کو بدلنا۔

الف۔ مقدمہ سازی:

اس سے مراد یہ ہے کہ مناسب ماحول فراہم کرکے اخلاقی فضائل کے وجود میں آنے کا امکان اعلی حد تک فراہم کریں اور اس کے برعکس ایسے مقدّمات جو کہ منفی رخ رکھتے ہیں اور اخلاقی رذائل پیدا کرسکتے ہیں، ان کے وجود ہیں آنے کی روک تھام کریں، اس حصہ میں اسلام کی ہدایات قابل توجہ ہیں۔

ایک۔زوج یا زوجہ کے انتخاب میں کہ جو خاندان کا ایک رکن ہے، اس کے اخلاقی فضائل پر توجہ دینی چاہیے، انظر فی ای شی تضع ولدک فان العرق دساس(١) اس کے مقابل ایسے افراد جو غیر شائستہ گھرانے کے پروردہ ہیں، یاکم عقل اور احمق ہیں تو ایسے لوگوں سے شادی بیاہ کرنے سے اجتناب کرناچاہیے۔

حضرت امیرا لمومنین علی ـنے جومالک اشتر کو خط لکھا ہے اس میں اس کا رساز عنصر کی اس طرح تصریح فرمائی: ''ضروری ہے کہ اداری امور میں با فضیلت افراد سے استفادہ کرو ، وہی لوگ کہ جو نیک اور شریف خاندان سے ہوں اور اچھے ماضی اور نیک نامی کے ساتھ زندگی گذارچکے ہوں، جو لوگ عقل و ہوش، شجاعت و بہادری کے مالک، سخی اور بلند ہمت ہیں، وہ کرم کامرکز اور نیکی و فضیلت کا سرچشمہ ہیں''۔(٢)

لہٰذا ایسی اولاد جو شائستہ ماں اور با فضیلت باپ کی حمایت کے زیر سایہ پروان چڑھے ہیں اہم ترین مقدّمہ ساز عنصر ما حول اور تربیت کے لحاظ سے ان کا مددگار ہے۔(٣)

دو۔ اچھے نام کا انتخاب اولاد کا والدین پر جوحق ہے اور اس کی تاکید کی گئی ہے یہ ہے کہ۔''ہر انسان کی سب سے پہلے نیکی اس کے فرزند کے حق میںاس کا اچھا نام رکھنا ہے لہٰذا تم میں سے ہر ایک کو چا ہیے کہ اپنے فرزندوں کا اچھا نام رکھو''۔ ( اول ما یبر الرجل ولدہ ان یسمیہ باسم حسن فلیحسن احدکم اسم ولدہ)۔(٤)

نیک اور شائستہ نام تربیتی اور نفسیاتی اثر رکھتا ہے اور انسان کی صلاح و فلاح نیز خوبیوں کو فراہم کرنے کا مقدّمہ ہے یا پھر اسے فرو مائگی اور پستی کی سمت لے جاتا ہے۔ ( الاسم یدل علی المسمی ) ۔

____________________

١۔ فلسفی، کودک، ج ١، ص ٦٤۔ حسن الاخلاق، برہان کرم الاعراق، افراد کی اخلاقی خصلتیں خاندان کی پاکیزگی اور فضیلت کی دلیل ہیں، غرر الحکم۔٢۔ نہج البلاغہ، نا مہ ٥٣۔ ٣۔ جنٹک کے علاوہ کہ جن کا ذکر فی الحال مقصود نہیں ہے۔٤۔ وسائل الشیعہ: ج ١٥، ص ١٢٢۔

۱۶۶

٣۔ محل زندگی کا انتخاب (ملک، شہر یا دیہات، محلہ اور پڑوسی کا انتخاب) بھی مقدّمہ ساز عنا صر میں ہے۔ اسی طرح محل تحصیل، کام کاج، احباب اور معاونین سب ہی ( تربیت کی ) راہ ہموار کر نے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔(١)

ب۔ نمو نہ سازی :

کہا جا سکتا ہے کہ ہر ماحول کو بنا نے والے اس سماج اور ماحول برگزیدہ اور سر بر آور دہ افراد ہی ہوتے ہیں۔ لہٰذ ایک اچھے تر بیتی ماحول کی ایجاد کا ایک طریقہ اس ماحول میں اچھے نمونوں کو وجود میں لانا ہے اور برے نمونوں دور کر نا ہے۔ سماج میں پسندیدہ اور محبوب نمونہ خود بخود اس ماحول میں رہنے والوں کو ان کی طرف کھینچ لا تاہے اور ان کے مکارم اخلاق کو دوسرے لوگ نمونہ بنالیتے ہیں۔

آلبرٹ بنڈورا (١٩٧٨) کہ جو اجتماعی تعلّم کے نظریہ کا واضع ہے۔ تعلّم (سیکھنے) کا سب سے اہم طریقہ مشاہداتی تعلّم کو جانتا ہے کہ وہی تقلید یا نمونہ کا اختیار کرنا ہے انسان ایک نمونہ یا سر مشق کا انتخاب کرکے اس کے عمل کی تقلید کرنے لگتا ہے۔ بنڈ ور ا اس طرح کے تعلّم کو چار مر حلہ میں تو ضیح دتیا ہے: مر حلہ توجہ، حا فظہ کے حوالے کرنا، دوبارہ تخلیق اور سبب ومحرّک۔ ممتا ز صفات، عطو فت ومہر بانی کا بار، پیچید گی، برجستگی اور استعمالی اہمیت نمونہ میں اور حسّی ظرفیت، ابھارنے کی سطح، درک کرنے کی آماد گی اور گزشتہ تقویت مشا ہدہ کر نے والے کے اندر نمونہ شخص کے عمل سے منطبق نتیجۂ عمل کی مدد کرتی ہے۔(٢)

زندہ نمونوں کے علا وہ جو کہ مساعد اورسازگار تر بتیی ماحول ایجاد کر تے ہیں مر بی حضرات ماضی کے اخلاقی اور انسانی نمونوں کی شناخت کر ا کے انھیں حیات نو عطا کر سکتے ہیں اور بنڈورا کے نظریہ میں مذ کو رہ خصو صیات پر نظر کر تے ہو ئے بار عاطفی، ممتاز حالت، بر جستگی وغیرہ کے اعتبار سے ان کے متعلق تا کید اور سر مایہ گذاری کرسکتے ہیں نمونوں کے دقیق موئثر اور محبوب چہرہ کی ترسیم تربیت پانے والوں کے لئے ان کے ذہن وروح میں حسب ضرورت نمونوں کے فقدان کے خلا کو پر کرسکتی ہے اور وہ تدریجاً ان کے مثل بن سکتے ہیں۔

