تفسير راہنما جلد ۱۰

تفسير راہنما 6%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 945

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 945 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 247337 / ڈاؤنلوڈ: 3404
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱۰

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

(هَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنَ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَذْکُوراً )(١)

''کیا انسان پر ایسا وقت بھی آیا ہے کہ جب وہ کوئی قابل ذکر شے سے نہیں تھا؟''۔

کبھی سوالات کودوسروں کی زبان سے بھی بیان کرتا ہے:

( ٰیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَالِ )(٢)

''(اے پیغمبر!) آپ سے یہ لوگ انفال کے بارے میں سوال کرتے ہیں''۔

(یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَهِلَّةِ )(٣)

''(اے پیغمبر!)یہ لوگ آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں''۔

(یَسْتَفْتُونَکَ قُلِ اللّٰه یُفْتِیْکُمْ فِی الْکَلَالَةِ )(٤)

''(اے پیغمبر!) یہ لوگ آپ سے فتویٰ دریافت کرتے ہیں تو آپ ان سے کہدیجئے کہ خداوند کلالہ (بھائی بہن) کے بارے میں حکم بیان کرتا ہے...''۔

پیغمبر اکرم کے بیانات میں بھی سوال وجواب کے طریقے کثرت سے پائے جاتے ہیں:

''آیا تم میں سب سے افضل شخصکے بارے میں خبر نہ دوں... ''؟

''آیا خدا کے نزدیک بہترین اعمال کی خبر نہ دوں...''؟

''آیا تمہیں لوگوں میں سب سے بڑے انسان کی خبر نہ دوں...''؟

''آیا تمہیں ایسے لوگوں سے باخبر نہ کروں جو اخلاق میں مجھ سے سب سے زیادہ مشابہ ہیں...؟

اخلاقی اقدار کی دعوت کے لئے کلی طور پر آیات وروایات، نصیحت آمیز اشعار اور بزرگوں کے کلمات سے استفادہ کہ جو ''مقبولات عقلی '' شمار ہوتے ہیں، دعوت کی تاثیر میں دوگنا اضافہ کردیتا ہے۔

اخلاقی اقدار کی طرف دعوت کی روش سے استفادہ ''خود تربیتی'' کی صورت میں یہ ہے کہ ہم خود اپنے آپ کو اس دعوت کے معرض میں قرار دیتے ہیں۔

____________________

١۔ سورہ ٔانسان، آیت١۔ ٢۔ سورہ ٔانفال، آیت١۔ ٣۔ سورہ ٔبقرہ، آیت١٨٩۔ ٤۔ سورہ ٔنسائ، آیت١٧٦۔

۲۰۱

دوسری فصل:

ا سلا م میں ا خلا قی تر بیت کے طر یقے

۱۔ عقلانی قوت کی تربیت

(اقدار اور موعظہ کی دعوت)گذشتہ روش کے برعکس کہ عام طور پر انسان کے عاطفی پہلو پر تاکیدکرتی ہے، اس روش میں بنیادی تاکید انسان کے شناختی، معرفتی اور ادراکی پہلو پر ہے، جس طرح عاطفی محرّک رفتار کے اصول ومبادی میںشمار ہوتا ہے، فائدہ کا تصور وتصدیق بھی شناخت کیاصول ںومبادی میں سے ہے کہ یہ روش اس کی ضرورت پوری کرنے کی ذمہ دار ہے۔

قرآن کریم اور معصومین علیہم السلام کے ارشادات وتعلیمات اس روش اور طریقے پرتاکید کرتے ہیں، اور اس کے حدود، موانع اور مقتضیات کو بیان کرتے ہیں۔

قرآن نے تعقل، تفقہ، تدبر، لبّ، حجر، نہیٰ، حکمت، علم وفہم جیسے الفاظ کا استعمال (ان ظریف تفاوت کے لحاظ سے بھی جو ان کے درمیان پائے جاتے ہیں) کا اس روش سے استفادہ کے لئے کیا ہے۔ قرآنی آیات مندرجہ باتوں کے ذریعہ اپنے مخاطبین کی معرفت اور عقثلانی قوت کی پرورش کرتی ہے:

استفہام تقریری یا تاکیدی کے ذریعہ سے(١) گذشتہ افراد یا اکثریت کی اندھی تقلیداورپیروی کرنے کی ممانعت ہے،(٢) ان لوگوں کی مذمت جوتعقل نہیں رکھتے،(٣) ان لوگوں کی مذمت جوبغیر دلیل کے کسی چیز کو قبول کرلیتے ہیں،(٤) تعقل وتدبرکی دعوت،(٥) موازنہ اور تنظیر،(٦) احسن انتخاب پرترغیب وبشارت(٧) وغیرہ۔

____________________

١۔ سورہ ٔبقرہ، آیت٤٤۔سورہ ٔقیامت، آیت٢۔

٢۔ سورہ ٔزخرف، آیت٢٢۔٢٣۔٢٤ اور سورہ ٔانعام، آیت١١٦۔

٣۔ سورہ ٔانفال، آیت٢٢۔

٤۔ سورہ ٔانعام، آیت١١٦۔ سورہ ٔزخرف، آیت٢٠۔

٥۔ سورہ ٔیوسف، آیت ١٠٥۔

٦۔ سورہ ٔزمر، آیت٩، سورہ ٔرعد، آیت ١٦ اور سورہ ٔنحل، آیت٧٦۔

٧۔ سورہ ٔزمر، آیت ١٨۔

۲۰۲

روایات بالخصوص اصول کافی کی کتاب عقل وجہل اور دیگرروائی ماخذمیں بھی عقل وتعقل کو عظیم مرتبہ کا حامل قرار دیا گیاہے اورانسان کے اخلاقی تربیت سے متعلق خاص طورپر اس کے نقش وکردارکو موردتوجہ قراردیا گیا ہے۔(١)

علمائے اخلاق کی تربیتی روش میں بھی ان کی اصلاحی تدبیروں راہنمائیوں کا ایک قابل توجہ حصہ انسان کی شناختی پہلوسے متعلق ہے ،جیسے انسان کے ذہنی تصورات کی ایجاد یا تصحیح خود عمل یا اخلاقی صفت سے، اعمال کے دنیوی اور اخروی عواقب و نتائج کی ترسیم، اخلاقی امور کے بُرے یا اچھے لوازم اور ملزومات ان کے اخلاقی نظریہ میں بھی، غضب اور شہوت کی قوتوں پر عقلانی قوت کے غلبہ کواخلاقی رذائل سے انسان کی نجات اور اخلاقی فضائل کی طرف حرکت کا سبب ہے، اس لئے کہ قوۂ عقل کے غلبہ سے تمام قوتوں کے درمیان اعتدال پیدا ہوتا ہے اور فضیلت کا معیار بھی اعتدال۔ تفکر وتعقل کے وہ موارد جو اخلاقی تربیت میںموثر ہوسکتے ہیں، آیات وروایات میں ان کا تعارف کرایاگیا ہے:

١۔ طبیعت:

''زمین وآسمان میں کتنی زیادہ علامتیں اور نشانیاں ہیں کہ جن پر سے لوگ گذرتے ہیںاس حال میں کہ اُن سے روگرداں ہوتے ہیں''۔(٢)

٢۔تاریخ:

حضرت علی ـ فرماتے ہیں:

''حضرت اسماعیل کے فرزندوں، اسحاق کے فرزندوںاور یعقوب کے فرزندوں سے عبرت حاصل کرو، کس قدر ملتوں کے حالات آپس میں مشابہ اور ان کے افعال وصفات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ اُن کے پراگندہ اور متفرق ہونے کے بارے میں غور کرو، جس وقت روم وفارس کے بادشاہ اُن کے ارباب بن گئے تھے(٣) میرے بیٹے! یہ سچ ہے کہ میں نے اپنے گذشتہ افراد کی عمر کے برابر زندگی نہیں پائی ہے، لیکن اُن کے کردار میں غور وفکر کیا ہے، ان کے اخبار کے بارے میں تفکر کیا ہے اور ان کے آثار میں سیر وسیاحت کی ہے کہ ان میں سے ایک کے مانند ہوگیا، بلکہ گویا جو کچھ ان کی تاریخ سے مجھ تک پہنچا ہے ان سب کے ساتھ میں اول سے آخر تک ہمراہ تھا''۔(٤)

____________________

١۔ اصول کافی، ج١، باب جنود عقل وجنود جہل۔٢۔ سورہ ٔیوسف، آیت١٠٥۔٣۔ نہج البلاغہ، خطبہ قاصعہ، ١٩٢۔ ٤۔ نہج البلاغہ، مکتوب ٣١۔

۲۰۳

٣۔قرآن:

''آیا قرآنی آیات میں غور وفکر نہیں کرتے؟ یا (یہ کہ) ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں''۔(١)

٤۔انسان:

حضرت امام حسین ـ کی دعائے عرفہ کے پہلے فقرات سے اور توحید مفضل(بحار، ج٣) سے مفید اور کار آمد نکات معلوم ہوتے ہیں: اخلاقی قواعد کا اثبات اور تزکیہ باطن عام طور پر بغیر عقلانی قوت کی تربیت کے ممکن نہیں ہے، یہ روش خود سازی اور دوسروں کی تربیت سے وجود میں آسکتی ہے شناخت و معرفت کے ماہرین نفسیات بالخصوص ''پیاژہ'' اس روش کی بہت زیادہ تاکید کرتا ہے وہ اخلاقی نمونوں تک رسائی کو ''قابل تعمیر'' اور فعّال وخود سازی روش جانتا ہے نیز معتقد ہے کہ اخلاقی تحول وانقلاب شناخت کے رشد وتحول کے بغیرممکن نہیں ہے:یہاں پر ایک قسم کی عجیب وحیرت انگیز ہماہنگی، اخلاقی وعقلانی تربیت میں پائی جاتی ہے جسے یوں ذکر کیاجاتا ہے کہ آیا جو کچھ تربیت خارج سے انسان کو دیتی ہے تاکہ اس کے اکتسابی یا فردی ادراک کو بے نیازاور مکمل کرے، سادہ قواعد اور حاضر آمادہ معراف میں محدود منحصر ہوسکتا ہے ؟ ایسی صورت میں آیا مراد یہ نہیں ہے کہ (صرف) کچھ تکالیف ایک طرح کی اور حس اطاعت انسان پر لازم کی جائے... یایہ کہ اخلاقی تربیت سے استفادہ کا حق عقلی تربیت حق کے مانند یہ ہے کہ انسان حق رکھتا ہو کہ عقل واخلاق کو اپنے اندر واقعاً جگہ دے یا کم ازکم ان کے فراہم کرنے اور ان کی تعمیر میں شریک اور سہیم ہو، تاکہ اس مشارکت کے نتیجہ میں وہ تمام افراد جو ایک دوسرے کے معاون اور مددگار ہیں، ان کی تعمیر پر مجبور ہوجائیں۔ لہٰذا اخلاقی تربیت کی راہ میں، ''خود رہبری'' کا مسئلہ عقلی خود سازی کے مقابلہ میں ان افراد کے درمیان جو اس کی تلاش میں ہیں ذکرکیا جاتا ہے۔(٢)

جو طریقے اس روش کے تحقق میں استعمال کئے جاسکتے ہیں درج ذیل ہیں:

الف ۔افکار کی عطا اور اصلاح:

اخلاقی اعمال فکر کی دوقسموں سے وجود میں آتے ہیں:

پہلی قسم :

انسان کا اپنی ھستی کے بارے میں آگاہ ہونا، دنیا، نظام عالم، مبدأ اور معادکی نسبت وہ کلی یقین ومعتقدات ہیں کہ انھیں خداشناسی اور فلسفہ حیات کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ واضح ہے کہ انسان کی نگاہ اپنے اطراف کے عالم پر اُس کی اخلاقی رفتار میںموثر ہے۔ اعتقادات جیسے خدا کی قدرت کااحاطہ اور حضور عالم کا توحیدی انسجام یا نظام تقدیر، خدا پر توکل، تمام امور کا اس کے حوالہ کرنا، تسلیم ورضا وغیرہ سارے کے سارے ہمارے اخلاقی رفتار میں ظاہر ہوتے ہیں۔

____________________

١۔ (اَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرآنَ اَمْ عَلیٰ قُلُوبٍ اَقْفَالُهَا )(سورہ ٔمحمد، آیت٢٤) ٢۔ پیاژہ: تربیت رہ بہ کجا می سپرد، ص٥٣۔

۲۰۴

آج کل سلامتی کے ماہرین نفسیات اس نکتہ کی طرف توجہ رکھتے ہیں کہ خدا شناسی اور انسجام عالم کی حس کی نسبت، انسان کی مقاومت کے لئے ایک ایسا مرکز فراہم کرتی ہے کہ جو اخلاقی متانت کہ انسان کی سلامتی کے لئے عالم کو دبائو میں ڈالنے والے حوادث کے مقابل تاثیر گذار ہے۔

انسجام کی حس ایک مقابلہ کا مأخذ ہے، حس انسجام (دنیا کے نظم وضبط میں تنظیم ویگانگی کا احساس کرنا) ایک قسم کی خداشناسی ہے کہ جس سے مراد مندرجہ امور کی نسبت دائمی اور مستمرّ اطمینان کے احساس ہے:

١۔ ایسے محرک جو انسان کی پوری زندگی میں باطنی اور بیرونی ماحول سے پیدا ہوتے ہیں، تشکیل شدہ منظم، پیشین گوئی کے قابل اور قابل توجیہ ہیں۔

٢۔انسان ان ضرورتوں سے روبرو ہونے کے لئے کہ جن کو ان محرکات نے ایجاد کیا ہے، کچھ وسائل ماخذ رکھتا ہے؟

٣۔یہ ضرورتیں، ایسی کوششیں ہیں جو سرمایہ گذاری اور وقت صرف کے لائق ہیں۔ یہ لوگ دنیا کو قابل درک اور قابو میں کرنے کے لائق جانتے ہیں اور زندگی کے واقعات وحوادث کو بامعنی محسوس کرتے ہیں۔(١)

دوسری قسم :

ایسے افکار ہیں کہ جو عمل کی اصلاح اورصحت سے متعلق ہیں اور یہ کہ یہ خاص رفتار عمل کرنے والے کے ہدف سے یگانگت رکھتی ہے۔اور حقیقت میں اطلاعات دینے کے ایک طریقہ سے مربوط ہے۔

البرٹ الیس شناخت سے متعلق ماہرنفسیات ہے کہ جو اپنی نجاتی روش کے سلسلہ میں عقلی اور عاطفی علاج سے استفادہ کرتا ہے اُس نے غیر عقلی تفکر کے نمونے پیش کرنے کے شاتھ اُس کا علاج جدید آمادگی اور جدید افکار ومعتقدات کو اُن کا جاگزین کیا جانا ہے کبھی غیر اخلاقی رفتار یانامطلوب صفات غلط نظریہ اور خیال کا نتیجہ ہوتے ہیں کہ جو دھیرے دھیرے انسان کے فکری نمونے بن جاتے ہیں اورایسے نظریوں کا تبدیل ہونا اخلاقی تربیت کے لئے ضروری ہے، غیر عقلی (غیر معقول) تفکر کے بعض نمونے ہر طرح کی اخلاقی رفتار کی تبدیلی سے مانع ہوسکتے ہیں، الیس ان موارد کو اس طرح بیان کرتا ہے:

