تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 6%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 247231 / ڈاؤنلوڈ: 3404
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۰

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

 اب  انکے ظہور سے پہلے اگر تم اس دنیا فوت کر  جاۓ تو  یہی معرفت تمھار ی نجات اور سعادت کا باعث بنے گی تو پھر تمھارے لیۓ کیا نقصان کہ وہ ظہور کرۓ یا نہ کرۓ ،  لیکن یہ اسکے لیۓ نقصان ہے جو اپنے امام کی معرفت نہ رکھتا ہے  -

اسی طرح فضیل بن یسار  نے امام محمد باقر      سے  روایت کی ہے:يَقُولُ مَنْ مَاتَ وَ لَيْسَ لَهُ إِمَامٌ فَمِیتَتُهُ مِیتَةُ جَاهِلِيَّةٍ وَ مَنْ مَاتَ وَ هُوَ عَارِفٌ لِإِمَامِهِ لَمْ يَضُرَّهُ تَقَدَّمَ هَذَا الْأَمْرُ أَوْ تَأَخَّرَ وَ مَنْ مَاتَ وَ هُوَ عَارِفٌ لِإِمَامِهِ كَانَ كَمَنْ هُوَ مَعَ الْقَائِمِ فِی فُسْطَاطهِ  ” (1) آپ فرما تے ہیں جو شخص اس حالت میں مرۓجبکہ وہ اپنے امام کو نہیں پہچانتا ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا ہے ،اور وہ شخص جو اس دنیا سے چلے جاۓ جبکہ وہ اپنے امام زمانہ       کی صحیح معرفت رکھتا ہو تو  امام زمانہ کے ظہور  میں تاخیر اسے نقصان نہیں دے گا ،اور جو شخص مر جاۓ جبکہ اپنے امام کی معرفت کے ساتھ مر ۓ تو گویا  و ہ  اپنے امام کے ہمراہ  جہاد میں انکے خیمے میں ہے  -”

اسی طرح کسی اور حدیث میں جناب شیخ صدوق نقل فرماتے ہیں :ولا یکون الإیمان  صحیحا ً إلاّ من بعد علمه بحال من یؤمن به، كما قال اللّه تبارك وتعالی ” إلاّ من شهد بالحق وهم یعلمون (2) “  فلم یوجب لهم صحة ما یشهدون به إلاّ من بعدعلمهم ثم كذلك لن ینفع ایمان من آمن بالمهدی القآئم علیه السلام حتی یكون عارفاً بشأنه فی حال غیبته (3) کسی مؤمن کا ایمان اس وقت تک صحیح نہیں ہوتا جب تک جس چیز پر ایمان رکھتا ہے اس کے بارے میں پوری شناخت  نہیں رکھتا ہوں “جس طرح خدا وند متعال کا ارشاد ہے  الاّ من شہد بالحق وہم یعلموں  مگر ان افراد کے  جو علم و شناخت کے ساتھ حق کی گواہی دیں پس حق پر گواہی دینے والوں کی  گواہی قبول نہیں ہو گی مگر یہ کہ وہ  علم  رکھتا ہو ۔اسی طرح مہدی قائم عجل اللہ   پر ایمان رکھنے والوں کا ایمان انھیں فائدہ نہیں دے گا 

--------------

(1):- کلینی: اصول الکافی:ج۱ “ص۳۷۲ 

(2):- زخرف :۸۶ - 

(3):- صدوق :کمال الد ین اتمام النعمة :ج 1 ص 19

۴۱

(یعنی انکے ظہور اور قیام پر   اجمالی ایمان اور انکے ظہور کا انتظار انھیں فائدہ نہیں دے گا )مگر انکی غیبت کے دوران  انکے متعلق اور انکی شان ومنزلت کےبارے میں صحیح معرفت رکھتا ہو ۔

اور اما م زمانہ کی معرفت کے لیے بعض چیزون کو جاننا ضروری ہے  ان میں سے بعض اہم موارد یہاں ذکر کرتے ہیں کہ ان امور کو جانے بغیر کسی امام کی معرفت کامل اور مفید واقع نہیں ہو سکتی

ا: آپ کائنات کی پہلی مخلوق ہیں

 صحیح  روایات  سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام زمانہ   ا ورسول اکرم(ص) اور دیگر بارہ معصومینؑ کے پاکیزہ انوار کو اﷲ تعالی نے  کائنات کی تمام مخلوقات سے پہلے خلق فرمایا ہے چناچہ نبی اکرم (ص)  اس بارے  آنحضرت میں فرماتا ہے

لما اسری بی الی السماء ........  (1)   جس رات مجھے آسمان کی سیر لے جایا گیا تو عرش پر میری نظر  پڑی کہ وہاں لکھا ہوا تھا“لا إله الاّ اﷲ محمد رسول اﷲ  أیده بعلی....” اﷲ کے سواء کوئی معبود نہیں ہے محمؐد اسکے رسول ہیں اور علی ؑکے زریعے ہم نے انکی تایئد کی ہے ،اور میں نے عرش پر علی ؑوفاطمہؑ اور باقی گیارہ معصومینؑ کے  مقدس انوار کو دیکھا جنکے درمیان حضرت حجتؑ  کا نور کوکب درّی  کی مانند درخشان اور چمک رہا تھا  میں نے عرض کیا پروردگار یہ کس کا نور ہے ، اور وہ کن کے انوار ہیں ؟ آواز آئی یہ تیرے فرزندان ائمہ معصومینؑ کے انوار ہیں اور یہ نور حجت خدا ؑ کا نور ہے جو زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی ۔

--------------

(1):- سید ہاشم بحر ینی :مدینة  المعاجز ص ۱۵۳ -  

۴۲

اسی طرح امیر المومنین       فرماتے ہیں رسول خدا (ص)نے مجھ سے فرمایا :لما عرج بی إلی السماء.......   فقلت یا رب و من أوصیائی فنودیت یا محمد أن أوصیاءك المكتوبون علی ساق العرش فنظرت و أنا بین یدی ربی إلی ساق العرش فرأیت اثنی عشر نورا فی كل نور سطر أخضر مكتوب علیه اسم كل وصی من أوصیائی أولهم علی بن أبی طالب و آخرهم مهدی أمتی (1)    “ جب مجھے آسمان کی سیر پر لے جایا گیا .....تو میں نے عرض کیا پروردگارا کون ہیں میرےاوصیا ،   ندا آئی یا محمد(ص)  تمھارے اوصیا کے نام ساق عرش پر لکھے گیے  ہے میں نے  عرش کی طرف نظر کی تو گیارہ  انوار ایسیے دیکھا ہر نورمیں ایک سبز لکیر  ہے جس پر میرے ہر ایک وصی کے اسم  گرامی  لکھاگیا ہے سب سے پہلے علی ابن ابی طالبؑ  کا اسم گرامی اور آخر میں میری امت کا مہدیؑ  کا نام تھا -

ب :آ پؑ خالق ومخلوق کے درمیان واسطہ فیض ہیں

بعض روایات کے روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ امام زمانہ واسطہ فیض وبرکت ہیں ۔جناب شیخ مفیدابن عباس کے واسطے رسول خدا (ص) سے نقل کرتے ہیں :قال رسول الله ص ذكر الله عز و جل عبادة و ذكری عبادة و ذكر علی عبادة و ذكر الأئمة من ولده عبادة و الذی بعثنی بالنبوة و جعلنی خیر البریة إن وصیی لأفضل الأوصیاء و إنه لحجة الله علی عباده و خلیفته علی خلقه و من ولده الأئمة الهداة بعدی بهم یحبس الله العذاب عن أهل الأرض و بهم یمسك السماء أن تقع علی الأرض إلا بإذنه و بهم یمسك الجبال أن تمید بهم و بهم یسقی خلقه الغیث و بهم یخرج النبات أولئك أولیاء الله حقا و خلفائی صدقا عدتهم عدة الشهور و هی اثنا عشر شهرا..... (2)

--------------

(1):- صدوق :  کمال الد ین ج : 1 ص : 25 ۶   

(2):- شیخ مفید :الاختصاص ص :۴ 22 

۴۳

 آنحضرت(ص) نے فرمایا :اﷲکا  ذکر  اور میرا ذکر عبادت ہے ،اور علیؑ کا ذکر اور انکے فرزندان ائمہؑ کا ذکر بھی عبادت ہے ، قسم اس ذات کی جس نے مجھے نبوّت پر مبعوث کیا  ہے-......... اور میرے بعد علی ابن ابی طالبؑ اور انکے فرزندان ائمہ ھداء ؑ ہونگے انھیں کے واسطے ض        اﷲ تعالی اہل زمین سے عذاب کو ٹال دے گا  اور انھیں کی برکت سے آسمان  ٹوٹ کر زمین پر آنے سے بچا لے گا ،اور انھیں کی خاطر پہاڑوں کو بکھر جانے نہیں دے گا  اور انھین کے طفیل سے اپنی مخلوقات  کو باران رحمت سے سیراب کرے گا اور زمین سے سبزہ نکالے گا ،وہی لوگ ہیں جو اﷲ کے حقیقی دوست اور جانشین ہیں نیز امام علی ابن حسین  فرماتے ہین: وَ بِنَا يُمْسِكُ الْأَرْضَ أَنْ تَمِیدَ بِأَهْلِهَا وَ بِنَا يُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَ تُنْشَرُ الرَّحْمَةُ وَ تَخْرُجُ بَرَكَاتُ الْأَرْضِ وَ لَوْ لَا مَا فِی الْأَرْضِ مِنَّا لَسَاخَتْ‏ بِأَهْلِهَا (1)   ہمارے ذریعہ سے زمین اپنی  اہل کے ہمراہ پابرجا ہے اور ہمارے ذریعہ سے آسمان بارش برساتا ہے اور اسکی رحمتین پہیل جاتی ہین اور زمین سے برکات نکل آتی ہین اسی طرح دعاے عدلیہ کا فقرہ ہے جس میں آیا ہے :“ثم الحجة  الخلف القائم المنتظر المهدی المرجی .....ببقائه بقیت الدّنیا وبیمنه رُزق الوری وبوجوده ثبتت الأرض والسماء وبه یملاء اللّه الأرض قسطاً وعدلاً بعد ما ملئت ظلماً وجوراً ” میں گواہی دیتا ہوں انکے فرزند حجت خدا وجانشین واما م ؛ قائم منتظر مہدی  عجل اللہ فرجہ جن کے ساتھ عالم کی اُمید وابستہ ہے  انکے  وجود سے دنیا باقی ہے اور انکی برکت سے مخلوق روزی پارہی ہے ،اور انکے وجود سے زمین وآسمان قائم ہیں اور انھیں کے زریعے خدا  زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گا جب کہ وہ ظلم  وجور سے بھر چکی ہو گی

پس ان روایات کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ اس دور میں امام زمانہ خالق ومخلوق کے درمیاں واسطہ فیض ہیں اور انکے واسطے سےزمیں وآسمان اپنی جگہ ثابت اور حرکت میں ہیں اور انکے واسطے سے تمام مخلوقات تک رزق پہنچتی ہے ۔

--------------

(1):-  کمال الد ین و تمام النعمة / ج 1 / 207 / 21 ص : 201

۴۴

ج: آپؑ کی معرفت کے بغیر خداکی معرفت کامل نہیں ہے 

امام حسین          سے خدا کی معرفت کے بارے میں پوچھا  گیا تو حضرت نے فرمایا :“معرفة اهل كلّ زمان امامهم الذّی یجب طاعته” (1)   ہرزمانہ میں لوگوں کے اپنے امام کی معرفت مراد ہے جنکی اطاعت  کو لوگوں پر  واجب کیا ہے  -اسی طرح امام محمد باقر نے فرمایا : “انما یعرف اللّہ عزوجل ویعبدہ من عرف اللّہ وعرف امامہ منّا اہل البیت“  ؛صرف وہ شخص خدا کی معرفت حاصل کر سکتا ہے اور اسکی عبادت کر سکتا ہے جس نے اﷲ اور ہم اہل بیت ؑمیں سے اپنے اما م کو  پہچان لیا ہو  یا اہل بیت اطہار ؑکی امامت کا انکار کو کفر سے تعبیر کیا ہے (یعنی خدا کے انکار )  اگر چہ  وہ شخص کلمہ گو ہی کیوں نہ ہو  -جیسا کہ چھٹے امام  سے روایت ہے  آپ فرماتے :“من عرفنا كان مومنا ومن انكرنا كان كا فراً (2)   جس نے ہماری معرفت حاصل کرلی وہ مومن ہے اور جس نے ہمارا انکار کیا وہ کافر ہے -اسی طرح بعض روایت میں آیا ہے کہ امام خدا اور مخلوقات کے درمیان پرچم ہدایت ہے لہذا انکی معرفت کے بغیر اﷲ تعالی کی معرفت ممکن نہیں  ہے -

د: آپ تمام انبیاء ؑکے کمالات کا مظھر ہیں

متعدد روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ولی عصر عجل اﷲ فرجہ الشریف کی شخصیت جامع ترین شخصیت ہے اور آپ میں تمام انیباء کےکمالات پائے جاتے ہیں جس طرح آپکے آباواجداد کی ذوات مقدسہ تمام گذشتہ انبیاء کے کمالات کی حامل تھی سلمان فارسی نے آنحضرت(ص) سے روایت نقل کہ ہے آپ فرماتے ہیں :

--------------

(1):- مجلسی : بحار انوار، ج ۸۳ ،ص ۲۲ -

(2):- کلینی: کافی،ج 1 ، 181 - 

۴۵

 عَنْ سَلْمَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص الْأَئِمَّةُ بَعْدِی اثْنَا عَشَرَ عَدَدَ شُهُورِ الْحَوْلِ وَ مِنَّا مَهْدِيُّ هَذِهِ الْأُمَّةِ لَهُ هَيْبَةُ مُوسَی وَ بَهَاءُ عِیسَی وَ حُكْمُ دَاوُدَ وَ صَبْرُ أَيُّوبَ. (1)   میرے بعد بارہ امام  سال کے بارہ مہینوں کے برابر امام ہونگے اوراس امت کا مہدیؑ بھی ہم سے ہی ہوگا جس میں موسی کی ہیبت ،عیسی کی عزت وبہاء،داود کی قضاوت ،اور ایوب کا صبر سب موجود ہو گا

اسی طرح چھٹے اما  م        فرماتے ہیں :إنّ قائمنا اهل البیت علیهم السلام اذا قام لبس ثیاب علی وسار بسیرة علی علیه السلام   (2) ہمارے قائم جب قیام کریں گۓ  تو اپنے جد علی علیہ السلا م کے لباس زیب تن کریں گۓ  اور انکی سیرت پر چلین گے