____________________

١۔ ہمنشینوں اور دوستوں کی تاثیر کے بارے میں اس کے بعد بحث کریں گے۔

٢۔ روانشناسی پرورشی، ص ٣١٤۔

۱۶۷

قرآن کر یم میں اس شیوہ سے بہت زیادہ استفاد ہ کیا گیا ہے، بالخصوص اکثر قرآنی نمونے جو ان اور تا ثیر گذار ہیں۔ یوسف شہوت کے مقا بل قہرمان مقا ومت، کہف کے جوان راہ خدا میں رشد و ہد ایت کیلئے ہجرت کے نمونے، اسماعیل حکم خدا کے سا منے سر اپاتسلیم کی مثال اور ابر اہیم عادت شکن اور بت شکن جوان ہیں۔ قرآن کے جوان نمو نوں کے علا وہ دیگر نمونے بھی پائے جا تے ہیں کہ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

دین کی تبلیغ میں نوح پا یداری اور استقامت کا نمو نہ، مصا ئب زمانہ اور شدائد روز گا رپر ایوب صبر وتحمل کا نمونہ، طاغوت سے جنگ ومبازرہ کرنے میں داؤد شجاعت اور شہامت کا نمو نہ وغیر ہ وغیرہ، قرآن ان تما م حضرات کی شان میں فرماتا ہے: ''...... وہ لوگ(خدا کے پیغمبر ) ایسے لوگ ہیں جن کی خدا نے ہدایت کی ہے لہٰذ ان کی ہدایت کا اقتدا کرو''۔(١)

بالآخرہ پیغمبر اکرم زندگی کے تمام مراحل میں تمام عالمین کے لئے مطلق نمونہ ہیں ، '' لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنہ''(٢) کیو نکہ آپ ''خلق عظیم '' کے ما لک، ''مکارم اخلا ق کا آئینہ '' اور '' رحمة للعالمین '' ہیں۔

ماں باپ اور ان کے بعد اساتذہ اور تربیت کرنے والے بھی تربیت سیکھنے والوںکے لئے پہلا نمونہ ہیں۔ تربیت کا اہم نکتہ یہ ہے کہ اہم موقعیت وحیثیت کے مالک، زیادہ کامیاب، زیادہ علم ودانش یا معنوی بلندی کے مالک اکثر دوسروں کی نظر کو اپنی طرف جلب کرتے ہیں اور ان کے لئے نمونہ بن جاتے ہیں۔

خوش قسمتی سے طالب علموں کی نظر میں عام طور پر اساتذہ اور والدین ان خصوصیات کے یا ان میں سے بعض کے مالک ہوتے ہیں۔ لیکن بہر صورت اس برتری اور برجستگی کا نہ ہونا معنوی، علمی اور اجتماعی شعبوں میں تربیت پانے والوں کوکسی اور سمت لے جاتا ہے۔

حضرت امیر المومنین علی ـ فرماتے ہیں:'' پیغمبر اکرم ہر روز میرے لئے اپنے مکارم اخلاق میں سے ایک کو بیان کرتے تھے اور مجھے اس کی پیروی کرنے کا حکم دیتے تھے ''۔(٣) حضرت امام موسیٰ کاظم ـ فرماتے ہیں: ''بچے اپنے والدین کی خوبیوںاور صلاحیتوں سے محفوظ ہوتے ہیں ''۔(٤)

____________________

١۔ اولئک الذین ھدی اللہ فبھد یھم اقتدہ، سورئہ انعام، آیت ٩٠۔ ٢۔ سورئہ احزاب، آیت، ٢١۔٣۔ یرفع لی کل یوم علما من اخلاقہ و یامرنی با لاقتداء بہ ؛نہج البلاغہ، خ ١٩٢۔

٤۔ یحفظ الاطفال بصلاح آبائھم، بحار الانوار ج ٥، ص ١٧٨۔

۱۶۸

نمونہ سازی کے طریقہ سے استفادہ کرنے کے سلسلہ میں قرآن کریم نے کم از کم دو اخلاقی اور تربیتی نکتوں کی طرف توجہ دلائی ہے ؛ اول یہ کہ اس نے محبوب اور پسندیدہ افراد کو کلی طور پر نیز عام عنوان سے بیان کیا ہے، جیسے: تائبین، متطہّرین،متّقین، صالحین، صابرین، محسنین اور مجاہدین وغیرہ اور کبھی خاص طور سے اور نا م کے ساتھ (پیغمبروں سے متعلق) بیان کیا ہے، لیکن قابل نفرت ومذمّت افراد کا ذکر قرآن میں استثنائی موارد (جیسے ابو لہب) کے علاوہ کلی عناوین کے تحت ہوا ہے، جیسے: تجاوز کرنے والے، اسراف کرنے والے، خود پسند افراد، کفار، ظالمین اور متکبرین وغیرہ۔ اس وجہ سے ہم کو بھی چاہیے کہ قرآن کریم کی پیروی کرتے ہوئے اسی روش کا انتخاب کریں کہ اخلاقی فضائل کی شناخت کرانے میں کلی عناوین بھی اور صاحبان فضائل کے اسماء بھی بیان کریں، منفی مقامات پر اشخاص کے نام بیان کرنے سے اجتناب کریں۔

دوسرے نمونوں کا انتخاب کرنا ہے، قرآن کریم ایک ساتھ محبوب اور منفور افراد کا ذکر کرکے انسانی سماج کو علم وآگہی کے ساتھ اپنے منظور نظر نمونوں کے انتخاب کی دعوت دیتا ہے، حتیٰ کہ گذشتہ آباء اجداد کے سلسلہ میں بھی آگاہ کرتا ہے کہ بغیر علم و آگہی کے ان کی اندھی تقلید کرکے اپنی زندگی تباہ و برباد نہ کریں۔ انہوں نے کہا: ''ہم نے آباو اجداد کو ایک آئین پر پایا ہے لہٰذا ہم بھی انھیںکا اتباع کرتے ہیں ' اس (پیغمبر) نے کہا ''خواہ جس پر تم نے اپنے آباء واجداد کو پایا ہے اس سے زیادہ ہدایت کرنے والا بھی تمہارے لئے لے آؤں تب بھی ایسا کرو گے''؟(١) اس وجہ سے ہم پر لازم ہے کہ انسانوں کی آزادی کو باقی رکھتے ہوئے نیز مطلوب نمونوں اور معیاروں کا تعارف کراتے ہوئے تربیت پانے والوں کے لئے آگاہانہ انتخاب کی راہ فراہم کریں۔