١۔انسان اس طرح فرض کرے کہ اُن افراد کی جانب سے جو اس سے متعلق اور اُس کے لئے اہم ہیں مورد تائید، اور لائق محبت و احترام واقع ہو۔

____________________

١۔ Psyhology Health/.p۳۲۷

۲۰۵

٢۔جب بھی انسان سے کوئی لغزش ہوجائے تو اس کے لئے صرف اتنا اہم ہے کہ وہ مقصّر کا سراغ لگائے اور اسے سزا دے۔

٣۔اگر مسائل اس کی مراد کے مطابق نہ ہوں تو اُس کے لئے حادثہ آمیز چیز ہوگی۔

٤۔سب سے زیادہ آسان یہ ہے کہ انسان مشکلات اور ذمہ داریوں سے فرار کرے، نہ کہ اُن کا سامنا کرے۔

ب۔ ا خلاقی استدلال:

پیاژہ اور کلبرگ نے اس روش سے استفادہ کیا ہے اس طرح سے کہ داستانوں کو بچوں کے شناختی تحوّل وانقلاب کی میزان کے مطابق اس طرح بیان کرتے تھے کہ ان کے ضمن میں داستان کا ہیرو اخلاقی دوراہہ پر کھڑا ہے اوریہاں پر داستان کے مخاطب کو چاہئے کہ جو استدلات وہ بیان کرتا ہے ان سے اپنی اخلاقی قضاوت کااستخراج کرے مربی جزئی دخالتوں سے اس اخلاقی بحران کی بحث چھیڑے ( البتہ ان سے آگے قدم نہ بڑھائے یا کوئی استدلال پیش نہ کرے) اور صرف بالواسطہ ہدایت کرے اور ان کے استدلات کو صاف وشفاف کرے۔ یہ استدلات تربیت پانے والے کے ذہن میں نقش چھوڑتے ہیں اور اُسے انجانے طریقہ سے اس کی اخلاقی رفتار میں ہدایت کرتے ہیں۔

اخلاقی استدلال بلاواسطہ اورخود عمل پر بھی ناظر ہوسکتے ہیں؛ یعنی انسان کا روبرو ہونا اپنے اعمال کے نتائج کے ساتھ۔ علمائے اخلاق کی روش میں بھی اس طرح کے اقدامات پائے جاتے ہیں: عمل کے نتائج و آثار روش سے واضح انداز میں انسان کے لئے مجسّم ہوتے ہیں اور مخاطب کو یقین حاصل ہوتا ہے کہ یہ عمل اس طرح کے نتائج وآثار کا حامل ہے، درحقیقت ہم اس کے لئے موقعیت کی توصیف کرتے ہیں ( بغیر اس کے کہ اُس میں امرو نہی درکار ہو) اوریہ خود انسان ہے کہ جو ان نتائج کو درک کرکے انتخاب کرتا ہے اور اس کے عمل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے قرآنی آیات کبھی عمل کے ملکوتی کو مجسّم کرکے اس روش اور اسلوب سے استفادہ کرتی ہیں:

''اے صاحبان ایمان !... تم میں سے بعض بعض کی غیبت نہ کرے آیا تم میں سے کوئی چاہتاہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ یقیناً اُسے ناپسند کروگے (لہٰذا) بے شک خدا سے ڈرو کہ خدا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے''۔(١)

____________________

١۔ سورہ ٔحجرات، آیت ١٢۔

۲۰۶

کبھی اعمال کے دنیوی یا اخروی نتائج کی منظر کشی کرکے افراد کو ان کے عواقب سے آشنا کرتا ہے:

''ایک دوسرے سے مجرموں کے بارے میں سوال کریں گے : ''کس چیز نے تمہیں سقر (کی آگ) میں جھونک دیا ہے؟ '' وہ کہیں گے : ''ہم نمازگذاروں میں سے نہیں تھے، اور مسکینوں اور بے نوائوں کو ہم کھانا نہیں دیتے تھے...''(١)

ج۔ مطالعہ اور اطلاعات کی تصحیح:

مطالعہ لغت میںان معانی میں استعمال ہوتا ہے: کسی چیز کے معلوم کرنے کے لئے اُس کو دیکھنا ، کسی کتاب یا کسی نوشتہ کا پڑھنا اور اس کا سمجھنا.......۔

آخری سالوں میں اطلاعات فراہم کرنے والوں کے اقدام نے بہت سے ماہرین نفسیات کی توجہ اپنی طرف جلب کرلی ہے(٢) کیونکہ جو اطلاعات انسان کے ذہنی سسٹم میں وارد ہوتی ہیں، وہ انسانی رفتار کو جہت دینے میں ایک اہم اور قابل تعیین کردار ادا کرتی ہیں۔ البتہ اطلاع کی فراہمی کا اندازبھی اہم ہوتا ہے کہ افکار کی عطا کی بحث میں ان کی طرف اشارہ ہواہے۔ بِک ] Beck [منجملہ ان کے ماہریں نفسیات میں سے ہے کہ جو اسی طریقۂ عمل سے افسردگی کی بیماریوں کا علاج کرتا ہے۔ اخلاقی بیماریوں کا علاج کرنے یا کلی طور پر صحیح اخلاقی تربیت یا فضائل اخلاقی کی ر اہ پیدا کرنے میں اسی طرز واسلوب سے مدد لے سکتے ہیں، یعنی اخلاقی مشکلات کے سلسلہ میں علم اخلاق کی مناسب کتابوں کا مطالعہ اور جدید اطلاعات کے حصول سے انسان اپنے عمل کے اسباب وعوامل کو پہچان لیتا ہے اور اس میں تبدیلی یااصلاح انجام دیتا ہے اور بالواسطہ طور پر اخلاقی تربیت کا باعث ہوتاہے۔ کبھی اس کی سابق اطلاعات سے متعارض اطلاعات اُسے غور وفکر اور فیصلہ کرنے نیز تجدید نظر کرنے کی دعوت دیتی ہیں۔

د ۔مشورت ومشاورہ:

اس سے مراد مربی اور تربیت دیئے جانے والے یاوالدین اور فرزندوں کے درمیان ایک طرح کا معاملاتی رابطہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی مدد اور حمایت سے مسئلہ کا تجزیہ وتحلیل کریں اور اخلاقی مسائل میں ایک مشترک راہ حل تک رسائی حاصل کریں۔ یہ طرز تربیت پانے والی شخصیت کے احترام واکرام

____________________

١۔ سورہ ٔمدثر، آیت ٤٠تا ٤٤۔

٢۔ روان شناسی رشد بانگرش بہ منابع اسلامی، ج٢، ص٦٢٦۔

۲۰۷

کے علاوہ اخلاقی تربیت کے اعتبار سے رشد عقلی کا باعث ہوتا ہے:

''مَنْ شَاوَرَ ذَوِی الْعُقُوْل اسْتَضَاء بانوار العقول ''(١)

''جو انسان صاحبان عقل وہوش سے مشورہ کرے، وہ ان کے نور عقل وخرد سے استفادہ کرتا ہے''۔

اسلامی روایات، مشورہ کو رشد وہدایت کا ذریعہ سمجھتی ہیں اور شایستہ افراد سے مشورہ کرنے کی زیادہ سے زیادہ تاکید کرتی ہیں:

''دوسروں سے مشورہ کرنا ہدایت کا چشمہ ہے اور جوکوئی خود کو دوسروں کے مشورہ سے بے نیاز تصور کرے تو اُس نے اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال دیا ہے''۔(٢)

اس روش میں تربیت پانے والے کا مقصد عقلانی توانائی کا حصول اور اخلاقی مسائل میں فیصلہ کرنا ہے، یعنی مشورت کے ذریعہ اسے آمادہ کریں کہ ''خود رہبری'' اور ''فعّال'' کی روش کو ہدایت کے ساکنین کو اخلاقی تربیت کی راہ میں لے آئے اور اپنی اخلاقی مشکل کو حل کرسکے، مشورہ میں پہلا قدم مراجع (تربیت دیا جانے والا) نہیں اٹھاتا؛ بلکہ مربی کو اس سے نزدیک ہونا چاہئے اور رابطہ ایجاد کرکے یا کبھی مسائل میں اُس سے راہ حل طلب کرکے، اُسے اپنے آپ سے مشورت سے کرنے کی تشویق کرنی چاہئے۔(٣)

۲-۔ عبرت حاصل کرنے کے طریقے

کلمہ ''عبر'' ایک حال سے دوسرے حال میں گذرنے اور عبور کرنے کو کہتے ہیں اوراعتبار (عبرت آموزی) ایک ایسی حالت ہے کہ مشہور چیز دیکھنے اورجوکچھ اس کے نزدیک حاضر ہونے سے ایک نامشہود پیغام تک رسائی حاصل کرلیں لہٰذا اس روش سے مراد یہ ہے کہ انسان کے اندر امور وحوادث کے دقیق مشاہدہ اور اس میں غور وخوض کرنے سے باطنی تبدیلی حاصل ہوجاتی ہے کہ اس انفعال نفسانی کی حالت کے نتیجہ میں، اُس حادثہ کی گہرائی میں موجود پیغام کو قبول کرنے کے لئے آما دہ ہوجائے، عینی مشا ہدہ وہ بھی نزدیک سے انسان میں ایسا اثر کرتا ہے کہ سننا اوردوسروں کا بیان کرنا اتنا اثر نہیں رکھتا۔

____________________

١۔ غرر الحکم ودرر الکلمج٥ص٣٣٦ش ٨٦٣٤۔

٢۔ الاستشارة عین الہدایة وقد خاطر من استغنی برایہ نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج١٩ص٣١۔

۲۰۸

٣۔ اسلامی تعلیمات مختلف جہات سے مشورت کے مسئلہ پر تاکید کرتی ہیں؛ مزید معلومات کے لئے سید مہدی حسینی کی کتاب ''مشاورہ وراہنمائی درتعلیم وتربیت '' ملاحظہ ہو۔

اس کی دلیل پہلے مشاہدات کا زیادہ سے زیادہ قابل قبول ہونا ہے؛ سنی سنائی چیزوں کے برعکس کہ اُس میں عام طور پرشکوک وشبہات پائے جاتے ہیں۔ برہان عقلی میں یقینیات میں سے ایک مشاہدات یا محسوسات ہیں۔ دوسرے حادثہ کی جانب اس کے جزئیات سمیت توجہ دینا،کے شناختی وعاطفی قالب اور ڈھانچوں کے مطابق دیکھنے والے اس بات کا باعث ہوتا ہے کہ وہ واقعہ بہتر جا گزیں ہو اور انسان کے نفسیاتی قالب میں جگہ پائے۔ البتہ کبھی تاریخی یاداستانی بیانات بیان کرنے والے کی ہنر نمائی کے زیر اثر اس درجہ دقیق ہوتے ہیں کہ گویا سننے والا یاپڑھنے والاخود اس حادثہ کے اندر اپنے موجود محسوس کرتاہے ۔ نمائشی ہنر میں جیسے فیلم وغیرہ میں اس طرح کا امکان پایاجاتا ہے۔ قرآن وروایات میں عبرت آموزی کا طریقہ کثرت سے استعمال کیا گیا ہے، عبرت آموزی کے طریقے درج ذیل ہیں:

الف۔گذشتگان کے آثار کا مشاہدہ :

تاریخ کے صفحات ایسے لوگوں کے وجود سے بھرے پڑے ہیں جنھوں نے خطا کے بار کو کاندھے پر اٹھایا اور غیر صحیح راہ پر گامزن ہوگئے ہیں، گذشتگان کے باقی ماندہ آثار میں غور وفکر کرنے سے ہمیں تعلیم کرناپڑتا ہے کہ ہر گناہ وخطا سے کنارہ کشی کے لئے لازم نہیں ہے کہ خود تجربہ کریں اور اس کی سزا اور انجام دیکھیں۔ تاریخی عمارتیں، میوزیم، کھنڈر، دفینے وغیرہ ان انسانوں کی علامتیں ہیں جنھوں نے انھیں وجود بخشا ہے۔ قرآن ہمیں ان کی جانب سیر وسفر اور گذشگان سے تجربہ حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے: ''آیا ان لوگوں نے زمین میں گردش نہیں کی ہے تاکہ اپنے پہلے والوں کے انجام کا مشاہدہ کریں کہ وہ کس طرح تھا؟ وہ لوگ ان سے زیادہ قوی تھے اور انھوں نے روئے زمین پر زیادہ ثابت اور پائدار آثار چھوڑے ہیں، خدا نے انھیں ان کے گناہوں کے عذاب میں گرفتار کردیا اورخدا کے مقابل ان کا کوئی بچانے والا نہیں تھا''۔(١) عمار ساباطی نقل کرتے ہیں:حضرت امیر المومنین علی ـ مدائن آئے اور ایوان کسریٰ میں نازل ہوئے اور ''دلف بن بحیر'' ان کے ہمراہ تھا، آپ نے وہاں نماز پڑھی اور اٹھ گئے.... حضرت کی کے خدمت میں ساباطیوں کا ایک گروہ تھا، آپ نے منازل کسریٰ میں چکر لگایا اور دلف سے فرمایا: ''کسریٰ اس جگہ مقام ومنزلت کا حامل تھا''دلف نے کہا: خدا کی قسم ایسا ہی ہے جیسا آپ فرمارہے ہیں۔

____________________

١۔ سورہ ٔمومن آیت٢١۔

۲۰۹

پھر اس گروہ کے ہمراہ اُن تمام جگہوں پر گئے اور دلف کہہ رہے تھے: ''اے میرے سید وسردارآپ اس جگہ کے بارے میں اس طرح آگاہ ہیں گویا آپ ہی نے ان چیزوں کویہاں رکھا ہے۔ جب حضرت مدائن کی طرف سے گذرے اور کسریٰ اور اس کی تباہی کے آثار مشاہدہ کئے تو حضرت کی خدمت میں موجود افراد میں سے ایک نے یہ شعرپڑھا:

جرت الریاح علی رسوم دیارہم

فکأنهم کانوا علی میعاد

ان کے گھروں کے مٹے ہوئے نشانات پر ہوائیں چل رہی ہیںپس گویا وہ اپنی وعدہ گاہ پر ہیں۔

حضرت نے فرمایا: تم نے یہ آیات کیوں نہیں پڑھیں؟

واہ! انھوں نے کیسے کیسے باغات اور بہتے چشمے چھوڑے ہیں، کھیتیاں اور عمدہ مکانات چھوڑ گئے ہیں اور وہ نعمتوں میں مزے اڑا رہے ہیں، (ہاں) ایساہی تھا اور ہم نے دیگرلوگوں کو ان کی میراث دے دی پھر تو ان پر آسمان وزمین نے گریہ وزاری نہیں کی اور نہ انھیں مہلت دی گئی ۔(١)