کسی اور روایت میں امام رضا  (ص) انکی  مثالی شخصیت کے بارے میں فرماتے ہیں :للإمام‏ علامات یكون أعلم الناس و أحكم الناس و أتقی الناس و أشجع الناس و أسخی الناس و أعبد الناس (3)   حضرت ولی عصر        لوگوں میں سب سے زیادۃ  دانا ؛حلیم ، بردبار اور پرہیزگار ہونگے وہ تمام انسانوں سے زیادہ بخشش کرنے والا؛  عابد اور عبادت گزار  ہونگے ” 

ھ: آپ تمام انبیاء اور ائمہ کی اُمیدوں کو  زند ہ کریں گے

 قرآن مجید نے مختلف مقامات پر واضح طور پر بیاں کیا ہے کہ پروردگار عالم نے تمام انبیاء کو دو بنیادی مقصد کے خاطر بیجھے ،ایک شرک و بت پرستی کو صفحہ ھستی سے مٹاکر تو حید ویکتا پرستی کو رائج دینے اور دوسرا یہ کہ سماج سے ظلم وتربریت کی ریشہ کنی کرکے اسکی جگہ عدل و  پاکدامنی کو رواج دینا تھا  -لیکن ہم دیکھتے ہیں اب تک روۓ زمین پر یہ مقصد تحقق نہیں پایا ہے

--------------

(1):- کل ین ی: کافی،ج1 ،ص 181 - 

(2):- صافیگلپائ ی گانی: منتخب الاثر فصل ۱ ص ۲۶ -    علیبن محمد خزاز قم ی: کفا یةالاثر ص : 4 

(3):- مجلسی :مرآۃ العقول ج ۴ ص ۳۶۸ - 

۴۶

جبکہ تمام علماء ،دانشور حضرات اس بات پر متفق ہیں کہ تمام انبیاء کے بعثت کا مقصد اور ہدف حضرت ولی عصر ارواحنا لہ الفداء ؑکے مبارک ہاتھوں سے انکے  آفاقی قیام کے ساۓ میں تحقق پاۓ گا،اورانھیں کے  زریعے کفر وشرک کا ریشہ خشک ہو جاۓ گا ،اور ظلم بربرییت کے اس  تاریک دورکا خاتمہ ہو کر عدل وتوحید کا سنہری دور پورے زمین پر غالب آۓ گا - چناچہ سورہ توبہ کے ۳۲ اور ۳۳ آیات کے ذیل میں تمام شیعہ مفسرین نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے اور وہ  آیہ مبارکہ یہ ہے :يُرِیدُونَ أَن يُطْفُِواْ نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَ يَأْبىَ اللَّهُ إِلَّا أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَ لَوْ كَرِهَ الْكَفِرُونَ٭ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنے منہ سے پھونک  مارکر بجھا دیں حالانکہ خدا اس کے علاوہ کچھ ماننے کے لۓ تیار نہیں ہے کہ وہ اپنے نور کو تمام کردے چاہیے کافروں کو یہ کتنا  ہی بُرا کیوں نہ لگے- هُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَی‏ وَ دِینِ الْحَقّ‏ِ لِيُظْهِرَهُ عَلىَ الدِّینِ كُلِّهِ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُون٭   خدا وہ ہے جس نے اپنے رسول(ص)  کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بناۓ چاہیے مشرکین کو کتنا ہی نا گوار  کیوں نہ ہو ۔

ان قرآنی آیات اور روایات کی روشنی میں آپکی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے ، کہ آپکی شخصیت تنہا وہ ذات ہیں جو انبیاء وائمہ ؑکی کوششوں کو نتیجہ خیز بنائیں گی اور تمام آسمانی رہبرون کی اُمیدوں کو تحقق بخشیں گے  اسی طرح پیغمبر اعظم (ص)انکے وجود اقدس کی برکت سے مؤمنین کے تشفی قلوب اور دلی تمناوں کے(جو کہ   حقیقت میں تمام  انبیاء اور ائمہ علیہ السلام کی بھی دلی آرزو تھی)  پورا ہونے وآپکے  علمی مقام  و  آپکے آنحضرت (ص)کے ساتھ نسبت اور آپ سے دشمنی رکھنے والوں اور تکلیف پہنچانے والوں کی سوء عاقبت  بیان کو  کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔قال رسول الله ص الأئمة بعدی اثنا عشر ثم قال كلهم من قریش ثم یخرج قائمنا فیشفی صدور قوم مؤمنین إلا أنهم أعلم منكم فلا تعلموهم ألا إنهم عترتی من لحمی و دمی ما بال أقوام یؤذونی فیهم لا أنالهم الله شفاعتی (1)

--------------

(1):- محقق طبرسی :الاحتجاج ج : 2 ص : 437 

۴۷

 رسول ﷲ(ص) نے فرمایا : میرے بعد بارہ امام ہونگے ؛ پھر فرمایا سب کے سب قریش سے ہونگے پھر ہمارے قائم ظہور کریں گے جسے مؤمنین کے دلوں کو تشفی ملے گی ؛ لیکن یاد رکھنا وہ (یعنی بارہ امام )تم سے بہتر اور  زیادہ علم رکھتے ہیں ؛کبھی انھیں سمجھانے کی کوشش نہ کرنا ! خبر دار !وہ لوگ میری عترت ؛میرے گوشت اور خون سے ہیں  کیا حال  گا ان قوموں کا  جومجھے اذیت دے ان کے حق میں خدا انھیں میری شفاعت نصیب نہ کرے    ۔

  اسی لیے روایت میں آیا ہے کی انکی معرفت اور اطاعت رسول اﷲ(ص) کی اطاعت اور معرفت ہے اور انکے  ظہور کا انکار نبی اکرم(ص) کی  رسالت کے   انکار کرنے کا برابر ہے اگر چہ وہ شخص مسلمان ہو نے کی بنا پر انکی نبوّت کا اعتراف ہی کیوں نہ کرے ،چنانچہ آپ(ص) فرماتے ہیں :قال رسول الله ص القائم من ولدی اسمه اسمی و كنیته كنیتی و شمائله شمائلی و سنته سنتی یقیم الناس علی ملتی و شریعتی یدعوهم إلی كتاب الله ربی من أطاعه أطاعنی و من عصاه عصانی و من أنكر غیبته فقد أنكرنی و من كذبه فقد كذبنی و من صدقه فقد صدقنی إلی الله أشكو المكذبین لی فی أمره و الجاحدین لقولی فی شأنه و المضلین لأمتی عن طریقته وَ سَيَعْلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ‏:. (1)   قائم میرا  فرزند  ہے انکا نام میرے نام پر انکی کنیت میری کنیت پر انکے شکل وشمائل میری شکل وشمائل جیسی ہوں گی اور انکی سنت میری سنت  پر ہوگی لوگوں کو میرے دین اورمیری شریعت پر پلٹا دیں گے   انھیں میرے پروردگار کی کتاب کی طرف دعوت دیں گے جو انکی اطاعت کرے اس نے میری اطاعت کی ہے اور جو انکی نافرنانی کرۓ اس نے میری نافرمانی کی ہے ،اور جو انکی غیبت کا انکار کرۓ اس نے مجھے انکار کیا ہے اور جو انھیں جھٹلائے اس نے مجھے جھٹلایا ہے اور جس نے انکی امامت اور غیبت کی تصدیق کرۓ اسنے میری رسالت کی تصدیق کی ہے....

--------------

(1):- علیبن محمد خزاز: کفا یةال اثر ص : 45  

۴۸

اس جیسے بہت سارے روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انکی معرفت اور اطاعت نہ صرف رسالت مآب(ص)  کی معرفت  اور اطاعت ہے اور  انکا  انکار نہ صرف آنحضرت (ص)کی رسالت کا انکار ہے بلکہ وعدہ  الھی کا انکار ہے ،ُمقصد خلقت بشر یت جو کہ عبادت کاملہ کے پورے انسانی معاشرے میں وجود میں لانا ہے اس مقصد کا انکار ہے

اور دوران غیبت میں ہمارا معاملہ دو مطلب سے خارج نہیں ہے یا یہ کہ ہم کلی طور پر امام زمانہ سے  بے گانہ اور اجنبی ہو جائین تو اس صورت میں کل قیامت کے دن میں ہمیں اپنی  حسرت کی انگلی مہنہ میں لیتے یہ کہنا ہو گا(یا حسرتا  !علی ما فرّطنا فیها ) اے کاش ہم نےاس بارے میں کوتا ہی نہ کیا ہو تا ! ،یا تھوڑی بہت معرفت اور آشنائی امام کی اپنی اندر پیدا کریں ۔

اورامام زمانہ کی یہ معرفت جسے ہم نے مختصر انداز میں بیاں کیا آپ کی شکل وصورت دیکھے بغیر بھی حاصل کی جاسکتی ہے ، لہذا ایک  مؤمن منتظر کی سب سے بڑی ذمہ داری اپنے وقت کی امام اور حجت خدا کی معرفت اور پہچان ہے کہ جسکے وجود کے بغیر زمین ایک لحظہ بھی اپنی جگہ ثابت نہیں رہ سکتی  ”لو خلت الأرض ساعة واحدة من حجة اللّه ،لساخت بأهلها“ (1)    اور بھی بہت سی روایات ہر زمانے  میں امام زمانہ کے موجود  ہونےکی ضرورت پر  دلالت کرتی ہیں  

۲: امام مہدی ؑ کی محبت

معرفت کا  لازمہ محبت ہے  یہ اس معنی میں کہ جب تک انسان کسی چیز کے بارے میں مکمل شناخت نہیں رکھتا اور اسکی خصوصیات کے بارے میں صحیح علم نہیں رکھتا  اور  اسکی عظمت وفضائل اسکے      مقام و منزلت سے بے خبر ہو اس وقت اسکے ساتھ اپنے لگاو کا اظہار نہیں کرسکتا اور نہ ہی اسکے اپنے دلی رابطہ اور علاقہ پیداکر سکتا  ہے لیکن اس کے بر عکس انسان جس قدر کسی چیزکی عظمت ؛ خصوصیات ؛  فضائل اور حقیقت سے واقف ہو جاۓ تو خود بخود اسکی محبت اسکے دل میں آجاتی ہے ،اور اسکی طرف توجہ بڑھتی چلی جاتی ہے 

--------------

(1):- صدوق : کمال الد ین ج : 2 ص : 4 ۱۱-: اعلام الور ی          425   -

۴۹

اور دلی رابطہ روز بروز اوردن بہ دن بڑھتا  اور مظبوط ہوتا جاتا ہے -اور خدا ورسول (ص)اور ائمہ اطہار ؑ کی محبت وہ شمع ہے جو انسان کے تاریک دلوں کو پاک  و منور کر دیتا ہے ، اور انسانوں کو گناہوں ؛برائیوں سے  نجات دیتا ہے کیونکہ معرفت محبت کا ستوں ہے اور محبت گناہوں سے بچنے کا عظیم ذریعہ اورتہذیب وتزکیہ نفس کی شاہراہ ہے لہذا وایات معصومین میں زمانہ غیبت کے دوران  امام عصر ارواحنا لہ الفدء کی محبت پر خاص  توجہ دینے پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے چناچہ رسول اکرم(ص)   فرماتے ہیں  :“خداوند متعال نے شب معراج مجھ پر وحی کیا : اےمحمدؐ ! زمین پر کس کو اپنی  امت پر اپنا جانشین بناکے آیاہے ؟ جبکہ خالق کائنات خود بہتر جانتے تھے ،میں نے کہا پروردگارا اپنے بھائی علی ابن ابی طالب       کو اچانک میں نے علی ابی طالب     .......اور حجت قائم          کو ایک درخشان ستارے کی مانند انکے درمیان دیکھا عرض کیا پروردگارا یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ تمھارے بعد ائمہؑ ہیں اور یہ قائم ہے جو میرے حلال کو حلال اور حرام کو حرام کر دے گا اورمیری دشمنون سے انتقام لے گا .اے محمد ! اسے دوستی کرو کیونکہ  میں انکو اور ان سے دوستی رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہوں  

پس اگر چہ تمام  معصومین کی محبت واجب ہے لیکن اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حجت کی محبت خاص اہمیت اور خصوصیت کے حامل ہے  اسیلۓ  آٹھویں امام ؑ اپنے آباء و اجداد کے واسطے امام علی علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا:قال لی أخی رسول اللّه ..........ومن أحبّ ان یلقی اللّه وقد كمل ایمانه وحسی اسلامه فلیتولّ الحجة صاحب الزّمان المنتظر .. (1)   ”مجھ میرے بھای رسول خدل (ص)نے فرمایا جو شخص اﷲ تعالی سے مکمل ایمان اور نیک اسلام کے ساتھ ملاقات کا خوہاں ہے تو اسے چاہے کہ حضرت حجت صاحب الزمان         کی ولایت کے پرچم تلے آجاۓ اور انھیں دوست رکھےّ لہذا منتظرین کی دوسری سب سے بڑی ذمہ داری امام عصر ارواحنا لہ فداء کی محبت کو اپنے اندر بڑھانا ہے اور ہمیشہ انکی طرف متوجہ رہنا ہے ، اور اسکے لیے مختلف ذریعے بیاں ہوۓ ہیں ،ہم یہاں پر  چند اہم موارد احادیث معصومین کی روشنی میں بیاں کرتے ہیں ۔