ج۔ما حول کوصحیح و سالم رکھنا:

برے اور شر پسند افراد ہر ماحو ل اور سماج میںعام طور پر پائے جاتے ہیں۔ بیشک فاسد اور برے ماحول اخلاقی تربیت کے معاملہ کو دشوار بلکہ بعض اوقات نا ممکن بنا دیتا ہے، اس وجہ سے ماحول کو صحیح وسالم رکھنا کہ جو تقریبا ً امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کے زندہ کرنے کے مساوی فریضہ ہے،سب کے لئے ایک عقلی، انسانی نیز دینی فریضہ ہے۔ اس طرز اور شیوہ سے مراد معاشرے کے تمام افراد کے اندر خوبیوں کی ایجاد اور ان کا احیاء کرنا ہے اور برے امور کو ختم کرنا ہے۔ درج ذیل نکات امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت اور ان کے پہلوئوں کو کہ جو دراصل معاشرہ میں اخلاقی تربیت کو آسان کرنے والے ہیں، زیادہ واضح کرتے ہیں۔

____________________

١۔ سورئہ زخرف، آیت ٢٣، ٢٤۔

۱۶۹

١۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اس نکتہ کو واضح انداز میں اپنے دامن میں رکھتا ہے کہ دعوت ایک شناختہ شدہ شرعی اور عقلی معیار پر ہونی چاہیے۔(١) اس وجہ سے جب بھی بات شرعی واجب یا حرام کی ہوتو چاہیے کہ اس کی ثقافتی پشت پناہی ایجاد کی جائے ا ورایک معروف یامنکر کے عنوان سے اکثر لوگوں کے نزدیک متعار ف ہو۔ ایسے حالات میں امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کو عام مقبولیت حاصل ہو گی۔ بعبارت دیگر امر با لمعروف کی دشواری اور کلی طور پر اس کاقبول نہ ہونے میں مشکل نہیں ہے بلکہ مشکل ان خاص موارد اور مصادیق میں ہے کہ جن کا معروف یا منکر ہونا کافی حد تک مستدل طور سے لوگوں کے لئے واضح نہیں کیاگیا ہے۔

٢۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سب کا فریضہ ہے، لیکن امر و نہی کرنے والے خاص شرائط کے حامل ہوں، منجملہ ان کے امر و نہی کے شرائط کی شناخت(٢) نیز خود معروف اور منکر کی پہچان ضروری ہے، اس کے علاوہ یا د دہانی اور بیان کا طریقہ اس طرح ہو کہ زیادہ سے زیادہ تاثیر کی امید ہو۔

٣۔ امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کے موارد کو وسیع ہونا چاہئے اور خاص مصادیق میں کہ جو اس وقت سماج اور معاشرہ میں زیادہ رایج اور شائع ہے (جیسے بے حجابی) میں محصور نہ ہو۔ اخلاق کے خلاف اعمال جیسے رشوت لینا، تہمت لگانا، غیبت کرنا اور بد گوئی وغیرہ ایک عام ثقافت اور تہذیب کی صورت میں معیّن شدہ نصائح اور نہی عن المنکر کا مورد واقع ہوں، تاکہ مثال کے طور پر بے حجاب یہ خیال نہ کریں کہ نہی عن المنکر ہمیشہ انہیں کے بارے میں ہے۔

د۔ موقعیت کا تبدیل کرنا:

کسی ماحول کے حالات کی قوّت اور اس کی اثر گذاری اس حد تک ہوتی ہے کہ صرف موقعیت اور حالات کے تبدیل کرنے سے اخلاقی تربیت حاصل ہوپاتی ہے۔ اگر چہ ماحول کی تبدیلی بہت زیادہ مالی اخرجات اور نفسیاتی بوجھ کی حامل ہوتی اخراجات ہے، ایک سا ز گار تربیتی ماحول ایجاد کرنے کے لئے آخری طرز کے عنوان سے ضروری ہے۔ ''ہجرت'' منجملہ ان دستورات میں سے ہے کہ جس کی دین میں تاکید ہوئی ہے اور کبھی واجب حد تک پہونچ جاتی ہے۔ قرآن مجید کے بقول جب فرشتے کچھ لوگوں کی روح قبض کرنے آتے ہیں تووہ لوگ ماحول کے ناموافق ہونے کو اپنا عذر بیان کرتے ہیں، لیکن فرشتے کہتے ہیں ''.... کیا خدا کی زمین وسیع نہیں تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے ....''۔(٣)

____________________

١۔'' المعروف'' اسم لکل فعل یعرف بالعقل او الشرع حسنہ والمنکر ما ینکر ھما (المفردات ) معروف ہر اس فعل کو کہتے ہیں جسے عقل یا شرع کے ذریعہ نیک جانا جائے اور منکر ہر اس فعل کو کہتے ہیں جسے عقل یا شرع ناپسند کریں۔ ٢۔ سورئہ توبہ، آیت ٧١ اور ملاحظہ ہو: المیزان، ج ٣ ، ص ٣٧٣۔

٣۔ الم تکن ارض اللہ واسعة فتھاجروا فیھا۔۔۔ سورئہ نسا ئ، آیت ٩٧۔

۱۷۰

جو انسان ایسے گھر یا محلہ میں زندگی بسر کرتا ہے کہ وہاں کے رہنے والے اپنی یا اپنی اولاد کی شائستہ تربیت کے لئے موافق اور ساز گار ماحول نہیں رکھتے وہ اسی طریقہ سے استفادہ کرتے ہوئے جدید امکانات کو اپنے اہل وعیال اور خاندان کے افراد کے رشد و تغیرّ کے لئے فراہم کرسکتا ہے۔ اپنے یا اپنے اقرباء کے نا پسند ناموں کا تبدیل کرنا بھی اس خاص نفسیاتی ماحول کو نظر میں رکھتے ہوئے جو اسی سے پیدا ہوتا ہے تغییر موقعیت کے موارد میں شمار ہوتا ہے۔(١) ایسی نشست جس میں اخلاق کے خلاف اعمال کی روک تھام نہ ہوسکے اسے ترک کردینا چاہیے: ''مجرمین کے بارے میں وہ سوال کررہے ہوں گے: کس چیز نے تمہیں جہنم کی آگ میں جھونک دیا؟ وہ کہیں گے: ہم لوگوں کے برے کاموں میں شامل ہوجایا کرتے تھے۔(٢)