اس کے بعد حضرت نے فرمایا: یہ لوگ گذشتگان کے وارث تھے،پس وہ خود بھی آئندہ والوں کے لئے میراث چھوڑکر گئے ، انھوں نے نعمت کا شکر ادا نہیں کیا لہٰذا ناشکری کے زیر اثر اُن سے ساری نعمتیں سلب ہوگئیں، نعمات کی ناشکری سے پرہیز کرو کہ تم پر بلائیں نازل ہوجائیں گی...۔(٢)

نہج البلاغہ میں اس نکتہ کی طرف زیادہ توجہ دلائی گئی ہے:

''تمہارے لئے گذشتہ امتوں کی سرنوشت میں عبرتیں ہیں، عمالقہ اور ان کی اولاد کہاں ہیں؟ فراعنہ اور ان کے اخلاف کہاں ہیں؟ اصحاب رس جنھوں نے پیغمبروں کو قتل کیا ہے کی سنتوں کو پامال کیاہے اور جبّاروں کی رسومات کو باقی رکھا ، کہاں ہیں؟ ۔''(٣)

خداوند متعال فرماتاہے: ''پھر آج تم ]فرعون[ کوتمھارے بدن کے ساتھ بچالیتے ہیں تاکہ ان کے لوگوں کے لئے جو تمہارے بعد آئیں گے، عبرت ہو۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔدخان آیات ٢٥، ٢٩۔٢۔ بحارالانوار ج٧٨ص٩٢۔

٣۔ نہج البلاغہ خطبہ١٨٢۔٤۔ (فالیوم ننجیک ببدنک لتکون لمن خلفک آیة )(سورہ ٔیونس آیت٩٢ )۔

۲۱۰

قبروں کی زیارت اور ان لوگوں کے حالات کے بارے میں غور وفکرجو روئے زمین پر سرکشی اور تکبر کرتے تھے اور آج بغیر حرکت کے اورانتہائی ذلت وخواری کے ساتھ خاک میں دفن ہیں، انسان کو خاضع بلکہ اسے فرمانبردار بنا دیتا ہے، کبرو نخوت کو فروتنی وخاکساری سے تبدیل کردیتا ہے اورآدمی کو یہ فرصت دیتا ہے کہ خود کو درک کرے اور اپنی عاقبت کے بارے میں غور کرے۔

حضرت علی ـ نے آیہ شریفہ: ''کثرت مال واولاد کے باہمی مقابلہ (یا اس پر تفاخر) نے تمہیں غافل بنادیا ہے یہاں تک کہ تم نے قبروں سے ملاقات کرلی''(١) کی تلاوت کے بعد فرمایا:

''آیا اپنے آباء واجداد کے مقام نزول پر افتخار کرتے ہیں ؟ یہ لوگ فخر وافتخار سے زیادہ عبرت کے سزاوار ہیں اگرچہ اُن کے آثار بینانہیں ہیں اور ان کی زندگی کی داستان ختم ہوچکی ہے، لیکن عبرت آموز نگاہیں ان کی طرف دیکھ رہی ہیں اور عقلمندوں کے گوش شنواآوازوں کودرک کرتے ہیںاور بے زبانی سے ہم سے گفتگو کرتے ہیں...۔(٢)

مربی حضرات معمولی توجہ اور بصیرت و عبرت آموزی کی دعوت سے، ان تفریح گاہوں سے جو تاریخی جگہوں پر برپاہوتی ہیں، اخلاقی اور تربیتی ضرورت کااستفادہ کرسکتے ہیں، گروہی یا فردی مسافرت وسعت نظر اور دل ایجاد کرنے کے علاوہ بہت زیادہ مفید اورعبرت آمیز ہے۔

ب ۔ طبیعت اور موجودات کی طرف نظر:

زمین میں سیر وسیاحت کرنے سے انسان کو عجائب خلقت سے بہرہ مند ہوتا ہے ''اے پیغمبر! آپ کہہ دیجئے! زمین میں گردش کرو پھر موجودات کی وجہ تخلیق کے بارے میں غورو فکر کرو۔ '' قرآن کریم نے موجودات طبیعت سے عبرت حاصل کرنے کو مورد توجہ قراردیاہے:

''چوپائوں کے وجود میں تمہارے لئے عبرت کے (اسباق) ہیںکہ ان کے شکم اندر سے گوبر اور خون کے درمیان سے تمہیں خالص دودھ پلاتے ہیںجو پینے والوں کے لئے انتہائی خوشگوار معلوم ہوتا ہے اور کجھور اورانگور کے پھلوں سے اچھی اور پاکیزہ روزی حاصل کرتے ہو، صاحبان عقل وہوش کے لئے اس میں واضح نشانیاں ہے''۔(٣)

____________________

١۔ سورہ ٔتکاثر آیت ١، ٢۔

٢۔ بحار الانوار ج٧٧ ص٤٣٠و٤٣٢۔

٣۔ سورہ، نحل آیت ٦٦تا٦٧۔

۲۱۱

''خدا شب وروز کو دگرگوں کرتا ہے، اس میں صاحبان بصیرت کے لئے ایک عبرت ہے ''۔(١)

عالم کی حیرت ا نگیز چیزیں، انسان کو خاضع اور خاشع بناتی ہیں، بہت سی گندگیوں کاسرچشمہ اور اخلاقی پستیوں کا منبع ''خود خواہی ''(٢) اور خود بینی وتکبر ہے ، اس وجہ سے اخلاقی تربیت کے اہداف میں ''خود خواہی '' سے دوری اختیار کرنا ہے، پیاژہ کے بقول: ''... اخلاقی تربیت کے دو بنیادی مسئلے یہ ہیں: ''انضباط کا برقرارکرنا'' اور ''خود پسندی سے نکلنا ''(٣) عالم کی عظمت کی اور اس کے عجائب کی طرف ، انسان کو خودی سے باہر نکالتے ہیں اور مکارم اخلاق کے قبول کرنے کے لئے آمادہ کرتے ہیں۔

ج ۔ موجودہ حوادث اور واقعات کی جانب توجہ:

ہم اپنے زمانے میں زندگی گزارتے ہیں اور قبل اس کے کہ تاریخ کے سینہ میں حوادث اور واقعات دفن ہوجائیں ہم اُن سے عبرت حاصل کرسکتے ہیں حضرت امیر المومنین علی ـ فرماتے ہیں: ''میں اپنے قول کا خود ذمہ دار اور اس کی صحت کا ضامن ہوں، جو شخص بھی زمانے کے ناگوار حوادث سے عبرت حاصل کرے، شبہات میں مبتلا ہونے کے وقت تقویٰ اس کی حفاظت کرے گا''۔(٤)

اپنے بارے میں ایک سرسری نظر اوران مختلف واقعات کا نظارہ کہ کبھی ہم زمان ہونے کا حجاب ہمیں اُس سے غافل کردیتا ہے، شخصیتوں کی پستی وبلندی اور ان کی ظاہری عزت وذلت کا گردش زمانہ میں ہمیں پتہ دیتا ہے، عمل کی جزائیں اور پوشیدہ حکمتیں راہ حوادث کے پس پردہ انتہائی نصیحت آموز ہیں اور یہ عینی تجربے عبرت کے قیمتی ذخیروں میں سے ہیں۔

د۔ گذشتگان کے قصوں میں غور و فکر:

گذشتہ افراد کی داستان زندگی بھی ہمارے لئے عبرت آموز ہوسکتی ہے۔ یہاں پر عبرت حاصل کرنے والا گذشتہ افراد کے آثار کے واقعی میدانوں اور وقت حاضر نہیں ہوتا، لیکن داستان اور اس کے نشیب وفراز میں غور وفکرکے ساتھ ، اس کی خالی فضا میں پرواز کرتا ہے کہ اس کاعبرت آمیز رخ عینی مقامات سے کمتر ہے لیکن اس سے نزدیک ہے۔

____________________

١۔ سورۂ نورآیت ٤٤۔٢۔من رضی عن نفسه ظهرت علیه المعایب، ما اضرّالمحاسن کا لعجب ( غررالحکم ) فصل ٦، ص٣٠٨)۔

٣۔ تربیت رہ بہ کجا می سپرد، ص٩٣۔٤۔ نہج البلاغہ خطبہ ١٦۔

۲۱۲

قرآن حضرت یوسف کی داستان نقل کرتے ہوئے فرماتاہے: ''ان کی داستانوں میں صاحبان عقل کے لئے درس عبرت ہے''۔(١)

یا غزوہ نضیر کے واقعات نقل کرنے کے بعد فرماتاہے: ''پس اے صاحبان بصیرت عبرت حاصل کرو''۔(٢)

ایک دوسرے جگہ پر جنگ بدر کے اہم واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہمیں عبرت حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے: ''یقیناً اس ماجرہ میں صاحبان بصیرت کے لئے ایک عبرت ہے ''۔(٣)

قرآنی آیات اور روایات کے طرز تربیت میں جو کہ عبرت آموز ی کی تاکید کرتی ہیں، دونکتے قابل توجہ ہیں:

١۔ عبرت حاصل کرنا ایک(٤) دور اندیش عقل(٥) اور بیدار دل(٦) رکھنے کا مستلزم ہے۔

اسی لئے یہ روش عقلانی قوت کی روش کی پرورش کے بعد ذکر ہوئی ہے، یعنی عام طور پر عقلانی عمیق نظر کے بغیر عبرت آموزی ممکن نہیں ہے۔ اسی لئیحضرت امیر المومنین علی ـ نے مکرر فرمایا ہے: ''عبرتیں کتنی زیادہ ہیں اور عبرت حاصل کرنے والے کتنے کم ہیں''۔(٧)

٢۔ دوسرے یہ کہ آیات وروایات کی روشنی میں عبرت کے لئے ان صفات کا ہونا ضروری ہے:

عصمت وپاکدامنی، دنیا سے کنارہ کشی، لغزش وخطا کی کمی ، اپنی معرفت ، طمع وآرزو کا کم ہونا، فہم ودرک اور تقویٰ۔(٨)

____________________

١۔ سورہ ٔیوسف آیت ١١١۔

٢۔ سورہ ٔحشر آیت٢۔

٣۔ سورہ ٔآل عمران، آیت١٣۔

٤۔(ان فی ذلک لعبرة لاولی الابصار )سورہ ٔآل عمران، آیت١٣۔

٥۔ (لقد کان فی قصصهم عبرة لاولی الالباب )سورہ ٔیوسفآیت١١١۔

٦۔(ان فی ذلک لعبرة لمن یخشی ) سورہ ٔنازعات، آیت ٢٦۔

٧۔ نہج البلاغہ خطبہ ٢٩٧۔

٨۔ میزان الحکمة ج٦ص٣٨تا ٣٩۔

۲۱۳

۳۔عمل کی پابندی اور مداومت

یہاں تک ان طریقوں کی بحث تھی جو اخلاقی( عاطفی یا شناختی رفتار کے مبادی پر اثر انداز ہوتی ہیں یا وہ روشیں جو ماحول کے عوامل میں موثر ثابت ہوتی ہیں۔ پیاژہ نفسیاتی عوامل کے تحول کے شمار میں رشد داخلی کے علاوہ اجتماعی تعامل وتعویض اور اکتسابی تعادل جوئی، تمرین ومشق اور اکتسابی تجربہ کو ایک مستقل عامل جانتا ہے۔(١)

اخلاقی تربیت میں ہدف یہ ہے کہ تربیت پانے والا اخلاقی رفتارکے کمال تک پہنچ جائے یعنی عمل کرے۔ جتنا اس عملی تجربہ کی تکرار ہوگی اور اس کی مداومت کی جائے گی''ظاہر سازی ''(٢) کی صورت میں جدید نفسیانی شکلیں تشکیل پاجائیں گی، بعینہ جیسے اخلاق کی اصطلاح میں جنھیں ملکات اخلاقی کہتے ہیں۔

قرآن کریم عمل کو خاص اہمیت دیتا ہے: ''انسان کے لئے اس کی کوشش اور تلاش کے سوا کچھ نہیں ہے اور اس کی کوشش ]کانتیجہ[ عنقریب دکھائی دے گا''۔(٣)

بہت سی آیات میں قرآن ایمان کو کافی نہیں جانتابلکہ عمل کو اس کی تکمیل کے لئے لازم وضروری شمار کرتا ہے:

جو لوگ نیک عمل کرتے ہیںخواہ مرد ہوں یا عورت، جبکہ مومن ہوں، وہ لوگ جنت میں داخل ہوجائیں گے اور خرمے کی گٹھلی کے گڑھے کے برابر بھی ان پر ستم نہیں ہوگا''۔(٤)

شایستہ کاموں (عمل صالح) سے مراد غالباً وہی اخلاقی اعمال ہیں۔ افراد کے درجات ومراتب بھی ان کے اعمال کے اعتبار سے ہیں، یعنی افراد کی درجہ بندی کا ایک معیار ان کا عمل ہے۔

''ان میں سے ہر ایک کے لئے جو عمل انھوں نے انجام دیا ہے، اس کے مطابق مرتبے ہیں اورتمہا را رب وہ جو کچھ کرتے ہیں اس سے غافل نہیں ہے''۔(٥)

____________________

١۔ دیدگاہ پیاژہ ص ٣٥تا٣٧۔

٢۔ وہ فعالیت جو آدمی کے پہلے والے نفسیاتی تار وپود کو کو تبدیل کرتی ہے تاکہ وہ خود کو اس ماحول کے حالات کے موافق بنائے جس میں وہ موجود ہے۔ (روانشناسی ژنیتک، ص٢٤٤)۔٣۔ سورہ ٔنجم آیت٣٩، ٤٠۔٤۔ (مَنْ یَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثیٰ وَهُوَ مُؤمِن فَاُوْلٰئِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَلَایُظْلَمُوْنَ نَقِیْراً )(سورہ ٔنسائ، آیت١٢٤)۔

٥۔ (لِکُلٍّ دَرَجَات مِمَّا عَمِلُوا، وَمَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُوْنَ ۔)(سورہ ٔانعام، آیت١٣٢)۔

۲۱۴

روایات بھی عمل کی ترغیب وتشویق کے ساتھ اسے ایک فائق مرتبہ دیتی ہیں:

حضرت علی ـ: ''آج عمل کا دن ہے اور کوئی محاسبہ نہیں ہے، اور کل محاسبہ کا وقت ہے اور عمل کی گنجائش نہیں ہے''۔(١)

حضرت امام محمد باقر ـ فرماتے ہیں : ''کوئی بھی شخص جو کچھ خدا کے نزدیک اُس کے لئے فراہم ہوا ہے اسے نہیں پاسکتا مگر عمل کے ذریعہ ''(٢) حضرت علی ـ فرماتے ہیں: ''انسان کی ہمراہی عمل کے سوا کوئی بھی نہیں کرے گا''۔(٣)