--------------

(1):-  کاف ی:ج1 ،ص179 اور الغ یبة ،نعمان یص 141  اور ک فایة الاثر ص 162 - 

۵۰

الف: امام مہدی ؑکی اطاعت اور تجدید بیعت 

امام زمانہ           ہ  کی محبت کے من جملہ مظاہر اور اثار میں سے ایک ؛ حضرتؑ کی اطاعت پر ثابت قدم رہنا اور انکی بیعت کی ہمیشہ تجدید کرنا ہے ، اور یہ جا ننا چاہیے کہ امام اور رہبر اسکے ہر چھوٹے بڑے کاموں  سےمطلع اوراسکے   رفتار وگفتار کو دیکھتے ہیں،اسکے  اچھے اور نیک کاموں  کود یکھ کر انکے  دل میں سرور آجاتاہے جبکہ اسکے  برے اور ناشائستہ کاموں کو دیکھ کر  انکو دکھ ہو تاہے ،اور دل غم وغصے سے بھر جاتا ہے اور یہ بھی معلوم ہونا چاہے کہ انکی رضا خدا  او رسول(ص) کی رضا ہے اور انکی کسی پر ناراضگی خدا و رسول(ص) کی ناراضگی  ہے ،اور میرا  ہر نیک عمل ہر اچھی گفتار اور ہر مثبت قدم اطاعت کی راہ میں روز موعود کو نزدیک کرنے میں مؤثر ثابت ہو گا ،اسی طرح میرا اخلاص ،دین ومذہب اور اہل ایمان کی نسبت میرا احساس مسؤلیت؛  انکے ظہور میں تعجیل کا سبب بنے گا ۔ اور یہ بھی جاننا چاہیے کہ  اما م  زمانہ ؑ کی اطاعت صرف اور صرف پیغمبر اکرم (ص)کی اطاعت اور انکے لاۓ ہوۓ دین کی مکمل  پیروی سے  حاصل ہوتا ہے ،اور جب تک عملی میدان میں اطاعت نہ ہومحبت ومودت معنی ہی نہیں رکھتا یا اگر اجمالی محبت دل میں ہو تو اسے آخری دم تک اطاعت کے بغیر محفوظ رکھنا بہت ہی دور کی بات ہے چناچہ عربی ضرت المثل مشہور ہے(وانت عاصیُ           ُ إنّ المحبَ لمن یحبُّ مطیعُ) یہ ساری نافرمانی اور سر پیچدگی کے ساتھ تم کس طرح اپنی محبت کا اظہار کرتے ہو جبکہ جو جسے محبت کرتا ہے ہمیشہ اسی کا اطاعت گزار ہوتا ہے۔

اسیلۓ صادق آل محمد        د فرماتے ہیں: مَنْ سُرَّ أَنْ يَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ الْقَائِمِ فَلْيَنْتَظِرْ وَ لْيَعْمَلْ بِالْوَرَعِ وَ مَحَاسِنِ الْأَخْلَاقِ وَ هُوَ مُنْتَظِرٌ فَإِنْ مَاتَ وَ قَامَ الْقَائِمُ بَعْدَهُ كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ أَدْرَكَهُ فَجِدُّوا وَ انْتَظِرُوا هَنِیئاً لَكُمْ أَيَّتُهَا الْعِصَابَةُ الْمَرْحُومَةُ  (1)

--------------

(1):- الصراطالمستقیم ج : 2 ص :  14 ۹ 

۵۱

  جو شخص چاہتا ہے ،کہ امام زمانہ کے اصحاب میں سے ہو جائیں تو اسے چاہۓ کہ انتظار کرۓ اور ساتھ ساتھ تقوی وپرہیزگاری اختیار کرے اور نیک اخلاق اپناۓ اسی طرح آپ سے ہی دعاۓعہد کے یہ فقرات نقل ہوۓ ہیں :“اللہم انّی اُجدد لہ فی صبیحة یوم ہذا وما عشت فی ایامی “ خدایا ! میں تجدید (عہد ) کرتا ہوں ہے ،آج کے دن کی صبح اور جتنے دنوں مین زندہ رہوں اپنے عقد وبیعت کی جو میرے گردن میں ہے میں اس بیعت سے نہ پلٹوں گا اور ہمشہ تک اس پر ثابت قدم ہوں گا ، خدایا مجھ کو ان کے اعوان وانصار اوران سے دفاع کرنے والوں  میں سے قرار  دۓ .....

بلکہ متعدد روایات سےیہ معلوم ہوتا ہے ، کہ اہل بیت اطہارؑ کی نسبت جو عہد وپیمان اپنے ماننے والوں کی گردن پر لیا ہے، وہ چھاردہ معصومینؑ  کی اطاعت حمایت اور ان سے محبت کا وعدہ ہے

چنانچہ خود امام زمانہؑ نے جناب شیخ مفید کو لکھے ہوۓ نامے میں فرماتے ہیں :“  و لو أن أشیاعنا وفقهم الله لطاعته علی اجتماع من القلوب فی الوفاء بالعهد علیهم لما تأخر عنهم الیمن بلقائنا و لتعجلت لهم السعادة بمشاهدتنا علی حق المعرفة و صدقها منهم بنا فما یحبسنا عنهم إلا ما یتصل بنا مما نكرهه و لا نؤثره منهم و الله المستعان و هو حسبنا و نعم الوكیل و صلاته علی سیدنا البشیر النذیر محمد و آله الطاهرین و سلم ‏ (1) “اگر ہمارے شیعہ  اﷲ تعالی انھیں اپنی اطاعت کی توفیق عنایت فرماۓ ،ایک دل اور متحد ہو کر ہمارے ساتھ باندھے گۓ عہد وپیمان کو وفا کرتے تو ہمارے  احسان اور ہماری ملاقات کا شرف وفیض ان سے ہرگز مؤخر نہ ہوتے : اور بہت جلد کامل معرفت اور سچی پہچان کے ساتھ ہمارے دیدار کی سعادت انکو نصیب ہوتی ،اور ہمیں شیعوں سے صرف اور صرف انکے ایک گروہ کی کردار نے  پوشیدہ کر رکھّا ہے  جو کردار ہمیں پسند نہیں اور ہم ان سے اس کردار کی توقع نہیں رکھتے تھے ،پروردگار عالم ہمارا بہترین مددگار ہے اور وہی ہمارے لیۓ  کافی ہے ۔

--------------

(1):- مجلسیبحار انوار ،ج52 ،ص 140 - 

۵۲

پس حصرت حجت علیہ السلام کے اس کلام سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اہل بیت اطہار ؑکے چاہنے والوں سے جس چیز کا عہد وپیمان لیا ہے ،وہ انکی ولایت ؛اطاعت؛ حمایت اورمحبت ہے ۔

اور جو چیز امام زمانہ کی زیارت سے محروم ہونے اور انکے ظہور میں تاخیر کا سبب بنی ہے وہ انکے  ماننے والوں کے آنجناب کی اطاعت اور حمایت کے لیے آمادہ نہ ہونا ہے ،اور یہی اطاعت اور حمایت ظہور  کے شرائط میں سے ایک اہم شرط  ہے ۔

اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ امیر المومنین        فرماتے ہیں :“إعلموا أنّ الأرض لاتخلو من حجة لللّه عزوجل ولكنّ اللّه سیعمی خلقه عنها بظلمهم وجورهم وإسرافهم علی انفسهم (1)   جان لو زمین ہرگز حجت خدا سے خالی نہیں ہو سکتی-لیکن عنقریب پروردگار عالم لوگوں کےظلم وجور اور اپنے نفسوں پر اسراف کرنے کی وجہ سے انھیں  انکی زیارت سے  محروم کر دۓ  گا  -

پس ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ منتظرین کی ذمہ داریوں میں سے  ایک اہم ذمہ داری صاحب العصروالزمان کی اطاعت اور تجدید بیعت ہے  اوریہی  شرط ظہور اور محبت کی شاہراہ ہے کہ جسکے بغیر حقیقی اورکامل محبت حاصل نہیں ہوتی ۔

ب: امام مہدی  کی یاد

امام زمانہ عجل اﷲ فرجہ کے بلند مقام کی شناخت اور انکی مودّت ومحبت کو اپنے دل میں پیدا  کرنے اور اسے رشد دینے  کے لیۓ ضروری ہے کہ ہمیشہ آنحضرت کو یاد کریں ،اور انکی طرف متوجہ رہیں یعنی بہت زیادہ توحہ کرنا چاہیے اور یقینی طور  پر  یہ اثر رکھتا ہے ،کیونکہ مسلم طور پر اگر کوئی اپنی روح  ایک چیز کی طرف متوجہ رکھے تو ہو ہی نہیں سکتا کہ اس چیز کے ساتھ رابطہ برقرارنہ ہو ۔

--------------

(1):-  طبرسی - الاحتجاج ج : 2 ص : 499 - 

۵۳

اسی طرح اگر آپ نے اما م زمانہ کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا تو خود یہ کثرت توجہ ؛روحی کشش  ایجاد کر دیتی ہے البتہ استعداد اورظرفیت  کی حفاظت اور شرائط کے ساتھ توجہ  اپنا  اثر خود بخود  چھوڑتاہے اور روایات کے تاکید بھی اسی لحاظ سے ہے ،کہ یہ توجہ اور یاد لا محالہ متوجہ اور متوجہ الیہ کے درمیان رابطہ پیدا کر دیتی ہے اور وقت گزر نے کے ساتھ یہ رابطہ شدت اختیار کرجاتا ہے اور پہلے سے زیادہ مؤثر ہوتا جاتا ہے اور ہمیں بھی آج سے اسکی تمرین کرنا چاہیے اور کم سے کم چوبیس گنٹھوں میں دو وقت صبح اوررات کے وقت  اپنے دل کو حضرت بقیۃ اﷲ  اعظم  ارواحنا لہالفداءکی طرف متوجہ کریں چنانچہ  معصومینؑ نے بھی ایک نماز صبح کے بعد دعا عہدپڑھنے  دوسرا نماز مغربین کے بعد اس دعا کو پڑھنے کا حکم دیا ہےالسلام علیك فی الیل اذا یغشی والنهار اذا تجلی ” سلام ہو تجھ پر جب رات کی تاریکی چھا جاۓ اورجب دن کا  اُجالا پھیل جاۓ(1)   اور امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے :جو شخص اس عہد نامہ کو چالیس صبح پڑھے گا وہ حضرت قائم علیہ السلام کے مددگاروں میں سے شمار ہو گا اور اگر وہ شخص انکے طہور سے پہلے مر جاۓ تو اﷲ تعالی اسے امام ؑکی خدمت کے لیۓ مبعوث کرۓ گا اور اسے ہر کلمہ کے عوض میں ہزار نیکیان مرحمت فرمائیگا اور ہزارگناہ محوکرے  گا(2)     اسی طرح ہر روز جمعہ کو امام زمانہ کی تجدید بیعت کرنا مستحب ہے تاہم آسمانی فرشتے بھی جمعہ کے دن بیت المعمور پرجمع ہوتے ہیں اور ائمہ معصومین ؑکے تجدید بیعت کرتےہیں-

اور امام مہدی ؑکے ساتھ اس روحی اور دلی توجہ کو مستحکم کرنے اور انکی یاد کو مؤثر بنانے  کےلیۓکچھ طریقہ کاربھی ہمیں بتاۓ ہیں ہم ان میں سے بعض موارد  یہاں ذکر کرتے ہیں - 

--------------

(1):- نعمانی:الغ یبة ،باب 10 ،ص 141 -

(2):- پیام اما زمانہ ۱۸۸ ، آیۃاﷲ وحید خراسانی کے اما م زمانہکے متعلق تقر یر کا ایک حصہ-

۵۴

1 :امام مہدی ؑکی نیابت میں صدقہ دینااور نماز پڑھنا

امام زمانہ کی محبت کو بڑھانے اور انکی یادکو زندہ رکھنے اور  اپنی دلی توجہ کو متمرکز کرنے کے لیۓ ایک بہت ہی اہم ذریعہ انکی نیابت میں صدقہ دینا اور نماز پڑھنا  بلکہ ہر نیک کام جس میں خدا کی رضا ہو انجام دینا ہے-ہماری ان سے دلبستگی وتوجہ اور انکی اطاعت وپیروی ایسی ہونی چاہیے جس طرح خدا  و رسول ؐاور خود امام زمانہؑ اور انکے  اجداد طاہرینؑ ہم سے چاہتے  ہیں  ہم جب بھی نماز حاجت بجالاۓ یا صدقہ دین تو  آنجناب کی حاجتوں کو اپنے حاجتوں پر مقدم اور انکی نیابت میں  صدقہ دینے کو  اپنے اوپر اور اپنے عزیزوں کے اوپر صدقہ دینے پر مقدم کرنا چاہے ،اور اپنے لیۓ دعا کرنے سے پہلے انکے سلامتی اور تعجیل ظہور کے لیے دعا کرنی چاہیے،اسی طرح ہر نیک عمل جو انکے وفاء کا سبب بنتا ہے اپنے کاموں پر مقدم کرۓ تاکہ آنحضرت بھی ہماری طرف توجہ کرۓ اور ہم پر احسان کرۓ(1)    اور اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ سرور کائنات(ص) فرماتے ہیں : “کسی بندے کا ایمان کامل نہیں ہوتا جب تک وہ اپنی ذات سے زیادہ مجھ سے اور  اپنی خاندان سے زیادہ میری خاندان کو نہیں  چاہتا ہو ، اسی طرح اسکے نزدیک  اپنی عترت سے زیادہ میری عترت اور اپنی ذات سے زیادہ میری ذات عزیزتر نہ ہو -  اسی طرح متعدد روایات میں ائمہ معصومینؑ کو صلہ دینے کے بارے میں آیا ہے ،کہ ایک درہم امام کو صلہ میں دینا دوملین درہم دیگر کار خیر میں خرچ کرنے کے برابر ہے ؛ یا کسی اور روایت میں.آیا ہے ایک درہم جو  اپنے  امام کو دۓ اسکا ثواب اُحد کی پہاڑی سے بھی سنگین ہے يَا مَيَّاحُ دِرْهَمٌ يُوصَلُ بِهِ الْإِمَامُ أَعْظَمُ وَزْناً مِنْ أُحُدٍ (2) اسی طرح امام کے نیابت میں حج بجا لانے؛ زیارت پر جانے ،اعتکاف پر بیٹھنے ،اور صدقہ دینے کی تاکید کیا گیا ہے ۔ یقینا ان کاموں کا ایک اہم مقصد اورہدف اما م زمانہ کی یاد کو ہر وقت  اپنے دل ودماغ میں زندہ رکھنا  اوران سے اپنی قلبی و روحی توجہ کو تقویت دینا اور   ان کی محبت میں اضافۃ کرنا ہے ، دوسری عبارت میں یہ کہ ایک حقیقی منتظر کی خصوصیت یہ ہونی چاہیے کہ وہ  ہر چیز میں اپنے امام کو یاد رکھے اور انکو کبھی یاد سے جانے نہ دۓ ۔

--------------

(1):- مجلسی :ج ۱۰۲  ،ص ۱۱۱ مصباح الزائر ص ۲۳۵ - 

(2):- کشف المحجہ: فصل ۱۵۰ ،ص ۱۵۱ - 

۵۵

2: انکے  فراق کی داغ میں ہمیشہ غمگین رہنا .