اسلام ایک مسلمان کے روزانہ کے معمول کی تعیین میں اسی طر یقہ اور روش سے مدد لیتا ہے اور اسے مذہبی مراکز جیسے مساجد میں مسلسل حاضر ہونے کی دعوت دیتا ہے یہ اسے خود ہی ایک قسم کی تغییر موقعیت ہے اگر چہ ہجرت شمار نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ ایک قسم کی اخلاقی تازگی اورشادابی انسان کو عطا کرتی ہے اور اسے ایک ہی طرح کے ماحول سے اور بسا اوقات روزانہ کے نا مساعد اور غیرموافق ماحول سے جدا کردیتی ہے۔

٢۔ ضرورتوں کو صحیح طریقہ سے پورا کرنا

ضرورتو ںکو صحیح طریقہ سے پورا کرنے سے مراد یہ ہے کہ ضروریات زندگی کو ایک متعادل حد تک اخلاقی تربیت دینے اور بالاتر ضرورتوں کی تکمیل کرنے سے پہلے پورا کیا جائے۔ سبب اور محّرک کے ا ثر کے پیش نظر جو کہ عمل کے اصول ومبادی میں سے ایک ہے، جب تک کہ انسان بھوک کے زیراثر یاجنسی میلان کے تحت تاثیر ہے یا کم از کم اپنی زندگی کیلئے کوئی پناہ گا ہ نہیں رکھتا، ایسا انسان اخلاق کی بلندیوں کی طرف قدم نہیں بڑھا سکتا۔

اسلامی تعلیمات میں یہ نکتہ مورد توجہ واقع ہوا ہے، سورئہ ''قریش '' میں خدا وند سبحان کی عبادت کی دعوت کا ذکر ان کی خوراک فراہم کرنے اور امنیت کے ذکر کے بعدہوتی ہے: '' لہٰذا انھیں چا ہیے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں، وہی ذات کہ جس نے انھیںبھوک سے نجات دی اورنا امنی سے انھیںرہائی دلائی''۔ ''فلیعبدو ا رب ھذا البیت الذی اطعمھم من جوع وآمنھم من خوف''۔(٣ )

____________________

(١) ان رسول ا للّہ کان یغےّرا لاسماء القبیحة فی الرجال والبلدان، وسائل الشیعہ، ج ١٥، ص ١٢٤۔

(٢)یتسائَ لون عن المجرمین ما سلککم فی سقر قالوا و کنا نخوض مع الخائضین ، سورئہ مدثر، آیت ٤٠ تا٤٥ ۔

(٣) سورہ ٔقریش، آیت ٣، ٤۔

۱۷۱

مندرجہ ذیل آیات میں غور خوص کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اخلاقی صفات، تقویٰ، شکر، اور عمل صالح وغیرہ انسان کی اوّلین ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد ذکر ہوئے ہیں:و کلوا مما رزقکم الله حلالاً طیبا واتقو الله ۔۔۔(١) ۔ اور جو کچھ خدا نے تمہیں حلال اور پاکیزہ رزق دیا ہے اس میں سے کھائو اور خدا سے درتے رہو....۔ ''یا ایا الذین آ منوا کلوا من طیبات ما رزقناکم واشکرو الله ۔۔ اے ایمان لانے والوں! جو ہم نے تمہیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اس میں سے کھائو اور خدا کا شکر ادا کرو....۔(٢) ''یاایھا الرسل کلو ا من الطیبات و اعملوا صالحا۔۔۔'' اے میرے رسولو! تم پاکیزہ غذائیں کھائو اور نیک عمل انجام دو.....۔(٣) پیغمبر اکرم نے حدیث ایک شریف میں زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے اثر کے سلسلہ میں اس سے بلند تر ضرورتوں پر نظرکرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے: '' اگر روٹی نہ ہوتی توہم نماز نہیں پڑھتے، روزہ نہیں رکھتے اور پروردگار کے واجبات کو ادا نہیں کرسکتے تھے ''۔(٤) اور دوسری جگہ پر فرماتے ہیں: ''قریب ہے کہ فخرو نا داری کفر و ناشکری کا سبب بن جائے '' ۔(٥) پیغمبر اکرم اور ائمہ طاہرین (ع) کی سیرت میں بھی ہم ملاحظہ کرتے ہیں آپ حضرات عملی طور پر محرومین کی طرف توجہ دیتے اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرتے تھے، شب کے سناٹے اور سردی اور گرمی کے موسم میں بھی ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتے تھے(٦) اور یہی بات انوارہدایت کے درک کرنے کے مقدمات ان کے لئے فراہم کرتی تھی۔ حتی کہ دشمنوں سے ملاقات کے موقع پر بھی صلاح وہدایت کی دعوت سے پہلے ان کی معاشی ضرورتوں کو پورا کرتے تھے۔

____________________

١۔ سورہ ٔما ئدہ، آیت ٨٨۔

٢۔سورہ ٔبقرہ ، آیت ١٧٢۔

٣۔ سورئہ مومنون، آیت ٥١۔

٤۔فلو لا الخبز ما صلینا ولا صمنا ولا ادینا فرائض ربنا عز وجل ۔ کا فی ،ج ٦، ص ٢٨٧۔

٥۔کاد الفقر ان یکون کفرا، کا فی، ج ٥، ص ٣ ٧۔

٦۔ الحیاة، ج ٣، ص ٢٣٢تا ٢٣٤ ملاحظہ ہو۔

۱۷۲

حضرت امام حسن ـکی سیرت نادان مخالفین کے ساتھ یہی انسانی روش اور سیرت تھی:

ایک شامی نے معاویہ کے ورغلانے پر ایک دن امام حسن کو گالی دی، امام نے اس سے کچھ نہیں کہا یہاں تک کہ خاموش ہو گیا، اس وقت آپ نے شیریں مسکراہٹ کے ساتھ اس کو سلام کیا اور فرمایا: '' بوڑھے آدمی! فکر کرتا ہوں کہ تو ایک پردیسی ہے اور خیال کرتا ہوں کہ تو راستہ بھول گیا ہے اگر مجھ سے رضایت طلب کرے گا تو تجھے رضایت دوں گا اور اگر کچھ ہم سے طلب کرے گا اور راہنمائی چاہے گا تو تیری راہنمائی کروں گا اور اگرتیرے دوش پر کوئی بوجھ ہے تو اسے اٹھا لوں گا اور اگر بھوکا ہے تو شکم سیر کردوںگا اور اگر محتاج ہے تو تیری ضرورت پوری کردوں گا، (خلاصہ ) جو کا م بھی ہو گا اسے انجام دیدوںگا اور اگر میرے پاس آئے گا تو بہت آرام سے رہے گا کہ مہمان نوازی کے ہر طرح کے وسائل و اسباب میرے پاس فراہم ہیں''۔

وہ شامی شرمندہ ہوگیا اور رو کر کہنے لگا: ''میں گواہی دیتا ہوں کہ روئے زمین پر آپ خدا کے جانشین ہیں، خدا بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کہاں قرار دے۔ آپ اور آپ کے والد میرے نزدیک مبغوض ترین انسان تھے لیکن اب آپ سب سے زیادہ محبوب ہیں ''بوڑھا آدمی اس دن امام حسن ـ کا مہمان ہوا اور جب وہاں سے گیاتو حضرت کی دوستی کا دم بھر نے لگا۔(١)

آبراھام مزلو ہیومینسٹ ماہر نفسیات نے آدمی کے اغراض واسباب کی طبقہ بندی کے لئے جدید طریقہ پیش کیا ہے، اس نے ضرورتوں کے ترتیب و ار سلسلہ کو پیش کیا کہ جو زندگی کی اساسی ضرورتوں سے شروع ہو تا ہے اور اس سے بالا تر سطحوں میں نفسیاتی اغراض واسباب تک پہونچ جاتا ہے وہ کہتا ہے: ''..... انسان کی با مقصد حیات میں تنظیم کی اہم اصل اساسی ضرورتوں کی ترتیب اولویت کے مراتب کے سلسلہ کی صورت میں کمتر یا بیشتر غلبہ کی قدرت کے ساتھ ہوتی ہے۔ وہ اہم محرّک جو اس تنظیم کا باعث ہوتی ہے وہ ضعیف تر ضرورتوں کا پیدا ہونا ہے جو کہ قوی تر ضرورتوںکو پورا کرنے سے ایک سالم انسان میں پائی جاتی ہے۔ جب بھی ضرورت زندگی پوری نہیں ہوتی، جسم پر غلبہ پا جاتی ہے اور تمام استعداد اور صلاحیتوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیتی ہے اور ان صلاحیتوںکو اس طرح منظّم کرتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ان سے استفادہ کرسکے۔ نسبی رضا مندی ان

____________________

١۔ بحار الانوار، ج، ٣ ٤، ص ٣٤٤۔

۱۷۳

ضرورتوں کو محو کردیتی ہے اور بعدکے سلسلہ میں مراتب کی ضرورتوں سے بلند مجموعہ کو موقع دیتی ہے کہ وہ ظاہر ہوں، شخصیت پر غلبہ پاکر انھیںمنظّم کریں اس طرح کہ، بھوک کا درد اٹھانے کے بجائے امن و سلامتی کے لئے پریشان ہو۔ یہ اصل سلسلہ مراتب میں ضرورتوں کے دوسرے مجموعوں یعنی محبت، احترام اور خود آگے بڑھنے اور ترقی کرنے پر بھی صادق ہے۔(١)

اسی وجہ سے محتاج سماج اوراجتماع میں علمی، ہنری اور اخلاقی تخلیق کم وجود میں آتی ہے۔

مزلوکا نظریہ ہے کہ سالم افراد بلند ضرورتوں کی طرف رخ کرتے ہیں، یعنی اپنی با لقوة استعدادوں کے عمل ہونے کے خواہشمند ہوتے ہیں اور آس پاس کی دنیا کو پہچاننا چاہتے ہیں۔ مقصد، بے نیاز کرنا، تجربہ حیات کی توسیع، سرور و شادمانی کا اضافہ اور زندہ ہونے کی تحریک ہے.... نیک اخلاقی صفات جن کو و ہ'' وجود میں اقدار ''سے تعبیر کرتا ہے اس موقعیت کی طرف رخ کرتے ہیں۔ بعض ہستی کی قدریں اس کی نظر میں یہ ہیں: حقیقت (بے اعتمادی بد گمانی اور تشکیک کے مقابل)، نیکی (نفرت کے مقابل)، کمال (ناامیدی اور بے معنی ہونے کے مقابل)، یکتائی (بے ثباتی کے مقابل)، نظم (عدم امنیت واحتیاط کے احساس کے مقابل )، خود کفائی ( ذمہ داری کو دوسروں کے حوالے کرنے کے مقابل )(٢) ۔

یہ نظریہ کہ انسان کمتر ضرورتوں کی طرف توجہ کئے بغیر یا ایک حد تک ان کی تکمیل، انسانی فضائل کی طرف قدم نہیں اٹھاتا، یہ سماج کے اکثر افراد کے بارے میں صادق آتا ہے۔

دو نکتوں کی طرف توجہ دیتے ہو ئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ '' ضرورتوں کو صحیح طور سے پورا کرنے کی روش ''اس بات کے علاوہ کہ دوسری روشوں کا مقدمہ ہے، خود اسے بھی ایک اخلاقی تربیت کی روش کے عنوان سے پیش کیا جاسکتا ہے۔پہلے یہ کہ ادنی ضرورتوںکو پورا کرنے سے بلند ترین ضرورتیں پیدا ہو تی ہیں، یعنی علّت وسبب کا جنبہ پیدا کرتی ہیں۔ عمل کے علّی اور سببی جنبہ کا وجود تر بیت اخلاقی کے ایک اہم حصہ کو منظّم کرتا ہے۔