عمل کے استمرار اور اس کی مداومت کے بارے میں درج ذیل آیات و روایات کو بعنوان شاہد پیش کیا جاسکتا ہے:

''اگروہ لوگ راہ راست میں ثبات قدمی اور پائداری کا مظاہرہ کریں تو یقیناً انھیں خوشگوار پانی نوش کرائیں گے''۔(٤)

حضرت علی ـ: '' وہ کم اعمال جس کی پابندی اور مداومت کرو، ایسے زیادہ اعمال سے زیادہ امید بخش ہیں کہ جن سے تھک جاتے ہو۔''(٥) امام محمد باقر ـ : ''خدا کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ عمل ہے جس پر مداومت اور پابندی ہو، اگرچہ کم ہی ہو''۔(٦)

سلوکی مکتب کے ماہرین نفسیات پاولف، ثراندایک اور ا سکینر میں سے ہر ایک حصول تعلیم کے متعلق عمل کی مشق اور تکرار کے بارے میں ایک نظر رکھتے ہیں، ثراندایک اپنے قانون تمرین(٧) میں کہتا ہے: ''محرک اور جواب کے درمیان پیوند اور ارتباط استفادہ کے زیر اثر قوی ہوجاتے ہیں''(٨)

____________________

١۔''الیوم عمل ولا حساب وغداً حساب ولا عمل '' ۔(نہج البلاغہ، خ٤٢)۔

٢۔''لا ینال ما عند اللّٰه الّا بالعمل'' (وسائل الشیعہ ج١ص ٦٩)۔

٣۔''المرء لایصبحه الّا العمل'' (غرر الحکم، فصل٤، ص١٥١)۔

٤۔ (وَاَنْ لَواسْتَقَامُوا عَلَی الطَّرِیْقَةِ لَاَسْقَیْنَاهُم مَائً غَدْقاً )(سورہ ٔجن، آیت١٦)۔

٥۔''قلیل تدوم علیه ارجی من کثیر مملول منه ۔''(شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج١٩، ص١٦٩)۔

٦۔''احب الاعمال الی اﷲ عزوجل مادام العبد علیه وان قلّ'' (وسائل الشیعہ ج١ ص٧٠ )۔

٧۔ ہرگنہان نظریہ ھای یاد گیری، ترجمہ یوسف،٢٧٥۔

٨۔ ہرگنہان نظریہ ھای یاد گیری، ترجمہ یوسف، ص٧٨۔

۲۱۵

گاتری ایک دوسرا سلوکی ماہر نفسیات ہے جو اپنے تعلیم وتربیت کے نظریہ میں اس سلسلہ میں کہ کیوں مشق نتیجۂ عمل کو بہتر بناتی ہے لکھتا ہے: کسی عمل کا سیکھنا یقیناً مشق کا محتاج ہے، ہماری نظر میں اس امر کی دلیل یہ ہے کہ عمل ایسا نتیجہ دیتا ہے کہ جو مختلف موقعیت کے تحت اور مختلف حرکتوں کے ذریعہ کہ جو ان موقعیتوں سے مناسبت رکھتی ہیں حاصل ہوتا ہے، ایک عمل کا سیکھنا ایک حرکت کے (جیسے جسم کے کسی حصہ کاعام طور سے سکڑنل جو کہ تداعی سے حاصل ہوتا ہے) سیکھنے کے برعکس یقیناتمرین ومشق کا محتاج سے۔ اس لئے کہ ضروری ہے کہ مقتضی حرکتیں اپنی نشانیوں کے ساتھ ایک دوسرے کو وجود بخشیں۔حتی کہ ایسا سادہ عمل جیسے کہ ایک کھلونا ، فاصلہ جہت اور کسی چیز کی موقعیت کی بنیاد پر مختلف حرکتوں کو شامل ہوتا ہے۔ ایک کامیاب تجربہ اس بات کے لئے کہ بچوں کو کسی عمل کے لئے آمادہ کرے، کافی نہیں ہے، کیونکہ جو حرکت ایک حالت میں حاصل ہوتی ہے ممکن ہے کہ دوسری بار کامیاب نہ ہو''۔(١)

پھرمہارت اورتشکیل عادت کے بارے میں کہتاہے:

دلیل اس بات کی کہ کامل مہارت حاصل کرنے کے لئے کیوں زیادہ مشق اور تکرار کی ضرورت ہے؟ یہ ہے کہ یہ مہارتیں محتاج ہیں کہ زیادہ اور خاص حرکتیں بہت سی محرکانہ موقعیتوں کے ساتھ جڑی ہوں، ایک مہارت، ایک عام عادت نہیں ہے، بلکہ عادتوں کا ایک عظیم مجموعہ ہے کہ جو مختلف موقعیتوں میں ایک معین نتیجہ دیتا ہے... خلاصہ یہ کہ ایک مہارت کثرت عمل سے تشکیل پاتی ہے(٢) تھوڑا سا غور کہا جاسکتا ہے کہ اخلاقی ملکات اور فضائل بھی اس نظریہ میں مہارتوں سے مانند وجود میں آتے ہیں اور انسان میں ثبات پاتے ہیں، اس وجہ سے اگرچہ صرف مکتب سلوکیت کا نظریہ (تعلیم وتعلم میں شناختی یا عاطفی کے عوامل کی جانب توجہ نہ ہونا) ہمارے نزدیک قابل قبول نہیں ہے(٣) لیکن کسی عمل کی مشق کا اثر ایک اساسی عامل کے عنوان سے قابل انکار نہیں ہے۔ ارسطو'' اخلاق'' نامی کتاب میں کہتا ہے: ''جس طرح ہم گھر بنا کے معمار ہوجاتے ہیں، عادلانہ عمل انجام دینے سے عادل ہوجاتے ہیں اور پرہیزگاری کا عمل انجام دے کر پرہیزگار بن جاتے ہیں اورکوئی بہادری کا کام کرنے سے بہادر ہوجاتے ہیں''(٤) اور یہ بالکل اسی دقیق طور پر مداومت عمل کی روش کو بیان کرتاہے۔

____________________

١۔ ہرگنہان نظریہ ھای یاد گیری، ترجمہ یوسف ، ص٢٧٥و٢٧٦۔٢۔ ایضاً، ص٢٧٧۔٣۔ مکاتب روانشناسی ونقد آن ج٦ص١٤١۔٤۔ ارسطو، اخلاق نیکو ماخس، ترجمہ ابو القاسم حسینی، ج١، ص٣٧۔

۲۱۶

اخلاقی کتابوں کے مؤلفین بھی عملی روش پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں اور اخلاقی بیماریوں کے علاج کے سلسلہ میں نظری روش ساتھ یا اس عمل پہلو پر بڑی تاکید کرتے ہیں کہ جس سے مقصود اخلاقی فضائل کے مطابق افعال انجام دینے کا اہتمام وتمرین ہے ایسے اعمال میں مشغول ہونا ہے جو اخلاقی رذائل کے خلاف ہیں ۔

ملا محمد مہدی نراقیاخلاقی بیماریوں کے طریقہ علاج کے بارے میں فرماتے ہیں:

''انحراف اور کج روی (عدم اعتدال)کی علت اگر جسمانی بیماری ہو تو اس کے برطرف کرنے کے لئے ضروری ہے کہ جلد سے جلد طبی علاج کریں، اور اگر اس کی علت نفسانی ہو تو اس کا علاج وہی بالکل جسمانی علاج کی طرح ہے، جسمانی علاج میں سب سے پہلے ایسی غذا سے جو بیماری کی ضد ہو علاج کرتے ہیں، مثال کے طور پر سرد مزاج بیماری کا علاج گرم مزاج اور تند غذائوں سے کرتے ہیں، اگر فائدہ نہ ہوا تو پھر دوا سے ، اس کے بعد زہر مار کے ذریعہ آخر میں عضو کو جلاکے یاکاٹ کے (جراحی) کے ذریعہ معالجہ کرتے ہیں۔ نفسانی بیماریوں میں بھی قانون ایسا ہی ہے، اس طرح سے کہ انحراف اور کجروی کو جاننے کے بعد اس اخلاقی فضیلت کو حاصل کرنے لئے کہ جو اس انحراف کی ضد ہے، اقدام کرے اور ان افعال سے جو اس فضیلت کے آثار شمار ہوتے ہیں یہ امر غذا کے مانند اس اخلاقی رذیلت کو زائل کرنے میں اثر کرتا ہے۔ پھر اگر مفید واقع نہ ہوتو پھر مختلف صورتوں میں فکری، زبانی اورعملی طور پر اپنے نفس کو مورد توبیخ وسرزنش قرار دے، پھر اگر وہ بھی موثر نہ ہو تو پھر ایک منفی اور متضاد صفت کے آثار کو کہ جو اس اخلاقی صفت سے تضاد رکھتے ہوں حدّاعتدال میں انجام دے گا، جیسے ڈرپوک انسان دلیرانہ عمل انجام دے اورخود کو خطرناک کام میں ڈال دے اور کنجوس انسان اس صفت کے زوال کے لئے جود و بخشش کا سہارا لے ۔ یہ مرحلہ جسمانی مداوا میں تریاق اور زہرمار دواکے مانند ہے۔ اگر اس مرحلہ تک بھی اخلاقی بیماری مستحکم طور پر برطرف نہ ہوئی، تو پھر خود کو طرح طرح کی ان سخت تکلیفوں اور ریاضتوں کے ساتھ رنج وزحمت میں مبتلا کرے جو اس اخلاقی رذیلت کو بیخ وبن سے اکھاڑنے کا باعث ہوں، یہ مرحلہ جسمانی علاج میں عضو کے جلانے اور قطع کرنے کے مشابہ ہے کہ جو آخری مرحلہ ہے''۔(١)

____________________

١۔ جامع السعادات ج١ ص٩٧، ٩٨۔

۲۱۷

جیساکہ معلوم ہے کہ اخلاقی تربیت کے سلسلہ میں علمائے اخلاق نے عمل اور مشق پر خاص طور سے توجہ دی ہے، اس وجہ سے اس روش کے تحقق کے لئے درج ذیل طریقوں کو بیان کیا جاسکتا ہے:

الف ۔مشق اور عادت ڈالنا:

ہم یہاں پر ''عادت'' کے متعلق اخلاقی فلسفہ کے لحاظ سے بحث نہیں کرنا چاہتے جیسے یہ بحث کہ آیا اخلاقی فعل عادت کی حاکمیت اور اس کے غلبہ کے ساتھ اخلاقی ہونے سے خارج ہوجاتا ہے یا نہیں ؟(١) اور نہ نفس شناسی کے لحاظ سے بحث کرنا چاہتے ہیں مثال کے طور پر عادت کیا ہے، اس کی کتنی قسمیں ہیں اور کس طرح وجود میں آتی ہے؟(٢) بلکہ اس سے یہاں پر مراد یہ ہے کہ مشق اور تکرار کے ذریعہ ایسے مرتبہ تک پہنچاجاسکتا ہے کہ اخلاقی مسائل ملکات میں تبدیل ہوجائیں، جیساکہ حضرت علی ـ نے فرمایا ہے:''اَلْعَادَة طبع ثانٍ'' (٣) ''عادت انسان کی دوسری طبیعت اور شرست ہے''۔

بلند ترین اصول ومبادی اور مکارم اخلاق میں تربیت کی مرکزیت حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تربیت پانے والے کے لئے کچھ حد تک جسمانی، نفسیاتی اور اخلاقی پسندیدہ عادات حاصل ہوں، تاکہ زیادہ سے زیادہ ارادہ اور توانائی کا مصرف ان کی جانب توجہ دینے سے آزاد ہوجائے۔اس موضوع میں اسلام کی تربیتی روش سے متعلق دو نکتے قابل توجہ ہیں:

١۔دینی واجبات اور فرائض میں عمل کا استمرار اور پابند:

۔دینی واجبات اور فرائض میں عمل کا استمرار اور پابند اس حد تک اہمیت کی حامل ہے کہ ترک عمل کے لئے اس کی قضا اور کبھی کفار بھی لازم ہوجاتا ہے، اخلاقی امور میں بھی ''نذر'' اور ''عہد وقسم'' کو اخلاقی فعل کو اپنے لئے ایک فریضہ کی صورت میں اپنا سکتا ہے، اگرچہ ان روشوں سے زیادہ استفادہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اپنی حیثیت اور منزلت کو کھو بیٹھے گایا انسان پر بہت گراں اور شاق گزرے گا، البتہ معمولی انداز میں بھی خود سے تعہد کرسکتا ہے کہ اخلاقی فعل کو پابندی کے ساتھ انجام دے گا، تاکہ اُس کا ملکہ نفس میں راسخ ہوجائے۔

____________________

١۔ استاد مطہری، تعلیم وتربیت دراسلام، ص٧٥ پر ملاحظہ ہو۔

٢۔ احمد صبور اردوبادی: معمائے عادت۔

٣۔ غررالحکم، فصل٢، ص٣٢٢۔

۲۱۸

٢۔کیفیت عمل کی جانب توجہ کرنا:

اسلام میں عمل کی ظاہری شکل وصورت آخری مقصود نہیں ہے، بالخصوص اخلاقی فعل اسلام کی نظر میں خاص اخلاقی اصول و مبادی کا حامل ہونا چاہئے ، جیسے صحیح نیت، عمل کی صحیح شکل وصورت اور لوازم عمل کی جانب توجہ (جیسے یہ کہ عمل کے بعد ریا، منّت گذاری اور اذیت کے ذریعہ اس عمل کو ضائع نہ کرے)۔ حضرت امام جعفر صادق ـ نے خداوندعالم کے ارشاد:(لِیَبْلُوَکُم اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً )(١) (تاکہ خدا تمھیں آزمائے کہ تم میں سب سے بہتر عمل کرنے والا کون ہے ؟) کے متعلق فرمایا: ''اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ کوئی زیادہ عمل کا مالک ہو، بلکہ خشیت خداوندی اور درست نیت کے لحاظ سے بہتر اعمال مراد ہیں''۔(٢)

ب ۔ اضداد سے استفادہ:

اخلاقی رذائل کو زائل کرنے سے متعلق یہ طریقہ تربیتی طریقوں میں سے سب سے زیادہ مؤثر ہے، اضداد سے سلوکی مکتب کے نظریات میں ''تقابلی ماحول سازی'' کے عنوان سے رفتار بدلنے کے لئے استفادہ کیا جاتا ہے۔ تقابلی ماحول سازی ایسا نتیجہ ہے کہ جس میں ایک ماحول کا جواب ایک دوسرے ماحول کے جواب سے جو اُس سے ناسازگار اور ناموافق ہوتا ہے ،جانشین ہوتا ہے، اور یہ سبب ہوتا ہے کہ اس ماحول کا جواب جو کہ نامطلوب ہے (اورہم چاہتے ہیں کہ تبدیل ہوجائے) جدید ماحول کے محرک کے ہوتے ہوئے نہ دیا جائے، اس کا اہم ترین فن منظم طریقہ سے (خیالی) حساسیت کا ختم کرنا اور واقعی حساسیت اور خود حساسیت کاختم کرنا ہے۔(٣) اخلاقی کتابوں میں بھی اس روش سے کثرت کے ساتھ استفادہ کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پرابو حامد غزالی ''کبر'' کے ختم کرنے سے متعلق لکھتا ہے:

''اگر کوئی اپنے دوست ورفیق سے علمی مناظرہ میں کوئی حق بات سنے اور احساس کرتا ہے کہ رقیب کی حقانیت کا اعتراف اُس کے لئے مشکل ودشوار ہے، تو اسے چاہئے کہ اس کبر کے معالجہ کے لئے اپنے اندر کوشش کرے...... عملی طریقہ اس طرح ہے کہ رفیق کی حقانیت کا اعتراف جو کہ اس کے لئے دشوار ہے، اپنے اوپر لازم کرے اور اُسے برداشت کرے اور اس کی تعریف وتوصیف کے لئے اپنی زبان کھولے اور مطلب سمجھنے کے سلسلہ میں اپنی ناتوانی اور کمزوری کا اقرار کرے اور اس کا چونکہ اُس نے اُس سے ایک بات سیکھی ہے، شکریہ ادا کرے.... لہٰذا جب بھی اس امر کی متعدد بار پابندی کرے گا، اُس کے لئے طبیعی اور عادی ہوجائے گا اور حق قبول کرنے کی سنگینی، آسان ہوجائے گی''۔(٤)

____________________

١۔ سورہ ٔہود آیت ٧۔ ٢۔ کافی ج٢ص ١٦۔٣۔ علی اکبر سیف، تغییر رفتار و درمانیص ٢٥٢۔٤۔ احیاء علوم الدین ، ج٣ ،ص ٣٤٤۔

۲۱۹

مرحوم نراقی نے بھی علاج کے طریقوں میں ایک طریقہ اخلاقی رذائل کے خلاف افعال کا انجام دینا قرار دیا ہے، اس توضیح کے ساتھ کہ کبھی اخلاق کی ایک منفی صفت کے زائل ہونے کے لئے ایک دیگر منفی صفت (کہ جو اعتدال کی حد میں ہو) کا سہارا لیں، مثال کے طور پرخوف ختم کرنے کے لئے جسارت آمیز اور شجاعانہ عمل انجام دینا چاہئے تاکہ خوف ختم ہوجائے۔

حضرت امیر المومنین علی ـ فرماتے ہیں: '' جب کسی چیز سے ڈر محسوس کرو تو اُس میں کود پڑو، کیونکہ کبھی کسی چیز سے ڈرنا، خود اس چیز سے سخت اور ناگوار ہوجاتا ہے''۔(١) اس روش سے متعلق قرآن کاتربیتی نکتہ یہ ہے کہ بری عادات اور اخلاقی رذائل کا یکبارگی اوراچانک ترک کرنا ممکن نہیں ہے بلکہ اسے مرحلہ وار اور تدریجاً انجام دیا جائے۔ شرابخوری، ربا، جوئے بازی اور بعض دیگر امور کے بارے میں قرآن نے تدریجی مقابلہ پیش کیا ہے۔

ج ۔ ابتلاء اور امتحان:

''ابتلا'' ''بلیٰ'' کے مادہ سے ہے یعنی اس کی اصل ''بلیٰ'' ہے بوسیدہ اور فرسودہ ہونے کے معنی میں اور ابتلا(یعنی آزمائش )کو اس لئے ابتلا کہتے ہیں کہ گویا کثرت آزمائش کی وجہ سے فرسودہ ہوجاتا ہے۔ ابتلا افراد کے متعلق دو نکتوں کا حامل ہے:

١۔ جو کچھ اس کے لئے مجہول اور نامعلوم ہے اُس سے آگاہی اور شناخت۔

٢۔انسان کی یکی یابرائی کا ظاہر ہونا(٢) ۔ امتحان کی تعبیر بھی ابتلا اور آزمائش کی نوع پر بولی جاتی ہے(٣) امتحان اور آزمائش ہمیشہ عمل کے ذریعہ ہے، کیونکہ ابتلا بغیر عمل کے بے معنی ہے، عمل کے میدان میں انسان کے باطنی صفات ظاہر ہوتے ہیں اور اس کی صلاحتیں قوت سے فعلیت تک پہنچتی ہیں۔ اسی لئے ابتلا اور امتحان فیزیکل اعتبار سے ایک عملی طرز ہے یاعمل کی پابندی کرنا ہے۔ اس میں اور تمرین و عادت میں فرق یہ ہے کہ مشق وتمرین ایک اخلاقی فضیلت کی نسبت ملکہ ایجاد کرنے کے لئے معین ہے لیکن طرز ابتلاء میں، کام عمل اور سختیوں اور مشکلوں کی تہ میں واقع ہونا مقصود ہے۔ اس روش اور طرز کی بنیاد پر مربی کو چاہئے کہ تربیت حاصل کرنے والے کو عمل میں اتار دے تاکہ خود ہی پستیوں اور بلندیوں کو پرکھے اور تلخ وشیرین کا تجربہ کرکے میدان سے سرفراز اور سربلند باہر آئے۔ تربیت پانے والے خود بھی مستقل طور سے ایسے شیوہ پر عمل کرسکتے ہیں۔

____________________

١۔''اذا هبت امراً فقع فیه فانّ شدّة توقیه اعظم ممّاتخاف منه'' ۔(نہج البلاغہ، ح١٧٥)۔

٢۔ المفردات۔

٣۔ ایضاً۔

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

۸_الله تعالى كى مشيت اور ارادے كے مدمقابل ،پيغمبر (ص) كا كوئي مددگار اور دفاع كرنے والا نہيں ہے_

ثم لا تجدلك به علينا وكيل

۹_حسن بن محمد النوفلى يقول: قال سليمان: إرادته علمه، قال الرضا(ع): ما الدليل على أن إرادته علمه؟ وقد يعلم ما لا يريد ، أبداً وذلك قوله عزّوجلّ : ''أولئن شئنا لنذهبن بالذى أوحينا اليك'' قال سليمان: فان الارادة القدرة قال الرضا ( ع ): و هو عزّوجلّ يقدر على ماه يريده أبداً ولا بدّمن ذالك لأنه قال تبارك وتعالى :''ولئن شئنا لنذهبنّ بالذى اوحينا اليك'' فلو كانت الإرادة هى القدرة كان قد أراد أن يذهب به لقدرته ..._(۱)

حسن بن محمد نوفلى كہتے ہيں : سليمان نے كہا الله تعالى كا ارادہ اس كے علم كا عين ہے _ امام رضا (ع) نے فرمايا: اس پر كيا دليل ہے كہ اس كا ارادہ اس كے علم كا عين ہے حالانكہ الله تعالى جس چيز كو جانتاہے اس كا ارادہ ہرگز نہيں كرتا اور يہ الله تعالى كاكلام ہے كہ وہ فرمارہا ہے:''ولئن شئنا لنذهبن بالذى اوحينا اليك'' _ سليمان نے كہا: پس ارادہ وہى قدرت ہے _ تو امام رضا (ع) نے فرمايا : يہ الله تعالى ہے كہ جس چيز پر قادر ہے ہرگز اس كا ارادہ نہيں كرتا _ پس ناچار اس بات كو قبول كرنا چاہئے چونكہ الله تعالى نے فرمايا :'' ولئن شئنا لنذهبن بالذى أوحينا اليك '' _ پس اگر ارادہ وہى قدرت ہو تو جو پيغمبر (ص) پر وحى كيا وہ اللہ محو كرديتا چونكہ قادر تھا_

آنحضرت(ص) :آنحضرت (ص) پر وحى ۱، ۲، ۴;آنحضرت (ص) پر وحى كى محدوديت۵;آنحضرت(ص) كى نبوت۲; آنحضرت(ص) كے علم كى محدوديت ۵; آنحضرت (ص) كے علوم كا محوہونا۱;آنحضرت (ص) كے مقامات ۲; آنحضرت (ص) كے مددگار كا نہ ہونا ۸

الله تعالى :الله تعالى كا ارادہ ۹;اللہ تعالى كا علم ۵، ۹;اللہ تعالى كى قدرت ۱، ۹ ;اللہ تعالى كى مشيت كا حتمى ہونا ۳;اللہ تعالى كى مشيت كا غالب ہونا ۸;اللہ تعالى كى مشيت كے آثار ۴;اللہ تعالى كى نعمات ۷;اللہ تعالى كے ارادہ كا حتمى ہونا ۳

انسان :انسانوں كا علم لدنى ۴

خلفت :خلقت كے اسرار۵

ذكر:مادى و سائل كے سرچشمہ كا ذكر ۶

____________________

۱)عيون الاخبار الرضا ج۱، ص ۱۷۹،۱۸۹ ح۱، ب۱۳_توحید صدوق ص۴۵۱، ، ۴۵۴، ح ۱،ب ۶۶_

۲۴۱

روايت : ۹

شكر :نعمت كا شكر ۷

علم :علم لدنى كا سرچشمہ ۴;علم لدنى كے زوال كا سرچشمہ ۴

مادى وسائل :مادى وسائل كا پائدار نہ ہونا ۶

نعمت :قرآن كا نعمت ہونا ۷

وحي:وحى كا سرچشمہ ۴

آیت ۸۷

( إِلاَّ رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ إِنَّ فَضْلَهُ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيراً )

مگر يہ كہ آپ كے پروردگار كى مہربانى ہوجائے كہ اس كا فضل آپ پر بہت بڑا ہے (۸۷)

۱_الله تعالى كى رحمت ولطف،پيغمبر (ص) سے وحى ( حقائق اور بنيادى معارف) واپس لينے سے مانع ہے_

لئن شئنا لنذهبن إلّا رحمة من ربك

استثناء ممكن ہے كہ محذوف كلمہ يا كلام سے ہو مثلاً عبارت يوں ہو كہ جو كچھ تمہيں ديا سوائے رحمت كے كچھ نہ تھا _ لہذا ہم محو نہيں كريں گے_ يعنى'' لئن شئنا'' سے استدراك ہو اور عبارت يوں فرض ہوگي''ولكن لانشاء ذلك رحمة'' (ہم نے عطا كئے معارف كو تجھ پر رحمت كى بناء پر زائل نہيں كرنا چاہا )

۲_پيغمبر (ص) كے دل ميں وحى كے مفاہيم كو ثابت اور ہميشہ ركھنا ان پر الہى ربوبيت كا جلوہ ہے_

لئن شئنا لنذهبن بالذى اوحينا إلّا رحمة من ربك

۳_وحى كو ثابت ركھنا اور قرآنى مفاہيم كو باقى ركھنا بندوں پر الہى رحمت كا جلوہ ہے_لئن شئنا لنذهبن إلّا رحمة من ربك

۴_پيغمبر اكرم(ص) پر الله تعالى كا عظےم و وسيع فضل ورحمت_إن فضله كان عليك كبيرا

۵_الله تعالى كے نزديك پيغمبر اكرم (ص) كى خاص اہميت اور بلند وبالا مقام_أن فضله كان عليك كثيرا

۶_الله تعالى كا پيغمبر (ص) كے دل ميں وحى كے مفاہيم كو استحكام بخشے كے سلسلہ ميں ان پر احسان_

۲۴۲

ولئن شئنا لنذهبن أن فضله كان عليك كبيرا

۷_ پيغمبر اكرم(ص) كے ليے پروردگار عالم كى ربوبيت رحمت سے متصل ہے_الاّ رحمة من ربك

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) پر احسان ۶;آنحضرت (ص) پر رحمت ۴;آنحضرت (ص) پر فضل ۴،۷;آنحضرت (ص) پر وحي۱، ۲،۶;آنحضرت (ص) كاقرب ۵; آنحضرت (ص) كاقلب ۲، ۶; آنحضرت كا مربى ہونا ۲، ۷; آنحضرت (ص) كے مقامات ۵

الله تعالى :الله تعالى كا احسان ۶;اللہ تعالى كى ربوبيت ۷; الله تعالى كى ربوبيت كى علامات ۲;اللہ تعالى كى رحمت۷;اللہ تعالى كى رحمت كے آثار ۱;اللہ تعالى كى رحمت كى علامات ۳;اللہ تعالى كے لطف كے آثار ۱

الله كا فضل:الله كے فضل كے شامل حال لوگ ۴

رحمت:رحمت كے شامل حال لوگ ۴، ۷

قرآن:قرآن كو ثابت ركھنا ۳

وحي:وحى كو ثابت ركھنا ۲، ۳، ۶;وحى كے محو سے مانع ۱

آیت ۸۸

( قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَن يَأْتُواْ بِمِثْلِ هَـذَا القرآن لاَ يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيراً )

آپ كہہ ديجئے كہ اگر انسان اور جناب سب اس بات پر متفق ہوجائيں كہ اس قرآن كا مثل لے آئيں تو بھى نہيں لاسكتے چاہے سب ايك دوسرے كے مددگار اور پشت پناہ ہى كيوں نہ ہوجائيں (۸۸)

۱_قرآن كى مثل لانے سے جن وانس كى عاجزى كا اعلان كرنے كا پيغمبر (ص) كى ذمہ داري_

قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله

۲_ تمام مخاطبين قرآن كو (جن وانس) قرآن كے اعجاز كو آزمانے كى دعوت _

قل لئن اجتمعت الإنس والجن على أن يا توا بمثل

۳_قرآن ايسے حقائق' تعليمات اور معارف پر مشتمل ہے كہ جن پر جن و انس وحى كے بغير كبھى بھى دسترس حاصل نہيں كر سكتے_قل لئن اجتمعت الإنس والجن على أن يا توا بمثل هذالقرآن لايا تون ظهيرا

انسانوں اور جنوں كى قرآن كى مثل لانے سے عاجزى مطلق ہے يعنى اس كى تعليمات اور معارف كو بھى شامل ہے_

۲۴۳

۴_انسانى اور جنى طاقتيں ايك دوسرے كى پشت پناہى اور مدد كرنے كے باوجود بھى قرآن كى مثل لانے سے عاجز ہيں _

قل لئن اجتمعت ولو كان بعضهم لبعض ظهيرا

۵_قرآن ،اللہ كا ايسا جاودانى معجزہ ہے جو ہميشہ بے مثل كتاب رہا اور ابد تك بے مثل رہے گا_

قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله ولو كان بعضهم لبعض ظهيرا

يہ جو آيت تصريح كر رہى ہے كہ كوئي جن وانس قرآن كى مثل لانے كى طاقت نہيں ركھتا اس سے معلوم ہوتا ہے كہ قرآن ہميشہ بے مثل كتاب كى مانندرہے گا_

۶_ قرآن جيسى بے مثل كتاب كا پيغمبر (ص) كو عطا ہونا ان پر الله تعالى كے عظےم فضل كى نشانى ہے_