بعض معصومین ؑبھی  امام زمانہؑ کی غیبت کے دوران کو یاد کرتے ہوۓ انکے شوق دیدار میں آنسو بھاتے تھے اور ان سے زیارت کی تمنا کرتے تھے ہاں تک اما م زمانہ کی فراق میں مہموم وغمگین ہونا مومن کی نشانیوں میں سے شمار کیا ہے جیسا کہ امیر المؤمنین        اپنے  حقیقی چاہنے والوں کی اوصاف اور نشانیا ں یوں بیاں فرماتے ہیں

“ومن الدلائل ان يُری من شوقه          مثل السقیم  وفی الفؤاد غلائلٌ

ومن الدلآئل ان یری من اُنسه            مستوحشاَ من كل ما هو مشاغل ٌ 

ومن الدلآئل ضحكه بین الوری               والقلب مخزون كقلب الثاكل "

انکی نشانیوں، میں سے ایک یہ ہے کہ شدت شوق کی وجہ سے بیمار جیسے نظر آئیں گۓ جبکہ انکا دل درد سے پھٹ رہا ہو گا ۔

انکی دوسری نشانی یہ ہے کہ اپنے محبوب کے اُنس میں اس طرح نظر آئیں گۓ کہ ہر وہ چیزجو انہیں محبوب سے دور کر دیتی ہے اس سے  بھاگ جاتے ہونگے   ۔

اور تیسری نشانی یہ ہے کہ دیکھنے  میں خندان نظر آئیں گۓ   جبکہ  انکا دل اس شخص کی طرح محزون ومغموم ہو گا جسکا جوان بیٹا اس دنیا سے فوت کرگیا ہو ۔

لیکن خصوصیت کے ساتھ امام ولی عصرؑ کی فراق وجدائی اور انکے مقدس قلب پر جو مصیبتین گزر تی  ہیں انکو یاد کرتے ہوۓ آنسو بہانا گریہ وزاری کرنے کی بہت ساری فضیلت بیاں ہوئی ہے ،اور واقعی اور حقیقی مؤمن کی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے چنانچہ چھٹے امام        اس بارے میں فرماتے ہیں :إِيَّاكُمْ وَ التَّنْوِیهَ أَمَا وَ اللَّهِ لَيَغِیبَنَّ إِمَامُكُمْ سِنِیناً مِنْ دَهْرِكُمْ وَ لَتُمَحَّصُنَّ حَتَّی يُقَالَ مَاتَ قُتِلَ هَلَكَ بِأَيِّ وَادٍ سَلَكَ وَ لَتَدْمَعَنَّ عَلَيْهِ عُيُونُ الْمُؤْمِنِینَ  (1)

--------------

(1):- کلینی :اصول کافی،ج ۲ ،ص ۱۵۶ اور،ج   ۱ ص ۵۳۸ -  

۵۶

اے مفضل خدا کی قسم تمھارے امام ؑسالوں سال پردہ غیب میں ہونگے اور تم لوگ سخت امتحان کا شکار ہوگا یہاں تک انکے بارے میں کہا جاے گا کہ وہ فوت کر گیا ہے یا انھیں قتل کیا گیا ہے ؟ ...لیکن مؤمنین انکی فراق میں گریاں ہونگے....... 

کسی دوسرے حدیث میں جسے  جناب شیخ صدوق نے سدیر صیرفی سےروایت کی  ہے ،کہتے ہیں :قَالَ دَخَلْتُ أَنَا وَ الْمُفَضَّلُ بْنُ عُمَرَ وَ أَبُو بَصِیرٍ وَ أَبَانُ بْنُ تَغْلِبَ عَلَی مَوْلَانَا أَبِی عَبْدِ اللَّهِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع فَرَأَيْنَاهُ جَالِساً عَلَی التُّرَابِ وَ عَلَيْهِ مِسْحٌ خَيْبَرِيٌّ مُطَوَّقٌ بِلَا جَيْبٍ مُقَصَّرُ الْكُمَّيْنِ وَ هُوَ يَبْكِی بُكَاءَ الْوَالِهِ الثَّكْلَی ذَاتَ الْكَبِدِ الْحَرَّی قَدْ نَالَ الْحُزْنُ مِنْ وَجْنَتَيْهِ وَ شَاعَ التَّغَيُّرُ فِی عَارِضَيْهِ وَ أَبْلَی الدُّمُوعُ مَحْجِرَيْهِ وَ هُوَ يَقُولُ سَيِّدِی غَيْبَتُكَ نَفَتْ رُقَادِی وَ ضَيَّقَتْ عَلَيَّ مِهَادِی وَ أَسَرَتْ مِنِّی رَاحَةَ فُؤَادِی (1)   ایک دن میں؛ مفضل بن عمیر ؛ابو بصیر اور ابان بن تغلب ہم سب مولا امام صادق      کی خدمت میں شرفیاب ہوۓ  تو آپکو اس حالت میں دیکھا کہ آپ فرش کو جمع کرکے خاک پر تشریف فرما ہیں ،  جُبہ خیبری  زیب تن کیۓ  ہوۓ ہیں -جو عام طور پر مصیبت زدہ لوگ پہنتے ہیں -،چہرہ مبارک پر حزن واندوہ کی آثار نمایاں ہیں اور اس شخص کی مانندبے تابی سے  گریہ کر رہے ہیں کہ جس کا جوان بیٹا فوت کر چکا ہو  ،آنکھوں سے آنسوں جاری ہے ،اور زبان پر فرما رہے ہیں  اے میرے دل کا سرور تیری جدائی نے میرے  آنکھوں سے ننید اُڑا لی ہے اور مجھ سے چین چھین لی ہے ،اے میرے سردار تیری غیبت نے میری مصیبتوں کو بے انتہا کر دی ہے .......روایت بہت ہی طولانی ہے اور بہت ہی ظریف نکات بھی موجود ہیں جو چاہتے ہیں تو مراجعہ کریں

پس  ان روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے  کہ  ائمہ بھی امام زمان علیہ السلام کی غیبت سے نگران  اور انکے شوق دیدار میں بے تاب  وگریاں تھے۔

--------------

(1):- کلینی :اصول کافی ،ج۱ ،ص ۳۳۶  باب غیبت -  ---- کمال الد ین ج : 2 ص 35: بحارال انوار ج : 51 ص : 219     

۵۷

۳ : علوم ومعارف اہل بیتؑ کو رواج دینا

علوم ومعارف اہل بیت علیہم السلام کی نشر و اشاعت اور ترویج؛حقیقت میں اہل بیت اطہار ؑکے امر کی احیا کرنے کے مصادیق میں سے ہے جس کے بہت تاکید کیا گیا ہے“اور منتظرین کی ایک اہم ذمہ داریوں میں سے بھی ہےجس طرح روایت میں امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا گیا ہے آپ فرماتے ہیں:تَزَاوَرُوا فَإِنَّ فِی زِيَارَتِكُمْ إِحْيَاءً لِقُلُوبِكُمْ وَ ذِكْراً لِأَحَادِیثِنَا وَ أَحَادِیثُنَا تُعَطِّفُ بَعْضَكُمْ عَلَی بَعْضٍ فَإِنْ أَخَذْتُمْ بِهَا رَشَدْتُمْ وَ نَجَوْتُمْ وَ إِنْ تَرَكْتُمُوهَا ضَلَلْتُمْ وَ هَلَكْتُمْ فَخُذُوا بِهَا وَ أَنَا بِنَجَاتِكُمْ زَعِیمٌ ایک دوسرے کی ملاقات کرو، زیارت پر جاو چونکہ تمھارے ان ملاقاتوں سے تمھارے قلوب زندہ اورہماری احادیث کی یاد آوری ہوتی ہے،اور ہماری احادیث تمھارے ایک دوسرے پرمہربان ہونے کا سبب بنتی ہیں پس تم نے ان احادیث کو لے لیا اور اس پرعمل کیا تو تم کامیاب ہو جاؤ گے نجات پاؤ گۓ اور جب بھی اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہلاک ہو جاؤ گۓ  ،پس ان احادیث پر عمل کرو میں تمھاری نجات کی ضمانت دونگا ”(1) اسی طرح کسی دوسرے حدیث میں ابن شعبہ حرّانی نے چھٹے امام ؑسے نقل کیا ہے آپ منتظرین کی توصیف میں فرماتے  ہیں:وفرقة احّبونا وحفظوا قولنا ،واطاعو أمرنا ولم یخالفوا فعلنا فاولئك منّا ونحن منهم (2) اور ایک گروہ وہ ہے جو ہمیں دوست رکھتا ہے،ہمارے کلام کی حفاظت کرتا ہے،ہمارے امرکی اطاعت کرتا ہے اور ہماری سیرت اور فعل کی مخالفت نہیں کرتا ہے، وہ ہم سے ہے اور ہم ان سے ہیں عصر غیبت میں  امام زمانہ کی بہترین  خدمت جس کی امام صادق علیہ السلام تمنا کرتے تھے ، علوم اہل بیت کی نشرو اشاعت انکی فضائل ومناقب کو لوگوں تک پہنچانا  ہے ، جو حقیقت میں دین خدا کی نصرت ہے جس کے بارے میں پروردگار عالم خود  فرماتا ہےوَ لَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ  إِنَّ اللَّهَ لَقَوِىٌّ عَزِیز٭ (3) بے شک اﷲ اسکی مدد کرۓ گا جو اسکی نصرت کرۓ اور بتحقیق خداوند عالم صاحب قدرت اور ہر چیز پر غلبہ رکھنے والاہے

--------------

(1):- وسائل الش یعة ج : 16 ص : 34 ۶ بحارالانوار ج : 71 ص : 35 ۸ 

(2):- تحف العقول :ص 513 :اور بحار انوار :ج75 ،ص 38۲ -

(3):- سورہحج ۴۰ - 

۵۸

۴:فقیہ اہل بیت ؑکی اطاعت اور پیروی

امام زمانہ ؑکی غیبت سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ پروردگار عالم نے اس امت کو اپنے آپ پر چھوڑ دیا ہو یا  انکی ہدایت ورہبری کا کچھ انتظام نہیں کیا ہو ؟،یہ اسلئے کہ اگر چہ حکمت الھی کی بنا پر حجت خدا لوگوں کے عادی زندگی سے مخفی ہیں ،لیکن آپکی نشانیاں اور آثار  اہل بصیرت پر مخفی نہیں ہے(بنفسی انت من مغیب ٍِ لم یخل منّا ، بنفسی انت من نازح ِ ما نزح عنّا ) (1) “ قربان ہوجاوں آپ پر پردہ غیبت میں ہیں لیکن ہمارے درمیاں ہے ،فدا ہو جاوں  آپ پر ہماری آنکھوں سے مخفی ہیں لیکن ہم سے جدا نہیں ہے ”

اسیلئے معصومؑ  فرماتے ہیں :وإن غاب عن الناس شخصه فی حال هدنة لم یغب عنهم مثبوت علمه (2)   ”اگر چہ غیبت کے دوران انکی شخصیت لوگوں کی نظروں سے مخفی ہونگی(3)   لیکن انکے علمی آثار اہل بصیرت پر عیان ہوں گے ۔ یعنی اسکا مطلب یہ ہے کہ خود  امام لوگوں کے حالات سے آگاہ ہین  اور جو علوم علماء اور فقہاء کے نزدیک  احادیث اور سیرت کی صورت میں موجود ہیں اوہ بہی انکے ہی آثار ہین- لوگ  اگر چہ انکے نورانی چہرے کی زیارت سے محروم ہیں اور مستقیم انکی اطاعت نہیں کر سکتے لیکن انکے نائب عام ؛ ولی فقیہ اور علماء کی اطاعت کے ذریعے اپنے امام کی اطاعت کر  سکتے ہیں ،کہ جنکی اطاعت کا خود معصومین علیہم السلام نے حکم دیا ہے“ “فَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنَ الْفُقَهَاءِ صَائِناً لِنَفْسِهِ حَافِظاً لِدِینِهِ مُخَالِفاً عَلَی هَوَاهُ مُطِیعاً لِأَمْرِ مَوْلَاهُ فَلِلْعَوَامِّ أَنْ يُقَلِّدُواه (4) .  اور فقہامیں سے وہ فقیہہ جو اپنے دین کا پابند ہو، نفس پر کنڑول رکھتا ہو ، نفسانی خواہشات کے تابع نہ ہو، اور اپنے مولا کے فرمان بردار ہو تو انکی اطاعت اور پیروی(تقلید )سب  عوام پر واجب ہے ۔

--------------

(1):- دعایندب ہ کا ا یکفقرہ

(2):- صافیگلپائ ی گانی :منتخب الاثر ،ص ۲۷۲ - 

(3):- البتہواضح ر ہے یہ غیبت کےپہل ی  معنی کی بنیاد پر ہے

(4):- مجلسی:بحار الانوار،ج2 ،ص 88 - وسائل الش یعة ج : 27 ص : 13

۵۹

 یا خود امام زمانہ علیہ الصلاۃ والسلام اس بارے فرماتے ہیں :أَمَّا الْحَوَادِثُ الْوَاقِعَةُ فَارْجِعُوا فِیهَا إِلَی رُوَاةِ حَدِیثِنَا فَإِنَّهُمْ حُجَّتِی عَلَيْكُمْ وَ أَنَا حُجَّةُ اللَّهِ عَلَيْهِم‏  (1) اور درپیش مسائل میں ہمارے احادیث کے جاننے والے (فقہاء) کی طرف مراجعت کریں ،جس طرح میں ان پر حجت ہوں اسی طرح وہ تمھارے اوپر میری جانب سے حجت ہیں یعنی اگر حجت خدا غیبت میں ہیں تو لوگوں کوبغیر حجت کے رہا نہیں کیا گیا ہے ،بلکہ فقہاء ان پر حجت ہیں انکی پیروی  خدا اورسولؐ کی پیروی ہے ۔

فَإِنِّی قَدْ جَعَلْتُهُ عَلَيْكُمْ حَاكِماً فَإِذَا حَكَمَ بِحُكْمِنَا فَلَمْ يَقْبَلْهُ مِنْهُ فَإِنَّمَا اسْتَخَفَّ بِحُكْمِ اللَّهِ وَ عَلَيْنَا رَدَّ وَ الرَّادُّ عَلَيْنَا الرَّادُّ عَلَی اللَّهِ وَ هُوَ عَلَی حَدِّ الشِّرْكِ بِاللَّه‏.  ” (2) اور ہم نے انھیں  تمھارے اوپر حاکم بنایا ہے ،پس وہ(فقیہ )جو حکم دیتا ہے وہ ہمارے حکم سے دیتا ہے جو ان سے قبول نہ کرۓ تو گویا اسنے حکم خدا کی بے اعتنائی کہ ہے ،اور ہمیں رد کیا ہے اور جو ہمیں رد کرے اسنے خدا کو رد کیا ہے  جو حقیقت میں خدا سے  شرک لانے کی حد میں ہے یعنی   انکی نافرمانی ہمارے نافرمانی ہے اورہماری نافرمانی خدا کی نافرمانی اور خدا کی نافرمانی شرک ہے اور اھل بیتؑ نے اپنے مانے والے شیعوں کو ابلیس اور اسکے کارندوں کی شر سے بچا کر رکھنے اور انکے ععقیدتی و ایمانی  حدود کی نگہبانی کو علماء ،فقہاء کی سب سے بڑی ذمہ داری بتائی ہے اور فرمایا ہے  :علماء شیعتنا مرابطون فی الثغر الذی یلی إبلیس و عفاریته یمنعونهم عن الخروج علی ضعفاء شیعتنا و عن أن یتسلط علیهم إبلیس و شیعته النواصب ألا فمن انتصب لذلك من شیعتنا كان أفضل ممن جاهد الروم و الترك و الخزر ألف ألف مرة لأنه یدفع عن أدیان محبینا و ذلك یدفع عن أبدانهم   ” (3) ہمارے شیعوں کے علماء ان حدود کے محافظ اور نگہبان ہیں کہ جن حدود سے گزر کر شیطان اور اسکے کارندے اور پیروان داخل ہوتے ہیں اوریہ علماء  ہمارے کمزور شیعوں پر شیطان کے غلبہ آنے اور انھیں بے ایمانی کی طرف سوق دینے سے بچاتے ہیں ،

--------------

(1):- """"   """"ج 53 ،ص 181 - الغیبةللطوس یص : ۲۹۱ 

(2):- کلینی :اصول   الکاف یج : 1 ص : ۶۷ -   تہذ یب ال اح کام ج : 6 ص :  21 ۸  

(3):- الصراط المستقیم :ج ۳ ،ص۵۵ ،  الاحتجاج ج : 2 ص۳۸۵  :  عوالی اللئالی ج ۱ ص ۱۸ . 