____________________

١۔ انگیزش و ہیجان، ص ١٠١۔

۱۷۴

٢۔ اپنی جلوہ نمائی تحقق نفس تک ر سائی اور بالقوة توانائی کے لئے ذوقی تقارن خوبصورتی اور نظم تعارف، جاننا، سمجھنا، تلا ش کرنا، سنجیدگی، عزت نفس، کفایت، اجراء اور اصول تعلق و محبت کی ضرورت غیر سے وابستہ ہونا، سا لمیت کی ضرورت کی مقبولیت، امنیت کا احسا س اور خطرے سے دوری فیز یولوژیائی ضرورتیں، گرسنگی، تشنگی اور جنسی خواہشروانشناسی کمال، ص ١٢٥۔

دوسرے یہ کہ اس سے توانائیوں کو تخلیہ اورباطنی قوتوں کے اعتدال کے لئے آمادگی حاصل ہوتی ہے۔ جیسا کہ علماء اخلاق کے اخلاقی نظام میں ذکر ہوا ہے یہ نکتہ نہایت قابل توجہ اور اہمیت کا حامل ہے کہ سہ گانہ قوتیں شہوت، غضب، اور عقل، عدالت اور اعتدل کے سایہ میں ایک دوسرے کے ساتھ اکھٹا ہو جائیں۔ یہ رویہ یعنی اعتدال قوتوں کے استعمال کرنے میں تربیت اخلاقی کی ترقی میں ایک نا گزیر امر ہے۔

سید قطب الدین لکھتے ہیں: انسان کی تربیت کے لئے اسلام کے اسباب و وسائل میں ان ذمہ دارریوں سے چھٹکارا دلانا ہے جو کبھی کبھی جسم و جان میں اکھٹا ہوتی ہیں اسلام ان باروں اور ذمہ داریوں کو اکھٹا جمع نہیں کرتا مگر یہ کہ انھیں چھوڑنے کے لئے

۱۷۵

یکبارگی جمع کرے۔(١)

اس روش کے محقق ہونے کے لئے لازم طریقے یہ ہیں: معاشی نظام کی جانب توجہ، ازدواج، ورزش اور کام کاج ۔

الف ۔معاشی نظام کی طرف توجہ:

بہت سے اخلاقی جرائم کی بنیاد مال اور خوراک اور غذا کی کمی ہے۔ پہلے مرحلہ میں معاش کی فراہمی خانوادہ کے ذمہ ہے دوسرے مرحلہ میں حکومت کی ذمہ داریوں میں سے ہے نیز اس نظام کے ذمہ ہے جو سماج پر حکومت کررہا ہے اور تیسرے مرحلہ میں نیکو کا راور قدرت مند افراد کے ذمہ ہے۔ بہر صورت تربیت کرنے والوں کی تگ و دو اس مسئلہ کی نسبت تربیتی نقطہ نظر سے تربیت اخلاقی میں بہت سے موانع کو دور کرنے والی ہے۔

ب۔ ازدواج:

ازدواج کے تربیتی اور اخلاقی فوائد (جیسے خود خواہی و خود غرض سے دور ہونا، دوسروں کی خدمت کے لئے آمادگی اور ان کی طرف توجہ، عواطف و جذبات کا بار آور ہونا، محبتوں کا ثمر دینا اور ذمہ داری قبول کرنے کے لئے آمادگی وغیرہ وغیرہ ) کے علاوہ ازدواج کا اہم اور ابتدائی کردار غریزہ جنسی کی ضرورت کو فطری اور شرعی طریقہ سے صحیح طور پر پورا کرنا۔ اس نکتہ کی طرف توجہ کرنا چاہیے کہ ایسا جوان جس کا غریزہ جنسی شباب پر ہے اور ماحول کے بہت سے محرک بھی اس کے اندر اور زیادہ اس آگ کو بھڑکا رہے ہیں، وہ جوان سختی سے خود کو گناہ سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔(٢) پیغمبر نے فرمایا ہے : '' جب کوئی انسان شادی کرتا ہے تو اس کا نصف دین کامل ہو جاتا ہے لہٰذا بقیہ نصف کے سلسلہ میں اسے تقویٰ اختیار کرنا

____________________

١۔ روش تربیتی در اسلام، ص ٢٨٢۔

٢۔ مراد یہ ہے کہ جنسی غریزہ جوانوں کو زیادہ مشکلات سے دو چار کرتا ہے، نہ یہ کہ کلی طور پر تربیت اور اصلاح کا راستہ ہی بند کردے ۔

۱۷۶

چاہئے''۔(١) پیغمبر کے اس حکیمانہ ارشاد سے یہ نکتہ بھی قا بل استفادہ ہے کہ اللہ کا تقویٰ ا ور اخلاقی ورع، شادی کے بعد زیادہ آسان اور قابل حصول ہے۔

ج۔ورزش:

جسمانی ضرورتوں کو صحیح طور پر پوراکرنے میں اور جوانی کی قوتوں کی جلاء میں ورزش کا کردار قابل انکار نہیں ہے۔ اخلاقی تربیت میں ورزش کا کردار دو جہت سے قابل اہمیت ہے:

اول۔وہ جسمانی سلامتی اور فرحت کہ جو ورزش سے پیدا ہوتی ہے، روحی، ذہنی اور نفسیاتی سلامتی نیز اخلاقی فضائل کے لئے مقدمہ ہوتی ہے۔ ہماری تہذیب اور ثقافت میں قوت اورجوانمردی ہمیشہ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ رہی ہیں۔ ورزش اخلاقی توجیہ نبی اور ائمہ (ع) کی سیرت میںآتی ہے ۔ پیغمبر اکرم ایسے مردوں سے ملاقات کے وقت جو زور آزمائی کے لئے وزن اٹھا رہے تھے، فرماتے ہیں: ''لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر وہ انسان ہے جو خواہشات نفس پر غالب ہو''۔(٢) امیر المومنین ـ دعائے کمیل میں خدا سے جسمانی قویٰ کی تقویت کی درخواست خدمت الٰہی کے لئے کرتے ہیں،یارب.... قو علی خدمتک علی جوارحی ۔ اس کے مقابل کمزور اور پست افراد تربیت کے خلاف امور انجام دیتے ہیں۔دوسری جہت ۔ ضرورتوں سے توجہ ہٹانا ہے، بالخصوص جوانی کے زمانہ میں جنسی ضرورتیںاپنی تکمیل کا تقاضہ کرتی ہیں۔ ایسے حالات میں کہ ابھی جائز اور مشروع طریقہ سے صحیح طور پر جنسی خواہشات کی تکمیل کے امکانات فراہم نہیں ہوئے ہیں، ورزش ضرورتوں سے توجہ ہٹانے کا ایک مفید اور اہم ذریعہ ہے۔