أن فضله كان عليك كبيراً _ قل لئن اجتمعت لايا تون بمثله

۷_چيلنج او رمقابلہ كى دعوت كے سلسلہ ميں قرآن مجيد كى فتح اس كى بلاشبہ حقانيت كا اعلان ہے _

قل جاء الحق قل لئن اجتمعت الإنس والجن لا يا تون بمثله

۸_انسان كا قرآن كى مثل لانے سے عاجز ہونا، اس كى الله كے مدّ مقابل كم علمى اور كم طاقت ركھنے پر دلالت كرتا ہے_

وما أوتيتم من العلم إلّا قليلاً قل لئن اجتمعت لايا تون بمثله

۹_جن، انسان كى مانند باشعور موجود ہے_قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ على يا توا بمثهل

انسان و جن كے مابين، ارتباط اتفاق نظر اور تعاون ممكن ہے_يہ جو الله تعالى نے فرمايا: اگر جن اور انسان ايك دوسرے كا ہاتھ پكڑليں تو بھى قرآن كى مثل نہيں لاسكتے _ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ انسان اور جن كے درميان رابطہ اور تعاون كا امكان ہے ورنہ يہ چيلنج لغو ہوتا_

۱۱_قرآن كااعجاز تمام جہات اور ابعاد ( لفظي، معنوى ' معرفت وغيرہ كے حوالے سے ...) تھا لہذا يہ چيلنج بھى ان تمام ابعاد ميں ہے_قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله

۲۴۴

پورى تاريخ ميں جن وانس كو مخاطب كرنا بتا رہا ہے كہ صرف عرب لوگ اس چيلنج كے مخاطبين نہيں تھے ورنہ يہ چيلنج قرآن كے لفظى اور ادبى بعد ميں ہى رہتا_

۱۲_پيغمبر (ص) كے زمانے كے بعض لوگوں كا قرآن كے بارے ميں يہ عقيدہ كہ وہ سرچشمہ وحى سے نہيں ہے اور خود ساختہ ہے_قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله

يہ جو قرآن مكمل قاطعيت سے چيلنج كر رہا ہے ہو سكتا ہے اس شبھہ كے جواب ميں ہو كہ قرآن وحى نہيں ہے_

۱۳_قرآن كى مثل كتاب لانے كا ناممكن ہونا خود ہى اس كے الہى ہونے اور بشرى نہ ہونے سے ہے _

قل لئن اجتمعت الإنس والجنّ لايا تون بمثله

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) پر فضل كى نشانياں ۶;آنحضرت (ص) پر قرآن كا نزول ۶;آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ۱

الله تعالى :الله تعالى كے فضل كى نشانياں ۶

انسان:انسانوں كا عاجز ہونا ۱، ۳، ۴، ۸;انسانوں كو دعوت ۲;انسانوں كے علم كے محدود ہونے كى نشانياں ۸

جن :جن سے روابط ۱۰;جن كا شعور ۹;جن كا عجز ۱، ۳ ، ۴;جن كو دعوت ۲;جن كے ساتھ تعاون ۱۰

قرآن:قرآن پر افتراء ۱۲;قرآن كا اعجاز ۲;قرآن كا چيلنج ۲;قرآن كا وحى سے ہونا ۳; قرآن كى اہميت ۶;قرآن كى جاودانگى ۵;قرآن كى حقانيت كى نشانياں ۷;قرآن كى خصوصيات ۳;قرآن كى مثل بنانا ۱، ۴، ۸، ۱۳;قرآن كے اعجاز كے ابعاد ۱۱;قرآن كے بے نظير ہونا ۳، ۵،۱۳;قرآن كے چيلنج كے آثار ۷; قران كے چيلنج كے ابعاد ۱۱; قرآن كے وحى سے ہونے كے دلائل ۱۳

لوگ:بعثت كے زمانے كے لوگوں كا افتراء ۱۲;بعثت كے زمانے كے لوگوں كا عقيدہ ۱۲

موجودات:باشعور موجودات ۹

۲۴۵

آیت ۸۹

( وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِي هَـذَا القرآن مِن كُلِّ مَثَلٍ فَأَبَى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلاَّ كُفُوراً )

اور ہم نے اس قرآن ميں سارى مثاليں الٹ پلٹ كر بيان كردى ہيں ليكن اس كے بعد پھر اكثر لوگوں نے كفر كے علاوہ ہر بات سے انكار كرديا ہے (۸۹)

۱_مختلف مثالوں اور بيانات سے قرآن ميں الہى حقائق كى وضاحت _ولقد صرّفنا للناس فى هذا القرآن من كلّ مثل

۲_حقائق اور مفاہيم كى تشريح كے لئے قرآن كے مختلف بيانات اور متنوع انداز ،اس كے ابعاد اعجاز كا ايك جلوہ ہے_

لايا تون بمثله ولقد صرّفنا للناس فى هذا القرآن من كلّ مثل

۳_قرآن كے مختلف بيانات اور مثاليں ، لوگوں كى فہم اور ان كى ہدايت كے لحاظ سے مناسب ہيں _

ولقد صرّفنا للناس فى هذا القرآن من كلّ مثل

''تصريف'' كا لغت ميں معنى ايك چيز كو مختلف جہات سے پھيرنا ہے اور ''تصريف كلام'' سے مراد اس كو مختلف معانى ميں لانا ہے يہ جو قرآن كتاب ہدايت ہے اور وہ فرماتا ہے ہم نے قرآن ميں معانى كو مختلف جہات سے بيان كيا_اس سے معلوم ہوا كہ ان جہات كى رعايت ہوسكتا ہے مندرجہ بالا نكتہ كى بناء پر ہو _

۴_لوگوں كے لئے حقائق كى وضاحت اور ان كى تشريح كے لئے ضرورى تھا كہ مختلف انداز اور بيانات سے فائدہ اٹھايا جائے_ولقد صرفنا للناس فى هذا القرآن من كل مثل

۵_تمام انسان، مخاطب قرآن ہيں نہ كہ كوئي خاص گروہ_ولقد صرفنا للناس فى هذا القرآن

۶_اكثر لوگوں كا قرآن سے منہ پھيرنا سوائے حق سے دورى كے علاوہ اور كچھ نہيں تھے_

ولقد صرفنا فا بى أكثر الناس الاّ كفورا

۷_قرآن سے منہ پھيرنے كى وجہ اس كا ناقابل فہم ہونا يا اس كے مضامين نہيں ہيں بلكہ اس كى وجہ حق سے

۲۴۶

دورى اختيار كرنا ہے_ولقد صرفنا للناس فى هذا القرآن من كل مثل فا بى أكثر الناس الاّ كفورا

۸_قرآن كى حقانيت اور اس كے بے مثل پر دليل ہونے كے باوجود اس كا انكار ايك بہت بڑى اور ناقابل قبول ناشكرى ہے_ولقد صرفنا للناس فى هذا القرآن من كل مثل فا بى أكثر الناس إلّا كفورا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''كفور'' سے مراد نعمت كى نا شكرى ہو_

اكثريت:اكثريت كا حق قبول نہ كرنا ۶

حق:حق قبول نہ كرنے كے آثار ۷

حقائق :حقائق كى وضاحت كا انداز ۱، ۴;حقائق كى وضاحت كا متنوع ہونا ۴

قرآن:اكثر لوگوں كا قرآن سے منہ پھيرنا ۶;قرآن سے منہ پھيرنے كا فلسفہ ۷;قرآن كا انداز بيان ۱، ۲; قرآن كا سارے جہان كے ہونا ۵ ; قرآن كا ہدايت دينا ۳;قرآنى تعليمات كى خصوصيات ۱، ۲;قرآن كى تكذيب ۸; قرآن كى فہم ميں سہولت ۳;قرآن كى مثالوں كا فلسفہ ۱، ۳;قرآن كے اعجاز كى نشانياں ۲; قرآن كے بيان كا متنوع ہونا ۲، ۳;قرآن كے مخاطب ۵

ناشكري:نعمت كى ناشكرى ۸

آیت ۹۰

( وَقَالُواْ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الأَرْضِ يَنبُوعاً )

اور ان لوگوں نے كہنا شروع كرديا كہ ہم تم پر ايمان نہ لائيں گے جب تك ہمارے لئے زمين سے چشمہ نہ جارى كردو (۹۰)

۱_مشركين كى طرف سے پيغمبر (ص) پر ايمان لانے سے پہلے مكہ ميں مشركين كے ليے ايك پر جوش پانى كے چشمہ كو ظاہر كرنے كى شرط_وقالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا من الأرض ينبوعا

۲_مكہ ميں مشركين كے لئے چشمہ جارى كرنے كا تقاضا ان كا پيغمبر (ص) سے طلب كردہ ايك معجزہ تھا _و قالوا لن نومن لك حتّى تفجرلنا من الأرض ينبوعا

۳_مشركين مكہ معجزہ طلب كرنے كے ذريعہ اپنے فوائد حاصل كرنے اور بہانوں كى تلاش ميں تھے نہ كہ وہ پيغمبر (ص) كى حقانيت كشف كرنا چاہتے تھے

۲۴۷

_ولقد صرّفنا للناس فى هذالقرآن من كل مثل فا بى أكثر الناس الاّ كفوراً_ وقالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا الأرض ينبوعا چونكہ مشركين، پيغمبراكرم (ص) كى حقانيت كو جاننے كے لئے مختلف راہوں كو نظر انداز كرچكے تھے اور انہوں نے اپنے ايمان كو ايسى چند محدود سى باتوں كے ساتھ مشروط كيا كہ جن سے اكثران كے مادى فائدے پورے ہوتے تھے _ اس سے مذكورہ بالا مطلب سامنے آتا ہے_

۴_مشركين نے الله تعالى كى طرح طرح كى نشانياں ديكھنے كے باوجود پيغمبر اكرم (ص) سے معجزہ كى درخواست كي_

ولقد صرّفنا من كلّ مثل فابى وقالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا من الأرض ينبوعا

۵_مكہ كے مشركين، قرآن كے بے مثل ہونے كے باوجود اسے معجزہ نہيں مانتے تھے _قل لئن اجتمعت الإنس و الجن وقالوا لن نو من لك

يہ جو الله تعالى قرآن كے بے مثل معجزہ ہونے كى توصيف كرنے كے بعد مشركين كے طلب كردہ جيسى معجزہ كى درخواست نقل كر رہا ہے _ مذكورہ بالا نكتہ كى طرف اشارہ ہو سكتا ہے _

۶_پيغمبر (ص) كى بعثت كے آغاز ميں مكہ ميں پانى كى كمى تھى اور اہل مكہ پانى كے دائمى منابع كے محتاج تھے_

تفجر لنا من الأرض ينبوعا

مشركين كى پيغمبر اكرم -(ص) سے چشمہ جارى كرنے كى درخواست ممكن ہے ان كى پانى كے منابع كى شديد ضرورت كے پيش نظر ہو_

۷_انسان كى اجتماعى اور مادى ضروريات، اس كى آراء و نظريات يہاں تك كہ فكرى و معنوى مسائل پر بھى اثر انداز ہوتى ہيں _وقالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا من الأرض ينبوعا

يہ احتمال كہ مشركين نے منبع آب كى شديد ضرورت كے پيش نظر پيغمبراكرم(ص) سے جارى چشمہ كو بعنوان معجزہ طلب كيا ہو اس مندرجہ بالا مطلب سامنے آتا ہے_

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) سے پانى كے چشمہ كى درخواست ۱، ۲

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵

ضرورتيں :مادى ضرورتوں كے آثار ۷;پانى كى ضرورت ۶

عقيدہ :عقيدہ ميں مو ثر اسباب ۷

۲۴۸

فكر:فكر كى اساس ۷

قرآن :قرآن كا اعجاز ۵;قرآن كا بے نظير ہونا ۵

مشركين مكہ :مشركين مكہ اور قرآن ۵;مشركين مكہ كا حسى چيزوں كى طرف پر اعتقاد۴;مشركين مكہ كا نفع پسند ہونا۳;مشركين مكہ كا ہٹ دھرم ہونا ۴;مشركين مكہ كى درخواستيں ۱، ۲، ۴;مشركين مكہ كي

فكر۵;مشركين مكہ كے ايمان كى شرائط ۱;مشركين مكہ كے بہانے بنانا۳

معجزہ :معجزہ اقتراحى (خود طلب كيا ہوا ) ۱، ۲،۴

معجزہ حسى كى درخواست: ۴

مكہ:اہل مكہ كى ضروريات ۶; مكہ كا جغرافيائي مقام ۶;مكہ كى تاريخ ۶;مكہ ميں پانى كا كم ہونا ۶

آیت ۹۱

( أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الأَنْهَارَ خِلالَهَا تَفْجِيراً )

يا تمھارے پاس كھجنور اور انگور كے باغ ہوں جن كے درميان تم نہريں جارى كردو (۹۱)

۱_مشركين كى پيغمبر اكرم(ص) پر ايمان لانے كے ليے ايك شرط يہ تھى كہ پيغمبراكرم(ص) كے پاس كھجور اور انگور كے درختوں كا ايسا بڑا باغ ہو جس كے درميان بہت سى پانى كى نہريں جارى ہوں _

وقالوا لن نو من لك حتّى أو تكون لك جنة من نخيل وعنبا

۲_مادى قدرت اور دنياوى وسايل سے سرشار ہونا مشركين مكہ كى نظر ميں پيغمبرى اور رہبرى كا معيار تھا_

وقالوا لن نو من لك حتّى أو تكون لك جنة من نخيل وعنبا

مندرجہ بالا مطلب اس احتمال كى بناء پر ہے كہ مشركين مكہ چاہتے تھے كہ آپ (ص) واقعاً مال ثروت اور باغ كے حامل ہوں نہ كہ معجزہ اقتراحى ان كى خواہش تھى _

۳_مشركين مكہ نے الله كى مختلف آيات كا مشاہدہ كرنے كے باوجود پيغمبر(ص) سے حسى معجزہ كى درخواست كي_

ولقد صرّفنا من كلّ مثل فا بى وقالوا

۲۴۹

لن نومن لك حتّى تكون لك جنة من نخيل وعنبا

يہ نكتہ اس آيت ميں اس احتمال كے ساتھ پيدا ہوگا كہ وہ اس قسم كے باغ كو معجزہ كے وسيلہ سے چاہتے تھے_

۴_كھجور اور انگور كا جارى نہروں كے ساتھ بڑا باغ مشركين مكہ كى جانب سے آنحضرت (ص) سے معجزہ اقتراحى (طلب كردہ) تھا_لن نو من لك حتّى تكون لك جنة من نخيل وعنبا

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) سے باغ كى درخواست ۱، ۴;آنحضرت (ص) سے نخلستان كى درخواست ۱، ۴