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

شيطان سے بچنا ۶;شيطان كا گمراہ كرنا ۶، ۶ ۱ ; شيطان كى بشارتوں كا باطل ۱۶;شيطان كے تسلط سے جنگ كرنا ۱۳;شيطان كے دام۱۱،۱۲، ۱۴; شيطان كے گمراہ كرنے كى روش ۱۴;شيطان كے گمراہ كرنے كے اسباب ۱۲;شيطان كے وعدوں كا باطل ۶ ۱ ;شيطان كے وعدے ۱۴;شيطانى شركت ۱۷،۱۸، ۱۹

فرزند:فرزند كى حفاظت ۱۳فرزند كا كردار ۱۲

كرامت:كرامت سے محروم لوگ ۷

مال:مال كى حفاظت ۱۳;مال كا كردار ۱۲

آیت ۶۵

( إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ وَكَفَى بِرَبِّكَ وَكِيلاً )

بيشك ميرے اصلى بندوں پر تيرا كوئي بس نہيں ہے اور آپ كا پروردگار ان كى نگہبانى كے لئے كافى ہے (۶۵)

۱_الله تعالى كے مقرب بندے، شيطان كے تسلّط سے محفوظ ہيں _إن عبادى ليس لك عليهم سْلطانا

۲_الله تعالى كے حقيقى بندوں پر تسلّط كے ليے شيطان كى مختلف چاليں ناكام ہيں _

واستفزز وا جلب عليهم وشاركهم وعدهم إن عبادى ليس لك عليهم سلطانا

۳_شيطان كى پيروي، الله تعالى كى عبوديت سے خارج ہونا ہے_إن عبادى ليس لك عليهم سلطانا

كلمہ ''عباد'' كو ''ي'' متكلم كى طرف نسبت دينا شايد اس نكتہ كو بيان كر رہا ہو كہ نسل آدم (ع) سے ايسے لوگ بھى ہيں كہ ابليس جن پر تسلط نہيں ركھ سكے گا _ يہ اس بات سے حكايت ہے كہ الله تعالى كى بندگى انسان كو ابليس كے تسلط سے نجات دلاتى ہے اور شيطان كى پيروى انسان كو عبوديت كے وصف سے خارج كرتى ہے_

۴_الله تعالى كى بندگى اور عبوديت، بہت بلند اور مستحكم مقام ہے_إن عبادى ليس لك عليهم سلطانا

كلمہ''عبادي'' كو كسى اور صفت كى جگہ استعمال كرنا اور يہ بتانا كہ شيطان ايسى صفات كے حامل لوگوں پر تسلط نہيں پاسكتا مندرجہ بالا مطلب كو بيان كر رہا ہے_

۵_الله تعالى كى بندگى اور عبوديت، شيطانى وسوسوں اور لشكر كشيوں كے مد مقابل انسانوں كا بيمہ اور انہيں طاقت بخشنے والى ہے _لأحتنكن ذريّتة إن عبادى ليس لك عليهم سلطانا

۱۸۱

۶_تمام انسانوں كى نسبت الله تعالى كے محفوظ بندوں كى تعداد كاكم ہونا _لأحتنكن ذريّتة إلّا قليلاً إن عبادى ليس لك عليهم سلطان ''ان عبادى ليس لك عليهم سلطانا'' اس جملہ''الاّ قليلاً'' كو بيان كرنے كى مانند ہے _ يعنى يہ كہ شيطان نے كہا: سوائے تھوڑے لوگوں كے سب كو گمراہ كرونگا تو الله تعالى نے اس كى كلام كے مستثنى لوگوں كو بيان كيا ہے_

۷_الله تعالى كا سب لوگوں كے لئے كارساز اور حامى ہونا كافى ہے اس كے علاوہ كسى دوسرے كى ضرورت نہيں ہے_

وكفى بربك وكيلا

۸_الله تعالى كے مقرب بندوں كو شيطانى وسوں اور فساد كے مد مقابل الہى حمايت(حفاظت اور كارساز ہونا) حاصل ہے_

واستفزز من استطعت إن عبادى ليس لك عليهم سلطان وكفى بربك وكيلا

''وكفى بربك وكيلاً'' عبارت''ان عبادى '' كے لئے علت ہوسكتا ہے لہذا عبارت كا مطلب يہ ہوگا كہ: ابليس اس لئے الله تعالى كے بندوں پر تسلط نہيں پاسكتا چونكہ الله تعالى ان كا ايسا حامى ہے جوان كے ليے كافى ہے_

۹_ابليس كے تسلط سے محفوظ رہنے كے لئے لوگ الله پر توكل اور بھروسہ ركھنے كے محتاج ہيں _

ليس لك عليهم سلطان وكفى بربك وكيلا

۱۰_الله تعالى كى ربوبيت كا تقاضا ہے كہ وہ اپنے بندوں كى حمايت كرے _إن عبادى ليس لك عليهم سلطان وكفى بربك وكيلا

۱۱_فقط الله تعالى ہى انسانوں كو شيطانى تسلط اور نفوذ سے نجات دے سكتا ہے_ليس لك عليهم سلطان وكفى بربك وكيلا

۱۲_پيغمبر (ص) كا الله تعالى كى خصوصى ربوبيت كے تحت اور شيطانى تسلط اور نفوذ سے محفوظ ہونا_إن عبادى ليس لك عليهم سلطان وكفى بربك وكيلا مندرجہ بالا مطلب كى بنياد اس نكتہ پر ہے كہ ''ربك'' ميں ''ك'' سے مراد جيسا كہ مفسرين نے بھى احتمال ديا ذات پيغمبر اسلام (ص) ہو اس بناء پر كہ الله تعالى نے اپنے بندوں پر شيطانى تسلط كى نفى كى ہے ا سكے بعد بطور خاص پيغمبر (ص) كا ذكر كياہے مندرجہ بالا مطلب كى طرف اشارہ ہو سكتا ہے_

۱۳_''عن محمد الخزاعى قال: سمعت أبا عبدالله (ع) يذكر فى حديث غدير خم انه لما قال النبى (ص) لعلى (ع) ما قال ...: قال النبي(ص)

۱۸۲

:''إن عبادى ليس لك عليهم سلطان ...'' صرخ إبليس صرخة فرجعت إليه العفاريت فقالوا: يا سيدناما هذه الصرخة ...؟ قال: والله من أصحاب علي(ع) ..._ (۱) محمد خزاعى كہتھ ہيں كہ : ميں نے امام صادق (ع) سے سناكہ و ہ غدير خم كے واقعہ كے بارے ميں فرما رہے تھے كہ : جب رسول الله (ص) حضرت على (ع) كے ساتھ گفتگو كر رہے تھے تو انہوں نے الله تعالى كے اس فرمان ہے:''إن عبادى ليس لك عليهم سلطان'' كے بارے ميں فرمايااس وقت ابليس نے چيخ مارى تو اس آواز سے عفريتوں نے اس كى طرف رجوع كيا اور كہا اے ہمارے سردار يہ چيخ كس لئے تھى تو ابليس نے كہا: الله كى قسم على (ع) كے اصحاب كى وجہ سے

ابليس:ابليس سے بچنے كے اسباب ۹;ابليس كا تسلط ۹

الله تعالى (ص) (ع) :الله تعالى كى حمايتوں كا پيش خيمہ ۱۰;اللہ تعالى كى حمايتوں كاكافى ہونا۷;اللہ تعالى كى حمايتيں ۸;اللہ تعالى كى ربوبيت ۱۲;اللہ تعالى كے مختصّات۷، ۱۱;اللہ تعالى كى ربوبيت كے آثار ۱۰;اللہ تعالى كى طرف سے نجات ملنا ۱۱

الله تعالى كے بندے:الله تعالى كے بندوں كا گمراہ نہ ہونا ۲;اللہ تعالى كے بندوں كا محفوظ ہونا ۱;اللہ تعالى كے بندوں كى حمايت ۱۰/انسان:انسان كى معنوى ضروريات ۷، ۹;انسان كے گمراہ نہ ہونے كے اسباب ۵;

بے نيازي:غير خدا سے بے نيازى ۷

توحید :توحید افعالى ۱۱

توكل:توكل كے آثار ۹

روايت : ۱۳

شيطان:شيطان سے بچنا ۱، ۵، ۱۲;شيطان كا تسلط ۱۲، ۱۳;شيطان كا گمراہ كرنا ۲;شيطان كى پيروى كے آثار ۳;شيطان كے تسلط سے نجات ۱۱;شيطان كے وسوسے ۱، ۵

شيعہ:شيعوں كا گمراہ نہ ہونا ۱۳شيعوں كے فضائل ۱۳;

عبوديت :عبوديت كى اہميت۱;عبوديت كے آثار۵; بوديت كے مقام كى قدروقيمت ۴

گمراہ نہ ہونے والے:گمراہ نہ ہونے والوں كى تعداد كا كم ہونا۶

محمد (ص) :محمد (ص) كى عصمت ۱۲;محمد (ص) كامربى ہونا ۱۲//مقرب:

۱۸۳

مقرب لوگوں كا حامي۸;مقرب لوگوں كى تعداد كا گمراہ نہ ہونا ۲;مقرب لوگوں كا محفوظ ہونا ۱;مقرب لوگوں كا كم ہونا ۶

محتاجى و احتياجات :الله تعالى كى طرف احتياج ۷;توكل كى احتياج۹

نافرماني:الله كى نافرمانى ۳

آیت ۶۶

( رَّبُّكُمُ الَّذِي يُزْجِي لَكُمُ الْفُلْكَ فِي الْبَحْرِ لِتَبْتَغُواْ مِن فَضْلِهِ إِنَّهُ كَانَ بِكُمْ رَحِيماً )

اور آپ كا پروردگار ہى وہ ہے جو تم لوگوں كے لئے سمندر ميں كشتياں چلاتا ہے تا كہ تم اس كے فضل و كرم كو تلاش كرسكو كہ وہ تمھارے حال پر بڑا مہربان ہے (۶۶)

۱_كشتيوں كى مسلسل حركت اور ان پر جارى قوانين انسانى فائدہ كے لئے اور الله تعالى كى ربوبيت كا جلوہ ہے_

ربّكم الذى يزجى لكم الفلك فى البحر لتبتغوا من فضله

۲_زمين پر انسان كى تمام مادى ضروريات كو پورا كرنا اسى بات پر دليل ہے كہ خداوند عالم قادر اور ان كى حمايت كے ہے كافى ہے_وكفى بربك وكيلاً_ ربّكم الذى يزجى لكم الفلك فى البحرلتبتغوا من فضله

يہ كہ الله تعالى نے اپنے كافى اور نگہبان ہونے كے تذكرہ كے بعد يہ ذكر كيا ہے كہ وہ انسانى فائدوں كى بناء پر كشيتوں كو حركت ميں لا تاہے ،ہوسكتا ہے مندرجہ بالا نكتہ كو واضح كر رہا ہو_

۳_انسان كے طبيعى عطيات اور الہى نعمات كے حصول ميں سمندروں اور كشتيوں كا اہم اورموثر كردار ہے_

ربّكم الذى يزجى لكم الفلك فى البحر لتبتغوا من فضله

۴_سمندروں ميں مخفى طبيعى نعمات، لوگوں كے لئے الہى فضل ہيں _ربّكم الذى يزجى لكم الفلك فى البحر لتبتغوا من فضله

۱۸۴

۵_طبيعت ميں پوشيدہ موجودات كا مطالعہ انسان كو ربوبيت خدائے واحد كى طرف راہنمائي كرنے والا ہے_

ربّكم الذى يزجى لكم الفلك فى البحر لتبتغوا من فضله

الله تعالى نے انسان كو اپنى ربوبيت كى طرف مائل كرنے كے لئے طبيعى نعمات كى طرف توجہ دلائي ہے اس سے مندرجہ بالا مطلب سامنے آتاہے_

۶_انسان كے ليے خدائي نعمتوں كا سرچشمہ خدا كا فضل و بخشش ہے_ربّكم الذى يزجى ...لتبتغوا من فضله

۷_الہى نعمات اور وسائل سے صرف سعى اور كوشش كى صورت ميں بہرہ مند ہوا جاسكتا ہے_

ربّكم الذى يزجي ...لتبتغوا من فضله

يہ كہ الله تعالى نے سمندورں ميں اپنے فضل اور موجود وسائل سے فائدہ اٹھانے كو كلمہ ''ابتغائ''''مطلوبہ چيز كے ليے سعى وكوشش سے بيان كركے يہ بتايا ہے كہ وسائل سے فائدہ اٹھانے كے لئے كوشش اور تلاش ضرورى ہے _

۸_پروردگار چاہتا ہے كہ انسان سمندروں جيسے مظاہر طبيعت سے فائدہ اٹھانے اور اپنى روزى پانے كے لئے سعى اور كوشش كرے_ربّكم الذى يزجى لكم الفلك فى البحرلتبتغوا من فضله