د۔ کام:

کام کاج کے مسئلہ کو '' معاشی نظام کی طرف تو جہ '' کی بحث میں ذکر کیا جاسکتا ہے، لیکن چونکہ اس کا اسلام میں ایک خاص مرتبہ ہے، اور استاد مطہری کے بقول: کام اسلام میں ایک مقدس اور پاکیزہ شے ہے،(٣) نیز بہت سے تربیتی جہات اس میں پائے جاتے ہیں، لہٰذا ہم نے اسے جدا گانہ طور پر ذکر کیا ہے، ایک طرف کام صحیح طور پر قوتوں کی جلاء اور اضافی بار کے تخلیہ کاموجب ہوتا ہے اور دوسری طرف شخصیت کے احساس، ذہنی علاج، تمرکز خیال، ضرورتوں سے توجہ ہٹانے کا باعث ہوتا ہے، کہ یہ سب اخلاقی تربیت کے لئے معاون وسیلہ ہیں۔(۴)

____________________

١۔ اذا تزوج العبد فقد استکمل نصف الدین فلیتق اللہ فی نصف الباقی ۔ بحا ر الانوار، ج ٣ ١٠، ص ٢١٩۔''من تزوج فقد احرز نصف دینہ ، فلیتق اللہ فی النصف الباق''۔بحار الانوار ،ج١٠٣، ص٢١٩۔٢۔ اشجع الناس من غا لب ھواہ۔ میزان الحکمة، ج ١٠، ص ٣٨٧۔٣۔ تعلیم وتربیت در اسلام، ص ٤١١۔۴ ۔ ان جملوں کی طرف توجہ دینا مذکورہ بالا مطلب کی تائید میں موثر ہے: سقراط: ''دیانت کے بعد کام نیک بختی اور سعادت کا سرمایہ ہے''۔ پاسکال: '' تما م فکری اور اخلاقی برائیوں کی جڑ بے کاری ہے جو ملک بھی اس عظیم عیب کو بر طرف کرنا چاہتا ہے اسے لوگوں کو کام پر آمادہ کرنا چائیے تاکہ اس سے روحی سکون کہ جس سے معدودے چند افراد آگاہ ہیں، حاصل ہو ''۔ ساموئل اسمایلز: '' دیانت کے بعد انسان کی تربیت کے لئے کام سے بہتر کوئی مدرسہ تعمیر نہیں کیا گیا ہے ''۔ بحوالۂ تعلیم و تربیت در اسلام، ص ٤٣٠۔

۱۷۷

٣۔ ا حترام شخصیت کے طریقے

اخلاق اسلامی کی اساسی بنیاد انسان کا اپنی ذاتی کرامت اور شرافت کی طرف توجہ دینا ہے: ''یقینا ً ہم نے اولاد آدم کو کرامت سے نوازا ( انھیں عزت عطا کی ) ...اور انھیں اپنی بہت سی مخلوقات پر واضح فوقیت و برتری عطا کی۔(۱)

خود آگاہی اور اس بات کی طرف توجہ کہ انسان ایک بلند وبر ترمخلوق ہے اور اپنے اندر بے مثال اور قیمتی گوہر رکھتا ہے یہ بات اس کو (حبّ ذات کی بناپر) اپنی ذاتی کرامت کی حفاظت وپاسداری کے لئے دعوت دیتی ہے اور اخلاق کی بلند قدروں کی طرف کھینچتا ہے: ''اکرم نفسک عن کل دنےة و ان ساقتک الیٰ الرغائب فانک لن تعتاض بما تبذل من نفسک عوضا ً''(۲) اپنے نفس کو ہر طرح کی پستی سے پاکیزہ رکھو ! چاہے وہ پستی پسندیدہ اشیاء تک پہونچا ہی کیوں نہ دے کیونکہ جو اپنی عزّت نفس تم دوگے اس کی قیمت اور عوض تمہیں کبھی مل نہیں سکتا۔

'' انسان کی حقیقت'' چونکہ آسمانی قداست و پا کیزگی کی حامل ہے اور وہ علم، قدرت اور آزادی کے چشمہ سے سیراب ہوا ہے لہٰذا وہ جھوٹ، باطل، طبیعت کی اسیری، گراوٹ اور پستی و ذلت و شہوت اور جہل میں ہاتھ پاؤں مارنے کے مخالف ہے اسی وجہ سے ہوشیار انسان ہرطرح کے اخلاقی ر ذائل سے کہ جو اس کی عزت اور غیرت

____________________

۱۔لقد کرمنا بنی آدم...... و فضلناهم علی کثیرممن خلقنا تفضیلا ۔ سورئہ اسرائ، آیت ٧٠۔

۲ نہج البلاغہ، مکتوب ٣١۔

۱۷۸

سے منافات رکھتے ہیں، بیزار ہوتا ہے۔(١) اس کے مقابل ایک ایسا انسان جو ذلّت، پستی اور فرومایہ ہونے کا احساس کرے اور اپنے اندر پائی جانے والی عظیم شرافت پر یقین نہ رکھے، وہ ہر طرح کے نا پسند اخلاقی افعال کے ارتکاب سے بے پرواہ ہوتا ہے:اللئیم لا یستحی، اللئیم اذا قدر ا فحش واذا وعد اخلف، اللئیم لا یرجیٰ خیره ولا یسلم من شره ولا تؤمن غوائله، اللئیم مضاد لسائر الفضا ئل و جامع لجمیع الرذائل ۔( ٢) کمینہ شخص شرم نہیں کرتا، کمینہ جب قدرت پاتا ہے برائی کرتا ہے اور جب وعدہ کرتا ہے تو اس کے خلاف کرتا ہے، کمینہ سے خیر کی امید نہیں کی جا سکتی اور اس کے شر سے محفوظ نہیں رہا جا سکتا اور اس کے فسادوں سے بے خوف نہیں رہا جا سکتا، کمینہ تمام فضائل کا مخالف اور تمام رذائل کا حامل ہوتا ہے۔ من ھانت علیہ نفسہ فلا تامن شرہ۔(٣) جو انسان خود کو بے حیثیت سمجھتا ہو اس کے شر سے بے خوف نہ رہو۔