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۳، ۴

انبياء :انبياء كا مالدار ہونا ۲

رہبر:رہبروں كا مالدار ہونا ۲

رہبري:رہبرى كا معيار ۲

مشركين مكہ:مشركين كا عقيدہ ۲;مشركين مكہ كى ہٹ دھرمى ۳;مشركين مكہ كى خواہشات ۳، ۴;مشركين مكہ كے ايمان كى شرائط ۱

معجزہ:معجزہ اقتراحى ۱،۳ ،۴;معجزہ حسى كى درخواست ۳

نبوت:نبوت كا معيار ۲

آیت ۹۲

( أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاء كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفاً أَوْ تَأْتِيَ بِاللّهِ وَالْمَلآئِكَةِ قَبِيلاً )

يا ہمارے اوپر اپنے خيال كے مطابق آسمان كو ٹكڑے ٹكڑے كركے گرادو يا اللہ اور ملائكہ كو ہمارے سامنے لاكر كھڑا كردو (۹۲)

۱_آسمان سے ٹكڑے نازل كروانا،معجزات اقترا حى اور مشركين مكہ كى پيغمبر (ص) سے درخواستوں ميں سے ايك ہے_

اوتسقط السماء علينا كسفا

''كسَف'' كسف كى جمع ہے كہ جس سے مرادٹكڑا ہے_ (لسان العرب)

۲_آسمان سے ٹكروں كا نازل ہونا، مشركين مكہ كى آنحضرت (ص) پر ايمان لانے سے پہلے شرط تھي_

وقالوا لن نومن لك او تسقط السماء كما زعمت علينا كسفا

۲۵۰

۳_پيغمبر (ص) كا مشركين مكہ كو عذاب نازل ہونے پر آسمان سے ٹكڑوں كے گرنے كے امكان سے خبردار كرنا _

او تسقط السماء كما زعمت علينا كسفا

۴_مشركين مكہ كا ان پر آسمان سے ستاروں اور ٹكڑوں كے گرنے كے ساتھ عذاب كے نزول پر يقين نہ كرنا _

او تسقط السماء كما زعمت علينا كسفا

''الزعم'' سے مراد ايسى بات كى حكايت تھى كہ جہاں جھوٹ كا گمان ہو _(مفردات راغب)

۵_مشركين مكہ كى آنحضرت (ص) اور ان كى برحق تعليمات كے مدمقابل ھٹ دھرى _

لن نو من لك حتّى تسقط السماء كما زعمت علينا كسفا

۶_مشركين مكہ پيغمبر (ص) كى حقانيت پر گواہى كے لئے الله اور ملائكہ كو اپنے آمنے سامنے ديكھنا چاہتے تھے_

اوتا تى باللّه والملئكةقبيلا

''قبيلاً'' سے مراد مقابلہ (آمنے سامنے) ہے _ اس آيت ميں يہ ممكن ہے مندرجہ بالا مطلب كو بيان كرے _

۷_مشركين مكہ نے پيغمبر (ص) پر اپنے ايمان كو الله تعالى اور ملائكہ كو قابل مشاہدہ حالت ميں لانے پر مشروط كرديا _

قالوا لن نومن لك حتّى اوتا تى باللّه والملائكة قبيلا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''قبيلاً'' سے مراد آمنے سامنے مشاہدہ ہو_

۸_الله تعالى اور ملائكہ كو گروہ گروہ كى شكل ميں مشركين مكہ كے پاس لاياجانا، ان كى آنحضرت (ص) سے درخواست (اقتراحي) تھي_لن نومن لك حتّى اوتا تى باللّه والملائكة قبيلا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے ''قبيلاً'' قبيلہ كى جمع ہو_

۹_مشركين مكہ كا الله تعالى اور ملائكہ كے بارے ميں مادى اور جسمانى تصور _تا تى باللّه والملائكة قبيلا

''قبيلاً'' سے مراد آمنے سامنے اور مشاہدہ ہے اس ليے اس كا استفادہ ہوتا ہے نكتہ_

۱۰_مشركين مكہ كا اپنے عقائد اور نظريہ كائنات ميں صرف محسوسات اور حسى چيزوں پر اعتماد كرنا_

تا تى باللّه والملائكة قبيلا

آسمان :آسمان كے گرنے كى درخواست ۱، ۲

آنحضرت (ص) :

۲۵۱

آنحضرت (ص) كى حقانيت پر گواہى ۶; آنحضرت (ص) كے ڈراوے ۳;آنحضرت (ص) كے دشمن ۵

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۵، ۶، ۷، ۸

الله تعالى :الله تعالى كى گواہى كى درخواست ۶;اللہ كے ديكھنے كى درخواست ۷;اللہ تعالى كے سامنے آنے كى درخواست ۶، ۷، ۸

ڈراوے:عذاب سے ڈراوا ۳

عذاب:عذاب پر يقين نہ ہونا ۴;آسمان كے گرنے كے ساتھ عذاب ۳

مشركين مكہ :مشركين مكہ اور آنحضرت (ص) ۵;مشركين مكہ كا ايمان نہ لانا ۴;مشركين مكہ كا حسى چيزوں پر يقين ميلان۱۰;مشركين مكہ كا عقيدہ ۱۰ ; مشركين مكہ كا عادى چيزوں پر اعتقاد ۹; مشركين مكہ كى خواہشات ۱، ۶، ۷;مشركين مكہ كى فكر۹;مشركين مكہ كو ڈراوے ۳; مشركين مكہ كى ہٹ دھرمى ۵;مشركين مكہ كے ايمان كى شرائط ۲، ۷

معجزہ:معجزہ اقتراحى ۱، ۶، ۸

ملائكہ:ملائكہ كى گواہى كى درخواست ۶;ملائكہ كو ديكھنے كى درخواست ۷;ملائكہ كو سامنے لانے كى درخواست ۶، ۷، ۸

آیت ۹۳

( أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِّن زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَى فِي السَّمَاء وَلَن نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَاباً نَّقْرَؤُهُ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إَلاَّ بَشَراً رَّسُولاً )

يا تمھارے پاس سونے كا كوئي مكان ہو يا تم آسمان كى بلندى پر چڑھ جاؤ اور اس بلندى پر بھى ہم ايمان نہ لائيں گے جب تك كوئي ايسى كتاب نازل نہ كردو جسے ہم پڑھ ليں آپ كہہ ديجئے كہ ہمارا پروردگار بڑا بے نياز ہے اور ميں صرف ايك بشر ہوں جسے رسول بناكر بھيجا گيا ہے (۹۳)

۱_اپنے ليے سونے كا گھربنانا مشركين مكہ كى پيغمبر (ص) سے درخواست (معجزہ اقتراحي) _

۲۵۲

ا ويكون لك بيت من زخرف

پچھلى آيات كے سياق وسباق سے معلوم ہوتا ہے كہ جہاں معجزات كى درخواست كى گئي تھي_ يہاں بھى ''اويكون لك بيت من زخرف'' سے مراد سونے كا گھر معجزہ كے ذريعے بنانا ہے_

۲_مشركين مكہ نے آنحضرت (ص) پر اپنے ايمان كو سونے سے بنے گھر كے معجزہ سے مشروط كرديا _

قالوا لن نو من لك حتّى أو يكون لك بيت من زخرف

۳_مشركين مكہ قران كے بلند مفاہيم سے غافل تھے اور دنيا كے مال پر آنكھيں لگائے ہوئے تھے_

ولقد صرّفنا فى هذالقرآن من كل مثل فا بى وقالوا لن نو من لك حتّى أو يكون لك بيت من زخرف

۴_مشركين مكہ نے الله تعالى كى مختلف نشانيوں كا مشاہدہ كرنے كے باوجود پيغمبر (ص) سے معجزہ حسى كى درخواست كي_

ولقد صرّفنا من كل مثل فا بى وقالوا لن نومن لك حتّى يكون لك بيت من زخرف أو ترقى فى السماء تنزل علينا كتاباً نقرؤه

۵_پيغمبر (ص) كا آسمان كى طرف اوپر جانا اور وہاں سے پڑھنے كے لائق لكھى ہوئي چيز اور اپنے اوپر جانے كى گواہى لانا مشركين مكہ كا پيغمبر (ص) سے طلب كردہ معجزہ _او ترقى فى السماء ولن نومن لرقيك حتّى تنزل علينا كتاباً نقرؤه

۶_پيغمبر (ص) كا آسمان كى طرف اوپر جانا اور وہاں سے اپنى حقانيت پر خط لانا' مشركين مكہ كى آنحضرت (ص) پر ايمان لانے كى شرط تھي_قالوا لن نو من لك حتّى ...او ترقى فى السماء ولن نومن لرقيك حتّى تنزل علينا كتاباً نقرؤه

۷_الله تعالى كے معجزات كے وجود ميں لانے كے اصلى ارادہ سے مشركين مكہ كى غفلت _

تفجرلنا تسقط السمائ تأتى بالله تنزل علينا كتباً نقرؤه

يہ كہ مشركين مكہ كى آنحضرت (ص) سے درخواست كہ تمام معجزات ،حتى كہ الله كا آنا مندرجہ بالا نكتہ كو واضح كر رہا ہے_

۸_الله تعالى كى آيات اور معجزات كى شناخت ميں مشركين مكہ كا صرف مادى اور حسى معياروں پر اعتماد كرنا _

حتى تفجرلنا حتّى تنزل علينا كتباً نقرؤه

۹_مشركين مكہ، قرآن اور آنحضرت (ص) كى رسالت كے آسمانى ہونے پر عقيدہ نہ ركھتے تھے_

او ترقى فى السماء ولن نومن لرقيك حتّى تنزل علينا كتاباً نقرؤه

يہ كہ وہ پيغمبر (ص) سے ايسے خط اور كتاب كو مانگ رہے تھے كہ جو وہ خود آسمان سے لے كر آئيں _ اس سے واضح ہورہاہے كہ قرآن جو كہ آنحضرت (ص) پر وحى كى صورت ميں نازل ہوا وہ اسے قبول نہيں كرتے تھے_

۲۵۳

۱۰_ پيغمبر (ص) پر مشركين مكہ كے بے جا طلب كردہ معجزات كا جواب دينے اور ان كى ايسى طلب كے پورا كرنے پر الله تعالى كے منزّہ ہونے كو بيان_قالوا لن نو من لك حتّى تفجرلنا ...قل سبحان ربي

۱۱_الله تعالى ، بہانوں كى تلاش ميں پڑے ہوئے لوگوں كى فضول خواہشات كے مطابق اپنے معجزات دينے سے منزہ ہے_

تفجرلنا من الأرض ينبوعاً قل سبحان ربي

مشركين مكہ كى اپنے ميلان كے مطابق پيغمبر اكرم (ص) سے معجزات كى متعدد درخواستوں كے مد مقابل الله تعالى فرما رہا ہے ''ميرا رب منزہ ہے'' اس جواب كا ممكن ہے يہ معنى ہو كہ الله تعالى اسے لوگوں كے ميلان كے مطابق معجزات عطا نہيں كرتا _

۱۲_الله تعالى كسى جگہ محصور ہونے' جسم ركھنے' ديكھے جانے اور دوسرے ايسے مادى اوصاف سے منزہ ہے_اوتاتى بالله قل سبحان ربي چونكہ مشركين كى پيغمبر (ص) سے درخواست :''تا تى باللہ '' الله تعالى كى جسمانيت ' ايك جگہ سے دوسرى جگہ آنا، اور ديكھے جانے كى موجب تھى تو جملہ ''سبحان ربي'' ہوسكتا ہے ايسى غير منطقى درخواست كا جواب ہو_

۱۳_معجزات كا پيش كرنا اور ان كى نوعيت واضح كرنا صرف الله تعالى كا كام ہے نہ كہ انبياء كا_تفجر لنا من الأرض ينبوعاً قل سبحان ربى هل كنت الاّ بشراً رسول يہ كہ مشركين، پيغمبر (ص) سے معجزات لانے كى درخواست كر رہے تھے اور انہوں نے ان كے جواب ميں فرمايا :''هل كنت الاّ بشراً رسولاً'' اس سے معلوم ہواكہ معجزہ كا سرچشمہ، فقط الله تعالى ہے_ پيغمبر-(ص) كا اس سلسلے ميں كوئي كردار نہيں _

۱۴_پيغمبر(ع) دوسرے انسانوں كى مانند ايك انسان ہے اور اس كى خصوصيت اور امتياز صرف اس كى رسالت اور پيغمبرى ہے_قل سبحان ربى هل كنت الاّ بشراً رسولا

۱۵_پيغمبر(ص) اپنى محدود ذمہ دارى كے اعلان اور مشركين كے طلب كردہ معجزات كو پيش كرنے سے اپنى عاجزى بيان كرنے كے ذمہ دار ہيں _قالوا قل هل كنت الاّ بشراً رسولا

مشركين كى درخواستوں كے مد مقابل ''ہل كنت '' كا جواب ہوسكتا ہے يہ بيان كر رہا ہو كہ ان كى درخواست كا پيغمبر كى رسالت اور ذمہ داريوں سے كوئي ربط نہيں ہے يا يہ اس كى طاقت ميں نہيں ہے_آسمانى خط :آسمانى خط كى درخواست ۵، ۶

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ۱۵; آنحضرت كى ذمہ دارى كا محدود ہونا ۱۵آنحضرت (ص) كى رسالت ۱۰;

۲۵۴

آنحضرت (ص) كى نبوت كو جھٹلانے والے ۹; آنحضرت (ص) كے فضائل۱۴; آنحضرت (ص) كى خصوصيات ۱۴;آنحضرت(ص) كابشر ہونا ۱۴; آنحضرت سے آسمان كى طرف جانے كى درخواست ۵، ۶

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۲، ۴، ۵، ۶

اسما ء وصفات:صفات جلال ۱۲

الله تعالى :الله تعالى اور جسمانيت ۱۲; الله تعالى اور مكان ۱۲;اللہ تعالى كى تنزيہ ۱۰ ، ۱۱ ، ۱۲;اللہ تعالى كے اختيارات ۱۳;اللہ تعالى كے ارادہ كے آثار ۷;اللہ تعالى كے ديكھنے كا ردّ۱۲;اللہ تعالى كے مختصات ۱۳

انبياء :انبياء كى ذمہ دارى كا محدود ہونا ۱۳

قرآن :قرآن كا وحى ہونا ۹;قرآن كے جھٹلانے والے ۹

گھر:سونے كے گھر كى درخواست ۱، ۲

مشركين مكہ:مشركين مكہ اور الله تعالى كى آيات ۸;مشركين مكہ اور قرآن۳;مشركين مكہ اور معجزہ ۸; مشركين مكہ كا مادى چيزوں پر اعتقاد ۸; مشركين مكہ كا محسوس چيزوں پر اعتقاد۴، ۸; مشركين مكہ كى بے ايماني۹;مشركين مكہ كى دنيا طلبى ۳; مشركين مكہ كى غفلت ۳، ۷;مشركين مكہ كى ہٹ دھرمى ۴; مشركين مكہ كے ايمان كى شرائط ۲، ۶ ; مشركين مكہ كے تقاضے درخواستيں ۱، ۴، ۵، ۱۰، ۱۵