۹_الله تعالى ، انسان سے محبت اور رحم كرنے والا ہے_إنه كان بكم رحيما

۱۰_انسانى ضروريات كو پورا كرنے كے لئے طبيعى نعمات كا آمادہ ہونا، الله تعالى كى وسيع رحمت كا تقاضا ہے_

ربّكم الذى يزجى لكم إنه كان بكم رحيما

۱۱_الله تعالى كى انسانوں كے لئے ربوبيت، اس كى وسيع رحمت كے ساتھ ملى ہوئي ہے_ربكم إنه كان بكم رحيما

اسماء وصفات:رحيم ۹

الله تعالى :الله تعالى كافضل ۴;اللہ تعالى كى حمايت كے دلائل ۲;اللہ تعالى كى ربوبيت ۵;اللہ تعالى كى ربوبيت كى خصوصيات ۱۱;اللہ تعالى كى ربوبيت كى علامات۱;اللہ تعالى كى رحمت ۹، ۱۱ ;اللہ تعالى كى رحمت كے آثار ۱۰;اللہ تعالى كى قدرت كے دلائل ۲;اللہ تعالى كى نصےحتيں ۸; الله تعالى كے فضل كے آثار ۶;اللہ تعالى كے كافى ہونے كے دلائل ۲

انسان:انسان كى ضروريات كا پورا كرنا ۲;انسانوں كا حامى ۲;انسانوں كى حمايت ۲;انسانوں كے فائدے ۱

خلقت :مخلوقات ميں مطالعہ كے آثار ۵

روزي:

۱۸۵

روزى كے لئے كوشش ۸

سمندر:سمندروں سے فائدہ اٹھانا ۸;سمندوں كے فوائد ۳

كشتياں :كشتيوں كى حركت كے آثار ۱;كشتيوں كے فوائد ۳

كوشش :كوشش كے آثار ۷

مادى وسائل:مادى وسائل كا پخيمہ ۷;يشمادى وسائل كى بنياد ۱۰

معاش:معاش كے پورا ہونے كى اہميت ۸

نعمت:دنياوى نعمتيں ۴;سمندورى نعمتيں ۴;نعمت سے فائدہ اٹھانے كا پيش خيمہ ۷;نعمت كو حاصل كرنے كا پيش خيمہ ۳;نعمت كى بنياد ۶، ۱۰;نعمتوں سے فائدہ اٹھانا ۸

ہدايت:ہدايت كے اسباب ۵

آیت ۶۷

( وَإِذَا مَسَّكُمُ الْضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلاَّ إِيَّاهُ فَلَمَّا نَجَّاكُمْ إِلَى الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ وَكَانَ الإِنْسَانُ كَفُوراً )

اور جب دريا ميں تمھيں كوئي تكليف پہنچى تو خدا كے عالوہ سب غائب ہوگئے جنھيں تم پكار رہے تھے اور پھر جب خدا نے تمھيں بچا كر خشكى تا پہنچاديا تو تم پھر كنارہ كش ہوگئے اور انسان تو بڑا ناشكرا ہے (۶۷)

۱_سمندرى سفر كے خطرناك لمحات، انسان كے خدائے واحد كى طرف ميلان، اس كى طرف متوجہ ہونے اور اس كے غير كو بھول جانے كا پيش خےمہ ہيں _وإذا مسكم الضرّ فى البحر ضلّ من تدعون إلّا إيّاه

۲_زندگى كے مشكل اوقات اور وہ خطرناك لمحات كہ جن سے نجات كى كوئي اميد باقى نہ رہے انسان كے اندر خدا كى طرف ميلان كى فطرت كو بيداركرديتے ہيں _وإذا مسكم الضرّ ضلّ من تدعون إلّا إيّاه

۱۸۶

بہت سارى مشكلات ميں سے سمندركى مشكلات كہ جس ميں ممكن ہے كہ انسان پھنس جائے اس وجہ سے ہے كہ سمندر كى طلاطم خيز موجوں سے رہائي كى نجات ممكن نہيں ہے_

۳_انسان خطرناك گرداب ميں پھنس كر نہ صرف الله تعالى كى طرف توجہ پيدا كرتا ہے بلكہ اسے ايسى واحد قدرت سمجھتا ہے كہ جو اس يقينى موت سے نجات دلاسكتى ہے _وإذا مسكم الضرّ فى البحر ضلّ من تدعون إلّا إيّاه

۴_دشوار لمحات ميں غير خدا قوتوں كى ناتوانى واضح ہوجاتى ہے اور ظاہرى اسباب سے اميد ختم ہوجاتى ہے_

وإذا مسكم ضلّ من تدعون إلّإيّاه

۵_انسان فطرتى طور پر موت اور عدم سے بچتے ہيں اور بقا كے خواہش مند ہيں _وإذا مسكم الضرّ فى البحر ضلّ من تدعون إلّا إيّاه الله تعالى نے يہ جوفرمايا ہے كہ : جب انسان خطرے كو محسوس كرتے ہيں توصرف اس كى طرف منہ كرتے ہيں تا كہ وہ انہيں موت سے نجات دلائے يہ اس چيز سے حكايت ہے كہ وہ بقاء كے خواہش مند اور موت سے گريز كرتے ہيں _

۶_انسان موت جيسے خطرات لمحات سے نجات پانے كے بعد الله تعالى كو بھول جاتے ہيں اور حق سے منہ پھيرليتے ہيں _

فلمّا نجّكم إلى البرّ أعرضتم

۷_ان خطرات سے نجات كہ جن سے حتمى طورپر موت آتى ہے صرف الله تعالى كى عنات كى صورت ميں ممكن ہے_

وإذا مسكم الضرّ فى البحر ضلّ من تدعون إلّا إيّاه فلمّا نجّكم إلى البر

۸_آسائش اور امن ہونے كا احساس انسان كے نعمت كى ناشكرى كى طرف ميلان پيدا كرنے كا پيش خيمہ ہے_

فلمّا نجكم إلى البرّ أعرضتم وكان الإنسان كفورا

۹_انسان ناشكرا محض اور حق ناشناس موجود ہے_وكان الإنسان كفورا

''كفور'' مبالغہ كا صيغہ ہے كہ جو كفران نعمت ميں مبالغہ كے ليے ہے(يعنى نعمت كو بھول جانا)

۱۰_خطرات سے نجات پانے كے بعد الله تعالى كى ياد سے غفلت، انسانى حق نہ جاننے والى شديد خصلت كى بناء پر ہے _

فلما نجكم إلى البرّ أعرضتم وكان الإنسان كفورا جملہ''وكان الإنسان كفوراً'' كہ جو انسانوں كى ايك عام سى خصلت بيان كررہاہے گذشتہ مطالب كى علت كے قائم مقام ہے_

آسائش:

۱۸۷

آسائش كے آثار ۸

الله تعالى :الله تعالى كى طرف سے نجات دينا ۷;اللہ تعالى كى عنايت كے آثار ۷;اللہ تعالى كے مختّات ۷ ;

امن:امن كے آثار ۸

انسان :نسان كى صفات ۹، ۱۰;انسان كى فطرت ۲; انسان كى ناشكرى ۹;انسان كى ناشكرى كے آثار ۱۰;انسانوں كى غفلت ۶

ايمان :الله تعالى كى قدرت پر ايمان ۳;اللہ تعالى كے نجات دينے پر ايمان ۳;توحيد پر ايمان كاپيش خيمہ ۱

توحيد :توحيد كا پيش خيمہ ۳

حق:حق سے دورى ۶

حادثات :حادثات سے نجات كى بنياد ۷

خطرہ:خطرہ سے نجات كے آثار۶،۱۰;

ذكر :الله تعالى كے ذكر كا پيش خيمہ ۳

زندگي:زندگى ميں مشكلات كے آثار ۲

سختى :سختى سے نجات كے آثار ۶;سختى كے آثار ۲;

سفر:سمندرى سفر ميں خطرات كے آثار ۱

غفلت :امن كے وقت غفلت ۶;خدا سے غفلت كا پيش خيمہ ۶، ۱۰;غير خدا سے غفلت كا پيش خيمہ ۱

فطرت:خدا كى تلاش كى فطرت ۲;فطرت كو متبسہ كرنے كا پيش خيمہ ۲،۳

قدرت:_غير خدا كى قدرت كا بے اثر ہونا ۴

مبتلاء ہونا:سختى ميں مبتلا ہونے كے آثار ۳، ۴

موت:موت سے فرار ۵;موت سے نجات كى بنياد ۷

نااميدي:طبيعى اسباب سے نا اميدى ۴

ناشكرى :نعمت كى ناشكرى كا پيش خيمہ ۸

۱۸۸

آیت ۶۸

( أَفَأَمِنتُمْ أَن يَخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ أَوْ يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِباً ثُمَّ لاَ تَجِدُواْ لَكُمْ وَكِيلاً )

كيا تم اس بات سے محفوظ ہوگئے ہو كہ وہ تمھيں خشكى ہى ميں دھنسا دے يا تم پر پتھروں كى بوچھار كردے اور اس كے بعد پھر كوئي كارساز نہ ملے (۶۸)

۱_خطرات اور مشكلات سے نجات پانے والے ناشكرے لوگوں كو الله تعالى كاديگر خطرات اور مہلكات ميں گرفتار ہونے سے خبردار كرنا_فلما نجكم إلى البر أعرضتم أفأمنتم أن يخسف بكم

۲_ايك مقام ہلاكت سے انسان كى نجات ،اس كے ہميشہ الہى قہر سے نجات كى دليل نہيں ہے_

نجكم إلى البرّ ا فأمنتم أن يخسف بكم جانب البرّ

۳_ زمين ميں دھنسنے يا سنگريزوں كے طوفان ميں شكار ہونے كے امكان كى صورت ميں ہميشہ امن كا احساس كرنا فضول ہے_فلما نجكم إلى البر أعرضتم ا فأمنتم أن يخسف بكم جانب البرّ أو يرسل عليكم حاصبا

''خسف'' فعل ''ےخسف '' كا مصدر ہے اور لغت ميں دھنسنے كے معنى ميں ہے_ جبكہ ''البر''، ''بحر'' (دريا) كے مد مقابل خشكى كے معنى ميں ہے_

۴_الہى نعمتوں كى ناشكرى كرنے اور حق كى قدردانى نہ كرنے والے دنياوى عذاب مثلاً زمين ميں دھنسنا اور سنگريزوں كے طوفان ميں پھنسنے كے خطرہ ميں ہيں _وكان الإنسان كفوراً_ ا فأمنتم أن يخسف بكم أو يرسل عليكم حاصبا

۵_زمين اور طبيعت كے تمام مظاہر ارادہ الہى كے اجراء كے مقام ہيں _

أفأمنتم أن يخسف بكم جانب البرّ أو يرسل عليكم حاصبا

۶_موت لانے والے طبيعى حادثات انسانوں كو متوجہ كرنے والے وسيلہ ا ور ان كى تربيت كرنے والے اسباب ميں سے ہيں _أفأمنتم أن يخسف بكم جانب البرّ أو يرسل عليكم حاصبا

يہ كہ الله تعالى ان لوگوں كو جو خطرات سے بچنے كے بعد خدا سے دور ہوجاتے ہيں خبردار كر رہا ہے كہ كبھى بھى امن و امان كا احساس نہ كرو _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ ان حادثات كى طرف توجہ ممكن ہے انسان كے متوجہ ہونے اور تربيت پانے كے اسباب ميں سے ہو_

۱۸۹

۷_انسان ہميشہ سے طبيعى حادثات سے پيدا ہونے والے خطرات كى زد ميں ہے_

ضلّ من تدعون إلّا إيّاه فلمّا نجّكم إلى البر أن يخسف بكم جانب البرّ أور يرسل عليكم حاصبا

۸_الله تعالى كے سوا كوئي اورپناہ گاہ بھى طبيعى حوادث سے آنے والى يقينى موت سے نجات نہيں دے سكتي_

وإذا مسّكم الضّر فى البحر ضلّ من تدعون إلّا إيّاه فلمّا نَجّا كم إلى البرّ أعرضتم ...أفأمنتم أن يخسف بكم جانب البرّ أو يرسل عليكم حاصبا يہ كہ الله تعالى نے اس سے پہلى آيت ميں فرمايا كہ انسان خطرات ميں پڑنے كى صور ت ميں فقط الله تعالى اور اس كى نجات دينے والى قدرت كى ياد ميں پڑجاتا ہے اور نجات پانے كے بعد بھول جاتا ہے_ اور بعد والى آيت ميں خبردار كيا گيا ہے كہ كبھى بھى امن كا احساس نہ كرو_ اس سے معلوم ہوتاہے كہ صرف وہ ہے كہ جو انسان كو يقينى موت سے نجات دے سكتا ہے_

۹_انسان موت لانے والے حوادث كے گرداب ميں پھنسنے كے وقت الله تعالى كے سوا اپنى نجات كے لئے كسى كو كارساز اور پناہ گاہ نہيں پا تا_ثم لا تجدوا لكم وكيلا

۱۰_ہر حال (امن اور خطرہ كے حالات ) ميں الله تعالى كى قدرت اور حاكميت پر توجہ كا ضرورى ہونا_

نجّا كم الى البرّ ...أفأمنتم أن يخسف بكم أو يرسل عليكم حاصباًثم لا تجدوالكم وكيلا

الله تعالى :الله تعالى كے غضب سے بچنا ۲;اللہ تعالى كا انزار۱;اللہ تعالى كے مختصاّت۸;اللہ تعالى كے ارادہ كے مقام اجرائ۵;اللہ تعالى كى طرف سے نجات بخشى ۸، ۹

امن :بے جا امن كا احساس ۳

انسان :انسانوں سختى ميں ہونا ۹

تنبيہ :تنبيہ كے اسباب ۶

تربيت :

۱۹۰

تربيت كے اسباب ۶

حادثات:حادثات كا خطرہ ۷;حادثات كا كردار ۶

ذكر :الله تعالى كى حاكميت كے ذكر كى اہميت ۱۰;اللہ كى قدرت كے ذكر كى اہميت ۱۰;اللہ كے ذكر كا پيش خيمہ ۹

ڈرانا:عذاب سے ڈرانا ۱، ۴;ہلاكت سے ڈراونا ۱

زمين :زمين كا كردار ۵;زمين ميں دھنسنا ۳، ۴

طبيعى اسباب :طبيعى اسباب كا كردار ۵

طوفان:سنگريزوں كا طوفان ۳

عذاب :سنگريزوں كے طوفان كے ساتھ عذاب ۴; عذاب كا خطرہ ۴;عذاب كے وسائل ۴

مصيبتيں :طبيعى مصيبتوں سے نجات كى بنياد ۸;طبيعى مصيبتوں كا خطرہ ۷;طبيعى مصيبتوں كا كردار ۶; طبيعى مصيتبيں ۳