اس مطلب کی وضاحت نفسیاتی اعتبار سے خود انسان کے خیال واعتقاد سے ہماہنگ ہونا یا نہ ہونا ہے: اگر میں بے رحمانہ اور احمقانہ عمل کا مرتکب ہوں تو میری عزت نفس ملامت کا شکار ہوجائے گی۔ کیونکہ وہ عمل میرے ذہن کو اس امکان کی طرف متوجہ کرے گا کہ میں ایک بیوقوف اور ظالم انسان ہوں۔ سینکڑوں آزمائش کے درمیان کے عدم موافقت کے نظریہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ واضح ترین نتائج ایسے حالات میں حاصل ہوئے ہیں جو انسان کی عزت نفس سے مربوط ہیں، کیونکہ جس طرح امید کی جاتی ہے کہ جو افراد زیادہ عزت نفس کے مالک ہیں، اگر ان سے بے رحمانہ اور احمقانہ رفتار سرزد ہو جائے تو دوسروں سے زیادہ نا موافقت کا احساس کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی انسان معمولی عزت نفس رکھتا ہو تو کیا پیش آسکتا ہے؟ اگر ایسا انسان غیر اخلاقی اور احمقانہ عمل کا ارتکاب کرے تو زیادہ ناموافقت کا احساس نہیں کرے گا ...دوسری طرف وہ انسان جوزیادہ عزت نفس کا مالک ہے، غالباً وہ ایک برے عمل کے ارتکاب کے وسوسہ کے مقابل مقاومت کرتا ہے، اس لئے کہ بے برے کام اس کے اندر زیادہ سے زیادہ نا موافقت ایجاد کردیتا ہے۔(٤)

____________________

١۔ الصدق عزّ والکذب عجز، سچ عزت (کا سبب) ہے کتاریخ یعقوبی، ج ٢، ص ٢٤٦ ؛ الغیبة جھد العاجز، مازنی غیور قط،غیبت عاجز کی کوشش ہے، کسی غیرتمند نے کبھی زنا نہیں کیا ( نہج البلاغہ، ح ٢٩٧ ) ؛ الکذب والخیانة لیسا من اخلاق الکرام، جھوٹ اور خیانت اچھے اخلاق سے نہیں ہیں (غرر) وموت فی عز خیر من حیاة فی ذل ،عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر، (بحار الانوار، ج٤٤، ص ١٩٢)

٢۔ غرر الحکم، تیسری فصل، ص ٢٦٠۔

٣۔ بحار الانوار، ج ١٧، ص ٢١٤۔

٤۔ روانشناسی اجتماعی، ترجمہ شکرکن، ص ١٥٠ ، ١٥١ ۔

۱۷۹

اس وجہ سے اخلاقی تربیت کی ایک روش شخصیت کااحترام ہے یعنی ایسے امور کا انجام دینا کہ جن سے خود کو یقین ہو یا جس کی تربیت کی جارہی ہے اس کو اپنی قدروقیمت کا یقین حاصل ہو۔ ایڈلر، A ، y.adler جوکہ ایک فردی نفسیات کاموجد ہے اس نے احساس کمتری کو اپنے نظریہ کی اساس قرار دی ہے اور اسے علت اور تمام غیر معمولی رفتار کی علت اور سر چشمہ سمجھتا ہے۔احساس کمتری رنگین دھاگہ کے مانندجو نفسیاتی اختلال کے تمام حالات میں کھنچا ہواہے۔ ایک غصہ وریا بے صلاحیت بچہ سن رسیدہ ہوکر بھی نفسیاتی تعادل کی قوت نہیں رکھتا ہے۔ نفسیاتی مریض، مجرمین، جنسی منحرفین اور روحی بیمار سباپنی نا رسائی اور ضعف کے احساس کا رنج و الم برداشت کرتے ہیں۔ اور مسلسل شک وتردید اور گمراہی میں زندگی بسرکرتے ہیں اورایک معتمد ومستحکم مرکزتلاش کرتے ہیں...احساس کمتری طبیعی ارتقا کے لئے رکاوٹ بنتاہے(١) اور یہ اس وقت ہوتاہے کہ بچہ مکمل اس احساس میںغوطہ لگاتا ہے اور لاحاصل ہاتھ پاؤں مارنے کے باوجود خود کواس حالت سے نجات دینا چاہتا ہے، اس حالت میںبد گمانی اور وحشت احساس کمتری کی راہ کوکھول دیتی ہے اور بچہ نفسیاتی اختلال کا شکار ہوجاتا ہے، اس موقع پر ذہنی ونفسیاتی حرکت، سکو ن اور سکوت کا شکار ہوجاتی ہے ، اس معنی میں کہ بچہ پھر اپنے ضعف اور نقائص کو دور کرنے پر قادر نہیں ہوتاہے، ناچار اس کے علاوہ کوئی راہ نہیں رکھتا کہ خیالی تعادل بخشنے(جھوٹی تلافی) سے خود کو ماحول کے حوالے کردے۔(٢)

احساس کہتر نامی کتاب میں، ایڈلر کے نظریہ کی توضیح کے سلسلہ میں جو احساس کمتری سے پیدا شدہ زندگی کی روش کی اس طرح منظر کشی کرتے ہیں: احساس کمتری درجہ کیفیت اور سب سے پہلے نتیجہ کے اعتبار سے جو اس سے تجربے کے ضمن میں حاصل ہوتا ہے، انسان کے طرز زندگی کی تعیین کرتی ہے۔ یہاں پر تین اساسی ساز وسامان اور اس کے بعد تین طرز زندگی کو مشخص کیا جاسکتاہے ، طبیعی جبران کا سازو سامان، گریز وناامیدی کا ساز و سامان اور خیالی جبران کاساز وسامان۔

١۔ طبیعی تلافی:

یہ تلافی ایک نتیجہ خیز اساسی روش کے پایہ پر استوار ہے کہ جو نفسیاتی محوروں کی واقعی تعیین کرتا ہے، مثال کے طور پر ایک حادثہ کا شکار انسان کہ جو جسمی اور عضوی نقص رکھتا ہے، اسے صحیح کرنے یا مرکزی اعصبابی مشین اور دیگر اعضاء کے وسیلہ سے اسی ایک تلافی کی طرف رہنمائی کی جاتی ہے۔

____________________

١۔ ایڈلر: روانشناسی فردی، ترجمہ حسن زمانی، ص ٥٩۔

٢۔ ایضاً، ص٥٧۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945