معجزہ:حسى معجزہ كى درخواست ۴;معجزہ اقتراحى ۱، ۴، ۵، ۱۵;معجزہ اقتراحى كا رد ہونا ۱۰;معجزہ كا سرچشمہ ۷، ۱۱ ، ۱۳، ۱۵

آیت ۹۴

( وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَن يُؤْمِنُواْ إِذْ جَاءهُمُ الْهُدَى إِلاَّ أَن قَالُواْ أَبَعَثَ اللّهُ بَشَراً رَّسُولاً )

اور ہدايت كے آجانے كے بعد لوگوں كے لئے ايمان لانے سے كوئي شے مانع نہيں ہوئي مگر يہ كہ كہنے لگے كہ كيا خدا نے كسى بشر كو رسول بنا كر بھيج ديا ہے (۹۴)

۱_مشركين مكہ، نبوت كے لئے نوع بشر كے انتخاب كے منكرتھے اور اسے ناممكن اور محال سمجھتے تھے _

وما منع الناس الاّ أن قالوا ا بعث اللّه بشراً رسولا

''الناس'' ميں الف لام عہدى ہے اور گذشتہ آيات كى طرف توجہ كرتے ہوئے ا س سے مراد، مشركين مكہ ہيں _

۲_الله كے رسولوں كا بشر ہونا، بہانے باز مخالفين يعنى كفار و مشركين كے ايمان نہ لانے كا عمدہ بہانہ تھا_

۲۵۵

وقالوا لن نؤمن لك حتّى الاّ أن قالوا ا بعث الله بشراً رسولا

۳_مشركين مكہ كے پاس آنحضرت (ص) پر ايمان نہ لانے كا ايك ہى بہانہ، آپ (ص) كا بشر ہونا تھا_

قالوا أبعث الله بشراً رسولا

۴_زمانہ بعثت كے كفار اور مشركين كے پاس الله كے رسولوں كو پہچاننے كے لئے غلط معيار تھے_

قالوا ا بعث الله بشراً رسولا

۵_پہلے سے ہى غلط معياروں پر كئے گئے فيصلے، انبياء كى صحيح تعليمات كو سمجھنے سے مانع تھے_

ومامنع الناس أن يؤمنوا إذ جاء هم الهدى بشراً رسولا

۶_ انبياء الہى كا پيغام سراسر ہدايت اور راہنمائي ہے_وما منع الناس أن يؤمنوا إذجاء هم الهدى بشراً رسول

۷_مشركين كا عقيدہ تھا كہ مقام رسالت ،بشر كى شان سے بہت بلند ہے_قالوا ا بعث الله بشراً رسولا

۸_انبياء كا تمام لوگوں كى مانند ہونا ان كى قدرو قيمت اور خصوصى صلاحيتوں كى شناخت سے مانع تھا_

ومامنع الناس الاّ ان قالوا ا بعث الله بشراً رسولا

يہ كہ مشركين، بشر كى نبوت كو محال چيز سمجھتے تھے شايد اس لئے ہو كہ وہ پيغمبروں كو اپنے جيسے افراد سمجھتے تھے_ اورانہيں اپنے جيسا ضعيف اور كمزور سمجھتے تھے_

۹_الله كے وجود اور رسالت كى ضرورت كى حقيقت حتّى كہ مشركين كے افكار ميں بھى تسليم شدہ تھى _

ا بعث الله بشراً رسول يہ كہ مشركين اصل رسالت كے انكار كے بجائے بشر كى نبوت كو بعيد شمار كرتے تھے اس سے معلوم ہوا كہ خود رسالت ونبوت جيسى حقيقت ان كى نظر ميں يقينى تھي_

۱۰_وعن أبى عبداللّه (ع) :''قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً'' قالوا: إن الجن كانوا فى الأرض قبلنا، فبعث الله إليهم ملكاً، فلو اراد الله ان يبعث إلينا لبعث الله ملكاً من الملائكة وهو قول الله ''ومامنع الناس أن يؤمنوا إذجائهم الهدى إلّا ان قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً_'' (۱) امام صادق (ع) سے روايت ہے كہ: قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً '' وہ(منكرين رسالت محمد (ص) ) كہتے تھے كہ :ہم سے پہلے زمين ميں مخلوق جن موجود تھى الله تعالى نے ان كى طرف ايك فرشتہ

____________________

۱) تفسير عياشى ، ج ۲ ، ص ۳۱۷، ح ۱۶۷ _ نورالثقلين ج ۳، ص ۲۲۷، ح ۴۴۹_

۲۵۶

مبعوث كيا تو اگر الله نے چاہاہے كہ كسى كو ہمارى طرف بھيجے تو فرشتوں ميں سے ايك فرشتہ بھيجے_ يہ الله كا كلام كا معنى ہے كہ فرما رہا ہے:''ومامنع الناس أن يؤمنوا إذجائهم الهدى الاّ أن قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً'' _

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) كا بشر ہونا ۳

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۳

انبياء:انبياء كا بشر ہونا ۲، ۷، ۱۰;انبياء كا ہدايت دينا ۶;انبياء كى تعليمات كى خصوصيات ۶;انبياء كى جنس ۱۰;انبياء كى شناخت سے مانع ۸;انبياء كى صلاحيتيں ۸;انبياء كے بشر ہونے كے آثار ۸;جنّات كے انبياء ۱۰;انبياء كے فضائل ۸;انبياء كے مخالفين كا بہانہ كرنا ۲;انبياء كے مخالفين كے كفر كى دليلےں ۲;انبياء كا كے ساتھ برتاؤ۵

پہلے سے فيصلے:پہلے سے فيصلوں كے آثار ۵

تجزيہ:غلط تجزيہ كے آثار ۵

دين :دينى خطرات كى پہچان ۵

روايت :۱۰

ضرورتيں :انبياء كى ضرورت ۹

كفار:صدر اسلام كے كفار كى پيغمبر(ص) كے بارے ميں شناخت۴;صدر اسلام كے كفار كے غلط معيار ۴كفار كا بہانے تلاش كرنا ۲

مشركين :صدر اسلام كے مشركين كى پيغمبر (ص) كے بارے ميں شناخت ۴;صدر اسلام كے مشركين كے غلط معيار ۴; مشركين اور نبوت ۹;مشركين كا بہانے كرنا ۲; مشركين كا عقيدہ ۷;مشركين كا نظريہ ۹;مشركين كى الله كے بارے ميں شناخت ۹

مشركين مكہ:مشركين مكہ كا بہانے تلاش كرنا ۳;مشركين كا نظريہ ۱;مشركين مكہ كے كفر كے دلائل ۳

نبوت:بشر كى نبوت كو جھٹلانے والے ۱;مقام نبوت كى قدروقيمت ۷

۲۵۷

آیت ۹۵

( قُل لَّوْ كَانَ فِي الأَرْضِ مَلآئِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَاءِ مَلَكاً رَّسُولاً )

تو آپ كہہ ديجئے كہ اگر زمين ميں ملائكہ اطمينان سے ٹہلتے ہوتے تو ہم آسمان سے ملك ہى كو رسول بناكر بھيجتے (۹۵)

۱_پيغمبراكرم(ص) مشركين كے شبھات كا جواب دينے ميں الہى ہدايت پر اعتماد كرتے تھے_

قل لو كان فى الارض

۲_الله تعالى كا انسانوں كى جنس سے ہى ان كى طرف رسول مبعوث كرنے كا طريقہ كار _

قالوا أبعث الله بشراً رسولاً _ قل لو كان لنزلنا عليهم من السماء ملكاً رسولاً_

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ يہ آيت مشركين كے شبھہ كے جواب ميں ہو كہ جو يہ تصور كرتے تھے كہ بشر نبوت كے لائق نہيں ہے_

۳_زمين پر رہنے والے خواہ انسان ہوں يا فرشتے ہم جنس انبياء كے محتاج ہيں _

قل لو كان فى الأرض ملائكة لنزلناعليهم من السماء ملكاً رسولا

۴_مشركين كى نظر ميں صرف ملائكہ ہى رسالت اور نبوت كے لائق تھے_قالوا أبعث الله رسولاً_ قل لو كان فى الأرض ملائكة لنزلنا عليهم من السماء ملكاً رسولا مشركين كے تعجب اور ان كى يہ بات ''أبعث الله بشراً رسولاً'' كے جواب الہى سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ اس انتظار ميں تھے كہ پيغمبر (ص) ملائكہ ميں سے ہو، نہ كہ جنس بشر سے_

۵_زمين پر ھر باشعور موجود مخلوق الہى وحى اور آسمانى ہدايت كى ضرورت مند ہے _

قل لوكان فى الأرض ملائكة يمشون مطمئنين لنزلنا

۶_زمين پر رہنے والوں كے لئے نزول وحى اور پيغام الہى كے لانے ميں فرشتے فقط واسطہ ہيں _

لنزلنا عليهم ملكاً رسولا

مندرجہ بالا مطلب كى بناء يہ ہے كہ ''ملكاًرسولاً'' سے مراد فرشتہ وحى ہو نہ كہ پيغمبر_

۲۵۸

۷_مشركين كا بشر كو رسول بعيد شمار كرنے كى وجہ ،اللہ اور پيغمبروں ميں فرشتوں كے وسيلہ ہونے كى طرف توجہ نہ كرنا ہے_

قل لو كان فى الأرض ملائكة يمشون مطمئنين لنزلنا عليهم من السماء ملكاً رسولا

مندرجہ بالا آيت ممكن ہے كہ مشركين كے جواب ميں ہو كيوں كہ مشركين بشر ميں سے كسى فرد كے جہان كے مالك الله سے رابطہ كو بعيد شمار كرتے تھے_ آيت جواب دے رہى ہے كہ پيغمبر كسى واسطہ كے بغير وحى نہيں ليتے تھے بلكہ اصولى طور پر الله اور زمين پر رہنے والوں كے درميان فرشتہ وحى كا واسطہ ہے_

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) اور مشركين كے اعتراضات ۱; آنحضرت(ص) كى ہدايت ۱

الله تعالى :الله تعالى كى سنتيں ۲;اللہ تعالى كى ہدايتيں ۱

انبياء:انبياء كا بشر ہونا ۲، ۷;انبياء كا ہم جنس سے ہونا ۲، ۳

ضرورتيں :انبياء كى ضرورت ۳;وحى كى ضرورت ۵; ہدايت كى ضرورت ۵

غفلت :ملائكہ كے كردار سے غفلت ۷

مشركين :مشركين كا نظريہ ۴;مشركين كى غفلت كے آثار ۷ ; مشركين كے اعترضات كے جواب كا سرچشمہ ۱

ملائكہ:ملائكہ كا كردار ۶;ملائكہ كى نبوت ۴

موجودات:باشعور موجودات كى معنوى ضروريات ۵ موجودات كى ضروريات ۳

نبوت:نبوت كا معيار ۴;نبوت كى اہميت ۳

وحي:وحى كا واسطہ ۶

آیت ۹۴

( قُلْ كَفَى بِاللّهِ شَهِيداً بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيراً بَصِيراً )

كہہ ديجئے كہ ہمارے اور تمھارے درميان گواہ بننے كے لئے خدا كافى ہے كہ وہى اپنے بندوں كے حالات سے باخبر ہے اور ان كے كيفيات كا ديكھنے والا ہے (۹۶)

۱_مشركين، اس لائق نہيں ہيں كہ الله تعالى ان سے مخاطبهو_قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

مشركين كو پيغام پہنچانے كے لئے پيغمبر(ص) كو مخاطب قرار دينا اگر چہ يہ اعلان بغير ''قل'' كے بھى ممكن ہے اس سے مندرجہ بالا مطلب سامنے آتا ہے_

۲۵۹

۲_پيغمبر (ص) اور مشركين كے درميان الله تعالى كا گواہ اور ناظرہونا كافى ہے _كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

۳_پيغمبر (ص) اپنى رسالت كے منكرين كے مد مقابل الله كى ہدايات پر عمل كرتے تھے_قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

۴_حق كے منكر اور بہانے باز مشركين وكفار كو الله كا خبردار كرنا _

قالوا ا بعث الله بشراً رسولاً _ قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

الله تعالى كا پيغمبر (ص) اور حق كے منكرين و مشركين كے درميان گواہ ہونے كى تنبيہ، كا تذكرہ ممكن ہے ان كو خبردار كرنے كے لئے ہو_

۵_الله تعالى نے مشركين پر حجت تمام كردى ہے اور جو كچھ كہنا تھا وہ كہہ ديا ہے _قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

''كفى باللہ شہيداً'' كى تعبير، مشركين كے شبھات كا جواب دينے كے بعدقول فصل اور اتمام حجت كى جگہ ہے_

۶_بہانے باز اور حق كے منكرين كے ساتھ بحث و گفتگو كے بارے ميں فيصلہ كرنے كى ضرورت ہے_

قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

۷_الله تعالى كا بہانے باز مشركين كے مدمقابل پيغمبر (ص) كو حوصلہ دينا_قل كفى بالله شهيداً بينى وبينكم

يہ آيت جس طرح كہ حق كے دشمن، مشركين كے لئے خبردار ہو پيغمبر (ص) كے لئے ايك قسم كى تسلى اور حوصلہ افزائي بھى ہوسكتى ہے _

۸_الله تعالى ، اپنے بندوں كے امور پر خبير( آگاہ) اور بصير ( نظر ركھنے والا) ہے_إنه كان بعباده خبيراً بصيرا

۹_الله تعالى كى بندوں كے اعمال پر گواہي، اس كے ان كے حالات پر وسيع علم كى بناء پر ہے_

كفى بالله شهيداً بينى وبينكم إنه كان بعباده خبيراً بصيرا

۱۰_الله تعالى كا بندوں پر علمى احاطہ كى طرف توجہ ،ان كے حق كے انكار اور بہانے بازى سے پرہيز كرنے كا پيش خيمہ ہے_

قل كفى بالله شهيداً إنه كان بعباده خبيراً بصيرا

يہ كہ الله تعالى نے مشركين پر حجت تمام كردى ہے اور اس وقت يہ فرمايا : وہ بندوں كے حالات سے آگاہ اور ان پر نظر ركھے ہوئے ہے ' ہوسكتا ہے كہ مندرجہ بالا نكتہ كى طرف اشارہ ہو _

آنحضرت (ص) :آنحضرت (ص) اور مشركين ۲،۳، ;آنحضرت (ص) كو حوصلہ دينا ۷;آنحضرت (ص) كى ہدايت ۳; آنحضرت (ص) كے گواہ ۲

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863

864

865

866

867

868

869

870

871

872

873

874

875

876

877

878

879

880

881

882

883

884

885

886

887

888

889

890

891

892

893

894

895

896

897

898

899

900

901

902

903

904

905

906

907

908

909

910

911

912

913

914

915

916

917

918

919

920

921

922

923

924

925

926

927

928

929

930

931

932

933

934

935

936

937

938

939

940

941

942

943

944

945