موت:موت سے نجات كا منشاء ۸

ناشكرى كرنے والے:ناشكرى كرنے والے كو ڈرانا ۱;ناشكرى كرنے والوں كى سزا ۴

نجات پانے والے:خطرے سے نجات پانے والوں كو ڈراونا ۱

ہلاكت:ہلاكت سے نجات كا محدود ہونا ۲;ہلاكت كا خطرہ ۳

آیت ۶۹

( أَمْ أَمِنتُمْ أَن يُعِيدَكُمْ فِيهِ تَارَةً أُخْرَى فَيُرْسِلَ عَلَيْكُمْ قَاصِفا مِّنَ الرِّيحِ فَيُغْرِقَكُم بِمَا كَفَرْتُمْ ثُمَّ لاَ تَجِدُواْ لَكُمْ عَلَيْنَا بِهِ تَبِيعاً )

يا اس بات سے محفوظ ہوگئے ہو كہ وہ دوبارہ تمھيں سمندر ميں لے جائے اور پھر تيز آندھيوں كو بھيج كر تمھارے كفر كى بنابپر تمھيں غرق كردے اور اس كے بعد كوئي ايسا نہ پاؤ جو ہمارے حكم كا پيچھا كرسكے (۶۹)

۱_خطرہ سے رہائي پانے والے ناشكرے لوگوں كو دوبارہ اسى خطرہ ميں گرفتار ہونے كے حوالے سے الله تعالى كا خبردار كرنا_أم أنتم أن يعيد كم فيه تارة أخرى

۲_ناشكرے اور حق سے منہ پھيرنے والے لوگ كسى صورت اور شرائط ميں بھى الله تعالى كے دنياوى عذاب سے سمندر اور خشكى ميں امان ميں نہيں ہيں _فلمّا نجّكم إلى البرّ ا عرضتم ا م امنتم أن يعيدكم فيه تارة أخرى _

۱۹۱

۳_سمندر كے خطرہ سے نجات پانے والوں كا دوبارہ سمندرى طوفان ميں گھرنے اور غرق ہونے كا امكان _

أم أمنتم أن يعيدكم فيه تارة أخرى

۴_حق سے دور انسان لمحہ بہ لمحہ تبديل ہونے والے اور آرام وامن كے دلدادہ ہيں _

أفا منتم أن يخسف بكم أم أمنتم أن يعيدكم فيه

مندرجہ بالا مطلب كى بنياد يہ ہے كہ حق سے دور لوگ سمندر كى موجوں سے نجات پانے كے بعد اپنى چند روزہ آسائش ميں گم ہوگئے اور الله كى ياد سے غافل ہوگئے_

۵_طوفانى اور توڑنے والى ہوائيں الله سے منہ پھيرنے والوں كے الہى عذاب كے اسباب ميں سے ہيں _يعيدكم فيرسل عليكم قاصفاً من الريح فيغرقكم بما كفرتم مصدر''قصف'' سے قاصف كا معنى توڑنے والا ہے_ (مفردات راغب)

۶_مشكلات سے نجات كے بعد الله تعالى كى ياد سے غفلت، حق سے انكار اور كفران نعمت كا ايك نمونہ ہے_

ا عرضتم فيغرقكم بما كفرتم كيونكہ الله تعالى نے اپنى ياد سے دورى كو ''كفر'' (كفر تم)سے تعبير كيا ہے پس معلوم ہوا الله سے دورى اس سے كفر ہے _

۷_الله تعالى سے كفر، مصيبتوں كے وسيلہ سے سزا ہونے كا موجب ہے_فيرسل عليكم قاصفاً من الريح فيغرقكم بما كفرتم

۸_الله تعالى كے خبردار كرنے كے باوجود عبرت حاصل نہ كرنے والوں كے لئے دنياوى عذاب و ہلاكت ميں مبتلاہونے كا امكان ہے_فلما نجكم إلى البرّ ا عرضتم أم ا منتم ا ن يعيدكم فيه فيغرقكم بما كفرتم

۹_الله تعالى ،انسان كے خطرات ميں قدم ركھنے كے قصد كے اسباب اور پيش خيمہ كو وجود ميں لاتا ہے _أم أمنتم أن يعيدكم فيه يرسل عليكم فعل متعدى ''يعيد'' اور ''يرسل'' كا آنا اور اس كا فاعل ''اللہ تعالى '' ہونا اس بات كى حكايت كر رہا ہے كہ انسان كے خطرہ كى طرف بڑھنے كا پيش خيمہ الله تعالى فراہم كرتا ہے_

۱۰_انسان كا عقيدہ اور عمل اس كے خطرات اور مقامات ہلاكت ميں پڑنے ميں اہم اور موثر كردار ادا كرتے ہيں ہے_

فيغرقكم بما كفرتم

۱۱_الله تعالى كے عذاب ميں ہلاك ہونے والے كوئي حامى اور قصاص لينے والے نہيں پائيں گے_

۱۹۲

فيغرقكم بما كفر تم ثم لا تجدوا لكم علينا به تبيعا

''تبيع'' تبع يتبع سے ہے _ اس سے مراد پيچھے آنا يا پيچھا كرناہے _ اس عبارت سے مراد يہ ہے كہ كوئي ايسا نہ ہوگا كہ جو ان كى ہلاكت كے حوالے سے پيچھا كرے گا اور ان سے دفاع كرے گا _

۱۲_غير خدا، الله تعالى كى قدرت اور ارادہ كے مقابلہ كرنے پر ناتوان _ثم لا تجدوا لكم علينا به تبيعا

۱۳_اللہ تعالى كسى كے مد مقابل جواب دہ نہيں ہے اور نہ كوئي اس سے پوچھ گچھ كرنے والا ہے_

فيغرقكم بما كفرتم ثم لا تجدوا لكم علينا به تبيعا يہ كہ الله تعالى نے فرمايا: كسى كو نہ پائوگے كہ جو الله سے دورى كرنے والوں كے فائدہ كى خاطر الله كے خلاف قدم اٹھائے_ اس كنايہ كا احتمال ہے كہ الله سے پوچھ گچھ كرنے والا كوئي نہيں ہے_

الله تعالى :الله تعالى اور ذمہ دارى ۱۳;اللہ تعالى سے پوچھنا ۱۳;اللہ تعالى سے دورى ۶;اللہ تعالى كى قدرت ۱۲;اللہ تعالى كے ارادہ كى حاكميت ۱۲;اللہ تعالى كے افعال ۹;اللہ تعالى كے ڈراوے ۱;اللہ تعالى كے ساتھ احتجاج ۱۳; الله تعالى كے مختصّات۱۲//الله تعالى سے دورى اختيار كرنے والے :

الله تعالى سے دورى اختيار كرنے والے لوگوں كى سزا ۵

انسان:انسان كا اختيار ۹;انسان كے عبرت حاصل نہ كرنے كے آثار ۸

حق:حق سے دور لوگوں كى سزا ۲;حق قبول نہ كرنے والوں كو عذاب ۲;حق قبول نہ كرنے والوں كى دنياوى سزا ۲

ڈراونا:عذاب سے ڈراونا ۲;ہلاكت سے ڈراونا ۱

سزا:سزا كے اسباب ۷;سزا كے وسيلے ۵، ۷; مصيبتوں كے ساتھ سزا ۷

عذاب :اہل عذاب كا بے يارو مددگارہونا ۱۱;دنياوى عذاب كے اسباب ۷;طوفان كے ساتھ عذاب ۳;عذاب كا پيش خيمہ ۸;عذاب كا خطرہ ۲

عقيدہ:عقيدہ كے آثار ۱۰//عمل :عمل كے آثار ۱۰

غفلت:الله تعالى سے غفلت كے آثار ۶

قدرت:

۱۹۳

غير خدا كى قدرت كى نفى ۱۲

الله تعالى كے كام كرنے والے ۵:

كفر:كفر كى علامات ۶;كفر كے آثار ۷

مصيبتيں :طبيعى مصيبتوں كا كردار ۷

ناشكري:نعمت كى ناشكرى كى علامات ۶

ناشكرى كرنے والے :ناشكرى كرنے والوں كو دنياوى سزا ۲;ناشكرى كرنے والوں كو ڈراونا۱;ناشكرى كرنے والوں كو عذاب ۲;ناشكرى كرنے والوں كى آسائش طلبي۴;ناشكرى كرنے والوں كى صفات ۴

نجات پانے والے:خطرے سے نجات پانے والوں كا غرق ہونا ۳;خطرے سے نجات پانے والوں كو ڈراونا ۱;خطرے سے نجات پانے والوں كے عذاب كا امكان ۳

ہلاكت:دنياوى ہلاكت كا پيش خيمہ ۸;ہلاكت كى بنياد ۹; ہلاكت كے اسباب ۱۰

ہوائيں :ہوائووں كا كردار ۵

آیت ۷۰

( وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلاً )

اور ہم نے بنى آدم كو كرامت عطا كى ہے اور انھيں خشكى اور درياؤں ميں سواريوں پر اٹھايا ہے اور انھيں پاكيزہ رزق عطا كيا ہے اور اپنى مخلوقات ميں سے بہت سوں پر فضيلت دى ہے (۷۰)

۱_تمام انسانوں (خواہ مؤمن خواہ غير مؤمن) كے پاس الله كى عطا شدہ كرامت ومنزلت ہے _ولقد كرّمنا بنى آدم

۲_الله تعالى كى طرف سے انسانوں كو مخصوص قدر عطا كرنے كى خاص عنايت _ولقد كرّمنا بنى آدم

۳_انسان كا اپنى الہى كرامت ومقام پر توجہ موجب بنتى ہے كہ وہ الله تعالى كى ناشكرى سے پرہيز كرے _

فيغرقكم بما كفرتم ولقدكرّمنا بنى آدم

موت كے خطرہ سے رہائي پانے كے بعد الہى نعمتوں كى ناشكرى كرنے والوں كے ماجرہ كو ذكر كرنے كے بعد انسان كى كرامت كا ذكر ،ہوسكتا ہے ان كے لئے مذمت ہو اور انسان كو يہ توجہ دلائے كہ انسانى كرامت اس كے ناشكرى سے اجتناب كے باعث ہے_

۱۹۴

۴_تمام انسان ايك نسل اور آدم كى اولاہيں _ولقد كرّمنا بنى آدم

۵_الله تعالى انسان كے لئے خشكى اور سمندروں ميں حركت كے امكانات اور مواقع كو فراہم كرنے والا_

وحملنهم فى البرّ والبحر

۶_انسانوں كى سمندر اور خشكى ميں سيروسياحت پر قدرت، الله تعالى كى طرف سے انسانوں كى تكريم كا جلوہ ہے _

ولقد كرّمنا بنى آدم وحملناهم فى البرّ والبحر

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ احتمال ہے كہ ''وحملناہم'' ميں واو(و) عطف تفسير ہوجو_''كرمّنا'' كو بيان رہى ہويعنى ہم نے انسانوں كو سمندر اورخشكى ميں سير وسياحت كے وسائل فراہم كركے ان كى تكريم كى ہے_

۷_الله تعالى كا انسانوں كو كرامت انسانى ،سمندروں اورخشكى ميں معاش كے ذخيرہ سے بہرہ مند كر كے احسان كرنا_

ولقد كرمّنا بنى آدم وحملناهم ورزقناهم من الطيبت

۸_الله تعالى نے لوگوں كو پاك وپاكيزہ اور مناسب روزى عطا كى ہے_ولقد كرّمنا بنى آدم ورزقناهم من الطيّبت

''طيب'' اس چيز كو كہتے ہيں كہ جو انسانى حواس اور جان كے لئے لذت بخش ہو_ (مفردات راغب) يہاں اس سے مراد انسانى طبيعت كے مناسب روزى ہے_

۹_انسانوں كا پاك وپاكيزہ اور مناسب روزى كا حامل ہونا الله تعالى كى طرف سے ان كى تكريم كا جلوہ ہے_

ولقد كرمنا بنى ادم ورزقناهم من الطيبات

يہ كہ ''ورزقناهم' ' ميں واو تفسير اور الله تعالى كى انسان كے لئے نوع اور مصداق تكريم بيان كرنے كے لئے ہو تومندر جہ تو جہ بالا مطلب سامنے آتا ہے_

۱۰_طبيعت پر مسلط ہونے اور اس سے فائدہ اٹھانے كے وسائل اور مواقع كا الہى ہونے پر انسان كى توجہ ضرورى ہے_

كرّمنا وحملناهم ورزقناهم وفضلنهم

''جمع متكلم'' كا تكرار اور انسانى كاموں كو الله كى طرف نسبت دينا شايد اس لئے ہو كہ وہ چاہتا ہے كہ انسان ان كے الہى ہونے پر توجہ كرے_

۱۱_پاكيزہ روزى انسان كے فائدہ اٹھانے كے لئے ہے اس ميں بلا وجہ زہد نہيں كرنا چايئےورزقناهم من الطيبات

۱۲_صرف پاك وپاكيزہ روزى اور الہى عطا شدہ رزق ہى پسنديدہ ہے_ورزقناهم من الطيبات

۱۹۵

مندرجہ بالا مطلب كى اساس ''من'' كا بيان كے لئے ہونا ہے

۱۳_اللہ تعالى نے انسانوں كو جہان كى بہت سى مخلوقات پر خاص امتياز او ربڑى فضيلت بخشى ہے_

وفضلنا هم على كثير ممن خلقنا تفضيلا

اہل لغت كى نظر ميں فعل''فضل'' كو مفعول مطلق ''تفضيلا''كے ساتھ استعمال كرنے سے مراد ، كسى چيز كو ممتاز كرنا اور كسى خصلت سے خاص كرنا ہے _(قاموس المحےط) اور فضيلت كا بڑا ہونا _ ''تفضيلا'' كے نكرہ ہونے سے سمجھا گيا ہے جو تعظےم وعظمت پر دلالت كررہا ہے_

۱۴_كائنات ميں انسان كے برابر يا اس سے برتر مخلوقات كا وجود_وفضلناهم على كثيرا

۱۵_كائنات ميں انسان كے علاوہ باشعور مخلوقات كا وجود_وفضلنا هم على كثير ممن خلقنا

كلمہ ''من'' جو كہ ذوى العقول كے لئے اور باشعور موجودات كے لئے آتا ہے _ اس كا لانا اور ''ما'' كا نہ لانا مندرجہ بالا نكتہ پر دلالت كرتا ہے_

۱۶_كائنات كے تمام موجودات پر انسانوں كى برترى اور فضيلت_وفضلنا هم على كثيرا

''كثير'' يہاں ''تمام'' اور الله تعالى كى فراوان مخلوقات كے معنى ميں ہے _ جيسا كہ لغت ميں ''كثير'' جميع كے معنى ميں بہت استعمال ہوا ہے_(مجمع البيان)

۱۷_انسان تمام موجودات كے ساتھ اپنے مشتركات ميں فضيلت اور برترى كا حامل ہے_وفضلناهم على كثير ممن خلقنا تفضيلا احتمال ہے كہ ''كرّمنا'' اور'' فضّلنا'' جو كہ دونوں انسانى توصيف كے لئے ہيں ان ميں تفاوت ہو كرامت، انسان كے لئے ذاتى اور خصوصى صفت ہوجبكہ فضيلت ايسى چيز ہے كہ موجودات ميں ہے ليكن ايك ان ميں سے برترى سكھتيہے_

۱۸_عن على بن محمد (الهادي)(ع) : ...ان معناه (صحة الخلقة) كمال الخلق للإنسان وكمال الحواس وثبات العقل والتمييز وإطلاق اللسان بالنطق وذلك قول الله ''ولقد كرمنا بنى آدم وحملناهم فى البر والبحر ورزقناهم من الطيبات وفضلنا على كثير ممن خلقنا تفضيلاً'' فقد ا خبر عزّوجلّ عن تفضيله بنى آدم على سائر خلقه (۱)

امام على بن محمد (ہادي(ع) ) سے روايت ہوئي ہے كہ

____________________

۱) تحف العقول ص ۴۷۰، رسالہ امام ہادى (ع) بحارالانوار ج ۵، ص ۷۷ ، ح ۱_

۱۹۶

بلاشبہ ''صحة الخلقة'' سے مراد انسان كى تخليق اوراس كے حواس كا كامل ہونا اور اس كى عقل اور قدرت تشخيص كا برقرار ہونا اور اس كى زبان كا گويا ہونا ہے اور يہ الله تعالى كا كلام ہے كہ وہ فرمارہا ہے''ولقد كرّمنا بنى آدم وحملنا ہم فى البرّ ولبحر ورزقناہم من الطيبات وفضّلنا ہم على كثير ممن خلقنا تفےضلاً''پس بتحقيق الله تعالى نے بتايا ہے كہ (كيسے) انسان كو تمام مخلوقات پر برترى بخشى ہے

۱۹_عن أبى جعفر (ع) فى قوله : تعالى :''وفضّلنا هم على كثير ممن خلقنا تفضيلاً'' قال: خلق كل شي منكباً غيرالإنسان خلق منتصباً_ (۱) امام باقر عليہ السلام سے تعالى كے اس كلام''فضّلنا على كثير ممن خلقنا تفضيلا'' كے بارے ميں روايت ہوئي كہ انہوں نے فرمايا : تمام موجودات (حيوانات ) ہاتھ اور پائوں پر چلتے ہيں اور ان كا منہ زمين كى طرف ہے جبكہ انسان ايسا نہيں ہے بلكہ سيدھاخلق كيا گيا ہے_

آدم (ع) :آدم (ع) كى نسل ۴

الله تعالى :الله تعالى كا احسان ۷ ;اللہ تعالى كى رازقيت ۸;اللہ تعالى كى روزى ۱۲;اللہ تعالى كى عطا ۲، ۸;اللہ تعالى كے افعال ۵

انسان:انسان پر احسان ۷;انسان كى برترى ۱۳، ۱۶، ۱۷;انسان كى تكريم ۲، ۷، ۱۸;انسان كى تكريم كى بنياد ۱;انسان كى تكريم كى علامات ۶، ۹;انسان كے اسلاف ۴;انسان كے فضائل ۱، ۲، ۱۳، ۱۶، ۱۷، ۱۸، ۱۹;انسانوں كى معاش كا پورا ہونا ۷;انسان كے مقامات ۳

حركت:حركت كى بنياد ۵

حمل ونقل:زمينى حمل ونقل كے وسايل ۵;سمندرى حمل ونقل كے وسائل ۵

سمندر :سمندر ذخائر ۷

ذكر:كرامت انسان كے ذكر كے آثار ۳;نعمت كے ذكر كى اہميت ۱۰

روايت : ۱۸، ۱۹

روزى :پاكيزہ روزى ۸، ۹، ۱۳;پاكيزہ روزى سے فائدہ اٹھانا ۱۱;پسنديدہ روزہ ۱۲;روزى كا سرچشمہ ۸

زہد:بلاوجہ زہد كى مذمت ۱۱//سفر :سمندرى سفر ۶;زمينى سفر ۶

____________________

۱) تفسير عياشى ج ۲، ص ۳۰۲، ح ۱۱۳_ نورالثقلين ج ۳، ص ۱۱۸، ح ۳۱۵_

۱۹۷

طبعيت:طبيعت پر حاكميت كى بنياد ۱۰;طبيعت سے فائدہ اٹھانے كے وسائل ۱۰

موجودات :باشعورموجودات۱۵;برترموجودات۱۴;موجودات كى اقسام ۶

ناشكري:نعمت كى ناشكرى سے پرہيز ۳

آیت ۷۱

( يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ فَمَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَأُوْلَـئِكَ يَقْرَؤُونَ كِتَابَهُمْ وَلاَ يُظْلَمُونَ فَتِيلاً )

قيامت كا دن وہ ہوگا جب ہم ہر گروہ انسانى كو اس كے پيشوا كے ساتھ بلائيں گے اور اس كے بعد جن كا نامہ اعمال ان كے داہنے ہاتھ ميں ديا جائے گا وہ اپنے صحيفہ كو پڑھيں گے اور ان پر ريشہ برابر ظالم نہيں ہوگا (۷۱)

۱_تمام انسانوں سے روز قيامت ان كے كردار اور اعمال كے بارے ميں پوچھ گچھ ہوگى _

يوم ندعواكل أناس إيمامهم

يہ كہ الله تعالى نے فرمايا:تمام لوگوں كو ان كے امام كے ساتھ روز قيامت بلاياجائے گا اور نيز يہ بھى فرماياكہ جن كے دائيں ہاتھوں ميں نامہ اعمال ہوگا انہيں بھى بلايا جائے گا سے معلوم ہوا سب كى بازپرس ہوگي_

۲_قيامت اور اس دن لوگوں اور ان كے اماموں كا حاضر ہونا ايسا دن ہے كہ جسے ياد ركھنا چاہئے_

يوم ندعواكل أناس إيمامهم

مندرجہ بالا مطلب كى بنياد يہ ہے كہ ''يوم'' فعل محذوف ''اذكر'' كى وجہ سے منصوب ہو اور ''بامامہم ''ميں با مصاحبت كے لئے ہو_

۳_قيامت تمام نسلوں اور لوگوں كے تمام گروہوں كو ان كے ائمہ كے ہمراہ بلانے كا دن ہے_يوم ندعوا كل أناس إيمامهم

۴_ انسانوں كو ان كے اماموں كى بنياد پر تقسيم كياجائے گا _يوم ندعوا كل أناس إيمامهم

مندرجہ بالا مطلب كى بنياد يہ احتمال ہے كہ آيہ''ندعوا كل اناس بامامهم'' سے مراد ،لوگوں كو ان كے آئمہ كے ناموں كے ساتھ بلانامقصود ہو_

۵_امتوں كى تقدير ميں ائمہ اور رہبروں كا اہم كردار _يوم ندعوا كل أناس إيمامهم

لوگوں كے گروہوں ميں امتوں كے اعمال كى جانچ پڑتال كرنے اور جواب دہ ہونے كے لئے رہبوں كو معيّن كيے جانے سے مندرجہ بالا مطلب سامنے آتا ہے_

۱۹۸

۶_دنيا كے تمام لوگ (خواہ نيك خواہ بد) ناگزير ہيں كہ مخصوص امام يا رہبر ركھيں اور اس كى پيروى كريں _

يوم ندعوا كل أناس إيمامهم

يہ كہ الله تعالى نے فرمايا : تمام لوگوں كو ان كے اماموں كے ساتھ بلاياجائے گا اس سے معلوم ہوا كہ دنيا ميں سب لوگوں كے امام ہيں _

۷_انسان نيك عاقبت كے حصول كے لئے مكمل ہوشيارى سے صالح اور شائستہ ا ئمہ كى اتباع ميں رہيں _

يوم ندعوا كل أناس إيمامهم

يہ كہ الله تعالى نے قيامت كى يوں توصيف كى ہے كہ تمام لوگوں كو ان كے اماموں كے نام سے بلاياجائے گا_ يہ ايك قسم كا خبردار كرنا ہے كہ وہ متوجہ رہيں كہ كس كے پيچھے چل رہے ہيں _

۸_ تمام انسان ،اپنے رہبر چننے اور ان كى اتباع كرنے ميں جواب دہ ہيں _يوم ندعوا كل أناس إيمامهم

۹_انسان اپنے دنياوى اعمال كو روز قيامت ايك تحرير شدہ مجموعہ كى صورت ميں حاصل كريں گے_

فمن أُوتى كتابه بيمينه

۱۰_روز قيامت انسانوں كا محاكمہ، دلائل اور لكھى ہوئي سند كى بناء پر ہوگا_ندعوا فمن أُوتى كتابه بيمينه

۱۱_بعض انسان قيامت ميں حاضر ہونے كے بعد اپنے نامہ اعمال كو اپنے دائيں ہاتھ سے وصول كريں گے _

يوم ندعوا فمن أُوتى كتابه بيمينه

۱۲_قيامت كے روز دائيں ہاتھ ميں نامہ اعمال كا آنا نيك عاقبت اور سعادت كى علامت ہے _

فمن أُوتى كتابه بيمينه فا ولئك يقرء و ن كتابهم ولا يظلمون فتيلا

۱۳_سعادتمند لوگ روز قيامت اپنا نامہ اعمال بہ نفس نفيس ديكھيں گے_

فمن أُوتى كتابه بيمينه فا ولئك يقرء ن كتابهم

۱۴_سعادت مندلوگوں كے اعمال كے حساب اور انكى اخروى جزاء ميں معمولى سا ظلم اور ناانصافى نہ ہوگي_

فمن اوتى كتابه بيمينه ولا يظلمون فتيلا

۱۵_اخروى سزا اور جزا كے نظام پر قانون عدل كى حكمرانى پر توجہ، انسانوں كو اچھے اعمال وكردار كہ جن كا ثواب ہو، ادا كرنے پر مائل كرتى ہے _

فمن أُوتى كتابه بيمينه ولا يظلمون فتيلا

يہ كہ الله تعالى قيامت كے دن كے اپنے جزا دينے كے نظام كو لوگوں پر واضع كر رہا ہے يہ ہوسكتا ہے اس لئے ہو كہ لوگ

۱۹۹

اےسے اعمال كى طرف مائل ہوں كہ جن سے الہى جزاء مل جاتى ہو_

۱۶_عن الأصبغ بن نباته قال: عمروبن حريث فى سبعة نفر ...إذخرج عليهم ضبّ فصادوه فا خذه عمروبن حريث فنصب كفّه وقال : بايعوا هذإميرالمؤمنين فبايعه السبعة وعمروثامنهم فقدموا المدائن يوم الجمعة وأميرالمؤمنين (ع) يخطب فقال: ''يوم ندعوا كلّ اناس إيمامهم'' وإنى اقسم لكم بالله ليبعثن يوم القيامة ثمانية نفريدعون لإمامهم وهو ضبّ ..(۱)

اصبغ بن نباتہ سے روايت ہوئي كہ اس نے كہا عمروبن حريث سات نفر كے ساتھ تھا انہيں ايك چھپكلى نظر آئي انہوں نے اسے شكار كيا تو عمروبن حريث نے شكار اٹھا كر اس پر ہاتھ پھيرا اور كہا آئو يہ اميرالمؤمنين ہے ا سكى بيعت كريں تو سات افراد نے بيعت كى اس كے بعد عمروبن حريث جو آٹھواں نفر تھا اس نے بيعت كى پس وہ روز جمعہ مدائن ميں داخل ہوئے كہ حضرت على (ع) خطبہ دے رہے تھے تو انہوں نے فرمايا : ''يوم ندعو كل اناس بامامہم'' ميں تمھارے لئے الله كى قسم اٹھاتا ہوں كہ جب قيامت بپا ہوگى تو آٹھ نفر اپنے اپنے امام كے ساتھ بلائے جائيں گے كہ جن كا امام چھپكلى ہوگي_

۱۷_عن بشير الدهان عن أبى عبدالله (ع) قال: ا نتم والله على دين الله ثم تلا''يوم ندعوا كل أناس بامامهم '' ثم قال: عليّ إمامنا ورسول الله (ص) إمامنا (۲)

بشير دہان كہتے ہيں كہ: امام صادق (ع) نے فرمايا : خدا كى قسم تم لوگ دين خدا پر ہو پھر اس آيت كى تلاوت فرمائي ''يوم ندعوا كل أناس إےمامہم'' پھر فرمايا على (ع) اور رسول الله (ص) ہمارے امام ہيں _

۱۸_(ورد على الحسين بن علي(ع) ...) رحل يقال له بشر بن غالب فقال يابن رسول الله (ص) ا خبرنى عن قول الله عزّوجلّ :''يوم ندعوا كل أناس إيمامهم'' قال : إمام دعا إلى هدى فا جابوه إليه وإمام دعا إلى ضلالة فا جابوه إليها .._(۱) ايك شخض كہ جسے بشر بن غالب كہا جاتا تھا وہ (امام حسين(ع) كى خدمت ميں حاضر ہوا اور ) كہنے لگا: اے فرزند رسول مجھے بتائيں كہ الله كے اس كلام ''يوم ندعوا كل أناس إےمامہم '' سے كيا مراد ہے؟ حضرت (ع) نے فرمايا : وہ امام كہ جو ہدايت كى طرف دعوت كرتا ہو تو ايك گروہ اس كى دعوت پر لبيك كہتا ہے اور وہ امام كہ جو گمراہى كى طرف دعوت كرتا ہے تو ايك گروہ اس كى دعوت پر بھى لبيك كہتا ہے_

____________________

۱)خصال صدوق ج ۲ ص ۶۴۴، ح ۲۶_ نورالثقلين ج ۳، ص ۱۹۰، ح ۳۲۷_۲) تفسير عياشى ج ۲، ص ۳۰۳، ح ۱۲۰_ نورالثقلين ج ۳، ص ۱۹۴، ح ۳۴۴_

۳) امالى صدوق ص ۱۲۱، ح۱، مجلس ۳۰_ نورالثقلين ج ۳، ص۱۹۲، ح ۳۳۵_

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945